مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 43441
ڈاؤنلوڈ: 4210

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43441 / ڈاؤنلوڈ: 4210
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسرا باب

مہدی موعود (عج)، اہل بیت رسولﷺ سے ہیں

اس باب میں تین فصلیں ہیں

پہلی فصل: اہل بیت رسول خداﷺ کون ہیں؟

دوسری فصل: مہدی موعود اہل بیت سے ہیں

تیسری فصل: کتب اہل سنت میں مناقب اہل بیت علیھم السلام

(اس فصل میں ۱۱۰ روایات ہیں، جن میں سے ۷۰ روایات اہل بیت علیھم السلام اور ۴۰ روایات حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں ہیں)۔

پہلی فصل

اہل بیت رسول خداﷺ کون ہیں؟

خداوند عالم نے حضور سرور کائنات کے اجر رسالت کے سلسلہ میں ایک طرف پیغمبر اسلام سے کلام کیا اور دوسری طرف لوگوں سے خطاب کیا ہے۔ اجر رسالت کے بارے میں خداوند عالم نے جو کلام نبی کریمؐ سے کیا ہے وہ یہ کہ ارشاد خداوندی ہے:( ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ، مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ، وَإِنَّ لَكَ لأجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ) ( ۱ ) ن، قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں۔ آپ اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہیں اور آپ کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجرہے۔

اور مؤمنین سے اس انداز سے خطاب کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:( قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ) ( ۲ ) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ سورہ سبا کی آیت نمبر ۴۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ اجر رسالت (مودت) خود تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے، ارشاد ہوتا ہے: "قالَ الله ُ تَعالی: قُلۡ ما سأَلتکُمۡ من اَجۡرٍ فه و لُکمۡ"

اب یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ اہل بیت کون حضرات ہیں؟

بالفاظ دیگر خداوند عالم فرماتا ہے کہ اجر رسالت نبی کریمؐ کے اہل بیت علیھم السلام سے مودت ہی ہے۔ اور یہ موّدت ہمارے ہی فائدہ و نفع کے لئے ہے لہذا مودّت کے لئے اہل بیت کو پہچاننا ضروری ہے پس یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اہل بیت علیھم السلام کون لوگ ہیں؟ شیعہ راویوں کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی نصوص اور کثیر و متواتر روایات نیز اہل سنت کے مختلف طُرُق کے ذریعے حاصل ہونے والی اخبار و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مصداق اہل بیت رسولؐ یہ حضرات ہیں: علی بن ابی طالب‘ و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا، دو سبطِ نبی (امام حسن و امام حسین‘) جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں اور امام حسین کی ذریت سے ۹ ائمہ ہیں کہ روایات متواترہ کی روشنی میں مہدی آل محمد، امام حسین کی نویں نسل میں ہیں۔

اب ہم محترم قارئین کی خدمت میں اس حقیقت کو پیش کر رہے ہیں کہ اہل بیت علیھم السلام سے مراد "علی علیہ السلام و فاطمہ زہرا، حسن و حسین اور ان کی پاکیزہ ذریت" ہی ہے اور اس سلسلہ میں ہم اہل سنت کی کتب سے استناد کریں گے لہذا منصف مزاج انسان کو یقین حاصل ہوجائے گا کہ حقیقت صرف یہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے!

پانچ حصوں پر مشتمل روایات خمسہ طیبہ

پہلا حصہ: (امّ المؤمنین) جناب امّ سلمہ و عائشہ سے ۲۲ روایات

۱ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی( ۳ ) نے سنن ترمذی سے روایت نقل کی ہے:

"وَ فی سُنَنِ التِّرۡمِذی بَعۡدَ ذِکۡرِ مَناقِبِ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ:حَدّثَنا قُتَیۡبَةُ بن سَعیدٍ قالَ حَدَّثنا مُحَمَّدُ بن سُلَیۡمان الۡاِصبَه انی عَنۡ یَحۡیَی بن عبید عَنۡ عَطاء عَن عُمَرَ بن اَبی سَلَمة رَبیبِ النَّبیﷺقالَ: نَزَلَتۡ اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا فی بَیۡتِ اُمِّ سَلَمَة فَدَعا النَّبیُﷺ عَلِیّاً وَ فاطِمَةَ وَ حَسَناً وَ حُسَیۡناً فَجَلِّلَه ُمۡ بِکِساءٍ وَ عَلی ظَه ۡرِه ِ فَجَلِّلَه ُمۡ بِکِساء ثُمَّ قَالَ اَلۡلّه ُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ فَاَذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيراً قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَ أَنَا مَعَه ُمۡ يَا نَبِیَّ الله ِ ؟ قَالَ: اَنۡتِ عَلی مَکانِکِ وَ اَنۡتِ إِلَى خَيْرٍ "

سنن ترمذی نے اپنی سند کے مطابق عمر ابن ابی سلمہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: آیت تطہیر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی۔ رسولؐ خدا نے علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا و حسن و حسین‘کو اپنے پاس بلایا اور انہیں اپنی عباء کے اندر داخل کرنے کے بعد بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں پس تو ان سے ہر قسم کے رجس و گناہ کو دور رکھ اور انہیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھ جیسا کہ پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ ام سلمہ کہتی ہیں: یا رسولؐ اللہ! کیا میں بھی ان اہلبیت علیھم السلام میں سے ہوں؟ حضور نے فرمایا: تم اپنی جگہ رہو کہ تم خیر پر ہو۔

۲ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۴) نے روایت کی ہے:

"وَ فی سُنَنِ التِّرۡمِذی بَعۡدَ ذِکۡرِ مَناقِبِ الۡاَصۡحابِ، عَنۡ اُمّ سَلَمَة: اِنَّ النَّبِيَّﷺ جَلَّلَ عَلَى الحَسَنِ وَ الحُسَيْنِ وَ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ کِساءً ثُمَّ قَالَ: اَلۡلّه ُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَ خاصَّتی اِذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيراً فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَ أَنَا مَعَه ُمۡ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: قِفی فی مَکانِکِ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ "

ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں اپنی سند کے مطابق اصحاب کے مناقب ذکر کرنے کے بعد ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ : رسول خدا نے حسن و حسین علی و فاطمہ پر اپنی عباء ڈال کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: خدایا یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوص افراد ہیں، ان سے ہر پلیدی و رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا۔ ام سلمہ نے عرض کیا، یا رسول ؐ اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ حضور ؐ نے فرمایا: تم اپنی جگہ ٹھہری رہو ، تم خیر پر ہو۔

نکتہ: مولانا موصوف اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : "ه ذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ وَ ه ُوَ اَحۡسَنُ شَیءٍ رُوِیَ فِی ه ذا الباب " یہ حدیث حسن و صحیح ہے اور اس سلسلہ کی بہترین روایت ہے۔

۳ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۵) نے کتاب ذخائر العُقبی، تالیف امام الحرم محب الدین احمد بن عبد اللہ طبری شافعی سے روایت نقل کی ہے کہ :

"وَ عَنۡ اُمِّ سَلَمَة قالَتۡ : اِنَّ النَّبیَّ ۡ قالَ لِفَاطِمَةَ ایتینی بِزَوۡجِکِ وَ اِبۡنَیۡکِ فَجائَتۡ بِه ِم فَاَلۡقی عَلَیۡه ِمۡ کِساءً فَدَکِیّاً ثُمَّ وَضَعَ یَدَه ُ عَلَیۡه ِمۡ وَ قالَ اَلۡلَّه ُمّ اِنَّ ه ؤُلاءِ آلُ مُحَمَّدٍ فَاجۡعَلۡ صَلَواتِکَ وَ بَرَکاتِکَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی ّلِ مُحَمَّدٍ اِنّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ، قالَتۡ اُمُّ سَلَمَة: رَفَعۡتُ الۡکِساءَ لِاَدۡخُلَ مَعَه ُمۡ فَجذبَه ُﷺ وَ قالَ : قِفی مَکانَکِ اِنَّکِ عَلی خَیۡرٍ "

جناب امّ سلمہ سے روایت کی گئی ہے وہ کہتی ہیں: بیشک نبی کریمؐ نے فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا سے فرمایا: اپنے شوہر اور اپنے بچوں کو لیکر آئیے پس جب وہ انہیں اپنے ساتھ لے آئیں تو حضورؐ نے اپنی فدکی چادر ان کے اوپر تانی پھر ان کے سروں پر اپنا ہاتھ کرکے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: پروردگار یہ آل محمدؐ ہیں پس تو محمد و آل محمد کے لئے اپنی صلوات و برکاۃ قرار دے بیشک تو حمید و مجید ہے پس ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے چادر میں داخل ہونے کے لئے چادر کا کونہ اٹھایا تو حضورؐ نے میرے ہاتھ میں سے لے لیا اور فرمایا اے امّ سلمہ وہیں رہو، بیشک تم خیر پر ہو۔

نکتہ: موصوف یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اَخرَجَه ُ الدُّولابی " یہ روایت دولابی نے بھی نقل کی ہے۔

۴ ۔ طحاوی(۶) و تاریخ مدینہ دمشق(۷) نے روایت نقل کی ہے:

"عَنۡ عُمَرَة بِنۡتِ اَفۡعی، قالَت :سَمِعۡتُ اُمَّ سَلَمَة تَقُولُ : نَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ فی بَیۡتی ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) وَ فِی الۡبَیۡتِ سَبۡعَةٌ جَبۡرَئیلُ وَ میکائیلُ وَ رَسُولُ الله ِ وَ عَلِیُّ وَ فاطِمَةُ وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ، قالَتۡ: وَ اَنَا عَلی بابِ الۡبَیۡتِ، فَقُلۡتُ: یا رَسُولُ الله ِ اَلَسۡتُ مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ؟ قالَ : اِنَّکِ عَلی خَیۡرٍ، اِنَّکِ مِنۡ اَزۡواجِ النَّبی، وَما قالَ اِنَّکِ مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ "

عمرہ بنت افعی سے روایت ہے کہ میں نے ام سلمہ سے سنا ہے وہ کہتی ہیں: یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی:( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) اس وقت میرے گھر میں سات افراد تھے یعنی جبرئیل و میکائیل، پیغمبر اسلام، علی و فاطمہ اور حسن و حسینؑ۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں درِ خانہ پر تھی، میں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ فرمایا: تم خیر و نیکی پر ہو، تم ازواج نبیؐ میں سے ہو۔ لیکن آنحضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اہل بیت میں سے ہو۔

۵ ۔ کتاب تاریخ مدینہ دمشق(۸) میں اس طرح روایت کی گئی ہے:

"اَخۡبَرَنَا اَبُو عَبۡدِ الله (۹) الفراوی وَ اَبُو الۡمُظَفَّر القشیری، قالا : اَخۡبَرَنا اَبو سعد الۡاَدیب، اَخۡبَرَنا اَبو عَمرو بن حمدان، وَ اَخۡبَرَتۡنا اُمُّ المُجۡتَبی اَلۡعَلَویَّةُ، قالَتۡ: قُرِیءَ عَلی اِبۡراه یم بن مَنۡصُور، اَخۡبَرَنا اَبُو بَکر بن الۡمُقۡرِیء، قالا : اَخۡبَرَنا اُبو یَعۡلی، اَخۡبَرَنا مُحَمَّدُ بن اِسۡماعیل بن اَبی سَمینَة، اَخۡبَرَنا عَبۡدُ الله ِ بن داود عَنۡ فُضَیۡل بن غَزۡوان عَن عَطیَّةِ بن سَعۡد، عَنۡ اَبی سعید عَنۡ اُمِّ سَلَمَة؛ اِنَّ النَّبیَّﷺ غَطّی عَلی عَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ حَسَنٍ وَ حُسَیۡنٍ کِساءً، ثُمَّ قالَ : ه ؤُلاءِ اه ۡلُ بَیۡتی … ؛ قالَتۡ اُمُّ سَلَمَة: فَقُلۡتُ: یا رَسُولَ الله وَ اَنَا مَعَه ُمۡ؟ قالَ: لا، وَ اَنۡتِ عَلی خَیۡرٍ "

امّ سلمہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: نبی کریمﷺ نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام پر اپنی چادر کو ڈھانپا اور کہا: یہ میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا: نہیں۔ البتہ تم خیر پر ہو۔

۶ ۔ طبری(۱۰) و ابن کثیر(۱۱) نے اس طرح روایت کی ہے:

"عَنِ الۡاَعۡمَشِ عَنۡ حَکیمِ بن سَعۡد، قالَ: ذَکَرۡنا عَلِیَّ بن اَبیطالِب رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ عِنۡدَ اُمِّ سَلَمَة، قالَت: فیه نَزَلَتۡ اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ، قَالَتۡ اُمُّ سَلَمَة: جاءَ النَّبِیُّﷺ اِلی بَیۡتِی … فَجَلَّلَه ُمۡ نَبِیّ الله ِ بِکِساء … فَنَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ … فَقُلۡتُ: یا رَسُولَ الله ، وَ اَنَا ؟ قالَتۡ: فَوَ الله ِ ما اَنۡعَمَ وَ قالَ: اِنَّکِ اِلی خَیۡرٍ "

حکیم بن سعید کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ جناب امّ سلمہ کی خدمت میں تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کا تذکرہ نکل آیا۔ ام سلمہ کہنے لگیں: آیہ تطہیر انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ میرے گھر تشریف لائے پس اس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اہل بیت علیھم السلام میں سے ہوں؟ ام سلمہ کہتی ہیں: خدا کی قسم رسول ؐ اللہ نے ہاں نہیں فرمایا بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

۷ ۔ طحاوی(۱۲) نے اپنی سند کے مطابق اس طرح نقل کیا ہے:

"عَنۡ عُمَرَة الۡه َمۡدانِیَةِ قالَتۡ: اَتیۡتُ اُمَّ سَلَمَة فَسَلَّمۡتُ عَلَیۡه ا، فَقالَتۡ : مَنۡ اَنۡتِ؟ فَقُلۡتُ: عُمَرَةُ الۡه َمۡدانِیَّةُ، فَقالَتۡ عُمَرَةُ: یا اُمَّ الۡمُؤمِنینَ، اَخۡبِرینی عَنۡ ه ذَا الرَّجُلِ الَّذی قُتِلَ بَیۡنَ اَظۡه رِنا، فَمُحِبٌّ وَ مُبۡغِضٌ تُرید عَلِیَّ بنِ اَبیطالِبٍ علیه السلام قالَتۡ اُمُّ سَلَمَةُ: اَتُحِبّینَه ُ اَمۡ تُبۡغِضینَه ؟ قالَتۡ: ما اُحِبُّه ُ وَلا اُبۡغِضُه ُ… ، فَاَنۡزَلَ الله ُ ه ذِه ِ الۡآیَةَ: اِنَّما یُریدُ الله ُ … الی آخِرِه ا، وَ ما فِی الۡبَیۡتِ اِلّا جَبۡرَئیلُ وَ رَسُولُ الله ِﷺ وَ عَلیُّ وَ فاطِمَةُ وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ علیه م السلام، فَقُلۡتُ: یا رَسُولَ الله ِ اَنَا مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ؟ فَقالَ: اِنَّ لَکِ عِنۡدَ الله ِ خَیۡراً، فَوَدَدۡتُ اَنَّه ُ قالَ نَعَمۡ، فَکانَ اَحَبُّ اِلیَّ مِنۡ ما تَطۡلَعُ عَلَیه ِ الشَّمۡسُ وَ تَغۡرِبُه ُ "

عمرہ ہمدانیہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: ایک دن میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا: مجھ سے سوال کیا تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں عمرہ ہمدانیہ ہوں اور پھر کہا: اے امّ المؤمنین! چند روز قبل قتل ہونے والے اس شخص (علی بن ابی طالب‘) کے بارے میں کچھ بتائیے! کہ کچھ لوگ ان سے محبت رکھتے ہیں اور کچھ لوگ ان سے دشمنی رکھتے ہیں!

امّ سلمہ نے مجھ سے سوال کیا کہ تم انہیں دوست رکھتے ہو یا دشمن۔ عمرہ نے کہا: میں نہ انہیں دوست رکھتا ہوں اور نہ ہی دشمن پھر جناب ام سلمہ نے کہا: جب اللہ نے آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) نازل فرمائی تو اس وقت گھر میں صرف جبرئیل، رسولؐ اللہ، علی و فاطمہ اور حسن و حسین‘تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! کیا میں بھی ان اہل بیت علیھم السلام میں سے ہوں؟ فرمایا: خدا کے یہاں تمہارے لئے خیر و پاداش ہے۔ امّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں رسولؐ کی زبان مبارک سے "ہاں" سننا چاہتی تھی کیونکہ میرے لئے یہ "ہاں" تمام ان چیزوں سے افضل و بہتر تھی جن پر سورج طلوع و غرب ہوتا ہے۔ (حالانکہ رسول اللہﷺ نے مجھے مثبت جواب نہ دیا)۔

۸ ۔ حاکم نیشاپوری(۱۳) نے اپنی سند کے مطابق عطاء بن یسار سے اس طرح روایت نقل کی ہے: "عَنۡ عطاء بن یسار عَنۡ اُمّ سَلَمَه رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا اَنّه ا قالَتۡ: فی بَیۡتِی نَزَلَتۡ ه ذه الۡآیَةُ ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (۱۴) ، فَاَرۡسَلَ رَسُولُ الله ِﷺ اِلی عَلیِّ وَ فاطِمَةَ وَ الۡحَسَنِ و الۡحُسَیۡنِ … ، فَقالَ : اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی، قالَتۡ اُمُّ سَلَمَة: یا رَسُولَ الله ِ، ما اَنَا مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتَِ؟ قالَ: اِنَّکِ خَیۡرٌ وَ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتِی، اَلۡلَّه ُمَّ اَه ۡلی اَحَقّ ه ذا حدیثٌ صَحیحٌ عَلی شَرۡطِ الۡبُخاری وَ لَمۡ یُخۡرِجاه ُ "

عطاء بن یسار نے امّ سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: یہ آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) میرے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ پس رسول ؐ اللہ نے ایک شخص کے ذریعے علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حسن و حسین‘کو بلوایا اور پھر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ام سلمہ نے عرض کیا :یا رسولؐ اللہ ! کیا میں بھی ان اہل بیت میں سے ہوں؟ فرمایا: بیشک تم خیر و نیکی پر ہو لیکن یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پروردگار میرے اہلبیت سب سے زیادہ لائق (طہارت) ہیں۔

نکتہ: موصوف کہتےہیں کہ یہ حدیث بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔

۹ ۔ ابن کثیر(۱۵) نے اپنی سند کے مطابق عوام بن حوشب سے روایت کی ہے:

"عَنِ الۡعَوامِ یَعۡنی اِبۡنَ حُوشَبِ عَنِ ابۡنِ عَمّ لَه ُ، قالَ: دَخَلۡتُ مَعۡ اَبی عَلی عائِشَة … فَسَأَلۡتُه ا عَنۡ عَلیٍّ … فَقالَتۡ: تَسۡأَلُنی عَنۡ رَجُلٍ کَانَ مِنۡ اَحَبِّ النَّاسِ اِلی رَسُولِ الله ِﷺ، وَ کانَتۡ تَحۡتَه ُ اِبۡنَته ُ وَ اَحَبُّ النّاسِ اِلَیۡه ِ، لَقَدۡ رَأَیۡتُ رَسُولَ الله ِﷺدَعا عَلِیّاً وَ فاطِمَةَ وَ حَسَناً وَ حُسَیۡناً رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ فَاَلۡقی عَلَیۡه ِم ثُوباً، فَقَالَ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی، فَاَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، قالَتۡ: وَ دَنَوۡتُ مِنۡه ُمۡ وَ قُلۡتُ: یا رَسُولَ الله ِ ، وَ اَنَا مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِکَ؟ فَقالَ: تنحّی، فَاِنَّکِ عَلی خَیۡرٍ "

عوام ابن حوشب سے انہوں نے اپنے چچا زاد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ہمراہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا: تم نے مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا ہے، جو رسولؐ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب و عزیز تھا، جو رسولؐ کی بیٹی کا شوہر تھا اور وہ انہیں سب سے زیادہ محبوب تھی۔

میں نے دیکھا کہ انہوں نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو اپنے پاس بلایا اور ان کے اوپر چادر تان کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: خدایا یہ میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں تو انہیں رجس و گناہ سے دور رکھ اور انہیں مکمل پاکیزہ قرار دے۔

(حضرت) عائشہ کہتی ہیں: میں نے قریب جاکر عرض کیا: یا رسولؐ اللہ کیا میں آپؐ کے اہل بیت میں سے ہوں؟ حضورؐ نے فرمایا: دور ہوجاؤ البتہ تم خیر پر ہو۔

۱۰ ۔ شیخ سلیمان بلخی(۱۶) نے کتاب ذخائر العقبی تالیف امام الحرم محب الدین طبری احمد بن عبد اللہ طبری شافعی سے روایت نقل کی ہے۔

"وَ عَنۡ عائِشَةِ، قالَتۡ: خَرَجَ النَّبِیُّﷺذاتَ غَداةٍ وَ عَلَیۡه ِ مِرۡطٌ مِرۡجَلٌ مِنۡ شَعۡرٍ اَسۡوَد فَجاءَ الۡحَسَنُ فَاَدۡخلَه ُ فیه ِ ثُمَّ جاءَ الۡحُسَیۡنُ فَاَدۡخَلَه ُ فیه ِ ثُمَّ جائَتۡ فاطِمَةُ فَاَدۡخَلَه ا فیه ِ ثُمَّ جاءَ عَلِیُّ فَاَدۡخَلَه ُ فیه ِ ثُمَّ قالَ : اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا "

حضرت عائشہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: ایک دن نبی کریمؐ علی الصبح اس طرح باہر آئے کہ آپ کے دوش مبارک پر کالے بالوں والی یمنی چادر تھی، پس حسن  انکے قریب آئے تو آپؐ نے انہیں زیر کساء لے لیا، پھر حسین  آئے تو آپؐ نے انہیں بھی زیر کساء لے لیا، پھر فاطمہ سلام اللہ علیھا آئیں تو آپؐ نے انہیں بھی چادر میں لے لیا، پھر علی علیہ السلام آئے تو آپؐ نے انہیں بھی اپنی چادر کے اندر بلالیا، پھر آپؐ نے آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) کی تلاوت فرمائی۔

نکتہ: موصوف ذخائر العقبی سے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اَخۡرَجَةُ مُسۡلِمُ، وَ اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ مَعۡناه ُ عَنۡ واثِلةِ بن الۡاَسۡقَع وَ زادَ فی آخِره ِ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی وَ اَه ۡلُ بَیۡتی اَحَقّ " یعنی یہ روایت مسلم نے بھی نقل کی ہے نیز احمد بن حنبل نے بھی یہی معنا واثلہ ابن اسقع سے نقل کئے ہیں البتہ انکی روایت کے آخر میں حضورؐ کا یہ جملہ بھی موجود ہے کہ "پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں اور یہ سب سے زیادہ لائق (طہارت) ہیں۔

۱۱ ۔ ینابیع المودۃ(۱۷) نے ذخائر العقبیٰ سے روایت نقل کی ہے۔

"وَ عَنۡ واثِلَة قالَ وَ اَجۡلَسَ النَّبِیُﷺ حَسَناً عَلی فَخِذِه ِ الۡیُمۡنی وَ قَبَّلَه ُِ وَ الۡحُسَیۡنَ عَلی فَخِذِه ِ الۡیُسۡری وَ قَبَّلَه ُ، وَ فاطِمَةَ بَیۡنَ یَدَیۡه ِ ثُمَّ دَعا عَلِیّاً ثُمَّ اَعۡدَفَ عَلَیۡه ِمۡ کِساءً خَیۡبَریّاً، ثُمَّ قالَ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی اَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، فَقیلَ لِواثِلَة مَا الرِّجۡسُ، قالَ: اَلشّکُّ فیِ الله ِ عَزَّ وَ جَلَّ "

واثلہ بن اَسقع سے روایت کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول اکرمؐ نے امام حسن  کو اپنی گود میں دائیں جانب بٹھا کر پیار کیا اور حسین  کو بائیں جانب بٹھا کر پیار کیا، فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنے سامنے بٹھایا اور علی علیہ السلام کو بھی پاس بلایا پھر آپؐ نے خیبری چادر تان کر فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں، تو اُن سے ہر رجس و گناہ کو دور رکھ اور انہیں مکمل پاکیزہ قرار دے۔ جس وقت واثلہ یہ روایت نقل کر رہے تھے تو ان سے سوال کیا گیا : یہ رِجس کیا ہے؟ جواب دیا: رجس سے مراد خداوند عالم کی ذات میں شک ہے۔

۱۲ ۔ حاکم حسکانی(۱۸) نے اپنی سند کے مطابق ام سلمہ سے روایت کی ہے:

"وَ عَن اُمّ سَلَمَة … فَجَمَعَه ُمۡ (یعنی عَلیّاً وَ فاطِمَةَ وَ الۡحَسَنَ وَ الۡحُسَیۡنَ) رَسُولُ الله ِﷺ حَوۡلَه ُ وَ تحته کِساءٌ خَیۡبَرِیٌّ، فَجَلَّلَه ُمۡ رَسُولُ الله ِﷺ جَمیعاً، ثُمَّ قالَ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی فَاَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، فَقُلۡتُ: یا رَسُولَ الله ِ وَ اَنَا مَعَه ُمۡ ؟ فَوَ الله ِ ما قالَ اَنۡتِ مَعَه ُمۡ وَ لکنَّه ُ قالَ : انّکِ عَلی خَیۡرٍ وَ اِلی خَیۡرٍ، فَنَزَلَتۡ عَلَیۡه ِ: اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا "

ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام کو اپنے گِرد جمع کیا اور یکایک انہیں خیبری چادر کے نیچے لے لیا اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں ہر رجس کو ان سے دور رکھ اور انہیں مکمل پاکیزہ قرار دے۔ پس میں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ خدا کی قسم رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہاں تم بھی انہی میں سے ہو البتہ یہ ضرور فرمایا: تم خیر پر ہو۔ اور اس موقع پر یہ آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) نازل ہوئی۔

۱۳ ۔ شیخ سلیمان(۱۹) نےذخائر العقبیٰ سے روایت کی ہے:

"وَ عَنۡ اُمِّ سَلَمَة، قالَتۡ: بَیۡنَا النَّبِیﷺ فی بَیۡتی یَوۡماً اِذ قالَتِ الۡخادِمَةُ اِنَّ عَلِیّاً وَ فاِطمَةَ بِالسدةِ، قالَتۡ فاَخۡبِرۡتُ لِلنَّبیِﷺ، قالَ لی: قَوّمی فَافۡتَحیِ الۡبابَ، فَفَتَحۡتُه ُ فَدَخَلَ عَلِیُّ وَ فاطِمَةُ وَ معَه ُما الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ فَاَخَذَ الصَّبِیَّیۡنِ فَوَضَعَه ُما فی حِجۡرِه وَ قَبَّلَه ُما وَ اعۡتَنَقَ عَلِیّاً بِاِحۡدی یَدَیۡه ِ وَ اعۡتَنَقَ فاطِمَةَ بِالۡیَدِ الۡاُخۡری وَقَبَّلَ عَلِیّاً وَ قَبَّلَ فاطِمَةَ وَ اَعۡدَفَ عَلَیۡه ِمۡ خَمیصَةً سَوۡداءَ، ثُمَّ قالَ: اَلۡلَّه ُمَّ اَنَا ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی اِلَیۡکَ لا اِلَی النّار، قالَتۡ : قُلۡتُ: وَ اَنا یا رَسُولَ الله ِ، قالَ: وَ اَنۡت عَلی خَیۡرٍ "

امّ سلمہ سے روایت ہے کہ ہم اپنے گھر میں رسولؐ کے ساتھ موجود تھے کہ خادمہ نے کہا کہ علی علیہ السلام و فاطمہ درِخانہ پر ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسولؐ کو بتایا کہ علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا تشریف لائے ہیں۔ حضور نے فرمایا: جاؤ جاکر دروازہ کھولو، میں نے جاکر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ان کے ساتھ حسن و حسین‘بھی ہیں۔ رسول خدا نے دونوں بچوں کو لیکر اپنی آغوش مبارک میں بٹھایا اور پیار کرنے لگے پھر آپؐ نے علی علیہ السلام و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکو بھی پیار کیا اور پھر ان سب کے اوپر سیاہ پشمی چادر تان کر بارگاہ الٰہی میں عرض کرنے لگے: پروردگار! میں اور میرے یہ اہل بیت تیری طرف ہیں نہ آگ کی طرف۔ امّ سلمہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول ؐ اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا: تم خیر پر ہو۔

۱۴ ۔ حاکم حسکانی(۲۰) نے اپنی سند کے مطابق روایت کی ہے:

"عَنِ الۡعَوامِ بن حُوشَب عَنۡ جَمیعِ التّیمی: اِنطَلَقۡتُ مَعَ اُمّی اِلی عائِشَة، فَدَخَلَتۡ اُمّی فَذَه َبۡتُ لِاَدۡخُلُ … ، وَ سَأَلَتۡه ا اُمّی عَنۡ عَلیٍّ، فَقالَتۡ: ما ظَنُّکِ بِرَجُلٍ کانَتۡ فاطمَةُ تَحۡتَه ُ، وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَینُ اِبۡناه ُ، وَ لَقَدۡ رَأَیۡتُ رَسُولَ الله ِﷺ اِلۡتَفَعَ عَلَیۡه ِمۡ بِثَوۡبٍ وَ قالَ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلی، اَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، قُلۡتُ: یا رَسُولَ الله ِ اَلَسۡتُ مِنۡ اَه ۡلِکَ؟ قالَ: اِنَّکِ لَعَلی خَیۡرٍ، لَمۡ یَدۡخُلۡنی مَعَه مۡ "

عوام بن حوشب سے انہوں نے جمیع تیمی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ جناب عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا میری والدہ نے ان سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تم کیا سمجھتی ہو اس شخص کے بارے میں جس کی شریک حیات فاطمہ زہرا ہے اور بچے حسن و حسین‘ہیں، میں نے دیکھا کہ نبی کریمؐ نے ان کے اوپر ایک چادر ڈالی اور عرض کیا: پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں، رجس و گناہ کو ان سے دور رکھ اور انہیں مکمل پاک و پاکیزہ قرار دے۔ عائشہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا: تم خیر پر ہو، لیکن حضورؐ نے مجھے اس چادر کے اندر نہیں آنے دیا۔

۱۵ ۔ جلال الدین سیوطی(۲۱) و طبرانی(۲۲) نے ام سلمی سے اس طرح روایت کی ہے:

"عَنۡ اُمِّ سَلَمَة: اِنَّ رَسُولَ الله ﷺ قالَ لِفاطِمَةَ: ایتینی بِزَوۡجِکِ وَ ابۡنَیۡه ِ فَجائَتۡ بِه ِمۡ، فَاَلۡقی رَسُولُ الله ِﷺ کِساءً فَدَکیّاً ثُمَّ وَضَعَ یَدَه ُ عَلَیۡه ِمۡ فَقالَ: اَلۡلَّه ُمَّ اِنَّ ه ؤُلاءِ آلُ مُحَمَّدٍ، فَاجۡعَلۡ صَلَواتِکَ وَ بَرَکاتِکَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ فَاِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ، قالَتۡ اُمُّ سَلَمَة :فَرفَعۡتُ الۡکِساءَ لِاَدۡخُلَ مَعَه ُمۡ فَجَذَّبَه ُ مِنۡ یَدی وَ قالَ : اِنَّکِ عَلی خَیۡرٍ "

امّ سلہٌ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: رسول خداﷺ نے فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا سے فرمایا: اپنے شوہر اور دونوں بچوں کو لیکر آؤ۔ جب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا انہیں لے آئیں تو رسولؐ اللہ نے فدکی چادر ان کے اوپر تان کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: پرورگار! یہ میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں پس اپنی صلوات و برکات آل محمدؐ پر نازل فرما، بیشک تو حمید و مجید ہے۔ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے چادر کا کونہ اٹھا کر ان کے ساتھ شریک ہونا چاہا تو حضورؐ نے میرے ہاتھ سے چادر کا کونہ لے لیا اور فرمایا: بیشک تم خیر پر ہو۔

۱۶ ۔ تاریخ مدینہ دمشق(۲۳) میں اس طرح روایت کی گئی ہے:

"اَخۡبَرَنا اَبُو طالِب بن اَبی عَقیل، اَخۡبَرَنا اَبو الۡحَسَنِ الۡخلعی، اَخۡبَرَنا اَبُو مُحَمَّدِ النّحاس، اَخۡبَرَنا اَبُو سَعیدِ بن الۡاَعۡرابی، اَخۡبَرَنا اَبُو سَعید عَبۡدُ الرَّحۡمانِ بنِ مُحَمَّدِ بن مَنۡصُور، اَخۡبَرَنا حُسَیۡنُ الۡاَشۡقَر، اَخۡبَرَنا مَنۡصُورُ بن اَبی الۡاَسوَد عَنِ الۡاَعۡمَشِ عَنۡ حَبیبِ بن اَبی ثابِتٍ عَنۡ شَه ۡرِ بن حُوشَب، عَنۡ اُمِّ سَلَمَة؛ اِنَّ رَسُولَ الله ِﷺ اَخَذَ ثُوباً فَجَلَّلَه ُ عَلی عَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ الۡحَسَنِ وَ الۡحُسِیۡنِ، ثُمَّ قَرَأَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةَ: اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ، قالَتۡ: فَجِئۡتُ لِاَدۡخُلَ مَعَه ُمۡ، فَقَالَ : مَکانکِ، اَنۡتِ عَلی خَیۡرٍ "

ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ ایک کپڑا لائے جسے انہوں نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام پر تان کر یہ آیت تلاوت فرمائی:( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے زیر کساء جانا چاہا تو حضورؐ نے مجھے روک دیا اور فرمایا: وہیں رہو البتہ تم خیر پر ہو۔

۱۷ ۔ نیز اسی کتاب(۲۴) میں ہے کہ رسول اللہ، ام سلمہ کے زیر کساء آنے سے مانع ہوئے اور فرمایا: "اَنۡتِ بِمَکانِکِ، وَ اَنۡتِ اِلی خَیۡرٍ " تم اپنی جگہ پر رہو البتہ تم خیر پر ہو۔

۱۸ ۔ حاکم حسکانی(۲۵) نے روایت کی ہے کہ امّ سلمہ کو زیر کساء داخل ہونے سے روکنے کے بعد حضورؐ نے ان سے فرمایا: تم اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ کہ تم خیر پر ہو۔

۱۹ ۔ تاریخ مدینہ دمشق(۲۶) نے مسنداً ام سلمہ سے روایت کی ہے:

"عَنۡ اَبی المعدل عطیة الطفاوی، عَنۡ اَبیه ِ: اِنَّ اُمّ سَلَمَة حَدَّثَتۡه ُ، قالَتۡ: بَیۡنا رَسُول الله ﷺ فی بَیۡتی اِذۡ قالَ الۡخادِمُ: اِنَّ عَلِیّاً وَ فاطِمَةَ بالسده ، قالَتۡ: قالَ لی: قَوِّمی فَتَنَحّی لی عَن اَه ۡلِ بَیۡتی … فَدَخَلَ عَلیُّ وَ فاطِمَةُ وَ مَعَه ُمَا الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ … فَقالَتۡ: وَ اَنا یا رَسُولَ الله ؟ فَقالَ : وَ اَنۡتِ "

ام سلمہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: رسولؐ میرے گھر میں موجود تھے کہ خادم نے آکر کہا: علی علیہ السلام و فاطمہ درِ خانہ پر ہیں۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا:مجھے میرے اہل بیت کے ساتھ چھوڑ دو! پس علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا گھر میں داخل ہوئے اور حسن و حسین‘بھی ان کے ساتھ موجود تھے (روایت جاری ہے یہاں تک کہ حضور نے دعا فرمائی اور عرض کیا: پروردگار! یہ اہل بیت تیری طرف ہیں نہ کہ آگ کی طرف) امّ سلمہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اور میں یا رسولؐ اللہ؟ فرمایا: اور تم بھی۔

نکتہ: نبی کریمﷺ صراحت کے ساتھ آغاز کلام میں امّ سلمہ کو اہل بیت سے دور کر رہے ہیں جو ان کے اہل بیت میں شامل نہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ پھر امّ سلمہ سوال کرتی ہیں تو حضورؐ انہیں اپنی اس دعا میں شریک قرار دے رہے ہیں کہ تم بھی آگ کی طرف نہیں ہو۔

۲۰ ۔ شیخ سلیمان(۲۷) نے اس طرح روایت کی ہے:

"اَخۡرَجَ الطّبرانی وَ اِبۡنُ جَریر وَ اِبۡنُ مُنۡذر عَنۡ اُمّ سلمه رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا قالَتۡ: فی بَیۡتی نَزَلَتۡ اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا، فَجائَتۡ فاطِمَةُ بِبَرَمَةٍ فیه ا ثَریدٌ، فَقالَﷺ اُدۡعی زَوۡجَکِ وَ حَسَناً وَ حُسَیۡناً، فَدَعۡتۡه ُمۡ فَبَیۡناه ُمۡ یَأۡکُلُونَ اِذۡ نَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ فَغَشّاه ُمۡ بِکِساءٍ خَیۡبَری کانَ عَلَیۡه ِ فَقالَ اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی وَ حامَّتی فَاَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، ثَلاثَ مَرّات "

طبرانی، ابن جریر اور ابن منذر نے ام سلمہ سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں: آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جس وقت فاطمہ ہمارے گھر تشریف لائیں جبکہ ان کے ساتھ طعام بھی تھا، رسول اللہﷺ نے فاطمہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا: علی و حسن و حسین علیھم السلام کو بھی مدعو کرلو۔ حضرت فاطمہ نے انہیں بھی مدعو کرلیا جب سب کھانا تناول فرما رہے تھے تو اس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی پس رسولؐ اللہ نے خیبری چادر اٹھا کر ان حضرات پر تانی اور تین مرتبہ یہ دعا فرمائی: پروردگار! یہ میرے اہل بیت اور میرے حامی و مددگار ہیں پس تو ان سے ہر رجس و گناہ کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ قرار دے۔

نکتہ: موصوف یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اَیۡضاً اَخۡرَجَ ه ذَا الۡحَدیثَ، اَلۡحاکِمُ عَنۡ سَعیدِ بن اَبی وَقّاص "یعنی نیز یہی روایت حاکم نے سعید بن ابی وقاص سے نقل کی ہے۔

۲۱ ۔ شیخ سلیمان(۲۸) نے ذخائر العقبی تالیف امام الحرم محب الدین طبری سے روایت کی ہے:

"وَ عَنۡ اُمّ سَلَمَة قالَتۡ : کانَ النَّبیﷺ عِندی فَعَمِلَتۡ لَه ُ فاطِمَةُ حَزیرَةً فَجائَتۡ وَ مَعَه ا حَسَنُ وَ حُسَیۡنُ، فَقالَ لَه ا: ایتینی زَوۡجَکِ ، اِذۡه َبی فَاَدۡعیه ِ فَجائَتۡ بِه ِ فَأۡکُلُوه ا، فَاَخَذَﷺ کِساءً فَادارَ عَلَیۡه ِمۡ وَ اَمۡسَکَ طَرَفَه ُ بِیَدِه ِ الۡیُسۡری ثُمَّ یَدَه ُ الۡیُمۡنی اِلَی السَّماءِ وَ قالَ : اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی وَ حامَّتی وَ خاصَّتی اَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، ثُمَّ قالَ: اَنا حَرۡبٌ لِمَنۡ حارَبَه ُمۡ وَ سِلۡمٌ لِمَنۡ سالَمَه ُمۡ وَ عَدُوٌّ لِمَنۡ عاداه ُم "

امّ سلمہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: رسولؐ اللہ میرے پاس تھے اس وقت فاطمہ کھانا تیار کرکے اپنے بچوں کے ہمراہ ہمارے پاس آئیں۔ حضورؐ نے فاطمہ زہرا سے فرمایا: علی علیہ السلام کو بھی مدعو کرلو۔ فاطمہ گئیں اور حضرت علی علیہ السلام کو بھی لیکر آگئیں اور پھر سب کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے پھر حضورؐ نے ان سب کے اوپر چادر ڈھانپ دی۔ بائیں ہاتھ سے چادر کو پکڑا اور دایاں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: پروردگار! یہ میرے اہل بیت علیھم السلام اور حامی و مددگار ہیں، تو ان سے ہر رجس و گناہ کو دور رکھ اور انہیں مکمل پاکیزہ قرار دے، پھر فرمایا: جو ان سے جنگ کرے گا اس سے میری جنگ ہے اور جو ان سے صلح کرے اس سے میری صلح ہے اور جو انکا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔

نکتہ: موصوف کہتے ہیں: اسی طرح یہ روایت غسانی نے اپنی کتاب معجم میں بھی نقل کی ہے:

۲۲ ۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم ، طبرانی اور ابن مردویہ(۲۹) نے ام سلمہ سے اس طرح روایت کی ہے:

"عَنۡ اُمّ سَلَمَة زَوۡجة النَّبیﷺ: اِنَّ رَسُولَ الله ﷺ کانَ بَیۡتِه ا عَلی مَنامَةٍ لَه ُ، عَلَیۡه ِ کِساءٌ خَیۡبَری، فَجائَتۡ فاطِمَةُ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا بِبَرَمَة فیه ا حَزیرَة، فقالَ رَسُولُ الله ﷺ: اُدۡعی زَوۡجَکِ وَ حَسَناً وَ حُسَیۡناً، فَدَعَتۡه ُمۡ فَبَیۡناه ُمۡ یَأۡکُلُونَ اِذۡ نَزَلَتۡ عَلی رَسُولِ الله ِﷺ:اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا،فَاَخَذَ النَّبیﷺ بِفَضۡلَةِ اِزارِه وَ غَشّاه ُمۡ اِیّاه ا ثُمَّ اَخۡرَجَ یَدَه ُ مِنَ الۡکِساءِ وَ اَوۡمَأَ بِه ا اِلَی السَّماءِ ثُمَّ قالَ: اَلۡلَّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی وَ خاصَّتی فَاَذۡه ِبۡ عَنۡه ُمُ الرِّجۡسَ وَ طَه ِّرۡه ُمۡ تَطۡه یراً، ثَلاثَ مَرّات "

امّ المؤمنین جناب امّ سلمہ سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا: رسول خداﷺ میرے گھر میں اپنے حجرہ میں تھے اور انہوں نے خیبری چادر اوڑھ رکھی تھی، اسی اثناء میں فاطمہ زہرا کھانا لیکر آئیں تو حضور نے انہیں اپنے پاس بلایا اور فرمایا اپنے شوہر اور بچوں حسن و حسین‘کو بھی مدعو کرلو پس فاطمہ نے انہیں مدعو کیا اور یہ سب کھانا تناول کرنے میں مشغول ہوگئے کہ آیت تطہیر( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) نازل ہوئی، اس وقت حضور نے چادر کا ایک گوشہ پکڑا اور علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو زیر کساء لے لیا اور دوسرا ہاتھ کساء سے باہر نکالا اور آسمان کی طرف بلند کرکے بارگاہ الٰہی میں تین بار عرض کیا: پروردگار یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوص افراد ہیں۔ تو ان سے ہر رجس و گناہ کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھ۔

دوسرا حصہ: آیت تطہیر کے بارے میں بیانات

اس سلسلہ میں نقل کی جانے والی کچھ روایات ایسی ہیں جو آیت کی شان نزول تو بیان نہیں کر رہی ہیں البتہ ان سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیت نبی کریمﷺ، حضرات علی و فاطمہ اور امام حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، بعض روایات میں رسول خدا کا بیان ہے اور بعض میں دیگر افراد کا بیان ہے؛ اور یہ تمام روایات بہر حال اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ اہل بیت علیھم السلام سے مراد علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام ہیں۔

۱ ۔ طبری نے کتاب "جامع البیان"(۳۰) میں اس طرح روایت کی ہے:

"حَدَّثَنی مُحَمَّدُ بن الۡمُثَنّی، قالَ بَکۡرُ بن یَحۡیَی بن زَبانِ الۡعتری، قالَ: حَدَّثَنا مَنۡدل بن علی عَنِ الاَعۡمش (سلیمان بن مه ران) عَن عَطِیَّة عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری قالَ، قالَ رَسُولُ الله ﷺ: نَزَ لَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ فِی خَمۡسَةٍ: فیَّ، وَ فی عَلیٍّ وَ حَسَن وَ حُسَیۡن وَ فاطِمَةَ علی ھ م السلام :( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (۳۱) "

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: یہ آیت پنجتن یعنی میرے بارے میں اور علی و فاطمہ ، حسن و حسین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیت یہ ہے:( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (احزاب/ ۳۳)

۲ ۔ شیخ سلیمان(۳۲) نے ذخائر العقبی تالیف محب الدین طبری سے روایت نقل کی ہے: "عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری فی ه ذِه ِ الۡآیةِ ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) قالَ : نَزَلَتۡ فی خَمۡسَةٍ، رَسُولِ الله ِﷺ وَ عَلیٍّ و فاطِمَةَ وَ الۡحَسَنِ وَ الۡحُسَیۡنِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ "

ابو سعید خدری سے اس آیت( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (احزاب/ ۳۳) کے بارے میں روایت ہے کہ یہ آیت پنجتن یعنی رسول خدا، علی و فاطمہ اور حسن و حسین‘کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

نکتہ: مولانا موصوف(۳۳) نے یہی روایت احمد ابن حنبل کی کتاب مناقب اور ابن جریر و طبرانی سے بھی نقل کی ہے۔

۳ ۔ تاریخ مدینہ دمشق(۳۴) میں اس طرح روایت ہے:

"عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری، قالَ نَزَلَتِ الۡآیةُ فی خَمۡسَةِ نَفَر، ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) ،فی رَسُولِ الله ِ وَ عَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ الحَسَنِ وَ الحُسَیۡنِ علی ھ م السلام "

ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ یہ آیت( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) پانچ افراد یعنی رسول اللہ، علی و فاطمہ اور حسن و حسین‘کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

۴ ۔ تاریخ مدینہ دمشق(۳۵) میں عطیہ (ابن سعد عوفی(۳۶) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری سے سوال کیا کہ اہل بیت کون لوگ ہیں تو انہوں نے جواب دیا: پیغمبر، علی و فاطمہ ، اور حسن و حسین‘ہیں۔

۵ ۔ طحاوی(۳۷) نے ام المؤمنین ام سلمہ سے اس طرح روایت کی ہے:

"عَنۡ اُمّ سَلَمَة قالَتۡ : نَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ فی رَسُولِ الله ِ وَ عَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ الحَسَنِ وَ الحُسَیۡنِ علی ھ م السلام ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (۳۸) "

امّ سلمہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں: یہ آیت شریفہ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) رسول خداﷺ، علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

۶ ۔ شیخ سلیمان(۳۹) نے ابن سعد (صاحب طبقات سے اس طرح روایت نقل کی ہے:

"وَ اَخۡرَجَ اِبۡنُ سَعۡدٍ عَنِ الۡحَسَنِ بن عَلیٍّ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما قالَ فی خُطۡبَتِه : نَحۡنُ اَه ۡلُ الۡبَیۡتِ الَّذینَ قالَ الله ُ سبحانَه ُ فینا ( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (۴۰) "

ابن سعد نے (امام) حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ہم ہی اہل بیت علیھم السلام ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا:( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا )

____________________

۱ ۔ سورہ قلم (۶۸) آیات ۱ تا ۳۔

۲ ۔ سورہ شوری (۴۲) آیت ۲۳۔

۳ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۳۳، ص ۱۰۷، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ سال ۱۳۸۵ ھ۔

۴ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۳۳، ص ۱۰۷، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ سال ۱۳۸۵ ھ ۔

۵ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۵۶، صفحہ ۲۲۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۶ ۔کتاب مشکل الآثار، ج۱، ص ۳۳۳ دار الباز ۔

۷ ۔ تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۴، ص ۴۵، دار الفکر۔

۸ ۔ تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص ۲۰۶، دار الفکر۔

۹ ۔ سمعانی کہتے ہین: میں نے عبد الرشید طبری سے مرو میں سنا کہ وہ کہتے تھے کہ الفراوی (محمد بن فضیل بن احمد) ہزار راویوں کے برابر تھے (سیر اعلام النبلاء، ج۱۹، ص ۶۱۵، مؤسسۃ الرسالہ)۔

۱۰ ۔ جامع البیان، ج۲۲، ص ۷، طبع دار المعرفۃ، بیروت ۔

۱۱ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ج۳، ص ۴۹۳، طبع دار المعرفۃ، بیروت۔

۱۲ ۔ مشکل الآثار، ج۱، ص ۳۳۶، طبع مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ بالھند۔

۱۳ ۔ دار المعرفۃ، بیروت ۔

۱۴ ۔ المستدرک علی الصحیحین، در تفسیر سورہ احزاب، ج۲، ص ۴۱۶، احزاب ۳۳۔

۱۵ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ج۳، ص ۴۹۳، دار المعرفۃ، بیروت۔

۱۶ ۔ ینابیع المودۃ، باب۵۶، ص ۲۲۹، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ۔

۱۷ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۵۶، ص ۲۲۹ بنا بر نقل از ذخائر العقبیٰ، محب الدین طبری۔

۱۸ ۔شواہد التنزیل، ج۲، ص ۱۳۳، مؤسسہ طبع و نشر، وزارت ارشاد ۔

۱۹ ۔ینابیع المودۃ، باب۵۶، ص ۲۲۸، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ھ ۔

۲۰ ۔ شواہد التنزیل، ج۲، ص ۶۱، موسسہ طبع و نشر، وزارت ارشاد۔

۲۱ ۔ الدّر المنثور، ج۶، ص ۴۔ ۶، دار الفکر۔

۲۲ ۔المعجم الکبیر، ج۲۳، ص ۳۳۶ ۔

۲۳ ۔ تاریخ مدینہ، ج۱۴، ص ۴۱، دار الفکر۔

۲۴ ۔تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۴، ص ۱۴۵، طبع دار الفکر۔

۲۵ ۔شواہد التنزیل، ج۲، ص ۱۱۹، مؤسسۂ طبع و نشر، وزارت ارشاد۔

۲۶ ۔تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص ۲۰۳، طبع دار الفکر۔

۲۷ ۔ینابیع المودۃ، باب ۳۳، ص ۱۰۷، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۲۸ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۵۶، ص ۲۲۸، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۲۹ ۔بنابر انقل از کتاب"امامت و عصمت امامان در قرآن" استاد رضا کاردان، آیہ تطہیر، ص ۲۹، انتشارات دلیل۔ ہم نے بعض گذشتہ روایات اسی کتاب سے نقل کی ہیں۔

۳۰ ۔جامع البیان، ج۱۰، جزء ۲۲، ص ۵، دار المعرفۃ، بیروت۔

۱۳ ۔ سورہ احزاب، آیت ۳۳۔

۳۲ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۵۶، ص ۲۳۰، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ھ۔

۳۳ ۔ینابیع المودۃ، باب ۳۳، ص ۱۰۸، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۳۴ ۔تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ۲۰۶، طبع دار الفکر۔

۳۵ ۔تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص ۲۰۷، طبع دار الفکر۔

۳۶ ۔عطیہ یہ وہی شخص ہے جسے حجاج نے حضرت علی پر سبّ و شتم نہ کرنے کی وجہ سے ۴۰ تازیانے مارے تھے۔ بنابر نقل از امامت و عصمت امامان در قرآن، استاد کاردان، ص ۳۴ از آیہ تطہیر۔

۳۷ ۔طحاوی، کتاب مشکل الآثار، ج۱، ص ۳۳۲، طبع دار الباز۔

۳۸ ۔سورہ احزاب، آیت ۳۳۔

۳۹ ۔ینابیع المودۃ، باب ۳۳، ص ۱۰۸، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ ھ۔

۴۰ ۔سورہ احزاب، آیت ۳۳۔