شیعیت کے خلاف یلغار کیوں؟
تمام مذاہب اسلامی میں شیعہ وہ مذہب ہے جو قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کی صحیح سیرت وسنت سے ماخوذ ہے۔
یہ ہی وہ مذہب ہے جس نے دیگر مذاہب (کہ جنہیں حکومتوں کی حمایت و تائید بھی حاصل تھی ) کے مقابلے پر فقہی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں بہترین و برترین دستور اور نظام حیات پیش کیا ہے۔
شیعوں نے کسی سخت سے سخت دور میں بھی ظلم و استبداد سے سازباز نہ کی اور ظالم و جابر حکومتوں کے مقابل سر تسلیم خم نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں اور یلغار کا نشانہ بنے رہے اور ظالم و جابر حکومتوں نے ان کے مذہب کے نورانی چہرے کو مسخ کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن شیعہ اپنے برحق امام امیر المومنین حضرت علی ؑ کے فرمودات سے الہام لیتے ہوئے کہ جنہوں نے فرمایا:
و کونا للظالم خصماً و للمظلوم عوناً اُوصیکما و جمیع َ وُ لدِی وَمَن بَلَغَه کتابی
"ہمیشہ ظالموں اور جابروں کے مدقابل ڈٹے رہے، اور مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کی حمایت کو اپنا شعار قرار دیا"۔
لیکن مکتب خلفاء میں نہ صرف یہ کہ کسی ظالم و استبدادی حکومت سے نبرد آزمائی اور مقابلہ نظر نہیں آتا بلکہ انہوں نے اپنی تمام تر کوشش استبدادی حکومتوں کے ظلم و جور کی توجیہہ پیش کرنے میں کی ہے اور اپنی تائید کے لیے ان احادیث کا سہارا لیتے رہے، جنہیں پیغمبر گرامی قدرؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ قوم و ملت کا فریضہ حکام کی اطاعت و فرماں برداری ہے اگرچہ ان کا دامن ظلم و استبداد سے آلودہ ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور قوم اپنے اعمال کی ذمہ دار ہے۔
اِسمعوا و اَطیعوا فَانَّما علیهم ما حمّلوا و علیکم ما حملتم
اب پہچانیے کہ کتنا فرق ہے اس قول میں جسے مسلمانوں نے اپنے عظیم رہنما (حضرت عمر بن خطاب) کی طرف نسبت دی ہے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: اگر کوئی حاکم اسلامی تم پر ظلم کرے، تمہیں مورد ضرب و شتم قرار دے، تمہیں تمہارے مسلّم حق سے محروم کردے اور دین و شرعیت کے خلاف حکم دے تو اس کے باوجود تمہارا وظیفہ بغیر کسی چوں و چرا کے اس کی اطاعت و فرماں برداری ہے اور یہ سب جزو دین ہے!۔
فاَطِعِ الامام … اِن ضربک فاصبر، و ان امرک بامر فاصبر، و ان حرمَک فاصبر، و ان ظلمک فاصبر، و اِن اَمرک بامرِ ینقص دینک فقل: سمع طاعة، دمی دون دینی
۔
اور روز عاشور، ابا الاحرار حضرت امام حسین ؑ کے شعار میں جس میں آپ فرماتے ہیں:
فانّی لا اری الموت الّا سعادة ولا الحیاة مع الظالمین الّا بَرَما
۔
میں ظلم و استبداد سے مقابلے میں شہادت کو سعادت اور ان کے سائے میں زندگی کو ننگ و عار سمجھتا ہوں۔
بالکل اسی طرح کتنا فرق ہے دونوں مکتب ِ فکر کے فقہاء کے نظریات اور انکے فتاویٰ میں انکا فتویٰ یہ ہے کہ ظالم و فاسق حاکم کے خلاف کسی بھی قسم کا قیام خلاف شرع ہے۔
و امّا الخروج علیهم و قتالهم فحرام باجماع المسلمین و ان کانوا فسقة ظالمین
جبکہ مکتب تشیع کے فقہاء کا نظریہ یہ ہے : اگر عمالئے دین کا سکوت ظالم و جابر حکام میں ارتکاب گناہ اور ان میں بدعتیں ایجاد کرنے کی جرائت کا سبب ہو تو ایسے میں ان پر سکوت حرام ہے اور ان پر لازم و واجب ہے کہ ستمگروں کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔
لو کانَ سکوت علماء الدین و رؤساء المذهب أعلی الله کلمهم وموجباً لجرأة الظلمة علی ارتکاب سائر المحرمات و ابداع البدع، یحرم علیهم السکوت و یجب علیهم الانکار
۔
مکتب تشیع کے خلاف حیران کن یلغار کا تخمینہ
٭ ہمیشہ ظالم و جابر حکومتیں اپنے تمام تر وسائل کے ذریعے مذہب شیعہ سے برسر پیکار رہیں اور اس کی بڑھتی ہوئی ظلم ستیز فرہنگ و ثقافت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں۔
یاد رہے کہ اس روش کا آغاز، امت مسلمہ کے شیعہ و سنی دو فرقوں میں تقسیم ہی کے وقت سے ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت پیدا ہوتی گئی۔
٭ اگر گذشتہ چند سالوں کا جائزہ لیا جائے تو دنیا مذہب شیعہ کی نورانی ثقافت کے خلاف وہابیت کی جانب سے یلغار کا با آسانی مشاہدہ کرسکتی ہے پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کی جانب سے پیش کئے گئے تعداد و شمار کے مطابق صرف ایک سال کے دورانیہ میں شیعیت کے خلاف ساٹھ عناوین پر مشتمل تیس ملین کتب چھاپی اور نشر کی گئیں۔
٭ فقط ۱۳۸۱ شمسی ( ۲۰۰۲ میلادی) میں ایک کروڑ چھ لاکھ پچاسی ہزار جلد کتب دنیا کی بیس مختلف زبانوں میں (غالباً شیعیت کے خلاف) سعودی حکومت کی جانب سے خانۂ خدا کے زائرین کے درمیان حج کے موقع پر تقسیم کی گئیں۔
٭ سعودی عرب کے شہر قطیف کے ایک مشہور عالم نے ۱۲ رجب سال جاری ( ۱۳۸۲ مطابق ۱۴۲۳ ھ) کو مکے میں اس بات کا اظہار کیا کہ کتاب "للہ ثم للتاریخ" ٹرکوں میں لاکر قطیف و احساء کے علاقوں میں شیعوں کے درمیان مفت تقسیم کی گئی۔
٭ اور ۱۴۲۶ میں یہ ہی کتاب کویت میں ایک لاکھ کی تعداد میں چھاپی اور نشر کی گئی کہ جس کے ردِ عمل میں جناب آقائے مہری (نمائندہ ولی فقیہ) نے حکومت کویت سے کہا کہ اگر شیعیت کے خلاف اور اس کی توہین میں لکھی جانے والی اس کتاب کی نشرو اشاعت پر پابندی نہ لگائی گئی تو کویت ایک دوسرے لبنان میں تبدیل ہوجائے گا۔
٭ چودہ صدیوں میں شیعوں کے خلاف لکھی اور نشر ہونے والی کتابوں کی چھان بین کرنے والے بعض تحقیقی اداروں کے مطابق یہ کتب ۵۰۰۰ سے زائد عناوین پر مشتمل ہیں۔
ان میں ۳۰۰۰ عناوین اردو زبان میں ۵۰۰ عناوین عربی زبان میں اور ۵۰۰ عناوین دنیا کی مختلف زبانوں میں ہیں۔
ان کتب کا مطالعہ کرکے اب تک سینکڑوں عناوین کے تحت ہزاروں شبہات کی جمع بندی کی جاچکی ہے۔
باوجود یہ کہ اکثر شبہات جھوٹ و افتراء یا جہل و نادانی کی بناء پر قائم کیئے گئے ہیں اور علماء و محققین نے ان کے جوابات بھی دیئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان شبہات کی تعداد میں کمی نہیں آئی لہذا ا س طرح ہماری ذمہ داری بھی کم نہیں ہوتی۔
انقلاب اسلامی کے بعد یلغار میں شدّت کا سبب
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان مذکورہ کتب میں ستّر فیصد ایران کے عظیم الشان اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد لکھی گئی ہیں یعنی کل چودہ صدیوں کے مقابلے میں اس دور میں ۲/۵ گنا کتب شیعیت کے خلاف تحریر کی گئیں ہیں۔
اور یہ سب اس وجہ سے ہوا ہے کہ مکتب ِ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین ہرگز اس امر کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ شیعہ تہذیب ایرانی قوم و ملت کو اتنا متاثر کرسکتی ہے کہ وہ خالی ہاتھ (لیکن اسلام کے عشق و ایمان سے لبریز قلب کے ساتھ) ہونے کے باوجود بھرپور مسلح حکومت( کہ جسے مشرق و مغرب کی بلا دریغ حمایت حاصل تھی) کے مدِ مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے گی اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نابود کر دے گی اور اس کے بدلے شیعہ فقہ کے مطابق حکومتِ اسلامی تشکیل دے گی، اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب مکتب ِ اہل بیت ؑ کے مخالفین شیعہ مذہب کے فروغ کی بناء پر اپنے مقام و مفادات کو خطرے میں پڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو شیعیت کے خلاف جھوٹ اور افتراء اور تہمتوں سے بھرپور کتابیں لکھ کر شیعہ مذہب کے نورانی چہرے کو مخدوش کرنے کی عالمی سطح پر کوشش کرتے ہین ان لگائی گئی تہمتوں کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کرنے سے حقیقت روشن ہوجائے گی۔ (انشاء اللہ)
٭ مصری دانشمند ڈاکٹر عبد اللہ محمد غریب جھوٹ و افتراء سے بھرپور اپنی کتاب "وجاء دور المجوس" میں رقمطراز ہیں:
"اِنَّ الثَّورَةَ الخُمَینِیةَ مَجُوسِیةٌ لیست اسلامیةً، اَعۡجَمِیةٌ و لیست عربیةً، کِسرَویِةٌ و لیست محمدیةً
"
"خمینی ؒ کی تحریک، اسلامی، عربی و محمدی نہیں بلکہ ایک مجوسی، عجمی اور کسروی تحریک ہے۔"
اس دانشمند کی شیعہ مذہب سے دشمنی اور کینہ و بغض کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ لکھتا ہے:
نَعلمَ اَنّ حُکَّامَ طهران اَشَدُّ خَطراً علَی الاسلام من الیهود وَلَا نَنۡتَظِرُ خیراً منهم، و نَدۡرُکُ جیّداً اَنهم سَیَتَعَاونونَ مَع الیَهُود فی حرب المسلمین
اور ہم جانتے ہیں کہ ایرانی حکام حکومت اسلامی کے لیئے یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہیں اور ان سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ یہودیوں کے ساتھ مل کر عنقریب مسلمانوں سے برسرِ پیکار ہوں گے!۔
حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران کا اسلامی نظام ہی وہ نظام ہے جو غاصب صیہونیزم کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس نظام کا ایک افتخار یہ بھی ہے کہ انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد غاصب اسرائیل کے سفارت خانے کا ایران میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے قلعہ قمع کر دیا گیا جب کہ فسلطین کو سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔
٭ سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی کے ایک استاد جناب ڈاکٹر ناصر الدین قفاری اپنی کتاب "اصول مذہب الشیعہ الامامیہ" جو اِن کے PHD کا رسالہ بھی قرار پائی ہے، میں تحریر کرتے ہیں:
اَدخَلَ الخُمَینی اِسمَه فی اذان الصلوٰت، و قدَّمَ اسمَه حتّی علَی اسمِ النبی الکریم، فَاَذان الصلوٰت فی ایران بعدَ اِستلام الخمینی لِلحَکَم و فی کلّ جوامعها کما یلی: "الله اکبر، الله اکبر، خمینی رهبر، ای الخمینی هو القائد، ثم اشهد ان محمداً رسول الله
۔
(امام) خمینیؒ نے اذان میں اپنے نام کو شامل کردیا ہے حتی پیغمبر اسلام ﷺ کے نام سے بھی اپنے نام کو مقدم رکھا ہے" خمینی کے ایران اور تمام مسلمان معاشرے کے حاکم ہونے کے عنوان سے اعلان کے بعد ایران میں نماز کے لیئے کہی جانے والی اذان اس طرح سے ہے:
اللہ اکبر اللہ اکبر خمینی رہبر (یعنی خمینی ہمارے رہبر اور پیشوا ہیں اور پھر اس کے بعد اشہد ان محمداً رسول اللہ کہتے ہیں۔
مؤلف:جب میں نے رواں سال ۱۴۲۳ ھ ماہِ رجب میں بیت اللہ الحرام میں دانشگاہ "ام القریٰ" کے کچھ طلاب سے ملاقات کی تو اس موقع پر بھی میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے جام جم چینل سے دنیا بھر خصوصاً عربستان میں نشر ہونے والے اذان کی طرف توجہ دی جائے تو ڈاکٹر ناصر الدین صاحب کی طرف سے لگائی گئی تہمت و جھوٹ کا بھاندا پھوٹ جاتا ہے اور سب پر حقیقت روشن ہوجاتی ہے۔
جائے تعجب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کی دہشت گردی کے خلاف لکھی جانے والی کتب کی تعداد شیعیت کے خلاف لکھی جانے والی کتب کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔
چشم گیری مذہب اہل بیت علیہم السلام
مذہب اہل بیت علیہم السلام کے خلاف وہابیت کی جانب سے اس قدر شدید مخالفت اور یلغار کی ایک علت ان کے دل میں اس قرآنی و نورانی مکتب کی وسعت کا خوف پایا جاتا ہے اس مکتب کی وسعت کی بناء پر نوجوان و دانشمند حضرات مکتب اہل بیت ؑ کا استقبال کر رہے ہیں کیونکہ یہ ہی وہ مکتب ہے جو پیغمبر اسلام (ﷺ) کی حقیقی سنت کے عین مطابق ہے۔
چند نمونے بطورِ مثال پیش کئے جاتے ہیں
٭ سعودی عرب کے شہر ریاض میں واقع دانشگاہ "الامام محمد بن السعود" کے فارغ التحصیل و بن باز (سعودی کے مفتی اعظم کے شاگرد اور یمن کے شہر صنعاء کی ایک بہت بڑی مسجد کے امام جماعت) ڈاکٹر عصام العماد جو یمن میں وہابیوں کے مبلغ بھی تھے اور انہوں نے شیعوں کے کفر اور شرک کے اثبات کے لیے ایک کتاب "الصلۃ بین الاثنی عشریۃ و فرق الغلاۃ" لکھی ہے جب ایک شیعہ جوان کے ذریعے مکتب ِ اہل بیت ؑ کی نورانی فرہنگ و ثقافت سے آشنا ہوتے ہیں تو وہابیت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔
موصوف اس مناسب سے لکھی جانے والی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں سالہائے گذشتہ میں وہابیوں نے جو کتابیں تحریر کی ہیں ان کے مطالعے کے بعد ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں (وہابیوں) نے اچھی طرح اس بات کا احساس کرلیا ہے کہ مستقبل قریب میں مذہب ِ شیعہ امامیہ ہی ہے، جو غالب ہونے والا ہے اس لیئے کہ وہ وہابیوں میں اور دیگر مسلمانوں میں بہت مؤثر اور تیزی سے دلوں میں اتر جانے والی تبلیغات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
و کُلَّما نَقرَأُ کتابات اِخواننا و الوهّابییّن نَزدادُ یَقِیناً بِانَّ المستقبل للمذهب الاثنی عشری؛ لانَّهم یتابِعُون حرکة الانشار السریعة لهذا المذهب فی وسط الوهّابیین و غیرهم من المسلمین
۔
اور اس کے بعد مدینہ منورہ میں واقع "الجامعۃ الاسلامیۃ" کے استاد شیخ عبد اللہ غنیمان کا قول نقل کرتے ہیں:
انَّ الوهابیین علی یقین بانّ المذهب (الاثنی عشر) سوف هو الذی یَجذِبُ الیه کلُّ اهل السنّة و کلُ الوهابیین فی المستقبل القریب
۔
وہابیوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں جو مذہب وہابیوں اور سنیوں کو اپنی طرف کھینچے گا وہ صرف مذہب شیعہ امامیہ ہی ہے۔
٭وہابی اہل قلم شیخ محمد بن ربیع رقمطراز ہیں: جس بات نے میری حیرت اور شگفتگی میں اضافہ کیا وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ہمارے کچھ وہابی بھائی، مشہور علمی شخصیات کے فرزند اور مصری طلاب نے مذہبِ شیعہ اختیار کر لیا ہے
و ممّا زاد عَجَبی من هذٰا الامر اَنّ ا ِخواناً لنا و منهم اَبنا اَحدِ العلماءِ الکِبار المشهورِین فی مصر، و منهم طلّابُ عِلۡمٍ طالماً جلسوا معنا فی حلقاتِ العلم منهم بعضُ الاخوان الذین کُنّا نُحسن الظنَّ بهم: سَلَکُوا هذا الدَّرۡبَ، و هذا الاِتجاهَ الجدید هو (التشیع)، و بِطبعةِ الحال ادرکت منذ اللحظة الاولی انّ هولاء الاخوَة کغیرهم فی العالم الاسلامی بهرتهم أضواءِ الثورة الایرانیة
۔
٭ ایک اور مشہور و معروف وہابی رائٹر شیخ مغراوی کا کہنا ہے: مشرقی ممالک میں نوجوانوں میں مذہبِ شیعہ کی طرف بڑھتے ہوئے تمایل کو دیکھ کر اس بات کا ڈر ہے کہ یہ مذہب اسی طرح مغربی ممالک میں بھی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔
بعد… انتشار المذهب الاثنی عشری فی مشرق العالم الاسلامی فخفت علیٰ الشباب فی بلاد المغرب
٭ مدینہ منورہ کی یونیورسٹی کے محترم استاد ڈاکٹر ناصر قفاری لکھتے ہیں گذشتہ دنوں اہل سنت کے کچھ لوگوں نے مذہبِ شیعہ اپنالیا ہے اور اگر کوئی "عنوان المجد فی تاریخ البصرہ و نجد" کتاب کا مطالعہ کرے تو یقیناً حیران و پریشان ہوگا کہ عرب کے بعض قبائل کے تمام افراد نے مذہب اہل بیت ؑ اختیار کرلیا ہے۔
و قد تَشَیَّعَ بِسبب الجُهودِ الّتی یَبذُلُها شیوخُ الاثنی عشریّة مِن شَبابِ المسلمین، و مَن یُطَالِعُ کتابَ، "عنوان المجد فی تاریخ البصرة و نجد" یَهُولُه الامر حیثُ یُجد قبائل بأکملها قد تشیّعت
۔
٭ اور ان سب سے بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ عظیم وہابی مصنف شیخ مجدی محمد علی محمد کہتے ہیں: میرے پاس حیرت میں غرق ایک سنی جوان آیا جس کی حیرت و استعجاب کا سبب یہ تھا کہ اس تک کسی شیعہ جوان کی دسترسی ہوگئی جس کے بعد اس سنی جوان کا خیال تھا کہ شیعہ ملائکہ رحمت اور بیشۂ حق کے شیر ہیں۔
جائنی شابّ مِن اهل السنة حیران، و سَبَبُ حیرتِه انّه قد امتَدَتۡ الیه أیدی الشیعة حتی ظنّ المسکین انهم ملائکة الرحمة و فرسان الحق
۔
خلافت و امامت کے بارے میں سوالات
آپ اہل سنت حضرات کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے کسی کو خلیفہ معین نہیں کیا بلکہ حضورؐ یہ کام امت مسلمہ پر چھوڑ گئے اگر یہ کام (خلیفہ معین نہ کرنا) حق اور امت کی اصلاح کے لیئے تھا اور لوگوں کی ہدایت کا بھی ضامن تھا تو اس کام میں تمام امت مسلمہ پر حضور (ﷺ) کی اتباع کرنا واجب و لازم تھا کیونکہ تمام موحدین جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے آپؐ کی سیرت و سنت نمونہ ٔ حیات ہے۔
(
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ
)
بنابراین حضرت ابوبکر کا خلیفہ معین کرنا سنت پیغمبرؐ کے خلافت اور امت کی گمراہی کا سبب بھی تھا۔
اور اسی طرح حضرت عمر کا چھ رکنی شوریٰ میں خلافت کو محدود کرنا بھی سنت ِ پیغمبر اکرمؐ اور سیرت ابوبکر کے خلاف تھا لیکن اگر کہا جائے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل امت کی اصلاح کے لیے تھا تو کہنا پڑے گا کہ پھر پیغمبر اکرمؐ کا عمل صحیح نہیں تھا۔ (نستجیر بالله من ذالک
)
٭ پیغمبر اسلام ؐ جب بھی مدینے سے باہر جاتے تھے تو اپنے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین اور نائب معین کرکے جاتے تھے۔
لِأنَ النبی (صلی الله علیه وسلم) اِستَخۡلَفَ فِی کُلِّ غَزاةِ غزاها رجلاً من اصحابه
۔
ابن مکتوم کو تیرہ غزوات مثلاً بدر، احد، ابواء، سویق، ذات الرقاع، حجۃ الوداع وغیرہ کے موقع پر مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا ہے۔
اسی طرح ابو رہم کو مکے کی جانب کوچ کے وقت، جنگِ حنین و خیبر کے موقع پر محمد بن مسلمہ کو جنگِ قرقرہ میں نمیلہ بن عبد اللہ کو، غزوۂ بن مصطلق اور عویف کو حدیبیہ کے موقع پر اپنا جانشین و خلیفہ کی حیثیت سے معین کیا۔
بنابر ایں کیا یہ معقول بات ہے کہ حضور اکرم (ﷺ) جب ایک دن کے لیئے بھی مدینہ سے باہر جائیں (جیسا کہ جنگ ِ احد مدینے سے ایک میل کے فاصلے پر انجام پائی) تو اپنا جانشین معین کرکے جائیں لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس دنیا سے جائیں تو امت کو خلیفہ اور ہادی کے بغیر چھوڑ کر چلے جائیں؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبرؐ اسلام مدینے کے بالکل قریب ہونے والی جنگ خندق میں اپنا جانشین معین کرکے جائیں لیکن ہمیشہ کے لیئے جاتے وقت کسی کو اپنا جانشین معین کرکے نہ جائیں اور یہ کام امت پر چھوڑ کر چلے جائیں؟
٭ ایک طرف آپ اپنی روایات کی کتب میں پیغمبرؐ اسلام سے روایت نقل کرتے ہیں: ہر نبی کا ایک وصی و جانشین تھا۔
لکل نبی وصی و وارث
۔
اور حضرت سلمان فارسی کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام (ﷺ) سے سوال کیا: یا رسول ؐ اللہ ہر پیغمبر کا جانشین و وصی تھا آپ کا وصی اور جانشین کون ہے؟
انّ لکل نبی وصیاً فمن وصیک ؟
اور دوسری طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر (ﷺ) نے کسی کو اپنا جانشین معین نہیں فرمایا۔
کیا رسول اکرم (ﷺ) تمام نبیوں سے مستثنیٰ تھے اور کیا یہ ان کی خصوصیت تھی؟ یا پیغمبر اسلام (ﷺ) نے تمام انبیاء کی سنت کے برخلاف عمل کیا تھا؟ جبکہ خداوند تعالیٰ قرآن میں بزرگ انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد پیغمبر ؐ اسلام کو حکم دے رہا ہے کہ ان کی ہدایت کی اتباع کریں۔
(
اُولئِک الذٰینَ هدی الله فَبِهُدَاهم اقتده
)
٭ آپ کہتے ہیں حضورؐ سرور کائنات امت کے لیئے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کیا حضور (ﷺ) نے جانشین کو معین کرنے کی ذمہ داری امت کے سپرد کردی تھی کہ جسے چاہیں جانشین پیغمبرؐ کے عنوان سے معین کرلیں اور خود پیغمبرؐ گرامی نے خلیفہ کے تعین کے لیے کوئی شرط بیان نہیں فرمائی؟
یہ بات کسی بھی طرح معقول نہیں، اس لیئے کہ پیغمبر اسلام ایسے سخت حالات میں دنیا سے تشریف لے گئے ہیں کہ جب مسلمان معاشرہ بدترین حالات سے دوچار تھا کیونکہ ایک طرف حکومت اسلامی کو روم و ایران کی طاقتور حکومتیں حراساں کر رہی تھیں (جس کی دلیل پیغمبرؐ اسلام کا لشکر اسامہ کو ترتیب دینا تھا) اور دوسری طرف منافقین و مشرکین اور یہودی، مسلمانوں کے خلاف ہر روز ایک نئی سازش کر رہے تھے۔
لہذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے حالات میں اگر عام آدمی بھی حاکم ہوتا تو وہ بھی کسی صورت قوم وملت کو بغیر جانشین کے چھوڑ کر نہیں جاتا تو کون عقل مند ہے جو کہے کہ پیغمبر (ﷺ) قوم و ملت کو خلیفہ و جانشین معین کیئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حالانکہ پیغمبر (ﷺ) سب سے زیادہ مسلمانوں کے غمخوار اور ان کی فلاح و بہبود کے لیئے کوشان تھے آیہ شریفہ:
(
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
)
ہماری اس بات کی بہترین دلیل ہے۔
علاوہ بریں اس قسم کا اعتقاد پیغمبر اسلام (ﷺ) کی بدترین توہین ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ﷺ) کے اس تصمیم و ارادے سے مسلم معاشرہ سخت ترین حالات سے دوچار ہوگیا جیسا کہ مصر کے ڈاکٹر احمد امین نے صراحت کے ساتھ کہا ہے: پیغمبر اسلام (ﷺ) کے جانشین معین نہ کرکے یا اس کے انتخاب کی شرائط بیان نہ کرکے چلے جانے نے مسلمانوں کو مشکلات اور خطرناک حالات سے دوچار کر دیا۔
تُوُفِّیَ رسولُ (صلی الله علیه وسلم) ولَم یُعَیِنۡ مَن یَخۡلُفۡه وَلَم یُبَیِّنۡ کَیفَ یکونُ اختیارُه، فَواجَهَ المسلمون اَشقَّ مسألة ٍو أخطرها!
معروف مورخ ابنِ خلدون کا کہنا ہے: قوم و ملت کو رہبر و سرپرست کے بغیر چھوڑ دینا محال ہے کیونکہ یہ امر عوام اور سیاستدانوں میں جھگڑے و فساد کا سبب ہے لہذا ہر معاشرے کو ہرج و مرج سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک حاکم کا معین کرنا لازمی و ضروری امر ہے۔
فَاستحال بقاءُ هم فَوَضَّی دونَ حاکم یزع بعضهم عن بعض و احتاجوا مِن اَجلِ ذالک الیٰ الوازِع وهو الحاکم علیهم
۔
٭ صحیح مسلم کے مطابق دختر حضرت عمر جناب حفصہ، حضرت عمر سے کہتی ہیں کہ کسی کو اپنا جانشین معین ضرور کیجئے اور پھر حضرت کے فرزند، عبد اللہ بھی کہنے لگے: اگر آپ کا چرواہا اونٹوں اور بھیڑوں کو بغیر سرپرست کے چھوڑ دے تو آپ اس پر اعتراض کریں گے کہ ان کی نابودی کا باعث کیوں بنا۔
لہذا اس امت کی فکر کیجئے! اور کسی کو بعنوان خلیفہ معین کیجئے کیونکہ اس امت کا خیال رکھنا اونٹوں اور بھیڑوں کی دیکھ بھال کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے۔
عن ابنِ عمر قالَ: دَخَلتُ علیٰ حفصة فقالتۡ: أعلمتُ اَنّ اَباک غیرَ مُسۡتَخۡلف؟ قالت قلت: ما کان لیفعل
قالت: انهُ فاعل قال ابنِ عمر: فحلفت أنّی أکلمه فی ذالک فسکت، حتیٰ غدوت، ولم أکلمه
قال: فکنت کانّما اَحمل بیمینی جبلاَ، حتیٰ رجعت فدخلت علیه، فقلت لهُ: انّی سمعت، الناس یقولون مقالة فآلیت أن اقولها لک، زعمو انّک غیر مستخلف، و انهُ لو کانک لک راعی ابل، اوراعی غنم ثم جائک و ترکها رأیت أن قد ضیّع، فرعایة الناس اشد
٭ حضرت عائشہ بھی عبد اللہ ابن عمر کے ذریعے حضرت عمر کے پاس پیغام بھیجتی ہیں کہ: امت محمد (ﷺ) کو بغیر چوپان کے چھوڑ کر نہ جائیں، کسی نہ کسی کو جانشین ضرور معین کریں اس لیئے کہ مجھے قوم کے فتنہ کا خوف ہے:
ثم قالت (أی عائشه) : یا بُنَّی ! أَبۡلِغُ عمر سلام، و قل لهُ: لَا تَدَعۡ اُمَّةَ محمد (ﷺ) بِلا راعٍ، اِستَخۡلِف علیهم وَلَا تَدَعۡهُم بَعدَک هملَا، فَأنی أَخشیٰ علیهم الفتنة
۔
اسی طرح معاویہ جب یزید کی بیعت لینے کے لیئے مدینے میں وارد ہوا تو صحابہ کے مجمع میں عبد اللہ ابن عمر سے دوران گفتگو کہنے لگا:
اِنّی أَرهبُ أَن أدع امة محمد بعدی کَالضَّأۡنِ لَا راعِی لها
۔
میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میں امت ِ محمد (ﷺ) کو بغیر چوپان کے بھیڑوں کی مانند چھوڑ کر چلا جاؤں۔
اور طبقات ابن سعد کے مطابق، عبد اللہ ابن عمر نے اپنے والد سے کہا: جس شخص کو آپ نے اپنی زمینوں پر اپنا وکیل بنا رکھا ہے اگر آپ اسے بلانا چاہیں گے تو کیا اس کی جگہ پر کسی کو نائب معین کریں گے یا نہیں؟ انہو ں نے کہا کیوں نہیں! پھر سوال کیا: اگر چرواہے کو بلائیں تو کیا اس کی جگہ پر بھی کسی کو نائب معین کریں گے؟ کہا: ہاں!
(اب آپ خود فیصلہ کیجئے) کیا یہ پیغمبر اسلام (ﷺ) کی اہانت نہیں ہے کہ انہیں حضرت عائشہ، حفصہ اور معاویہ جتنی بھی امت کی فکر نہ ہو؟ اور اپنی امت کو بغیر سرپرست و رہبر کے چھوڑ کر چلے جائیں؟! کیا کوئی نہیں تھا جو پیغمبرؐ اسلام سے خلیفہ و جانشین معین کرنے کے لیے یا تعین خلیفہ کے طریقے کے بارے میں سوال کرتا؟
٭ جو لوگ کہتے ہیں: پیغمبر اسلام (ﷺ) نے وقت رحلت کوئی وصیت نہیں کی، کیا انہیں معلوم ہے کہ یہ کہہ کر وہ حضورؐ سرور کائنات کی طرف قرآن و سنت کے برخلاف عمل کی نسبت دے رہے ہیں؟!
اس لیئے کہ قرآن نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وصیت کیئے بغیر دنیا سے نہ جائیں۔
(
کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا الوصیة
)
اس لیے کہ جملۂ (کتب علیمر) آیہ شریفہ (کتب علیکم الصیام) کی طرح اہمیت و لزوم پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود پیغمبر اکرمؐ نے بھی فرمایا ہے: ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ اس کے پاس وصیت نامہ موجود ہو اور ہرگز ایسا نہ ہو کہ اس کی عمر کی تین راتیں گذر جائیں اور اس کے پاس وصیت نامہ موجود نہ ہو۔
ما حَقُّ اِمریءٍ مسلمٍ لهُ شئیٌ یُوصِی به، یَبِیتُ ثَلاثَ لَیالٍ الّا وَ وَصِیَّتُهُ عِندَه مَکتُوبةٌ
۔
جیسا کہ عبد اللہ ابن عمر کا کہنا ہے: جب سے میں نے پیغمبر اکرم (ﷺ) سے اس حدیث کو سنا کوئی رات بغیر وصیت سے نہ گزاری(قال عبد اللہ ابن عمر:
ما مَرَّتۡ عَلَیّ لیلةٌ مُنذُ سَمِعۡتُ رسولَ الله (صلی الله علیه وسلم) قال ذالک الّا وَ عِندِی وَصِیَّتی
۔
اب بتائیے کہ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر خود پیغمبر اسلام (ﷺ) سے زیادہ حضورؐ کے قول کے پابند تھے؟
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر ؐ اسلام جو کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے (معاذ اللہ)؟ جبکہ پروردگار عالم فرماتا ہے: وہ بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے؟ یاد رکھو قول و فعل کا تضاد خدا کے غیض و غضب کا سبب ہے:
(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ * كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ
)
یہ تناقض و اختلاف اتنا روشن تھا کہ بعض راویوں نے بھی اعتراض کیا مثلاً طلحہ بن مصرف نے عبد اللہ بن اوفی سے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ﷺ) وصیت کا حکم تو دیں لیکن اس پر خود عمل نہ کریں؛
عن طلحه بن مصرف، قال: سألتُ عبدَ الله بن ابی أَوفیٰ: هَل کان النبی (ﷺ) اَوصیٰ؟ قال: لا، فقلت: کیفَ کَتَبَ علیٰ الناس الوصیةَ، ثمّ تَرَکَها قال: اَوصَی بِکتابِ الله
۔
و فی روایتِ احمد: فکیف أَمرُ المومنینِ بِالوصیةِ ولم یُوصِ؟ قال: اوصی بکتاب الله
۔
آیت و حدیثِ وصیت، وصیت کے واجب و لازم ہونے پر دلالت نہ بھی کریں تو کم از کم وصیت کے جائز ہونے پر تو دلالت کر رہی ہیں اور اس بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ وصیت کرنا ایک اچھا اور نیک عمل ہے اور پیغمبر اکرم (ﷺ) کے لیے شائستہ نہیں کہ وہ اس عمل خیر کو ترک کردیں۔ کیونکہ فرمان قرآن ہے: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو۔
(
اتا مرون الناس بالبر و تنسون أنفسکم
)
٭ جو لوگ یہ کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ﷺ) کسی کو خلیفہ معین کیئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے اور اس کی ذمہ داری امت کے سپرد کر گئے تھے وہ یہ بتائیں کہ کیا پیغمبر (ﷺ) نے رہبر کے لیے اور رہبری کے انتخابات میں شرکت کرنے والوں کے لیئے کچھ شرائط بھی معین فرمائی تھیں یا نہیں؟
اگر معین فرمائی تھیں تو پھر یہ شرائط کس حدیث و روایت میں وارد ہوئی ہیں؟
اور اگر حضور سرور کائناتؐ کے ارشادات میں شرائط بیان کی گئی ہیں تو پھر سقیفہ بن ساعدہ میں ہونے والے اجتماع میں کسی نے ان شرائط و اقوال سے استفادہ کیوں نہیں کیا؟
اور بالفرض! اگر حضرت ابو بکر کا انتخاب حضورؐ سرور کائنات کی بیان کردہ شرائط کے مطابق تھا تو حضرت ابوبکر نے یہ کیوں کہا: میری بیعت ایک ناگہانی و اتفاقی امر تھا اور یہ بیعت بغیر کسی تدبیر کے انجام پائی اور خدا نے قوم و ملت کو اس کے شر سے بچالیا۔
یعنی حقیقت میں یہ ایک شرّی کام تھا لیکن خدا نے اس کے شر کو برطرف کر دیا۔
حضرت عمر نے بھی اپنی خلافت کے آخری ایام میں برسر منبر یہ ہی کہا تھا:
اِنَّ بیعةَ ابی بکر کانت فلتةً وقی اللهُ شرَّها فمَن عاد الیٰ مثلها فاقتلوه
۔
حضرت ابوبکر کی بیعت ایک اتفاقی و ناگہانی امر تھا اور خدا نے اس کے شر سے بچالیا اگر کسی نے دوبارہ اس طرح سے بیعت لینے کی کوشش کی تو اس کی سزا موت ہوگی۔
ابن اثیر کا کہنا ہے: "فلتۃ" ناروا طریقے کو کہتے ہیں اور امر خلافت میں انتشار کے خوف سے حضرت ابوبکر کی بیعت کی گئی۔
و الفلتة کل شئی من غیر رویة، و اِنّما بودربها خوف انتشار الأمر
۔
کاش کوئی ابن اثیر سے سوال کرتا کہ کس امر خلافت میں خوف محسوس کر رہے تھے؟ کیا اس خلافت کا خوف تھا جسے پیغمبر اکرم (ﷺ) نے معین کیا تھا؟ یا خلافت کے انتخاب میں حضرت ابوبکر جیسے دیگر افراد کے کھڑے ہونے کی وجہ سے خوف پیدا ہوگیا تھا؟
لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ پیغمبر (ﷺ) نے جس خلافت کو معین کیا اس میں انتشار کیسے ہوسکتا تھا۔ بلکہ وہ قوم و ملت کے امن و امان اور سکون کی ضامن تھی اور تمام مسلمانوں پر حضور سرور کائنات (ﷺ) کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا اور مخالفت نہ کرنا واجب و لازم ہے۔
(
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
)
اسی طرح دیگر افراد کے ہم پلہ ہونے سے بھی وہ لوگ خائف تھے کیوں کہ تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ اگر وہ لوگ انہیں حضرت ابوبکر کے ہم پلہ نہ جانتے ہوتے تو کبھی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور اگر حضرت ابوبکر کے ہم مرتبہ تھے تو پھر ان کی یا حضرت ابوبکر کی بیعت کرنے میں فرق ہی کیا تھا؟
لیکن اگر رہبری کے لیئے نامزد ہونے والا شخص حضرت ابوبکر کی نسبت بہترین شرائط اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھا جو معاشرے کے لیئے بہترین تدابیر کرسکتا تھا تو کیا ایسی صورت میں حضرت ابوبکر کو عہدۂ خلافت پر منصوب کرنا معاشرے کے مصالح و مفاد کے مانع نہ تھا؟
٭ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر واقعاًٍ خلافتِ حضرت ابوبکر، شرائط اور سنت رسول اکرم (ﷺ) کے مطابق انجام پائی تھی تو حضرت عمر نے یہ کیوں کہا:
فَمَن عاد الیٰ مثلها فاقتلوه
۔ اگر کسی نے دوبارہ اس طرح سے بیعت لینے کی کوشش کی تو اس کی سزا موت ہوگی۔
اگر یہ بیعت سنت کے مطابق تھی تو کیا دوسرے مسلمانوں کا سنت پر عمل پیرا ہونا ضروری نہ تھا۔
توجہ: آپ نے دیکھا کہ ایک غلط عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کتنے غلط اعمال و افکار کو صحیح ظاہر کرنا پڑتا ہے لہذا اگر خلافت کے پہلے مرحلے ہی میں خلافت کے غلط طریقے کو اپنا یا نہ جاتا تو بعد والی غلطیوں سے بھی مسلمان محفوظ رہ سکتے تھے اچھی بات تو یہ تھی کہ پیغمبرؐ اسلام کے فرمانِ غدیر کے مطابق مسلمان عمل کرتے اور ہمیشہ ہمیشہ کے اختلاف اور اضطراب سے محفوظ رہتے۔
٭ ایک طرف آپ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم (ﷺ) نے کسی کو اپنا جانشین معین نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی کو حکم دیا کہ وہ کسی کو آپؐ کا جانشین معین کرے بلکہ لوگوں نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ معین کیا، حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو اور چھ رُکنی کمییض نے حضرت عثمان کو خلافت کے عہدے پر معین کیا اور
دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ یہ حضرات جانشینِ پیغمبرؐ اکرم تھے اور آپ انہیں خلیفہ رسولؐ کہتے ہیں کیا اس طرح کی بات کہنا پیغمبر ؐ اکرم کی طرف جھوٹی نسبت دینا نہیں؟ کیونکہ حدیث متواتر ہے:
من کذب علیَّ معتمداً فلیتبوء مقعده من النار
۔
جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی نسبت دی اس کاٹھکانہ جہنم ہے۔
پس پیغمبر ؐ اسلام کی طرف ہر طرح کی جھوٹی نسبت دینا گناہ ہے۔
بنابرایں اگر آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) نے کسی کو خلیفہ معین نیںب فرمایا، صحیح ہوتو خلفاء راشدین ، خلفاء پیغمبر اکرم (ﷺ) نہیں ہوسکتے!
٭ جس وقت پیغمبر اکرم (ﷺ) نے بیماری کی حالت میں بستر پر فرمایا تھا: قلم و دوات لاؤ تاکہ میں تمہارے لیئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے تو حضرت عمر نے کیوں کہاکہ ان پر درد کا غلبہ ہے اور ہمیں کتابِ خدا ہی کافی ہے؛
اِن النّبی (صلی الله علیه وسلم) قَد غَلَبَ علیه الوَجۡعُ، و عِندَکم القرآنُ حَسۡبُنَا کتابُ الله
۔
یا یہ کہا: رسول اللہ (ﷺ) ہذیان کہہ رہے ہیں۔ (معاذ اللہ)
(اِنّ رسولَ الله (صلی الله علیه و سلم) یَهۡجُر) "نستجیر بالله" (کبرت کلمةَ تخرج من أفواههم)
یہ واقعہ اتنا اذیت ناک و اندوہ گین تھا کہ ابن عباس جب بھی اسے یاد کرتے ہیں تو انکی آنکھوں سے موتیوں کی مانند اشک جاری ہوکر رُخساروں پر بہنے لگتے ہیں۔
سوالات
صحیح بخاری و صحیح مسلم اور آپ کی دیگر صحاح میں وارد ہونے والی اس حدیث کے بارے میں چند سوالات قابل توجہ ہیں:
۱ ۔ کیا حضرت عمر کا یہ فرمان "انّ رسولَ الله یَهجُر
" قرآن کریم کے خلاف نہیں؟ اس لیئے کہ قرآن فرماتا ہے:
(
وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡهَویٰ إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى
)
پیغمبر اکرم (ﷺ) اپنی خواہشِ نفس سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ جو کہتے ہیں وحیِ الٰہی کے تحت کہتے ہیں۔
۲ ۔ حضرت عمر کا یہ کہنا:"حَسۡبُنَا کتاب الله
" کتابِ خدا ہمارے لیئے کافی ہے کیا یہ سنت پیغمبر اکرمؐ کی عملی مخالفت نہیں ؟
کیونکہ پیغمبر اکرم (ﷺ) نے فرمایا تھا ایسی چیز تمہارے لیئے لکھ دوں جس کے ذریعے تم گمراہی سے بچ سکو، یہ کوئی عام تحریر نہ تھی اور نہ ہی اس کا تعلق حضورؐ کی اپنی ذات سے وابستہ تھا بلکہ خاص اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ سنت کی بہترین مصداق بھی تھی۔
۳ ۔ کیا حضرت عمر اور ان کے ہمنواؤں کا حضور (ﷺ) کی مخالفت کرنا حکمِ قرآن کی مخالفت نہیں؟ اس لیئے کہ قرآن فرماتا ہے او امر پیغمبر (ﷺ) کی اطاعت کرو اور نواہی حضرت ؐ سے اجتناب کرو۔
(
مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
)
۴ ۔ بخاری کے اس قول (پیغمبر اکرم (ﷺ) کے بستر کے قریب لوگوں نے شور و غل بلند کر دیا تھا اور اختلاف میں پڑ گئے تھے) کے مطابق کیا یہ شور و غل اس حکم قرآن کے خلاف نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر (ﷺ) کے حضور کسی بھی قسم کا شور و غل منع ہے اور اس بات کو لوگوں کے حبطِ اعمال اور انکی نابودی کا باعث قرار دیا ہے۔
(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ
)
؛ ایمان والو خبردار! اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز سے بات بھی نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔
۵ ۔ کیا صحابہ کا اختلاف کرنا اور حضور (ﷺ) سرور کائنات کے فرمان پر سر تسلیم خم نہ کرنا قرآن کے اس حکم کی مخالفت نہیں؟!
(
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
)
؛ پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکَم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں۔
پس اختلاف کی صورت میں پیغمبر (ﷺ) کے نظریہ و فرمان پر سر تسلیم خم کرنا سب پر واجب و لازم ہے پس جو لوگ حضور (ﷺ) کی بات نہیں مانتے ہیں تو وہ مومن نہیں ہیں۔
۶ ۔ پیغمبرؐ گرامی مرتبت امت کو گمراہی سے بچانے والی تحریر لکھنا چاہتے تھے کیا اتنی اہم تحریر لکھنے سے منع کرنا لوگوں کی گمراہی کا سبب نہیں ہوا؟
آپ پیغمبر (ﷺ) کی اس بات کی یا تصدیق کریں گے یا تکذیب اگر تصدیق کرتے ہیں تو بتائیں کہ امت مسلمہ میں گمراہی آئی یا نہیں؟ اگر آپ گمراہی تسلیم کرتے ہیں تو امت اسلامی کی اس سے بڑی گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ امر خلافت کے منصوص من اللہ ہونے میں حق سے منحرف ہوگئی؟
۷ ۔ حضور سرور کائنات (ﷺ) کی اس وصیت لکھنے کی مخالفت کرنے والے حضرت عمر اور ان کے ساتھیوں کے مدِ مقابل کچھ وہ افراد بھی تھے جو اس وصیت کے لکھنے جانے پر زور دے رہے تھے:
مِنهُم مَن یقول: قرّبوا یکتب لکم النّبی (صلی الله علیه وسلم) کِتابا لا تضلّوا بعده و منهم من یقول: ما قال عمر
۔
؛ کچھ کہہ رہے تھے کہ نبی کو تحریر لکھنے دو تاکہ ان کے بعد گمراہ نہ ہوسکیں اور کچھ وہی بات کہہ رہے تھے جو حضرت عمر نہ کہی تھی۔
حتی کہ زنان پیغمبر (ﷺ) نے بھی حضرت عمر کی ٹیم کی شدید مخالفت کی جس پر حضرت عمر نے ان کی توہین کی لیکن حضور (ﷺ) نے ان خواتین کا دفاع کرتے ہوئے جواب دیا:
فَقالتِ النِسوةُ مِن وراءِ السَتر: أَلا تَسمَعُونَ ما یَقُول رسولُ الله ؟! قالَ عمر: فَقُلتُ اِنَّکُنَّ صواحبات یوسف، اِذا مرض رسول الله، عصرتنَّ أعینکنّ، و اِذا صح، رکبتنّ عنقه! قال: فقال رسول الله دُعُوهُنَّ فاِنَّهُنَّ خیر) منکم
۔
خواتین پس پردہ سے کہنے لگیں: کیا تم لوگ پیغمبرؐ اسلام کی بات نہیں سن رہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا: تم حضرت یوسف کی شیدائیوں کی مانند ہو کہ جب اللہ کا رسولؐ مریض ہوتا ہے تو رونے لگتی ہے اور جب صحیح ہوتا ہے تو سر پر چڑھ بیٹھتی ہو۔
رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا: تمہیں ان پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں اور تم ان کی فکر مت کرو اس لیئے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔
اب غور کیجئے کہ آخر حضرت عمر اور ان کے ساتھی مقابل گروہ پر غالب کیوں ہوگئے اور دونوں میں سے کس نے قرآن و سنت کے برخلاف عمل کیا؟
۸ ۔ آخر ابن عباس ؓ جیسی عظیم المرتبت ہستی نے اس واقعہ کو "واقعہ مصیبت" سے تعبیر کیوں کیا ہے؟
انّ الرزیة کل الرزیة ما حال بین الرسول الله (صلی الله علیه وسلم) و بین ان یکتب لهم ذالک الکتاب من اختلافهم و لَغَطهم
۔
کیا جناب عباسؓ کا جانسوز گریہ اور اس واقعہ کو "واقعہ مصیبت" سے تعبیر کرنا، اپنی فکر کو اس امر کی طرف متوجہ کرنے اور اس واقعہ کی حقیقت پر غور کرنے کے لیے کافی نہیں؟
۹ ۔ قرآن و سنت کے شدید خلاف اس واقعہ سے پیغمبرؐ اسلام کو اتنی سخت اذیت ہوئی کہ :انک لعلی خلق عظیم کے افتخار کے باوجود حضور (ﷺ) نے غضبناک ہوکر سب کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیدیا۔
فلما اکثروا اللغط و الاختلاف عند النبی قال لهم رسول الله (صلی الله علیهوسلم ) قوموا عَنِّی
۔
اب سوچئے کہ ان حضرات کا یہ عمل قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے ساتھ کس طرح قابل جمع ہے؟
(
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
)
۱۰ ۔ اگر حضرت عمر کی اس بات کو مان لیا جائے اور قابل قدر سمجھا جائے کہ وقتِ وفات پیغمبر (ﷺ) نے جو بات کہی تھی وہ مرض کے غلبہ کے تحت تھی یا معاذ اللہ ہذیان تھی لہذا وہ کسی بھی طرح حجت نہیں ہوسکتی تو حضرت ابوبکر کی خلافت کے اثبات کے لیئے پیغمبر اکرم (ﷺ) کے اس قول سے استفادہ کیوں کرتے ہیں کہ حضور (ﷺ) نے حضرت عائشہ سے فرمایا:
مروا أبا بکر فلیصلّ
۔
ابوبکر سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔
حالانکہ پیغمبر اسلام (ﷺ) نے یہ بھی تو اسی حالت بیماری میں فرمایا تھا!
۱۱ ۔ لیکن جب حضرت ابوبکر وصیت لکھ رہے تھے تو درد کی شدت سے بیہوش ہوگئے اور ہوش میں آنے کے بعد وصیت کو مکمل کیا تو کسی نے یہ نہیں کہا:
(قد غلب الوجع ) یا (الرجل یهجر)
ان پر درد کا غلبہ ہے یا ہذیان کہہ رہے ہیں۔ بلکہ وہ ہی صاحب جنہوں نے پیغمبر (ﷺ) کی طرف تو ہذیان کی نسبت دی اور اپنی خلافت کی مشروعیت کے لیئے حضرت ابوبکر کی اسی وصیت سے استفادہ کر رہے تھے جو انہوں نے وقت موت بیان کی تھی؟
عن اسماعیل بن قیس: قال: رأیت عمر بن الخطاب و هو یجلس و الناس معه و بیده جریدة و هو یقول : أیها الناس اسمعوا و أطیعوا قول خلیفة رسول الله اِنّه یقول: اِنّی لم آلکم نصحاً قال: و معه مولی لابی بکر یقال له: شدید، معه الصحیفة التی فیها استخلاف عمر
۔
۱۲ ۔ طبرانی، سیوطی اور ذہبی نقل کرتے ہیں: رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا کسی امت نے اپنے پیغمبرؐ کے بعد اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ وہ (گروہ باطل) اہل حق پر غالب ہوگئے۔
ما اخۡتَلَفَتۡ اُمَّةٌ بعدَ نَبِیِّها اِلّا ظَهَرَ اهلُ باطِها علیٰ اهلِ حَقِّها
۔
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سقیفہ میں امت کے اختلاف اور حضرت ابوبکر و عمر کی کامیابی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
مہاجرین و انصار کا اجماع
۱۳ ۔ آپ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی بیعت پر تمام انصار و مہاجرین متفق تھے جبکہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ تمام مہاجرین حضرت ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے اور ان کے علاوہ حضرت علی و زبیر اور انکے تمام طرفدار بھی مخالف تھے۔
حین توفی الله نبیه (صلی الله علیه وسلم) ان الانصار خالفونا، اجتمعوا بأسرهم فی سقیفة بنی ساعده و خالف عنا علی و الزبیر و من معهما
بتائیے کس کا دعویٰ صحیح ہے حضرت عمر کا یا آپ کا؟
۱۴ ۔ حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں آپ اس بات سے استفادہ کرتے ہیں کہ ان کی بیعت پر اہل حل و عقد کا اجماع تھا حالانکہ آپ کی برجستہ اور عظیم علمی شخصیات اس بات کا انکار کرتی ہیں۔ ماوردی شافعی (متوفائے۔ ۴۵۰) اور ابو یعلی حنبلی (متوفائے ۴۵۸) صراحتاً کہتے ہیں: حضرت ابوبکر کی بیعت میں کوئی اجماع درکار نہ تھا لہذا کسی اجماع کے بارے میں گفتگو کرنا بیکار ہے۔
فقالت طائفة: لا تنعقد الا بجمهور أهل العقد و الحل من کل بلد لیکون الرضا به عاماً، و التسلیم لامامته اجماعاَ، و هذا مذهب مدفوع ببیعة ابی بکر رضی الله عنه علی الخلافة با ختیار من حضرها، ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنها
اب خود فیصلہ کرلیجئے، کہ آپ سچے ہیں یا آپ کی یہ دو عظیم المرتیب شخصیات؟
۱۵ ۔ آپ کا کہنا ہے کہ: حضرت ابوبکر کی بیعت میں مہاجرین اور اصحاب میں سے تمام صاحبان نظر شریک تھے حالانکہ آپ کے عظیم مفسر جناب قرطَبی (متوفائے ۶۷۱) صراحت کے ساتھ اس بات کا انکار کرتے ہیں، وہ تو اس بات کے دعویدار ہیں کہ حضرت ابوبکر کی بیعت صرف حضرت عمر کے ذریعے منعقد ہوئی ہے۔
فَانۡعَقَدَ ها واحدٌ مِن اهلِ الحل و العقد فذالک ثابت و یلزم الغیر فعله، خلافا لبعض الناس حیث قال: لا ینعقد الا بجماعة من اهل الحل و العقد، دلیلنا: أن عمر عقد البیعة لابی بکر
۔
۱۶ ۔ آپ کس اجماع کی بات کرتے ہیں؟ اس اجماع کی جس کا آپ کے عظیم متکلم امام الحرمین (متوفائے ۴۷۸) استاد غزالی انکار کرتے ہیں! ان کا کہنا ہے کہ تشکیل امامت کے سلسلے میں اجماع کی احتیاج ہی نہیں جیسا کہ امامت ابوبکر بغیر کسی اجماع کے تشکیل پائی اور قبل اس کے کہ انکی امامت کی خبر بلاد اسلامی میں اصحاب کے کانوں تک پہنچے، حکم پر دستخط کرکے دستور صادر کردیا گیا۔ اور آخر میں نتیجہ اخذ کرتے ہیں: امامت، اہل حل و عقد میں سے ایک آدمی کی تائید سے حاصل ہوجاتی ہے۔
"اِعلَمُو اَنَّه لَا یُشۡتَرَطُ فی عَقدِ الاِمَامَةِ، الاجماعُ، بَل تَنۡعَقِد الامامةُ و اِنۡ لَم تَجۡمَعِ الأُمَّةُ علیٰ عقدِها، و الدلیل علیه أَنَّ الاِمامة لمّا عقدت لابی بکر ابتدر لِامضاء احکام المسلمین، ولم یتأن لانتشار الأخبار الیٰ مَن نَأَیَ من الصحابة فی الأقطار ولم ینکر منکر فاذا لم یشترط الأجماع فی عقد الامامة لم یثبت عدد معدود ولا حدّ محدود فالوجه الحکم بِأَنّ الامامةَ تنعقد بعقد واحدٍ مِن اهل الحل و العقد"
۱۷ ۔ آپ (اہل سنت) کس اجماع کو خلافت کا پشت پناہ قرار دیتے ہیں؟ وہ اجماع کہ عضد الدین ایجی (متوفائے ۷۵۶) صاحب کتاب "المواقف" اہل سنت کے کلامی اصول کو مضبوط کرنے والے عظیم عالم جس کا انکار کرتے ہیں اور صراحت کے ساتھ کہتے ہیں: اجماع کے معتبر ہونے کے لیے کسی عقلی یا نقلی دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ اہل حل و عقد میں سے ایک یا دو افراد کسی کی بھی بیعت کرلیں تو اس کی امامت ثابت ہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے جیسا کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی۔ اور عبد الرحمان بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت کرلی تو انکی امامت ثابت ہوگئی۔
و إذا ثَبَتَ حصولُ الامامةِ بالاختيار و البيعة، فاعلم اَن ذالك لَا يَفتَقِرُ اِلى الاِجماع اذ لم يَقُم عليه دليلٌ مِن العقل أَوِ السَّمۡعِ، بل الواحد او الاثنان من اهل الحل و العقد كاف، عَلَمِنَا أن الصحابةَ مع صلابتِهم في الدين اِكتَفُوا في بذالك، كعقد عمر لأبي بكر، و عقد عبد الرحمن بن عوف لعثمان
۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے: امامت حضرت ابوبکر کے سلسلے میں تو اہل مدینہ کے اجماع کو بھی لازم قرار نہیں دیاجاسکتا چہ جائیکہ تمام امت کے اجماع کو لازم قرار دیا جائے۔
و لم يشترطوا اجماع مَن في المدينة فَضۡلاً عن إجماع الأمة، هذا و لم يُنۡكِر عليهم أحدٌ، و عَليهِ انۡطَوَتۡ الأعصار اِلیٰ وقتنا هذا
۔
ان کے علاوہ آپ کے مسلک کی ایک دوسری عظیم علمی شخصیت ابن عربی مالکی (متوفی ۵۴۳) کا کہنا ہے: امام کے انتخاب کیلئے تمام لوگوں کا انتخاب میں حاضر ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک یا دو افراد سے بھی انتخاب ہوجاتا ہے۔
لَا یَلزِم فی عقدِ البیعةِ لِلامام أن تکون مِن جمیع الأَنام بل یَکفِی لعقد ذالک اِثنان أو واحد
"فاعتبروا یا اولی الأبصار"
اب بتائیے کہ آپ صحیح ہیں یا یہ عظیم علمی شخصیات؟
۱۸ ۔ اگر بیعت ، اہل حل و عقد میں سے ایک یا دو افراد کے ذریعے یا تمام مسلمانوں کے مشورے کے بغیر صحیح ہے تو حضرت عمر نے قتل کی دھمکی کیوں دی اور یہ کیوں کہا: اگر آج کے بعد کسی نے بھی ایسا کیا تو بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جائے گی، دونوں کو قتل کر دیا جائے گا۔
مَن بَایَعَ رجلاً عَن غیرِ مشورةٍ من المسلمین فلا یبایع هو ولا الذی بایعه، تغرّة أن یقتلا
۔
اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ عمل خلاف شرع اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ کسی کے مہدورالدم ہونے کا سبب بھی ہے تو سقیفہ کے واقعہ میں اس حکم کا اجراء کیوں نہیں کیا گیا؟
۱۹ ۔ آپ کا کہنا ہے کہ حضرت علی ؑ، ابوبکر و عمر کو مانتے تھے حالانکہ عمر نے صحابہ کے اجتماع میں حضرت علی ؑ اور پیغمبرؐ اسلام کے چچا حضرت عباس سے مخاطب ہوکر کہا: تم دونوں مجھے اور ابوبکر کو جھوٹا، گناہ گار اور عیار سمجھتے ہو۔
(فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ (صلی الله علیه وسلم): قالَ أبوبكر: اَنا وَليُّ رسولِ الله، فَجِئۡتُما فَرَأَيتُماه كاذباً آثماً غادراً خائناً ثُم تُوُفِّيَ ابو بكر فقلتُ: أنا وليُّ رسول الله (صلی الله علیه وسلم) و وليُّ أبي بكر، فَرَأيتُمَانِي كاذباً آثماً غادراً خائنا
۔
اب بتائیے آپ صحیح ہیں یا حضرت عمر!؟
۲۰ ۔ اہل سنت کے خلیفہ دوئم نے چھ رکنی افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کر کہا: یہ اپنے درمیان سے ایک فرد کو منتخب کرلیں یعنی ان کے کہنے کے مطابق ان میں سے ہر شخص امت اسلامی کی رہبری اور پیغمبر اسلام (ﷺ) کی جانشینی کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ اگر ان میں سے کسی نے مخالفت کی تو اس کی گردن اڑا دینا۔
اب ذرا سوچئے کہ جو شخص خلافت و رہبری کی صلاحیت رکھتا ہے تو حضرت عمر اس کی گردن اڑانے کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟
۲۱ ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: جس نے فاطمہ ؑ کو اذیت پہنچائی اور غضبناک کیا تو اس نے مجھے غضبناک کیا:
(فاطمة بضعة مِنِّی فمن أغضبها أغضبنی
)
اور دوسرے مقام پر صحیح بخاری و مسلم میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ابوبکر پر غضبناک ہوئیں اور تا حیات ان سے کلام نہیں کیا۔
فَغَضَبَتۡ فاطمةُ بنتُ رسولِ الله (صلی الله علیه وسلم) فَهَجَرَتۡ أبا بکر فَلَم تزل ۡمهاجرتَه حتی تُوُفِّیَتۡ
۔
اور قرآن کہہ رہا ہے:
(
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
)
اس مشکل کے حل کے لیے آپ کیا کہتے ہیں؟
اہل سنت کے عظیم عالم دین جناب سہیلی (متوفی ۵۸۱) نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اہانت کرنے والا کافر ہے۔
اِستَدَلَّ بِه سُهَیلی علی أَنّ مَن سَبَهَا کَفَرَ لِأَنَّه یَغۡضِبُه و أَنَّها أَفضَلُ من الشیخین
۔
ابن حجر اِن کی توجیہ کرتے ہیں:
توجیهُه اِنها تَغۡضِبُ مِمَّن سَبَّها و قد سَوَّی بین غَضَبِها و غضبه و اغضبه (صلی الله علیه و سلم) یکفر
۔
کتاب فیض القدیر کے مصنف جناب مناوی نے ابو نعیم و دیلمی سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا:
فاطمه بضعةٌ مِنّی مَن آذاها فَقَد آذانی و مَن آذانی آذَی الله ، فعلیه لعنةُ الله ملأ السماء و ملأ الارض
۔
۲۲ ۔ مطالب فوق الذکر کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا آج تک آپ نے حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کے بارے میں سوچا جو انہوں نے حضرت زہرا ؑ کے خطبے کے بعد کی تھی اور بدترین الفاظ کے ذریعے حضرت علی ؑ و جناب صدیقہ طاہرہ ؑ کی شدید توہین کی تھی:
(انما هو ثعالة شهیده ذنبه، مرب لکل فتنة، هو الذی یقول: کرّوها جذعة بعد ما هرمت، یستعینون بالضعفه، و یستنصرون بالنساء، کأمّ طحال أحب أهلها البغی)
اس عبارت میں انہوں نے حضرت علی ؑ کو بھیڑیا اور جناب سیدہ ملیکۃ العرب کو اس کی دم سے تشبیہ دی ہے (لاحول ولا قوة الا بالله العلی العظیم)
کیا یہ ہی اجر رسالت(
قل لا اسئلکم علیه اجراً الّا المودّة فی القربی
)
تھا۔ کیا پیغمبرؐ اسلام کی جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں وصیت و سفارش کا یہ ہی نتیجہ تھا کیا ایسا شخص پیغمبرؐ اسلام(
انک لعلی خلق عظیم
)
کی خلافت و جانشینی کی اہلیت رکھتا ہے؟ (ایسے شخص کے بارے میں آپ کیا کہیں گے)؟!
ہماری آپ سے گذارش ہے کہ ابن ابی الحدید (سنی عالم) اور انکے استاد کے مابین ہونے والی گفتگو کو ملاحظہ فرمائیے اور خود کرسی عدالت پر بیٹھ کر فیصلہ کیجئے۔
۲۳ ۔ آپ کی معتبر کتب میں رسول اکرم (ﷺ) سے نقل کیا گیا ہے:
(من مات بغیر امام مات میتة جاهلیة
)
اور بخاری نے ابن عباسؓ کے حوالے سے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
لیس أحد یفارق الجماعة قید شبر فَیَمُوتُ اِلَّامَات میتةً جاهلیة
۔
اگر کوئی ذرا بھی جماعت سے جدا ہوجائے اور مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اور مسلم نے بھی اپنی صحیح میں ابوہریرہ کے توسط سے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے:
مَن خَرَجَ عَن الطاعةِ و فارَقَ الجماعةَ فَمَاتَ، ماتَ میتةً جاهلیة
۔
جو دائرہ اطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ دیا پھر مرگیا تو اسکی موت جہالت کی موت ہے۔
اب ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے جناب سیدہؑ کی تکلیف شرعی کیا ہوگی جب کہ انکے حق میں آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے اور فضیلت میں سینکڑوں احادیث و روایات پیغمبر گرامی (ﷺ) سے نقل ہوئی ہیں۔ مثلاً:
(فاطمة سیدة نساء هذه الأمة
) یا (سیدة نساء اهل الجنة
)
کیا روایات (مات میتة جاهلیة
) قابل اعتماد نہیں ؟ یا معاذ اللہ حضرت زہرا ؑ نے قول و سنت پیغمبر (ﷺ) پر عمل نہیں کیا یا حضرت ابوبکر کو جانشینی کا اہل ہی نہیں سمجھتی تھیں؟ غور کیجئے۔
۲۴ ۔ آپ کہتے ہیں کہ حضور اکرم (ﷺ) نے کسی کو خلیفہ معین نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ کام امت کے سپرد کردیا حالانکہ آپ کا یہ نظریہ کتاب و سنت کے برخلاف ہے۔ کیونکہ خداوند تبارک و تعالیٰ حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں فرماتا ہے: ہم تمہیں لوگوں کا امام و رہبر معین کر رہے ہیں۔(
انی جاعلک للناس اماماً
)
اور حضرت داؤد ؑکے بارے میں ارشاد فرمایا: ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ قرار دیا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کو۔
(
یا داؤد انا جعلناک خلیفة فی الأرض فاحکم بین الناس بالحق
)
حضرت موسیٰ ؑ نے خداوند منان سے گذارش کی ان کا جانشین معین کردے۔
(
و اجعل لی وزیراً من أهلی
)
خداوند قدوس بھی حضرت موسیٰ ؑ کی دعا کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے:
(
قال قد أوتیت سؤلک یا موسی
)
خداوند کریم بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ہم نے قوم بنی اسرائیل میں سے کچھ افراد کو امام و رہبر منتخب کیا ہے۔
(
و جعلنا منهم أئمة یهدون بأمرنا
)
پس ان تمام آیات میں خلیفہ و پیشوا کے انتخاب کی نسبت پروردگار کی طرف دی گئی ہے اسی طرح اہل سنت کے عظیم علماء مثلاً ابن ہشام و ابن کثیر و ابن حبان و دیگر نقل کرتے ہیں کہ حضور (ﷺ) جب مختلف قبائل عرب کو دعوت اسلام دے رہے تھے تو ان قبیلوں کی بعض بزرگ شخصیات مثلاً عامر بن صعصعہ نے حضور (ﷺ) سے کہا: اگر ہم آپؐ کی مدد کریں تو کیا آپ اپنی حکومت بنالینے کے بعد جانشینی ہمیں سپرد کر دیں گے۔
(أَیَکُونُ لَنَا الأمرُ مِن بعدِکَ؟)
حضور اکرم (ﷺ) نے جواب دیا: رہبر کا معین کرنا میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے دست اختیار میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔
(اَلأَمرُ اِلی اللهِ یَضَعَهُ حَیثُ یَشَاء
)
انہوں نے کہا ہم آپ کے اہداف پر قربان ہونے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ کامیابی کے بعد منصب ریاست و حکومت دوسروں کو منتقل ہوجائے۔
فقالوا: أ نهدف نحورنا للعرب دونک، فاذا ظهرت کان الأمر فی غیرنا؟ لا حاجة لنا فی هذا من أمرک
۔
اور یہ ہی واقعہ تقریباً قشیر بن کعب ربیع کے سلسلے میں بھی پیش آیا اس نے بھی حضور (ﷺ) سے کہا: اگر ہمیں حکومت و ریاست میں کچھ بھی حصہ نہ ملے تو ہم آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔
پیغمبر اسلام (ﷺ) نے اس وقت بھی جب کہ آپ کو شدید یاوری و مدد کی ضرورت تھی، جانشین و خلافت کے وعدہ پر قبائل سے مساعدت طلب نہیں کی۔ اور اسی طرح جب یمامہ کے بادشاہ "ہوذہ" کو اسلام کی دعوت دی گئی تو اس نے حضور کی خدمت میں ایک وفد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ اگر حکومت اسلامی میں اسے منصب سے نوازا جائے تو ایمان لانے اور مسلمانوں کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن پیغمبر گرامی (ﷺ) نے اس کی یہ بات قبول نہیں کی اور فرمایا: اگر ایک رہا شدہ زمین پر بھی حکومت چاہیئے تو بھی میں ہرگز ایسا نہ کروں گا۔
ناکثین و قاسطین کا حاکم اسلامی کے خلاف قیام
۲۵ ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں پیغمبر اسلامی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر رہبر اسلامی کا کوئی نازیبا عمل دیکھو تو صبر سے کام لو اور اسے برداشت کرو اس لیئے کہ مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی جدا ہونے والے کی موت جہالت کی موت ہے:
رَأَیَ مَن أَمیرَه شیأَ یُکرِهُه فَلۡیَصۡبِر عَلَیه فَاِنَّه مَن فارقَ الجمائَةَ شبراً فَماتَ، مَاتَ مِیتةً جاهلیةً
۔
مسند احمد ابن حنبل اور صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ایک بالشت کے برابر بھی لوگوں سے جدا ہونا اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہے۔
(مَن فارقَ الجماعةَ شبراً فقد خَلَعَ ربقةَ الاسلامِ مِن عنقه
)
طبرانی و ہیثمی نے پیغمبر گرامی (ﷺ) سے نقل کیا ہے: اگر کوئی شخص بندِ کمان برابر بھی جماعت سے جدا ہوجائے تو اس کی نماز و روزے قبول نہیں اور وہ جہنم کا ایندھن قرار پائے گا۔
فَمَن فارقَ الجمائةَ قَیدَ قوسٍ لَم تُقۡبَلۡ مِنه صلاةٌ ولا صیامٌ وَ اُولئِکَ هم وقودُ النار
۔
ان روایات کی روشنی میں ہمارا سوال یہ ہی ہے کہ: حضرت عثمان کے قتل کے بعد جب حضرت علی ؑ قانونی و رسمی طور پر حاکم اسلامی قرار پائے تو ان کے خلاف قیام کرنے والوں کی شرعی تکلیف کیا ہے؟ حضرت عائشہ، طلحہ و زبیر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو اسلامی جماعت سے جدا ہوگئے اور ان حالات کا سبب قرار پائے اور ہزاروں مسلمانوں کی نابودی کا باعث بنے۔
اگر آپ کہیں کہ ان کا یہ عمل جو ہزاروں افراد کے قتل کا سبب بنا خطائے اجتہادی تھی تو پھر اتنا ہی کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہے تو دنیا میں کوئی بھی خطا کار پیدا نہیں ہوسکتا اس لیئے کہ ہر شخص اپنے غلط اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے یقینی طور پر دلیل بھی رکھتا ہے اور اسکی توجیہات بھی پیش کرتا ہے۔
سوچئے اور بتائیے کہ معاویہ کی شرعی تکلیف کیا ہوگی جس نے برحق حاکم اسلامی کے خلاف قیام کیا اور مسلمانوں کے درمیان ایسا فتنہ ایجاد کیا کہ پندرہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کے آثار نمایاں ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حاکم نیشاپوری، طبرانی اور سیوطی نے معاویہ کے توسط سے پیغمبرؐ اسلام سے نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کی جماعت سے بالشت برابر بھی جدا ہوا وہ جہنم میں جائیگا۔
(من فارق الجماعة شبراً دَخَلَ النار
)
اگر آپ کہیں: کیونکہ اہل شام نے معاویہ کی بیعت کی تھی اس لیئے کہ وہ بھی خلیفہ تھے تو ہم کہیں گے کہ پیغمبرؐ اسلام سے صحیح مسلم کی روایت کے مطابق منقول ہے کہ اگر دو افراد کی خلیفہ کے طور پر بیعت منعقد ہو تو لوگوں کا فریضہ ہے کہ وہ پہلے والی بیعت کو تسلیم کریں اور بعد والے کو قتل کردیں۔
اِذا بُویِعَ لِخَلِیفَتَینِ فَاقۡتُلُوا الأَخَرَ مِنهُما
۔
متواتر روایات کے مطابق کیا پیغمبر اکرم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا: عمار یاسر کو ستمگار و متجاوز اور باغی گروہ قتل کرے گا۔
تَقۡتُلُه الفئةُ الباغیةُ یَدعُوهُم الی اللهِ و یَدعُونَه اِلی النَار
اور کیا یہ نہیں فرمایا تھا؟! قاتل عمارؓ واصل جہنم ہے۔
(اِنَّ عَمارَ قَاتلُه و سَالِبُه فیِ النار
)
یہ روایت اتنی محکم و ناقابل انکار تھی کہ جناب عمار کی شہادت کے بعد معاویہ کے بعض چاہنے والے مثلاً عمرو بن عاص بھی معاویہ کی حقانیت میں شک و تردید میں پڑگئے اور جنگ سے کنارہ کش ہونے لگے اور عمرو عاص کی پیروی میں اور دوسرے بہت سے افراد بھی کنارہ کش ہوگئے۔
اِنَّ عمرو بن العاص کان وزیر معویة فلما قتل عمار بن یاسر أَمۡسَک عن القتال و تابعه علی ذالک خلق کثیر فقال له معویة لِم لا تقاتل؟ قال قتلنا هذا الرجل و قد سمعت رسول الله صلی الله علیه و سلم یقول تقتله الفئة الباغیة، فدل علی أنّا نحن بغاة
۔
جب معاویہ نے بگڑتی ہوئی اس صورت حال کو دیکھا تو عمرو بن عاص سے کہا چپ رہو تم ہمیشہ اپنی نجاست میں ڈوبے رہے، عمارؓ کو ہم نے قتل کیا ہے؟ عمار کو علی ؑ اور انکے ساتھیوں نے قتل کیا ہے اس لیئے کہ وہ ہی انہیں گھر سے نکال کر میدان میں ہمارے تیرو تلوار کے سامنے لے کر آئے تھے۔
فقال معویة: دَخۡضَتَ فِی بَولِکَ، أَوَ نحن قَتَلۡنَاه؟ اِنَّما قتلهُ علی و اصحابه جائوا به بین رماحنا او قال بین سیوفنا
۔
حضرت امیر المومنین ؑ نے معاویہ کی یہ بے بنیاد بات سن کر فرمایا: تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جناب حمزہؓ شہدائے احد کو پیغمبر اسلام (ﷺ) نے قتل کیا (معاذ اللہ) اس لیے کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) ہی انہیں گھروں سے نکال کر لائے تھے۔
لَو کنتُ أَنا قتلت عماراً لِأَنِّی أَخۡرجَتُه لکان رسولُ الله قَتَلَ حمزه و جمیعَ مَن قتل فِی حَربِه لِأَنّه هُو المُخرِجُ لَهُم
۔
عدالت جمیع صحابہ
آپ کا یہ کہنا ہے کہ: تمام صحابہ عادل و اہل بہشت ہیں۔
اور ان کے بارے میں نقد و بررسی کی راہ مکمل طور پر مسدود اور ممنوع ہے۔
اور اگر کوئی شخص ان کے کسی عمل پر نکتہ چینی کرے گا توہ زندیق اور اسلام سے خارج ہے۔
قال ابو زرعه: اذا رأیت الرجل یَنۡتَقِص أحداً مِن اَصحابِ رسولِ الله صلی الله علیه و سلم، فاعلم أنه زندیق
۔
کیونکہ آپ کے عقیدے کے مطابق صحابہ کتاب و سنت کو نقل کرنے والے ہیں لہذا انکی ذات پر کسی بھی طرح کی نکتہ چینی درحقیقت کتاب و سنت پر انگشت نمائی کرنا ہے۔
حتی کہ آپ کے بعض فقہاء نے تو یہ بھی فتوا دیا ہے کہ صحابہ پر نکتہ چینی کرنے والا ملحد اور اسلام کا مخالف اور اس کا علاج صرف اور صرف تلوار ہے۔
قال السَرخَسِی: مَن طَعَنَ فیهم فَهُو مُلۡحِدٌ، مُنابِذٌ لِلاسلام، دواؤه السیف، ان لم یتب
۔
آپ کی جانب سے شیعوں پر ہونے والے اشکالات میں سے ایک اہم ترین اشکال یہ بھی ہے کہ شیعہ، صحابہ کی سیرت پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کے اعمال کو قرآن اور سنت کے خلاف سمجھتے ہیں اور آپ حضرات نے اس بات کو شیعوں کے فسق اور کفر کی بنیاد قرار دیا ہے۔ برادران اہل سنت کے آزاد خیال حضرات کی خدمت میں چند سوالات پیش کر رہے ہیں اور اس بات کے خواہاں ہیں کہ غور و فکر اور تدبّر سے کام لیتے ہوئے دیکھیں کہ یہ طرز تفکر کس حد تک کتاب اور پیغمبر اسلام کی سیرت و سنت کے مطابق ہے؟
۲۶ ۔ یہ عدالت و عصمت فقط بعض صحابہ پیغمبر ﷺ سے مخصوص تھی یا دیگر انبیاء کے اصحاب کو بھی یہ فضیلت حاصل تھی؟
۲۷ ۔ کیا آپ کے اس دعویٰ کیلئے کوئی قرآنی و روایتی دلیل بھی ہے یا فقط یہ بعض تندرو اور افراطی علماء کا نظریہ ہے؟
صحابہ میں وسعت نفاق
۲۸ ۔ قرآن نے متعدد آیات میں منافقین کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی ہے حتی کہ ان کے بارے میں ایک مستقل سورہ نازل ہوا ہے جس میں منافقین کے لیے جہنم میں بدترین ٹھکانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
(اِنَّ المنافقین فی الدَّرکِ الأَسفل من النار
)
اور اہل سنت کے مطابق ایک تہائی قرآن منافقین کی مذمت اور ان کی خیانت کے بارے میں نازل ہوا ہے۔
کیا منافقین کا یہ گروہ مستقل اور شناختہ شدہ تھا اور پیغمبرؐ اسلام کے اصحاب میں اس کا شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ کا جواب کچھ بھی ہو لیکن آیات قرآنی تو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ منافقین پیغمبر اسلام (ﷺ) کے زمانے میں ایک قدرتمند گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، اسلامی معاشرے کے لیے ایک بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے اور ان کی تمام فعالیت اتنی منظم اور صیغہ راز میں تھی کہ حاکم اسلامی کی نظروں سے بھی پوشیدہ تھیں۔
(
و ممن حولکم من الأعراب منٰفقون و من أهل المدینة مَرَدُوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم
)
؛ اور تمہارے گرد دیہاتوں میں بھی منافق ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں، تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں۔
۲۹ ۔ کیا یہ تمام منافقین رحلت پیغمبر اکرم (ﷺ) کے بعد ایک ہی مقام پر مر کر ختم ہوگئے اور ان کی نسل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں ناپید ہوگئی یا لوگوں کے درمیان موجود تھے؟ پس اگرمنافقین مسلمانوں میں اس طرح مخلوط تھے کہ رسول اکرم (ﷺ) بھی انہیں پہچانتے تھے تو کس طرح تمام صحابہ کی عدالت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
۳۰ ۔ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
(فی اصحابی اثنا عشر منافقاً
)
میرے اصحاب میں بارہ افراد منافق ہیں جو سازشیں کرتے ہیں سوچئیے ایسی صورت حال میں کس طرح تمام صحابہ کی عدالت کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟
خلیفہ دوم کو نفاق سے آلودہ ہونے کا خوف
منافقین اتنے منظم اور مضبوط اور پھیلے ہوئے تھے اور صحابہ میں نفاق اس طرح رسوخ کر چکا تھا کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) کے اصحاب میں سے ہر ایک اس طرح وحشت زدہ تھا کہ کہیں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوکر ان کی خائنانہ پالیسی اور سازشوں کا بھانڈا نہ پھوڑ دے اور انہیں لوگوں میں ذلیل و رسوا کردے جیسا کہ (اہل سنت کے) خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ کہتے ہیں جب منافقین کے چہرے سے نقاب اتارنے کے لیے سورہ برائت نازل ہوئی تو ہمیں یہ خیال ہوا ممکن ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے کوئی آیت نازل ہو اور ہمارے افعال کو برملا کردے۔
ما فرغ من تنزیل برأة حتی ظننا أن لن یبقی منّا أحد الا ینزل فیه شئی
۔
ایک دوسری روایت میں ان سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ سورہ کا نام سورہ توبہ کی بجائے سورہ عذاب رکھا جائے کیونکہ اس سورہ میں اس طرح لوگوں کو رسوا کیا گیا ہے کہ نزدیک تھا کہ کوئی شخص صحیح و سالم نہ رہے۔
أن عمر – رضی الله عنه – قیل: له سورة التوبة، قال: هی الی العذاب أقرب! ما أقلعت عن الناس حتی ما کادت تدع منهم أحداً
۔
گذشتہ مطالب کی روشنی میں کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام صحابہ عادل تھے اور ان پر بہشت واجب ہے؟ کیا یہ عقیدہ "تمام صحابہ کی عدالت کا نظریہ" قرآن اور خلیفہ دوئم کے نظریے کے برخلاف نہیں؟
۳۱ ۔ اہل سنت کے عظیم عالم دین ابن کثیر کہتے ہیں: اصحاب پیغمبرؐ میں سے جب کسی کا انتقال ہوجاتا تو جب تک حذیفہ (منافق شناس) اس کے بارے میں نفاق سے پاکیزگی کی گواہی نہ دے دیں عمر بن خطاب اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔
ان عمر بن الخطاب کان اذا مات رجل ممن یری أنه منهم، نظر الی حذیفه فان صلی علیه و اِلا ترکه
۔
آپ ہی کہتے ہیں کہ صحابہ کے اعمال پر تنقید کفر کے مساوی ہے اور وہ شخص زندیق ہے اب بتائیے حضرت عمر کے اس رویے کی آپ کیا توجیہ پیش کریں گے؟
۳۲ ۔ سچ بتائیے کبھی آپ نے خود اپنے تئیں سوچا ہے کہ آخر حضرت عمر، حذیفہ (منافق شناس) کو قسم دے کر کیوں پوچھ رہے تھے کہ سازشیوں میں میرا بھی نام ہے یا نہیں؟
قال ابن کثیر: و روینا عن أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی الله عنه، ان قال لحذیفة: أقسمت علیک بالله، أنا منهم ؟
۳۳ ۔ حضورؐ سرور کائنات کے دیگر اصحاب کرام مثلاً سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد وغیرہ حضرت عمر کی طرح حذیفہ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے تھے کیا حضرت عمر کو اپنے بارے میں شک تھا؟
۳۴ ۔ کیا آپ خود نہیں کہتے کہ حضرت عمر عشرہ مبشرہ یعنی ان افراد میں سے تھے جنہیں حضور اکرم (ﷺ) نے یقینی جنت کی بشارت دی ہے؟ کیا حضرت عمر کا حذیفہ سے اپنے نفاق کے بارے میں سوال کرنا قول پیغمبرؐ میں شک و تردید نہیں یا اس حدیث عشرہ مبشرہ کو جعلی سمجھتے تھے؟
منافقین کی جانب سے پیغمبر ؐکے قتل کی سازش
۳۵ ۔ جنگ تبوک سے واپسی کے موقع پر جو لوگ پیغمبر (ﷺ) کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتے تھے وہ کون تھے؟ اس بدترین سازشوں میں یہودیوں کا ہاتھ تھا یا نہیں یا وہ افراد تھے جو حضور (ﷺ) کے صحابی بنے ہوئے تھے۔
اگر خداوند متعال منافقین کی اس گھناؤنی سازش سے اپنے حبیبؐ کی محافظت نہ کرتا تو سوچیئے کہ اسلامی معاشرہ کس جنجال کا شکار ہوجاتا؟
۳۶ ۔ آخر پیغمبر اکرمؐ کے پاکیزہ قلب کو غمگین کرنے والے منافقین حضور کی رحلت کے بعد کہاں چلے گئے کہ تاریخ سے انکا نام تک غائب ہوگیا۔ معاذ اللہ، کیا حضور (ﷺ) کا وجود مبارک ان کے نفاق کا باعث تھا کہ ان کے ملا اعلیٰ پر جاتے ہی سب کے سب بہترین و پاکیزہ انسانوں میں تبدیل ہوگئے کہ ان پر کسی بھی طرح کی تنقید اور نقد و جرح ناقابل تلافی گناہ کا سبب بن جائے؟ کیا خلفاء راشدین نے تبلیغ و پیگیری کے ذریعے ان کی اصلاح فرمائی اور ایمان آفرین اکسیر کے ذریعے ان کے نفاق کو ایمان سے تبدیل کردیا پیغمبر گرامیؐ کے انتقال کے بعد علنی نفاق، سری نفاق میں تبدیل ہوگیا اور ایک دوسرے کے اعتراض کرنے پر اپنے اعمال کی توجیہ پیش کرنے لگے۔
(نستعین بقوة المنافق، و اِثۡمُهُ علیه
)
ہم تو منافقین کی قوت سے استفادہ کرتے ہیں اور وہ اپنے گناہ کے خود ذمہ دار ہیں!
غور کیجئے آخر کیا بات ہے تھی کہ تمام صحابہ میں صرف حضرت عمر، حذیفہ کو قسم دے کر پوچھ رہے تھے کہ پیغمبرؐ کے قتل کی سازش کرنے والے منافقین میں ان کا نام ہے یا نہیں!
و ذکر لنا أن عمر قال لحذیفة أنشدک الله أمنهم أنا؟ قال لا، ولا أومن منها أحداً بعدک
۔
پیغمبر اکرمؐ کے خلاف نافرجام دہشت گردی کا منصوبہ
اہم ترین سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن حزم اندلسی اپنی فقہی کتاب "اَلمُحَلّٰی" میں روایت نقل کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ﷺ) کے خلاف قتل کا منصوبہ تیار کرنے والے افراد میں حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور طلحہ کا نام بھی موجود ہے۔
اِنَّ أبا بکر عمر و عثمان و طلحة و سعد بن ابی وقاص أرادوا قتل النبی صلی الله علیه و سلم و القائه من العقبة فی تبوک
۔
اس روایت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ اگرچہ ابن حزم نے سلسلہ روایت میں ولید بن جمیع کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
لیکن اہل سنت کی کتب رجال کی طرف رجوع کرنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ اکثر علم رجال کے ماہرین نے اس کی توثیق کی ہے۔
اور بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، صحیح ترمذی اور سنن نسائی کے رجال میں بھی یہ راوی موجود ہے۔
کیا منافقین کے وجود سے استفادہ صحیح و مشروع ہے؟!
۳۷ ۔ کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ منافقین، کفار و مشرکین سے بھی زیادہ خطرناک تھے اور متعدد آیات میں منافقین اور انکی اسلام و مسلمین کے بارے میں سازشوں کی طرف اشارہ موجود ہے یہاں تک کہ ان کے بارے میں مستقل طور پر ایک مکمل سورہ نازل ہوا ہے اور مصر کے عظیم دانشمند اور اہل قلم جناب ابراہیم علی سالم کے قول کے مطابق تقریباً دس سپارے یعنی ایک تہائی قرآن منافقین کے بارے میں ہے۔
قرآن انہیں اسلام کے لیئے سد راہ سمجھتا ہے۔
(
رأیتَ المنافقینَ یَصُدُّون عنک صُدُوداً
)
؛ تم منافقین کو دیکھو گے کہ وہ شدّت سے انکار کر دیتے ہیں۔
ان سے کسی بھی قسم کی دلسوزی کو منع کیا ہے اور انہیں ہدایت کے قابل نہیں سمجھتا ہے۔
(
فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا أَتُرِيدُونَ أَنْ تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلا
)
اور خدا نے انہیں جہنم میں کفار کے ہم ردیف اور موردِ لعن قرار دیا ہے۔
(
وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ
)
بلکہ ان کا ٹھکانہ پست ترین جگہ کو قرار دیا ہے
(
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأسْفَلِ مِنَ النَّارِ
)
جب قرآن مجید نے یہ تمام صورت حال بیان کردی تھی تو پھر خلیفہ دوئم نے اپنی حکومت میں ان سے کیوں استفادہ کیا اور انہیں منصب عطا کیئے؟ اور کہتے تھے کہ ہم تو منافقین کی قوت سے استفادہ کر رہے ہیں اور وہ اپنے گناہ کے خود ذمہ دار ہیں۔
(نَسۡتَعِینُ بِقُوةِ المُنَافِقِ وَ اِثۡمُهُ عَلَیه
)
ان کے اس عمل پر ایک صحابی (حذیفہ) نے جب اعتراض کیا تو کہنے لگے: میں صرف ان کی قوت سے استفادہ کر رہا ہوں مگر ان پر ناظر بھی ہوں۔
اِنِّی لَأَسۡتَعۡمِلُه لَأَسۡتَعِینُ بِقُوَّتِهِ ثُمَّ أَکُونُ عَلیٰ قفائه
۔
حالانکہ حضرت عمر بن خطاب سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ کہتے ہیں: اگر کسی نے کسی فاسق کو کسی کام کے لیے منتخب کیا تو وہ خود بھی فاسق شمار کیا جائے گا۔
من استعمل فاجراً وهو یعلم أنه فاجر فهو مثله
۔
حضرت عمر کے قول و فعل میں کس قدر اختلاف ہے!
(
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ
)
۳۸ ۔ شاید کوئی کہے کہ پیغمبر اکرم (ﷺ) کے زمانے کی نسبت حضرت عمر کے دور میں منافق کمزور اور بے خطر ہوگئے تھے۔
لیکن حذیفہ سے نقل شدہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضور کے زمانے کی نسبت آپ کی رحلت کے بعد منافقین کی شرارتیں زیادہ خطرناک تھیں۔
ان المنافقین الیوم شر منهم علی عهد النبی صلی الله علیه وسلم کانو یومئذٍ یسرون، و الیوم یجهرون
بلکہ پیغمبرؐ گرامی کے بعد انکا نفاق کفر میں تبدیل ہوگیا تھا۔
عن حذیفة، ان قال: انما کان النفاق علی عهد النبی صلی الله علیه وسلم فأما الیوم فانما هو الکفر بعد الایمان
۔
بادیہ نشین عربوں کی خدمت و خیر خواہی کے لیے حضرت عمر کی وصیت
۳۹ ۔ قرآن، اعرب (بادیہ نشینوں) کے بارے میں فرماتا ہے:
(اَلأَعرَاب أشد کفراً و نفاقاً
)
بادیہ نشین عربوں میں کفر اور نفاق دوسروں کی نسبت بہت زیادہ سخت ہے۔
و ان کفر هم و نفاقهم اعظم من غیر هم و أشد
۔
لیکن اعراب کی ان تمام صفات کے باوجود خلیفہ دوئم بوقت موت یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اس لیے کہ یہ ہی عربوں کی اصل اور سرچشمہ اسلام ہیں۔
و أوصیه بالأعراب خیر اَفانهم أصل العرب و مادة الاسلام
۔
اب فیصلہ کرکے بتائیے کہ کیا حضرت کا یہ قول قرآن کی صریح آیہ کریمہ کے مخالف نہیں؟
۴۰ ۔ اگر آپ سے کوئی سوال کرے : شاید حضرت عمر کی یہ وصیت اس لیئے تھی کہ مدینہ کے بادیہ نشین اعراب حضرت ابوبکر کی خلافت کی تثبیت میں کام آئے تھے، تو آپ کیا جواوب دیں گے؟
کیونکہ جب حضرت عمر کو سقیفہ میں موجود مہاجرین و انصار کی سخت مخالفت
اور درگیر کا سامنا کرنا پڑا تو پہلے سے منصوبہ بندی کرکے وارد ہونے والے عرب بادیہ نشینوں کو دیکھ کر خوشحال ہوگئے اور جھوم کر کہنے لگے: جب میں نے قبیلہ بن اسلم (اطراف مدینہ میں بسنے والا ایک بڑا قبیلہ) کو دیکھا تو میں نے اپنی کامیابی و کامرانی کا یقین کرلیا۔
ما هواء الّا أن رأیت أسلم، فأیقنت بالنصر
۔
اور حضرت ابوبکر کی خلافت کو مستحکم کرنے اور مخالفین کو دبانے کے لیے ان سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔
و السلام علی ٰ من اتبع الهدیٰ