مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 42266
ڈاؤنلوڈ: 3500

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42266 / ڈاؤنلوڈ: 3500
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

"اعوذُ بالله ِ من الشیۡطان الرَّجیم بسم الله الرَّحمن الرَّحیم

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰه رَبِّ العالَمِین وَ صَلَّی الله ُ عَلیٰ سَیِّدنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِه ِ الطَیِّبِینَ الطَّاهرِیۡنَ المَعۡصُومِینَ وَ اللَّعۡنُ الدَّائِمُ عَلیٰ اَعدَائِهم اَجۡمَعِینَ اِلیٰ یَومِ الدِّینِ"

موضوع بحث میں تفصیل سے داخل ہونے سے پہلے مقدمہ کے طور پر لفظِ اہلِ سُنّت اور پھر لفظِ شیعہ کے بارے میں مختصر عرائض پیش کرنا مناسب سمجھتاہوں ۔

اہلِ سُنّت کے کیامعنی ہیں اور حقیقی اہلِ سُنّت کون ہیں ؟

لفظ "اہلِ سُنّت" پہلی بار دوسری صدی ہجری میں جب خلافت معاویہ کے ہاتھوں میں پہنچی تو اسکے چاہنے والوں نے اپنے آپکو اہلِ جماعت کہلواناشروع کردیا لیکن یہ لفظ تنہااستعمال کیاگیاتھا اوراسمیں لفظ" اہلِ سُنّت " شامل نہ تھا لیکن حضرت ابوبکر و عمر وعُثمان کے پیروکاروں کے بارے میں اہلِ جماعت کہلانے کے سلسلے میں کسی ایک صحابی کی کوئی تائیدموجود نہیں ہے ۔ کتاب تاریخ دمشق میں آیاہے :

اِبنِ مسعودکہتے ہیں: حق کے موافق لوگوں کو جماعت کہاجاتاہے اگرچہ لوگ جماعت کے راستے سے جُدا ہوگئے ہوں اس لئے کہ جماعت اس گروہ کانام ہے جو " اِطاعتِ خدا "کے موافق ہو: معاویہ کے زمانے سے دوسری صدی ہجری تک سنّیوں کو" اہلِ الجماعة " کہاگیا لیکن اس لفظ "اہلِ سُنّت "کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اسکے بعد اہلِ حدیث نے معتزلہ کے مقابلہ پر دوسری صدی ہجری میں اپنے لئے اس نام کوتجویز کرلیا۔

ابُو الحسن اشعری اپنی کتاب مقالات الاسلامیین میں کہتے ہیں : اہلِ سُنّت یعنی اصحاب حدیث ، مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی جانے والی منتخب کنزالعمال میں اس طرح روایت کی گئی ہے : عسکری نے سلیم بن قیس عامری سے یہ روایت کی ہے : ابن ِ کواء نے حضرت علی سے سُنّت ، بدعت ، جماعت اور تفرقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواباً فرمایا:

اے پسرِ کواء اب جبکہ تم نے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا ہے تو اس کے جواب میں غورو فکر سے کام لو خدا کی قسم سُنّت وہی سُنّتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بدعت ان کی سُنّت سے جدائی کا نام ہے ، جماعت اہلِ حق سے وابستہ گروہ ہے اگرچہ تعداد میں کم ہی ہوں تفرقہ باطل سے وابستگی کا نام ہے چاہے انکی تعداد ذیادہ ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

اہلِ سُنّت سے کیا مراد ہے ؟

ابنِ میثم بحرانی نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی کی بارگاہ میں عرض کی : یا امیرالمؤمنین! اہلِ جماعت ، اہلِ تفرقہ ، اہلِ سُنّت اوراہلِ بدعت کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیے؟

حضرت نے جواب میں فرمایا : اب جب کہ تم نے سوال کیا ہے تو توجہ سے سنو اس لئے کہ اس سلسلے میں دوسروں کی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اہلِ جا عت میں اور میرے پیروکار ہیں اگرچہ ہماری تعداد کم ہی کیوں نہ ہواور یہ وہی حق بات ہے جسے خداورسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا ہے ۔ اہلِ تفرقہ میرے اور میرے پیروکاروں کے مُخالفین کا گروہ ہے چاہے ان کی تعداد ذیادہ ہی کیوں نہ ہو ، اور اہلِ سُنّت وہ ہیں جو سُنّتِ خدا و رسولِ خدا ﷺ سے تمسک کرتے ہیں ، نہ اپنی خواہشات کی اِتباع کرنے والے چاہے ان کی تعداد ذیادہ ہی کیوں نہ ہو"۔(۲)

پس ان دونوں روایات میں چند قابلِ توجہ نکات پائے جاتے ہیں :

اوّل : بتحقیق سُنّت سے مرادسُنّتِ رسول خدا ﷺ ہے اور اہلِ سُنّت وہ ہی لوگ ہیں جو سُنّت ِ خدا و رسول اکرم ﷺ سے تمسک کرتے ہیں ، نہ اپنی ذاتی رائے اور خواہشات ِ نفس کی اتباع کرنے والے۔

دوئم : کسی گروہ کے لوگوں کی تعداد کا کم یا ذیادہ ہونا اس کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے ، بلکہ حقانیت کا معیارومیزان سُنّتِ خداورسول خدا پر عمل پیرا ہونا ہے۔

سوّم : دونوں روایات کی اِبتداء میں امیرالمؤمنین نے سائل سے یہ ہی فرمایا: دِقتِ نظراورتوجہ کرو، اور دوسری روایت میں یہ بھی فرمایاہے کہ اس مسئلہ میں دوسروں کی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

توجہ: ابنِ ابی الحدید کہتے ہیں : اہلِ سُنّت وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں سُنّتِ خدا و رسول خداؐ پر عمل کرتے ہیں یعنی جعفر بن محمد الصادق کے پیروکارہیں ، نہ وہ لوگ جو ظاہری طور پر اہلِ سُنّت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،(۳)

ابنِ ابی الحدید تمام صحابہ پر حضرت علی کی افضلیت کے بارے میں اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :

وَ مِنَ الْعُلُومِ عِلْمُ الْفِقْهِ، وَ هُوَ علیه السلام أَصْلُهُ وَ أَسَاسُهُ وَ كُلُّ فَقِيهٍ فِي الْإِسْلَامِ فَهُوَ عِيَالٌ عَلَيْهِ وَ مُسْتَفِيدٌ مِنْ فِقْهِهِ، أَمَّا أَصْحَابُ أَبِي حَنِيفَةَ كَأَبِي يُوسُفَ وَ مُحَمَّدٍ وَ غَيْرِهِمَا فَأَخَذُوا عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، وَ أَمَّا الشَّافِعِيُّ فَقَرَأَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فَيَرْجِعُ فِقْهُهُ أَيْضاً إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ، وَ اَمّا اَحمدُ بن حَنبَل فَقَرَاَ عَلَی الشّافِعی فَیرجِع فِقه ُه ُ اَیضاً الی اَبی حنیفَه وَ أَبُو حَنِيفَه َ قَرَأَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ علیه السلام وَ قَرَأَ جَعْفَر عَلَى أَبِيهِ وَ يَنْتَهِي الْأَمْرُ إِلَى عَلِيٍّ علیه السلام وَ أَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فَقَرَأَ عَلَى رَبِيعَةَ الرَّأْيِ وَ قَرَأَ رَبِيعَةُ عَلَى عِكْرِمَه َ، وَ قَرَأَ عِكْرِمَه عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاس، وَ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (۴)

علوم میں سے ایک علم علمِ فقہ ہے اور اس کی اصل و اساس علی کی ذات ہے ، عالم اسلام کا ہر فقیہ حضرت علی علیہ السلام کے ہی دسترخوانِ علم سے بہرہ مند ہوا ہے ، اصحاب ابو حنیفہ ، مثل ابو یوسف اور محمد وغیرہ نے فقہ و سُنّت ابوحنیفہ سے سیکھی ہیں، شافعی نے فقہ محمد بن حسن (ابوحنیفہ کے ایک شاگرد) سے حاصل کی ہے اس لئے ان کی بازگشت بھی ابوحنیفہ کی طرف ہے، احمد ابنِ حنبل نے فقہ و سُنّت شافعی سے حاصل کی ہیں لہٰذاان کی فقہ بھی (شافعی ومحمد بن حسن کے واسطے سے) ابوحنیفہ سے حاصل شدہ ہے ، ابوحنیفہ نے جعفربن محمدسے فقہ وسُنّت کا سبق پڑھاہے اورامام جعفرصادق علیہ السلام نے فقہ اپنے والد(امام محمدباقر  ) سے حاصل کی ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ امام سجاد و امام حُسینٍ‘ کے ذریعے امام علی بنِ ابیطالب‘ تک پہنچ جاتا ہے ۔ پس یہ تینوں حضرات اہلِ سُنّت کے آئمہ اربعہ میں سے ہیں جوعظیم فقہااورامام تسلیم کئے جاتے ہیں انہوں نے فقہ اور سّنّت رسولِ خدا ﷺکو امام صادق سے حاصل کیا ہے۔

جبکہ مالک ابن انس نے فقہ و سُنّت ، ربیعہ کے سامنے قرأت کی ہے ، ربیعہ نے عکرمہ سے ، عکرمہ سے عبدُاللہ ابنِ عباس اورعبدُاللہ ابنِ عباس نے امیرالمؤمنین حضرت علی ابنِ ابیطالبؑ سے حاصل کی ہیں۔

پس آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اہلِ سُنّت کے آئمہ اربعہ ۱۔ امام ابو حنیفہ ،۲۔ احمد بن حنبل، ۳۔مالک بن انس،۴۔شافعی، فقہ وسُنّت کے حصول میں شیعوں کے آئمہ اورپیشواؤں کے محتاج نظراتے ہیں اس طرح کہ احمد بن حنبل اور شافعی نے ابوحنیفہ سے فقہ وسُنّت حاصل کی ہیں ، ابوحنیفہ ، امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگردتھے انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے فقہ و سُنّت حاصل کی ہیں جبکہ مالک ابنِ انس نے فقہ و سُنّت کوامیرالمؤمنین علی بنِ ابیطالب‘ سے حاصل کیاہے۔

گُفتار ابنِ أبی الحدیدسے حاصل شُدہ نتائج

ابنِ أبی الحدیدکی اس گفتارسے چارمندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے جاسکتے :

۱۔ حقیقی اہلِ سُنّت اورپیغمبرِ اکرمﷺ کی سُنّت پر عمل کرنے والے جعفربن محمد‘کے پیروکاراوران کے چاہنے والے ہیں۔اوروہ شیعوں کے امام و پیشوا ہیں پس حقیقی اہلِ سُنّت ہم شیعہ ہی ہیں کیونکہ ہم ہی سُنّتِ نبوی سے لبریز چشمہ کے کنارے بیٹھے ہیں ، نہ وہ لوگ جو کئی واسطوں سے حضرت امام جعفرصادق و امیرالمؤمنین تک پہنچتے ہیں۔

۲۔ ان چاروں فقہا ( ابوحنیفہ، مالک ، شافعی ، احمدبن حنبل) کے پیروکاروں کے درمیان فقہ و سُنّتِ پیغمبر اکرمﷺ کے کچھ حقائق دکھائی دے رہے ہیں تووہ صرف آئمہ ھدی کے وسیلہ سے ہیں پس حقیقت اور کل حقیقت شیعہ مذہب سے وابستہ ہے ۔

۳۔ پس معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب حق ہے اور علمائے اہلِ سُنّت کا یہ اقرار کہ حضرت امام جعفر صادق و امیرالمؤمنین‘ سے سُنّت کو اخذ کیا ہے ، شیعت کی حقانیت کی دلیل ہے پس پروردگار عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والا حقیقی دین یہی دین ہے جسے شیعہ اپنائے ہوئے ہیں ، اسی لئے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا :وَالله ِ أنْتُم عَلیٰ دِینی وَدِینِ آبائی اِسماعیل و اِبراه یم علیه ما السلام خداکی قسم تم شیعہ میرے اورمیرے اجداداسماعیل و ابراہیم کے دین پر ہو۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کی اعلمیت وافضلیت کے بارے میں ابوحنیفہ اور علمائے عامّہ کا اعتراف

سیرۂ اعلام النبلاء(۵) اورتہذیب الکمال(۶) میں اس طرح وارد ہواہے:

سُئلِ اِبُو حَنیِفَه من اَفْقَه مَنْ رَأیْتَ ؟ قَالَ : مَا رَأیْتُ اَحَداً اَفْقَه ُ مَنْ جَعْفَر بِنْ مُحَمَّد لَمَّا اَقْدَمَه ُ الْمَنْصُوْر الْحیرَه بَعَثَ اِلَیَّ فَقَالَ یَا اَبَا حَنیِفَه اِنَّ النَّاسَ قَدْفَتَنُوابِجَعْفَربِنِ مُحَمَّد!

فَهَیِّیۡ لَه ُ مِنْ مَسَائِلِکَ الصِّعَاب فَهَیّاۡتُ لَه ُ اَرْبَعِینَ مَسأله اِلیٰ اَنْ قَالَ: فَابْتَدَأتُ أسْألُه ُ فَکَانَ یَقُولُ فِیْ المَسْأله : أَنْتُمْ تَقُولُونَ فِیْهَا کَذَاوَکَذَا وَاَهْلَ الْمَدِینَة یَقُولُونَ کَذَاوَکَذَا ونَحْنُ نَقُولُ کَذَاوَکَذَا فَرُبَّمَاتابَعَنَاوَرَبَّمَا تَابَعَ اَهلَ الْمَدِیْنَةِ، وَرُبَّمَاخَالَفَنَا جَمِیْعاً حَتَی اَتَیْتُ عَلٰی اَرْبَعِیْنَ مَسَأله مَااَخرَمَ مِنهَا مَسأله ثُمَّ قَالَ اَبُوحَنِیفَه : أَلَیْسَ قَد رَوَیْنَا اَنْ اَعْلَم النَّاس اَعْلَمَهُم بِاخْتِلاَفِ النَّاس؛

ابوحنیفہ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں فقیہ ترین شخصیت کون ہے؟

جواب دیا : میں نے جعفر بن محمدیعنی امام صادق سے زیادہ کسی کو فقیہ ترین نہیں پایا ، منصورعباسی کو جب کوئی حیرت زدہ مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ کسی کو میرے پاس بھیج دیتا تھا ۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا : اے ابو حنیفہ ! لوگ جعفر بن محمد کے شیفتہ ودیوانے ہورہے ہیں ۔ تم سخت ترین فقہی مسائل تیارکرو اورمیں نے چالیس فقہی سوال کرلئے ہیں پھر ان کے سامنے پیش کریں گے اورپھر کہا: پہلے میں نے ان سے سوالات کئے جب میں ان سے سوال کرتا تھا تو وہ مجھے اس سوال پر اتنا مُسلّط نظر آتے تھے اورفرماتے تھے : تم اس مسئلہ میں یہ کہتے ہو، اہلِ مدینہ کا یہ قول ہے اورہم اہلِ بیت یہ کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ میں وہ ہمارے ہم عقیدہ ہوتے، کسی میں اہلِ مدینہ کے اور کسی میں انکا قول ہم سب سے بالکل علیحدہ ہوتاتھا یہاں تک کہ میں نے اسی طرح ان سے تمام سوالات دریافت کئے اورانہوں نے بڑی عظمت وشان سے ان کے قانع کُنندہ جوابات دیئے۔ پھر ابوحنیفہ نے مزید کہا: تو کیا اِختلاف اقوال کی صورت میں مجھے جو ہم میں سے ذیادہ عالم اوردانا ترین فرد ہے اس سے روایت نہیں کرنی چاہیئے؟!

جی ہاں حنفیوں کے امام، جناب ابوحنیفہ اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ میری نظر میں جعفربن محمد الصادق علیہ السلام سے زیادہ کوئی عالم اورفقیہ نہیں ہے اور اپنی اس بات پر اتنا گہرا عقیدہ رکھتے ہیں کہ سائل کے جواب میں کہتے ہیں کہ چالیس مشکل سوالات تیارکئے گئے اورجب میں ان سے دریافت کررہا تھا تو انہوں نے فقط ان سوالات کے جوابات پر اکتفانہیں کیا بلکہ انہوں نے اتنی وُسعت ِ علمی کے ساتھ جوابات دیئے کہ جس سے تمام اقوال پر ان کے احاطہ علمی کا یقین ہو رہا تھا۔ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابو حنیفہ نے اس حقیقت کا اقرار کیا ہے کہ انہوں نے مسائل فقہی یعنی حکم اللہ و سنت پیغمبر ؐ اسلام میں جو سب سے زیادہ عالم اور فقیہ شخصیت ہے اس کی مخالفت کی ہے۔

سچ بتائیے آخر وہ کیا چیز ہے جو اعلم و افقہ الناس کی طرف رجوع کرنے میں مانع ہے، اور ان کے مذہب کی پیروی کرنے سے روک رہی ہے؟

صائب عبد الحمید اپنی کتاب(۷) میں لکھتے ہیں:

مصر کے بعض شیوخ الازہر نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مذہب کے مطابق عمل کرنے کو جائز قرار دیا ہے، وہ اس حقیقت کا اذعان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یعقوبی لکھتے ہیں:

کَانَ جَعفَر بن محمد اَفضلُ النَّاس وَ اَعۡلَمُه ُم "بدین الله " و کانَ مِن اَه ۡلِ الِعۡلمِ الَّذینَ سَمِعُوا مِنه اِذا رَوَوا عَنه ُ قالُوا اَخۡبَرَنا العالِمُ؛

جعفر بن محمد لوگوں میں سب سے زیادہ با فضیلت اور "دین خدا" میں سب سے زیادہ عالم ہیں۔ وہ ایسے عالم ہیں کہ جب لوگ ان سے کوئی روایت سنتے ہیں تو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں "عالم" نے یہ خبر دی ہے"۔(۸)

اہل سنت کے اس عظیم عالم (یعقوبی) کے کلام میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جعفر بن محمد دین خدا کے سب سے زیادہ عالم ہیں، کیا یہ جفا نہیں ہے کہ امت میں جو سب سے زیادہ دین خدا سے واقف ہے اسے چھوڑ کر ابو حنیفہ و احمد ابن حنبل وغیرہ کے دامن کو تھام لیا جائے؟ یہ اقرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حقیقت اور تمام حقیقت دین خدا صرف حضرت امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے وابستہ ہے اور اگر یہ کسی مسئلہ میں لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ مسئلہ دینِ خدا سے مُنسلک نہیں ہے ۔ پس حقیقی اہلِ سُنّت حضرت جعفر بِن محمد الصادق‘ کے پیروکار ہیں۔

جی جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ دین ِ خدا سے واقف ہو(جیسا کہ یعقوبی نے امام صادق کی اعلمیت کا اقرارکیاہے)تو تمام فضائل وکمالات ، مکارم الاخلاق اور حکمتِ الٰہیہ اسی سے وابستہ ہونگے، وہ ہی درحقیقت خلیفہ ٔ خدا اور رسول اکرمﷺ کا جانشین ہوگا اور سُنّتِ خدا ورسولِخداﷺ سے علم ِ تفسیر و فقہ وغیرہ تمام علوم اسی سے وابستہ ہونگے۔

کتاب وفیات الاعیان میں ہے :

وقاَلَ ابنِ خلکان: ابُوعبدالله جعفر الصادق اَحَدُ الأ ئمة الاثنٰی عَشَر علٰی مَذهَبِ الامَامِیَّةِ وَکَانَ مِنْ سَاداَتِ اه ْلِ الْبیْتِ وَلَقَّبَ بَالصَّادِقِ لِصِدْقِه ِ فِیْ مَقَالَتِه ِ وَفَضْلُه ُ أ شْهَرُ مِنْ أنْ یُذکَرَ؛

اِبنِ خلکان کہتے ہیں : ابوعبد اللہ جعفرالصادق علیہ السلام مذہب ِ امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں، وہ سادات اہل بیت سے ہیں ، انہیں صادق کہتے ہیں اور انہیں یہ لقب ان کی صداقت گُفتار کی وجہ سے عنایت ہوا ہے اور انکی فضیلت اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہم ان کے فضائل بیان کرتے ہیں ۔"(۹)

اہلِ سُنّت کے اس عظیم عالم (ابنِ خلکان) کے کلام میں اہم نکات یہ ہیں کہ:

اَوّلاً : امام صادق علیہ السلام کو سادات اہلِ بیت میں سے مانتے ہیں پس انکے اقرارکی بناء پر اہلِ بیت کی شان میں نازل ہونے والی تمام آیات امام صادق پر صادق آئیں گی جیسے آیۂ تطہیر ، آیۂ مودّت وغیرہ۔

نیز امام صادق علیہ السلام حدیثِ ثقلین کا مصداق بھی قرار پائیں گے لہٰذا اس حدیث متواتر کی بناء پر امام صادق کی پیروی اختیارکرنا چاہیئے نہ ابوحنیفہ و احمد ابنِ حنبل وغیرہ کی ۔

ثانیاً : وہ حضرت امام صادق کے فضائل و کمالات کو اتنا مشہور و معروف سمجھتے ہیں کہ خورشید عالم تاب کی طرح انکے نور سے ساری دنیا روشن ہے ۔ کیا یہ ظلم و ستم نہیں کہ ہم اہلِ بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور انکی مدح میں وارد ہونے والی روایات پر کوئی توجہ نہ دیں اوران سے منہ موڑ کر غیروں کے سامنے سرتسلیم خم کردیں؟

ذراسوچئے کہ اگراہلِ بیت کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں کے درپر جھکے رہے اور گمراہ ہوگئے تو کل قیامت میں ہماراکیا بنے گا ، ہم کل کیا جواب دیں گے؟!

شیعہ کے معنی اور حقیقت ِ تشیّع

شیعہ لُغت میں پیروکار کو کہتے ہیں ۔ لہٰذا شیعة الرجل یعنی کسی شخص کے پیروکار ۔(۱۰)

کتاب غریب الحدیث کے مُصنّف حربی کہتے ہیں:وَشِیعَةُ الرجل اَتَباعُه ؛(۱۱) شیعة الرجل یعنی کسی شخص کے پیروکار۔

اہلِ سُنّت کے معروف عالمِ دین جناب فیروزآبادی لکھتے ہیں :وَقَدْ غَلَبَ هَذَا الاِسْمِ (شیعہ)عَلیٰ مَنْ یَتَوَلَّی عَلیِاً وَ اَهْلِبَیْتِه ِ ، حَتَّی صَارَاِسْماً لَهُمْ خَاصّاً ؛(۱۲)

یہ نام یعنی شیعہ حضرت علی علیہ السلام اورانکے اہلِ بیت کی ولایت کو ماننے والوں کے لئے مشہور ہوگیاہے یہاں تک کہ آج یہ لفظ شیعہ صرف انہی حضرات سے مختص ہوگیا ہے ۔

ابنِ منظور لفظ شیعہ کے معنی کے بارے میں کہتے ہیں :

وَاَصَلْ الشیعَة الفِرقَه ُ مِنَ النَّاسِ ، وَیَقَعُ عَلیٰ الواحِدِ وَالْاِثْنَیْنِ وَالْجمعِ وَالمُذَکَّرِ وَ المُؤ َنَّثِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ، وَقَدْغَلَب َ هٰذاالاِسْمِ عَلیٰ مَنْ یَتَوَلَّی عَلِیاً وَاهْلِ بیْتِه ِ، رضوانُ الله عَلَیه م اَجمَعینَ، حتّی صَارَلَهُمْ اِسْماً خَاصّاً، فَاِذَاقِیْلَ: فُلاَن مِن الشیعَة عُرِفَ اَنَّه ُ مِنْهُمْ (۱۳)

شیعہ درحقیقت لوگوں کے گروہ کو کہاجاتاہے۔ اس لفظ کا اِطلاق واحد ، تثنیہ، جمع ، مُذکر اورمؤنث سب پر ایک ہی معنی میں ہوتا ہے اورایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ لفظ ان لوگوں کے لئے مشہور اورعَلَم بن گیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام اوران کے اہلِ بیت کی ولایت کے قائل ہیں یہاں تک کہ یہ لفظ انہی حضرات سے مختص ہوگیاہے ۔ پس جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص شیعہ ہے تو لوگوں کو پتہ چل جاتاہے کہ اس شخص کا تعلُق ان لوگوں سے ہے نیز یہی عبارت زبیدی نے تاج العروس میں نقل کی ہے۔(۱۴)

نیز ابن اثیر اپنی کتاب لغت میں شیعہ لفظ کے بارے میں لکھتےہیں:

وَاَصَلْ الشیعَة الفِرقَةُ مِنَ النَّاسِ ، وَیَقَعُ عَلیٰ الواحِدِ وَالْاِثْنَیْنِ وَالْجمعِ وَالمُذَکَّرِ وَ المُؤ َنَّثِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ وَقَدْغَلَب َ هٰذاالاِسْمِ عَلیٰ کُلِّ مَنْ یَزْعَمُ اَنَّه ُ یَتَوَلَّی عَلِیاً رَضِیَ اللّٰه ُ عَنْه ُ وَاهْلِبیْتِه ِ حتّی صَارَلَهُمْ اِسْماً خَاصّاً، فَاِذَاقِیْلَ فُلاَن مِن الشیعَة عُرِفَ اَنَّه ُ مِنْهُمْ ، وَفِیْ مَذْهَبِ الشِیْعَةِ کَذَا : ای عِنْدَهُمْ (۱۵)

شیعہ درحقیقت لوگوں کے گروہ کو کہاجاتاہے۔ اس لفظ کا اِطلاق واحد ، تثنیہ، جمع ، مُذکر اورمؤنث سب پر ایک ہی معنی میں ہوتا ہے اورایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ لفظ ان لوگوں کے لئے مشہور اورعَلَم بن گیا ہے جو حضرت علی اوران کے اہلِ بیت کی ولایت کے قائل ہیں یہاں تک کہ یہ لفظ انہی حضرات سے مختص ہوگیاہے ۔ پس جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص شیعہ ہے تو لوگوں کو پتہ چل جاتاہے کہ اس شخص کا تعلُق ان لوگوں سے ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ مذہب میں اس طرح ہوتاہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے یہاں اس طرح ہے ۔

گفُتارِ باطل اور اس کا دندان شکن جواب

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابنِ اثیر شیعوں کے بارے میں کہتے ہیں : شیعہ گمان کرتے ہیں کہ علی بنِ ابیطالب‘ خلیفہ بلا فصل ہیں اور رسول ِ خدا ﷺ کے بعد اُمّت کے امام وپیشواہیں ۔

جواب: ہم اس کے جواب میں کہیں گے:

اوّلاً : ابنِ ابی الحدید جیسے علمائے اہلِ سُنّت کے اقرارکے ذریعے ہم نے قطعی طورپر ثابت کیا ہے کہ حقیقی اہلِ سُنّت حضرت علی کے شیعہ اورانکے پیروکار ہی ہیں۔ وہ لوگ حقیقی اہلِ سُنّت نہیں ہیں جو صرف اس نام کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں ۔

ثانیاً : تاریخِ یعقوبی میں یعقوبی نیز ابنِ خلکان جیسے مشہور علمائے اہلِ سُنّت کے اقرار اور امام ابوحنیفہ کے قول کے ذریعے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کا دین درحقیقت وہ ہی دین ہے جس کا تعارُف جعفرؑ بنِ محمدؑ نے کرایااور سُنّتِ پیغمبر اکرمﷺ درحقیقت انہی کے پاس ہے اور واضح ہے یہ ہی شیعوں کے چھٹے امام ہیں اوردرحقیقت امیرالمؤمنین علی بنِ ابیطالب‘ رسولِ خداؐ کے بلافصل خلیفہ ہیں۔

ثالثاً: اگر گمان و خیال باطل میں پڑے ہوئے ہیں تو بھی وہ لوگ ہیں جن کی کتابیں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرنے والی روایات سے بھری پڑی ہیں لیکن اسکے باوجود حبّاً لِخَلفائھم، بے جاتعصُب نے انکی آنکھوں میں اس طرح دھُول جھونک دی ہے کہ ان روایات پر وہ حضرات کوئی توجہ ہی نہیں دیتے ہیں ۔ ذیل میں ہم بطور نمونہ چندروایات پیش کررہے ہیں۔

کُتب اہلِ سُنّت میں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرنے والی روایات :

۱۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی ، رسول خداﷺ سے روایت کرتے ہیں :

وَهُوَ یَعْسُوبُ الْمُؤمِنِینَ ، وَهُوَ بَابِیَ الَّذِی اُوْتِیَ مِنْه ُ ، وَهُوَ خَلِیْفَتِیْ مِنْ بَعْدِی ؛(۱۶) علی مؤمنین کے بادشاہ ہیں ، میرے علوم کا دروازہ ہیں اور میرے بعد میرے خلیفہ وجانشین ہیں۔

۲۔اِسی کتاب میں پھر حضرت ابوذرغفاری سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا :

تَرِدُ عَلَیَّ الحَوض رَایَةُ عَلیٍّ اَمِیرِ المُؤمِنینَ وَاِمَامِ الغُرِّ المُحجِّلینَ وَخَلِیفَةِ مِنْ بَعْدِیْ؛ (۱۷) میرے پاس حوضِ کوثرپر پرچمِ علی پہنچے گا جومؤمنین کے امیر ، شُرفاء کے پیشوااورمیرے بعد خلیفہ وجانشین ہیں۔

۳۔بیھقی، خطیب خوارزمی اور ابنِ مغازلی شافعی ، مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

اِنَّه ُ لَا یَنْبَغِیْ اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأ نْتَ خَلِیْفَتِیْ وَأنْتَ اَوْلٰی بَالمُؤمِنِیْنَ مِنْ بَعْدِی (۱۸)

یہ بات مناسب نہیں ہے کہ میں لوگوں کو چھوڑ کر دُنیا سے رُخصت ہوجاؤں اور تمھیں اپنے بعد خلیفہ و جانشین اور مؤمنین کا سرپرست نہ بناؤں ۔ (اولیٰ بالمؤمنین یعنی امام کیونکہ لفظ خلیفہ قرینہ ہے)

۴۔ نسائی (صاحب سنن نسائی) ابنِ عباس سے تفصیل کے ساتھ مناقبِ علی نقل کرنے اور منزلت ھارونی بیان کرنے بعد لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :

أنْتَ خَلِیفَتِیْ یعنی فِیْ کُلِّ مُؤ مِنٍ بَعْدِیْ (۱۹)

اے علی تم میرے خلیفہ وجانشین ہو یعنی میرے بعد تم ہر مؤمن پر خلیفہ ہو۔

۵۔ حافظ ابوجعفر محمدبن جریرطبری نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ نے خطبہ ٔ غدیر کے اوائل میں فرمایا ہے:

وَقَدْ اَمَرَنِیْ جِبْرَائِیلُ عَنْ رَبِّی اَنْ اَقُوْمَ فِیْ هَذاالْمَشْهَدِ وَ اُعلِمَ کُلَّ أبیْض وَاسْوَد اَنّ عَلِیّ بن أبِی طَالِبٍ اَخِی وَوَصیی وَخَلِیفَتِی وَ الامامُ بَعْدِی (۲۰)

پروردگار کی جانب سے جبرائیل نے مجھے یہ امردیا ہے کہ میں اس مقام پر ٹہرمکرتمام کالے گورے لوگوں کو مطلع کردوں کہ علی بنِ ابی طالب‘ میرے بھائی ہیں اور میرے بعدمیرے وصی وخلیفہ اورامام ہیں۔

۶۔ احمد بن حنبل(۲۱) ، نسائی(۲۲) ، حاکم(۲۳) اور ذہبی اپنی تلخیص میں اس روایت کی صحت کے اعتراف کے ساتھ، نیز سنن کے مصنفین اس حدیث کی صحت پر اتفاق و اجماع کا اعتراف کرتے ہوئے اسے عمرو بن میمون سے روایت کرتے ہیں کہ اس کا کہنا ہے :

"میں ابنِ عباس کے پاس بیٹھاہوا تھا کہ ۸ گروہ ان کے پاس آئے اورکہا: اے ابنِ عباس! ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے لہٰذا یا آپ ہمارے ساتھ چلیں یا ہمیں یہیں خلوَت کا موقع دیجئے۔ ابنِ عباس نے کہا میں تمہارے ساتھ چلتاہوں ابنِ میمون کہتے ہیں: ابنِ عباس ان دنوں بالکل ٹھیک اور انکی بینائی بالکل صحیح تھی، وہ اُٹھ کر ان کے ہمراہ ایک طرف چلے گئے اور آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے ، ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے آپس میں کیاباتیں کی تھیں ۔ جب ابنِ عباس واپس پلٹے تو کہہ رہے تھے کہ افسوس ، یہ لوگ اس مردِ حق کی برائی بیان کررہے ہیں جس میں دس سے زیادہ وہ فضیلتیں پائی جاتی ہیں کہ جو کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ اس شخص کی برائی کررہے ہیں جس کے بارے میں پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا ہے : اے علی!أ نْتَ وَلیُّ کُلِّ مُؤ مِنٍ بَعْدِی ومؤمِنَةٍ ؛ اے علی تم میرے بعد ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے ولی و سرپرست ہو۔

۷۔اس کے علاوہ احمد بن حنبل(۲۴) نے عبداللہ ابنِ برید سے روایت کی کہ انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یہ ہی روایت بعینہِ نسائی نے خصائص العلویہ ، ص۱۷ میں ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے آٹھ ہجری میں حضرت علی علیہ السلام کو یمن بھیجا ۔ جب حضرت علی علیہ السلام مدینہ واپس لوٹ کر آئے تو کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ سے حضرت علی کی شکایت کی یہ سُن کر پیغمبر اکرمﷺ ان لوگوں پر بہت غضبناک ہوئے کہ آپﷺ کا چہرۂ مبارک سے غضب کے آثارنمایاں تھے اوربریدہ سے فرمایا: یاد رکھو علی کی برائی نہ کرو اس لئے کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں،وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و سرپرست ہیں۔

مذکورہ سات روایات میں ایک اہم نکتہ

اس مقام پر ایک نکتہ یہ ہے کہ ان تمام روایات میں پیغمبر اکرمﷺ کی جانب سے نص ِ جلی اورتصریح موجود ہے کہ میرے بعد علی تمام مؤمنین کے خلیفہ اور امام ہیں، لہٰذا ان تمام روایات میں موجود لفظ بعدی سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جناب صلاح ُ الدین صفدی نے ابراہیم بن سیار بن ہانی بصری معروف بہ نظام معتزلی کے حالات میں لکھاہے:

"نَصَّ النَّبِی عَلیٰ اَنَّ الاِمَامَ عَلِیٌّ وَعَیُّنَه ُ وَعَرَفَتِ الصَّحَابَةُ ذَالِکَ وَلٰکِنْ کَتَمَه ُ عُمَرُ لِأَ جْلِ أَبِیْ بَکْر ۔(۲۵)

پیغمبر اکرم ﷺ نے امامت علی پر نص قراردی ہے اور انہیں اُمّت کا اما م معین فرمایا ہے ۔ اصحاب نے اس بات کو سمجھ لیا تھا لیکن عمربن خطاب نے ابوبکر کی خاطر امامتِ علی کو پوشیدہ رکھا۔

برائے مہربانی قران کریم کی سورۂ بقرہ ملاحظہ فرمائیے اوردیکھئے کہ خداوندِ عالم حق اور وسیلۂ ہدایت کو کتمان اور پوشیدہ رکھنے والوں کے بارے میں کیا فرمارہاہے؟۔

نہایت حیرت و تعجُب کامقام!

محترم قارئین اگر آپ تمام شیعہ و سُنی کُتب میں موجود روایات کی جانچ پڑتال کریں گے تو آپ ایک روایت متفق علیہ بھی نہیں دیکھ سکیں گے جس میں شیعہ و سنی نے یہ روایت کی ہو کہ رسول خداﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد ابوبکر، عمر بن خطّاب یاعُثمان خلیفۂ بلافصل ہونگے حالانکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کے بارے میں اِلیٰ ماشاء اللہ کثرت سے روایات موجود ہیں۔ جن میں مختلف کلمات مثلاً"الخلیفہ"،"خلیفتی"، "وَلِیِّ"،" وزیری " اور "وصیی" استعمال کئے ہیں اور جنہیں شیعہ اورسنی دونوں نے کثرت سے نقل کیا ہے اورپیغمبر ِ اسلامﷺ کی تصریحات اس انداز سے ہیں جنہیں کسی بھی طرح تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کی تاویل کی جاسکتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو لقب امیر المؤمنین سب سے پہلے خود رسولِ خداﷺ نے عنایت فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ سات روایات میں سے پہلی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا :هُوَ یَعْسُوبُ المُؤمِنِینْ ؛ علی مؤمنین کے بادشاہ ہیں اور دوسری روایت میں فرمایا:عَلِی اَمِیْرُالمُؤمِنیِن ، اور ان تمام روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا :

۱۔هُوَ خَلِفَتِیْ مِنْ بَعْدِیْ ، علی میرے بعد میرے خلیفہ و جانشین ہونگے۔

۲۔وَالخَلِفَةُ مِنْ بَعْدِیْ ، میرے بعد میرے خلیفہ ہیں۔

۳۔أَنْتَ اوْلیٰ بِالمُؤ مِنِیْنَ مِنْ بَعدِیْ ، اے علی تم میرے بعد مؤمنین کے ولی و سرپرست ہو۔

۴۔ أَنْتَ خَلِفَتِیْ وَاَنْتَ اَولیٰ بَالمُؤ مِنِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ ، اے علی تم میرے بعد میرے خلیفہ اورمؤمنین کے ولی و سرپرست ہو۔

۵۔اَخِی وَ وَصِیِّی وَخَلِیْفَتِی وَ الاِمَامُ بَعْدِی ، تم میرے بھائی ہو اور میرے بعد میرے وصی، خلیفہ اور امام ہو ۔

۶۔اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤمِنْ بَعْدِی ومُؤمِنَةٍ ، اے علی تم میرے بعدہر مؤمن اور مؤمنہ کے ولی و سرپرست ہو۔

۷۔فرمایا :وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدِی ، اور علی میرے بعد تمہارے ولی وسرپرست ہیں ۔

ایک اہم سوال :

اگر حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی و خلافت کے بارے میں تصریح فرماتے تو کیا جو کچھ ہم نے اہلِ سُنّت کی کتابوں سے بیان کیاہے اس کے علاوہ کچھ اور فرماتے ؟

اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے :

اوّلاً: حضرت علی کی خلافت بلافصل کے بارے میں روایات نبوی کے بحرِ بیکراں کا ایک قطرہ ہے یعنی قطرہ ای ازبحر ذخار اور مشتی ازخروارے ہے مزید تفصیلات کے لئے ہماری کتاب اوّل مظلوم عالم امیرالمؤمنین(۲۶) کا مطالعہ کیجئے جسمیں کُتب اہلِ سُنّت سے نصوص وصایت بیان کی گئی ہیں ۔ صفحہ نمبر ۸۰ تا ۱۱۱ قطعی دلائل کے علاوہ تمام اصحاب پر حضرت علی کی افضلیت کے بارے میں ۴۰ روایات بھی بیان کی گئی ہیں۔

ثانیاً : پیغمبراکرمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے بارے میں یہ فقط نصوص اہلِ سُنّت ہیں لیکن اگر ان میں شیعہ روایات و نصوص ضمیمہ کردی جائیں تو روایات کا ایسا بحر بیکراں بن جائے گا جس میں ہر متعصب لجوج اور چشم ِ نابینا رکھنے والا غرق ہوجائے!

جی ہاں تعصُب نے بعض لوگوں کی بصیرت کو اس طرح کھودیا ہے کہ انصاف وعقل اورشرع کوپاؤں تلے روندھ دیتے ہیں اور اپنے خیال وگمان باطل کو دوسروں کی طرف نسبت دیتے ہیں اوریہ خیال کرتے ہیں کہ علی بنِ ابیطالب‘ کی خلافت بلافصل کاخورشیدعالم آفتاب ، جہالت کی گھٹاؤں کے پیچھے چھپارہ جائے گا۔

۸۔ حنبلیوں کے امام ، احمد ابنِ حنبل(۲۷) نے مسند میں زیدابنِ ارقم سے انہوں نے ابوطفیل سے اس طرح واقعہ"مناشدہ ٔ رحبہ" بیان کیا ہے۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دورمیں کوفے کے ایک محلہ میں لوگوں کوجمع کیا جس کا نام رحبہ تھا، آپ نے فرمایا: تم میں سے جس جس نے بھی پیغمبرِ اسلام ﷺ سے غدیرِ خُم میں جو کچھ سنا ہے وہ اپنی جگہ سے بلند ہوکر بیان کرے اور صرف وہ ہی شخص اس وقت گواہی دے جس نے وہاں مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنحضرتﷺ کی بات کو سنا تھا اس وقت حاضرین میں سے ۳۰ افراد کھڑے ہوئے جن میں ۱۲ صرف جنگِ بدرکے مُجاہدین تھے جنہوں نے اس بات کی گواہی دی کہ پیغمبر اسلامﷺنے علی کا ہاتھ تھام کر لوگوں سے مخاطب ہوکرفرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ مؤمنین پر خود ان سے زیادہ میں صاحبِ اختیار ہوں ؟ سب نے کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مَنْ کُنْتُ مَولَاه فَهٰذعَلِی مولاه ...

اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ اصحابِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ۳۰ افراد کا جھوٹ پر (اچانک) اتفاق کرنا عقل سے دور ہے (جبکہ اہلِ سُنّت کے نزدیک تو تمام صحابہ بطور مطلق عادل ہیں).

دوسری اہم بات یہ ہے کہ روزِ غدیر سالِ حجةُ الوداع اور روزِ رحبة ۳۵ ہجری میں کم ازکم ۲۵ سال کا فاصلہ پایا جاتا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ احمدبن حنبل نے مسند(۲۸) میں زید ابنِ ارقم سے انہوں نے ابو طفیل سے نقل کیا کہ ابو طفیل کہتے ہیں :

میں رحبہ سے دل میں یہ سوچتا ہوا نکلا کہ آخر کیاوجہ تھی کہ اُمّت کی اکثریت نے حدیث غدیر پر عمل کیوں نہیں کیا ؟! اسی اثنا میں زیدبن ارقم سے میری ملاقات ہوگئی ، میں نے ان سے کہا : میں نے علی کو اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے زید نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے میں نے بھی خود پیغمبر اکرم ﷺسے( غدیر خم میں) یہ ہی کچھ سنا تھا۔

احمد بن حنبل اسی کتاب (مسندج۴، ص۳۷۰) میں دوسری سندکے ساتھ لکھتے ہیں کہ واقعہ مناشدہ رحبہ میں شرکت کرنے والوں میں ۳ افرادایسے بھی تھے جوغدیرِ خُم میں تو موجودتھے لیکن بُغض وعنّادکی وجہ سے شہادت دینے کے لیے تیارنہیں ہوئے ، حضرت علی نے ان پرنفرین کی تو انہیں نفرین علی بنِ ابیطالب‘ کا خمیازہ بھگتناپڑا۔

جی ہاں یہ ایسی صریح نصوص ہیں جنکا سوائے عِناد رکھنے والے اور دل میں روگ رکھنے والے کے کوئی اورانکارنہیں کرسکتا۔ فضل ابنِ عباس بن ابی لہب نے ولید بن عُتبہ بنِ ابی مُعیط کے جواب میں کیاخوب شعرکہا ہے :

وَکَانَ وَلِیَّ العَهدِ بَعْدَ مُحمَّدٍ عَلیّ وَ فِی کُلِّ المَواطِنِ صَاحِبُه ُ

حضرت محمدﷺ کے بعد ولی عہدوجانشین علی ہیں جو ہر مقام پر پیغمبر کے ساتھ ساتھ تھے

۸۔ ابوالفضل احمد بنِ ابو طاہر تاریخ بغداد میں نیز ابنِ ابی الحدید شرح نہجُ البلاغہ میں حضرت عمر کے حالات کے ذیل میں اس طرح روایت کرتے ہیں :

عمر نے ابنِ عباس سے پوچھا "تمہارے ابنِ عم کا کیا حال ہے ؟"

ابنِ عباس کہتے ہیں : میں سمجھا وہ عبدُا للہ ابنِ جعفر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں لہٰذا میں نے کہا : ٹھیک ہیں ، عمر نے کہا : میرا مقصد عبدُ اللہ بن جعفر نہیں، بلکہ جو تم اہلِ بیت کے بزرگ ہیں، میں انکے بارے میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ ابنِ عباس نے کہا: وہ ابھی کنویں سے پانی نکالنے میں مصروف تھے اور زبان پر قران کی آیات جاری تھیں۔

عمر کہتے ہیں : قربانی ہونے والے تمام اونٹوں کا خون تمہاری گردن پر ہو اگرجو کچھ تم سے پوچھ رہا ہوں تم اسے چھپاؤ۔ یہ بتاؤ کیا اب بھی انکے دل میں خلافت کی آرزو باقی ہے؟ ابنِ عباس نے کہا: جی ہاں. عمر نے کہا: کیاوہ سمجھ رہے ہیں کہ رسول اللہﷺنے انکی خلافت کی تصریح کی ہے؟

میں نے کہا : بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ جب ادعائے خلافت بلافصل کی نص کے بارے میں ، میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ بالکل صحیح کہتے ہیں عمر نے کہا یقینا پیغمبرِ اسلامﷺنے اپنے اقوال میں انکے بلند مرتبہ کو بیان کیاہے. لیکن یہ اقوال حُجت نہیں ہیں کبھی کبھی حضور سرورِ کائناتﷺعلی کے بارے میں اور انہیں امرِ خلافت عطاکرنے کے بارے میں اُمّت کو آزماتے تھے ۔ یہاں تک کہ بسترِبیماری پر ان کے نام کی تصریح کرناچاہتے تھے " لیکن میں نے انہیں ہرگز یہ کام نہیں کرنے دیا"(۲۹)

نُکتہ :

جی ہاں حضرت عمر کایہ قول بالکل صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی کے بلند مرتبہ کے قائل تھے کیوں کہ کلام پیغمبر گرامیﷺ کلام وحی ہے اور خدا کی بارگاہ میں حضرت علی علیہ السلام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ہایرے اس قول کی دلیل وہ بہت سی آیات ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں شیعہ، سُنّی اتفاق ِ نظر کے مطابق ۳۰۰ آیات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں. اہلِ مطالعہ حضرات سے گذارش ہے اس سلسلے میں اہلِ سُنّت کے مشہورومعروف عالمِ دین حافظ ابو نعیم اصفہانی کی کتاب "مَانُزِّلَ مِنَ القُرآن ِ فِی عَلِی ّ " کی طرف رُجوع فرمائیں۔ لیکن حضرت عمر کایہ قول : "قولِ پیغمبر اثبات حجت نہیں کرتا ہے" صحیح نہیں ہے. ذراسوچ کر بتائیے پیغمبر آخرلزماں و خاتمُ النبیینﷺ کے اقوال و فرامین جوکہ نص قران کریم کے مطابق وحی اِلٰھی ہیں اگرانکے جانشین اورخلافت کے سلسلے میں حُجت نہ ہونگے توپھرکس کے اقوال وفرامین حُجت ہونگے؟!

حقیقت یہ ہے کہ جوشخص نص قران کریم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتاہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال وحی الٰہی ہیں تو بقول عمر ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھی اپنے بعد حضرت علی کی خلافت و جانشینی کے بارے میں مسلمانوں کو آگاہ فرماتے رہتے تھے، اسے یقین ہوجائے گا کہ حضور اکرمﷺ کا قول قطعاً حُجت اور قطع عُذر کا باعث ہے. مگریہ کہ کوئیاَلعَیاذُ بِااللّٰه یہ توقع کرے کہ خدا خودزمین پرائے اورلوگوں کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کرے!

عمرابنِ خطاب صحیح کہتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلامﷺبوقت بیماری حضرت علی علیہ السلام کے نام کی تصریح کرنا چاہتے تھے لیکن میں انکے اس کام میں حائل ہوگیا اورمیں نے کہا :دَعَوُا لرَّجُلَ فَاِنَّه ُ لَیَهْجُرُ ؛ اس شخص کو چھوڑ دو ، یہ ہذیان بول رہا ہے (نعوذباللہ)

اگر آپ حضرت علی کی بلافصل خلافت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت تحریر کرنے میں حضرت عمر بن خطاب کے مانع ہونے کے واقعہ کو تفصیل سے مطالعہ کرناچاہتے ہیں تو ہماری کتاب" اوّل مظلوم ِعالم امیر المؤمنین علی" کے صفحہ نمبر ۲۲۴ پر" مصیبت روزپنجشُبہ واھانت بہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" کے عنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیں ہم نے عمر بن خطاب کے اس قول کو اہلِ سُنّت کی مختلف کتابوں سے نقل کیا ہے اور اس سلسلہ میں بیان کردہ توجیہات کا دندان شکن جواب دیاہے۔

تِلکَ عَشَرَة کَامِلَة

ابھی تک ہم نے اس مقام پر دو روایات اور گذشتہ صفحات پر سات روایات بیان کی ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافتِ بلافصل کے لفظِ بعدی کے ذریعے تصریح کی گئی ہے اوراب دسویں روایت پیش خدمت ہے:

۱۰۔مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح(۳۰) میں اس طرح نقل کیا ہے : عمر بن خطاب نے علی و عباس (پیغمبر اسلامﷺکے چچا) سے مخاطب ہوکرکہا ابوبکر کہتے تھے کہ پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا : ہم جو کچھ صدقے کے طور پر چھوڑ کر جاتے ہیں وہ کسی کوارث میں نہیں ملا کرتا ہے لیکن تم دونوں انہیں جھوٹا، خطاکار، حیلہ گر اور خائن سمجھتے ہو، حالانکہ خداجانتاہے کہ ابوبکر نے اپنے اس کلام میں صداقت، نیکی، ہدایت اور حق کی پیروی کی ہے۔ اب جبکہ ابوبکر اس دنیا سے جا چکے ہیں اور میں پیغمبر اسلام اور ابوبکر کا جانشین بن گیا ہوں تو تم دونوں میرے بارے میں بھی یہی کچھ کہتے ہو۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میں بھی صداقت، نیکی، ہدایت اور حق کی پیروی کر رہا ہوں اسی لئے میں نے اس خلافت کو قبول کیا ہے حالانکہ تم لوگ مسلسل مجھ سے اس بات کا تقاضہ کررہے ہو کہ میں اسے سُپرد کردوں۔

اس روایت میں چند اہم نُکات

اوّل :حضرت عمر بن خطاب کے یہ کلمات ہمارے ساختہ وپرداختہ نہیں ہیں بلکہ اہلِ سُنّت کی مُعتبر ترین کتابوں میں سے ایک میں وارد ہوئے ہیں ، لہٰذا انکے نتائج و آثار نہایت قابلِ توجہ و تعمق ہیں۔

دوم: عمر بن خطاب اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ حضرت علی اور ابنِ عباس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) ، ابوبکر و عمر کو چار پست صفات سے متھم کررہے تھے: ۱.درغگو ۲.خطاکار۳.حیلہ گر ۴. خائن۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس سقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والے واقعہ کو ابوبکر وعمر کی جانب سے امیرالمؤمنین سے خلافت اور حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا سے فدک غصب کرنے کا ایک حیلہ سمجھتے تھے.

سوم:صحیح مسلم میں آنے والا حضرت عمرکا یہ قول دوحالتوں سے خارج نہیں ہے: یاتو حضرت عمر اپنے قول اور گواہی میں سچے تھے اور انہوں نے حضرت علی و جناب عباس پر جو تُہمت لگائی ہے وہ صحیح ہے ! ایسی صورت میں حضرت عمر کی شہادت اور صحیح مسلم کے نقل کے مطابق ابوبکر وعمر میں یہ صفات موجود تھیں، کیوں کہ حضرت علی وہ عظیم و پاکیزہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں آیتِ تطہیر نازل ہوئی ہے لہٰذا یہاں تو جھوٹ کا امکان بھی نہیں ہے ۔

یا حضرت عمر اپنے اس قول میں سچے نہیں ہیں اور حضرت علی اور جناب عباس پر لگائی گئی تُہمت باطل ہے. ایسی صورت میں عمر اپنی جھوٹی شہادت اور نقل مسلم کے مطابق نہ حضرت عمر لائق خلافت قرارپائیں گے اور نہ ہی حضرت ابو بکر، کیوں کہ نہ دروغگو لائقِ خلافت ہے اورنہ ہی وہ شخص جو کسی ایسے افراد کولوگوں پر خلیفہ بنادے ۔

چہارُم:صحیح مسلم کی اس روایت اورحضرت عمر کے اس قول سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ تمام صحابہ ٔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادل نہیں ہیں بلکہ بعض عادل ہیں اور بعض فاسق ہیں مزید تفصیلات کے لئے ہماری کتاب "اوّل مظلوم عالم امیر المؤمنین علی " صفحہ نمبر ۱۵۸پر" عدول صحابہ یاصحابہ عدول" کے عُنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیے.

پنجُم:حضرت ابوبکر کے اس قول کہ پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا:نحنُ مَعاشِرُ الأنْبِیَا لَا نُوَرِّثُ وَمَا تَرَکْنَاه صَدَقَة ہم نے آٹھ جواب دیئے ہیں مثلاً : انکا یہ قول نص قرانی کی صریح مخالفت ہے ، سورہ ٔ نمل آیت نمبر ۱۶ میں ارشادہوتاہے :وَوَرِثَ سُلَیمَانُ داَؤدَ ؛ سلیمان نے داؤد سے ارث پایا، اسی طرح ان کا یہ قول سورۂ مریم کی آیت نمبر ۶ اور سورۂ انبیاء کی آیت نمبر ۸۸ کی واضح طورپر مخالفت کرتاہے ، اور ہم نے حضرت ابوبکر کے اس قول کے تفصیلی جوابات اپنی کتاب" اوّل مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی " صفحہ نمبر ۱۰۲ پر بیان کردیئے ہیں.

ششُم : خطیب بغدادی(۳۱) ، ابنِ قتیبہ دینوری(۳۲) اورفخررازی(۳۳) اپنی اپنی کُتب میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خداﷺنے فرمایا :عَلِیُّ مَعَ الحَقِّ وَالحَقُّ مَعَ عَلیٍّ حَیْثُ مَادارَ ؛ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک محور پر ہیں، یہ کبھی ایک دوسرے سے جُدانہیں ہونگے.

اسی طرح دیگر کُتب میں بھی نقل کیا گیا ہے "ینابع المودة" میں رسولِ خداﷺسے روایت کی گئی کہ آپ فرماتے ہیںعَلِیُّ مَعَ الحَقِّ وَالحَقُّ مَعَ عَلیٍّ یَمِیلُ مَعَ الحقِّ کَیْفَ مَالَ ؛ علی حق کے ساتھ ہیں اورحق علی کے ساتھ ہے ، حق جہاں بھی ہو وہ حق کی طرف مائل ہیں.

اب جب کہ عُلمائے اہلِ سُنّت حضرت علی علیہ السلام کو معیار ومیزان حق تسلیم کرتے ہیں تو گذشتہ بیان کردہ صحیح مسلم(۳۴) کی روایت کو ملاحظہ فرمایئے جس میں حضرت عمر اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت علی اور جناب عباس (رسول خداﷺ کے چچا) انہیں اور ابوبکر کو دروغگو، خطاکار، حیلہ گراورخائن سمجھتے تھے، اس بات سے یہ نتیجہ حاصل کیاجاسکتا ہے کہ میزان حق، جس شخص کو دروغگو، خطاکار، حیلہ گر اور خائن کہدے وہ یقینا مسلمانوں کی خلافت کا حقدار نہیں ہوسکتا. (توجہ فرمایئے)

پس ان دس روایات خصوصاً دسویں روایت سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کس کا عقیدہ محض گمان و خیال باطل ہے؟! ان لوگوں کا عقیدہ ہے جو اپنی کُتب کے نام سُنن، سیرہ اور مسند رکھتے ہیں اور ان کتابوں میں حضرت علی ع کی بلافصل خلافت پر دلالت کرنے والی متعدد روایات نقل کرنے کے باوجود ان پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان پر عمل کرنے والوں کی طرف ظن وگمان اور خیال باطل کی نسبت دیتے ہیں

____________________

۱ ۔کتاب منتخب کنز العمال در حاشیہ مسند احمد ، ج۱، ص ۱۰۹۔

۲ ۔ شرح نہج البلاغۃ، ابن میثم بحرانی۔

۳ ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص ۱۸، طبع اسماعیلیان۔

۴ ۔ ابن ابی الحدید معتزلی، شرح نہج البلاغۃ، ج اول، ص ۱۸، طبع اسماعیلیان۔

۵ ۔سیرہ اعلام النبلاء، ج۶، ص ۲۵۷ و ۲۵۸۔

۶ ۔تہذیب الکمال، ج۵، ص ۷۹۔

۷ ۔منھج فی الانتِماءِ المذہبی، ص ۳۳۴۔

۸ ۔ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۳۸۱۔

۹ ۔وفیات الاعیان، ج۱، ص ۳۲۷۔

۱۰ ۔صحاح اللغہ جوہری۔

۱۱ ۔حربی کتاب غریب الحدیث، ج۲۔

۱۲ ۔قاموس اللغۃ۔

۱۳ ۔لسان العرب، ج۸۔

۱۴ ۔تاج العروس، ج۵، ص ۴۰۵۔

۱۵ ۔النہایۃ فی غریب الحدیث، ج۲، ص ۵۱۹۔

۱۶ ۔محمد بن یوسف گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، باب ۴۴۔

۱۷ ۔ایضاً۔

۱۸ ۔مناقب بیہقی؛ مناقب خوارزمی اور مناقب مغازلی شافعی۔

۱۹ ۔ خصائص العلویہ ضمن حدیث ۲۳۔

۲۰ ۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری، کتاب الولایۃ۔

۲۱ ۔ مسند احمد، ج۱، ص ۳۳۰۔

۲۲ ۔خصائص العلویہ، ص ۶۔

۲۳ ۔مسند احمد حنبل، ج۵، ص ۳۵۶۔

۲۴ ۔ مسند احمد حنبل، ج۵، ص ۳۵۶۔

۲۵ ۔صلاح الدین صفدی، وافی بالوفیات، ضمن حرف الف۔

۲۶ ۔ اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی ؑ، ص ۵۴ تا ۸۰۔

۲۷ ۔مسند، ج۱، از عبد الرحمن بن ابی لیلی اور ج۴، ص ۳۷۰۔

۲۸ ۔مسند، ج۴، ص ۳۷۰۔

۲۹ ۔شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۹۷۔

۳۰ ۔صحیح مسلم، ج۵، ص ۱۵۲۔

۳۱ ۔تاریخ بغداد، ج۱۴، ص ۲۱۔

۳۲ ۔الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص ۶۸۔

۳۳ ۔تفسیر کبیر، ج۱، ص ۱۱۱۔

۳۴ ۔صحیح مسلم، ج۵، ص ۱۵۲۔