پانچواں حصہ: خمسہ طیبہ کے بارے میں علمائے اہل سنت کے بیانات
ہم نے اب تک علمائے اہل سنت کی کتب سے ۴۴ ایسی روایات پیش کی ہیں جن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت سے مراد علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ہیں۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہاں علمائے اہل سنت کی تصریحات و اقرار بھی محترم قارئیں کی خدمت میں پیش کر دیں:
۱ ۔ جار اللہ زمخشری
و شیخ سلیمان بلخی
نے صواعق محرقہ سے نویں آیت (آیت مباہلہ، آل عمران/ ۶۱) کے ذیل میں اس طرح لکھا ہے:
"قالَ فِی الۡکَشَافِ: لا دَلیلَ اَقۡوی مِنۡ ه ذا عَلی فَضۡلِ اَصۡحابِ الۡکِساءِ، وَ ه ُمۡ عَلِیُّ وَ فاطِمَةُ وَ الۡحَسَنانِ، لِاَنّه ا لَمّا نَزَلَتۡ (آیه ُ الۡمُباه َلَة) دَعاه ُمۡﷺ فَاحۡتَضَنَ الۡحُسَیۡنَ وَ اَخَذَ بِیَدِ الۡحَسَنِ وَ مَشَتۡ فاطِمَةُ خَلۡفَه ُ وَ عَلِیٌّ خَلۡفَه ا فَعَلِمَ اَنَّه ُمۡ الۡمُرادُ بِالۡآیَةِ وَ عَلِمَ اَنَّ اَوۡلادَ فاطِمَةَ وَ ذُرِّیّته ا یَسُموُّنَ اَبۡنائه ُﷺ وَ یَنۡسِبوُنَ اِلَیۡه ِ نِسۡبَةً صَحیحَةً نافِعَةً فِی الدُّنۡیا وَ الۡآخِرَةِ"
جار اللہ زمخشری کا کہنا ہے: آیت مباہلہ سے بڑھ کر اصحاب کساء کی فضیلت پر کوئی دلیل نہیں اور اصحاب کساء یہ حضرات ہیں: علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ۔ کیونکہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسولؐ خدا نے انہیں اپنے پاس بلایا ، حسین کو آغوش میں لیا، حسن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ پیغمبرؐ کے پیچھے پیچھے اور علی علیہ السلام فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کیونکہ حضورؐ جانتے تھے کہ آیۂ مباہلہ میں انہی کا قصد کیا گیاہے اور جانتے تھے کہ اولاد و ذرّیت فاطمہ زہرا انہی سے منسوب ہے اور دنیا و آخرت میں صحیح و نافع نسبت کے ساتھ یہ سب انہی کی ذرّیت ہے۔
۲ ۔ حاکم نیشاپوری
نے پہلے ابن عباس سے آیت مباہلہ کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام "نفس پیغمبرؐ" ہیں، فاطمہ زہرا "نساءَ نا" کا مصداق ہیں اور حسن و حسین "أبنائَنَا
" کی منزل پر ہیں۔ پھر انہوں نے اس سلسلہ میں ابن عباس وغیرہ سے نقل شدہ احادیث و روایات کو متواتر تسلیم کیا ہے، اور پھر نبی کریمﷺ کے اس فرمان کا تذکرہ کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:"ه ؤُلاءِ اَبۡنائنا وَ اَنۡفُسنا وَ نِساۡئنا
" یعنی یہ میرے بیٹے، میرا نفس اور میری نساء ہیں۔
۳ ۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے اپنی کتاب کفایت الطالب باب ۵۰ کا موضوع "سدّ الابواب" قرار دیا ہے جس میں بیان کیا ہے کہ حضور اکرمؐ نے مسجد میں کھلنے والے علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے کے علاوہ تمام دروازے بند کرا دیئے تھے۔
اس کے بعد موصوف کہتے ہیں: مسجد میں حالت جنابت میں داخل ہونا صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص و مباح تھا ا س کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی بھی مجنب و حائض کے لئے مسجد میں داخل ہونا اور ٹھہرنا صحیح ہے۔
پھر کہتے ہیں:
"اِنَّما خَصَّ بِذلِکَ، لِعِلۡمِ الۡمُصۡطَفی بِاَنَّه ُ یَتَحَرّی مِنَ النِّجاسَةِ ه ُوَ وَ زَوۡجَتُه ُ وَ اَوۡلادُه ُ صَلَوات الله ِ عَلَیۡه ِمۡ، وَ قَدۡ نَطَقَ الۡقُرۡآنُ بِتَطۡه یرِه ِمۡ فی قَوۡلِه عَزَّ وَ جَلّ
:(
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرا
)
"
بیشک نبی کریمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ خصوصیت عطا فرمائی کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور انکی اولاد ہر قسم کی نجاست سے پاک و مبرا ہیں جیسا کہ آیت تطہیر (احزاب/ ۳۳) نے اس جلیل القدر خاندان کو ہر نجاست و پلیدی سے پاک و مبرا قرار دیا ہے۔
قابل توجہ و دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب تمام لوگوں کو اس روایت کی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ علی علیہ السلام و پیغمبر اسلامﷺ طہارت میں ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ یہ روایت حاکم نیشاپوری نے مستدرک
میں، شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ باب ۵۶ ( بنا بر نقل از مسند احمد ابن حنبل و ذخائر العقبیٰ) میں نیز خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ، ص ۷۶ میں، اور سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے کہا:
"لَقَدۡ اُوتِیَ ابۡنُ اَبیطالِبٍ ثَلاثُ خِصالٍ لَاِنۡ تَکُنۡ لی واحِدَةٌ مِنۡه ُنَّ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنۡ حُمۡرِ النّعَمِ، زَوَّجَه ُ النَّبِیُّ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ (وَ آلِه ) وَ سَلَّمَ بِنۡتَه ُ، وَ سَدَّ الۡاَبۡوابِ اِلَّا بابَه ُ وَسُکۡناه ُ الۡمَسۡجِد مَعَ رَسوُلِ الله ِ ، یَحِلُّ لَه ُ ما یَحِلُّ لَه ُ، وَ اَعۡطاه ُ الرّایَةَ یَوۡمَ خِیۡبَر
"
علی بن ابی طالب‘ کو تین ایسی خصوصیات عطاء ہوئی ہیں کہ اگر ان میں سے مجھے ایک بھی مل جاتی تو یہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی اور افضل ہوتی۔
اولاًٍ: پیغمبر اکرمؐ نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کی ہے۔
دوئم: رسول اللہﷺ نے مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرا دیئے اور صرف علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا اور انہیں مسجد میں اس طرح ساکن رکھا کہ جو چیز نبیؐ کے لئے حلال تھی وہ علی علیہ السلام کے لئے بھی حلال تھی (یعنی مسجد میں جنابت میں جانا صحیح تھا)۔
سوئم: خیبر کے دن رسول اللہﷺ نے علی علیہ السلام کو علم عطا کیا۔
مسلم و بخاری نے اپنی اپنی کتاب صحیح میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مجنب کو مسجد میں داخل ہونے اور ٹھہرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور روایت نقل کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا:
"لا یَنۡبَغی لِاَحَدٍ اَنۡ یَجۡنبَ فِی الۡمَسۡجِدِ اِلّا اَنَا وَ عَلی
"
میرے اور علی علیہ السلام کے علاوہ کسی مجنب کو مسجد میں داخل ہونے کا حق حاصل نہیں ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ کے باب ۱۷ کا یہ موضوع قرار دیا ہے : "فی سَدِّ ابوابِ الۡمَسۡجِدِ اِلّا باب عَلیٍّ
" اور کتاب کنوز الدقائق ، سنن ترمذی اور مسند احمد وغیرہ سے روایات نقل کی ہیں۔ تفصیلات کے لئے انہی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
احمد بن حنبل اور عبد اللہ ابن عمر، خلفاء تک کو حضرت علی علیہ السلام کا ہمطراز نہیں سمجھتے!!
۴ ۔ شیخ سلیمان
نے میر سید علی ہمدانی کی کتاب مودۃ القربی "مودت ہفتم" سے اس طرح نقل کیا ہے:
"وَ عَنۡ اَحۡمَد بن مُحَمَّدِ الۡکرزری الۡبَغۡدادی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ سَمِعۡتُ عَبۡدَ الله ِ بن اَحۡمَد حَنۡبَل، قالَ: سَئَلۡتُ اَبی عَنِ التَّفۡضیلِ، فَقالَ: اَبوُ بَکۡر وَ عُمَر وَ عُثۡمان ثُمَّ سَکَتَ فَقُلۡتُ یا اَبَتِ اَیۡنَ عَلِیُّ بن اَبیطالِبٍ، قالَ ه ُوَ مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ لا یُقاسُ بِه ه ؤُلاءِ
"
احمد بن محمد کرزری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ ابن احمد بن حنبل سے سنا ہے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ صحابہ میں افضل و برتر کون ہے؟ میرے والد نے حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان کا نام لیا اور چپ ہوگئے۔ میں نے سوال کیا: اے بابا! تو پھر علی بن ابی طالب‘ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ آپ نے ان کا نام کیوں نہیں لیا؟ انہوں نے جواب دیا وہ اہل بیت میں سے ہیں یاد رکھو! ان اشخاص کا علی علیہ السلام سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
اب ہم محترم قارئین کی توجہ ایک ایسی دلچسپ و قابل سماعت روایت کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں جس میں عبد اللہ بن عمر نے قران کریم کی آیت کریمہ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ علی علیہ السلام و فاطمہ اہل بیت ِ عصمت و طہارت میں سے ہیں اور رسول خداﷺ کے درجہ میں ساتھ ساتھ ہیں اور صحابہ میں سے کسی کا بھی ان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ روایت یہ ہے کہ شیخ سلیمان
نے میر سید علی ہمدانی سے نقل کرتے ہیں:
"عَنۡ اَبی وائِل عَنۡ اِبۡنِ عُمَر رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: کُنّا اِذا اَعۡدَدۡنا اَصۡحابَ النَّبِیِّ قُلۡنا اَبوُبَکر وَ عُمرَ و عُثۡمان، فَقالَ رَجُلٌ یا اَبا عَبدِ الرَّحۡمانِ فَعَلِیُّ ما ه ُوَ ؟ قالَ: عَلیٌّ مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ لا یُقاُس بِه اَحَدٌ، ه َوَ مَعَ رَسُولِ الله ﷺ فی دَرَجَتِه ِ اِنَّ الله َ یَقوُلُ:
(
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ
)
، فَفاطِمَةُ مَعَ رَسوُلِ الله ِﷺ فی دَرَجَتِه وَ عَلِیٌّ مَعَه ُما
"
ابو وائل نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ہم نے اصحاب پیغمبرؐ کے نام شمار کئے تو ابوبکر و عمر و عثمان کے نام شمار کئے تو ایک نے مخاطب کرکے کہا: اے ابو عبد الرحمن (عبد اللہ ابن عمر کی کنیت ہے) آپ نے علی علیہ السلام کا نام کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے جواب دیا: علی اہل بیت رسالت میں سے ہیں، ان سے کسی کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پیغمبر کے مقام و مرتبہ میں ساتھ ساتھ ہیں بتحقیق خداوند عالم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے:(
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ
)
یعنی اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں انکا اتباع کیا تو ہم انکی ذریت کو بھی انہی سے ملا دیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گِروی ہے؛ پس فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا کے ساتھ انکے درجہ میں ہیں اور علی ؑ، فاطمہ و رسول خداﷺ کے ساتھ ہوں گے۔
۵ ۔ نیز شیخ سلیمان
نے سمہودی صاحب کتاب جواہر العقدین سے نقل کیا ہے: "قالَ الشریفُ السَّمۡه ُودی: کَلِمَةُ اِنَّما (فی آیة التطه یر)
لِلۡحَصۡرِ عَلی اَنَّ اِرادَتَه ُ تَعالی مُنۡحَصِرة عَلی تَطۡه یرِه ِمۡ وَ تَاۡکیدِه بالۡمَفۡعُولِ الۡمُطۡلَقِ دَلیلٌ عَلی اَنۡ طَه ارَتَه ُمۡ طَه ارَةً کامِلَةً فی اَعۡلی مَراتِبِ الطّه ارَة"
سمہودی کہتے ہیں: آیت تطہیر میں لفظ "انّما" حصر کے لئے آیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ خداوند متعال نے انہیں (علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ) پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے؛ اور خداوند عالم نے یہاں مفعولِ مطلق یعنی "یُطَہِّرکُم تَطہیرا" کے ذریعے تاکید کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات طہارت تکوینی یعنی مکمل اور طہارت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں۔
۶ ۔ سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی
نے باب اول کے ضمن میں ترمذی، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی، ابن ابی حاتم ، طبرانی، احمد بن حنبل، ابن کثیر، مسلم بن حجاج، ابن ابی شیبہ اور سمہودی سے عمیق تحقیقات کے مطابق اہل سنت کے اکابر علماء سے روایت کی ہے کہ یہ آیت تطہیر (احزاب/ ۳۳) خمسہ طیبہ یعنی رسول خدا، علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے؛ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام سادات کہ جن پر صدقہ حرام ہے وہ سب ذرّیت و اہل بیت علیھم السلام رسولخداﷺ میں شامل ہیں۔
۷ و ۸ وغیرہ: مفسرین اہل سنت مثلاً ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، فخر رازی نے تفسیر کبیر
میں، جلال الدین سیوطی
نے در منثور میں اور بہت سے دیگر علماء نے آیت تطہیر کے ذیل میں تصریح فرمائی ہے کہ یہ آیت کریمہ خمسہ طیبہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق ج ۴ ، ص ۲۰۴ و ۲۰۶ ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کتاب کفایت الطالب، باب ۱۰۰ اور نبھانی نے کتاب شرف المؤید ، ص ۱۰ ، مطبعہ بیروت، میں تصریح فرمائی ہے کہ یہ آیت تطہیر خمسہ طیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
یہاں تک کہ ابن حجر مکی اپنے تمام تر تعصب کے باوجود کتاب صواعق محرقہ، ص ۸۵ و ۸۶ میں سات مختلف طُرُق سے اس اہم واقعہ کے صحیح ہونے کے اعتراف و اقرار کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت تطہیر رسولؐ خدا، علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
کیا امّھات المؤمنین، اہل بیت میں ہیں؟
اب تک ہم نے قران کریم کی آیات، کتب اہل سنت میں نقل شدہ کثیرہ و متواترہ روایات اور اہل سنت کے برجستہ محققین کی تصریحات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اہل بیت سے مراد صرف خمسہ طیبہ یعنی پیغمبر اکرمﷺ، حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور امام حسن و امام حسین ‘ ہی ہیں۔ ممکن ہے کسی ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ کیا امھات المؤمنین بھی اہل بیت میں شامل ہیں یا نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پانچ دلائل کی روشنی میں یقیناً امھات المؤمنین اہل بیت علیھم السلام میں شامل نہیں ہیں:
۱ ۔ ہم نے تیسرے باب کے پہلے حصہ میں امّ المؤمنین جناب امّ سلمہ و عائشہ سے کتب اہل سنت سے مختلف طُرُق و اسانید سے ۲۲ روایات پیش کی تھیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت اور دیگر مختلف واقعات میں نبی کریمﷺ نے اپنی چادر اپنے اور علی و فاطمہ اور حسن و حسین پر تان کر تعارف کرایا تھا۔ امّ سلمہ نے زیر کساء داخل ہونے کی کوشش کی تھی تو حضور نے مختلف انداز سے انہیں روک دیا تھا اور جب ام سلمہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان اہل بیت علیھم السلام میں شامل ہوں یا نہیں تو حضورؐ نے تصریحاً فرمایا: "لا، اَنۡتِ عَلی خَیۡرٍ
" یعنی نہیں، تم ان میں شامل نہیں ہو البتہ تم خیر پر ہو، یا یہ کہ آپؐ نے فرمایا: "اَنۡتِ عَلی مَکانِکِ
" یعنی تم اپنی جگہ پر رہو۔ یا یہ فرمایا: "قِفی فی مَکانِکِ
" یعنی تم اپنی جگہ پر ٹھہرو۔ یا یہ فرمایا: "اِنَّکِ عَلی خَیۡرٍ، اِنَّکِ مِنۡ اَزۡواجِ النَّبی
"ازواج النبیؐ یعنی تم خیر پر ہو اور تم ازواج نبی میں سے ہو۔ اور پھر امّ سلمہ تصریح کرتی ہیں: "وَ ما قالَ اِنَّکِ مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ
" یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تم اہل بیت میں سے ہو!!
قابل توجہ ہے: حصہ اول کی آٹھویں روایت کہ جسے حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے وہ تصریح کرتے ہیں کہ حدیث مسلم و بخاری کی معین کردہ شرائط کی روشنی میں صحیح ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے نقل نہیں کیا اس حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب امّ سلمہ نے عرض کیا: "یا رَسُولَ الله ِ ما اَنَا مِنۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ؟ قالَ: اِنَّکِ خَیۡرٌ وَلا ه ؤُلاءِ اَه ۡلُ بَیۡتی
" یعنی اے رسول خداﷺ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ فرمایا: تم خیر پر ہو لیکن یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ا س حدیث میں حضور سرور کائنات، امّ سلمہ سے "کاف خطاب" کے ذریعے مخاطب ہیں کہ تم خیر پر ہو پھر تصریح فرما رہے ہیں کہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام میرے اہل بیت ہیں، مطلب یہ ہوا کہ تم "اہل بیت" میں سے نہیں ہو۔ پس سورہ نجم کی ابتدائی آیات کی روشنی میں جن میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ نبیؐ کا کلام صرف وحی ہے، یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ ام سلمہ اور دیگر ازواج نبی، اہل بیت علیھم السلام کے اصطلاحی معنی سے خارج شدہ ہیں اور فقط علی و فاطمہ اور حسن و حسین اہل بیت علیھم السلام کا مصداق ہیں یعنی جدید اسلامی اصطلاح میں اہل بیت علیھم السلام کا لفظ صرف انہی افراد سے مخصوص رہے گا۔ جیسے صلاۃ کے لغوی معنی تو بہت وسیع تھے اور اس میں ہر دُعا شامل تھی لیکن رسولؐ اللہ نے اسے مخصوص افعال پر مشتمل عبادت سے مختص کردیا ہے۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ازواج پیغمبرؐ بھی اہل بیت میں شامل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فرمان نبی کو سبوتاژ کیا ہے کیونکہ حضورؐ نے جدید اصطلاح کے مطابق لفظ اہل بیت علیھم السلام فقط مخصوص افراد کے لئے معین کردیا ہے۔
پس نتیجہ یہ ہوا کہ کتب اہل سنت سے جناب امّ سلمہ و عائشہ سے نقل شدہ مذکورہ بائیس روایات کی روشنی میں یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ حضور نے اپنی ازواج کو اس مقام و مرتبہ سے دور رکھا ہے۔ لہذا جو شخص بھی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ ازواج نبی بھی اہل بیت میں شامل ہیں گویا اس نے نبی کریمؐ کے ارادے کی مخالفت کی ہے اور رسول خدا کی مخالفت گویا خداوند متعال کی مخالفت ہے۔ علاوہ بریں یہ عمل، اہل بیت پر ظلم کرنے کے مترادف قرار پائے گا کہ غیر شخص کو ان سے مخصوص حق میں شریک قرار دیا جائے۔
۲ ۔ ہم نے اسی باب سوم کے دوسرے حصہ میں تاریخ مدینہ دمشق
سے عطیہ بن سعد عوفی (جسے حضرت علی علیہ السلام پر سبّ و شتم نہ کرنے کی بنا پر حجاج نے چار سو تازیانے لگوائے تھے) روایت کی ہے۔
عطیہ کہتے ہیں: میں نے ابو سعید خدری سے سوال کیا کہ اہل بیت کون لوگ ہیں تو انہوں نے جواب دیا: پیغمبرؐ، علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام ۔
جیسا کہ آپؐ کے علم میں ہے کہ اہل سنت تمام اصحاب کو بلا چون و چرا عادل مانتے ہیں پس اگر ازواج نبی اہل بیت علیھم السلام میں شامل ہوتیں اور ابو سعید خدری اس روشن حقیقت کا انکار کرتے اور اس سے پردہ پوشی کرتے تو کیا جادہ عدالت و حقیقت سے خارج نہ ہوجاتے؟!!
نیز اگر ازواج نبی، اہل بیت میں شامل تھیں اور اس موقع پر اصحاب سے جب ان کے بارے میں سوال ہوتا تھا اور وہ حقیقت سے پردہ پوشی کرتے تھے تو بتائیے کل قیامت میں (یہی افرادجنہیں آپ عادل سمجھ رہے ہیں) پروردگار کے حضورؐ کیا جواب دیں گے؟!
۳ ۔ اسی باب کے تیسرے حصے میں اہل سنت سے کثیر تعداد میں نقل شدہ روایات سے ثابت کیا گیا ہے کہ رسول خداﷺ ایک طویل مدت تک در خانہ علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا پر تشریف لاتے رہے اور "یا اہل البیت" کہہ کر تصریح فرما رہے تھے کہ یاد رکھو! اس گھر کے ساکنین ہی اہل بیت عصمت و طہارت ہیں۔ لیکن شیعہ و اہل سنت میں کوئی ایک متفق علیہ روایت نظر نہ آئے گی جس میں بیان کیا گیا ہو کہ رسول خدا نے کسی زوجہ کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس انداز سے کبھی خطاب کیا ہے۔ یا کسی مستقل روایت میں ارشاد فرمایا ہو کہ میری ازواج میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ یا کسی ایک زوجہ سے فرمایا ہو کہ تم میرے اہل بیت میں سے ہو۔
اب آپ خود بتائیے کہ اگر ا زواج نبی اہل بیت میں سے تھیں تو کیا ایک متفق روایت کے مطابق بھی رسول اسلام اس حقیقت کی وضاحت نہ کرتے؟!!
اوراگر ازواج نبی واقعاً نبیؐ کے اہل بیت میں سے ہوتیں تو کیا رسول اللہﷺ اس حقیقت سے پردہ پوشتی کرتے یا نعوذ باللہ اس حقیقت سے انکار کرتے اور ام سلمہ کے سوال کرنے کے باوجود فرما دیتے کہ نہیں، تم اہل بیت علیھم السلام میں سے نہیں ہو؟!
یہ بات روز روشن کی طرح واضح و آشکار ہے کہ نبی کریمؐ جن کا کلام، کلام الٰہی ہے ہرگز حقائق کا انکار نہیں کرتے۔ اور یہ بات خود ازواج کے اہل بیت میں شامل نہ ہونے کی محکم دلیل ہے ورنہ آنحضرت اس امر کی تصریح فرماتے اور ہرگز اس کا انکار نہ کرتے (پس غور کیجئے)۔
۴ ۔ اگر ازواج نبی بھی اہل بیت میں شامل تھیں تو آیت تطہیر میں بھی ضمیریں جمع مؤنث ہی کی آنی چاہیے تھیں جیسا کہ آیۂ تطہیر سے قبل آیات میں ضمیریں جمع مؤنث کی آئی ہیں۔
بالفاظ دیگر:
آیت تطہیر سے قبل و بعد والی آیات میں مجموعی طور پر جمع مؤنث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں استعمال ہوئی ہیں جن میں سے ۲۰ ضمیریں بعد والی آیات میں ہیں جبکہ آیت تطہیر میں دو ضمیر مخاطب موجود ہیں او ر دونوں "جمع مذکر" ہیں اس واضح اختلاف کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ازواج نبی جمع مؤنث کی تمام ۲۲ ضمیروں میں اہل بیت شمار ہوں گی لیکن جب خداوند عالم انہیں اہلبیت علیھم السلام قرار دیتے ہوئے پاکیزہ قرار دے تو درمیان میں جمع مذکر کی ضمیریں لے آئے؟!!
نیز بالفاظ دیگر: اگر ازواج نبی اہل بیت میں سے تھیں تو تمام ۲۴ ضمیروں کو جمع مؤنث ہونا چاہیے تھا خصوصاً آیت تطہیر میں کہ جس میں خداوند عالم انہیں اہل بیت قرار دیتے ہوئے پاک و پاکیزہ قرار دے رہا ہے لازمی طور پر آیت تطہیر میں بھی ضمیریں جمع مؤنث ہی آنی چاہیے تھیں نہ کہ جمع مذکر۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن حجر مکی اپنے تمام تر تعصب کے باوجود آیت تطہیر کے ذیل میں کتاب صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں: "اکثر مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ "عنکم" اور "یطہِّرُکُم" جمع مذکر استعمال کی گئی ہیں۔
نکتہ: اشعارِ فصحاء و بلغاء، ادبائے عرب اورعرفِ عام میں یہ فن اور طریقہ کار دیکھنے میں آیا ہے کہ اثنائے کلام میں کسی اور سمت گفتگو شروع کردیتے ہیں اور پھر دوبارہ پلٹ کر پہلے کلام کی بات شروع کر دیتے ہیں اسی طرح قران کریم کی متعدد آیات یہاں تک کہ اسی سورہ احزاب میں خداوند عالم نے ازواج نبی سے عدول کرکے مؤمنین کو مورد خطاب قرار دیا ہے اور پھر پلٹ کر بعد والی آیات میں دوبارہ ازواج نبی کو مخاطب کیا ہے۔
۵ ۔ صحیح مسلم ("مسلم" اکابرین علمائے اہل سنت میں سے ہیں) اور جامع الاصول میں روایت کی گئی ہے کہ حصین بن سمرہ نے زید ابن ارقم سے سوال کیا کہ کیا ازواج نبیؐ اہل بیت میں شامل ہیں؟
جناب زید نے جواب دیا: قسم بخدا، ہرگز نہیں۔ کیونکہ زوجہ اپنے شوہر کے ساتھ تو رہتی ہے لیکن جب مرد اسے طلاق دیدیتا ہے تو اپنے خاندان والوں کی طرف پلٹ جاتی ہے اور پھر شوہر سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا، بلکہ ان کے اہل بیت وہ رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے چاہے وہ جہاں ہوں اور ہرگز ان کے اہل بیت سے جدا نہیں ہوتے۔
پس آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس روایت میں زید بن ارقم دلیل سے ثابت کر رہے ہیں کہ ازواج نبی اہل بیت میں شامل نہیں ہوتیں۔
اب محترم قارئین آپ خود ان پانچ دلائل اور اجماع شیعہ کی روشنی میں یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یقیناً ازواج نبیؐ اہل بیت میں شامل نہیں ہیں بلکہ اہل بیت علیھم السلام علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور انکی اولاد طاہرہ ہی ہیں۔
بیشک جو منصف مزاج بھی گذشتہ مذکورہ روایات پر توجہ کرے گا وہ یقیناً ہماری بات کی تصدیق کرتا ہوا نظر آئے گا۔
ائمہ اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں روایات اثنا عشریہ
اب تک ہم نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اہل بیت "علی و فاطمہ اور انکے فرزند" ہیں۔ نیز یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ازواج نبی اہل بیت میں شامل نہیں ہیں۔
اب ہم یہ ثابت کریں گے کہ حضرت امام حسین کی نسل سے ۹ ائمہ علیھم السلام حضرت مہدی موعود تک سب کے سب اہل بیت میں شامل ہیں۔
اگرچہ ہم اسی باب کی دوسری فصل میں ثابت کریں گے کہ مہدی موعود ذرّیت حسین کے نویں فرزند ہیں، مصداق اہل بیت اور فرزند رسولؐ خدا ہیں اس طرح خود بخود یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ امام حسین تک حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے اجداد قطعی طور پر اہل بیت میں سے ہیں۔
البتہ متواتر و مسلسل ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام سب کے سب اولاد پیغمبرؐ اور اہل بیت علیھم السلام میں سے ہیں۔ یہ روایات، روایات اثنا عشریہ کہلاتی ہیں۔ ہم یہاں نمونہ کے طور پر صرف روایات کے نقل کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں اور انکی تفصیلات علیحدہ باب میں پیش کریں گے:
۱ ۔ "وَ عَنۡ اِبۡنِ عبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما، قالَ: سَمِعۡتُ رَسوُلَ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ – وَ آلِه – وَ سَلَّمَ یَقوُلُ: اَنَا وَ عَلِیٌّ وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ وَ تِسۡعَةٌ مِنۡ وُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ مُطَه َّروُنَ مَعۡصوُموُنَ
"
شیخ سلیمان
نے کتاب مودّت القربی "مودّت دہم" سے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول ؐ اللہ سے سنا آپؐ نے فرمایا: میں، علی، حسن، حسین اور ذرّیت حسین سے ۹ فرزند مطہر و معصوم ہیں۔
جیسا کہ آپ نے اس روایت میں ملاحظہ فرمایا کہ رسولؐ اکرم نے تصریح فرمائی ہے کہ ذرّیت حسین سے ۹ فرزند سب کے سب مطہر و معصوم ہیں یعنی آیت تطہیر جو کہ خمسہ طیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس میں ذریت حسین کے ۹ ائمہ بھی شامل ہیں۔ پس بنابریں قطعا حضرت مہدی موعود (عج) تک یہ سب اہل بیت رسولؐ خدا ہیں۔
نکتہ اول: شیخ سلیمان اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ روایت میر سید علی ہمدانی شافعی (کتاب مودۃ القربی، مودّت دھم) کے علاوہ حموینی نے بھی نقل کی ہے۔
نکتہ دوئم: ہم اس باب کی دوسری فصل میں ثابت کریں گے کہ مہدی موعود (عج)، اہل بیت رسولؐ خدا میں سے ہیں لہذا حضرت علی علیہ السلام تک آنجناب کے تمام اجداد اہل بیت میں سے ہیں۔
بالفاظ دیگر: متواتر روایات کی روشنی میں حضرات علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام قطعی طورپر اہل بیت رسولؐ اللہ ہیں اور روایات اثنا عشریہ وغیرہ کی روشنی میں قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ امام حسین کی نسل کے نویں فرزند یعنی حضرت مہدی (ع)، اہل بیت رسولؐ خدا ہیں لہذا نتیجتاً حضرت علی علیہ السلام تک آپ کے تمام اجداد اہل بیت رسولؐ خدا ہیں۔
۲ ۔ "وَ عَنۡ سلیمِ بن الۡقِیۡسِ الۡه ِلالی عَنۡ سلمان الۡفارۡسی رَضِیَ الله عَنۡه ُ قالَ: دَخَلۡتُ عَلَی النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ – وَ آلِه – وَ سَلَّمَ فَاِذاً اَلۡحُسَیۡنُ عَلی فَخِذَیۡه ِ وَ ه ُوَ یُقَبِّلُ خَدَّیۡه ِ وَ یَلۡثِمُ فاه ُ وَ یَقوُلُ: اَنۡتَ سَیِّدٌ اِبۡنُ سَیِّدٍ، اَخُو سَیِّدٍ، اَنۡتَ اِمامٌ، اِبۡنُ اِمامٍ، اَخُو اِمامٍ، وَ اَنۡتَ حُجَّةً، اِبۡنُ حُجَّةٍ، اَخُو حُجَّةٍ، وَ اَبُو حُجَجِ تِسۡعَة، تاسِعُه ُمۡ قائِمُه ُمُ الۡمَه ۡدی
"
نیز
کتاب مودّت القربی سے سلیم ابن قیس سے انہوں نے سلمان فارسی سے روایت کی ہے کہ میں ایک دن حضور سرور کائنات کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ نے حسین کو اپنی آغوش میں بٹھایا اور رخساروں کا پیار کرنے لگے اور فرماتے تھے: تم سیدابن سید اور سید و سردار کے بھائی، تم امام ابن امام اور امام کے بھائی ہو، تم حجت ابن حجت ہو حجت کے بھائی ہو اور ۹ حجتوں کے والد ہو اور ان میں نویں قائم مہدی ہوں گے۔
شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اَیۡضاً اَخۡرَجَه ُ الۡحمویۡنی وَ مُوَفَّقُ بن اَحۡمَد الۡخوارَزۡم
" یعنی میر سید علی ہمدانی شافعی کے علاوہ یہ روایت حموینی اور موفق بن احمد خوارزمی نے بھی نقل کی ہے۔
جیسا کہ آپؑ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ رسول ؐگرامی قدر نے اس روایت میں امام حسین کی تین خصوصیات بیان کی ہیں:
۱ ۔ امام حسین، انکے والد اور انکے بھائی "سید و سردار" ہیں۔
۲ ۔ امام حسین، انکے والد اور انکے بھائی "امام" ہیں۔
۳ ۔ امام حسین، انکے والد، انکے بھائی اور انکی نسل سے ۹ فرزند سب حجتِ خدا ہیں کہ ان میں نویں قائم مہدی علیہ السلام ہیں۔
بنابریں حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا اور امام حسن و حسین‘جیسا کہ گذشتہ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ اہل بیت رسولؐ خدا ہیں؛ حضرت مہدی (عج) تک انکی اولاد طاہرہ بھی سب اہل بیت اور حجت خدا ہیں کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امام حسین ، انکے بھائی اور والد؛ حضور سرور کائنات کی بیان کردہ تین خصوصیات: ( ۱ ۔ سید و دسردار، ۲ ۔ امام، ۳ ۔ حجت خدا) کے حامل ہوں اسی طرح امام حسین کی نسل سے ۹ فرزند بھی انہیں خصوصیات کے حامل تو ہوں لیکن اہل بیت میں سے نہ ہوں، جبکہ وہ فرزندان نبی بھی ہوں اور ان میں سے نویں حضرت مہدی ہوں؟! (غور کیجئے)
بالخصوص یہ کہ ہم اسی باب کی دوسری فصل میں ثابت کریں گے کہ حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف امام حسین کی نسل سے نویں فرزند ارجمند ہیں اور اہل بیت رسول خدا سے ہیں۔ لہذا نتیجتاً یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تک امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے تمام اجداد اہل بیت میں سے ہیں۔ کیونکہ جب پیغمبر اسلام سے منسوب فرزند اہل بیت علیھم السلام کا مصداق ہے تو اجداد بھی جو کہ پیغمبر اسلام سے منسوب ہیں، اہل بیت کا مصداق قرار پائیں گے۔
۳ ۔ "وَ عَنۡ عَلیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ اَحَبَّ اَنْ يَرْكَبَ سَفِينَةَ النَّجَاةِ وَ يَسْتَمْسِكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَ يَعْتَصِمَ بِحَبْلِ اللَّهِ الْمَتِينِ فَلْيُوَالِ عَلِيّاً وَ لِيُعَادِ عَدُوَّهُ وَ لِيَأْتَمَّ بِالۡاَئِمَّة بِالْهُدَاةِ مِنْ وُلْدِهِ فَاِنَّهُمْ خُلَفَائِي وَ اَوْصِيَائِي وَ حُجَجُ اللَّهِ عَلَى الْخَلْقِه مِنۡ بَعْدِي وَ سَاداتُ اُمَّتِي وَ قوادُ الاَتْقِيَاءِ اِلَى الْجَنَّةِ حِزْبُهُمْ حِزْبِي وَ حِزْبِي حِزْبُ اللَّهِ،وَ حِزْبُ أَعْدَائِهِمْ حِزْبُ الشَّيْطَانِ
"
ینابیع المودۃ
میں کتاب مودّت القربی سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: رسولؐ خدا نے فرمایا: جو شخص کشتی نجات پر سوار ہونا چاہتا ہے اور قابل اطمینان چیز سے متمسک ہونا چاہتا ہے اور خداوند متعال کی رسّی کو مضبوطی سے تھامنا چاہتا ہے پس اسے چاہیئے کہ وہ علی علیہ السلام کو اپنا ولی وسرپرست بنالے اور انکے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے اور اولاد علی علیہ السلام سے آنے والے ائمہ ہدیٰ کو اپنا امام قرار دے کیونکہ یہ سب میرے بعد میرے خلیفہ، اوصیاء اور خلق خدا پر حجت ہیں، یہ میری امت کے سید و سردار ہیں، صاحبان تقویٰ کو جنت کی طرف لیکر جانے والے ہیں، ان کی حزب، میری حزب ہے اور میری حزب، حزب اللہ ہے اور ہمارے دشمنوں کی حزب، حزب شیطان ہے۔
جیسا کہ آپ نے اس روایت میں ملاحظہ فرمایا کہ رسولؐ اکرم نے تصریح فرمائی کہ فرزندان علی علیہ السلام میرے بعد میری امت میں ائمہ ہدی اور خلق خدا پر حجت ہیں پس جب گذشتہ متواتر روایات کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور امام حسن و حسین‘ اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)تک تمام فرزندان علی علیہ السلام ائمہ ہدیٰ ہیں تو قطعاً اہل بیت میں سے بھی ہیں کیونکہ جب والد اہل بیت میں سے ہیں قطعاً فرزند بھی اہل بیت میں سے قرار پائیں گے۔ جیسا کہ شیخ سلیمان نے یہ روایت نقل کی ہے۔
"وَ عَنۡ عَلیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ قالَ : قالَ رَسُولُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ – وَ آلِه – وَ سَلَّمَ: اَلۡاَئِمَّةُ مِنۡ وُلۡدی
"
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا: رسولؐ خدا نے فرمایا ہے: ائمہ ہدی میری اولاد میں سے ہوں گے۔
اس حقیقت "کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت مہدی موعودؑ تک آپ کی اولاد سب ائہ ہدیٰ اور خلق خدا پر حجت ہیں اور اہل بیت رسول خدا میں سے ہیں) کی مزید وضاحت کے لئے روایات اثنا عشریہ کے بارے میں بعض علمائے اہل سنت کی ایک تحقیق آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے گیارہ فرزندوں کے ائمہ ہدی اور اہل بیت رسولؐ ہونے پر علمائے اہل سنت کی ایک تحقیق
اہل تحقیق پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ روایات اثنا عشریہ، شیعہ و اہل سنت کے مطابق متواتر اور قطعی الصدور ہیں۔ جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے کتاب ینابیع المودۃ، باب ۷۷ میں یحیی بن حسن کی کتاب عمدہ سے بیس طرق و اسناد کا تذکرہ کیا ہے جو اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نبی کریمؐ کے خلفاء کی تعداد بارہ ہے اور یہ سب کے سب اہل بیت رسولؐ خدا سے ہیں۔ پس جو شخص بھی ان روایات کا سرسری مطالعہ بھی کرے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت مہدی تک آپ کی اولاد ائمہ ہدیٰ اور اہل بیت کا مصداق ہیں البتہ شرط یہ ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر نگاہِ انصاف سے کام لیا جائے (واللہ یہدی مَن یشاء)۔
شیخ سلیمان
رقمطراز ہیں:
"قالَ بَعۡضُ الۡمحقّقین اِنَّ الۡاَحادیثَ الدّالّةَ عَلی کَوۡنِ الۡخُلَفاءِ بَعۡدَه ُ ﷺ اِثۡنی عَشَرَ قَدۡ اِشۡتَه َرَتۡ مِنۡ طُرُقٍ کَثیرَةٍ
، فَبِشَرۡحِ الزَّمانِ وَ تَعۡریفِ الۡکَوۡنِ وَ الۡمَکانِ عُلِمَ اَنَّ مُرادَ رَسوُلِ الله ِ ﷺ مِنۡ حَدیثِه ، ه ذَا الۡائِمَّةِ الاِثۡنا عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ عِتۡرَتِه ِ اِذۡ لا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِل ه ذَا الۡحَدیثِ عَلَی الۡخُلَفاءِ بَعۡدُه مِنۡ اَصۡحابِه لِقِلَّتِه ِمۡ عَنۡ اِثۡنی عَشَرَ، ولا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِلَه ُ عَلَی الۡمُلُوکِ الۡاُمَویَّةِ لِزیادَتِه مۡ عَلی اِثۡنی عَشَرَ وَ لِظُلۡمِه ِمُ الۡفاحشِ اِلّا عُمَر َبن عَبۡدِ الۡعَزیزِ وَ لِکَوۡنِه ِمۡ غَیرَ بَنی ه اشِم لِاَنَّ النَّبی صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ قالَ: کُلُّه ُمۡ مِنۡ بَنی ه اشِمٍ فی روایَة عَبۡدِ الۡمَلِکِ عَنۡ جابِرٍ، وَ اِخۡفاءُ صَوۡتِه صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ فی ه ذَا الۡقَوۡلِ یُرَجَّحُ ه ذِه ِ الرِّوایَةَ، لِاَنَّه ُمۡ لا یُحَسِّنُونَ خِلافَةَ بَنی ه اشِمٍ وَ لا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِلَه ُ عَلَی الۡمُلُوکِ الۡعَبّاسِیَّةِ لِزیادَتِه ِمۡ عَلَی الۡعَدَدِ الۡمَذۡکُورِ، وَ لِقِلَّةِ رَعایَتِه مۡ الۡآیَة: قُلۡ لا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡه ِ اَجۡراٍ اِلّا الۡمَوَدَّةَ فِی الۡقُرۡبی (شوری، ۲۳) ، وَ حَدیثَ الۡکَساءِ، فَلا بُدَّ مِنۡ اَنۡ یَحۡمِلَ ه َذا الۡحَدیثِ عَلَی الۡاَئِمَّةِ الۡاِثۡنی عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ عِتۡرَتِه صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ، لِاَنَّه ُمۡ کانُوا اَعۡلَمَ اَه ۡلِ زَمانِه ِمۡ وَ اَجَلَّه ُمۡ وَ اَوۡرَعَه ُمۡ وَ اَتۡقاه ُمۡ وَ اَعۡلاه ُمۡ نَسَباً، وَ اَفۡضَلَه ُم حَسَباً وَ اَکۡرَمَه ُمۡ عِنۡدَ الله ِ، وَ کانَ عُلوُمُه ُمۡ عَنۡ آبائِه ِمِ مُتَّصِلاً بِجَدِّه ِمۡ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه -وَ سَلَّمۡ، وَ بِالۡوِراثَةِ وَ الدّینَةِ، کَذا عَرَفَه ُمۡ اَه ۡلُ الۡعِلۡمِ وَ التَّحۡقیقِ وَ اَه ۡلُ الۡکَشۡفِ وَ التَّوفیقِ، وَ یُؤَیِّدُ ه ذَا لۡمَعۡنی ای اَنَّ مُرادَ النَّبی صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ الۡائِمَّةُ الۡاِثۡنی عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ یَشۡه َدُه ُ وَ یُرَجِّحُه ُ حَدیثُ الثَّقَلَیۡنِ وَ الۡاَحادیثُ الۡمُتَکَثِّرَةُ الۡمَذۡکُورَةُ فی ه ذَا الۡکِتابِ وَ غَیۡرِه ا، وَ اَمَّا قَوۡلُه ُ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ کُلُّه ُمۡ تَجۡتَمِعُ الۡاُمَّةُ فی روایَةٍ عَنۡ جابِرِ بۡنِ سَمُرَة فمُرادُه ُ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ اَنَّ الۡاُمَّةَ تَجۡتَمِعُ عَلَی الۡاِقۡرارِ بِاِمامَةِ کُلِّه ِمۡ وَقتَ ظُه وُرِ قائِمِه ِمُ الۡمَه ۡدی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ"
علمائے اہل سنت کے بعض محققین کا کہنا ہے
: نبی کریمؐ کے بعد خلفائے اثنا عشر بیان کرنے والی روایات و احادیث کی اسناد و طریق بہت زیادہ ہیں (ہم نے گذشتہ حاشیہ پر ان میں سے بیس اسناد و طریق کا ذکر کیا ہے) پس رسولؐ اللہ نے مختلف حالات و واقعات کے موقع پر جو روایات بیان فرمائی ہیں، یقین ہوجاتا ہے کہ حضور سرور کائنات کی روایات اثنی عشریہ سے مراد اہل بیت عصمت و طہارت کے بارہ ائمہ ہی ہیں ان روایات کا نبی کریمؐ کے بعد آنے والے خلفاء پر اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ چار ہیں، بارہ نہیں ہیں اور اسی طرح ان روایات کا اطلاق اموی خلفاء پر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور عمر بن عبد العزیز (کہ جس نے فدک واپس کر دیا تھا اور حضرت علی علیہ السلام پر لعن و سب و شتم کو ممنوع قرار دیا تھا) کے علاوہ سب نے اہل بیت رسولؐ پر بہت ظلم و ستم کیا تھا، اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ (بنی امیہ)، بنی ہاشم میں سے نہیں ہیں جبکہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ یہ سب بارہ خلیفہ بنی ہاشم میں سے ہوں گے۔ جیسا کہ عبد الملک کی روایت جو کہ انہوں نے جابر سے نقل کی ہے، اس روایت میں ہے کہ رسولؐ نے آہستہ آواز میں فرمایا کہ یہ سب بنی ہاشم میں سے ہوں گے، اور یہی عمل پیغمبرؐ کو ترجیح دینے کا موجب ہے کیونکہ آنحضرت جانتے تھے کہ بنی امیہ ہرگز خلافت بنی ہاشم کو قبول نہ کریں گے۔
نیز روایات اثنا عشریہ کو خلفائے بنی عباس پر بھی اطلا ق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انکی تعداد بھی بارہ سے بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ انہوں نے اہل بیت کے بارے میں نازل شدہ آیہ مودت (شوریٰ / ۲۳) اور حدیث کساء (پنجتن آل عبا) کا بالکل خیال نہیں کیا۔
پس بنابریں روایات اثنا عشریہ کو صرف اہل بیت عصمت و طہارت کے ائمہ اثنی عشر ہی پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اہل بیت رسول خدا اپنے زمانے کے عالم ترین، بہترین، متقی ترین اور پرہیز گار ترین افراد تھے، نبی کریمؐ سے نسبت میں سب سے بلند اور حسب کے لحاظ سے سب سے افضل ہیں، یہ خداوند متعال کے نزدیک محترم ترین ہیں، انہوں نے اپنے علوم اپنے باپ داد کے توسط سے سلسلہ بسلسلہ پیغمبر اکرمؐ سے حاصل کئے ہیں اور دین و وراثت کے اعتبار سے نبی کریم سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔
بیشک اہل علم و تحقیق اور اہل کشف و توفیق نے ان کا یہی عرفان حاصل کیا اور انہیں ایسا ہی پایا ہے۔ نیز اس مطلب (کہ رسول اسلام کی مراد یہی بارہ ائمہ ہیں) پر بہترین شاہد، مرجحّ اور مؤیّد، "حدیث ثقلین" اور اس کتاب وغیرہ میں "مذکورہ احادیث" ہیں۔
البتہ جابر بن سمرہ کی روایت میں جو حضورؐ سرور کائنات نے یہ فرمایا: "میری امت میرے ان ائمہ اثنا عشر کی امامت و روایت پر اجماع کرے گی" اس سے مراد حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے بعد اجماع ہے۔
اولاد فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے بارے میں اشکال کا دندان شکن جواب
اس موقع پر حضرت زہرا سلام اللہ علیھاکی اولاد اور جانشینان پیغمبر گرامی قدر کے بارے میں اہل تسنن کی جانب سے کئے گئے ایک اشکال کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
اشکال: تعجب کا مقام یہ ہے کہ بعض نمایاں عالم بغیر کسی تحقیق و مستحکم دلیل کے اولاد و سادات بنی الزہراؑ پر اشکال کرتے ہوئے کہتے ہیں: فاطمہ زہرا و علی بن ابی طالب کی اولاد، رسولؐ اللہ کی رشتہ دار ضرور ہیں لیکن انہیں اولاد نہیں کہا جاسکتا، اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں: کیونکہ انسان کی نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ لڑکی سے اور کیونکہ رسولؐ کے کوئی بیٹا تو تھا نہیں لہذا سادات کو انکا رشتہ دار کہا جاسکتا ہے نہ کہ اولاد۔ اور یہ لوگ عربی شاعر کے اس شعر سے استناد کرتے ہیں:
"بَنوُنا بَنوُ اَبۡنائِنا وَ بَناتُنا بَنوُه ُنَّ اَبۡناء الرِّجال الۡاَباعِد"
یعنی ہمارے بیٹوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے ہم سے دور ہیں (یعنی ہمارے بیٹے نہیں ہیں)۔
پس اس شعر کی روشنی میں حضرت فاطمہؑ زہرا کی اولاد، پیغمبرؐ کی اولاد نہ کہلائے گی بلکہ رشتہ دار کہلائے گی۔ پس امام حسن و امام حسینؑ اور انکی اولاد ائمہ اطہار و امام زادگان ان میں سے کوئی بھی اولاد رسولؐ نہ کہلائیں گے۔
جواب: ہم شیعیان علیؑ، اہل بیت علیھم السلام اور نبی کریم ؐ کے سچے اوصیاء کے وسیلہ سے عالم غیب سے متصل ہیں، ائمہ اطہار کو ترجمان وحی الٰہی و سفینۂ نجات سمجھتے ہیں (جیسا کہ روایات نبوی سے ثابت ہے) ، ہم ہمیشہ قوی براہین مستحکم استدلالات سے بہرہ مند ہیں لہذا صرف کسی ایک عربی شاعر کا شعر سُن کر عدم نسل و اولاد کا حکم نہیں دیتے پس اس حقیقت کے پیش نظر قران کریم اور کتب اہل سنت میں مرقوم روایات کی روشنی میں چند دندان شکن جواب پیش کئے جا رہے ہیں۔
پہلی دلیل : امام حسن و امام حسین اور اولاد بنی الزہرا کے ذریت و اولاد پیغمبرؐ ہونے پر سورہ انعام کی آیت ۸۴ و ۸۵ ملاحظہ فرمائیں:
(
وَ مِنۡ ذُرّیَّتِهِ داوُدَ وَ سُلَیۡمانَ وَ اَیُّوبَ وَ یُوسُفَ وَ مُوسی وَ هارُونَ وَ کَذلِکَ نَجۡزی الۡمُحۡسِنینَ، وَ زَکَرِیّا وَ یَحۡیی وَ عیسی وَ اِلۡیاسَ کُلِّ مِنَ الصّالِحینَ
)
اور پھر ابراہیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون قرار دیئے اور اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ اور زکریا، یحیی، عیسیٰ اور الیاس کو رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے۔
اس آیت کریمہ میں ہمارا محل استشہاد حضرت عیسیٰ کی ذات بابرکت ہے انہیں ذریت و فرزندان انبیاء میں شمار کیا گیا ہے حالانکہ انکے والد نہ تھے پس معلوم ہوا کہ وہ اپنی والدہ ماجدہ جناب مریم کی طرف سے انبیاء سے منسوب ہوئے ہیں اور انہیں انبیاء کی اولاد میں شمار کیا گیا ہے اسی طرح حضرت امام حسن و امام حسین‘اور دیگر اوصیاء پیغمبرؐ یہ سب اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی طرف اولاد پیغمبرؐ شمار ہوتے ہیں۔
اسی لئے دلچسپ بات یہ ہے کہ محققین دانشمندان اہل سنت نے صرف ایک شعر دیکھ کر حکم صادر نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے بھی ہمارے قول کی حقانیت کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ فخر رازی
نے اسی آیت کریمہ (انعام/ ۸۵) کے ذیل میں پانچویں مسئلہ میں کہا ہے:
یہ آیت کریمہ امام حسن و حسین‘کے ذریت رسولؐ ہونے پر دلیل ہے کیونکہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کو ذریت انبیاء میں شمار کیا گیا ہے اور یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے اسی طرح حسنین بھی اپنی مادر گرامی کی طرف سے ذریت رسولؐ ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے حجاج کے سامنے اسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے۔
دوسری دلیل:امام حسن و امام حسین‘ اور آپ کی اولاد کے (حضرت فاطمہ کی نسبت سے) ذریت رسول ؑ ہونے پر دوسری دلیل آیت مباہلہ (آل عمران/ ۶۱) ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:
(
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
)
پیغمبرؑ علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکر رازی نے اپنی تفسیر میں نیز دیگر بہت سے اہل سنت مفسرین (جیسا کہ ہم نے روایات خمسہ طیبہ
کے چوتھے حصہ میں آیت مباہلہ کے ذیل میں روایات نقل کی ہیں)ابنائنا کے ذیل میں استدلال کیا ہے پیغمبر ؐ گرامی قدر، امام حسن و امام حسین‘کو میدان مباہلہ میں اپنے بیٹوں کی حیثیت سے لیکر آئے تھے لہذا قران کریم اور عمل پیغمبر اسلام کی روشنی میں حسن و حسین، پیغمبر اسلام کے فرزند ہیں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا میں اور علامہ طبرسی نے احتجاج میں امام موسیٰ کاظم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ خلیفہ عباسی ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم سے عرض کیا:
"کَیۡفَ قُلۡتُمۡ اِنّا ذُرّیَّةُ النَّبی ﷺ وَ النَّبِیُّ لَمۡ یُعۡقَبۡ وَ اِنَّمَا الۡعَقَبُ لِلذَّکَرِ لا لِلۡاُنثی وَ اَنۡتُم وَلَدُ الۡبِنۡتِ وَ لا یَکُونُ لَه ُ عَقَبٌ"
تم کس طرح اپنے آپ کو فرزندان پیغمبرؐ کہتے ہو حالانکہ ان کے تو کوئی بیٹا ہی نہیں تھا اور نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے جبکہ تم ان کی بیٹی کی اولاد ہو؟!
امام کاظم نے اسے دو جواب دیئے ہیں ایک جواب وہی سورہ انعام کی آیت ۸۵ ہے جسے ہم پہلی دلیل کے طور پر بیان کرچکے ہیں اور دوسرے جواب میں آنجناب نے آیت مباہلہ (آل عمران/ ۶۱) پیش کی ہے کہ جسے ہم نے دوسری دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ جب ہارون نے امام کی یہ دو واضح دلیلیں سنیں تو کہنے لگا: اَحسَنتَ یا ابالحسن۔ بہت خوب اے ابو الحسنؑ۔
تیسری دلیل: امام حسن و امام حسین کے فرزندان پیغمبر اسلام ہونے پر تیسری دلیل "محرمیّت" ہے۔
جس طرح بیٹے کی اولاد قیامت تک جدّو جدّہ کے لئے حرام ہے اسی طرح بیٹی کی اولاد بھی قیامت تک نانا نانی (جدّ و جدّہ) کے لئے حرام ہے اسی لئے ایک روایت کے مطابق جب اعتراض و اشکال کیا گیا تو امام نے معترض و مستشکل کے جواب میں فرمایا: اگر اس وقت پیغمبر گرامی قدر موجود ہوتے اور وہ تم سے تمہاری بیٹی کی خواستگاری کرتے تو کیا تم ان کی اس فرمائش کو قبول کرلیتے؟ مستشکل نے عرض کیا: کیوں نہیں! ارے یہ تو ہمارے لئے بڑے افتخار کی بات ہوتی کہ پیغمبر اسلام ہمارے داماد ہوجاتے۔
امام نے فرمایا: لیکن ہم پیغمبر ؐ کو اپنی بیٹی نہیں دے سکتے کیوں کہ ہم اور ہماری اولاد، پیغمبرؐ ہی کی اولاد ہے۔
چوتھی دلیل: امام حسن و امام حسین‘کے ذرّیت نبی ہونے پر وہ روایات بھی دلیل ہیں جو پیغمبر اسلام سے منقول ہیں اور علمائے اہل سنت نے انہیں اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ ابو صالح و حافظ عبد العزیز اخضر و ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ میں، ابن حجر مکی
، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، طبرانی نے کتاب الاوسط میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی
، و طبری نے حالات امام حسن میں؛ خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہں:
"اِنّی سَمِعۡتُ رَسُولَ الله ِ یَقُولُ :کُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ فَمُنۡقَطِعٌ یَوۡمَ الۡقِیامَةِ ما خَلا حَسَبی وَ نَسَبی وَ کُلُّ بَنی اُنۡثی عُصۡبَتُه ُمۡ لِاَبیه ِمۡ ما خَلا بَنی فاطِمَةُ فَاِنّی اَنا اَبوُه ُمۡ وَ اَنَا عُصۡبَتُه ُمۡ"
میں نے رسولؐ خدا سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا: ہر حسب و نسب قیامت میں منقطع ہوجائے گا سوائے میرے حسب و نسب کے۔ اور ہر بیٹی کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے میری بیٹی کی اولاد کے، کہ وہ میری طرف منسوب ہیں اور میں ان کا جد ہوں۔
کتب اہل سنت میں روایات مہدی موعود (عج) کے باب میں کثیر التعداد روایات تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں جن میں رسولؐ اکرم کی جانب سے نص جلی ہے کہ "امام حسین " آپؐ کے فرزند ہیں نیز تصریح موجود ہے کہ حضرت مہدی (عج) موعود فرزند حسین و فرزند رسولؐ خدا ہیں جیسا کہ اسی کتاب کے پہلے باب کی پہلی فصل روایت ۲۶ میں جناب سلیمان نے رسولؐ خدا سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں سوال کیا:"یا رَسُولَ الله ِ اِنَّه ُ مِنۡ ای وُلۡدِک؟ قالﷺ: ه ُوَ مِن وَلَدی ه ذا وَ ضَرَبَ بِیَدِه ِ عَلَی الحُسَیۡنِ"
یعنی یا رسولؐ اللہ وہ آپ کے کس فرزند سے ہوں گے؟ آپؐ نے امام حسین کے دوش پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا: وہ میرے اس بیٹے کی اولاد میں سے ہوں گے۔
نیز اسی کتاب کے پہلے باب کی پہلی فصل روایت ۳۳ و ۳۴ میں رسولؐ خدا نے فرمایا: "اَلۡمَهۡدی رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدی
" مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)میری نسل میں سے ایک شخص ہے۔
نیز اسی کتاب کے پہلے باب کی پہلی فصل روایت ۳۵ میں جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضور سرور کائنات سے سوال کیا:"یا رَسُولَ الله ، لِوَلَدِکَ الۡقائِمِ غَیۡبَةٌ ؟ قال: ای وَ رَبّی
" یعنی یا رسول ؐ اللہ! کیا آپؐ کے فرزند قائم کے لئے غیبت ہوگی؟ فرمایا: قسم ہے پروردگار کی، ایسا ہی ہے۔
جیسا کہ آپ نے ان روایات میں ملاحظہ فرمایا کہ ان میں واضح طور پر تصریح موجود ہے کہ امام حسین و فرزندان امام حسین کہ جن میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) بھی ہیں، سب فرزندان رسولؐ خدا ہیں لہذا نص جلی کی موجود گی میں کوئی اشکال وارد نہیں کیا جاسکتا۔ (غور کیجئے)
پانچویں دلیل: آپ کے قول کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکے بعد نبی کریمؐ کی نسل منقطع ہونے والی ہے۔ آپ کا یہ قول نص قرانی یعنی سورہ کوثر کی کھلی مخالفت ہے کیونکہ مستشکل نے اس طرح اشکال کیا ہے کہ بیٹے کی اولاد انسان کی اپنی اولاد ہوتی ہے نہ کہ بیٹی کی اولاد! اور کیونکہ آنحضرت کے فقط ایک بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاتھیں لہذا ان کے بعد آنحضرت کی نسل منقطع ہوگئی کیونکہ صرف فاطمہ سلام اللہ علیھا حضورؐ کی اولاد ہیں نہ کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد! جیسا کہ ہارون رشید نے واضح طور پر کہا تھا کہ پیغمبر ؐ کے کوئی بیٹا نہ تھا۔
ہم اس کے جواب میں اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ آپ کا یہ قول بالکل غلط اور باطل ہے۔ کیونکہ دشمنان پیغمبر اسلام خوش ہوتے اور کہتے تھے: پیغمبر اسلام ابتر ہیں۔ خداوند عالم نے ان کا اس طرح جواب دیا: اے نبیؐ! ہم نے آپؐ کو "کوثر (فاطمہؑ)" عطا کی ہے، بیشک آپ کا دشمن ہی ابتر ہے۔
بالفاظ دیگر:جب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھادنیا میں تشریف نہیں لائی تھیں تو اس وقت تک دشمنان اسلام اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ رسول گرامی اسلام کے کوئی اولاد نہیں ہے لہذا پیغمبرؐ ابتر رہیں گے اور آپ بھی حضرت فاطمہ زہرا کے باوجود اسی عقیدہ کے قائل ہیں اور کہتے ہیں: کہ پیغمبر اسلام کے صرف ایک بیٹی تھی اور اس بیٹی کے بعد پھر آپ کی کوئی نسل باقی نہیں ہے کیونکہ بیٹے کی اولاد اپنی اولاد ہوتی ہے جبکہ بیٹی کی اولاد عزیز و رشتہ داری ہوتی ہے۔
ہم آپ کے جواب میں کہیں گے کہ خداوند عالم آپ کے جواب میں فرماتا ہے: اے نبیؐ ہم نے آپ کو "کوثر یعنی فاطمہ زہرا" عطا کی ہے، بیشک آپ کا دشمن ہی "ابتر" رہے گا۔
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ شاعر کا شعر قران کریم اور روایات نبوی و روایات اہل بیت کے مقابلہ میں ناقابل قبول ہے لہذا اہل سنت کے معروف عالم دین جناب محمد بن یوسف گنجی شافعی نے اپنی کتاب کفایت الطالب فصل اول بعد از ۱۰۰ باب اس شعر کے جواب میں ایک باب معین کیا ہے کہ جس کا عنوان یہ ہے "پیغمبر ؐ کی بیٹی کی اولاد، پیغمبر اسلام ہی کی اولاد ہے"۔
مذکورہ محکم دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی اولاد، رسولؐ اسلام ہی کی اولاد ہے اور اس حقیقت کا انکار سوائے بنی امیہ و بنی عباس کے لجوج و دشمنان اہل بیت و منافقین اور کم عقل و جھال کے کوئی نہیں کرسکتا ہے۔
قران کریم میں اہل بیت علیھم السلام کے نام کیوں نہیں آئے ہیں؟
اس موقع پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جب ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی حقانیت ثابت شدہ ہے تو پھر ان کے نام قران کریم میں کیوں نہیں آئے ہیں؟
ہم نے اسی کتاب کے پہلے باب کی دوسری فصل کے آخر میں بطور واضح و روشن اس اشکال کے پانچ جواب دیئے ہیں لہذا وہاں رجوع فرمائیں۔
خاتمہ فصل اول:
ذکر فاطمہ و ابیھا و بَعلِہا وَ بَنیہا
سب سے پہلے یہ ذکر انہی الفاظ کے ساتھ حضور سرور کائنات کی زبان مبارک پر جاری ہوا۔ علامہ مجلسی
نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکے مقام و منزلت کے بارے میں نبی کریمؐ سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
"أَنَا اَبُوهَا وَ مَا اَحَدٌ مِنَ الْعَالَمِينَ مِثْلِي، وَ عَلِيٌّ بَعْلُهَا وَ لَوْ لَا عَلِيٌّ مَا كَانَ لِفَاطِمَةَ كُفْوٌ اَبَداً، وَ اَعْطَاها الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ مَا لِلْعَالَمِينَ مِثْلُهُمَا سَيِّدَا شَبَابِ اسْباطِ الْاَنْبِيَاءِ وَ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ …؛
اََلَا وَ اَزِيدُكُمْ مِنْ فَضْلِهَا: اِنَّ اللَّهَ قَدْ وَكَّلَ بِهَا رَعِيلًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ يَحْفَظُونَهَا مِنْ بَيْنِ يَدَيْهَا وَ مِنْ خَلْفِهَا وَ عَنْ يَمِينِهَا وَ عَنْ شِمَالِهَا وَ هُمْ مَعَهَا فِي حَيَاتِهَا وَ عِنْدَ قَبْرِهَا وَ عِنْدَ مَوْتِهَا يَكْثُرُونَ الصَّلَوةَ عَلَيْهَا وَ عَلَى اَبِيهَا وَ بَعْلِهَا وَ بَنِيهَا "
میں فاطمہ زہراؑ کا والد ہوں اور عالمیں میں مجھ جیسا کوئی نہیں ہے، علی علیہ السلام فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے شوہر ہیں اور اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ سلام اللہ علیھا کا کوئی کفو و ہمسر نہ ہوتا، خداوند عالم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو حسن و حسین‘عطا کئے ہیں کہ ان جیسا بھی عالمین میں کوئی نہیں ہے یہ دونوں جوانان اسباط انبیاء کے سردار ہیں اور اسی طرح جوانان جنت کے سرار ہیں ؛ یاد رکھو فاطمہ زہراؑ کے فضائل اس سے بھی زیادہ ہیں جو میں تمہارے سامنے اب بیان کر رہا ہوں۔ خداوند عالم نے فاطمہ کی حفاظت کے لئے چاروں طرف ایسے ملائکہ معین کئے ہیں جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں حتی ان کی قبر کے پاس اور ان کے انتقال کے وقت بھی ان کے پاس ہوں گے، یہ فرشتے کثرت سے ان پر، ان کے والد، شوہر اور ان کے فرزندان پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ذکر شریف، شیعہ و اہل سنت دونوں ہی نے دعاؤں کی صورت میں نقل کیا ہے جیسا کہ علامہ نوری اعلیٰ اللہ مقامہ نے کتاب مستدرک الوسائل
میں نقل فرمایا ہے کہ "کتاب خلاصۃ الکلام" میں ہے کہ بعض معاصرین اہل سنت نے آنکھوں کے نور میں اضافہ کے لئے ان اذکار سے توسل کیا ہے۔
"اَلۡلَّه ُمَّ رَبِّ الۡکَعۡبَه ِ وَ بانیه ا وَ فاطِمَةَ وَ اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا نَوِّرۡ بَصَری وَ بَصیرَتی و …"
نیز کتاب "فاطمہ الزہرا بحجۃ قلب المصطفی تالیف حجۃ الاسلام رحمانی ہمدانی" ص ۲۵۲ میں ہے کہ:
"سَمِعۡتُ شَیۡخی وَ مُعۡتَمِدی آیَة الله الۡمَرحوۡمُ مُلّا عَلی المَعۡصوُمی یَقُولُ فِی التَوَسُّلِ بِالزَّه ۡراء علیه ا السلام: تَقوُلُ خَمۡسَمِأَة وَ ثَلاثینَ مَرَّة: اَللّه ُمَّ صَلَّ عَلی فاطِمَةَ وَ اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا بِعَدَدِ ما اَحاطَ بِه عِلۡمُکَ وَ اَیضۡاً عَنۡه ُ (ره ) : اِله ی بِحَقِّ فاطِمَةَ وَ اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا وَ السِّرِّ الۡمُسۡتَوۡدَعِ فیه ا"
میں نے اپنے استاد آیت اللہ ملا علی معصومی ؒ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے ذکر سے توسل کرنے کے لئے ۵۳۰ مرتبہ یہ کہو:" اَللّه ُمَّ صَلَّ عَلی فاطِمَةَ وَ اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا بِعَدَدِ ما اَحاطَ بِه عِلۡمُکَ "
یا اس طرح کہیے:" اِله ی بِحَقِّ فاطِمَةَ وَ اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا وَ السِّرِّ الۡمُسۡتَوۡدَعِ فیه ا"
نیز یہی عدد شیخ بہائی سے بھی نقل ہوا ہے۔
ممکن ہے آپ کے ذہن میں خیال و سوال پیدا ہو کہ آخر ۵۳۰ مرتبہ ہی کیوں انجام دیا جائے؟ بعض اساطین و سادات کرام نے اس کی علت کو یوں سمجھا ہے کہ یہ عدد لفظ "فاطمہ" کے اعداد ابجد یعنی (ف = ۸۰ ، ا = ۱ ، ط = ۹ ، م = ۴۰ ، ت = ۴۰۰) ۔
علامہ مجلسی کتاب بحار الانوار
میں فرماتے ہیں: حضرت امام حسین کی زیارت کے قدیمی نسخہ میں وارد ہوا ہے کہ جب تم زیارت کے لئے حاضر ہو اور قبر کے قریب پہنچو تو سلام کرتے وقت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکے لئے اس طرح کہو:
"صَلَّ الله ُ عَلَیۡه ا وَ عَلی اَبیه ا وَ بَعۡلِه ا وَ بَنیه ا
" یعنی فاطمہ زہرا، ان کے والد و شوہر اور انکے فرزندوں پر خدا کا درود و سلام ہو۔
صاحب عوالم نے حدیث کساء کے بارے میں سند صحیح کے مطابق جابر بن عبد اللہ انصاری سےنقل کیا ہے:"فَقالَ الۡاَمینُ جَبرائیلُ یا رَبِّ وَ مَنۡ تَحۡتَ الۡکِساءِ فَقالَ عَزَّ وَ جَلَّ ه ُمۡ اَه ۡلُ بَیۡتِ النُّبُوةِ وَ مَعۡدِنُ الرِّسالَةِ ه ُمۡ فَاطِمَةُ وَ اُبُوه ا وَ بَعۡلُه ا وَ بَنوُه ا"
یعنی پس جبرئیل امین نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! چادر کے نیچے کون لوگ ہیں؟ پس خداوند عزوجل نے فرمایا: یہ اہل بیت پیغمبر اور معدن رسالت ہیں؛ یہ فاطمہ ، انکے والد، انکے شوہر اور انکے فرزند ہیں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے اس حدیث میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکو اہل بیت کے تعارف کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔
نتیجہ:
پس مذکورہ روایات و منقولات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکو مختلف مقامات پر محور و مرکز قرار دیا گیا ہے: مثلاً؛
۱. خداوند عالم نے حدیث کساء میں محور قرار دیا ہے۔
۲. بحار الانوار کی روایت میں نبی کریمؐ نے محور قرار دیا ہے۔
۳. شیعہ و اہل سنت کے مطابق دعا و توسل کے موقع پر۔
۴. زیارت امام حسین کے موقع پر۔
۵. علمائے اعلام کے مطابق مختلف مواقع پر مثلاً جب علامہ مجلسی بحار کی مختلف مجلّات میں حضرت فاطمہ زہرا اور ائمہ اطہار پر درود بھیجنا چاہتے ہیں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکو محور قرار دیتے ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ لسان وحی و علماء میں ان الفاظ کے جاری ہونے اور لسان خدا و رسول اور زیارت و توسلات میں حضرت فاطمہ کو محور قرار دینے سے صرف ظنّ قوی ہی نہیں بلکہ قطع و یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ دعا و توسلات اور صلوات و زیارات میں معصومین نے انہیں محور قرار دیا ہے۔
اب ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکے بارے میں نبی کریم سے ایک روایت نقل کر رہے ہیں جو ہمارے قول و گفتار کا ثبوت قرار پائے گی:
"عَنِ النَّبی ﷺ وَ الَّذی نَفۡسی بِیَدِة، اِنَّه ا الۡجارِیَةُ الّتی فی عَرۡصَةِ الۡقِیامَةِ عَلی ناقَة، جَبۡرَئیلُ عَنۡ یَمینِه ا وَ میکائیلُ عَنۡ شِمالِه ا وَ عَلِیٌّ اَمامُه ا وَ الۡحَسَنُ وَ الحُسَیۡنُ وَرائه ا وَ الله ُ یَحۡفَطُه ا فَاِذَا النّداءُ مِنۡ قِبَلِ الله ِ جَلَّ جَلالُه ُ: مَعاشِرَ الۡخَلائِقِ غَضُّو ا اَبۡصارَکُمۡ … یا فاطِمَةُ سَلینی اُعۡطِکِ، فَتَقُولُ: اِله ی اَنۡتَ الۡمُنی وَ فَوۡقُ الۡمُنی: اَسۡئَلُکَ اَنۡ لا تُعَذِّبَ مُحِبِّی وَ مُحِبِّ عِتۡرَتی بِالنّارِ
۔ (تاویل الآیات، ج ۲ ، ص ۴۸۴)"
یعنی نبی کریمؐ سے روایت کی گئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: قسم ہے اس پیدا کرنے والے کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ بتحقیق میدان قیامت میں ایک خاتون ناقہ پر سوار گزرے گی جس کے دائیں سمت جبرئیل اور بائیں سمت میکائیل ہونگے، علی علیہ السلام آگے آگے اور حسن و حسین‘ انکے پیچھے پیچھے چل رہے ہونگے اور خود خدا انکا محافظ و نگہبان ہوگا۔ اسی اثناء میں خداوند عالم آواز دے گا: اے خلائق عالم! اپنی آنکھوں کوجھکالو پھر فرمائے گا: اے فاطمہ سلام اللہ علیھا مجھ سے سوال کرو کہ میں تمہیں عطا کروں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا عرض کریں گی: پروردگار! تو خود میری آرزو ہے بلکہ میری بلند ترین آرزو ہی تو ہے۔ تجھ سے صرف اتنا چاہتی ہوں کہ میری اولاد کو اور ان کے چاہنے والوں کو آگ میں نہ جلانا۔
____________________