دودھ پلائی کے احکام
اگر کوئی عورت ، کسی دوسری عورت کے بچے کو بیان کیے جانے والے شرائط کے ساتھ دودھ پلائے تو اس کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہوجاتا ہے اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آثار بھی اس پر مرتب ہوتے ہیں:
۱ ۔ دودھ پلانے والی عورت ، اس بچے کی ماں بن جاتی ہے اور دودھ کا مالک اس بچے کا باپ بن جاتا ہے۔ ان دونوں کے بھائی اس کے چچا اور مامو بن جاتے ہیں اور ان کی بہنیں اس کی خالہ اور پھوپھی ہوں گی۔ ان دونوں کی اولاد اس کے بہن بھائی بنے گی۔ نیز دودھ پلانے والی عورت اس بچے کی اولاد کے لئے دادی بنے گی اوردودھ کا مالک ان کا دادا بنے گا۔
رضاعی رشتوں کے محرم بننے کے لئے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ حرام کا سبب بننے والے گزشتہ سات نسبی رشتوں میں سے کوئی بھی رشتہ رضاع کے ذریعے وجود میں آجائے تو حرام ہونے کا سبب بنے گا ورنہ نہیں۔ سوائے ایک استثناء کے ، کہ اگر ولادت کے ذریعے یہ رشتہ وجود میں آتا تو گزشت عناوین میں سے ایک کا لازمہ ہوتا مگر رضاع میں ایسا نہیں ہے۔ مثلا اگر کوئی عورت دوبھائیوں میں سے کسی ایک کو دودھ پلائے تو وہ دودھ پینے والے پر اس کی ماں ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائے گی ؛ لیکن دوسرے بھائی پر حرام نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ دودھ پلائی کی وجہ سے اس کے بھائی کی ماں بن گئی ہے ۔ ماں بننے کا یہ عنوان نسبی رشتوں میں بیان کئے گئے عنوان کی طرح نہیں ہے کیونکہ نسب میں دو عنوانات کی وجہ سے ماں حرام ہوجاتی ہے : ا۔ نسبی ماں ہو ؛ ۲ ۔ باپ کی زوجہ ہو۔
۲ ۔ رضیع (دودھ پینے والے بچے) کے باپ پردایہ کی نسبی بیٹیاں حرام ہوجاتی ہیں نہ کہ رضاعی بیٹیاں۔
رضیع پر دودھ کے مالک کی نسبی اور رضاعی بیٹیاں حرام ہوجاتی ہیں۔ یہ دو مسئلے مذکورہ قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ قرار پائے ہیں۔
۳ ۔ رضیع ، صاحب لبن کی تمام اولاد پر حرام ہوگا خواہ ولادت کے لحاظ سے ہوں یا رضاعی ۔ نیز دایہ کی صرف ان اولاد پر حرام ہوگا جو ولادت کے لحاظ سے ہوں نہ کہ رضاعی۔
۴ ۔ رضیع کے باپ کی دوسری اولاد، جنہوں نے اس دایہ کا دودھ نہیں پیا ہے،کی شادی دایہ کی نسبی اولاد اور صاحب لبن کی مطلق اولاد کے ساتھ جائز ہونا فقہاء کے نزدیک اختلافی مسئلہ ہے۔
۵ ۔ رضاعت کی وجہ سے حرام ہونے میں فرق نہیں پڑتا کہ عقد پہلے دودھ پلایا جائے یا عقد کے بعد میں۔ پس اگر کسی کی بیوی بچی ہو اور اس کی بیٹی یا اس کی دوسری بیوی اس بچی کو دودھ پلائے تو وہ بچی اس پر حرام ہوجائے گی کیونکہ وہ اس کی رضاعی بیٹی بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسری مثالیں بھی ہیں۔
دلائل:
۱ ۔ دودھ پلانا نکاح کے حرام ہونے کا سبب بننے کی دلیل: یہ حکم ضروریات دین میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس پر دلالت کر رہا ہے:(
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ...أُمَّهَاتُكُمُ الَّتىِ أَرْضَعْنَكُمْ وَ أَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَة...
)
“تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری وہ مائںٹ جو تمہںں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنںی...”
اس کے علاوہ پیغمبر اکرم ؐ کی یہ حدیث بھی اسی حکم پر دلالت کر رہی ہے:
“يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ
.”“نسب ک ی وجہ سے حرام ہونے والی تمام چیزیں رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتی ہیں۔”
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث بھی اسی حکم پر دلالت کر رہی ہے:
“يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْقَرَابَةِ
.”“قرابت ک ی وجہ سے حرام ہونے والی تمام چیزیں رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتی ہیں۔”
یہ دلیلیں قاعدہ کلیہ کے طور پر ذکر کی گئی ہیں ورنہ اس بارے میں اتنی حدیثیں ہیں جو شمار کی گنجائش سے باہر ہیں۔
۲ ۔ اس بات کی دلیل کہ دایہ، رضیع کی ماں بنتی ہے اور صاحب لبن اس کا باپ...: یہ حکم اس لحاظ سے لگایا جاتا ہے کہ اگرچہ آیت مجیدہ ماؤں اور بہنوں سے متعلق ہے ؛ لیکن روایات کے ذریعے آیت کے عموم کا استفادہ کرنے سے حرام ہونا صرف انہی دونوں کے ساتھ مختص ہونے کا تقاضا نہیں کرتی ، اگرچہ بعض اہل سنت کی طرف اس بات کی نسبت دی گئی ہے۔
۳ ۔ حرام ہونے کا حکم رضاعت کے ذریعے حاصل ہونے والے مذکورہ سات عناوین میں منحصر ہونے اور ان کے لوازم کے لئے ثابت نہ ہونے کی دلیل: یہ حکم پیغمبر اکرم ؐ کی گزشتہ روایت سے اخذ کیا گیا ہے: “يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ
.”
اس حدیث میں ظاہرا صرف وہی عناوین پیش نظر ہیں جن کا حرام ہونا شریعت میں ثابت ہے اور وہ سات ہی ہیں ان کے لوازم اس میں شامل نہیں ہیں۔
بالفرض ہم اس حکم سے دستبراد ہو جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ رضاعی بہن بھائیوں کو اپنے بہن بھائی جیسے قرار دینے والی دلیل کے اجمال کو قبول کرے اور یہ کہا جائے کہ یہ بھی اسی عموم میں شامل ہے تو یہاں پر اصل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے وہ اصل( اور قانون) جو قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے حاصل ہوتی ہے(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
جس طرح مخصص منفصل کے اقل اور اکثر کے درمیان مردد ہونے کی صورت میں اس قانون اور اصل کا یہی تقاضا ہے ، اور دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے۔
دلیل تنزیل سے منزلہ کے عمومیت کے استفادہ ہونے کے بارے محقق میر محمد باقر داماد صاحب کا جونظریہ ہے وہ واضح ہوتا ہے ، انہوں نے اسی بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے اور اپنے اس قول کی نسبت مشہور کی طرف دی ہے ۔
اس بارے میں نظر یہ کے اختلاف کا اثر بہت زیادہ ہے ، یہاں پر مشہور کے قول کے مطابق دودھ پلائی سے جو محرم ہوتے ہیں ایک طرف سے اس کا دائرہ دودھ پینے والے اور اسکے بچے شامل ہیں اور دوسری طرف سے دودھ پلانے والی اور دودھ کا مالک او ان دونوں کی اولاد اور اولاد کی اولاد شامل ہیں ،اور ان کے علاوہ کسی اور کو شامل نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ سات عناوین صرف انہیں میں منحصر ہے ،جب کہ اگر ہم اس نازل منزلہ کو عمومیت بخشیں تو یہ محرم ہونا خود دودھ پینے والے اور دودھ پلانے والی اور دودھ کے مالک کے اصول اور فروع کے علاوہ جو لوگ ان دونوں کے طبقہ میں ہوں ان کوبھی شامل ہوتا ہے ۔
یہاں پر صرف ایک استثناء ہے جو نمبر ۴ اور ۵ کے ذیل میں انشاء اللہ بیان ہو گا۔
۴ ۔ رضیع کے باپ پر دایہ کی بیٹیاں حرام ہونے کی دلیل: اگرچہ قاعدہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ اس کے ساتھ ان لڑکیوں کی نسبت صرف یہ ہے کہ وہ اس کے بیٹے کی بہنیں ہیں۔ اور باب نسب میں بیٹے کی بہن ہونا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو محرمات میں سے ہو۔ باب نسب میں لڑکیاں دو عنوان سے حرام ہوجاتی ہیں : ۱ ۔ بیٹی ہوں، ۲ ۔ ربیبہ ہوں۔
مذکورہ حکم کی دلیل ایوب بن نوح کی روایت صحیحہ ہے:
“كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیه السلام: امْرَأَةٌ أَرْضَعَتْ بَعْضَ وُلْدِي، هَلْ يَجُوزُ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَ بَعْضَ وُلْدِهَا؟ فَكَتَبَ علیه السلام:لَا يَجُوزُ ذَلِكَ لَكَ،لِأَنَّ وُلْدَهَا صَارَتْ بِمَنْزِلَةِ وُلْدِكَ
.”“عل ی بن شعیب نے حضرت ابوالحسن علیہ السلام سے بذریعہ کتابت پوچھا: ایک عورت نے میری بعض اولاد کو دودھ پلایا ہے۔ کیا میں اس کی بعض اولاد کے ساتھ شادی کرسکتا ہوں؟ امام ؑ نے جواب میں لکھا: تیرے لئے یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس کی اولاد تیری اولاد کی مانند ہو گئی ہے۔”
اس کے علاوہ بھی بعض روایات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔
حرمت کے حکم کو صرف دایہ کی نسبی بیٹیوں کے ساتھ مختص کرنے اور رضاعی بیٹیوں کو شامل نہ کرنے کی وجہ ،روایت میں ذکر ہونے والا کلمہ “ولد” ہے ۔ اس کلمے کا ظاہر صرف نسبی اولاد ہیں۔نسبی اولاد کے علاوہ دوسری اولاد کے لحاظ سے اصالۂ حلیت سے تمسک کیا جائے گا جو(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
سے اخذ کیا جاتا ہے:
۵ ۔ رضیع کے باپ پر صاحب لبن کی بیٹیاں حرام ہونے کی دلیل:اس حکم کو فقہاء اس طرح تعبیر کرتے ہیں: رضیع کا باپ ، صاحب لبن کی بیٹیوں سے نکاح نہیں کر سکتا ، خواہ نسبی ہوں یا رضاعی۔ اگرچہ گزشتہ وضاحت کی روشنی میں اس مقام پر بھی قاعدے کا تقاضا حرام نہ ہونا ہے۔ مذکورہ حکم پر علی بن مہزیار کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلَ عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عِيسَى أَبَا جَعْفَرٍ الثَّانِيَ علیه السلام: أَنَّ امْرَأَةً أَرْضَعَتْ لِي صَبِيّاً فَهَلْ يَحِلُّ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَ ابْنَةَ زَوْجِهَا؟ فَقَالَ لِي: مَا أَجْوَدَ مَا سَأَلْتَ، مِنْ هَاهُنَا يُؤْتَى أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، مِنْ قِبَلِ لَبَنِ الْفَحْلِ، هَذَا هُوَ لَبَنُ الْفَحْلِ لَا غَيْرُهُ. فَقُلْتُ لَهُ:الْجَارِيَةُ لَيْسَتْ ابْنَةَ الْمَرْأَةِ الَّتِي أَرْضَعَتْ لِي، هِيَ ابْنَةُ غَيْرِهَا، فَقَالَ: لَوْ كُنَّ عَشْراً مُتَفَرِّقَاتٍ مَا حَلَّ لَكَ شَيْءٌ مِنْهُنَّ، وَ كُنَّ فِي مَوْضِعِ بَنَاتِكَ
.”“ع یسیٰ بن جعفر بن عیسیٰ نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک عورت نے مجھے بچپنے میں دودھ پلایا ہے کیا میں اس کے شوہر کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہوں؟ امام ؑ نے فرمایا: تو نے بہت اچھا سوال کیا۔ اسی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ فحل کے دودھ کی وجہ سے اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ یہی فحل کا دودھ ہی تو ہے۔
میں نے عرض کیا: وہ لڑکی تو مجھے دودھ پلانے والی عورت کی بیٹی نہیں ہے؛ بلکہ کسی اور کی ہے۔ فرمایا: اس طرح کی اور بھی دس ہی کیوں نہ ہو وہ تمہارے اوپر حلال نہیں ہوں گی؛ کیونکہ وہ وہ تمہاری بیٹیوں کی مانند ہیں۔”
یہاں پرصاحب لبن کی رضاعی بیٹیوں کا بھی حکم میں شامل ہونا اس فرض کی بنا پر ہے کہ فحل ایک ہی ہے؛ لہذا “يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.
”کے اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے رضاع، نسب کا قائم مقام بن جائے گا۔چونکہ عل ی ابن مہزیار کی صحیحہ کی وجہ سے نسبی بیٹیاں حرام ہوجاتی ہیں؛ لہذا مذکورہ اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے رضاعی بیٹیاں بھی حرام ہوجائیں گی۔
۶ ۔ صاحب لبن کی نسبی اور رضاعی بیٹیوں پر رضیع کے حرام ہونے کی دلیل: یہ لڑکیاں ، ماں اور باپ دونوں کی طرف سے یا صرف باپ کی طرف سے اس کی بہنیں ہیں۔ اورحرام ہونے والے عناوین میں سے ایک بہن کا عنوان ہے؛ لہذا رضاعی بہنیں بھی حرام ہوجائیں گی ۔
دایہ کی نسبی اولاد کے حرام ہونے کی دلیل: یہ اولاد ماں کی طرف سے اس کے بھائی شمار ہوتی ہیں لہذا حرام ہیں۔
دایہ کی رضاعی اولاد کے حرام نہ ہونے کی دلیل: جیسا کہ بعد میں بیان کیا جائے گا کہ حرام کا سبب بننے کے لئے فحل کا ایک ہونا شرط ہے اور اس مورد میں فحل ، ایک نہیں ہے۔
۷ ۔ رضیع کے باپ کی اولاد کی شادی صاحب لبن کی نسبی اور رضاعی اولاد کے ساتھ کرنے کا حکم: شیخ طوسی ؒ نے “نہایۃ” اور “خلاف” میں اس شادی کے جائز نہ ہونے کو اختیار کیا ہے، اس وضاحت کے ساتھ کہ علی ابن مہزیار کی گزشتہ صحیحہ میں مذکور علت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صاحب لبن کی بیٹیاں رضیع کے باپ کی بیٹیوں کی مانند ہیں۔ نیز ایوب بن نوح کی صحیحہ میں مذکور علت ، یہ بیان کررہی ہے کہ دایہ کی بیٹیاں رضیع کے باپ کی بیٹیوں کی طرح ہیں۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ رضیع کے باپ کی اولاد ، صاحب لبن اور دایہ کی بیٹیوں کے بھائی شمار ہوتی ہیں؛ لہذا ان کے آپس میں شادی کرنا جائز نہیں ہے۔
اس بات پر اشکال ہےکیونکہ مذکورہ دونوں روایتوں میں تنزیل کو صرف رضیع کے باپ ہونے کے لحاظ سے ثابت کیا گیا ہے؛ لہذا اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ رضیع کے باپ کی اولاد صاحب لبن اور دایہ کی بیٹیوں کے بہن بھائی ہوں۔ کیونکہ تعبدی احکام اپنے دائرے سے خارج نہیں ہوں گے ، خصوصا جب کوئی ملازمۂ شرعیہ بھی نہ ہو۔
بنا بر ایں(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
کے عموم سے تمسک کرتے ہوئے جواز کا حکم دینا مناسب ہے۔
۸ ۔ حرام ہونے کے لئے رضاع کے عقد سے پہلے یا بعد میں ہونے میں کچھ فرق نہ ہونے کی دلیل: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے محمد بن مسلم نے یہ روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“لَوْ أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ جَارِيَةً رَضِيعَةً فَأَرْضَعَتْهَا امْرَأَتُهُ فَسَدَ النِّكَاحُ
.”“اگر کوئ ی شخص کسی دودھ پیتی ہوئی بچی سے شادی کرے پھر اس کی بیوی اس بچی کو دودھ پلائے تو نکاح باطل ہوجاتا ہے۔”
اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں۔
بلکہ اس مقام پر نص خاص کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہی اطلاق کافی ہے جو رضاع کو نسب کا درجہ دیتا ہے۔
دودھ پلائی سے محرم بننے کی شرائط:
جب تک درج ذیل شرائط نہ ہوں ، دودھ پلانا حرام ہونے کا سبب نہیں بنتا:
۱ ۔ دودھ کے لئے شرط ہے کہ وہ شرعی ولادت کا محصول ہو۔
۲ ۔ دودھ پستان سے پیا جائے ۔ اس کے علاوہ دوسرے طریقوں سے پینا کافی نہیں ہے جیسے دودھ کو دوہنے کے بعد پلایاجانا۔
۳ ۔ رضیع کی عمر دو سال سے زیادہ نہ ہو۔
۴ ۔ دودھ خالص ہو۔ اگراس میں کوئی چیز ملا دی جائے کہ اسے دودھ نہ کہا جائے تو کافی نہیں ہے۔
۵ ۔ پورا دودھ ایک ہی آدمی سے ہونا چاہئے۔ اگر عورت اپنے پہلے شوہر کےساتھ بچہ دار ہوجائے پھر کسی دوسرے سے شادی کرنے کی وجہ سے حاملہ ہوجائے اور بچہ دار ہونے سے پہلے ، ولادت قبلی کا دودھ کسی بچے کو دس بار پلائے پھر دوسرے شوہر کے ساتھ بچہ دار ہونے کے بعدپانچ بار مزید دودھ پلائے تویہ حرام ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ پہلی اور بعد کی دودھ پلائی کے درمیان فاصلہ ڈالے بغیر پلائے یا فاصلہ ڈالے ، جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا کہ محرم بننے کے لئے دودھ پلائی کے اوقات میں فاصلہ نہیں ڈالنا چاہئے۔
۶ ۔ دایہ ایک ہی ہونا چاہئے۔ پس اگر کسی مرد کی دو بیویاں ہوں اور وہ دونوں مشترکہ طور پر کسی بچے کو پندرہ بار دودھ پلائیں تو یہ محرم بننے کا سبب نہیں بنے گا۔
۷ ۔ دودھ پلانا گوشت کے بڑھنے اور ہڈی کے مضبوط ہونے کا سبب بن جائے۔
اس شرط کے پورا ہونے کو ثابت کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ایک دن اور رات دودھ پلایا جائے یا دس بار مسلسل دودھ پلانا صادق آئے ۔ کہا گیا ہے کہ پندرہ بار مسلسل دودھ پلانا صادق آئے۔
۸ ۔ دودھ پلائی کی مقدار ( ۱۰ یا ۱۵ دن) اور وقت ( ایک دن اور رات)کی حدبندی میں یہ شرط ہے کہ درمیان میں کسی اور رضاع کا فاصلہ نہ ڈالے۔ اس کے برعکس کیفیت ( گوشت بڑھنے اور ہڈی مضبوط ہونے)کی حد بندی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔
لیکن کھانے پینے کا فاصلہ نہ ڈالنا ، کیفیت اور پندرہ بار والی مقدار میں شرط نہیں ہے ۔ اس کے برعکس وقت کی حدبندی میں یہ شرط ہے۔
دلائل:
۱ ۔دودھ کے لئے شرعی ولادت کے محصول ہونے کی شرط:اس شرط میں کسی کو اختلاف نہیں ہےاور عبد اللہ بن سنان کی اس روایت سے اس شرط کو کیا جا سکتا ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ لَبَنِ الْفَحْلِ، قَالَ: هُوَ مَا أَرْضَعَتِ امْرَأَتُكَ مِنْ لَبَنِكَ وَ لَبَنِ وَلَدِكَ، وَلَدَ امْرَأَةٍ أُخْرَى، فَهُوَ حَرَامٌ
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے لبن فحل کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: یہ وہ دودھ ہے جو تمہاری بیوی تمہارے اور تمہارے بچے کے دودھ سے کسی دوسری عورت کے بچے کو پلائے۔ پس وہ محرم (بنتا)ہے۔”
اس وضاحت کے ساتھ کہ دودھ کی نسبت فحل اور بچے کی طرف دینا وطی ، حمل اور ولادت کے شرط ہونے کی دلیل ہے۔ اور “امْرَأَتُكَ
” ک ی تعبیر ،زنا سے پیدا ہونا کافی نہ ہونے بلکہ عقد شرعی کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی یونس بن یعقوب کی صحیح روایت بھی کسی حد تک اسی حکم پر دلالت کرتی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَةٍ دَرَّ لَبَنُهَا مِنْ غَيْرِوِلَادَةٍ، فَأَرْضَعَتْ جَارِيَةً وَ غُلَاماً مِنْ ذَلِكَ اللَّبَنِ، هَلْ يَحْرُمُ بِذَلِكَ اللَّبَنِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ؟ قَالَ: لَا
.”“م یں نے امام ؑ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جو بچہ دار ہوئے بغیر ہی کثیر دودھ کی مالک ہے، اگر وہ کسی بچے یا بچی کو دودھ پلائے تو کیا رضاع سے حرام ہونے والی چیزیں اس طرح بھی حرام ہوجاتی ہیں؟ فرمایا: نہیں!”
۲ ۔ پستان سے دودھ پیناشرط ہونے کی دلیل: تمام ادلہ میں ، “ارضاع” اور “رضاعۃ” جیسے عنوانات پر حکم لگایا ہے جو عرفا ً پستان کو منہ لگائے بغیر پینے پر صادق نہیں آتا۔ اسی لئے اگر کوئی گائے کادودھ دوہنے کے ذریعے پی لے تو “ارتَضَعَ” نہیں کہا جاتا جبکہ اگر گائے کے تھن سے پی لے تو “ارتَضَعَ” کہا جاتا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ پستان کو منہ لگائے بغیر پینے پر بھی ارتضاع صادق آتا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ انصراف کی وجہ سے ، “ ارتضاع” سے مراد عرف میں متداول معنی میں استعمال ہوا ہے جبکہ باقی معانی کا حکم اس آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے:(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
۳ ۔ بچے کے دو سالہ ہونے سے پہلے دودھ پینا ضروری ہونے کی دلیل: یہ اصحاب کے نزدیک معروف حکم ہے
جس پر حلبی کی روایت صحیحہ دلالت کررہی ہے: “لَا رَضَاعَ بَعْدَ فِطَامٍ
.”“فطام یعنی دودھ چھڑانے کے بعد کوئی رضاع نہیں۔”
اس روایت کا ظاہر یہ ہے کہ اصل معیار دودھ چھڑانا ہے خواہ دودھ چھڑانے کی عمر(دو سال) کو نہ بھی پہنچے ۔لیکن حماد بن عثمان کی مندرجہ ذیل روایت کی وجہ سے اس معیار سے دستبردار ہونا پڑے گا:
“سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ: لَا رَضَاعَ بَعْدَ فِطَامٍ، قُلْتُ:وَ مَا الْفِطَامُ؟ قَالَ: الْحَوْلَيْنِ الَّذِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ فطام کے بعد کوئی رضاع نہیں ہے۔ عرض کیا: فطام کیا ہے؟ فرمایا: دوسال ۔ وہی جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔”
۴ ۔ دودھ کا خالص ہونا شرط ہونے کی دلیل: محرم بننا، دودھ پلائی کا عنوان صادق آنے پر موقوف ہے اور جب دودھ میں ایسی ملاوٹ ہو جس کی وجہ سے اسے دودھ نہ کہاجا ئے تو دودھ پلائی کا عنوان صادق نہیں آتا۔
۵ ۔ دودھ کا ایک ہی فحل سے ہونا ضروری ہونے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے۔
جسے عبد اللہ بن سنان کی گزشتہ روایت صحیحہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے: “هُوَ مَا أَرْضَعَتِ امْرَأَتُكَ مِنْ لَبَنِكَ
” ک یونکہ اگرفحل متعدد ہوں تو“لَبَنِكَ
” کا عنوان صادق نہ یں آتا۔
یہاں سے دایہ کا ایک ہونا ضروری ہونے کی شرط بھی واضح ہوجاتی ہے ؛ کیونکہ “امْرَأَتُكَ
” کا ظاہرآپ ک ی بیوی کی ذات ہے نہ کہ بیوی کی جنس۔
البتہ یہ دلیل زیاد بن سوقہ کی عنقریب بیان ہونے والی موثق روایت کے علاوہ ہے جس میں دونوں شرطوں کو صراحتا ً بیان کیا گیا ہے۔
۶ ۔ رضاع کی وہ مقدار جو محرم بننے کے لئے ضروری ہے اس میں اختلاف ہےاور اختلا ف کا سرچشمہ روایتوں کا مختلف ہونا ہے۔ لیکن اختلاف روایات کے باجود کیفیت کے بارے میں سب متفق ہیں ۔ نیز محرم بننے کے لئے رضاع ، کب گوشت کے بڑھنے اور ہڈیوں کے مضبوط ہونے کا باعث بنتا ہے اس میں بھی اتفاق پایا جاتا ہے۔
بلکہ ان روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم بننے کے لئےمعیار کیفیت کی حدبندی ہی ہے اور مقدار اور وقت کی حدبندی ، کیفیت کو ثابت کرنے کے ذرائع ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی علی بن رئاب کی روایت صحیحہ میں اس بات کو ہم واضح طور پر پاتے ہیں:
“قُلْتُ: مَا يحرمُ مِنَ الرَّضَاعِ؟ قَالَ: مَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَ شَدَّ الْعَظْمَ، قُلْتُ: فَيُحَرِّمُ عَشْرُ رَضَعَاتٍ؟ قَالَ: لَا؛ لِأَنَّهُ لَا تُنْبِتُ اللَّحْمَ وَ لَا تَشُدُّ الْعَظْمَ عَشْرُ رَضَعَاتٍ
.”“م یں نے عرض کیا: کون سا رضاع حرام کنندہ ہے؟ فرمایا: وہ رضاع جو گوشت بڑھائے اور ہڈی کومضبوط کرے ۔ عرض کیا: پس دس مرتبہ دودھ پلانا حرام ہونے کا سبب بنے گا؟ فرمایا: نہیں ! کیونکہ دس مرتبہ دودھ پلانا گوشت بڑھنے اور ہڈیوں کے مضبوط ہونے کا سبب نہیں بنتا۔”
اس کے علاوہ دوسری روایات بھی موجود ہیں۔
روایات میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ صرف مقدار کی حدبندی میں ہے۔ بعض روایات میں مسلسل دس مرتبہ دودھ پلانے پر اکتفا کیا گیا ہے جبکہ بعض روایتوں میں پندرہ بار دودھ پلانے کی شرط رکھی گئی ہے۔
پہلی قسم کی مثال، عمر بن یزید کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْغُلَامِ يَرْضِعُ الرَّضْعَةَ وَ الثِّنْتَيْنِ، فَقَالَ: لَا يُحَرِّمُ، فَعَدَدْتُ عَلَيْهِ حَتَّى أَكْمَلْتُ عَشْرَ رَضَعَاتٍ، فَقَالَ: إِذَا كَانَتْ مُتَفَرِّقَةً فَلَا
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بچے کے بارے میں پوچھا کہ وہ ایک دو بار دودھ پیتا ہے۔ فرمایا: یہ حرام کا سبب نہیں بنے گا۔ پھر میں گننے لگا یہاں تک دس بار دودھ پلانے تک بیان کیا۔ فرمایا: اگر رضاع ، فاصلے کے ساتھ ہو تو بھی حرام کا سبب نہیں ہوگا۔”
دوسری قسم کی مثال، زیاد بن سوقہ کی موثق روایت ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ علیه السلام: هَلْ لِلرَّضَاعِ حَدٌّ يُؤْخَذُ بِهِ؟ فَقَالَ: لَا يُحَرِّمُ الرَّضَاعُ أَقَلَّ مِنْ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ، أَوْ خَمْسَ عَشْرَةَ رَضْعَةً مُتَوَالِيَاتٍ مِنِ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ، مِنْ لَبَنِ فَحْلٍ وَاحِدٍ لَمْ يَفْصِلْ بَيْنَهَا رَضْعَةُ امْرَأَةٍ غَيْرِهَا، فَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً أَرْضَعَتْ غُلَاماً أَوْ جَارِيَةً عَشْرَ رَضَعَاتٍ مِنْ لَبَنِ فَحْلٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضَعَتْهُمَا امْرَأَةٌ أُخْرَى مِنْ فَحْلٍ آخَرَ عَشْرَ رَضَعَاتٍ لَمْ يَحْرُمْ نِكَاحُهُمَا.
”“میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا : کیا رضاع کے لئے کوئی حد ہے جسے اخذ کیا جاسکے؟ فرمایا: اگر رضاع ایک دن اور رات یامسلسل پندرہ بار پلانے سے کم ہو تو حرام ہونے کا سبب نہیں بنتا۔ (اور اس میں یہ بھی شرط ہے کہ ) ایک ہی دایہ کا دودھ ہو، دودھ کا مالک ایک ہو اور بیچ میں کوئی عورت اسے دودھ نہ پلائے۔ اگر کوئی عورت کسی بچے یا بچی کو ایک شوہر کی ملکیت سے دس مرتبہ دودھ پلائے پھر ان دونوں کو کوئی دوسری عورت کسی دوسرے شوہر کی ملکیت سے دس بار دودھ پلائے تو ان کا نکاح کرنا حرام نہیں ہوگا۔”
چونکہ دونوں روایتوں میں تعارض ہے اور کوئی مرجح بھی موجود نہیں ہے ؛ لہذا دونوں ساقط ہوجائیں گی اور ہر ایک کے مخصوص اثر کے لحاظ سے اصل کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوجائے گا۔ پس جس بچے کو دس مرتبہ دودھ پلایا ہے اس کے عقد کے صحیح ہونے کے لحاظ سے “عدم ترتب اثر” کا استصحاب کیا جائے گا اور جواز نظر کے لحاظ سے برائت جاری ہوگی بشرطیکہ کوئی ایسا عموم نہ ہو جس سے تمسک کیا جا سکے۔
۷ ۔دودھ پلائی کی مقدار میں کسی دوسرے رضاع کا فاصلہ نہ ہونا ضروری ہونے کی دلیل: یہ حکم زیاد بن سوقہ کی موثق روایت اور عمر بن یزید کی روایت صحیحہ کی واضح دلالتوں کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔
وقت کی مدت میں کسی دوسرے رضاع کا فاصلہ نہ ہونے کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے کہ عرفاً “ایک دن اور رات” کے عنوان سے مراد ، بغیر کسی فاصلے کے ایک دن اور رات ہے۔
کیفیت میں اس شرط کے ضروری نہ ہونے کی دلیل: چونکہ اس جہت سے نصوص مطلق ہیں ؛ لہذا دودھ پلانے کے ذریعے گوشت کا بڑھنا اور ہڈیوں کا مضبوط ہونا ہی لازمی ہے اور جب یہ وصف آجائے تو فاصلے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
۸ ۔ پندرہ بار دودھ پلانے میں کھانے پینے کا فاصلہ نہ آنا ضروری نہ ہونے کی دلیل: زیاد بن سوقہ کی موثق روایت میں پندرہ بار دودھ پلانے میں جس فاصلے کا نہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے وہ کسی دوسرے رضاع کا فاصلہ نہ ہونا ہے؛ لہذا پندرہ بار میں کھانے پینے کا فاصلہ آئے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس دس بار والی روایتوں میں صرف فاصلے کا ذکر ہے ؛ لہذا کھانے پینے کا فاصلہ بھی فاصلہ شمار ہوتا ہے۔
کیفیت میں کھانے پینے کا فاصلہ نہ ہونا ضروری نہ ہونے کی دلیل: کیفیت کی جہت سے روایات کو مطلق فرض کرتے ہوئے یہ شرط ہے کہ دودھ پلانے کے ذریعے گوشت بڑھے اور ہڈیاں مضبوط ہوں خواہ کسی بھی طرح سے کیوں نہ ہو۔
وقت کی مدت میں کھانے پینے کا فاصلہ نہ آنا ضروری ہونے کی دلیل: جب کھانے پینے کا فاصلہ آئے تو ایک دن اور رات کا عنوان صادق نہیں آتا۔
ہاں ! اگر تھوڑا پانی پی لے یا دوائی لے تو کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ ایک دن اور رات میں اس طرح پیش آنا رائج ہے اور عرفا ً دن اور رات صادق آنے میں کوئی مشکل بھی پیش نہیں آتی۔