تیسرا حصہ: رسول خدا ﷺ، در خانۂ اہل بیت علیھم السلام پر
آیت تطہیر کے بارے میں ایسی احادیث بھی پائی جاتی ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ رسول خداﷺ روزانہ صبح کی نماز یا پانچوں نمازوں کے وقت در خانہ علی و فاطمہ پر با آوازِ بلند فرماتے: اے اہل بیت علیھم السلام نماز کا وقت ہے۔ کچھ روایات آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں:
۱ ۔ شیخ سلیمان
نے حنبلیوں کے امام ، احمد ابن حنبل و ابن ابی شیبہ سے اس طرح روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ بۡنُ حَنۡبَل وَ اِبۡنُ اَبی شَیۡبَة عَنۡ اَنسِ بن مالِک ، قالَ: اِنَّ رَسُولَ الله ﷺ کانَ یَمُرُّ بِبابِ فاطِمَةَ اِذا خَرَجَ اِلی صَلوةِ الۡفَجۡرِ، یَقُول: اَلصَّلوة یا اَه ۡلَ الۡبَیۡتِ یَرۡحَمُکُمُ الله ُ، ثَلاثاً، مُدَّةً سِتَّةِ اَشۡه ُر
"
احمد ابن حنبل و ابن ابی شیبہ نے انس ابن مالک سے روایت کی وہ کہتے ہیں : رسول خداﷺ روزانہ صبح نماز فجر کے وقت در خانۂ فاطمہ سلام اللہ علیھا پر جاتے اور تین مرتبہ فرماتے: اے اہل بیت علیھم السلام ، وقت نماز ہے۔ خدا آپؑ پر اپنی رحمتیں فرمائے، حضورؐ نے چھ ماہ مسلسل روزانہ یہ کام انجام دیا ہے۔
۲ ۔ مسند ابی داؤد
میں روایت کی گئی ہے کہ رسول خداﷺ ایک ماہ تک روزانہ در خانہ فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا پر آئے اور با آواز بلند اے میرے اہل بیت علیھم السلام کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
۳ ۔ ہیثمی
، جلال الدین سیوطی
اور حاکم حسکانی
نے روایت کی ہے کہ رسول خدا چالیس دن تک در خانہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاپر تشریف لائے اور با آواز بلند انہیں "اے میرے اہل بیت علیھم السلام " کہہ کر خطاب فرمایا۔
۴ ۔ احمد ابن حنبل
، ترمذی
، ذہبی
(جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی کی روایت آپ نے ملاحظہ فرمائی) نے روایت کی ہے: رسول خداﷺ چھ ماہ تک مسلسل درِ خانۂ فاطمہ زہرا پر تشریف لائے اور انہیں "میرے اہل بیت" کہہ کر خطاب فرماتے رہے۔
۵ ۔ طبری
و ابن کثیر
نے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا مسلسل سات مہینے تک در خانۂ فاطمہ زہرا پر تشریف لائے اور انہیں "میرے اہل بیت" کہہ کر خطاب فرماتے رہے۔
۶ ۔ جلال الدین سیوطی
و حاکم حسکانی
نے روایت کی ہے کہ رسول خداﷺ مسلسل آٹھ ماہ تک در خانۂ سیدہ پر آکر انہیں "اے میرے اہل بیت" کہہ کر خطاب فرماتے رہے۔
۷ ۔ جلال الدین سیوطی
، حاکم حسکانی
، اور محب الدین طبری
نے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۹ ماہ تک مسلسل در خانہ سیدہ فاطمہ پر آکر انہیں "اے اہل بیت" کہہ کر خطاب کرتے رہے۔
۸ ۔ ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد، جلد ۹ ، صفحہ ۲۶۷ ، حدیث ۱۴۹۸۶ اور حاکم حسکانی
نے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا سترہ ماہ تک در خانہ فاطمہ سلام اللہ علیھا پر آتے رہے اور انہیں "اے اہلبیت علیھم السلام " کہہ کر خطاب کرتے رہے۔
دو اہم نکات:
ان احادیث و روایات کے بارے میں دو نکات بیان کرنا ضروری ہیں:
۱ ۔ اگرچہ ان روایات میں سے ہر ایک میں مخصوص مدت کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں آپس میں کوئی تضاد و تنافی نہیں ہے کیونکہ جو صحابی جتنی مدت حضور کے ساتھ ساتھ تھا اور جتنی مدت اس نے یہ عمل دیکھا بیان کر دیا۔
لیکن وہ روایات جن میں ایک ہی شخص نے دو مختلف مدتیں بیان کی ہیں قابلِ توجیہ ہیں اور وہ اس طرح کہ اس نے پہلی مرتبہ کم مدت والی روایت بیان کی ہے لیکن جب اس مدت مذکورہ کے بعد بھی مسلسل اس عمل کا مشاہدہ کیا تو دوبارہ زیادہ مدت والی روایت بیان کی ہے۔ مثلاً ابو الحمراء نے ایک حدیث میں یہ مذکورہ مدت چھ ماہ بیان کی ہے کیونکہ اس نے چھ ماہ تک حضور کو یہ عمل انجام دیتے دیکھا لیکن جب اس کے بعد بھی وہ حضور کو مسلسل یہی عمل انجام دیتے دیکھتا رہا اور اسی طرح دو ماہ اور گذر گئے اب جب دوبارہ حدیث بیان کی تو چھ ماہ کے بدلے آٹھ ماہ بیان کئے ہیں اور بتایا کہ حضور آٹھ ماہ تک در خانہ فاطمہ پر "اے اہل بیت" کہہ کر خطاب فرماتے رہے
۔
۲ ۔ اتنی طویل مدت تک رسول اکرمﷺ کا در خانۂ فاطمہ زہرا پر آکر "اے اہل بیت علیھم السلام " کہہ کر خطاب کرنے سے یہ لفظ حضرات علی و فاطمہ اور حسن و حسین سلام اللہ علیھا کے لئے "علَم" یعنی اسم معرفہ بن گیا ہے لہذا دیگر روایات کی روشنی میں بھی یہ لفظ علی و فاطمہ اور ان کی پاکیزہ اولاد سے مخصوص ہوگیا ہے۔ نیز جیسا کہ رسول اکرم ؐ نے حدیث "سفینہ" میں فرمایا: تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی مانند ہے؛ یہاں بھی حضور کی اہل بیت سے مراد علی و فاطمہ اور اُن کی پاکیزہ آل ہے۔ اسی طرح حدیث ثقلین وغیرہ میں بھی جو کہ اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہے؛ یہی مراد ہے۔
چوتھا حصہ: خمسہ طیبہ کے بارے میں مختلف اور کثیر روایات
ہم نے ابھی تک آیت تطہیر کے ذیل میں خمسہ طیبہ کے بارے میں گذشتہ تین حصوں میں ۳۶ روایات کا تذکرہ کیا ہے اور ان تمام روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ "اہل بیت علیھم السلام " سے مراد علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ہیں۔ لہذا اس نص جلی کی موجودگی میں کسی کے بھی غیر عالمانہ اجتہاد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ نیز یہ بتانا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ ذکر شدہ روایات کے علاوہ بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن سے خمسہ طیبہ کو ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن ان تمام روایات کے ذکر کرنے سے کتاب کے حجم میں اضافہ اور کلام طولانی ہوجائے گا۔ مثلاً آیہ مباہلہ کے ذیل میں خمسہ طیبہ کے بارے میں وارد ہونے والی روایات۔ تفصیلات ہم آپ پر چھوڑتے ہوئے صرف اختصار سے کام لیتے ہوئے چند روایت بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
آیت مباہلہ کے ذیل میں اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں روایات
۱ ۔ فخر رازی
نے آیت مباہلہ کے ذیت میں یہ حدیث نقل کی ہے:
"رُوِیَ اَنَّه ُﷺ لَمّا اَوۡرَدَ الدَّلائِلَ عَلی نَصاری نَجران ثُمَّ اِنَّه ُمۡ اَصَرّوا عَلی جَه ۡلِه ِمۡ فَقالَﷺ: إِنَّ اللَّهَ اَمَرَنِي إِنْ لَمْ تَقْبَلُوا الۡحُجَّةَ اَنْ اُبَاهِلَكُمْ، فَقَالُوا: يَا اَبَا الْقَاسِمِ، بَلْ نَرْجِعُ فَنَنْظُرُ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ نَأْتِيكَ؛فَلَمّا رَجَعوُا قالوُا لِلْعَاقِبِ – وَ کانَ ذارَأۡیِه ِمۡ - : یَا عَبۡدَ الۡمَسیحِ، ما تَریَ؟ فَقالَ: وَ اللَّهِ لَقَدۡ عَرَفۡتُم – یا مَعۡشَرَ النَّصاری – اَنَّ مُحَمّداً نَبِیٌّ مُرۡسَلٌ وَ لَقَدۡ جائَکُمۡ بِالۡکَلامِ، اَلۡحَقُّ فی اَمۡرِ صاحِبِکُمۡ، وَ الله ما باه َلَ قَوْمٌ قَطُّ نَبِيّاً فَعَاشَ كَبِيرُهُمْ وَ نَبَتَ صَغِيرُهُمْ، وَ لَاِنۡ فَعَلۡتُمۡ لَکانَ الۡاِسۡتِئصال، فَاِنۡ أَبَيْتُمْ إِلَّا الۡاِصۡرارِ عَلی دینِکُمۡ وَ الۡاِقامَة عَلی ما اَنۡتُم عَلَیه ِ فَوَادِعُوا الرَّجُلَ و انۡصَرفوُااِلَى بِلَادِكُمْ
؛
وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺخَرَجَ وَ عَلَیۡه ِ مِرۡط مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ وَ کانَ قَدۡ اِحۡتَضَنَ الۡحُسَیۡنَ وَ اَخَذَ بِیَدِ الْحَسَنِ وَ فَاطِمَةُ تَمْشِي خَلْفَهُ وَ عَلِيٌّ خَلْفَهَا وَ هُوَ يَقُولُ إِذَا أَنَا دَعَوْتُ فَاَمِّنُوا فَقَالَ اُسْقُفُ نَجْرَانَ: يَا مَعْشَرَ النَّصَارَى، اِنِّي لَاَرَى وُجُوهاً لَوْ سَأَلوُا اللَّهُ أَنْ يُزِيلَ جَبَلًا مِنْ مَكَانِهِ لَاَزَالَهُ بِهَا، فَلَا تُبَاهِلُوا فَتَهْلِكُوا، وَ لا يَبْقی عَلَى وَجْهِ الْاَرْضِ نَصْرَانِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ قَالُوا: يَا اَبَا الْقَاسِمِ، رَأَيْنَا أَنْ لَا نُبَاهِلَكَ وَ أَنْ نُقِرَّكَ عَلَى دِينِكَ فَقالَ: فَإِذَا اَبَيْتُمُ الْمُبَاهَلَةَ فَاَسْلِمُوا يَكُنْ لَكُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَ عَلَيْكُمْ مَا عَلَي الۡمُسۡلِمینَ؛
فَأَبَوْا قَالَ: فَاِنِّي أُناجِزُكُمْ الۡقِتالَ، فَقَالُوا مَا لَنَا بِحَرْبِ الْعَرَبِ طَاقَة وَ لَكِنْ نُصَالِحُكَ عَلَى أَنْ لَا تغزُونا وَ لَا تَردَّنَا عَنْ دِينِنَا عَلَى أَنْ نُؤَدِّيَ إِلَيْكَ فی كُلِّ عَامٍ أَلْفَيْ حُلَّةٍ، اَلْفاً فِي صَفَرٍ وَ اَلْفاً فِي رَجَب وَ ثَلَاثِينَ دِرْعاً عَادِيَةً مِنْ حَدِيدٍ، فَصَالَحَهُمۡ عَلَى ذَلِكَ وَ قَالَ: وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ اِنَّ الْهَلَاكةَ قَدْ تَدَلَّى عَلَى اَهْلِ نَجْرَان، وَ لَوْ لَاعِنُوا لَمُسِخُوا قِرَدَةً وَ خَنَازِيرَ ، وَ لَاِضطَرَمَ عَلَيْهِمُ الْوَادِي نَاراً، وَ لَاسْتَأْ صَلَ اللَّهُ نَجْرانَ وَ اَهْلَهُ حَتَّى الطَّيْرَ عَلَى رُؤُسِ الشَّجَرِ ، وَ لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى كُلِّهِمْ حَتَّى يَهْلِكُوا وَ رُوِیَ اَنَّه ُﷺ لَمَّا خَرَجَ فِی الۡمِرْطِ الۡاََسْوَدِ فَجَاءَ الْحَسَنُ علیه السلام فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ علیه السلام فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَائَتۡ فَاطِمَةُ علیه ما السلام، ثُمَّ عَلِيُّ علیه السلام، ثُمَّ قَالَ:(
اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
)
"
جب نصارائے نجران نبی کریمﷺ کی جانب سے دلائل پیش کرنے کے باوجود اپنی ہٹ پر قائم رہے تو آنحضرت ؐ نے فرمایا: خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ دلائل قبول نہ کرو تو میں تم سے مباہلہ کروں۔ انہوں نے کہا: اے ابو القاسم ہم پہلے واپس جاکر آپس میں مشورہ کرلیں پھر آپؐ کے پاس آتے ہیں۔
اپنی قوم میں واپس پلٹنے کے بعد "عاقب" نامی صاحب نظر و دور اندیش شخص کے پاس آئے اور کہا: اے عبد المسیح! آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے جواب دیا: اے مسیحو! تم لوگ تو محمدؐ کو جانتے پہچانتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ وہ پیغمبر اور فرستادۂ خدا ہیں اور (حضرت عیسیٰ کے بارے میں) تمہارے لئے کلام حق لیکر آئے ہیں۔ خدا کی قسم کسی قوم نے ان سے مباہلہ نہیں کیا مگر یہ کہ ان کے چھوٹے بڑے سب نابود ہوگئے اگر تم بھی ان سے مباہلہ کے لئے پہنچ جاؤ گے تو مکمل طور پر نابود ہوجاؤ گے لہذا اگر تم اپنی ضد پر قائم اور اپنے دین پر باقی رہنا چاہتے ہو تو پھر اپنے شہر واپس پلٹ جاؤ۔
پیغمبر اس انداز سے مباہلہ کے لئے نکلے کہ آپ ؐ کے دوش مبارک پر کالے بالوں والی عباء تھی، حسینؑ آغوش میں اور حسن انگلی پکڑے ہوئے، فاطمہ پیچھے پیچھے اور علی علیہ السلام ان کے پیچھے پیچھے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم لوگ "آمین" کہنا۔
یہ منظر دیکھ کر اسقف نجران نے کہا: اے گروہ انصار! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ خدا سے پہاڑ ہٹانے کے لئے کہیں تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو ورنہ نابود ہوجاؤ گے اور قیامت تک زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ بچے گا۔
پھر حضورؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے ابو القاسم ! ہم آپؐ سے مباہلہ کا ارادہ نہیں رکھتے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اگر تم مباہلہ نہیں کرنا چاہتے ہو تو مسلمان ہو جاؤ تاکہ مسلمانوں کے نفع و نقصان میں شریک رہو۔ انہوں نے مسلمان ہونا بھی قبول نہیں کیا۔ پھر نبی کریمؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر تمہارے ساتھ جنگ حتمی ہے۔ انہوں نے کہا: ہم عرب سے جنگ کرنے پر قادر نہیں ہیں اور ہم آپ سے مصالحت کرتے ہیں کہ آپ ہم سے جنگ نہ کریں اور ہمیں ہمارے دین سے جدا نہ کریں، ہم اس کے بدلے ہر سال دو ہزار اسلحہ، (ایک ہزار صفر میں، ایک ہزار رجب میں) اور تیس آہنی زرہ ادا کریں گے۔ حضورؐ نے انکی یہ بات قبول کرلی۔
اس کے بعد حضورؐ نے فرمایا: خدا کی قسم اہل نجران نابودی کے در پر تھے اگر مباہلہ کرتے تو سب کے سب بندر اور سور کی شکل میں تبدیل ہوجاتے اور جس وادی میں یہ لوگ تھے وہاں آگ میں دھنس کر رہ جاتے، خداوند عالم اہل نجران کو نیست و نابود کردیتا۔ یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے تک نابود ہوجاتے اور ایک سال کے اندر تمام نصاریٰ نابود ہوجاتے۔
اور روایت کی گئی ہے : جب حضور اس کالی چادر کے ساتھ باہر آئے تھے تو پہلے حسن کو پھر حسین کو اور پھر علی علیہ السلام و فاطمہ کو چادر کے اندر داخل کرکے فرمایا:(
اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
)
بتحقیق کہ خداوند کا صرف ارادہ ہی یہ ہے کہ وہ ہر رجس کو تم اہل بیت سے دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔ (احزاب/ ۳۳)
نکتہ: موصوف یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :"وَ اعۡلَمۡ اَنَّ ه ذِه الرِّوایَةَ کَالمتفق عَلیٰ صِحَّتِه ٰا بَیۡنَ اهل التفسیر و الحدیث"
یعنی یہ روایت مفسرین و محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے۔
۲ ۔ صحیح مسلم
،
، سنن ترمذی اور مسند احمد
بن حنبل
میں روایت کی گئی ہے:
"حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّاد … قالا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ (وَ ه ُوَ اِبۡنُ اِسْمَاعِيل) عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ اَبِي وَقَّاص، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: اَمَرَ مُعاوِيَةُ بن اَبِي سُفْيَانَ سَعْداً فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَاب؟ فَقَالَ: اما مَا ذَكَرْتَ ثَلَاثاً قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ فَلَنْ اَسُبَّهُ، لَاَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ؛ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ لَهُ – لَمّا خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ - فَقَالَ لَهُ عَلِیُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَ الصِّبْيَانِ ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ: اَمَا تَرْضَى اَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي؛
وَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ یُحِبُّه ُ الله ُ وَ رَسُولُه ُ، قَالَ فَتَطَاوَلُنَا لَهَا، فَقَالَ اُدْعُوا عَلِيّاً، فَاُتِيَ بِهِ اَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَ دَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَیۡه ؛
وَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ :(
… فَقُلۡ تَعالَوۡا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ
)
دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلِيّاً وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَناً وَ حُسَيْناً ، فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلی "
قتیبہ ابن سعید نے ہم سے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد (یعنی سعد بن ابی وقاص) سے کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا اور کہا: ابو تراب (علیؑ) کو سب و شتم کرنے میں تمہارے لئے کیا چیز مانع ہے؟ جناب سعد نے جواب دیا جب تک میرے ذہن میں علی علیہ السلام کی تین فضیلتیں محفوظ ہیں جو رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں بیان کی ہیں میں ہرگز انہیں سب و شتم نہ کروں گا، اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی مجھے مل جاتی تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی اور محبوب ہوتی۔ اول: یہ کہ جب نبی کریم نے انہیں جنگ کے موقع پر مدینہ میں چھوڑ دیا تو علی علیہ السلام نے ان سے کہا: یا رسولؐ اللہ کیا آپؐ مجھے خواتین و بچوں کے ساتھ مدینہ ہی میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ اس وقت نبی نے فرمایا: اے علی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد نبی نہیں ہے؟
دوئم: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ میں علَم اس شخص کو دونگا کہ وہ خدا و رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسولؐ اس کو دوست رکھتے ہیں۔ سعد کہتے ہیں: ہم (پوری رات اس عظیم مقام کے حصول میں ) انتظار کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ نبی اس عظیم کام پر ہمیں مامور کریں گے یا نہیں؟ لیکن حضور نے فرمایا کہ علی علیہ السلام کو میرے پاس لیکر آؤ۔ حالانکہ علی علیہ السلام کی آنکھوں میں درد تھا اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھ رسولؐ کی خدمت میں آگئے، حضور ؐ نے انکی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور علم عطا کردیا اور خداوند عالم نے انکے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
سوئم: جب یہ آیت مباہلہ(
فَقُلۡ تَعالَوۡا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ
)
نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو اپنے پاس بلاکر عرض کیا: پروردگار! "یہ میرے اہل بیت ہیں"۔
۳ ۔ شیخ سلیمان
نے عامر بن سعد سے اس طرح روایت کی ہے:
"عَنۡ عامِرِ بن سَعۡدٍ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما قالَ: لَمَّا اُنۡزِلَتْ آيَةُ الۡمُباه َلَةِ دَعَا رَسُولُ اللَّهِﷺ عَلِيّاً وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَناً وَ حُسَيْناً فَقَالَ: اَللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلی
"
عامر بن سعد سے روایت کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں: جب آیت مباہلہ (آل عمران/ ۶۱) نازل ہوئی تو رسول خداﷺ نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو اپنے پاس بلایا اور عرض کیا: خدایا یہ میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں۔
نکتہ: موصوف یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ حدیث مسلم نے بھی نقل کی ہے۔
اہل بیت علیھم السلام اور مناشدۂ یوم الشوریٰ
۴ ۔ تاریخ دمشق
میں، شوریٰ کے دن شوریٰ کے اراکین سے حضرت علی علیہ السلام کا مناشدہ، مسنداً نقل ہوا ہے اس مشہور و متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ، عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، طلحہ و زبیر اور سعد بن ابی وقاص سے اپنے فضائل بیان کرکے انہیں خدا کی قسم دے کے ایک ایک فرد سے اعتراف لیتے رہے اور وہ تائید کرتے رہے۔ روایت یہ ہے:
" اَخۡبَرَنَا اَبُو عَبۡدِ الله ِ مُحَمَّدُبنِ اِبۡراه یم، اَخۡبَرَنَا اَبُو الۡفَضۡلِ اَحۡمَدُ بن عَبۡدِ المُنۡعِمِ بن اَحۡمَدِ بن بندار، اَخۡبَرَنَا اَبُو الۡحَسَنِ الۡعَتیقی، اَخۡبَرَنَا اَبُو الۡحَسَنِ الدّارُ قِطۡنی، اَخۡبَرَنَا اَحۡمَدُ بن مُحَمَّدِ بن سَعیدٍ، اَخۡبَرَنا یَحیَی بن زَکَرِیّا شَیۡبان، اَخۡبَرَنَا یَعقُوبُ بن سَعیدٍ، حَدَّثنی مَثۡنی اَبُو عَبۡدِ الله ِ عَنۡ سُفیان الثُّوری عَن اَبی اِسۡحاق السّبیعی عَنۡ عاصِمِ بن ضمره و ه َبیرَة وَ عَنِ الۡعَلاء بن صالِح عَنِ الۡمِنۡه الِ بن عَمۡرو عَنۡ عبّادِ بن عَبۡدِ الله ِ الۡاَسَدی وَ عَنۡ عَمۡرو بن واثِلةِ، قالوا:
قالَ عَلیُّ بن اَبیطالبٍِ یَوۡمَ الشُّوری: وَ الله ِ لَاَحۡتِجَنَّ عَلَیۡکُمۡ بِما لا یَسۡتَطیعُ قُرَشِیُّه ُمۡ وَ لا عَرَبِیُّه ُمۡ وَ لا عَجَمِیُّه ُمۡ رَدَّه ُ وَلا یَقوُلُ خِلافَه ُ، ثُمَّ قالَ لِعُثمان بن عَفّان وَ عَبۡدِ الرحمنِ بن عَوۡف وَ الزُّبَیۡر وَ طَلۡحَة وَ سَعۡد – وَ ه ُمۡ اَصۡحابُ الشُّوری وَ کُلُّه ُم مِنۡ قُرَیۡش وَ قَدۡ کانَ قدَّمَ طَلۡحَةُ – اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ الّذی لا اِله َ اِلّا ه ُوَ، اَمِنۡکُمۡ اَحَدٌ وَحَّدَ الله َ قَبۡلی؟ قالوُا: اَلۡلَّه ُمَّ لا قالَ: اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ، ه َلۡ فیکُم اَحَدٌ صَلّی لِله ِ قَبۡلی وَ صَلّی الۡقِبۡلَتَیۡنِ؟ قالوُا: اَلۡلَّه ُمَّ لا قالَ: اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ، اَفیکُمۡ اَحَدٌ اَخُو رَسُولِ الله ِ غَیۡری، اِذۡ آخی بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنینَ فَآخی بَیۡنی وَ بَیۡنَ نَفۡسِه وَ جَعَلَنی مِنۡه ُ بِمَنۡزِلَةِ ه ارُونَ مِنۡ مُوسی اِلّا اَنّی لَسۡتُ بِنَبِیٍّ؟ قالوُا: لا قالَ: اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ، اَفیکُمۡ مُطَه َّرٌ غَیۡری، اِذۡ سَدّ رَسُولُ الله ِ اَبۡوابَکُمۡ و فَتَحَ بابی وَ کُنۡتُ مَعَه ُ فی مَساکِنِه وَ مَسۡجِده ِ؟ فَقَامَ اِلَیۡه ِ عَمَّه ُ فَقالَ: یَا رَسُولَ الله ِ، غَلَّقۡتَ اَبۡوابَنا وَ فَتَحۡتَ بابَ عَلیٍّ؟ قالَ: نَعَمۡ، الله ُ اَمَرَ بِفَتۡحِ بابِه وَ سَدَّ اَبۡوابِکُم؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا قالَ: نَشدۡتُکُمۡ بِالله ِ، ه َلۡ فیکُمۡ اَحَبُّ اِلی الله ِ وَ اِلی رَسوُلِه مِنّی اِذۡ رَفَعَ الرّایَةَ الی یَوۡمِ خیبَر، فَقالَ: لَاُعۡطِیَنَّ الرّایَةَ اِلی مَنۡ یُحِبُّ الله َ وَ رَسُولَه ُ وَ یُحِبُّه ُ الله ُ وَ رَسُولُه ُ، وَ یَوۡم الطّائِرِ اِذۡ یَقُولُ:" اَلۡلَّه ُمّ اِئۡتِنی بِاَحَبِّ خَلۡقِکَ اِلَیۡکَ یَأۡکُلُ مَعی"، فَجِئتُ فَقالَ: " اَلۡلَّه ُمَّ وَ اِلی رَسُولِکَ " غَیۡری؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا قالَ: اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ، اَفیکُمۡ اَحَدٌ قَدّمَ بَیۡنَ نَجۡواه ُ صَدَقَةً غَیۡری حَتّی رَفَعَ الله ُ ذلِکَ الۡحُکۡم؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا قالَ: نَشدۡتُکُمۡ بِالله ِ، اَ فیکُمۡ مَنۡ قَتَلَ مُشۡرِکی قُرَیۡشِ وَ الۡعَرَبِ فیِ الله وَ فی رَسُولِه غَیۡری؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا قالَ: نَشدۡتُکُمۡ بِالله ِ، اَفیکُمۡ اَحَدٌ دَعا رَسُولُ الله ِ فِی الۡعِلۡمِ وَ اَنۡ یَکُونَ اُذُنُه ُ الۡواعِیَة مِثۡلُ ما دَعا لی؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا قالَ: نَشدۡتُکُمۡ بِالله ِ، ه َلۡ فِیکُمۡ اَحَدٌ اَقۡرَبُ اِلی رَسُولِ الله ِ فِی الرَّحِمِ وَ مَنۡ جَعَلَه ُ رَسُولُ الله ِ نَفۡسَه ُ وَ اَبۡنائَه ُ اَبۡنائَه ُ وَ نِسائَه ُ نِسائَه ُ، غَیۡری؟ قالوُا: الۡلَّه ُمَّ لا
عاصم بن ضمرہ، ہبیرہ اور عمرو بن واثلہ نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنجناب نے شوریٰ والے دن اعضائے شورا سے اس طرح کلام کیا۔
خدا کی قسم آج میں تمہارے سامنے اس طرح استدلال کروں کہ کوئی قریشی، عربی یا عجمی اسے رد نہ کرسکے اور اس کے برخلاف کوئی دلیل پیش نہ کرسکے۔ پھر آپ نے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، طلحہ و زبیر اور سعد جو کہ اصحاب شوریٰ اور قریش میں سے تھے اور ان میں طلحہ آگے آگے تھا، اس طرح فرمایا:
میں تمہیں اس خداوند عالم کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بتائیے تم میں کوئی ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے یکتا کی پرستش کی ہو؟ سب نے کہا: اے اللہ! کسی نے نہیں
۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کس نے مجھ سے پہلے نماز پڑھی اور مجھ سے پہلے کس نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ہے۔
سب نے کہا: بخدا کسی نے نہیں۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ بتاؤ تم میں سے میرے سِوا کون نبی کریمؐ کا بھائی ہے۔ جب رسولؐ اللہ نے مؤمنین میں رشتہ اخوت قائم کیا تو انہوں نے مجھے اپنا بھائی بنایا اور مجھے منزلت ہارونی عطا فرمائی؟
سب نے کہا: بخدا کوئی نہیں۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں بتاؤ میرے علاوہ تم میں کون ہے جسے پاکیزہ قرار دیا گیا ہو جب رسولؐ اللہ نے مسجد میں کھلنے والے ہمارے دروازے کے علاوہ سب کے دروازے بند کروا دیئے اور میں گھر اور مسجد میں ایک طرح تھا اور چچا عباس نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپؐ نے سب کے دروازے بند کروا دیئے اور علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟ اس وقت رسولؐ خدا نے جواب دیا تھا کہ خداوند عالم نے سب کے دروازے بند کرنے اور علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔
سب نے جواب دیا: بخدا ہم میں کوئی ایسا نہیں ہے۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کہ تم میں میرے سوا کوئی ہے جسے خدا و رسولؐ مجھ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں؟ جب پیغمبر خدا نے خیبر کے دن عَلَم اٹھاکر فرمایا: بتحقیق میں یہ علم اسے عطا کروں گا جو خدا و رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خداو رسولؐ اسے دوست رکھتے ہیں، اور اس دن جب پیغمبر خدا نے بُھنے ہوئے پرندے کے بارے میں عرض کیا: خدایا تو مخلوقات میں جسے سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے اُسے میرے پاس بھیج دے تاکہ میرے ساتھ اس کھانے میں شریک ہوجائے اور حضور کی اس دعا کے بعد میں وہاں پہنچ گیا تھا اور پیغمبرؐ نے مجھے دیکھ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا تھا کہ خداوند! میں بھی علی علیہ السلام کو سب سے زیادہ دوست و محبوب رکھتا ہوں۔
بتاؤ میرے علاوہ تم میں کون ایسا ہے جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو؟
سب نے کہا: بخدا ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں، بتاؤ تم میں سے کون ہے میرے سوا جس نے نجوا سے قبل صدقہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ حکم ہی خدا نے منسوخ کردیا؟
سب نے کہا: بخدا تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کہ تم میں میرے علاوہ بتاؤ ایسا کون ہے جس نے خدا و رسولؐ کے خاطر مشرکین کو قتل کیا ہو؟
سب نے کہا: کوئی نہیں ہے۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کہ میرے علاوہ تم میں کون ہے جس کے لئے رسولؐ خدا نے علم (میں اضافہ) کی دعا کی ہو، جس طرح میرے حق میں دعا کی ہے۔
سب نے کہا: کوئی نہیں ہے۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کہ تم میں رسول خداﷺسے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ کوئی قریب ہے؟ اور جسے رسولؐ اللہ نے اپنا نفس قرار دیا ہو، اس کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دیا ہو، اور اس کی نساء کو اپنی نساء قرار دیا ہو؟
سب نے کہا: کوئی نہیں ہے۔
نکتہ: جیسا کہ آپ نے آیۂ مباہلہ سے متعلق روایات ملاحظہ فرمائیں ہیں مباہلہ کا میدان خصوصیت کے ساتھ فقط انہی آل عبا و خمسہ طیبہ یعنی رسول خدا، علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو ثابت کر رہا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت کے ذیل میں یہ بات واضح کردی گئی ہے۔
آیہ مؤدت اہل بیت علیھم السلام کی شان ہے
۵ ۔ شیخ سلیمان
نے احمد بن حنبل سے مسنداً روایت نقل کی ہے:
"اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ فی مُسۡنَده ِ، بِسَنَدِه عَنۡ سَعید بن جُبَیۡر عَنۡ اِبۡنِ عَبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما قالَ: لَمّا نَزَلَتۡ قُلۡ لا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡه ِ اَجۡراً اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِی الۡقُرۡبی، قالوُا: یا رَسُولَ الله ِ مَنۡ ه ؤُلاءِ الَّذینَ وَجَبَتۡ لَنا مَوَدَّتُه ُمۡ، قالَ: عَلِیُّ و فاطِمَةُ وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ
"
احمد ابن حنبل نے کتاب مسند میں سعید بن جبیر کے حوالہ سے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ جب آیۂ مودت(
قُلۡ لا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡه ِ اَجۡراً اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِی الۡقُرۡبی
)
(شوریٰ/ ۲۳) نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا: یا رسولؐ! آپؐ کے قربیٰ کون ہیں جن کی مودت کو ہم پر واجب قرار دیا گیا ہے۔
حضور سرور کائناتﷺ نے فرمایا: یہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ہیں۔
نکتہ: موصوف، ینابیع المودۃ کے باب ۳۲ کے آغاز میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"اَیۡضاً اَخۡرَجَ ه ذَا الۡحَدیثَ الطَّبَرانی فی مُعۡجَمِه ِ الۡکَبیرِ، وَ اِبۡنُ اَبی حاتَمِ فی تَفۡسیرِه ِ، وَ الۡحاکِمُ فِی الۡمنَاقِبِ وَ الۡواحدی فی الۡوَسیط وَ اَبُو نعیم الۡحافِظُ فی حِلۡیَةِ الۡاَولیاء وَ الثَّعۡلَبی فی تَفۡسیره وَ الۡحَمَوِیۡنی فی فَرائِدِ السِّمۡطَیۡنِ
"
یعنی نیز یہ حدیث طبرانی نے معجم الکبیر میں، ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں، حاکم نے مناقب میں، واحدی نے کتاب الوسیط میں، حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں، ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حموینی نے فرائد السمطین میں بھی نقل کی ہے۔
ذرّیت نبیؐ، صلبِ علی علیہ السلام میں
۶ ۔ شیخ سلیمان بلخی
نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہوں نے امام محمد باقر سے انہوں نے جابر عبد اللہ انصاری سے، نیز کتاب کے باب ۵۹ ، ص ۳۰۰ میں کتاب الصواعق المحرقہ سے آیہ مباہلہ کے ذیل میں ابو خیر فاکھی سے اور صاحب کنوز المطالب فی مناقب بنی ابی طالب نےا س طرح روایت کی ہے: "اِنَّ عَلِیّاً دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّﷺ وَ عِنۡدَه ُ الۡعَبّاس فَسَلَّمَ وَ رَدّ علیه السلام وَ قامَ فَعانَقَه ُ وَ قَبَّلَ ما بَیۡنَ عَیۡنَیۡه ِ وَ اَجۡلَسَه ُ عَنۡ یَمینِه فَقالَ لَه ُ الۡعَبّاسُ: اَ تُحِبُّه ُ؟ قالَ: یا عَمَّ وَ الله ِ اَلله ُ اَشَدُّ حُبّاً لَه ُ مِنّی اِنَّ الله َ جَعَلَ ذُرِّیَّةَ کُلِّ نَبِیٍّ فی صُلۡبِه وَ جَعَلَ ذُرِّیَّتی فی صُلۡبِ ه ذا
"
یعنی ایک مرتبہ علی علیہ السلام رسولؐ کے پاس آئے اس وقت آنحضرت کے پاس عباس (اور جابر بن عبد اللہ انصاری) موجود تھے، پس علی علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور رسولؐ خدا نے جواب عنایت فرمایا۔ پھر حضورؐ نے کھڑے ہوکر علی علیہ السلام کی پیشانی کا بوسہ لیا اور انہیں اپنے دائیں پہلو میں بٹھالیا۔ اس موقع پر عباس نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کیا آپ علی علیہ السلام کو محبوب رکھتے ہیں؟ رسول خداﷺ نے فرمایا: اے چچا!بخدامیں اللہ کو زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔ بتحقیق خداوند نے ہر نبی کی ذرّیت و نسل کو خود اسی کے صلب میں قرار دیا ہے جبکہ میری ذریت کو علی علیہ السلام کے صلب میں قرار دیا ہے۔
اب کیا یہ خیال صحیح ہے کہ ذرّیت پیغمبر تو علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا میں ہو لیکن اہل بیت علیھم السلام نبی ان کے علاوہ کوئی اور ہوں؟
نکتہ: موصوف، ینابیع المودۃ کے باب ۵۷ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ابو الخیر نے یہ روایت کتاب اربعین میں نقل کی ہے او ر اسی جیسی روایت صاحب کنوز المطالب فی مناقب بنی ابی طالب نے عباس سے نقل کی ہے ۔
۷ ۔ شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ
باب ۵۷ اور باب ۵۶ میں نیز مناقب میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس طرح روایت کی گئی ہے۔
"عَنۡ جابِر رَضِی الله ُ عَنۡه ُ قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ اِنَّ الله َ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ ذُرِّیَّةَ کُلِّ نَبِیٍّ فی صُلۡبِه وَ جَعَلَ ذُرِّیَّتی فی عَلیِّ بن اَبیطالِبٍ
"
جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: بتحقیق خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت کو خو د اسی کے صلب میں رکھا ہے لیکن میری ذرّیت کو علی بن ابی طالب‘کے صلب میں قرار دیا ہے۔
بیشک ذرّیت نبی کریم صلب علی میں اور اولاد علی و فاطمہ میں ہی ہے۔ پس بنابریں علمائے اہل سنت کے اقرار کے مطابق حضرت علی علیہ السلام "سید اہل بیت علیھم السلام " ہیں۔
نکتہ: مولانا موصوف باب ۵۷ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ روایت طبرانی نے معجم الکبیر میں بھی نقل کی ہے اور باب نمبر ۵۶ میں حدیث عشرون کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت لکھی ہے۔
خلافت عثمان میں مسجد نبوی میں حضرت علی علیہ السلام کی تقریر
۸ ۔ شیخ سلیمان
، آیت "اولی الامر" کے ذیل میں "فرائد السمطین" حموینی
،
جلد نمبر ۱ ، صفحہ نمبر ۳۱۲ کے حوالہ سے سلیم ابن قیس ہلالی سے اس طرح روایت کرتے ہیں:
" اَلۡحموۡینی بِسنَدَه ِ عَنۡ سُلَیۡمِ بن قَیۡسٍ الۡه ِلالی قالَ رَأَیۡتُ عَلِیّاً فی مَسۡجِدِ الۡمَدینَةِ فی خِلافَةِ عُثۡمان، اِنَّ جَماعَةَ الۡمُه اجِرینَ وَ الۡاَنۡصار یَتَذاکَرُون فَضائِلَه ُمۡ وَ عَلِیٌّ ساکتٌ فَقالوُا: یا اَبَا الۡحَسَنِ تَکَلَّمۡ، فَقالَ: یا مَعۡشَرَ قُرَیۡشٍ وَ الۡاَنصارِ اَسۡئَلُکُمۡ مِمَّنۡ اَعۡطاکُمُ الله ُ ه ذَا الۡفَضۡلَ اَ بِأَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ بِغَیۡرِکُمۡ؟
قالوُا: اَعطانَا الله ُ وَ مَنَّ عَلَیۡنا بِمُحَمَّدٍﷺ قالَ: اَلَسۡتُمۡ تَعۡلَمُونَ اَنَّ رَسُولَ الله ﷺ قالَ اِنّی وَ اَهْلُ بَيْتِي كُنَّا نُوراً بَيْنَ يَدَي اللَّهِ قَبْلَ اَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ بِاَرْبَعَةَ عَشَرَ اَلْفَ سَنَةً، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَضَعَ ذَلِكَ النُّورَ فِي صُلْبِهِ وَ أَهْبَطَهُ اِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ حَمَلَهُ فِي السَّفِينَةِ فِي صُلْبِ نُوحٍ ثُمَّ قَذَفَ بِهِ فِي النَّارِ فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيمَ ثُمَّ لَمْ يَزَلِ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَنْقُلُنا مِنَ الْاَصْلَابِ الْكَرِيمَةِ إِلَى الْاَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ مِنَ الْآبَاءِ وَ الْاُمَّهَاتِ لَمْ یَکُنۡ وَاحِدٌ مِنّا عَلَى سِفاحٍ قَطُّ، فَقَالَ اَهْلُ السَّابِقَةِ وَ الْقِدْمَةِ وَ اَهْلُ بَدْرٍ وَ اُحُدٍ، نَعَمْ قَدْ سَمِعْنَاه ُ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ اَ تَعْلَمُونَ اَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَضَّلَ فِي كِتَابِهِ السَّابِقَ عَلَى الْمَسْبُوقِ فِي غَيْرِ آيَةٍ وَ لَمْ يُسْبِقْنِي اَحَدٌ مِنْ الْاُمَّةِ فی الۡاِسلامِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَاَنْشِدُكُمُ اللَّهَ اَ تَعْلَمُونَ حَيْثُ نَزَلَتْ(
وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
)
سُئِلَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِﷺ فَقَالَ اَنْزَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي الْاَنْبِيَاءِ وَ اَوْصِيَائِهِمْ فَاَنَا اَفْضَلُ اَنْبِيَاءِ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ عَلِيّ وَصِيِّي اَفْضَلُ الْاَوْصِيَاءِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اَنْشِدُكُمُ اللَّهَ اَ تَعْلَمُونَ حَيْثُ نَزَلَتْ:(
يا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللَّهَ وَ اَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ
)
وَ حَيْثُ نَزَلَتْ:(
اِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ
)
وَ حَيْثُ نَزَلْتَ:(
وَ لَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ لا رَسُولِهِ وَ لَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً
)
وَ اَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِيَّهُ أَنْ يُعْلِمَهُمْ وُلَاةَ أَمْرِهِمْ وَ اَنْ يُفَسِّرَ لَهُمْ مِنَ الْوَلَايَةِ کَمَا فَسَّرَ لَهُمْ مِنْ صَلوتِهِمْ وَ زَكوتِهِمْ وَ حَجِّهِمْ، فَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ بِغَدِيرِ خُمٍّ فَقَالَ: اَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ اللَّهَ جَلَّ جَلالُه ُ اَرْسَلَنِي بِرِسَالَةٍ ضَاقَ بِهَا صَدْرِي وَظَنَنْتُ اَنَّ النَّاسَ یُکَذِّبُنی فَاَوْعَدَنِي رَبّی ثُمَّ قالَ اَتَعْلَمُونَ اَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَوْلَايَ وَ اَنَا مَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ اَنَا اَوْلَى بِهِمْ مِنْ اَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقالَ آخِذاً بِیَدی: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اَللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، فَقَامَ سَلْمَانُ، وََقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وِلَاءُ عَلِیٌّ مَاذَا؟ قَالَ: وِلَائُه ُ كَوِلَائِي، مَنْ كُنْتُ اَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ فَعَلِيٌّ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ، فَنَزَلَتۡ:(
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاِسْلامَ دِيناً
)
،فقَالَﷺ اللَّهُ اَكْبَرُ بِاِکۡمالِ الدّینِ وَ اِتۡمامِ النِّعۡمَةِ وَ رِضاءِ رَبّی بِرِسالَتی وَ وِلایَةِ عَلِيٍّ بَعْدِي،قالوُا( ) : يا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ الْآيَاتُ فِي عَلِيٍّ خاصَّةً؟ قَالَ: بَلَى فِيهِ وَ فِي اَوْصِيَائِي اِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالوا: بَيِّنْهُمْ لَنا، قَالَ: عَلِیٌّ اَخِي وَ وارِثی وَ وَصِيِّي وَ وَلِیُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي
، ثُمَّ اِبْنِيَ الْحَسَنُ ثُمَّ الْحُسَيْنُ ثُمَّ التِّسْعَةُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ ، اَلْقُرْآنُ مَعَهُمْ وَ هُمْ مَعَ الْقُرْآنِ لَا يُفَارِقُونَهُ وَ لَا يُفَارِقُهُمْ حَتَّى يَرِدُوا عَلَيَّ الْحَوْضَ، قالَ بَعۡضُه ُمۡ: قَدْ سَمِعْنَا ذَلِكَ وَ شَهِدْنَا، وَ قالَ بَعۡضُه ُمۡ: قَدْ حَفِظْنَا جُلَّ مَا قُلْتَ وَ لَمْ نَحْفَظْ كُلَّهُ، وَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ حَفِظُوا اَخْيَارُنَا وَ اَفَاضِلُنَا، ثُمَّ قَالَ: اَ تَعْلَمُونَ اَنَّ اللَّهَ اَنْزَلَ(
إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً
)
فَجَمَعَنِي وَ فَاطِمَةَ وَ اِبْنَيَّ حَسَناً وَ حُسَيْناً ثُمَّ اَلْقَى عَلَيْنَا كِسَاءً، وَ قَالَ: اَللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ اَهْلُ بَيْتِي لَحۡمُه ُمۡ لَحْمی، يُؤْلِمُنِي مَا يُؤْلِمُهُمْ، وَ يَجْرَحُنِي مَا يَجْرَحُهُمْ، فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيراً، فَقَالَتْ اُمُّ سَلَمَة: وَ اَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ: اَنْتِ اِلَى خَيْرٍ، فَقَالُوا: نَشْهَدُ اَنَّ اُمَّ سَلَمَة حَدَّثَتْنَا بِذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ:اَنْشِدُكُمُ اللَّهِ، اَ تَعْلَمُونَ اَنَّ اللَّهَ اَنْزَلَ:(
يا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
)
فَقَالَ سَلْمَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذا عَامَّةٌ اَمْ خَاصَّةٍ؟ قَالَ: اَمَّا الْمَأْمُورُونَ فَعَامَّةُ الْمُؤْمِنِينَ وَ اَمَّا الصَّادِقُونَ فَخَاصَّةٌ لِاَخِي عَلِيٍّ وَ اَوْصِيَائِي مِنۡ بَعْدِه ِ اِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اَنْشِدُكُمُ اللَّهِ اَتَعْلَمُونَ اَنِّي قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِﷺ فِي غَزاة تَبُوك: خَلَّفْتَنِي عَلَی النِّسَاءِ وَ الصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ: إِنَّ الْمَدِينَةَ لَا تَصْلُحُ اِلَّا بِي اَوْ بِكَ، وَ اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي؟
قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اَنْشِدُكُمُ اللَّهَ، اَ تَعْلَمُونَ اَنَّ اللَّهَ اَنْزَلَ فِي سُورَةِ الْحَجِّ(
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَ اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُونَ
)
إِلَى آخَرَ السُّورَةِ
، فَقَامَ سَلْمَانُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ اَنْتَ عَلَيْهِمْ شَهِيدٌ وَ هُمْ شُهَدَاءُ عَلَى النَّاسِ، اَلَّذِينَ اجْتَبَاهُمُ اللَّهُ وَ لَمْ يَجْعَلْ عَلَيْهِمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اِبْرَاهِيمَ؟ قَالَ: عَنّی بِذَلِكَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا خَاصَّةً، قَالَ: اَنْشِدُكُمُ اللَّهَ اَ تَعْلَمُونَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قالَ فی خُطۡبَتِ
ه ِ فی مَواضِعَ مُتَعَدِّدَ
ةٍ، وَ فی آخِرِ خُطۡبَ
ةٍلَمۡ یَخۡطُبُ بَعۡدَ
ه ا: اَيُّهَا النَّاسُ اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي اَهْلَ بَيْتِي فَتَمَسَّكُوا بِهِمَا لَنۡ تَضِلُّوا، فَاِنَّ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ اَخْبَرَنِي وَ عَهِدَاِلَيَّ اَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
، فَقَالَ کُلُّ
ه ُمۡ: نَشۡ
ه َدُ اَنَّ رَسوُلَ الله ِﷺ قالَ ذلِکَ"
حموینی نے اپنی سند کے مطابق سلیم بن قیس ہلالی سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے خلافت عثمان میں حضرت علی علیہ السلام کو مسجد مدینہ میں اس وقت دیکھا کہ جب مہاجرین و انصار اپنے اپنے فضائل بیان کر رہے تھے لیکن آنجناب خاموش کھڑے سن رہے تھے۔ انہوں نے آنجناب کو مخاطب کرکے کہا: اے ابو الحسن! آپ بھی کچھ کہیے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اے قریش و انصار میں تم سب سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو فضائل تم نے اب تک بیان کئے ہیں وہ تمہیں خود تمہاری وجہ سے حاصل ہیں یا دوسروں کی وجہ سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ فضائل خداوند عالم نے ہمیں رسول مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بدولت عطا کئے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ میں اور میرے اہل بیت علیھم السلام خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل نور کی صورت میں موجود تھے اور بارگاہ الٰہی میں جلوہ افروز تھے۔ جب خدا نے آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو خدا نے ان کے صلب میں قرار دیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا پھر خدا نے اس نور کو اس کشتی اور صلب نوح میں قرار دیا پھر وہ نور صلب ابراہیم میں آگ میں پہنچا پھر خداوند عالم ہمیشہ اس نور کو اصلاب کریمہ اور ارحام طاہرہ میں منقتل کرتا رہا یہاں تک کہ ہمارے ماں باپ تک پہنچا ہم میں سے کوئی بھی بدکاری و برائی کے قریب نہیں پھٹکا۔
اس وقت (حضرت علی علیہ السلام کی یہ بات سن کر) سابقین اور اہل بدر و احد کہنے لگے: جی ہاں ہم نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تھی۔
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ خداوند تعالیٰ نے قران کریم میں کتنے مقامات پر سابقین کو مسبوقین پر فضیلت عطا کی ہے؟ اور کیا تمہیں معلوم ہے کہ امت میں کوئی بھی مجھ پر اسلام میں سبقت کرنے والا نہیں ہے۔
سب نے کہا: جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا؛ میں تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی ؟(
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ اوُلئِکَ الۡمُقَرَّبُون
)
جب پیغمبر اسلام سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو آپؐ نے فرمایا تھا کہ خداوند عالم نے یہ آیت انبیاء اور ان کے اوصیاء کے بارے میں نازل فرمائی ہے اور میں تمام انبیاء و رُسُل میں سب سے افضل ہوں اسی طرح میرے وصی علی بن ابی طالب‘ تمام اوصیاء میں سب سے افضل ہیں۔
سب نے کہا: جی ہاں ایسا ہی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں۔ بتاؤ یہ آیات کہاں نازل ہوئی ہیں؟(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ
)
،(
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
)
،(
لَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً
)
اور خداوند متعال نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اولی الامر کا تعارف اور ولایت کی اسی طرح تفسیر بیان کر دیں جس طرح انہوں نے نماز و زکات اور حج وغیرہ کی تفسیر بیان کر دی ہے پس نبیؐ نے غدیر خم میں بھرے مجمع میں مجھے لوگوں کے سامنے منصوب کیا اور اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بتحقیق خداوند عالم نے مجھے اس رسالت و ذمہ داری پر مامور کیا کہ جس کی وجہ سے میرا دل تنگ ہوتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ لوگ میری تکذیب کریں گے یہاں تک خداوند عالم نے مجھے یہ حکم ابلاغ کرنے کا قطعی حکم دیا ۔ تب آنحضرت نے فرمایا: اے لوگو! کیا تمہیں معلوم ہے کہ خداوند عالم میرا مولیٰ ہے اور میں مؤمنین کا مولیٰ ہوں اور میں مؤمنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ حق و اولویت رکھتا ہوں؟
سب نے کہا: جی ہاں یا رسولؐ اللہ! پس اس وقت رسولؐ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی علیہ السلام بھی اس کا مولیٰ ہے۔ پروردگار! علی علیہ السلام کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ۔
اس موقع پر سلمان نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسولؐ اللہ، علی علیہ السلام کی ولایت کس کی ولایت کی طرح ہے؟ حضور نے فرمایا: علی علیہ السلام کی ولایت میری ولایت کی طرح ہے، جس پر میں اَولیٰ ہوں اور ولایت رکھتا ہوں علی علیہ السلام بھی اس پر اَولیٰ ہیں اور ولایت رکھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی:(
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسْلامَ دِينًا
)
؛ پھر حضور نے فرمایا: اللہ اکبر، اکمال دین و اتمام نعمت اور رضایت پروردگار، میری رسالت اور میرے بعد علی علیہ السلام کی ولایت پر منحصر ہے۔
اس وقت کچھ لوگوں نے عرض کیا
: یا رسولؐ اللہ ! کیا یہ آیات علی علیہ السلام سے مخصوص ہیں؟ فرمایا: جی ہاں ایسا ہی ہے یہ ان کے بارے میں اور قیامت تک آنے والے میرے اوصیاء کے بارے میں ہے۔
کہا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اپنے اوصیاء کا تعارف کروا دیجئے۔
حضور ختمی مرتبت نے فرمایا: علی علیہ السلام میرے بھائی، میرے وارث و وصی اور میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں پھر ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین پھر حسین کی نسل کے ۹ فرزند میرے وصی ہوں گے۔ قران ان کے ساتھ ہے اور یہ قران کے ساتھ رہیں گے۔ یہ قران سے جدا نہ ہوں گے اور قران ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے ۔
مولیٰ علی علیہ السلام کی یہ گفتگو سن کر بعض لوگ (جو کہ مسجد النبی میں بیٹھے ہوئے تھے) کہنے لگے: جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے ہم نے سنا ہے اور ہم اس واقعہ کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ جبکہ بعض نے کہا کہ ہمیں بہت سی باتیں تو یاد ہیں لیکن بعض باتیں ہمیں یاد نہیں ہیں لیکن جنہیں سب کچھ یاد ہے وہ یقیناً اخیار و افاضل ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:(
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
)
؛ اور اس وقت رسول خدا نے مجھے اورفاطمہ اور حسن و حسین کو اپنے پاس بلاکر ہمیں زیر کساء لیکر عرض کیا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ ان کا گوشت میرا گوشت ہے، جس نے انہیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی، جو انہیں مجروح کرے اس نے مجھے مجروح کیا۔ پس رجس و گناہ کو ان سے دور رکھ اور انہیں مکمل پاک و پاکیزہ رکھنا۔ اس وقت امّ سلمہ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا: تم البتہ خیر پر ہو۔
سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ جناب امّ سلمہ نے بھی ہم سے یہی کچھ بیان کیا تھا۔
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
)
، تو اس وقت سلمان نے سوال کیا تھا: یا رسول اللہﷺ ! یہ آیت عام ہے یا خاص؟ فرمایا تھا کہ جو لوگ اس آیت پر مامور کئے گئے ہیں وہ عام مؤمنین ہیں لیکن صادقین سے مراد میرا بھائی علی علیہ السلام اور قیامت تک آنے والے میرے اوصیاء ہیں۔
سب نے کہا: جی ہاں ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں۔
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہﷺ سے کہا تھا کہ مجھے خواتین اور بچوں میں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ تو رسولؐ خدا نے فرمایا تھا: مدینہ کا انتظام یا مجھ سے وابستہ ہے یا تم سے اور تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
سب نے کہا: جی ہاں ایسا ہی ہے۔
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ خداوند عالم نے سورہ حج میں ارشادہ فرمایا ہے:(
یا اَیُّه َا الَّذینَ آمَنُوا اِرۡکَعُوا وَ اسۡجُدوُا وَ اعۡبُدوُا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُونَ اِلی آخِرِ السُّورَةِ
)
، اور یہ آیات سن کر سلمان نے رسول خداﷺ سے عرض کیا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جن پر آپؐ گواہ ہیں اور یہ لوگوں پر گواہ ہیں؟ خداوند عالم نے جنہیں منتخب کیا اور دین میں ان کے لئے سختی نہ رکھی اور وہ آپؐ کے جد ابراہیم کے دین پر ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ حضور نے فرمایا: یہ فقط تیرہ مخصوص افراد ہیں نہ کہ پوری امت۔ سلمان نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ ہمیں ان کا تعارف کروا دیجئے۔ فرمایا: میں اور میرا بھائی علی علیہ السلام اور گیارہ فرزند۔
سب نے کہا: جی ہاں ایسا ہی ہے۔
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیکر سوال کرتا ہوں۔ کیا رسول خداﷺ نے متعدد مواقع اور اپنے آخری خطبہ میں نہیں فرمایا تھا: "اے لوگو میں تمہارے درمیان دو گرانقدرچیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، کتاب خدا اور عترت یعنی میرے اہل بیت۔ پس ان دونوں سے متمسک رہنا کہ اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ خداوند لطیف و علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔
سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقیناً رسولؐ خدا نے ایسا ہی فرمایا تھا۔
نکتہ: شیعہ و اہل سنت میں اس متفق علیہ روایت میں حقائق اس طرح منصوص و آشکار ہیں جن کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا فیصلہ محترم قارئیں کی صوابدید پر چھوڑ رہے ہیں۔
____________________