پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)0%

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن غرویان
زمرہ جات: مشاہدے: 5308
ڈاؤنلوڈ: 2547

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5308 / ڈاؤنلوڈ: 2547
سائز سائز سائز

چوتھی فصل

پیغمبر اکرمﷺکی زندگی اور رسالت

نوید سحر :

......بَعَثَهُ‏ حِينَ‏ لَا عَلَمٌ‏ قَائِمٌ وَ لَا مَنَارٌ سَاطِعٌ وَ لَا مَنْهَجٌ وَاضِح‏ (۱۲۰) ۔

بہت لمبا عرصہ ہوچکا تھا کہ انبیاء الٰہی کی ندای وحدانیت انسانوں کی کانوں تک نہیں پہنچ چکی تھی اور مشعل ہدایت کا نور سیاہ بادلوں کے پس پشت چھپ گیا تھا ، رات چھاگئی تھی ایسی رات جواستواءسے لمبا سارے لوگ حیرت اور سرگردانی میں مبتلا تھے، جاھل اور پست لوگ مقام حکمرانی پر انسانی شخصیت اور کرامت فساد وتباھی کی مرداب میں غوطہ ور تھے ، ناروائیاں اور برائیاں رائج ہوگئی تھیں، اخلاقی فضائل نگاہوں سے ہٹ چکے تھےخاص طورپر سعودی عرب کی سرزمین میں اخلاقی فساد اور ثقافتی انحطاط اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی،لوٹ مار ، قتل و غارتگری، قبائل عرب کے رائج کاموں میں سے شمار ہوتا تھا۔

امیرالمومنین علیؑ بعثت سےپہلے والے معاشرے کی اس طرح توصیف کرتےہیں: خدواند پیغمبر اعظم کو اس وقت رسالت پر منتخب کیا جو بہت سے عرصہ انبیاء ماسبق کی بعثت سے گزر ہوچکے تھے لوگ ایک گہری اور لمبی نیند میں ڈوبے ہوئے تھے، فتنہ و آشوب کےشعلے پوری دنیا میں جل چکے تھے تمام امور کا سررشتہ پراکندہ اور تتر بتر ہوچکے تھےجنگ کی آگ شعلہ ور، تاریکی ، جہل اور گناہ عام اور دھوکہ و فریب اور تزویر آشکار تھا بشر کی درخت زندگی کا پتہ زرد رنگ ہوچکا تھا ، اس سے ثمرہ ملنے کی امید ختم ہوچکی تھی ، سارا پانی زمینوں کے اندر گھس گیا تھا، ہدایت کا شعلہ ٹھنڈا اور خاموش ، ضلالت و گمراہی کا پرچم بلندتھا ، پستی اور بدبختی بشر پر ہجوم لائےتھے، اور اپنے مکروہ چہرہ کو بدنما کیا تھا بس بد اقبالی اور تیرہ ورزی سے فتنہ اور آشوب کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل آتا تھا لوگوں کے دلوں پر دہشت او وحشت طاری ہوکر خون بہانے والی تلوار کے سوا کچھ نہیں دیکھتے تھے(۱۲۱) ۔اور ایسے ماحول میں اچانک صبح کی روشنائی اور اس نور کی تلالؤ نورصبح ڈھونڈنےوالوں کو اپنے انوار تابناک میں غرق کردیا آسمان نبوت میں ایک پرنور سورج طلوع ہوا، ایسا سورج جس نے کبھی بھی غروب نہ کیا اور نہ کرےگا او رہمیشہ کے لئے تاریکی کوبشر کی زندگی کے فضا سے ہٹا دیا۔

اس دفعہ؛ایسا شخص جو پہاڑکی چوٹیوں کی طرح شان و شوکت کی بارش جس کے پیکرسے برس رہاتھا، وہ جو اس کو وجود عالم ہستی کی بڑی راز ہیں وحی کی ہمیان کو اپنے دوش پر لادکر اپنے پروردگار کے فرمان کی تعمیل کرتےہوئے زعامت اور رہبری کے بلند مقام پر ٹیک لگادیا اور بشریت سرگرداں کاروان کو سعادت و کمال کی طرف رہنمائی کی۔

ابھی پیغمبر کی عمر پربرکت سے چالیس برس نہیں گزرےتھے وحی کا قاصد حضرت پر نازل ہوکر، پیغام الٰہی کہ جو لوگوں کے انذار پر مبنی آیات ان تک پہنچایا:

( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ) (۱۲۲)

(اے رسول) پڑھیے! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔

پیغمبر اکرم ﷺ کی نبوت کا اثبات:

ہم پچھلے بحثوں میں دعویٰ نبوت کرنے والوں کی سچائی جاننے کے طریقوں کو اس ترتیب سےبیان کردیا:

۱ ۔ ماسبق نبیوں کی بشارت۔

۲ ۔ مدعی نبوت کے معجزات۔

۳ ۔ ایسے قطعی شواھد و قرائن جو اس کی نبوت پر دلالت کرلے۔

اب ہم یہ سارے طریقوں کو ایک ایک کرکے پغمبر اعظم کی رسالت کے بارے میں بررسی کرتے ہیں:

۱ ۔ گزشتہ انبیاءکی بشارت:

گزشتہ انبیاءکی مسلسل بشارتیں اہل تحقیق کے لئے مخفی نہیں ہے۔ہم یہاں چند نمونہ پر اکتفا کرتےہیں۔ کتاب درالنظم ماسبق انبیاء کی بشارتوں کو پیغمبر اکرم ﷺ کےظہور کے بارے میں ایک الگ فصل کھولنے کے ساتھ ، تورات کی سفر اول میں حضرت موسٰیؑ کی بشارتیں ، سفر دوم میں حضرت ابراہیم کی بشارتیں، پندرہ ویں اور پچاس ویں سفر میں مزامیر سے اور نیز عویدیا ،حیقوق،حزقیل، دانیال، شعیا کی بشارتیں جو یہ سارے انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں یا د کرتے ہیں ۔(۱۲۳)

ایک اور حدیث میں عبداللہ بن سلیمان سے جو ایک آگاہ اور گزشتہ آسمانی کتابوں سے واقف ایک شخص تھا نقل ہو اہے کہ اس نے کہا : میں نے ان جملات کو انجیل میں پڑھا ہے کہ اے عیسٰیؑ میرے امر کی تعمیل میں کوشاں رہو اور اس کو بے اہمیت نہ سمجھو، سن لو اور فرمان برداری کرو، اے پاکیزہ اور طاہر بکر ،(۱۲۴) بتول(۱۲۵) کا فرزند تو بغیر والد کے متولد ہوا ہے ، میں نے تجھےخلق کیا ہے تاکہ لوگوں کے لئے آیت اور دلیل رہیں اور صرف میری عبادت کرو اور مجھ پر توکل کرو، اس کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اور اہم سور کے لئے سریانی زبان میں تفسیر کرو، وہ لوگ جوتیرے پاس ہیں اس بات کو پہنچا دوکہ میں خدائے لازوال اور ہمیشگی و سرمدی ہوں، تصدیق کرو تلمذ اختیار کرنے والے پیغمبر کو جو صاحب اونٹ اور جامہ پشمی اور تاج و عمامہ ہے اور صاحب نعلین و عصا ہے وہ موٹی آنکھیں اور گشادہ جبین والا ہے، اس کا چہرہ روشن ونورانی اور اس کا ناک نازک اور لمبا اور تھوڑا سا اس کے ناک کے بیج میں برآمدگی ہے، ان کے دانتوں کے درمیان فاصلہ، اس کی گردن چاندھی کی طرح ہے، گردن کی دونوں اطراف گویا سونے سے سجی ہوئی ہیں، سینہ سےناف تک بال اگے ہوئے ہیں، لیکن ان کے سینہ اور پیٹ پر کوئی بال نہیں ہیں ان کا رنگ گندمگوں ہےاور سینہ سے ناف تک بال کی ایک لکیر ہے جو نازک اور لطیف ہے ان کے ہاتھ اور پاوں بڑے طاقتورہیں، جب کسی کی طرف توجہ کرتےوقت اپنے پورے بدن سےاس کی طرف رخ کرتےہیں، چلتے وقت گویا پتھر سے اپنےپیر کو نکال لیتےہیں گویا ایک بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں(۱۲۶) مجمع کے درمیان میں ہو تو سب پر غالب آجاتاہے ، چہرےپر پسینہ کا دانہ، موتی کی طرح لگتا ہےاس پسینے سے مشک کی خوشبو دوسروں کے مشاموں میں پہنچتے ہیں، کوئی بھی اس سے پہلے اور اس کے بعد اس جیسا نہیں دیکھا گیا ہے، وہ خوشبو ہے اس کے لئے متعدد بیویاں ہیں ، اس کی اولاد کم ہے، اور اس کی نسل ایک بابرکت خاتون سے ہے جس کے لیے بہشت میں گھر مہیا ہے، وہاں پر فریاد بلند اور مشکلات نہیں ہے وہ آخرالزمان میں اس کے امورا کو اپنے عہدہ میں لے لیتےہیں اس خاتون سےنگہداری کرے گا جیسا کہ تیری ماں سےنگہداری کیا، اس کے دو بچے ہیں جو خدا کی راہ میں مارے جائیں گے، اس کا کلام قرآن اور اس کا دین اسلام ہے، خوش نصیب ہے وہ جو اس کے دوران کو درک کرے اس کے روزگار میں حاضر ہوکر اس کے باتوں کو مان لے ۔(۱۲۷)

اسی طرح مزامیر میں آیا ہے: بے شک خداوند صہیول سے اکلیل و محمود کو ظاہر کرے گا اور صہیول سے مراد قوم عرب اور اکلیل یعنی نبوت اور محمود سےمرادمحمد ہے اس کے علاوہ آسمانی کتابوں سے آشنائی رکھنے والے ایک گروہ علما نے پیغمبر اعظم کی رسالت پر گواہی دی ہے۔ اور بہت واضح ہے کہ ان کی گواہی دینا خود دلیل ہے کہ انہوں نے آسمانی کتابوں پر استناد کیا ہے جویہ علما ان کتابوں سےآشنا تھے۔

پیغمبر اکرمﷺ کے ظہور کے بارے میں جو اخبار وارد ہوئے ہیں ان میں سے مشہور ترین خبر بحیرا نامی ایک مسیحی راہب کا ماجرا ہے پیغمبر اعظم کے ساتھ ملنے سے پہلے اور حضرت سلمان کا جستجو ہے پیغمبر اعظم سےملنے کے لئے اور ہم ان دو نوں واقعوں کو اختصار کے ساتھ بیان کرتےہیں۔

ایک تجارتی سفر میں رسول اکرمؐ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ شام کی سرزمین کی طرف روانہ ہوئے انہوں نے راستے میں بحیرا نامی ایک شخص کے صومعہ پر توقف کیا اور نبی اکرمؐ جو اس وقت کم عمر تھے ایک درخت کے نیچے سایہ میں جس پر شاخ و برک کم تھیں استراحت فرمایا اچانک اس درخت کے شاخ و برگ حرکت کرنے لگا، اگرچہ اس درخت پر کوئی حتی ایک دانہ میوہ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے شاخوں پر تین قسم کے میوہ ظاہر ہوگئے ، میووں میں سے دو نوع موسم گرمی کا میوہ تھا اور ایک نوع موسم سرما کا میوہ تھا۔ بحیرا چونکہ ایک مسیحی راھب تھا اور انجیل سےآشنا تھا اس واقعہ کو دیکھ کر حضورکوپہچان لیا اور وہ علامات جو آسمانی کتابوں میں پیغمبر اعظم کے بارے میں تھیں اس نے پڑھ لیا تھا آنحضرت کا بطور وضوح مشاہدہ کیا وہ زیادہ مطمئن ہونے کے لئے کھانا بہت کم تیار کرکے سب کو دعوت دی اور حضور کو بھی دعوت دی ، سارے مہمان کھانا کم ہونے کے با وجود مکمل سیر ہوگئے اس کے بعد بحیرا نے آنحضرت کے خواب و بیداری ، رفتار و کردارکے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور سارے جوابات سن لئے اب بحیرا حضرت محمد کو بالکل پہچان گیا تھا، لہذا حضور کے پاوں پر گرپڑا اور باربار حضرت کے پاوں کو بوسہ دے کر رسول اکرمؐ کو بہت تمجید و ستایش کرتاتھا وہ کہتاتھا کہ ابراہیم کی دعا توہے ، عیسٰیؑ کی بشارت توہے، تو جاہلیت کی سارے پلیدی اور رزالتوں سےپاکیزہ ہے اور اگر تیری رسالت کے دوران تک میں زندہ رہوں تو آپ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کروں گا، اس کے بعد اس نے حضرت ابوطالب سے حضور کے بارے میں بہت سفارش کیا، اور حضرت ابوطالب سے درخواست کی کہ اس سفر کے بعد حضور کو اپنے ساتھ سفر میں نہ لے چلیں، تاکہ دشمنوں خصوصا یہودیوں کے شر سے امان میں رہے۔(۱۲۸)

سلمان فارسی کی جستجو:

سلمان کا پہلا نام روزبہ تھا اور بچپن سے ہی وہ حق وحقیقت کا پیاسا تھا اور ہر وقت وہ ایک زرتشتی خاندان میں متولد ہوا ایک مدت تک دوسروں سےارتباط برقرار رکھنے سے محروم تھا کچھ عرصہ کے بعد اپنی پہلی ملاقات میں ایک کلیسا میں گیا اور وہاں بعض مسیحیوں سے گفتگو کرنے کے بعد ان کے دین کو اپنے اجداد کے دین سے صحیح تر پایا، لہذا مسیحیت کی طرف مائل ہوا اپنے دین کو چھوڑ کر مسیحیت کا پیرو بن گیا اور اپنے والد کی مخالفت کے باوجود وہ سرزمین شام جو اس وقت مسیحیت کا مرکز تھی سفر کیا، اور کچھ سال تک چند مسیحی عالم کے پاس رہا، آخری مسیحی عالم جو روزبہ اس کی خدمت کر رہاتھا اس کے سوال کے جواب میں جو پوچھاتھا کہ اس کے بعد کس کے خدمت میں رہوں، تو اس عالم مسیحی نے پیغمبر اعظم کے ظہور کی نوید اس کو دیا اور آنحضرت کی کچھ علامتیں جیسےصدقہ قبول نہیں کرنا، ہدیہ قبول کرنا اور مہر نبوت آپ کے کاندھے پر منقوش ہونا، یہ علامتیں اس نے بتائیں اور اس سے چاہا کہ اگر ممکن ہوا تو مدینہ میں چلے جائے ، روزبہ اپنے دنوں اور راتوں کو بردگی و غلامی میں سپری کرتاتھا، لیکن وہ ہمیشہ اسلام کی طلوع اور پیغمبر اعظم کی زیارت کا مشتاق تھا یہاں تک کہ روزبہ کوحضور کے اپنےچند اصحاب کے ساتھ مدینہ کے قریب تشریف لانے کی خبر ملی ، سامان سفر مہیا کرکے خود کو پیغمبر کے محضر میں پہنچایا اور اطمینان خاطرہونے کے لئے اپنے ساتھ جو غذا تھی اس کا کچھ حصہ بطور صدقہ انہیں دیدیا اور متوجہ ہوا کہ پیغمبر نے اس غذا کواپنے اصحاب کے درمیان تقسیم کیا اور خود اس سے تناول نہیں فرمایا اور روزبہ نے جب اس منظر کو دیکھا، اس کا شوق اور بڑھ گیا ، لہذا مہر نبوت کو دیکھنا چاھا، نبی اکرمؐ روزبہ کی اس خواہش پر متوجہ ہوکر اپنے کاندھے کو جہاں پر مہر نبوت منقوش تھا اسے دکھایا جب روزبہ نے یہ دیکھا تو اسی جگہ پر اسلام قبول کیا اور سلمان کے نام کو اپنے لئے منتخب کیا ، اس کی غلامی سے آزاد ہونے کا وسیلہ بھی فراہم ہوا اور بہت جلدی حضرت پیغمبر اکرمﷺ کے قریب ترین اصحاب میں شمار ہوگیا ۔(۱۲۹)

قرآن کریم میں بھی ایسی آیات موجود ہیں جن میں گزشتہ انبیاء نے پیغمبر اکرمﷺ کی رسالت پر بشارت دیدی ہیں اور یہ مطلب جو اہل کتاب آپ کی خصوصیات اور صفات سےآشنا تھےان آیتوں میں آیا ہے:ایک آیت میں پڑھتے ہیں:جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں(۱۳۰)

ایک اور آیت میں آیاہے:

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا(۱۳۱)

اور تیسری آیت میں فرماتےہیں اہل کتاب رسول اکرمؐ کو جانتےتھے ، جس طرح اپنی اولاد کو جانتےتھے(۱۳۲) ۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب آنحضرت کی خصوصیات کے بارے میں بطور کامل آگاہ تھے لیکن قرآن کریم کے قول کی مطابق:

( وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِه فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) (۱۳۳)

اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو ۔

پیغمبر اعظم کےمعجزات:(۱۳۴)

رسول اکرمؐ کے معجزات میں سے ایک معجزہ قرآن مجید ہے جو معجزہ جاویداں پروردگار عالم ہے اور انسان اور خالق کائنات کے درمیان ایک مضبوط رسی (عروۃ الوثقیٰ)کی حیثیت کی وجہ سے ایک اہم موقعیت و جائگاہ سے برخوردار ہے، لہذا اس کے لئے ایک علیحدہ بحث کی ضرورت ہے، لیکن اس سے پہلے پیغمبر اکرمﷺ کے کچھ اور معجزات بیان کرتےہیں:

شقّ القمر:

شیعہ و سنی روایات میں ملتا ہے ، چودہویں کی رات اور رات کا ابتدا ئی وقت تھا چاند آسمان میں ظاہر ہوا تھا، بعض مشرکین کے معجزہ کی درخواست کے بعد رسول اکرمؐ نےایک اشارہ سے چاند کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کردیا اور کچھ مدت کے بعد دوبارہ دونوں ٹکڑوں کو پہلے کی طرح جوڑ دیا۔

سورہ قمر میں اس موضوع کے بارے میں اشارہ ہواہے:( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِر ) (۱۳۵)

بنام خداوند رحمن و رحیم۔ قیامت قریب آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔ اور (کفار) اگر کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ تو وہی ہمیشہ کا جادو ہے ۔

جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اس معجزہ کو قرآن کریم کی روسے اور نیز ان روایات کی بنا پر جو تشیّع اور تسنن کی طریق سے وارد ہوئی ہے ، انکار نہیں کرسکتےہیں۔اگرچہ تنگ نظر لوگ معجزہ انبیاء کو قبول نہیں کرتےہیں اور ہر وہ مسئلہ جن کےلئے علمی توجیہ کرنے سےعاجز ہوتےہیں ان کو تاویل کرکے انکار کرتےہیں، یہ لوگ اس مورد میں بھی تفسیربالرائے سے دوچار ہوکر کہتےہیں: اس آیت کا مقصد قیامت کے دن واقع ہونے والے انشقاق قمر ہے، اور ابتدائی آیہ شریفہ کو اپنے اس بات کی مؤید کےعنوان سے پیش کرتے ہیں جبکہ اس نظریہ کی بطلان عیاں ہیں، کیونکہ ابتدائی آیت میں فرماتے ہیں کہ، قیامت کا دن قریب ہے یعنی ابھی نہیں آیاہے اور اس کے بعد فرماتاہے چاند دوٹکڑے ہوگیایعنی ایک ایسا واقعہ پہلے ہی سےتو واقع ہوچکے تھے اور قرآن کریم اس کے بارےمیں خبر دے رہا ہے۔اس کے علاوہ دوسری آیت میں فرماتےہیں: جب مشرکین اس معجزہ کو دیکھتے ہیں وہ اس سے رخ موڑ لیتےہیں اور اس کو ایک جادو اور افسانہ تصور کرتے ہیں، لہذا قرآن کریم انشقاق قمر کو ایک معجزہ کے عنوان سے قبول کرتا ہے جبکہ ایسا واقعہ قیامت کے دن تو معجزہ نہیں ہے، اس کے علاوہ قیامت میں تو اس طرح کے واقعہ پر جادو اور سحر کا الزام لگاکر انکار نہیں کرسکتے ہیں۔

بعض نے کہاہے کہ انشقاق قمر سے مراد چاند کا زمین سے جدا ہونا ہے اور قرآن نے اس علمی فرضیہ کی طرف اشارہ کیاہے اور کہتا ہے کہ زمین سورج سے جدا ہوگیاہے اور چاند بھی زمین سےجداہوگیا ہے یہ تو بدیہی ہے کہ اس مفہوم قرآن کی تعبیر کے ساتھ جو اس واقعہ کو انشقاق سے تعبیر کیا ہےمنافات رکھتےہیں ، چونکہ جدا ہونا اور دو حصہ میں ٹکڑے ہونے میں بالکل فرق ہے ، ثانیاً ان کے اس معنی کو قبول کرنےکی صورت میں یہ جملہ اور آیت اور نیز بعد والی آیت کے آپس میں جو ارتباط اور مناسبت ہے وہ ختم ہوجاتی ہے ۔

سوال :ممکن ہے کہ کسی کی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجائےکہ کیسےقبول کرسکتے ہیں کہ چاند دو حصہ ہوچکے ہیں لیکن یہ واقعہ تاریخ میں ایک تاریخی حادثہ کےعنوان سےثبت نہیں ہوا ہے؟

اس سوال کا جواب بہت واضح ہے کیونکہ پہلا : یہ واقعہ بغیر پیش بینی اور اچانک و ناگہانی طور پر واقع ہوا ہے اور احتمال یہ ہے کہ ایک گنےچنے معدود افراد جو آسمان کی طرف چاند دیکھ رہےتھے اس واقعہ کو دیکھا ہے۔

دوسرا: جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ چاند تازہ آسمان میں ظاہر ہواتھا اور شاید ابھی چاند پورے نیم کرہ ارض میں ظاہر نہیں ہوا تھا اور افق کے اختلاف کی وجہ سے چاند تمام نیم کرہ ارضی میں ابتدائے ساعات میں نظرنہیں آیاتھا۔

تیسرا: قدیم زمانےمیں لوگوں کے آپس میں رابطہ آج کل کی طرح مضبوط اور قوی نہیں تھے مثلا جب دنیا کے ایک کونے میں اگر چھوٹا سا واقعہ پیش آجائے فوراً دوسرے جگہوں پر گزارش کی جاتی ہے اور اس زمانہ میں ان اشخاص کے لئےجو شاہد واقعہ تھے ممکن نہیں تھا کہ بطور وسیع دوسروں کو بھی مطلع اور آگاہ کرے، لہذا یہ تو طبیعی ہے کہ یہ واقعہ بھی دیگر بہت سے واقعات کی طرح ہم اس سےآگاہ نہ ہوجائے اور تاریخی آنکھوں سے چھپے رہیں۔

دوسرے معجزات:

کچھ اور معجزات بھی پیغمبر اکرمﷺ کے لئے بیان ہوئے ہیں، از جملہ حضور کا بچاہوا وضو کا پانی جب چشمہ تبوک میں ڈالا جو خشک تھا تو اس چشمہ سےپانی جاری ہوگیا، اسی طرح ایک جنگ میں رسول اکرمؐ ایک مٹھی خاک اٹھاکردشمنوں کی طرف پھینک دی اور یہ غبار تمام دشمنوں کے آنکھوں میں گیا اور یہ آیت نازل ہوئی:

( وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لَاكِنَّ اللَّهَ رَمَى‏... ) (۱۳۸)

ایک اور واقعہ کے مطابق حضرت نے دو درخت کواپنے طرف بلایا وہ حضرت کے پاس آکر ایک دوسرے کےپاس کھڑے رہیں اور حضرت کے فرمان پر دوبارہ اپنےجگہوں پر گئے، جو نبی اکرمؐ نے غیبی اخبار بیان فرمایا تھا حضرت کی موارد اعجاز میں شمار ہوتاہے۔

بطور مثال حضرت نے عمار سے فرمایا تجھے ایک سرکش اور ستمگر گروہ قتل کریں گے ، نیز جب نجاشی حبشہ کابادشاہ دنیا سےچلا گیا رسول اکرمؐ نے مدینہ میں لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور وہاں مدینہ میں اس پر نماز پڑھی۔ اور کافی مدت کے بعد معلوم ہوا کہ نجاشی اسی وقت جو پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایاتھا فوت ہوا تھا ، نیز رسول اکرمؐ نے حضرت امیرالمومنینؑ کی شہادت کی کیفیت اور آنحضرت کا تین گروہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جہاد اور نیز امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت کی خبر، اور آنحضرت کے ایک فرزند کا مدفن شہر طوس ہونے کا اور امام رضاؑ اور ابوذر غربت اور تنہائی میں شہید ہونے کی خبر آنحضرت نے دے دی تھی۔(۱۳۹)

تمت بالخیر

والحمد للہ رب العالمین

حوالے

___________________

۱ ۔ بقرہِ، ۲۱۳۔

۲۔ آل عمران : ۸۴

۳۔ کچھ اور آیات بھی اسی بارے میں آیا ہے، ان میں سے: (فصلت، ۱۴، (مؤمنون،۴۴)، (اعراف،۳۵)۔

۴۔ نحل، ۳۶۔

۵۔ مریم، ۱۹۔ اس نے کہا: میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں ۔

۶۔ البتہ یہ قابل اشکال نہیں ہے کہ رسالت کے ساتھ کوئی اور وظیفہ جو پیغام پہنچانے کے علاوہ ہو انجام دے۔

۷۔ البتہ یہاں ضروری ہےکہ یہ بات بیان کروں کہ رسول کا لفظ پیغام الٰہی لانے والوں کے بار ے میں ضروری جانتا ہے کہ یہ حضرات پیغام کے محتویٰ سے جو وہی وحی الٰہی ہے سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔تو اس صورت میں اسی لازمہ کی وجہ سے مفہوم نبی اور رسول عموم و خصوص مطلق ہوگا۔

۸۔ مریم، ۵۱۔ اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجیے، وہ یقینا برگزیدہ نبی مرسل تھے۔

۹۔ حج، ۵۲، اور (اے رسول) آپ سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی ...۔

۱۰۔ اس کے علاوہ جیسا کہ پچھلے صفحہ کی حاشیہ میں سورہ مریم کی ۵۱،ویں آیت میں ذکر ہوا کہ دو مفہوم رسول اور نبی کے درمیان نسب اربعہ میں سے عام اور خاص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے اور خاص کے بعد عام ذکر ہوا ہے اور یہ قرآن کریم کی بلاغت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

۱۱۔ دو لفظ فقیر اور مسکین کے بارے میں بھی یہی ذکر ہوا ہے۔

۱۲۔ بصائر الدرجات، آٹھویں حصہ، ص/ ۳۶۸، ح۳۔

۱۳۔ ترجمہ۔۔۔۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ قرآن کریم میں لفظ ولامحدث موجود نہیں ہے و شایدیہ لفظ تفسیر اور توضیحی ہو جو امام آیت کی ذیل میں فرمایا ہو، البتہ اسی زمینہ میں متعدد روایات موجود ہیں۔ رجوع کیجئے: بصائر الدرجات، ص۳۶۸۔

۱۴ ۔ بقرہِ، ۲۱۳۔

۱۵ ۔ فاطر /۲۴

۱۶۔ ابراہیم، ۴۔

۱۷۔ ص،۲۶۔

۱۸۔ نساء، ۶۴۔

۱۹ ۔ بقرہ /۱۲۴

۲۰۔ انبیاء، ۷۳۔اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔

۲۱۔ قصص، ۴۱۔

۲۲۔ ابراہیم، ۳۹۔

۲۳۔ معنوی مقامات کا مقصد انبیاء کی عرفانی حالات اور ان کے سیر و سلوک نہیں بلکہ جیساکہ مطالب کی تقسیم بندی اور آیندہ بیان ہونے والے توضیحات سے معلوم ہوتاہےوہ یہ ہے کہ مقصود ان کی بعض فردی فضیلتیں مراد ہیں جو دوسروں سے مرتبط نہیں ہیں۔

۲۴۔ آل عمران، ۸۱۔

۲۵۔ بقرہ، ۱۰۱۔

۲۶۔ انعام، ۹۲۔

۲۷۔ صف،۶۔

۲۸۔ انبیاء، ۷۲۔

۲۹۔ انعام، ۸۵۔

۳۰۔ مریم، ۴۱۔

۳۱۔ مریم، ۵۶۔

۳۲۔ نساء، ۱۲۵۔

۳۳۔ مریم، ۵۱۔

۳۴۔ یوسف،۲۴۔ ص۴۶۔

۳۵۔ ص،۴۴۔

۳۶ ۔ نمل /۱۵

۳۷۔ آل عمران، ۶۷۔

۳۸۔ آل عمران، ۸۵۔

۳۹۔ شایان ذکر ہے کہ اسلام کے لئے مختلف مراتب ہیں جو اس کی حد نصاب سے شروع اور آخر میں اس کے مراتب عالی تک پہنچتے ہیں اور یقیناً حضرت ابراہیم اپنی اس بلند شخصیت کے ساتھ مراحل عالی اسلام اور تسلیم پر فائز تھے ۔

۴۰۔ نحل،۳۶۔

۴۱۔ فاطر، ۲۴۔

۴۲۔ انعام ۳۸

۴۳۔ نحل، ۳۶۔

۴۴۔ فصلت، ۱۴۔

۴۵۔ یوسف، ۱۰۹۔

۴۶۔ انبیاء،۷۔

۴۷۔ ابراہیم،۴۔

۴۸۔ شعراء، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۴۵، ۱۶۴، ۱۸۰۔

۴۹۔ ص۸۶۔

۵۰۔ شوریٰ، ۲۳۔

۵۱۔ سباء، ۴۷۔

۵۲۔، فرقان، ۵۷۔

۵۳ ۔ بقرہ /۲۵۳ ۔

۵۴۔ ر- ک : ھود،/۵۰،۶۱۔ صف،/۵۔ شعراء۱۶،۱۷۔ اسراء،۳۔

۵۵۔ ر- ک: انعام،۱۶۰۔ آل عمران،۵۰۔

۵۶۔ ر -ک : انعام،۳۰۔ احقاف، ۲۹۔

۵۷۔ ابراہیم، ۹۔ نیز اسی موضوع کے بارے میں سورہ ابراہیم،۶، فاطر،۲۵،۲۶، میں بیان ہوئی ہے۔

۵۸ ۔ اعراف /۶۰ ۔

۵۹۔ سباء، ۳۴۔

۶۰۔ اعراف،۷۵۔

۶۱۔ انبیاء، ۳۶۔

۶۲۔ مطففین، ۲۹،۳۲۔

۶۳۔ الذاریات، ۵۲،۵۳۔

۶۴۔ اسراء، ۹۰۔۹۴۔

۶۵۔ بقرہ، ۱۱۸۔

۶۶۔ ابراہیم، ۱۳۔

۶۷۔ ھود، ۹۱۔

۶۸۔ یسن، ۱۸۔

۶۹۔ اعراف، ۹۴۔

۷۰۔ البتہ وفور اور زیادی نعمت ہمیشہ بعنوان استدراج نہیں ہے، بلکہ با فضیلت اور خودساختہ انسانوں کے لئے خداوند سے زیادہ شکر کرنے کا موجب ہوتی ہے نتیجتاً آخر میں کمال حقیقی اور برترتک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔اسی طرح استدراج اور املاء کا قانون کبھی شیطان کا ایک فریب اور ددھوکہ نہیں سمجھنا چاہئے ، کیونکہ شیطان کا مکر ضعیف ہے (نساء۷۴) بلکہ یہ ایک ایسا مکر اور الٰہی ترفند ہے جو پروردگار کی طرف سے لوگوں کے سرکشی اور عصیان جو دعوت انبیاء کے مقابل میں اسی طرح عاطفی طریقے مؤثر ثابت نہ ہونے کے بعد جیساکہ سختیوں میں مبتلا ہونا جو معمولاً تضرع اور خداوند کی طرف لوٹنے کا موجب بنتے ہیں استعمال ہوتےہیں اور یہ بہت قوی اور مؤثر تدبیر ہے۔

۷۱ اعراف /۹۵

۷۲۔ انعام،۴۴۔

۷۳۔ اعراف، ۱۸۲،۱۸۳۔

۷۴۔ بحارالانوار، ج۱۱، ص۲۸، بنقل از اعتقادات صدوق۔

۷۵۔سابقہ حوالہ، ص۳، ح۲۱۔

۷۶۔ یہ کنایہ ہے جیساکہ ھبۃ اللہ فرزند آدم اور اس کا جانشین تھا حضرت علیؑ بھی رسول اکرمؐ کا وصی اور جانشین ہے۔

۷۷۔ سابقہ حوالہ، ص۴۱، ح۴۲۔

۷۸۔ نساء، ۱۶۳،۱۶۴۔

۷۹۔ انعام۸۶، ۸۵، ۸۴،۸۳۔

۸۰۔ انبیاء ۸۵۔

۸۱۔ ھود، ۵۰۔

۸۲۔ ھود۔ ۶۱۔

۸۳۔ ھود، ۸۴۔

۸۴۔ فتح، ۲۹۔

۸۵۔ آل عمران،۹۳۔

۸۶۔ مائدہ، ۴۶۔

۸۷۔ نساء، ۱۶۳۔

۸۹۔ نساء۸۲۔

۹۰۔ انعام، ۱۹۔

۹۱۔ یوسف،۲۔

۹۲۔ اعلیٰ،۱۸،۱۹۔

۹۳۔ مریم، ۱۲۔

۹۴۔ ا س ادعا کی دلایل کے علاقہ مندوں سے گزارش ہے کہ عہد عتیق کی محتویات کے اساس پر کتاب اسلام آئین برگزیدہ جو الہدی الی دین المصطفی کا ترجمہ ہے مراجعہ کریں پانچویں اور چھٹی مقدمی اور تیرہ ویں مقدمہ کی ابتداق میں۔

۹۵۔خلاصہ، سیر تاریخی تورات، ص۶، انتشارات در راہ حق۔

۹۶۔ سابقہ حوالہ،نقل از مزامیر ، باب۱۰۶، بند۴۶،۳۶۔

۹۷۔ اسلام آئین برگزیدہ، ص۸۴،۸۰۔

۹۸۔ سابقہ حوالہ، ص۱۰۹

۹۹۔ سابقہ حوالہ، ص۱۰۹۔

۱۰۰۔ کتب عہد جدید بھی حسن کی محتویات کو دیکھ کر اور ان کے اند رجو تناقضات موجود ہیں لہذا قابل اعتماد نہیں ہے۔

۱۰۱۔ سابقہ حوالہ۔

۱۰۲۔ سابقہ حوالہ۔

۱۰۳۔سابقہ حوالہ، ص۱۴۳، ۱۳۳۔

۱۰۴۔سابقہ حوالہ،ص۲۶۴۔

۱۰۵۔ سابقہ حوالہ، ص۴۷۰، ۲۶۸۔

۱۰۶۔ سابقہ حوالہ۔

۱۰۷ سابقہ حوالہ۔

۱۰۸۔ اننعام۸۴۔

۱۰۹۔ ص،۱۷۔

۱۱۰۔ ص۔

۱۱۱۔ ص۲۵۔

۱۱۲۔ انعام۸۶۔

۱۱۳۔ ص۴۸۔

۱۱۴۔ طٰہ،۴۱۔

۱۱۵۔ مریم۳۰ تا ۳۲۔

۱۱۶۔ آل عمران ۱۸۷۔

۱۱۷۔ مائدہ، ۱۳۔

۱۱۸۔ مائدہ ۱۵۔

۱۱۹ ۔ احقاب /۳۵

۱۲۰۔بحار الانوار، ج۱۱، ص۳۴، ح۲۸۔

۱۲۱۔ معالم النبوۃ، ص۱۶۳۔

۱۲۲۔ نہج البلاغہ، فیض، خ۱۸۷، ص۶۲۲۔

۱۲۳۔ سابقہ حوالہ، فیض۸۸، ص۲۱۲۔

۱۲۴۔ علق۱تا۵۔

۱۲۵۔ علم الیقین، فیض کاشانی، ج۱، ص۴۲۳۔

۱۲۶۔ وہ عورت جس کی شادی نہیں ہوئی ہو۔

۱۲۷۔ اس عورت کو کہا جاتا ہے کہ جو عادت ماہانہ(حیض) سے پاک ہوئی ہو۔ اور یہ حضرت مریم اور نیز حضرت زہراؑکے القاب ہیں۔

۱۲۸۔یعنی راستہ چلتے وقت پاؤں اٹھاکے چلتےہیں، اور زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ راستہ چلتے وقت ان کے سر مبارک نیچے کی طرف ہوتی ہے، جیسے بلندی سے نیچے اتر رہے ہیں۔

۱۲۹۔اثبات الہداۃ، ج۱،باب ۷، ص۳۳۷۔۳۳۵۔

۱۳۰۔علم الیقین ، فیض کاشانی، ج۱، ص۴۳۱۔۴۲۹۔

۱۳۱۔ سیرہ ابن ہشام، ج۱، ص۱۸۳۔۱۸۰۔

۱۳۲۔ اعراف۱۵۷۔

۱۳۳۔ صف،۶۔

۱۳۴۔ بقرہ / ۱۴۶ /۔ انعام/۲۰

۱۳۵۔ بقرہ، ۸۹۔

۱۳۶۔ شایان ذکر ہے کہ رسول اکرمؐ کے لئے نبوت سے پہلے حتی ولادت کے موقع پر بھی خوارق عادات ذکر ہوا ہےجو اصطلاح میں ارحاص کہا جاتاہے ازجملہ کاخ کسریٰ میں شگاف ہونا، اور آتشکدہ فارس بج جاناجو بہت سالیان سال سے جل رہا تھا جب آنحضرت کی ولادت ہوئی اور نیز پیغمبر کی دایہ حلیمہ کی سینہ دودھ سے لبریز ہونا اور باقی تحولات و برکات جو حضرت کی قدوم مبارک سے قبیلہ سعدیہ میں رونما ہوا اور اسی طرح بادل کا ایک ٹکڑا ہمیشہ آپ کے سر کے اوپر سایہ کرتاتھاتاکہ نورآفتاب کی تابش سے آپ محفوظ رہئے، اور باقی بہت سارے موارد جو تاریخ کی مختلف کتابوں میں مفصلا آچکے ہیں۔

۱۳۷۔ قمر،/ ۱۔۲۔

۱۳۸۔ انفال/،۱۷۔

۱۳۹ ۔ عبارات منقولہ کتاب علم الیقین فیض کاشانی ، ج۱، ص۴۷۶۔۴۷۳ سے اقتباس ہوا ہے۔ مزید مطالعہ کے لئے رجوع کیجئے کتاب مدینہ المعاجز اور بحارالانوار، ج۱۷ و ۱۸۔

فہرست

انتساب ۴

فصل اول ۵

پیغمبر شناسی کی ضرورت ۵

۱ ۔ ۲ ۔ نبی ورسول: ۶

۳ ۔ ۴ ۔ بشیرونذیر : ۸

۵ ۔ مبیّن وحی: وحی بیان کرنے والا: ۹

۶ ۔ قضاوت اورفیصلہ : ۹

۷ ۔ حکومت: ۱۰

۸ ۔ امامت اور رہبری: ۱۰

۹ ۔ انبیاء ماسبق کی تصدیق: ۱۲

۱۰ ۔ پیغمبر خاتم کی آمد کی خوشخبری : ۱۲

دوسری فصل ۱۴

انبیاء الٰہی کے معنوی اور روحانی رتبے ۱۴

۱ ۔ صالح: ۱۴

۲ ۔ صدّیق: ۱۴

۳ ۔ خلیل: ۱۵

۴ ۔ مخلص: ۱۵

۵ ۔ صابر: ۱۵

۶ ۔ علم و آ گاہی: ۱۶

۷ ۔ مسلم: ۱۶

تیسری فصل ۱۸

انبیاء کی دعوت کے بارے میں کلی مباحث ۱۸

پیغمبر اسلام  کا وجود ساری امتوں کے لئے : ۱۸

ایک وقت میں دو پیغمبر: ۱۹

انبیاء کی دعوت کا مقصد : ۱۹

انبیاء کا مرد ہونا: ۱۹

انبیاء کا اپنی قوم کی زبان میں گفتگو کرنا: ۱۹

انبیاء کا صلہ (اجر): ۲۰

انبیاء کے مراتب: ۲۱

انبیاء اور ان کی عالمی رسالت: ۲۲

پیغمبروں کی رسالت اور جنّات : ۲۳

انبیاء الٰہی کی دعوت اور لوگوں کا جواب: ۲۳

لوگوں کا پیغمبروں سے سلوک: ۲۷

۱ ۔ لوگوں کا سختیوں میں مبتلا ہونے کا فلسفہ : ۲۷

۲ ۔ ۳ ۔ قانون املاء اور قانون استدراج: ۲۷

انبیاء الٰہی کی تعداد: ۲۸

انبیاء کے اسمائے گرامی: ۲۹

آسمانی کتابیں : ۳۱

عہد قدیم کی کتابوں سے کچھ مثالیں : ۳۳

عہد جدید کی کتابوں کے بعض نمونے: ۳۵

اولو العزم انبیاء: ۳۷