مناقب و خصائص امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں کتب اہل سنت سے چالیس روایات
اب ہم محترم قارئین کی خدمت میں مناقب و خصائص امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں علمائے اہل سنت کی کتب سے چالیس روایات پیش کر رہے ہیں جن میں لسان وحی و نبوت کی زبانی فراواں حقائق پیش کئے گئے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کثرت روایات پر علمائے اہل سنت کا اقرار
شیخ سلیمان
نے صواعق محرقہ ابن حجر مکی سے نقل کیا ہے:
"قالَ صاحِبُ الصَّواعِقِ: اَلۡفَصۡلُ الثّانی فی فَضائِلِ عَلِیٍّ رَضِیَ الله عَنۡه ُ، و ه ِیَ کَثیرَةٌ عَظیمةٌ شَه یرَةٌ حَتَّی قالَ اَحۡمَدُ بۡنُ حَنۡبَل ما جاءَ لِاَحَدٍ مِنَ الۡفَضائِلِ ما جاءَ لِعَلِیِّ رَضِیَ الله عَنۡه ُ، وَ قالَ اِسۡماعیلُ الۡقاضی وَ النِّسائی وَ اَبُو علی النیشابوری: لَمۡ یَرِدۡ فی حَقِّ اَحَدٍ مِنَ الصَّحابَةِ بِالۡاَسانیدِ الۡحِسانِ اَکۡثَرُ مِمّا جاء فی عَلِیٍّ، اَسۡلَمَ وَ ه ُوَ اِبۡنُ عَشَرَ سِنین، قالَ اِبۡنُ عَبّاس وَ اَنَسُ وَ زَیۡدُ بن اَرۡقَم وَ سَلۡمَانُ الۡفارۡسی وَ جَماعَةٌ اِنَّه ُ اَوَّلُ مَنۡ اَسۡلَمَ وَ نَقَلَ بَعۡضُه ُمۡ اَلۡاِجۡماعَ عَلَیه ِۡ، و نَقَلَ اَبوُ یَعۡلی عَنۡ عَلِیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ قالَ: بَعَثَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه ِ وَ سَلَّمَ یَوۡمَ الۡاِثۡنَیۡنِ وَ اَسۡلَمۡتُ یَوۡمَ الثَّلاثَةِ، اَخۡرَجَ اِبۡنُ سَعۡد بن زیۡدِ بن الۡحَسَنِ، قالَ : لَمۡ یَعۡبُدِ الۡاَوۡثانَ قَطُّ فی صِغَرِه ِ وَ مِنۡ ثَمَّة یُقالُ فیِ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ"
ابن حجر مکی صاحب صواعق محرقہ نے لکھا ہے: فصل دوئم: فضائل علی رضی اللہ عنہ کے بیان میں۔ یہ فضائل اتنے فراواں، عظیم اور مشہور ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں؛ جتنے فضائل علی بن ابی طالب کی شان میں بیان کئے گئے ہیں کسی کے لئے بیان نہیں کئے گئے۔
اسماعیل قاضی، نسائی اور ابو علی نیشاپوری کہتے ہیں: جتنی حسن روایات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کسی صحابی کے لئے وارد نہیں ہوئی ہیں، علی علیہ السلام نے اس وقت اعلان اسلام کیا جب صرف دس سال کے تھے۔
ابن عباس، انس بن مالک، زید بن ارقم، سلمان فارسی اور دیگر اصحاب رسولؐ اللہ کا کہنا ہے: سب سے پہلے اسلام کا اعلان کرنے والے علی بن ابی طالب‘ ہیں۔ بعض اس سلسلہ میں اجماع کے قائل ہیں۔ ابو یعلی نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: رسولؐ خدا بروز پیر مبعوث برسالت ہوئے اور میں نے منگل کے دن اعلان اسلام کردیا۔
ابن سعد بن زید بن حسن نے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اسلام سے قبل زمانہ طفلی میں بھی کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ نہیں کیا۔ اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں "کرّمَ اللہ وَجہہُ" کہا جاتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے کسی کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا
میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب مودۃ القربی (مودت ہفتم) میں ابو وائل کے توسط سے ابن عمر سے روایت کی ہے:
"عَنۡ اَبی وائلِ عَن اِبۡنِ عُمَر رَضِیَ الله ِ عَنۡه ُ قالَ: کُنّا اِذا اَعۡدَدۡنا اَصۡهابَ النَّبی قُلۡنا اَبوُبَکۡر وَ عُمَر وَ عُثۡمانِ فَقالَ رَجُلٌ یا اَبا عَبۡدِ الرَّحۡمانِ فَعَلِیٌّ ما ه و؟ قالَ: عَلِیٌّ مِنۡ اهل البیت لا یُقاسُ بِه اَحَدٌ ه ُوَ مَعَ رَسوُلِ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه فی دَرَجَتِه "
ابو وائل نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ اصحاب نبی کریمؐ کو شمار کر رہے تھے کہ اصحاب نبیؐ یہ ہیں: ابوبکر و عمر و عثمان (لیکن حضرت علی علیہ السلام کا نام نہیں لیا) تو ایک شخص نے سوال کیا: اے ابو عبد الرحمن تم نے علی علیہ السلام کو شمار کیوں نہیں کیا (کیا وہ اصحاب میں سے نہیں ہیں؟) عبد اللہ ابن عمر نے کہا وہ اہل بیت علیھم السلام میں سے ہیں، ان سے کسی کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا وہ رسولؐ اللہ کے ساتھ ان کے درجہ میں ہیں۔
میرسید علی ہمدانی نے کتاب مودت القربیٰ (مودّت ہفتم) میں احمد بن محمد کرزری بغداد سے روایت کی ہے:
"وَ عَنۡ اَحۡمَد بن مُحَمَّدٍ الۡکَرۡزَریِ الۡبَغۡدادی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: سَمِعۡتُ عَبۡدَ الله ِ بن اَحۡمَد حنبل، قالَ: سَألۡتُ اَبی عَنِ التَّفۡضیلِ فَقال: اَبوبَکر و عُمَر وَ عُثۡمان ثُمّ أَ سَکَتَ، فَقُلۡتُ: یا اَبَتِ اَیۡنَ عَلِیُّ بن ابیطالِبٍ قالَ: ه ُوَ مِنۡ اهل البیت لا یُقاسُ بِه ه ؤُلاءِ"
احمد بن محمد کرزری بغدادی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل سے سنا ہے وہ کہتے ہیں میں اپنے والد (احمد بن حنبل) سے اصحاب کی برتری کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر و عثمان پھر وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے فورا سوال کیا: پس علی بن ابی طالب کیا ہوئے؟ والد نے جواب دیا: علی بن ابی طالب‘ اہل بیت علیھم السلام میں سے ہیں ان لوگوں کا حضرت علی سے موازنہ و مقایسہ نہیں کیاجاسکتا۔
افضلیت علی علیہ السلام کے بارے میں ابن ابی الحدید کا بیان
اگرچہ افضلیت علی علیہ السلام "اظہر من الشمس" ہے اور علمائے اہل سنت نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے لیکن ابن ابی الدہید نے شرح نہج البلاغہ
میں مفصل اس سلسلہ میں قلم فرسائی کی ہے اور مختلف علوم مثلاً علم، فقہ، علم تفسیر، نحو، تجوید و قرائت وغیرہ کو شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام علوم کے مبدع حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں۔ پھر حضرت علی علیہ السلام کی مختلف صفات مثلاً شجاعت، قوّت بازو، سخاوت، حلم و بردباری، جہاد، بلاغت، زہد و تقویٰ اور تدبیر وغیرہ بیان کرتے ہیں؛ اور بالآخر کہتے ہیں:
"ما اَقوُلُ فی رَجُلٍ اَقَرَّ لَه ُ اَعۡدائُه ُ وَ خُصوُمُه ُ بِالۡفَضۡلِ، وَ لَمۡ یُمۡکِنُه ُمۡ جَحد مَناقِبِه وَ لا کِتمانَ فضائِلِه ، فَقَدۡ عَلِمۡتَ اَنَّه اِسۡتَوۡلی بَنُوا اُمَیَّة عَلی سُلۡطانِ الۡاِسۡلامِ فی شَرِۡ الۡاَرۡضِ وَ غَرۡبِه ا وَ اجۡتَه َدوُا بِکُلِّ حیلَةٍ فی اِطۡفاءِ نوُرِه ِ، وَ مَنَعوُا مِنۡ روایةِ حَدیثٍ یَتَضَمَّنَ لَه ُ فَضیلَة، اَو یَرۡفَعُ لَه ُ ذِکۡراً، حَتّی خَطرُوا اَنَّ یُسَمَّی اَحَدٌ بِاِسۡمِه فَما زادَه ُ اِلَّا رَفۡعَةً وَ سُمُوّاً، وَ کان کَالمِسۡکِ کُلَّما سُتِرَ اِنۡتَشَرَ عَرفُه ُ، وَ کُلَّما کُتِمَ تَضَوَّعَ نَشۡرُه ُ، وَ کَالشَّمۡسِ لا تسۡتُر بِالرّاحِ، وَ کَضَوۡ ءِ النَّه ارِ اِنۡ حَجَبَتۡ عَنۡه ُ عَیۡنٌ واحِدة، اَدۡرَکَتۡه ُ عُیوُنٌ کَثیرَةٌ"
میں اس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے فضائل کا اعتراف اس کے دشمن بھی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ لوگ ہرگز آنجناب کے مناقب کا نہ انکار کرسکتے ہیں نہ انکے فضائل پر پردہ ڈال سکتے ہیں۔ بتحقیق آپ سب جانتے ہیں کہ بنی امیہ مشرق تا مغرب سرزمین اسلامی پر مسلط ہوکر شب و روز اور ہر حیلہ و وسیلہ کے ذریعے نور علی بن ابی طالب‘ کو خاموش کرنے کی کوششیں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل پر مشتمل روایات کے نشر و بیان میں مانع ہوتے رہے، انکی یاد مٹانے کے لئے سعی کرتے رہے یہاں تک کہ کسی کو اپنے فرزند کا نام بھی علی علیہ السلام نہیں رکھنے دیتے تھے۔ حالانکہ انکے اس کام سے نام علی علیہ السلام کو اور زیادہ رفعت و شہرت حاصل ہوگئی جس طرح مُشک کو جتنا روکنا چاہیں وہ اتنا ہی زیادہ فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ نیز جس طرح نور خورشید کو نہیں روکا جاسکتا حضرت علی علیہ السلام کے نور فضائل کو بھی نہیں روکا جاسکتا ہے۔ علی علیہ السلام روز روشن کے نور کی طرح ہیں کہ اگر بعض آنکھیں انہیں نہیں دیکھ سکتیں لیکن کثیر آنکھیں انکے نور کو درک کرتی ہیں۔
جو کچھ محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے وہ ایسے حقائق پر مشتمل ہے جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ فضائل کا ایسا سمندر ہے جس کا ساحل نہیں ہے۔
ایک اعتراض اور اس کا دندان شکن جواب!
ممکن ہے کہ مخالفین میں سے کوئی یہ اعتراض کرے کہ اخبار و روایات میں جو فضائل حضرت ابوبکر و عمر و عثمان کے بارے میں آئے ہیں وہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ فضائل سے معارض ہیں۔
جواب:
اول: ہم فی الحال اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضیلتیں ہیں لیکن دوسرے اصحاب میں کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ ہم اس وقت فقط تمام صحابہ کرام پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلّیت و برتری کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس افضلیّت و برتری کا خود اہل سنت کے علماء بھی اعتراف و اثبات کرتے ہوئے ان الفاظ میں تصریح کر رہے ہیں: "حضرت علی علیہ السلام سے اصحاب میں سے کسی کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے"۔
دوئم: ہم شیعوں کے مخالفین نے خود اپنی اسناد کے توسط سے خلفائے ثلاثہ کے ایسےفضائل نقل کئے ہیں جو صرف ہماری نظر ہی میں نہیں بلکہ بہت سے علمائے اہل سنت کی نظر میں بھی قابل اثبات نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے علمائے اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے مثلاً: مقدسی کی تذکرۃ الموضوعات، فیروز آبادی کی سفر السعادات، ذہبی کی میزان الاعتدال، سبط ابن جوزی کی کتاب الموضوعات، جلال الدین سیوطی کی لآلی المصنوعہ وغیرہ۔ ان کتب میں تصریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے یہ احادیث موضوعات و مفتریات میں سے ہیں۔
ہم نے کتاب اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام
میں شیخین کے فضائل کے بارے میں علمائے اہل سنت کی کتب سے آٹھ احادیث نقل کی ہیں اور پھر علمائے اہل سنت کی انہی کتب (الموضوعات و میزان الاعتدال وغیرہ) سے استفادہ کرتے ہوئے انکے بطلان کو ثابت کیا ہے۔
سوئم: آپ نے فضائل اصحاب ثلاثہ کے اثبات کے لئے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ درحقیقت یکطرفہ ہیں ورنہ حتی ایک روایت بھی متفق علیہ پیش نہیں کرسکتے کہ جس میں حضور سرور کائنات نے انہیں اپنا وصی و جانشین قرار دیا ہو، یا اپنے آپ کو شہر علم اور انہیں باب شہر علم ، یا کشی نجات قرار دیا ہو، یا انکی صلح کو اپنی صلح قرار دیا ہو، یا ان سے جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا ہو، یا انہیں اپنا نفس و جان قرار دیا ہو، یا ان سے بغض و عناد رکھنے سے لوگوں کو ڈرایا ہو
چہارم: جن روایات میں اصحاب ثلاثہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ان میں فضائل علی علیہ السلام بیان کرنے والی روایات سے مقابلے کی قوت کہاں ہے، نہ سند میں زور ہے اور نہ ہی دلالت میں طاقت بیان ہے اور نہ ہی یہ روایات انکی خلافت پر دلالت کر رہی ہیں اور نہ ہی حضرت علی علیہ السلام پر انکی افضلیّت کو ثابت کر رہی ہیں اسی لئے علمائے اہل سنت میں سے کسی نے بھی انکی خلافت کے لئے ان روایات کا سہارا نہیں لیا ہے۔
آخر وہ کون سی فضیلت و حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر عبد اللہ بن عمر و احمد بن حنبل جیسے حضرات یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ "حضرت علی علیہ السلام سے اصحاب میں سے کسی کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا حتی کہ خلفاء بھی"۔
اب جبکہ ہم نے علمائے اہل سنت کے اعتراف کو آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے اور احمد بن حنبل و نسائی جیسے علمائے اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ جتنی روایات حسن، فضائل علی علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کسی صحابی کے لئے وارد نہیں ہوئی ہیں۔ اب ہم حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و خصائص پر مشتمل "گلستان روایات" سے چالیس روایات "گلچین" کر رہے ہیں:
۱ ۔ بقول حضرت عمر، فضائل علی علیہ السلام قابل شمار نہیں
محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کتاب "کفایت الطالب" باب نمبر ۶۲ ، میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب "مودّۃ القربی" مودت پنجم میں، اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے کتاب "ینابیع المودۃ" باب ۵۶ ، ص ۲۴۹ میں عمر ابن خطاب اور عبد اللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‘ سے فرمایا:"لَو اَنَّ الۡبحَرۡرَ مِدادٌ، وَ الرّیاضَ اَقۡلامٌ، وَ الۡاِنۡسَ کُتّابٌ، ما اَحۡصَوۡا فضائِلَکَ یا اَبَا الۡحَسَنِ"
اگر تمام دریا روشنائی میں تبدیل ہوجائیں، تمام درخت قلم بن جائیں، تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں اور تمام جن حساب کریں تب بھی فضائل ابو الحسن شمار نہیں کرسکتے۔
۲ ۔ حضرت علی علیہ السلام ، نبی کریمؐ کے بعد سب کے ولی و سرپرست ہیں
"اَلۡحَدیثُ الثَّامِن عَشَرَ: عَنۡ عِمۡران بن الۡحصین رَضِیَ الله ِ عَنۡه ُ قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ: عَلِیٌّ مِنّی وَ اَنَا مِنۡه ُ وَ ه ُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤۡمِنٍ وَ مُؤۡمِنَةٍ بَعۡدی"
شیخ سلیمان
نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: علی علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں علی علیہ السلام سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن و مؤمنہ کے سرپرست ہیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۳ ۔ علی علیہ السلام ، وصی و وارثِ رسولؐ اللہ ہیں
" اَلۡحَدیثُ الثّامِنُ: عَن بُرَیۡدَة رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : لِکُلِّ نَبِیٍّ وَصی و وارِثٌ وَ اِنَّ عَلیّاً وَصِیّی وَ وارثی "
شیخ سلیمان
نے بریدہ سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: ہر نبی کا ایک وارث و وصی ہوتا ہے اور میرا وصی و وارث علی بن ابی طالب ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
۴ ۔ سوال سلمان! وصی پیغمبر کون؟
"عَنۡ اَنَسِ بن مالِک رَضِیَ الله ِ عَنۡه ُ، قالَ: قُلۡنا لِسَلۡمان سَلۡ النَّبیﷺ مَنۡ وَصِیُّه ُ؟ فَسَألَه ُ فَقالَ: یا سَلۡمانُ وصیِّی و وارثِی وَ مُقۡضی دَیۡنی وَ مُنۡجِزُ وَعۡدی عَلِیُّ بن ابیطالِبٍ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ"
شیخ سلیمان
نے انس بن مالک سے روایت کی ہے: وہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمان سے کہا: نبی کریمؐ سے سوال کرو کہ آپؐ کا جانشین و وصی کون ہے؟ پس سلمان نے جب سوال کیا تو حضورؐ نے فرمایا: اے سلمان! میرا وصی و وارث، میری امانات کو لوٹانے والا اور میرے وعدوں کو پورا کرنے والا علی بن ابی طالب‘ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں: یہ روایت احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کی ہے۔
۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام کو امیر المؤمنین کا خطاب کب ملا؟
" عَن حُذَیۡفَة رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : لَوۡ یَعۡلَمُ النّاسُ مَتی سُمِّیَ عَلِیٌّ اَمیرَ الۡمؤۡمِنینَ لَما اَنۡکَروُا فَضائله ُ، سُمِّیَ بِذلِکَ وَ آدَمُ بَیۡنَ الرّوُحِ و الۡجَسَدِ وَ حینَ قالَ: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ قالوُا بلی، فَقالَ الله ُ تَعالی: اَنَا رَبُّکُمۡ و مُحَمَّدٌ نَبِیُّکُم وَ عَلِیٌّ اَمیرُکُمۡ "
شیخ سلیمان
نے حذیفہ سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: اگر لوگوں کو یہ بات معلوم ہوجاتی کہ علی علیہ السلام کو امیر المؤمنین کا خطاب کب ملا ہے تو ہرگز ان کے فضائل کا انکار نہ کرتے۔ علی علیہ السلام کو اس وقت امیر المؤمنین کا خطاب ملا ہے جب آدم روح وجسد کے درمیان تھے اور جس وقت خداوند عالم نے عہد لیتے وقت سوال کیا تھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں تو سب نے کہا تھا: کیوں نہیں یقیناً تو ہمارا پروردگار ہے۔ اس وقت خداوند عالم نے فرمایا: میں تمہارا پروردگار ہوں، محمدؐ تمہارے پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام تمہارے امیر ہیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں: صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
نکتہ: میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب مودّت القربی میں مودّت چہارم کا یہ عنوان قرار دیا ہے: "فِی اَنَّ عَلِیّاً امیرُ الۡمُؤۡمِنینَ وَ سَیِّدُ الۡوَصِین وَ حُجَّةُ الله ِ عَلَی الۡعالَمینَ
" یعنی یہ چوتھی مودّت "حضرت علی امیر المؤمنین و سید الوصیین و حجۃ اللہ علی العالمین" کے بارے میں ہے۔
۶ ۔ نبیؐ و علی علیہ السلام خلق خدا پر حجت ہیں
"عَنۡ اَنَسِ بن ماِلک رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: رَأَیۡتُ رَسوُلُ الله ِﷺ جالِساً مَعَ عَلِیٍّ فَقالَ: اَنا وَ ه ذا حُجَّةُ الله ِ عَلی خَلۡقِه "
شیخ سلیمان
نے انس بن مالک سے روایت کی ہے ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ رسولؐ اللہ، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تشریف فرما ہیں اور آپؐ نے اس وقت فرمایا: میں اور یہ علی علیہ السلام خلقِ خدا پر حجت ہیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس و احمد بن حنبل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۷ ۔ وصایت علی علیہ السلام پر اصحاب کا نبیؐ کی بیعت کرنا
"عُتۡبَةُ بن عامِرِ الۡجه َنّی، قالَ: بایَعَنا رَسُولُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه عَلی قَوۡلِ اَنۡ لا اِله َ اِلّا الله ُ وَحۡدَه ُ لا شَریکَ لَه ُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً نَبِیُّه ُ وَ عَلیّاً وَصِیُّه ُ فَاَیُّ مِنَ الثَّلاثَةِ تَرَکۡناه ُ کَفَرۡنا، و قالَ لَنَا النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه اُحِبُّوا ه ذا یَعۡنی عَلِیّاً فَاِنَّ الله ُ یُحِبُّه ُ وَ استَحۡیوُا فَاِنَّ الله َ یَسۡتَحیی مِنۡه ُ"
میر سید علی ہمدانی نے کتاب "مودۃ القربی" مودت نمبر ۴ میں روایت کی ہے کہ عتبہ بن عامر جہنی کا کہنا ہے: رسول اللہ نے ہم سے تین چیزوں کی بیعت لی: اول یہ کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں ہے وہ واحد و یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ دوئم یہ کہ محمد مصطفی اللہ کے نبیؐ ہیں، سوئم یہ کہ علی علیہ السلام نبی کے وصی ہیں۔ پس جو شخص بھی ان تین میں سے کسی ایک کو بھی ترک کردے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ پھر نبی نے ہم سے فرمایا: دیکھو! اس علی علیہ السلام سے محبت رکھنا کیونکہ خدا بھی ان سے محبت رکھتا ہے اور انکے بارے میں شرم وحیاء رکھو کیونکہ خدا بھی انکے بارے میں شرم و حیاء رکھتا ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان
کہتے ہیں: میر سید علی ہمدانی نے اس روایت کو مودّت القربی میں نقل کیا ہے۔
۸ ۔ اے ابوبکر، علی علیہ السلام میرے وزیر ہیں انکی رضا میری رضا ہے
"اَبوُ مُوسی الۡحَمیدی، قالَ: کُنۡتُ مَعَ رَسوُلِ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ اَبی بَکۡر وَ عُثۡمان وَ عَلی، فَالۡتَفَتَ اِلی اَبی بَکۡر فَقالَ یا اَبابَکر ه ذا الّذی تَراه ُ وَزیری فِی السَّماءِ وَ وَزیری فِی الۡاَرۡضِ یَعۡنی عَلِیَّ ابۡنَ اَبیطالِبٍ فَاِنَّ اَحۡبَبۡتَ اَنۡ تَلۡقَی الله َ وَ ه ُوَ عَنۡکَ راضٍ فَارۡضِ عَلِیّاً فَاِنَّ رِضائَه ُ رِضاءَ الله وَ غَضَبَه ُ غَضَبَ الله ِ "
شیخ سلیمان حنفی
نے میر سید علی ہمدانی کی کتاب "مودۃ القربی" مودّت نمبر ۶ کے ذیل میں روایت کی ہے کہ ابو موسیٰ حمیدی کہتے ہیں: ایک مرتبہ میں، علی علیہ السلام ، ابوبکر اور عثمان پیغمبر گرامی قدر کے ہمراہ تھے کہ رسولؐ اللہ نے ابوبکر کی طرف رُخ کرکے فرمایا: اے ابوبکر یہ شخص جسے تم دیکھ رہے ہو یعنی علی بن ابی طالب‘یہ آسمانوں میں میرا وزیر ہے اور زمین پر بھی میرا وزیر ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حالت میں ملاقات کرو کہ وہ تم سے راضی ہو تو علی علیہ السلام کو راضی رکھو کیونکہ علی علیہ السلام کی رضا رضائے الٰہی ہے اور غضب علی علیہ السلام غضب الٰہی ہے۔
سوال: کیا حضرت ابوبکر نے سقیفہ بنی ساعدہ و فدک اور حضرت علی علیہ السلام کو بیعت کے لئے مسجد لے جاتے ہوئے اور دیگر موارد میں، اس روایت پر عمل کیا تھا یا نہیں؟
ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام
" میں کتب علمائے اہل سنت سے اس سوال کا جواب پیش کیا ہے رجوع فرمائیں۔
۹ ۔ روایت عمر بن خطاب کی روشنی میں علی ؑ، خلیفہ و وصی پیغمبر ہیں
"عُمَرُ بن الۡخَطّابِ قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه لَمّا عَقَدَ الۡمُؤاخاةَ بَیۡنَ اَصۡحابِه قالَ: ه ذا عَلِیٌّ اَخی فی الدُّنیا وَ الۡآخِرَةِ وَ خَلیفَتی فی اَه ۡلی وَ وَصِیّیِ فی اُمَّتی وَ وارثُ عِلۡمی وَ قاضی دَیۡنی، مالُه ُ مِنّی، مالی مِنۡه ُ، نَفۡعُه ُ نَفعی، وَ ضُرُّه ُ ضُرّی، مَنۡ اَحَبَّه ُ فَقَدۡ اَحَبَّنی وَ مَنۡ اَبۡغَضَه ُ فَقدۡ اَبۡغَضنی "
شیخ سلیمان
نے میر سید علی ہمدانی شافعی کی کتاب "مودۃ القربی" مودت نمبر ۶ کے ذیل میں حضرت عمر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں جب حضور نے اپنے اصحاب کے درمیان عقد برادری اور رشتہ اخوّت قائم فرمایا تھا اس وقت فرمایا: یہ علی علیہ السلام دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے، میرے لوگوں میں میرا خلیفہ ہے، میری امت میں میرا وصی ہے، میرے علم کا وارث ، میری امانتوں کو ادا کرنے والا ہے، اس کا مال میرا مال ہے، میرا مال اس کا مال ہے، ا س کا نفع میرا نفع ہے اور اس کا نقصان میرا نقصان ہے، جو علی علیہ السلام کا محب ہے وہ میرا محب ہے اور یاد رکھو جو علی علیہ السلام کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔
سوال: رحلت رسول کے موقع پر، سقیفہ بنی ساعدہ اور حضرت علی علیہ السلام کو جبرا مسجد لے جاتے وقت حضرت عمر نے کس حد تک اس روایت پر عمل فرمایا تھا؟
جواب کے لئے کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام
" کی طرف رجوع فرمائیں جس میں علمائے اہل سنت کی کتب سے مستند جواب دیا گیا ہے۔
۱۰ ۔ روایت انس کے مطابق علی علیہ السلام وزیر و خلیفہ نبیؐ ہیں
" وَ عَنۡ اَنَس، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : اِنَّ اَخی و وَزیری وَ خَلیفَتی فی اَه ۡلی وَ خَیۡرُ مَنۡ اَتۡرَکَ بَعۡدی، یُقۡضی دَیۡنی وَ یُنۡجِزُ مَوۡعِدی عَلِیُّ بن اَبیطالِبٍ "
میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب مودۃ القربی "مودت نمبر ۷" کے ذیل میں انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: بتحقیق علی بن ابی طالب‘ میرا بھائی، میرا وزیر اور لوگوں میں میرا خلیفہ ہے اوروہ بہترین شخص جسے میں اپنے بعد چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ وہ ہی میری امانتوں کو لوٹائے گا میرے قرض ادا کرے گا اور میرے وعدوں کو پورا کرے گا وہ علی بن ابی طالب‘ ہی ہے۔
۱۱ ۔ علی علیہ السلام فاروق بین حق و باطل
" عَنۡ اَبی ذَرۡ الغفاری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه : سَتَکونُ مِنۡ بَعۡدی فِتۡنَةٌ فَاِنۡ کانَ ذلِکَ فَالزموُا عَلیَّ بن اَبیطالِبٍ فَاِنَّه ُ الۡفاروُقُ بَیۡنَ الۡحَقِّ وَ الۡباطِلِ"
شیخ سلیمان
اور میر سید علی ہمدانی نے کتاب مودّۃ القربی "مودت نمبر ۶" کے ذیل میں ابوذر غفاری سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: عنقریب میرے بعد فتنے سر اٹھانے والے ہیں پس اس وقت تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ علی بن ابی طالب‘ کے شانہ بشانہ رہنا کیونکہ یہی فاروق اور حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں۔
نکتہ: شیخ سلیمان و میر سید علی ہمدانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
نکتہ: ہم نے کتاب اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام
میں کتب و روایات اہل سنت کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ "فاروق بین حق و باطل" صرف حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں۔ نہ کہ حضرت عمر۔ نیز روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر کو پہلی مرتبہ "فاروق" کا خطاب اہل کتاب نے دیا تھا اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ حقیقی فاروق وہ ہے جسے رسولؐ اسلام نے فاروق کا خطاب دیا ہے یا وہ جسے اہل کتاب نے یہ خطاب دیا ہے؟!
۱۲ ۔ علی علیہ السلام باب دین ہے جو اس میں داخل ہو وہ مؤمن ہے
" اَلۡحَدیثُ الۡاَرۡبَعوُن: عَنۡه ُ (عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بن مسعود) رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُل الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ : عَلِیُّ ابۡنُ اَبیطالِبٍ بابُ الدّینِ مَنۡ دَخَلَ فیه ِ کانَ مُؤۡمِناً وَ مَنۡ خَرَجَ مِنۡه ُ کانَ کافِراً "
شیخ سلیمان
نے عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا: علی بن ابی طالب‘ باب دین ہے جو اس میں وارد ہوگا وہ مؤمن ہے اور جو اس سے خارج ہوگیا وہ کافر ہوگیا۔
نکتہ: اس روایت میں دین سے مراد خالص و حقیقی دین محمدؐ ہے یعنی جسے رسول گرامی قدر نے پیش کیا ہے اور اہل بیت علیھم السلام جس کا اجر چاہتے تھے اسی لئے ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:"وَ الله ِ اَنۡتُم عَلی دینی وَ دینِ آبائی اِبۡراه یمَ و اِسۡماعیلَ علیه م السلام
" قسم بخدا تم میرے اور میرے آباء ابراہیم و اسماعیل کے دین پر ہو۔
اور اس روایت میں کفر سے مراد کفر از دین نہیں ہے لہذا س پر کفار کے احکام مثلاً نجاست وغیرہ کا اطلاق نہیں ہوتا؛ بلکہ "کفر نعمت" ہے کہ جس کی بنا پر (قران کریمؐ کی روشنی میں) شدید عذاب
کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس روایت میں ایمان سے مراد، وہ ہی ایمان مراد ہے جو کہ (دیگر روایات کی روشنی میں) اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے اور جس کے نہ ہونے کی صورت میں اعمال رد کر دیئے جائیں گے۔ جیسا کہ گذشتہ مناقب اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ذکر شدہ ستّر روایات میں سے بعض روایات اس حقیقت کو صاف بیان کر رہی ہیں مثلاً روایت نمبر ۹ اور ۱۵ میں واضح طورپر بیان کیاگیا ہے کہ "قبولی اعمال" فقط حبّ آلِ محمدؐ پر منحصر ہے اور واضح ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب‘ سید اہلبیت علیھم السلام اور آل محمدؐ میں سے ہیں۔
۱۳ ۔ رسولؐ اللہ و حضرت علی علیہ السلام ایک شجر سے ہیں
شیخ سلیمان
نے میر سید علی ہمدانی شافعی کی کتاب "مودّت القربی" مودّت نمبر ۸ کے ذیل میں ابن عباس سے، اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی دوسری فصل (حدیث نمبر ۱۲) میں طبرانی کی معجم الاوسط سے روایت کی ہے:
"عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بن مَسۡعوُد رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : اَنَا وَ عَلِیٌّ مِنۡ شَجَرَةٍ واحِدَةٍ، وَ النّاسُ مِنۡ اَشۡجَارٍ شَتّی"
عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: میں اور علی علیہ السلام ایک شجر سے ہیں (یعنی ہماری اصل و اساس ایک ہے) اور باقی سب لوگ مختلف درختوں سے ہیں۔
۱۴ ۔ جس طرح آگ لکڑیوں کو نابود کردیتی ہے، حب ّ علی علیہ السلام گناہوں کو نابود کردیتی ہے۔
"عَنۡ اِبۡنِ عَبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : حُبُّ عَلِیِّ بن اَبیطالِبٍ یَأۡکُلُ الذُّنُوبَ کَما تَأَکُلُ النّارُ الۡحَطَبَ"
شیخ سلیمان
نے ابن عباس ے روایت کی ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: علی علیہ السلام کی محبت گناہوں کو اس طرح نابود کردیتی ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو نابود کردیتی ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان بلخی حنفی کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۱۵ ۔ علی علیہ السلام باب حِطّہ (مغفرت) ہیں
"اَخۡرَجَ الدّارُ قِطۡنی فِی الۡاِفۡرادِ عَن اِبۡنِ عَبّاس اَنَّ النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه قالَ : عَلِیٌّ بابُ حِطَّة مَنۡ دَخَلَ فیه ِ کانَ مُؤۡمِناً وَ مَنۡ خَرَجَ مِنۡه ُ کانَ کافِراً"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ فصل دوئم "فضائل علی" حدیث نمبر ۳۴ کے ذیل میں روایت کی ہے دار قطنی نے "الافراد" میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ بیشک رسولؐ اللہ نے فرمایا: علی باب حطہ (یعنی باب مغفرت در بیت المقدس) ہیں جو اس باب میں وارد ہوگیا وہ مؤمن ہے اور جو ا س سے خارج ہوگیا وہ کافر ہے۔
اس روایت میں ایمان و کفر کے بارے میں ہم قبلاً روایت نمبر ۱۲ میں توضیح بیان کرچکے ہیں۔
نکتہ: ہم اس سے قبل اسی جیسی ایک روایت فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں روایت نمبر ۵۲ بیان کرچکے ہیں۔
۱۶ ۔ پل صراط سے گذرنے کے لئے علی علیہ السلام کا اجازت نامہ
"رَوی اِبنُۡ السَّمّاک اَنَّ اَبابَکر قالَ لِعَلی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما سَمِعۡتُ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : یَقوُلُ: لا یُجَوَّزُ اَحَدٌ عَلَی الصِّراطِ اِلّا مَنۡ کَتَبَ لَه ُ عَلِیٌّ اَلۡجوازَ"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی دوسری فصل "فضائل علی" حدیث نمبر ۴۰ کے ذیل میں روایت کی ہے کہ ابن سماک سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: میں نے سنا ہے کہ رسولؐ اللہ فرماتے تھے: علی علیہ السلام کے تحریر کردہ اجازت نامہ کے بغیر کوئی شخص پل صراط سے نہیں گذر سکے گا۔
۱۷ ۔ علی علیہ السلام کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے
"اَلۡحَدیثُ الثّلاثُونَ: عَنۡ مَعاذِ بن جَبَلٍ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : النَّظۡرُ اِلی وَجۡه ِ عَلِیٍّ عِبادَةٌ"
شیخ سلیمان
نے حدیث نمبر ۳۰ کے ذیل میں معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: علی علیہ السلام کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۱۸ ۔ علی علیہ السلام دروازۂ شہر علم
"اَلۡحدیثُ التّاسِع وَالۡعِشۡرُونَ: عَنۡ اَبیِ الدَّرۡدا رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : عَلِیٌّ بابُ عِلۡمی وَ مُبَیِّنٌ لِاُمَّتِی ما اَرۡسَلۡتُ بِه مِنۡ بَعۡدی، حُبُّه ُ ایمانٌ و َ بُغۡضُه ُ نِفاقٌ وَ النَّظَرُ اِلَیۡه ِ رَأۡفَةٌ وَ مَوَدَّتُه ُ عِبادَةٌ"
شیخ سلیمان
کہتے ہیں کہ ابو الدرداء سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: علی علیہ السلام میرے علم کا دروازہ ہے اور جس امر پر خداوند عالم نے مجھے مبعوث برسالت فرمایا ہے میرے بعد علی علیہ السلام وہی کام انجام دے گا
۔ علی علیہ السلام سے دوستی ایمان اور علی علیہ السلام سے دشمنی نفاق کی علامت ہے، علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھنا رافت اور ان سے مودّت عبادت ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتےہیں: یہ روایت صاحب فردوس نے بھی نقل کی ہے۔
نکتہ: حضرت علی علیہ السلام کے باب علم پیغمبرؐ ہونے کے بارے میں روایت متواتر اور مسلسل ہے جیسا کہ متفق علیہ (شیعہ و اہل سنت کے درمیان متفق علیہ) روایت کے مطابق رسولؐ نے اپنے آپ کو شہر علم اور علی علیہ السلام کو دروازہ شہر علم قرار دیا ہے۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ، باب ۵۶ ، حدیث نمبر ۲۲ کے تحت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے علی علیہ السلام کا بازو پکڑ کر با آواز بلند فرمایا:
"اَنَا مَدینَةُ الۡعِلۡمِ وَ عَلِیٌّ بابه ُا فَمَنۡ اَرادَ الۡمَدینَةَ فَلۡیَأَتِ الۡبابَ"
میں شہر علم ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہے جو شخص شہر علم میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے دروازہ سے آنا چاہیے۔
اس روایت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ حضورؐ نے شہر میں داخلہ کو فقط ایک چیز پر منحصر کر دیا ہے کہ لوگ دو حالونں سے خارج نہیں ہیں۔
۱ ۔ یہ کہ اس شہر علم کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔
۲ ۔ یہ کہ اس شہر علم کا رادہ رکھتے ہیں۔
دوسری صورت میں اس شہر میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ علی بن ابی طالب‘ کی ذات بابرکت ہے۔
۱۹ ۔ بعد از رسولؐ، علی علیہ السلام اعلمِ امت ہیں
"الۡحدیثُ السّادِسُ وَ الۡعِشۡروُنَ: عَنۡ سَلۡمان رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : اَعۡلَمُ اُمَّتی مِنۡ بَعۡدی عَلِیُّ بن اَبیطالِبٍ"
شیخ سلیمان
نے سلمان سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: میرے بعد علی علیہ السلام میری امت میں سب سے زیادہ صاحب علم ہے۔
۲۰ ۔ در بہشت پر لکھا ہے علی علیہ السلام رسولؐ اللہ کے بھائی ہیں
"الۡحَدیثُ التّاسِع عَشَرَ: عَنۡ جابِرِ بن عَبۡدِ الله ِ الۡاَنۡصاری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : مَکۡتُوبٌ عَلی بابِ الۡجَنَّةِ قَبۡلَ اَنۡ یَخۡلُقَ الله ُ السَّماواتِ وَ الۡاَرضَ بِاَلۡفَیۡ عام "مُحَمَّدٌ رَسوُلُ الله ِ وَ عَلِیٌّ اَخوُه ُ
"
شیخ سلیمان
نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: زمین و آسمان خلق ہونے سے دو ہزار سال قبل در بہشت پر لکھا گیا "محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور علی علیہ السلام انکے بھائی ہیں"۔
نکتہ: شیخ سلیمان یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ابن مغازلی (فقیہ شافعی) نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
۲۱ ۔ مؤمن کے نامۂ اعمال کا عنوان حبِّ علی بن ابی طالب‘ ہے
"اَلۡحدیث الاَوَّلُ: عَنۡ اَنَسِ بن مالِک رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : عُنوانُ صَحیفةِ الۡمؤۡمِمنِ حُبُّ عَلِیِّ ابۡنِ اَبیطالِبٍ"
شیخ سلیمان
و میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب مودت القربی "مودت نمبر ۶ " کے تحت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مؤمن کے نامۂ اعمال کا عنوان "حبّ علی بن ابیطالب‘" ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۲۲ ۔ حبِّ علیؑ واجب ہے
"الۡحَدیثُ الرّابعُ وَ الۡخَمۡسوُن: عَنۡ جابِر رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : جائَنی جِبۡرائیلُ بِوَرَقَةٍ خَضۡراء مِنۡ عِنۡدِ الله ِ عَزَّوَجَلَّ مَکۡتوُبٌ فیه ا بِبَیاضٍ "اِنّی اِفۡتَرَضۡتُ حُبَّ عَلِیِّ ابۡنِ اَبیطالِبٍ عَلی خَلۡقی فَبَلِّغۡه ُمۡ ذلِکَ"
شیخ سلیمان
نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جبرئیل پروردگار کی جانب سے میرے پاس ایک سبز رنگ کا ورق لیکر حاضر ہوئے جس پر سفید رنگ سے لکھا ہوا تھا "اے میرے حبیب میں نے اپنی تمام مخلوق عالم پر حبّ علی علیہ السلام کو واجب قرار دیا ہے پس تمام لوگوں کو یہ بات بتادو"۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۲۳ ۔ حبّ علی علیہ السلام "حسنہ" و نیکی ہے
"عَنۡ معَاذ بن جَبَل رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : حُبُّ عَلِیِّ بن ابیطالِبٍ حَسَنَةٌ لا تَضُرُّ مَعَه ا سَیِّئَةٌ، وَ بُغۡضُه ُ لا تَنۡفَعُ مَعَه احَسَنَةٌ"
شیخ سلیمان
نے معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: محبتِ علی علیہ السلام ایسی نیکی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ و برائی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور بغض و دشمنی علی بن ابی طالب‘ ایسا گناہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی حسنہ اور اچھائی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
۲۴ ۔ علی ؑ، رسولؐ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں
" اَخۡرَجَ التِّرۡمِذی عَنۡ عائِشَة رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا قالَتۡ: کانَتۡ فاطِمَةُ اَحَبّ النِّساءِ اِلی رَسوُلِ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه وَ زَوۡجُه ا عَلِیُّ اَحبّ الرِّجالِ اِلَیۡه ِ
"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ فصل دوئم "فضائل علی" کے آخر میں نقل کیا ہے کہ ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں: فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا خو اتین میں رسولؐ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور مردوں میں علی علیہ السلام سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
سوال: اس حقیقت کے باوجود حضرت عائشہ کس بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جمل کے لئے روانہ ہوئی تھیں؟!
رجوع فرمائیں: کتاب 'اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی ؑ" ص ۳۷۰ تا ۳۹۰ ۔
۲۵ ۔ ذکر علی علیہ السلام عبادت ہے
"عَنۡ عائِشَة رَضِیَ الله ُ عَنۡه ا قالَتۡ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : ذِکۡرُ عَلِیٌّ عِبادَةٌ
"
شیخ سلیمان
نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ذکر ویاد علی علیہ السلام عبادت ہے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ یہ روایت صاحب فردوس نے بھی نقل کی ہے۔
۲۶ ۔ غدیر میں ابلاغ فضائل علی علیہ السلام فرمانِ الٰہی کی بنا پر
"الحَدیثُ السّادِس وَ الۡخَمۡسُوں: عَنِ البُراءِ بۡنِ عازِبِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ فی قَوۡلِه تَعالی: یا ایُّه َا الرَّسُولُ بَلِّغۡ ما اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَبِّکَ ای بَلِّغۡ مِنۡ فَضائِلِ عَلِیٍ نُزِلَتۡ فی غَدیرِ خُمۡ، فَخَطبَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه وَسَلَّمَ، قالَ : مَنۡ کُنۡتُ مَوۡلاه ُ فَه ذا عَلیٌّ مَوۡلاه ُ، فَقالَ عُمَرُ: بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا عَلی اَصۡبَحۡتَ مَوۡلایَ و مَولی کُلِّ مُؤۡمِنٍ وَ مُؤمِنَةٍ"
شیخ سلیمان
نے براء بن عازب سے قول خداوندی(
یا ایُّه َا الرَّسُولُ بَلِّغۡ ما اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَبِّکَ
)
(مائدہ/ ۶۷) کے بارے میں روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: یعنی جو کچھ فضائل علی علیہ السلام کے بارے میں نازل کیا جاچکا ہے غدیر خم میں اس کا ابلاغ کردو۔ پس رسولؐ اللہ نے ایک خطبہ پڑھا اور فرمایا: جس کا میں مولیٰ و سرپرست ہوں اس کا یہ علی علیہ السلام بھی مولیٰ و سرپرست ہے۔ اس موقع پر حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہا: مبارک ہو ، مبارک ہو اے علی علیہ السلام کہ آج آپؑ میرے اور ہر مون و مؤمنہ کے مولیٰ و سرپرست بن گئے۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ یہ روایت ابو نعیم و ثعلبی نے بھی نقل کی ہے۔
۲۷ ۔ علی علیہ السلام اور انکے شیعہ بہشتی ہیں
"فاطمة علیه ا السلام ، قالَتۡ: اِنَّ اَبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه نَظَرَ اِلی عَلِیٍّ وَ قالَ: ه ذا وَ شیعَتُه ُ فِی الۡجَنَّةِ
"
میر سید علی ہمدانی شافعی کتاب مودۃ القربی
مودت نمبر ۹ کے تحت روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: میرے والد گرامی نے علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: علی علیہ السلام اور انکے شیعہ بہشت میں ہیں۔
۲۸ ۔ علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حسن و حسینؑ اہل بیت میں سے ہیں
"اَلثّالِثُ: اَخۡرَجَ مُسۡلِمُ وَ التِّرۡمِذی عَنۡ سَعۡدِ بن اَبی وَقّاص قالَ لَمّا نَزَلَت ه ذِه ِ الۡآیَةُ نَدۡعُ اَبۡنَائَنا وَ اَبنائَکُم دَعا رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه عَلِیّاً وَ فاطمة و حَسَناً وَ حُسَیۡناً فَقالَ: اَللّه ُمَّ ه ؤُلاءِ اَه لی
"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ فصل دوئم "فضائل علی ؑ" حدیث سوئم کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ مسلم و ترمذی نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ جب آیۂ مباہلہ(
نَدۡعُ اَبۡنَائَنا وَ اَبنائَکُم
)
"
نازل ہوئی تو رسولؐ اللہ نے علی علیہ السلام و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کو بلا کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
۲۹ ۔ علی علیہ السلام میں " ۹۰" خِصال انبیاء ہیں
"جابر، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : مَنۡ اَرادَ اَنۡ یَنۡظُرَ اِلی اِسۡرافیل فی ه َیۡبَتِه وَ اِلی میکائیلَ فی رُتۡبَتِه وَ اِلی جِبۡرائیلَ فی جَلالَتِه وَ اِلی آدَمَ فی عِلۡمِه وَ اِلی نُوحٍ فی خَشۡیَتِه وَ اِلی اِبۡراه یمَ فی خلّتِه وَ اِلی یَعۡقُوب فی حُزۡنِه وَ اِلی مُوسی فی مُناجاتِه وَ اِلی اَیُّوب فی صَبۡرِه وَ اِلی یَحیی فی زُه ۡدِه ِ وَ اِلی عیسی فی عِبادَتِه وَ اِلی یونُس فی وَرَعِه وَ اِلی مُحَمَّدٍ فی حَسَبِه وَ خَلۡقِه فَلۡیَنۡطُرۡ اِلی عَلِیٍّ فَاِنَّ فیه ِ تِسعینَ خِصۡلَةً مِنۡ خِصالِ الۡاَنۡبیاءِ جَمَعَه ا الله ُ فیه ِ وَ لَمۡ یَجۡمَعۡه ا فی اَحَدٍ غَیۡره "اَلحدیث"، وَ عَدَّ ذلِکَ فی کِتاب جَواه ِرِ الۡاَخۡبارِ"
میر سید علی ہمدانی نے مودّت القربی
"مودّت نمبر ۸" میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: جو شخص اسرافیل کی ہیبت، میکائیل کا مقام، جبرائیل کی جلالت، آدمؑ کا علم، نوح کا خشوع، ابراہیم کی خُلّت، یعقوب کا حزن، یوسف کا جمال، موسیٰ کی مناجات، ایوب کا صبر، یحیی کا زہد، عیسیٰ کی عبادت، یونس کا تقویٰ، محمد مصطفی کا حسب اور انکی خلقت نورانی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے علی علیہ السلام کو دیکھنا چاہیے کیونکہ علی میں ۹۰ خصال انبیاء ہیں کہ خداوند عالم نے یہ تمام صفات علی علیہ السلام میں جمع کردی ہیں اور انکے علاوہ کسی کو یہ سعادت نہیں ملی ہے۔
حدیث کا بقیہ حصہ کتاب جواہر الاخبار میں نقل کیا گیا ہے۔
۳۰ ۔ فقط نبیؐ و علی علیہ السلام ہر حالت میں مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں
"الثّالِثُ عَشَرَ: اَخۡرَجَ البزّار عَنۡ سَعۡدٍ ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : لِعَلِیٍّ: لَا یَحِلُّ لاَحَدٍ اَنّۡ یَجۡنُبَ فی ه ذا المسجد غیۡری وَ غَیۡرُکَ"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ "فصل دوئم۔ فضائل علی ؑ" حدیث نمبر ۱۳ کے ذیل میں بزار سے روایت کی ہے اور انہوں نے سعد سے روایت کی ہے رسولِؐ خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لئے حالت جُنُب میں مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔
نکتہ: ہم نے کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام
" میں کتب اہل سنت کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں رسولِ ؐ خدا اور حر ت علی علیہ السلام نبوت کے علاوہ تمام صفات میں شریک و مماثل ہیں۔
۳۱ ۔ علی علیہ السلام "افضل رجالِ العالمین" ہیں
" وَ عَنۡ اِبنِ عَبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : اَفۡضَلُ رِجالِ الۡعالَمینَ فی زَمانی ه ذا عَلِیٌّ وَ اَفۡضَلُ نِساءِ الۡاَوّلینَ وَ الۡآخرینَ فاطمة "
میر سید ہمدانی شافعی نے کتاب مودۃ القربی
"مودت نمبر ۷" میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: میرے زمانہ میں تمام مَردوں میں سب سے افضل مرد علی علیہ السلام ہیں اور خواتین میں اولین و آخرین میں سب سے افضل فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔
نکتہ: حضرت علی علیہ السلام کی افضلیّت کے بارے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ احمد بن حنبل و عبد اللہ ابن عمر صحابہ یہاں تک کہ خلفاء کو بھی علی علیہ السلام سے قابل موازنہ نہیں سمجھتے۔
خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد نمبر ۷ ، صفحہ نمبر ۴۲۱ میں روایت کی ہے کہ رسول ؐ اللہ نے فرمایا:
" مَنۡ لَمۡ یَقُلۡ عَلِیٌّ خَیۡرُ النّاس فَقَدۡ کَفَرَ"
جس نے علی علیہ السلام کے بہترین انسان ہونے کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
ہم اس کفر کے بارے میں گذشتہ صفحات پر روایت نمبر ۱۲ میں توضیح پیش کرچکے ہیں لہذا تکرار کی ضرورت نہیں۔
۳۲ ۔ علی علیہ السلام قسیم النار و الجنّۃ ہیں
" وَ اَخۡرَجَ الدّارُ قِطۡنی اَنَّ عَلِیّاً قالَ لِلسّتَّةِ الّذینَ جَعلَلَ عُمَرُ بۡنُ الۡخَطّاب اَلشُّوری بَیۡنَه ُم، کَلاماً طَویلاً مِنۡ جُمۡلَتِه : اَنۡشِدُکُمۡ بِالله ِ ه َلۡ فیکُم اَحَدٌ قالَ لَه ُ رَسُولُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه و سلم: یا عَلی اَنۡتَ قَسیمُ النّارِ وَ الۡجَنَّة، یَوۡمَ الۡقِیامَة غَیۡری، قالُوا: اَللَّه ُمَّ لا
"
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ "فصل دوئم۔ فضائل علیؑ" حدیث نمبر ۴۰ کے ذیل میں دار قطنی سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر کی معین کردہ چھ رکنی شوریٰ سے حضرت علی علیہ السلام نے طویل خطاب و گفتگو فرمائی مثلاً: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم میں کوئی ایسا فرد ہے جس سے رسولؐ نے وہ کچھ فرمایا ہو جو مجھ سے فرمایا ہے، اور مجھ سے رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علی علیہ السلام ! تم قیامت میں دوزخ و جنت کے تقسیم کرنے والے ہوگے۔ سب نے کہا: بیشک خدا جانتا ہے کہ آپؑ کے علاوہ نبیؐ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا۔
ابن حجر مکی یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام علی رضا سے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ :" عَنۡ عَلِیٍّ الرِّضا اَنَّه ُ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه قالَ : یا عَلی اَنۡتَ قَسیمُ الۡجَنَّةِ وَ النَّارِ فَیَوۡمَ الۡقِیامةِ تَقُولُ لِلنّارِ ه ذا لی وَ ه ذا لَک"
یعنی حضرت علی رضا سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علی علیہ السلام تم جنت و دوزخ کو تقسیم کرنے والے ہو، پس قیامت کے دن تم جہنم سے کہو گے: یہ شخص میرا ہے (وہ نجات پائے گا) اور یہ شخص تیرا ہے (جہنم اسے نگل لے گا)۔
نکتہ: میر سید علی ہمدانی شافعی نے کتاب مودت القربیٰ میں مودّت نمبر ۹ کا یہ عنوان قرار دیا ہے :" اَلۡمَودَّةُ التّاسِعَةُ فی اَنَّ مَفاتیح الۡجَنَّةِ وَ النّارِ بِید عَلِیٍّ علیه السلام
"یعنی مودت نہم اس بیان میں ہے" جنت و جہنم کی چابی علی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے"۔
۳۳ ۔ اذیتِ علی علیہ السلام ، اذیتِ رسولؐ اللہ ہے
" اَلۡحَدیثُ التّاسِعُ: عَنۡ سَعۡدِ بۡنِ اَبی وَقّاص رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : مَنۡ آذی عَلِیّاً فَقَدۡ آذانی، قالَه ا ثَلاثاً "
شیخ سلیمان
نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس نے علی علیہ السلام کو اذیت پہنچائی اس نے درحقیت مجھے اذیت پہنچائی ہے۔ رسولؐ اللہ نے تین بار اس بات کو دہرایا ہے۔
۳۴ ۔ اگر سب محب علی علیہ السلام ہوجاتے تو جہنم خلق ہی نہ ہوتا
" عَنۡه ُ (عَنۡ عبد الله بن مسعود) رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : اِذَا اجۡتَمَعَ النّاسُ عَلی حُبِّ عَلِیِّ بن اَبیطالِبٍ ما خَلَقَ الله ُ النّارَ "
شیخ سلیمان
نے عبد اللہ ابن مسعود سے اور میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی "مودت نمبر ۶" میں امیر المؤمنین سے اور ایک دوسری روایت میں عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: اگر تمام لوگ محبت علی علیہ السلام پر جمع ہوجاتے تو خداوند عالم آتش جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
۳۵ ۔ وائے بر دشمنِ علی ؑ
"اِبنِ عَبّاس رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ: نَظَرَ النَّبی صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه اِلی عَلِیٍّ فَقالَ: اَنۡتَ سَیِّدٌ فِی الدُّنۡیا وَ سَیِّدٌ فِی الۡآخرةِ، مَنۡ اَحَبَّکَ فَقَدۡ اَحَبَّنی، حَبیبُکَ حَبیبی وَ حَبیبُ الله ، وَ عَدُوُّکَ عَدُوّی وَ عَدُوأُ الله ِ ، وَ الۡوَیۡل لِمَنۡ اَبۡغَضَکَ مِنۡ بَعۡدی"
میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربیٰ
"مودت نمبر ۴" میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ نے علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: تم دنیا و آخرت میں سید و سردار ہو۔ جو تم سے محبت رکھتا ہے وہ درحقیقت مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو تمہارا دشمن ہے وہ درحقیقت میرا اور خدا کا دشمن ہے اور میرے بعد تم سے دشمنی کرنے والے پر وائے ہو۔
سوال: رحلت رسولؐ کے بعد سقیفہ و فدک کے موقع پر اور علی علیہ السلام کو جبرا مسجد لے جاتے ہوئے، در خانہ علی علیہ السلام کو آگ لگاتے وقت کن لوگوں نے علی علیہ السلام سے اپنی دشمنی کو علنی کردیا تھا؟
جواب کے لئے رجوع فرمائیں "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علیؑ
" جس میں علمائے اہل سنت کی مستند کتابوں سے جواب مہیا کیا گیا ہے۔
۳۶ ۔ محبت علی ؑ، خدا و رسولؐ سے محبت ہے
" اَلسّابِع عَشَرَ: اَخۡرَجَ الطَّبَرانی بِسَنَدٍ حَسَنٍ عَنۡ اُمّ سَلَمة عَنۡ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه ، قالَ: مَنۡ اَحَبَّ عَلِیّاً فَقدۡ اَحَبَّنی وَ مَنۡ اَحَبَّنی فَقَدۡ اَحَبَّ الله َ، وَ مَنۡ اَبۡغَضَ عَلِیّاً فَقدۡ اَبۡغَضَنی وَ مَنۡ اَبۡغَضَنی فَقدۡ اَبۡغَضَ الله َ "
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ "فصل دوئم ۔فضائل علی" حدیث نمبر ۱۷ کے ذیل میں روایت کی ہے کہ طبرانی نے سندِ حسن سے ام سلمہ سے انہوں نے رسولؐ اللہ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی (پس علی علیہ السلام سے محبت، خدا و رسولؐ سے محبت ہے) نیز جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی (لہذا دشمن علی ؑ۔ دشمن خدا و رسولؐ ہے)۔
۳۷ ۔ علی علیہ السلام پر سبّ نبیؐ پر سبّ و شتم ہے
" اَلثّامِن عَشَرَ: اَخۡرَجَ اَحۡمَدُ وَ الۡحاکِمُ بِسَنَدٍ صَحیح عَنۡ اُمّ سَلَمة، قالَتۡ: سَمِعۡتُ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه یَقُولُ: مَنۡ سَبّ عَلِیّاً فَقَدۡ سَبَّنی "
ابن حجر نے صواعق محرقہ میں "فصل دوم۔ فضائل علی ؑ" روایت نمبر ۱۸ کے ذیل میں احمد بن حنبل و حاکم نیشاپوری سے سند صحیح کے مطابق ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ رسولِ ؐ خدا نے فرمایا: جس نے علی علیہ السلام کو دشنام و گالی دی اس نے بتحقیق مجھے دشنام و گالی دی ہے۔
سوال: اس صحیح السند کے ہوتے ہوئے کہ جس میں تصریح موجود ہے کہ علی علیہ السلام کو گالی دینا گویا نبی کو گالی دینا ہے؛ تو معاویہ جو کہ دشنام دہندۂ علی علیہ السلام ہے بلکہ تمام ممالک اسلامی میں اس سبّ علی کا حکم جاری کرنے والا ہے؛ آخر (بعض علماء) اہل سنت اس معاویہ کا احترام کیوں کرتے ہیں؟!
کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی ؑ
" ص ۴۱۶ تا ۴۳۷ کتب اہل سنت سے استناد کرتے ہوئے اس سلسلہ میں چند عرائض پیش کئے گئے ہیں۔
۳۸ ۔ علی علیہ السلام اور قران ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے
" اَلۡحادی وَ الۡعشۡرُونَ: اَخۡرَجَ الطَّبَرانی فیِ الاَوۡسَطِ عَنۡ اُمِّ سَلَمة قالَتۡ: سَمِعۡتُ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه یقُولُ: عَلِیٌّ مَعَ القُرۡآنِ وَ الۡقُرآنُ مَعَ عَلِیٍّ لا یَفۡتَرِقان حَتّی یَرِدا عَلَیَّ الۡحَوضَ "
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ فصل دوئم۔ فضائل علی ؑ" حدیث نمبر ۲۱ کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ طبرانی نے معجم الاوسط میں ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: علی علیہ السلام قران کے ساتھ ہیں اور قران علی علیہ السلام کے ساتھ ہے یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔
۳۹ ۔ علی ؑ، صاحب منزلت ہارونی
" اَلۡحَدیثُ الاوَّل: اَخۡرَجَ الشیۡخان عَن سَعۡد بن اَبی وقّاص، وَ اَحۡمَدُ وَ البَزّازُ عَنۡ اَبی سعیدٍ الۡخُدۡری، وَ الطَّبَرانی عَنۡ اَسۡماء بِنۡتِ قیس وَ عنۡ امّ سلمة وَ حَبَشِ بن جُنادة وَ اِبۡنِ عُمَر وَ اِبنِ عَبّاسِ وَ جابِرِ بۡن سَمُرَةِ وَ عَلیٍ وَ براءِ بن عازِبِ وَ زیۡد بۡنِ اَرۡقَم، قالوُا جَمیعاً: اِنَّ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه خَلَّفَ عَلیّ بن ابیطالِبٍ فی غَزۡوَة تَبُوک، فقالَ: یا رَسُولَ الله تُخَلِّفُنی فی النِّساءِ وَ الصِّبۡیان؟ فَقالَ: اَما تَرۡضی اَنۡ تَکُونَ مِنّی بِمَنۡزلةِ ه اروُنَ مِنۡ مُوسی غَیۡرُ اَنَّه ُ لا نَبِیَّ بَعدی؟ "
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ "فصل دوئم۔ فضائل علی ؑ" حدیث نمبر ۱ کے ذیل میں نقل کیا ہے مذکورہ راویوں نے رسولؐ اللہ کے گیارہ اصحاب کرام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے جنگ تبوک کے موقع پر علی علیہ السلام کو مدینہ میں بطور جانشین چھوڑ دیا۔ اس وقت علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ مجھے خواتین و بچوں کے درمیان چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علیؑ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی بس یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
نکتہ: حدیث منزلت شیعہ و اہل سنت دونوں کے نزدیک "متواتر" ہے اسی لئے بہت سے علمائے اہل سنت مثلاً ابن حجر مکی وغیرہ نے اس حدیث شریف کو مختلف طرق و اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
قابل توجہ ہے یہ بات کہ میر سید علی ہمدانی نے "مودۃ القربیٰ" مودت نمبر ۷ میں امام جعفر صادق اور انکے آباء طاہرین کے سلسلہ سند سے نقل کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے دس اشیاء میں فرمایا ہے کہ "تمہیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے ہے"۔
۴۰ ۔ علی علیہ السلام پر خدا فخر و مباہات کرتا ہے
" اَلۡحَدیثُ الثّانی: عَنۡ جاِبر بۡنِ عَبۡدِ الله الانۡصاری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ ، قالَ: قالَ رَسوُلُ الله ِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ وآلِه : اِنّ الله َ عَزَّ وَجَلَّ یُباه ی بِعَلیّ بن اَبیطالِبٍ کُلَّ یَوۡمٍ عَلَی الۡمَلائِکَةِ المُقَرَّبینَ حَتّی یَقُولَ بَخٍّ بَخٍّ ه َنیئاً لَکَ یا عَلی"
شیخ سلیمان
نےجابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اکرم نے فرمایا: خداوند عالم ہر روز اپنے مقرب ملائکہ کے سامنے علی علیہ السلام پر فخر و مباہات کرتا ہے۔ اور کہتا ہے : خوشبحال ہو اے علی ؑ!
نکتہ: شیخ سلیمان کہتے ہیں کہ صاحب فردوس نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔
تتمہ:
ہم نے کتاب کے اس تیسرے باب میں موضوع کی مناسبت کی بناء پر فضائل اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں ستّر روایات اور امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب سیّد اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں چالیس روایات پیش کی ہیں جنہیں کتب اہل سنت سے نقل کیا گیا ہے۔ درحقیقت اس باب میں فضائل و مناقب اور خصائص اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے "قطرہ ای از بحر بیکراں و مشتی از خروار" کی مانند ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے دریا روشنائی بن جائیں، سارے درخت قلم بن جائیں، بنی آدم لکھنے بیٹھ جائیں اور تمام جن حساب کرنے بیٹھ جائیں تب بھی علی بن ابیطالب‘کے فضائل کا احصاء نہیں ہوسکتا۔
بیشک اہل تحقیق پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ حضرت محمد مصطفیؐ نے علی بن ابی طالب‘ کو اپنے علم و حکمت کا وارث قرار دیا، صرف حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ وہی انہیں غسل و کفن دیں اور وہی دفن کریں، انکی امانات کو لوٹا ئیں، انکے وعدوں کو پورا کریں۔ نبیؐ کے بعد جس چیز میں لوگوں میں اختلاف ہو اسے بیان کریں۔
اور امت کو یہ وصیت فرمائی کہ میرے بعد امت کے ولی و سرپرست علی علیہ السلام ہوں گے علیؑ، میرے بھائی، میرے فرزندوں کے والد اور میرے وزیر ہیں۔ علی علیہ السلام تنہا صاحب نجوا ہیں، علی علیہ السلام نبی کے علم کا دروازہ ہیں، باب مدینۃ الحکمۃ ہیں، انکی اطاعت نبی کی اطاعت کی طرح امت پر واجب ہے، انکی نافرمانی معصیت و گناہ کبیرہ ہے جس طرح نبی کی نافرمانی گناہ ہے۔ علی ؑسے مفارقت و جدائی نبی سے مفارقت و جدائی ہے جس سے علی علیہ السلام کی صلح ہے اس سے نبیؐ کی صلح ہے، جس سے علی علیہ السلام کی جنگ ہے، اس سے نبیؐ کی جنگ ہے، جس نے علی علیہ السلام کو اذیت دی اس نے خدا و رسولؐ کو اذیت دی، جس نے علی علیہ السلام کو گالی دی اس نے خدا و رسولؐ کو گالی دی۔ علی علیہ السلام امام المتقین و قاتل فُجّار ہیں، روشن پیشانی والوں کے رہبر ہیں، علی علیہ السلام پرچم ہدایت، صدیق اکبر، فاروق اعظم، یعسوب المؤمنین ہیں، علیؑ بمنزلۂ فرمان عظیم و ذکر حکیم ہیں، علی علیہ السلام نبی کے لئے ویسے ہی ہیں جیسے ہارون موسیٰ کے لئے ، علی علیہ السلام جان نبی ہیں، خداوند عالم نے زمین پر دیکھا تو نبیؐ و علی علیہ السلام کا انتخاب کیا، انہی کے بارے میں فرمایا ہے کہ سورہ برائت کی تبلیغ اے نبیؐ یا آپ کیجئے یا آپ جیسا یہ کام انجام دے اور دیگر بہت سے بیشمار فضائل کے حامل ہیں جیسا کہ روایت نے خود ہی اشارہ کردیا ہے "لا تعدّ و لا تحصی" یعنی علی علیہ السلام کے فضائل نہ شمار ہوسکتے ہیں نہ انکا احصاء کیا جاسکتا ہے۔
اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ کیسےممکن ہے کہ ایک عاقل انسان و صاحب بصیرت شیعہ و اہل سنت سے منقول روایات میں مختصر تدبّر اور غور و فکر کرکے تمام صحابہ پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلیّت و برتری کو محسوس نہ کرے یا تغافل و تجاہل سے کام لیتے ہوئے انکا انکار کر بیٹھے؟!
یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں نبی کریمؐ کی اتنی تاکید و وصیت اور روایات کے باوجود وہ یہ حکم صادر کریں کہ سید اہل بیت علیھم السلام یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام خانہ نشین ہوجائیں اور حکومت اسلامی ایسے افراد کو سونپ دی جائے جو بقول عبد اللہ ابن عمر و احمد بن حنبل کسی صورت علی علیہ السلام سے قابل موازنہ و قابل قیاس نہیں ہیں، نیز ایسے دیگر افراد کے سپرد کردی جائے جو کہ ہیں پس" علیھم السلام اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‘" ہیں۔
وَ الۡحَمۡدُ لِله ِ اَوَّلاً وَ آخِراً وَ ظاهِراً وَ باطناً
وَ السَّلامُ عَلی مَنِ اتَّبَعَ الۡهُدی وَ السَّلامُ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُ الله ِ وَ
بَرَکاتُهُ
شہر مقدس قم
ہادی عامری ۲۶/ ۶/ ۱۳۸۵ ،
شعبان المعظم ۱۴۲۷ ھ
سید بہادر علی زیدی قمی
اختتام ترجمہ
۲۹ رمضان المبارک ۱۴۳۴ ھ بروز بدھ بمطابق ۷ اگست ۲۰۱۳
____________________