دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ) مؤلف:
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: مشاہدے: 11470
ڈاؤنلوڈ: 3280

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11470 / ڈاؤنلوڈ: 3280
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب زکات

زکات کن چیزوں پر واجب ہوتی ہے؟

زکات نو چیزوں پر واجب ہوتی ہے :تین جانوروں پر:(۱ ۔ اونٹ ۲ ۔گائے ۳ ۔ بھیڑ )نقدی پر :(۴۔ سونا ۵۔ چاندی )غلات پر(۶ ۔گیہوں ۷ ۔جو ۸ ۔کھجور ۹ ۔ کشمش)

دلائل:

۱ ۔ فضیل(۵۳) کی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اورحضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ كُلِّهِمْ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الزَّكَاةَ مَعَ الصَّلَاةِ فِي الْأَمْوَالِ وَ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ ص فِي تِسْعَةِ أَشْيَاءَ وَ عَفَا عَمَّا سِوَاهُنَّ فِي الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْإِبِلِ وَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ وَ الْحِنْطَةِ وَ الشَّعِيرِ وَ التَّمْرِ وَ الزَّبِيبِ وَ عَفَا عَمَّا سِوَى ذَلِك "(۵۴)

"ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }زرارہ ، محمد بن مسلم ، ابو بصیر ، برید بن معاویہ عجلی اور فضیل بن یسار سے اور یہ سب حضرات حضرت امام محمد باقر علیہ السلام و حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : خدا وند عالم نے نماز کے ساتھ ساتھ مال میں بھی زکوۃ فرض کی ہے اور حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نو چیزوں میں مقرر کی ہے ۔ اور وہ چیزیں یہ ہیں ۱ ۔ سونا ، ۲۔ چاندی ، ۳ ۔ اونٹ ، ۴ ۔ گائے ،بھینس ، ۵ ۔ بھیڑ، بکری ، ۶ ۔ گندم ، ۷ ۔ جو ، ۸ ۔ کھجور ، ۹ ۔ خشک انگور ۔ اور ان کے علاوہ باقی چیزوں سے زکات معاف کی گئی ہے

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔

اور اس روایت کے مقابلے میں محمد بن مسلم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنِ‏ الْحَرْثِ مَا يُزَكَّى مِنْهَا قَالَ ع الْبُرُّ وَ الشَّعِيرُ وَ الذُّرَةُ وَ الدُّخْنُ وَ الْأَرُزُّ وَ السُّلْتُ وَ الْعَدَسُ وَ السِّمْسِمُ كُلُّ هَذَا يُزَكَّى وَ أَشْبَاهُه "(۵۵)

ترجمہ " محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان ( حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام صادق علیہ السلام میں سے ایک امام )سے سوال کیا کہ کن دانوں سے زکوۃ دی جاتی ہے ؟ فرمایا : گندم ، جو ، مکئی ، باجرا ، چاول ، بے چھلکے کے جو ، مسور اور تل یہ سب اور ان جیسے دانوں کی زکوۃ دی جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا دو روایتوں میں ظاہری طور پر ٹکراؤ پایا جاتاہے۔ لیکن ان دونوں روایتوں کواس طرح سے جمع کیا جاسکتاہے کہ دوسری حدیث کو استحباب پر حمل کردیا جائے(یعنی پہلی والی روایت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں ہیں کہ جن میں زکوۃ واجب ہے ۔ جب کہ دوسری روایت میں وہ چیزیں بیان کی گئی ہیں کہ جن میں زکواۃ مستحب ہے۔)

زکات کے عام شرائط :

زکات واجب نہیں ہوتی مگر یہ اس میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جاتی ہیں :

۱۔مال کا مالک بالغ ہو۔

۲۔ عاقل ہو۔

۳۔ آزاد ہو

۴۔ مالک ہو۔

۵۔ مال کے استعمال کرنے پر قادر ہو۔

۶۔ مال حد نصاب تک پہنچ گیا ہو ۔

زکات واجب ہونے کی شرائط اور ان کے دلائل

۱۔ بالغ ہو

نقدین یعنی سونے اورچاندی میں "بالغ" ہونے کی شرط متفق علیہ ہے ۔جبکہ ان کے علاوہ باقی میں اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔

بلوغ کے مطلقا ( چاہے زکوۃ ہو یا زکوۃ کے علاوہ دیگر واجبات ، چاہے سونا چاندی ہو یا ان کے علاوہ دیگر اشیاء پر) شرط ہونے کو ممکن ہے کہ حدیث " رفع قلم " سے بھی ثابت کیا جا سکتاہے۔ اور جن لوگوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ حدیث رفع "احکام تکلیفیہ" کے ساتھ خاص ہےاور احکام وضعیہ کو شامل نہیں ہوتا ہے حدیث رفع کا طلاق پر دلالت کرنے کے بعد کوئی اس دعوی کی وجہ پائی نہیں جاتی ہے ۔

(اشکال : یہ حدیث اہل سنت سے نقل ہوئی ہے اور یہ استدلال کے قابل نہیں ہے )

جواب: اس حدیث کی سند کے ضعف کا جبران اس حدیث پر عمل کرنے کی شہرت سے ہوجاتاہے۔اوراس کی دلیل "قاعدہ کبری الانجبار"(۵۶) ہے جیساکہ مشہور ہے۔

۲۔عاقل ہو

عقل کے شرط ہونےکے لیے دو دلیلیں ہیں :

ا ۔ عقل کو ثابت کرنے لیے حدیث رفع(رفع القلم)(۵۷) کافی ہے یعنی پاگل پر زکات واجب نہیں ہے

ب ۔ اگر حدیث رفع سے چشم پوشی کریں تو قاصر مقتضی کے لیے زکات کے دلائل کافی ہیں کیونکہ وجوب زکات حکم تکلیفی پر دلالت کرتے ہیں پس پاگل پر زکات واجب نہیں ہوتی ہے

اور اس بات کی توجیہ اس طرح سے کرنا کہ یہاں بچے اورمجنون کے مال پر زکوۃ واجب ہے اور اب ان کے مال سے زکات نکالنا ان کے سرپرست اورولی کی ذمہ داری ہے۔ توجیہ کا جواب یہ ہے بچے اورمجنون کے سرپرست کے لئے اس قسم کے حکم اور تکلیف میں شک ہے ۔ اور جب اصل تکلیف میں شک ہو تو وہاں اصالۃ البراۃ جاری ہوتی ہے( لہذا یہاں پر بھی یہ جاری ہوگی اورحکم دیا جائے گا کے ان کے ولی اور سرپرست پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہے۔)

۳۔ آزاد ہو

غلام پر زکات واجب نہیں ہے اس کی دلیل عبد اللہ بن سنان کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

"عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ وَ أَنَا حَاضِرٌ عَنْ مَالِ الْمَمْلُوكِ أَ عَلَيْهِ زَكَاةٌ فَقَالَ لَا وَ لَوْ كَانَ‏ لَهُ أَلْفُ أَلْفِ دِرْهَمٍ وَ لَوِ احْتَاجَ لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنَ الزَّكَاةِ شَيْ ء"(۵۸)

ترجمہ: "عبداللہ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک غلام ہے اور اس کے پاس کچھ مال ہے آیا اس پر زکوۃہے ؟ فرمایا : نہیں ۔ پھر عرض کیا : آیا اس کے مالک پر ہے ؟ فرمایا : نہیں اگرچہ "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔

یہ قول اس پر مبنی ہے کہ غلام مالک ہو ا جیساکہ مروی صحیح سے ظاہر ہے اور اگر مالک نہ ہو تو پس مسئلہ روشن ہے ۔

یہ بات اس صورت میں درست ہے اگرغلام کو مالک مانا جائے جیساکہ مذکورہ روایت کے ظاہر سے بھی یہی سمجھ آتا ہے اور اگر اس دلیل کو نہیں مانے تو زکات غلام پر واجب

نہیں ہوتی ہے کیونکہ غلام کا مالک ہونا ثابت ہی نہیں تو زکات کس طرح واجب ہوگی ۔

۴ ۔ مالک ہو

زکات کے واجب ہونے میں سے ملکیت کی شرط مسلمات میں سےہے یعنی مکلف تین جانوروں کا (اونٹ، گائے ، بھیڑ) اور غلات کا(گیہوں ،جو ،کھجور ،کشمش)اور نقدی مال کا(سونا، چاندی) مالک ہو تب اس پر زکات واجب ہو گی پس اسی بنآپ ر مندرجہ ذیل موارد میں زکات واجب نہیں ہوتی ہے ۔

ا۔واھب جس شخص نے ھبہ کیا ہو اور موھوب جس کو ہبہ دیا ہے اس نے ہبہ والی چیز کوقبضے میں نہیں لیا ہے تو اس صورت میں زکات واجب نہیں ہوتی ہے مثال کے طور پر کسی شخص نے گذشتہ سال چالیس بکریاں ھبہ کی تھیں اور جس شخص کو ھبہ کی تھیں اس نے قبول بھی کیا تھا لیکن ابھی تک جس نے ھبہ کیا تھا اس کو وہ بکریاں نہیں دی ہیں پس جس کو ھبہ دیا ہے وہ مالک نہیں ہوا ہے تو اس صورت میں ھبہ دینے والے پر زکات واجب ہوتی ہے۔

ب ۔ اگر کوئی (موصی بہ )وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد (موصی لہ )فلان شخص کو وہ باغ دے دینا اور اس شخص نےایک سال گذرنے کے بعد بھی وصیت کو قبول نہیں کیا ہے تو اس صورت میں جس کو وصی بنایا ہے اس پر زکات واجب نہیں ہے کیونکہ ابھی تک وصی مالک نہیں ہے ۔

ج ۔ مباحات عامہ وہ مال ہے جس کا کوئی مالک نہیں ہے "مثال کے طور پر صحراء میں بہت زیادہ حیوانات اور کھجور کے درخت موجود ہیں اور ان کا کوئی مالک نہیں ہے" پس اس صورت ان تمام اموال پر زکات واجب نہیں ہو گی

د ۔ وقف شدہ چیزوں پر زکات واجب نہیں ہوتی ہے " مثال کے طور پر اگر کوئی شخص باغ کو دوسروں کے لیے وقف کرے تو جن کے لیے وقف کیا ہے ان پر زکات واجب نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے مالک نہیں ہیں اور جو کچھ باغ میں ہے وہ وقف کرنے والے کے لیے ہے" پس اس پر زکات واجب ہے جس نے وقف کیا ہے

ملکیت کے شرط کے لیے دو دلیل بیان کی گئی ہیں :

ا ۔ قران پاک میں ملکیت کے شرط کے لیے آیت میں ذکر کیا گیا ہے جیساکہ خدا وندہ منان ارشاد فرماتے ہیں:

( خُذْ مِنْ أَمْوَالهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ ) (۵۹)

ترجمہ :"(اے رسول)آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے،اس کے ذریعے آپ انھیں پاکیزہ اور با برکت بنائیں"

ظاھرا مال کاعنوان (اموالھم)اس صورت میں صادق آتا ہے جب مال کی ملکیت شخص کے لیے ہو ۔

ب ۔ اگر کوئی مال کسی کی ملکیت نہ ہو اور شک کرے کہ اس پر زکات واجب ہے یا نہیں تو اس صورت میں اصل براءت کا قاعدہ جاری ہو گا یعنی اس مال پر زکات واجب نہیں ہے کیونکہ حکم میں شک کرنا موضوع کے شک کرنے کا باعث بنتا ہے ۔

۵۔تصرف کی قدرت

مال میں تصرف کی قدرت کی شرط مسلمات میں سے ہے پس اسی بنا ءپر اموال شبیہ ومشکوک پر زکات واجب نہیں ہوتی ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

ا ۔ وہ مال جو کسی نے چوری کیا ہوہے اور معلوم نہیں ہو ہے کہ ابھی وہ مال کہاں ہے اگرچہ ابھی تک اس چوری کے مال کی ملکیت باقی ہو ہے ۔

ب ۔ اگر اموال کسی اور کےپاس ہاتھ میں ہے اور مالک حقیقی کو بھی جانتا ہوہے لیکن اس شخص کے پاس کوئی گواہ وغیرہ نہیں ہوہے کہ ثابت کرئے کہ یہ مال اس کا ہے جس کے پس مال ہے وہ شخص اس کی ملکیت سے انکار کر رہا ہے جیساکہ زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے موثق روایت ہے :

زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ‏ قَالَ‏: فِي‏ رَجُلٍ‏ مَالُهُ‏ عَنْهُ‏ غَائِبٌ لَا يَقْدِرُ عَلَى أَخْذِهِ قَالَ فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَخْرُجَ فَإِذَا خَرَجَ زَكَّاهُ لِعَامٍ وَاحِدٍ فَإِنْ كَانَ يَدَعُهُ مُتَعَمِّداً وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَى أَخْذِهِ فَعَلَيْهِ الزَّكَاةُ لِكُلِّ مَا مَرَّ بِهِ مِنَ السِّنِينَ "(۶۰)

ترجمہ :" زرارہ حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا : جس کا مال غائب ہو کہ جب تک اسے آپ نا مال وآپ س نہ مل جائے تب تک اس پر زکوۃ نہیں ہے اور جب مل جائے تو صرف ایک سال کی زکوۃ ادا کرے گا اور اگر وہ اس غائب مال کو وآپ س لینے پر قدرت رکھتا تھا مگر عمدا نہیں لیا تو پھر ہر سال کی زکوۃ ادا کرے گا "

شیخ طوسی نے روایت ابن فضال کی کتاب سے نقل کیا ہے شیخ طوسی اور ابن فضال کے درمیان ۳۰۰ سال کا فاصلہ ہے اور سند کو کتاب مشایخ اور کتاب تھذیب میں لائی ہے اور یہ سند علی بن محمد بن زبیر پر مشتمل ہے جو کہ موثق نہیں ہے پس روایت قابل استدلال نہیں ہے مگر یہ کہ مشایخ نے علی بن محمد بن زبیر سے روایت نقل کرنے کی اجازت دی ہے بس ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ اس روایت کو ثقہ جانے کیونکہ اجازت ایسے افراد سے ہے اگر ثقہ نہ جانے تو یہ لغو وفضول ہے ۔

زکات کا نصاب :

پس اگرچہ یہ شرائط عمومی میں سے ہے مگر بے شک اختلاف کمیت میں ہے کہ جن چیزوں پر زکات واجب ہوتی ہے پس ابھی شرائط خصوصی سے بحث کرتے ہیں ۔

حیوانات پر زکات واجب ہونے کی شرائط

حیوانات پر زکات واجب ہونا عمومی شرائط کے بعد ہے اور شرائط خصوصی مندرجہ ذیل ہیں :

ا۔ اونٹ کے بارہ نصاب پائے جاتےہیں ۔

۱ ۔پانچ اونٹوں پر ایک عدد بھیڑ

۲ ۔دس اونٹوں پر دو عدد بھیڑیں۔

۳ ۔ پندرہ اونٹوں پر تین عدد بھیڑیں۔

۴ ۔ بیس اونٹوں پر چار عدد بھیڑیں ۔

۵ ۔ پچیس اونٹوں پر پانچ عدد بھیڑیں۔

۶ ۔ چھبیس اونٹوں پر ایک (بنت مخاص )اونٹ کا بچہ جس کا ایک سال کامل ہو اور دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہو ۔

۷۔ چھتیس اونٹوں پر ایک (بنت لبون )اونٹ کا بچہ جس کا دو سال کامل ہو اور تیسرے سال میں داخل ہو گیا ہو۔

۸۔ چھتالیس اونٹوں پر یک (حقہ)اونٹ جس کا تین سال کامل ہو اور چوتھے سال میں داخل ہو گیا ہو ۔

۹۔ اکسٹھ اونٹوں پر ایک(جذعہ)اونٹ جوکہ پانچویں سال میں داخل ہو گیا ہو۔

۱۰۔ چھتر اونٹوں پر دو بنت لبون ۔

۱۱۔ ایکانوے اونٹوں پر دو حقہ۔

۱۲۔ ایک سو ایکیس اونٹوں میں سے ہر ایک پچاس پر ایک حقہ اور ہر ایک چالیس پر ایک بنت لبون زکات موجود ہے ۔

ب۔ گائے کے دو نصاب ہیں :

۱۔ تیس گائے پر ایک تبیع (وہ گائے جو کہ دوسرے سال میں داخل ہو)۔

۲۔ چالیس گائے پر ایک مسنہ(وہ گائے جو کہ تیسرے سال میں داخل ہو )۔

اگر ان دو نصابوں سے زیادہ ہو تو معاف ہے کیونکہ اس کے لیے ممکن ہے کہ ان دو نصابوں کے ذریعے سےحساب کرے اور جو دو نصابوں کے دومیان فاصلہ ہے اگر نصاب بعدی تک نہیں پہنچا تو تب بھی زکات معاف ہے۔

ج۔ بھیڑکے پانچ نصاب ہیں :

۱۔ چالیس بھیڑیں پر ایک بھیڑ زکات ہے۔

۲۔ ایک سواکیس بھیڑ وں پر دو بھیڑیں زکات ہیں ہے۔

۳۔ دوسو ایک بھیڑوں پر تین بھیڑیں زکات ہیں۔

۴۔ تین سو ایک بھیڑ وں پر چار بھیڑ یں زکات ہیں ہے۔

۵۔ چار سو اور اس سے زیادہ ہو تو ہر ایک سو کیلئے ایک بھیڑ زکات ہے ۔

ب۔ پورا ایک سال صحراء میں چرا ہو ۔

ج۔ اونٹ اور گائےپورا سال بیکار رہا ہو ۔

د۔ ایک مکمل سال مالک کے پاس رہا ہو اور مذکورہ بالا تمام شرائط بھی پائے جاتے ہوں :

دلائل

۱۔ اونٹ کے نصاب کےبارے میں زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَيْسَ‏ فِيمَا دُونَ‏ الْخَمْسِ‏ مِنَ‏ الْإِبِلِ‏ شَيْ‏ءٌ فَإِذَا كَانَتْ خَمْساً فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عَشَرَةٍ فَإِذَا كَانَتْ عَشْراً فَفِيهَا شَاتَانِ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسَةَ عَشَرَ فَفِيهَا ثَلَاثٌ مِنَ الْغَنَمِ فَإِذَا بَلَغَتْ عِشْرِينَ فَفِيهَا أَرْبَعٌ مِنَ الْغَنَمِ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْساً وَ عِشْرِينَ فَفِيهَا خَمْسٌ مِنَ الْغَنَمِ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةٌ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَ ثَلَاثِينَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنْ زَادَتْ عَلَى خَمْسٍ وَ ثَلَاثِينَ بِوَاحِدَةٍ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَ أَرْبَعِينَ فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةٌ فَفِيهَا حِقَّةٌ وَ إِنَّمَا سُمِّيَتْ حِقَّة "(۶۱)

ترجمہ {حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }زرارہ سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : پانچ اونٹوں سے کم تر پر کوئی چیز واجب نہیں ہے ۔ ہاں البتہ جب پانچ ہو جائیں تب ان میں ایک بکری واجب ہے اور دس ( نو) تک ایک رہے گی ۔ اور جب دس ہو جائیں تو ان میں دو بکریاں واجب ہیں بعد ازاں پندرہ (چودہ ) تک دو رہیں گی اور جب پندرہ ہو جائیں تو تین بکریاں اور بیس میں چار اور جب پچیس(۲۵) ہو جائیں تو پانچ بکریاں واجب ہوں گی اور جب ایک عدد کا اضافہ ہو جائے ( یعنی چھبیس(۲۶) ہو جائیں تو پینتیس(۳۵) تک ایک 'بنت مخاص ' ( وہ اونٹ کا بچہ جو دوسرے سال میں داخل اور اس کی ماں حاملہ بننے کے قابل ہو ) واجب ہو گی اور اگر اس کے پاس بنت مخاص نہ ہو تو پھر نر ابن لبون اور جب ان میں ایک عدد کا اضافہ ہو جائے (چھتیس ہو جائیں ) تو پینتالیس(۴۵) تک تو ایک بنت لبون واجب ہو گی ۔ اور اگر ان میں ایک عدد کا اضافہ ہو جائے ( چھیا لیس بن جائیں تو ) ساٹھ ( ۶۰) تک ایک حقہ ( چوتھے سال میں داخل ہو اور حاملہ ہونے کے لائق ہو )واجب ہو گی اور اسے حقہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اب وہ سواری کے لائق ہو گئی ہے اور حاملہ ہونے کے بھیاور اگر اس میں ایک عدد کا اور اضافہ ہو جائق ( اکسٹھ(۶۱) ہو جائیں ) تو بچھتر(۷۵) تک ایک جذعہ ( جو پانچویں سال میں داخل ہو اور جس کے اگلے دانت گر جائیں )واجب ہو گی اور اگر اس میں ایک عدد کا اضافہ ہو جائے(چھتر(۷۶) ہو جائیں ) تو نوے(۹۰) تک دو بنت لبون واجب ہو گی ۔ اور اگر اس میں ایک عدد کا ہو جائے ( اکانویں (۹۱ ) اور ہو جائے ) تو پھر ایک سو بیس تک دو حقہ واجب ہو گی اور اگر ایک سو بیس پر ایک عدد کا اضافہ ہو جائے (ایک سو اکیس ہو جائیں ) اور اس کے بعد جس قدر زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس عدد پر ایک حقہ اور ہر چالیس میں ایک بنت لبون واجب ہو گی "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مگر صحیح فضیل(۶۲) میں زکات کی نصاب میں اختلاف پچیس اور چھبیس میں پایا جاتا ہے جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا فِي‏ صَدَقَةِ الْإِبِلِ‏ فِي‏ كُلِ‏ خَمْسٍ‏ شَاةٌ إِلَى‏ أَنْ‏ تَبْلُغَ‏ خَمْساً وَ عِشْرِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ ذَلِكَ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ وَ لَيْسَ فِيهَا شَيْ‏ءٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْساً وَ ثَلَاثِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْساً وَ ثَلَاثِينَ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ ثُم "(۶۳)

ترجمہ : "فضیل حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اونٹوں کی زکوۃ کے سلسلہ میں فرمایا : ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے یہاں تک کہ پچیس اونٹ ہو جائیں تو پھر ایک بنت مخاص ( وہ اونٹی کا بچہ جو ایک سال کامل کا ہو ، اور دوسرے سال میں داخل ہو ) ، پھر زائد میں کچھ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ پنتیس(۳۵) تک پہنچ جائے جب اتنی ہو جائیں تو ان میں ایک بنت لبون

( جو تیسرے سال میں داخل ہو )

زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت اس طرح نقل ہوئی ہے :

"فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْساً وَ عِشْرِينَ فَفِيهَا خَمْسٌ مِنَ الْغَنَمِ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةٌ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَ ثَلَاثِين "(۶۴)

ترجمہ : "(جب پچیس(۲۵) ہو جائیں تو پانچ بکریاں واجب ہوں گی اور جب ایک عدد کا اضافہ ہو جائے ( یعنی چھبیس(۲۶) ہو جائیں تو پینتیس(۳۵) تک ایک 'بنت مخاص ' ( وہ اونٹ کا بچہ جو دوسرے سال میں داخل اور اس کی ماں حاملہ بننے کے قابل ہو ) واجب ہو گی ا) "

پس چھبیس اونٹوں پر ایک بنت مخاص زکات ہے

اور فضیل(۶۵) کی حضرت امام علیہ السلام سے مروی صحیح روایت اس طرح نقل ہوئی ہے :

"أَنْ‏ تَبْلُغَ‏ خَمْساً وَ عِشْرِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ ذَلِكَ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ وَ لَيْسَ فِيهَا شَيْ‏ءٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْساً وَ ثَلَاثِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْساً وَ ثَلَاثِينَ "(۶۶)

ترجمہ :" (جب پچیس(۲۵) ہو جائیں تو پانچ بکریاں واجب ہوں گی اور جب ایک عدد کا اضافہ ہو جائے ( یعنی چھبیس(۲۶) ہو جائیں تو پینتیس(۳۵) تک ایک 'بنت مخاص)"

پس پچیس سے پینتیس تک ایک بنت مخاص زکات ہے اور یہاں تک نظر پہنچ جاتی ہے کہ صحیح فضلاء کی عبارت (و زادت واحدہ)اس عبارت کے بعد ساقط ہے اور اسی طرح روایت کے اخر تک ہے

۲۔ فضیل کی صحیح روایت گائے کے نصاب پر بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا فِي‏ الْبَقَرِ فِي‏ كُلِ‏ ثَلَاثِينَ‏ بَقَرَةً تَبِيعٌ حَوْلِيٌّ وَ لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ شَيْ‏ءٌ وَ فِي أَرْبَعِينَ بَقَرَةً مُسِنَّةٌ وَ لَيْسَ فِيمَا بَيْنَ الثَّلَاثِينَ إِلَى الْأَرْبَعِينَ شَيْ‏ءٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا بَقَرَةٌ مُسِنَّةٌ وَ لَيْسَ فِيمَا بَيْنَ الْأَرْبَعِينَ إِلَى السِّتِّينَ شَيْ‏ءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ السِّتِّينَ فَفِيهَا تَبِيعَانِ إِلَى السَّبْعِينَ فَإِذَا بَلَغَتِ السَّبْعِينَ فَفِيهَا تَبِيعٌ وَ مُسِنَّةٌ إِلَى الثَّمَانِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ ثَمَانِينَ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ إِلَى تِسْعِين‏ "(۶۷)

ترجمہ : "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ فضیل} حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ہر تیس گایوں میں ( جو گائے کا پہلا نصاب ہے جبکہ کل دو ( ۲) ہیں اور اس سے کم پر کچھ نہیں ہے ) ایک تبیع ( ایک سال سے دو سال تک کا بچھڑا ) واجب اور ہر چالیس گایو ں میں ( جوکہ دوسرا نصاب ہے ) ایک مسنہ ( وہ بچھڑا جو دو سال کا ہو اور تیسرے سال میں داخل ہو یا تبیعہ ایک سال سے دو سال تک کی بچھڑی ) اور تیس و چالیس کے درمیان ( ۹ گایوں )پر کچھ نہیں ہے ۔ ہاں چالیس میں ایک مسنہ ہے پھر چالیس کے بعد ساٹھ تک ( ۱۹ گایوں پر ) پر کچھ نہیں ہے ۔ ہاں جب ساٹھ ہو جائیں تو ان میں دو تبیع ہیں پھر ستر تک ( نو گایوں پر کچھ نہیں ہے ) ہاں جب پورے ستر ہو جائیں تو ان میں ایک تبیع اور ایک مسنہ ہے پھر اسی ( ۸۰ ) تک (۰ ۹ )گایوں پر کچھ نہیں ہے ) ہاں جب اسی ( ۸۰ ) مکمل ہو جائیں تو پھر ہر چالیس میں ایک مسنہ ہے( یعنی کل دو مسنے ہیں )بعد ازاں نوے تک ( ۹۰ )گایوں پر کچھ نہیں ہے )"

۳۔ فضیل(۶۸) کی صحیح روایت بھیڑ کے پانچ نصاب پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ روایت بھی حضرت ا مام صادق علیہ السلام سے منقول ہے اور امام علیہ السلام فرماتے ہیں :کہ

"أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي الشَّاءِ فِي‏ كُلِ‏ أَرْبَعِينَ‏ شَاةً شَاةٌ وَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ الْأَرْبَعِينَ شَيْ‏ءٌ ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْ‏ءٌ حَتَّى تَبْلُغَ عِشْرِينَ وَ مِائَةً فَإِذَا بَلَغَتْ عِشْرِينَ وَ مِائَةً فَفِيهَا مِثْلُ ذَلِكَ شَاةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَةٍ وَ عِشْرِينَ فَفِيهَا شَاتَانِ وَ لَيْسَ فِيهَا أَكْثَرُ مِنْ شَاتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ فَإِذَا بَلَغَتِ الْمِائَتَيْنِ فَفِيهَا مِثْلُ ذَلِكَ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى الْمِائَتَيْنِ شَاةٌ وَاحِدَةٌ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْ‏ءٌ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى تَبْلُغَ ثَلَاثَمِائَةٍ فَإِذَا بَلَغَتْ ثَلَاثَمِائَةٍ فَفِيهَا مِثْلُ ذَلِكَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةٌ فَفِيهَا أَرْبَعُ شِيَاهٍ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَمِائَةٍ فَإِذَا تَمَّتْ أَرْبَعُمِائَةٍ كَانَ عَلَى كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ "(۶۹)

ترجمہ: "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ فضیل }حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے بکریوں کے متعلق فرمایا : ہر چالیس بکریوں میں ( جوکہ بکری کے پانچ نصابوں میں سے پہلا نصاب ہے )زکوۃ میں ایک بکری واجب ہے اور چالیس سے کم پر کچھ نہیں ہے ۔ اسی طرح چالیس کے بعد ایک سو بیس تک مزید کچھ نہیں ہے بلکہ وہی ایک بکری ہے ۔ ہاں جب اس میں ایک بکری کا اضافہ ہو جائے اور ایک سو اکیس ہو جائیں ( جوکہ ایک دوسرا نصاب ہے )تو پھر دو ( ۲ ) بکریاں واجب ہیں ۔ پھر دو ( ۲ ) سو تک مزید کچھ واجب نہیں بلکہ یہی دو بکریاں واجب ہیں ۔ ہاں البتہ جب اس میں ایک بکری کا اضافہ ہو جائے یعنی دوسوایک ہو جائیں (جوکہ تیسرا نصاب ہے )تو اس میں تین بکریاں واجب ہیں ۔ پھر تین سو تک مزید کچھ واجب نہیں بلکہ یہی تین بکریاں ہیں ۔ ہاں جب اس میں ایک کا اضافہ ہو جائے یعنی تین سو ایک ہو جائیں ( جوکہ چوتھا نصاب ہے ) تو پھر چار بکریاںواجب ہیں جو چارسو بکریوں تک باقی رہیں گی ۔اس کے بعد جب مکمل چارسو ہو جائیں تو پھر ہر سو بکری پر ایک بکری واجب ہو گی "

لیکن محمد بن قیس کی صحیح روایت بھیڑ کے چار نصاب پر دلالت کرتی ہے جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"انها اذا بلغت ثلاثمأة و کثرت ففي کل مأة شاة "(۷۰)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }محمد بن قیس سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ہاں جب ان مین ایک کا اضافہ ہو جائے یعری تین سو تک تین بکریاں ہیں ۔ اور بعد ازاں جب بکریان زیادہ ہو جائیں تو پھر ہر ایک سو بکری میں ایک بکری واجب ہو گی "

پس اس روایت کا لازمہ بھیڑ کے پانچ نصاب سے انکار ہے پس اس بنا پر فضیل کی صحیح روایت کے مطابق ۳۰۱ سے لے کر ۴۹۹ تک چار بھیڑ زکات واجب ہے لیکن محمد بن قیس کی صحیح روایت کے مطابق ۳۰۰ سے لے کر ۴۹۹ تک تین بھیڑ زکات ہے اور اگر ان دو روایتوں کے درمیان تعرض مستقر ہو تو ان کو جمع کرنے سے دلالت ممکن نہ ہو توپس اس صورت میں

مناسب ہے کہ روایت محمد بن قیس کو چھوڑ دیں کیونکہ تقیہ کےموفق ( اہل سنت ) ہے۔

۴ ۔ اونٹ اور گائے سے کام لیا گیا ہو تو اس صورت میں زکات واجب نہیں ہے جس پر فضلاء فضل کی حضرت امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا لَيْسَ‏ عَلَى‏ الْعَوَامِلِ‏ مِنَ‏ الْإِبِلِ‏ وَ الْبَقَرِ شَيْ‏ءٌ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ عَلَى السَّائِمَةِ الرَّاعِيَة "(۷۱)

ترجمہ "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ فضیل }حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےاونٹوں کی زکوۃ والی حدیث کے ضمن میں فرمایا : وہ حیوانات ( اونٹ و گائے ) جن سے کام لیا جائے ان پر زکاۃ نہیں ہے بلکہ صرف ان حیوانات پر ہے جو خود چراگاہ میں چریں۔ "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

پس فقط ان جانوروں پر زکات واجب ہے جو چرنے کے لیے جاتے ہیں ۔

۵ ۔ اگر حیوان پورا سال مالک کی ملکیت نہ ہو یعنی وہ حیوان بارہ مہینے میں داخل نہ ہو تو اس صورت میں مالک پر زکات واجب نہیں ہے پہلے والی روایت صحیح بھی اسی کے بارے میں ہے اور جیساکہ امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ كُلِّهِمْ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا لَيْسَ عَلَى الْعَوَامِلِ مِنَ الْإِبِلِ وَ الْبَقَرِ شَيْ‏ءٌ إِلَى أَنْ قَالَ وَ كُلُ‏ مَا لَمْ‏ يَحُلْ‏ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ فَلَا شَيْ‏ءَ عَلَيْهِ فِيهِ فَإِذَا حَالَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ وَجَبَ عَلَيْهِ "(۷۲)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }فضیل بن یسار سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا: وہ اونٹ یا گائے جن سے بار برداری یا پانی کھینچنے یا ہل چلانےکا کام لیا جائے ان پر کچھ زکات وغیرہ نہیں ہے ۔ اور ہر وہ حیوان جسے مالک کے پاس سال نہ گزرے اس پر بھی کچھ نہیں ہے ہاں جب سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوۃ واجب ہو جائے گی "

اس کس علاوہ دوسری روایات بھی اس پ دلالت کرتی ہیں ۔

نقدی مال (سونا و چاندی)پر زکات واجب ہونے کے شرائط

نقدی مال پر زکات واجب ہونے کے لیےشرائط عمومی کے ساتھ ساتھ شرائط خصوصی بھی لازمی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

سونے کا نصاب

ا ۔ سونے (دینار) کا پہلانصاب بیس مثقال ہے اور بیس کے بعد ہر چار پر ایک نصاب ہے اور مقدار واجب ۱/۴۰مثقال سونا ہے اور چاندی کا پہلا نصاب دو سو درہم ہے اور دو سو کے بعد ہر چالیس درہم ایک نصاب ہے اور مقدار واجب ۱/۴۰ مثقال چاندی ہے ۔

ب ۔وہ سکہ (سونا و چاندی)جو بازار میں کسب ومعاملے میں رائج ہوں ۔

ج ۔ وہ مال جو مالک کے پاس ایک سال (یعنی بارویں مہینے میں داخل ہو)پڑا ہوا ہو ۔

دلائل

۱۔ دینار (سونے) کا نصاب بیس مثقال سے شروع ہوتا ہے اور ہر چار دینار جو اضافہ ہو جائے تو وہ بعدوالی نصاب میں داخل ہو جائے گا اور زکات کی مقدار ۱/۴۰ہے اور اس پر دس سے زیادہ روایاتیں پائی جاتی ہیں جیساکہ علی بن عقبہ کی اور بعض ہمارے اصحاب میں سے حضرت مام باقر علیہ السلام اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"لَيْسَ‏ فِيمَا دُونَ‏ الْعِشْرِينَ‏ مِثْقَالًا مِنَ الذَّهَبِ شَيْ‏ءٌ فَإِذَا كَمَلَتْ عِشْرِينَ مِثْقَالًا فَفِيهَا نِصْفُ مِثْقَالٍ إِلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِينَ فَإِذَا كَمَلَتْ أَرْبَعَةً وَ عِشْرِينَ فَفِيهَا ثَلَاثَةُ أَخْمَاسِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِيَةٍ وَ عِشْرِينَ فَعَلَى هَذَا الْحِسَابِ كُلَّمَا زَادَ أَرْبَعَةً "(۷۳)

ترجمہ:"علی بن عقبہ اور دیگر چند راوی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا:بیس مثقال سونے سے کم تر پر زکوۃ واجب نہیں ہے ۔ اور جب پورے بیس مثقال ہو جائے تب نصف مثقال زکوۃ واجب ہے ۔ بعد ازاں جب تک چوبیس مثقال نہ ہو جائیں تو اس زائد مقدار پر زکوۃ نہیں ہے ۔ ہاں جب پورے چوبیس مثقال ہو جائیں تو اس میں ایک مثقال کے۳/۵ زکوۃ واجب ہے پھر جب تک اٹھائیس مثقال مکمل نہ ہو جائیں تب تک زائد مقدار پر کچھ نہیں ۔ پس اٹھائیس مثقال پر زکوۃ ہے اور اس کے بعد ہر چار مثقال پر زکوۃ ہے (اس سے کم پر نہیں ہے )

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

دینار شرعی اٹھارہ چنے کے دانے کےوزن کے برابر ہے اور ۱/۴ و بیس مثقال پر آدھا دینار زکات ہے اگر چار مثقال اضافہ ہوجائیں تو اس کی زکات ۳/۵ ہو گی ۱/۱۰ + ۱/۴+۲۰= ۱/۲

لیکن ان دس روایتوں کے مقابلے میں اور روایات بھی ہیں جوکہ پہلے نصاب کو چالیس دینار مانتے ہیں جیساکہ فضیل(۷۴) کی حضرت امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"فِي‏ الذَّهَبِ‏ فِي‏ كُلِ‏ أَرْبَعِينَ‏ مِثْقَالًا مِثْقَالٌ إِلَى أَنْ قَالَ وَ لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِينَ مِثْقَالًا شَيْ‏ءٌ "(۷۵)

ترجمہ :" فضیل بن یسار سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا:سونے کی ہر چالیس مثقال ( دینار ) میں ایک مثقال زکوۃ ہے ۔ اور چالیس مثقال سے کم پر کوئی چیز نہیں ہے "

ان دو طرح کی روایاتوں کو آپ س میں جمع کرنا یہ ہے کہ ظاہر کو نص پر حمل کرتے ہیں اس صورت میں کہ ان کے درمیان میں دلالت جمعی موجود ہو یعنی دوسری روایتیں ۲۰ سے ۴۰ دینار تک زکات کے واجب نہ ہونے کے قائل ونص وصریح ہے اور پہلی دس روایتیں زکات کے واجب ہونے کے بارے میں ظہور رکھتی ہیں لیکن اس حمل کا لازمہ یہ اتا ہے کہ حدفاصل ۲۰ سے ۴۰ تک کے درمیان اول روایت میں (ففیھا نصف مثقال) ایک سے زیادہ معنی میں استعمال ہو کیونکہ ضروری ہے کہ حد فاصل ۲۰ سے ۴۰ دینار کے درمیان تک استحباب کے قائل ہوں اور ۴۰ دینار سے زیادہ واجب کے قائل ہو جائیں تو ان کے درمیان عرف میں دلالت جمعی نہیں ہے اور دونوں روایتوں کا ایک دوسرے پر حمل کرنا محال ہے پس اس بنآپ ر ان کے درمیان ابتدائی تعرض نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان ثابت و مستقر ہے کیونکہ مستقر تعارض میں ایک کو ترجیح دینا ' سنت قطعی پر موافقت ہے پس اول روایت سنت قطعی ہے اس کو مقدم و ترجیح دی گئی ہے اور دوسری روایت کو بعید جانا گیا ہے ۔

چاندی کا نصاب

۲ ۔چاندی کا نصاب اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ { ۲۰۰ درھم (چاندی )سے کم پر زکات نہیں ہے اگر ۲۰۰ درھم تک پہنچ جائے تو اس صورت میں ۵ درھم زکات واجب ہے اور یہی مقدار ہے چاہے جتنا زیادہ ہو جائے اور ۲۴۰ درھم سے کم پر بھی ۵درھم زکات واجب ہے اور اگر ۲۴۰ درھم سے زیادہ ہو جائے تو ۶ درھم زکات واجب ہو جائے گی}زرارہ اور بکیر ابن اعین کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"فِي‏ الزَّكَاةِ إِلَى أَنْ قَالَ لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ شَيْ‏ءٌ فَإِذَا بَلَغَ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ وَ لَيْسَ فِي مِائَتَيْ دِرْهَمٍ وَ أَرْبَعِينَ دِرْهَماً غَيْرَ دِرْهَمٍ إِلَّا خَمْسَةُ الدَّرَاهِمِ فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ وَ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا سِتَّةُ الدَّرَاهِمِ فَإِذَا بَلَغَتْ ثَمَانِينَ وَ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا سَبْعَةُ الدَّرَاهِمِ وَ مَا زَادَ فَعَلَى هَذَا الْحِسَابِ وَ كَذَلِكَ الذَّهَبُ وَ كُلُّ ذَهَبٍ الْحَدِيث "(۷۶)

ترجمہ: "زرارہ امامین علیہما السلام میں سے ایک امام علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا : چاندی جب تک دو سو درہم تک نہ پہنچ جائے اس پر کچھ نہیں ہے ۔ ہاں جب دو سو تک پہنچ جائے تو اس میں پانچ درہم زکوۃ ہے اور جب اس سے بڑھ جائے تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم ہے اور ہر دہائی سے زائد مقدار ( انتالیس ) پر کچھ نہیں ہے "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس ٹر دلالت کرتی ہیں ۔

۳ ۔ وہ سکّہ (سونا و چاندی)جو بازار میں کسب ومعاملے میں رائج ہوں جیساکہ علی بن یقطین کی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"علي بن يقطين عن أبي إبراهيم‏ يَجْتَمِعُ‏ عِنْدِيَ‏ الشَّيْ‏ءُ الْكَثِيرُ قِيمَتُهُ فَيَبْقَى نَحْواً مِنْ سَنَةٍ أَ نُزَكِّيهِ فَقَالَ لَا كُلُّ مَا لَمْ يَحُلْ عِنْدَكَ عَلَيْهِ حَوْلٌ فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهِ زَكَاةٌ وَ كُلُّ مَا لَمْ يَكُنْ رِكَازاً فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهِ شَيْ‏ءٌ قَالَ قُلْتُ وَ مَا الرِّكَازُ قَالَ الصَّامِتُ الْمَنْقُوشُ ثُمَّ قَالَ إِذَا أَرَدْتَ ذَلِكَ فَاسْبِكْهُ فَإِنَّهُ لَيْسَ فِي سَبَائِكِ الذَّهَبِ وَ نِقَارِ الْفِضَّة شَيْ‏ءٌ مِنَ الزَّكَاة "(۷۷)

ترجمہ: " {حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }علی بن یقطین سے روایت

کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے پاس بہت سارا مال قریبا سال تک پڑا رہتا ہے ۔ آیا اس کی زکوۃ دوں ؟ فرمایا : نہ جب تک پورا سال نہ گزر جائے اور جب تک وہ رکاز نہ ہو اس پر کوئی چیز نہیں ہے راوی نے عرض کیا کہ رکاز کیا ہے ؟ فرمایا : وہ سونا چاندی جس پر سکہ نقش ہو پھر فرمایا کہ اگر اس سے بیچنا چاہو تو اسے پگھلا دو کیونکہ سونے چاندی کے پگھلے ہوئے ٹکڑوں پر زکوۃ نہیں ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

پس اسی بنآپ ر ہمارے زمانے میں سونا و چاندی پر زکات نہیں ہے کیونکہ بازار میں سونا وچاندی کے سکّوں پر معاملات رائج نہیں ہیں ۔

۴ ۔ وہ مال جو مالک کے پاس ایک سال (یعنی بارویں مہینے میں داخل ہو) سےپڑا ہوا ہو اس پر زکات واجب ہو گی اس پر دلیل علی بن یقطین کی مروی صحیح روایت مندرجہ بالا موجود ہے۔

غلّات پر زکات واجب ہونے کے شرائط

غلّات(گیہوں،جو،کھجور، کشمش) پر زکات واجب ہونے کے لیے شرائط عمومی کے ساتھ ساتھ شرائط خصوصی بھی لازمی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

ا ۔ ان کے نصاب کی مقدار پانچ وسق(اونٹ کا بار) ہے اور ہر وسق ۶۰ صاع کے برابر ہے اور اس کا وزن ۸۴۷ کلو گرام کے برابر ہے جبکہ زکات کی واجب مقدار ۱/۲۰ غلّات ہے

اگر زراعت کو موٹر وغیرہ سے ابیاری کی گئی ہو اور اس کے علاوہ زکات کی واجب مقدار ۱/۱۰ہے ۔

ب ۔ غلّات پر زکات اس وقت واجب ہو گی جب اس شخص کی ملکیت ثابت ہو اگرچہ اس شخص نے خود کاشت نہیں کیا(زراعت کو خریدا ہو ) ہو البتہ زکات کے واجب ہونے کے وقت میں اختلاف ہے ۔

دلائل

زمین سے اگنے والی چیزوں کے بارے میں دو قسم کی روایات پائی جاتی ہیں ۔

ا ۔ وہ روایت کہ جس میں نصاب کےپانچ وسق بیان کئےگئےہیں جو کہ ۳۰۰ صاع کے برابر ہیں ۔

ب ۔ اور وہ روایت جس میں نصاب کے ۶۰ صاع بیان کئےگئے ہیں ۔

{ایک وسق ۶۰ صاع کے برابر ہے اور ہر صاع ۱۱۷۰ درھم کے برابر ہے اور ہر درھم ۷/۱۰مثقال شرعی کے برابر ہے اور ہرمثقال شرعی ۳/۴مثقال صیرفی کے برابر ہے اور ہر مثقال صیرفی ۴/۶ گرام کے برابر ہے پس غلّات کا تقریبا ۶۶/۸۴۷کلو گرام ہے }

۱۔ وہ دلائل جو نصاب کی مقدار پردلالت کرتی ہیں وہ زیادہ روایات ہیں جو کہ دس سے بھی زیادہ ہیں جیساکہزرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع‏مَا أَنْبَتَتِ الْأَرْضُ مِنَ الْحِنْطَةِ، وَ الشَّعِيرِ، وَ التَّمْرِ، وَ الزَّبِيبِ مَا بَلَغَ خَمْسَةَ أَوْسَاقٍ، وَ الْوَسْقُ: سِتُّونَ صَاعاً فَذَلِكَ ثَلَاثُمِائَةِ صَاعٍ، فَفِيهِ الْعُشْرُ، وَ مَا كَانَ فِيهِ يُسْقَى بِالرِّشَاءِ، وَ الدَّوَالِي، وَ النَّوَاضِحِ، فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَ مَا سَقَتِ السَّمَاءُ، أَوِ السَّيْحُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا، فَفِيهِ الْعُشْرُ تَامّاً، وَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ الثَّلَاثِمِائَةِ صَاعٍ شَيْ‏ءٌ، وَ لَيْسَ فِيمَا أَنْبَتَتِ الْأَرْضُ شَيْ‏ءٌ، إِلَّا فِي‏ هَذِهِ‏ الْأَرْبَعَةِ أَشْيَاء "(۷۸)

ترجمہ: {حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }زرارہ سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : جو گندم ، جو ، خرما اور انگور زمین سے اگتے ہیں ۔ اور بمقدار پانچ وسق ہو جائیں جبکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور یہ ہوئے تین سو صاع تو اس میں دسواں حصہ زکوۃ کا ہے اور جو اجناس رسیوں ( چھوٹے ڈولوں سے )اور ان سے بڑے ڈولوں سے جنہیں بیل یا اونٹ کھینچتے ہیں سیراب کئے جائیں ان سے بیسواں حصہ واجب ہو گا اور جو اجناس بارش کے پانی سے یا آب جاری سے سیراب ہوں یا جن کوپانی سے سے سیراب نہ کیا جائے بلکہ آپ نی آپ نی زیر زمین جڑوں سے تراوٹ حاصل کریں ان سے دسواں حصہ واجب ہو گا ۔ اور تین سو صاع سے کم ترمقدارپر کچھ نہیں ہے اور جو فصلیں زمین سے اگتی ہیں ان میں سوائے ان چار اجناس میں اور کسی چیز میں زکوۃ واجب نہیں ہے "

اور یہ حکم اوپر والی روایت کے مطابق ہے اوراس کے مقابلے میں حلبی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ فِي‏ كَمْ‏ تَجِبُ‏ الزَّكَاةُ مِنَ الْحِنْطَةِ وَ الشَّعِيرِ وَ الزَّبِيبِ وَ التَّمْرِ قَالَ فِي سِتِّينَ صَاعا "(۷۹)

ترجمہ: "عبید اللہ حلبی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ گندم ، جو ، انگور اور خرما کی کتنی مقدار پر زکوۃ واجب ہے ؟ فرمایا : ساٹھ صاع پر "(۸۰)

اور اگر ان دونوں روایاتوں کے درمیان عرفا جمع کرنا ممکن ہو تو دوسری روایت کو استحباب پر حمل کریں گے اور اس پر عمل کرنا ہو گا اور اگر ان کو عرفا جمع کرنا ممکن نہ ہو تو ان کے درمیان تعرض وجود میں آئی گی اور اس صورت میں لازمی ہے کہ دوسری قسم کی روایات کو چھوڑ دیں کیونکہ پہلی قسم کی روایاتیں زیادہ ہیں اور قطعی سنت کو تشکیل دیتے ہیں لہذا دوسری قسم کی روایاتیں قطعی سنت کی مخالفت میں ہیں پس ان کو چھوڑ دینا چاہیے۔

پس اسی بنآپ ر ان دو روایاتوں کے درمیان تعرض ثابت و مستقر ہے اور پہلی روایت ترجیح رکھتی ہے کیونکہ اس طرح کی روایات زیادہ ہیں اور سنت قطعی ہے اور دوسری روایت کو بعید جانا گیا ہے ۔

غلات پر زکات واجب ہونے کی مقدار

۲ ۔ غلّات پر زکات واجب ہونے کی مقدار ۱/۲۰ و ( ۱)/۱۰ہے جس پر دلیل روایت زرارہ جو کہ اوپر بیان ہوئی چکی ہے ۔

۳ ۔ ملکیت کی دو قسمیں ہیں :

ا ۔ زراعت کے ذریعے سےملکیت کا حاصل ہونا ۔

ب ۔ خرید وفروخت کے ذریعے سے ملکیت کا حاصل ہونا ۔

زکات کے واجب ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ زراعت کے ذریعے سے مالک ہوا ہو پس زکات دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ زکات کے واجب ہونے کے وقت مالک ہو یعنی گیہوں اور جو پک جائے ' اور کھجور پیلے اور سرخ ہو جائیں ' اور کشمش یعنی انگور کچے ہوں اس وقت مالک ہو اور مالک ہونا زراعت کے وقت اور جو پکنے وپیلے وسرخ و انگور کے غورے کے بعد ہوتو زکات واجب نہیں ہے پس ضروری نہیں ہے کہ کاشت کاری کے وقت یا کھجور اور انگور کا مالک ہو پس اسی بنآپ ر اگر پکنے سے پہلے زراعت کی خریداری کرے تو زکات خریدار پر واجب ہو گی اور اگر اس کے علاوہ ہو تو زکات فروخت کرنے والے پر واجب ہو گی اور غلّات کو ےکاشت کرنے سے زکات واجب نہیں ہوتی ہے اس شرط کے نہ ہونے پر تنہا دلیل اجماع ہے اور روایات بھی عمومیت کے ثابت ہونے سے قاصر ہے کیونکہ اس مقام بیان پر نہیں ہے کہ اطلاق و عمومیت کو ثابت کرے جس پر تمام مسلمین کا اتفاق ہے۔

۴ ۔ زکات کے واجب ہونے میں مشہور اس بات کے قائل ہیں ہکہ جب گیہوں وجو پک جائیں اور کھجور پیلے یا سرخ ہو جائیں اور کشمش کا غورہ بن جائے تو اس وقت زکات واجب ہو گی لیکن بعض{صاحب کتاب عروۃ الوثقی محقق طباطبائی یزدی }کہتے ہیں کہ گیہوں و جو کے پکنے کے وقت کو زکات کے واجب ہونے کو نہیں جانا گیاہے بلکہ{ محقق} نے کہا ہے کہ جب گیہوں وجو پر عرف عام میں عنوان صدق آ جائے تو زکات واجب ہو گی اور روایت میں بھی عنوان صدق بیان ہوا ہے اور کھجور پر عنوان پھل صدق آ جائے یعنی پھل کھانے کے قابل ہوں جو کہ وہی کھجور کے پیلے وسرخ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور کشمش میں بھی فقط عنوان انگور صدق آ جائے۔

اشکال :

اگر معیار و میزان صدق عنوان ہو تو پھر کیوں کشمش پر زکات واجب ہونے کے لیے انگور کے غورے کے پیدا ہونے کا وقت بیان کیا ہے مگر ورایت میں کشمش کا ذکر ہے ۔

جواب : زکات کے واجب ہونے کا دارو مدار انگور کے عنوان کا صدق ہونا ہے اگرچہ کشمش کا عنوان نصاب کے تحقق ہونے کے لیے ملاک ہے یعنی انگور کشمش ہو جائے اور پانچ وسق ہو تو اس صورت میں زکات واجب ہو گی کیونکہ سلیمان بن خالد کا مفاد بھی اسی طرح ہے جیساکہ امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے

"لَيْسَ‏ فِي‏ النَّخْلِ‏ صَدَقَةٌ حَتَّى‏ يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسَاقٍ وَ الْعِنَبُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يَكُونَ خَمْسَةَ أَوْسَاقٍ زَبِيباً "(۸۱)

ترجمہ : سلیمان بن خالد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : خرما میں زکات نہیں ہے جب تک پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے اور یہی حکم انگوروں کا ہے جب تک خشک ہو کر پانچ وسق(۸۲) کو نہ پہنچ جائیں "

پس زکات کے واجب ہونے کا وقت اور نصاب کے مقدارتک پہنچے کے وقت کے علاوہ ہے۔

زکات کے مستحقین

زکات کے مصارف مندرجہ ذیل ہیں :

۱'۲ ۔ فقیر ومسکین :مسکین کی حالت فقیر سے بدتر ہے اگر فقیر احتیاج کا دعوی کرے اوراس کے دعوی پرپہلے علم ہو یا اطمینان حاصل ہو تو اس کی تصدیق جائے گی اور اس کو فقیر شمار کیا جائے گا اگرچہ اس کے بارے میں بچپن سے جانتے اور اس کے بارے میں اطلاع نہ ہو کہ ابھی بے نیاز ہو گیا ہے جیساکہ غالبااسی طرح ہے ۔

۳ ۔ وہ لوگ جو زکات کے جمع کرتے ہیں اور ان کا حساب کرتے اور مستحقین تک زکات پہنچاتے ہیں اور اسی طرح بہت سے امور جن کو انجام دینا ان پر لازمی کیے گئے ہیں پر مامور ہوں اورزکات کے مامورین کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں ہے ۔

۴ ۔ وہ مسلمان جن کا عقیدہ ایمان اسلام کےبارے میں ضعیف ہو تاکہ ان زکات دینے سے عقیدہ اسلام کی تقویت کا سبب بنے اور کہا گیا کہ کافروں کو بھی شامل ہوتی ہے اگر زکات دینے سے اسلام کی محافظت کریں اور اسلام کی طرف رغبت پیدا کریں ی یا کافروں سے جھاد کرے ۔

۵ ۔ غلام کو زکات دے سکتے ہیں تاکہ آپ نے آپ کو ازاد کروائے ۔ اورغلام مکاتب ہے یا غیر مکاتب اور مکاتب ہونے کی صورت میں مکاتب مطلق ہے یا مشروط ا ۔ تمام صورتوں میں مال کی طرف محتاج ہے تاکہ آزاد ہو جائے اگرچہ دین کی خاطر ہو یاسختی میں زندگی بسر کر رہا ہویا فقط آزاد ہونے کے لیے مال کی طرف محتاج ہو ۔

۶ ۔ وہ مقروض جو آپ نا قرضہ اداء کرنے سے عاجز ہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ زکات کو معصیت میں استعمال نہ کرے ۔

۷ ۔ زکات کا استعمال کرنا تمام اعمال خیر میں جس میں خیر میں اور فقط جھاد کے ساتھ خاص نہیں ہے

۸ ۔ ابن سبیل کو دینا یعنی وہ مسافر جس کے پاس توشہ راہ تمام ہو گیا ہو ۔

زکات کے مصرف اور دلائل

۱ ۔ زکات کے استعمال کو محدود کرنا ان چیزوں میں جن کا ذکر ہو چکا ہے جس پر دلیل قرآن مجید کی آیت ہے جیساکہ خدا وندعالم فرماتے ہیں :

( إِنَّمَا الصَّدَقَتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسَاكِينِ وَ الْعَمِلِينَ عَلَيهْا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبهُُمْ وَ فىِ الرِّقَابِ وَ الْغَرِمِينَ وَ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيم ) (۸۳)

ترجمہ :"یہ صدقات تو صرف فقیروں ' مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اوران کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی ازادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا ' حکمت والا ہے "

یہ آیت زکات کے استعمال ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

۱۔۲ فقیر اور مسکین

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسکین کی حالت فقیر سے بدتر ہے جیساکہ محمد بن مسلم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"الْفَقِيرِ وَ الْمِسْكِينِ فَقَالَ الْفَقِيرُ الَّذِي‏ لَا يَسْأَلُ‏ وَ الْمِسْكِينُ الَّذِي هُوَ أَجْهَدُ مِنْهُ الَّذِي يَسْأَلُ "(۸۴)

ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امامین علیہما السلام میں سے ایک امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ فقیر اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟ ( اور ان میں باہمی فرق کیا ہے ) ؟ فرمایا : فقیر وہ ہے جو سوال نہیں کرتا ۔ مگر مسکین وہ ہے جو اس سے زیادہ مشقت میں ہے اس لیے وہ سوال کرتا ہے "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مسکین اور فقیر میں فرق

مسکین کی حالت فقیر سے بدتر ہے کیونکہ فقیر وہ ہے جو گدائی نہیں کرتا ہے لیکن مسکین وہ ہے جو فقیر سے زیادہ تلاش کرتا ہے اور لوگوں سے مدد کی درخواست کرتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر لفظ فقیر ومسکین جملے میں استعمال ہوئےہوں تو اس کے معنی میں اختلاف ہو گا اور اگر جملے میں استعمال نہ ہوں تو اس کا مفہوم عام ہے دونوں کو شامل ہو جاتی ہیں

۲ ۔ اگر کوئی شخص فقیر ہونے کا دعوی کرے تو اس کا یہ دعوی دو دلیلوں سے ثابت ہو گا اور اس کو زکات دی جائے گی

ا ۔ اگر اطمینان ہو جائے کہ فقیر سچ کہہ رہا ہے کیونکہ اطمینان حجت عقلائی ہے اور شارع نے بھی اس سے منع نہیں کرتاہے پس فقیر کا دعوی قبول کیا جائے گا ۔

ب ۔ اور اگر اس کے دعوی پر اطمینان حاصل نہیں ہو تو اس صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا کیونکہ اکثر وغالبا افراد تولد کے وقت فقیر ہوتے ہیں اور ان کے پاس کوئی مال ومتاع نہیں ہوتا ہے اور اگر شک کریں کہ اس کا فقر غنی ہونے میں تبدیل ہوا ہے یا نہیں ؟ تو صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا تو اس صورت میں اس کا فقر ہونا ثابت ہو جائے گا ۔

۳ ۔ عاملین

جس کی تفسیر جس کا معنی ذکر ہو چکا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ لفظ کے ظاہرپر اعتماد کیا ہے جوکہ اطلاق ہے اور اس دلیل کے واسطے سے روشن ہو جائے گا کہ عاملین کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں ہے اس دلیل کے علاوہ ممکن ہے کہ اس عاملین کے مقابلے میں اور الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں اور اس کو قرینہ مقابلے کے ذریعے سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور عاملین کو جدا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

۴ ۔مولفۃ قلوبہم

آیت کی تفسیر میں "ولمؤلفة قلوبهم " سے مراد مسلمان لیا گیا ہے { مستحقین کون سے لوگ ہیں ؟ ایا وہ لوگ ہیں جن کا ایمان ضغیف ہے یا وہ لوگ جو کافر ہیں لیکن ان کے قلوب نرم کرنے کے لیے زکات دیتے ہیں تاکہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں یا وہ لوگ جو کافر ہیں لیکن مسلمانوں کی دفاع کرتے ہیں یا مسلمانوں کے نفع کے لیے کفار سے جھاد کرتے ہیں }جوکہ بعض روایات کی وضاحت کی مدد سے حاصل ہوتی ہے جیساکہ

زرارہ کی حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

"زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ‏ قَالَ هُمْ قَوْمٌ وَحَّدُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ خَلَعُوا عِبَادَةَ مَنْ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ ص وَ هُمْ‏ فِي‏ ذَلِكَ‏ شُكَّاكٌ‏ فِي‏ بَعْضِ‏ مَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ ص فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِيَّهُ ص أَنْ يَتَأَلَّفَهُمْ بِالْمَالِ وَ الْعَطَاءِ لِكَيْ يَحْسُنَ إِسْلَامُهُم (۸۵)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } زرارہ سے روایت بیان کرتے ہیں اور وہ حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کوتے ہیں ہیں کہ میں نے اس ایت (وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) کے بارے میں امام علیہ السلام سوال کیا ؟ فرمایا : سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کی توحید کے تو قائل تھے اور خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کا جو آپ نی گردنوں سے اتار پھینکا تھا مگر ابھی ان کے دلوں میں یہ معرفت داخل نہیں ہوئی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تالیف قلب کرتے تھے ان کو پڑھاتے لکھاتے اور معرفی کراتے تھے اور زکوۃ سے ان کو ایک حصہ دیتے تھے تاکہ وہ وہ (اسلام میں ) رغبت کریں اور رسالت کو پہچانیں "

اوراگر روایت کا اختصاص ظاہرا کامل ہو تو اس حالت میں صحیح روایت آیت کے اطلاق پر قید ہو جائے گی لیکن ظاہرا روایت کےاختصاص میں اشکال پایا جاتا ہے لہذا آیت اطلاق پر مستحکم ہے ۔

۵ ۔غلام

غلام کی تفسیر کسی حد تک گذر چکی ہے پس اس پر آیت کریمہ اطلاق کرتی ہے ۔

۶ ۔ مقروض

اگر مقروض قرض دینے سے عاجز ہو جائے تو وہ آپ نا قرضہ زکات سے دے سکتا ہے اگرچہ یہ شرط آیت کے اطلاق ہونے کے مخالف ہے اور عجز کی قید آیت میں بیان نہیں کی گئی ہے اور دوسری دلیلیں ہیں کہ ان کی وجہ سے ہمارایقین ہے کہ عاجز کو زکات حاصل کرنے کے لیے اس میں شرط جانتے ہیں ۔

وہ لوگ جو معصیت کے کاموں کی وجہ سے مقروض ہوئے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں ۔

ا ۔ وہ لوگ جنہوں نے معصیت کی ہے لیکن توبہ نہیں کی تو ان کے لیے زکات کا استعمال آپ نا قرضہ لوٹانے کے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اگر ان کو زکات دی جائے تو ان کی معصیت میں تقویت کا باعث بنتی ہے

ب ۔ وہ لوگ جنہوں نے معصیت کی ہے لیکن توبہ کر لی ہے تو پھر بھی احتیاط ہے کہ زکات کا استعمال نہ کرئے کیونکہ یہ ایک مسئلہ اجتماعی ہے پس ضروری ہے کہ اجماع کی مخالفت نہ کرے پس اسی بنآپ ر چاہے معصیت کرنے والے نے توبہ کی ہو یا نہیں کی ہو تو آپ نا قرضہ لوٹانے کے لیے زکات نہیں لے سکتا ہے۔

۷ ۔اللہ کی راہ

اللہ کی راہ میں تمام اعمال خیر میں زکات دینا اور یہ جھاد کے ساتھ خاص نہیں ہے جس پر آیت (انما الصدقات ) اطلاق کے ساتھ دلالت کرتی ہے

اشکال :بعض لوگوں نے کہا ہے کہ دو دلیلوں کے ساتھ فی سبیل اللہ سے مراد فقط جھاد ہے

ا ۔ اطلاق ایت میں فی سبیل اللہ جھاد کو شامل ہوتی ہے

ب ۔ اخبار اور روایات ہمارے پاس ہیں جوکہ فی سبیل اللہ کی تفسیر جھاد سے کرتے ہیں پس اسی بنا پر زکات کو جھاد میں استعمال کر سکتے ہیں اور اسلام کی جنگ کافروں کے مقابلے میں زکات کو بھیجا جا سکتا ہے ۔

جواب : یہ تفسیر مستحکم نہیں ہے کیونکہ کثرت استعمال کی اثر کی وجہ سے انصراف حاصل ہوتا ہے اور فی سبیل اللہ فقط جھاد میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ فی سبیل اللہ اور بہت زیادہ موارد میں استعمال ہوا ہے اور اس کے علاوہ جو اخبار و روایات بیان کی گئی ہیں ان کی سند ودلالت ضعیف ہے ۔

۹ ۔ ابن سبیل کو دینا ۔

جس کی تفسیر پہلے ذکر ہوئی ہے (یعنی وہ مسافر جس کے پاس توشہ راہ تمام ہو گیا ہو ) اور یہ اس کا لغوی معنی ہے ۔

مستحقین کے اوصاف

زکات وصول کرنے والے مستحقین کے شرائط مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ ایمان:

پس کافر اور سنی کو زکات نہیں دی جائے گی مگر ان کو (المؤلفة قلوبهم )یعنی دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اور (سبیل الله ) اللہ کی راہ میں دینا لیکن وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ دی جائے گی اور اگر سنی زکات کو غیر مؤمن کو دے لیکن بعد میں وہ شخص ولایت ائمہ کو قبول کرے تو اس صورت میں وہ شخص زکات کو وآپ س پلٹائے گا ۔

۲ ۔ زکات کے مستحق کو اہل معصیت نہیں ہونا چائیے

کیونکہ زکات دینے سے اس کو معصیت کرنے میں تقویت ملتی ہے اور معصیت کار شجاع ہو جاتا ہے ۔

۳ ۔واجب النفقہ نہ ہو

اس شخص کو زکات نہیں دی جائے گی جس کا نفقہ زکات دینے والے کے اوپر واجب ہو کیونکہ جائز نہیں ہے مگر ان موارد میں دیا جا سکتا ہ کہے جن موارد میں نفقہ واجب نہیں ہے ۔

۴ ۔ غیر سید ہو

اگر مستحقُ زکات سیّدہو اور زکات دینے والا غیر سیّد ہو تو اس صورت سیّد کو زکات نہیں دی جائے گی بلکہ سیّد کوسیّد زکات دے سکتا ہے اور سیّد کوواجب زکات دینا غیر سیّد کی طرف سے حرام ہے لیکن سیّد کو مستحب صدقہ وغیرہ دینا جائز ہے سیّد وہ ہے جس کا بآپ فقط سیّد ہو اور اس کی نسبت ہاشمیوں کی طرف دی جائے گی اور یہ نسبت ماں کی طرف سے نہیں ہے اور سیّد ہونا ثابت نہیں ہو گا مگریہ قسم ہو اور اس کے کلام سےاطمینان حاصل ہو ۔

دلائل

۱ ۔ زکات کافر اور سنی کو نہیں دی جائے گی کیونکہ برید بن معاویہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: كُلُ‏ عَمَلٍ‏ عَمِلَهُ‏ وَ هُوَ فِي‏ حَالِ‏ نَصْبِهِ وَ ضَلَالَتِهِ ثُمَّ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ عَرَّفَهُ الْوَلَايَةَ فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ عَلَيْهِ إِلَّا الزَّكَاةَ فَإِنَّهُ يُعِيدُهَا لِأَنَّهُ يَضَعُهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِهَا لِأَنَّهَا لِأَهْلِ الْوَلَايَةِ وَ أَمَّا الصَّلَاةُ وَ الْحَجُّ وَ الصِّيَامُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاء "(۸۶)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }برید بن معاویہ عجلی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کےضمن میں فرمایا : ہر وہ عمل اور کام جو کوئی شخص آپ نی ناصبیت اور گمراہی کے دور میں بجالائے اور پھر خدائے منان اس پر احسان فرمائے اور اسے ولایت ( اہل بیت کی دولت) عطا فرمائے تو اسے سابقہ عہد کے بجالائے ہوئے اعمال پر اجر وثواب ملے گا ۔ سوائے زکوۃ کےکیونکہ وہ اسے بے محل صرف کرتا رہا ہے کیونکہ یہ اہل ولایت کے لیے ہے ( لہذا اس کا اعادہ کرنا پڑے گا ) لیکن نماز وحج اور روزہ کے قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے "

پس اسی روایت کی روح سے کافر کو اولیت کی بناء پر زکات نہیں دی جائے گی ۔

۲ ۔ اہل سنت فقراء کو (الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) میں سےزکات دینا جائزہےکیونکہ(الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) کی تفسیر اہل سنت اور کافر بھی شامل ہو جاتی ہے جیساکہ پہلے کہا گیا ہے ۔

اہل سنت اور کافروں کو سہم (سبیل اللہ ) سے زکات دی جا سکتی ہے لیکن اگر زکات دینا سنی اور کافر کو مؤمن کی مصلحت کے لیے ہو تو یہ ایسا ہے جیساکہ حقیت میں آپ نے مؤمن کو زکات دی ہو ۔

۳ ۔ اور اگر سنّی شیعہ( مستبصر ) ہو جائے تو اس پر واجبات کی قضاء واجب نہیں ہے لیکن اس پر زکات واجب ہےجس پر دلیل برید بن معاویہ کی صحیح روایت ہے جو کہ پہلے ذکر ہو چکی ہے لیکن اگر زکات کو آپ نے لیے استعمال کیا ہو تو اس حالت میں اس پر زکات واجب نہیں ہےکیونکہ زکات کے پلٹانے کی دلیل منتفی ہو چکی ہے اور اس کے علاوہ پہلی والی صحیح روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے ۔

۴ ۔ اور اگر تمام زکات لینے والے مستحقین اہل معصیت ہوں تو ان کو پہلی والی شرط کے مطابق زکات نہیں دی جائے گی کیونکہ زکات دینا نہی از منکر کے وجوب کے خلاف ہے اسی طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کا با عث بنتی ہے اور معصیت کرنے میں ان کو دلیری اور شجاعت ملتی ہے کیونکہ معصّیت پر حوصلہ افزائی دین میں مبغوض اور نا پسندیدہ ہے ۔

۵ ۔ زکات دینا اس مستحق کو جس کا نفقہ اس کے اوپر واجب نہ ہو ا جس پر دلیل عبدالرحمن بن حجاج کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: خَمْسَةٌ لَا يُعْطَوْنَ‏ مِنَ‏ الزَّكَاةِ شَيْئاً الْأَبُ وَ الْأُمُّ وَ الْوَلَدُ وَ الْمَمْلُوكُ وَ الْمَرْأَةُ وَ ذَلِكَ أَنَّهُمْ عِيَالُهُ لَازِمُونَ لَهُ "(۸۷)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } عبدالرحمن بن الحجاج حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : پانچ اشخاص ایسے ہیں جن کو کچھ بھی زکوۃ نہیں دی جائے گی : ۱ ۔ بآپ ۲ ۔ ماں ۳ ۔ اولاد ۴ ۔ مملوک ۵ ۔ بیوی ۔ کیونکہ یہ اس کے ( واجب النفقہ ) عیال ہیں ۔ جو اس کے لیے لازم ہیں "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

لیکن دلیل استثناء یہ ہے جیساکہ انفاق کرنا قرضہ اداء کرنے کے لیے ۔ پس صحیح عبدالرحمن بن حجاج لازم نفقہ کے ساتھ خاص ہے اس کے بعد اطلاقات کے ساتھ تمسک کریں گے { مثلا از باب قرضہ یا سبیل اللہ زکات کو ماں بآپ یا قرضہ ادا کرنے کے لیے یا بآپ کے شادی کے اخراجات یا آپ نے فرزند کےتعلیم حاصل کرنے کے لیے زکات دے جو کہ اطلاقات قرآنی سے ثابت ہے لیکن قرضہ اور تعلیم کے حاصل کرنے کا خرچہ واجب نفقہ کے باب میں سے نہیں ہیں۔}

۶ ۔ مستحق سیّد ہو اور زکات دینے والا غیر سیّدہو تو اس صورت سیّدکو زکات نہیں دی جائے گی جس پر دلیل زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے موثق روایت ہے :

"أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ‏ لَهُ‏ صَدَقَاتُ‏ بَنِي‏ هَاشِمٍ‏ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ تَحِلُّ لَهُمْ فَقَالَ نَعَمْ صَدَقَةُ الرَّسُولِ ص تَحِلُّ لِجَمِيعِ النَّاسِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَ غَيْرِهِمْ وَ صَدَقَاتُ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ تَحِلُّ لَهُمْ وَ لَا تَحِلُّ لَهُمْ صَدَقَاتُ إِنْسَانٍ غَرِيبٍ "(۸۸)

ترجمہ "زرارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آیا بنی ہاشم میں سے بعض کا صدقہ دوسرے بعض کے لیے حلال ہے ؟ فرمایا : ہاں (پھر فرمایا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ تمام لوگوں بنی ہاشم وغیرہ کے لیے جائز ہے اور ان میں سےبعض کے صدقات دوسرے بعض کے لیے جائز ہیں مگر کسی غیر (ہاشمی ) کے صدقات ان کے لیے جائز نہیں ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

۷ ۔واجب زکات فقط سادات پر حرام ہے لیکن مستحب صدقات بلکہ تمام واجب صدقات جیساکہ کفارات اور ردمظالم اور لقطہ(وہ مال جو مل گیا ہو) حرام نہیں ہیں جس پر دلیل اسماعیل بن فضل ہاشمی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے موثق روایت ہے :

"سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ الصَّدَقَةِ الَّتِي‏ حُرِّمَتْ‏ عَلَى‏ بَنِي‏ هَاشِمٍ‏ مَا هِيَ‏ فَقَالَ هِيَ الزَّكَاة "(۸۹)

ترجمہ"اسماعیل بن فضل ہاشمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ وہ صدقہ جو بنی ہاشم پر حرام ہے وہ کون سا ہے ؟ فرمایا : وہ ( لوگوں ) کی زکوۃ ہے راوی نے عرض کیا کہ آیا بنی ہاشم میں سے بعض کا صدقہ دوسرے کے لیے جائز ہے ؟ فرمایا : ہاں "

اور اس کے علاوہ اس دعوے کے ثبوت کے لیے مناسب قصور ہی کافی ہے کیونکہ موثق زرارہ میں صدقات کا لفظ واجب زکات میں انصراف ہے ۔

۸ ۔ اگر زکات غیر سادات کا ہو تو زکات سادات کو نہیں دی جائے گی اور کلام اس میں ہے کہ ہاشمی ہونا ماں کی طرف سے ہو تو ہاشمی ہے یا ہاشمی ہونا بآپ کی طرف سے ہو تو ہاشمی ہونا ثابت ہوگا چاہے اسکی ماں سیدہ ہو یا نہ ہو تو ان تمام صورتوں میں دو نظریے ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

ا ۔ وہ شخص جس کا نہ والد سید ہو اور نہ والدہ سیدہ ہو تو وہ غیر ہاشمی ہے صاحب کتاب حدائق اور سید مرتضی کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جس کا والد سید ہو یا والدہ سیدہ ہو تو وہ شخص ہاشمی ہو گا اور ان کی دلیل یہ ہے (ان ولد البنت ولد ایضا )(۹۰) کہ بیٹی کا بچہ بیٹے کے بچے کی طرح ہے پس جس کی ماں سیدہ ہو تو اس کا بچہ بھی ہاشمی ہو گا پس اس کے لیے لازمی ہے کہ غیر ہاشمی سے واجب زکات نہیں لے ۔

ب ۔ جس کا بآپ ہاشمی ہو تو اس کی نسبت ہاشمی کی طرف دی جائے گی ۔

اول نظریے پر اعتراض کیا گیا ہے اور ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ رسول ص کی بیٹی کی اولاد رسول ص کی اولاد ہیں اور قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کو نسل ابراھیم علیہ السلام سے قرار دیا گیا ہے اگرچہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بآپ نہیں تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرف دینا ماں کی وجہ سے ہے لیکن ہاشمی کا عنوان کلام میں صدق کرتا ہے جب اس کا بآپ ہاشمی ہو کیونکہ عربوں کے درمیان یہ رسم ورواج تھا کہ بیٹوں کی نسبت خاندان کی طرف دی جاتی تھی اور اگر بیٹیوں کی شادی ہوجاتی تو اس کی نسبت شوہر کے خاندان کی طرف دی جاتی تھی کیونکہ بیٹے آپ نے بآپ کے تابع ہوتے تھے جیساکہ بنی تمیم کے عنوان کا صدق کرنا ماں کے عنوان کی طرف سے کافی نہیں ہے ۔

۹ ۔ اگر کوئی سید ہونے کا دعوی کرے تو اس کے دعوے کی تصدیق نہیں کی جائے گی لیکن کاشف الغطاءفرماتے ہیں کہ (قیاسا علی دعوی الفقر حیث تقبل)(۹۱)

ترجمہ ( جس طرح فقیر کا دعوی قبول کیا جاتا ہے اسی طرح ہاشمی ہونے کا دعوی بھی قبول کیا جائے ۔

کاشف الغطاء کے کلام پر دو اشکال ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

ا ۔ فقیر کے دعوی کو ہاشمی کے دعوی کے ساتھ قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ اکثرو غالب انسان شروع سےفقر کے ساتھ مبتلا ہیں اور اگر کوئی شک کرے تو قاعدہ استصحاب جاری ہو گا لیکن ہاشمی کا دعوی اس کے خلاف ہے کیونکہ اول سے مشکوک ہے اور کسی صورت میں ثابت نہیں ہے جب تک کہ شک ہو تو اس صورت میں قاعدہ استصحاب جاری نہیں ہو گا ۔

ب ۔ اگر آپ کا منظور یہ ہو کہ (الانسان ‍ اعرف بحاله )یعنی انسان آپ نے نسب کے بارے میں دوسروں سے زیادہ اگاہ تر ہے پس مسلمان کہ جس نے ہاشمی ہونے کا دعوی کیا ہے اس کا دعوی قبول کیا جائے جسطرح کہ فقیر کا دعوے کی تصدیق کی ہے

جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ آگاہ تر ہونا فقیر کی نسبت سے اور مسلم کی نسبت سے واضح ہے لیکن نسب کی نسبت سے واضح نہیں ہے ۔

۱۰ ۔ ہاشمی ہونا قسم اور اطمینان کے ذریعے سے ثابت ہو گا جس پر پہلے دلیلیں بیان ہو چکی ہیں ۔

زکات کے عام احکام

مالک کے لیے جائز اور صحیح ہے کہ وہ زکات کے مال کو جدا کرے اورالگ رکھے اور زکات کے علاوہ بقایا مال میں تصرف کرے اور معزول( جدا شدہ مال زکات کے لیے ) مال مستحقین کا ہے اور مالک کے ہاتھ میں امانت ہے اور اس کا ضامن بھی نہیں ہو گا زکات کے لیے جدا شدہ مال کو جابجا کرنا اور تبدیل کرنا جائز نہیں ہے اگر مالک مستحق کے مصداق میں خطاء کرے یعنی اس شخص کو زکات دیا ہے اور اعتقاد بھی رکھتا تھا کہ وہ شخص فقیر ہے اور اس کو زکات دے لیکن بعد میں معلوم ہو جائے کہ وہ شخص فقیر نہیں تھا تو اس صورت میں زکات کے مال کو اگر اس شخص کو دیا ہے اور اس نے تلف نہیں کیا ہے تو لازمی ہے کہ اس مال کو وآپ س پلٹائے اور اگر تلف ہو گیا اور اس شخص نے اس مال میں افراط وتفریط نہیں کیا ہے تو اس صورت میں مزکی(زکات دینے والا ) ضامن نہیں ہے بلکہ فقیر ضامن ہے اس شرط کے ساتھ کہ فقیر واقع حال(فقیر کو پتہ تھا کہ جو کچھ لیا ہے وہ زکات ہے اور اس کا مستحق نہیں تھا)سے اگاہ ہے ۔

اگر مزکی نے گمان کیا تو اس کے اوپر زکات واجب ہے اور اس کا گمان غلط تھا لیکن مال کو عنوان زکات فقیر واقعی کو دے دیا ہے اگر یہ مال بعد از دفع فقیر تلف ہو جائے تو اس مال کو زکات کا مال اور زکات دینا حساب نہیں کیا جائے گا جوکہ تمام اموال سے تعلق پیدا کرے گا اور اگر مال باقی ہے تو جائز ہے کہ فقیر کی طرف رجوع کرے اور فقیر سے زکات طلب کرے اور اگر زکات تلف ہو گیا ہو اور فقیر مزکی کے اشتباہ سے واقف نہیں تھا تو فقیر کے لیے جائز ہے کہ اس کے بدل کا مطالبہ کرے ۔

دلائل

۱ ۔ عزل(جدا کرنا) کے دو معانی ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

ا ۔ عزل کا معنی مباح (حکم تکلیفی )ہے کیونکہ مال مالک اور مستحقین کے درمیان مشترک ہے اور تصرف مال مشترک مال میں تصرف جائز نہیں ہے پس مالک حق عزل نہیں رکھتا اور اس کا تصرف کرنا حرام ہے ۔

ب ۔ عزل کا معنی صحت وصحیح(حکم وضعی) ہے اگرچہ جواز عزل مشترک مال میں خلاف قاعدہ ہے لیکن اگر مالک کی ولایت پر دلیل ہو کہ مالک کا تصرف زکات کے مال میں ظاہر ہے اور شارع نے مالک کو ولایت دی ہے کہ زکات کو عزل کرے اور اس کا عزل کرنا صحیح ہےیعنی مال معزول (زکات کے لیے جدا شدہ مال)مال مستحقین ہے اور افراط وتفریط کیے بغیر مال تلف ہو جائے تو مالک ضامن نہیں ہے اور زکات کے معزول کرنے میں فقراء کا معزول مال حق میں تعین و تشخص پیدا کرتا ہے ۔

جیساکہ یونس بن یعقوب کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع زَكَاتِي‏ تَحِلُ‏ عَلَيَ‏ فِي‏ شَهْرٍ أَ يَصْلُحُ لِي أَنْ أَحْبِسَ مِنْهَا شَيْئاً مَخَافَةَ أَنْ يَجِيئَنِي مَنْ يَسْأَلُنِي فَقَالَ إِذَا حَالَ الْحَوْلُ فَأَخْرِجْهَا مِنْ مَالِكَ لَا تَخْلِطْهَا بِشَيْ‏ءٍ ثُمَّ أَعْطِهَا كَيْفَ شِئْتَ قَالَ قُلْتُ: فَإِنْ أَنَا كَتَبْتُهَا وَ أَثْبَتُّهَا يَسْتَقِيمُ لِي قَالَ لَا يَضُرُّكَ (۹۲)

ترجمہ :"یونس بن یعقوب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک مہینہ میں مجھ پر زکوۃ واجب ہو جاتی ہے ۔ آیا اس ارادہ سے اس کی ادائیگی میں دیر کرنا جائز ہے شاید کوئی سائل آ جائے تو میرے پاس کچھ مال موجود ہو ؟ فرمایا : جب سال پورا ہو جائے تو آپ نے مال کی زکوۃ ادا کر( علیحدہ کر) اور اسے کسی چیز سے مخلوط نہ کرے ۔ پھر جس طرح بھی چاہے ادا کرے ۔ راوی نے عرض کیا کہ اگر میں لکھ لوں ( کہ اس قدر زکوۃ میرے ذمہ واجب الاداء ہے ) تو آیا یہ ٹھیک ہے ؟ فرمایا : ہاں یہ چیز ضرر رساں نہیں ہے "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

اب جب مالک کی ولایت عزل پر ثابت ہو گئی اور اس کے اوپر ثمرات و فائدے مرتب ہوتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱ ۔ اگر عزل (زکات کے مال کو جدا کرے )کرے اور معزول زکات کےمال کو تلف کر دے یعنی حق مستحقین کو تلف کر دے ۔

۲ ۔ اور اگر عزل(زکات کے مال کو جدا کرے) نہ کرے اور مال میں سے کچھ تلف ہو جائے تو شرکاء کے اوپر خسارت تقسیم ہو گی فرض کرتے ہیں کہ وہ مال جو زکات سے متعلق ہے مثلا دو میلیون روپے ہے اور زکات ایک لاکھ روپے ہے اگر مالک نے زکات ایک لاکھ روپے کو عزل کیا ہے اور زکات بغیر تفریط کے تلف ہو جائے تو اس مال پر اور زکات نہیں ہے اور تمام خسارت مستحقین کے حق میں ہو گی لیکن اگر مال میں زکات کے لیے عزل (زکات کے مال کو جدا کرے)نہیں کیا ہے اور وہی مقدار یعنی ایک لاکھ روپے تلف ہو گیا ہے تو مستحقین کو پانچ ہزار روپے اور مالک کو ۹۵ ہزار روپے کی خسارت ہو گی لیکن ابھی تک مال میں ۹۵ ہزار روپے کی زکات موجود ہے ۔

۲ ۔ اگر مزکی مال میں سے زکات کو جدا کرے لیکن سھوا فقیر کو زکات دے جوکہ فقیر نہیں تھا اور مزکی نے گمان کیا تھا کہ وہ فقیر ہے اگرچہ زکات فقیر کے پاس باقی ہے تو اس صورت میں زکات کو اس سے وآپ س لے گا اور فقیر حقیقی و واقعی کو دے کیونکہ مال معزول فقراء کی ملکیت ہے اور مال غیر کو کسی اور کو نہیں دے سکتا ہے ہاں اگر مال زکات کو جدا نہیں کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے مال کوزکات کی مقدار کے برابر فقیر کو عطاء کرے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس نے اشتباہ کیا ہے اور لینے والا بھی فقیر واقعی نہیں تھا تو اس صورت مین زکات کا وآپ س لینا واجب نہیں ہے اور اگر اس زکات کے بدلے مین دوسرا مال موجود ہو یعنی زکات دینے والے کے پاس اس زکات کے علاوہ دوسرا مال موجود ہو اور اس مال زائد سے زکات کو دے سکتا ہے تو وہ اس مال زائد سے زکات کا بدل دے اور اگر اس کے لیے زکات کا بدل دینا ممکن نہ ہو یعنی زکات دینے والے کے پاس اس مال کے علاوہ مال زائد نہیں ہے تو اس صورت میں اس مال کا وآپ س لینا واجب ہے کیونکہ یہ وآپ س لینا زکات کے دینے کے لیے مقدمہ ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ واجب ہے ۔

۳ ۔ اور اگر مالک زکات کو الگ کرے اور زکات کو فقیر غیر واقعی کو عطاء کرے اور بعد میں مالک کو پتہ چلے کہ وہ شخص مستحق نہیں تھا اور فقیر غیر حقیقی زکات کو تلف کر دے تو اس صورت میں اگر مالک زکات کےمال میں افراط و تفریط نہ کرے تواس مال کا ضامن نہیں ہے جوکہ فقیر غیر حقیقی نےتلف کیا تھا لیکن اگر فقیر غیر حقیقی کو علم تھا کہ وہ مستحق نہیں اور زکات لے تو اس صورت میں فقیر غیر واقعی ضامن ہو گا کیونکہ اس پر قاعدہ علی الید جاری ہو گا (علی الید ما اخذت حتی تؤدی )(۹۳) یعنی لینے والا ضامن ہے ۔

۴ ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس کے مال پر زکات واجب ہوئی ہے اور فقیر کو زکات عطاء کرے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس کے مال پر زکات واجب نہیں ہوئی تھی اور اس نے اشتباہ کیا تھا اور وہ مال جو اس نے بطور زکات فقیر کو دی ہے تو وہ اس مال کو دوسرے زکات میں حساب نہیں کر سکتا ہے جوکہ بعد میں اس شخص پر زکات واجب ہو گی کیونکہ ہمارے پاس اجزاء پر دلیل نہیں ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس کے مال پر زکات واجب ہوئی ہے اور فقیرکو دے لیکن بعد میں مالک آپ نے اشتباہ کی طرف متوجہ ہو جائے کہ مال پر زکات واجب نہیں ہوئی تھی اور زکات کا عین بھی فقیر کے پاس باقی ہے تو اس صورت میں مالک کے لیے جائز ہے کہ فقیر کی طرف رجوع کرے اور آپ نے مال کو وآپ س لے کیونکہ وہ مال فقیر کی ملکیت نہیں ہوئی ہے اور مالک کی ملکیت میں باقی ہے۔

اور اگر مالک آپ نے اشتباہ و خطاء معتقد ہو جائے کہ اس کے مال پر زکات واجب ہوئی ہے اور فقیر کو زکات دے اور فقیر زکات کو تلف کر دے تو اس صورت میں مالک کے لیے جائز ہے فقیر سے تلف شدہ زکات کا مطالبہ کرے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فقیر مالک کے اشتباہ سے واقعا آگاہ ہو کیونکہ اس پر دلیل قاعدہ علی الید ہے ہاں اگر فقیر مالک کے اشتباہ سے واقعا اگاہ نہ ہو اور گمان کے طور پر زکات لے اور اس کا استعمال بھی کر لے تو اس صورت میں فقیر ضامن نہیں ہو گا کیونکہ فقیر جاھل تھا ۔