تیسری فصل
کتب اہل سنت میں مناقب اہل بیت علیھم السلام
ہم نے اب تک کتب اہل سنت میں منقول متواتر روایات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اہلبیت رسولؐ خدا حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور آپ کی پاکیزہ اولاد ہی ہیں۔ نیز متواتر روایات کی روشنی میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف بغیر کسی شک و شبہ کے اہل بیت رسولؐ خدا میں سے ہیں۔ اب ہم اس فصل میں محترم قارئین کی خدمت میں کتب اہل سنت میں مناقب اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں چند حقائق پیش کرنا چاہتے ہیں کہ روز جزا "ثقل اصغر" ہمارے یاور و مددگار قرار پائیں۔
آلؑ محمدؐ پر ترک صلوات کیوں؟!
کتب اہل سنت سے فضائل آلؑ محمدؐ کے بارے میں حقائق بیان کرنے اور کثیر روایات نقل کرنے سے قبل، اہل بیت علیھم السلام پر صلوات بھیجنے کے بارے میں بعض اہل سنت کی جانب سے کئے گئے اشکال و اعتراض کا جواب دینا ضروری سمجھ رہے ہیں۔
اشکال:
جب آپ (اکثر) علمائے اہل سنت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں گے تو دیکھیں گے کہ انہوں نے اہل بیت رسولؐ کو صحابہ کے ردیف میں قرار دیتے ہوئے انکے اسماء کے ساتھ بھی "رضی اللہ عنہم" لکھا ہے۔ آخر انہوں نے حضرت علی علیہ السلام و دیگر اہل بیت علیہم السلام کے اسماء کے سا تھ "رضی اللہ عنہم" کیوں لکھا ہے اور سلام و صلوات کو ترک کیوں کیا ہے؟
جب رسول اکرمؐ کے نام مبارک کا ذکر کرتے ہیں تو سلام و صلوات میں صرف حضورؐ کا نام کیوں لیتے ہیں اور آنحضرت کی آلؑ پاک کو فراموش کیوں کر دیتے ہیں؟ نیز آل رسولؐ پر صلوات بھیجنے والے کو رافضی کیوں کہتے ہیں؟ بعض اہل سنت، آل رسولؐ پر صلوات کو بدعت کیوں سمجھتے ہیں؟ اور بعض ان سے متاثر ہوکر آلِؑ رسولؐ پر صلوات کو ترک کر دیتےہیں۔ اور اپنی دلیل میں کہتے ہیں کہ خداوند عالم نے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں فرمایا ہے:(
إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
)
یعنی اللہ اور اس کے ملائکہ اپنے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
پس خداوند عالم نے اس آیت کریمہ میں درود و سلام کو صرف اپنے نبی سے مخصوص کیا ہے لہذا ائمہ اہل بیت و آلؑ محمدؐ پر شیعوں کا درود و سلام بھیجنا بدعت ہے انہوں نے اس چیز کو جو دین نہیں ہے اس کو دین کے نام پر دین میں داخل کردیا ہے لہذا شیعوں کو ائمہ اہل بیت پر درود و سلام بھیجنے کے بجائے "رضی اللہ عنہم" کہنا چاہیے اور صلوات کو ترک کردینا چاہیے۔
جواب اشکال:
ہم توفیق و مدد الٰہی سے ثابت کریں گے کہ آلؑ محمدؐ پر درود وسلام بھیجنا دلیل و برہان اور نص قرانی کے عین مطابق ہے اور حقیقی اہل بدعت وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس صلوات کو (جو کہ دین و سنت نبوی میں سے ہے) ترک کردیا ہے یعنی انہوں نے دین کا حصہ نہ سمجھ کر اس چیز کو ترک کردیا ہے جو درحقیقت دین کا حصہ ہے۔ لہذا ہم کہیں گے:
اول: "اثبات شیء، نفی ما عدا" کی دلیل نہیں یعنی خداوند عالم نے اس آیت کریمہ میں دوسروں پر درود و سلام بھیجنے سے روکا نہیں ہے بلکہ اس نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ نبی کریمؐ پر درود و سلام بھیجیں۔
دوئم: مذکورہ آیت کریمہ نازل کرنے والے خداوند عالم نے سورہ صافّات ، آیت نمبر ۱۳۰ میں ارشاد فرمایا: "سَلامٌ عَلی آلِ یاسین
" یعنی سلام ہو آلؑ محمدؐ پر۔
یاد رہے کہ "یاسین" سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی مبارک ذات ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ قران کریم میں حضورؐ کے پانچ اسماء ذکر کئے گئے ہیں یعنی: محمد، احمد، عبد اللہ، نون اور یاسین۔ خصوصاً سورہ یسین جو کہ اسی نام سے شروع ہوا ہے اور خداوند متعال نے اسی نام سے حضورؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:(
یس، وَ الۡقُرۡآنِ الۡحَکیمِ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلینَ
)
یعنی اے پیغمبر ("یا" حرف نداء ہے اور "س" حضورؐ کا نام مبارک ہے)! قسم ہے قران حکیم کی کہ تم یقیناً مرسلین میں سے ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں تک کہ اہل سنت مفسرین نے بھی کہا ہے کہ "یاسین" سے مراد حضورؐ سرور کائنات کی ذاتِ مبارک ہی ہے۔ ابن حجر مکی نے کتاب صواعق محرقہ میں مفسرین کے حوالے سے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: " سَلامٌ عَلی آلِ یاسین" یعنی سلام بر آلؑ محمدؐ۔
نیز فخر رازی
نے اسی آیت کریمہ (صافات ۱۳۰) کے ذیل میں کہا ہے کہ آلِ یاسین سے مراد، آلؑ محمدؐ ہیں۔
سوئم: آلؑ محمدؐ پر صلوات بھیجنا سنت ہے، یہاں تک کہ نماز کے تشہد میں واجب ہے یعنی اگر کوئی شخص عمداً تشہد میں آلؑ محمدؐ پر صلوات ترک کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔ جس کی دلیل شیعہ علماء کے اجماع کے علاوہ تین دلیلیں اور بھی ہیں:
۱ ۔ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں جو آیات بیان کی ہیں ان میں سے تیسری آیت کے ذیل میں فخر رازی
سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور آنحضرتؐ کے اہل بیت پانچ چیزوں میں برابر کے شریک ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ جب فخر رازی اس مقام پر اپنے کلام کے آغاز میں جب نبی کریمؐ پر صلوات بھیجتے ہیں تو اہل بیت علیھم السلام پر صلوات ترک کر دیتے ہیں حالانکہ اس عقیدہ کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اہل بیت علیھم السلام اور رسولؐ خدا صلوات میں برابر کے شریک ہیں، فخر رازی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: "اِنَّ اَه ۡلَبَیۡتِه صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ سَلَّمَ یُساوُونَه ُ فی خَمۡسَةِ اَشیاءٍ، فِی السَّلامِ :قالَ السَّلامُ عَلَیۡکَ اَیُّه َا النَّبِیُّ وَ قالَ: سَلامٌ عَلی آلِ یاسین، وَ فِی الصَّلوةِ عَلَیۡه ِ وَ عَلَیۡه ِمۡ فِی التَّشَه ُّدِ، وَ فِی الطّه ارَةِ قالَ تَعالی: طه یا طاه ِر، وَ قالَ : یُطَه ِّرَکُمۡ تَطۡه یراً، وَ فی تَحریمِ الصَّدَقَةِ وَ الۡمَحَبَّةِ
" یعنی بتحقیق اہل بیت علیھم السلام رسول(کہ ان پر خدا کا درود و سلام ہو) پانچ چیزوں میں پیغمبر گرامی قدر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں:
۱ ۔ سلام: جس طرح نماز کے سلام میں کہتے ہیں: "السلام عَلَیۡکَ اَیُّهَا النَّبِی
" خداوند عالم قران میں آل نبی پر سلام بھیجتے ہوئے فرماتا ہے:"سلامٌ عَلیٰ آلِ یاسین"
۲ ۔ صلوات: جس طرح نماز کے تشہد میں نبی کریم پر صلوات بھیجتے ہیں اسی طرح آل نبی پر صلوات بھیجی جاتی ہے۔
۳ ۔ طہارت: خداوند عالم قران کریمؐ میں ارشاد فرماتا ہے: طہ یعنی اے طاہر مراد رسول خدا کی ذات ہے اسی طرح آل کے لئے فرمایا: "یُطَه ِّرَکُمۡ تَطه یراً
" (احزاب/ ۳۳)
۴ و ۵ ۔ جس طرح نبی پر صدقہ حرام ہے اسی طرح آلِ نبی پر صدقہ حرام ہے۔ اور جس طرح نبیؐ کی محبت ضروری ہے اسی طرح آلِ نبی کی محبت ضروری ہے۔
نکتہ: ہمارے نظریہ کے مطابق آیات و روایات کی روشنی میں ان پانچ مذکورہ چیزوں کے علاوہ اور بھی مقامات ایسے ہیں جن میں نبیؐ و آلِؑ نبیؐ برابر کے شریک ہیں مثلاً جس طرح رسولؐ خدا کی اطاعت واجب ہے اسی طرح اہل بیت)ع) کی اطاعت واجب ہے، جس کی دلیل آیت اطاعت کے علاوہ ینابیع المودۃ کی وہ روایت بھی ہے جسے ہم نے اسی باب کی دوسری فصل کے آخر میں ذکر کیا ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: "فمن اطاعہم فقد اطاع اللہ ومن عصاہم فقد عصی اللہ " یعنی جس نے انکی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے انکی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ پس آلؑ نبیؐ کی اطاعت بھی خود نبی کریمؐ کی اطاعت کی طرح واجب ہے۔
اسی طرح رسولؐ خدا اور آپ کے اہل بیت (ع)، "ولایت و سرپرستی" اخلاق و صفات اور تمام دیگر موارد (جز نبوت و وحی کے) میں شریک ہیں۔ تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں اسی کتاب کے دوسرے باب کا خاتمہ "رسولؐ خدا اور حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف میں بیس شباہتیں"۔ نیز کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " ص ۵۴۹ جس میں بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ، رسول ؐ اللہ کے ساتھ طہارت و ولایت، ادائے تبلیغ ، اولویت انفس، اور تمام صفات میں (جز وحی کے) شریک ہیں۔
ہم مناقب اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ستر روایات پیش کریں گے جن میں سے متعدد روایات مثلاً ۳۴ ، ۳۵ ، ۱۸ میں علمائے اہل سنت نے اعتراف کیا ہے کہ حضرت ختمی مرتبت و اہل بیت برابر کے شریک ہیں۔
۲ ۔ نماز کے تشہد میں صلوات بر آلؑ محمدؐ کے واجب ہونے کی دوسری دلیل امام شافعی یعنی محمد بن ادریس شافعی کا وہ مشہور قول ہے جسے ابن حجر مکی
نے نقل کیا ہے۔
"یا اَه ۡلَ بَیۡتِ رَسُولِ الله ِ حُبُّکُم فَرۡضٌ مِنَ الله ِ فِی الۡقُرۡآنِ اَنۡزَلَه ُ"
اے اہل بیت رسولؐ خدا، خداوند عالم نے قران میں آپ کی محبت (مودت) کو واجب قرار دیا ہے۔
"کَفاکُمۡ مِنۡ عَظیمِ الۡقِدۡرِ اَنَّکُمۡ مَنۡ لَمۡ یُصَلِّ عَلَیۡکُمۡ لا صَلوةَ لَه ُ"
آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر صلوات نہ پڑھے اسکی نماز ہی باطل ہے۔
نکتہ: روایت کی روشنی میں جس کی نماز رد کر دی جائے گی اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے پس اہل بیت علیھم السلام پر صلوات نہ بھیجنے کی وجہ سے جس کی نماز ہی باطل ہوجائے بھلا اس کا پھر کونسا عمل قابل قبول ہوگا۔ توجہ اور غور کیجئے!
۳ ۔ نماز کے تشہد میں اہل بیت پر صلوات بھیجنے کے واجب ہونے کی تیسری دلیل بہت سے علمائے اہل سنت کا نظریہ اور انکی فرمائش ہے، مثلاً سید ابوبکر شہاب الدین علوی، نسائی، ابن حجر مکی، بیہقی، سمہودی اور شیخ سراج الدین یمنی وغیرہ۔
پس اگر صلوات بر آل محمدؐ نماز میں واجب ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کا بھیجنا بدعت نہ ہوگا بلکہ یقینی طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کے علاوہ بھی ان پر صلوات نہ بھیجنا ان کے حق میں ظلم کہلائے گا۔
چہارم: صلوات بر آل محمدؐ پر چوتھی دلیل"کثیر التعداد روایات" ہیں: مثلاً صحیح بخاری، ج ۳ ، صحیح مسلم، ج ۱ ، ینابیع المودۃ
اور ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت کے بارے میں بیان کردہ دوسری آیت کے ذیل میں کعب بن عجرۃ کی روایت کی صحت کی تصریح کرتے ہوئے روایت نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ(
إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
)
(احزاب ۵۶) نازل ہوئی تو بعض اصحاب، حضورؐ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: ہم آپ کو سلام کرنا تو جانتے ہیں لیکن یہ صلوات کس طرح بھیجیں؟ حضورؐ نے فرمایا: "قوُلوُا اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
" یعنی اس طرح پڑھو:" اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
فخر رازی
نقل کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات سے سوال کیا گیا کہ آپ پر صلوات کس طرح بھیجیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: "اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ کَما صَلَّیۡتَ عَلی اِبۡراه یمَ وَ عَلی آلِ اِبۡراه یمَ وَ بارِک عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ کَما بارَکۡتَ عَلی اِبۡراه یمَ وَ عَلی آلِ اِبۡراه یمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ
"
نیز ابن حجر مکی نے فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں دوسری آیت کے ذیل میں حاکم نیشاپوری سے روایت نقل کی ہے کہ:
"وَ فی روایَةِ حاکِم فَقُلۡنا یا رَسُولَ الله ِ کَیۡفَ الصَّلوة عَلَیۡکُمۡ اَه ۡلِ الۡبَیۡتِ؟ قالَ: قُولُوا اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
ہم نے حضور سرور کائنات کی خدمت میں عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! ہم آپ اہل بیت علیھم السلام پر کس طرح صلوات بھیجیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: "اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
ابن حجر، حاکم نیشاپوری سے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"وَ فیه ِ دَلیلٌ ظاه ِرٌ عَلی اَنَّ الۡاَمۡرَ بِالصَّلوةِ عَلَیۡه ِ، اَلصَّلوةُ عَلی آله ِ مُرادٌ مِنۡ ه ذِه ِ الۡآیَةِ، وَ اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ سَلَّمَ جَعَلَ نَفۡسَه ُ مِنۡه ُمۡ"
حاکم کی روایت سے دو نکات قابل فہم ہیں:
۱ ۔ یہ روایت اس بات کی واضح دلیل کہ پیغمبرؐ پر صلوات کے حکم میں اہل بیت علیھم السلام پر صلوات بھیجنے کا حکم بھی شامل ہے۔ یعنی خداوند عالم نے آیت میں نبی کریمؐ پر صلوات بھیجنے کا حکم بھی دیا ہے اور اہل بیت پر صلوات بھیجنے کا حکم بھی دیا ہے۔
۲ ۔ نبی کریم ؐ نے اپنے آپ کو اہل بیت علیھم السلام کا جزء قرار دیا ہے "جَعَلَ نَفۡسَه ُ مِنۡه ُمۡ"
یہاں موقع ہے کہ ہم ابن حجر سے یہ سوال کریں کہ اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ نبیؐ پر صلوات کا حکم آلؑ نبیؐ پر صلوات کا حکم ہے نیز اگر آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریمؐ نے اپنے آپ کو اہل بیت علیھم السلام کا جزء قرار دیا ہے تو پھر آپ نے اپنے کلام میں آل نبیؐ پر صلوات کو کیوں ترک کر دیا ہے اور کہا ہے:
"وَ اَنَّه ُ صَلَّی الله عَلَیۡه وَ سَلَّمَ جَعَلَ نَفۡسَه ُ مِنۡه ُمۡ"،
حالانکہ آپ کو یہ کہ نا چاہ یے تہا:" صَلَّی الله عَلَیۡه وَ آلِه و سَلَّمَ جَعَلَ نَفۡسَه ُ مِنۡهمۡ"
نیز دلچسپ ہے کہ ابن حجر صلوات بر آل محمد ترک کرنے کے بعد اہل بیت علیھم السلام پر صلوات بھیجنے کے لئے حدیث کساء سے استشہاد کر رہے ہیں کہ نبی کریمؐ نے حدیث کساء میں اپنے آپ کو اہلبیت علیھم السلام کا جزء قرار دیتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: "اَللّه ُمَّ اِنَّه ُمۡ مِنّی وَ اَنَا مِنۡه ُمۡ فَاجۡعَلۡ صَلَواتِکَ وَ بَرَکاتِکَ وَ رَحۡمَتَکَ و مَغۡفِرَتَکَ وَ رِضۡوَانَکَ عَلَیَّ وَ عَلَیۡه ِمۡ"
یعنی اے میرے پروردگار! یہ (اہل بیت (ع)) مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں پس اپنی صلوات و برکات، رحمت و مغفرت اور رضوان مجھ پر اور ان پر قرار دے۔
پنجم: آلؑ محمدؐ پر صلوات کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضورؐ سرور کائنات نے آلؑ محمدؐ پر ترک صلوات کی ممانعت فرمائی ہے۔
ابن حجر نے کتاب صواعق محرقہ میں فضائل و مناقب اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں بیان کردہ آیات میں سے دوسری آیت کے ذیل میں حضور ؐ سرور کائنات سے یہ روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "لا تُصَلُّوا عَلَیَّ الۡصَّلوةَ الۡبَتۡرا، فَقالُوا وَ مَا الصَّلوةُ الۡبَتۡرا؟ قالَ: تَقوُلُونَ اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ تَسۡکُتوُنَ، بَلۡ قُولُوا : اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
" یعنی مجھ پر ناقص صلوات مت بھیجو۔ عرض کیا گیا: یہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ صرف "اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمّدٍ
" کہہ کر خاموش ہو جاؤ، بلکہ (مکمل طور پر) اس طرح کہنا چاہیے: "اَللّه ُمَّ صلِّ علی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
" (یعنی جس طرح مجھ پر صلوات بھیجتے ہو اسی طرح میری (آل پر بھی صلوات بھیجو)۔
نیز دیلمی
نے نقل کیا ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا:
"اَالدُّعاءُ مَحۡجُوبٌ حَتّی یُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِه
"
یعنی دعا حجاب میں رہتی ہے یعنی اس وقت تک مستجاب نہیں ہوتی جب تک کہ محمدؐ و آل محمد پر صلوات نہ بھیجی جائے۔
پس اس روایت میں ترک صلوات کی نہی و ممانعت سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اہل بدعت کون لوگ ہیں؟ اہل بدعت وہ لوگ ہیں جو ترک صلوات بر آل محمد پر اصرار کر رہے ہیں اور صلوات بر آلؑ محمدؐ جو کہ آیات و روایات کی روشنی میں ارکان دین میں سے ہے اسے دین سے خارج سمجھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آلِؑ محمدؐ پر صلوات بھیجنے پر دلالت کرنے والی روایات بیان کرتے ہیں تب بھی صرف پیغمبرؐ پر صلوات بھیجتے ہیں اور آلؑ محمدؐ کو ترک کر دیتے ہیں!!
نکتہ: متعصب ترین عالم اہل سنت ابن حجر مکی نے کتاب صواعق محرقہ میں ابو الشیخ دیلمی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا:
"مَنۡ لَمۡ یَعۡرِفُ حَقَّ عِتۡرَتی مِنَ الۡأَنۡصارِ وَ الۡعَرَبِ فَه ُوَ لِاِحۡدی ثَلاث: اِمّا مُنافِقٌ وَ اِمّا وَلَدٌ زانِیَةٌ وَ اِمّا اِمۡرَءٌ حَمَلَتۡ بِه اُمُّه ُ فی غَیرِ طُه ۡرٍ
"
جس نے میری عترت کے حق کو نہ پہچانا چاہے وہ میرے انصار میں سے ہو، عرب ہو یا غیر عرب وہ تین میں سے ایک ہے: یا منافق ہے یا ولد الزنا (ناجائز اولاد) ہے یا ولد حیض (نجس اولاد) ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس روایت میں ہے کہ "مَنۡ لَمۡ یَعۡرِفۡ حَقَّ عِتۡرَتی
" (جس نے میرے اہل بیت علیھم السلام و عترت کے حق کو نہ پہچانا) پس جب اس روایت کو آیت مودت کے ساتھ ضمیمہ کریں تو حق و مودت اہل بیت علیھم السلام کے اظہار کے لئے کم از کم اتنا ضروری ہے کہ جب ان کے جد کا نام مبارک لیا جائے تو ان پر صلوات بھیجی جائے اور یہ بنو امیہ و بنی عباس و دشمنان اہل بیت علیھم السلام ہیں کہ جو اہل بیت علیھم السلام سے اپنے بغض کی وجہ سے ان پر درود و سلام برداشت نہیں کرتے اور ان لوگوں نے اہل سنت کو اتنا متاثر کیا ہے کہ انکی عوام خصوصاً عالم نما جُھال، اہل بیت علیھم السلام پر صلوات کو بدعت سمجھتے ہیں۔
فضائل اہل بیت علیھم السلام و علی بن ابی طالب‘ کے بارے میں کتب اہل سنت میں روایات کا ایک سلسلہ
اب وقت ہے کہ ہم کتب اہل سنت میں سے فضائل اہل بیت کے بارے میں ۷۰ روایات اور فضائل امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ۴۰ روایات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کریں تاکہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہوجائے۔
فضائل اہل بیت علیھم السلام (کے بارے میں کتب اہل سنت سے ۷۰ روایات)
۱ ۔ فخر رازی اپنی تفسیر کبیر، ج ۷ ، ص ۴۰۵ میں صاحب تفسیر کشاف (زمخشری) و امام اصحاب حدیث احمد ثعلبی سے آیۂ مودت (شوریٰ/ ۲۳) کے ذیل میں محبت و مودّت اہل بیت رسولؐ کو ارکان اسلام میں سے شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: "جو اس عقیدہ کا مخالف ہو وہ ناصبی اور دین سے خارج ہے"۔
پھر اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ "عبد اللہ بن حامد اصفہانی نے اپنی اسناد کے مطابق جریر بن عبد اللہ بجلی سے روایت کی ہے کہ رسول مکرم ختمی مرتبت حضرت محمدؐ مصطفی نے فرمایا:
" َ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيداً، وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوراً لَهُ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُؤْمِناً مُسْتَكْمِلَ الْإِيمَانِ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ مُنْكَرُ وَ نَكِيرُ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ يُزَفُّ إِلَى الْجَنَّةِ كَمَا تُزَفُّ الْعَرُوسُ اِلَى بَيْتِ زَوْجِهَا، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَهُ فِي قَبْرِهِ بابانِ اِلَى الْجَنَّةِ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللَّهُ قَبْرَهُ مَزَارَ مَلَائِكَةِ الرَّحْمَةِ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَى السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ آئِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ كَافِراً، اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشُمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ
"
جو شخص آلؑ محمدؐ کی محبت پر مر جائے وہ شہید مرتا ہے، جو آلؑ محمدؐ کی محبت پر مر جائے وہ مغفور ہوکر مرتا ہے، جو آلؑ محمدؐ کی محبت پر مرجائے وہ تائب ہوکر مرتا ہے، جو آلِؑ محمدؐ کی محبت پر مر جائے وہ مؤمن مرتا ہے اور ایمانِ کامل کے ساتھ دنیا سے جاتا ہے، جو آلِ محمدؐ کی محبت پر مر جائے ملک الموت اور منکر و نکیر اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں، جو آلؑ محمدؐ کی محبت پر مر جائے اسے بہشت کی جانب اس طرح لے جایا جائے گا جس طرح سجی سجائی دلہن کو اس کے شوہر کے گھر لے جایا جاتا ہے، جو شخص آلِؑ محمدؑ کی محبت میں مر جائے تو اس کی قبر میں بہشت کی جانب دو دروازے کھول دیئے جائیں گے، جو آلِؑ محمدؐ کی محبت میں مرجائے اس کی قبر ملائکہ کی زیارت گاہ بن جاتی ہے، جو آلؑ محمدؐ کی محبت پر مر جائے وہ گویا سنت و جماعت کے طریقہ پر مرا ہے۔
اور جو دشمنی آلِؑ محمدؐ پر مرے قیامت کے دن اسکی پیشانی پر لکھا جائے گا کہ یہ شخص رحمتِ خدا سے مایوس ہے، جو شخص اہل بیت کی دشمنی پر مرے وہ کافر مرتا ہے، جو شخص آلؑ محمدؐ کی دشمنی پر مرا وہ جنت کی بُو تک نہ سونگھ پائے گا۔
اس روایت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ "حبّ آلِؑ محمدؐ" کے امتیازات کے علاوہ اس میں بغض آلِؑ محمدؐ کے نتائج بھی بیان کئے گئے ہیں۔ نیز حقیقی اہل سنت و الجماعت، محبین آلؑ محمد کو کہا گیا ہے جو کہ شیعیان آلِؑ محمدؐ ہیں۔
اس موقع پر یہ بیان کر دینا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ جب ہم اس روایت کو عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہ روایت نبوی بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جس میں حضورؐ سرور کائنات نے فرمایا:
"مَنْ مَاتَ وَ لمۡ یَعۡرِفُ اِمامَ زَمانِه ماتَ مَیۡتَةَ الۡجاه ِلیَّةِ
"
جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ لہذا یہ بات واضح ہے کہ جو شخص آلؑ محمد کو نہ پہچانے، دل میں انکی محبت نہ رکھتا ہو اور انہیں پیغمبر اسلام کا جانشین تسلیم نہ کرتا ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کی موت ان لوگوں کی طرح ہے جو خدا و رسولؐ کی معرفت کے بغیر مرجاتے تھے۔
۲ ۔ شیخ سلیمان بلخی نے ینابیع المودہ میں، جلال الدین سیوطی نے اِحیاء المیت (فضائل اہل بیت، حدیث دوئم) میں، ابن منذر و ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے سورہ شوریٰ کی ۲۳ ویں آیہ کے ذیل میں اپنی اپنی تفسیر میں، طبرانی نے معجم کبیر میں اور واحدی نے اپنی سند کے مطابق اعمش سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:
"قالَ : لَمّا نَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ
(
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
)
قالوُا: یا رَسوُلَ الله مَنۡ قَرابَتُکَ ه ؤُلاءِ الّذینَ وَجَبَتۡ عَلَیۡنا مَوَدّتُه ُمۡ ؟ قالَ صَلی الله علیه وآله : عَلیُّ وَ فاطِمَةُ وَ وَلَداه َما
"
ابن عباس کہتے ہیں: جب آیۂ(
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
)
نازل ہوئی تو کچھ اصحاب نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! آپؑ کے جن اقربی کی محبت و مودّت ہم پر واجب کی گئی ہے وہ کون ہیں؟ فرمایا: یہ علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور ان کے دونوں فرزند حسن و حسین‘ ہیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان بلخی نے ینابیع المودۃ کے باب ۶۵ کے آغاز میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
"قالَ الۡاِمامُ فَخۡرُ الدّینِ الرّازی: رُوِیَ اَنَّه ُ: قیلَ یا رَسوُلَ الله مَنۡ قَرابَتُکَ الّذینَ وَجَبَتۡ عَلَیۡنا مَوَدّتُه ُمۡ، فَقالَ: عَلیُّ وَ فاطِمَةُ وَ اِبۡناه ُما فَثَبَتَ اَنَّ ه ؤُلاءِ الۡاَرۡبَعَة ه ُمُ الۡمَخۡصوُصوُنَ بِمَزیدِ الۡمَوَدَّةِ وَ التَّعۡظیمِ
"
فخر رازی کا کہنا ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ بعض اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے جن اقربی کی محبت و مودّت کو واجب قرار دیا گیا ہے وہ کون ہیں؟ فرمایا: علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور انکے دونوں فرزند حسن و حسین‘۔
فخر رازی کہتے ہیں: پس بتحقیق یہ چار افراد وہ ہیں جنکی مودّت و تعظیم میں خصوصیت سے اہتمام کیا گیا ہے۔
۳ ۔ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل
میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ
میں جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل بیت علیھم السلام حدیث سوم میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اِبۡنُ اَبی حاتَم عَنۡ اِبۡنِ عَبّاس فی قَوۡلِه تَعالی
(
وَمَنۡ یَقۡتَرِفۡ حَسَنَةً
)
، قالَ: اَلۡمَوَدَّةُ لِآلِ مُحَمَّدٍ ﷺ
"
ابن ابی حاتم نے آیۂ مودت کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں: اس آیت کریمہ میں حَسَنہ و نیک عمل بجا لانے سے مراد مودّت آل محمدؐ ہے۔
نیز تفسیر صافی
میں امام حسن مجتبیٰ سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "اِقۡتِرافُ الۡحَسَنَةِ مَوَدَّتُنا اَه ۡلُ الۡبَیۡت
" یعنی آیت میں حسنہ اور نیک عمل بجا لانے سے مراد ہم اہل بیتؑ کی محبت ہے۔
۴ ۔ جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت حدیث چہارم میں، نیز تفسیر در منثور میں، اسی طرح امام الحرم احمد بن عبد اللہ شافعی (محب الدین طبری) نے ذخائر العقبیٰ
میں اس طرح روایت کی ہے کہ:
"اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ وَ التِّرۡمذی وَ صَحَّحَه ُ، وَ النِّسائی وَ الۡحاکِمُ عَنِ الۡمُطَّلِبِ بن رَبیعَةِ قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ ﷺ: وَ الله ِ لا یَدۡخُلُ قَلۡبَ امۡرِءٍ حَتّی یُحِبَّکُمُ الله َ
وَ لِقِرابَتی
"
احمد بن حنبل، ترمذی
، نسائی اور حاکم نے مطلب بن ربیعہ سے روایت کی ہے: رسولؐ خدا نے فرمایا: خدا کی قسم! کسی کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ تم (خاندان اہل بیت) سے اللہ کے لئے اور مجھ سے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔
۵ ۔ حضرمی نے قول الفصل
میں، ابن بیطار دمشقی نے نقد عین المیزان
میں اور جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت، حدیث پنجم میں اس طرح روایت کی ہے: "اَخۡرَجَ مُسۡلِمُ وَ الۡتِّرۡمذی وَ النِّسائی عَنۡ زیۡدِ بن اَرۡقَم اَنَّ رَسوُلَ الله ِ ﷺ قالَ: اُذَکِّرُکُمۡ الله َ فی اَه ۡلِ بَیۡتی
"
مسلم، ترمذی و نسائی نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے ڈرو، کہ کہیں تم ان سے دور نہ ہوجاؤ۔
صحیح مسلم، ج ۷ ، باب فضائل علی بن ابی طالب‘، حدیث پنجم میں زید ابن ارقم سے مفصل طور پر نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے تین مرتبہ اس جملہ کو دہرایا۔
۶ ۔ شیخ سلیمان بلخی
و جلال الدین سیوطی (احیاء ء المیت بفضائل اہل البیت حدیث نمبر ۹) نے روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ التِّرۡمذی و الطّبرانی عَنۡ اِبۡنِ عَباس، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ِ صَلّی الله علیه وآله : اَحِبُّو الله لِما یَغۡدُوکُمۡ بِه مِنۡ نِعَمِه وَ اَحِبُّونی لِحُبِّ الله ِ وَ اَحِبُّو اَه ۡلَ بَیۡتی لِحُبّی
"
ترمذی و طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: خدا سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں اور حب الٰہی کے لئے مجھ سے محبت کرو اور مجھ سے محبت کے خاطر میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
شیخ سلیمان، ینابیع المودۃ، باب ۵۸ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتےہیں: ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ بیہقی نے "شعب الایمان" میں اسے نقل کیا ہے اور حاکم نے اسے قبول کرتے ہوئے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
۷ ۔ نیز موصوف
، مناقب اہل بیت میں نقل کرتے ہیں:
"عَنۡ ابن مسعود رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آله ِ: حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ یَوۡماً خَیۡرٌ مِنۡ عِبادَةِ سَنَةٍ
"
ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: محبت اہل بیت علیھم السلام کا ایک دن ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
شیخ سلیمان ، ینابیع المودۃ کے باب ۵۶ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ روایت صاحب فردوس نے بھی نقل کی ہے۔
۸ ۔ جلال الدین سیوطی نے کتاب احیاء المیت بفضائل اہل البیت علیھم السلام میں حدیث نمبر ۱۰ یہ روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الۡبُخاری عَنۡ اَبی بَکر الصِّدیقِ، قالَ، قالَ رَسوُلُ الله ﷺ:اِرۡقَبُوا مُحَمَّداٍﷺ فی اَه ۡلِبَیۡتِه
"
بخاری نے حضرت ابوبکر سے روایت کی ہے وہ کہتےہیں: رسول خدا نے فرمایا: محمدؐ کی انکے اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں رعایت کرو۔
یہ روایت ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ
میں نقل کی ہے۔
نکتہ: اہل بیت کے بارے میں حضرت ابوبکر سے علمائے اہل سنت کی نقل کردہ اس روایت کی روشنی میں یہ سوال پیش نظر ہے، کیا رحلت رسول اکرمؐ کے بعد اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں حق پیغمبرؐ کی رعایت کی گئی یا نہیں؟! کیا حضرت ابوبکر نے سقیفہ و فدک کے مسئلہ میں اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں حق پیغمبرؐ کا خیال رکھا تھا؟ ہم نے اس سلسلہ میں "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " میں کتب اہل سنت سے استناد کرتے ہوئے حقائق بیان کئے ہیں لہذا وہاں رجوع فرمائیں۔
۹ ۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک
میں اور جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت میں حدیث نمبر ۱۱ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطِّبرانی و الۡحاکم عَنۡ اِبۡنِ عَباس، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ِ ﷺ:یا بَنی عَبۡدِ الۡمُطَّلِبِ اِنّی سَأَلۡتُ الله َ لَکُمۡ ثَلاثاً اَنۡ یُثَبِّتَ وَ اَنۡ یُعَلِّمَ جاه ِلَکُمۡ وَ یَه ۡدِیَ ضالَّکُمۡ وَ سَأَلۡتُه ُ اَنۡ یَجۡعَلَکُمۡ جَوۡداءَ بخداءَ رُحَماءَ، فَلَوۡ اَنَّ رَجُلاً صَفِنَ بَیۡنَ الرُّکۡنِ وَ الۡمَقامِ فَصَلّی وَ صامَ ثُمَّ ماتَ وَ ه ُوَ یُبۡغِضُ لِاَه ۡلِ بَیۡتِ مُحَمَّدٍ ﷺ دَخَلَ النّار
"
طبرانی و حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: اے فرزندان عبد المطلب! میں نے خداوند عالم سے تم لوگوں کے لئے تین چیزوں کا سوال کیا : تمہارے جاہل کو ثابت قدم و دانا بنا دے، تم میں سے گمراہ کی ہدایت فرمائے اور تمہیں صاحب بخشش و سخاوتمند اور رحم دل قرار دے پس اگر کوئی شخص رکن و مقام میں قدم رکھے (اور اپنی عمر) نماز و روزہ میں صرف کردے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ وہ دشمن اہل بیت علیھم السلام ہو تو دوزخ میں داخل ہوجائے گا۔
۱۰ ۔ شیخ سیمان نے ینابیع المودہ
میں، طبری نے ذخائر العقبیٰ
میں، جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت
میں کتاب کامل ابن عدی و زوائد المسند تالیف عبد اللہ بن احمد سے ابو سعید خدری کے حوالے سے روایت نقل کی ہے:
"عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری رَضِی الله عَنۡه ُ قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ ﷺ :مَنۡ اَبۡغَضَنَا اَه ۡلَ الۡبَیۡت فَه ُوَ مُنافِقٌ
"
مذکورہ راویوں نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا: جو شخص میرے اہل بیت علیھم السلام سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔
۱۱ ۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ
میں، حاکم نے مستدرک
میں اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیتؑ" حدیث نمبر ۱۴ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اِبنُۡ حَبّان عَنۡ اَبی سَعید، قالَ: قالَ رَسولُ الله ِﷺ: وَ الّذی نَفۡسی بِیَده ِ لا یُبۡغِضُنا اهل الۡبَیۡتِ رَجُلٌ اِلّا اَدۡخَلَه ُ الله ُ النّارَ
"
ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح (اور حاکم نے) او سعید خدری سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص ہم اہلبیت سے بغض رکھے گا خداوند عالم اسے آتش دوزخ کے حوالے کردے گا۔
۱۲ ۔ ہیثمی
نے مجمع الزوائد میں، جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت میں حدیث نمبر ۱۵ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطَّبَرانی عَنِ الۡحَسَنِ بں عَلی اَنَّه ُ قالَ لِمُعاوِیَة ابۡنِ حُدَیۡج: یا مُعاوِیَة بن حُدَیۡج اِیّاکَ وَ بُغضنا فَاِنَّ رَسولَ الله ﷺ قالَ: لا یُبۡغِضُنا اَحَدٌ وَلا یَحۡسدُنا اَحَدٌ اِلّا رَدَّ یَوۡمَ الۡقِیامَةِ عَنِ الۡحَوۡضِ بِسِیاطٍ مِنۡ نارٍ
"
طبرانی نے حسن بن علی‘سے روایت کی ہے کہ آپ نے معاویہ بن حُدَیج سے فرمایا: ہم سے بغض و دشمنی مت رکھو، کیونکہ رسولؐ خدا نے فرمایا ہے: جو شخص ہم سے بغض و دشمنی اور حسد رکھتا ہے قیامت کے دن اسے حوض کوثر سے آتشی تازیانے نے مارکر پلٹا دیا جائے گا۔
۱۳ ۔ ابن حجر
نے ابو الشیخ دیلمی سے اور جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت حدیث نمبر ۱۶ میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اِبۡنُ عُدَی وَ البیه َقّی فی شعب الایمان عَنۡ عَلیٍّ، قالَ: قالَ رسولُ الله ﷺ: مَنۡ لَمۡ یَعۡرِفۡ حَقَّ عِتۡرتی مِنَ الانۡصارِ و الۡعَرَبِ فَه ُوَ لِاِحۡدی ثَلاث: اِمّا مُنَافق و اِمَّا وَلَدٌ زانیَةٌ وَ اِمّا امۡرَءٌ حَمَلَتۡ بِه اُمُّه ُ فی غَیۡرِ طُه رٍ
"
ابن عدی و بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جو شخص میری عترت و اہل بیت علیھم السلام کے حق کو نہ پہچانے چاہے وہ انصار میں سے ہو یا چاہے عرب و غیر عرب ہو وہ تین چیزوں میں سے ایک ہے: یا منافق ہے، یا ولد الزنا ہے یا ولد حیض ہے۔
۱۴ ۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد
، جلال الدین سیوطی نے کتاب احیاء المیت بفضائل اہل البیت علیھم السلام حدیث نمبر ۱۷ اور شیخ سلیمان
نے بنابر نقل از صواعق محرقہ (فضائل اہل بیت کے بارے میں چوتھی آیت کے ذیل میں) روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطَّبَرانی فی الاَوۡسَطِ عَنۡ اِبۡنِ عُمَر، قالَ: آخِرُ ما تَکَلَّمَ بِه رَسُولُ الله ﷺ: اُخۡلُفُونی فی اَه ۡل بَیۡتی
"
طبرانی نے معجم الاوسط میں ابن عمر سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں رسولؐ خدا کی زندگانی کا آخری کلام یہ تھا کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: میرے اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ برتاؤ میں میرے جانشین رہنا یعنی میں دیکھان ہوں کہ تم لوگ میرے اہل بیت کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہو۔
۱۵ ۔ شیخ سلیمان
نے بنابر نقل از ابی لیلی، ہیثمی
، ابن حجر مکی
، اور جلال الدین سیوطی کی کتاب "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۱۸ سے روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطَّبَرانی فی الاَوۡسَطِ عَنۡ الحسن بن علی اَنّ رَسُولَ الله ﷺ، قالَ: اِلْزَمُوا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللَّهَ تعالی وَ هُوَ يَوِدُّنا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُه ُ الَّا بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا
"
طبرانی نے معجم الاوسط میں حسن بن علی‘ سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: ہم اہل بیت کی محبت و مودت کو لازم سمجھو، بیشک جو شخص ہماری محبت و مودت کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا وہ ہماری شفاعت کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجائے گا۔ قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ہمارے حق کی معرفت کے بغیر کسی بندے کو اس کا کوئی عمل فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
نکتہ: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ اعمال کے قبول ہونے کی ایک شرط معرفت حق اہل بیت بھی ہے جو کہ رسول ؐ اللہ کے برحق جانشین ہیں۔ لہذا روایات میں ہے کہ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے گویا اس نے خدا وند عالم کی جانب سے کسی قسم کی ہدایت نہیں حاصل کی۔
۱۶ ۔ ابن حجر نے لسان المیزان
اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۱۹ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطَّبَرانی فی الاَوۡسَطِ عَنۡ جابرِ بن عَبۡد الله ، قالَ: خَطَبَنا رَسوُلُ الله ِ ﷺ، فَسَمِعۡتُه ُ وَ ه ُوَ یَقُولُ: اَیُّه َا النّاسُ مَنۡ اَبۡغَضَنا اَه ۡل الۡبَیۡتِ حَشَره ُ الله ُ تَعالی یَوۡمَ الۡقیامَةِ یَه ُودیّاً
"
طبرانی نے معجم الاوسط میں جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ جابر کہتے ہیں میں نے سنا کہ حضورؐ سرور کائنات نے ایک خطبہ کے دوران ہم سے فرمایا: لوگو! جو شخص ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی رکھے گا خداوند عالم قیامت میں اسے یہودی محشور کرے گا۔
نکتہ: رحلت رسولؐ اللہ کے بعد ایسے حالات و واقعات رونما ہوئے جن میں منافقین کے دلوں میں چھپے ہوئے بغض و عناد، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکی شہادت اور غب خلافت امیر المؤمنین کا سبب قرار پائے۔ اور اس سلسلہ میں کتب اہل سنت میں ایسے حقائق بیان کئے گئے ہیں جنہیں ہم نے مجموعی طور پر اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " میں ثبت کر دیئے ہیں لہذا تفصیل کے لئے وہاں رجوع فرمائیں۔
۱۷ ۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیتؑ کے بارے میں بیان کردہ آیات میں سے ساتویں آیت کے ذیل میں اس سلسلہ میں احمد و حاکم وغیرہ
سے چار روایات نقل کی ہیں، شیخ سلیمان
نے مستنداً نوادر الاصول
سے انہوں نے موسیٰ بن عبیدہ سے انہوں نے ایان بن سلمہ بن اکوع سے انہوں نے اکوع سے روایت کی ہے اور سیوطی نے کتاب "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۲۱ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اخرج ابن ابی شیبه و الحکیم الترمذی فی نوادِرِ الۡاُصُولِ وَ اَبُو یَعلی وَ الطَّبَرانی عَنۡ سَلَمَة بن الاَکوَع، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ﷺ: النُّجومُ اَمانٌ لِاَه ۡلِ السّماءِ وَ اَه ۡلُ بَیۡتی اَمانٌ لِاُمَّتی
"
مذکورہ روایوں نے سلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں اسی طرح میرے اہل بیت میری امت کے لئے امان ہیں۔
نکتہ: ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ساتویں آیت کے ذیل میں حاکم نیشاپوری سے ایک روایت نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روایت مسلم و بخاری کی شرائط کے مطابق بھی صحیح ہے اور وہ روایت یہ ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا:
"فَاِذۡ خالَفۡتُه مۡ قَبیلَةٌ مِنَ الۡعَرَبِ اِخۡتَلَفُوا فَصارُوا حِزۡبَ اِبلیس
" پس جب عرب (و غیر عرب) کا ایک قبیلہ میرے اہل بیت کی مخالفت کرے تو یاد رکھو یہ مخالفین حزب ابلیس سے ہوں گے۔
پس حاکم نیشاپوری کی اس روایت کی روشنی میں یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ خلافت علی بن ابی طالب‘ کو غصب کرنے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکو اذیت دینے اور حضرت علی و امام حسن و امام حسین علیھم السلام سے جنگ کرنے والوں کا تعلق حزب ابلیس سے تھا۔
ہم کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی ؑ" میں غصب خلافت علی بن ابی طالب‘ و ثقیفہ کے واقعہ، درخانہ زسیدہ سلام اللہ علیھا کو آگ لگانے، جنگ جمل و صفین و نہروان، شہادت امام حسن و امام حسین‘ اور شہادت امیر المؤمنین پر بعض دشمنان اہل بیت کے سجدہ شکر کرنے کے بارے میں تفصیل سے مطالب ذکر کرچکے ہیں لہذا وہاں رجوع کیا جاسکتا ہے۔
۱۸ ۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ یں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ساتویں آیت کے ذیل میں، طبرانی
نے معجم الصغیر میں، حموینی نے فرائد السمطین میں، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اور جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت میں حدیث نمبر ۲۷ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطَّبَرانی فی الاَوۡسَطِ عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری، قالَ: سَمِعۡتُ رَسوُلَ الله ِ ۡ یَقُولُ : اِنَّه ا مَثَلُ اَهْلِ بَيْتِي كَمَثْلِ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَی وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ وَ اِنَّه ا مَثَلُ اَه ۡلِ بَیۡتی فیکُمۡ مَثَلُ بَابِ حِطَّة فی بَنی اِسۡرائیل مَنۡ دَخَلَه ُ غُفِرَ لَه ُ
"
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسولؐ خدا سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی مانند ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جس نے اس سے دوری اختیار کی وہ غرق ہوگیا اور یاد رکھو تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال بنی اسرائیل میں باب حطّہ جیسی ہے (مغفرت در بیت المقدس) جو اس میں داخل ہوگا مغفرت پائے گا۔
نکتہ: ابن حجر مکی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ساتویں آیت(
وَمَا کَانَ الله ُ لِیُعَذِّبَه ُمۡ وَ أَنتَ فِیه ِم
)
کے ذیل میں روایت سفینہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
بتحقیق خداوند عالم نے تمام عالم کو حضرت ختمی مرتبت پیغمبر اکرمؐ کے خاطر خلق فرمایا ہے
، پس اس نے اس کائنات کی بقاء نبیؐ و اہل بیت نبی کی بقاء پر منحصر قرار دی ہے۔ کیونکہ رسولؐ اللہ اور اہل بیت رسولؐ پانچ چیزوں میں برابر ہیں ( ۱ ۔ اسلام، ۲ ۔ صلوات، ۳ ۔ طہارت، ۴ ۔ محبت و مودّت، ۵ ۔ تحریم صدقہ)
نیز رسولؐ اللہ نے انکے حق میں فرمایا ہے: "الله ُمَّ اِنَّه ُمۡ مِنّی و اَنَا مِنۡه ُم
" اے پروردگار! یہ اہل بیت مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں؛ اور چونکہ اہل بیت علیھم السلام اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے توسط سے رسولؐ اللہ کے پارۂ تن ہیں پس اہل بیت رسولؐ بھی رسولؐ اللہ کی طرح (جیسا کہ سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ میں آیا ہے) امان کا باعث ہیں۔ اہلبیت علیھم السلام اور کشتی نوحؑ میں وجہ شباہت یہ ہے کہ جو شخص بھی اہل بیت سے مودّت رکھے گا، انکا احترام کرے گا اور ہدایت کے سلسلہ میں ان سے متمسک رہے گا تو گمراہی مخالفت سے نجات پائے گا اور جو ان سے دوری کرے گا وہ دریائے کفر ان نعمت میں ڈوب کر غرق ہوجائے گا۔
نیز باب الحطّہ (جو کہ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک ہے) اور اہل بیت علیھم السلام میں وجہ شباہت یہ ہے کہ خداوند عالم نے یہ حکم صادر کیا تھا کہ جو بھی اس دروازے سے عجز و انکساری اور استغفار کے ساتھ داخل ہوگا مٖغفرت الٰہی اس کے شامل حال ہوگی اسی طرح مودّت اہل بیت کی وجہ سے مغفرت الٰہی حاصل ہوگی۔
۱۹ ۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ
میں، جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۲۹ کے ذیل میں اس طرح روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطبرانی عَنۡ عُمَر، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ﷺ: کُلُّ بَنی اُنۡثی فَاِنَّ عُصۡبَتَه ُمۡ لِاَبیه ِمۡ ما خَلا وُلۡدِ فاطِمَة فَاِنّی عُصۡبَتُه ُمۡ فَاَنَا اَبوُه ُمۡ"
طبرانی نے حضرت عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: فاطمہ زہراؑ کے علاوہ ہر بیٹی کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے لیکن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکی اولاد کا مُکھ اور باپ میں ہوں۔
نکات:
اس روایت کے سلسلہ میں دو نکات بیان کرنا ضروری ہیں:
۱ ۔ امام حسن و امام حسین اور انکی اولاد قطعی طور پر فرزندان و اولاد رسولؐ خدا ہیں جیسا کہ ہم اسی باب (باب سوم) کی پہلی فصل کے آخر میں "ذکر فاطمہ، و ابیھا و بعلھا و بنیھا" سے قبل ثابت کرچکے ہیں۔
ہم کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علیؑ
" میں آیات و احادیث کی روشنی میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں؛ اس لئے اصحاب ائمہ وغیرہ جو لوگ اس زمانہ میں موجود تھے وہ انہیں "فرزند رسولؐ کہہ کر خطاب کرتے تھے۔
۲ ۔ اولاد حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کا اولاد رسول ؐ ہونا اتنا واضح و آشکار ہے کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے اپنی کتاب ینابیع المودۃ کے باب نمبر ۵۷ کا یہی عنوان قرار دیا ہے اور اس سلسلہ میں متعدد روایات ثبت کی ہیں؛ اور جیسی روایت ہم نے نقل کی ہے ایسی ہی ایک روایت حضرت عمر سے نقل کرکے لکھا ہے:
"اَخۡرَجَ اَبو صالح و الحافظ عبد العزیز بن الاَخضر وَ اَبو نعیم فی مَعۡرفَةِ الصَّحَابة و الدَّارُ قِطۡنی وَ الطّبرانی فی الاَوسط
"
یہ روایتِ حضرت عمر (کہ فرزندان فاطمہ قطعاً فرزندان رسولؐ خدا ہیں) ابو صالح و حافظ عبد العزیز بن اخضر، دار قطنی، ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ میں، اور طبرانی نے کتاب الاوسط میں نقل کی ہے۔
۲۰ ۔ شیخ سلیمان بلخی
نے بنابر نقل از "جواہر العقدین" تالیف سمہودی سے مستنداً حضرت فاطمہ بنت الحسین‘سے روایت کی ہے انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا ع سے اور انہوں نے رسول خداؐ سے روایت کی ہے ۔ جلال الدین سیوطی نے کتاب "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۳۰ بنابر نقل از طبرانی روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الطبرانی عَنۡ فاطمة الزه راء رَضِیَ الله عَنۡه ا، قالَتۡ: قالَ رسول الله ﷺ: کُلُّ بَنی اُمّ ینتموُنَ اِلی عُصۡبَةٍ اِلّا وُلۡدِ فاطِمَة فَاَنَا وَلِیُّه ُمۡ وَ اَنَا عُصۡبَتُه ُمۡ"
طبرانی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاسے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: ہر عورت کے بچے اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن فاطمہ زہرا کے بچوں کا میں ولی و بزرگ اور اصل و اساس ہوں۔
نکتہ: یہ روایت ابو المویّد نے کتاب "مقتل الحسین
" میں بھی نقل کی ہے۔
شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ کے باب نمبر ۵۷ کے اوائل میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : "اَخۡرَجَه ُ اَبوُ یَعۡلی و الۡحافظ عبد العزیز بن الۡاَخضَر فی الۡمَعالِمِ الۡعِتۡرَةِ النَّبَوِیَّةِ، وَ اِبۡنُ اَبی شیبه وَ الۡخَطیبُ الۡبَغۡدادی فی تاریخِه
" یعنی یہ روایت ابو یعلیٰ، حافظ عبد العزیز بن اخضر نے کتاب "معالم العترۃ النبویہ" میں، ابن ابی شیبہ اور خطیب بغدادی نے بھی اپنی کتاب تاریخ میں نقل کی ہے۔
۲۱ ۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک
میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ
میں، جلال الدین سیوطی نے " احیاء المیت بفضائل اہل البیت" میں حدیث نمبر ۳۶ اس طرح روایت کی ہے: "عَنۡ اَنَس، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ ﷺ: وَعَدَنی رَبّی فی اَه ۡلِ بَیۡتی مَنۡ اَقَرَّ مِنۡه ُمۡ بِالتَّوحیدِ و لیّ بِالۡبَلاغِ اَنۡ لا یُعَذّبَهم
" یعنی انس کہتے ہیں کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: خداوند عالم نے مجھ سے میرے اہل بیت کے بارے میں وعدہ کیا ہے کہ جو بھی ان میں سے توحید کا اقرار کرے گا بلافاصلہ اسے یہ پیغام دیا جائے گا کہ خدا اس پر عذاب نہ کرے گا۔
۲۲ ۔ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر، جلد نمبر ۳۰ ، ص ۲۳۲ میں جلال الدین سیوطی نے کتاب "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۳۷ میں اس طرح روایت کی ہے : "عَنۡ اِبۡنِ عَبّاس فی قَوۡلِه تَعالی
:(
وَ لَسَوۡفَ یُعۡطیکَ رَبُّک فَتَرۡضی
)
،قالَ: مِنۡ رِضی مُحَمَّدٍ اَنۡ لا یَدۡخُلَ اَحَدٌ مِنۡ اَه ۡلِبَیۡتِه ِ النّار
َ"
یعنی قول خداوندی:(
وَ لَسَوۡفَ یُعۡطیکَ
)
یعنی پروردگار تمہیں اتنا عطا کرے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے، کے ذیل میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ اس وقت راضی ہونگے جبکہ اہل بیت میں سے کوئی ایک فرد بھی آگ میں نہ جائے گا۔
نکتہ: حاکم حسکانی نے "شواہد التنزیل" جلد ۲ ، ص ۳۴۵ میں رسولؐ اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں اپنی امت کی اس وقت تک شفاعت کروں گا یہاں تک کہ خداوند تعالیٰ کی آواز آئے گی "یا محمد آپ راضی ہوگئے" میں کہوں : ہاں پروردگار! اب میں راضی ہوگیا۔
ایک دوسری روایت میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: "یَدۡخُلُ الله ُ ذُرّیَّتَه ُ الۡجَنَّةَ
" خداوند متعال ذریت محمد مصطفی کو بہشت میں داخل فرمائے گا۔
۲۳ ۔ "عَنۡ عَلیٍّ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ﷺ: شَفاعَتی لِاُمَّتی مَنۡ اَحبَّ اَه ۡلَ بَیۡتی
"
خطیب بغدادی نے کتاب "تاریخ بغداد
" اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۴۱ کے ذیل میں روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: رسولؐ خدا نے فرمایا: میری امت میں سے ان لوگوں کو میری شفاعت نصیب ہوگی جو میرے اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے ہوں گے۔
۲۴ ۔ "اَخۡرَجَ الطّبرانی عَنۡ اِبۡنِ عُمَر، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ﷺ: اَوَّلُ مَنۡ اَشۡفَعُ لَه ُ مِنۡ اُمَّتی اَه ۡل بَیتی
" ابن حجر نے صواعق محرقہ، ص ۲۲۳ میں، جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیتؑ" حدیث نمبر ۴۲ کے ذیل میں روایت کی ہے : طبرانی نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: میں اپنی امت میں جنکی سب سے پہلے شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں۔
۲۵ ۔ "اَخۡرَجَ الطَّبَرانی عَنِ الۡمُطَّلِبِ بن عَبۡدِ الله ابۡنِ حنطب عَنۡ اَبیه ِ قالَ: خَطَبَنا رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه بِالۡجُحۡفَةِ فَقالَ: اَلَسۡتُ اَوۡلی بِکُمۡ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ قالوُا: بَلی یا رَسوُلَ الله ، قالَ: فَاِنّی سائِلُکُمۡ عَنۡ اِثنَیۡنِ عَنِ الۡقُرآنِ وَ عَنۡ عِتۡرَتی
"
ابن اثیر نے "اُسد الغابہ" ج ۳ ، ص ۱۴۷ میں اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۴۳ کے ذیل میں روایت کی ہے: طبرانی نے مطلب بن عبد اللہ سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ر سولؐ خدا نے جحفہ میں تقریر کرنے کے بعد فرمایا: کیا میں تم سے زیادہ تم پر اولویت نہیں رکھتا؟ سب نے کہا: کیوں نہیں یا رسولؐ اللہ۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: میں تم سے دو چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا؛ قران اور اپنے اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں (کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا)۔
سوال: رسولؐ اکرم کی رحلت کے بعد امت نے اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ کیا برتاؤ کیا آخر ایسے کون سے حالات و واقعات رونما ہوئے جنکی وجہ سے بنو امیہ روز بروز قدرتمند اور اہلبیت علیھم السلام رسولؐ خدا گوشہ نشین ہوگئے؟ نیز قران کریم و کاتبان وحی کے ساتھ کیا رویہ اپنایا گیا؟
جواب: ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " میں علمائے اہل سنت کی کتب سے استناد کرتے ہوئے چند حقائق بیان کئے ہیں معلومات کے لئے وہاں رجوع فرمائیں۔
۲۶ ۔ شیخ سلیمان نے سمہودی کی کتاب جواہر العقدین سے اپنی کتاب ینابیع المودۃ
میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے کتاب مناقب امیر المؤمنین میں اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیتؑ" حدیث نمبر ۴۴ میں روایت کی ہے: "اَخۡرَجَ الطبرانی عَنۡ اِبۡنِ عباس، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : لا تَزُولُ قَدَما عَبد حتّی یُسأَلَ عَنۡ اَرۡبَع: عَنۡ عُمۡرِه ِ فیما اَفۡناه ُ وَ عَنۡ جَسَدِه ِ فیما اَبۡلاه ُ وَ عَنۡ مالِه ِ فیما اَنۡفَقَه ُ وَ مِنۡ اَیۡنَ اِکۡتَسَبَه ُ وَ عَنۡ حُبِّنا اهل البیت
"
طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا سے فرمایا: قیامت میں ہر بندہ سے قدم قدم پر چار چیزوں سے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
۱ ۔ اپنی عمر کو اس نے کہاں صرف کیا ہے؟
۲ ۔ اپنی جوانی کو کہاں خرچ کیا ہے؟
۳ ۔ اپنا مال و متاع کس طرح کمایا اور کس طرح خرچ کیا ہے؟
۴ ۔ اور ہم اہل بیت علیھم السلام کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
نکتہ: اسی جیسی روایت شیخ سلیمان
نے حموینی سے مسنداً نقل کی ہے انہوں نے داؤد بن سلیمان سے انہوں نے علی بن موسی الرضاؑ سے انہوں نے اپنے جدّ امیر المؤمنین سے انہوں نے رسولؐ خدا سے روایت نقل کی ہے۔
۲۷ ۔ ابن حجر
نے ابن عاصم سے، شیخ سلیمان
نے طبرانی کی الاوائل اور دیلمی کی مسند اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیتؑ" حدیث نمبر ۴۵ کے ذیل میں اس طرح روایت کی ہے:
"عَنۡ علیٍّ سَمِعۡتُ رَسوُلَ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه یَقُولُ: اَوَّلُ مَنۡ یَرِدُ عَلَیَّ الۡحَوۡضَ اَه ۡلُ بَیۡتی
"
حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: رسولؐ خدا نے فرمایا: حوض کوثر پر سب سے پہلے میرے پاس پہنچنے والے میرے اہل بیت ہونگے۔
۲۸ ۔ جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیتؑ" حدیث نمبر ۴۶ میں، نیز سیوطی
، النبھانی
اور شیخ سلیمان
نے یوں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الدِّیۡلَمی عَنۡ عَلیٍّ، قالَ :قالَ رَسولُ الله صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اَدِّبُوا اَوۡلادَکُمۡ عَلی ثَلاثٍ خِصال: حُبِّ نَبِیِّکُمۡ وَ حُبِّ اَه ۡلِ بَیتِه و عَلی قِرائَةِ الۡقُرآنِ، فَاِنَّ حَمَلَةَ الۡقُرآنِ فی ظِلِّ الله ِ، یَوۡمَ لا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّه ، مَعَ اَنۡبِیائِه وَ اَصۡفِیائِه
"
دیلمی نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: اپنے بچوں کی تین چیزوں کے اعتبار سے تربیت کرو:
۱ ۔ اپنے پیغمبرؐ کی محبت و الفت سکھاؤ۔
۲ ۔ ان کے دلوں میں خاندان و اہل بیت رسولؐ خدا کی محبت ڈالو۔
۳ ۔ انہیں قرائت قران کے زیور سے آراستہ کرو۔ بیشک حاملان قران کریم قیامت میں انبیاء و اصفیاء کے ساتھ زیر سایۂ الٰہی ہونگے۔ اس دن جبکہ لطف و عنایت الٰہی کے علاوہ کسی سایہ کا وجود نہ ہوگا۔
۲۹ ۔ شیخ سلیمان
، ابن حجر مکی
، طبری
اور جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۴۸ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الدِّیۡلَمی عَنۡ عَلیٍّ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اَرۡبَعَةٌ اَنَا لَه ُمۡ شَفیعٌ یَوۡمَ الۡقِیامَةِ: اَلۡمُکۡرِمُ لِذُرِّیَّتی، وَ الۡقاضی لَه ُمُ الۡحوائِجَ، وَ السّاعی لَه ُمۡ فی اُمُورِه ِمۡ عِنۡدَمَا اضۡطرّوُا اِلَیۡه ِ، وَ الۡمُحِبُّ لَه ُمۡ بِقَلۡبِه وَ لِسانِه
"
دیلمی نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا: میں قیامت میں چار قسم کے لوگوں کی شفاعت کروں گا:
۱ ۔ جو میری ذریت کا احترام کریں گے۔
۲ ۔ جو میری اولاد کی ضروریات کو پورا کریں گے۔
۳ ۔ میری اولاد کسی کام میں مضطر اور پھنسی ہو ایسے میں جو لوگ انکے امور حل کرنے کی کوشش کریں۔
۴ ۔ جو قلب و زبان سے میرے اہل بیت علیھم السلام سے محبت کریں گے۔
۳۰ ۔ ابن حجر مکی
و جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۴۹ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الدِّیۡلَمی عَنۡ اَبیِ سَعید، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیه ِ وَ آلِه : اِشۡتَدَّ غَضَبُ الله ِ عَلی مَنۡ آذانی فی عِتۡرَتی
"
دیلمی نے ابو سیعد خدری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: خداوند متعال ان لوگوں پر غضب کی سختی کرے گا جنہوں نے میرے اہل بیت کو آزار و اذیت پہنچائی ہوگی۔ (کیونکہ میری عترت و ذریت کی اذیت ، میری اذیت ہوگی)۔
نکتہ: ابن مغازلی شافعی نے مناقب امیر المؤمنین میں بہی روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: خداوند عالم تین قسم کے لوگوں پر سخت غضبناک ہوگا:
۱ ۔ یہود، ۲ ۔ نصاریٰ، ۳ ۔ میرے اہل بیتؑ کو اذیت پہنچانے والے۔
پس یہاں ذہنو ں میں ایک سوال ابھرا ہے اور وہ یہ ہے کہ سقیفہ و فدک اور غصب خلافت اہلبیت کے موقع پر اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا؟ ہم نے اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام " میں علمائے اہل سنت کی مختلف کتب سے استناد کرتے ہوئے کچھ حقائق پیش کئے ہیں لہذا وہاں رجوع فرمائیں۔
۳۱ ۔ ابن حجر مکی
و جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت (ع)" حدیث نمبر ۵۶ کے ذیل میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اِبۡنُ عَساکِر عَنۡ عَلیٍّ ، قالَ: قالَ رَسُولُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیه ِ وَ آلِه : مَنۡ صَنَعَ اِلی اَحَدٍ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتی یَداً، کافَیۡتُه ُ یَوۡمَ الۡقِیامَةِ
"
ابن عساکر نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: جو شخص میرے اہل بیت میں سے کسی کی خدمت کرے ان پر اپنا حق قائم کرے گا تو میں قیامت میں اس کے نیک اعمال کا مداوا کروں گا۔
۳۲ ۔ جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اَہل البیت" حدیث نمبر ۵۷ اور شیخ سلیمان
نے بنابر نقل از الکبیر الطبرانی، صحیح ابن حبان، حاکم و بیہقی سے اس طرح روایت کی ہے:
"عَنۡ عایشة رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا اَنَّ النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آله وَ سَلَّمَ قالَ: سِتَّةٌ لَعَنۡتُه ُمۡ وَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ كُلُّ نَبِيٍّ مُجَابُ الدَّعۡوَةِ، اَلزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَ الْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ، وَ الْمُتَسَلِّطُ عَلی اُمَّتی بِالْجَبَرُوتِ لِيُذِلَّ مَنْ اَعَزَّهُ اللَّهُ وَ يُعِزَّ مَنْ أَذَلَّهُ اللَّهُ، و الْمُسْتَحِلُّ حُرۡمَةَ الله ِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ، وَ التَّارِکُ لِلسُّنَّةِ
"
حضرت عائشہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی ہے، خدا نے بھی ان پر لعنت کی ہے اور ہر مستجاب الدعوۃ نبی نے بھی ان پر لعنت کی ہے ، اور وہ افراد یہ ہیں:
۱ ۔ کتاب خدا میں کسی چیز کا اضافہ کرنے والے۔
۲ ۔ مقدّراتِ الٰہی کی تکذیب کرنے والے۔
۳ ۔ میری امت پر جبرا اور زبردستی مسلط ہونے والے لوگ تاکہ جسے خدا نے عزت عطا کی ہے اسے ذلیل کرسکیں؛ اور جسے خد انے ذلیل کیا ہے اسے عزت مآب بنا دیں۔
۴ ۔ خدا کے حرام کردہ کو حلال سمجھنے والے۔
۵ ۔ جس چیز کو خداوند عالم نے میرے اہل بیت علیھم السلام کے لئے حلال قرا ر دیا ہے اسے ان کے لئے حرام سمجھنے والے۔
۶ ۔ میری سنت کو ترک کرنے والے۔
نکتہ: شیخ سلیمان اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ روایت طبرانی نے معجم الکبیر میں، ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں، نیز بیہقی و حاکم نے بھی نقل کی ہے اور حاکم نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ یہ روایت "صحیح" ہے۔
۳۳ ۔ شیخ سلیمان
بنابر نقل از صواعق و طبرانی
اور جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۵۹ میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ الۡحاکِمُ فی تاریخِه وَ الدِّیۡلَمی عَنۡ اَبی سَعید، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ﷺ ، ثَلاثٌ مَنۡ حَفِظَه ُنَّ حَفِظَ الله ُ لَه ُ دینَه ُ وَ دُنۡیاه ُ وَ مَنۡ ضَیَّعه ُنَّ لَمۡ یَحۡفِظِ الله ُ لَه ُ شَیئاً، حُرۡمَةُ الۡاِسلامِ وَ حُرۡمَتی و حُرۡمَةُ رَحِمی
"
حاکم نے اپنی کتاب تاریخ میں اور دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جو شخص تین چیزوں کی حفاظت و نگہداری کرے گا تو خداوند عالم اس کے دین و دنیا کی حفاظت فرمائے گا۔ اور جس نے ان تین چیزوں کو ضایع کردیا اور انکی رعایت نہ کی تو خداوند متعال اس کے دین و دنیا کی کسی چیز کی حفاظت نہ کرے گا۔
۱ ۔ اسلام کی حرمت و آبرو۔
۲ ۔ میری حرمت و آبرو۔
۳ ۔ میری عترت و اہل بیت کی آبرو۔
نکتہ: سوچنے کی بات ہے کہ رحلت رسولؐ کے بعد کن لوگوں نے رسول اللہ و عترت و رسولؐ اللہ کی حرمت کو پامال کیا اور نتیجتاً کون ہتکِ حرمت اسلام کا باعث بنا ہے؟ اس سلسلہ میں ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " میں علمائے اہل سنت سے استناد کرتے ہوئے چند حقائق نقل کئے ہیں لہذا وہاں رجوع فرمائیں۔
ارشاد خداوند ہے:(
فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ
)
اے میرے حبیب میرے ان بندوں کو بشارت دیدیجئے جو بات کو سنتے ہیں اور ان میں سے بہترین کی اتباع کرتے ہیں۔
۳۴ ۔ شیخ سلیمان
نے ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں جمع کردہ آیات
میں سے پہلی آیت کے ذیل میں روایت کی ہے کہ رسول ؐخدا نے فرمایا
"وَ الَّذی نَفۡسی بِیَدِه ِ لا یُؤۡمِنُ عَبۡدٌ بی حَتّی یُحِبَّنی وَلا یُحِبُّنی حَتّی یُحِبَّ ذَوی قِرابَتی
"
قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے؛ کوئی شخص مجھ پرایمان نہ لائے گا یہاں تک کہ مجھ سے محبت کرے اور کوئی مجھ سے محبت نہ کرے گا یہاں تک کہ میرے اقرباء سے محبت کرے۔
نکتہ: ابن حجر مکی آیت تطہیر کے ذیل میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :"فَاَقامَ ذا قرابَتِه ِ مَقامَ نَفۡسِه ِ
" یعنی بنابریں رسول اسلام نے اپنے اقربا کو اپنے برابر قرار دیا ہے۔
۳۵ ۔ نیز مولانا موصوف
نے ابن حجر مکی کی کتاب میں فضائل اہل بیت کے بارے میں جمع کردہ آیات
میں سے دوسری آیت کے ذیل میں صحت حدیث کے اعتراف کے ساتھ روایت کی ہے:
"عَنۡ کعب بن عجره ، قال: لَمّا نَزَلَتۡ ه ذِه ِ الۡآیَةُ
(
اِنَّ الله َ وَ مَلائِکَتَه ُ یُصَلُّونَ
)
قُلۡنا یا رَسوُلَ الله قَدۡ عَلِمۡنا کَیۡفَ نُسَلِّمُ عَلَیۡکَ، کَیۡفَ نُصَلّی عَلَیۡکَ؟ فَقالَ: قوُلوُا: اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
کعب بن عجرہ سے روایت کی گئی ہے کہ جب یہ آیت (آیہ ٔ صلوات بر نبیؐ
نازل ہوئی تو ہم نے حضور کی خدمت میں عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! آپؑ پر سلام کرنے کی کیفیت تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہمیں اتنا بتا دیجئے کہ آپ پر صلوات کس طرح بھیجیں؟ فرمایا:"اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
ابن حجر صلوات کی کیفیت کے بارے میں روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"وَ فیه ِ دَلیلٌ ظاه رٌ عَلی اَنَّ الاَمۡرَ بِالصَّلوةِ عَلَیۡه ِ، اَلصَّلوةُ عَلی آله ِ اَیۡضاً مُرادٌ مِنۡ ه ذِه ِ الۡآیَةِ وَ اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ – اله – و سُلَّمَ جَعَلَ نَفۡسَه ُ مِنۡه ُمۡ
"
یعنی یہ حدیث خود اس بات کی واضح و روشن دلیل ہے کہ نبیؐ پر صلوات بھیجنے کا حکم اہل بیت (ع)ؑ پر صلوات بھیجنے کا حکم بھی ہے؛ اور بتحقیق رسولؐ اللہ نے خود اپنے آپ کو بھی اہل بیت کا جزء قرار دیا ہے۔
اشکال: ابن حجر نے خود ہی اپنے قول پر عمل نہیں کیا کیونکہ جب رسولؐ گرامی قدر پر صلوات بھیجی ہے تو آل کو ترک کردیا ہے۔ آخر کیوں؟!
۳۶ ۔ ینابیع المودۃ
نے صواعق محرقہ میں اہل بیت کے بارے میں جمع کردہ آیات
میں سے دوسری آیت کے ذیل میں روایت کی ہے: "وَ قَدۡ اَخۡرَجَ الدِّیۡلَمی اَنَّه ُ ﷺ قال: اَلدُّعاُ مَحۡجُوبٌ حَتّی یُصَلَّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِه
"
دیلمی نے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے (قبول نہیں ہوتی) جب تک کہ محمدؐ و آلؑ محمدؐ پر صلوات نہ بھیجی جائے۔
۳۷ ۔ نیز ینابیع المودۃ نے ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں جمع کردہ آیات میں سے دوسری آیت
کے ذیل میں روایت کی ہے: "لا تُصَلّوُا عَلَیَّ الصَّلوٰةَ الۡبَتۡراءَ، فَقالُوا: وَمَا الصَّلوةُ الۡبَتۡراءُ؟ قالَ: تَقوُلُون: اَلله ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ تَسۡکُتُونَ بَلۡ قوُلوُا: اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
رسول اکرمؐ نے فرمایا: مجھ پر ناقص صلوات مت بھیجو! اصحاب نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا: ناقص صلوات یہ ہے کہ "اَلله ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ
" کہہ کر خاموش ہوجاؤ! بلکہ اس طرح کہو: "اَللّه ُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ
"
اشکال: ابن حجر اس روایت سے چند سطر قبل، رسول خدا پر صلوات بھیجتے وقت فقط اتنا لکھتے ہں:: "صَلَّی اللہ علیہ وَسَلَّم" یعنی ناقص صلوات بھیجتے ہیں۔ آخر کیوں؟!
آخر (بعض) علمائے اہل سنت اور انکی اتباع میں بعض عوام الناس رسولؐ اللہ پر صلوات بھیجتے وقت غالباً اہل بیت علیھم السلام پر صلوات کو ترک کیوں کر دیتے ہیں؟! یہ مقام افسوس اور جائے تفکر نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ یقیناً بنو امیہ وغیرہ کی تاثیر کا نتیجہ ہے
۳۸ ۔ نیز ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت کے بارے میں جمع کردہ آیات میں سے چوتھی آیت
کے ذیل میں نقل کردہ روایت نقل کرتے ہیں:
"اَخۡرَجَ الدِّیۡلَمی عَنۡ اَبِی سَعیدٍ الۡخُدۡری اَنَّ النَّبیﷺ قالَ: وَ قِفُوه ُمۡ اِنَّه ُمۡ مَسۡئوُلوُنَ عَنۡ وِلایَةِ عَلیٍّ
"
دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: سورہ صافات کی آیت نمبر ۲۴ "وَ قِفوُهُمۡ اِنَّهُمۡ مَسۡئُولوُنَ
" انہیں روکو کہ ابھی ان سے سوال کرنا ہے؛ یہاں ولایت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کرنا مقصود ہے۔
ابن حجر کہتے ہں: واحدی (مفسر اہل سنت) کی مراد بھی یہی ہے کہ آیت میں ولایت علی و اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں سوال مقصود ہے کیونکہ خداوند عالم نے مودّت قربی کو واجب قرار دیا ہے لہذا انکی ولایت کا مطالبہ کیا جائے گا۔
۳۹ ۔ شیخ سلیمان
نے رسول ؐ گرامی قدر حضرت محمدؐ مصطفی سے روایت کی ہے آپؐ نے فرمایا: "حَرُمَتِ الۡجَنَّةُ عَلی مَنۡ ظَلَمَ اَه ۡلَ بَیۡتی وَ آذانی فی عِتۡرَتی
" جس نے میرے اہل بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے ذریعے اذیت پہنچائی تو جنت اس پر حرام ہے۔
نکتہ: ابن حجر مکی نے بھی فضائل اہل بیت کے بارے میں آیات جمع کرنے کے بعد صواعق محرقہ میں اس روایت کو ثعلبی سے نقل کیا ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان بلخی کتاب ینابیع المودہ کے اس صفحہ پر رقمطراز ہیں:
"وَ قَالَ بَعۡضُ الۡعارِفینَ ثَمَرَةُ مَوَدَّةِ اَه ۡلِ بَیۡتِ النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه ِ وَ سَلَّمَ وَ قَرابَتِه عائِدَةٌ اِلی اَنۡفُسِه ِمۡ لِکَوۡنِه ا سَبَبَ نَجاتِه ِمۡ کَما قالَ تَعالی:
(
قُلۡ مَا سَأَلۡتُکُم مِنۡ أَجۡرٍ فَه ُوَ لَکُمۡ
)
"
بعض عارفین کا کہنا ہے: اہل بیت و اقرباء رسولؐ خدا کی محبت و مودّت کا ثمر اور فائدہ خود انہی لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو اپنے دلوں میں انکی محبت و مودّت رکھتے ہیں کیونکہ یہ مودّت انکی نجات کا باعث ہے جیسا کہ خداوند عالم نے بھی ارشاد فرمایا ہے: میں نے تم سے جو بھی اجر و پاداش کا مطالبہ کیا ہے وہ خود تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔
۴۰ ۔ "قالَ اَبوُ عَبۡدِ الله ِ مُحَمَّدُ بۡنُ عَلیٍّ، اَلۡحَکیمُ التِّرۡمذی فی کِتابِه نَوادِرِ الۡاُصوُلِ، حَدَّثَنا عُبَیۡدُ بن خالِدٍ قالَ حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بن عُثۡمانِ الۡبَصۡری قالَ حَدَّثَنا مُحَمَّدُبن الۡفُضَیۡلِ عَنۡ مُحَمَّدِ بن سَعۡد بن اَبی طَیبَةٍ عَنِۡ الۡمِقۡدادِ بن الۡاَسۡوَدِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ: مَعۡرِفَةُ آل مُحَمَّدٍ بَرائَةٌ مِنَ النّارِ وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ جَوازٌ عَلَی الصِّراطِ وَ الۡوِلایَةُ لِآلِ مُحَمَّدٍ اَمانٌ مِنَ الۡعَذابِ
"
نیز
ترمذی سے مستنداً روایت کرتے ہیں: ترمذی نے نوادر الاصول میں مقداد بن اسود سے مستنداً روایت کی ہے کہ رسولؐ خد ا نے فرمایا: معرفت و شناخت آلِ محمد، آتش جہنم سے نجات کا باعث، محبت و الفت آل محمد، پلِ صراط سے گذرنے کا نامہ اور ولایت و امامت آل ِ محمدؐ عذاب الٰہی سے امان کا سبب ہے۔
نکات:
۱ ۔ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ روایات میں حبّ آل محمدؐ کے بہت سے فائدے بیان کئے گئے ہیں مثلاً پل صرا ط سے گذرنے کا اجازت نامہ لہذا پہلی روایت (ستّر روایات میں سے) میں رسول اکرمؐ نےتفصیل کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔
۲ ۔ مذکورہ روایت میں لفظ "ولایت" محبت و دوستی کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ سرپرستی و امامت کے معنی میں آیا ہے کیونکہ حُبّ کا فائدہ پل صراط سے گذرنے کا اجازت نامہ بیان کیا گیا ہے اگر یہاں بھی ولایت سے مراد محبت و دوستی ہوتی تو اس طرح فرماتے: "وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ جوازٌ علی الِصراط و اَمانٌ مِنَ العَذاب
" بالفاظ دیگر حضور سرور کائنات ایک مشترک لفظ "حب" کے ذریعے دوسرا فائدہ بیان کرنا نہیں چاہتے بلکہ صدر روایت میں معرفت آل۔ پھر حب آل اور آخر میں ولایت و سرپرستی کے بارے میں توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ ولایت و سرپرستی تمہیں عذاب الٰہی سے بچائے گی۔ پس بنابریں روایت شریفہ تین مندرجہ ذیل فراز پرمشتمل ہے: ۱ ۔ معرفت آلؑ محمد، ۲ ۔ حُبّ آل، ۳ ۔ ولایت و سرپرستی آلِؑ محمدؐ؛ اور قابل توجہ بات ان تینوں فراز کی "ترتیب" ہے۔
۴۱ ۔"وَ عَنۡ اَبی الطُّفَیۡل، قالَ: خَطَبَنا الحَسَنُ بن عَلی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما اَنَّه ُ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ
(
وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي إِبْراهِيمَ وَ إِسْحاقَ وَ يَعْقُوبَ
)
ثُمَّ قالَ اَنَا اِبْنُ الْبَشِير ، اَنَا ابْنُ النَّذِيرِ ، اَنَا ابْنُ الدّاعِي
اِلَى اللَّهِ بِاِذۡنِه ، وَ اَنَا اِبْنُ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ ، وَ اَنَا اِبْنُ الَّذِي اَرْسَلَه ُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، وَ اَنَا مِنْ اهلِ الْبَيْتِ الَّذِينَ اَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهِيراً، وَ اَنَا مِنْ اهل البيتِ الَّذِينَ اَفْتَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَوَدَّتَهُمْ فَقَالَ
:(
قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى
)
(شوری/ ۲۴)
شیخ سلیمان
نے بنابر نقل از جواہر العقدین سمہودی، ابو طفیل سے روایت کی ہے کہ حسن بن علی ؑنے ایک خطبہ میں ہم سے خطاب کرتے ہوئے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:(
وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي إِبْراهِيمَ وَ إِسْحاقَ وَ يَعْقُوبَ
)
میں فرزند بشیر ہوں، میں فرزند نذیر ہوں، میں فرزند داعی اِلی اللہ ہوں، میں فرزند سراج منیر ہوں، میں فرزند رحمۃ للعالمین ہوں، میں اہل بیت میں سے ہوں جنکی طہارت کی گواہی آیت تطہیر اس انداز سے دے رہی ہے کہ خداوند عالم نے ان سے ہر رجس کو دور رکھا ہے اور ایسا پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے جیسا کہ پاک قرار دینے کا حق ہے۔ میں انہی اہلبیت علیھم السلام میں سے ہوں خداوند عالم نےجنکی مودّت کو واجب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:(
قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى
)
نکتہ: شیخ سلیمان اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ روایت طبرانی نے کتاب معجم الکبیر اور معجم الاوسط میں بھی نقل کی ہے۔
۴۲ ۔ شیخ سلیمان
نے صواعق محرقہ ابن حجر مکی (فضائل اہل بیت آیت نمبر ۴) کے مطابق روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: "مَنۡ حَفِظَنی فی اَه ۡلِ بَیۡتِی فَقَدِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الله ِ عَه ۡداً
" جو شخص میرے اہل بیت علیھم السلام کا احترام کرنے میں میرے حق کا خیال رکھے گا بتحقیق اس نے گویا خداوند عالم سے عہد کرلیا ہے۔
نکتہ: اب سوچنا یہ ہے کہ رحلت رسولؐ کے بعد لوگوں نے کس طرح اہل بیت علیھم السلام کا احترام کیا۔ کیا رسولؐ خدا نے یہ نہیں فرمایا: "المرءُ یُحۡفَظُ فی وُلده
" یعنی ہر شخص کا احترام اس کے بچوں کا خیال رکھنے میں کیا جائے پس خانۂ عترت اہل بیت، آتش کینہ مخالفین میں کیوں جلا، خلیفہ بلافصل علی علیہ السلام کو خانہ نشین کیوں کیا گیا اور رسول اسلام کی یگانہ دختر نیک اختر بستر شہادت پر کیوں سلادی گئی؟!
ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام
" میں علمائے اہل سنت کی ۱۷۰ کتب سے استناد کرکے چند حقائق پیش کئے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
۴۳ ۔"اَخۡرَجَ الثَّعلبی فی تَفۡسیرِ ه ذِه ِ الۡآیَةِ
(
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا
)
عَنۡ جَعۡفَر الصّادِقِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، اَنَّه ُ قالَ : نَحۡنُ حَبۡلُ الله ِ الَّذی قالَ الله ُ تَبارَکَ وَ تَعالی
(
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا
)
"
شیخ سلیمان
نے ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ میں فضائل اہل بیت کے بارے میں جمع کردہ آیات میں سے پانچویں
آیت کے ذیل میں نقل کردہ روایت سے اس طرح نقل کیا ہے: ثعلبی نے اپنی کتاب تفسیر میں آیۂ اعتصام کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: ہم ہی وہ ریسمانِ الٰہی ہیں جس کے بارے میں آیۂ اعتصام میں فرمایا ہے: "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو"
سوال: جب ثعلبی جو کہ درجۂ اول کے عالم اور صاحب تفسیر ہیں اور روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام ہی ریسمان خداوند ہیں تو پھر علماء اہل سنت اور خود ثعلبی امام جعفر صادق اور انکے آباء و اجداد سے دور ہوکر متفرق کیوں ہوگئے ہیں اور ابو حنیفہ، شافعی، مالکی اور احمد حنبل سے وابستہ کیوں ہوگئے ہیں؟!
جی ہاں اس جیسی دیگر متعد روایات کی روشنی میں اہل بیت سے تمسک اور ان سے رجوع کرنے کے بارے میں قیامت کے روز سخت سوال کیا جائے گا۔ کیا روایت میں نہیں ہے(
وَ قِفُوه ُم اِنَّه ُم مَّسۡئُولُونَ
)
بتحقیق یہ سوال ولایت علی بن ابی طالب و اہل بیت عصمت و طہارت کے بارے میں ہوگا۔ پس ان روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں؟!
۴۴ ۔ "اَخۡرَجَ الطّبرانی بِسَنَدٍ رِجالِه ثِقاتٍ اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ قالَ لِفاطِمَةَ : اِنَّ الله َ غَیۡرُ مُعَذِّبِکِ وَلا اَحَد مِنۡ وُلۡدِکِ"
شیخ سلیمان
نے صواعق محرقہ (فضائل اہل بیت کے بارے میں آیت
نمبر ۱۰) سے اور طبرانی نے اس سند کے مطابق جس کے تمام راوی ثقہ اور مورد اطمینان ہیں، روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے حضرت فاطمہ زہرا سے فرمایا: بتحقیق خداوند عالم نہ تم پر عذاب کرے گا اور نہ ہی تمہاری اولاد میں سے کسی کے اوپر عذاب کرے گا؛
سوال: پس رسول اکرمؐ کی ذریت کے بارے میں خود آنحضرتؐ سے ایسی روایات کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے جن اہل بیت وغیرہ پر آتش دوزخ حرام ہے انکے دامن کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کا دامن تھام لیا جائے جنکے قول و فعل میں خطاء تھی اور انہوں نے اپنی خطاؤں اور غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے؟!!
ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علیؑ" ص ۲۴۹ تا ۲۵۴ ، نیز ۲۶۰ پر علمائے اہل سنت کی کتب سے استناد کرتے ہوئے حضرت عمر، ابو حنیفہ، احمد حنبل، مالک و شافعی کے بارے میں چند حقائق نقل کئے ہیں۔
۴۵ ۔ "اَخۡرَجَ الۡبِیۡه َقَی وَ اَبوُ الشَّیۡخ ابنُ حبان وَ الدِّیۡلَمی اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ قالَ : لا یُؤۡمِنُ عَبۡدٌ حَتّی اَکوُنَ اَحبَّ اِلَیۡه مِنۡ نَفۡسِه وَ یَکوُنَ عِتۡرَتی اَحَبَّ اِلَیۡه ِ مِنۡ عِتۡرَتِه وَ یَکوُنَ اَه ۡلی اَحَبَّ اِلَیۡه ِ مِنۡ اَه ۡلِه وَ تَکُونَ ذاتی اَحَبَّ اِلَیۡه ِ مِنۡ ذاتِه
"
شیخ سلیمان
نے ابن حجر کی کتاب صواعق محرقہ (فضائل اہل بیت کے بارے میں آیت
نمبر ۱۴) سے نیز بیہقی، ابو شیح ابن حبان اور دیلمی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: کوئی مجھ پر ایمان نہ لائے گا مگر یہ کہ اپنے نفس سے زیادہ مجھ سے محبت کرے گا، اپنی عترت سے زیادہ میری عترت سے محبت کرے گا، اپنے اہل بیت سے زیادہ میرے اہل بیت علیھم السلام سے محبت کرے گا اور اپنی جان سے زیادہ میری جان کو عزیز رکھے گا۔
نکتہ: پیغمبر اسلام نے مؤمنین کو اس طرح دنیا و آخرت کی ذلت و خواری سے نجات عطا کی ہے کہ بت پرستی و گائے پرستی وغیرہ کے بجائے خدا پرست بن کر آبرو مند اور عزت مآب ہوگئے اپنے گفتار و کردار اور اعمال میں خداوند عالم کو پیش نظر رکھ کر طریقیت انسانیت کو اپنایا۔ پس اس کے عوض نبی کریمؐ نے ہم سے صرف ایک اجر کا تقاضا کیا ہے اور وہ ہے "مودّت قربی
" پس حقیقتا ان کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ اور انکی عترت کو اپنی عترت و آل سے زیادہ محبوب رکھنا چاہیے کیونکہ حقیقی ایمان اسی سے وابستہ ہے۔
۴۶ ، ۴۷ ، ۴۸ ۔ "مَرَّ خَبَرُ اَحۡمَد وَ التِّرۡمذی : [قال صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ :] مَنۡ اَحَبَّنی وَ اَحَبَّ ه ذَیۡنِ یَعۡنی حَسَناً و حُسَیۡناً وَ اَباه ُما وَ اُمَّه ُما کانَ مَعِیَ الۡجَنَّةَ، وَ فی رِوایَة: فی دَرَجَتی، وَ زادَ اَبوُ داوُد: وَ ماتَ مُتَّبِعاً بِسُنَّتی
"
شیخ سلیمان
نے ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ (فضائل اہل بیت کے بارے میں آیت
نمبر ۱۴) سے اور احمد حنبل اور ترمذی نے رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جو شخص مجھے، میرے ان دونوں فرزند حسن و حسین‘، انکے والد علی مرتضی اور انکی والدہ فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کو محبوب رکھے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ جنت میں میرے درجہ میں ہوگا۔ نیز ابو داؤد نے ایک روایت میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر میری سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اتباع کرتے ہوئے مرجائے تو بہشت میں وہ میرے درجہ میں ہوگا۔
نکتہ: مذکورہ تین روایات کی روشنی میں یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی با ایمان شخص حقیقتا پنجتنِ آل عباء سے محبت رکھے اور مقام عمل میں سنتِ نبوی کی پیروی کرتا رہے تو اسے اس کا یہ اجر عطا ہوگا کہ وہ بہشت میں رسولؐ اللہ کے درجہ میں ہوگا اور یہ صرف آیۂ مودت کی روشنی میں حبّ اہل بیت ہی کے سایہ میں ممکن ہے کیونکہ سورہ سباء کی آت ۴۷ میں اجر رسالت (جو کہ مودّتِ اہل بیت ہے) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: "قُلۡ ما سَئَلۡتُکُمۡ مِنۡ اَجۡرٍ فَه ُوَ لَکُمۡ"
میں نے جو اجر بھی تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ یعنی میں تم سے اپنی رسالت کا صرف ایک اجر طلب کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میرے قرابتداروں (علی و فاطمہ اور حسن و حسین) سے محبت کرو کہ یہ محبت و مودّت بھی خود تمہارے ہی کام آنے والی ہے کیونکہ تم ان کے طفیل اس طرح کامیاب و کامران ہوجاؤ گے کہ بہشت میں رسولؐ خدا کے درجہ میں رہو گے۔
نکتہ: ابن حجر نے صواعق محرقہ میں بآسانی فضائل اہل بیت کے بارے میں منقول روایات تک دسترسی کے لئے ان تمام روایات (فضائل اہل بیت کے بارے میں آیات قرانی کے ذیل میں روایات) کو دوسری فصل میں جمع کیا ہے۔ اس فصل کی اٹھارویں روایت جو کہ احمد و ترمذی سے منقول ہے، اسی فصل سے نقل کی ہے۔
۴۹ ۔ شیخ سلیمان
نے ابن حجر کی صواعق محرقہ کے حوالے سے دیلمی سے روایت نقل کی ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا: "مَنۡ اَرادَ التَّوَسُّلَ اِلَیَّ وَ اَنۡ یَکوُنَ لَه ُ عِنۡدی یَدٌ اَشۡفَعُ لَه ُ بِه ا یَوۡمَ الۡقِیامَةِ فَلۡیُصَلِّ اَه ۡلَ بَیۡتی وَ یُدۡخِلِ السُّروُرَ عَلَیۡه ِمۡ"
جو شخص مجھ سے متوسل ہونا چاہتا ہے اور قیامت میں مجھ سے مدد چاہتا ہے کہ میں اسکی شفاعت کروں تو اُسے چاہیے کہ میرے اہل بیت پر صلوات بھیجے اور انکے لئے باعث سرور و شادمانی قرار پائے۔
نکتہ: ہم نے گذشتہ اوراق میں نبی کریمؐ سے متعدد روایات نقل کی ہیں کہ رسولؐ اللہ پر صلوات کے ساتھ آلؑ رسولؐ پر صلوات بھیجنا بھی ضروری ہے، ورنہ صلوات ناقص رہے گی اور اس موقع پر یہ سوال کیا گیا کہ پس بعض علماء اہل سنت اور ان کی اتباع میں بعض عوام الناس، رسول گرامی پر صلوات بھیجتے وقت آلؑ کو ترک کیوں کر دیتے ہیں؟!
۵۰ ۔ "عَنۡ اِبۡنِ عَبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ ﷺ عَنۡ کَلِماتِ الَّتی تَلَقّی آدَمُ مِنۡ رَبِّه فَتابَ عَلَیۡه ِ
، قال: سَئَلَه ُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ حَسَنٍ وَ حُسَیۡنٍ
"
شیخ سلیمان
نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: آدمؑ نے اپنے پروردگار کی جانب سے جو کلمات دریافت کئے تھے اور جنکی وجہ سے انکی توبہ قبول ہوئی تھی، انہوں نے بارگاہ الٰہی میں انکے ذریعے اس طرح سوال کیا: بحق محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام ۔
نکتہ: شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ابن مغازلی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۵۱ ۔ "عَنۡه ُ [عَنۡ اِبۡنِ مَسۡعوُد] رَضِیَ الله ُ عَنه قال: قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ: اِنَّا اهل البیت، اِخۡتارَ الله ُ لَنَا الۡآخِرَةَ عَلَی الدُّنۡیا
"
شیخ سلیمان بلخی حنفی
نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: ہم ہی وہ اہل بیت ہیں جن کے لئے خداوند عالم نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کا انتخاب کیا ہے۔
اگر ہم واقعاً ایسے افراد کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں جنکے توسط سے ہماری آخرت سنور جائے اور وہ مخلوق پر حجت الٰہی ہوں تو وہ فقط اہل بیت رسول خدا ہی ہیں کہ جنہیں خداوند عالم نے قیامت میں بہت امور سپرد کئے ہیں مثلاً شفاعت، مقام اعراف (بہشت و دوزخ کے مابین مقام) پر قیام، پل صراط سے گزرنے کے لئے انکا اجازت نامہ، جنت و دوزخ کی تقسیم وغیرہ؛ اور یہ سب اذنِ الٰہی سے ہے۔
نکات:
۱ ۔ شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ روایت صاحب فردوس نے بھی لکھی ہے۔
۲ ۔ مناقب اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں پہلی روایت میں اس حقیقت کے کچھ مصادیق بیان کئے ہیں۔
۵۲ ۔ "عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه و سَلَّم: مَثَلُ اَه ۡلِ بَیۡتی فیکُمۡ مَثَلُ بابِ حِطّةٍ مَنۡ دَخَلَ غُفِرَ لَه ُ
"
شیخ سلیمان
نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا: تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال، باب حطّہ کی مانند ہے جو اس میں داخل ہوجائے گا بخشا جائے گا۔
نکتہ: شیخ سلیمان نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ صاحب فردوس نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
توضیح: باب "حطہ" بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ خداوند عالم نے یہ امر فرمایا تھا کہ جو بھی عجز و انکساری اور استغفار کے ساتھ اس سے وارد ہوگا۔ وہ معاف کردیا جائے گا اور مغفرت الٰہی اس کے شامل حال ہوگی؛ اس مذکورہ روایت میں حضور سرور کائنات نے اپنے اہل بیت علیھم السلام کو باب "حطہ" سے تشبیہ دی ہے لہذا جو بھی انکی ولایت کو قبول کرے گا اور مودت اہل بیت کا پابند ہوگا تو مغفرت الٰہی اس کے شامل حال ہوگی۔
قابل توجہ ہے کہ ابن حجر مکی نے فضائل اہل بیت کے بارے میں آیت نمبر ۷ ( سورہ انفال/ ۳۳) کہ جسے ہم روایت نمبر ۱۸ کے طور پر پیش کیا ہے، اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: اہل یبتؑ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے توسط سے پارۂ تن رسولؐ خدا ہیں لہذا اہل بیت علیھم السلام بھی رسولؐ اللہ کی طرح (سورہ انفال کی ۳۳ ویں آیت کی روشنی میں) امان کا سبب ہیں اور باب حطہ (جو کہ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے) سے وجہ شباہت یہ ہے کہ خداوند عالم نے یہ امر صادر فرمایا ہے کہ جو بھی اس باب سے عجز و انکساری اور استغار کے ساتھ داخل ہوگا مغفرت الٰہی اس کے شاملِ حال ہوگی ، اسی طرح مودّت اہل بیت بھی باعث مغفرت الٰہی ہے۔
۵۳ ۔ "اَلۡحَمَویۡنی بِسَنَدِه ِ عَنِ الۡاَصۡبغِ بن نُباتَه ، عَنۡ عَلیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ فی ه ذِه ِ الۡآیَةَ
(
وَإِنَّ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ
)
،قالَ اَلصِّراطُ وِلایَتُنا اهل البیت
"
شیخ سلیمان
نے آیت(
وَإِنَّ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ
)
کی تفسیر میں حموینی سے انہوں نے اصبغ بن نباتہ سے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: صراط سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے۔
نکتہ: جیسا کہ روایت نمبر ۴۰ میں بیان ہوچکا ہے کہ جو لوگ ولایت اہل بیت علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں وہ پل صراط سے گذرنے کے بھی مجاز ہوں گے، لیکن جو لوگ ولایت اہل بیت علیھم السلام پر ایمان نہیں رکھتے تو امیر المؤمنین کے فرمان کے مطابق وہ صراط سے گذر نہ سکے گا اور گرفتار ہوکر رہ جائے گا۔
۵۴ ۔ "اَلۡحاکِمُ بِسَنَدِه ِ عَنِ الۡاَصۡبَغ بن نُباتَه ، قالَ: کنۡتُ عِنۡدَ عَلِیٍّ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ فَاَتاه ُ اِبۡنُ الۡکَوّا فَسَئَلَه ُ عَنۡ ه ذِه ِ الۡآیَةِ
(
وَعَلَى الأعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلاً بِسِيمَاهُمْ
)
فَقالَ: وَیۡحَکَ یَابۡنَ الۡکَوّا نَحۡنُ نَقِفُ یَوۡمَ الۡقَیامَةِ بَیۡنَ الۡجَنَّةِ وَ النّارِ اَحَبَّنا عَرَفۡناه ُ بِسیماه ُ فَاَدۡخَلۡناه ُ الۡجَنَّةَ وَ مَنۡ اَبۡغَضَنا عَرَفۡناه ُ بِسیماه ُ فَدَخَلَ النّارَ
"
شیخ سلیمان
نے(
وَعَلَى الأعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلا بِسِيمَاهُمْ
)
کی تفسیر میں حاکم نیشاپوری کے حوالے سے اصبغ ابن نباتہ سے روایت کی ہے: وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے کہ ابن کوّا آنجناب ؑ کی خدمت اقدس میں آئے اور انہوں نے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: اے ابن کوا! ہم قیامت میں جنت و جہنم کے درمیان کھڑے ہوجائیں گے اور اپنے چاہنے والوں کو دیکھ دیکھ کربہشت میں داخل کردیں گے اور ہم اپنے دشمنوں کو بھی پہچانتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوجائیں گے۔
نکتہ: اس روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے اپنے چاہنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے: "اَدخَلنَاه الجَنَّةَ
" یعنی ہم خود اسے بہشت میں داخل کریں گے اور اپنے دشمنوں کے بارے میں فرمایا ہے: "فَدَخل النار" یعنی وہ جہنم میں داخل ہو جائیں گے، آنجنابؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اسے جہنم میں داخل کر دیں گے۔ یعنی پس اس کے جہنمی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسے اہل بیت و عترت طاہرہ کی حمایت حاصل نہ ہوگی۔
پس اے قاریِ محترم! آپ خود اس مودّت اہل بیت کی راہ میں کوشش کریں کیونکہ نجات و رستگاری بہرحال اسی مودّت سے وابستہ ہے، اور خداوند کتنا مہربان اور رحیم و کریم ہے کہ اس نے مودّت اہل بیت کو اجر رسالت قرار دیا ہے تاکہ مؤمنین پیغمبر اکرمؐ کی قدر دانی کے طفیل رستگار و نجات یافتہ ہوجائیں۔
۵۵ ۔ "فِی الۡمَناقِبِ عَنِ الۡحَسَنِ بن صالِحِ عَنۡ جَعۡفَر الصّادِقِ علیه السلام فی ه ذِه ِ الۡآیَةِ
(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ
)
قالَ: اوُلوا الۡاَمۡرِه ُمُ الۡاَئِمَّةُ مِنۡ اهل البیت علیه م السلام "
شیخ سلیمان
نے آیت(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ
)
کی تفسیر میں کتاب مناقب میں حسن بن صالح سے اور انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اولی الامر سے مراد "ائمہ اہل بیت " ہیں۔
ہم نے اس کتاب کے گذشتہ اوراق پر مختلف ابواب میں علماء اہل سنت کی کتب سے نقل شدہ حضور سرور کائنات کی متعدد روایات بیان کی ہیں جن میں حضورؐ نے ائمہ معصومین علیھم السلام کے اسماء بیان فرمائے ہیں یہ روایات اثنا عشریہ کے عنوان سے معروف ہیں ہم آئندہ صفحات پر اس سلسلہ میں مستقل طور پر گفتگو کریں گے۔ اہل بیت علیھم السلام سے دشمنی حضور کی نگاہ میں اتنا شدید مسئلہ تھا کہ شیخ سلیمان حنفی
نے عطاء بن ابی رباح وغیرہ سے انہوں نے ابن عباس کے شاگردوں سے اس طرح روایت کی ہے:
"عَنۡه ُ (عَن اِبْنِ عَبَّاس) قَالَ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اِنِّي سَئَلۡتُ اللَّهَ لَكُمْ ثلاثاً، اَنْ يُثَبِّتَ قَائِمَكُمْ، وَ اَنْ يَهْدِيَ ضَالَّكُمْ، وَ اَنۡ يُعَلِّمَ جَاهِلَكُمْ، وَ سَئَلۡتُ الله َ اَنْ يَجْعَلَكُمْ جَواداً نُجَباءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ اَنَّ رَجُلًا صَفِنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ فَصَلّی وَ صامَ ثُمَّ لَقِیَ الله وَ ه ُوَ مُبۡغِضٌ لِاَهْلَ بَیۡتی دَخَلَ النَّارَ
"
ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: اے فرزندانِ عبد المطلب! میں نے خداوند عالم سے تمہارے لئے تین چیزوں کی درخواست کی:
۱ ۔ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے۔
۲ ۔ تم میں سے گمرہ کی ہدایت فرمائے۔
۳ ۔ تمہارے جاہل کو زیور علم سے آراستہ فرمائے۔
نیز خداوند عالم سے تقاضا کیا ہے کہ وہ تمہیں سخاوتمند، نجیب اور مہربان بنا دے پس اگر تم میں سے کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان ہو اور نماز و روزہ انجام دیتا رہے اور پھر دشمنی اہل بیت کے ساتھ خداوند عالم سے جاملے تو یاد رکھو وہ آتش جہنم میں داخل ہوجائے گا۔
نکتہ:شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ ، باب ۵۸ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا اور تصریح کی ہے کہ "یہ روایت صحیح ہے" نیز ابن ابی خیثمہ نے یہ روایت اپنی کتاب تاریخ میں حمید بن قیس ملکی سے نقل کی ہے انہوں نے رجال صحیح عطاء وغیرہ کے ذریعے ابن عباس سے نقل کی ہے۔
۵۶ ۔ "فی جَواه ِرِ الۡعِقۡدَیۡنِ (سمه ودی شافعی)، روَیَ اَبوُ الشّیۡخ ابۡنُ حبان عَنۡ زادان عَنۡ عَلیٍّ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: فینا فی آلِ حم آیَةٌ لا یَحۡفِظُه ا اِلّا کُلُّ مُؤۡمِنٍ ثُمَّ قَرَأ
(
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
)
شیخ سلیمان
نے سمہودی کی کتاب جواہر العقدین سے انہوں نے ابو الشیخ ابن حبان سے انہوں نے زادان سے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: ہم آل حم (سوری شوریٰ میں ہم اہل بیت) کے بارے میں ایک آیت ہے جس کی پابندی صرف حقیقی مؤمنین ہی کرتے ہیں یہ کہہ کر آپ نے آیہ مودّت تلاوت فرمائی(
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
)
نکتہ: پس اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں شناخت ایمان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کون ہے جو مودّت اہل بیت علیھم السلام کی پابندی کرتا ہے اور کون اس سے دوری اختیار کرتا ہے۔ لہذا جو شخص اپنے عقائد و اخلاق اور اعمال
میں آلؑ محمدؐ کی مودّت کا خیال رکھتا ہے تو یہ اس کے ایمان حقیقی کی علامت ہے۔ مثلاً جب پیغمبر گرامی قدر پر صلوات بھیجی جائے تو اہلبیت علیھم السلام پر بھی صلوات بھیجی جائے
۵۷ ۔ شیخ سلیمان
بلخی حنفی نے روایت کی ہے:
"وَ رَوی جمالُ الدّینِ الزَّرَنۡدی فی کِتابِه دُرَرِ الۡسِّمطَیۡنِ، عَنۡ اِبۡراه یم بن الشَّیۡبَةِ الۡاَنصاری، قالَ: جَلَسۡتُ عِنۡدَ اَصۡبَغِ بن نُباتَه قالَ: اَلا اُقۡرِئُکَ ما اَمۡلَاَه ُ عَلِیُّ بن اَبیطالب رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، فَاَخۡرَجَ صَحیفَةً فیه ا مَکۡتوُبٌ: بِسۡمِ الله ِ الرَّحۡمنِ الرَّحیم ه ذا ما اَوۡصی بِه مُحَمَّدٌﷺ اَه ۡلَ بَیۡتِه وَ اُمَّتَه ُ، وَ اَوصی اَه ۡلَ بَیۡتِه بِتَقوی الله ِ وَ لُزُومِ طاعَةِ الله ِ وَ اَوۡصی اُمَّتَه ُ بِلُزوُمِ اَه ۡلِ بَیۡتِه
"
جمال الدین زرندی نے کتاب دُرَرُ السمطین میں ابراہیم بن شیبہ انصاری سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اصبغ بن نباتہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کیا تمہارے لئے وہ چیز پڑھوں جسے علی بن ابی طالب نے لکھا ہے؟ یہ کہہ کر انہوں نے ایک کاغذ نکالا جس پر تحریر تھا: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ یہ محمد مصطفی کی وصیت ہے اپنے اہل بیت علیھم السلام اور اپنی امت کے لئے۔ محمد ﷺ نے اپنے اہل بیت کو تقوی الٰہی اور اطاعت خداوند کی وصیت کی ہے اور اپنی امت کو اطاعت اہل بیت علیھم السلام کی وصیت کی ہے۔
نکتہ: یہ روایت جو کہ نبی کریمؐ کی وصیت اور حضرت علی بن ابی طالب‘ کا اِملا ہے اس میں حضور سرور کائنات نے اپنی امت کو اپنے اہل بیت کی اطاعت کے واجب ہونے پر وصیت فرمائی ہے پس اس روایت کی روشنی میں نبی کریمؐ نے امت کے کسی گروہ کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا ہے لہذا تمام امت حتی کہ اصحاب پر بھی اہل بیت علیھم السلام کی اطاعت لازم و واجب ہے اور تمام امت کو اہل بیت کا مطیع و فرمانبرار ہونا چاہیے۔ نیز "لزوم طاعَتِہِ" کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے ساتھ تمام شعبوں میں لازم ضروری ہے لہذا ہر صنف و گروہ پر مطلق اطاعت اہل بیت واجب ہے۔ نیز آیت مودّت (شوریٰ / ۲۳) میں یہی شرط پائی جاتی ہے۔
۵۸ ۔ ینابیع المودۃ
نے محب الدین طبری و دیلمی سے امام رضا علیہ السلام سے آنجناب نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا:
"اِنَّ الله َ حَرَّمَ الۡجَنَةَ عَلی مَنۡ ظَلَمَ اَه ۡلَ بَیۡتی اَو قاتَلَه ُمۡ اَو اَعانَ عَلَیۡه ِمۡ اَو سَبَّه ُمۡ"
خداوند عالم نے اہل بیت علیھم السلام پر ظلم کرنے والوں، انہیں قتل کرنے والوں، انکے دشمنوں کی اعانت کرنے والوں اور انہیں سبّ و شتم کرنے والوں پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔
نکتہ: ہم نے در دست کتاب ہی کے تیسرے باب میں ثابت کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ زہرا، اور امام حسن و امام حسین‘اہل بیت عصمت و طہارت ہیں اور اپنی کتاب 'اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام "
میں کتب اہل سنت سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے رحلت رسولؐ اسلام کے بعد کن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام و امام حسن سے جنگ کی، کن لوگوں نے درخانہ عترت کو نذر آتش کیا اور کن لوگوں نے خلافت علی علیہ السلام کو غصب کرکے آنجناب پر دسیوں سال سبّ و شتم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان حقائق کی روشنی میں کیا اہل بیت علیھم السلام پر ظلم و ستم کرنے والوں کو بہشتی قرار دیا جاسکتا ہے؟! کیا اہل بیت علیھم السلام پر ظلم کرنے والوں اور ان سے جنگ کرنے والوں کا احترام کرتے ہوئے انکے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہم لکھنا صحیح ہے؟!
کل قیامت میں ان لوگوں سے یقیناً اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں سختی سے سوال کیا جائے گا جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ(
وَ قِفُوه ُمۡ اِنَّه ُم مَّسۡئُولُونَ
)
اس آیت میں ولایت علی ابن ابی طالب و اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں سوال مقصود ہے۔
۵۹ ۔ "وَ عَنۡ عُبَیۡدِ الله ِ وَ عُمَر اِبۡنَیۡ مُحَمَّدِ بن عَلی عَنۡ اَبیه ِما عَنۡ جَدِّه ِما رَضِیَ الله عَنۡه ُمۡ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ: مَنۡ آذانی فی عِتۡرَتی فَعَلَیۡه ِ لَعۡنَةُ الله ِ
"
شیخ سلیمان
نے روایت کی ہے: عبد اللہ و عمر، پسران امام محمد بن علی نے اپنے آباء سے روایت کی ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا: جس نے مجھے میری عترت و اہل بیت کے ذریعے اذیت پہنچائی اس پر خدا کی لعنت ہے۔
۶۰ ۔ شیخ سلیمان
حموینی سے انہوں نے دُرر السمطین تالیف زرندی سے انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسولِ ؐ خدا نے فرمایا:
"رَأیۡتُ لَیۡلَةَ الۡاِسۡرا مَکۡتوُباً عَلی بابِ النّارِ: اَذَلَّ الله ُ مَنۡ اَه انَ الۡاِسۡلامَ، اَذَلَّ الله ُ مَنۡ اَه انَ اَه ۡلَ بَیۡتِ نَبِی الله ِ، اَذَلَّ الله ُ مَنۡ اَعانَ الظّالِمینَ عَلَی الۡمَظۡلوُمینَ
"
میں نے شب معراج در جہنم پر لکھا ہوا دیکھا: اسلام کی توہین کرنے والوں کو خدا ذلیل کرے گا، اہل بیت علیھم السلام کی اہانت کرنے والوں کو خدا ذلیل کرے گا۔ نیز مظلوم پر ظلم کرنے والوں کی مدد کرنے والوں کو ذلیل کرے گا۔
۶۱ ۔ "عَنۡ اَبراه یم بن عَبۡدِ الله ِ بن الۡحَسَنِ الۡمُثَنّی عَنۡ اَبیه ِ عَنۡ اُمِّه فاطِمَةَ الصُّغۡری عَنۡ اَبیه ا الۡحُسَیۡنِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ وَ عَنۡه ُمۡ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ: مَنۡ سَبَّ اَه ۡلَ بَیۡتِی فَاَنَا بَرئٌ مِنۡه ُ
"
شیخ سلیمان
نےروایت کی ہے: ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ سے انہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن حسن سے انہوں نے اپنی والدہ فاطمہ صغریٰ سے انہوں نے اپنے والد امام حسین سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جو شخص میرے اہل بیت پر سبّ و شتم کرتا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔
نکتہ: شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ، باب ۵۸ میں اس رویت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ روایت الجعابی نے کتاب الطالبین میں بھی نقل کی ہے۔
۶۲ ۔ "وَ عَنۡ اَبی ذَر رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: بَعَثَنیِ النَّبِیُّ علیه السلام اِلی عَلِیٍّ فَأَتَیۡتُ بَیۡتَه ُ، فَنادَیۡتُ فَلَمۡ یُحبِبۡنی اَحَدٌ، فَسَمِعۡتُ صَوۡتَ رَحا تَطحنُ، فَنَظَرۡتُ اِلَیۡه ا فَاِذاً لَیۡسَ مَعَه ا اَحَدٌ، فَاَخۡبَرۡتُه ُﷺ، فَقالَ: یا اَباذَر اَما عَلِمۡتَ اَنَّ لِله ِ مَلائِکَةً سَیّاحینَ فِی الۡاَرضِ وَ قَد وَکَّلوُا آلِ مُحَمَّد[ﷺ]"
شیخ سلیمان
نے رسولؐ اللہ کے صادق ترین صحابی جناب ابوذر سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے مجھے حضرت علی علیہ السلام کے گھر بھیجا، میں نے درخانہ علی علیہ السلام پر جاکر آواز دی تو کسی نے جواب نہ دیا البتہ مجھے چکی کے چلنے کی آواز آ رہی تھی میں نے دیکھا کہ چکی چلانے والا تو کوئی بھی نہیں ہے، میں حضور سرور کائنات کی خدمت میں آنے کے بعد (تعجب آمیز انداز میں) جو دیکھا تھا بیان کردیا۔ حضورؐ نے فرمایا: اے ابوذر کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خداوند عالم نے زمین پر کچھ ایسے فرشتے معین کئے ہیں جو زمین پر گردش کرتے رہتے ہیں اور انکا کام اہل بیت کی مدد اور خدمت کرنا ہے۔
نکتہ: "ملّا علی متقی" نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب سیرت میں نقل کیا ہے۔
۶۳ ۔ ینابیع المودۃ
نے روایت کی ہے:
"وَ عَنۡ رَبیعَةِ السَّعۡدی، قالَ: اَتَیۡتُ حُذَیۡفَةَ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، فَسَئَلۡتُه ُ عَنۡ اَشِیاءَ، فَقالَ: اِسۡمَع مِنّی وَعۡه ُ وَ بَلِّغِ النّاسَ اِنّی رَأَیۡتُ رَسوُلَ الله ِﷺ وَ سَمِعۡتُه ُ بِاُذُنی وَ قَدۡ جاءَ الۡحُسَیۡنُ بن عَلی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما عَلَی الۡمِنۡبَر فَجَعَلَه ُ عَلی مَنۡکِبَیۡه ِ ثُمَّ قالَ: اَیُّه َا النّاسُ ه ذا الۡحُسَیۡنُ خَیۡرُ النَّاس جَدّاً وَ جَدَّةً، جَدُّه ُ رَسوُلُ الله ِ سَیِّدُ وُلۡدِ آدَمَ (الی اَنۡ قالَ :) یا اَیُّه َا النّاسُ اِنَّ الۡفَضلَ وَ الشَّرَفَ وَ الۡمَنۡزِلَتَ وَ الۡوَلایَة لِرَسوُلِ الله ِ وَ ذُرِّیَتِه
"
ربیعہ سعدی سے روایت کی گئی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ حذیفہ کے پاس کچھ سوالات کے جوابات دریافت کرنے گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: ان سوالوں کو چھوڑو، جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو، اور جو بات میں تمہیں بتا رہا ہوں وہ لوگوں کو بھی بتاؤ؛ میں نے خود رسولؐ اللہ کو دیکھا اور خود ان سے سنا ہے کہ رسولؐ اللہ جس وقت منبر پر رونق افروز تھے اسی اثناء میں حسین ان کے پاس آگئے حضورؐ نے انہیں اپنے شانہ پر بٹھایا اور فرمایا: اے لوگو! یہ حسینؑ ہے جو اپنے دادا دادی کے اعتبار سے لوگوں میں بہترین ہے، اس کے "جد" رسول خدا اور بنی آدم کے سرور و سردار ہیں پھر فرمایا: اے لوگو! بتحقیق فضیلت و شرافت و سرپرستی رسولؐ اللہ اور انکے اہل بیت علیھم السلام سے مخصوص ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں: ابو الشیخ ابن حبان نے کتاب التنبیہ الکبیر اور حافظ جمال الدین زرندی نے کتاب دُرَرُ السمطین میں بھی نقل کی ہے۔
۶۴ ۔ "عَنۡ زَیۡنِ الۡعابِدینَ عَنۡ اَبیه ِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما قالَ: مَنۡ اَحَبَّنا نَفَعَه ُ الله ُ بِحُبِّنا وَ لَو اَنَّه ُ بِالدِّیۡلَمِ
"
شیخ سلیمان
نے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ امام حسین نے فرمایا: جو ہم اہل بیت علیھم السلام کا محب ہے چاہے وہ دیلم ہی میں ہو خداوند عالم اسے ضرور نفع پہنچائے گا۔
۶۵ ۔ "وَ عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بن الۡحُسَیۡنِ بن الۡاِمام زَیۡنِ الۡعابِدینَ عَنۡ اَبیه ِ عَنۡ جَدِّه ِ عَنِ الۡحُسَیۡنِ السَّبۡطِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ، قالَ: مَنۡ والانا فَلِجَدّٰﷺ والی، وَ مَنۡ عادانا فَلِجَدّیﷺ عادی
"
شیخ سلیمان
نے عبد اللہ بن حسین بن زین العابدین سے انہوں نے اپنے والد و دادا کے توسط سے روایت کی ہے کہ امام حسین نے فرمایا: جو ہم اہل بیت علیھم السلام کا محب ہے وہ ہمارے "جد" رسولؐ اللہ کا بھی محب ہوگا اور جو ہمارا دشمن ہے وہ ہمارے جد رسولؐ اللہ کا بھی دشمن ہے۔
۶۶ ۔ "قالَ الۡحافِظُ جَمالُ الدّینِ الزَّرنۡدی الۡمَدَنی: قال اَبوُ سَعیدٍ الۡخُدۡری: سَمِعۡتُ حَسَنَ بن عَلی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما مَنۡ اَحَبَّنا اهل البیت تُساقِطُ الذُّنوُبُ عَنۡه ُ کَما تُساقِطُ الرّیحُ اَلۡوَرَقَ عَنِ الشَّجَرِ
"
شیخ سلیمان
نے صاحب دُرر السمطین، حافظ جمال الدین زرندی مدنی سے روایت کی ہے کہ ابو سعید خدری کہتے ہیں: امام حسن سے سنا آپؑ نے فرمایا: جو شخص ہم اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھتا ہے اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح ہوا درخت سے پتوں کو گرا دیتی ہے۔
نکتہ: ہم سابقاً ایسی روایات نقل کرچکے ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ نماز، روزہ اور دیگر تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط ولایت و مودت اہل بیت علیھم السلام ہے؛ اسی لئے حتی علمائے اہل سنت بھی قائل ہیں کہ مودّت اہل بیت علیھم السلام واجب ہے۔ کیونکہ یہ مودّت اجر رسالت ہے ، یہی مودّت ، حجج الٰہی کے تقرب کا باعث ہے کہ جس کی وجہ سے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ خالق کائنات ؐ نے فرمایا:(
اِنَّ الۡحَسَنَاتِ یُذۡهِبۡنَ السَّیِّئَاتِ
)
بیشک حسنات، سیّئات کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ مودّت اہلبیت علیھم السلام سے بڑھ کر کیا حسنہ ہوسکتا ہے کہ جسے خداوند عالم نے ہمارے اوپر واجب و لازم قرار دیا ہے اور اسے اجر رسالت بھی قرار دیا ہے؟!
۶۷ ۔ "فی جامِعِ الۡاُصوُلِ عَنۡ زیۡدِ ابنِ اَرۡقَم رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ لِعَلیٍّ وَ فاطِمَةَ وَ الۡحَسَنِ وَ الۡحُسَیۡنِ: اَنَا حَرۡبٌ لِمَنۡ حارَبۡتُمۡ وَ سِلۡمٌ لِمَنۡ سالَمۡتُمۡ"
شیخ سلیمان
نے کتاب جامع الاصول سے روایت کی ہے کہ زید بن ارقم کا بیان ہے کہ رسولؐ خدا نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام سے فرمایا: میری اس سے جنگ ہے جو تم سے جنگ کرے اور میری اس سے صلح ہے جو تم سے صلح کرے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ ترمذی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
یاد آوری: کتب اہل سنت کی طرف رجوع فرمائیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کا بھی احترام کرتے ہیں اور انکے دشمنوں کا بھی احترام کرتے ہیں، حضرت علی علیہ السلام سے بھی اظہار مودت کرتے ہیں اور اسکی محبت کا بھی دم بھرتے ہیں جس نے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر خوشی سے سجدہ شکر کیا!
ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام "
میں اس سلسلہ میں چند حقائق پیش کئے ہیں۔
۶۸ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی
نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اکرم نے فرمایا: "یَرِدُ الۡحَوۡضَ اَه ۡلُ بَیۡتی وَ مَنۡ اَحَبَّه ُمۡ مِنۡ اُمَّتی کَه اتَیۡنِ السَّبّابَتَیۡنِ
"
اہل بیت و محبان اہل بیت میرے پاس حوض کوثر پر اس طرح وارد ہوں گے جس طرح میری یہ دونوں انگلیاں ہیں۔
اس روایت کو جناب "مُلّا" نے بھی سیرت میں نقل کیا ہے
۶۹ ۔ "عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسِ هِلالِي، قَالَ رَأَيْتُ عَلِيّاً فِي مَسْجِدِ الۡمَدینَةِ فِي خِلَافَة عُثْمَان، اَنَّ جَمَاعَةَ الۡمُه اجِرینَ و الۡاَنۡصارِ یَتَذاکَروُنَ فَضائِلَه ُمۡ وَ عَلِیٌّ ساکِتٌ فَقَالُوا: يَا اَبَا الْحَسَنِ تَكَلَّمۡ، فَقَالَ: مَعَشَرَ قُرَيْشِ وَ الْاَنْصَارِ اَسۡئَلُکُمۡ مِمَّنۡ اَعطاكُمُ اللَّهُ هَذَا الْفَضْلَ ، اَ بِاَنْفُسِكُمْ اَوۡ بِغَيْرِكُمْ، قَالُوا: اَعْطَانَا اللَّهُ وَ مَنَّ بِهِ عَلَيْنَا بِمُحَمَّدٍﷺ ، قَالَ: اَ لَسْتُمْ تَعْلَمُونَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ اِنِّي وَ اَهْلَ بَيْتِي كُنَّا نُوراً تَسۡعی بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَعَالَى قَبْلَ اَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ بِاَرْبَعَة عَشَرَ اَلْف سَنَةً فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ علیه السلام وَضَعَ ذَلِكَ النُّورَ فِي صُلْبِهِ وَ اَهْبَطَهُ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ حَمَلَهُ فِي السَّفِينَةِ فِي صُلْبِ نُوحٍ علیه السلام ثُمَّ قَذفَ بِهِ فِي النَّارِ فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيمَ علیه السلام
"
شیخ سلیمان
نے حموینی سے مستنداً اور شیخ صدوق نے مفصل
روایت کی ہے اور ان سب نے سلیم بن قیس ہلالی سے مسنداًٍ روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کو مسجد مدینہ میں دیکھا اس وقت مہاجرین و انصار اپنے اپنے فضائل بیان کر رہے تھے لیکن آپؑ خاموش سُن رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اے ابو الحسنؑ آپؑ بھی کچھ کہیے!آپؑ نے فرمایا: اے قریش و انصار میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ یہ فضائل جو تم بیان کر رہے ہو وہ خود تمہاری وجہ سے تمہیں حاصل ہیں یا دوسروں کی بدولت تمہیں ملے ہیں؟ سب نے کہا: یہ فضائل خداوند عالم نے ہمیں رسولؐ گرامی قدر کے طفیل عطا کئے ہیں۔ پھر حضرت علی علیھم السلام نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسولؐ نے فرمایا تھا کہ میں اور میرے اہل بیت حضرت آدم سے چودہ ہزار سال قبل نور کی صورت میں بارگاہ خداوندی میں موجود تھے۔ جب خدا نے آدم کو خلق فرمایا تو انکے صلب میں اس نور کو مقرر کیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا پھر اس نور کو کشتی میں صلب نوح میں رکھا پھر یہ نور آتش نمرود میں صلب ابراہیم میں پہنچا
۷۰ ۔ حدیث ثقلین
اگرچہ تمام روایات حسن و خوب ہیں اور جو روایت بھی ہم نے اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں بیان کی ہے حسن ہے لیکن نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ یہ رہی ہے کہ آپ مختلف مواقع خصوصاً اپنے آخری ایام میں لوگوں کو اپنے اہل بیت اور قران کریم کے بارے میں تاکید فرماتے رہے مثلاً ۲۱ مختلف صحابہ حدیث ثقلین کی سند میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ شیخ سلیمان
نے صواعق محرقہ سے نقل کیا ہے
:
"ثُمَّ اعۡلَمۡ اَنَّ لِحَدیثِ التَّمَسُّکِ بِالثَّقَلَیۡنِ طُرُقاً کَثیرةً وَ رَدَتۡ عَنۡ نَیۡف وَ عِشۡرینَ صَحابیاً، وَ فی بَعۡضِ تِلۡکَ الطُّرُقِ اَنَّه ُ ذلِکَ بِعَرَفَه ، وَ فی آخَر اَنَّه ُ قال بِغَدیرِ خُم، وَ فی آخَر اَنَّه ُ قالَ فی خُطۡبَةِ ه ِیَ آخِرُ الخُطَبِ فی مَرَضِه ، وَ فی آخَر اَنَّه ُ قالَ لَمّا قامَ خَطیباً بَعۡدَ انصرافِه مِنَ الطّائِفِ، وَ لا تُنافی اِذۡ لا مانِعَ مِنۡ اَنَّه ُ کَرَّرَ عَلَیۡه ِمۡ ذلِکَ فی تِلۡکَ الۡمَواطِنِ وَ غَیۡرِه ا اِه ۡتِماماً بِشَأۡنِ الۡکِتابِ الۡعَزیزِ وَ الۡعِتۡرَةِ الطّاه ِرَةِ
"
یاد رکھو کہ حدیث ثقلین کے طرق و اسناد اتنے زیادہ ہیں کہ اس کے سلسلہ سند میں ۲۱ صحابہ موجود ہیں۔ بعض اسناد میں ہے کہ رسولؐ خدا نے سر زمین عرفات پر لوگوں سے قران و عترت کے بارے میں تاکید فرمائی تھی، بعض اسناد میں ہے کہ حضور نے غدیر خم میں قران و عترت کے بارے میں لوگوں سے وصیت و تاکید فرمائی ہے۔ بعض اسناد میں ہے کہ حضورؐ نے مدینہ میں حالت بیماری میں لوگوں سے قران و عترت کے بارے میں اس وقت وصیت و تاکید فرمائی جب آپ کے حجرہ میں اصحاب بھرے ہوئے تھے۔ بعض اسناد میں ہے کہ حضور نے حالت بیماری میں اپنے آخری خطبہ میں تاکید فرمائی تھی، بعض اسناد میں ہے کہ جب نبی کریمؐ طائف سے واپس پلٹے تھے اس وقت ثقلین کے بارے میں تاکید فرمائی تھی۔ البتہ ان تمام اسناد میں کوئی باہم تناقض و تنافی نہیں ہے کیونکہ حضور سرور کائنات نے ان تمام مقامات پر قران و عترت کے بارے میں تاکید فرمائی اور مسلسل تکرار کے ذریعے ہمیں قران و عترت کی شدت سے اہمیت سمجھاتے رہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابن حجر مکی عالم اہل سنت بھی قران و عترت کی شدت سے اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے نبی کریمؐ کے بیان کردہ اہتمام کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔
لہذا ہم یہاں موقع کی مناسبت سے حدیث ثقلیں کی دس اسناد آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ :
اولاً: یہ بات ثات ہوجائے کہ سلسلہ سند کے اعتبار سے یہ حدیث شریف متواتر ہے،
ثانیاً: مضمون حدیث کے اعتبار سے اس میں دو باتیں ثابت ہوجائیں:
۱ ۔ قران و عترت سے باہم تمسک کرنے والا ہرگز گمراہ نہ ہوگا برخلاف ان لوگوں کے جو صرف قران سے تمسک کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "حَسبُنا کِتابَ اللہ"۔ کیونکہ قران کریم میں عام و خاص، ناسخ و منسوخ، مطلق و مقید، مجمل و مبین اور محکم ومتشابہ موجود ہیں اور صرف اہلبیت علیھم السلام معصومین ہی جو کہ رسولؐ اللہ سے متصل ہیں وہ قران کریم کی حقیقی تفسیر بیان کرسکتے ہیں لہذا خداوند عالم نے بھی قران کریمؐ میں اَہلِ ذکر
یعنی ائمہ اہل بیت علیھم السلام سے وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے۔
۲ ۔ قران کریم اور عترت طاہرہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچ جائیں لہذا امام زمانہ علیہ السلام کا وجود مقدس ہمارے زمانہ میں بھی ثابت ہوجاتا ہے کیونہ قران کریم آج بھی موجود ہے اور وہ عترت طاہرہ جو قران سے جدا نہیں ہوسکتی اس کامصداق کامل یعنی قائم آلِ محمدؐ زندہ و جاوید ہے۔
تِلکَ عشرۃٌ کاملۃ
اب ہم ثقلین یعنی قران و عترت کے بارے میں نبی کریمؐ کی وصیت و تاکید کے بارے میں منقول روایات پیش کر رہے ہیں:
۱ ۔ جلال الدین سیوطی نے کتاب احیاء المیت بفضائل اہل البیت حدیث نمبر ۶ میں نیز شیخ سلیمان
نے روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ التِّرمِذی وَ حَسَّنَه ُ وَ الۡحاکِمُ عَنۡ زیۡدِ بۡنِ اَرۡقَم، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تُخْلِفُونِّي فیه ِما
"
ترمذی (روایت کے حسن ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے) اور حاکم نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: میں تمہارے درمیان ایسی چیز امانت چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اس سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت و اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔ پس خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو۔
۲ ۔ ابن عبد ربّہ نے عقد الفرید
میں اور جلال الدین سیوطی نے کتاب "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۷ میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ عَبۡدُ بۡنُ حَمید فی مُسۡنَدِه عَنۡ زیۡد بن ثابت، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه بَعدی لَمۡ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَ اِنَّه ُما لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
"
عبد بن حمید نے اپنی کتاب مسند میں زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خد انے فرمایا: میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اس سے متمسک رہو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا قران اور میری عترت و میرے اہل بیت علیھم السلام ہیں بتحقیق یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان
یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ فی مُسۡنَدِه عَنۡ عَبۡدِ بن حَمید بِسَنَدٍ جَیِّدٍ
"
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں یہ روایت عبد بن حمید سے اچھی و مضبوط سند (رجال نیک) سے نقل کی ہے۔
۳ ۔ شیخ سلیمان
نے کچھ مختلف، نیز جلال الدین سیوطی نے کتاب احیاء المیت بفضائل اہل البیت علیھم السلام حدیث نمبر ۸ میں روایت کی ہے:
"اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ وَ اَبوُ یَعۡلی عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری اَنَّ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه قالَ: اِنّی اوشک اَنۡ ادعی فَاُجیب، وَ اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ الثَّقَلَیۡنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَ اِنَّ اللَّطیفَ الۡخَبیرَ خَبَّرَنی اَنَّه ُما لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تُخْلِفُونِّي فیه ِما
"
احمد بن حنبل و ابو یعلی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: عنقریب مجھے پروردگار کی جانب بلالیا جائے گا اور میں اس کی طرف اجابت کروں گا پس میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت و اہل بیت بیشک خداوند عالم لطیف وخبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔ پس ہوشیار رہنا کہ انکے ساتھ کس طرح رویہ اختیار کرتے ہو۔
۴ ۔ "اَخۡرَجَ البَزّار عَنۡ عَلیٍّ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنّی مَقۡبُوضٌ، وَ اِنّی قَدۡ تَرَکۡتُ فِيكُمْ الثَّقَلَینِ كِتَابَ اللَّهِ وَ اَهْلَ بَيْتِي وَ اِنَّکُمۡ لَنۡ تَضِلّوا بَعۡدَه ُما
"
جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت بفضائل اہل البیت علیھم السلام حدیث نمبر ۲۳ کے ذیل میں بزّار سے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: میری روح قبض ہونے کا وقت قریب ہے پس میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت و اہل بیت لہذا ان سے متمسک ہوکر ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔
۵ ۔ "اَخۡرَجَ التِّرمذی عَنۡ جابرِ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : یا اَیُّه َا النّاسُ اِنّی تَرَکۡتُ فِيكُمْ مَا اِنْ اَخَذۡتُمۡ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي
"
ترمذی نے اپنی کتاب صحیح
، بغوی نے مصابیح السنّۃ، ص ۲۰۶ ، جلال الدین سیوطی نے "احیاءء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۴۰ کے تحت جابر سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: میں تمہارے درمیان ایسی چیز بطور یادگار چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان سے وابستہ رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: کتاب خدا اور میری عترت و اہل بیت علیھم السلام ہیں۔
۶ ۔ "اَخۡرَجَ الۡباروردی عَنۡ اَبی سَعید، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ سَبَبُ طَرَفِه بِیَدِ الله ِ وَ طَرفه بِاَیۡدیکُمۡ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ اِنَّه ُما لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
"
جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۵۵ کے تحت باروردی سے اور انہوں نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: بتحقیق میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اس سے وابستہ رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کی جانب ہے اور دوسرا سِرا تمہاری طرف ہے اور دوسری میری عترت و اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔
۷ ۔ "اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ عَنۡ زیۡدِ بن ثابِت، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلیفَتَیۡنِ، كِتَابَ اللَّهِ حَبۡلٌ مَمۡدوُدٌ بَیۡنَ السَّماءِ وَ الۡاَرضِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَ اِنَّه ُما لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
"
طبرانی نے جامع الصغیر
میں جلال الدین سیوطی نے "احیاء المیت بفضائل اہل البیت" حدیث نمبر ۵۶ کے تحت احمد بن حنبل سے انہوں نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑ کر جا رہا ہوں، کتاب خدا جو کہ آسمان و زمین کے مابین ریسمان الٰہی ہے اورمیری عترت و اہل بیت علیھم السلام بتحقیق یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔
نکتہ:شیخ سلیمان
نے یہ روایت "الموالاۃ" ابن عقدہ سے انہوں نے محمد بن کثیر کے طریق سے فطر و ابو الجارود سے انہوں نے ابو الطفیل سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کی ہے۔
۸ ۔ "عَنۡ زَیۡدِ بن اَرۡقَم، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، اَحَدُه ُما اَعۡظَمُ مِنۡ الۡآخَرِ كِتَابَ اللَّهِ حَبۡلٌ مَمۡدُودٌ مِنَ السَّماءِ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تُخْلِفُونِّي فیه ِما
"
شیخ سلیمان
نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: بتحقیق میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے جن میں اول دوسری سے اعظم ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو کہ آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی حبل الٰہی ہے اور دوسری میری عترت ہے وہی میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتے ہو۔
نکتہ: شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی کتاب جامع میں اسے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ روایت "حسن" ہے۔
۹ ۔ "اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه قال فی مَرَضِ مَوۡتِه : اَیُّه َا النّاسُ یوُشَکُ اَنۡ اُقۡبِضَ قَبۡضاً سَریعاً وَ قَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَیۡکُمۡ الۡقَوۡلَ مَعۡذِرَةً اِلَیۡکُمۡ اَلا اِنّی مُخۡلفٌ فیکم كِتَابَ اللَّهِ عَزَّوَ جَلَّ وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ اَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ فَقالَ: ه ذا عَلِیٌّ مَعَ القُرۡآنِ وَ الۡقُرآنُ مَعَ عَلِیٍّ لا يَفْتَرِقَانِ حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَاَسۡئَلُه ُما مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فیه ِما
"
شیخ سلیمان
بلخی حنفی نے صواعق محرقہ ابن حجر مکی (حدیث نمبر ۴۰ از ابعین حدیث فضائل امیر المؤمنین کے ذیل میں) سے روایت کی ہے کہ بتحقیق حضور سرور کائنات نے اپنے بستر مریضی پر ارشاد فرمایا: عنقریب میری روح قبض ہونے والی ہے اور بیشک میں تمہارے درمیان اپنا جانشین چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت و اہل بیت، پھر آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ علی علیہ السلام قران کے ساتھ ہے اور قران علی علیہ السلام کے ساتھ ہے یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے پس میں تم لوگوں سے ان دونوں کے بارے میں سوال کروں گا کہ تم نے میرے بعد انکے ساتھ کیسا سلوک کیا۔
۱۰ ۔ "وَ اَخۡرَجَ اِبۡنُ عُقۡدَة فی الۡمُوالاةِ عَنۡ عامِرِ بن اَبی لِیۡلَی بن ضَمُرَة وَ حُذَیۡفَة بن اَسید قالا: قالَ النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه أَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ اللَّهَ مَوْلَايَ وَ اَنَا اَوْلى بِکُمۡ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ، اَلَا وَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَه ذا مَوْلاهُ وَ اَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ فَرَفَعَه ا حَتّی عَرَفَه الۡقَوۡمَ اَجۡمَعوُنَ، ثُمَّ قالَ: اَللَّهُمَّ وَالِ مَنْ والاهُ وَ عادِ مَنْ عاداهُ، ثُمَّ قَالَ: اِنِّي سائِلُكُمْ حينَ تَرِدُونَ عَلَيَّ الۡحَوۡضَ عَنِ الثَّقَلَيْنِ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِّي فِيهِمَا، قالوا: وَ مَا الثَّقَلَانِ؟ قَالَ: اَلثَّقَلُ الۡاَکۡبَرُ كِتابُ اللَّهِ سَبَبُ طَرَفِه بِيَدِ اللَّهِ وَ طَرَفه فِي بِاَيْديكُمْ، وَ الۡاَصۡغَرُ وَ قَدۡ نَبَّأَنِي اللَّطِيفُ الْخَبيرُ اَنْ لَا يَفۡتَرِقَا حَتَّى يلْقِياني، سَئَلۡتُ رَبّی لَهُمۡ ذَلِكَ فَاَعْطاني، فلا تسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا، وَ لَا تعلمُوهُمْ فَاِنَّهُمْ اَعْلَمُ مِنْكُمْ
"
شیخ سلیمان
نے "الموالات" ابن عقدہ سے انہوں نے عامر بن ابی لیلی بن ضمرہ اور حذیفہ بن اسید سے روایت کی ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا: اے لوگو! اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمہارے نفوس پر خود تم سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا یہ علی علیہ السلام مولا ہے اور علی علیہ السلام کے ہاتھ کو اتنا بلند کیا کہ پوری قوم علی علیہ السلام کو اچھی طرح پہچان لے پھر آنحضرت نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: اے اللہ! جو اسے دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ۔ اور یاد رکھو جب تم حوض کوثر پر میرے پاس پہنچو گے تو میں ان دونوں کے بارے میں تم لوگوں سے سوال کروں گا پس دیکھتا ہوں کہ تم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔ اس وقت اصحاب رسولؐ نے سوال کیا: یا رسولؐ اللہ! "ثقلین" سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر "کتاب خدا" قران ہے اور ثقل اصغر میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں اور خداوند مہربان و خبیر نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ مجھ سے آملیں گے۔ میں نے خدا سے انکی درخواست کی تھی اور خدا نے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں مجھے عطا کیا ہے۔ دیکھو! ان سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور انہیں کچھ سکھانے پڑھانے کی کوشش مت کرنا کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔
نکتہ ۱: شیخ سلیمان اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"اَیۡضاً اَخۡرَجَه ُ اِبۡنُ عُقۡدَة مِنۡ طَریقِ عَبۡدِ الله ِ بن سنان عَنۡ اَبی الطُّفَیۡلِ عَنۡ عامِر وَ حُذَیۡفَةِ ابن اَسید
"
یعنی نیز یہ روایت ابن عقدہ نے از طریق عبد اللہ بن سنان سے انہوں نے ابو طفیل سے انہوں نے عامر و حذیفہ بن اسید سے بھی نقل کی ہے (پس بنابریں اس روایت کی دو سندیں ہیں)۔
نکتہ ۲: اس حدیث شریف میں اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں چند حقائق موجود ہیں مثلاً رسول اکرم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت اور امت کی سرپرستی کے بارے میں تصریح موجود ہے۔ یاد رہے کہ ہم کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین
" اور در دست کتاب کے مختلف اوراق میں متعدد روایات
سے اس حقیقت کو ثابت کرچکے ہیں۔
روایات ثقلین میں اہل بیت علیھم السلام سے مراد
اب جبکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ احادیث ثقلین قطعی و یقینی اور متواتر ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان روایات میں اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟
اوّلاً: ہم اسی باب کی پہلی فصل میں متعدد روایات کے ذریعے اس حقیقت کو ثابت کرچکے ہیں۔
ثانیاً: احادیث ثقلین میں اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟ ہم اس سوال کے جواب میں احادیث ثقلین و روایات نبوی میں سے ایک ایسی حدیث پیش کر رہے ہیں جس میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: ثعلبی جو کہ علمائے اہل سنت میں "امام اصحاب تفسیر" کے نام سے مشہور ہیں اپنی تفسیر "کشف البیان" میں آیت تطہیر
کے ذیل میں نبی کریمؐ سے روایت نقل کرتے ہیں:
"قالَ رَسوُلُ الله صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنّی مُخۡلفٌ فیکُمُ الثّقَلَیۡنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي وَ اِنَّه ُما لَنۡ یَفۡتَرِقا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ کَهاتَیۡنِ – وَ ضَمَّ سبّابَتَیۡه ِ – فَقامَ اِلَیۡه ِ جابِرُ بن عَبۡدِ الله ِ الۡاَنصاری فَقالَ: یا رَسوُلَ الله ِ وَ مَنۡ عِتۡرَتُکَ ؟ قالَ: عَلِیٌّ وَ الۡحَسَنُ وَ الۡحُسَیۡنُ وَ الۡاَئِمَّه ُ مِنۡ وُلۡدِ الۡحُسَینِ اِلی یَوۡمِ الۡقِیامَةِ
"
رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت و اہل بیت (ع)۔ اور یہ دونوں ان دو انگلیوں کی طرح ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گےیہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔ اس وقت جابر بن عبد اللہ انصاری نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی عترت کون ہے؟ فرمایا: علی و حسن و حسین علیھم السلام اور نسل حسین کے ائمہ علیھم السلام جو کہ قیامت تک رہیں گے۔
نکتہ: حدیث ثقلین کے بارے میں مذکورہ دس روایات سے روایت نمبر ۹ سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔
حدیث ثقلین کے بارے میں ایک اہم نکتہ
ہم نے جن افراد سے یہاں حدیث ثقلین کو نقل کیا ہے انکے اسماء یہ ہیں: زید بن ارقم، زید بن ثابت، ابو سعید خدری، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام ، جابر بن عبد اللہ انصاری، عامر بن ابی لیلی، حذیفہ بن اسید۔ البتہ حدیث ثقلین نقل کرنے والے صرف یہی افراد نہیں ہیں بلکہ دیگر افراد مثلاً ابوذر غفاری، امّ ہانی، دختر ابو طالب، ام سلمہ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاوغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے مزید تفصیل کے لئے کتاب ینابیع المودۃ، باب ۴ ، ص ۳۴ تا ۴۱ رجوع فرمائیں۔
اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں مذکورہ ستّر روایات کا نتیجہ
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ہم نے مذکورہ ستّر روایات علمائے اہل سنت کی کتب سے استناد کرکے پیش کی ہیں؛ یہاں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھ رہے ہیں کہ اگرچہ اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں نقل شدہ روایات بہت زیادہ ہیں لیکن ہم نے ان میں سے صر ف ستّر روایات منتخب کرکے بطور گلچین پیش کی ہیں کیونکہ اگر ان تمام روایات کو نقل کیا جائے تو اس کام کے لئے مفصل و ضخیم جلدیں درکار ہیں، جو بہرحال اس وقت ہمارے بس سے باہر ہے۔
بیشک در حقیقت زبان ، اہل بیت علیھم السلام کے مقام و مرتبہ کو بیان کرنے سے قاسر ہے البتہ جو بات آیات و روایات سے معلو م ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل بیت علیھم السلام سے تمسک اور انکی ولایت و مودّت واجب ہونے کے علاوہ نبی کریمؐ پر صلوات بھیجتے وقت اہل بیت علیھم السلام پر بھی صلوات بھیجنا ضروری ہے۔ اس دنیا میں مؤمنین کی سعادت ولایت اہل بیت علیھم السلام ہی کے سایہ میں ممکن ہے، انکی ولایت گناہوں کی نابودی کا باعث ہے، اہل بیت سے محبت، رسولؐ اللہ سے محبت ہے، اور ان سے دشمنی گویا رسولؐ اللہ سے دشمنی ہے۔ جبکہ:
آخرت میں پل صراط سے گذرنے، قیامت میں سوال کے موقع پر، آتش دوزخ سے نجات کے لئے، مقام اعراف میں پہچان و شناسائی کا ذریعہ، شفاعت کے موقع پر، بہشت میں داخل ہونے کے لئے اور اعمال و عبادات کے قبول ہونے کے لئے یہی ولایت و سرپرستی اہل بیت علیھم السلام کام آنے والی ہے کیونکہ حدیث ثقلین کی روشنی میں اہل بیت علیھم السلام سے تمسک، نجات کا ذریعہ اور ان سے دوری ہلاکت کا سبب ہے۔
____________________