چوتھی فصل
پیغمبر اکرمﷺکی زندگی اور رسالت
نوید سحر :
......بَعَثَهُ حِينَ لَا عَلَمٌ قَائِمٌ وَ لَا مَنَارٌ سَاطِعٌ وَ لَا مَنْهَجٌ وَاضِح
۔
بہت لمبا عرصہ ہوچکا تھا کہ انبیاء الٰہی کی ندای وحدانیت انسانوں کی کانوں تک نہیں پہنچ چکی تھی اور مشعل ہدایت کا نور سیاہ بادلوں کے پس پشت چھپ گیا تھا ، رات چھاگئی تھی ایسی رات جواستواءسے لمبا سارے لوگ حیرت اور سرگردانی میں مبتلا تھے، جاھل اور پست لوگ مقام حکمرانی پر انسانی شخصیت اور کرامت فساد وتباھی کی مرداب میں غوطہ ور تھے ، ناروائیاں اور برائیاں رائج ہوگئی تھیں، اخلاقی فضائل نگاہوں سے ہٹ چکے تھےخاص طورپر سعودی عرب کی سرزمین میں اخلاقی فساد اور ثقافتی انحطاط اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی،لوٹ مار ، قتل و غارتگری، قبائل عرب کے رائج کاموں میں سے شمار ہوتا تھا۔
امیرالمومنین علیؑ بعثت سےپہلے والے معاشرے کی اس طرح توصیف کرتےہیں: خدواند پیغمبر اعظم کو اس وقت رسالت پر منتخب کیا جو بہت سے عرصہ انبیاء ماسبق کی بعثت سے گزر ہوچکے تھے لوگ ایک گہری اور لمبی نیند میں ڈوبے ہوئے تھے، فتنہ و آشوب کےشعلے پوری دنیا میں جل چکے تھے تمام امور کا سررشتہ پراکندہ اور تتر بتر ہوچکے تھےجنگ کی آگ شعلہ ور، تاریکی ، جہل اور گناہ عام اور دھوکہ و فریب اور تزویر آشکار تھا بشر کی درخت زندگی کا پتہ زرد رنگ ہوچکا تھا ، اس سے ثمرہ ملنے کی امید ختم ہوچکی تھی ، سارا پانی زمینوں کے اندر گھس گیا تھا، ہدایت کا شعلہ ٹھنڈا اور خاموش ، ضلالت و گمراہی کا پرچم بلندتھا ، پستی اور بدبختی بشر پر ہجوم لائےتھے، اور اپنے مکروہ چہرہ کو بدنما کیا تھا بس بد اقبالی اور تیرہ ورزی سے فتنہ اور آشوب کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل آتا تھا لوگوں کے دلوں پر دہشت او وحشت طاری ہوکر خون بہانے والی تلوار کے سوا کچھ نہیں دیکھتے تھے
۔اور ایسے ماحول میں اچانک صبح کی روشنائی اور اس نور کی تلالؤ نورصبح ڈھونڈنےوالوں کو اپنے انوار تابناک میں غرق کردیا آسمان نبوت میں ایک پرنور سورج طلوع ہوا، ایسا سورج جس نے کبھی بھی غروب نہ کیا اور نہ کرےگا او رہمیشہ کے لئے تاریکی کوبشر کی زندگی کے فضا سے ہٹا دیا۔
اس دفعہ؛ایسا شخص جو پہاڑکی چوٹیوں کی طرح شان و شوکت کی بارش جس کے پیکرسے برس رہاتھا، وہ جو اس کو وجود عالم ہستی کی بڑی راز ہیں وحی کی ہمیان کو اپنے دوش پر لادکر اپنے پروردگار کے فرمان کی تعمیل کرتےہوئے زعامت اور رہبری کے بلند مقام پر ٹیک لگادیا اور بشریت سرگرداں کاروان کو سعادت و کمال کی طرف رہنمائی کی۔
ابھی پیغمبر کی عمر پربرکت سے چالیس برس نہیں گزرےتھے وحی کا قاصد حضرت پر نازل ہوکر، پیغام الٰہی کہ جو لوگوں کے انذار پر مبنی آیات ان تک پہنچایا:
(
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
)
(اے رسول) پڑھیے! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔
پیغمبر اکرم ﷺ کی نبوت کا اثبات:
ہم پچھلے بحثوں میں دعویٰ نبوت کرنے والوں کی سچائی جاننے کے طریقوں کو اس ترتیب سےبیان کردیا:
۱ ۔ ماسبق نبیوں کی بشارت۔
۲ ۔ مدعی نبوت کے معجزات۔
۳ ۔ ایسے قطعی شواھد و قرائن جو اس کی نبوت پر دلالت کرلے۔
اب ہم یہ سارے طریقوں کو ایک ایک کرکے پغمبر اعظم کی رسالت کے بارے میں بررسی کرتے ہیں:
۱ ۔ گزشتہ انبیاءکی بشارت:
گزشتہ انبیاءکی مسلسل بشارتیں اہل تحقیق کے لئے مخفی نہیں ہے۔ہم یہاں چند نمونہ پر اکتفا کرتےہیں۔ کتاب درالنظم ماسبق انبیاء کی بشارتوں کو پیغمبر اکرم ﷺ کےظہور کے بارے میں ایک الگ فصل کھولنے کے ساتھ ، تورات کی سفر اول میں حضرت موسٰیؑ کی بشارتیں ، سفر دوم میں حضرت ابراہیم کی بشارتیں، پندرہ ویں اور پچاس ویں سفر میں مزامیر سے اور نیز عویدیا ،حیقوق،حزقیل، دانیال، شعیا کی بشارتیں جو یہ سارے انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں یا د کرتے ہیں ۔
ایک اور حدیث میں عبداللہ بن سلیمان سے جو ایک آگاہ اور گزشتہ آسمانی کتابوں سے واقف ایک شخص تھا نقل ہو اہے کہ اس نے کہا : میں نے ان جملات کو انجیل میں پڑھا ہے کہ اے عیسٰیؑ میرے امر کی تعمیل میں کوشاں رہو اور اس کو بے اہمیت نہ سمجھو، سن لو اور فرمان برداری کرو، اے پاکیزہ اور طاہر بکر ،
بتول
کا فرزند تو بغیر والد کے متولد ہوا ہے ، میں نے تجھےخلق کیا ہے تاکہ لوگوں کے لئے آیت اور دلیل رہیں اور صرف میری عبادت کرو اور مجھ پر توکل کرو، اس کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اور اہم سور کے لئے سریانی زبان میں تفسیر کرو، وہ لوگ جوتیرے پاس ہیں اس بات کو پہنچا دوکہ میں خدائے لازوال اور ہمیشگی و سرمدی ہوں، تصدیق کرو تلمذ اختیار کرنے والے پیغمبر کو جو صاحب اونٹ اور جامہ پشمی اور تاج و عمامہ ہے اور صاحب نعلین و عصا ہے وہ موٹی آنکھیں اور گشادہ جبین والا ہے، اس کا چہرہ روشن ونورانی اور اس کا ناک نازک اور لمبا اور تھوڑا سا اس کے ناک کے بیج میں برآمدگی ہے، ان کے دانتوں کے درمیان فاصلہ، اس کی گردن چاندھی کی طرح ہے، گردن کی دونوں اطراف گویا سونے سے سجی ہوئی ہیں، سینہ سےناف تک بال اگے ہوئے ہیں، لیکن ان کے سینہ اور پیٹ پر کوئی بال نہیں ہیں ان کا رنگ گندمگوں ہےاور سینہ سے ناف تک بال کی ایک لکیر ہے جو نازک اور لطیف ہے ان کے ہاتھ اور پاوں بڑے طاقتورہیں، جب کسی کی طرف توجہ کرتےوقت اپنے پورے بدن سےاس کی طرف رخ کرتےہیں، چلتے وقت گویا پتھر سے اپنےپیر کو نکال لیتےہیں گویا ایک بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں
مجمع کے درمیان میں ہو تو سب پر غالب آجاتاہے ، چہرےپر پسینہ کا دانہ، موتی کی طرح لگتا ہےاس پسینے سے مشک کی خوشبو دوسروں کے مشاموں میں پہنچتے ہیں، کوئی بھی اس سے پہلے اور اس کے بعد اس جیسا نہیں دیکھا گیا ہے، وہ خوشبو ہے اس کے لئے متعدد بیویاں ہیں ، اس کی اولاد کم ہے، اور اس کی نسل ایک بابرکت خاتون سے ہے جس کے لیے بہشت میں گھر مہیا ہے، وہاں پر فریاد بلند اور مشکلات نہیں ہے وہ آخرالزمان میں اس کے امورا کو اپنے عہدہ میں لے لیتےہیں اس خاتون سےنگہداری کرے گا جیسا کہ تیری ماں سےنگہداری کیا، اس کے دو بچے ہیں جو خدا کی راہ میں مارے جائیں گے، اس کا کلام قرآن اور اس کا دین اسلام ہے، خوش نصیب ہے وہ جو اس کے دوران کو درک کرے اس کے روزگار میں حاضر ہوکر اس کے باتوں کو مان لے ۔
اسی طرح مزامیر میں آیا ہے: بے شک خداوند صہیول سے اکلیل و محمود کو ظاہر کرے گا اور صہیول سے مراد قوم عرب اور اکلیل یعنی نبوت اور محمود سےمرادمحمد ہے اس کے علاوہ آسمانی کتابوں سے آشنائی رکھنے والے ایک گروہ علما نے پیغمبر اعظم کی رسالت پر گواہی دی ہے۔ اور بہت واضح ہے کہ ان کی گواہی دینا خود دلیل ہے کہ انہوں نے آسمانی کتابوں پر استناد کیا ہے جویہ علما ان کتابوں سےآشنا تھے۔
پیغمبر اکرمﷺ کے ظہور کے بارے میں جو اخبار وارد ہوئے ہیں ان میں سے مشہور ترین خبر بحیرا نامی ایک مسیحی راہب کا ماجرا ہے پیغمبر اعظم کے ساتھ ملنے سے پہلے اور حضرت سلمان کا جستجو ہے پیغمبر اعظم سےملنے کے لئے اور ہم ان دو نوں واقعوں کو اختصار کے ساتھ بیان کرتےہیں۔
ایک تجارتی سفر میں رسول اکرمؐ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ شام کی سرزمین کی طرف روانہ ہوئے انہوں نے راستے میں بحیرا نامی ایک شخص کے صومعہ پر توقف کیا اور نبی اکرمؐ جو اس وقت کم عمر تھے ایک درخت کے نیچے سایہ میں جس پر شاخ و برک کم تھیں استراحت فرمایا اچانک اس درخت کے شاخ و برگ حرکت کرنے لگا، اگرچہ اس درخت پر کوئی حتی ایک دانہ میوہ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے شاخوں پر تین قسم کے میوہ ظاہر ہوگئے ، میووں میں سے دو نوع موسم گرمی کا میوہ تھا اور ایک نوع موسم سرما کا میوہ تھا۔ بحیرا چونکہ ایک مسیحی راھب تھا اور انجیل سےآشنا تھا اس واقعہ کو دیکھ کر حضورکوپہچان لیا اور وہ علامات جو آسمانی کتابوں میں پیغمبر اعظم کے بارے میں تھیں اس نے پڑھ لیا تھا آنحضرت کا بطور وضوح مشاہدہ کیا وہ زیادہ مطمئن ہونے کے لئے کھانا بہت کم تیار کرکے سب کو دعوت دی اور حضور کو بھی دعوت دی ، سارے مہمان کھانا کم ہونے کے با وجود مکمل سیر ہوگئے اس کے بعد بحیرا نے آنحضرت کے خواب و بیداری ، رفتار و کردارکے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور سارے جوابات سن لئے اب بحیرا حضرت محمد کو بالکل پہچان گیا تھا، لہذا حضور کے پاوں پر گرپڑا اور باربار حضرت کے پاوں کو بوسہ دے کر رسول اکرمؐ کو بہت تمجید و ستایش کرتاتھا وہ کہتاتھا کہ ابراہیم کی دعا توہے ، عیسٰیؑ کی بشارت توہے، تو جاہلیت کی سارے پلیدی اور رزالتوں سےپاکیزہ ہے اور اگر تیری رسالت کے دوران تک میں زندہ رہوں تو آپ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کروں گا، اس کے بعد اس نے حضرت ابوطالب سے حضور کے بارے میں بہت سفارش کیا، اور حضرت ابوطالب سے درخواست کی کہ اس سفر کے بعد حضور کو اپنے ساتھ سفر میں نہ لے چلیں، تاکہ دشمنوں خصوصا یہودیوں کے شر سے امان میں رہے۔
سلمان فارسی کی جستجو:
سلمان کا پہلا نام روزبہ تھا اور بچپن سے ہی وہ حق وحقیقت کا پیاسا تھا اور ہر وقت وہ ایک زرتشتی خاندان میں متولد ہوا ایک مدت تک دوسروں سےارتباط برقرار رکھنے سے محروم تھا کچھ عرصہ کے بعد اپنی پہلی ملاقات میں ایک کلیسا میں گیا اور وہاں بعض مسیحیوں سے گفتگو کرنے کے بعد ان کے دین کو اپنے اجداد کے دین سے صحیح تر پایا، لہذا مسیحیت کی طرف مائل ہوا اپنے دین کو چھوڑ کر مسیحیت کا پیرو بن گیا اور اپنے والد کی مخالفت کے باوجود وہ سرزمین شام جو اس وقت مسیحیت کا مرکز تھی سفر کیا، اور کچھ سال تک چند مسیحی عالم کے پاس رہا، آخری مسیحی عالم جو روزبہ اس کی خدمت کر رہاتھا اس کے سوال کے جواب میں جو پوچھاتھا کہ اس کے بعد کس کے خدمت میں رہوں، تو اس عالم مسیحی نے پیغمبر اعظم کے ظہور کی نوید اس کو دیا اور آنحضرت کی کچھ علامتیں جیسےصدقہ قبول نہیں کرنا، ہدیہ قبول کرنا اور مہر نبوت آپ کے کاندھے پر منقوش ہونا، یہ علامتیں اس نے بتائیں اور اس سے چاہا کہ اگر ممکن ہوا تو مدینہ میں چلے جائے ، روزبہ اپنے دنوں اور راتوں کو بردگی و غلامی میں سپری کرتاتھا، لیکن وہ ہمیشہ اسلام کی طلوع اور پیغمبر اعظم کی زیارت کا مشتاق تھا یہاں تک کہ روزبہ کوحضور کے اپنےچند اصحاب کے ساتھ مدینہ کے قریب تشریف لانے کی خبر ملی ، سامان سفر مہیا کرکے خود کو پیغمبر کے محضر میں پہنچایا اور اطمینان خاطرہونے کے لئے اپنے ساتھ جو غذا تھی اس کا کچھ حصہ بطور صدقہ انہیں دیدیا اور متوجہ ہوا کہ پیغمبر نے اس غذا کواپنے اصحاب کے درمیان تقسیم کیا اور خود اس سے تناول نہیں فرمایا اور روزبہ نے جب اس منظر کو دیکھا، اس کا شوق اور بڑھ گیا ، لہذا مہر نبوت کو دیکھنا چاھا، نبی اکرمؐ روزبہ کی اس خواہش پر متوجہ ہوکر اپنے کاندھے کو جہاں پر مہر نبوت منقوش تھا اسے دکھایا جب روزبہ نے یہ دیکھا تو اسی جگہ پر اسلام قبول کیا اور سلمان کے نام کو اپنے لئے منتخب کیا ، اس کی غلامی سے آزاد ہونے کا وسیلہ بھی فراہم ہوا اور بہت جلدی حضرت پیغمبر اکرمﷺ کے قریب ترین اصحاب میں شمار ہوگیا ۔
قرآن کریم میں بھی ایسی آیات موجود ہیں جن میں گزشتہ انبیاء نے پیغمبر اکرمﷺ کی رسالت پر بشارت دیدی ہیں اور یہ مطلب جو اہل کتاب آپ کی خصوصیات اور صفات سےآشنا تھےان آیتوں میں آیا ہے:ایک آیت میں پڑھتے ہیں:جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں
ایک اور آیت میں آیاہے:
اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا
اور تیسری آیت میں فرماتےہیں اہل کتاب رسول اکرمؐ کو جانتےتھے ، جس طرح اپنی اولاد کو جانتےتھے
۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب آنحضرت کی خصوصیات کے بارے میں بطور کامل آگاہ تھے لیکن قرآن کریم کے قول کی مطابق:
(
وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِه فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ
)
اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو ۔
پیغمبر اعظم کےمعجزات:
رسول اکرمؐ کے معجزات میں سے ایک معجزہ قرآن مجید ہے جو معجزہ جاویداں پروردگار عالم ہے اور انسان اور خالق کائنات کے درمیان ایک مضبوط رسی (عروۃ الوثقیٰ)کی حیثیت کی وجہ سے ایک اہم موقعیت و جائگاہ سے برخوردار ہے، لہذا اس کے لئے ایک علیحدہ بحث کی ضرورت ہے، لیکن اس سے پہلے پیغمبر اکرمﷺ کے کچھ اور معجزات بیان کرتےہیں:
شقّ القمر:
شیعہ و سنی روایات میں ملتا ہے ، چودہویں کی رات اور رات کا ابتدا ئی وقت تھا چاند آسمان میں ظاہر ہوا تھا، بعض مشرکین کے معجزہ کی درخواست کے بعد رسول اکرمؐ نےایک اشارہ سے چاند کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کردیا اور کچھ مدت کے بعد دوبارہ دونوں ٹکڑوں کو پہلے کی طرح جوڑ دیا۔
سورہ قمر میں اس موضوع کے بارے میں اشارہ ہواہے:(
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِر
)
بنام خداوند رحمن و رحیم۔ قیامت قریب آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔ اور (کفار) اگر کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ تو وہی ہمیشہ کا جادو ہے ۔
جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اس معجزہ کو قرآن کریم کی روسے اور نیز ان روایات کی بنا پر جو تشیّع اور تسنن کی طریق سے وارد ہوئی ہے ، انکار نہیں کرسکتےہیں۔اگرچہ تنگ نظر لوگ معجزہ انبیاء کو قبول نہیں کرتےہیں اور ہر وہ مسئلہ جن کےلئے علمی توجیہ کرنے سےعاجز ہوتےہیں ان کو تاویل کرکے انکار کرتےہیں، یہ لوگ اس مورد میں بھی تفسیربالرائے سے دوچار ہوکر کہتےہیں: اس آیت کا مقصد قیامت کے دن واقع ہونے والے انشقاق قمر ہے، اور ابتدائی آیہ شریفہ کو اپنے اس بات کی مؤید کےعنوان سے پیش کرتے ہیں جبکہ اس نظریہ کی بطلان عیاں ہیں، کیونکہ ابتدائی آیت میں فرماتے ہیں کہ، قیامت کا دن قریب ہے یعنی ابھی نہیں آیاہے اور اس کے بعد فرماتاہے چاند دوٹکڑے ہوگیایعنی ایک ایسا واقعہ پہلے ہی سےتو واقع ہوچکے تھے اور قرآن کریم اس کے بارےمیں خبر دے رہا ہے۔اس کے علاوہ دوسری آیت میں فرماتےہیں: جب مشرکین اس معجزہ کو دیکھتے ہیں وہ اس سے رخ موڑ لیتےہیں اور اس کو ایک جادو اور افسانہ تصور کرتے ہیں، لہذا قرآن کریم انشقاق قمر کو ایک معجزہ کے عنوان سے قبول کرتا ہے جبکہ ایسا واقعہ قیامت کے دن تو معجزہ نہیں ہے، اس کے علاوہ قیامت میں تو اس طرح کے واقعہ پر جادو اور سحر کا الزام لگاکر انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
بعض نے کہاہے کہ انشقاق قمر سے مراد چاند کا زمین سے جدا ہونا ہے اور قرآن نے اس علمی فرضیہ کی طرف اشارہ کیاہے اور کہتا ہے کہ زمین سورج سے جدا ہوگیاہے اور چاند بھی زمین سےجداہوگیا ہے یہ تو بدیہی ہے کہ اس مفہوم قرآن کی تعبیر کے ساتھ جو اس واقعہ کو انشقاق سے تعبیر کیا ہےمنافات رکھتےہیں ، چونکہ جدا ہونا اور دو حصہ میں ٹکڑے ہونے میں بالکل فرق ہے ، ثانیاً ان کے اس معنی کو قبول کرنےکی صورت میں یہ جملہ اور آیت اور نیز بعد والی آیت کے آپس میں جو ارتباط اور مناسبت ہے وہ ختم ہوجاتی ہے ۔
سوال :ممکن ہے کہ کسی کی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجائےکہ کیسےقبول کرسکتے ہیں کہ چاند دو حصہ ہوچکے ہیں لیکن یہ واقعہ تاریخ میں ایک تاریخی حادثہ کےعنوان سےثبت نہیں ہوا ہے؟
اس سوال کا جواب بہت واضح ہے کیونکہ پہلا : یہ واقعہ بغیر پیش بینی اور اچانک و ناگہانی طور پر واقع ہوا ہے اور احتمال یہ ہے کہ ایک گنےچنے معدود افراد جو آسمان کی طرف چاند دیکھ رہےتھے اس واقعہ کو دیکھا ہے۔
دوسرا: جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ چاند تازہ آسمان میں ظاہر ہواتھا اور شاید ابھی چاند پورے نیم کرہ ارض میں ظاہر نہیں ہوا تھا اور افق کے اختلاف کی وجہ سے چاند تمام نیم کرہ ارضی میں ابتدائے ساعات میں نظرنہیں آیاتھا۔
تیسرا: قدیم زمانےمیں لوگوں کے آپس میں رابطہ آج کل کی طرح مضبوط اور قوی نہیں تھے مثلا جب دنیا کے ایک کونے میں اگر چھوٹا سا واقعہ پیش آجائے فوراً دوسرے جگہوں پر گزارش کی جاتی ہے اور اس زمانہ میں ان اشخاص کے لئےجو شاہد واقعہ تھے ممکن نہیں تھا کہ بطور وسیع دوسروں کو بھی مطلع اور آگاہ کرے، لہذا یہ تو طبیعی ہے کہ یہ واقعہ بھی دیگر بہت سے واقعات کی طرح ہم اس سےآگاہ نہ ہوجائے اور تاریخی آنکھوں سے چھپے رہیں۔
دوسرے معجزات:
کچھ اور معجزات بھی پیغمبر اکرمﷺ کے لئے بیان ہوئے ہیں، از جملہ حضور کا بچاہوا وضو کا پانی جب چشمہ تبوک میں ڈالا جو خشک تھا تو اس چشمہ سےپانی جاری ہوگیا، اسی طرح ایک جنگ میں رسول اکرمؐ ایک مٹھی خاک اٹھاکردشمنوں کی طرف پھینک دی اور یہ غبار تمام دشمنوں کے آنکھوں میں گیا اور یہ آیت نازل ہوئی:
(
وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لَاكِنَّ اللَّهَ رَمَى...
)
ایک اور واقعہ کے مطابق حضرت نے دو درخت کواپنے طرف بلایا وہ حضرت کے پاس آکر ایک دوسرے کےپاس کھڑے رہیں اور حضرت کے فرمان پر دوبارہ اپنےجگہوں پر گئے، جو نبی اکرمؐ نے غیبی اخبار بیان فرمایا تھا حضرت کی موارد اعجاز میں شمار ہوتاہے۔
بطور مثال حضرت نے عمار سے فرمایا تجھے ایک سرکش اور ستمگر گروہ قتل کریں گے ، نیز جب نجاشی حبشہ کابادشاہ دنیا سےچلا گیا رسول اکرمؐ نے مدینہ میں لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور وہاں مدینہ میں اس پر نماز پڑھی۔ اور کافی مدت کے بعد معلوم ہوا کہ نجاشی اسی وقت جو پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایاتھا فوت ہوا تھا ، نیز رسول اکرمؐ نے حضرت امیرالمومنینؑ کی شہادت کی کیفیت اور آنحضرت کا تین گروہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جہاد اور نیز امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت کی خبر، اور آنحضرت کے ایک فرزند کا مدفن شہر طوس ہونے کا اور امام رضاؑ اور ابوذر غربت اور تنہائی میں شہید ہونے کی خبر آنحضرت نے دے دی تھی۔
تمت بالخیر
والحمد للہ رب العالمین
حوالے
___________________