کتاب خمس
جن چیزوں پر خمس واجب ہے ۔
خمس سات چیزوں پر واجب ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱ ۔ جنگ کا مال غنیمت
۲ ۔ معدن
جس کی قیمت ۲۰ دینار ہو اور اگر نصاب میں شک کرے کہ ۲۰ دینار ہے کہ نہیں تواس صورت میں خمس واجب نہیں ہے اور معدن سے اخراجات نکالنے کے بعد باقی معدن خمس کے متعلق ہو جائے گی البتہ اخراجات نکالنے سے پہلے خمس کے نصاب کا حساب کیا جائے گا ۔
۳ ۔ گنج
یعنی خزانہ جس کی قیمت ۲۰ دینار یا ۲۰۰ درھم ہو اور ضروری ہے کہ گنج دینار و درھم سونے کے سکّے ہوں اور اس کا نصاب کاحساب و اخراجات لینا معدن کی طرح ہے ۔
۴ ۔غواصی کے جواہرات
دریا میں غوطہ خوری کے ذریعے سےحاصل ہونے والے جواہرات ہوں اور اس سے اخروجات نکالنے کے بعد اس کی مقدار ایک دینار ہو جائے تو اخراجات نکالنے کے بعد اس میں سے خمس دیا جائے گا۔
۵ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائے
اور مال حرام قابل شناخت نہ ہو اور اس کا مالک و مقدار بھی معلوم نہ ہو ۔
۶ ۔ وہ زمین جس کو کافر ذمی مسلمان سے خریدے ۔
۷ ۔ سالانہ زندگی کے اخراجات سے زیادہ مال ہو ۔
خمس واجب ہونے کی اشیاء اور ان کے مصارف
۱ ۔خمس کے واجب ہونے پر مندرجہ ذیل دو دلیلیں ہیں :
ا ۔ خمس کا واجب ہونا ضروریات دین میں سے ہے ۔
ب ۔ اور آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے جیساکہ خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :کہ
(
وَ اعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شىَءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِى الْقُرْبىَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيل
۔۔)
ترجمہ :"اور جان لو کہ جوغنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ' اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے ۔۔"
اور آیت میں لام (لله و للرسول و
۔۔۔۔) ملکیت کے لیے ہے پس ان کا مالک اللہ ورسول ہیں تو اس بنآپ رخمس کا دینا واجب ہے تمام مسلمین اجمالا اصل خمس کے واجب ہونے کے قائل ہیں اور ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے اختلاف عمومی ہے کیونکہ اہل سنت فقط جنگ کے مال غنیمت کےقائل ہیں لیکن امامیہ عموم کے قائل ہیں یعنی جس چیز پر مال غنیمت کا عنوان صدق کرے اس پر خمس ہے اور غنائم جنگی سے غنیمت عام ہے اور اگر خمس کے وجوب کو غنائم جنگی میں منحصر کر دیں تو ہمارے زمانے میں یا تو خمس کا مصداق نہیں ہے یا تو پھر بہت کم ہے ۔
حالانکہ امامیہ کے درمیان معروف ہے کہ خمس کے موارد عام ہیں دو دلیلوں کے ذریعے سےجوکہ مندرجہ ذیل ہیں :
ا ۔ لغت
کے لحاظ سے غنیمت عام ہے اور غنیمت تمام فوائد کو شامل ہوتی ہے اورفقط غنائم جنگی کے ساتھ خاص نہیں ہے اور اس طرح قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے جیساکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے کہ
(
تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ
)
ترجمہ :"تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں "
اور آیت کی سیاق اختصاص پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ کلی مطالب کو بعض مصادیق پر تطبیق کرنا ممکن ہے ۔
ب۔ اور خاص روایات ہیں جن کو انشاءاللہ بعد میں بیان کیا جائے گا ۔
۲ ۔ جنگی غنائم پر خمس ثابت ہے جس پر دلیل قدر متیقن آیت کریمہ ہے بلکہ جنگی غنائم خمس کے موارد میں سے ہے ۔
۳ ۔ معادن پرخمس واجب ہونے میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے جس پر دلیل زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
"زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍع قَالَ:سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَعَادِنِ مَا فِيهَا فَقَالَ كُلُّ مَا كَانَ رِكَازاً فَفِيهِ الْخُمُسُ
"
ترجمہ :" زرارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امامحمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ معادن میں کس قدر حصہ واجب ہے ؟ فرمایا : جہاں تک رکاز (زمین کے اندرقدرتی گڑی ہوئی دھاتوں ) کا تعلق ہے ان میں خمس (پانچواں حصہ ) واجب ہے "
تمام روایات بلکہ آیت کی اطلاق غنیمت پر معادن کے واجب ہونے کے اثبات کے لیے کافی ہے ۔
۴ ۔ جب معدن کا نصاب ۲۰ دینار ہو جائے تو اس کا خمس دینا ہو گا جس پر دلیل بزنطی کی حضرت امام رضا علیہ السلام سےصحیح روایت ہے:
"أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ الْبَزَنْطِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع عَمَّا أَخْرَجَ الْمَعْدِنُ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ هَلْ فِيهِ شَيْءٌ قَالَ لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى يَبْلُغَ مَا يَكُونُ فِي مِثْلِهِ الزَّكَاةُ عِشْرِينَ دِينَارا
"
ترجمہ "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ ب آپ نی سند کے ساتھ }احمد بن محمد بن ابو نصر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ جو چیز معدن ( کان ) سے برآمد ہو آیا اس کی قلیل و کثیرمقدار پر کچھ واجب ہے ؟ فرمایا : جب تک اس کی مقدار اس حد تک نہ پہنچ جائے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے یعنی بیس دینار تب تک اس میں کچھ نہیں ہے ہاں جب بیس دینار تک پہنچ جائے تو اس میں خمس واجب ہے "
مگر اس روایت کا دوسری روایت سے ٹکراؤ ہے جس میں خمس کے نصاب کو ایک دینار بیان کیا گیا ہے جیساکہ حضرت امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :کہ
"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَمَّا يُخْرَجُ مِنَ الْبَحْرِ مِنَ اللُّؤْلُؤِ وَ الْيَاقُوتِ وَ الزَّبَرْجَدِ وَ عَنْ مَعَادِنِ الذَّ هَبِ وَ الْفِضَّةِ هَلْ (فِيهَا زَكَاةٌ) فَقَالَ إِذَا بَلَغَ قِيمَتُهُ دِينَاراً فَفِيهِ الْخُمُسُ
"
ترجمہ : "محمد بن علی بن ابو عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ جو لؤلؤ( و المرجان )اور یاقوت اور زبرجد سمندر سے نکلتے ہیں اور جو سونا اور چاندی کان سے برآمد ہوتے ہیں آیا اس میں زکوۃ ہے ؟ فرمایا : جب ان کی قیمت ایک دینار تک پہنچ جائےتو اس میں خمس ( پانچواں حصہ ) واجب ہے "
ممکن ہے کہ ان دو روایتوں جمع کریں اور بعض علماء نے دوسری روایت کو استحباب پر اور اول کو وجوب پر حمل کیا ہے اگر ہماری دلیل کامل و تام نہ ہو تو اس صورت میں مجبور ہیں کہ دوسری روایت سے چشم پوشی کریں گے کیونکہ وہ روایت شاذ ہے اور اس کی نسبت کسی کو نہیں دی گئی ہے مگر ابی صلاح حلبی کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے ۔
اور بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ دوسری روایت راوی (محمد بن علی بن ابی عبداللہ) ضعیف ہے تو اس صورت میں دو روایتوں کے درمیان جمع کی دلالت کی طرف محتاج نہیں ہے کیونکہ دوسری روایت ضعیف اور اس کے ساتھ اس کا راوی بھی مجہول ہے ۔
اور ممکن ہے کہ ان کو اس طرح جواب دیا جائے : کہ جو روایات بزنطی جیسے اصحاب اجماع نقل کرتے ہیں
ان میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔
۵ ۔ اگر معادن کو نکالے اور اس کے نصاب میں شک کرے تو اس پر خمس نہیں ہے ۔
اگر معادن کا نکلنا تدریجی تھا اور ابھی شک کرئے کہ نصاب تک پہنچ گیا ہے یا نہیں ۔لیکن جب معادن کی مقدار کم تھی اور یقین بھی تھا کہ مقدار نصاب تک نہیں پہنچی ہے اور جب معادن کی مقدار زیادہ ہو گئی تب بھی شک کریں کہ مقدار نصاب تک پہنچ گئی ہے کہ نہیں ، تو اس صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا یعنی معادن کی مقدار نصاب تک نہیں پہنچی ہے پس اس معادن پر خمس واجب نہیں ہے اور اس قاعدہ کو استصحاب عدم نعتی کہا جاتا ہے ۔
اگر ایک دفعہ زیادہ مقدار میں معادن خارج ہو جائے لیکن شک کریں کہ آیا مقدار نصاب تک پہنچی ہے یا نہیں ؟ معادن نکالنے سے پہلے نصاب کا وجود نہیں تھا کیونکہ معادن نکلا ہی نہیں تھا تو صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا اور اس معادن پر خمس واجب نہیں ہے اور اس قاعدہ کو استصحاب عدم ازلی کہا جاتا ہے یا دلیل برات ہے البتہ اگر استصحاب کی طرف رجوع کرنا ممکن نہ ہو ۔
۶ ۔ معادن کو نکالنے کے لیے جو اخراجات کیے گئے ہیں اسے پہلے جدا کر لیا جائے اس باقی ماندہ معادن پر خمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل حضرت امام جواد علیہ السلام کی روایت ہے :
"الخُمُسُ بَعدَ المَؤونَةِ
"
ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ ب آپ نی سند کے ساتھ }محمد بن حسن اشعری سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا جس میں یہ استدعا کی کہ مجھے بتائیں کہ آدمی جو کچھ کم یا زیادہ کماتا ہے اور ہر قسم کے ذریعہ معاش سے کماتا ہے اور جائیدادکی آمدنی بھی ہے آیا سب پر خمس ہے ؟ اور کس طرح ہے ؟ امام علیہ السلام نے آپ نے دسخطوں سے لکھا کہ خمس اخراجات کے بعد ہے "
یہ روایت کلی قانون کی صورت میں نقل ہوئی ہے ۔
پس اس بناء پر خمس کے واجب ہونے کا موضوع نہیں ہے مگر خمس کے واجب ہونے کا موضوع غنیمت اور فائدہ ہے اور اسی طرح آیت بھی غنیمت پر دلالت کرتی ہے معادن پر خمس واجب ہو نا اور اس جیسی دوسری چیزیں پر اس دلیل کے ساتھ ہے کہ سب غنیمت کی مصداق ہیں اور روشن ہے کہ غنیمت کا عنوان اس وقت صدق نہیں کرتا ہےجب تک معادن سے اخراجات جدا نہیں کیے ہوں ۔
۷ ۔ خمس کی نصاب کی مقدار میں مجموع کو مد نظر رکھا گیا ہے اور باقی ماندہ مقدار کی لحاظ نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے خلاف صاحب جواہر کا نظریہ {نصاب کی مقدار حق زحمت نکالنے کے بعد ہے }ہے جس پر دلیل اطلاق کا بلوغ پر دلالت کرنا ہے جوکہ روایت صحیح بزنطی میں پہلے گذر چکی ہے ۔
۸ ۔ گنج پر بغیر کسی اشکال کے خمس واجب ہوتا ہے جس پر دلیل ابن ابی عمیر ہے کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:
"ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْخُمُسُ عَلَى خَمْسَةِ أَشْيَاءَ عَلَى الْكُنُوزِ وَ الْمَعَادِنِ وَ الْغَوْصِ وَ الْغَنِيمَةِ وَ نَسِيَ ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ الْخَامِسَ
ترجمہ :{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ }آپ نی کتاب المقنع مین فرماتے ہیں کہ محمد بن ابی عمیر نے روایت کی ہے کہ خمس پانچ چیزوں مین واجب ہے ۱ ۔ خزانہ ۲ ۔ معدن ۳ ۔ غوطہ زنی ۴ ۔ غنیمت اور پانچویں چیز ابن ابی عمیر بھول گئے "
اور سند کا مرسل ہونا روایت کی صحت کو نصان نہیں پہنچاتی ہے کیونکہ اس کا راوی ابن ابی عمیر ہے
کیونکہ عرف کی دیدگاہ سے ایک کی تعبیر ایک بندہ اور زیادہ پر اطلاق ہوتی ہے اور تین بندےاور زیادہ عدد ہیں کہ احتمال حساب کے ذریعے سے اس گروہ کا جمع ہونا کذب پر محال و بعید ہے اور مشایخ کے درمیان ابن اب؛عمیر اوردیگر افراد امام عادل میں سے ہیں ۔
۹ ۔ گنج کا نصاب ۲۰ دینا ریا ۲۰۰ درھم تک ہو جائے تو اس مقدار پرخمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل بزنطی کی حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
"أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَمَّا يَجِبُ فِيهِ الْخُمُسُ مِنَ الْكَنْزِ فَقَالَ مَا تَجِبُ الزَّكَاةُ فِي مِثْلِهِ فَفِيهِ الْخُمُسُ
"
ترجمہ :"احمد بن ابو نصر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ دفینہ کی کتنی مقدار میں خمس واجب ہوتا ہے ؟ فرمایا : جتنی مقدار میں زکوۃ واجب ہوتی ہے (یعنی بیس دینار )اس میں یہاں خمس واجب ہے "
اس کے بعد اگر قبول کریں کہ زکات واجب نہیں ہوتی ہے جب تک ۲۰ دینار یا ۲۰۰ درھم تک اس کی مقدار پہنچ نہ جائے ۔
۱۰ ۔ اور گنج کو سونا وچاندی ہونا چائیے اور وہ سکّے بازار میں رائج ہوں کیونکہ سابقہ صحیح روایت میں اس کو بیان کیا گیا ہے جیساکہ زکات غّلات اور جانوروں کے علاوہ کسی دوسری چیز پر واجب نہیں ہے اور خمس واجب نہیں ہے مگر سونا اور چاندی کے سکّوں پر جوکہ بازار میں رائج ہوں ۔
۱۱ ۔ گنج میں حق زحمت(نکالنے کے اخراجات) کا حساب معادن کی طرح ہے جوکہ بیان ہو چکا ہے ۔
۱۲ ۔ دریا میں غوطہ خوری کے ذریعے حاصل ہونے والے مال پر خمس واجب ہوتی ہے جیساکہ روایت سابقہ میں ابن ابی عمیر اور روایت صحیح عمّار جوکہ بعد میں آنے والی ہے اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس بات کی تائید کردی ہیں ۔
۱۳ ۔ غوطہ خوری کے ذریعے سے حاصل ہونے والے مال کے مقدار کا نصاب ایک دینار ہے جیساکہ روایت بزنطی میں محمد بن علی بن ابی عبداللہ نے ارشاد فرمایا ہے جوکہ پہلے معادن کی بحث میں بیان ہو چکا ہے ۔
۱۴ ۔ غوطہ خوری میں حق زحمت ( نکالنے کےاخراجات ) کا حساب معادن اور گنج کی طرح ہے جوکہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔
۱۵ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو اس پر بھی خمس واجب ہے جس پر دلیل عمار بن مروان کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
"عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ فِيمَا يُخْرَجُ مِنَ الْمَعَادِنِ وَ الْبَحْرِ وَ الْغَنِيمَةِ وَ الْحَلَالِ الْمُخْتَلِطِ بِالْحَرَامِ إِذَا لَمْ يُعْرَفْ صَاحِبُهُ وَ الْكُنُوزِ الْخُمُسُ
"
ترجمہ :"{حصرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } عمار بن مروان سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ فرما رہے تھے کہ جو چیز معدن سے نکلے یا سمندر سے اور مال غنیمت اور وہ مال حلال و حرام سے مخلوط ہو جائے اور اس کے مالک کا کوئی پتہ نہ چل سکے اور دفینہ ان سب میں خمس واجب ہے "
اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں ۔
۱۶ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو ضروری ہے کہ مال حرام کی مال حلال سےتمیز و تشخیص نہیں دی جائے کیونکہ اگر تشخیص دی جائے تو ہر مال کا ایک خاص حکم ہے ۔
۱۷ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو اس کا مالک مجہول ہونا چائیے جس پر دلیل پہلی والی صحیح روایت ہے اور اگر مالک معلوم ہو تو اس صورت میں اس کے ساتھ مصلحت کریں گے تاکہ مجہول مال کی مقدار معین کر سکیں ۔
۱۸ ۔ مال حرام کی مقدار بھی معلوم نہیں ہونی چائیے کیونکہ اگر معلوم ہو جائے کہ خمس سے زیادہ ہے یا کم ہے تو اس صورت میں یہ احتمال نہیں دی جا سکتا ہے کہ اس پر خمس واجب ہو کیونکہ خمس اس وقت واجب ہوتا ہے بلکہ پہلی والی صحیح روایت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص مال حرام کی مقدار کے بارے میں مطـلقا جاہل ہو تو تب تمام مال کا خمس دے گا ۔
۱۹ ۔ وہ زمین جس کو کافر ذمی مسلمان سے خریدےتو اس پر خمس واجب ہے جس پر دلیل ابی عبیدۃ حذاءسے کی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
"أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ أَيُّمَا ذِمِّيٍ اشْتَرَى مِنْ مُسْلِمٍ أَرْضاً فَإِنَّ عَلَيْهِ الْخُمُسَ
"
ترجمہ :{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }ابو عبید ۃ الحذاء سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ فرما رہے تھے جو کافر ذمی کسی مسلمان سے زمین خرید لے اس پر خمس لازم ہے "
۲۰ ۔ زندگی کے سالانہ نفقہ کے خرچہ سے جو باقی(نفع) بچ جائے اس پر خمس واجب ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن ابن جنید اسکافی اور ابن ابی عقیل عمانی جوکہ قدماء میں مشہور ہیں ان کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ مال زائد پر خمس واجب نہیں ہے لیکن ان دونوں فقیہ کی طرف سے علّامہ کی کتاب مختلف میں موجود ہے لیکن عدم وجوب خمس کو واضح طور پر دیکھا نہیں گیا ہے ۔
آیت غنیمت کے اطلاق کے علاوہ حد تواتر تک پہنچنے والی وہ خاص روایات ہیں جوکہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں جیساکہ سماعہ کی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے ۔
"سَمَاعَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ ع عَنِ الْخُمُسِ فَقَالَ فِي كُلِ مَا أَفَادَ النَّاسُ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ
"
ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } سماعہ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے خمس کے متعلق سوال کیا ؟ فرمایا : جوکہ کچھ لوگ کم یا زیادہ کماتے ہیں اس میں خمس واجب ہے "
اور ہو سکتا ہے کہ اس موثق کو روایات دیگر مثلا ( الخمس بعد المؤونۃ) کے ساتھ مقید کریں اور اسی طرح جیساکہ صحیح علی بن مھزیار میں یہ قید بیان کی گئی ہےاور یہ روایت ایک خط ہے کہ ابراھیم بن محمد الھمدانی نے امام علیہ السلام کو خط لکھا اور امام علیہ السلام اس خط کے جواب میں فرمایا جوکہ علی بن مھزیار نے دیکھا اور پڑھا اور امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :کہ
"فَكَتَبَ وَ قَرَأَهُ عَلِيُّ بْنُ مَهْزِيَارَ- عَلَيْهِ الْخُمُسُ بَعْدَ مَئُونَتِهِ وَ مَئُونَةِ عِيَالِهِ وَ بَعْدَ خَرَاجِ السُّلْطَانِ
"
ترجمہ :"ابراہیم بن محمد ہمدانی نے ان ( امام علی نقی علیہ السلام ) کو خط لکھا کہ علی (مہزیار ) نے مجھے آپ کے والد ماجد ( امام محمد تقی علیہ السلام ) کی تحریر پڑھائی ہے امام علیہ السلام نےان کے جواب میں لکھا جسے علی بن مہزیار نے بھی پڑھا کہ اس کے اور اس کے اہل وعیال کے اخراجات اور حاکم کے خراج کے بعد ( بچت ) پر خمس ہے "
اگرچہ ھمدانی کا موثق نہ ہونا روایت کو نقصان نہیں پہنچاتاہے کیونکہ علی بن مھزیار نے خود امام علیہ السلام کے جواب کو پڑھا ہے ۔
اور اس طرح یہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مسائل کا مبتلی بہ ہونا اور یہ کہ لوگوں کا اس مسئلہ سے سروکار ہے آپ س اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام لوگوں کے لیے امام علیہ السلام کے زمانے میں خمس کا حکم روشن ہو حالانکہ یہ احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا ہے کہ واضح حکم واجب نہیں ہو اور اگر سال بھر کے خرچہ سے زائد مال پر خمس کا حکم واجب نہ ہوتا تو اس پر تمام فقھاء نے اتفاق نہ کیا ہوتامگر بعض قدماء نے اتفاق نہیں کیا ہے ۔
پس اس بناء پر لازمی ہو جاتا ہے کہ مسئلہ کا حکم واجب ہے ۔
زندگی کے سالانہ اخراجات سے زائد مال پر خمس کے خاص احکام
تمام وہ فائدہ جو سالانہ آپ نے اہل وعیال کے اخراجات پر صرف کرنے کے بعد بچ جائے تو اس زائد مال پر خمس واجب ہے اگرچہ وہ مال کسب وکاروبار کے ذریعے حاصل نہیں کیا گیا ہو لیکن مشہور اس کے خلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ مال جو کسب وکاروبار کے ذریعےسے حاصل ہو تو اس پر خمس واجب ہے ۔
ہاں اگر میراث کے ذریعے مال حاصل ہوجو عام طور پر وراثت کے ذریعے سے ملتا ہے ۔
اور تحفہ وھدیہ کے ذریعے مال حاصل ہو لیکن وہ قیمتی نہ ہو ۔
اور مہر و عوض طلاق خلع جو شوہر کو بیوی کی طرف سے ملے تو ان تمام حالتوں میں خمس واجب نہیں ہے ۔ البتہ سال بھر کے اخراجات جدا کرنے کے بعد ہو ۔
اور جب کوئی شخص بغیر کسب وکاروبار کے علاوہ پہلی منفعت حاصل کرے تووہی اس کا خمس کا سال ہو گا اور وہ شخص جو کسب وکاروبار کو شروع کرئےاورمنفعت حاصل ہوتے ہی اس کا مال خمس کے متعلق ہو جائے گااگرچہ خمس کو سال کے آخر تک دینا اس کے لیے جائز ہے کیونکہ شارع نے اس میں نرمی و ارفاق کیا ہے ۔
بچے اور پاگل کے مال پر خمس واجب نہیں ہے ۔
دلائل:
۱ ۔ فائدہ حاصل کرنے کے بعد سالانہ اخراجات کو نکال کر خمس دیا جاتا ہے جس پر دلیل آیت کا اطلاق تر دلالت کرنا اور بعض روایات جیساکہ سماعہ کی موثق روایت ہے جو پہلے گذر چکی ہے ۔
احتمال یہ دیتے ہیں کہ خمس اس فائدے کے ساتھ خاص ہے جوکہ کسب وکاروبار کے ذریعے سے حاصل ہو یا اس احتمال کا دعوی اجماع ہے یا اس دلیل کے ساتھ ہےکہ مسئلہ ابتدائی ہے کیونکہ اگر مطلق فائدے میں واجب ہو تو یہ مشہور ہے اور یا مشہورنے سماعہ جیسی روایت سے اعراض کیا پس روایت سماعہ حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اور یااس کے علاوہ بھی دلیلیں ہیں ۔
یہ اس طرح کے احتمال میں اشکال و تامل کی علت یہ ہے کہ قدماء کی عبارت میں کسب و کاروبار پر اختصاص نہیں پایا جاتا ہے بلکہ کسب کاروبار کو بطور باب مثال ذکر کیا گیا ہے جیساکہ پیداوار کی راہ سے اور تجارت سے اور زراعت سے فائدہ حاصل ہو البتہ بعض قدماء کی عبارت میں تصریح ہے کہ تمام فوائد پر خمس واجب ہے۔
۲ ۔ اگر میراث کے ذریعے مال حاصل ہوجو عام طور پر وراثت کے ذریعے سے ملتا ہے اور وہ ھدیہ(خمس کے واجب ہونے کے شرائط ) جو ذکر ہو چکا ہےتو ان پر خمس نہیں ہے جس پر دلیل علی بن مھزیار کی حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
"فَالْغَنَائِمُ وَ الْفَوَائِدُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَهِيَ الْغَنِيمَةُ يَغْنَمُهَا الْمَرْءُ وَ الْفَائِدَةُ يُفِيدُهَا وَ الْجَائِزَةُ مِنَ الْإِنْسَانِ لِلْإِنْسَانِ الَّتِي لَهَا خَطَرٌ وَ الْمِيرَاثُ الَّذِي لَا يُحْتَسَب
۔۔۔۔۔"
ترجمہ :"خدا تم پ رحم کرے غنائم اور فوائد سے مراد وہ غنیمت ہے جسے آدمی حاصل کرتا ہے ، یا وہ فائدہ ہے جو آدمی کماتا ہے یا کسی آدمی کا کسی کو کوئی قابل قدر تحفہ و ہدیہ دینا یا میراث جس کے حاصل ہونے کا گمان )نہ ہو ۔۔۔"
۳ ۔ مہر و عوض طلاق خلع سے بھی خمس کو استثناء ہے مہر و عوض طلاق خلع جو شوہر کو بیوی کی طرف سے ملے تو ان دونوں صورتوںمیں خمس واجب نہیں ہےاورمھر اور عوض خلع پر فائدہ صدق نہیں کرتا ہے کیونکہ عورت جو مھر لیتی ہے وہ خود آپ نے ہاتھوں سے شوہر کے اختیار میں رکھتی ہے اور عوض خلع شوہر کی طرف سے حقوق زوجیت میں کوتاہی ہے جوکہ شوہر کے لیے ثابت ہے پس واقع میں عورت مھرمیں ایک چیز کو دیناہے اور دوسرے چیز کو پا لینا ہے اور اسی طرح عوض خلع میں بھی ہے ۔
۴ ۔ اور یہ ضروری کہ سال بھر کا خرچہ جدا کیا جائے جس پر دلیل مکاتبہ ہمدانی کی روایت دلالت کرتی ہے جو کہ گذر چکی ہے اور بہت سی روایات اس کی تائید کرتی ہیں اس کا حکم اخراجات کے علاوہ ہے جو کہ فائدے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے وہ مال جو زندگی کے اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے اور وہ دلیل کے لیے محتاج نہیں ہے کیونکہ اس پر فائدہ ومنفعت صدق نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ سال کے اخراجات سے زیادہ ہوں ۔
۵ ۔ ضروری ہے کہ پہلے سال بھر کا خرچہ نکال لیا جائے اس کے بعد خمس کو ادا کیا جائے کیونکہ یہاں پر اطلاق مقامی دلالت کرتی ہے جوکہ سال کا خرچہ نکالنا ہے کیونکہ معمولا روزمرہ زندگی میں لوگ سال بھر کے خرچے کا حساب کرتے ہیں اور اس طرح نہیں کرتے ہیں کہ مہینہ میں یا روزانہ خرچے کا حساب کرتے ہیں اور زمانے حاضر میں اکثر ممالک میں بھی سال بھر کے خرچے کا حساب کیا جاتا ہے اور روایت میں کلمہ مؤونہ کا استعمال ہمطلق ہوا ہے پس ضروری ہے کہ عرف کے مطابق سال بھر کے اخراجات نکالے جائیں ۔
۶ ۔ خمس کاسال شروع ہونے کے لیے دلیل جو ذکر ہو چکی ہے وہ قول مشہور ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ لوگ جو کسب وکاروبار کرتے ہیں جونہی وہ تجارت شروع کرتے ہیں وہی ان کا خمس سال ہے اور ہر سال اسی تاریخ کو جوکاروبار شروع کیا تھا تو خمس واجب ہے چاہے اس میں اس کو منفعت حاصل ہو یا نہ ہو ۔
اور وہ لوگ جو مزدوری وغیرہ کرتے ہیں تو جونہی ان کو منفعت حاصل ہو تو وہی ان کا خمس کا سال ہو گا اور ہر سال اسی تاریخ کو مال زائد پر خمس واجب جائے گی ۔
۷ ۔ اور منفعت حاصل ہوتے ہی مال پرخمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل آیت غنیمت ہے اور روایت سماعہ بھی اس پر دلالت کرتی ہ جوکہ پہلے گذر چکی ہے کیونکہ ظاہری تعبیر قرآن ( فان للہ خمسہ ) اور روایت ( ففیہ الخمس ) خمس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے لیکن جب اس پر فائدہ صدق کر
خمس کو تاخیر سے دینا ایک سال تک جائز ہے اور یہ شارع کی طرف سے سہولت ونرمی ہے جوکہ سالانہ اخراجات کو نکالنے کے بعد ہے اور یہ اخراجات ایک دفعہ حاصل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اخراجات بطور تدریجی حاصل ہوتے ہیں یعنی یہ اخراجات فوری طور پر حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس کے امکان کے بارے میں پہلے سے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ پس اخراجات کا تدریجی حاصل ہونے کا لازمہ یہ بنتا ہے کہ خمس کو تاخیر سے دینا جائز ہے
{خمس کے ادا کرنے میں کچھ باقی نہیں رہا کہ اگر خمس کو فوری ادا کیا جائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ بعض نے مستحب جانا ہے }
۸ ۔ اگر بچے اور پاگل کے پاس مال ہو اور ان کے سالانہ اخراجات سے زیادہ ہے تو ان کے مال پر خمس واجب نہیں ہے اور اے پر دلیل حدیث رفع ہے جس میں ان کے حکم سے قلم اٹھا لیا گیا ہے کیونکہ حکم تکلیفی ( خمس کا دینا واجب ) ان سے اٹھا لیا ہے بلکہ حکم وضعی ( ان کے مال پر خمس ) کو بھی ان سے اٹھالیا گیا ہے ۔
حدیث رفع حکم تکلیفی کے ساتھ خاص ہے پس ان کے مال پر خمس واجب ہے ہاں لیکن تکلیف کے عمومی شرائط نہیں ہیں تو اس صورت میں ان کو خمس دینا واجب نہیں ہے پس ضروری ہے کہ ان کے سرپرست و ولی خمس کو ادا کرے یا اس صورت میں جب عاقل یا بالغ ہو جائیں تو پھر خمس کو خود ادا کریں لیکن یہ بھی قاعدہ برات کی وجہ سے منتقی ہے ۔
خمس کو تقسیم کرنے کی کیفیت
مشہور کہتے ہیں کہ خمس کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں سے تین حصے امام علیہ السلام کے ہیں اور تین حصےسادات کے ہیں اور ساتھ یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ دنیا کے تمام سادات میں تقسیم کیا جائے اور سھم امام علیہ السلام کے مال کے استعمال کرنے کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتاہے ۔
دلائل :
۱۔ یہ کہ خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اس قول کےخلاف جو کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خمس پانچ حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے انھوں نے سھم خدا کوآیت غنیمت کے ذریعے سے حذف کیا ہے اورہاں یہ بات اس بناء پر درست ہو گی جب غنیمت کو مطلق فائدہ جانا جائے تو یہ مسئلہ روشن ہےاور اگربناء جنگی غنیمت کے ساتھ مختص ہو تو اس حالت میں کیونکہ آیت میں غیر جنگی غنیمت کے استعمال کا ذکر نہیں ہوا ہے اور یہ ذکر نہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا استعمال کرنا مطلق غنیمت پرہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو امام علیہ السلام کے لیے لازمی ہوتا کہ لوگوں کے لیے بیان کرتے اور اس کے استعمال کی طرف اشارہ کرتے ۔
۲ ۔ خمس کے تین حصّے امام علیہ السلام کے لیے ہیں جس پر دلیل احمد بن محمد بن ابی نصر کی حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :
مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنِ الرِّضَا ع قَالَ: سُئِلَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ (وَ اعْلَمُوا أَنَّمٰا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبىٰ) فَقِيلَ لَهُ فَمَا كَانَ لِلَّهِ فَلِمَنْ هُوَ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ص ، وَ مَا كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ص فَهُوَ لِلْإِمَامِ فَقِيلَ لَهُ أَ فَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ صِنْفٌ مِنَ الْأَصْنَافِ أَكْثَرَ وَ صِنْفٌ أَقَلَّ مَا يُصْنَعُ بِهِ ؟ قَالَ ذَاكَ إِلَى الْإِمَامِ ، أَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ ص كَيْفَ يَصْنَعُ ؟ أَ لَيْسَ إِنَّمَا كَانَ يُعْطِي عَلَى مَا يَرَى ؟ كَذَلِكَ الْإِمَامُ
.
ترجمہ :"{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }احمد بن محمد ابو نصر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے خدا وندعالم کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا گیا " واعلمو انما ۔۔۔۔ "عرض کیا : جو خدا کا حصّہ ہے وہ کس کے لیے ہے ؟ فرمایا : وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے لیے ہے اور جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے لیے ہے وہ امام علیہ السلام کے لیے بھی ہے پھر عرض کیا کہ اگرمستحقین کا ایک گروہ زیادہ ہو اور دوسرا کم تو پھر کیا کیا جائے ؟فرمایا : یہ امام علیہ السلام کے صواب دید پر منحصر ہے تم خیال نہیں کرتے کہ حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے ؟ کیا وہ آپ نی صوابدید کے مطابق نہیں خرچ کیا کرتے تھے ؟اسی طرح امام علیہ السلام بھی آپ نی صوابدید کے مطابق خرچ کریں گے "
پس اسی بنا پر دور حاضر میں تمام اخماس حضرت امام زمان اراحنا لہ الفداء کو دیا جائے ۔
مسئلہ کا حکم واضح و روشن ہے اگر امام علیہ السلام کی ملکیت بناء کو ملکیت شخصی جانےتاہم اگر ملکیت کو منصب و مکان جانے تو تب بھی امام علیہ السلام کے لیے ملکیت ثابت ہے کیونکہ امام علیہ السلام کی ملکیت من حیث تقییدی نہ کہ تعلیلی ، جسطرح کہ روایات میں امام علیہ السلام کی تعبیر کی گئی ہے ، کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وجہ سے نہیں ہےجس طرح چاہے اس میں تصرف کرئےپس ملکیت شخصی ومنصبی کی تقدیر کی بناء پر فقیہ نائب امام علیہ السلام کی بنیاد پر جو کہ صاحب امام زمان علیہ السلام ہیں تو اس مال میں فقیہ دخالت و تصرف کر سکتا ہے ۔
۳ ۔ اور قول مشہور کے مطابق تین حصّے آخری سادات و بنی ہاشم کے لے مخصوص ہیں جو کہ اہل سنت کے قول
کے برعکس ہے اور شاید جس قول کی نسبت ابن جنید
کی طرف دی گئی ہے شاید وہی قول ہو اس شرط کے ساتھ کہ سادات و بنی ہاشم بے نیاز و محتاج ہوں اس امر و حکم کی ضرورت کے مطابق دعوی کیا گیا ہے کہ ان کا موجودہونا دلیل کے محتاج نہیں ہے ۔
بعض روایات جن کی سند ضعیف
ہیں وہ بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں اور سند کا ضعیف ہونا اس کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ اس کی ضرورت ہے ۔
۴ ۔ لیکن ضرورت کیوں نہیں ہے کہ خمس تمام اصناف میں مساوی تقسیم ہو کیونکہ خمس کی آیت تقسیم کرنے کو بیان و ظاہر کر رہی ہے نہ کہ ان کی ملکیت کو ، اس پر دو دلیلیں ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
ا۔بے شک آیت میں کلمہ "الیتامی " "المساکین " جمع اور الف ولام کی صورت میں آئیں ہیں اور ظاہری خکم یہ ہے کہ یہ تمام یتیموں اور مسکینوں کو شامل حال ہے یعنی ان کے درمیان مساوی سے تقسیم کیا جائے اگرچہ اس طرح سے ممکن ہو یہ احتمال نہیں دیتے ہیں کہ خدا وند عالم کا بھی یہی ارادہ ہو ۔
ب۔ تو اس صورت میں سھم ابن سبیل کو محفوظ رکھنا لازمی آتا ہے اگرچہ ابن سبیل شھر میں نہ ہو اور یہ احتمال بھی نہیں دے سکتے ہیں ۔
پس ان دو قرینوں کی بناء پر واضح ہو جاتا ہے کہ خمس کی آیت استعمال کرنے کو بیان کر رہی ہے نہ کہ ان کی ملکیت کو ۔
زمان غیبت میں سھم امام علیہ السلام کے استعمال کرنےکے بارے میں صاحب حدائق
نے چودہ اقوال ذکر کیئے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے کہ ان کو نقل کریں لیکن وہ اقوال جوبعض متاخرین کے درمیان معروف ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
سھم امام علیہ السلام کا مسئلہ شک کی حالت میں ہے کہ آیا سھم امام علیہ السلام کو دفن کیا جائے یا امانت دینا وصیت کے ذریعے سے نسل در نسل ،اور بھی احتمالات میں جن کو صاحب حدائق نقل کیا ہے اور یہ سب احتمالات سھم امام علیہ السلام کے تلف ہو نے کے موجب بنتے ہیں اور ان کے تلف ہونے پر ہمارے پاس کو ئی دلیل عقلی نہیں ہے تو اس صورت میں ہم مجبور ہیں کہ سھم امام علیہ السلام اس طرح استعمال کریں کہ امام علیہ السلام راضی ہو جائیں اور یہ رضایت حاصل نہیں ہوتی مگر دین اسلام کی تقویت کے لیے یا وہ لوگ جو دین اسلام کی تقویت کے لیے کوشاں ہیں اورسھم امام علیہ السلام کے استعمال کی روشن ترین مصادیق حوزہ علمیہ ہے کہ ان کی حفاظت سے دین کی حفاظت ہوتی ہے ۔
لازمی ہے کہ سھم امام علیہ السلام کا استعمال زیر نظر مجتہد و فقیہ ہو تاکہ سھم امام علیہ السلام اس کو دیا جائے یا اس سے اجازت لی جائے اور اجازت لینے کا ملازمہ اس ضرورت کی بناء پر ہے کہ لوگوں کی مرجعیت سے رابطہ ہو اور یا اس دلیل کی بناء پر ہو کہ وہ شخص امام علیہ کی طرف سے نائب ہے اگرچہ ہمارے پاس فقیہ کے بارے میں کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ لازمی طور پر اس کو دیا جائے ہاں حد اقل یہ احتمال دے سکتے ہیں اور یہ احتمال دینا کافی ہے کہ خمس کے اموال میں کسی شخص کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے مگر اس صورت میں اس کے لیے جائز ہو گا جب اس کو فقیہ کی رضایت کے بارے میں قطع و یقین ہو ۔
___________________