زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) 0%

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: مشاہدے: 9637
ڈاؤنلوڈ: 3254

تبصرے:

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9637 / ڈاؤنلوڈ: 3254
سائز سائز سائز
زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پانچواں حصّہ:

عہد وپیمان کا فائدہ

اس دعامیں تجدید عہد و بیعت کے بعد آٹھ چیزوں کو بیان کیا ہے جو ذیل میں ہم بیان کریں گے

۱-اَللّٰهمَّ اجْعَلْنِی مِنْ أَنْصارِهِ :

اے معبود مجھے ان کے مدد گاروں میں سے قرار دے ۔

اسی لحاظ سے ایک منتظر واقعی کے لئے صرف ایمان کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ عمل کے اعتبار سے انکی حمایت کرنا بھی ضروری ہیں جیسا کہ سورہ آل عمران آیت /۵۲ میں فرمایا :( فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسىَ‏ مِنهْمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِى إِلىَ اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نحَنُ أَنصَارُ اللَّهِ ءَامَنَّا بِاللَّهِ وَ اشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُون ) ۔

جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ لوگ کفر اختیار کر رہے ہیں تو بولے: اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہو گا؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں ۔

حواریوں جو حضرت عیسی کے خاص مددگار تھے وہ بارہ لوگ تھے اور حواریوں کو حور سے لیا گیا ہے جس کا معنی دھونا اور سفید کرنا ہے اور سفید لباس پہننے کی وجہ سے اور ان کے دل صاف ہونے کی وجہ سے جو لوگوں کو پاکی کی طرف دعوت دیتے تھے انکو حواریوں کا لقب دیا ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے شیعہ ہمارے حواریوں میں سے ہیں عیسی کے حواریوں نے ان کے دشمنوں کے مقابل میں ان کی مدد نہیں کی لیکن ہمارے شیعہ ہماری مدد کرتے ہیں اور ہماری راہ میں شہید ہوتے ہیں اور ہماری راہ میں سخت مشکلات اٹھاتے ہیں خداوند عالم ا ن کو نیک اجر عطا کرے(۱۰۳) ۔

اسی طرح سورہ صف میں بھی آیا ہے کہ فرمایا( " يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسىَ ابْنُ مَرْيمَ‏َ لِلْحَوَارِيِّنَ مَنْ أَنصَارِى إِلىَ اللَّهِ قَالَ الحْوَارِيُّونَ نحَنُ أَنصَارُ اللَّهِ فَامَنَت طَّائفَةٌ مِّن بَنىِ إِسْرَ ءِيلَ وَ كَفَرَت طَّائفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلىَ‏ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُواْ ظَاهِرِين ) .(۱۰۴) ۔

اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: کون ہے جو راہ خدا میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں، پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے انکار کیا لھٰذا ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی اور وہ غالب ہوگئے۔

اس آیت میں کئی نکات کی طرف اشارہ ہواہے ۔

۱۔ مؤمن کو قدم بہ قدم آگے بڑھنا چاہیے جیسا کہ فرمایا "( کونوا انصار اللہ ) تم لوگ اللہ کی مددگار بن جاؤ

۲۔ خداوند عالم ہماری مدد کی طرف محتاج نہیں ہے بلکہ تمام کامیابی اسی کی ذات سے ہیں (نصر من اللہ ) لیکن ہمارے لئے انصار خدا ہی ہونا باعث افتخار ہے ۔

۳۔ انبیاء الہی لوگوں کو خداکی طرف دعوت دیتے ہیں نہ کہ اپنی طرف یا اپنے پارٹی کی طرف جیسا کہ فرمایا ( من انصاری الی اللہ ) کون خدا کے مددگار ہیں ۔

۴۔ پیغمبران الہی تمام جنگوں کو عادی اور طبیعی طریقے سے کرتے تھیں نہ کہ معجزات سے ۔

۵۔ ہر قائد اور رہبر کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مددگاروں کی دقیق معلومات حاصل کرے ۔

۶۔ اور اپنے مددگاروں سے اقرار لینا بھی ایک قسم کی تجدید بیعت ہے ۔

۷۔ دین کی طرف دعوت دینے والوں کی دعوت کو قبول کرنا ضروری ہے ۔

۸ ۔ صاحب اختیار ہے انبیاء کی دعوت کو قبول کریں یا نہ کریں۔

۹۔ ہادیان الہی کی مددکرنا گویا خداکی مدد کرنا ہے ۔

۱۰۔ دین کی حمایت اور مدد میں سبقت کرنے کی زیادہ اہمیت ہے ۔

۲-وَأَعْوانِهِ :

ان کے ساتھیوں میں سے قرآر دے ۔

قرآن اور روایات کے اعتبار سے مؤمنین کا ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بہت ہی زیادہ تا کید ہوئی ہے اور اجر کا مستحق ہوتا ہے لیکن ہم اگر تمام موجودات میں سے بلند ہستی کی مدد کریں تو اسکا اجر کتنا عظیم ہو گا؟۔

امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ "إِنَ‏ الْخُمُسَ‏ عَوْنُنَا عَلَى دِينِنَا وَ عَلَى عِيَالاتِنَا وَ عَلَى مَوَالِينَا وَ مَا نَبْذُلُهُ وَ نَشْتَرِي مِنْ أَعْرَاضِنَا مِمَّنْ نَخَافُ سَطْوَتَهُ فَلَا تَزْوُوهُ عَنَّا وَ لَا تَحْرِمُوا أَنْفُسَكُمْ دُعَاءَنَا مَا قَدَرْتُمْ عَلَيْه .(۱۰۵)

خمس دینا ہماری مدد ہے اس سے منع نہ کرو تاکہ ہماری دعاؤں سے محروم نہ ہو جائے ۔

اور امام زمان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "فَلَا يَحِلُ‏ لِأَحَدٍ أَنْ‏ يَتَصَرَّفَ‏ فِي مَالِ غَيْرِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَكَيْفَ يَحِلُّ ذَلِكَ فِي مَالِنَا مَنْ فَعَلَ شَيْئاً مِنْ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَمْرِنَا فَقَدِ اسْتَحَلَّ مِنَّا مَا حُرِّمَ عَلَيْهِ وَ مَنْ أَكَلَ مِنْ أَمْوَالِنَا شَيْئاً فَإِنَّمَا يَأْكُلُ فِي بَطْنِهِ نَاراً وَ سَيَصْلَى سَعِيرا ۔(۱۰۶)

کوئی حق نہیں رکھتا ہے کہ کسی کے مال میں تصرف کرے پس یہ لوگ کیسے ہمارے مال میں تصرف کرتے ہیں جو بھی ہمارے حکم کے بغیر ہمارے مال میں تصر ف کرے تو گویا اس نے گناہ کا ارتکاب کیا او رہمارے مال میں سے کوئی بھی تھوڑا سا کھائے گا تو گویا اس کے پیٹ میں آگ ہو گااور جہنم میں جائیں گا ۔

اور امام خمینی قدس سرہ تحریر الوسیلہ میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ایک درہم کے برابر بھی خمس نہیں دے گا تو وہ بھی اہل بیت پر ستم کرنے والوں میں سے ہوگا اور ان کی طرح ہوگا جنہوں نے انکے حق کو غصب کیا تھا

۳-وَالذَّابِّینَ عَنْهُ :

اور ان کا دفاع کرنے والوں میں سے قرار دے۔

معصومین علیہم السلام کی شخصیت کا دفاع کرنا واجب ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن ان ہستیوں سے سوء استفادہ نہ کرے ۔

خداوند متعال قرآن مجید میں پیغمبران الہی سے دفاع کرتا ہے اسی طرح ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ان ہستیوں کی شخصیات سے دفاع کریں اور دفاع کرنے کے بھی کچھ مراحل ہیں کبھی دفاع زبانی ہوتا ہے تو کبھی قلمی ہوتا ہے اور کبھی دفاع تلوار سے ہوتا ہے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :هَلْ‏ مِنْ‏ ذَابٍ‏ يَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ (۱۰۷) ۔

کیا حرم رسول کا دفاع کرنے والا کوئی ہیں ؟

پس منتظر واقعی جو چاہتا ہے اپنی پوری وجود کے ساتھ امام زمانہ کا دفاع کریں تو اس کے لئے دشمن اور ان کی چالوں کا جاننا اور بصیرت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ عصر حاضرمیں دشمن مختلف طریقوں سے اصل مہدویت میں تغیر و تبدیلی کر رہیں ہیں اسی لئے منتظر واقعی کے لئے ضروری ہےکہ وہ دشمن کی تمام تر طریقوں سے آگاہ ہوجائے ۔

۴-والْمُسارِعِینَ إلَیْهِ فِی قَضاء حَوَائِجِهِ :

حاجت برآوری کیلئے ان کی طرف بڑھنے والوں میں قرار دے۔

اس حصہ میں خدا سے صرف امام مہدی کی دفاع کرنے کو ہی طلب نہیں کررہا ہے بلکہ خدا سے یہ طلب کررہے ہیں کہ مجھے ان میں سے قرار دے کہ جو ان کی مدد کے لئے دوسروں پر سبقت رکھتے ہیں ۔ اس میں دو اہم نکتے ہیں۔

الف ۔ سرعت یعنی جلدی :

اچھے کاموں میں اس کی اہمیت کو زیادہ کرتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں لفظ( سارعوا سابقوا اور فاستبقوا ) ) آیاہے تویہ کار خیر کے لئے استعمال ہوئے ہیں قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں "( إِنَّهُمْ كَانُواْ يُسَرِعُونَ فىِ الْخَيرْات ) (۱۰۸) ۔

یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت لے جانے والے تھے۔

ب ۔ امام زمان علیہ السلام کا تقاضا :

ابتداء میں ہمیں یہ سمجھتے ہیں کہ امام زمانہ کا تقاضا بھی اہل بیت کی طرح ہے یعنی تمام اچھائیوں کی طرف متوجہ ہونا او رتمام برائیوں سے دور رہنا ہے کیونکہ اہلبیت علیہم السلام تمام خوبیوں کے معدن و منشا ہیں اور انکی خواہش صرف تقوا کی رعایت کرنا ہے ۔

۵-وَالْمُمْتَثِلِینَ لاِوامِرِهِ :

انکے احکام پر عمل کرنے والوں میں ۔

اس جملہ میں دو نکتے بیان ہوئی ہیں ۔ا۔ امام علیہ السلام کے فرامین ۔ب۔امام کی اطاعت کرنا ۔

الف ۔ فرامین امام زمان علیہ السلام :

فرامین امام علیہ السلام انکے توقیعات وغیرہ میں موجود ہیں اور اسی طرح واقعات اور حکا یات جیسا کہ حاج علی بغدادی کا واقعہ اور سید رشتی کی حکایت مفاتیح الجنان میں ذکر ہوئی ہیں اور اسی طرح سے مہزیار کے بیٹے کا امام زمان سے ملاقات کرنا کہ جس میں امام نے اسے اور تمام شیعوں کو تین چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہیں صلہ رحم کرنا ا ور معاشرے میں ضعیف و ناتوان لوگوں کی طرف توجہ دینا اور احتکار نہ کرنا ۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس امام زمانہ سے کوئی احادیث موجود نہیں ہے تو مبلغین و مقررین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ منبر سے زیادہ تر امام کی احادیث بیان کریں تاکہ لوگ امام زمانہ علیہ السلام کے فرامین سے آشنا ہو سکیں ۔اور اس کے بارے میں اچھی کتابیں لکھ چکی ہیں۔

ب ۔ امام زمان علیہ السلام کی اطاعت :

جیسا کہ سورہ نساء میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا "( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكمُ‏ْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فىِ شىَ‏ْءٍ فَرُدُّوهُ إِلىَ اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الاَخِرِ ذَالِكَ خَيرْ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيلا ) (۱۰۹) ۔

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔

اس آیت میں خدا وند متعال اور پیغمبر اکرم کے سامنے لوگوں کی ذمہ داری اور انکا وظیفہ کیا ہونا چاہیے اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

اس آیت میں تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے کہ انسان اگر ان کی طرف رجوع کریں و وہ کبھی بھی ہدایت سے محروم نہیں رہے گا جیسا کہ خداوند عالم کی ذات اقدس ہے اور پیغمبر اکرم ہے اور اولی الامر ہیں اور اسی طرح سے اس آیت میں لفظ اطیعوا کا تکرار ہوا ہے جو کہ تنوع کے لئے ہے پس کوئی اگر قرآن کی روح سے پیغمبر اکرم اور اہل بیت کی اطاعت کریں تو گویا اس نے امام زمان علیہ السلام کی اطاعت کی ہے ۔

یہاں پر یہ سؤال ہے کہ ایک منتظر حقیقی خداسے یہ سؤال کیوں کر رہا ہے ؟ کہ خدایا مجھے ان میں سے قرار دے جو فرامین امام زمان کی اطاعت کرتے ہیں ۔

لیکن طول تاریخ میں بعض لوگ ایسے تھے جو اعتقاد تو رکھتے تھے لیکن میدان عمل میں پیچھے رہ جاتے تھے جیسا کہ قرآن مجید سورہ انقال آیت /۲۰ میں ارشاد ہوتا ہے "( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَا تَوَلَّوْاْ عَنْهُ وَ أَنتُمْ تَسْمَعُون ) ۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو۔ اور اسی طرح سے اسی سورہ کی اکیسویں /۲۱ آیت میں ارشاد ہوتا ہے "( وَ لَا تَكُونُواْ كاَلَّذِينَ قَالُواْ سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا يَسْمَعُون ) ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہہ دیاکہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے۔

قرآن مجیدمیں خداوندعالم کی اطاعت کے بعد رسول کی اطاعت کا حکم ہواہے اور گیارہ جگہوں پر(اتقوالله ) کے بعد (اطیعون ) کا جملہ آیا ہے یعنی تقوای الہی کا نبیجہ اور لازمہ رسول کی اطاعت ہے گویا خدا اور رسول دنوں کی اطاعت لازمی ہیں ۔

اس آیت میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ ہے ۔

۱۔ مؤمنین اپنے تمام مشکل اوقات میں خدا اور رسول کے احکامات پر عمل کریں ۔

۲۔ رسول کی نافرمانی گویا خدا کی نافرمانی ہیں ۔خدا اور رسول کی احکام کوسن کر ان کو مسؤلیت کا احساس کریں ۔

۳۔ سننا اور سمجھ جانا ایک مسؤلیت حساب ہوتا ہے ۔

۴۔تاریخ میں گزرے ہوئے لوگوں کو اپنے لئے عبرت قرار دے دیں ۔

۵۔ اطاعت میں سچائی کیساتھ اپنے عہد کی وفا کریں اور عمل کے بغیر ایمان کا دعوی نہ کریں ۔

اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے جانیشن وصی کی بھی اطاعت کرنا واجب ہے جیسا کہ فرمایا " (فاتبعونی و اطیعوا امری ) اور خصوصا اس دور حاضرمیں جو زیادہ اہم ہے وہ یہی ہے کیونکہ ہمارے اماموں کا ہدف و مقصد ایک ہے لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے ان کے شرائط مختلف ہیں کوئی جنگ کرتے تو کوئی صلح کرتے ہیں ۔

روایات میں آیا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا دور پیغمبر اکرم کی دور سے بہت ہی سخت اور دشوارہے کیونکہ پیغمبر اکرم آیات قرآن سے جنگ کرتے تھے لیکن اس دور میں بعض لوگ اسی قرآن کو غلط استعمال کرتے ہیں اور امام کے خلاف غلط تاویلیں کرتے ہیں تو یہ دور بہت ہی سخت اور مشکل دور ہیں ۔

۶-وَالْمُحامِینَ عَنْهُ :

اور انکی طرف سے دعوت دینے والے ۔

اندیشہ مہدویت کا دفاع کرنا سب پر لازم ہے اگر کوئی اپنی زندگی کو مہدوی رنگ دینا چاہتا ہو تو وہ عارفانہ و عاشقانہ طور پر امام مہدی علیہ السلام کا دفاع کرے جیسا کہ سورہ بقرہ آیت /۱۳۷ میں خدا وند متعال نے مسلمانوں سے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے "( فَسَيَكْفِيكَهُمُ الله ) توقطعا خدا وندمتعال اپنے حجت یعنی امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت و حمایت کرے گا لیکن ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسے انجام تک پہنچائے ۔

اور اسی طرح خداکی حمایت کا ایک اور نمونہ سورہ آل عمران آیت /۵۲ میں آیا ہے ۔

اور اسی طرح سے ایک او رنمونہ جو دین کی حمایت او راولیاء الہی کی حمایت میں ہے وہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کی ذات ہے انہوں نے اپنی پوری جان و مال سے پیغمبر اکرم کی حمایت کی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کو اپنے بچوں پر مقدم کیا اور ہر مشکل میں پیغمبر اکرم کے ساتھ دیا ہے ۔ اور شعب ابی طالب میں جب پیغمبر اکرم کو مسلمانوں کے ساتھ محاصرہ میں رکھا تو حضرت ابو طالب راتوں کو پیغمبر اکرم کی جگہ حضرت علی کو سلاتے تھے تاکہ پیغمبر اکرم کی جان کوئی کوخطرہ نہ ہو۔

اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالب نے اس لئے پیغمبر کی حفاظت کی کہ وہ آپ کے بھتیجہ تھے اس عاطفی جنبہ کی وجہ سے انکی حمایت کی ہے لیکن وہ ان چیزوں سے غافل ہیں کہ ۔

۱۔ کہ یہ عاطفہ اپنے بچوں میں دوسروں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہوتا ہے جبکہ ابوطالب پبغمبر اکرم کو اپنے بچوں پر بھی مقدم گردانتے تھے ۔

۲۔ اگر اس عاطفہ کا سبب انکا چاچا ہونا تھا تو ابولہب بھی انکا چچا تھا ۔

۳۔ تمام بنی ہاشم آپ کے قبیلہ کے تھے آپ پر ایمان بھی لائے مشکلات میں بھی آپ کے ساتھ دئیے لیکن کسی نے بھی ابوطالب کی طرح ایثار و فداکاری نہیں کیا ہے ۔

پس اس لحاظ سے یہ ساری چیزیں صرف اور صرف ایمان قلبی کا نتیجہ ہے ۔

۷-وَالسَّابِقِینَ إلی إرادَتِهِ :

اور ان کے ارادوں کو جلد پورے کرنے والوں ۔

اس فراز سے پہلے امام علیہ السلام کے احکام میں سرعت اور جلدی کے بارے میں بحث تھی اور ابھی انسان کے اعمال میں سبقت او رفرصت کو ضایع نہ کرنے کے بارے بحث ہے اور یہ اس دعا کی خصوصیات میں سے ہے کہ منتظر واقعی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اچھے کاموں میں جلدی کرنا اور نیک اعمال و خیرات کی طرف سبقت لینے میں فضیلت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں عبادات کی طرف جلدی کرنے کو سبقت لینے کو افتخار جانا ہے جیسا کہ قرآن میں کہا ( سارعوا(۱۱۰) ۔ اور سابقوا(۱۱۱) ۔

پس منتظر واقعی کار خیر میں سبقت کرتا ہے اور منتظرین کا معاشرہ بھی انہی خیرات کی طرف سبقت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا :( أُوْلَئكَ يُسَارِعُونَ فىِ الخْيرْات ) (۱۱۲) ۔

اور اسی طرح قرآن کہہ رہا ہے کہ کفر نفاق کا معاشرہ فساد ومنکرات میں بھی سبقت رکھتا ہے جیساکہ فرمایا "

( وَ تَرَى‏ كَثِيرًا مِّنهْمْ يُسَارِعُونَ فىِ الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ أَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كاَنُواْ يَعْمَلُون ) ۔(۱۱۳)

اور ان میں سے اکثر کو آپ گناہ، زیادتی اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنا برا کام ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔کار خیر میں سبقت لینے کے بارے میں قرآن مجید میں بہت سارے مصادیق بیان ہوئے ہیں جیساکہ ایمان میں سبقت لینے کے بارے میں کہہ رہا ہے "( الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْايمَان ) (۱۱۴) ۔

اور خیرات میں سبقت لینے کے بارے میں کہہ رہا ہے ۔( فَاسْتَبِقُواْ الْخَيرَْاتِ ) (۱۱۵) ۔

( أُوْلَئكَ يُسَارِعُونَ فىِ الخْيرْات ) ۔(۱۱۶)

پس انسان عاشق یعنی منتظر حقیقی اپنی تمام فکر کو اپنے امام علیہ السلام کی رضایت کو حاصل کرنے کے لئے صرف کرتے ہیں۔

۸-وَالْمُسْتَشْهَدِینَ بَیْنَ یَدَیْهِ :

اور ان کے سامنے شہید ہونے والوں میں قرار دے۔

ایک منتظر حقیقی کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شہادت و عاقبت بخیرکا شوق رکھتا ہو ۔

پس دعا کا یہ فراز حق کو تسلیم اور قبول کرنے کا اور جانثاری کا ایک نشانہ ہے اگرچہ امام کا ظہور نہ بھی ہو ایک منتظر واقعی کے لئے اس قسم کے احساسات اور جزبات کا ہونا بہت ہی ضروری ہے۔

کیونکہ شہید ہونا ایک مسئلہ اور شہادت کے لئے تیار ہونا اورایک مسئلہ ہے ان میں فرق ہیں جس طرح سے کہ خداوند عالم یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خون بہہ جائے لیکن یہ چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیم اس کام کے لئے آمادہ رہے اسی طرح سے ممکن ہے ہم امام زمان علیہ السلام کی ظہور کی حالت کو درک نہ کرسکیں لیکن اس کی ظہور کے لئے حقیقی طور پر آمادہ رہنا بہت ہی ضروری ہے ۔

چھٹا حصّہ:

درخواست رجعت

شیعوں کے اعتقادات میں سے ایک رجعت کا عقیدہ ہے رجعت یعنی دوبارہ اس دنیا میں پلٹ کر آنا ہے۔

اس حصہ میں دعا کرنے والا خداوند عالم سے رجعت کی درخواست کرتا ہے ۔

اوریہ درخواست رجعت کے بارےمیں دوسری زیارتوں میں بھی آیا ہے جیساکہ فرمایا "وَ إِنْ‏ حَالَ‏ بَيْنِي‏ وَ بَيْنَ‏ لِقَائِهِ‏ الْمَوْتُ‏ الَّذِي جَعَلْتَهُ عَلَى عِبَادِكَ حَتْماً وَ أَقْدَرْتَ بِهِ عَلَى خَلِيقَتِكَ رَغْماً، فَأَحْيِنِي عِنْدَ ظُهُورِهِ خَارِجاً مِنْ حُفْرَتِي، مُؤْتَزِراً بِكَفَنِي، حَتَّى أُجَاهِدَ بَيْنَ يَدَيْهِ فِي الصَّفِّ الَّذِي أَثْنَيْتَ عَلَيْهِمْ فِي كِتَابِكَ، فَقُلْتُ: ( ( كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ ) ۔(۱۱۷)

اگر میرے اور امام کی ظہور کے درمیان موت آجائے تو مجھے ان کے ظہور کے وقت قبر سے دوبارہ زندہ کرے اس حالت میں کہ میں کفن کو اپنے کمر پر باندھ کر اپنے امام کے ساتھ جھاد کروں کہ جن کی تعریف اللہ نے قرآن میں کی ہیں کہ فرمایا اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہوکر اس طرح لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

پس منتظر واقعی اپنی زندگی کی تمام ترکوششیں امام کی ظہور کی انتظار میں کرتے ہیں اور ہمیشہ انکی تعجیل کے لئے دعاکرتے ہیں اور یہ بات ممکن ہے کہ وہ اپنی زندگی میں امام کی ظہور کو درک نہ کرسکے تو وہ خدا سے رجعت کے لئے دعا کرتے ہیں تاکہ امام کی ظہور کے وقت کو درک کرسکیں ۔

۱-فَأخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی :

مجھے قبر سے اس طرح نکالنا کہ ۔

قبروں سے نکلنا ظہور امام زمان کا وقت ہے وہی رجعت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے ۔

( وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ‏ِ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون ) ۔(۱۱۸) ۔

اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھرانہیں روک دیا جائے گا۔قیامت کے دن تمام لوگ زندہ ہوں گے لیکن اس آیت میں فرمایا ہے کہ ہر امت میں سے چند گروہ کو زندہ کریں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت قیامت کے ساتھ مربوط نہیں ہے بلکہ رجعت کے ساتھ مربوط ہے کہ قیامت سے پہلے کچھ گروہوں کو زندہ کریں گے ۔

اس کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت /۲۴۳ میں خدا وند عالم نے ایک گروہ کو مرنے کا حکم دیا پھر اس کے بعد انکو زندہ کرنے کا حکم دیا ۔او ر اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت /۵۶ میں فرمایا" کہ میں نے تم لوگو ں کو موت کے بعد دوبارہ اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ اسی طرح سے روایات میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن ایک منتظر واقعی خدا سے طلب رجعت کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اچھے افراد کے ساتھ رہ کر امام کے ہم رکاب ہو جائے گا ۔

۲-مُؤْتَزِراً کَفَنِی :

کفن میرا لباس ہو ۔

عام طور پر تمام انسان لباس کی طرف محتاج ہے تو اسلام نے بھی ہر کام کے لئے مخصوص لباس کا حکم دیا ہے جیسے جنگ کا لباس نماز استسقاء کا لباس احرام و حج کا لباس اور کفن کا لباس کہ جس کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اس فراز کا اسی دعا میں ذکر کرنا موت کی حقانیت کی تلقین ہے جو کہ ایک منتظر حقیقی ہمیشہ یاد خدا اور موت کی ذکر سے خالی نہیں ہوتا ہے ۔

۳-شاهِراً سَیْفِی :

میری تلوار بے نیام ہو ۔

منتظر واقعی کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ ہمیشہ و ہر حالت میں تیار رہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے شہید کے قبر سے نکلنے کے بارے میں فرمایا "يَخْرُجُ‏ مِنْ‏ قَبْرِهِ‏ شَاهِراً سَيْفَه ۔(۱۱۹)

قیامت کے دن شہید قبر سے اس حالت میں نکلے گا کہ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی ۔ اور منتظر کامل وہی ہے جس نے ا پنی زندگی امام کی معرفت اور کفر و فساد کے ساتھ مقابلہ کر کےگزاری ہو اور رجعت کے بعد بھی وہ کفر و فساد کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونگے یعنی ہر حالت میں اہل باطل کے ساتھ مقابلہ کریں گے ۔

۴-مُجَرِّداً قَناتِی :

میرا نیزہ بلند ہو۔

حقیقت میں دعا کرنے والا اس فراز میں خداوند عالم سے چاہتا ہے کہ جب قبر سے باہر آئے تو دین کی خدمت کے لئے تیار ہو یعنی جب وہ قبر سے نکلے تو اپنی تلوار کو نیام سے نکالنے میں بھی دیر نہ ہو اور ہر وقت امام کی اطاعت کے لئے تیار رہے اور اسی کا نام انتظار ہے ۔

۵-مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی :

داعی حق کی دعوت پر لبیک کہوں ۔

یہ عبارت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ منتظر واقعی ہر وقت و ہر جگہ پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہے اگر وہ دنیا کے دور دراز جگہوں میں ہو یا نزدیک ہو اور ہر جگہ پر بھی ہو وہ ہمیشہ امام کی دعوت پر لبیک کہنے کو تیار ہے ۔

۶-فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی :

شہرمیں ہوں یا گاؤں میں ۔

اس جملہ سے پتہ چلتا ہے کہ منتظر امام چاہے کسی بھی جگہ ہو شہر میں ہو یا دیہات میں ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ حجت خدا جب چاہے اسی وقت جواب دینے کو تیار ہے اور ہر چیز میں اپنے آپ کو مسؤل سمجھتا ہے اور لوگو ں کی خدمت میں اپنے آپ کو کسی مکان کے ساتھ محدود نہیں کرتا ہے اور اپنے امام کے حکم سے ہر جگہ پر باطل کے ساتھ نمٹنے کے لئے تیار ہے ۔

ساتواں حصّہ:

ظہور کے لئے دعا

اس دعا میں نو پر لطف اور دقیق جملات کے ذریعے ظہور کی درخواست ہوئی ہے کہ ہم جس سے گفتگو کریں گے ۔

۱-اَللّٰهُمَّ أَرِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشِیدَةَ :

اے معبود مجھے حضرت کا رخ زیبادکھا ۔

اس جملہ میں دعا کرنے والے خدا سے عرض کررہا ہے کہ الہی ہمارے امام کی ظہور میں تعجیل فرما ۔ امام کو بادل میں چھپے ہوئے سورج کی طرف نسبت دی ہے اسی طرح دعا کرتے ہیں کہ خدایا بادلوں میں چھپے ہوئے سورج کو ظاہر کردے تاکہ سب لوگ اس کو دیکھ سکیں ۔

کتاب مکیال المکارم میں جمال و زیبائی حضرت مہدی علیہ السلام کو انکی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے کہ وہ خوبصورت ترین شخص ہے کیونکہ پیغمبر اکرم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہے ۔

اسی طرح سے روایات میں بررسی کرنے سے اور جنہوں نے امام مہدی علیہ السلام ملاقات کی ہے انکی حکایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام خوبصورت ترین اور پیغمبر اکرم کے ساتھ مشابہ ہیں ۔بہت ساری روایات انکی جمال اور خوبصورتی کے بارےمیں بیان ہوئی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ مہدی میرےفرزندان میں سے ہیں اور اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن اور منور ہے(۱۲۰) ۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ مہدی ہمارے فرزندان میں سے ہیں اور ان کے چہرے کی دائیں طرف ایک خال ہے جو ستارے کے مانند چمکتا ہے(۱۲۱)

۲-وَالْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ :

آپ کی درخشاں پیشانی دکھا۔

عرب ہر مہینہ کی پہلی رات کی چاند کو غرہ کہتے ہیں او راس کو امام مہدی علیہ السلام کی خوبصورتی پراطلاق کیا ہے۔اور اسی طرح سے پیشانی کے درمیان والی سفیدی کو بھی غرہ کہا جاتا ہے اور یہ معنی انکے معروف او رنمایاں ہونے کی علامت قرار دیا ہے ۔

اور حمیدہ سے مراد جس کی تعریف ہوئی ہو امام مہدی کی ذات ایسی ہے کہ جن کی توصیف قرآن مجید کی آیات اور روایات میں بیان ہوئی ہے ۔

۳-وَاکْحَلْ ناظِرِی بِنَظْرَةٍ مِنِّی إلَیْهِ :

ان کے دیدار کو میری آنکھوں کا سرمہ بنا ۔

یہاں پر لفظ سرمہ سے تعبیر کرنے کا مقصد یہ ہو گا کہ سرمہ سے انسان کی آنکھوں میں قوت آجاتی ہے اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ جس کی آنکھ میں سرمہ لگا ہو وہ دوسروں سے مشخص اور نمایاں ہوتا ہے اسی لئے یہاں پر دعا کرنے والا خدا سے یہ مانگ رہا ہے کہ وہ اس لائق ہو کہ منتظرین میں سے سب سے نمایاں اور ممتاز ہو اور حقیقی منتظرین میں سے شمار ہو جوکہ اپنے آپ کو امام علیہ السلام کی نصرت و مدد کے لئے ہر طرح سے آمادہ و تیار ہوتا ہے ۔

۴-وَعَجِّلْ فَرَجَهُ :

ان کی گشائش میں جلدی فرما۔

اسی طرح سے منتظرین کے امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ سلامتی اور امام کی ظہور میں تعجیل کے لئے دعاکرتے ہیں ۔

۵-وَسَهِّلْ مَخْرَجَهُ :

ان کے ظہور کو آسان بنا ۔

یہاں پر ایک لحاظ سے امام علیہ السلام کا ظہور و انقلاب ایک جہانی انقلاب ہے اس لئے ان کے لئے مشکلا ت اور سختیاں بھی زیادہ ہونگے لہذا ایک عاشق حقیقی اور منتظر واقعی ہمیشہ ان کے ظہور میں آسانی کے لئے دعا کرتے رہے۔

۶-وَأَوْسِعْ مَنْهَجَهُ :

ان کا راستہ وسیع کر دے ۔

یہاں پر ان جملوں میں پہلے ظہور میں تعجیل کی دعا ہے اور اس بعد ظہور میں آسانی کی پھر اس کے بعد انکا راستہ اور ان کی ثقافت و حکومت کو وسعت دینے کی دعا ہے ۔

۷-وَاسْلُکْ بِی مَحَجَّتَهُ :

اور مجھ کو ان کی راہ پر چلا ۔

امام کا راستہ صراط مستقیم ہے اور راہ حق و پاکی ہے اور منتظر واقعی کے اہم ترین برنامہ زندگی ہے اسی لئے اگر کوئی دعاے عہد پڑ ھ لیتا ہے تو وہ اس دعا کے ذریعے سے خداوند عالم سے اپنی عاقبت بخیری اور اپنے آپ کو امام کی راہ میں قرار دینے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ ایک مؤمن ہمیشہ نماز بھی پڑھتا ہے اور خدا سے درخواست بھی کرتا ہے خدایا مجھے راہ حق کی طرف ہدایت فرما تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس راہ ہدایت پر ثابت قدم رکھنا اور میری عاقبت بخیرہونا ہے اسی طرح سے منتظر واقعی بھی یہی دعا کرتا ہےکہ وہ ثابت قدم رہے ۔

۸-وَأَنْفِذْ أَمْرَهُ :

ان کا حکم جاری فرما۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتا ہے کہ منتظر حقیقی یہ جانتاہے کہ عصر ظہور میں باقی تمام جاری حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور صرف امام علیہ السلام کی حکومت باقی ہو گی اور اسی کے آئین ہونگے اور صرف آپ علیہ السلام کا حکم جاری ہوگا ۔

۹-وَاشْدُدْ أَزْرَهُ :

ان کی قوت کو بڑھا۔

سورہ طہ کی آیات /۳۱-۳۲ میں حضرت موسی علیہ السلام کے درخواست کے بارے میں آیا ہےکہ فرمایا "

( اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى ) ۔

اسے میرا پشت پناہ بنا دے، اور اسے میرے امر رسالت میں شریک بنا دے۔

تفاسیر میں آیا ہےکہ پیغمبر اکرم کئی بار ان آیات کو پڑھتے تھے جیساکہ خدایا مجھے حضرت موسی علیہ السلام کی طرح اپنے اہل بیت میں سے کسی کو وزیر عطا کرنا تاکہ وہ میری مدد کر سکے(۱۲۲) ۔

چونکہ حضرت موسی علیہ السلام کو وحی دیافت کرتے ہوئے کوئی مشکل نہیں تھی کہ وہ خدا سے درخواست کریں بلکہ انکا درخواست کرنے کامقصد ان کی مسؤلیت کی سنگینی اور تبلیغ میں سختی کی وجہ سے انہوں نے خدا سے وزیر کی درخواست کی اسی طرح سے امام مہدی کی ظہور میں بھی سختیاں ہونگے لہذا منتظر امام خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی پشت کو مضبوط بنا دے تاکہ ان سختیوں کو بر داشت کرسکیں ۔