مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 43447
ڈاؤنلوڈ: 4210

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43447 / ڈاؤنلوڈ: 4210
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بیان حقائق:

پیغمبر اکرمﷺ کی زبان وحی سے صادر ہونے والی اس روایت میں بہت اہم اور قابل توجہ نکات پوشیدہ ہیں مثلاً:

۱. پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا: مجھے خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ میں علی ع سے تمہاری شادی کردوں۔ یہ امر پروردگار عالم کی نگاہ میں حضرت علی علیہ السلام کے بلند مقام و مرتبہ کی علامت ہے۔

۲. رسول خدا ؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی علیہ السلام خیر الاوصیاء، علم و حلم میں سب سے افضل اور مسلم اول ہیں، اور ہم اسی کتاب کے گذشتہ صفحات اور کتاب اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ، میں بیان کرچکے ہیں کہ یہ روایت اور اس جیسی دیگر سینکڑوں روایات رسول خدا کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی دلیل ہی نہیں بلکہ تصریح کر رہی ہیں۔ جیسا کہ اس کتاب کی ابتداء میں آپ یہ روایات ملاحظہ کرچکے ہیں۔

۳. بہترین خصال عالَم اسی خاندان سے وابستہ ہیں جن میں سے ایک حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف بھی ہیں۔ ہم اسی کتاب کے اگلے صفحات پر کتاب ینابیع المودۃ(۱) سے ایک روایت نقل کریں گے کہ پیغمبر ا سلام، حضرت علی و حضرت فاطمہ زہرا کی شادی کے موقع پر دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"مہدی میری عترت اور اولاد فاطمہ سے ہوں گے"

میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص خروج کرے گا

۲۹ ۔ ابن عبد البر مالکی(۲) نے جابر الصدفی سے اور متقی ہندی(۳) روایت کرتے ہیں کہ رسول خداﷺنے فرمایا: "یخرُجُ رَجُلٌ مِن اَه لِبَیتی یملَاُ الاَرضَ عَدلاً کَما مُلِئَت جَوراً " میرے اہل بیت سے ایک ایسا شخص خروج کریگا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔

نکتہ: مؤمن شبلنجی(۴) نے اس روایت کو جابر بن عبد اللہ سے نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت ابو نعیم نے کتاب فوائد اور طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں نقل کیا ہے۔

مہدی موعود (عج) معصوم ہیں، وائے ہو ان سے بغض رکھنے والے پر

۳۰ ۔ صاحب ینابیع المودہ(۵) نے ابو طفیل بن عامر واثلہ (کے جس کے بارے میں اتفاق نظر ہے کہ یہ آخری صحابی پیغمبر ہیں جنہوں نے ۱۰۰ ہجری قمری میں انتقال پایا ہے) کے توسط سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے:

"قال رسول الله ﷺ: یا عَلی اَنتَ وَصیی حَربُکَ حَربی وَ سِلۡمُکَ سِلمی وَ اَنتَ الاِمامُ اَبُو الاَئِمَّه اَلۡاِحۡدی عَشَر اَلَّذینَ ه ُم المُطَه َّرُونَ اَلۡمَعۡصُومُونَ و مِنه ُم المَه دی اَلَّذی یملَاُ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلاً فَوَیلٌ لِمُبغِضیه ِم، یا عَلی لَو اَنَّ رَجُلاً اَحَبَّکَ وَ اَولادَکَ فِی الله لَحَشَرَه ُ الله ُ مَعَکَ وَ مَعَ اَولادِکَ وَ اَنتُم مَعی فی الدَّرَجاتِ العُلی وَ اَنتَ قَسیمُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ تَدخُلُ مُحبّیکَ الجَنَّه َ وَ مُبغِضیکَ النّارَ "

رسول خداﷺنے فرمایا: اے علی! تم میرے وصی و جانشین ہو، تمہاری جنگ میری جنگ، تمہاری صلح میری صلح ہے، تم خود بھی امام ہو اور گیارہ ائمہ کے والد ہو جو سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں۔ انہی میں سے ایک مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے پس ان سے بغض رکھنے والوں پر وائے ہو، اگرکوئی شخص تمہیں اور تمہاری اولاد کو اللہ کے لئے دوست رکھے گا تو بلاشبہ وہ تمہارے اور تمہاری آل کے ساتھ محشور ہوگا۔ اور تم (بارہ امام اپنے محبوں کے ہمراہ) درجات عالیہ پر میرے ہمراہ ہوں گے، اے علی علیہ السلام ! تم جہنم و جنت کو تقسیم کرنے والے ہو، بیشک تمہارے چاہنے والے داخل بہشت ہوں گے اور تم سے بغض رکھنے والے داخل دوزخ ہوں گے۔

بیان حقائق روایت "قسیم الجَنَّۃِ وَ النَّارِ"

اس روایت میں بہت سے قابل توجہ نکات پائے جاتے ہیں مثلاً:

۱. پیغمبر اکرمﷺ اس روایت میں امامت و وصایت علی علیہ السلام کی تصریح فرما رہے ہیں جو حضورؐ کے بعد خلافت بلافصل کی علامت ہے۔ پس اس کی روشنی میں حضرت عائشہ کا یہ فرمان باطل ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی، کیونکہ وصیت کے بغیر وصی کا معین کرنا غلط ہوگا لہذا حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت باطل قرار پائے گی۔

۲. پیغمبر اکرم ؐ نے اس روایت میں حضرت علی علیہ السلام کا تعارف امام اور گیارہ ائمہ کے والد کی حیثیت سے کروایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے صرف حضرت علی علیہ السلام ہی کو اپنا جانشین معین نہیں کیا بلکہ ان کے بعد گیارہ ائمہ کا بھی تعیّن کردیا ہے پس حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

۳. پیغمبر اکرمﷺنے اس روایت میں حضرت علی ع اور ان کے بعد گیارہ ائمہ  کی عصمت و طہارت کی تصریح فرمائی ہے۔

۴. جیسا کہ اس روایت کے مطابق حضور سرور کائنات نے تصریح فرمائی ہے کہ مہدی موعود حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے اس کی روشنی میں(بعض) اہل سنت کی یہ سعی لا حاصل قرار پائے گی کہ مہدی موعود فرزند علی علیہ السلام نہیں ہیں۔

۵. جیسا کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے لہذا معاویہ اور دیگر افراد میں سے جس جس نے بھی حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی ہے اس نے گویا رسول اللہ سے جنگ کی ہے۔

۶. اس روایت کی روشنی میں محبان علی علیہ السلام ان کے ہمراہ اور جنت میں پیغمبر اسلام کے ساتھ ہوں گے اور ان سے بغض رکھنے والے اور وہ جس نے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر سجدۂ شکر ادا کیا، داخل دوزخ ہوں گے۔

۷. یہ وہ روایت ہے جسے علمائے اہل سنت نے نقل کیا اور تصریح کی ہے لیکن عملاً اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے اور شیعوں پر کذب و کفر اور ارتداد وغیرہ کی تہمتیں لگاتے ہیں۔

مہدی (عج) میری عترت میں سے ہوں گے اور وہ میری سنت کی خاطر جنگ کریں گے

۳۱ ۔ ینابیع المودہ(۶) نے صاحب جواہر العقدین سے حضرت عائشہ کے توسط سے نبی کریم سے روایت نقل کی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:

"اَلمَه دی رَجُلٌ مِن عِترَتی یُقاتِلُ عَلی سُنَّتی کَما قاتَلۡتُ اَنا عَلَی الوَحی "

مہدی میری عترت میں سے ہوں گے وہ میری سنت کے لئے جنگ کریں گے جس طرح مجھے وحی کے خاطر جنگ کرنی پڑی ہے۔

نکتہ: صاحب ینابیع المودہ اس روایت کے ذیل میں رقمطراز ہیں کہ نصیر بن حماد نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔

اخلاق مہدی(عج)، اخلاق پیغمبر اکرم کی مانند ہے

۳۲ ۔ جناب متقی ہندی(۷) نے پیغمبر اسلامﷺ سے روایت نقل کی ہے:

"یخرُجُ رَجُلٌ مِن اهل بِیتی یُواطی اِسمُه ُ اِسمی وَ خُلقُه ُ خُلقی فَیَمۡلَاُه ا عَدلاً وَ قِسطاً کَما مُلِئَت ظُلماً وَ جَوراً " میرے اہل بیت میں سے ایک ایسا شخص خروج کرنے والا ہے جو میرے ہمنام ہوگا، اس کا اخلاق مجھ جیسا ہوگا پس وہ ہی ظلم و ستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

نکتہ: یہ روایت طبرانی نے "الکبیر" میں ابن مسعود سے اور متقی ہندی نے کتاب البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان" میں طبرانی سے نقل کی ہے۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے دائیں رخسار پر تِل ہوگا

۳۳ ۔ ابو نعیم اصفہانی نے "اربعین حدیث فی المہدی" میں حدیث نہم اور علامہ اربلی نے کشف الغمہ میں حذیفہ بن یمانی کے توسط سے روایت کی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا:

"الْمَهْدِيُّ رَجُلٌ مِنْ وُلْدِي لَوْنُهُ لَوْنٌ عَرَبِيٌّ وَ جِسْمُهُ جِسْمٌ إِسْرَائِيلِيٌّ عَلَى خَدِّهِ الْأَيْمَنِ خَالٌ كَأَنَّهُ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً يَرْضَى فِي خِلَافَتِهِ أَهْلُ الْأَرْضِ وَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ الطَّيْرُ فِي الْجَوِّ "

مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے جن کا رنگ عربی اور بدن اسرائیلی (سڈول جسم) ہوگا، ان کے دائیں رخسار پر تِل ہوگا وہ چمکتے ہوئے ستارہ کی مانند چمکیں گے اور ظلم سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ساکنان زمین و آسمان اور ہوا میں موجود پرندے ان کی خلافت سے خوشحال ہوں گے۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا چہرہ درخشاں ستارے کی مانند ہوگا

۳۴ ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اہل بیت علیھم السلام کی شان میں وارد شدہ آیات کو نقل کرکے بارہویں آیت کے ذیل میں رؤیانی و طبرانی وغیرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا:

"الْمَهْدِيُّ مِنْ وُلدِي وَجه ُه ُ کَالکَوبِ الدُّرّی اَللونُ لَوْنٌ عَرَبِيٌّ وَ الجِسمُ جِسْمٌ إِسْرَائِيلِيٌّ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً يَرْضَى لِخِلَافَتِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ الْأَرْضِ وَ الطَّيْرُ فِي الْجَوِّ ، یملِکُ عِشرین سَنَه "

مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے، ان کا چہرہ کوکب دُرّی کی مانند ہوگا، ان کا رنگ عربی اور بدن اسرائیلی (سڈول بدن) ہوگا۔ ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ان کی خلافت کے زمانہ میں اہل زمین و آسمان اور ہوا کے پرندے تک خوشحال ہوں گے اور وہ بیس سال حکومت کریں گے۔

نکتہ: شیخ منصور علی ناصف از علمائے الازہر و مدرس جامع الزینی(۸) نے اسی روایت کو رویانی، ابو نعیم دیلمی اور طبرانی سے نقل کیا ہے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں نقل کیا ہے اور کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور ہمارے نزدیک اس کی سند معروف ہے۔

زمانۂ غیبت میں امامت مہدی (عج) پر ثابت قدم رہنے والے یاقوت سرخ کی مانند ہیں

۳۵ ۔ شیخ سلیمان قندوزی(۹) نے مسنداً ثابت بن دینار سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنَّ عَلِياً إِمَامُ أُمَّتِي مِن بَعْدِي وَ مِنْ وُلْدِهِ الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ الَّذِي ظَه َرَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدلاً وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ بَشِيراً وَ نَذِيراً إِنَّ الثَّابِتِينَ عَلَى الْقَوْلِ بِاِمامَتِه ِ فِي زَمَانِ غَيْبَتِهِ لَأَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحْمَرِ فَقَامَ إِلَيْهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِوَلَدِكَ القائِمِ غَيْبَةٌ؟ قَالَ إِي وَ رَبِّي وَ لِيُمَحِّصُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ يَمْحَقُ الْكافِرِينَ يَا جَابِرُ إِنَّ هَذَا الأَمْرَ مِنْ الأَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ عِلْمُهُ مَطْوِيٌّ عَنْ عِبَادِ اللَّهِ فَاياكَ وَ الشَّكَّ فِيهِ فَإِنَّ الشَّكَّ فِي أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كُفْرٌ "

رسول خداؐ نے فرمایا: علی علیہ السلام میرے بعد میری امت میں امام ہیں اور قائم منتظر انہی کی اولاد میں سے ہوں گے جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور قسم ہے اس پروردگار کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر بناکر مبعوث کیا ہے جو شخص ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کی امامت پر ثابت قدم رہے گا وہ یاقوت سرخ کی مانند قرار پائے گا۔ اسی اثناء میں جابر بن عبد اللہ انصاری اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا آپ کی اولاد میں سے آنے والے قائم کے لئے غیبت بھی واقع ہوگی؟ فرمایا: قسم بخدا، مہدی کے لئے غیبت واقع ہوگی پھر حضور نے سورۂ آل عمران کی ۱۴۱ ویں آیت تلاوت فرمائی یعنی خدا مؤمنین کو پاک و پاکیزہ (خالص) قرار دے گا اور کفار کو نابود کر دے گا۔ پھر حضور سرور کائنات نے فرمایا: اے جابر! یہ غیبت اوامر الٰہی اور اسرار الٰہی میں سے ہے جسے خداوند عالم نے بندوں سے مخفی رکھا ہے۔ پس اس معاملہ میں شک کرنے سے پرہیز کرنا کیونکہ اوامر الٰہی میں شک کرنا کفر ہے۔

نکتہ: شیخ سلیمان نے یہ روایت فرائد السمطین صفحہ ۴۴۸ کے مطابق نقل کی ہے۔

مذکورہ روایت کے مہم نکات

۱. یہ روایت اور اس جیسی سینکڑوں روایات جنہیں ہم نے حقانیت شیعہ اور رسول اکرمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے ثبوت میں نقل کیا ہے، شیعہ و اہل سنت کے درمیان متفق علیہ ہیں؛ ان روایات کو صرف اہل سنت ہی نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ شیعوں نے بھی نقل کیا ہے مثلاً شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین(۱۰) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۲. آپ اس جیسی ایک متفق علیہ روایت بھی نہ پائیں گے جس میں حضور سرور کائنات نے فرمایا ہو کہ میرے بعد حضرت ابوبکر، عمر یا عثمان خلیفہ ہوں گے جبکہ امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ روایات نقل ہوئی ہیں۔

۳. اس روایت میں حضور اکرم ؐ کے مطابق آنحضرتؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام خلیفۂ بلافصل قرار پائیں(۱۱) گے کیونکہ آپ نے فرمایا:"اِنَّ عَلیاً اِمامُ اُمَّتی مِن بَعدی " میرے بعد علی علیہ السلام میری امت کے امام و سرپرست ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے کے لئے حضورؐ کی جانب سے اس کے علاوہ بھی کوئی تصریح ہوسکتی ہے !!!

کہاں ہیں اہل انصاف؟ کہاں ہیں حق سننے والے؟ اور کہاں ہیں قوی ایمان و بغیر تعصب کے حق کو قبول کرنے والے؟!

جی ہاں اگر دل میں روح انصاف موجود ہو تو تعصب کے پردے چاک ہوجائیں اور روز روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ غاصب کون ہے؟ اور حضرت علی علیہ السلام کے حق میں ظلم کرنے والے کون ہیں؛ اور معلوم ہوجائے گا کہ بطور مطلق تمام اصحاب عادل ہیں یا نہیں؟!

۴. پیغمبر اکرمﷺ نے اس روایت میں حضرت مہدی (عج) کی غیبت کی تصریح فرمائی ہے اور ہم انشاء اللہ غیبت پر بحث کے دوران اس مسئلہ کو بیان کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ شیعوں کے بارہویں امام ہی ہیں جو اس وقت پردہ غیبت میں ہیں اور ۷۳ فرقوں میں سے شیعہ ہی اہل نجات ہیں۔

۵. پیغمبر اکرمﷺنے تصریح فرمائی ہے کہ حضرت مہدی (عج)، حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے اور ہم آئندہ صفحات پر اس روایت کے ذریعے بہت سے شبہات کے جواب دیں گے اور بیان کریں گے کہ حضرت مہدی (عج) بنی عباس و بنی امیہ میں سے نہ ہوں گے۔

۶. پیغمبر گرامی اسلامﷺ نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرمایا: "غیبت مہدی میں شک، اوامر الٰہی میں شک ہے اور اوامر الٰہی میں شک کفر ہے" پس اس متفق علیہ روایت کے بارے میں غور و فکر سے کام لیکر حضرت مہدی (عج) کے بارے میں اپنے عقیدے کی تصحیح کرنی چاہیے۔

حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کو مہدی موعود کی بشارت

۳۶ ۔ مولانا متقی ہندی(۱۲) نے رسول خداﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

"اِبشِری بِالمَه دی مِنکِ " تمہیں بشارت دی جاتی ہے کہ مہدی تمہاری اولاد میں سے ہیں۔

ابن عساکر نے تاریخ اور کنوز الحقائق میں رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:"اِبشِری یا فاطِمَةُ بِالمَه دی مِنکِ " اے فاطمہ تمہیں بشارت ہو کہ مہدی تمہاری اولاد میں سے ہوں گے۔

"لا اِله الّا الله " کہنے والے کے سوا روئے زمین پر کوئی نہ رہے گا

۳۷ ۔ کتاب عِقدُ الدُّرَر فی اخبار المنتظر(۱۳) میں حذیفہ کے توسط سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا:

"لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا اسْمُهُ اسْمِي وَ خُلُقُهُ خُلُقِي يُكَنَّى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ یُبایِعُ لَه ُ النّاسُ بَینَ الرُّکنِ وَ المَقامِ، یَردُّ الله ُ بِه ِ الدّینَ وَ یفتَحُ لَه ُ الفُتُوحُ فلا یبقی عَلی وَجه ِ الاَرضِ اِلّا مَن یقُول؛ لا اِله َ اِلّا الله ، فَقَامَ سَلمانُ فَقال: یا رَسُولَ الله ِ مِن ای وُلدِکَ؟ مِن وُلِدِ ابنی ه ذا وَ ضَرَب بِیدِه ِ عَلَی الحُسَینِ "

اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن سے زیادہ باقی نہ بچے تب خداوند عالم یقیناً ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو میرا ہمنام ہوگا اور اس کا خلق میرا خلق ہوگا۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ ہوگی، لوگ رکن و مقام کے درمیان اس کی بیعت کریں گے، خداوند عالم اس کے ذریعے دین کو اس کی اصلی شکل و صورت کی طرف پلٹا دے گا، وہ پے در پے فتحیاب ہوگا اور "لا الہ الّا اللہ" کہنے والے کے سوا روئے زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا، اسی اثناء میں سلمان نے اُٹھ کر سوال کیا: یا رسول اللہؐ! وہ آپ کے کس بیٹے کی اولاد میں سے ہوں گے؟ امام حسین  کے کاندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا: وہ میرے اس بیٹے کی اولاد سے ہوں گے۔

نکتہ مہم

روایت نمبر ۳۵ سے ثابت ہوتا کہ "حضرت مہدی موعود" اولاد علی علیہ السلام سے ہوں گے اور روایت نمبر ۳۶ سے ظاہر ہوتا ہے کہ "حضرت مہدی (عج)" اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہوں گے جبکہ اسی مذکورہ روایت نمبر ۳۷ سے واضح ہورہا ہے کہ "حضرت مہدی (عج)" امام حسین  کی اولاد میں سے ہوں گے پس اہل سنت کی کتب سے حاصل کردہ ان روایات کی روشنی میں بعض اہل سنت کا یہ عقیدہ باطل ہوجاتا ہے جس کے تحت وہ "حضرت مہدی موعود (عج)" کو بنی عباس یا بنی امیہ کی اولاد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

مہدی (عج) خوبصورت جوان ہے

۳۸ ۔ "قال رسول الله ﷺ: یقُومُ آخِرِ الزَّمانِ رَجُلٌ مِن عِترَتی شابٌ حَسَنُ الوَجه ، اَقنَى الاَنفِ، يَملَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً وَ يَمْلِكُ کَذا وَ کَذا سَبْعَ سِنِينَ "

عقد الدُّرر(۱۴) میں ابو سعید خدری سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: آخری زمانہ میں میری اولاد میں سے ایک ایسا جوان مرد قیام کرے گا جو نہایت خوبصورت ہوگا، جس کی ناک لمبی ہوگی وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور وہ سات سال اس اس طرح حکومت کرے گا۔

چاہے دنیا کے خاتمہ میں ایک ہی دن بچے، مہدی (عج) ضرور آئے گا

۳۹ ۔ نیز اسی کتاب عقد الدُّرر(۱۵) میں ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا:"لَوۡ لَمۡ یَبۡقَ مِنَ الدُّنۡیا اِلّا لَیۡلَةٌ لَمَلَکَ فیه ا رَجُلٌ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِی " اگر دنیا کے اختتام میں صرف ایک شب بھی باقی رہ جائے گی تب بھی یقیناً میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ضرور حکومت کرے گا۔

نیز اس روایت کو حافظ ابو نعیم اصفہانی نے صفت المہدی میں نقل کیا ہے۔

حضرت مہدی (عج) کے لئے آسمان سے نزول برکات

۴۰ ۔ نیز اسی کتاب عقد الدرر(۱۶) میں ابو سعید خدری سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا: "يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي وَ يَعْمَلُ بِسُنَّتِي وَ يُنَزِّلُ اللَّهُ لَهُ الْبَرَكَةَ مِنَ السَّمَاءِ وَ تُخْرِجُ الْأَرْضُ بَرَكَتَهَا وَ تُمْلَأُ بِهِ الْأَرْضُ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً " میرے اہل بیت میں سے ایک شخص خروج کرے گا جو میری سنت پر عمل پیرا ہوگا، خداوند عالم اس کے لئے آسمان سے برکتیں نازل کرے گا نیز زمین اس کے لئے اپنی برکتیں پیش کر دے گی اور وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

نکتہ: نیز ابو نعیم اصفہانی نے "صفت المہدی" میں نقل کی ہے۔

نتائج:

کتب اہل سنت میں حضرت مہدی (عج) کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل شدہ روایات کی روشنی میں یہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے، وہ قیام و خروج کریں گے، وہ پیغمبر اکرمؐ کے ہمنام و ہم کنیت ہوں گے، وہ اس وقت قیام کریں گے جبکہ زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اور وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے کہ روئے زمین پر صرف کلمہ "لا اِلہ الّا اللہ" کہنے والے ہوں گے، حضرت مہدیؑ کی آمد اس قدر حتمی و قطعی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ مختلف انداز اور تعبیرات سے ان کی یقینی آمد کی خبر دے رہے ہیں:

کبھی فرمایا: اگر دنیا کے اختتام میں ایک دن بھی بچ جائے گا تو خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کردے گا یہاں تک کہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) آجائیں۔

کبھی فرمایا: قیامت برپا ہونے سے قبل ضرور آئیں گے۔

کبھی فرمایا: جب تک مہدی نہیں آئیں گے زمانہ ختم نہ ہوگا۔

کبھی فرمایا: اگر دنیا کے اختتام میں ایک رات بھی بچ جائے گی تب بھی مہدی ضرور آئیں گے۔۔۔؛

کتب اہل سنت میں حضور اکرم ؐ کی بیان کردہ بشارتوں میں نقل ہوا ہے کہ شمائل مہدی اس اس طرح ہیں، مہدی میرے اہل بیت و عترت سے ہوں گے، وہ اولاد علی علیہ السلام و فاطمہ سے ہوں گے وہ ذریت حسین  سے ہوں گے، وہ خُلق و خُو میں مجھ جیسے ہوں گے، وہ قیام سے قبل غائب ہوں گے، زمانہ غیبت میں ان کی امامت پر ثابت قدم رہنے والے یاقوت سرخ سے زیادہ قیمتی ہوں گے۔

وہ میری سنت کے لئے جنگ کریں گے جس طرح میں نے وحی کے لئے جنگ کی ہے۔ مہدی معصوم ہوں گے، وائے ہو ان سے بغض و عناد رکھنے والوں پر، نزولِ عیسیٰ  اور مہدی کا انکار کرنے والے کافر ہیں، مہدی کا منکر گویا آنحضرت ؐ پر تمام چیزوں کے نازل ہونے کا انکار کرنے والا ہے، حضرت مہدی، پیغمبر گرامی قدر کو عطاہونے والی ان سات خصال و خصوصیات میں سے ہیں جو اولین و آخرین میں کسی کوعطا نہیں کی گئیں۔ قتل علی علیہ السلام کے بعد دین فاسد ہوجائے گا یہاں تک کہ مہدی (عج) آجائیں۔

مہدی ہم میں سے ہیں اور دین ہم پر ختم ہوگا اور خالص اسلامِ محمدیؐ حضرت مہدی کے ذریعے ظاہر ہوگا اور مہدی (عج) ہی کے ذریعے بیت المال کی مساوی و عادلانہ تقسیم ہوگی ۔۔۔

مظلومیت علی علیہ السلام اور روایات مہدی (عج) شیعہ مذہب کی حقانیت

گذشتہ صفحات پر بحث مقدمات میں ہم شیعہ مذہب کی حقانیت کے سلسلہ میں اہل سنت کی بیان کردہ دس ایسی روایات پیش کرچکے ہیں جن میں سے سات روایات میں "لفظ" بعدی کے ذریعے پیغمبر اکرم ؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی تصریح کی گئی جبکہ دسویں روایت کے بارے میں کہا ہے: "تِلکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ" اور پھر حضرت علی علیہ السلام و ابوبکر و عمر کے بارے میں چند مطالب پیش کئے تھے۔

نیز حضرت مہدی (عج) کے بارے میں پیغمبر گرامی قدر کی بیان کردہ بشارتوں میں آپ ملاحاظہ فرما رہے ہیں کہ:

پہلی، اٹھائیسویں، تیسویں، اور پینتیسویں روایات میں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی وضاحت کی گئی ہے۔

چالیس بشارات نبوی میں سے پہلی روایت میں نبی کریمﷺنے فرمایا:

"اَنۡتَ اِمامُ وَ وَلیُّ کُلِّ مُؤۡمِنٍ وَ مُؤمِنَه ٍ بَعۡدی "

اے علی! تم میرے بعد ہر مؤمن اور مؤمنہ کے امام و سرپرست ہو!

اٹھائیسویں روایت میں نبی کریمؐ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاسے فرمایا: "وَ وَصِیُّنَا خَیرُ الاَوصِیَاءِ وَ ه ُوَ بَعلُکِ " ہمارا وصی تمام اوصیاء میں سب سے افضل ہے اور وہ تمہارا شوہر ہے۔

پیغمبر اکرمﷺنے تیسویں روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

"یا عَلی اَنتَ وَصیّی حَربُکَ حَربی وَ سِلمُکَ سِلمی وَ اَنتَ الاِمامُ اَبُو الۡاَئِمَّةِ الاِحدی عَشَرَ الَّذینَ ه ُمُ المُطَه َّرونَ المَعصُومُونَ وَ مِنه ُ المَه دی (عج)"

اے علی! تم میرے وصی ہو، تمہارے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے، تمہاری صلح میری صلح ہے، تم امام ہو اور گیارہ ائمہ کے والد ہو جو سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں اور مہدی انہی میں سے ہوں گے۔

جبکہ حضور سرورکائنات نے پینتیسویں روایت میں فرمایا:"اِنّ عَلیاً اِمامُ اُمَّتی مِن بَعدی " بیشک میرے بعد علی علیہ السلام میری امت کے امام و رہبر ہیں۔

اب آپ خود ہی ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر فیصلہ کیجئے کہ اگر حضورؐ سرورکائنات حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بلا فصل کا اعلان کرنا چاہتے تو کیا ان روایات کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی گنجائش باقی ہے؟!

وَ اللہ! شیعہ و سنی کتب میں ایسی کثیر التعداد روایات موجود ہیں جن میں نبی کریمﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ آپؐ کے بعد علی علیہ السلام آپؐ کے جانشین اور امت کے امام و سرپرست ہیں جبکہ آپ فریقین کی کتب میں ایک بھی متفق علیہ ایسی روایت نہ دیکھ سکیں گے کہ جس میں حضورؐ نے فرمایا ہو کہ میرے بعد حضرت ابوبکر، عمر یا عثمان خلیفہ ہوں گے۔

واللہ! اگر تعصب کی عینک اتار کر اہل سنت کی روایات کی طرف رجوع کیا جائے تو یقیناً وہ شیعہ اثنا عشری کی حقانیت کا کلمہ پڑھ لے گا کیونکہ اہل سنت کی نقل کردہ روایات میں سے تیسویں روایت میں نبی کریم ؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

"اے علیؑ تم میرے وصی، تم سے جنگ مجھ سے جنگ ہے اور تم سے صلح مجھ سے صلح ہے اور تم امام اور گیارہ پاک و پاکیزہ و معصوم ائمہ کے والد ہو"۔

پس اس فرمان رسالتؐ کے باوجود بعض اہل سنت معاویہ کا کیونکر احترام کرتے ہیں اور انہیں "خَالُ المؤمنین (۱۷) " کے نام سے یاد کرتے ہیں؟! حالانکہ انہوں نے علی علیہ السلام سے جنگ کی تھی، کیا پیغمبر اسلامﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے نہیں فرمایا: اے علیؑ! تم سے جنگ مجھ سے جنگ ہے۔ تفصیلات کے لئے مؤلف ہذا کی کتاب "اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام " کی طرف رجوع فرمائیں۔

پس کیونکر حضرت عائشہ کو صاحب حق مانتے ہیں حالانکہ وہ خلیفہ رسول اللہؐ سے برسر پیکار ہوئیں، کیا اہل سنت حضرت علی کو خلیفہ چہارم و خلیفۂ پیغمبر اسلام تسلیم نہیں کرتے؟! روایت نمبر ۳۰ کی روشنی میں حضرت عائشہ کی حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیا پیغمبر اسلامؐ سے جنگ نہیں ہے؟

اس سلسلہ میں مؤلف کی کتاب" اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‘ کی طرف رجوع فرمائیں۔

جعلی روایتِ "عدم اجتماع نبوت و سلطنت" کے جوابات

عوام الناس کے اذہان کو منتشر کرنے کے لئے غصب خلافت علی علیہ السلام اور سقیفہ کے واقعہ کے سلسلہ میں بعض افراد نے رسول اکرمﷺسے مجعولاً (منفرداً) ایک روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:

نبوت و سلطنت (خلافت) ایک خاندان میں یکجا نہیں ہوسکتیں؛ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ بنی ہاشم میں سے ہیں لہذا ان کا جانشین و خلیفہ غیر بنی ہاشم سے ہونا چاہیے پس حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرمﷺ کے جانشین نہیں بن سکتے!

جوابات:

۱ ۔ حضور نے فرمایا: تم تک جو میری احادیث پہنچتی ہیں انہیں کتاب خدا سے ملا کر دیکھو اگر قران کے موافق ہو تو صحیح ہے ورنہ وہ میری حدیث نہیں ہے۔

اب جبکہ ہم حضرت عمر سے نقل شدہ اس روایت کو قران کریم سے پرکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ روایت قران کریم کی آیات کی واضح طور پر مخالفت کر رہی ہے۔ پس یہ پیغمبر اکرمؐ کی حدیث نہیں ہوسکتی لہذا باطل ہے۔ خداوند عالم سورۂ نساء کی آیت ۵۴ میں ارشاد فرمایا ہے:

( فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا ) اور ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور عظیم حکومت عطا کی۔

اس آیت کریمہ سے جس بات کا اظہار ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے لفظ "فَقَد" کے ذریعے تصریح فرمائی ہے کہ اس نے آلِ ابراہیم کو عظیم حکومت و سلطنت عنایت کی ہے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسانوں پر حکومت کا اصلی و حقیقی حقدار خداوند عالم کی ذات بابرکت ہے اور یہی صاحبِ حقیقی و اصلی، اپنی کتاب میں تصریح فرما رہا ہے کہ ہم نے آلِ ابراہیم کو عظیم حکومت عطا کی ہے؛ پس اگر نبوت و حکومت (خلافت) ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتی تھی تو خود صاحب حقیقی حکومت نے یہ کام کیوں انجام دیا ہے؟ نیز کیا رسول خداﷺ آل ابراہیم میں سے نہیں ہیں؟

پس اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتےہیں کہ خداوند عالم نے یقیناً سلطنت و حکومت ایک خاندان و خانوادہ میں قرار دی ہے لہذا اہل سنت کی منقولہ روایت کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں؛ کذبِ محض ہے۔

۲ ۔ یقیناً سب جانتے ہیں کہ حضرت سلیمان نبی، حضرت داؤد  کے فرزند ہیں اور دونوں کو خداوند عالم نے نبی بنایا ہے لیکن اس کے باوجود خدائے کریم نے قران پاک میں تصریح فرمائی ہے کہ اس نے دونوں کو "سلطنت و حکومت" عطا کی ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ) (۱۸) اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں حکومت و حکمت عطا کی اور جو انہوں نے چاہا انہیں اس کی تعلیم بھی دی۔

نیز ارشاد فرماتا ہے:

( قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ) (۱۹)

سلیمان نے عرض کیا: پروردگار! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو عطا نہیں کی جائے، بیشک تو بڑا بخشنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نبی کو ایسی حکومت عطا فرمائی جو کسی کو عطا نہیں کی جیسا کہ بعد والی آیات میں آیا ہے:

ہوا اور شیاطین پر جناب سلیمان کو تسلط عطا کیا گیا، چیونٹی اور ہدہد کی زبان سمجھتے تھے۔ پس نبوت و سلطنت دونوں حضرت سلیمان کو عطا کی گئیں تھیں اور یہ بات اہل سنت کی منقولہ روایات کے ابطال کے لئے بہترین دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت و نبوت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں۔

نکتہ:

جوابِ اول و دوم میں باہمی فرق یہ ہے کہ جوابِ اول میں ہماری تمام تر توجہ اس بات کی طرف تھی کہ یہ روایت اہل سنت، قران کریم کی آیات کے برخلاف ہے جو روایت کے بطلان پر بہترین و مستحکم دلیل ہے، جبکہ جواب دوم میں ہماری توجہ پروردگار عالم کی جانب سے حضرت سلیمان کو عطا کی جانے والی وسیع سلطنت و حکومت کی طرف ہے کہ جس میں جن و انس، شیاطین یہاں تک کہ حیوانات وغیرہ بھی شامل تھے؛ پس اگر حکومت و نبوت کا ایک خاندان میں جمع ہونا ممنوع تھا تو خداوند عالم نے حضرت داؤد و سلیمان کو نبوت اور وسیع حکومت کیوں عطا فرمائی تھی؟!

بعبارت دیگر: جواب اول میں ہم نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اہل سنت کی مجعولہ روایت سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۴ کی صریحاً مخالفت کی وجہ سے محض کذب و جھوٹ ہے جبکہ جواب دوم میں قصص انبیاء کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بعض نبیوں کو وسیع سلطنت عطا فرمائی ہے اور یہ تاریخ بشر میں واقع شدہ واقعہ ہے؛ لہذا یہ روایت اہل سنت، قصص انبیاء کی مخالفت کی بنا پر بھی باطل ہوجاتی ہے۔

۳ ۔ بلاشک حضرت موسیٰ  اولو العزم پیغمبر ہیں اور ان کے بھائی ہارون بھی نبی خدا ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ  جانتے ہیں کہ ان کا جانشین بھی خدا ہی معین کرے گا اسی لئے لفظ "اِجعل" کے ذریعے اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ میرے بھائی ہارون کو میرا جانشین و خلیفہ بنا دے اور خدا نے بھی ان کی درخواست کو قبول کیا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ نے سورہ طہ کی آیت نمبر ۳۰ میں اسی انداز سے درخواست کی ہے۔ اسی طرح حدیث منزلت (کہ جس میں نبی کریمﷺنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ  سے ہے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام بھی اس جانشینی سے بہرہ مند ہیں البتہ حضرت ہارون نبی تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام نبی کے بعد امت کے امام و سرپرست ہیں۔

در واقع ہمارا یہ جواب ایک قیاس مرکب ہے جس کے پہلے مرحلہ میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہارون اپنے بھائی حضرت موسیٰ  کی جانشینی سے بہرہ مند ہیں۔ جیسا کہ سورہ طہ کی ۲۹ اور ۳۰ ویں آیت میں ہے:( وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي ) پرور دگارا! میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا جانشین بنادے۔

جبکہ دوسرے مرحلہ میں حدیث منزلت کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلامﷺکی خلافت و جانشینی سے بہرہ مند ہیں جس طرح ہارون حضرت موسیٰ  کی خلافت و جانشینی سے بہرہ مند تھے پس خلافت و نبوت ایک خاندان میں جمع ہوگئی نیز نتیجتاً روایت اہل سنت باطل قرار پائے گی۔

۴ ۔ حضرت عمر بن خطاب نے اپنی نقل کردہ روایت (کہ نبوت و سلطنت ایک خانوادہ میں جمع نہیں ہوسکتی) کو خود اپنے ہی عمل کے ذریعے باطل کردیا کیونکہ اپنے انتقال کے وقت انہوں نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ افراد کے نام تجویز کردیئے جن میں حضرت علی علیہ السلام کا نام بھی رکھا گیا تھا۔

پس اگر بقولِ حضرت عمر نبوت و خلافت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتی تھی تو پھر انہوں نے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ کیوں تجویز کی تھی(۲۰) اور اس میں حضرت علی علیہ السلام کا نام کیوں رکھا گیا تھا؟! نیز جب (جعلی روایت کی بنا پر) نبوت، بلافصل خلافت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی تو ان کے اس عمل تجویز شوریٰ کے ذریعے خلافت مع الفصل کیسے جمع ہوگئی؟هیهات (۲۱)

۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل پر دلالت کرنے والی تمام آیات کریمہ اس روایت کے جھوٹے ہونے پر دلالت کر رہی ہیں مثلاً: آیہ اطاعت، آیہ اکمال ۔۔۔

تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: کتاب شبہائے پیشاور تالیف سلطان الواعظین شیرازی اور کتاب اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام ۔

۶ ۔ جن روایات میں نبی کریمؐ نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی تصریح فرمائی ہے وہ تواتر اور کثرت سے نقل ہوئی ہیں مثلاً: حدیث منزلت، حدیث یوم الانذار، حدیث غدیر خم، حدیث اثنا عشریہ و ۔۔۔

یہ تمام روایات فرداً فرداً اس امر کی وضاحت کر رہی ہیں کہ نبوت و سلطنت (خلافت) بنی ہاشم ہی میں قرار دی گئی ہیں۔ لہذا اہل سنت کی مجعولہ روایت باطل ہے؛ جس کی بناء پر دعوی کیا گیا ہے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں۔

۷ ۔ اہل سنت کے اس عقیدے کے مطابق کہ تمام صحابہ عادل ہیں اس کی روشنی میں کیونکہ اصحاب نے یکجا ہوکر حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ چہارم کی حیثیت سے منتخب کیا تھا لہذا ان کا انتخاب روایت کی تکذیب کرتا ہے اور روایت کے جعلی ہونے کی دلیل ہے پس اگر تعصب کی عینک اتار کر عدل و انصاف کی نگاہ سے تاریخ و روایات کا مطالہ کیاجائے تو حقائق آشکار ہوجائیں گے۔

۸ ۔ اگر نبوت و سلطنت (خلافت) ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں تو آپ حضرات اہل سنت حضرت علی علیہ السلام کو اپنا چوتھا خلیفہ کیوں تسلیم کرتے ہیں؟ لہذا حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ چہارم تسلیم کرنے والا روایت مجعولہ (کہ نبوت و خلافت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں) کی مخالفت کر رہا ہے۔

بعبارت دیگر: آپ اہل سنت یا اس مجعولہ روایت کی وجہ سے اپنے ایمان سے دستبردار ہوجائیے اور کہیے کہ حضرت علی علیہ السلام خلیفۂ چہارم نہیں ہیں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم ہیں اور آپ کے عقیدے کے مطابق نبوت و خلافت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں؛

یا، حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر اپنے ایمان کی روشنی میں کہئے کہ نبوت و خلافت ایک خاندان میں جمع ہوسکتی ہیں۔قال الله تعالیٰ فی کتابه الکریم :( فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ) (۲۲) پس اے میرے حبیبؐ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو مختلف باتیں سنتے ہیں لیکن ان میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں۔

اب آپ خود سورہ زمر کی آیت نمبر ۱۶ اور ۱۷ کی روشنی میں فیصلہ کر لیجئے کہ ہمارے ہشتگانہ جوابات کے بعد بھی اس روایت مجعولہ کو قبول کرنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟!

اب آپ خود فیصلہ کریں اور اسی کے مطابق اجر و ثواب حاصل کریں وَ اللہ یہدی مَن یشاء۔

____________________

۱ ۔ینابیع المودۃ، شیخ سلیمان بلخی حنفی، باب ۷۳، ص ۴۳۲۔

۲ ۔الاستیعاب فی اسماءِ الاصحاب، ج۱، ص ۲۲۳۔

۳ ۔منتخب کنز العمال، ج۶، ص ۳۰۔

۴ ۔نور الابصار، باب۲، ص ۱۵۵۔

۵ ۔ینابیع المودہ، باب ۱۶، ص ۸۵، طبع ہشتم ، دار الکتب العراقیہ ، سال ۱۳۸۵ ھ ق۔

۶ ۔ینابیع المودۃ، باب ۷۳، ص ۴۳۳، طبع ہشتم، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ ھ ق۔

۷ ۔منتخب کنز العمال، ج۶، ص ۳۲۔

۸ ۔غایۃ المامول، ج۵، ص ۳۶۴۔

۹ ۔شیخ سلیمان قندوزی بلخی حنفی، ینابیع المودہ، باب ۹۴، ص ۴۹۴، طبع ہشتم، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ ھ ق۔

۱۰ ۔کمال الدین، طبع دار الحدیث، سال ۱۳۸۰ ھ ش، ج۱، روایت ۷ از روایات رسول خدا۔

۱۱ ۔ نکتہ سوم میں حضور اکرمؐ کی جانب سے استعمال شدہ لفظ " من بعدی" کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ نکتہ اول میں روایت کے متفق علیہ ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

۱۲ ۔ منتخب کنز العمال، ج۶، ص ۳۲۔

۱۳ ۔یوسف بن یحیی مقدسی شافعی، عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص ۵۶، مطبع مسجد مقدس جمکران، سال ۱۴۲۵ ھ۔

۱۴ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص ۵۶، یوسف بن یحیی مقدسی شافعی، از علمائے ساتویں صدی ہجری۔

۱۵ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص ۳۹، مطبع مسجد مقدس جمکران ، سال ۱۴۲۵ ھ۔

۱۶ ۔عقد الدُّرر فی اخبار المنتظر، ص ۲۰۸۔

۱۷ ۔یعنی مؤمنین کا ماموں۔

۱۸ ۔سورہ بقرہ (۲)، آیت ۲۵۱۔

۱۹ ۔سورہ ص (۳۸) آیت ۳۵۔

۲۰ ۔تفصیل کے لئے مؤلف کی کتاب کی طرف رجوع کریں: اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‘، ص ۳۲۳۔

۲۱ ۔ شبہائے پیشاور، سلطان الواعظین شیرازی، ص ۵۰۳، طبع ۳۱، دار الکتب اسلامیہ۔

۲۲ ۔ سورہ زمر (۳۹) آیت ۱۷ و ۱۶۔