وفاتِ حضرت فاطمة الزہرا
جنابِ سیدہ ، جن کے بارے میں جنابِ رسولِ خدا نے بار بار ارشاد فرمایا:
"فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اُسے غضبناک کیا، اُس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا، اُس نے خدا کو غضبناک کیا"۔
وہ فاطمہ جس کی تعظیم کیلئے جنابِ رسالت مآب کھڑے ہوجاتے تھے اور اُن کو اُس جگہ پر بٹھاتے تھے جہاں خود تشریف فرماہوتے تھے۔ وہی فاطمہ تھیں اور باپ کے اس عالمِ ظاہر سے رخصت ہونے کے تھوڑے دنوں بعد والد کی قبر پر فریاد کررہی تھیں:
"بابا! میں اب وہ فاطمہ نہیں رہی۔ بابا آپ کے بعد مجھ پر وہ مصائب پڑے جو اگر دنوں پر پڑتے تو وہ تاریک راتوں میں بدل جاتے"۔
زمانے نے کچھ ایسا سلوک کیاکہ سیدہ باپ کی یاد اور چند لوگوں کے طرزِ عمل کی وجہ سے ہمہ وقت گریاں رہتی تھیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جنابِ فاطمہ زہرا کے گھر پہنچ کر اُنہیں باپ کا پُرسہ دیا جاتا، کچھ تسلی دی جاتی۔ میں کیا عرض کروں، اُلٹا یہ ہوا کہ لوگوں نے جنابِ امیر کے پاس آکر یوں کہنا شروع کیا کہ یا علی ! سیدہ سے کہیں کہ اپنے رونے کا کوئی وقت مقرر کرلیں، اُن کے رونے کی آواز سے ہمارا راتوں کاآرام اور دن کا چین ختم ہوگیا ہے۔
آخر کار ہوا یہ کہ جنابِ امیر نے جنت البقیع میں ایک چھوٹا سا شامیانہ نصب کردیا جسے "بیت الحزن" کہا جانے لگا۔ جنابِ سیدہ صبح کی نماز کے بعد حسنین شریفین کو ساتھ لیتیں اور بیت الحزن تشریف لے جاتیں، وہیں سارا دن عبادتِ خدا بھی کرتیں اور باپ کو یاد کرکے رویا بھی
کرتی تھیں۔ایک روز جنابِ امیر نے دیکھا کہ جنابِ سیدہ نے آٹا گوندھ رکھا ہے، بچوں کو نہلا کر
کپڑے پہنادئیے ہیں اور گھر کے دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ جنابِ امیر نے پوچھا:
"اے رسولِ خدا کی دختر! کیا وجہ ہے کہ آج آپ بڑی دلچسپی سے دنیاوی کاموں میں منہمک ہیں؟"
فرماتی ہیں:"یا ابا الحسن !آج میں اپنے رب سے ملاقات کرنے والی ہوں، چونکہ آپ میری تجہیز و تکفین میں مشغول ہوجائیں گے، میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ میرے بچوں کا کسی کو خیال نہ رہے، لہٰذا میں نے بچوں کے کپڑے تبدیل کردئیے ہیں اور کھانا بھی تیار کردیا ہے"۔
کچھ دیر کے بعد جنابِ سیدہ اپنے حجرئہ عبادت میں تشریف لے گئیں۔ اُمِ ایمن سے فرمایا کہ کچھ دیر کے بعد مجھے آواز دینا، اگر جواب نہ آئے تو سمجھنا کہ میں اپنے رب کے پاس پہنچ چکی ہوں۔ مختصر یہ کہ جنابِ سیدہ کا انتقال ہوا۔ جنابِ امیر آئے، سیدہ کو وصیت کے مطابق غسل دیا، کفن پہنایا، روتے ہوئے کہا:
"یا رسول اللہ!مجھے افسوس ہے، آپ کی امانت جس طرح میرے پاس آئی تھی، میں اُسی حالت میں نہیں لوٹا رہا۔پہلو زخمی ہے، کیا کروں؟ آپ کی ہدایت ہے کہ صبر کے ساتھ سب کچھ برداشت کروں"۔
جب میت تیار ہوئی، جنابِ امیر نے بچوں کو آواز دی کہ آؤ بچو! ماں کا آخری دیدار کرلو۔ امام حسن آئے، کچھ دیر ماں کو دیکھ کر روتے رہے۔ امام حسین کہنے لگے:
"اماں! میں حسین ہوں، مجھ سے باتیں کرو۔ میرا دل پھٹ جائے گا، مجھے پیار کرو"۔
عزادارانِ حسین !جنابِ سیدہ کے ہاتھ نمودار ہوئے، حسین کوسیدہ نے سینے سے لگا لیا۔ ہاتف غیبی کی آواز آئی: یا علی ! حسین کو الگ کرلیں ورنہ قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ امیر المومنین نے امام حسین کوماں سے جدا کیا۔ جنابِ زینب و اُمِ کلثوم نے بھی ماں کو الوداع کہا اور پھر رسول کی پیاری خدا کی کنیز خاص، خاتونِ جنت کا جنازہ شب کی تاریکی میں اُٹھا۔گنتی کے چند دوست ہمراہ تھے اور پھر زمانہ کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں، پُر آشوب دور کا تصورکریں، جنابِ امیر کو سیدہ کی قبر چھپانی پڑ گئی۔ ایک نہیں بلکہ کئی قبروں کے نشان بنائے گئے تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ سیدہ کی قبر کونسی ہے؟
شہادتِ مسلم بن عقیل
حضرت امام علیہ السلام دربارِ ولید کی طرف روانہ ہونے لگے تو بنی ہاشم کے جوانوں نے کہا کہ آقا! ہم آپ کو اکیلا تو نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ جنابِ عباس ، جنابِ علی اکبر ، جنابِ قاسم اور بنی ہاشم کے جوان امام علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے۔ جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو! مجھے تنہا بلایا ہے۔ تم میرے ساتھ اندر نہ آؤ۔ اگر میری آواز بلند ہو تو تم آجانا۔ چنانچہ یہ سب کھڑے ہوگئے۔امام حسین علیہ السلام اندر تشریف لے گئے۔ ولید کے ساتھ مروان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حاکمِ مدینہ نے وہ خط آپ کو دکھایا جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یزید کا باپ مر گیا ہے اور یزیدکا یہ حکم ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ بھئی دیکھو! اس قسم کی چیزیں پوشیدہ نہیں ہونی چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہو، اعلانیہ ہونا چاہئے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ کس کی کیا رائے ہے۔ اُس نے کہا کہ بات تو آپ معقول فرمارہے ہیں۔ اچھا تو آپ جاسکتے ہیں۔ امام حسین اُٹھنے لگے تو مروان نے یہ کہا:دیکھوولید! حسین اگر اس وقت چلے گئے تو پھر تیرے ہاتھ کبھی نہ آئیں گے۔ ابھی ان کو گرفتار کرلے یا قتل کروادے۔ امام حسین علیہ السلام نے جب یہ بات اُس کی زبان سے سنی تو ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
"ایسی عورت کے بیٹے جو اپنے وقت میں نیک نام نہ تھی، تیری مجال ہے کہ تو مجھے گرفتار کرسکے یا قتل کردے؟ "
اِس فقرے میں آواز بلند ہوگئی اور باہر جوجوان کھڑے تھے، اُن کے کانوں تک پہنچ گئی اور ایک مرتبہ بنی ہاشم اندر داخل ہوگئے۔ سب سے آگے عباس علیہ السلام تھے۔ عجیب انداز ہے ، تیوریاں چڑھی ہوئیں، آپ نے آتے ہی کہا: مولا ! بات کیا ہوئی؟ آپ نے فرمایا:عباس ! کچھ نہیں، چلو میں بھی چل رہا ہوں۔ کس کی مجال تھی کہ جو زبان سے کوئی لفظ بھی کہہ سکے۔
خیر! امام علیہ السلام نے تیاریاں کیں۔ اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور ان کو جانے کیلئے تیار ہونے کا حکم دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے جانے کی تیاری مکمل کرلی۔ آخر میں ابن عباس پھر آئے۔ چونکہ یہ مخلص تھے، اس لئے پھر کہنے لگے:فرزند رسول! آپ کیوں جارہے ہیں؟ اُدھر نہ جائیے۔ مدینہ چلے جائیے۔ کوفے کے لوگ تو کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے۔ امام فرماتے ہیں:بھائی ابن عباس!میں جہاں بھی چلا جاؤں، دشمن میرے ساتھ جائیں گے۔ حتیٰ کہ اگر سوراخِ نمل میں بھی چلا جاؤں تو وہاں بھی میرے دشمن مجھے قتل کرنے کیلئے پہنچ جائیں گے اور اگر مدینے جاؤں تو میرے نانا کے حرم کی بے حرمتی نہ ہوجائے۔ اس لئے کوفے کی طرف جارہا ہوں اور تم مجھ سے اس کے بعد کچھ نہ کہو۔
انہوں نے پھر اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے صرف اتنا کہا:اچھا کل صبح تک تو دیکھو کیا ہوتا ہے۔ صبح ہوئی، ابن عباس نے غلام کو بھیجا، وہ واپس آگیا۔ اُس نے اپنے آقا سے آن کر کہا کہ امام حسین تو بالکل تیار کھڑے ہیں۔ شہزادیاں ہودجوں میں بیٹھ چکی ہیں۔ آپ کے اصحاب گھوڑوں کی باگیں پکڑے ہوئے صرف حکم کے منتظر ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ ابن عباس دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے آکر کہا:فرزند رسول! کیا ارادہ کر ہی لیا؟ آپ نے فرمایا: ہاں بھئی! اب کچھ نہ کہو۔ رات نانا آئے تھے اور مجھ سے فرما رہے تھے:حسین ! تیری قبر کی جگہ تیرا انتظار کررہی ہے۔ ابن عباس وہاں کھڑے ہیں، جہاں ایک اونٹ ہے جس کے ہودج میں جنابِ فاطمہ زہرا کی بڑی بیٹی جنابِ زینب بیٹھی ہوئی ہیں۔
اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ اچھا آپ جائیے۔ لیکن ان بیبیوں، اِن پردہ داروں کو تو نہ لے جائیے۔ جنابِ زینب کے کان میں جب یہ آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا: بھائی ابن عباس! یہ کیابات کہہ رہے ہو؟ کیا میں رُک سکتی ہوں۔ میں اپنے مظلوم بھائی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔ چنانچہ یہ قافلہ روانہ ہوگیا۔
حضرت مسلم بن عقیل کو آپ نے پہلے سے ہی کوفہ کی طرف روانہ کردیا ہوا تھا اور وہاں جنابِ مسلم نو( ۹) ذی الحجہ کو شہید ہوگئے۔ دو بچوں کو ساتھ لے گئے تھے۔ پتہ نہیں کہ وہ کہاں کہاں رہے۔ آخر میں وہ بھی گرفتار ہوگئے۔ قید خانے میں ڈال دئیے گئے۔ چھوٹے بچوں کی عمریں نو( ۹) اور دس سال کی تھیں۔ جنابِ مسلم اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جب امام حسین نے فرمایا: مسلم تم چلے جاؤ میری طرف سے نائب ہوکر کوفے اور وہاں کے حالات سے مجھ کو مطلع کرو۔ تو عرض کرتے ہیں: میں گھر ہو آؤں؟ فرمایا: ہاں، اجازت ہے۔ وہاں سے جو نکلے تو اِن دو بچوں کو لائے اور عرض کرتے ہیں: آقا! یہ میرے ساتھ بڑے مانوس ہیں، اگر اجازت ہو تو ان کو بھی لیتا جاؤں؟
امام حسین علیہ السلام نے بچوں کی شکلیں دیکھیں تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ فرماتے ہیں:ہاں بھائی مسلم ! ان کو بھی لیتے جاؤ کیونکہ ان کیلئے بھی جگہ معین ہوچکی ہیں۔جنابِ مسلم وہاں شہید ہوگئے۔ بعد میں یہ بچے بھی دریا کے کنارے شہید کردئیے گئے۔
امام حسین علیہ السلام کوفے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک منزل پر نمازِ صبح باجماعت ادا ہوئی۔ نماز کے بعد آپ کی حالت یہ ہے کہ سر جھکائے بیٹھے ہیں، کسی سے بات نہیں کررہے۔ اصحاب پریشان ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ آج کیوں پریشان ہیں؟ ایک مرتبہ آپ نے خود ہی سر اُٹھایا اور کہا بھائیو! ذرا کوفے کے راستے کی طرف دیکھتے رہو۔ اگر وہاں سے کوئی آنے والا نظر آئے تو میرے پاس لے آؤ۔ چند منٹ کے بعد ایک شخص نے کہا:آقا! مجھے ایک شخص دور سے نظر آرہا ہے کہ اس طرف آرہا ہے اور یہی کوفے کا راستہ ہے۔ آپ نے کہا کہ ہاں، اس شخص کو ذرا میرے پاس لے آؤ۔ آنے والے شخص نے دور سے جب قافلے کو اُترتے ہوئے دیکھا اور ایک شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا تو راستہ کاٹنا چاہا۔ اتنے میں یہ گھوڑے کو دوڑا کر وہاں پہنچ گیا اور قریب پہنچ کر کہا: بھائی! تم ڈرو نہیں۔ وہ رُک گیا اور کہا کہ کیابات ہے؟ اُس نے کہا:ہمارا سردار تمہیں بلا رہا ہے۔ اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ذرا ہمارے سردار کے پاس چلو۔
اُس نے کہا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ امیرالمومنین کے فرزند، نواسہ رسول، حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ جو سنا تو وہ مطمئن ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں چلنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ دونوں روانہ ہوئے۔ وہ آ کر امام علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ نے سر اُٹھایا، فرماتے ہیں: بھائی کدھر سے آرہے ہو؟ اُس نے کہا : مولا ! میں کوفے سے آرہا ہوں۔ یہ جو سنا تو اُس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اُس نے کہا:مولا ! ذرا اُٹھ کر الگ ہوں تو میں کچھ بیان کروں۔ آپ نے فرمایا: بھائی! گھبراؤ نہیں، یہ سب میرے اپنے ہیں۔ اُس نے ایک مرتبہ اپنے سر سے عمامہ اُتار کر زمین پر پھینکا اور کہا:آقا!میرے مولا حسین ! میں کوفے سے جب چلا ہوں تو یہ دیکھ کر چلا ہوں کہ مسلم کی لاش کوفے کی گلیوں میں پھرائی جارہی ہے اور مسلم کا سرکوفے کے دروازے میں لٹکا ہوا ہے۔
یہ جو امام حسین علیہ السلام نے سنا تو بے ساختہ آنسو نکل آئے اور رونے لگے۔ تمام اصحاب اور عزیزوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد امام علیہ السلام اُٹھے، جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کے خیمے میں پہنچے۔ زینب بھائی کو اس طرح دیکھ کر گھبراگئیں۔ مگر کچھ پوچھا نہیں۔ فرمایا: میری بہن زینب !ذرا مسلم کی بیٹی رقیہ کو لے آؤ۔ یہ بچی پانچ ، چھ سال کی تھی۔ جب وہ لائی گئی، آپ نے زانو پر بٹھایا، اُس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا، اُس کو پیار کیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن زینب ! وہ گوشوارے جو ہم نے کبھی لئے تھے، ذرا ان کو لے آؤ۔ اپنے ہاتھ سے اُس کے کانوں میں گوشوارے پہنائے، سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ بچی آخر اہلِ بیت کے گھر کی تھی۔ کچھ گھبرا گئی اور پوچھنے لگی: چچاجان! میرے بابا تو زندہ ہیں؟ یہ شفقت تو آپ یتیموں کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں؟ فرمایا: بیٹی!اگر تمہارا باپ زندہ نہیں تو حسین تو زندہ ہے۔ اس کے بعد حسین کو اپنا باپ سمجھنا۔
ارے مسلم کی بیٹی رقیہ خوش قسمت تھی کہ باپ کا انتقال ہوا تو حسین موجود تھے۔ ہائے سکینہ کی قسمت!جب امام حسین دنیا سے اُٹھے تو کسی نے تسلی نہ دی بلکہ شمر کے طمانچے کھائے اِس بچی نے!!
شہادتِ حبیب ابن مظاہر
آج میں چاہتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے متعلق کچھ عرض کروں کیونکہ اگر ایسا نہ کروں گا تو مولا امام حسین مجھ سے ناراض ہوجائیں گے کہ میرے باوفا اصحاب کو کیوں بھول گیا، لہٰذا اجمالی حیثیت سے چند فقرے سن لیجئے۔
یہ وہ سب تھے جو بنی ہاشم کے علاوہ تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اُن کو بلایا نہ تھا، سوائے ایک حبیب ابن مظاہر کے، باقی لوگ سب ساتھ ہوگئے تھے، یہ سمجھ کر کہ یہ سفر وہی ہے جس کے بعد آپ مدینہ نہ آئیں گے۔ یہ سمجھ کر ساتھ ہوئے تھے کہ حسین مرنے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہم ان سے پہلے مریں گے۔ حبیب ابن مظاہر کو تو جو خط آپ نے لکھا تھا، اس کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو آہی رہے تھے مگر جنابِ زینب کو فرمائش ہوگئی تھی اور حسین اپنی بہن کا دل رکھنا چاہتے تھے بیٹھے تھے بہن بھائی۔ جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا! چاروں طرف سے فوجیں آرہی ہیں۔ آپ بھی تو اپنے دوستوں میں سے کسی کو لکھ دیجئے کہ وہ آپ کی مدد کیلئے آجائیں تو امام حسین نے فرمایا: اچھا بہن!یعنی آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ بہن کا دل ذرا بھی دُکھے۔
بیٹھ کر خط لکھا اور خط میں لکھتے ہیں:
"اِلَی الْفَقِیْه
"۔
اللہ اکبر۔ آپ لکھتے ہیں، ہم چاروں طرف سے گھرے جارہے ہیں۔ حبیب! اگر ہو سکے تو آجاؤ۔ جنابِ زینب سے کہا کہ بہن تمہاری خاطر میں نے خط لکھ دیا ہے تو عرض کرتی ہیں: بھیا! ذرا سنا تو دیجئے۔ امام حسین نے سنایا تو عرض کیا: بھیا! ایک فقرہ میری طرف سے بھی لکھ دیجئے۔ فرمایا، کیا؟ کہا:
"اَلْعَجَلْ، اَلْعَجَلْ
"۔
"حبیب! اگر آنا ہے تو جلدی سے آجاؤ"۔
بھیج دیا ایک شخص کو۔ اُدھر حبیب کی حالت یہ ہے کہ ایک دن پہلے مہندی خریدنے گئے ہیں بازار میں۔ مسلم ابن عوسجہ ملے۔ آپس میں دعا و سلام ہوا تو حبیب نے کہا: بھائی مسلم! یہ کوفے میں کیا ہورہا ہے؟ تلواروں پر صیقل کسے جارہے ہیں۔ نیزوں کی انیاں زہروں میں بجھائی جارہی ہیں۔ یہ کس بڑی لڑائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے؟ تو مسلم ابن عوسجہ نے کہا: حبیب! اتنے غافل بیٹھے ہو، تمہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ کس سے لڑنے کا سامان ہے؟یہ میرے اور تمہارے مولا حسین کے قتل کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حبیب نے کہا: اچھا! وقت آگیا۔ کہا، بالکل قریب آگیاوہ وقت۔
حبیب نے جو مہندی خریدی تھی، وہ پھینک دی کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب میری داڑھی میرے خون سے خضاب کی جائے گی۔گھر چلے آئے۔ متفکر اور پریشان دوسرے دن دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مرتبہ دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا کون ہے؟ اُس نے کہا: امام حسین کا قاصد ہوں، یہ خط دیا ہے۔ خط ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا، بوسے دئیے۔ تھوڑی دیر تک کھڑے ہوئے روتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے خط کو بند کرکے آنسو پوچھ کر گھر میں آئے، بیٹھ گئے بالکل خاموش! بی بی نے کہا کہ کس کا خط ہے؟ حسین فاطمہ زہرا کے فرزند کا۔ زوجہ نے پوچھا کہ کیا لکھا ہے؟ کہا کہ بلایا ہے۔ کہا ، کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ میں سوچ رہا ہوں۔ اُس مومنہ نے ناراض ہوکر کہا: حبیب بوڑھے ہوگئے، اب بھی زندگی سے محبت!! فاطمہ کا بیٹابلائے اور تم سوچو۔ اگر تم نہیں جاتے ہو تو یہ میری چادر تم اوڑھ لو۔ میں جاؤں گی۔ یہ سن کر خوش ہوگئے حبیب اور کہنے لگے: مصلحت کی بناء پر میں نے یہ بات کہی تھی۔ میں بڑا خوش ہوں کہ تمہاری عقیدت یہ ہے۔
بہرحال حبیب نکلے، راستوں کو کاٹتے ہوئے کربلا میں پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ جب تھوڑی دُور رہ گئے حبیب تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایاجنابِ علی اکبر سے: اے میرے بیٹے!
"اِسْتَقْبِلْ عَمَّکَ الْحَبِیْبَ
"۔
جناب علی اکبر ، جنابِ قاسم ، تمام شہزادے استقبال کیلئے آگے بڑھے۔ حبیب نے جب شہزادوں کو دیکھا تو گھوڑے سے کود پڑے۔ اُن کے ہاتھ چومتے ہوئے آگے آئے۔ امام حسین کے قریب بڑھے تو اصحاب نے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔اس نعرئہ تکبیر کی آواز خیموں میں پہنچی۔ جنابِ زینب نے فضہ سے کہا: ذرا دیکھنا کہ نعرئہ تکبیر کیوں بلند ہوا؟ فضہ آئیں، پوچھا، واپس گئیں اور کہا:آقا زادی! حبیب آگئے۔ جنابِ زینب نے کہا: فضہ حبیب بھائی کو میرا سلام پہنچادو اور کہہ دو کہ حبیب بھائی! آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ فضہ نے آ کہ کہا کہ حبیب! آقازادی سلام کہہ رہی ہیں۔ حبیب نے جب یہ سنا تو اپنے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئیے کہ میں اور اِس قابل کہ فاطمہ زہرا کی بیٹی مجھے سلام کہیں۔
بہرحال یہ ایک واقعہ تھا کہ امام حسین نے اُن کو بلایا تھا۔ ویسے یہ خود تیار بیٹھے تھے۔ باقی لوگوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو یہ سن کر کہ امام حسین مدینہ کی طرف نہیں جارہے، مکہ سے خود گھروں سے نکل پڑے تھے۔ بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ بچوں کو رخصت کرکے چلے تھے، اپنی بیویوں سے یہ کہہ کر چلے کہ اب نہ آئیں گے۔ مولا کی خدمت میں پہنچ رہے ہیں۔ رسول اللہ کی خدمت میں جائیں گے تو سرخروہوکر جائیں گے۔
کبھی آپ نے یہ سنا کہ کسی صحابی نے یہ کہا ہوکہ پیاسا ہوں؟ ایک دوسرے کے ساتھ جب ملتے تھے تو آپس میں یہی باتیں کرتے تھے کہ دیکھو! حسین کے پاس جانا تو ہنستے ہوئے جانا، ان کو ہماری تکلیف کا احساس نہ ہونے پائے۔
عاشور کی رات ایک وقت امام حسین علیہ السلام گئے ہیں جنابِ زینب کے خیمے میں۔ جنابِ زینب اُس وقت رورہی تھیں۔ پوچھتی ہیں: بھیا! یہ جو آپ کے ساتھی ہیں، ان پر آپ کو بھروسہ تو ہے؟ اس رات اصحاب خیموں کے گرد پہرہ دے رہے تھے۔ اس طرف اُس وقت بُریر تھے۔ یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑ گئی۔ ایک مرتبہ گھبراگئے۔ بلند آواز میں آواز دی کہ اے اصحابِ حسین ! ذرا اِدھر آؤ۔ فاطمہ کی بیٹی کو ہم پر اعتبار نہیں، ذرا جاکر اطمینان دلا دو۔ اُس وقت انہوں نے تلواروں کی میانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا اور سب نے یک زبان ہوکر کہا:فاطمہ کی بیٹی!یہ تلواریں جب تک ہمارے ہاتھوں میں ہیں، آپ کے بھائی حسین کو کوئی زخم نہیں آسکے گا۔ جنابِ زینب نے دعائیں دیں(کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہیں زینب دعائیں دیں)۔
صبح کا وقت جو ہوا(اللہ اکبر)۔ نہ کسی کو اپنی اولاد کی فکر ہے نہ ماں باپ یاد ہیں، نہ بہن بھائیوں کا خیال ہے، نہ کسی کو اپنا گھر یاد ہے۔ اگر یاد ہے تو حسین کا نام اور اگر کوئی چیز سامنے ہے تو حسین کی تصویر!
ایک آواز آتی ہے: مولا ! میرا آخری سلام قبول کریں۔ میں دنیا سے جارہا ہوں۔ حسین آتے ہیں، اصحاب عرض کرتے ہیں کہ آپ ٹھہر جائیں، ہم لے آتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، نہیں! میرے بھائیو! اُس نے مجھے بلایا ہے، خاموش۔ جو حکم امام ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا، ذرا تم ٹھہر جاؤ، مجھے جانے دو، میری لاش پہلے آجائے۔ میں پہلے جان دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ آپ ٹھہریں، مجھے جانے دیں۔ جوان کہتے ہیں کہ لڑنے کا زمانہ ہمارا ہے، آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، آپ ٹھہرئیے۔ بوڑھے کہتے ہیں: تمہارے رہنے کے دن ہیں، ہمارے مرنے کے دن ہیں تو ہمیں پہلے جانے دو۔ مولا اجازت دیجئے،ہم آپ کے دشمنوں سے جہاد کریں گے۔ ہر ایک کو ایک خوشی اور وہ یہ کہ آج دنیا سے جانے والے ہیں۔
جب بھی اصحاب کا ذکر آتا ہے ، مجھے یہ واقعہ ضرور یاد آتا ہے۔ ایک تھے بنی شاکر کے سردار، عابس اُن کا نام تہجد گزار، پیشانی پر سجدوں کا نشان، جب یہ مقابلہ کیلئے آئے تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ عرب کا مشہور بہادر بنی شاکر کا شہسوار عابس ہے۔ کوئی شخص تنہا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس آواز کے بعد تیر آنے شروع ہوئے جو قریب تھے۔ انہوں نے پتھر پھینکے۔ عابس مسکرائے اور مسکرانے کے بعد سر سے لوہے کا خول اُتارا، زرہ اُتاری اور غلام جو ساتھ تھا، اُسے دے کر کہا : لے جاؤ، میں نے تم کو بخشا، لے جاؤ انہیں۔ غلام نے کہا: میرے آقا! یہ کیا کررہے ہیں؟ یہ میدانِ جنگ ہے۔ آپ نے فرمایا: سمجھتا ہوں کہ میدانِ جنگ ہے۔ غلام نے پوچھا کہ پھر یہ کیوں اُتار دیں؟ فرماتے ہیں: اگر یہ رہ جائیں گی تو مرنے میں دیر ہوجائے گی۔
مرنے میں دیر ہوجائے گی اللہ اکبر۔ موت کا اس طرح سے شوق کہیں آپ نے سنا ہے۔ عورتیں اپنے بچوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی ہیں۔ آپ ایک لاش لائے ہیں اور اسے لٹادیاجہاں اور لاشیں لٹائی تھیں۔ آپ کو جو اُن کی وفائیں اور خدمتیں یاد آئیں تو کھڑے ہوکر رونے لگے۔ آنکھوں پر رومال رکھے رو رہے ہیں۔ اُن کی اطاعت گزاریوں اور وفاداریوں کو یاد کرکے کہ ایک خیمے کا پردہ اُٹھا۔دس یا گیارہ برس کا بچہ نکلا، چھوٹا سا عمامہ سر پر بندھا ہوا ہے۔ ایک تلوار کمر میں بندھی ہوئی ہے۔ بچے کا قد چھوٹا، تلوار لمبی، زمین پر خط دیتے ہوئے چلی آرہی ہے۔ بچے نے اِدھر اُدھر کچھ نہ دیکھا، سیدھا امام کے پاس پہنچا اور پاؤں پر گر پڑا۔ امام حسین متوجہ ہوئے، جھک کر بچے کو اُٹھایا، سینے سے لگایا، بیٹا! تم کیسے نکل آئے، دیکھو یہ تیر آرہے ہیں۔ وہ بچہ کہتا ہے کہ میرے آقا! مجھے مرنے کی اجازت دیجئے۔میں آپ کے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلاہوں۔
آپ نے فرمایا: تیری یہ عمر جنگ کی نہیں ہے۔ تو خیمے میں چلا جا۔ اُس نے کہا: مولا ! اب خیمے میں نہیں جاؤں گا۔ اب خیمے میں جائے گی تو میری لاش جائے گی۔ آپ نے فرمایا: تو کس کا بیٹا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تو وہ بچہ کہتا ہے کہ یہی تو میرے باپ کی لاش ہے جس پر آپ کھڑے ہوئے رو رہے ہیں۔ امام حسین نے اس بچے کو پیارکیا اور فرماتے ہیں: بیٹا! تو اپنی ماں کے پاس چلا جا۔ تیری ماں کیلئے تیرے باپ کی جدائی کا غم کافی ہے۔ تو اُسے اپنی جدائی کا غم نہ دے۔ یہ جو سننا تھا تو وہ کہتا ہے: مولا ! یہ عمامہ میری ماں نے اپنے ہاتھ سے باندھا ہے۔ یہ تلوار بھی میری ماں نے میری کمر سے باندھی ہے ۔ ایک مرتبہ خیمے سے آواز آئی، میرے آقا! میرے بچے کو اجازت دے دیں تاکہ میں زینب کے سامنے سرخرو ہوجاؤں۔
شہادتِ قاسم ابن امام حسن
امام حسن علیہ السلام جب دنیا سے جارہے تھے اور زہر کی وجہ سے جگر کے ٹکڑے ہو کر نکل رہے تھے تو امام حسن ایک عالم کرب میں تھے۔ جب آخری وقت آیا تو آپ نے فرمایا: میرا قاسم کہاں ہے؟ ذرا بلالو۔ اس وقت جنابِ قاسم کی عمر صرف تین سال کی تھی۔
جنابِ قاسم کو لایا گیا۔تین سال کا بچہ ، امام حسن نے سینے سے لگایا۔ اُس کا منہ چوما۔ بہت دیر تک سینے سے لگائے ہوئے روتے رہے۔ اب باپ کو جو روتے دیکھا تو یہ بچہ بھی چیخ چیخ کر رونے لگا۔ امام حسن نے خاموش کروایا اور فرمانے لگے: بیٹا قاسم ! تم بہت چھوٹے ہو، اس لئے تم سے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ بس اتنی سی بات بھولنا نہیں، یہ تعویذ تمہارے بازو پر باندھے دیتا ہوں۔ جب کبھی تمہیں سب سے زیادہ سخت وقت دنیا میں معلوم ہو کہ اس سے زیادہ سخت وقت نہیں آسکتا تو ذرا اس کو کھول کر دیکھ لینا اور قاسم کی ماں سے کہنا کہ ذرااس کا خیال رکھنا، یہ گم نہ ہونے پائے۔
تعویذ بندھا ہوا ہے، عاشور کا دن آگیا۔ اب بچے کی عمر ہے تیرہ سال۔ امام حسین اپنے بھائی امام حسن کے عاشق تھے۔ یہ عام کتابوں میں ہے کہ جب کبھی امام حسن اور امام حسین ایک جگہ بیٹھ جاتے تھے تو امام حسین بڑے بھائی کے سامنے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اتنی بات تھی اور اتنا احترام تھا۔
عاشور کا دن جب آیا تو یہ بچہ کئی دفعہ آیا، کئی بچوں کی لاشیں آگئیں۔ جنابِ زینب کے بچوں کی لاشیں حسین لے آئے اور بھی ایک دو بچوں کی لاشیں آگئیں۔ یہ بچہ گھر میں جاتا تھا اور پھر نکلتا تھا اور چچا کے پاس آتا تھا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ماں بھی کہتی تھیں کہ بیٹا ابھی تک اجازت نہیں لی۔ چنانچہ آتے تھے جنابِ قاسم اور عرض کرتے تھے ، چچاجان! مجھے بھی تو اجازت دیجئے۔ امام حسین بچے کی صورت دیکھتے تھے اور بھائی حسن یاد آجاتے تھے۔ امام حسین گلے سے لگا کر رودیتے تھے اور فرماتے تھے کہ بیٹا! ابھی ذرا ٹھہرجاؤ۔ جنابِ قاسم اس اُلجھن میں تھے کہ اب کیا کروں؟ چچا اجازت نہیں دیتے۔
ایک مرتبہ خیال آیا کہ بابا نے کہا تھا کہ جب دنیا میں سب سے زیادہ سخت وقت آجائے تو اس تعویذ کو دیکھ لینا۔ جنابِ قاسم ایک طرف چلے گئے۔ وہاں جاکر کھولا یہ تعویذتو اس میں لکھا تھا کہ بیٹا قاسم !جس دن تم تعویذ کھولو گے، وہ عاشورہ کا دن ہوگا۔میرا بھائی چاروں طرف سے گھر چکا ہوگا۔ بیٹا! اگر میں موجود ہوتا تو اپنے بھائی پر سے اپنی جان قربان کردیتا۔ میں نہ ہوں گا، تم ہوگے۔ میری عزت کا خیال رکھنا۔ جس وقت جنابِ قاسم نے یہ پڑھا تو اس خط کو لے کر آئے اور کہا کہ چچا جان! اب ذرا یہ خط تو دیکھ لیجئے، میں کیا کروں، میں کس طرح نہ جاؤں میدان میں؟ میرے بابا کی وصیت ہے جو آج مجھے معلوم ہورہی ہے۔امام حسین علیہ السلام نے وہ خط پڑھا۔ بھائی کی محبت یاد آگئی۔ قاسم کو سینے سے چمٹا لیا او رکافی دیر تک روتے رہے شبیر بلکہ امام بیہوش ہوکر گر پڑے۔
تمام واقعہ کربلا میں آپ کسی کتاب میں نہ دیکھیں گے کہ امام حسین علیہ السلام کسی کی رخصت کے وقت بیہوش ہوئے ہوں، یہاں تک کہ جنابِ علی اکبر گئے ہیں تو امام حسین نے خود سوار کیا ہے۔ خود اپنا عمامہ اُتار کر علی اکبر کے سرپر رکھا لیکن قاسم کی روانگی کے وقت بھائی حسن کو یاد کرتے ہوئے اتنا روئے کہ بیہوش ہوگئے۔
جب ہوش میں آئے تو جنابِ قاسم نے عرض کی کہ اب تو اجازت دیجئے۔ فرماتے ہیں کہ بیٹا جاؤ!اب میں کیا کروں، مگر اپنی ماں سے تو پوچھ لو۔آئے__جنابِ قاسم __دروازے میں کھڑی ہیں اُمّ فروہ__دیکھتے ہی کہتی ہیں:بیٹا! اجازت مل گئی؟ قاسم نے کہا: اماں مل گئی۔ فرماتی ہیں:اچھا بیٹا جاؤ اور ماں کو سرخرو کرو۔جنابِ قاسم آئے اور امیرالمومنین علیہ السلام کے پوتے تھے، آخر دادِ شجاعت دی مگر چاروں طرف سے جب گھر گئے تو کسی کی تلوار لگی،کسی کا نیزہ لگا۔ گھوڑے سے جو گرے تو عزادارانِ اہلِ بیت ! اِدھر کے گھوڑے اُدھرگزر گئے اور اُدھر کے گھوڑے اِدھرگزر گئے۔ ارے تیرہ سال کا بچہ، اس کی ہڈیوں اور گوشت میں تھا کیا، مگر گرتے گرتے آواز دی، چچاجان! اب میں جارہا ہوں، ایک مرتبہ زیارت کروادیجئے۔
حسین روتے ہوئے آئے۔ یزیدیوں کو تلوار سے ہٹایا۔ ارے قاسم کی لاش پر پہنچے مگر قاسم کی ایسی حالت تھی کہ دنیا سے جاچکے تھے ۔ قاسم کواُٹھایا، منہ پر منہ رکھا، سینے کو سینے سے ملایا۔مگر تیرہ سال کے بچے کی لاش کی حالت یہ تھی کہ پاؤں زمین پر گھسٹتے ہوئے آرہے تھے، ہوا کیا؟ گھوڑوں نے وہ کیا جو کسی شہید کے ساتھ نہیں ہوا۔ جب خیمے میں پہنچے تو زینب انتظار میں تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے قاسم کی لاش زمین پر لٹا دی۔ ماں خیمے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں اور دیکھ رہی ہیں۔ جب تک حسین رہے روئی نہیں جب حسین باہر نکلے، ایک مرتبہ کہا:بیٹا قاسم !ارے دولہا بن کر آگئے، مجھے تم نے سرخرو کردیا۔
شہادتِ شہزادہ علی اکبر
آج میں صرف شہزادہ علی اکبر کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتاہوں،عزادارانِ حسین ! امام حسین کا یہ فرزند پروردگارِ عالم نے ایک نعمت دی تھی امام حسین کو۔ یہ وہ فرزند تھا کہ تمام کتب تاریخ میں یہ ہے کہ سر سے پاؤں تک یہ معلوم ہوتا تھا کہ رسول ہیں۔ کیسی خوشی ہوتی ہوگی امام حسین کو،جب علی اکبر کو دیکھتے ہوں گے۔ نانا کی تصویر ہونے کے ساتھ، باپ کے اتنے مطیع کہ دنیا میں شاید ہی اتنی اطاعت باپ کی کسی بیٹے کے دل میں ہو جتنی علی اکبر کے دل میں اطاعت کے جذبات تھے۔
میں نے بعض مقامات پر یہ بات پڑھی ہے کہ باہر کے لوگ مدینہ میں آتے تھے اورامام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچتے تھے، آواز دیتے تھے۔ امام حسین باہر تشریف لاتے تھے۔ وہ لوگ کہتے تھے: مولا ! ذرا اپنے فرزند علی اکبر کوبلوا دیجئے، تو امام حسین فرماتے تھے کہ علی اکبر سے کیا کام ہے؟ تو وہ کہتے تھے کہ ہم نے رسول کی زیارت نہیں کی۔ ہم نے سنا ہے کہ آپ کا فرزند سر سے پاؤں تک رسول کی تصویر ہے۔ ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ کے فرزند کو دیکھ لیں تاکہ رسول کی زیارت کا ہم کو ثواب مل جائے۔
اِن حالات میں امام حسین علیہ السلام کے دل میں کیا کیا کیفیات پیدا ہوتی ہوں گی۔ راستے میں ایک مرتبہ امام حسین ایک منزل پر مقیم تھے۔بیٹھے بیٹھے کچھ غنودگی سی آگئی۔ اب جو آنکھ کھلی تو آپ نے اُٹھتے ہی ارشاد فرمایا:
"اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّااِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
"
تمام کے تمام ساتھی جو بیٹھے ہوئے تھے، گھبراگئے کہ کیا واقعہ آپ کے ذہن میں آگیا کہ جس کی وجہ سے یہ کلمہ آپ کی زبان پر جاری ہوا۔کسی کی ہمت نہ تھی جو آپ سے یہ پوچھے۔ جنابِ علی اکبر نے دیکھا کہ بابا کچھ خاموش ہیں۔ آگے بڑھے اور عرض کرتے ہیں: بابا! آپ نے یہ کلمہ کیوں اپنی زبان پر جاری فرمایا۔ امام فرماتے ہیں:بیٹا! ذرامیری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے ایک ہاتف کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ اپنی قبروں کی طرف جارہا ہے اور موت اُن کا استقبال کرنے کیلئے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے میں نے یہ فقرہ اپنی زبان پر جاری کیا۔
اس پر جنابِ علی اکبر نے عرض کیا:بابا! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام حسین نے فرمایا:بیٹا! ہم حق پر ہیں۔تو جنابِ علی اکبر نے فرمایا: بابا! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کیا پروا ہے؟ آنے دیجئے موت کو ہمارا استقبال کرنے کیلئے۔ امام حسین کا دل خوش ہوگیا۔
حاکم شام نے ایک دن بیٹھے بیٹھے ذکر کیا کہ بھئی بتلاؤ، اس زمانے میں حقیقی حیثیت سے قابلِ خلافت کون ہے؟ کسی نے کہا، تم ہو کسی نے کہا، تمہارا بیٹا یزید ہے، کسی نے کچھ کہا۔ اُس نے کہا: تم لوگ سب خوشامد کررہے ہو، مجھ سے پوچھو تو میری نظر میں امام حسین کا بیٹا علی اکبر ہے کہ سر سے پاؤں تک رسول کی شبیہ ہے۔ دشمنوں کی نظر میں علی اکبر ایسے تھے ، ہائے! کربلا میں حسین کا گھر ایسا برباد ہوا کہ پھر کبھی آبادنہ ہوا۔ عاشورہ کا دن آگیا۔ بس یہاں کے چند فقرے عرض کرنے ہیں۔
اولاد والو!اٹھارہ برس کی عمر، ساتویں سے پانی بند ہے۔ پیاس کا غلبہ، ہونٹ سوکھے ہوئے مگر باپ سے یہ عرض نہیں کرتے کہ میں پیاسا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ باپ کو تکلیف ہو۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم میں سب سے پہلے شہید جنابِ علی اکبر ہیں اور بعض روایات یہ بتلاتی ہیں کہ سب سے آخر میں جنابِ علی اکبر شہید ہوئے۔
بہرحال اگر بنی ہاشم کے آخری شہید ہیں تو جب عزیزوں کی لاشیں آگئیں، زینب کے بچوں کی بھی لاشیں آگئیں، ہائے جنابِ قاسم کی بھی لاش آگئی۔ مسلم کے دو فرزند جو یہاں کربلا میں تھے، اُن کی لاشیں بھی آگئیں اور اسی روایت کے اعتبار سے جنابِ عباس کے بازو بھی کٹ چکے تو جنابِ علی اکبر آئے اور عرض کرتے ہیں:بابا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں بھی جان نذر کردوں۔ امام حسین نے سر سے پاؤں تک علی اکبر کو دیکھااور اتنا کہا کہ بیٹا! ذرا اس کوکھ جلی کے پاس بھی چلے جاؤ جس نے اٹھارہ برس بڑی محنت سے پالا ہے۔ جنابِ علی اکبر خیمے میں آئے، جنابِ زینب سمجھ گئیں کہ رخصت کیلئے آئے ہیں۔ بیبیاں چاروں طرف حلقہ بنا کر رونے لگیں۔ جنابِ علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پھوپھی اور حضرت اُمِ لیلیٰ جو ماں ہیں، اُنہیں سمجھایا کہ آخر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میرا باپ شہید ہو جائے اور میں رہ جاؤں۔ دنیا آخر کیا کہے گی؟ جنابِ اُمّ لیلیٰ سے کہا کہ اماں! آپ تو مجھے اجازت دیجئے۔
جنابِ اُمّ لیلیٰ نے کہا کہ بیٹا! میں کون ہوں؟ جو کچھ ہیں یہ ہیں تمہاری پھوپھی۔ انہوں نے تمہیں پالا ہے۔ یہ اگر اجازت دے دیں تو میں کس طرح سے منع کرسکتی ہوں۔آخر جنابِ زینب نے اجازت دی۔ ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ خیمے کا پردہ اُٹھتا ہے اور پھر گرجاتا ہے۔ پھر اُٹھا اور پھر گرگیا۔ میں نے جب دریافت کیا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ علی اکبر بیبیوں کو تسلی دے کر نکلنا چاہتے تھے کہ بہنیں لپٹ جاتی ہیں۔ بہنوں کو تسلی دیتے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں تو پھوپھی لپٹ جاتی ہیں: بیٹا! تھوڑی دیر ہم شکلِ پیغمبر کی زیارت کرلیں۔ اس طرح یہ عمل پردہ گرنے کا کئی مرتبہ ہوا۔ آخر علی اکبر نکلے تو اس طرح سے نکلے جیسے بھرے گھر سے جنازہ نکلتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آئے، عرض کیا: پھوپھی سے اجازت لے لی، اماں بھی راضی ہوگئیں۔ اب آپ مجھے اجازت دیجئے۔ یہ سننا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اپنی کمر پکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ اپنا عمامہ اُتار کر علی اکبر کے سر پر رکھا۔ بیٹا! یہ عمامہ تمہارے نانا محمد مصطفےٰ کا ہے۔ اس کو سر پر رکھ کر جاؤ، خود اپنے ہاتھ سے گھوڑے پر سوار کیا۔ علی اکبر روانہ ہوئے۔ چند قدم چلے تھے ، منہ پھیر کر دیکھا تو کیا دیکھا کہ حسین دوڑتے ہوئے چلے آرہے ہیں، فرمایا: بیٹا! جب تک سامنے رہو، مجھے منہ موڑ کو شکل دکھلاتے جاؤ، مجھے نانا یاد آرہے ہیں۔
جنابِ علی اکبر آئے میدان میں۔ اب میرے دل میں بھی طاقت نہیں ہے کچھ، جنگ کی۔ کچھ یزیدیوں کو قتل کیا۔ جو بھی مقابلے میں آیا، مارا گیا، علی کے پوتے تھے لیکن ایک وقت آیا کہ سب نے مل کر حملہ کیا۔ چاروں طرف سے ہجوم ہوگیا اور چاروں طرف سے جب گھر گئے علی اکبر تو ایک شخص نے آکر سینے پر جو نیزہ مارا اور وہ نیزہ جو نکلا تو خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ ارے علی اکبر کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ گھوڑے سے گر جائیں۔ ایک مرتبہ دونوں ہاتھ بڑھا کر گھوڑے کی گردن میں ڈال دئیے۔گھوڑا فوج میں گھس گیا۔ جس کے قریب سے گزرے، اُس نے تلوار کا وار کردیا۔ اس وقت ایسی حالت میں جنابِ علی اکبر نے آواز دی:
"یَااَبَتَاهُ عَلَیْکُمْ مِنِّیْ اَلسَّلَامُ
"۔