مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 43455
ڈاؤنلوڈ: 4210

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43455 / ڈاؤنلوڈ: 4210
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیعت کا آغاز

فریقین کی تفاسیر اور مختلف کُتب میں وارد ہونے والی معتبر اخبار و روایات کے مطابق خود پیغمبر گرامی قدرﷺنے یہ لفظ حضرت علی کے پیروکاروں کے لئے استعمال کیا ہے یعنی خود پیغمبر اکرمﷺ نے یہ لفظ شیعہ حضرت علی کے پیروکاروں کے لئے وضع فرمایاتھا.

مُحبّانِ علی کے نزدیک یہ حقیقت بالکل واضح و آشکار ہے لہٰذا ہم اہلِ سُنّت حضرات کی اطلاع کے لئے انہی کُتب کی روایات پر اکتفاکریں گے جنہیں علمائے اہلِ سُنّت نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے.

حقانیت شیعہ پر اہل ِ سُنّت کی روایات

۱. حافظ ابونعیم اِصفہانی و مُحدِث اہلِ سُنّت ، ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب سورۂ بیّنہ کی یہ آیت:اِنَّ الّذِیْنَ اٰمَنُو وَ عَمِلُوالصَّلِحٰتِ اُولٰئِکَ هُم خیرُ البریّه جَزئهم عندَرَبَّهُم جَنَّاتُ عَدنٍ تَجرِی مِنْ تحتهَاالاَنْهَارُ خٰلِدِینَ فِیهَااَبَدَ رَضِی الله عَنْهُمْ وَرَضُواعنه (۱) ؛اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں پروردگار کے یہاں انکی جزاء وہ باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی وہ انہیں میں ہمیشہ رہیں گے ، خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں؛ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:یَا عَلِی هُوَ أنْتَ وَشِیعَتُکَ یَومَ الْقَیَامَة رَاضِین مَرضییّنَ ؛ اے علی اس آیت ِ کریمہ میں خیرُ البریّہ سے مراد تم اورتمہارے شیعہ ہیں کہ خداتم سے راضی ہوگااور تم خداسے راضی ہوگے۔"(۲)

۲. ابو الموید احمد خوارزمی(۳) محمد بن یوسُف گنجی شافعی(۴) سبطِ ابنِ جوزی(۵) اور حاکم جسکانی نے اپنی اپنی کُتب میں روایت کی ہے کہ حضور سرورِ کائناتﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :یَا عَلِی اَلَمْ تَسْمَع قولَ الله ِ تعالیٰ اِنَّ الّذِیْنَ اٰمَنُو اوَعَمِلواالصّلِحٰتِ اُوْلٰئِکَ خَیرُ البَرِیّه هُمْ شِیعَتُکَ وَمَوعِدِی وَعِدُکُمْ الحوض اِذااجْتَمَعَتِ الاُمَمُ لِلحِسَابِ تَدعُونَ غُرّاً مُحَجَّلِینَ ؛ اے علی ! کیا تم نے نہیں سنا کہ آیۂ کریمہ میں کیا ارشاد ہوا ہے ، بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور عملِ صالح انجام دیئے ہیں وہ ہی بہترین خلائق ہیں بیشک وہ بہترین خلائق تمہارے شیعہ ہیں، تمہاری اور میری وعدہ گاہ حوضِ کوثر ہے، جب خلائق حساب کے لئے جمع ہونگے تو تمہیں سفیدرُواور روشن جبیں کہہ کر پکاراجائیگا ۔

۳. ابوالفضل احمد بن ابوطاہر(۶) نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:أنْتَ وَشِیعَتُکَ فِیْ الجَنَّة؛ "بیشک تم اور تمہارے شیعہ جنت میں ہونگے"

۴. عالمِ اہلِ سُنّت "مسعودی "(۷) نے رسول خداﷺسے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِذَا کَانَ یَومَ القَیَامَة دُعِیَ النَّاسُ بِأَ سْمَا ئِهِم وَأُ مَّهَا تِهِم اِلَّا هَذَا (یعنی عَلِیّاً) وَ شِیْعَتَه ُ فَاِنَّهُم یُدعَونَ بِاَسْمَائِهِمْ وَاَسْمَائِ آبَائِهِم لِصِحَّةِ وِلَا دَتِهِم ؛ قیامت میں لوگوں کوانکے اورانکی ماں کے نام سے پکارا جائے گا مگر علی اور انکے شیعوں کو پاک و پاکیزہ ولادت کی بناء پر انکے اورانکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا.

۵. اِبنِ حجر مکّی(۸) نے روایت کی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا:یَا عَلِی اِنَّ الله َ قَدْ غَفَرَ لَکَ وَلِذُرِّیَتِکَ وَلِوُلدِکَ وَلِأ هْلِکَ وَشِیْعَتِکَ وَلِمُحِبِّی شِیعَتِکَ ؛ اے علی ! اللہ تم پر، تمہاری ذُریت و اہل و عیال ، شیعہ اور شیعوں کے چاہنے والوں پر اپنا غفران نازل کریگا۔

۶. اِبنِ اثیر(۹) نے روایت کی ہے کہ رسول اکرمﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :اِنَّکَ سَتُقَدِّمُ عَلیَ الله ِ أنْتَ وَشِیعَتُکَ راَضِین مَرضِیین ؛ اے علی ! بیشک تم اور تمہارے شیعہ اس طرح بارگاہِ اِلٰہی میں وارِد ہونگے کہ خدا وندِ عالم تم سے راضی ہوگا اور تم لوگ خداوندِ عالم سے راضی وخوشنود ہونگے۔

۷. محمد بن یُوسُف شافعی(۱۰) اور ہیثمی(۱۱) نے روایت کی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :اَنْتَ اَوَّلَ دَاخِلِ الجَنَّةِ مِنْ اُمَّتِی ، وَاِنّ شِیعَتَکَ عَلیٰ مَنَا بِرَ مِنْ نُورٍ مَسْرُوروُنَ مُبیَضَّةً وُجُوهُهُمْ حَولِی ، اَشْفَعْ لَکُم فَیَکُو نُونَ غَداً فِی الجَنَّةِ جِیرَانِی ؛ اے علی ! میری اُمّت میں سے جنت میں داخل ہونے والے پہلے شخص تم ہو ، بیشک تمہارے شیعہ نورانی منبروں پر مسرور ہونگے درحالیکہ وہ میرے گردہونگے اور انکے چہرے منور ہونگے، میں تم لوگوں کی شفاعت کروں گا پس کل بہشت میں تمہارے شیعہ میرے پڑوسی ہونگے۔

۸. ابنِ عساکر(۱۲) اور ابنِ حجر مکی(۱۳) ، سبطِ ابنِ جوزی(۱۴) اور ہیثمی(۱۵) نے روایت کی ہے کہ رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:اِنَّ اَوَّلَ اَرْبَعَةٍ یَدخُلُونَ الجَنَّةَ اَنَا وَأَنْتَ وَالحَسَن وَالحُسَین، و ذرارِینَا خَلْفَ ظَه وُرِنَا، وَاَزوَجُنَا خَلْفَ ذرارِینَا، وَشِیعَتُنَاعَنْ اَیْمَانِنَاوَعَنْ شَمَائِلِنَا ؛ اے علی بیشک جنت میں داخل ہونے والے پہلے چارافراد میں تم اور حسن وحسین ہیں اورپھر ہماری ذریت، پھر ہماری زوجات اورہمارے شیعہ ہمارے دائیں بائیں وارِد ہونگے۔

حضرت علی کے پیروکار اورشیعوں کے بارے میں پیغمبر اکرمﷺسے وارد ہونے والی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ حدتواتر تک پہنچ جاتی ہیں ۔ تفصیلات کے لئے علامہ امینی کی شہرہ آفاق کتاب "الغدیر"(۱۶) کی طرف رُجوع فرمائیں۔

نتیجہ:

اول:حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار ، چاہنے والوں اوراپ کی امامت و خلافت بلافصل کا عقیدہ رکھنے والوں کو شیعہ کہا جاتاہے۔

دوم:سب سے پہلے یہ لفظ شیعہ حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کے لئے خود پیغمبر اکرمﷺنے استعمال کیا اور وضع فرمایا تھا۔

سوم:ان شواہد کے پیشِ نظر بعض اہلِ سُنّت کا وہ دعویٰ بالکل غلط اور باطل ہوجاتا ہے کہ جس کے تحت وہ کہتے ہیں کہ شیعہ ایک سیاسی فرقہ ہے جو حضرت عُثمان کے دورِ خلافت میں عبدُاللہ ابنِ سبایہودی منافق کے ہاتھوں وجود میں آیا تھا ۔ پس یہ دعویٰ غلط ثابت ہوجاتاہے بلکہ ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کو کہا گیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جنکا نام و نشان تک نہ تھا اور آنحضرتﷺکی رحلت کے بعد بطور ظاہر اس نام کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں وہ لفظ اہلِ تسنن ہے کیوں کہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ سُنّت سے مراد سُنّتِ خدا و سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور حقیقی اہلِ سُنّت حضرت امام جعفر صادق و حضرت علی‘ اور اہلِ بیت علیھم السلام عصمت و طہارت اور انکے پیروکار ہیں۔

اب ہم یہ ثابت کرنے کے بعد (کہ حقیقی اہلِ سُنّت کون ہیں ؟ شیعہ کون ہیں؟ اور شیعہ کس کے زمانے میں اور کس کے توسُط سے وجود میں آئے ہیں) اصل بحث یعنی " مہدی موعوُد دَرکُتب اہلِ سُنّت " شروع کرتے ہیں۔

مہدی منتظر کے بارے میں تمام مسلمانوں کا عقیدہ

جب حضرت امام مہدی منتظر(عج) کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مہدی پر اعتقاد شیعہ عقائدمیں سے ہے حالانکہ جس طرح شیعہ اس عقیدے پر یقین کامل رکھتے ہیں اسی طرح اہلِ سُنّت کے نزدیک بھی یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتاہے۔

دُنیا کے تمام شیعہ و سُنی مسلمان حضرت مہدی موعود کی برجسہک ومقدس شخصیت، غَیبت، علاماتِ ظہور اورانکے عظیم انقلاب و عالمی حکومت کے بارے میں پیغمبر اکرمﷺکی جانب سے بشارتوں اور روایات پر متفق نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان میں کچھ جزئی اختلافات پائے جاتے ہیں جنہیں ہم اہلِ سُنّت کی مُعتبر کتابوں کی روشنی میں دلائل قاطع کے ساتھ بیان کریں گے۔

اہلِ سُنّت کے نزدیک موضوع "مہدی موعود" کی اَصالت و اہمیت

وہ مہمترین نُکتہ جس کی طرف ہم اس وقت آپکے ذہنوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ظہور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا عقیدہ اہلِ سُنّت کے نزدیک اصالت اور بنیادی عقیدے کی حیثیت رکھتاہے ، اور انکے اس عقیدے کی دلیل ان کے منابع روائی میں کثرت سے وارد ہونے والی روایات ہیں۔

لہٰذا ہم پورے وثوق واطمینان کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شیعہ یا سُنی محدث ایسا نہیں ہے جس نے اپنی کتاب میں آخرالزماں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے ظہور کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺ کی بشارتیں اور روایات کو نقل نہ کیا ہو۔ حتٰی کہ بعض علماء مثلاً گنجی شافعی نے حضرت مہدی موعود کے بارے میں مستقل کتاب" البیان فی اخبار صاحب الزمان" تحریرکی ہے ۔

ہم کیوں کہ حضرت مہدی موعود پر صرف کُتب اہلِ سُنّت کی روشنی میں بحث کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس مقصد کو بیان کرنے کے لئے تین حصوں میں حقائق پیش کریں گے۔

حصۂ اوّل: تیسری صدی سے اب تک اہلِ سُنّت مُحدثین و ناقلین روایات مہدی موعود کہ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم یہاں صرف ۱۶۰ افراد کا ذکر کریں گے ۔

حصۂ دوم:اس حصہ میں ہم ان کتابوں کا ذکر کریں گے جن میں اہلِ سُنّت محدثین نے حضرت مہدی موعود کے بارے میں روایات نقل کی ہیں جن میں سے ۱۱۵ کتابیں جو بطور عام اور ۴۰ کتابیں جو بطور ِ خاص حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں لکھی گئی ہیں ، ہم یہاں ذکر کریں گے۔

حصۂ سوم:اس حصہ میں ہم ان اصحاب اور راویوں کا تذکرہ کریں گے جن سے مُحدثین اہلِ سُنّت نے حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں روایات نقل کی ہیں اور انکی تعداد ۵۴ ہے۔

حصۂ اوّل : اہلِ سُنّت محدثین و ناقلین روایات مہدی موعودؑ

جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ اہلِ سُنّت کے یہاں بھی کثرت سے حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں روایات نقل کرنے والے محدثین و ناقلین پائے جاتے ہیں لیکن ہم یہاں صرف ۱۶۰ افرادکے نام ذکر کر رہے ہیں:

۱. ابنِ سعد ، مؤلف طبقات الکُبریٰ (متوفی ۲۳۰ ھق)؛

۲. ابنِ ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ ھق)؛

۳. احمد ابنِ حنبل امام حنبلی (متوفی ۲۴۱ ھق)؛

۴. بُخاری (متوفی ۲۵۶ ھق)؛ انہوں نے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام نہیں لیا ہے صرف وصف کا تذکرہ کیا ہے۔

۵. مُسلم بن حجاج (متوفی ۲۶۱ ھق)؛ انہوں نے بھی بُخاری کی روش اپنائی ہے ہم حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں اس قسم کے رویّے کی علّت، حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں شُبہات کے جوابات کے دوران بیان کریں گے۔

۶. اِبنِ ماجہ (متوفی ۲۷۳ھ ق)،

۷. ابوداؤد (متوفی ۲۷۵ھ ق)،

۸. ابنِ قتیبہ دینوری (متوفی ۲۷۶ھ ق)،

۸. ترمذی (متوفی ۲۷۸ھ ق)،

۱۰. بزار (متوفی ۲۸۲ھ ق)،

۱۱. ابویعلی موصلی (متوفی ۳۰۷ھ ق)،

۱۲. طبری (متوفی ۳۱۰ھ ق)،

۱۳. عقیلی (متوفی ۳۲۲ھ ق)،

۱۴. نعیم بن حماد (متوفی ۳ ۲ ۸ھ ق)،

۱۵. شیخ حنبلی بربہاری ، کتاب شرح السُنہ (۳۲۸ھ ق)،

۱۶. ابنِ حبان بسّی (متوفی ۳۵۴ھ ق)،

۱۷. مُقدسی (متوفی۳۵۵ھ ق)،

۱۸. طبرانی (متوفی ۳۶ ۰ ھ ق)،

۱۸. ابوالحسن آبری (متوفی ۳۶۲ھ ق)،

۲۰. الدار قطنی (متوفی ۳۸۵ھ ق)،

۲۱. خطابی (متوفی ۳۸۸ھ ق)،

۲۲. حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ھ ق)،

۲۳. ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ھ ق)،

۲۴. ابوعمرو الدانی (متوفی ۴۴۴ھ ق)،

۲۵. بیھقی (متوفی ۴۵۸ھ ق)،

۲۶. خطیبِ بغدادی (متوفی۴۶۳ھ ق)،

۲۷. ابنِ عبدالبر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ ق)،

۲۸. دیلمی (متوفی ۵۰۸ھ ق)،

۲۸. بغوی (متوفی ۵۱۰ھ ق)،

۳۰. قاضی عیّاض (متوفی ۵۴۴ھ ق)،

۳۱. خوارزمی حنفی (متوفی ۵۶۸ھ ق)،

۳۲. ابنِ عساکر (متوفی ۵۷۱ ھ ق)،

۳۳. ابنِ جوزی (متوفی۵۸۷ ھ ق)،

۳۴. ابنِ اثیر جذری (متوفی ۶۰۶ ھ ق)،

۳۵. ابوبکر اسکافی (متوفی۶۲۰ھ ق)،

۳۶. ابنِ العربی (متوفی ۶۳۸ ھ ق)،

۳۷. محمد طلحہ شافعی (متوفی ۶۵۲ھ ق)،

۳۸. سبطِ ابنِ جوزی (متوفی۶۵۴ ھ ق)،

۳۸. ابنِ ابی الحدید مُعتزلی حنفی (متوفی۶۵۵ ھ ق)،

۴۰. منذری (متوفی ۶۵۶ ھ ق)،

۴۱. محمد یوسف گنجی شافعی (متوفی ۶۵۸ ھ ق)،

۴۲. قرطبی مالکی (متوفی ۶۷۱ ھ ق)،

۴۳. ابنِ خلکان (متوفی ۶۸۱ ھ ق)،

۴۴. محب الدین طبری (متوفی ۶۸۴ھ ق)،

۴۵. ابنِ منظور (متوفی ۷۱۱ ھ ق)،

۴۶. ابنِ تیمیہ (متوفی ۷۲۸ ھ ق)،

۴۷. جوینی شافعی (متوفی ۷۳۰ ھ ق)،

۴۸. علاء الدین بلبان (متوفی ۷۳۸ ھ ق)،

۴۸. ولی الدین تبریزی (متوفی بعداز ۷۴۱ ھ ق)،

۵۰. المزی (متوفی ۷۳۸ ھ ق)،

۵۱. ذہبی (متوفی۷۴۸ ھ ق)،

۵۲. ابنِ الوردی (متوفی۷۴۸ ھ ق)،

۵۳. زرندی حنفی (متوفی۷۵۰ ھ ق)،

۵۴. ابنِ قیم الجوزیہ (متوفی ۷۵۱ ھ ق)،

۵۵. ابنِ کثیر (متوفی ۷۷۴ ھ ق)،

۵۶. سعد الدین تفتازانی (متوفی ۷۸۳ ھ ق)،

۵۷. نورالدین ہیثمی (متوفی۸۰۷ ھ ق)،

۵۸. شیخ محمد جذری دمشقی شافعی (متوفی۸۳۳ ھ ق)،

۵۸. ابوبکر بوصیری (متوفی ۸۴۰ ھ ق)،

۶۰. ابنِ حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲ ھ ق)،

۶۱. سخاوی (متوفی ۸۰۲ھ ق)،

۶۲. سیوطی (متوفی ۸۱۱ھ ق)،

۶۳. شعرانی (متوفی ۸۷۳ ھ ق)،

۶۴. ابنِ حجر ہیثمی (متوفی ۸۷۴ ھ ق)،

۶۵. مُتقی ہندی (متوفی ۸۷۵ ھ ق)،

۶۶. شیخ مرعی حنبلی (متوفی۱۰۳۳ھ ق)،

۶۷. محمد رسول برزنجی (متوفی ۱۱۰۳ ھ ق)،

۶۸. زرقانی (متوفی۱۱۲۲ھ ق)،

۶۸. محمد بن قاسم مالکی (متوفی ۱۱۸۲ ھ ق)،

۷۰. ابوالعلاء عراقی مغربی (متوفی ۱۱۸۳ ھ ق)،

۷۱. سفارینی حنبلی (متوفی۱۱۸۸ ھ ق)،

۷۲. زُبیدی حنفی (متوفی۱۲۰۵ ھ ق)، کتاب تاج العُروس ، مادہ ٔ ھدی

۷۳. شیخ صبان (متوفی ۱۲۰۶ ھ ق)،

۷۴. محمد امین سویدی (متوفی ۱۲۴۶ ھ ق)،

۷۵. شوکانی (متوفی ۱۲۵۰ ھ ق)،

۷۶. مؤمن شبلنجی (متوفی ۱۲۸۱ ھ ق)،

۷۷. احمدزینی دحلان ، فقیہ ومُحدث شافعی (متوفی ۱۳۰۴ ھ ق)،

۷۸. محمد صدیق قنوجی بُخاری (متوفی ۱۳۰۷ھ ق)،

۷۸. شہابُ الدین حلوانی شافعی (متوفی ۱۳۰۸ ھ ق)،

۸۰. ابُو البرکات آلوسی حنفی (متوفی ۱۳۱۷ ھ ق)،

۸۱. ابو الطیب محمد شمس ُ الحق عظیم آبادی (متوفی ۱۳۲۸ ھ ق)،

۸۲. کتانی مالکی (متوفی ۱۳۴۵ھ ق)،

۸۳. مبارکفوری (متوفی ۱۳۵۳ ھ ق)،

۸۴. شیخ منصور علی ناصف (متوفی بعدازسال ۱۳۷۱ ھ ق)،

۸۵. شیخ محمد خضر حسین مصری (متوفی۱۳۷۷ ھ ق)،

۸۶. ابوالفیض غماری شافعی (متوفی ۱۳۸۰ ھ ق)، انہوں نے اپنی کتاب " الرائع" میں احادیث مہدی موعود کا اہلِ سُنّت کے نزدیک تواتر سے وارد ہونا ثابت کیاہے.

۸۷. شیخ محمد بن عبدالعزیز المانع (متوفی ۱۳۸۵ ھ ق)،

۸۸. شیخ محمد فواد عبدالباقی (متوفی ۱۳۸۸ھ ق)،

۸۸. ابوالاعلی مودُودی،

۸۰. ناصرالدین البانی،

۸۱. شیخ سلیمان بلخی حنفی قندوزی ، کتاب " ینابع ُ المودة"

۸۲. میرسیدعلی ھمدانی شافعی ، مؤلف کتاب مودت فی القربیٰ ،

۸۳. جاراللہ زمخشری ، "تفسیر کشاف"،

۸۴. شیخ طنطاوی ، "تفسیر الجواہر"،

۸۵. سمھودی ، مؤلف کتاب" جواہر العقدین"،

۸۶. ثعلبی امام صاحب تفسیر (درمیان ِ اہلِ سنّت ) ومؤلف کتاب" عرائس"،

۸۷. فخرالدین رازی ،" تفسیر کبیر"،

۸۸. ابنِ صباغ مالکی ، کتاب" فصول المھمة"،

۸۸. نسائی صاحب" سنن"،

۱۰۰. علی بن برہان الدین حلبی، مؤلف کتاب" سیرة الحلبیہ"،

۱۰۱. ابوالفرج اصفہانی ، کتاب "مقاتل الطالبین"،

۱۰۲. شبراوی شافعی، کتاب "الاتحاف بحبّ الاشراف"،

۱۰۳. یاقوت حموی ، " معجم البلدان"،

۱۰۴. شیخ محمد عبدہ ، کتاب "شرح نہج ُ البلاغہ"،

۱۰۵. محمد بن خاوند شاہ صاحب ، کتاب " روضة الصفا،

۱۰۶. حاکم حسکانی ، کتاب" شواہد التنزیل"،

۱۰۷. حافظ ابوالفوارس "اربعین"،

۱۰۸. حافظ صاحب ، کتاب " البیان و التّبیین،

۱۰۸. ابنِ الدیبع شیبانی صاحب ، کتاب " تیسیر الاصول"،

۱۱۰. ابنِ مندہ صاحب، کتاب" تاریخ اصفہان"،

۱۱۱. کوثری صاحب ، کتاب " نظرة عابرہ "،

۱۱۲. ابنِ حاتم صاحب ، کتاب " عوالی ،

۱۱۳. محمد بن احمد حنفی صاحب، کتاب بدائع الزھوز،

۱۱۴. عبدری صاحب کتاب الجمع بین الصحیحین،

۱۱۵. ابنِ منادی صاحب ، کتاب " الملاحم "،

۱۱۶. ابویٰحیٰ صاحب ، کتاب " الفتن " ،

۱۱۷. سلیلی صاحب ، کتاب " الفتن "،

۱۱۸. رویانی صاحب ، کتاب " مسند"،

۱۱۸. عبدالرحمان حنفی سھیلی صاحب ، کتاب " شرح سیرة الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "،

۱۲۰. ابوعمرو المقری صاحب " سنن "،

۱۲۱. سیدمحمد صدیق صاحب ، کتاب " الاذاعة " ،

۱۲۲. ابو عوانہ مؤلف کتاب مسند ،

۱۲۳. شیخ حسن بن علی مدابغی صاحب ، کتاب " حاشیہ فتح المبین ،

۱۲۴. سید مصطفی البکری صاحب ، کتاب " الھدیة الندیہ،

۱۲۵. شیخ محمد انور کشمیری صاحب ، کتاب " التصریح بما تواتر فی نزول المسیح،

۱۲۶. احمد محمد شاکر صاحب ، کتاب " مقالید الکنوز "،

۱۲۷. میبدی صاحب" شرح الدّیوان" ،

۱۲۸. محمدبن حسن اسنوی صاحب " مناقب الشافعی " ،

۱۲۸. ابنِ اعثم کوفی صاحب، کتاب " الفتوح " ،

۱۳۰. ابوعبدُ السلام عمر الشبراوی صاحب ، کتاب " شرح ورد السحر" ،

۱۳۱. کشخاوی صاحب ، کتاب " لوامع العقول "،

۱۳۲. قاضی ناصر الدین عبدُ اللہ بیضاوی صاحب ، کتاب " انوارُ التنزیل "،

۱۳۳. ابوالفلاح عبدالحیی بن عماد حنبلی صاحب ، کتاب " شذرات الذہب،

۱۳۴. عبدُ الرؤف مناوی صاحب ، کتاب " کنوز الحقائق "،

۱۳۵. شیخ اسماعیل حقی افندی صاحب ، کتاب " رُوح البیان "،

۱۳۶. مُلّا کاتب چلبی صاحب ، کتاب " کشف الظنون"،

۱۳۷. ابوالولید محمد بن یٰحیٰ مقدسی شافعی ، کتاب " روضةُ المناظر"،

۱۳۸. خطیب شربینی ، کتاب " سراجُ المُنیر.

۱۳۸. یُوسُف بن یٰحیٰ مقدسی شافعی صاحب کتاب " عقد الدرر،

۱۴۰. علی بن سُلطان محمد ھروی حنفی ، کتاب " مہدی آلِ رسول ،

۱۴۱. مُلا علی قاری ، کتاب "المشرب الوردی فی مذہب المہدی،

۱۴۲. بلیسی ، کتاب " العطر الوردی بشرح قطر الشھدی،

۱۴۳. اِبنِ کمال پاشا حنفی ، کتاب " تلخیص البیان فی علامات مہدی آخرالزمان"،

۱۴۴. ابوبکر بن حشیمہ، کتاب" احادیث المہدی واخبار المہدی"،

۱۴۵. محمد بن اسماعیل امیر الیمانی ، کتاب " احادیث القاضیہ بخروج المہدی"،

۱۴۶. ابوالمعارف قطب الدین دمشقی حنفی ، کتاب " الھدیة الندیہ"،

۱۴۷. شیخ محمد حبیب اللہ بن مایابی ، کتاب " الجوامع المقنع"،

۱۴۸. شیخ عبدُ القاہر بن محمد سالم ، کتاب " النظم الواضح"،

۱۴۸. شیخ سعد الدین حموی ، کتاب " احوال صاحب الزمان"،

۱۵۰. ابو العلاء ھمدانی ، کتاب " اربعین حدیث فی المہدی"،

۱۵۱. حسن بن محمد بن قمی نیشاپوری ، کتاب " غرائب القران "،

۱۵۲. شمسُ الدین محمد طولون ، کتاب " المہدی اِلی ماوردفی المہدی"،

۱۵۳. ابو الرجاء محمد ہندی ، کتاب " الھدیة والمھدویّة"،

۱۵۴. احمد امین مصری ، کتاب " المھدی والمھدویّة"،

۱۵۵. ادریس عراقی مغربی ، کتاب " المھدی" ،

۱۵۶. ابو عمرو عثمان بن سعد الدانی ، کتاب " الفتن " ،

۱۵۷. اسماعیل بن عمربن کثیر الدمشقی ، کتاب " الفتن والملاحم" ،

۱۵۸. شیخ عبدالرحمن بن محمد بن علی احمد بسطامی ، کتاب "درّة ُ المعارف "، بربنائے نقل ینابع ُ المودة باب ۶۷،

۱۵۸. آلوسی ،کتاب " روح المعانی " ،

۱۶۰. ابنِ مغازلی فقیہ شافعی ، کتاب مناقب.

نیز صدرِ اسلام ( ۲۲۰ ھجری قمری) سے آج تک اور بہت سے دیگر محدثین ، مفسرین اور فقہائے اہلِ سُنّت

____________________

۱ ۔سورہ بینہ (۹۸)، آیت ۷ و ۸۔

۲ ۔حلیۃ الاولیاء، حافظ ابو نعیم اصفہانی۔

۳ ۔مناقب خوارزمی، فصل ۱۷۔

۴ ۔کفایۃ الطالب، ص ۱۱۹۔

۵ ۔تذکرۃ الخواص، ص ۳۱۔

۶ ۔تاریخ بغداد، ج۱۲، ص ۲۸۹۔

۷ ۔مروج الذھب، ج۲، ص ۵۱۔

۸ ۔صواعق محرقہ، ص ۹۶ و ۱۳۹ و ۱۴۰۔

۹ ۔نہایہ، ج۳، ص ۲۷۶۔

۱۰ ۔کفایۃ الطالب، ص ۱۳۵۔

۱۱ ۔مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۳۱۔

۱۲ ۔تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴، ص ۳۱۸۔

۱۳ ۔صواعق محرقہ، ص ۹۶۔

۱۴ ۔تذکرۃ الخواص، ص ۳۱۔

۱۵ ۔مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۳۱۔

۱۶ ۔الغدیر، ج۳، ص ۷۹ و ۸۰۔