ازدواج موقت یا متعہ
ازدواج موقت کو اصطلاحا عقد تمتع کہا جاتا ہے اور یہ بلا اشکال مشروع اور جائز ہے۔
اس میں ایجاب و قبول کا لفظی ہونا شرط ہے۔ نیز مہر اور مدت کا معین ہونا بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ عقد باطل ہوگا۔
متعے کی مدت ختم ہونے یا باقی مدت کو معاف کرنے کے بعد ، عدت گزارنا بھی ضروری ہے جو دو حیض آنے تک ہے۔ اگر وہ عورت حیض دیکھنے کی عمر میں ہوتے ہوئے حیض نہیں دیکھتی تو ضروری ہے کہ پینتالیس ۴۵ دن عدت گزارے۔
یہ عدت ان عورتوں کے لئے تھی جو چھوٹی ، یائسہ اور غیر مدخول بہا نہ ہوں؛ لیکن اگر وہ بچی ہو یا یائسہ ہو یا ایسی عورت ہو جس کے ساتھ دخول نہیں کیا گیا تو ان کی کوئی عدت نہیں ہے۔
نیز یہ عدت اس صورت میں ہے جب عدت کے دوران شوہر کا انتقال نہ ہو جائے ؛ لیکن اگر دوران عدت ، شوہر کی موت واقع ہو جائے تو اس عورت پر ضروری ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارے۔
ازدواج موقت کے ذریعے پیدا ہونے والا بچہ ، اسی شوہر سے متعلق ہوگا اور عقد دائمی میں بچے کو ملنے والے تمام حقوق اس بچے کو بھی ملیں گے۔
ازدواج موقت میں عورت، نفقے کا مستحق نہیں ہوگی ۔ اگر متعے کی مدت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے وارث بھی نہیں ہوں گے ؛ مگر یہ کہ وارث بننے کی شرط رکھی گئی ہو۔
نیز ازدواج موقت میں طلاق بھی نہیں ہے؛ بلکہ مدت کے تمام ہونے سے یا باقی مدت کو بخشنے کے ذریعے دونوں جدا ہوجائی گے۔
کسی مسلمان کے لئے اہل کتاب عورتوں کے علاوہ کسی کافر عورت سے متعہ کرنا جائز نہیں ہے۔
دلائل:
۱ ۔ ازدواج موقت کے مشروع ہونے کی دلیل: یہ مذہب امامیہ کی ضروریات مذہب اور علامت میں سے ہے؛ بلکہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے اگر چہ بعد میں نسخ ہونے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ اس حکم پر قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کر رہی ہے:
(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم محُّْصِنِينَ غَيرَْ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنهُْنَّ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَة
)
“...اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد مںر لا سکتے ہو بشرطکہن (نکاح کامقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کار ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔”
اس بارے میں ہماری احادیث ، متواتر ہیں؛ بلکہ غیروں کی احادیث بھی اسی طرح ہی ہیں۔
ہماری احادیث میں سے ایک زراہ کی صحیح حدیث ہے:
“جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَيْرٍاللَّيْثِيُّ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ علیه السلام فَقَالَ: مَا تَقُولُ فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ؟ فَقَالَ: أَحَلَّهَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَ عَلَى سُنَّةِ نَبِيِّهِ، فَهِيَ حَلَالٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ: يَا ابَا جَعْفَرٍ، مِثْلُكَ يَقُولُ هَذَا وَ قَدْ حَرَّمَهَا عُمَرُ وَ نَهَى عَنْهَا! فَقَالَ: وَ إِنْ كَانَ فَعَلَ، فَقَالَ: فَإِنِّي أُعِيذُكَ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ أَنْ تُحِلَّ شَيْئاً حَرَّمَهُ عُمَرُ، فَقَالَ لَهُ: فَأَنْتَ عَلَى قَوْلِ صَاحِبِكَ، وَ أَنَا عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَهَلُمَّ أُلَاعِنْكَ أَنَّ الْحَقَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)، وَ أَنَّ الْبَاطِلَ مَا قَالَ صَاحِبُك.
..”“عبد اللہ بن عم یر لیثی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں آکر عرض کیا: عورتوں کے ساتھ متعہ کے بارے میں آپ ؑ کیا فرماتے ہیں؟ امام ؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے حلال قرار دیا ہے اور اس کے نبی کی سنت بھی ہے۔ پس روز قیامت تک متعہ کرنا حلال ہے۔ ابن عمیر نے کہا: اے ابو جعفر! آپ ؑ جیسے لوگ یہ کہتے ہیں جبکہ عمر نے اسے حرام قرار دیا اور اس سے نہی کی ہے! فرمایا: اگرچہ اس نے نہی کی ہے( کرنے دے) ۔ اس نے عرض کیا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ ایسی چیز کو حلال قرار دے رہے ہیں جسے عمر نے حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا: تو اپنے آقا کے قول پر ثابت رہو اور میں رسول اللہؐ کے قول پر ثابت رہوں گا۔ آؤ میں تجھ سے بیزاری کروں کہ حق وہی ہے جو رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے اور باطل وہی ہے جو تیرے آقا نے کہا ہے...”
غیروں کی احادیث میں سے ایک وہ روایت ہے جو بخاری اور مسلم نے جابر بن عبد اللہ اور سلمہ بن اکوع سے نقل کی ہے کہ ان دونوں نے کہا:
“خرج علینا منادی رسول اللّه (ص) فقال: ان رسول اللّه (ص) قد اذن لکم ان تستمتعوا ، یعنی متعة النساء
.”“رسول اللہ ؐ کی طرف سے ایک منادی نے ندا دی کہ بے شک رسول اللہ ؐ نے تم لوگوں کو استمتاع یعنی عورتوں کے ساتھ متعے کی اجازت دی ہے۔”
جب دونوں طرف سے سنت پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے تو آیت مجیدہ کی دلالت میں اس دعویٰ کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ استمتاع ، عقد تمتع کے معنی میں نہیں ہے ؛ بلکہ عقد دائمی میں دخول واقع ہونے کے معنی میں ہے اور آیت مجیدہ اس حکم کو بیان کر رہی ہے کہ دخول کرنا پورے مہر کے مستحق ہونے کا سبب بنتا ہے۔
کیونکہ اس حکم پر سنت کی دلالت اور تمام مسلمانوں کے اتفاق کے بعد اس طرح کا دعویٰ بے فائدہ ہے۔
ہاں ! متعہ کی مشروعیت کے نسخ ہونے کا دعویٰ یہاں پر فائدہ دیتا ہے ؛ کیونکہ جب پیغمبر اکرم ؐ سے نسخ کا حکم صادر ہونا یقینی نہیں ہے تو یہ مشکوک ہوجاتا ہے ۔ مشکوک ہونے کی صورت میں عدم نسخ کا استصحاب کیا جائے گا اور استصحاب تمام مسلمانوں کے نزدیک حجت ہے۔
پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے کے بعد اس بارے میں نہی کا صادر ہونا ، اگرچہ مسلم
ہی کیوں نہ ہو، بے فائدہ ہے۔ اس لئے کہ احکام کو نسخ کرنا صرف پیغمبر اکرم ؐ کا حق ہےا ور آپ ؐ کے زمانے سے مختص ہے؛ کیونکہ آپ ؐکی حلال کردہ چیزیں روز قیامت تک حلال اور آپ ؐکی حرام کردہ چیزیں روزقیامت تک حرام ہیں۔
اور جس شخص نے عمر کے اس فعل کی توجیہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ :“اجتہادی مسائل میں ایک مجتہد کا دوسرے مجتہد کی مخالفت کرنا بدعت نہیں ہے”۔
اس نے اللہ تعالیٰ کے خلاف بولنے کی جرائت کی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ، اپنے نبی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:(
وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى
)
“وہ خواہش سے نہیں بولتا۔یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔”
(
...قُلْ مَا يَكُونُ لىِ أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسىِ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلىّ
...)
“...کہہ دیجئے ! مجھے یہ اختیا ر نہین کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھییج جاتی ہے...”
ان فرامین کے مقابلے میں کہا جاتا ہے کہ پیغمبر بھی دوسرے افراد کی مانند ایک مجتہد ہیں بغیر کسی فرق کے۔(
كَبرُتْ كَلِمَةً تخَرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا
)
“یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، یہ تومحض جھوٹ بولتے ہیں ۔”
اگر متعہ کی مشروعیت کو رد کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ “ زنا کو اس لئے سفاح کہا جاتا ہے کہ اس میں نکاح کے احکام نہیں ہوتے جیسے نسب کا ثابت ہونا، عدت کا واجب ہونا اور فراش کا باقی رہنا ۔ جب متعہ میں بھی یہ معانی موجود نہ ہوں تو یہ بھی زنا کے معنی میں ہے۔ ”
اس کا جواب ہم اس طرح دیں گے کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر اشکال ہے کیونکہ ابتدائے شریعت میں تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق طور پر متعہ کی مشروعیت ثابت ہے۔ اس کے علاوہ اشکال میں مذکور تین چیزیں عقد دائمی کی طرح متعہ میں بھی شرط ہیں۔
اگر یہ اشکال کیا جائے کہ عورت کا ہر وقت خود کو کسی مرد کے لئے پیش کرنا اس پاکدامنی کے منافی ہے جس کی شریعت میں تاکید کی گئی ہے اور یہ عمل ،سفاح سے مناسبت رکھتا ہے۔
بلکہ متعہ کا جواز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے منافی ہے:(
وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلىَ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانهُُمْ فَإِنهَُّمْ غَيرُْ مَلُومِين
)
“اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں؛مگر اپنی بیوَییوں اور لونڈیوں سے پس ان پر کوئی ملامت نہیںَ ہے۔”
کیونکہ جس عورت کے ساتھ متعہ کیا جائے وہ نہ تو زوجہ ہے اور نہ لونڈی؛ لہذا اس کے ساتھ شادی کرنا ظلم وتجاوز اور حرام ہے۔
اس کے علاوہ خلیفہ دوم نے اپنی طرف سے حرام ہونے کا حکم صادر نہیں کیا ہے ؛ بلکہ وہ اس حکم کو بیان کرنے والا اور نافذ کرنے والا ہے۔ اگر اس نے نہی کی نسبت اپنی طرف دی ہے تو اسی بیان کنندہ اور نافذ کنندہ کے معنی میں ہے۔
اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر ازدواج موقت کی لازمی شرائط کو ہم سمجھ لیں تو پاکدامنی اور ازدواج موقت کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے ۔ اگر تنافی لازم آئے تو یقینا ًرسول اللہ ؐ کے زمانے میں اس کی ثابت مشروعیت پر دوبارہ اشکال پلٹ آئے گا۔
ازدواج کے افراد میں سے ایک حقیقی فرد ،متعہ ہے۔ فقط یہ کہ متعہ، ازدواج موقت ہے اور اس میں ازدواج دائمی کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں؛ سوائے بعض جہتوں کے۔ لہذا ہماری نظر میں آیت مجیدہ کے ساتھ اس کے منافی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
خلیفہ دوم کے دفاع میں کہی گئی آخری بات ، مدعی سست، گواہ چست کی طرح ہے اور یہ بات مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
۲ ۔ ایجاب اور قبول لفظی کے بغیر ازدواج موقت واقع نہ ہونے کی دلیل: چونکہ متعہ بھی ازدواج کے افراد میں سے ایک فرد ہے ؛ لہذا جو کچھ عقد دائم میں شرط ہے اس میں بھی شرط ہے۔
بلکہ کچھ ایسی روایات بھی ہیں جو ازدواج موقت میں ان چیزوں کے شرط ہونے پر خصوصی دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔
ازدواج موقت کا صیغہ یہ ہے کہ پہلے عورت کہے: “متعتک او انکحتک او زوجتک نفسی بمهر کذا الی اجل کذا
” ۔ “میں نےفلاں (معین) مہر پر فلاں (معین) مدت تک اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں قرار دیا۔” پھر مرد کہے: “قبلتُ” “میں نے قبول کیا۔”
عربی زبان کا شرط ہونا، ایجاب کا پہلے ہونا اور ایجاب کا عورت کی طرف سے ہونا اس کے علاوہ وہ تمام شرائط جو نکاح دائمی میں بیان کی گئی ہیں ، ازدواج متعہ میں بھی شرط ہیں؛ کیونکہ دائم کی طرح یہ بھی ازدواج کا ایک حقیقی فرد ہے۔
۳ ۔ متعہ میں مہر اور مدت کی تعیین ضروری ہونے اور تعیین نہ کرنے کی صورت میں نکاح کے باطل ہونے کی دلیل: اس حکم پر بعض روایتیں دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“لَا تَكُونُ مُتْعَةٌ إِلَّا بِأَمْرَيْنِ: أَجَلٍ مُسَمًّى وَ أَجْرٍ مُسَمًّى
.”“متعہ نہ یں ہوتا مگر دو چیزوں کے ذریعے: ۱ ۔ معین مدت اور ۲ ۔ معین مہر۔”
۴ ۔ مدت تمام ہونے یا باقیماندہ مدت بخش دینے کے بعد عدت گزارنا واجب ہونے کی دلیل: عدت کے وجوب میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ البتہ اس کی مدت میں اختلاف ہے؛ کیونکہ روایت کے مضامین میں اختلاف ہے۔
الف) بعض روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حیض دیکھنے والی عورت کی عدت دو حیض ہے اور جو عورت حیض دیکھنے کی عمر میں ہو لیکن حیض نہیں دیکھتی ہو اس کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔
ب) بعض روایات کہتی ہیں کہ حیض دیکھنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے اور حیض نہ دیکھنے والی کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔
پہلےحکم پر دلالت کرنے والی روایتوں کی مثال، اسماعیل بن فضل ہاشمی کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُتْعَةِ، فَقَالَ: الْقَ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ جُرَيْجٍ فَسَلْهُ عَنْهَا فَإِنَّ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْماً، فَلَقِيتُهُ فَأَمْلَى عَلَيَّ شَيْئاً كَثِيراً فِي اسْتِحْلَالِهَا وَ كَانَ فِيمَا رَوَى لِي فِيهَا... فَإِذَا انْقَضَى الْأَجَلُ بَانَتْ مِنْهُ بِغَيْرِ طَلَاقٍ...وَ عِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ، وَ إِنْ كَانَتْ لَا تَحِيضُ فَخَمْسَةٌ وَ أَرْبَعُونَ يَوْماً، قَالَ: فَأَتَيْتُ بِالْكِتَابِ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام، فَقَالَ: صَدَقَ وَ اُقِرُّ بِهِ..
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ؑ نے فرمایا: عبد الملک بن جریح سے ملو اور اس بارے میں اس سے سوال کرو ؛ کیونکہ اس بارے میں اسے علم ہے۔ پس میں نے اس سے ملاقات کی اس نے بہت ساری چیزیں املاء کیں جو متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں تھیں۔ اس نے مجھ سے جو چیزیں بیان کیں ان میں یہ بھی تھا جب مدت تمام ہو جائے تو عورت ،بغیر طلاق کے ، مرد سے جدا ہوجائے گی... اور اس کی عدت دو حیض ہے۔ اگر وہ حیض نہ دیکھتی ہو تو اس کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں وہ کتاب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس لے آیا۔ تو امام ؑ نے فرمایا: اس (عبد الملک ) نے سچ کہا ہے اور میں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ ”
دوسرے حکم پر دلالت کرنے والی روایتوں کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زراہ کی روایت صحیحہ ہے:
“عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِنْ كَانَتْ تَحِيضُ فَحَيْضَةٌ، وَ إِنْ كَانَتْ لَا تَحِيضُ فَشَهْرٌ وَ نِصْفٌ
.”“اگر عورت ح یض دیکھتی ہو تواس کے متعے کی عدت ایک حیض ہے اور اگر حیض نہیں دیکھتی تو ایک مہینہ پندرہ دن ( ۴۵ دن) ہے۔”
پہلی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہوئے ان دونوں کے درمیان جمع عرفی کرنے میں مشکل پیدا ہوتی ہے ؛ کیونکہ یا تو امر ارشادی ، استحباب پر محمول کرنے کو قبول نہیں کرتا۔ یا قبول تو کرتا ہے ؛ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ لسان روایت “امر ” والی ہو نہ کہ خبر دینے والی۔ جس طرح روایت میں ہے۔
جب جمع عرفی متعذر ہو تو تعارض پیدا ہوجائے گا؛ لہذا قرآن کی موافقت یا تقیے کی مخالفت جیسے مرجحات کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوجائے گا۔ جب اس مقام پر کوئی مرجح بھی دسترس میں نہ ہو تو دونوں روایتوں کا ساقط ہونا یقینی ہوجائے گا اور اصل کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اصل کا تقاضا یہ ہے کہ عقد ثانی کے اثرات مرتب ہونے کے لئے اس سے پہلے دو حیض دیکھنا شرط ہے۔ پس عدم ترتیب اثر کا استصحاب کیا جائے گا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے فرمان(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
کی طرف رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ آیت میں عام احوالی نہیں ؛ بلکہ عام افرادی مدنظر رکھا گیا ہے۔
۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ مدت ختم ہونے یا باقیماندہ مدت بخش دینے کے بعدمکمل دو مرتبہ حیض دیکھنا شرط ہے اور وہ حیض کافی نہیں ہے جس کے دوران مدت تمام ہو جائے یا اسی کے دوران باقی مدت بخش دی جائے۔ ہاشمی کی روایت صحیحہ کو ترجیح دینے کی صورت میں یہ حکم واضح ہے ؛ کیونکہ اس روایت میں “و عدّتها حیضتان
” کی تعبیر موجود ہے اس کا ظاہر یہی ہے کہ دو حیض شرط ہے۔ اگر اس کو ترجیح نہ دی جائے ؛بلکہ ہم تساقط کے قائل ہوجائیں تو اس وقت بھی معاملہ واضح ہے۔
۶ ۔“صغیرہ”، “یائسہ” اور “غیر مدخول بہا” کے لئے عدت گزارنا ضروری نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک ،عبد الرحمن بن حجاج کی روایت ہے:
“قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: ثَلَاثٌ يَتَزَوَّجْنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ:الَّتِي لَمْ تَحِضْ وَ مِثْلُهَا لَا تَحِيضُ، قَالَ: قُلْتُ: وَ مَا حَدُّهَا؟ قَالَ: إِذَا أَتَى لَهَا أَقَلُّ مِنْ تِسْعِ سِنِينَ، وَ الَّتِي لَمْ يُدْخَلْ بِهَا وَ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ مِنَ الْمَحِيضِ وَ مِثْلُهَا لَا تَحِيض
...”“حضرت امام جعفر صادق عل یہ السلام نے فرمایا: تین قسم کی عورتیں ہر حال میں شادی کر یں گی: وہ لڑکی جس نے ابھی تک حیض نہیں دیکھا اور وہ جو حیض نہیں دیکھتی۔ راوی کہتا ہے : میں نے کہا:ان کی حد کیا ہے؟ فرمایا: اگر اس کی عمر نو ۹ سال سے کم ہو اور وہ عورت جس کے ساتھ دخول نہ کیا گیا ہو اور وہ عورت جو یائسہ ہو چکی ہو اور انہی کی طرح حیض نہ دیکھنے والی عورت بھی ہے...”
اگرچہ اس روایت کی سند میں سہل بن زیاد کا نام آتا ہے ؛ لیکن ان شاء اللہ معاملہ مشکل نہیں ہے۔
۷ ۔ وفات کی عدت ، چار مہینے دس دن ہونے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے۔
اور اس پر زرارہ کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام مَا عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الَّذِي تَمَتَّعَ بِهَا؟ قَالَ: أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً.ثُمَّ قَالَ: يَا زُرَارَةُ! كُلُّ النِّكَاحِ إِذَا مَاتَ الزَّوْجُ فَعَلَى الْمَرْأَةِ حُرَّةً كَانَتْ أَوْ أَمَةً وَ عَلَى أَيِّ وَجْهٍ كَانَ النِّكَاحُ مِنْهُ مُتْعَةً أَوْ تَزْوِيجاً أَوْ مِلْكَ يَمِينٍ؛ فَالْعِدَّةُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْرا
...”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: اگر متعہ کرنے والا مرجائے تو اس متعے کی عدت کیا ہے؟ فرمایا: چار مہینے دس دن۔ پھر فرمایا: اے زرارہ ! ہر نکاح میں اگر شوہر مر جائے تو عورت پر واجب ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارے خواہ وہ آزاد ہو یا کنیز اور نکاح بھی متعہ ہو یا دائمی یا کنیزی۔”
اس کے علاوہ بھی روایتیں موجود ہیں جو اس حکم پر دلالت کر تی ہیں۔
بلکہ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئےمندرجہ ذیل آیت کے عموم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
(
وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَ يَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشهْرٍ وَ عَشْرًا
...)
“ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں،...”
اگر یہ کہا جائے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی علی بن یقطین کی روایت اس طرح ہے:
“عِدَّةُ الْمَرْأَةِ إِذَا تَمَتَّعَ بِهَا فَمَاتَ عَنْهَا خَمْسَةٌ وَ أَرْبَعُونَ يَوْما
”“کس ی عورت کے ساتھ متعہ کرنے والا مر جائے تو اس عورت کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔”
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص کی وساطت سے حلبی کی نقل کردہ روایت اس طرح ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مُتْعَةً ثُمَّ مَاتَ عَنْهَا مَا عِدَّتُهَا؟ قَالَ: خَمْسَةٌ وَ سِتُّونَ يَوْماً
.”“م یں نے ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے ایک عورت کے ساتھ متعہ کیا اور وہ مر گیا تو اس عورت کی عدت کیا ہوگی؟ فرمایا: پینسٹھ ۶۵ دن۔”
یہ دونوں روایتیں اوپر بیان کردہ روایت کے منافی ہیں۔
تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے : اولاً: یہ دونوں روایتیں ، زرارہ کی روایت صحیحہ سے معارض نہیں ہو سکتیں ؛ کیونکہ ان میں سے پہلی روایت کی سند ، احمد بن ہلال کی وجہ سےقابل اشکال ہے اور دوسری روایت مرسل ہے۔ ثانیا ً: اگر یہ دونوں تام ہوں تب بھی تعارض کی صورت میں زرارہ کی روایت کو ترجیح دی جائے گی ؛ کیونکہ وہ قرآن کے موافق ہے۔
۸ ۔ متعہ سے پیدا ہونے والا بچہ ، شوہر سے متعلق ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے واضحات میں سے ہے۔ اس پر بعض روایتیں دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے جو متعہ کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:
“أَ رَأَيْتَ إِنْ حَبِلَتْ، فَقَالَ: هُوَ وَلَدُهُ
.”“اگر وہ عورت حاملہ ہوجائے تو آپ ؑ ک ی فرماتے ہیں؟ فرمایا: وہ اس کے شوہر کا بچہ ہے۔”
بلکہ اس مقام پر ہمیں کسی خاص روایت کی ضرورت نہیں ہے ؛ کیونکہ پیغمبر اکرم ؐ کا یہ فرمان ہے کہ :
“الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَ لِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ
.”“بچہ شوہر کا ہوگا اور زناکار کے لئے پتھر(سنگسار) ہے۔”
متعے سے پیدا ہونے والے بچے پر ، اولاد کے تمام احکام جاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب شوہر کی اولاد شمار ہوجائے گا تو اس کا لازمہ اس پر اولاد کے تمام احکام کا جاری ہونا ہے؛ کیونکہ اولاد کے عنوان کے لئے ثابت تمام احکام کی دلیلوں کے اطلاق میں یہ بچہ بھی شامل ہوگا۔
۹ ۔ متعہ کرنے والی عورت کے مستحق نفقہ نہ ہونے کی دلیل: صاحب جواہر نے اس حکم پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔
اور شیخ بحرانی ؒنے ان ادلہ کے ذریعے اس پر استدلال کیا ہے جو کہتی ہیں کہ متعہ والی عورت کو نہ طلاق دی جاتی ہے اور نہ وہ وارث بنتی ہے ، وہ صرف ایک مزدور ہے۔ شیخ بحرانی فرماتے ہیں: “ یہ بات واضح ہے کہ اجیر کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے۔”
جبکہ شیخ بحرانی ؒ کے لئے مناسب یہ تھا کہ ہشام بن سالم کی روایت سے بھی استدلال کرتے۔ وہ روایت یوں ہے:
“قلت لابی عبد اللّه علیه السلام: اتزوج المراة متعة مرة مبهمة، فقال: ذلک اشد علیک ترثها و ترثک ولا یجوز لک ان تطلقها الا علی طهر و شاهدین، قلت: اصلحک اللّه فکیف اتزوجها؟ قال: ایاما معدودة بشیء مسمی مقدار ما ترضیتم به، فاذا مضت ایامها کان طلاقها فی شرطها ولا نفقة ولا عدة لها علیک
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کیا میں کسی عورت سے ایک بار مبہم متعہ کر سکتا ہوں؟ فرمایا: یہ تمہارے اوپر زیادہ سخت ہوگا وہ تم سے ارث پائے گی اور تم اس کو طلاق بھی نہیں دے سکتے جب تک وہ پاک نہ ہو اور دو گواہ بھی نہ ہوں۔ عرض کیا: اللہ آپ کا بھلا کرے ! پس میں کیسے اس کے ساتھ شادی کروں؟ فرمایا: چند معین دنوں کے لئے اور ایک مقدار مہر کے ساتھ جس پر تم دونوں راضی ہوں۔ پس جب یہ ایام گزر جائیں تو شرط کے تحت اس کی طلاق ہوجائے گی تم پر اس کا کوئی نفقہ بھی نہیں اور نہ اس کی عدت ہے۔”
اس روایت کی دلالت تو واضح ہے ؛مگر یہ کہ اس کی سند موسی بن سعدان اور عبد اللہ بن قاسم پر مشتمل ہے جن کی وثاقت ثابت نہیں ہے؛ لیکن شیخ بحرانی ؒ کے مبنا کے مطابق ایسے اشکالات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
متعہ والی عورت کا نفقہ واجب نہ ہونے کے کی یہی دو دلیلیں ہیں جبکہ دونوں کی حالت آپ دیکھ رہے ہیں۔
اس مسئلے پر یوں استدلال کرنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ مسئلہ عموما پیش آنے والے مسائل میں سے ہے ؛ لہذا اس کا حکم اصحاب کے نزدیک واضح ہونا ضروری ہے۔ اگر نفقہ واجب ہوتا تو روایات اور اصحاب کے کلام میں اس کا ذکر ہوتا جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ؛ لہذا نفقہ واجب ہونے کا احتمال نہیں دیا جا سکتااور واجب نہ ہونا ہی مطلوب ہے۔
۱۰ ۔ازدواج موقت میں ، شرط کئے بغیر، ایک دوسرے کی وراثت نہ ملنے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے۔
اس سلسلے میں روایات کے تین مجموعے ہیں:
الف)وہ روایات جو بغیر کسی تفصیل کے وراثت نہ ملنے پر دلالت کرتی ہیں ۔
ب) وہ روایات جو شرط رکھنے کی وجہ سے وراثت ملنے پر دلالت کرتی ہیں۔
ج)وہ روایات جو وراثت ملنے پر دلالت کرتی ہیں بشرطیکہ نہ ملنے کی شرط نہ رکھی ہو۔
پہلے مجموعے کی مثال، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“...وَ لَا مِيرَاثَ بَيْنَهُمَا فِي الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا فِي ذَلِكَ الْأَجَلِ
.”“اگر متعہ ک ی مدت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو ان کے درمیان کوئی میراث نہیں ہوگی۔”
دوسرے مجموعے کی مثال، حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ ہے:
“تَزْوِيجُ الْمُتْعَةِ نِكَاحٌ بِمِيرَاثٍ وَ نِكَاحٌ بِغَيْرِ مِيرَاثٍ، إِنِ اشْتَرَطَتْ كَانَ وَ إِنْ لَمْ تَشْتَرِطْ لَمْ يَكُنْ
.” “متعہ ک ی شادی میں ایک نکاح وراثت کے ساتھ ہے اور ایک نکاح بغیر وراثت کے۔ اگر وراثت کی شرط رکھی جائے تو ملے گی اور اگر شرط نہیں رکھی تو نہیں ملے گی۔”
تیسرے مجموعے کی مثال، محمد بن مسلم کی موثق روایت ہے:
“سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ مُتْعَةً: إِنَّهُمَا يَتَوَارَثَانِ إِذَا لَمْ يَشْتَرِطَا، وَ إِنَّمَا الشَّرْطُ بَعْدَ النِّكَاحِ
.”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے متعہ کیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر انہوں نے شرط نہیں رکھی ہے تو وہ ایک دوسرے سے میراث پائیں گے اور شرط تو نکاح کے بعد ہوتی ہے۔”
بشرطیکہ شرط سے مراد وراثت نہ ملنے کی شرط ہو۔ لیکن شرط سے مراد مدت معین نہ کرنا ہو تو یہ روایت موضوع بحث سے مطابقت نہیں رکھتی ؛ لہذا تیسرے مجموعہ روایات کو اس فہرست سے خارج کرنا ضروری ہوگا۔
رہی بات تعارض کی تو صرف دوسرے اور تیسرے مجموعے کے درمیان تعارض ہوگا ؛ کیونکہ پہلا مجموعہ مطلق ہونے کی حیثیت سے کسی جانب جھکاؤ نہیں رکھتا اور بعد والے دونوں مجموعوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اس کو مقید کیا جا سکتا ہے۔
بعد والے دونوں مجموعے، شرط رکھنے کی صورت میں وراثت ثابت ہونے پر متفق ہیں لیکن شرط نہ رکھنے کی صورت میں باہم متعارض ہیں۔ دوسرا مجموعہ وراثت نہ ملنے اور تیسرا مجموعہ وراثت ملنے پر دلالت کرتا ہے۔
جس مقدار میں دونوں متعارض ہیں اسی کی نسبت سے دونوں ساقط ہوجائیں گے اور پہلے مجموعے کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوجائے گا؛ کیونکہ پہلامجموعہ عام فوقانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نتیجتاً شرط رکھنے کی صورت میں وراثت ثابت ہوجائے گی ؛ کیونکہ دونوں مجموعے اس پر متفق ہیں اور شرط نہ رکھنے کی صورت میں وراثت نہیں ملے گی جو پہلے مجموعے کے اطلاق سے تمسک کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
اس طرح ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جو مشہور فتویٰ کے مطابق ہے۔
۱۱ ۔ ازدواج موقت میں طلاق نہ ہونے ؛بلکہ مدت ختم ہوتے ہی میاں بیوی میں جدائی ہونے کی دلیل: یہ حکم ان احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اور دلیل نمبر ۴ میں مذکور ہاشمی کی روایت سمیت بعض دوسری روایتیں اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں۔
اگر شوہر باقیماندہ مدت ، عورت کو بخش دے تو بھی صحیح ہے اور عورت اس سے جد اہو جائے گی۔ یہ حکم بھی انہی احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس پر بعض روایت دلالت کر رہی ہیں جن میں سےا یک علی بن رئاب کی روایت صحیحہ ہے:
“كَتَبْتُ إِلَيْهِ أَسْأَلُهُ عَنْ رَجُلٍ تَمَتَّعَ بِامْرَأَةٍ ثُمَّ وَهَبَ لَهَا أَيَّامَهَا قَبْلَ أَنْ يُفْضِيَ إِلَيْهَا أَوْ وَهَبَ لَهَا أَيَّامَهَا بَعْدَ مَا أَفْضَى إِلَيْهَا هَلْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيمَا وَهَبَ لَهَا مِنْ ذَلِكَ؟ فَوَقَّعَ علیه السلام:لَا يَرْجِعُ
.”“م یں نے کتابت کے ذریعے ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے کسی عورت کے ساتھ متعہ کیا تھا پھر عورت کے علم میں لائے بغیر باقیماندہ مدت اسے بخش دی یا اس کو بتاکر بخش دی ۔ کیا وہ اس معاف کردہ مدت کے حوالے سے رجوع کرسکتا ہے؟ تو امام ؑ نے جواب میں لکھا: رجوع نہیں کر سکتا۔”
یہ روایت کہہ رہی ہے کہ مدت کو معاف کرنے کا جواز ایک طے شدہ مسئلہ ہے اور سوال صرف رجوع کے جواز کے بارے میں کیا گیا ہے۔
اس روایت کا مُضمَرہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جو امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتے۔
۱۲ ۔اہل کتاب کے علاوہ دوسری کافر عورتوں سے ازدواج موقت جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم کی وہی دلیل ہے جو عقد دائمی کی بحث میں گزر چکی ہے۔
____________________