عدّت کے احکام
عدت وہ مدت زمان ہے جس میں عورت ، شوہر سے جد اہونے یا شوہر کے مرنے کے بعد کسی اور مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔
جو عورت کسی دوسرے کی عدت میں ہو اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو یا کسی ایک کو اس بات کا علم ہو کہ عورت عدت گزار رہی ہے اور عدت کے زمانے میں شادی کرنا حرام ہے پھر بھی وہ شادی کرلیں تو دونوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہوجائیں گے خواہ دخول نہ بھی کرے۔ اگر دخول کرے تو اگرچہ وہ دونوں جاہل ہی کیوں نہ ہوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہو جائیں گے۔
دخول میں فرق نہیں پڑتا کہ قبل میں ہو یا دبر میں۔
دلائل:
۱ ۔ عدت گزارنے والی عورت کے شادی کرنا حرام ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے مسلمات میں سے ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(
وَإِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنهَُم بِالمَْعْرُوفِ
...)
“اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں...”
اس آیت مجیدہ کا مفہوم ، مطلوبہ حکم پر دلالت کر رہا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
(
وَ الْمُطَلَّقَاتُ يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
...)
“اور طلاق یافتہ عورتیں تنق مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں...”
انتظار کرنا ضروری ہونے سے مراد،گزشتہ آیت مجیدہ کے قرینے سے ہی سہی، شادی کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پاک بھی ہے:
(
يَأَيهَُّا النَّبىُِّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتهِِنَّ وَ أَحْصُواْ الْعِدَّة.
..)
“اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو...”
جب تک عدت میں شادی کرنا حرام فرض نہ کیا جائے اس وقت تک احصائے عدت بے معنی ہوتا ہے۔
نیز ارشاد ہوتا ہے:
(
وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَ يَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشهُْرٍ وَ عَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكمُْ فِيمَا فَعَلْنَ فىِ أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوف
...)
“اور تم میںً سے جو وفات پا جائیںّ اوربیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میںَ رکھںا، پھرجب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں ...”
اس آیت مجیدہ میں بھی عدت کے دوران شادی کرنا حرام فرض کئے بغیر انتظار کا وجوب ، اگرچہ سیاق کے قرینے سے ہی سہی، بے معنی ہوجاتا ہے۔
روایات میں سے عبد الرحمن بن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت اور دوسری روایتوں سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔
۲ ۔عدت میں یہ قید کہ کسی دوسرے شوہر سےعدت میں ہو: شرع مقدس میں عدت کا حکم تشریع ہونے کے بارے میں جو دلائل ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی سے منع کرنا صاحب عدت کے احترام کے لئے ہے۔
اگر یہ حکم مشکوک ہوجائے تو زواج موقت کی ادلہ سے تمسک کیا جا سکتا ہے جو عدت کے دوران شادی کرنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں، البتہ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ دونوں عدتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض روایات ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:
“إِنْ أَرَادَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَمْراً جَدِيداً فَعَلَ، وَ لَيْسَ عَلَيْهَا الْعِدَّةُ مِنْهُ، وَ عَلَيْهَا مِنْ غَيْرِهِ خَمْسٌ وَ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً
.”“اگر وہ کس ی امر جدید کا ارادہ رکھتا ہے تو انجام دے۔ عورت پر اسی مرد کی نسبت کوئی عدت نہیں ہے۔ اور کسی دوسرے کی نسبت ، عورت پر ضروری ہے کہ پینتالیس ۴۵ راتیں عدت گزارے۔ ”
۳ ۔ حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس حکم کوثابت کرنے کے لئے روایات سے مدد لینا ضروری ہے۔ اس بارے میں روایتوں کے چار مجموعے ہیں:
الف) مطلَقا ً حرام ابدی ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،
ب) مطلَقا ً حرام ابدی نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،
ج) حالت علم میں حرام ابدی ہونے اور لاعلمی کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،
د) دخول کی صورت میں حرام ابدی ہونے اور عدم دخول کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔
پہلے مجموعے کی مثال، محمد بن مسلم کی روایت ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو عدت کے دوران کسی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے۔فرمایا: ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔ ”
اس روایت کی سند اشکال سے خالی نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کے راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن بحر ہے جس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ہم اس قاعدے کے قائل ہوں کہ “تفسیر قمی” کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
دوسرے مجموعے کی مثال، علی ابن جعفر کی روایت صحیحہ ہے جو انہوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَةٍ تَزَوَّجْتَ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهَا وَ بَيْنَهُ وَ يَكُونُ خَاطِباً مِنَ الْخُطَّابِ
.”“م یں نے ایک ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا جس نے عدت ختم ہونے سے پہلے شادی کر لی تھی۔ امام ؑ نے فرمایا: وہ دونوں جدا ہو جائیں گے اور عدت کے ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کر سکے گا ”
قرب الاسناد میں اس روایت کی سند میں عبد اللہ بن حسن کا نام بھی ہے جو ایک مجہول الحال شخص ہے۔ مگر صاحب وسائل نے اس کو علی ابن جعفر کی اپنی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ صاحب وسائل سے علی ابن جعفر تک کی سند صحیح ہے جیسا کہ ایک سے زائد بار کہا جا چکا ہے۔
تیسرے مجموعے کی مثال، اسحاق بن عمار کی موثق روایت ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي إِبْرَاهِيمَ علیه السلام: بَلَغَنَا عَنْ أَبِيكَ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا تَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً، فَقَالَ: هَذَا إِذَا كَانَ عَالِماً، فَإِذَا كَانَ جَاهِلًا فَارَقَهَا وَ تَعْتَدُّ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا نِكَاحاً جَدِيداً
.”“م یں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے عرض کیا: آپ ؑ کے پدر گرامی سے ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ اگر کوئی مرد ایک ایسی عورت کے ساتھ شادی کرے جو عدت گزار رہی ہے تو اس پر وہ عورت کبھی حلا ل نہیں ہوگی۔ امام ؑ نے فرمایا: یہ حکم اس وقت ثابت ہوگا جب اسے عدت میں ہونے کا علم ہو؛ لیکن اگر وہ حکم شرعی سے لاعلم ہوتو ان دونوں کو الگ کیا جائے گا اور وہ عورت عدت گزارے گی پھرمرد دوبارہ نکاح کرکے اس کے ساتھ شادی کرے گا۔”
چوتھے مجموعے کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحُبْلَى يَمُوتُ زَوْجُهَا فَتَضَعُ،وَ تَزَوَّجُ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً، فَقَالَ: إِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ، وَ اسْتَقْبَلَتْ عِدَّةً أُخْرَى مِنَ الْآخَرِ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ وَ هُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ
.”“م یں نے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں امام ؑ سے سوال کیا کہ اس کا شوہر مر جائے اور وہ چار مہینے دس دن گزرنے سے پہلے شادی کر لے۔ امام ؑ نے فرمایا: اگر دخول کیا ہے تو ان کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس پر حلال نہیں ہوگی ۔ وہ پہلی عدت کی باقیماندہ مقدار گزارے گی اور دوسرے شوہر کے لئے تین پاکیوں پر مشتمل ایک دوسری عدت گزارے گی ۔ اگر دخول واقع نہیں ہوا ہے تو ان میں جدائی ڈالی جائے گی اور باقیماندہ عدت گزارے گی۔ وہ شخص اس عورت کے ساتھ شادی کے طلب گاروں میں سے ایک ہوگا۔”
مناسب یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کے مضامین کو اس حکم پر جمع کریں جس پر حلبی کی ایک دوسری روایت دلالت کر رہی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا وَ دَخَلَ بِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً عَالِماً كَانَ أَوْ جَاهِلًا، وَ إِنْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَلَّتْ لِلْجَاهِلِ وَ لَمْ تَحِلَّ لِلْآخَرِ
.”“اگر کوئ ی شخص کسی عدت گزارتی ہوئی عورت سے شادی کر ے اور دخول بھی کرے تو وہ عورت اس پر حرام ابدی ہوجائے گی خواہ وہ عالم ہو یا جاہل۔ لیکن اگر دخول نہ کرے تو جاہل پر حلال ہوگی جبکہ عالم پر حرام۔”
اس روایت کے مضمون کے مطابق گزشتہ چار مجموعوں کے اطلاق کو مقید کیا جائے گا۔
۴ ۔ حرام ابدی ہونے کے لئے مرد اور عورت میں سے کسی ایک کو علم ہونا کافی ہونے کی دلیل: اگر مرد کو علم ہو تو یہ حکم اسحاق بن عمار کی گزشتہ موثق روایت کے مطابق واضح ہے ؛ کیونکہ اس میں مرد کو علم ہونے کی صورت بیان ہوئی ہے۔
اگر عورت کو اس کا علم ہو تو ابن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت کے سیاق سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کے اطلاق میں زوجہ بھی شامل ہے۔ اس عورت کے لئے رجوع کے ذریعے حلیت کا ثابت ہونا ہمارے مطلوب کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ حرام ابدی کا سبب بننے والے علم سے مراد عدت اور حرمت دونوں کے بارے میں علم ہونا ہے۔گزشتہ روایات کے ظاہرسے مراد اگرچہ عدت کے بارے میں علم ہونا ہے ؛ لیکن عدت کے بارے میں علم ہونا عموما حرمت کے بارے میں علم ہونے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ؛ لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو علم ، حرام ابدی کا سبب بنتا ہے وہ عدت اور حرمت دونوں کا ایک ساتھ علم ہونا ہے۔ اسی لئے حرام ابدی واقع ہونے کے لئے ان دونوں میں سے ایک کا علم ہونا کافی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا طریقہ استدلال سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس حکم کو عبد الرحمن بن حجاج کی روایت صحیحہ سے واضح طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے جو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا بِجَهَالَةٍ أَ هِيَ مِمَّنْ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً؟ فَقَالَ: لَا، أَمَّا إِذَا كَانَ بِجَهَالَةٍ،فَلْيَتَزَوَّجْهَا بَعْدَ مَا تَنْقَضِي عِدَّتُهَا وَ قَدْ يُعْذَرُ النَّاسُ فِي الْجَهَالَةِ بِمَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: بِأَيِّ الْجَهَالَتَيْنِ يُعْذَرُ بِجَهَالَتِهِ أَنَّ ذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ،أَمْ بِجَهَالَتِهِ أَنَّهَا فِي عِدَّةٍ؟ فَقَالَ: إِحْدَى الْجَهَالَتَيْنِ أَهْوَنُ مِنَ الْأُخْرَى، الْجَهَالَةُ بِأَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَ ذَلِكَ بِأَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الِاحْتِيَاطِ مَعَهَا؛ فَقُلْتُ: وَ هُوَ فِي الْأُخْرَى مَعْذُورٌ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَهُوَ مَعْذُورٌ فِي أَنْ يَتَزَوَّجَهَا؛ فَقُلْتُ: فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مُتَعَمِّداً وَ الْآخَرُ بِجَهْلٍ، فَقَالَ: الَّذِي تَعَمَّدَ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى صَاحِبِهِ أَبَداً
.”“م یں نے امام ؑ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو جہالت کی وجہ سے کسی عدت گزارتی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے، کیا وہ عورت اس مرد پر حرام ابدی ہوجائے گی؟ فرمایا: نہیں! لیکن اگر جہالت کی وجہ سے شادی کی ہے تو عدت ختم ہونے کے بعد شادی کرے ۔ لوگ جہالت کی وجہ سے اس سے بڑی چیزوں سے بھی معذور ہوتے ہیں۔ عرض کیا: ان دونوں میں سے کون سی جہالت معذور ہونے کا سبب بنتی ہے : حرمت سے جاہل ہونا یا عدت سے جاہل ہونا؟ فرمایا: ان دونوں جہالتوں میں سے ایک جہالت دوسری جہالت سے زیادہ آسان ہے ۔ اسے یہ علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کام حرام قرار دیا ہے تو یہ ایسی بات ہے جس کے ساتھ وہ احتیاط نہیں کر سکتا۔عرض کیا: تو کیا وہ دوسری صورت میں معذور ہے؟ فرمایا: ہاں ! اگر عدت ختم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ شادی کرنے میں معذور ہے۔ عرض کیا: اگر مرد اور عورت میں سے ایک جان بوجھ کر انجام دے رہا ہو اور دوسرے کو علم نہ ہو تو؟ فرمایا: جو عمدا ً انجام دے رہا ہے اس کے لئے کبھی بھی رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔”
۶ ۔ حرام ابدی کے لئے دبر میں دخول کرنا کافی ہونے کی دلیل: گزشتہ روایتوں کے اطلاق سے یہ حکم سمجھا جاتا ہے۔