روایات عزاء

روایات عزاء0%

روایات عزاء مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

روایات عزاء

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
زمرہ جات: مشاہدے: 10170
ڈاؤنلوڈ: 5444

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 7 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10170 / ڈاؤنلوڈ: 5444
سائز سائز سائز
روایات عزاء

روایات عزاء

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شہادتِ شہزادہ علی اصغر

آج ملک میں جابجا جھولے نکالے جارہے ہیں۔ شبیہ جھولے کی نکالی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ یاد کرلیں کہ ایک شیر خوار بچہ بھی تھا جس کا جھولا خالی ہوگیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے اِن بچوں پر پانی بند ہوگیا۔ کچھ کوزوں میں پانی جو تھا، وہ بڑے آدمیوں نے یعنی جوانوں اور بوڑھوں نے ساتویں تاریخ کی شام ہی سے پینا چھوڑ دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پانی بند ہوگیا ہے۔ جو کچھ پانی ہے، اگر وہ بچوں کیلئے رہ جائے تو اچھا ہے۔ ہم اگر پئیں گے تو یہ ختم ہوجائے گا اور بچے تڑپنے لگیں گے۔چنانچہ بچوں کیلئے کچھ آٹھویں تک ہوگیا تھا، کیوں؟ اس لئے کہ امام حسین کے ساتھ بہت بڑا قافلہ تھا۔لیکن اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ ساتویں تاریخ سے امام حسین اور اُن کے قافلہ پر پانی بند کردیا گیا تھا۔

آپ نے ساتویں کی شام، لوگوں سے کہا کہ بھائیو! چلے جاؤ، دیکھو اب مصیبتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اب پانی بند ہوگیا ہے۔ تم ان تکالیف کو برداشت نہ کرسکو گے۔ تمہارے ساتھ بال بچے ہیں۔ ان کو لے کر نکل جاؤ، کچھ لوگ نکل گئے۔

آٹھویں تاریخ آئی تو رات کو پھر آپ نے جمع کیا اور فرمایا: ہاں! اگر تم جاؤ گے تو یہ لوگ اور خوش ہوجائیں گے کہ تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔حضور! شب عاشور بھی کچھ لوگ نکلے ہیں جب امام حسین نے خیمے میں چراغ گل کردیا ہے۔

جنابِ سکینہ سے روایت ہے کہ میں پھوپھی کی گود میں تھی اور میں یہ کہہ رہی تھی کہ پھوپھی جان! میں پیاس سے مر جاؤں گی تو میری پھوپھی جان کبھی اس خیمے میں لے جاتی تھیں، کبھی اُس خیمے میں جاتی تھیں تو اس وقت ہم ایک ایسے خیمے میں تھے کہ جہاں سے پدرِ بزرگوار کی آواز آرہی تھی۔ آپ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو! تمہیں یہ خیال ہوگا کہ میرے نانا تم سے ناراض ہوجائیں گے۔ میں نانا سے کہہ دوں گا کہ میں نے خود بھیجا تھا۔ چنانچہ جنابِ سکینہ کہتی ہیں

کہ اس تاریکی میں لوگ خیمے سے نکلنا شروع ہوگئے اور میں نے اپنی پھوپھی سے کہا کہ پھوپھی جان! کیا میرے بابا تنہا رہ جائیں گے تو گویا اس شب تک آپ نے رخصت کیا ہے۔ اس کے بعد پھر بھی عاشور کی شب چوراسی بیبیاں تھیں تو اتنے لوگ ساتھ تھے۔ پانی تو ساتویں محرم سے ختم ہوگیا تھا۔جب نویں تاریخ آئی تو بچے العطش العطش کہتے ہوئے ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ میں نے جنابِ سکینہ کے متعلق دیکھا ہے کتابوں میں کہ کبھی کبھی دروازہ پر آکر کہتی تھیں کہ بابا! پیاس نے مار ڈالا ہے۔ کبھی یہ آواز دیتی تھیں، چچا! میں پیاس سے مرجاؤں گی۔مگر میں نے آج تک نہ دیکھا کہ کسی امام کے صحابی کے کسی بچے نے آواز دی ہو۔ دراصل اپنے بچوں کو مائیں چھوڑتی نہ تھیں کہ کسی خیمے پر جائیں یا کسی دروازے پر جائیں،کیوں، اس لئے کہ حسین ان کی آواز سن لیں گے تو انہیں تکلیف ہوگی۔

ساتویں تاریخ جو فوجیں آئیں کچھ اور زیادہ تو انہوں نے یہ کام کیا کہ اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ادھر سے اُدھر چلے گئے اور اُدھر سے اِدھر آگئے۔ زمین جو ہلنے لگی تو بیبیوں کے دل دہل گئے۔ اس فکر کی وجہ سے اور اس خوف کی وجہ سے علی اصغر کی والدہ کا دودھ خشک ہوگیا۔ امتحان تھا ناں!امتحان تھا کہ انتہائے مظلومیت بھی دیکھ لو اور انتہائے ظلم بھی دیکھ لو۔

بچہ گہوارہ میں پڑا ہوا ہے۔ ہونٹ خشک ہوچکے ہیں مگر رونے کی آواز نہیں۔ چودہ دن کا تھا جب مدینہ سے روانہ ہوئے ہیں۔آج چھ مہینے کا ہوا ہے۔ پیاس کی شدت سے آنکھوں میں حلقے پڑ چکے ہیں۔ ہونٹ خشک ہیں مگریہ بچہ روتا نہیں۔ کبھی پھوپھی کو دیکھ لیتا ہے، کبھی ماں قریب آتی ہے تو اس کو نگاہ بھر کر دیکھ لیتا ہے۔ بہنیں آتی ہیں تو ان کو دیکھتا ہے یعنی زبان نہیں کہ کہے کہ پیاسا ہوں اور روتا نہیں،اس لئے کہ غالباً خبر ہے اسے کہ سب ہی پیاسے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کے اصحاب جارہے ہیں۔ عورتیں اپنے بیٹوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی ہیں کہ جاؤ! آج قربانی کا دن ہے۔حسین پر قربان ہوجاؤ۔ جنابِ رباب جن کا بچہ ہے یہ جس کا نام ہے علی اصغر ۔ کبھی بچے کی طرف دیکھ کر کچھ سوچتی ہیں اور کبھی گود میں لے کر اِدھر اُدھر ٹہلتی ہیں۔ جنابِ رباب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جنابِ زینب نے اپنے بچوں کو کس طرح میدان میں بھیجا اور اُن کی لاشیں آئیں۔جنابِ رباب نے یہ بھی دیکھاکہ کس طرح سے قاسم کی لاش خیمے میں آئی۔

یہ سب ہوچکا ہے۔ امام حسین علیہ السلام علی اکبر کی لاش لے آئے ہیں، حتیٰ کہ جنابِ عباس علیہ السلام کی لاش کو دریا کے کنارے چھوڑ آئے ہیں اور اب کوئی نہ رہا۔ جب کوئی نہ رہا تو میدان میں آئے اور فرماتے ہیں : کوفے اور شام کے رہنے والو! اب میرا کوئی نہیں رہا۔ اب میں اتنا زخمی ہوچکا ہوں کہ زندہ نہ رہوں گا۔ ارے تھوڑا سا پانی پلادو۔ اِن لوگوں کے جو جو جوابات تھے، وہ آپ سے کیا عرض کروں! ایک مرتبہ یہ آواز دیتے ہیں اور اِتمامِ حجت کررہے ہیں۔عاشور کے دن یہ آواز آپ نے دو تین مرتبہ دی ہے:

"هَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا،هَلْ مِنْ مُغِیْثٍ یُغِیْثُنَا

"کوئی مددگار ہے جو اس وقت میری مدد کو آئے، کوئی فریاد رسی کرنے والا ہے جو اس وقت میری فریاد رسی کرے"۔

یہ آواز جو دی تو ادھر سے تو کسی نے آواز نہ دی، کسی نے لبیک نہ کہا، البتہ خیموں کی طرف سے بیبیوں کے رونے اور شیون و فریاد کی آواز پہنچی۔ آپ اس طرف متوجہ ہوئے۔ جوں جوں خیمے کی جانب بڑھتے جاتے ہیں، بیبیوں کے گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں۔ آخر جلدی جلدی جنابِ زینب کے خیمے پر پہنچے، آواز دی:بہن! میں ابھی زندہ ہوں۔ ارے تمہارے رونے سے یہ لوگ خوش ہورہے ہیں۔ تمہاری آوازیں بلند نہ ہوں جب تک میں زندہ ہوں۔ جنابِ زینب نے بھائی کی آواز سنی تو ایک مرتبہ دروازے پر آکر کہتی ہیں: بھیا! ذرا اندر تو آئیے۔ کیا قیامت ہوگئی۔ اندر گئے، فرمایا کیا ہے؟ عرض کرتی ہیں: بھیا! نہیں معلوم آپ کی اس فریاد میں کیا اثر تھا کہ علی اصغر نے جھولے میں تڑپنا شروع کردیا اور پھر اس کے بعد اتنا تڑپے کہ جھولے سے گرگئے۔ میں نے گود میں اُٹھایا، قرار نہیں آتا۔ ماں گود میں لیتی ہے تو چپ نہیں ہوتے۔ بہنیں لیتی ہیں تو خاموش نہیں ہوتے۔ یہ حالت دیکھ کر بیبیوں میں کہرام برپا ہوگیا ہے۔

امام حسین نے فرمایا:ہاں بہن میں سمجھ گیا۔ ان کو تو میں لایا تھا اور سوچ سمجھ کر لایا تھا۔ اچھا تو بہن! میں ایسا کرتا ہوں کہ ان کو لئے جاتا ہوں۔ پانی مانگوں گا۔ جنابِ علی اصغر کی خاموش ماں، کبھی بچے کو دیکھتی ہیں، کبھی حسین کو دیکھتی ہیں۔ امام حسین نے اپنی بہن سے فرمایا:علی اصغر کو مجھے دے دو، میں لئے جارہا ہوں۔جب حسین کے ہاتھوں پر آئے علی اصغر اور آپ دروازے کی طرف چلے تو ابھی تک مادرِ علی اصغر خاموش کھڑی تھیں۔ جب حسین جانے لگے تو ایک مرتبہ تیزی سے بڑھیں اور سامنے آکر عرض کیا:میرے آقا!ذرا میرے بچے کو مجھے دے دیجئے۔ امام حسین نے ماں کی گود میں دے دیا۔ بیبیاں یہ سمجھیں کہ پیار کرنے کیلئے شاید لے رہی ہیں۔ لیکن کیا کیا جنابِ رباب نے! گود میں لیتے ہی اپنے خیمے کی طرف چلیں۔ اپنے خیمے میں داخل ہوئیں۔ وہاں پہنچ کر صندوق کھولا،اس میں سے علی اصغر کا نیا کرتہ نکالا ۔ جسم پر جو کرتہ تھا،اُسے اتارا، نیا کرتہ پہنایا، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور بالوں میں کنگھی کی۔ آخر میں آستین کچھ اوپر کی طرف اُلٹائے اور فرماتی ہیں: بیٹا! جو خیمے سے گیا، واپس نہیں آیا۔ اب تم جارہے ہو، واپس نہیں آؤ گے۔بیٹا اگر تیر لگ جائے تو رونا نہیں۔ اس کے بعد بچے کو لاکر امام حسین سے عرض کیا:آقا! یہ میرا تحفہ ہے، اس کو قبول کریں۔ یہ میری طرف سے قربانی ہے۔امام حسین آئے میدان میں۔ بچے کیلئے پانی مانگا، کسی نے نہ دیا۔ فرماتے ہیں: بیٹا! تم حسین کے بیٹے ہو، میری روحانیت میں شریک ہو۔ بیٹا! میرے کہنے سے پانی نہیں دیتے۔ بیٹا! ذرا تم ہی مانگ لو۔ اِس بچے نے کیا کیا؟ اپنی سوکھی زبان نکالی اور ہونٹوں کے اوپر پھیرنی شروع کردی۔

حالت یہ ہوئی کہ یزیدی فوج کے لوگ منہ پھیر کر رونے لگے۔ ابن سعد گھبرا گیا اور اُس نے حرملہ سے کہا: حرملہ جلدی کر۔ اُس نے ایک تیر جوڑا۔ تمام کتابوں میں ہے کہ وہ تین بھال کا تھا۔ لوہے کی بھالیں ، ننھا سا گلا، حسین کے بازو سے گلا ملا ہوا ہے۔ اِدھر سے تیر آیا۔ کیا عرض کروں! کیا ہوا؟ ایک مرتبہ بچہ اُچھلااور تیر حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ امام حسین علیہ السلام نے تیر جو کھینچا اولاد والو! تیر جو کھینچا تو علی اصغر کا گلا بھی تیر کے ساتھ چلا آیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بیٹا علی اصغر ! ب تمہارے گلے سے تیر کھینچتا ہوں، اس کے بعد علی اصغر کے گلے سے تیر کھینچا۔ علی اصغر مسکرائے۔ مطلب یہ تھا، بابا! اماں کو سلام کہہ دیجئے گا کہ تیرا بیٹا رویا نہیں ہے۔

روزِ عاشور

عاشورہ کا دن، نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ کچھ اصحاب باقی ہیں۔ اُن میں سے ایک عرض کرتے ہیں: فرزند رسول! زوال کا وقت شروع ہوگیا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتداء میں آخری نماز پڑھ لیں۔ امام حسین بڑے خوش ہوئے۔ کس طرح کی نماز ہوئی۔ کچھ اصحاب اس طرف آگے کھڑے ہوگئے ، جدھر فوج تیر برسارہی تھی۔ حسین نماز میں مصروف ہوئے۔ یہ آگے امام حسین کے کھڑے ہوگئے۔ اِدھر سے تیر آرہے ہیں۔ ہڈیوں کو توڑ رہے ہیں۔ سینے میں پیوست ہورہے ہیں لیکن ان میں سے ایک نہیں گرتا۔ کیوں اس قدر استغراق ہے۔ اس قدر غرق ہوچکے ہیں عشقِ حسین میں کہ تیروں کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں لگ رہے ہیں۔ امام حسین کی جب آواز آئی:

"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه "

اب سمجھے کہ نماز ختم ہوئی۔ اُدھر نماز ختم ہوئی حسین کی، اِدھر یہ ختم ہوگئے۔آپ نے خیال فرمایا کہ اتنی روحانیت کے مالک کبھی آپ نے دیکھے ہیں کہ آئے ہیں اپنی جانیں بیچنے کیلئے۔

امام حسین علیہ السلام سے عہد ہوچکا ہے۔ حضرت نے فرمایا: بھائیو! تم چلے جاؤ، آج کی شام میں نہیں دیکھوں گا۔ عاشورہ کا دن ہے، رات کو کہا تھا کہ یہ رات جو آنے والی ہے، میری زندگی میں نہیں آئے گی۔ چلے جاؤ، اپنے بال بچوں سے جاکر مل لو جن کے بال بچے ہیں، وہ مل آئیں۔

وہ آوازیں دیتے ہیں کہ حسین ! اگر ہم چلے جائیں تو خدا کرے ہمیں درندے کھا جائیں۔ حسین فرماتے ہیں:بھائیو! میں نانا کو تم سے راضی کروالوں گا۔ میں یہ کہہ دوں گا: نانا! میں نے خود ان کو بھیجا تھا، یہ خود نہیں آئے تھے۔ میرے نانا تم سے ناخوش نہیں ہوں گے۔ امام حسین نے یہ فرمایا۔ جانتے ہیں، کیا جواب دیا ہے اصحابِ باوفا نے: اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر جلا دئیے جائیں اور ہماری راکھ اُڑا دی جائے تو ہر بار ہماری راکھ کا ہر ذرہ آپ کے قدموں میں گرے گا۔ آپ کو چھوڑ کر کیوں چلے جائیں؟ رہ گئے یہ بال بچے، حسین ! اگر آپ کی راہ میں ان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف سے بڑی راحت کیا ہے؟ کہیں دنیا میں ایسے واقعات ہوئے ہیں؟

میں آپ سے عرض کروں۔ اس وقت یزید کی بیعت کس کس نے کرلی تھی؟مجھے اس کا ذکر نہیں کرنا ہے۔ اتنی بات کہنی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا خاندان ایسا نہیں رہا تھا جس نے یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرلی ہو۔ عبداللہ ابن زبیر مکہ چلے گئے تھے۔ اپنی خلافت کا اعلان کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کی دسترس میں یہ چیز نہ تھی، انہوں نے سب نے بیعت کرلی تھی۔ حسین نے کہانانا کے روضے پر جاکر: نانا!میں آپ کی قبر کو کبھی نہیں چھوڑتا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی محنتیں برباد ہورہی ہیں۔ میرے علی اکبر کے سینے پر برچھی لگ جائے گی۔ میری بہنیں قید ہوجائیں گی لیکن آپ کی محنت کو برباد نہیں ہونے دوں گا۔

اے میرے بزرگو! کبھی تصور میں سوچنا اِن چیزوں کو، اپنی جان کو پیش کردینا اور بات ہے، غیروں کو بلا کر آگے کردینا اور بات ہے۔ عزیزوں کو بھی آگے بڑھا دینا اور بات ہے۔ لیکن حضور!ناموس کا معاملہ ایساہے کہ جب یہ معاملہ آتا ہے تو اولاد کو بھی فدا کردیا جاتا ہے کہ ناموس پر حرف نہ آنے پائے۔ جان کو بھی فدا کردیا جاتا ہے۔ سب کچھ فدا کردیتا ہے لیکن جب دین پر مصیبت آتی ہے تو پھر ناموس کو بھی فدا کردینا چاہئے۔ لیکن دنیا میں آج تک ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا سوائے امام حسین کے جو گھر سے اپنی بیٹیوں اوربہنوں کو لے کر چلے۔ جنہوں نے غالباً دن کے وقت گھر کے باہر کی دیوار تک نہ دیکھی تھی۔ اگر کبھی نانا کی زیارت کا شوق ہوا، خود نہیں گئیں، امیر المومنین علیہ السلام سے یا بھائیوں سے کہا کرتی تھیں۔

بابا! اماں کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔نانا کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے، اجازت دیجئے۔ امیر المومنین اجازت دیتے تھے ۔ مگر پہلے یہ حکم دیتے تھے کہ یہاں سے جنت البقیع تک جو راستہ ہے، اس راستے میں اِدھر اُدھر جو کوچے ہیں، پہلے وہ بندکردئیے جائیں کہ کوئی اِن کوچوں سے گزرنے والا نہ گزرے۔ اس کے بعد جب نکلتی تھیں شہزادیاں تو ایک طرف امام حسن ہوتے تھے اور ایک طرف امام حسین ہوتے تھے۔ اِن شہزادیوں کو حسین اپنے ہمراہ لے کر جارہے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد بازاروں میں پھرائی جائیں گی۔ یہ درباروں میں لائی جائیں گی۔ اب آپ سمجھئے کہ دین پر حسین کا کتنا بڑا احسان ہے۔

عاشورہ کا دن ہے، کوئی نہیں رہاامام حسین کے ساتھ۔ علی اصغر کو دفن کرچکے۔ علی اکبر کا لاشہ اُٹھا کر لے جاچکے ہیں۔ عباس کے بازو قلم ہوچکے۔ دریا پر چھوڑ آئے کیونکہ وصیت یہ تھی کہ مجھے نہ لے جائیے گا۔ یہ سب کچھ ہوچکا۔ اب امام حسین میدان میں کھڑے ہوئے اُن سے کہہ رہے ہیں:

کوفے اور شام کے لوگو!دیکھو، اب میرا کوئی نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا لیکن تھوڑا سا پانی تو پلا دو۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا۔ چند لمحوں کے بعد ایک شخص کی آواز آتی ہے داہنی طرف سے :پیاسے میرا سلام!امام حسین اُس طرف دیکھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہوا ہے مسافرانہ لباس میں۔ ہاتھ میں کشکول پانی سے بھرا ہوا۔ آپ نے فرمایا: تو کون ہے جو یہاں مجھے سلام کررہا ہے کیونکہ یہاں تو کوئی مجھے سلام کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ اس نے کہا کہ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں، میرا دل چاہا کہ میں کچھ سیاحت کروں۔ سیاحت کیلئے گھر سے چلا تھا۔ آج اس دریا کے کنارے پہنچا، کنارے پر بیٹھ گیا۔پانی پیا، منہ ہاتھ دھویا۔ بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ تھوڑا سا دم لے لوں، پھر چلوں گا۔ پیاسے! ایک مرتبہ تیری آواز جو کان میں آئی کہ مجھے پانی پلا دو، میرے دل کی رگیں کٹ گئیں۔ اتنا اثر کیا کہ میں بیٹھ نہ سکا۔یہ پانی بھر کر لایا ہوں، لے پی لے۔آپ نے فرمایا: خدا تجھے جزائے خیر دے، میں پانی نہ پیوں گا، چلا جا ، دور نکل جا کیونکہ اس کے بعد جو میری فریاد کی آواز بلند ہوگی، وہ جو کوئی سن لے گا اور نہ آئے گا، تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو چلا جا۔ اُس نے کہا : میں چلا تو جاؤں لیکن تو پانی تو پی لے۔ دیکھ! تیرے ہونٹ خشک ہوگئے ہیں، تیری آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے ہیں۔

جلدی سے یہ پانی پی لے۔ آپ نے فرمایا: بھائی! اب کیا پیوں گا؟ ابھی ابھی اپنے چھ ماہ کے بچے کی قبر بنائی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرے جوان بیٹے کی لاش پڑی ہوئی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرا بھائی نہر کے کنارے پڑا ہوا ہے، پانی ہی کیلئے گیا تھا۔ اب میں کیا پانی پیوں گا۔ وہ کہتا ہے: پھر کیوں مانگ رہے تھے پانی؟ آپ نے فرمایا: اتمامِ حجت کررہا تھا کہ کل یہ نہ کہیں کہ مانگتے تو دے دیتے۔ مظلوم! یہ تیرا سارا خاندان تباہ ہوگیا، کوئی نہ رہا، آخر تیرا کیا قصور تھا؟

آپ نے فرمایا: یہ قصور تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یزید کی بیعت کرلو۔ میں کہتا تھا کہ فاسق و فاجر کی بیعت نہ کروں گا،دین تباہ ہوجائے گا۔ یہ جو لفظ آپ نے کہے تو وہ ایک مرتبہ گھبرا گیا۔ سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے بعد کہتا ہے: مظلوم! تیرا وطن کہاں ہے؟ امام حسین نے فرمایا: مدینہ۔ ارے کس قبیلے کا ہے؟کہا بنی ہاشم۔ یہ جو کہا تو ایک مرتبہ اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ رسول سے کیا قربت ہے؟ فرمایا: میرے نانا ہوتے ہیں۔ تیرا نام کیا ہے؟ کہا: حسین ابن علی ۔ یہ نام سننا تھا کہ وہ کہتا ہے کہ جنابِ فاطمہ زہرا کے فرزندآپ ہی ہیں؟ امام حسین نے فرمایا: ہاں، میں ہی ہوں۔ اُس نے کہا: آقا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں سے لڑکر اپنی جان فدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت نہیں دوں گا بلکہ تو اپنے گھر چلا جا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو تو اپنی ایک بیٹی چھوڑکر آیا ہے، وہ تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ یا حسین ! سکینہ کا بھی کبھی خیال آیاکہ آپ کے بعد کیا ہوگا؟

امام زین العابدین پر غشی کا طاری ہونا

اگر امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی میں امام زین العابدین علیہ السلام کو اپنا وصی نہ بناگئے ہوتے تو زمین وآسمان نہ رہتے۔ یہ ضروری ہے کہ حجت خدا ہر وقت رہے۔ خلق سے پہلے بھی حجت خدا، بعد میں بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ولی اُٹھتا نہیں جب تک کہ دوسرے کو اپنا قائم مقام نہ بنا لے۔ آئمہ طاہرین میں یہی رہا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام قید خانے میں ہیں اور زہر دے دیا گیا ہے اور آپ کی حالت بس قریب المرگ پہنچ چکی ہے۔ تیسرے دن آپ زمین سے اُٹھ نہیں سکتے تھے۔ لیٹ کر ہی اشاروں سے نمازیں ہورہی ہیں۔ ایک غلام تھا جو مقرر کیا گیا تھا کہ دروازہ اس وقت تک نہ کھولنا جب تک یہ مر نہ جائیں۔ یہ کھڑا ہوا ہے دروازے پر۔یہ تیسرے دن کا واقعہ ہے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان یکایک میرے سامنے آیا۔ وہ اتنا حسین تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند ہو۔ اُس نے حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ میں نے کہا کہ بادشاہ کا حکم نہیں ہے۔

اُس نے کہا کہ ہٹتا کیوں نہیں۔ میرا باپ دنیا سے جارہا ہے، میں اُس کی آخری زیارت کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ غلام ایک طرف ہٹا۔ وہ جوان آگے ہوا، دروازہ خود بخود کھلا۔ وہ داخل ہوا اور دروازہ پھر بند ہوگیا۔ اس کو دیکھتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھادئیے اور سینے سے لگا لیا۔ یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہ جائے۔

امام حسین علیہ السلام بھی آئے اپنے فرزند بیمار کے پاس۔ امام زین العابدین پر عالمِ غشی طاری ہے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہوچکا۔ صبح سے اب تک آپ اس وقت آئے ہیں جب علی اصغر کو بھی دفن کرچکے۔ آخری رخصت کیلئے بیبیوں کے خیمے میں آئے ہیں اور آواز دی کہ میرا آخری سلام قبول کرلو۔ چنانچہ زینب نے پاس بلالیا۔ بھائی سے لپٹ گئیں۔ بھیا! کیا میرے سر

سے چادر اُترنے کا وقت آگیا؟ کیا میرے بازوؤں کے بندھنے کا وقت آگیا؟ امام حسین نے آپ کو تسلیاں دیں۔ آپ نے فرمایا: بہن! اتنی مضطرب نہ ہو۔ اگر تم اتنی مضطرب ہوجاؤ گی تو ان بیبیوں کو شام تک کون لے جائے گا؟ تمہیں سنبھالنا ہے، خدا کے بعد یہ بیبیاں تمہارے حوالے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے تمہارے حوالے ہیں۔ آپ نے وصیتیں کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن! ذرا مجھے میرے بیمار بیٹے تک پہنچا دو۔

جنابِ زینب امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں لے گئیں۔ خدا کسی باپ کو بیٹے کی یہ حالت نہ دکھائے۔ عالمِ غشی میں پڑے ہیں۔ صبح سے بخار کی جو شدت ہوئی ہے تو آنکھ نہیں کھول سکے امام زین العابدین علیہ السلام۔ امام حسین پاس بیٹھ گئے، بیٹے کی شکل دیکھی۔ حالت ملاحظہ کی، آوازدی:بیٹازین العابدین ! باپ کو آخری مرتبہ دیکھ لو۔ اب میں بھی جارہا ہوں۔ امام زین العابدین کی آنکھ نہ کھلی۔ شانے پر ہاتھ رکھا۔ شانہ ہلایا، آنکھ نہ کھلی۔ آواز دی،آنکھ نہ کھلی۔ ایک مرتبہ نبض پر ہاتھ رکھا، بخار کی شدت معلوم ہوئی۔ انجام یاد آگیاکہ تھوڑی دیر کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ آخر باپ کا دل تھا، حسین رونے لگے۔ گرم گرم آنسو جو چہرئہ بیمار پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک خون میں ڈوبا ہوا سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر عابد بیمار پریشان ہوگئے۔

امام حسین نے فوراً کہا:بیٹا! گھبراؤ نہیں۔ اور کوئی نہیں ، تمہارا مظلوم باپ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیال آیا کہ میرے باپ کے اتنے دوست اور رفقاء تھے، یہ کس طرح زخمی ہوگئے؟ آپ پوچھتے ہیں: بابا! حبیب ابن مظاہر کہاں گئے؟ فرمایا: بیٹا! وہ مارے گئے۔ کہا مسلم ابن عوسجہ کیا ہوئے؟ کہا کہ وہ بھی مارے گئے۔ اس کے بعد پوچھا : پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس علمدارکیا ہوئے؟ فرمایا: دریا کے کنارے بازو کٹائے سورہے ہیں۔ عرض کرتے ہیں: بابا! پھر بھائی علی اکبر کہاں ہیں؟فرماتے ہیں: بیٹا! کس کس کا پوچھو گے؟ وہ بھی نہیں، صرف میں رہ گیا اور تم رہ گئے ہو۔

میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آخری وصیت کروں اور اسرارِامامت سپرد کردوں۔ اس کے بعد کچھ فرمایا کہ جس کا تعلق اسرارِ امامت سے تھا اور ایک مرتبہ اُٹھے کہ بیٹا! میں جارہا ہوں۔ اب نہیں آؤں گا۔ دیکھو! ماں بہنوں کا ساتھ ہے بازاروں میں جانا ہے دربار میں جانا ہے، جلال میں نہ آجانا ۔

امام حسین کا مدینہ سے کربلاپہنچنا میدانِ شہادت میں آنا (اورحضرت علی اصغر کے بارے میں ایک روایت)

میرے مسلمان بھائیو! حضرت ابراہیم ہمارے رسول کے داداؤں میں سے ہیں جن کو تقریباً اڑھائی ہزار برس کا فاصلہ ہے۔ ہمارے رسول کے ایک دادا کے گھر میں ایک خوشی ہوئی تھی کہ اُن کا بچہ ذبح ہونے سے بچ گیا تو قیامت تک کیلئے یادگار بن گئی یہ خوشی ۔ تو مسلمانو! اگر تمہارے رسول کا بیٹا ذبح ہوگیا اور اُس کا گھر برباد ہوگیا تو کیا وہ یادگار بننے کے قابل نہیں؟

آپ اس یادگار کی اہمیت کا اندازہ فرمائیں۔ اگر اس کو اس وقت تک ہی رکھا جاتا جب تک کہ شریعت ابراہیمی تھی مگر جب منسوخ ہوگئے احکامِ شریعت ابراہیمی تو اس کے بعد کیا ضرورت تھی اس یادگار کے قائم رکھنے کی؟ مگر نہیں، ایسا نہیں۔ پروردگارِ عالم نے اُمت جنابِ رسالتمآب میں بھی اسے زندہ رکھا۔ جو فریضہ حج سے فارغ ہوچکے ہیں، اُن سے پوچھئے، وہاں جتنے اعمال ہیں، وہ یا جنابِ ابراہیم کی یادگار ہیں یا جنابِ ہاجرہ کی یادگار ہیں۔

وہ چند مرتبہ گئی تھیں اور آئی تھیں پانی کی تلاش میں۔ آج حاجیوں پر وہ عمل فرض ہوگیا جس کا نام ہے سعی یہ بزرگوں کی چیزیں یادگار بن جاتی ہیں۔ ارے یہ واقعہ جس میں ایک نہیں، بہتر( ۷۲) قربان ہوگئے جس میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی قید ہوگئیں۔ اس لئے قید ہوگئیں کہ دین خدا اور رسول بچ جائے، کیایہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بھی یادگار قائم کی جائے۔

میرے بزرگو! یہ تو ایک چیز ہے، اتفاقات ہیں زمانے کے کہ کبھی صرف اس وجہ سے کہ نفس میں ایک کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ چونکہ تم کرتے ہو، لہٰذا ہم نہ کریں گے لیکن اگر یہ صحیح چیز کے متعلق ہے تو کتنی غلط بات ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں ، میں سمجھتا نہیں ہوں بلکہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت وہ ہے جو مسلمانوں میں سب کے نزدیک یکساں عزت و وقار رکھتی ہے بلکہ غیر مسلموں کے بھی۔ اگر حسین کا نام آتا ہے تو سر جھک جاتے ہیں۔ آپ حضرات میں سے کم ہوں گے ایسے لوگ جو اِن چیزوں کو جانتے ہیں۔ آپ اگر جاکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کسی کا نام نہیں ہے غیر مسلموں کی زبان پر، مگر حسین کا کلمہ پڑھا جارہا ہے۔ساڑھے پانچ سو کے قریب ہیں ہندوؤں کی ریاستیں۔راجیوتانے میں ایک بھی ریاست ایسی نہیں جس میں حسین کا تعزیہ نہ بنایا جارہا ہو۔یہ کیوں ہے؟ کیا تعلق ہے ان کا؟ ہمارے ساتھ تو کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ وہ لوگ رسولِ خدا کو نہیں پہچانتے، وہ علی کو نہیں جانتے، اسلام سے واقف نہیں مگر یہ سمجھتے ہیں کہ حسین وہ ہے کہ جس نے انسانیت کو زندہ رکھنے کیلئے سارا گھر لٹا دیا۔

گوالیار کا محرم دیکھیں اور اسی طریقے سے، جس طرف بھی چلے جائیں، غیر مسلم اس واقعہ کی یادگار قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی، اس لاہو رمیں خدائے وحدہ  لاشریک گواہ ہے۔ میں نے پارٹیشن سے پہلے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے گھر میں سال بھر تعزیہ رکھا رہتا ہے۔وہ صبح اُٹھ کر، دروازہ کھول کر، سب گھر والے، ہاتھ جوڑ کو، چوکھٹ پر بیٹھتے تھے اور اپنی پیشانی رکھتے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا: بھائیو! تمہیں کیا ہوا؟ تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے کہ بزرگوں سے چلی آرہی ہے یہ بات کہ یہ ہے بڑا مظلوم اور خدا کی رضا مندی کیلئے انسانیت کے اصولوں کی سربلندی کیلئے، اس نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اس لئے یہ وہ ہے کہ اسے کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔

موہنی روڈ(لاہور) پر ایک ہندو رہتا تھا، دریائی مل ، جو ریلوے میں ملازم تھا۔ مولانا ظفر مہدی صاحب جو سرمراتب علی کے ہاں رہا کرتے تھے، اُن کے بڑے مخالفین میں تھا۔ وہ مجھے خود لے گیا اپنے ہاں اور اُس نے وہ تعزیہ دکھایا جو اُس کے بزرگوں سے چلتا رہا تھا۔تو اب یہ کیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ امام حسین چھا گئے ہیں تمام دنیا کے اوپر۔ وہ کام کرگئے، وہ کارنامہ پیش کرگئے جو ہمارے لئے یعنی مسلمانوں کیلئے تو باعث سربلندی اور باعث فخر ہے ہی، غیر مسلم بھی فخر کرتے ہیں کہ انسانیت میں ایک ایسا شخص پیدا ہوچکا ہے جس نے تمام دنیا سے قطع تعلق کرکے، خدا کے نام کو باقی رکھنے کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔

آج ساتویں تاریخ ہے۔ آج سے امام حسین اور آپ کے جملہ متعلقین پر پانی بھی بند کردیا گیا۔ یعنی مصیبتوں کا ہجوم بڑھتا جارہا ہے۔ مدینہ سے چلے ، محلہ والوں سے کہا، شہر والوں سے نہیں کہا کہ چلو میرے نانا کے دین پر تباہی آرہی ہے۔ علامہ مودودی نے پہلی تاریخ، اس محرم کی، ایک تقریر فرمائی تھی جس میں انہوں نے کئی چیزیں کہی تھیں۔ ان میں یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں دستور اور آئین اسلامی تباہ ہوچکا تھا۔ امام حسین نے دیکھا کہ اگر یہی حالت رہی تو پھر اسلام کا نام رہ جائے گا، باقی کچھ نہ رہے گا۔ اس لئے انہوں نے اپنے گھر کو تباہ و برباد کرنے کیلئے تیار کرلیا کہ یہ رہے نہ رہے مگر خدا کا دین ضرور رہے۔

چنانچہ گھر سے نکلے تو کسی سے نہ کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ صرف اپنی بہنوں، بھائیوں اور گھر والوں سے کہا کہ نانا کی بڑی محنتیں ہیں، انہوں نے اس دین کو بڑی مصیبتیں جھیل جھیل کر یہاں تک پہنچایا ہے، یہ تباہ ہورہا ہے،تم میری مدد کروگے یا نہیں؟ سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ آخر ہم میں بھی انہی کا خون ہے۔ اس لئے ہم تیار ہیں۔ بہنوں نے کہا کہ حسین ! اگر تم قتل ہوسکتے ہو تو ہم قید کی مصیبت جھیل سکتی ہیں۔

سارے کنبے کو لے کر چلے حضرت امام حسین ایک نانی رہ گئیں اُم المومنین اُمّ سلمہ ، جنہوں نے حسین کو اپنی گودمیں پالا تھا۔ ایک وہ بی بی رہ گئیں جن کے چار بیٹے تھے اور اتنے حسین و خوبصورت تھے کہ اُن کی کوئی نظیر نہ تھی۔ یہاں تک کہ بڑا بیٹا تمام حجاز میں قمر بنی ہاشم کہاجاتا تھااور سنتے ہیں کہ ایک چھوٹی بچی رہ گئی۔

امام حسین علیہ السلام مدینہ سے عازمِ سفر ہوئے۔ مکہ میں پہنچے ، دنیا کو یہ بتلانے کیلئے کہ دیکھو! مجھے یہاں بھی امان نہیں، اس کے بعد کربلا پہنچے، وہاں فوجوں نے گھیرنا شروع کیا۔ چاروں طرف سے فوجیں جمع ہونے لگیں۔آج جب ساتویں تاریخ آگئی محرم کی تو نہر پر پہرے بٹھادئیے گئے کہ جانور پانی پی لیں۔ اگر کوئی کافر آئے تو پانی پی لے مگر فاطمہ کے بیٹے کیلئے پانی نہ دیا جائے۔ امام حسین علیہ السلام سے آپ کے ساتھیوں نے عرض کیا: فرزند رسول! اگر اجازت ہو تو ہم ان سے بھی لڑیں، ہم سیروسیراب ہیں۔ یہ اتنے نہیں ہیں کہ ٹھہر سکیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ "نہ"، میں لڑنے کیلئے نہیں آیا ہوں۔ میں تو مرکردنیا کو یہ دکھلاؤں گا کہ یزید ایسا فاسق و فاجر انسان مجھ سے اتنا کینہ رکھتا تھا جتنا میرے نانا محمد مصطفےٰ کا دشمن ہے۔

اپنی اسی پہلی حیثیت سے جس طرح یہ دشمنی چلی آرہی تھی، کیونکہ یہ اگر رسول کا دشمن نہ ہوتا تو اتنا ہی خیال کرلیتا کہ یہ رسول ہی کی بیٹیاں تو ہیں۔ چنانچہ عاشور کا دن آگیا۔ ساتویں کو حکم دیتے تو لڑائی ہوتی، اچھی لڑائی ہوجاتی مگر امام حسین جانتے تھے کہ بنی ہاشم کے بہادر تھوڑی دیر میں ان کو بھگا دیں گے۔میرا مقصد نہیں رہے گا،آٹھویں تاریخ بھی کہا اصحاب نے کہ مولا ! اب بھی موقعہ ہے، مگر آپ دیکھ رہے تھے ان بہادروں کے تیور کہ بازوؤں میں ابھی قوتیں ہیں ، چہروں پر شادابی ہے، ابھی انکار کرتے رہے کہ میں اجازت نہیں دوں گا۔ جب عاشور کی صبح ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ جب چلتے تو پاؤں لرزنے لگتے ہیں، ہاتھ اُٹھتے ہیں تو کانپنے لگتے ہیں بھوک اور پیاس کی وجہ سے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اچھا بہادرو! جب یہ لڑتے ہیں تو تم بھی لڑلو۔ ورنہ اجازت نہیں دی تھی، کیوں؟ اس لئے کہ اگر لڑائی ہوجائے تو ایسا نہ ہو کہ معاملہ اُلٹ جائے۔

حضور! بیٹوں کو، بھتیجوں کو، خود سوار کرکے بھیجا کہ جاؤ اور دشمنوں کی تلواریں کھاؤ۔ پھر آواز آئی کہ بابا! دنیا سے جارہا ہوں۔ باپ پہنچتا ہے اور خود لاش اُتھا کرلاتا ہے اور لاش جب رکھتا ہے تو سجدئہ شکر ادا کرتا ہے کہ پروردگار! تیرا شکر، تو نے اس مقام پر بھی ثابت قدم رکھا۔

اولاد والو!کبھی دنیا میں یہ چیز آپ نے دیکھی ہے؟ یا کسی تاریخ میں پڑھا ہے کہ کسی باپ نے اس طرح سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں اُٹھائی ہوں۔ اصحاب کی لاشیں بھی میدانِ جنگ سے خود اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ اگر کوئی کہتا کہ مولا ! ہم جائیں؟ تو آپ فرماتے کہ اُس نے مجھے پکارا ہے، تم ٹھہرو، میں جاؤں گا۔ جتنی اُس وقت میرے اوپر مصیبتیں زیادہ ہوں گی، پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں اتنے میرے درجات بلند ہوں گے۔

میرے بزرگو! امام حسین کی جنگ کربلا میں ایک شخص سے جنگ نہ تھی بلکہ دس گروہ تھے جن سے جنگ تھی۔کس سے جنگ تھی؟ ان دشمنوں سے جنگ تھی جو قتل کیلئے آئے تھے ۔ اور کس سے جنگ تھی؟ ان آوازوں کے ساتھ جنگ تھی جو خیموں سے بلند ہوتی تھیں کہ "العطش"، پیاس نے مار ڈالا۔ اس تخیل سے جنگ تھی کہ بیبیاں قید ہوجائیں گی۔ بھوک اور پیاس سے جنگ تھی۔ اصحاب کے صدمات، عزیزوں کے مصائب یعنی اِن تمام سے امام حسین ایک وقت میں مقابلہ کررہے تھے۔

میرے بھائیو! اپنے گھر جاکر یہ سوچنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ پوچھ بیٹھیں کہ میرے فرزند نے تمہارا کیا قصور کیا تھا کہ دنیا کی چیزیں یادگار کے قابل اور میرے بیٹے کو یاد کرنے کیلئے کوئی وقت نہیں؟جس نے دین بچانے کیلئے سارا گھر لٹا دیا؟ آخری دو فقرے عرض کرکے ختم کرتا ہوں۔

حضور! آخر میں کوئی نہ رہا تو آپ نے ایک آواز دی تھی کہ کوئی اگر مدد کرنے والا ہے تو آجائے۔ کل یہ نہ ہو کہ کوئی کہے کہ حسین نے پکارانہ تھا۔ یہ آواز جو خیموں میں پہنچی تو ایک بچہ تھا چھ مہینے کا حسین ہی کا وہ کچھ اس طرح سے تڑپا کہ گہوارے سے گر پڑا۔ آپ نے بچے کو لیا، میدان میں آئے۔ فرماتے ہیں : کوفے اور شام کے رہنے والو! اس بچے کو دو گھونٹ پانی کے پلا دو۔یہ بچہ تو کسی مذہب و ملت میں قصوروار نہیں۔ اس کے بعد بچے سے کہتے تھے:بیٹا! تم بھی مانگ کر دیکھ لو۔ علی اصغر نے اپنی سوکھی زبان ہونٹوں پر پھیرنی شروع کردی۔ فوجِ شام یہ دیکھ کر گھبرائی۔ عمر سعد نے حرملہ سے کہا: کیا دیکھتا ہے، امام کے کلام کو قطع کر۔ اُس نے تیر کمان میں جوڑا۔

اولاد والو! تمام کتب مقاتل میں لکھا ہے کہ تین بھال کا تیر تھا، ہائے اصغر کا گلا، تیر آیا اور گلے کو چھیدتا ہوا، حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ امام حسین نے تیر جو بازو سے نکالا تو تیر کے ساتھ ساتھ اصغر کا گلابھی چلا آیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:بیٹا! اب تیر تیری گردن سے نکالنے لگا ہوں۔ اصغر مسکرائے، مطلب یہ کہ میری ماں سے کہہ دینا کہ امی جان! تیرا بیٹا رویا نہیں۔

شہادتِ مسلم بن عوسجہ

(امام زین العابدین کا آوازِ استغاثہ سن کر میدانِ جنگ کی طرف جانا،امام حسین کا کہنا کہ بیٹا! واپس چلے جاو، ابھی تم نے اس سے بھی بڑا جہاد کرنا ہے)

آج ساتویں تاریخ ہوگئی۔ آج کربلا میں نہر کے گھاٹ پر پہرے بٹھادئیے گئے کہ کافر اگر پانی پینا چاہیں تو پلادینا مگر رسول کی اولاد کو پانی نہ دینا۔ یہ غالباً آج ہی تاریخ ہے سات محرم کہ جب فوجوں کے ہجوم ہونے لگے تو مسلم ابن عوسجہ نے امام زین العابدین علیہ السلام سے یہ کہا کہ آقا زادے! ذرا آپ کچھ ادھر آئیں تو میں کچھ بات کروں۔ آپ چلے گئے۔ مسلم ابن عوسجہ نے کہا: شہزادے ! دیکھ رہے ہیں آپ، یہ فوجیں چلی آرہی ہیں اور یہ صرف ہمارے امام کے ایک سر کیلئے آرہی ہیں۔ آپ ہم میں موجود ہیں اور آپ کے رگ و پے میں علی کا خون دوڑ رہا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے ہم بغیر امام نہ ہوں گے۔ یہ جو مسلم نے کہاتو امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک انگڑائی لی اور فرماتے ہیں کہ :مسلم! مجھے شجاع بنانا چاہتے ہو، ارے کس کی مجال ہے کہ میں موجود ہوں اور میرے باپ کو کوئی میلی نظر سے دیکھ سکے۔ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔

امام حسین علیہ السلام کا گھر بھی ایسا گھر تھا کہ کبھی چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا۔ امام زین العابدین اپنے دادا امیرالمومنین علیہ السلام سے مشابہ تھے۔ بائیس سال کی عمر تھی جب کربلا میں آئے تھے۔جب کبھی گھوڑے پر سوار ہوکر گزر جاتے تھے تو یہی گمان ہوتا تھا کہ علی جارہے ہیں۔ دوسرا بیٹا نانا کا ہم شکل ، سر سے پاؤں تک معلوم ہوتا تھا کہ رسول ہیں۔ کیسا پُر رونق گھر تھا ۔ کربلا میں سارا گھر تباہ ہوگیا۔

جب امام زین العابدین علیہ السلام نے مسلم سے یہ کہا تو جنابِ مسلم ابن عوسجہ چپ ہو

گئے۔امام زین العابدین آئے خیمے کی طرف اور غلام کو آواز دی کہ گھوڑے پر زین رکھ کر لے آؤ۔ آپ اندر چلے گئے۔ پھر واپس آئے تو خَود تھا سر پر۔ جسم مبارک پر زرہ تھی اور مسلح تھے۔ غلام نے گھوڑا آگے بڑھایا۔ آپ سوار ہوئے، میدانِ کربلا میں ٹہلنا شروع کیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ علی آئے ہیں اور ٹہل رہے ہیں۔ کبھی فوجوں کی طرف نگاہِ غیظ کہ میرے باپ کے قتل کیلئے جمع ہوئے ہیں اور کبھی اپنے مظلوم باپ کی طرف نظر۔ جب تھوڑی دیر ہوگئی اور امام حسین نے یہ طور دیکھے تو آواز دی: بڑی دیر سے ٹہل رہے ہو، آؤ نا گھر میں چلے آؤ۔ باپ کا جو حکم ہواتو گردن جھکائے ہوئے واپس ہوئے اور خیمے میں داخل ہوگئے۔ خیمے میں داخل ہونا تھاکہ اس کے بعد اس وقت نہ نکل سکے کہ جب تک ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہ پڑ گئیں۔ ایک مرتبہ ذرا نکلے تھے اور جنابِ اُمّ کلثوم پھر لے گئی تھیں۔ جاتے ہی بخار چڑھا اور بخار شدید ہوتا گیا، یہاں تک کہ صبح ہوئی ہے آٹھویں کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ قدرت کو منظور تھا یہی کہ سلسلہ امامت قائم رہے اور پھر یہ بھی تو تھا کہ یہ شہزادیاں تنہا کس طرح جائیں گی! کوئی تو ہو جو کبھی اُن سے بات کرسکے۔ اس لئے یہ بخار چڑھا اور ایسا چڑھا کہ آپ اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ صبح کے وقت کچھ افاقہ ہوتا تھا، پھر آنکھیں بند ہوجاتی تھیں۔ نویں تاریخ کو کمزوری بہت بڑھ گئی۔ ذرا رات کو آنکھ کھلی تھی تو پھوپھی سے کچھ باتیں کرلیں۔

فرماتے ہیں: پھوپھی جان! میرے بابا کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا:اصحاب سے باتیں کررہے ہیں۔ تو سرکتے سرکتے کچھ آگے آئے اور امام حسین کی یہ بات جو سنی کہ میرے ساتھیو! میرے صحابیو! مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ۔ میں کل شام تک شہید ہوجاؤں گا۔ یہ آواز جو سنی تو آپ نے ایک چیخ ماری۔ امام حسین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی، دوڑتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اُٹھا کر اندر لے گئے۔ فرماتے ہیں: بہن زینب ! میرے بیٹے کا خیال رکھنا۔ نمازِ صبح کے وقت افاقہ سا ہوا، نماز پڑھی۔ گھر میں بھائیوں کو دیکھ لیا، چچاؤں کو دیکھ لیا۔ باپ کا دیدار کرلیا۔ سب صحیح و سالم تھے۔ ادھر آفتاب نکلا، اُدھر بخار کی شدت ہوئی اور غشی طاری ہوگئی۔

حبیب ابن مظاہر مارے گئے، زہیر بن قین مارے گئے، مسلم ابن عوسجہ مارے گئے، قاسم کی لاش آگئی اور خیمہ میں بیبیوں کا ماتم ہوگیا۔ مگر امام زین العابدین پر ابھی غشی طاری ہے۔ علی اکبر بھی اُٹھ گئے دنیا سے۔ علی اصغر کی ننھی سی لاش کو سپردِ خاک کیا جاچکا۔علی اصغر کی قبر بناکر امام حسین خیمے کے دروازے پر آئے اور آواز دی: میری بہنو! میراآخری سلام، جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا!خیمے میں آجائیے۔ خیمے میں آئے تو بہن نے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور رونا شروع کیا۔ امام نے فرمایا: بہن! اب رونے کا وقت نہیں۔ میرا امتحان ختم ہورہا ہے۔ تمہارا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ بہن! اتنی خواتین کو ساتھ لے کر جانا ہے، صبر سے کام لینا، بددعا نہ کردینا۔

پھر فرماتے ہیں : اچھا بہن!ذرا مجھے میرے بیمار فرزند تک تو لے چلو۔ میں اُس کو آخری مرتبہ دیکھ لوں۔ آپ امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں آئے۔ عالمِ غشی میں آنکھیں بند ہیں۔ بیٹھ گئے، آواز دی، زین العابدین بیٹا! باپ آیا ہے، ذرا آنکھیں کھولو،کچھ باتیں کرلو۔آپ کی آنکھ نہ کھلی۔ شانہ پکڑ کر ہلایا، بیہوشی نہ ٹوٹی۔ نبض پرہاتھ رکھا، بخار کی شدت محسوس ہوئی۔ خیال آیا :ارے یہ بخار کی یہ کیفیت! کمزوری کی یہ حالت!اِن ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کیسے پڑیں گی؟ پاؤں میں بیڑیاں کس طرح پڑیں گی؟ آخر باپ کا دل تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ آنسو بیمار کے چہرے پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں جو کھولیں تو صبح باپ کو دیکھا تھا کہ نہ کوئی زخم ہے، نہ کپڑوں پر خون کا کوئی نشان تھا۔ اب جو آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک زخمی، خون میں ڈوبا ہوا سامنے ہے۔

پریشان ہوگئے۔ امام حسین نے فرمایا: بیٹا! گھبراؤ نہیں، تمہارا مظلوم باپ تمہیں ملنے کیلئے آیا ہے۔ امام حسین کو پہچانا۔ خیال آیا کہ میرے باپ اتنے زخمی ہوگئے۔ اتنے عزیز تھے، دوست تھے، وہ کیا ہوئے؟ تو پوچھتے ہیں: بابا! وہ بچپن کے دوست حبیب کہاں گئے کہ آپ زخمی ہیں؟ فرمایا: بیٹا! وہ مارے گئے۔ کہا: مسلم بن عوسجہ کیا ہوئے؟ بیٹا وہ بھی مارے گئے۔ آخر میں عرض کرتے ہیں: پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس کہاں گئے جو آپ زخمی ہوگئے؟ فرماتے ہیں :بیٹا! نہر کے کنارے بازوؤں کو کٹائے ہوئے سورہے ہیں۔

اس کے بعد عرض کرتے ہیں: بابا! میرے بھائی علی اکبر ؟ فرماتے ہیں: سینے پر نیزہ کھا کر دنیا سے اُٹھ گئے۔ بیٹا! اب میں آیا ہوں تم سے رخصت ہونے کیلئے۔ تھوڑی دیر باقی ہے کہ میں بھی نہ رہوں گا۔ یہاں بہنوں کا ساتھ ہے، کمزوری ہے، تکلیف زیادہ ہو تو بددعا نہ کرنا۔

امام حسین میدان میں آئے، اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا تو ایک مرتبہ آپ نے آواز دی۔ یہ غالباً آخری مرتبہ کا استغاثہ ہے:"هَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا " ۔ "کوئی ہے جو اس عالم بیکسی میں میری فریاد رسی کرے"۔ یہ آواز وہ تھی جو عالم کے ہر ذرّہ تک پہنچی اور تو کسی نے جواب نہ دیا لیکن خیموں سے بیبیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئیں۔اب جو امام نے خیموں کی طرف مڑ کر دیکھا تو کیا قیامت دیکھی!امام زین العابدین علیہ السلام ایک تلوار پکڑے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر سرکتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ جنابِ اُمّ کلثوم پیچھے سے قمیص کا دامن پکڑے ہوئے ارے بیٹا! کدھر جارہے ہو؟عرض کرتے ہیں: پھوپھی جان! میرا مظلوم باپ فریاد کررہا ہے، مجھے جانے دیجئے۔

مجلسِ شبِ عاشور

حضراتِ محترم! امام حسین کی زندگی کی آخری رات آگئی۔ آج کچھ بیان کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ بس دل یہ چاہتا ہے کہ کچھ میں رولوں اور کچھ آپ رولیں۔ خداجانے اس کے بعد زندگی ہے یا نہیں۔ یہ رونا وہ رونا ہے کہ انبیاء روتے رہے، مرسلین گریاں رہے۔آئمہ طاہرین کی وصیتیں ہیں کہ کچھ ہوجائے، دنیا کتنی ہی کروٹیں لے مگر حسین کو نہ بھول جانا۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کی عاشور کی صبح کو اس طرح سے گریہ کرنا جس طرح سے ایک ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر روتی ہے۔

افسوس! کہ جن کی وجہ سے اسلام، اسلام بنا، جن کی وجہ سے اسلام کی تکمیل ہوئی تھی، آج وہ وقت آگیا کہ عبادت کیلئے ایک رات کی بھیک مانگنا پڑی۔یہ الفاظ، بہت ممکن ہے کہ آپ حضرات کو گراں گزرے ہوں لیکن کیا کروں کہ واقعہ یہی ہے۔

آج دوپہر کے وقت شمر ملعون کربلا کی سرزمین پر پہنچا ہے دوہزار سواروں کے ساتھ۔ جس طرح سے اور بہت سے واقعات اہلِ بیت کو معلوم تھے، یہ بھی معلوم تھا کہ امام حسین کا قاتل ایک شخص ہوگا جس کا نام ہوگا شمر جب یہ لوگ کربلا پہنچے تو انہوں نے گھوڑے اِدھر اُدھر اور اُدھر سے اِدھردوڑانے شروع کئے تو زمین لرزنے لگی۔ بیبیوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟کسی نے کہا کہ شمر آگیا۔ بیبیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مایوسانہ نگاہ سے دیکھا۔ دن ختم ہونے کو تھا۔ امام حسین کسی فکر میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے جو جنابِ زینب کے خیمے کے باہر لگی ہوئی ہے۔ کچھ نیند سی آگئی۔ شمر یہ حکم لایا تھا ابن سعد کے نام ، ابن زیاد نے حکم دیا کہ پانچ ہزار سوار خیمہ گاہِ حسین پر حملہ کردیں۔ جس وقت وہ سوار آگے بڑھے، جنابِ زینب خیمے کے پردے سے لگی ہوئی کھڑی تھیں۔ بھائی کا منہ دیکھ رہی تھیں اور غالباً یہ خیال تھا کہ کل میرا بھائی مجھ سے بچھڑ جائے گا۔

جب میدان کی طرف دیکھا تو نظر آیا کہ سوار خیموں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک

مرتبہ ہاتھ بڑھا کر امام حسین کا بازوپکڑ کر ہلایا۔ آپ نے فرمایا : بہن کیا بات ہے؟ کہا: بھیا! فوجیں بڑھ رہی ہیں۔امام حسین نے جنابِ عباس کو آواز دی۔ عباس ! ذرا ان سے جاکر پوچھو، یہ خیموں کی طرف کیوں آرہے ہیں؟ اِن کا ارادہ کیا ہے؟ جنابِ عباس ، حبیب ابن مظاہر ، زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ ، یہ سب کے سب آگے بڑھے۔ قریب پہنچ کر جنابِ عباس نے آواز دی: رُک جاؤ وہیں، خدا جانے کیسا اثر تھا کہ ایک مرتبہ گھوڑوں کی باگیں کھنچیں اور فوج رُک گئی۔ فرمایا: کیوں بڑھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے کہ خیمہ ہائے حسین پر حملہ کردیا جائے۔ اسی کی تعمیل میں ہم بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہیں ٹھہرے رہو جب تک میں اپنے آقا سے اجازت نہ لے آؤں۔ جو کچھ وہ جواب دیں گے، اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ ٹھہر گئے وہ لوگ۔ جنابِ عباس آئے: آقا! یہ جنگ اس وقت کرنا چاہتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا: بھیا! ان سے کہہ دو کہ میں ایک رات میں کہیں نہیں چلا جاؤں گا۔ مجھے ایک رات کی مہلت دے دو کہ میں جی بھر کر اپنے خدا کو یاد کرلوں۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمیں حکم نہیں ہے، ہم اجازت نہیں دیں گے۔مگر فوراً ہی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اگر ترک و دیلم کافر ہوتے اور وہ ہم سے ایک رات کی اجازت مانگتے تو ہم دے دیتے۔ ارے یہ تو فرزند رسول ہیں۔یہ اگر ایک رات کی اجازت مانگ رہے ہیں تو دے دینے میں کیا حرج ہے؟ابن سعد کو خبر کی گئی۔ اُس نے یہ بات منظور کرلی گئی کہ اچھا اب جنگ کل صبح کو ہوگی۔

حضور! ایک رات مل گئی۔ میں نے یہ کہا تھا کہ مانگی ہوئی رات ہے، کیا حالت ہے؟ بیبیوں کی کیا حالت ہوگی؟ اصحاب کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کا تصور کوئی نہیں کرسکتا۔ بیبیاں یہ سمجھ رہی ہیں کہ کل تک یہ خیمے کچھ نہ ہوں گے۔ اصحاب یہ جان رہے ہیں کہ کل ہم نہ ہوں گے۔ جس قدر ہوسکے، خدا کی عبادت کرلو۔ سبحان اللہ! تاریخوں میں یہ الفاظ ہیں کہ سوکھے ہوئے ہونٹوں سے خدا کی تسبیح اس طرح سے کررہے تھے حسین کے ساتھی کہ آسمان و زمین گونج رہے تھے۔

اب مثال یہ دی ہے کہ جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز پھیلتی ہے۔ اسی طرح سے میدانِ کربلا میں اُن کی تسبیح کی آواز پھیل رہی تھی۔ امام حسین کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر تسبیح فرماتے تھے اور کبھی تھوڑی دیر کے بعد خیموں میں چلے جاتے تھے بیبیوں کو تسلیاں دینے کیلئے۔ ایک اہم واقعہ جو جو اِس شب میں ہوا، وہ یہ ہے کہ جنابِ زینب نے فضہ سے کہا ہے کہ فضہ! ذرا میرے ماں جائے کو تو بلالاؤ۔ امام حسین کو فضہ نے آواز دی: آقا! شہزادی عالم یادکررہی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گردن جھکائے ہوئے خیمے کے دروازے پہر پہنچے، پردہ اُٹھایا، اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ جنابِ زینب زمین پر سرجھکائے بیٹھی رو رہی ہیں۔

عزادارانِ حسین ! امام حسین نے پاس جاکر آواز دی: بہن! مجھے کیوں بلایاہے؟ بہن نے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال دئیے۔ فرمایا:بھیا حسین ! ذرا بیٹھ جاؤ، میری ایک بات سن لو۔ جب مدینہ سے چلے، بہت مرتبہ دل گھبرایا مگر بھیا! تم سے نہ کہا تاکہ ایسا نہ ہو کہ میرے بھائی کو رنج ہو۔ اس کے بعد جب مکہ آئے اور مکہ سے نکلنا پڑگیا تو میرا دل اور زیادہ گھبرانے لگا مگر میں ضبط کرتی رہی۔ آپ سے کبھی ذکر نہ کیا۔ میرے بھائی حسین ! جس دن سے اس زمین پر پہنچے ہیں، ہر وقت میرا دل دھڑکتا رہا مگر میں نے آپ سے ذکر نہ کیا۔ میرے بھائی حسین ! یہ کیسی رات ہے کہ دل کو کسی طرح سے قرار نہیں آتا؟

میرے بھیا حسین !اس وقت میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے۔ امام حسین نے کچھ تسلی دی۔ بہن! ابھی تو پوری رات ہے۔ کل ہوگا، جو کچھ ہوگا۔ اتنی کیوں گھبرا گئیں؟ اگر اتنی گھبرا جاؤ گی تو یہ بچے اور خواتین کس کے سپرد کروں گا؟ یہ بیبیاں کس کے ساتھ جائیں گی؟جنابِ زینب نے عرض کیا:میرے بھائی! اور سب چیزوں کو جانے دیں، مجھے یہ بتلائیں کہ یہ کون بی بی ہے جو خیموں کے دوسری طرف اکثر فریاد کرتی ہیں؟امام حسین نے فرمایا: بہن! پہچانا نہیں، یہ ہماری ماں فاطمہ زہرا ہیں جو ہمارے قافلے کے ساتھ ساتھ آئی ہیں۔۔

اچھا حضور!اصحاب کی یہ کیفیت ہے کہ باری باری کچھ پہرہ دے رہے ہیں اور باقی عبادت میں مشغول ہیں۔ کبھی پہرہ دینے والے عبادت کیلئے چلے جاتے ہیں اور باقی آکر پہرہ دینے لگتے ہیں۔ کیا دنیا نے کبھی ایسے اصحاب دیکھے ہیں؟

ارے جنگ اُحد میں رسول کے ساتھ تین آدمی رہ گئے تھے۔ جنگ حنین میں زیادہ سے زیادہ نو( ۹) آدمی جنابِ رسولِ خدا کے ساتھ رہ گئے تھے۔ دنیا میں کبھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو جانتے ہوں کہ زندگی ختم ہورہی ہے لیکن ہونے سے پہلے یہ نہ دیکھیں کہ حسین کا کوئی بچہ زخمی ہوا۔

اس شب کا ایک واقعہ کتابوں میں آگیا اور وہ یہ کہ ادھر ابن سعد نے افسرانِ فوج کو جمع کیا ہے اور مشورہ ہو رہا ہے کہ کل صبح جنگ کس طرح سے شروع کی جائے تاکہ جلدی ختم ہو اور ابن زیاد کو خبر دی جائے کہ ختم ہوگئی۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ میں ایسا کرسکتا ہوں کہ آج رات کو ہی جنگ ختم ہوجائے۔ کل ضرورت ہی نہ رہے فو ج کے لڑنے کی۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کس طرح؟ اس نے کہا کہ جنگ ختم ہوجانے کا مقصد بس حسین کا قتل ہوجانا ہی تو ہے۔اگر حسین آج رات ہی قتل ہوجائیں تو پھر باقی کیا رہ جائے گا! اس سے پوچھا گیا کہ اس وقت کیسے اُنہیں قتل کیا جاسکتا ہے؟ اُس نے کہا کہ میں ابھی جاتا ہوں امام حسین کے پاس۔ اُن پر حملہ کردوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ میں بھی مارا جاؤں گا لیکن تم ابن زیاد کے پاس جاکر میرے بچوں کی سفارش کردینا۔ چنانچہ یہ وہاں سے چلا، تلوار اس کے ہاتھ میں ہے۔ رات کا وقت ہے، آدھی رات سے زیادہ گزرچکی ہے۔ یہ جس طرف سے آرہا تھا، اس طرف ہلال پہرہ دے رہے تھے۔ ہلال نے دیکھا کہ کوئی شخص ادھر آرہا ہے۔ جب وہ قریب آیا تو اُنہوں نے اس کو روکا : کون ہے جو ادھر آرہا ہے؟ اُس نے اپنا نام بتایا۔ جب اور قریب آگیا تو انہوں نے کہا: کدھر جارہے ہو؟ اُس نے کہا کہ میں امام حسین کے پاس جارہا ہوں، کچھ میرا کام ہے۔

آپ نے کہا: بے شک جاؤ، وہ امامِ وقت ہیں۔حاجت روائے عالم ہیں، تم جاؤ مگر یہ تلوا ریہاں رکھ جاؤ۔ اُس نے کہا: دیکھو! یہ میری توہین ہے ، میں تلوار ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ہلال نے کہا: آج تو نہیں جانے دوں گا۔ اُس نے کہا: نہیں، مجھے ضروری جانا ہے۔ اس کے بعد اُس نے قدم بڑھانے کا ارادہ کیا۔ ہلال نے وہیں سے آواز دی: قدم بڑھایا تو سر نہ ہوگا۔ یہ آواز کچھ اتنی بلند ہوگئی تھی کہ امام حسین کے کانوں تک پہنچی۔ امام حسین نے آواز دی: ہلال! کون ہے؟ کس سے باتیں کررہے ہو؟ جنابِ ہلال نے عرض کیا: مولا !یہ شخص آپ کی خدمت میں آنا چاہتا ہے۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک تلوار نہ رکھ دے۔ مجھے اس کی صورت سے اندیشہ معلوم ہوتا ہے ۔ امام حسین نے فرمایا: ہلال! آنے دو۔ اب امام کا حکم، کیا کریں ۔ ہلال نے اُسے چھوڑا مگر کس طرح؟ جب وہ امام حسین کے سامنے جا کھڑا ہوا تو امام حسین نے دیکھا کہ اُس کی تلوار کے قبضے پر ہلال کا ہاتھ ہے۔ یہ دیکھ کر امام حسین مسکرائے۔ہلال! یہ کیا ہے؟ عرض کرتے ہیں: مولا ! مجھے اس بات کی اجازت دیجئے کہ میں اس کی تلوار کے قبضے پر سے ہاتھ نہ ہٹاؤں۔

ہلال نے اس وقت اس کی تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ارے عاشور کے دن تم سب کے سب کہاں تھے جب شمر خنجر لے کر آیا تھا، کوئی نہ تھا جو اس پر ہاتھ رکھتا۔ کیا عرض کروں، رات گزررہی ہے۔ بس ایک دفعہ عرض کردوں۔ کتابوں میں یہ چیز بھی ہے کہ امام حسین بیبیوں کے خیموں کی طرف وقفوں وقفوں سے جاتے ہیں۔ ایک یہ مقصد ہے کہ کوئی چھپ کر ادھر نہ آجائے اور یہ بھی مقصد ہے کہ ذرا بیبیوں کو دیکھیں کہ کس عالم میں ہیں۔ بعض کتابوں میں یہ بھی ہے کہ جب مادرِ علی اکبر کے خیمے کی طرف تھے تو دیکھا کہ علی اکبر کچھ آرام کررہے ہیں۔ ماں نے ایک شمع جلا رکھی ہے اور پاس بیٹھی ہوئی علی اکبر کی صورت دیکھ رہی ہیں۔ ماں کہہ رہی ہے: میرے لال! کل یہ چاند سی تصویر مٹ جائے گی۔ جنابِ زینب کے خیموں کی طرف گئے، دیکھا کہ زینب نے اپنے بچوں کو بٹھا رکھا ہے اور فرمارہی ہیں: بچو! کل قربانی کا دن ہے۔ میں تمہیں اپنے بھائی پر قربان کردوں گی۔ بہرحال امام حسین روتے رہے۔

بس حضور!اب اس سے آگے نہیں کہہ سکتا۔ بس ایک دو فقرے آخر کے سن لیں۔ کل نہ خیمے ہوں گے، یہ بیبیاں اس وقت پردے میں بیٹھی ہیں، کل فرش پر بیٹھی ہوں گی، نہ اُن کے بھائی ہوں گے، نہ اُن کے بیٹے ہوں گے۔

صبح سے جنگ شروع ہوگئی۔ وہ وقت آیاکہ اب حسین کا کوئی مددگارنہ رہا۔ ایک مرتبہ فریاد کی آواز بلند کی:

"هَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا،هَلْ مِنْ مُغِیْثٍ یُغِیْثُنَا

"کوئی ہے جو اس عالمِ بیکسی میں میری مدد کو آئے"۔

بیبیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ حسین آئے، جنابِ زینب نے کہا:علی اصغر نے اپنے آپ کو گہوارے سے گرادیا۔ فرماتے ہیں: ہاں! مجھے دے دو۔ لے آئے میدان میں۔ بچے کے تیر لگا۔ حسین نے قبر بنائی، دورکعت نمازِ شکر ادا کی۔ پھر اس کے بعد خیمے میں آئے۔ آخری مرتبہ خیمے میں آئے۔ اب ذراتصور تو کیجئے، صبح کے وقت گھر بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کوئی نہیں ہے۔ علی اکبر بھی سینے پر برچھی کھائے ہوئے سورہے ہیں۔ عباس بھی نہر کے کنارے بازو کٹائے ہوئے آرام کررہے ہیں۔ امام حسین خیمے کی طرف تشریف لائے اور اب وہ فریاد کی آواز ہے۔ دنیا میں کوئی نہ تھا جس کے کان میں یہ آواز نہ پہنچی ہو۔ امام حسین نے فرمایا: کوئی ہے جو اس مصیبت کو حرمِ رسول سے دور کرے! کوئی ہے جو میری فریاد کو پہنچے!

حضورِ والا!یہ جو ایک دو مرتبہ آواز بلند کی اور کسی طرف سے جواب نہ آیا۔ میرے خیال میں جو انبیاء کھڑے ہوئے ہیں نا میدانِ کربلا میں، انہوں نے لبیک کہا ہوگا مگر حسین نے فرمادیا ہوگا: تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ اب کیا ہوا، یہ دوسری مرتبہ فریاد کی آواز جو بلند کی، یہ دوسری مرتبہ ہے کہ خیموں سے بیبیوں کے رونے کی آواز باہر آئی۔ اب جو دیکھا تو یہ قیامت دیکھی کہ امام زین العابدین علیہ السلام ، جو غشی کے عالم میں تھے، جب یہ آواز اُن کے کان میں پہنچی، ایک مرتبہ اُٹھے، تلوار پکڑی، گھٹنوں کے بل چلے، خیمے کا پردہ اُٹھایا، باہر نکل گئے۔ اُمّ کلثوم نے دامن سے پکڑا، کہا: بیٹا! کدھر جارہے ہو؟ امام زین العابدین فرماتے ہیں: مجھے چھوڑ دو۔ میرا مظلوم باپ مدد کیلئے پکار رہا ہے۔ امام حسین نے جب یہ دیکھا تو تشریف لائے، آواز دی:بہن ! میرے بیٹے کو نہ چھوڑنا۔ نسلِ امامت منقطع ہوجائے گی۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیمے میں لے گئے۔ اس کے بعد امام زین العابدین نے ایک چیخ ماری اور پھر آنکھیں بند ہوگئیں۔ اچھا بس آخری منزل میں پہنچ جاؤں۔ وہ وقت آیا کہ حسین گھوڑے سے گرنے لگے۔ بس حضور! اس کے بعد ختم۔ سنبھلا نہ جاسکا کیونکہ پیشانی کا تیر جب نکالا تو خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔

حسین کا گھوڑے پر سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ ایک مرتبہ زمین کی طرف دیکھا: فرماتے ہیں: میرے نانا کے وفادار گھوڑے! میں اگر یہاں گرگیا تو خیمے سامنے ہیں۔ میری بہن خیمے کے دروازے پر کھڑی ہے۔

اگر قاتل نے آکر میرا سرکاٹا، میری بہن مر جائے گی۔ مجھے اس جگہ لے جا جہاں سے خیمے دکھلائی نہ دیں۔ گھوڑا ایک نشیب کے مقام پر ٹھہرا۔ آپ نے آنکھ کھول کر دیکھا : کہا، ہاں! یہی تو وہ زمین ہے جو میرے نانا نے مجھے دکھلائی تھی۔ گھوڑے نے اپنے گھٹنے ٹیکے۔ حسین ایک طرف کو جھکے ۔ اور کیا عرض کروں؟ فوراً زمین پر نہ پہنچ سکے۔ زبان سے نکلتی نہیں ہے بات! زمین سے لگنا تھا کہ ایک مرتبہ زمین کو دھچکا سا لگا۔ فضا کا رنگ بدلا، زینب دروازے پر کھڑی ہوئی یہ دیکھ کر گھبرا گئیں۔ آج زینب کا کوئی نہیں ہے ۔ یہ سمجھ کرکہ بھائی قتل ہوگئے، ایک مرتبہ خیمے سے باہر آگئیں۔ چادر کا ایک سرا سر پر ، ایک زمین پر لگتا ہوا۔ ایک جگہ پہنچیں۔ یہ کچھ بلند تھیں، وہاں سے دیکھا کہ حسین گرم زمین پرتڑپ رہے ہیں۔

عزادارو!ذرا تصور کرنا، زینب کس سے کہے؟ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک شخص فوج سے نکلا خنجر لئے ہوئے، زینب سمجھیں کہ یہ میرے بھائی کو قتل کرنے کیلئے آرہا ہے۔ ہائے! بیکس بہن کیا کرے، کس سے کہے؟ ایک مرتبہ آواز بلند کی:

"وَامُحَمَّدَاهُ، وَا عَلِیَّاهُ

بابا! نجف سے آؤ، نانا مدینہ سے آؤ۔

امام حسین کے کان میں آواز پہنچی۔ سر اُٹھایا، دیکھا کہ بہن کھڑی ہوئی فریاد کررہی ہے۔ امام حسین نے اشارے سے کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں۔ خیمے میں چلی جاؤ۔ بھائی کا حکم، زینب چلیں خیمے کی طرف۔ بس دو تین قدم چلیں، پھر آواز دی:یا محمداہ!

ارے اس طرح سے خیمے میں جب پہنچیں ، تھوری دیر کے بعد زمین میں زلزلہ آیا۔ گھبرا گئیں کہ یہ زلزلہ کیسا! گھبرائی ہوئی امام زین العابدین کے خیمے میں پہنچیں۔ ایک مرتبہ بازو پکڑ کر ہلایا:بیٹا زین العابدین ! اُٹھو! امام زین العابدین کی آنکھ کھلی، فرمایا: پھوپھی جان! کیا ہے؟ کہا دیکھو یہ زلزلہ آرہا ہے۔ امام زین العابدین نے فرمایا: پھوپھی جان! خیمے کا پردہ ذرا اُٹھاؤ، اب جو پردہ اُٹھا، کیا دیکھا کہ حسین کس سر نیزے پر بلند ہے اور فوجِ یزید خوشیاں منارہی ہے۔

مجلسِ شامِ غریباں

حضرات! وہ قافلہ جو مدینے سے آیا تھا، وہ آج لٹ گیا۔ اس وقت میں آپ سب حضرات کی طرف سے اُن کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں:

"اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَااَبَاعَبْدِاللّٰهِ،اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُوْلِ اللّٰه،اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالشَّهِیْدُ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالْعَطْشَانُ

اے کربلا کے پیاسے! ہم آپ کو سلام کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بیبیاں جلے ہوئے خیموں کے پاس خاک پر بیٹھی ہوئی ہیں۔نہ کسی کا بھائی رہ گیا ہے، نہ کسی کا بیٹا رہ گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور رشتہ دار رہ گیا ہے۔ جنابِ زینب ہی ہیں جو سب بیبیوں کو جمع کئے ہوئے بیٹھی ہیں۔

اس سے پہلے حالت یہ تھی کہ بعد از شہادت جب خیموں میں آگ لگادی گئی تو بیبیاں اِدھر اُدھر منتشر پھر رہی تھیں او رکچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ایک بچی کی یہ حالت تھی کہ اُس کے کپڑے جل رہے تھے اور وہ یہ نہیں سمجھتی تھی کہ کس طرح آگ بجھائی جائے۔ کس بی بی کی رِدا میں آگ لگی ہوئی تھی اور اُسے اس کا علم نہ تھا۔

عزادارانِ اہلِ بیت !ہائے صبح سے عصر تک یہ قافلہ سارا ہی لٹ گیا۔ آج صبح کے وقت جب تیر آئے ہیں پہلی مرتبہ تو بیبیاں گھبرا کر خیموں کے دروازوں پر آگئی تھیں اور انہوں نے آواز دی تھی: اے ایمان والو! ہمارے سروں سے چادریں نہ اُترنے دینا۔ تو حالت یہ ہوئی تھی اصحاب کہ تلواروں کی میانوں کو توڑ کر پھینک دیا تھا اور خیموں کے دروازوں پر آکر سب نے یک زبان ہوکر کہا تھا: شہزادیو! جب تک ہم موجود ہیں، تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ارے اس وقت وہ بچانے والے، وہ حفاظت کرنے والے، ان میں سے ایک نہیں۔ گلے کٹائے ہوئے میدان میں پڑے ہوئے ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی یہ حالت ہے کہ ضعف کی وجہ سے اُٹھنا تو درکنار، بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ اگر جنابِ زینب نہ نکالتیں تو شاید خیمے ہی میں رہ جاتے۔

عزادارو! اتنی بیکسی تھی کہ کوئی اہلِ بیت سے یہ کہنے والا نہ تھا کہ حسین مارے گئے۔ یہ گھوڑا آیا ہے اپنی پیشانی پر حسین کا خون لگائے ہوئے اور خیمے کے دروازے پر آکر اُس نے فریاد کی سی آواز بلند کی۔پہلے تو بیبیاں سمجھیں کہ شاید حسین آئے ہیں۔ لیکن جب زین کو خالی دیکھا تو چاروں طرف اس ذوالجناح کے کھڑی ہوگئیں اور فریادیں شروع کیں۔ ذوالجناح! ارے فرزند رسول کہاں رہ گئے؟ جنابِ سکینہ نے ذوالجناح سے چمٹ کر فریاد کی۔ میرے بابا کے ذوالجناح! کیا میں یتیم ہوگئی؟ کیا میرے بابا مارے گئے؟

آج مسافروں کی شام یعنی شامِ غریباں کربلا والوں کی کیسے گزری؟ اس کے متعلق چند فقرے عرض کرنے ہیں۔ آج بعد از عصر جب امام حسین شہید کردئیے گئے تو اس کے بعد ہوا یہ کہ خیموں میں آگ لگادی گئی۔ جنابِ زینب نے امام زین العابدین سے جاکرکہا: بیٹا! اب تو خیمے جلنے لگے۔ آپ نے حکم دیا کہ پھوپھی جان! سب بیبیوں کو لے کر خیموں سے باہر نکل جائیں۔ ذرا آپ اندازہ لگائیے کہ یہ وقت بھی ایسا ہے کہ امامِ وقت کے حکم کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔

جنابِ امام زین العابدین علیہ السلام نے یہ جب یہ فرمایا تو جنابِ زینب آئیں اور کہا کہ بیبیو! نکل جاؤ۔ بیبیاں نکلیں۔ جنابِ زینب بچوں کو لے کر باہر نکلیں، بچوں کو بٹھایا۔ پھر آئیں خیمے میں، پھر اور بچوں کو لے گئیں۔ اس کے بعد خیال آیا کہ زین العابدین تو اُٹھ بھی نہیں سکتے۔ وہ کیسے باہر آئے ہوں گے مگر حالت یہ تھی کہ دھوئیں کی وجہ سے اور آگ کی وجہ سے کچھ ایسی گھبراہٹ طاری تھی کہ بھول گئیں کہ میرا بیمار بھتیجا کس خیمے میں ہے۔ ایک خیمے میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ ایک مرتبہ اس میں چلی گئیں۔ سید سجاد نہ ملے۔ ہائے فاطمہ زہرا کی بیٹیاں! اور آج اُن پر یہ مصیبت۔ ایک خیمے میں تلاش کے بعد دوسرے میں داخل ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے نکلیں۔ مگر اتنی پریشان تھیں کہ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔دھوئیں کی وجہ سے دکھلائی نہیں دیتا تھا۔ اس کے بعد کچھ سوچا اور ایک تیسرے خیمے میں، جس میں شعلے بھڑک رہے تھے، اس میں چلی گئیں۔ وہاں سے جو باہر آئیں تو، کتب میں جو لکھا ہے کہ کسی نے پوچھا کہ بی بی!آپ کیوں جاتی ہیں بار بار خیمے میں؟کیا کوئی چیز رہ گئی ہے؟ فرماتی ہیں : چیز تو کوئی نہیں، میرا بیمار بیٹا نہیں مل رہا۔

اس کے بعد ایک خیمے میں گئیں تو امام زین العابدین علیہ السلام کو سینے سے لگائے ہوئے نکلیں اور باہر لاکر بھتیجے کو زمین پر لٹا دیا اور بازو ہلاکر فرمایا: بیٹا! خیمے جل گئے، ہمارے سروں سے چادریں چھن گئیں۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ یہی وقت ہے ، آپ ذرا کربلا کی زمین کا تصور کیجئے۔ خیمے جل چکے ہیں۔ حسین کی لاش کہاں عباس کی لاش کہاں اور عزیزوں کی لاشیں کہاں؟ بیبیاں سہمی ہوئی بیٹھی ہیں۔ اس وقت اُن کی گودوں میں جو بچے ہیں، وہ روتے ہیں، اتنے سہم گئے ہیں، اتنے گھبراگئے ہیں کہ ان کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا ہوگا! جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کبھی بیمار کے پاس آتیں، بیٹا! ہم تباہ ہوگئے، تمہاری طبیعت کیسی ہے؟ تمہارا مزاج کیسا ہے؟ اگر سر میں درد ہو تو میں دبا دوں؟ کبھی سکینہ کے پاس جاتی ہیں، گود میں اُٹھالیتی ہیں،اِدھر اُدھر پھرتی ہیں۔ سکینہ کہتی ہیں:پھوپھی جان! میرے بابا کہاں ہیں؟ مجھے میرے بابا کے پاس پہنچا دیں۔

اس کے بعد بیبیوں کے پاس جاتی ہیں، اُن کو سمجھاتی ہیں۔ اُن کو تسلی دیتی ہیں۔ فرماتی ہیں: بیبیو! تمہارا ہم پر بڑا احسان ہے۔ تم ہماری وجہ سے بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگئیں۔ وہ بیبیاں کہتی ہیں: شہزادی !یہ نہ کہئے، ہم تو سرخرو ہوگئے کہ ہمارے عزیز آپ کے کام آگئے۔ اس کے بعد جنابِ فضہ سے فرمایا:ذرا دیکھ لو کہ بچے تو پورے ہیں؟ جب یہ شمار کرنے لگیں تو پتہ چلا کہ دو بچے ان میں نہیں ہیں۔ اب بتلائیے ، اندھیری رات ہے۔ ستارے بھی شرم کی وجہ سے منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ فاطمہ زہرا کی بیٹی کیا کرے؟ آخر جنابِ فضہ سے کہا کہ فضہ! تم ان بچوں کا ذرا دھیان کرو اور میں اُن بچوں کی تلاش میں جاتی ہوں۔ جنابِ اُمّ کلثوم کو ساتھ لیا۔ ایک طرف چل دیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک شخص ملا۔ اس سے کہا کہ بھائی! تو نے کچھ بچے تو نہیں دیکھے؟ اُس نے کہا کہ تھوڑی دیر ہوئی کہ کچھ رونے کی آواز آرہی تھی، پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟

جس طرف اُس نے کہا تھا، اُس طرف چلیں۔ دیکھا کہ ایک مقام پر دونوں بچے ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ جنابِ زینب نے کہا کہ بہن اُمّ کلثوم !بچے تو مل گئے، ذرا آہستہ چلنا، ایسا نہ ہو کہ وہ بیدار ہوجائیں اور گھبرا جائیں کیونکہ انہوں نے یہ واقعات جو دیکھے ہیں تو اُن کے خیالات میں یہی چیز ہوگی کہ دشمن پکڑ نے آئے ہیں۔ لہٰذا یہ آہستہ آہستہ گئیں، جب اُن کے قریب پہنچیں تو اُن کے پاس بیٹھ گئیں۔ ہاتھ پکڑ کر جو ہلایا تو ہاتھ اُن کے سرد تھے۔ پیشانی پر ہاتھ رکھا تو پیشانی ٹھنڈی تھی۔ ایک مرتبہ ہلایا، فریاد کی۔ کلثوم ! ارے یہ تو دونوں سدھار گئے۔ میں اپنے بھائی کو کیا جواب دوں گی؟ پروردگارِ عالم آپ کو جزائے خیر دے۔ اس رات کے کئی واقعات ہیں۔ صرف ایک واقعہ اور عرض کرکے ختم کردوں گا کیونکہ شامِ غریباں کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دو آنسو بہہ جائیں، آپ کو اُن کی مصیبت کا کچھ ہلکا سا تصور ہوجائے۔

حقیقت یہ ہے کہ شب عاشور آج کی رات کے مقابلہ میں بڑی اچھی رات تھی۔ سب کے سب موجود تھے۔ پانی نہ تھا مگر بیبیوں کو یہ اطمینان تو تھا کہ ہماری حفاظت ہے۔ مگر آج کی شب کا ذرا خود تصور فرمائیں ! جس کا جوان بیٹا، تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری ماں کا کیا حال ہے، جس کا بھائی مرگیا، اُس کا کیا حال ہوگا؟

امام حسین کی لاش اس جگہ پڑی ہے جہاں آپ شہید ہوئے۔ ہائے حسین ! کس زبان سے عرض کروں؟ ایک ملعون آیا۔ اس کو یہ خیال ہوا کہ حسین کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی جس کا نگینہ بڑا اچھا تھا۔ عزادارانِ حسین ! میں کس زبان سے بیان کروں؟ وہ آیا تو اُس نے دیکھا کہ انگوٹھی موجود ہے اور لباس لٹ چکا،عمامہ کوئی لے گیا۔ ہائے حسین ! تیری مظلومی پر عزادار قربان۔ اس ملعون نے یہ چاہا کہ وہ انگوٹھی اُتارلے۔ مگر معلوم نہیں اُنگلی پر ورم آگیا تھا یا خون جم گیا تھا۔ وہ نہ اُتار سکا تو اُس ملعون نے کیا کیا؟ اِدھر اُدھر زمین پر ڈھونڈنے لگا۔ ایک تلوار کاٹکڑا اس کے ہاتھ آگیا۔ آپ خود سمجھ لیجئے کہ کیا قیامت کی گھڑی تھی۔ یہ انگوٹھی لے کر چلا ہی تھا کہ ایک مرتبہ زمین ہلی، یہ گھبرا کر ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ آسمان سے دو عماریاں اُتریں۔ ایک عماری میں سے ایک بزرگ سربرہنہ نکلے، گردن جھکائی ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ حسین کے قریب بیٹھ گئے اور آواز دی: وَاحسینا! سمجھے آپ یہ کون تھے؟ یہ حسین کے نانا حضرت محمد مصطفےٰ۔ دوسرے بزرگ نکلے، وہ امام حسین کے بابا حضرت علی مرتضیٰ ، تیسرے بزرگ نکلے، وہ حسین کے بھائی حسن مجتبیٰ !دوسری عماری اُتری، اس میں سے ایک بی بی نکلیں سر پیٹتی ہوئی، منہ پر طمانچے مارتی ہوئی۔ حسین کے کٹے ہوئے گلے کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے بعد بین کرتی ہیں:بابا! ہائے فاطمہ کا دل۔ بابا! میرا حسین یہی ہے کہ سر سے پاؤں تک زخمی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ہاں بیٹی!یہی ہے۔ تو ایک مرتبہ فاطمہ نے بے چین ہوکر بازو پر ہاتھ رکھا اور فریاد کرنے لگیں: حسین ! ارے تجھے مار ڈالا، تجھے پانی بھی نہ دیا۔ بیٹا! یہ بھی خیال نہ کیا کہ میں نے چکیاں پیس پیس کر پالا تھا۔ ایک مرتبہ دل سے محبت کا جوش اُٹھا تو عرض کرتی ہیں: بابا!آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے منہ پر بیٹے کا خون مل لوں؟ رسول اللہ نے فرمایا: بیٹی! تم بھی مل لو اور میں بھی ملوں گا اور قیامت کے دن خدا کے سامنے اس طرح پیش ہوں گے۔

کربلا کے پیاسے! ارے کربلا کے شہید، تیرے رونے والے جمع ہوئے ہیں اور اب یہاں سے اُٹھنے والے ہیں، تجھے سلام کررہے ہیں۔

جنابِ رباب کی علی اصغر کو ہدایت

(جنابِ رباب نے ننھی سی پیشانی اور خشک ہونٹوں پر بوسہ دے کرکہا تھا:میرے لعل! تو نے آخری وقت رونا نہیں ہے کہ تیرے باپ کو تکلیف پہنچے گی)

شہادتِ امام مظلوم وہ داغ ہے جو تمام آئمہ طاہرین کے دلوں پر ہے، خصوصاً ششماہے کا گلا اور تیر سہ شعبہ ، چوتھے امام کی خدمت میں ایک شخص آیا اور دیکھا کہ پانی پینا چاہتے ہیں لیکن پیالہ آنسوؤں سے رنگین ہوجاتا ہے اور پھینک دیتے ہیں۔ عرض کیا: مولا ! کب تک آپ روئیں گے؟ فرمایا: یعقوب کے بارہ بیٹے تھے، ایک گم ہوگیا تھا، علم نبوت سے جانتے تھے کہ یوسف زندہ ہے۔ اس پر اس قدر روئے کہ آپ کی آنکھیں بے نور ہوگئیں۔ میرے سامنے تو اٹھارہ جوانانِ بنی ہاشم قتل کر ڈالے گئے۔ میں کیسے نہ روؤں؟ اُس نے عرض کیا: مولا ! شہادت تو آپ کی میراث ہے۔ فرمایا: ہاں، کیا ماں بہنوں کی اسیری بھی ہماری میراث ہے؟

آپ جانتے ہیں کہ شہزادیاں کتنے دن قید خانہ میں رہیں۔ سکینہ مرگئیں، اُن کی قبر قید خانہ میں بنی جنازہ اُٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ قید سے چھوٹ کر جنابِ زینب جب جانے لگیں اور دمشق کی بیبیاں آئیں تو کہا: بھائی کی نشانی قید خانے میں چھوڑے جارہی ہوں۔ باپ کے بعد جی بھر کر پانی نہ پی سکی۔ اُس کی قبر پر ٹھنڈا پانی ڈالنا۔مردوں کا ذکر نہیں، بیبیوں کا ذکر کررہا ہوں۔

کسی نے سنا کبھی کسی بی بی نے شکایت کی تھی جس وقت قافلہ دربارِ یزید کے قریب پہنچا اور قیدی دربار میں بلائے گئے؟ بیبیوں نے سمٹ کر فاطمہ کی بیٹی زینب کو درمیان میں لے لیا تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے لیکن یزید ملعون کے حکم سے سب کوہٹایا گیا۔ بی بی فضہ نہ ہٹیں۔ شمر نے جب تازیانہ لگانا چاہا ، اپنی قوم والوں سے مخاطب ہوئیں۔ غلامانِ حبش بدل گئے اور تلواریں کھینچ لیں۔

بھرے دربار میں ، جس میں صحابیِ رسول بھی موجود تھے، کسی کو فاطمہ کی بیٹی پر رحم نہ آیا اور کوئی کھڑا

نہ ہوا۔

زینب بے چین ہوگئیں اور پھر پکارا: یا محمدا! حبشی کنیز کیلئے تلواریں نکل گئیں لیکن آپ کی نواسی کی سفارش اور حمایت کرنے والا کوئی نہیں۔ امام حسین نے وہ کارنامہ چھوڑا ہے کہ اُس کا مثل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اپنے ساتھ مرد ایسے لائے تھے کہ تلواریں کھائیں، پیاسے رہے اور جان دے دی۔ بچے ایسے لائے تھے کہ طمانچے کھائے لیکن شکایت نہ کی۔ عورتیں ایسی ساتھ آئی تھیں کہ بھری ہوئی گودیاں خالی کردیں اور بچوں کو گھوڑوں پر خود سوار کرکے میدانِ جنگ میں بھیج دیا۔ امام حسین معصوم تھے جنابِ رباب تو معصومہ نہ تھیں۔

اولاد والو! جب چھ ماہ کا بچہ ماں باپ کے ہاتھوں پر آتا ہے اور مسکراتا ہے تو اُن کے دل سے پوچھو۔ امام حسین جب میدان میں آئے اور استغاثہ بلند کیا تو خیمہ سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام آئے اور پوچھا: بہن زینب ! یہ فریاد کی آواز کیسی؟ بہن نے کہا: بھائی! قیامت ہوگئی، اصغر کوگود میں لے لیا۔ گود میں علی اصغر ہیں، امام کیسے سوار ہوں؟ عام طور پر جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہونا چاہتا ہے تو ایک ہاتھ میں باگ اور ایک ہاتھ گھوڑے کی پشت پر رکھتا ہے۔ انصاف سے فرمائیے کہ جب دونوں ہاتھوں میں بچہ ہو تو کس طرح سوار ہوں؟ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین نے بچے کو بہن کی گود میں دے دیا ہو اور سوار ہونے کے بعد بہن نے بھائی کے حوالے کیا ہو۔

ابھی تک رباب کھڑی ہوئی تھیں۔ قریب آکر کہا: میرے آقا! میرے بچے کو ذرا مجھے دے دیجئے۔ بیبیوں نے سمجھا کہ پیار کرنے کیلئے لیا ہے۔ رباب بچے کو لئے ہوئے خیمے میں پہنچیں۔ علی اصغر کو نیا کرتہ پہنایا، بالوں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور باپ کی گود میں واپس دے دیا اور کہا: جو گیامیدان میں ،واپس نہیں آیا، اُسے واپس کیا لاؤ گے؟حسین چلے گئے۔ بچے کیلئے پانی مانگا، تیر چلا، تین پھال کا تیر، معصوم کی گردن، حسین نے اصغر کی گردن اپنے بازو سے ملا دی۔ تیرا یا اور معصوم کی گردن اور حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ حسین نے علی اصغر کی گردن سے تیر نکالا اور دیکھا کہ علی اصغر مسکرارہے ہیں۔وہ اس لئے کہ جنابِ رباب نے رخصت کرتے وقت، ننھی سی پیشانی اور خشک ہونٹوں پر بوسہ دے کر کہا تھا: میرے لعل! آخری وقت تو نے رونا نہیں ہے۔

شام اور امیر تیمور کا واقعہ

ایک ارضِ شام بھی ہے۔ شام یا کربلا کا نام آتے ہی دلوں پر ایک جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ شام میں جو کچھ ہوا، وہ کربلا میں نہیں ہوا۔ شام میں وہ کچھ ہوا جو کبھی چشم فلک نے دیکھا ہی نہ تھا۔

میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا شجر طوبیٰ میں کہ جب امیر تیمور نے شام پر قبضہ کیا تو محب اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے اُس کے دل میں خلجانی کیفیت تھی۔ اُس نے وہاں کے بڑے بڑے لوگوں کی گردنوں کو توڑا اور اُن سروں کو نیچا کیا جس کو اُن لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ کسی خاص عداوت کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے کوششیں کیں کہ اُس کا غصہ کسی طرح سے کم ہوجائے۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ اس سے اگر قرابت پیدا ہوجائے تو شاید اس کی یہ کیفیت بدل جائے۔ چنانچہ طے کرکے وہاں کے بڑے بڑے آدمی آئے اور انہوں نے یہ کہا کہ اس شہر میں سب سے بڑا اور شریف ترین گھر ہمارے بادشاہ کا ہے جو یہاں حکومت کرتا تھا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کی لڑکی سے آپ عقد کرلیں۔ جب بہت اصرار ہوا تو اُس نے کچھ سوچا اور کہا: اچھا بازاروں کو ذرا مزین کیا جائے، خصوصاً بازارِ شام کو بہت زیادہ آراستہ کیا جائے۔

اس کے بعدسامانِ عروسی منگوا کر حکم دیا کہ اس لڑکی کو حمام بھیجو اور وہاں سے یہ کپڑے پہن کر وہ نکلے۔ پھر اُس نے اپنے ایک ملازم کو حکم دیا کہ ایک لاغر سا اونٹ اس حمام کے دروازے پر لے جاؤ اور جس وقت وہ نکلے تو اُس لڑکی کو اس پر سوار کرو اور بازار سے گزارو۔ جس وقت وہ اونٹ کو لے کر دروازے پر پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اُس نے کہا کہ مجھے بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میں اِس لڑکی کو اونٹ پر بٹھا کر بازار سے گزاروں اور سنو! خبردار!کوئی قریب نہ آنے پائے، جو اس کے گرد کوئی پردہ ڈالے۔لوگوں نے سنا تو بہت پریشان ہوئے اور مل کر بادشاہ کے پاس آئے اور اس سے یہ کہا کہ کیا آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس طرح سے گزاری جائے؟

اُس نے کہا: ہاں، یہ ایسا ہی ہے۔ اس پر وہ لوگ فریاد کرنے لگے کہ یہ آپ کیا کررہے

ہیں؟ ایسا تو کبھی جاہلیت کے زمانہ میں بھی نہیں ہوا کہ ایک شریف عورت کو اس طرح سے ذلیل کیا جائے؟ امیر تیمور نے جواب دیا: یہ ٹھیک ہے جو تم کہتے ہو کہ ایسا جاہلیت کے زمانہ میں نہیں ہوا مگر تم لوگوں کے نزدیک یہ اچھا فعل ہے، اس لئے میں کرنا چاہتا ہوں۔لوگوں نے کہا: جناب! وہ بادشاہ کی بیٹی ہے، بڑی عفیف ہے۔ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ یہ سننا تھا کہ بادشاہ کی بیٹی ہے اور بڑی عفیف ہے، ایک مرتبہ اُس نے سینے پر ہاتھ مارا اور اُس کے بعد چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کہا: ارے بے غیرتو! کوئی رسول سے زیادہ بزرگ گزرا ہے؟ اور رسول کی بیٹیوں سے زیادہ کوئی عفیف ہوا ہے؟ یہ تمہارا بازار وہی نہیں ہے جس میں زینب و کلثوم بغیر پردہ کے پھرائی گئی تھیں۔ آج تم فریاد کرتے ہو اور کل تم اِن شہزادیوں کی فریادوں پر ہنس رہے تھے؟ کسی نے بھی کچھ غیرت کی اور کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟

یہ واقعہ یاد آگیا۔ اب میں اِس منزل پر قریب قریب اپنی تقریر کو ختم کردینا چاہتا ہوں۔ مسلمانو! اس لئے چلے تھے کہ اس کے بغیر چارئہ کار نہ تھا۔ اسلام جتنا بھی اس وقت موجود ہے، وہ صدقہ ہے حسین کا۔ آپ کی شہادت کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھنے لگے کہ یزید تو فاسق و فاجر ہے۔ اُس کی بات کیسے حکمِ خدا اور رسول ہو سکتی ہے؟اس کے بعد حق کا اعلان کرتی ہوئی شہزادیاں چلی گئیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے ایک شخص ملنے آیا، بیٹھ گیا اور کچھ باتیں وغیرہ پوچھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے غلام کو آواز دی کہ میرے لئے پانی لے آ۔ وہ ایک پیالے میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ پانی پر نظر پڑی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتنا روئے کہ پانی ممزوج ہوگیا۔ آپ نے دے دیا، دوسرا پیالہ لایا، پھر یہی کیفیت ہے۔اس پر وہ شخص کہتا ہے: مولا ! آپ کب تک روئیں گے؟ تو فرماتے ہیں: بھائی! تو نے وہ کچھ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔ تیرے اوپر وہ کچھ نہیں گزرا جو میرے اوپر گزرگیا۔میں نے اپنی ماں بہنوں کو رِدا کے بغیر دیکھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیاس سے العطش کہتے ہوئے ،ہلاک ہوتے ہوئے دیکھا۔ میرا باپ تین دن کا بھوکا پیاسا دنیا سے اُٹھ گیا۔ آخری وقت میرے باپ نے کہا: میں دنیا سے جارہا ہوں، ایک گھونٹ پانی پلادو۔ مگر آخر وقت بھی کسی نے پانی نہ دیا۔ وہ شخص کہتا ہے : مولا ! یہ قتل اور شہادت تو آپ کی میراث ہے؟ اس پر امام زین العابدین علیہ السلام کی چیخ نکل گئی۔ فرماتے ہیں: ہاں بھائی! یہ قتل اور شہادت تو ہماری میراث ہے مگر کیا یہ بھی ہماری میراث ہے کہ ہماری ماں بہنیں بازاروں میں بغیر پردہ اور رِدا کے پھرائی جائیں؟ بس ایک فقرہ اس مقام کا اور عرض کردوں، پھر ختم کرتا ہوں۔ وہ قصہ ذہن میں رکھئے گا جو میں نے عرض کیا جب اپنے اوپر پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے۔ چیخ اُٹھے اہلِ شام کہ امیر تیمور کی جانب سے یہ کیا ہورہا ہے؟ لیکن فاطمہ زہرا ء کی بیٹیاں بغیر رِدا کے دربار میں پہنچیں۔ جنابِ زینب نے خطبہ پڑھا کہ یزید نے کہا تھا کہ یہ کون کون بیبیاں ہیں؟ بتلائیے اس کہنے پر کیا کچھ نہ گزر گئی ہوگی کہ بھرے ہوئے دربار میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ یہ فلاں

بی بی ہے، وہ فلاں بی بی ہے۔ بتانے والے نے بتایا کہ وہ جو آخر میں سرجھکائے بیٹھی ہیں، وہ حسین کی بہن زینب ہیں۔

یزید اپنی ظاہری فتح کے غرور میں اندھا ہوگیا تھا۔اُس نے ایک مرتبہ آواز دی کہ زینب!خدا کا شکر ہے کہ تمہارا بھائی قتل ہوا اور تم سب اسیر ہوکر یہاں تک آئے۔ اتنا سننا تھا کہ جنابِ زینب نے سر اُٹھایا اور علی کی بیٹی کوجو جلال آیا اور علی کے لہجے میں فرمایا:یزید! خاموش، اس سے آگے نہ بڑھ۔ قتل ہماری میراث ہے، رہ گئی کہ تو نے قید کیا اور ہم آئے تو اس کا جواب میں نہیں دوں گی۔ اس کا جواب تجھے دینا پڑے گا جب میرا نانا پوچھے گا کہ میری بیٹیوں کو کیوں قید کیا تھا۔ اس کے بعد فرماتی ہیں:درباروالو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے آئے ہو؟ کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ارے تمہارے نبی کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی زینب ہوں اور یہ جوتمہارے سامنے کٹا ہوا سر ہے، یہ میرے مظلوم بھائی حسین کا سر ہے۔

یہ جو آپ نے فرمایا تو دربار والے رونے لگے یعنی ضبط نہ کرسکے۔بعض لوگوں کی آواز بلند ہوگئی ۔یزید جس جگہ بیٹھا ہوا تھا، اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ یکدم پردہ اُٹھا اور ایک عورت سربرہنہ دربار میں آگئی اور اُس کی زبان پر تھا"واحسینا واحسینا وامظلوما"۔ یزید نے پہچان لیا کہ اس کی بیوی ہے۔ گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک کپڑا اُٹھا کر اس کے اوپر ڈالا اور کہنے لگا: میں رونے سے منع نہیں کرتا مگر میری عزت کا تو خیال کرلیا ہوتا۔ اس نے کہا: یزید! خدا کی لعنت تیرے اوپر، تجھے اپنی عزت کا تو اتنا خیال ہے اور رسول کی عزت کا کچھ خیال نہیں ہے۔

اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینبکا شام سے لے کر مدینہ تک قیامت خیز بین کرنا

جب امام حسین علیہ السلام اور اُن کے عزیزوں اور ساتھیوں پر مشتمل قافلہ غربت مدینہ سے نکلا تو سارا شہر جمع تھا۔ محلہ بنی ہاشم اور رونے کی آوازیںآ سمان تک پہنچ رہی تھیں۔ بچے پوچھتے تھے ماں باپ سے کہ کیا عون و محمد بھی جارہے ہیں؟تو وہ کہتے تھے کہ ہاں، جارہے ہیں۔ کب تک آجائیں گے؟ تو وہ رو کر کہتے تھے کہ اب واپس نہ آئیں گے۔ جوان یہ سمجھ رہے تھے کہ علی اکبر واپس نہ آئیں گے۔ اصحابِ رسول کا ہجوم تھا۔ لکھا یہ ہے کتابوں میں کہ اس دن سے پہلے اتنا گریہ و شیون کبھی مدینے میں نہیں ہوا جتنا حسین کی روانگی کے وقت ہوا۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر گھر سے کتنے آدمی نکلے؟ باوجود اِن تمام چیزوں کے یہ دیکھتے ہوئے کہ اسلام کی کیا حالت ہوگئی ہے، مگر کوئی نہ نکلا۔ میں کبھی کبھی عرض کیا کرتا ہوں۔ میرے بھائیو!جس کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے، اُس کے دل سے پوچھو۔ دوسرے لوگ محلے والے تماشہ دیکھنے کیلئے آجاتے ہیں لیکن اگر اُس کے سینے پرہاتھ رکھ کر دیکھو گے تو اس کے دل میں جو آگ لگی ہوئی ہے، اس کا اثر آپ تک بھی پہنچ جائے گا۔ ارے یہ کونسا گھر تھا جس میں آگ لگی ہوئی تھی اور حسین اُس کو بجھانے کیلئے روانہ ہورہے تھے؟ امام حسین یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کی کشتی کو ساحلِ نجات پر پہنچانے کیلئے میرے بھائیوں کی طاقت کی ضرورت ہے، اس کیلئے میرے بیٹوں کی طاقت کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ آپ سمجھتے تھے کہ میرا چودہ دن کا جو بچہ علی اصغر ہے، اُس کے بھی زور لگانے کی ضرورت ہے اور جب یہ کشتی کنارے تک پہنچ جائے گی تو اس میں اور بھی ضرورتیں ہیں، اس کا پرچم وغیرہ، وہ کہاں سے آئے گا؟ زینب نے کہا: میری چادر جو موجود ہے۔

آخر میں چند فقرے عرض کروں گا۔ کربلا میں پہنچے اور ساتویں سے پانی بند ہوگیا۔ جو کچھ کوزوں میں یا مشکیزوں میں پانی رکھا تھا، وہ سب ختم ہوگیا، یہاں تک کہ بچوں کیلئے بھی پانی نہ رہا۔ آٹھویں گزری، نویں گزری، آٹھویں کو اصحابِ حسین نے کہا: مولا ! اجازت دیجئے، ابھی ہمارے بازوؤں میں دم ہے، ابھی ہمارے ہاتھوں میں قوتیں ہیں، اُن سے ہم لڑ سکتے ہیں۔ امام حسین یہی فرمارہے تھے کہ بھائیو! میں لڑنے کیلئے نہیں آیا۔ اُنہیں وہ شکست دینے آیا ہوں جس کا جواب قیامت تک نہ ہوسکے گا اور وہ لڑنے سے حاصل نہ ہوگی۔ جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوگئی تو شاید جنگ کا رنگ ہی بدل جائے۔ جب دسویں تاریخ آگئی تو آپ نے یہ دیکھا کہ اِن بہادروں کی ٹانگوں میں لغزش پیدا ہونے لگی۔ آنکھوں میں حلقے پڑگئے۔ تلوار اُٹھانے میں تکلیف ہونے لگی تو اب آپ نے فرمایا کہ اچھا تم لڑ سکتے ہو۔ جنگ ہوئی،عزیزوں کی لاشیں اُٹھائیں، دوستوں کی لاشیں اُٹھاکر لائے، یہاں تک کہ چھ مہینے کے بچے کی قبر اپنے ہاتھ سے کھودی اور اس کے بعد دو رکعت نمازِ شکر ادا کی قبر پر یہ نمازِ شکر تھی ، نمازِ میّت نہ تھی۔ اگر نمازِ میّت ہوتی تو علی اکبر کی لاش پر پڑھتے، نمازِ میّت ہوتی تو دریا کے کنارے عباس کی لاش پر پڑھتے، نمازِ میّت ہوتی تو قاسم کی لاش پر پڑھتے۔ اپنے بچے کو قبر میں چھپا کر کھڑے ہوگئے۔ دورکعت نمازِ شکر ادا کی۔ خدایا! تیرا شکر کہ تو نے مجھے اِن تمام چیزوں میں ثابت قدم رکھا۔

مختصر کررہا ہوں ، پھر وہ وقت بھی آیا جب امام زین العابدین علیہ السلام نے لیٹے لیٹے خیمے کا پردہ اُٹھایا تو کیا قیامت دیکھی۔ باپ کا سر نیزے پر بلند ہے، حسین قتل کردئیے گئے میدانِ کربلا میں۔ کئی آوازوں سے گونج رہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کیسے کہوں؟ ہوا یہ کہ خیموں میں آگ لگی جس کے بعد گھوڑے اِدھر اُدھر چلے گئے۔ بیچ میں حسین کی لاش۔یہ بارہویں امام کی زیارت میں موجود ہے، اس لئے عرض کررہا ہوں۔

اس کے بعد گیارہویں تاریخ ہوئی۔ بیبیاں قید ہوکر کوفے کی طرف چلیں۔ جتنے شہید تھے، اُن کے سر کاٹ کر صندوقوں میں بند کئے گئے۔یہ قافلہ چلا۔ دومیل جب کوفہ رہ گیا تو ابن زیاد کا حکم آیا کہ ابھی قیدیوں کو ٹھہراؤ کیونکہ بازار آراستہ نہیں ہوا۔ قیدی ٹھہرے رہے۔اِن بیبیوں کی گودوں میں بچے بھی موجود تھے۔ دھوپ میں کھڑے تھے یہ قیدی۔ جب باجوں کے بجنے کی آواز آئی، حکم ہوا کہ قیدیوں کو بڑھاؤ۔ مگر کس طرح سے کہ یہ جو صندوقوں میں کٹے ہوئے سر ہیں، اُن کو نیزوں پر چڑھا دو اور جس جس بی بی کا کوئی عزیز ہے، اس کے اونٹ کے ساتھ وہ نیزہ ہو۔ ہائے علی اکبر کا سر اُمّ لیلیٰ کے اونٹ کے ساتھ، امام حسین کا سرجنابِ زینب کے اونٹ کے ساتھ۔ اب جو زینب کی نگاہ پڑی، بھائی کے سر کو دیکھا توایک مرتبہ ھودج کی لکڑی پراپنی پیشانی دے ماری، خون بہنے لگا اور کہتی ہیں:میری ماں کے چاند ! کیا میری ماں نے چکیاں پیس پیس کر تجھے اسی دن کیلئے پالا تھا؟

ابن زیاد کے دربار میں پیشی کے بعد یزید کا حکم آیا کہ قیدیوں کو شام بھیج دیا جائے۔ اس کے بعد یہ بیبیاں کوفے سے شام کی جانب روانہ کی گئیں۔ دربارِ یزید میں اسی طرح پیش ہوئیں کہ اُن کے سروں پر چادریں نہ تھیں اور پھر یزید کے حکم سے ایک تنگ و تاریک قید خانے میں ڈال دی گئیں۔ وہاں قید خانے میں دوسرے سال صفر کی بیسویں تاریخ کو رہا ہوکر اہلِ بیت کربلامیں پہنچے ہیں۔ اور چیزوں کو عرض نہیں کروں گا، بس اتنا سن لیں کہ یزید نے ارادہ کرلیا تھا کہ ان کو قید خانے ہی میں مار دیا جائے مگر ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ یہ خبریں اِدھر اُدھر پھیلنے لگیں کہ قید خانے میں تو فاطمہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس سے پہلے بازار میں امام زین العابدین علیہ السلام کی آوازبلند ہوئی کہ میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں۔ جنابِ زینب کا خطبہ ہوگیا تھا دربارمیں جس کو آپ(مومنین) سنتے رہتے ہیں۔ جب یہ خطبہ ہوا تو دربارمیں یہ حالت ہوگئی کہ پہلے آہستہ آہستہ آنسو نکلے۔اس کے بعد لوگوں کی چیخیں بلند ہوگئیں۔ وہ خطبہ یہ تھا کہ آپ نے فرمایا: تم تماشہ دیکھنے کیلئے آئے ہو، تمہیں پتہ بھی ہے کس کا تماشہ دیکھ رہے ہو؟ میں تمہارے نبی کی نواسی ہوں۔ یہ خبریں آہستہ آہستہ شام کے گھروں میں پہنچیں۔ شام کی عورتوں کو معلوم ہوا کہ بازاروں میں جو پھری تھیں، وہ نبی کی نواسیاں تھیں۔

تو اَب حالت یہ ہوگئی کہ شام کے لوگ جب اپنے گھروں میں داخل ہوتے تھے تو وہ کہتی تھیں کہ بے غیرتو! تم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پردے میں بٹھایا ہوا ہے اور فاطمہ زہرا ء کی بیٹیاں بازاروں میں پھرائی گئی ہیں اور اب ہاں قید میں ہیں۔ یہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے یزید ڈر گیا تھا۔ آخر اُس نے رہا کردیا۔ جب رہائی ملی تو جنابِ زینب نے یہ کہا کہ سجاد بیٹا!جاکر یزید سے کہو کہ ہمارا لوٹا ہوا سامان ہم کو واپس مل جائے۔ یزید نے کہا: اے سید سجاد !وہ مال میں آپ کو کہاں سے دلواؤں، نہ معلوم کون کون لے گیا؟ اس کی قیمت لے لو۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک چیخ نکل گئی، فرماتے ہیں: یزید اِس مال کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ سارا جہاں بھی اس کی قیمت نہیں ہوسکتا۔ اُس نے کہاکہ کونسی ایسی چیز تھی کہ اس کی قیمت سارا جہاں بھی نہیں ہوسکتا؟ آپ نے فرمایا کہ میری دادی فاطمہ زہراء کی چادر تھی۔ ارے میرے نانا کا عمامہ بھی اسی میں تھا۔

بہرحال اُس نے اعلان کیا اور کچھ سامان واپس ہونے لگا۔ ایک صندوق آیا ، دربار میں کھولا گیا، ایک کرتہ اس میں سے نکلا خون میں ڈوبا ہوا۔ جابجا اس میں سوراخ۔ یزید نے کہا کہ یہ کس کا کرتہ ہے۔ امام زین العابدین چیخ مارکر رونے لگے: ارے یہ میرے مظلوم باپ حسین کا کرتہ ہے جو اُن کی شہادت کے بعد اُتار لیا گیا تھا۔ یہ صندوق اہلِ بیت کے پاس پہنچا۔ جنابِ زینب نے یہ کرتہ اپنے پاس رکھ لیا احتیاط سے۔ جس وقت یہ رہا ہوکر مدینہ پہنچے تو راستے میں بنی ہاشم کی عورتوں نے کہا: آقا زادی !چلئے اپنے گھر کی طرف تو جنابِ زینب نے کہا: اپنے گھر نہیں جاؤں گی، ابھی نانا کے پاس جانا ہے۔ ارے ناناکے روضے پر گئیں اور چوکھٹ کو ہاتھ سے پکڑ کر کہا: نانا! زینب آگئی اور اَب آپ کا دین قیامت تک برباد نہ ہوگا۔ نانا! ایک تحفہ لائی ہوں اور وہ کرتہ نکال کر نبی کی قبر پر رکھ دیا۔

دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کاانقلاب آفریں خطبہ

جنابِ زینب کا شہیدانِ کربلا کے مقصد شہادت، اپنی مظلومیت اور اسیری کو بیان کرنا اور ہندہ کا دربارِ یزید میں آکر یزید پر نفرین کرنا۔

میرے بھائیو!یہ کربلا میں جو گھر لٹا، یہ کس کا گھر تھا؟ یہ حسین کا گھر تھا۔یہ خود رسول اللہ کا گھر تھا۔ یہ بیبیاں جو قید ہوئیں، یہ کس کی نواسیاں تھیں اور کس کی پوتیاں تھیں؟ تمہارے رسول ہی کی نواسیاں تو تھیں جو کربلا سے کوفے تک اور کوفے سے شام تک قید ہوکر گئی ہیں۔

میرے عزیزو! کسی وقت اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا، آج اگر کربلا کا یہ واقعہ ہوا ہوتا اور رسول اللہ ہمارے سامنے موجود ہوتے اورآپ اُن کی خدمت میں جاتے تو اظہارِ افسوس کرتے یا نہیں؟ آپ جنابِ رسولِ خدا کو روتا ہوا دیکھتے تو یقینا آپ کا بھی دل روتا، اس لئے کہ محبت ہے رسول سے۔ اُن کے اس فرزند کے گلے پر چھری پھیری گئی کہ جس کو آپ کبھی سینے پر بٹھاتے تھے اور کبھی زانو پربٹھاتے تھے۔ کبھی فرماتے تھے کہ لوگو! دیکھو، یہ میرا فرزند حسین ہے، یہ میری بیٹی فاطمہ زہراء کا بیٹا ہے۔

مسلمانو! یہ میری آنکھوں کا نور ہے۔ اگر کبھی پیاسا ہو تو اسے پانی دے دینا اور اگر کبھی مدد کی درخواست کرے تو اس کی مدد کرنا۔ یہی وہ الفاظ تھے رسول اللہ کے جنہیں دہرا رہے تھے امام حسین !جب یاروانصار سب مارے گئے:

"هَلْ مِنْ نَاصِرٍیَنْصُرُنَا "

"کون ہے جو اس عالم بیکسی میں میری مدد کو آئے؟"

تاکہ رسول اللہ کا ارشاد یاد دلادیا جائے۔ دیکھئے! ہم سے کہاجاتا ہے کہ بیبیوں کے نام لئے جاتے ہیں بازاروں میں۔ یہ باتیں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے مصائب ذکر نہ کئے جائیں؟اگر ایسا ہی ہوتا تو قرآن مجید میں بیبیوں کے نام نہ لئے جاتے۔ کیا حضرتِ مریم کا نام نہیں لیا گیا؟ کیا وہ گھر ہی میں پڑھنے کیلئے ہے؟

دکان پر بیٹھ کر اسے پڑھنا نہیں ہے۔ کیا ان آیتوں کو کھڑے ہوکر لوگوں کو سنانا نہیں ہے؟ جس میں بیبیوں کے نام ہیں، یہ جو روایتیں اور احادیث ہیں، کیا چھپ کر پڑھنے کی ہیں؟ ان کتابوں کو اجتماعات میں پڑھتے ہو، وہاں تو کہتے ہو کہ فلاں بی بی سے یہ حدیث ہے، فلاں بی بی سے یہ روایت ہے!ان سب کے تو نام لئے جائیں اور جہاں مظالم کا تذکرہ ہو، نام نہ لئے جائیں۔ کیوں؟ ظالم سے کوئی محبت ہے؟ مظلوم سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ اگر مظلوم سے محبت ہوتی تو ایسی چیزیں زبان پر نہ آتیں۔

کونسی کتاب ہے جس میں یہ موجود نہیں۔ رسول اللہ کربلا میں موجود تھے جب حسین کے گلے پر چھری پھیری جارہی تھی۔ آپ امّ سلمہ اور عبداللہ ابن عباس دونوں کے خواب میں آئے ہیں۔ اس طرح سے کہ سر کھلا ہوا، غبار سے اٹا ہوا، آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے، ریش مبارک بھیگی ہوئی، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی، جنابِ اُمّ سلمہ نے دیکھا، گھبرا گئیں۔ عرض کرتی ہیں: یا رسول اللہ! یہ آپ نے کیا حالت بنائی ہے؟ فرماتے ہیں: اے اُمّ سلمہ،کربلا سے آرہا ہوں، میرے فرزندحسین کے گلے پر خنجر چل چکا۔

یاد رکھو! جنابِ رسالتمآب نے اِن بزرگوں کے خواب میں آکر اس لئے بتایا کہ مسلمان اچھی طرح جان لیں کہ میں بھی کرلبا میں تھا جہاں میرا گھر لٹ گیا۔ دیکھئے! کسی کے متعلق اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس کی بیٹی قید ہوگئی ہے تو کیا گزر جاتی ہے؟ مسلمانو! جب ہم کہتے ہیں کہ تمہارے نبی کی نواسیاں قید ہوگئیں تو ہمارے دل پر کیا گزرجانی چاہئے؟

یزید تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے سامنے امام حسین علیہ السلام کا سر بطورِ تحفہ لایا گیا ہے۔ ہماری شہزادیاں قیدیوں کی طرح زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ شمر ملعون آتا ہے، ایک طشت پیش کرتا ہے۔ یزید نے جب رومال اُٹھاتوبیبیوں نے دیکھا کہ حسین کا کٹاہواسر، بیٹی کی نگاہ پڑی، بہن کی نگاہ پڑی، دل میں درد رکھنے والو! کیا گزرگئی ہوگی!

یزید نے یہ کیا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی بید کی۔ وہ یہ لکڑی امام حسین کے دانتوں پر مارنے لگا۔ ایک صحابیِ رسول اتفاق سے دربار میں آگئے تھے۔ وہ ضبط نہ کرسکے۔ ایک مرتبہ کھڑے ہوکر کہنے لگے: ارے یزید! تو حسین کے دانتوں سے لکڑی ہٹا لے، خدا کی قسم! میں نے دیکھا ہے کہ ان دانتوں کو رسولِ خدا چوماکرتے تھے۔

لہٰذایہ مظالم کیوں بیان نہ کئے جائیں؟ ہماری شہزادیوں کا جب بازار سے گزر ہوا، بازار سے ہائے یہ بازار سے گزرنا

ایک بات جو مجھے یاد آئی جو شجر طوبیٰ میں ہے اور تاریخوں میں بھی ہے، ایک وقت آیا جب تیمور نے عرب فتح کیا تو وہ شام میں بھی پہنچا اور اُس کو یاد تھا کہ رسولِ اکرم کی اولاد کے ساتھ شام والوں نے کیا کیا؟ اُسے کچھ نفرت تھی۔ یہ اُن کے اوپر کچھ سختیاں کرنے لگا۔ لوگ نہ سمجھے کہ یہ سختیاں کیوں ہورہی ہیں؟ بعض لوگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ سے کچھ قرابت حاصل کریں۔ آپ اگر ہمارے ہاں ایک عقد کرلیں تو یہ رشتہ داری ہوجائے گی، ہم فخر کریں گے۔ اس نے کہا: اچھی بات ہے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے بڑے خاندان کی ایک خاتون کو منتخب کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ پہلے اسے حمام لے جاؤ۔ زیور وغیرہ اور لباسِ فاخرہ بھیج دئیے گئے۔ جب سب کچھ ہوا تو بادشاہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک لاغر سا اونٹ لے جاؤ جس کے اوپر کجاوہ تو ہو مگر پردے نہ ہوں۔ جب کوئی پوچھے تو تم کہنا کہ پہلے یہ خاتون بازاروں میں پھرائی جائے گی اس اونٹ پر چنانچہ یہ اونٹ جب گیا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ اونٹ کیوں آیا ہے؟ اُس نے کہا: بادشاہ کا حکم ہے، اس اونٹ پر یہ خاتون بازاروں میں پھرائی جائے گی۔ سب لوگ جمع ہوکر بادشاہ کے پاس پہنچے کہ یہ کیا ظلم ہورہا ہے؟

ہم نے سنا ہے کہ آپ نے ایسا حکم دیا ہے؟ تیمور نے کہا: ہاں، میں نے ہی ایسا حکم دیا ہے۔لوگوں نے پوچھا: آخر کس لئے؟ اُس نے کہا: تمہارے ہاں کا دستور یہی ہے۔ اُن لوگوں نے کہا کہ حضور! اس میں ہماری بڑی بے عزتی ہوگی۔ یہ خاندان ایک معزز خاندان ہے تو اُس نے کہا: خدا تم پر لعنت کرے۔ رسولِ خدا سے زیادہ بھی کوئی معزز ہے؟ جب اُن کی بیٹیاں تمہارے بازاروں میں پھرائی گئیں کہ جن کے ذریعے دنیا نے عبرت کا سبق سیکھا، ارے جس سے پردہ سیکھا تو تم کیا حیثیت رکھتے ہو؟

جس وقت دربارِیزید میں پیشی ہوئی اور جنابِ زینب کا خطبہ ہوگیا، خطبہ ہوگیا علی کی بیٹی کا! آپ نے فرمایا: یزید!کیا کہہ رہا ہے؟ شہادت ہماری میراث ہے۔ تو نے ہمیں قید کیا، اس کا جواب تجھے ہمارے ناناکو دینا ہوگا۔ اس کے بعد فرماتی ہیں:درباروالو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے آئے ہو؟ تمہیں پتہ ہے کہ میں کون ہوں اور یہ کٹا ہوا سر میرے بے گناہ مظلوم بھائی حسین کا ہے جا ناحق مارا گیا۔

اس کے بعد آپ نے خطبہ آگے بڑھایا۔ حالت یہ ہوئی کہ دربار والوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس کے بعد اُن میں سے اکثر کی چیخیں نکلنے لگیں۔ جب یہ کیفیت ہوئی تو یزید گھبرا گیا۔ جس جگہ وہ بیٹھا ہوا تھا، اُس کی پشت پر ایک دروازہ تھا، دروازے پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا، یہ دروازہ اُس کے محل سرا میں تھا۔

ایک مرتبہ وہ پردہ اُٹھا اور اندر سے ایک خاتون چادر کے بغیر نکلی اور دربار میں چلی آئی۔ اُس کی زبان پر تھا: ہائے حسین ، ہائے حسین !جب یزید نے یہ دیکھا کہ یہ اُس کی بیوی ہندہ ہے، گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ اپنی عبا اُتار کر اُس کے سر پر ڈالی اور کہا کہ میں رونے سے منع نہیں کرتا مگر میری عزت کا تو خیال کرلیا ہوتا۔ تو چادر اور پردہ کے بغیر گھر سے نکل آئی۔ اُس نے کہا: خدا کی مار تیری عزت پر! ارے یہ رسول کی بیٹیاں چادر کے بغیر تیرے دربار میں بیٹھی ہیں، اِن کی کوئی عزت نہیں ہے؟

مخدراتِ عصمت کی اسیری

معصوم بچوں کا ماوں کی گودوں سے گر کر شہید ہونا اورکربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک گلشن آلِ محمد سے پھول گرتے چلے گئے اور شام آگئی۔

تمام دنیا ، حتیٰ کہ انبیاء بھی ، ذرا تورات اُٹھا کر دیکھئے، ان کے واقعات ، تاریخیں اُٹھا کر دیکھئے تو انبیاء روتے ہی رہے۔ انہوں نے چالیس چالیس دن تک ماتم قائم کئے ہیں۔ جنابِ یعقوب کا رونا تو بہت مشہور سی چیز ہے۔ رونا ایک فطری امر ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے رُلایا بھی ہے اور ہنسایا بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ فطری چیزیں ہیں۔ ان فطری چیزوں کو کسی نہ کسی مقام پر صرف کرنا ہے تو اچھا محل کیوں نہ دیکھا جائے اور جب آپ اچھا محل تلاش کریں گے تو اس جگہ سے بہتر کونسی جگہ نظر آئے گی جس پر رسولِ خدا بھی روتے ہیں۔

رسولِ اکرم پچاس سال بعد قبر سے نکل کر روئے۔ حضرت اُمّ سلمہ وہ زوجہ مطہرہ ہیں آنحضور کی جنہوں نے جنابِ سیدہ کے بعد حسین کی پرورش کی ہے۔انہوں نے رسولِ خدا کی محبتوں کو دیکھا تھا، لہٰذا اُن کو حسین سے بے حد محبت تھی۔ عاشور کا دن جو آیا تو اُن کا دل گھبرارہا تھا۔ دن بھر پریشان رہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کا بیٹا مر جائے مشرق میں اور مغرب میں تو چاہے کوئی پیغام نہ آئے اس کے مرنے کا لیکن حضور! وہ جو ایک تعلق روحانی ہوتا ہے، وہ اثر کرتا رہتا ہے۔ باپ کو یہ معلوم ہوتا ہے بغیر کسی وجہ کے، دل بیٹھا جارہا ہے، کمر ٹوٹ رہی ہے۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت یا اُس دن مرگیا تھا۔

جنابِ اُمّ سلمہ نے تو پالا ہی تھا، عاشورہ کا دن آیا۔ دن بھر بے چین رہیں اور یہ جانتی تھیں کہ حسین گئے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے۔ جب عصر کا وقت گزر گیا، یہ تھکی ہوئی سو گئیں۔

آپ نے خواب میں دیکھا کہ رسولِ خدا تشریف لائے ہیں، آپ کے سر پر عمامہ نہیں ہے، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں، گردوغبار میں اَٹے ہوئے، ریش مبارک آنسوؤں سے بھیگی ہوئی، جنابِ اُمّ سلمہ نے یہ حالت دیکھی تو کھڑی ہوجاتی ہیں۔ سلام کیا اور کہا: یارسول اللہ!آپ نے یہ کیا حالت بنائی ہے؟ فرماتے ہیں: اے اُمّ سلمہ! تمہیں خبر نہیں کہ میں کربلا سے آرہا ہوں۔ میرا فرزند حسین میرے سامنے ذبح کیا گیا۔ رسول اللہ اُن کے خواب میں اس لئے آئے کہ مجھ سے محبت کرنے والے ذرا حسین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ قربانیاں، دنیا میں کس لئے پیش کی گئیں؟ حسین اور اُن کے تمام یاروانصار کس بیدردی سے بھوکے پیاسے شہید کئے گئے؟مسلمانو! رسول کے گھرانے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اُمت نے کیسا سلوک کیا؟ سب کو شہید کرنے کے بعد بیبیوں کو لوٹا گیا اور پھر اُن کے خیموں میں آگ لگا دی گئی۔ گیارہویں تاریخ کو یہ بیبیاں، چونسٹھ یا چوراسی تھیں جن کی گودوں میں بچے بھی تھے، قید کرکے کوفے کی طرف لے جائی گئیں۔

نوکِ سناں پر مظلوم امام کا سر

جو سکینہ کی بیکسی کو دیکھ کر آنسو بہارہاتھا۔ بنتِ زہرا نے اپنا سر کجاوہ کی لکڑی پر دے مارا اور روکر کہا: میرے بھیا حسین ! کیا میری ماں نے تجھے اس دن کے

لئے چکیاں پیس پیس کر پالا تھا؟

اور پھر جب دین برباد ہونے لگا تو اُس کی آواز آرہی تھی:

"هَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا "

"کوئی ہے جو اس وقت میری مدد کو پہنچے؟"

کسی جگہ سے کوئی آواز بلند ہوئی؟ کہ اے دین اسلام! ہم تیری مدد کریں گے۔ ہاں! اُسی نے آواز دی کہ جو دین تھا خود اُس نے آواز دی کہ دین! گھبرائیے نہیں جب تک میں زندہ ہوں، تجھے برباد نہیں کیا جاسکتا۔ اُسی کا نام تھا حسین !!

اس امام نے وہ کارنامہ سرانجام دیاکہ سسکیاں لیتا ہوا دین دوبارہ زندہ ہوگیا۔ لہٰذا جب تک دین رہے گا، حسین رہے گا۔ جنابِ زینب جب قید سے چھوٹ کر آئی ہیں اور مدینے میں داخل ہوئی ہیں، کسی نے کہا: چلئے اپنے گھر! جنابِ زینب نے روکر فرمایا: ابھی گھر کہاں جاؤں گی؟ ابھی تو نانا کی قبر پر جانا ہے۔ سب سے پہلے بھائی کی "مظلومیت" اور شہادت کے بارے میں بتانا ہے۔ جاکر چوکھٹ پکڑ کر نانا کی قبر کی، ایک مرتبہ کہتی ہیں: نانا! زینب قید سے رہا ہوکر آگئی ہے۔ نانا! اگر یہ لوگ نامحرم نہ ہوتے تو میں آپ کو اپنے بازوؤں کے نشان دکھلاتی۔ نانا! میں نے وہ محنت کی ہے کہ اب قیامت تک آپ کے دین کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔

امام حسین علیہ السلام اس قافلے کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے جس میں ہر ہر مقام کے افراد کو جمع کر دیا گیا۔ کچھ بچیاں ایسی لے کر گئے تھے کہ جو طمانچے کھائیں اور یاد رہیں طمانچے مارنے والوں کو کہ یہ مظالم بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہ جائے کہ تین چار سال کی بچی ہے مگر طمانچے کھانے کے بعد بھی بد دعا نہیں دیتی۔ تکلیف ہوئی، رودی مگر بددعا نہیں دی۔

ایسے بچے بھی لے گئے جن کی عمر کربلا پہنچ کر چھ ماہ کی ہوئی تاکہ ہر ظلم کا نشانہ بنیں اور مسکراتے ہوئے چلے جائیں۔ کچھ بچے ایسے لے گئے جو یہ کہتے تھے کہ شہد اتنا میٹھا نہیں ہے جتنی موت میٹھی ہے۔ یہ تیرہ سال کے بچے کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں۔ امام حسین نے وہ کارنامہ انجام دیا بلکہ دین پر وہ احسان کیاجس سے دین کا سر قیامت تک کبھی نہیں اُٹھ سکتا۔

جب شمر کا خنجر حسین کے گلے کے نزدیک پہنچا، سب سے پہلے مسکرائے، اس کے بعد بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں: پروردگار! میں نے ، میرے ماں باپ نے، جو وعدہ کیا تھا، تیری توفیقات سے میں اس وعدہ کو پورا کرچکا۔خدایا! جو تو نے وعدہ کیا ہے"پورا کرنا"، آواز آئی: حسین تونے اپنے آپ کو میرے لئے مٹا دیا، تو اب میرا وعدہ یہ ہے کہ تمام عالم مٹ جائے گا لیکن تجھے نہ مٹنے دوں گا۔

مومنین کرام!یہ وعدہ خدا کا کس طرح پورا ہورہا ہے، صرف دعویٰ نہیں ہے، دلیل ہے۔ مٹانے والے آج بھی مٹانے کی کوشش میں ہیں لیکن جتنا مٹانا چاہتے ہیں، اُتنا ہی حسین کا نام اُبھرتا چلا جاتا ہے۔ حسین مظلوم کے ذکر میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ہم نہیں ترقی دے رہے، ہماری حیثیت ہی کیا ہے، وعدہ کرچکا ہے خدا کہ تیرے اوپر رونے والے قیامت تک پیدا کرتا رہوں گا۔ آج گیارہ محرم تھی، یاد تو ہوگی آپ کو، اس سے پہلے جو رات گزری ہے، یہ ان بیبیوں پر کیسی گزری ہے؟ زمین پر بیٹھے بیٹھے تمام رات گزاردی، اس رات میں گچوں کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے وحشت ناک مناظر دیکھے ہیں کہ اب وہ روتے بھی نہیں۔ اتنے سہم گئے ہیں کہ اب بالکل خاموش ہیں۔ زبان سے کہہ دینا اور ہے، اور سن لینا اور ہے۔ ہم کہتے کہتے عادی ہوگئے، آپ سنتے سنتے عادی ہوگئے۔ ذرا کبھی تصور تو کیجئے کہ جن کے سارے عزیز مر چکے ہوں، ان کی لاشیں سامنے پڑی ہوں، ان لاشوں پر بیبیاں جابھی نہ سکتی ہوں، اُن کی رات کیسے گزری ہوگی؟

جب تک حسین زندہ رہے، اس وقت تک جنابِ زینب کبھی کبھی روتی بھی ہیں، بھائی سے مل کر روئیں،بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر روئیں مگر اِدھر حسین کا سر نیزے پر آیا، اُدھر زینب کے آنسو خشک ہوگئے، اس لئے کہ ذمہ داریاں جنابِ زینب پر آگئی تھیں۔ کبھی اتنی بیبیاں تھیں ، اُن کے بچوں کو گود میں لیتی تھیں، کبھی امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آکر بیٹھتی تھیں اور کبھی ان بیبیوں کو تسلی دیتی تھیں اور کبھی بچوں سے کچھ باتیں کرتی تھیں۔ یہ رات اسی طرح گزرگئی۔ گیارہ محرم یعنی آج یہ ساری بیبیاں قید ہوکر کوفے کی طرف روانہ ہوگئیں۔ جنابِ زینب نے ساری بیبیوں کو خود سوار کیا۔ ذرا تصور تو کیجئے، جنابِ زینب تنہا رہ گئیں اور آپ کا سوارکروانے والا کوئی

نہ رہا۔ایک مرتبہ قتل گاہِ حسین کی طرف نگاہ کی، آواز دی، بھیا حسین ! ارے زینب کو سوارکرنے والا کوئی نہیں، قید ہوکر جارہی ہوں۔ کم ازکم اونٹ پر سوار کرنے کیلئے تو آجاؤ! دریا کی طرف نگاہ کی: ارے میرے غیرت مند بھائی عباس !میں قید ہوکر جارہی ہوں، مجھے سوار کروانے والا کوئی نہیں۔

اس جگہ کا ایک واقعہ یاد آیا، جنابِ ابوذر غفاری اس دنیا سے اُٹھے تھے، ان کی بیٹی راستے میں کھڑی ہوگئی۔مالک اُشتر کا قافلہ آیا، انہیں بتایا گیا۔ تمام قافلہ رُک گیا۔ ابوذر کو دفن کیا۔ آخر میں مالک اُشتر نے حکم دیا کہ ایک عماری الگ بنائی جائے، ابوذرکی بیٹی کیلئے تاکہ اسے سوار کرکے امیرالمومنین کی نگرانی میں دیا جائے۔ایک عماری الگ بنائی گئی، کفن و دفن سے فارغ ہوکر آپ نے حکم دیا: قافلے والو! تیار ہوجاؤ، سفر شروع کرو۔ لوگوں نے تیاری کی، سامان وغیرہ اونٹوں پر رکھ چکے۔ بعض لوگ بیٹھ بھی چکے کہ اتنے میں کسی شخص نے مالک اُشتر سے کہا کہ تم نے جو عماری بنوائی تھی ابوذر کی بیٹی کیلئے، ابوذر کی بیٹی کا پتہ نہیں کہ کدھر چلی گئی؟ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ مالک اُشتر گھبرا گئے۔ آپس میں باتیں ہونے لگیں کہ کدھر چلی گئی ابوذرغفاری کی بیٹی؟ ایک شخص اتفاق سے آرہا تھا، بالکل اجنبی۔ اُس نے بھی کچھ سن لیا۔ اُس نے کہا: گھبراؤ نہیں، آج جو نئی قبر بنی ہے، اس پر میں نے ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔ جاکر تلاش کرو، وہی نہ ہو۔

چنانچہ مالک اُشتر خود گئے، دیکھا کہ ابو ذر کی بیٹی باپ کی قبر پر منہ رکھے ہوئے رو رہی ہے۔ بابا!میں آج جارہی ہوں۔ میں اب آپ کی قبر پر فاتحہ کیلئے نہیں پہنچ سکوں گی۔ مالک اُشتر نے کہا: بیٹی چلو۔ ابوذر کی بیٹی نے کہا: چچا مالک! خدا کیلئے مجھے چھوڑ دیں کہ باپ کی قبر پر رہوں، پھر رخصت ہوجاؤں۔

صاحب مفتاح الجنان لکھتے ہیں کہ جب بیبیاں سوار ہونے لگیں، جنابِ زینب سوار کرنے لگیں تو کسی کی زبان سے نکلا کہ علی و فاطمہ کی چھوٹی بیٹی اُمّ کلثوم کدھر ہیں؟ اب ان کو اِدھر اُدھر نگاہیں ڈھونڈنے لگیں۔ آخر میں بیبیوں نے کہا کہ ان میں تو وہ نہیں ہیں۔ یہ جو کہا گیا تو سب بیبیاں گھبراگئیں۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اتفاق سے ایک شخص اُسے آنکلا۔ اُس نے بھی کچھ سن لیا۔ اُس نے کہا: گھبراؤ نہیں، میں ابھی اُدھر سے آرہا ہوں، دریا کے کنارے،میں نے دیکھا کہ وہاں ایک لاش پڑی ہوئی ہے جس کے بازوکٹے ہوئے ہیں، اس لاش سے لپٹی ہوئی ایک بی بی رو رہی ہے، دیکھو شاید وہی ہو؟جنابِ زینب جو پہنچیں تو اُمّ کلثوم عباس کی لاش سے لپٹی ہوئی کہہ رہی تھیں: بھیا! میں قید ہوکر جارہی ہوں۔

یہ قافلہ کوفے کے قریب پہنچا، چالیس اونٹوں پر بیبیاں سوار، محبانِ حسین سے عرض کررہا ہوں۔ جب دروازئہ کوفہ ڈیڑھ میل رہ گیا، ایک مرتبہ حکم آتا ہے، ابن زیاد کا، کہ قیدیوں کو ٹھہرادو، اس لئے کہ ابھی شہر سجایا نہیں گیا۔

عزادارانِ اہلِ بیت !شہزادیوں کا گزرہونے والا ہے، قیدیوں کی حالت میں__دو گھنٹے یہ قیدی کھڑے رہے، گودوں میں چھوٹے چھوٹے بچے لئے کھڑی یں۔ آخر میں ایک دفعہ باجوں کے بجنے کی آواز آئی۔ یہ استقبال ہے کس کا؟ نبی کی بیٹیوں کا جو اس وقت بغیر رِدا کے ہیں۔ اُن کے سر پر چادر نہیں ہے۔ حکم آیا کہ قیدیوں کو بڑھاؤ مگر اس طرح سے کہ جتنے کٹے ہوئے سر ہیں شہداء کے، وہ سب نیزوں پر بلند ہوں۔ سارے سر بلند کئے گئے۔ ہر ایک سر اُس بی بی کے اونٹ کے ساتھ بلند کیا گیا جو اُس کی بہن تھی یا بیٹی تھی یا اُس کی ماں تھی۔ امام حسین کا سرجس نیزے پر نصب کیا گیا، وہ نیزہ جنابِ زینب کے اونٹ کے پاس تھا۔

ارے زینب کی گود میں سکینہ بھی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ سکینہ نے باپ کا سر نیزے پر دیکھا۔ امام حسین کے سر سے دو تین قطرے خون کے گرے۔ جنابِ زینب کی نگاہ پڑی تو اپنے کجاوے کی لکڑی پر اپنا سر دے مارا اور آپ نے کہا کہ میری ماں کے چاند! کیا میری ماں نے چکیاں پیس پیس کر اسی لئے پالا تھا کہ تیرا سر اس طرح سے نیزے پر بلند کیا جائے؟

امام حسین کی زینب کو وصیت

امام حسین وصیت کرگئے تھے کہ زینب بہن!میرا کام ختم ہوااور تمہارا کام شروع ہوا،کربلا تک میرا کام تھا اور شام تک تمہاراہے۔زینب بہن!اپنے بھائی کو دعاوں میں یاد رکھنا۔

جب قیدی آئے ہیں دربار میں، بعض لوگ نہ سمجھے ہوں گے کہ یہ کون قیدی ہیں؟ ویسے قیدی چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بتلاؤں، آپ سمجھ گئے ہیں۔ رسول اللہ کی بیٹیاں، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹیاں۔ یہ قید کی گئی تھیں۔ مسلمانو! اگر کسی نے یہ خبر نہ سنی ہوتی تو شاید یہ سننے کے بعد دل کی حرکت بند ہوجاتی۔ رسولِ خدا کی بیٹی قیدی اور اس طرح کہ پہلے بازارِشام میں پھرائی بھی گئی ہیں!!

کبھی کبھی کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ بات آتی ہے اور کبھی کبھی شکایت بھی پیدا ہوتی ہے کہ یہ کیوں ایسا ہوا؟ جنابِ زینب چاہتیں اور ذرا سے ہاتھ اُٹھا دیتیں کہ کیا مجال تھی ؟ کوئی قوت تھی کہ وہ اس طرح سے قید کرکے لے جاتا؟ بات یہ تھی کہ امام حسین وصیت کرگئے تھے کہ بہن! میرا کام ختم ہوا اور تمہارا کام شروع ہوا۔ کربلا تک میرا کام تھا، شام تک تمہارا کام ہے۔

جب سے حکومت دنیا میں بنی ہے، اس کا طریق کار یہ رہا ہے کہ کسی اپنے دشمن کو اگر وہ ذلیل کریں یا قتل کریں یا قید خانے میں ڈال دیں تو کوئی نہ کوئی عیب اس میں نہیں بھی ہے تو عیب اس میں لگایا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا کروایا جاتا ہے اپنے آدمیوں کے ذریعے سے کہ یہ شخص اچھا نہ تھا، اس لئے قید خانے میں ڈالا گیا۔ یزید اس چیز کو اچھی طرح سے جانتا تھا کہ پروپیگنڈا کیوں اور کیسے کروایا جاتا ہے کیونکہ اُس نے اُس جگہ پرورش پائی تھی جو اس قسم کے پروپیگنڈے کا گھر تھا اور

روزانہ وہ ان چیزوں کو دیکھتا تھا۔ وہ اچھی طرح سے سمجھ سکتا تھا کہ کسی شخص پر الزام لگانے کے کتنے طریقے ہوسکتے ہیں اور کس طرح سے لوگوں میں اس کے اثرورسوخ کا زائل کیا جاسکتا ہے۔امام حسین علیہ السلام یہ جانتے تھے اور اس کیلئے جنابِ امام حسین نے جنابِ زینب کو منتخب کیاتھا۔ میری بہن! حکومت جو پروپیگنڈا میرے خلاف کرے گی، اگر تم شام تک چلی جاؤ گی تویہ تمام قوتیں ختم ہوجائیں گی۔ ایک تمہاری آواز دنیا پر چھا جائے گی۔

اور یہی ہوااور جنابِ زینب سلام اللہ علیہا اسی خیال سے چلیں۔ لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ ایک شخص نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم نے اُسے قتل کردیا۔ اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا۔ اُس کے بال بچوں کو گرفتار کیا اور وہ فلاں دن دمشق میں داخل ہوں گے۔ پچاس پچاس میل تک، سو سو میل تک جب یہ خبریں پہنچیں تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ کوئی غیر مسلم ہوگا، مسلمان نہ ہوگا جس نے یہ حملہ کیا ہے۔ وہ مسلمان نہ ہوگا جس کی عورتیں قید ہوکر آرہی ہیں۔ یہ لوگ جمع ہوگئے ، لاکھوں آدمیوں کا ہجوم، قافلہ قیدیوں کا آرہا ہے۔ کالے عَلَم دکھائی دئیے اور زیادہ متوجہ ہوگئے لوگ کہ یہ کیا ہے؟ ابھی تک خیال وہی ہے۔ اس کے جب قریب آئے وہ اونٹ جن کے ساتھ سر تھے تو لوگوں نے گھبرا گھبرا کردیکھنا شرو ع کیا اور آخر میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: ارے بھائی! کہا جاتا ہے کہ مسلمان نہیں! ان کی پیشانیوں پر تو سجدوں کے نشان ہیں اور اس کے بعد دوسرا کہتا ہے کہ اس کو تو چھوڑا، یہ تو دیکھو ان بیبیوں کی گودوں میں جو بچے ہیں، وہ قرآن پڑھتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ یہ جو چیزیں دیکھیں تو اس کے بعد لوگوں نے پوچھنا شروع کیا:ارے بھئی! یہ کہاں کے قیدی ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کس خاندان کے ہیں؟ تو کسی نے بتلایا کہ جس کا کلمہ پڑھتے ہو، اُس کی بیٹیاں ہیں۔ وہ جو پروپیگنڈے ہورہے تھے، ایک مرتبہ ایک نظر میں ختم ہوگئے۔

اس کے بعد وہ طبقہ جو اُمراء کا طبقہ سمجھا جاتا تھا، جن کے خیالات دنیا کی طرف مرکوز رہتے ہیں، اُن سے سامنا ہوا۔ حضور! جب دربار میں یہ قافلہ پہنچ گیاتووہاں کم سے کام سات سو کرسیاں تھیں جن پر ارکانِ دولت اور روسائے وج بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے بڑے آدمی اِدھر اُدھر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ دروازے کی طرف سے زنجیروں کی آواز آئی۔ اب جو نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک بیمار ہے، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے ہوئے، نظر جھکائے ہوئے چلا آرہا ہے۔

اس کے بعد بیبیاں نظر آئیں اور بیبیاں کس طرح سے زبان سے الفاظ نکلتے نہیں ہیں مگر کیا کروں؟ کہلوایا زمانے نے، کسی کے سر پر چادر نہیں، ایک طرف بیٹھ گئیں یہ بیبیاں سرجھکائے۔ یزید یہ سمجھ رہا تھا کہ میری فتح کی خوشی ہے۔ وہ اپنی فتح کی خوشی میں مخمور تھا۔ شمر نے آکر سرپیش کیا بطور تحفہ۔یزید نے رومال ہٹایا۔ جب لوگوں کی نظریں پڑیں ، قتل ہوئے چار پانچ مہینے گزر گئے ہیں مگر دیکھنے والوں کے بیان ہیں کہ خدا کی قسم! اتنا خوش شکل چہرہ کبھی نہیں دیکھا جتنا یہ کٹا ہوا سر تھا۔

چہرے سے نور نکل رہا تھا۔ بعض لوگ جن کی روحوں میں سعادت تھی، سر کو دیکھتے ہی گھبراگئے۔ یہ کیا ہوا؟ کس کا سر ہے؟ کبھی بیبیوں کی طرف نگاہ ہے، کبھی امام زین العابدین کی طرف۔ امام زین العابدین سر نہیں اُٹھاتے، سر جھکائے ہوئے ہیں۔ آپ کے متعلق یہ لکھا ہے کہ کربلا سے قید ہو کر جب چلے، کوفے میں قید رہے، ابن زیاد کے دربار میں پیش ہوئے، کوفے سے پھر شام کے راستے دمشق، بارہ سو میل کا راستہ،اس تمام راستے میں امام زین العابدین کی حالت یہ رہی کہ ہمیشہ سرجھکائے ہوئے رہتے تھے۔ دل میں نشتر چبھنے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب یہ چیز میرے خیال میں آجاتی ہے، بنی ہاشم کا جوان،۲۲سال کی عمر، رسول کا نواسہ، علی کا پوتا،امام حسین علیہ السلام آخری وصیت میں فرماگئے تھے: بیٹا! ماں اور بہنوں کا ساتھ ہے، گھبرا نہ جانا، میری محنت برباد ہوجائے گی۔

ایک فقرہ اگرآپ کے سامنے عرض کروں تو شاید یہ بے محل نہ ہوگا، ایک مرتبہ ایسا ہوا اور یہ ہوتا چلا آرہا ہے، ذرا ذرا سی بات پر شمرجنابِ امام زین العابدین علیہ السلام کو ستاتا تھا۔ نوکِ نیزہ سے اذیت دیتا تھا، بازارِ شام میں ایک مرتبہ امام زین العابدین گر پڑے۔ بیمار کو ٹھوکر لگی، گر پڑے، اُس نے نیزے کی نوک سے تکلیف دی، تڑپ کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے باپ کے سر کی طرف نظر کرکے عرض کرتے ہیں: بابا! میری کمرکو دیکھئے، کتنی زخمی ہوچکی ہے۔جنابِ زینب نے جب یہ دیکھا تو آواز دی: بیٹا! منزل قریب آگئی ہے، گھبراؤ نہیں۔

جب یزید نے دربار میں خطاب کیا، تمہارے بھائی کو خدا نے قتل کیا، تم کو رُسوا کیا کہ قید ہوکر میرے دربار میں آئے ۔ جنابِ زینب کوموقعہ ملا کہ یہ وقت ہے کہ اُس تمام پروپیگنڈے کو اسی جگہ ختم کردوں تو ایک مرتبہ آپ نے آواز دی: "یزید! خاموش ہوجا، کیا بک رہا ہے؟ تو یہ کہتا ہے کہ میرا بھائی قتل ہوا، اُس کی ہمیں پروا نہیں، قتل ہونا ہماری میراث ہے۔ رہ گئی یہ چیز کہ تو نے ہمیں گرفتار کیا اور دربار میں لایا، ہماری ذلت نہیں ، تو ذلیل ہوگا جب قیامت کا میدان ہوگا تو میرے نانا پوچھیں گے"۔ اتنی باتیں کی تھیں جنابِ زینب نے کہ دربار والے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ علی کی آوازکہاں سے آئی۔ آپ نے فرمایا:"دربار والو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے کیلئے بیٹھے ہو، تمہیں پتہ نہیں کہ میں کون ہوں؟ ارے تمہارے رسول کی جو بیٹی تھیں ناں فاطمہ زہرا ، اُن کی بیٹی زینب ہوں۔ یہ کٹا ہوا سر میرے بے گناہ مظلوم بھائی کا ہے۔

سکینہ کا باپ کی لاش کو تلاش کرنا

سکینہ کامیدانِ کربلامیں جاکر اپنے مظلوم باپ کی لاش کو تلاش کرنا اور جنابِ زینب کا میدان میںآ کرسکینہ کولاشِ پدرسے جداکرکے خیموں میں لے جانا۔

بڑا گھر تھا، ایسا آباد گھر چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا مگر معلوم نہیں اپنے محاورات میں یہی کہاجاتا ہے کہ کسی کی نظر لگ گئی۔ یہ گھر، ایک وقت آیا کہ اس طرح برباد نہ ہوا ہوگا، اس گھر میں خوشیاں ہوئیں مگر وہ خوشیاں کہ جو خدا کی رضامندی کی وجہ سے تھیں، لیکن اس میں جتنے غم ہوئے اور جتنی مصیبتیں اس گھر پر آئیں، وہ دنیا کے کسی اور گھر پر نہیں آئیں۔ میرے بزرگو! یہ گھر مسمار کیا گیا۔ اس کے رہنے والوں کو نکالا گیا۔ اگر ان کا گھر وہی تھا جہاں چلے گئے لیکن جہاں بھی چلے گئے، لوگوں نے ان کو چین سے نہیں رہنے دیا۔ کسی گھر سے جنازئہ رسول نکلا مگر کس طرح سے نکلا؟ اس طرح سے نکلا، کہنے میں بات آتی ہے، زمانے کا اگر گلہ کروں تو بجا ہے۔ وہ رسول جو ہر ایک شخص کے دکھ اور درد میں برابر شریک ہوتا رہا، اگر معلوم ہوا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود نہ کھایا، اُس کا پیٹ بھر دیا۔ اگر کوئی بیمار ہوا تو اُس کی مزاج پُرسی کیلئے خود گئے۔ پھر اعتبار سے کہ سردارِ دو عالم، جن کے احسانات کی کوئی انتہا نہ ہو، ان کے بارے میں اگر غیر مذہب کے آدمی سے کہا جائے کہ اس کا جنازہ نکلا، وہ فوراً کہے گا کہ نہ معلوم کتنے لاکھ آدمی ہوں گے لیکن حضور! جنازہ اس طرح نکلا کہ سوائے اپنے چند آدمیوں کے کوئی جنازے میں نہ تھا۔

اس کے بعد یہی گھر تھا کہ دو تین دن کے بعد جب سیدہ قبر پر پہنچی ہیں اپنے باپ کی، تو یہ کہتے ہوئے پہنچی ہیں کہ بابا! اب وہ فاطمہ نہیں ہوں جو آپ کے زمانے میں تھی۔ کاش! کوئی اتنا کہہ دیتا کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کا انتقال ہوگیا، ہمیں رنج ہے۔ کاش! فاطمہ کے دروازے پر

آکر لوگ یہ کہہ دیتے کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کے اُٹھ جانے کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ذرا بتلائیے تو سہی، جس کی حالت یکا یک اتنی منقلب ہوگئی ہو، اُس پر کیا کچھ گزری ہوگی؟

کیا عرض کروں؟ جانوروں پر اثر پڑا، طیور پراثر ہوا، وہ اونٹنی جس پر جنابِ رسالتمآب سوار ہوا کرتے تھے، آپ کے انتقال کے بعد اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ بہت کچھ کوشش کی گئی

لیکن اُس نے بالکل کچھ نہ کھایا۔ آخر کب تک ایک جانور بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکتا ہے؟ دو دن کے بعد اس سے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنی رسی تڑوائی اور سیدھی چلی جنابِ رسالتمآب کی قبر کی طرف۔ قبر کے پاس جاکر اُس نے اپنا رخسار رکھ دیا اور لوگوں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ لوگ گئے کہ وہاں سے ہٹائیں مگر وہ نہ ہٹی۔ مجبور ہوکر لوگ آئے جنابِ فاطمہ کے دروازے پر، سیدئہ عالم سلام اللہ علیہا ! آپ کے والد کی اونٹنی قبر پر پہنچ گئی ہے اور وہاں سے اُٹھتی نہیں۔ جنابِ سیدہ چادر اوڑھ کر نکلیں، قبر پر پہنچیں۔ جب اُس نے دیکھا کہ شہزادی آگئیں، آپ نے اشارہ کیا، فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی، اپنی جگہ واپس پہنچی۔ جنابِ سیدہ اپنے حجرے میں آگئیںَ تھوڑی دیر کے بعد یہ اونٹنی پھر وہیں پہنچ گئی یعنی ایک بیقراری کا عالم تھا۔ آخر یہ ہوا کہ کئی مرتبہ اسی طرح سے گئی اور جنابِ سیدہ آئیں۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے ذبح کر ڈالیں لیکن جنابِ سیدہ نے فرمایا: میں اپنے باپ کی اونٹنی کو، جو اتنی محبت کرتی ہے میرے باپ سے، کبھی بھی ذبح کی تکلیف دینا گوارہ نہیں کروں گی۔ وہ اسی طرح مر گئی، اسے دفن کروایا گیا۔

مومنین کرام! دیکھا آپ نے کہ جنابِ رسالتمآب کے اُٹھ جانے کا جانوروں پر یہ اثر پڑا تھا۔ اب آپ بتلائیے کہ بیٹی پر کیا اثر ہوگا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب یہ عالم دیکھا کہ لوگ اتنے پھر گئے کہ کسی نے آ کر دروازے پر یہ بھی نہ پوچھا کہ فاطمہ ! آپ کس حال میں ہیں اور اگر آئے بھی تو کس مشکل میں آئے، اس کا میں کیا ذکر کروںآ پ کے سامنے؟جنابِ سیدہ گھر میں بیٹھ کر فریادکررہی تھیں کہ بابا! ذرا دیکھئے تو سہی،بابا دنیا والوں نے آپ کی وفات کے بعد ہم سے کس طرح منہ موڑ لیا ہے؟ آنحضور کے بعد معظمہ بی بی کا سارا وقت روتے اور ماتم کرتے ہوئے گزرا۔ اس کے بعد اس گھر سے سیدہ کا جنازہ نکلا اور وہ نکلا چند آدمیوں کے سہارے۔ اس کے بعد سیدہ کے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا جنازہ نکلا جس پر تیر برسے۔ آخر میں ایک جنازہ گھر سے تو نہیں لیکن اس گھر میں رہنے والے کا جنازہ یوں نکلا نکلا کیا؟ اُٹھانے والا ہوتا تو نکلتا! کتابوں میں لکھا ہے تیروں نے جنازہ اُٹھایا ۔

جنابِ رسالتمآب کا انتقال ہوا تو فاطمہ زہرا گھر میں تھیں،امیر المومنین موجود تھے، حسنین شریفین موجود تھے ،تسلی دینے کیلئے بنی ہاشم کے کچھ لوگ موجود تھے۔حسین جب شہید ہوئے تو اُن کی بیٹی اور بہن کو کوئی تسلی دینے والا نہ تھا۔ تسلی کو تو جانے دیجئے، ایک چھوٹی سی بچی تھی، وہ اگر اپنے باپ کو یاد کرکے روئی، حاضرین مجلس! کونسا گناہ ہوگیا لیکن اس کو اس طرح تسلی دی گئی کہ شمر نے طمانچے مارے۔ ایک مرتبہ یہ بچی پہنچ گئی جہاں امام حسین کی لاش پڑی تھی،ہائے بیٹی نے کس طرح باپ کی لاش کو دیکھا؟ جنابِ زینب کو معلوم ہوگیا کہ سکینہ کہیں چلی گئی ہیں تو جنابِ زینب و اُمّ کلثوم دونوں بہنیں مقتل کی طرف چل پڑیں۔ رات کا وقت ہے، چاروں طرف اُداسی کا عالم ہے۔ بی بی نے خیال کیا کہ جس وقت حسین چلے تھے، آخری رخصت کے بعد تو سکینہ دروازے پر کھڑی دیکھ رہی تھی، اُسی طرف ہی گئی ہوگی۔ جب آپ وہاں پہنچیں تو وہاں سکینہ کے رونے کی آواز آئی۔ آواز کی طرف چلیں تو وہی نشیب جس میں حسین شہید ہوئے تھے، وہاں یہ بچی باپ کی کٹی ہوئی گردن سے منہ ملائے کہہ رہی تھی: بابا! آپ کو کس نے شہید کیا؟ مجھ کو کس نے یتیم بنادیا؟ جیسے ہی جنابِ زینب وہاں پہنچیں، گود میں اُٹھایا، تسلی دیتی ہوئی لارہی تھیں کہ پوچھا: بیٹی! تم نے کس طرح پہچان لیا کہ یہ تمہارے بابا کی لاش ہے؟ عرض کیا: پھوپھی اماں! میں رو رو کر کہہ رہی تھی، بابا! آپ کدھر ہیں، اُدھر سے آواز آئی، بیٹی! اِدھر آجا، تیرا باپ اِدھر ہے۔

ہندہ کا خواب میں حضور کو دیکھنا اور درِ زندان میں آکر پوچھنا کہ قیدیو! یہ بتاو کہ تم میری شہزادی زینب کوجانتی ہو؟

امام حسین علیہ السلام کا سب سے بڑا دشمن تھا یزید مگر آخر میں مجبو رہوکر اسے بھی دربار میں کہنا پڑا: خدا لعنت کرے ابن زیاد پر، اُس نے حسین کو قتل کردیا۔میں نے تو کبھی نہیں کہا تھا۔ اور ایک دن وہ تھا کہ دربار میں فخر سے کہہ رہا تھا : کاش! میرے وہ بزرگ ہوتے جو بدر میں مارے گئے تو مجھے دعائیں دیتے کہ یزید! خدا تیرا بھلا کرے کہ تو نے ہمارا بدلہ لے لیا۔ شراب پیتا جاتا ہے، امام حسین کے سرِ اقدس سے بے ادبی بھی کررہا ہے۔ ہاتھ میں ایک بید ہے جو دندانِ مبارک کو لگارہا ہے۔ ذرا طہارت کی بلندی ملاحظہ فرمائیں، اسی دربار میں قتلِ حسین کا الزام ابن زیاد کے سر تھونپنے پر مجبور ہوگیا۔

کون پوچھتا اُس سے کہ اگر تو نے قتل نہیں کروایا تو اِن سیدانیوں کو قید کس نے کروایا؟ بغیر چادروں کے ان کو بازاروں اور دربار میں کون لایا ہے؟ جو رسول زادیاں تھیں، ان سے جو دربار اور قید خانے میں واقعات ہوئے، وہ سب اسی کے حکم سے ہوئے۔ کچھ لوگ اُس کے صرف اِس کہنے پر کہہ دیتے ہیں، وہ تو بے قصور ہے، وہ تو کہہ رہا تھا کہ میں نے تو قتل نہیں کروایا! خیر بہرحال ایسا بھی ہوتا آیا ہے زمانے میں

یہ کبھی رہا نہ کرتا اہلِ بیت کو مگر یہ مجبور ہوگیا، اسے یہ پتہ نہ تھا کہ جو اُسے پہلے خلیفہ رسول سمجھتے تھے، اب وہ بھی اس کو شیطان سمجھنے لگیں گے۔ حالت یہ ہوگئی کہ دمشق میں بیٹھی ہوئی عورتوں تک جب یہ خبریں پہنچیں کہ یہ جو قید ہوکر بیبیاں آئی ہیں، یہ تو فاطمہ کی بیٹیاں ہیں تو ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ اُن کے مرد جب گھروں میں آتے تھے تو وہ اُن سے کہتی تھیں کہ بے غیرتو! تم نے اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کو گھروں میں بٹھا رکھا ہے اور تمہارے رسول کی نواسیاں بازاروں میں پھرائی جارہی ہیں؟

یزید کو یہ خبریں پہنچیں کہ اب تو ایک انقلابِ عظیم برپا ہونے والا ہے۔ تب اُس نے اِن اسیروں کی رہائی کا حکم دیا۔ اور اس وقت چونکہ وقت کی ضرورت پڑگئی تھی، وہ سمجھ رہا تھا کہ دنیا مظلوم کی طرفدار بن گئی ہے، فطری حیثیت سے بن جانا چاہئے، لہٰذا طرفدار بن گئی۔ اس لئے اس کو یہ کہنا پڑا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا، قتلِ حسین تو ابن زیاد نے کیا ہے۔

یہ بیبیاں جو قید ہوگئی تھیں، معلوم نہیں کونسا دل تھا اُن کے سینے میں کہ جو کچھ تکالیف پڑتی تھیں، شکر ادا کرتی رہیں، یہاں تک کہ جنابِ زینب کے متعلق تو یہ ہے کہ قید خانے میں بھی کوئی رات نماز قضا نہیں ہوئی۔ اللہ اکبر،ارے یہ بیکسی تھی جو شام تک چلی گئیں۔ آپ کو غالباً معلوم ہے یہ شام سے کربلا جو وواپس آئی ہیں، یہ تقریباً چودہ مہینے ہیں، محرم کی گیارہ تاریخ کو کربلا سے گئی ہیں اور بیس صفر کو واپس پہنچی ہیں، اور ایک سال ، وہ تقریباً چودہ مہینے میں یہ قید سے رہا ہوکر آئی ہیں۔ قید میں جو کچھ تکالیف اُٹھائی ہیں، وہ اس کے علاوہ تھیں، معلوم نہیں کونسا دل تھا، کسی بی بی کی زبان سے کبھی یہ نکلا ہو کہ ہم کب رہا ہوں گے؟

بس ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ یزید نے کیاکیا مظالم کئے، وہ ہر وقت یہ سوچتا رہتا تھا کہ کن کن طریقوں سے ان بیبیوں کو روحانی صدمات پہنچاؤں تاکہ یہ گھل گھل کر یہیں مر جائیں۔ایک دن اُس کے دل میں خیال آیا اور اس خیال کے آنے کے بعد اپنے گھر گیا، شام کا وقت تھا۔ اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیکھو! صبح کو تم شاہانہ لباس پہننا اور کنیزوں کو بھی فاخرہ لباس پہنانا۔ بیوی نے پوچھا کہ کل کوئی عید ہے؟ اُس نے کہا: کچھ قیدیوں کو میں بھیجوں گا، تمہارے سامنے پیش ہوں گے تاکہ ان کو اپنی حالت دیکھ کر اور تمہاری حالت دیکھ کر رنج ہو اور اُن کے دل کُڑھیں اور وہ روحانی صدمہ اُٹھائیں۔ اُس کے دماغ میں یہ چیز نہیں آئی، اگرچہ جانتی تھی مگر وہ سمجھی کہ شاید کوئی دوسرے قیدی آگئے ہوں۔ ایک روز حکم ہوا یزید کا کہ اُس دروازے میں حسین کا سر لٹکا دیا جائے اور پھر قیدیوں کو لایا جائے۔

ایک سپاہی نے آکر کہا: زین العابدین ! تم یہاں رہو گے اور یہ جتنے قیدی ہیں، یہ سب حرم سرائے یزید میں پیش ہوں گے۔

آپ ذرا دلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ بیبیوں پر کیا کچھ گزر گئی ہوگی؟ جنابِ زینب اُٹھیں اور جنابِ زین العابدین علیہ السلام سے لپٹ گئیں اور فرماتی ہیں: بیٹا! میں کبھی نہ جاؤں گی، میں ہرگز نہ جاؤں گی۔ امام زین العابدین نے فرمایا: پھوپھی جان! ہم قیدی ہیں، دربار میں اُس نے ہمیں پیش کیا، اب اگر وہ حرم سرا میں بلا رہا ہے تو چلی جائیے۔ ہمیں بد دعا نہیں کرنا ہے۔ امام حسین آخری وصیت میں فرماگئے ہیں اور آپ کو یاد ہوگا۔ "بہن! جلال میں نہ آجانا، اور بد دعا نہ کرنا ورنہ میری محنتیں برباد ہوجائیں گی"۔

جنابِ زینب مجبور ہوکر زندان سے نکلیں۔ صبح کا وقت تھا۔ کچھ دن چڑھا ہوا تھا۔ بیبیاں ساتھ تھیں۔ جنابِ زینب کو سب نے اپنے ہالے میں لے رکھا ہے، یہ قیدی جارہے ہیں مگر کس عالم میں جارہے ہیں کہ قدم رکھتے ہیں کہیں اور پڑتا کہیں ہے !ادھر سے یہ قیدی چلے اور اُدھر سے قدرت نے دوسرا انتظام کیا۔ اس وقت یزید کی بیوی ہندہ سورہی تھی۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ایک کنیز دوڑتی ہوئی آرہی ہے کہ راستے سے ہٹ جاؤ۔ محمد مصطفےٰ کی بیٹی فاطمہ زہرا آرہی ہیں۔ جب اُس نے یہ آواز سنی تو وہ گھبرا کر ایک طرف ہوگئی۔ اب جودیکھتی ہے کہ چند بیبیاں ہیں جو اپنے منہ پر طمانچے مارتی ہوئی آرہی ہیں،"واحسیناہُ، وامظلوماہُ"کہتی ہوئی آرہی ہیں اور جس وقت اُس کے قریب آئیں، اُسے پہچان لیا۔ یہ کھڑی ہوگئی، سلام کیا اور پوچھا: میری شہزادی ! آپ یہاں کیسے آئیں؟ تو فرماتی ہیں: میں تیرے پاس نہیں آئی، میری زینب آرہی ہے، میں اُس کیلئے یہاں آئی ہوں۔

شہادتِ وہب

جنابِ سجاد نے فرمایا:اے شام کے لوگو! میں رسول اللّٰہ کا فرزند ہوں جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو۔

اپنے اپنے زمانے میں اور دیگر کمالات کے اعتبار سے امام حسین علیہ السلام نے جو مظاہرہ کیا ہے کمال کا ، کیسا مظاہرہ؟ اس وقت صبر کو بیان نہیں کررہا۔ مظالم کو برداشت کرنا، یہ نہیں کہنا چاہتا، یہ روزانہ آپ سنتے رہتے ہیں۔ میں ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو اپنے کمال کو پیش کیا ہے،وہ یہ کہ ایسے لوگ بنا لئے کہ کربلا میں پہنچنے کے بعد مصائب کا آسمان ٹوٹ پڑا مگر انہوں نے اُف بھی نہ کی۔ ایسی عورتیں آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعے سے مہیا کرلیں کہ اتنی مصیبتیں گزر گئیں لیکن ایک وقت میں بھی انہوں نے شکایت نہ کی۔ مرد__وہ تھے جن کے بارے میں آپ اکثر سنا کرتے ہیں کہ تین دن کی پیاس مگر کبھی کسی نے یہ نام بھی نہیں لیا کہ پانی بھی کوئی چیز ہے دنیا میں یا نہیں!

آپ کا یہ کمال کا مظاہرہ تھا۔ ایسے بچے جنہوں نے تیر کھائے اور خدا کی قسم! مسکراتے ہوئے دنیا سے چلے گئے۔ایسے اصحاب پیدا کرلئے کہ سامنے کھڑے ہوگئے اور پیچھے امام حسین نماز پڑھ رہے ہیں۔ تیر آتے ہیں اور ہڈیوں کو توڑتے ہوئے گزرتے ہیں مگر اُنہیں یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تیر آیا اور کب سینے کے پار ہوگیا۔ ایسی خواتین امام علیہ السلام اپنے ساتھ لائے جو خدا کے نام کیلئے جوان بیٹوں کو قربان کرنے کیلئے آئی تھیں۔ اس لئے ساتھ آئیں کہ یہ قربانی ہمارے سامنے ہو۔ یہ الفاظ نہیں ہیں، یہ واقعات ہیں جن کے بارے میں روزانہ سنتے رہتے ہیں اور کتب تاریخ میں یہ چیزیں موجود ہیں کہ ایسی خواتین ساتھ لائے کہ جو ان بیٹوں کو خود انہوں نے رخصت کیا اور کہہ کر رخصت کیا کہ اس وقت تک میں خوش نہیں ہوں گی ، اُس وقت دودھ نہ بخشوں گی جب

تک تیری لاش نہ آجائے گی۔ چنانچہ لاشیں آئیں اُن کی تو انہوں نے سب سے پہلا کام جو کیا، وہ سجدئہ شکر ادا کیا، خدایا! تو نے ہمیں سیدہ فاطمہ زہرا کے سامنے سرخرو کردیا(اللہ اکبر)۔

وہب کا واقعہ عام طور پر آپ سنتے رہتے ہیں۔ اُن کی ماں نے آواز دی کہ کہاں ہے میرا بیٹا؟ وہب نے کہاکہ حاضر ہوں۔ ان کی ماں نے کہا کہ ابھی تک تو صرف دیکھ ہی رہا ہے، لاشیں آرہی ہیں اور امام حسین لاشیں اُٹھا اُٹھا کر لارہے ہیں اور تو اس طرح سے کھڑا میدان کی طرف دیکھ رہا ہے، اسی لئے تجھے ساتھ لائی تھی؟

اُس نے کہا: نہیں، میں ابھی جان قربان کروں گا۔ دل تو دیکھئے گا اُن کا! تصوربڑی مشکل سے ہوتا ہے کیونکہ نظروں کا ملانا ناممکن ہوگیا ہے۔ وہ کہتی ہیں: کب تک دیکھتا رہے گا اور میں کب تک تیرا انتظار کروں گی کہ تیری لاش آئے؟ اُس نے کہا:آپ گھبرائیے نہیں، میں ابھی جارہا ہوں۔ کہا ہاں! میں اسی لئے تجھے پکار رہی ہوں اور خیمے سے نکلی ہوں کہ تو میرے سامنے جا۔ اُس نے کہا: بہت اچھا، میں جاتا ہوں۔ صبح سے اسلحہ جسم پر سجا ہوا تھا، جانے لگا خیمے کی طرف۔ کہا! ادھر کہاں جارہا ہے؟ اُس نے کہا: میں اپنی بیوی سے(سترہ دن ہوئے تھے شادی کو) اتنا کہہ دوں کہ میں مرنے کیلئے جارہا ہوں۔ اُس نے کہا: ادھر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اُس سے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟

ارے یہ شہادت کا مرتبہ ہے اور اس میں کسی سے کہنے اور کسی سے مشورہ کرنے؟اُس نے کہا: نہیں، مشورہ نہیں ہے، میں صرف کہنا چاہتا ہوں۔ گیا، پردہ جو اُٹھایا، دیکھا کہ پردے کے پاس اُس کی بیوی کھڑی ہے اور اُس نے دیکھتے ہی کہا کہ وہب! ابھی تم زندہ ہو؟اُس نے کہا: تم میری موت کی کیوں خواہش مند ہوگئیں؟ تو وہ کہتی ہے کہ زینب کی بے کلی نہیں دیکھی جاتی۔ زینب کی مظلومی و بیکسی نہیں دیکھی جاتی، میں زینب کے سامنے اُس وقت جاؤں گی جب تمہاری لاش آجائے گی۔

یہ امام حسین علیہ السلام کے کمالات کا مظاہرہ تھا کہ جب سے دنیا بنی ہے، اس وقت سے آج تک کہیں امکان ہی میں یہ چیز نہیں آسکی۔ اس کے بعد بچیاں لائے، بچے لائے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں فریادیں کیں؟ ہاں! ایک اور مقام پر اُن کی فریادوں کی آواز آئی: مثلا! بازارِ کوفہ یا بازارِ شام سے گزرے ہیں قیدی تو مکانوں کی چھتوں پر جو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، بعض ایسی تھیں جنہوں نے اپنے ہاتھ میں پتھر لئے ہوئے تھے، پتھر چلے ہیں اور ان بچوں پر پڑے ہیں تو ان بچوں کی چیخوں کی آواز اور اُس کے بعد جنابِ زینب کا کہنا: بیٹا زین العابدین ! بچے زخمی ہوگئے اور جنابِ زین العابدین علیہ السلام لوگو! یہ ہمیں اس طرح سے قید کرکے لئے جارہے ہیں جیسے حبش و زنجبار کے لوگوں کو قید کیا جاتا ہے۔ میں حبشی و زنجبار کا غلام نہیں ہوں بلکہ میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں جس کا تم کلمہ پڑھتے ہو، میں اُن کا بیٹا ہوں۔

جنابِ سکینہ کا زندانِ شام میں انتقال

جب زائرین شام سے کربلا جاتے ہیں تو سکینہ انہیں پیغام دے کر کہتی ہیں کہ میرے بابا سے کہنا کہ آپ کو پردیسی سکینہ بہت یاد کرتی ہے۔

قید خانے میں ایک واقعہ ہوگیا اور وہ یہ کہ ایک بچی کا انتقال ہوگیا۔ حاضرین مجلس! ہوا یہ کہ جس وقت یزید کا دربار ختم ہوا اور قیدی بھیجے گئے تو اس کی محل سرا کے پاس ایک خرابہ تھا، ٹوٹا ہوا مکان تھا اُس کا حکم یہ تھا کہ یہ قیدی وہاں بھیج دئیے جائیں۔ آج بھی وہاں آثار نظر آرہے ہیں کہ کہاں محل سرائے یزید تھی۔ دنیا مٹ گئی، یزید مٹ گیا لیکن اُس بچی کی قبر آج بھی باقی ہے۔ جب قیدی اس خرابے میں داخل کئے گئے اور دروازہ بند کردیا گیا تو دن میں اتنا اندھیرا ہوگیا کہ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا تھا۔

عزادارانِ اہلِ بیت !اب ذرا آپ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر سنئے گا۔ تمام قیدی گھبرا گئے۔ انہوں نے کہاں ایسی جگہیں دیکھی تھیں جہاں دن میں بھی اتنا اندھیرا ہو۔ اپنی ماؤں کی گودیوں میں بلک بلک کر رونے لگے۔ ماؤں نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھا، بچو! روؤ نہیں۔ شہزادی کو تکلیف ہوگی، جنابِ زینب کو رنج ہوگا۔جنابِ سکینہ کچھ زیادہ گھبرا گئیں اور بار بار کہتی تھیں: پھوپھی جان! ہم کہاں آگئے؟ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا ہے، ہم یہاں کیسے زندگی گزاریں گے؟ پھوپھی! میرے بابا کب آئیں گے؟

آخر جنابِ زینب بچی کو سمجھاتی رہیں۔ صاحبانِ اولاد! بعض بچے تاریکی میں گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ تاریکی اور گھٹن ،چونسٹھ بیبیاں، اُن کی گودوں میں بچے، جنابِ سکینہ بہت گھبرا گئیں۔ آپ نے سمجھا کر سکینہ کو سلا دیا۔ رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں

دن نہیں نکلے گا؟یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیے

تقریباً آدھی رات تک یہ بچی روتی رہی۔ اس کے بعد کبھی جنابِ زینب گود میں لیتی تھیں، کبھی امام زین العابدین گودمیں لیتے تھے، کبھی جنابِ رباب گود میں لیتی تھیں۔جنابِ رباب کے دوبچے تھے، ایک جنابِ سکینہ اور ایک جنابِ علی اصغر ۔سکینہ کو کسی کی گود میں قرار نہیں آتا تھا۔ آخر تھک کر کچھ آنکھ بند ہوئی، تھوڑی دیر تک سوئیں، ایک مرتبہ جو اٹھیں تو اُنہوں نے آواز دی:پھوپھی جان! میرے بابا آئے ہوئے تھے، مجھے چھوڑ کر پھر کہاں چلے گئے؟ابھی ابھی مجھے گود میں لئے ہوئے تھے، مجھے پیارکررہے تھے، وہ کہاں چلے گئے ہیں مجھے چھوڑ کر؟

یہ جو باتیں شروع کیں تو اہلِ بیت میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ بے اختیار ہوکر بیبیاں رونے لگیں۔ جب آوازیں بلند ہوئیں تو محل سرائے یزید تک یہی گریہ و بکا پہنچا۔ یہ ملعون جاگ اُٹھا۔ کسی سے کہا کہ پوچھ کر آؤ کہ یہ کیسا شور ہے؟ امام زین العابدین نے کہا کہ بچی یتیم ہے، اُس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا ہے اور اب وہ پکار رہی ہے،یہ تمام بیبیاں اسی لئے رو رہی ہیں۔

اُس ملعون نے کیا کیا؟ یہ تھے تسلی دینے کے طریقے؟ کہا: اچھا ! باپ کو پکاررہی ہے، اُس کا سرلے جاؤ، حسین کا سر لے جاؤ اور اُس بچی کو دے دو۔یوں تسلیاں دی جاتی ہیں؟

چنانچہ امام حسین علیہ السلام کا سرلایا گیا ۔ یہ جو بیبیوں نے سنا تو سب کی سب کھڑی ہو گئیں۔ امام حسین کا سرامام زین العابدین نے لیا۔ جس وقت آپ اندر پہنچے، سکینہ نے فوراً وہ سر لے لیا اور اسے سینے پر رکھا، منہ پر منہ رکھ دیا۔ بابا! یہ گلا کس نے کاٹ ڈالا ہے؟ مجھے کس نے یتیم کردیا؟

بابا!آپ تو ابھی آئے تھے تو آپ کی گردن کٹی ہوئی نہ تھی، یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں؟ کہتے کہتے رونے لگیں اور چیخ کر رونے لگیں۔ بیبیوں میں ایک کہرام برپا ہوگیا آخر اس بچی کی آواز کم ہونے لگی۔ جب بالکل اس بچی کی آواز بند ہوگئی تو وہ بیبیاں سمجھیں کہ شاید سوگئی ہے۔جنابِ زینب جو قریب پہنچیں اور ہاتھ رکھا تو جسم ٹھنڈا معلوم ہوا۔ جنابِ زینب نے آواز دی: سجاد بیٹا! جلدی آؤ، سکینہ اپنے بابا کے پاس جارہی ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام جب آئے تو دیکھا کہ سکینہ رخصت ہوچکی تھیں، اس دنیا سے جاچکی تھیں۔

اس بچی کی قبر وہیں بنی اُس قید خانے میں۔ عزادارو! یہ قبرستان نہ تھا، یہ قید خانہ تھا۔ اگر کوئی قیدی مرجاتا تھا ، اُن کا قبرستان الگ تھا۔ اس میں جو قبر بنی اس بچی کی تو غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی جنازہ اُٹھانے والا نہ تھا۔ جب اہلِ بیت رہا ہوکر جانے لگے تو جنابِ زینب نے شام کی عورتوں سے کہا کہ بیبیو! ہم جارہے ہیں، میں اپنے بھائی کی ایک نشانی چھوڑ کر جارہی ہوں، ارے جب کبھی آنا تو اس بچی کی قبر پر ذرا سا پانی چھڑک دیا کرنا۔