دوسری فصل
ظہور و قیام حضرت مہدی (عج) کے بارے میں ائمہ اطہار علیھم السلام کی بشارتیں
۱۔ فصل اول میں ہم نے اہل سنت کی معتبر کتب سے چالیس ایسی روایات نقل کی ہیں جنہیں اہل سنت کے بزرگ علماء اور راویوں نے پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے جن کے سائے میں بہت سے حقائق روشن ہوئے ہیں۔
۲ ۔ جیسا کہ گذشتہ فصل میں ہم نے روایات اہل سنت کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ حضرت مہدی موعود، اہل بیت پیغمبر اسلام سے ہوں گے جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا اور امام حسین کی ذریت سے ہوں گے اور چونکہ (وَ اَه ۡلُ البَیۡتِ اَدریٰ بما فِی البَیۡتِ
)؛ "گھر والے سب سے بہتر جانتے ہیں" اس کی بنیاد پر اہل بیت بہتر جانتے ہیں کہ مہدی موعود کون ہیں؟ لہذا حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں اہل بیت سے نقل شدہ روایات نقل کر رہے ہیں۔
۳ ۔ ساتویں صدی ہر ی کے بزرگ عالم اہل سنت یوسف بن یحیی مقدسی شافعی کی کتاب عقد الدّرر سے ہم نے کافی روایات نقل کی ہیں اور مزید روایات آئندہ نقل کریں گے۔ اہل سنت کے علمی حلقہ میں یہ کتاب اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ کثیر التعداد علماء نے اس کتاب کی روایات کو اپنی اپنی کتب میں زینت دی ہے۔ مثلاًٍ: جلال الدین سیوطی نے کتاب "العرف الوردی فی اخبار المہدی" میں؛ ابن حجر ہیثمی نے کتاب "القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر" میں؛ متقی ہندی نے کتاب "البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان" میں اور علی بن سلطان محمد ہروی حنفی نے کتاب "المشرب الوردی فی مذہب المہدی" میں اور دیگر علماء نے بھی نقل کی ہیں۔
۴ ۔ اہل سنت نے اہل بیت علیھم السلام سے حضرت مہدی (عج) کے بارے میں جن روایات کو نقل کیا ہے ان کی دو قسمیں ہیں:
قسم اول: ایسی روایات جن میں اہل بیت راوی ہیں؛ یعنی اہل بیت نے رسول خدا ﷺ سے نقل کی ہیں۔
قسم دوم: ایسی روایات ہیں جن میں اہل بیت "مروی عنہ" ہیں یعنی ایسی روایات جن میں اقوال اہل بیت کو نقل کیا گیا ہے۔
نکتہ: یہ روایات اہل سنت کی معتبر کتب میں نقل ہوئی ہیں جن کے طُرُق اور راوی بھی اہل سنت حضرات ہی ہیں؛ اور ہم آئندہ صفحات پر ان سے اہم موارد میں استناد کریں گے۔
۵ ۔ ہم یہاں بطور نمونہ صرف "چالیس روایات" سے استناد کر رہے ہیں اگرچہ اہل سنت کے یہاں حضرت مہدی (عج) کے بارے میں کثیر روایات موجود ہیں۔
صاحب پرچم و حکومت محمدیؐ ضرور ظاہر ہوگا
۱ ۔ "فَقالَ بَحرُ الرّاسخِینَ وَ حَبۡرُ العارِفینَ اَلاِمامُ الغالِبُ علی بن ابیطالب کَرَّمَ الله ُ وَجه ه ُ: یظه َرُ صاحِبُ الرّایةِ المُحَمَّدیةِ وَ الدَّولَةِ الاَحمَدیه اَلقائِمُ بِالسَّیفِ وَ الحالُ الصّادِقُ فِی المَقالِ یُمَه ِّدُ الاَرضَ وَ یُحۡیِی السُّنَّةَ وَ الفَرضَ
"
شیخ سلیمان بلخی قندوزی
نے روایت نقل کی ہے کہ بحر الراسخین، خیر العارفین امام غالب علی بن ابی طالب نے فرمایا: صاحب پرچم و حکومت احمدی ضرور ظاہر ہونے والا ہے، اس کا قیام تلوار کے ہمراہ ہوگا، وہ اپنی بات میں سچا ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف کے لئے آمادہ کردے گا اور وہ سنت (مستحبات) و فرض (واجبات) کو زندہ کرے گا۔
اگر مہدی (عج) کو درک کرلوں تو پوری زندگی ان کی خدمت میں گزار دوں
۲ ۔ "وَ عَن اَبیعَبدِ الله ِ الحُسَینِ عَلی علیه ما السلام اَنَّه ُ سُئِلَ : ه َلۡ وُلِدَ الۡمَه دِیُّ
؟ قالَ لا، وَ لَو اَدۡرَکتُه ُ لَخَدَمتُه ُ اَیَّامَ حَیاتی
"
حضرت ابی عبد اللہ الحسین بن علی بن ابی طالب‘ سے روایت کی گئی ہے کہ آنجناب سے سوال کیا گیا: کیا (حضرت) مہدی (عج) کی ولادت ہوچکی ہے؟ آپؑ نے فرمایا: نہیں؛ اور اگر میں ان کا زمانہ درک کرلوں تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت میں گزار دوں ۔
مہدی موعود (عج) کا سایہ نہیں ہے، منادیِ آسمان ندا دے گا حجت خدا کا ظہور ہوگیا ہے
۳ "وَ فیه ِ (اَی فی ه ذا الکتاب فرائد السمطین) عَنَ الحَسَنِ بن خالد، قالَ قالَ عَلیُّ بن مُوسَی الرِّضا اَلوۡقۡتُ الۡمَعلُومُ ه ُوَ یَوۡمُ خُروجِ قائِمِنا، فَقیلَ لَه ُ مَنِ القائِمِ مِنۡکُم، قالَ :
الرَّابِعُ مِنْ وُلْدِي ابْنُ سَيِّدَةِ الْإِمَاءِ يُطَهِّرُ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ مِنْ كُلِّ جَوْرٍ وَ يُقَدِّسُهَا مِنْ كُلِّ ظُلْمٍ وَ هُوَ الَّذِي يَشُكُّ النَّاسُ فِي وِلَادَتِهِ وَ هُوَ صَاحِبُ الْغَيْبَةِ قَبْلَ خُرُوجِهِ فَإِذَا خَرَجَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِه وَ وَضَعَ مِيزَانَ الْعَدْلِ بَيْنَ النَّاسِ فَلَا يَظلُمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ هُوَ الَّذِي تُطْوَى لَهُ الْأَرْضُ وَ لَا يَكُونُ لَهُ ظِلٌّ وَ هُوَ الَّذِي يُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ بِاسْمِهِ يَسْمَعُهُ جَمِيعُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلَا إِنَّ حُجَّةَ اللَّهِ قَدْ ظَهَرَ عِنْدَ بَيْتِ اللَّهِ فَاتَّبِعُوهُ فَإِنَّ الْحَقَّ فِيه ِ وَ مَعَهُ "
شیخ سلیمان بلخی
نے حموینی کی معروف کتاب فرائد السمطین سے روایت نقل کی ہے کہ حسین بن خالد سے روایت ہے کہ حضرت علی بن موسی الرضا‘نے فرمایا:
وقت معلوم سے مراد وہ دن ہے جب ہمارا قائم خروج کرے گا، سوال کیا گیا کہ آپ کا قائم کون ہے؟
فرمایا: میری چوتھی نسل میں آنے والا بیٹا جو نرجس خاتون کا بیٹا ہوگا، خداوند عالم اس کے ذریعے تمام زمین کو ظلم و ستم سے پاک کر دے گا، لوگ اس کی ولادت میں شک کرنے لگیں گے، وہ خروج سے قبل غائب ہوجائے گا، پھر جب خروج کرے گا تو اپنے نور سے زمین کو منور کر دے گا اور اس طرح میزان عدل کو لوگوں کے درمیان قائم کردے گا کہ پھر کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے گا۔ زمین کے فاصلے اس کے لئے سمٹ جائیں گے، اس کا سایہ نہ ہوگا (جس طرح پیغمبر اسلامﷺ کا سایہ نہیں تھا)، مہدیؑ موعود وہ ہے جس کے لئے آسمان سے منادی ندا دے گا کہ اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ کہ خانہ کعبہ سے حجت خدا کا ظہور ہوچکا ہے پس سب اس کی اطاعت و پیروی کرو کیونکہ حق اس کے ساتھ ہے۔
مہدی موعود (عج) اہل بیت سے ہیں، خدا شب میں ان کی راہ ہموار کردے گا
۴ ۔ متقی ہندی
نے احمد اور ابن ماجہ سے، جلال الدین سیوطی
نے صحیحاًٍ احمد اور ابن ماجہ سے، شیخ سلیمان قندوزی
اور ابن حجر مکی
نے احمد وغیرہ سے، طبرانی
و متقی ہندی
نے احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن ماجہ سے اور نعیم بن حماد
نے مولائے متقیان امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب‘ سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "اَلۡمه ۡدِی مِنۡ اَه ۡلِ البَیۡتِ یُصۡلِحُه ُ الله فی لَیلَةٍ
" مہدی (عج) اہل بیت علیھم السلام میں سے ہیں، خدا شب میں ان کا راستہ ہموار کردے گا۔
نکات:
۱ ۔ ایسی ہی ایک روایت حضرت علی علیہ السلام کے توسط سے پیغمبر اسلام سے نقل کی گئی ہے جسے ہم نے پیغمبر اکرمؐ کی بشارت (گذشتہ فصل میں روایت نمبر ۱۱) میں نقل کی ہے۔
۲ ۔ حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان "امر مہدی شب میں استوار کردیا جائے گا" سے کیا مراد ہے؟
جیسا کہ احادیث نبوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد یہ ہو کہ "ظہور مہدی (عج) کا وقت معلوم نہیں ہے"
یہ بھی ممکن ہے کہ شب سے مراد یہ ظلم و ستم ہو یعنی جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی تو مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے۔
جوان سال ہونے کی وجہ سے مہدی کا انکار کریں گے
۵ ۔ کتاب ینابیع المودہ
میں کتاب عقد الدّرر کے حوالے سے امام حسن سے روایت نقل کی ہے:"لَو قامَ اَلمَه دی لَاَنکَرَه ُ النّاسُ لِاَنَّه ُ یرجِعُ اِلَیه ِم شابَّاً وَ ه ُم یحسِبونَه ُ شَیخاً کَبیراً
" جب مہدی (عج) قیام کریں گے تو (کچھ) لوگ ان کے جوان سال ہونے کی وجہ سے ان کا انکار کردیں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ مہدی (عج) ضعیف العمر ہوں گے۔
مہدی موعود (عج) آخری امام اور نجات دہندہ ہوں گے
۶ ۔ "قالَ علی علیه السلام فی آخِرِه ا: فَنَحْنُ أَنْوَارُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ سُفُنُ النَّجَاةِ وَ فِينَا مَكْنُونُ الْعِلْمِ وَ إِلَيْنَا مَصِيرُ الْأُمُورِ وَ بِمَهْدِينا تَقطعُ الْحُجَج فَهُوَ خَاتَمُ الْأَئِمَّةِ وَ مُنْقِذُ الْأُمَّةِ وَ مُنْتَهَى النُّورِ وَ غَامِضُ السِّرِّ فليهنَّ مَنِ اسْتَمْسَكَ بِعُرْوَتِنَا وَ حُشِرَ عَلَى مَحَبَّتِنَا
"
کتاب تذکرۃ الخواص
میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے مدح نبی و ائمہ علیھم السلام میں ایک خطبہ میں فرمایا: پس ہم آسمان و زمین کے نور ہیں، ہم ہی کشتی نجات ہیں، علم ہمارے سینوں میں چھپا ہوا ہے، ہماری ہی طرف امور کی بازگشت ہے، ہمارا ہی مہدی (عج) برہان قاطع ہے، وہی آخری اما م و نجات دہندۂ امت ہے۔ وہی انتہائے نور اور امر مخفی ہے پس ہماری ریسمان محبت کو تھامنے والا اور محبت کے گرد جمع ہونے والا نجات پائے گا۔
مہدی (عج) موعود صاحب الزمان ہیں
۷ ۔ "وَ مِنه ا، عَن اِبنِ الخِشاب قالَ حَدَّثَنا صَدَقَةُ بۡنُ موسی، قالَ حَدَّثَنا اَبی عَن عَلی بن مُوسی الرِضا بن مُوسی الکاظِمُ علیه ما السلام : قال اَلخَلَفُ الصّالِحُ مِن وَلَدِ الحَسَنِ بن عَلی اَلۡعَسۡکَری، ه ُوَ صَاحِبُ الزَمانِ وَ ه ُوَ اَلمَه دی (عج)
"
شیخ سلیمان قندوزی
نے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں حافظ ابو نعیم کی چہل روایت سے روایت نقل کی ہے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جانشین صالح، فرزند حسن بن علی عسکری علیہم السلام ہی صاحب الزمان ہیں اور وہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود ہیں۔
نام مہدی (عج) (م، ح، م، د) ہے کنیت ابو القاسم اور والدہ کا نام نرجس ہے
۸ ۔ نیز اسی کتاب میں روایت کی ہے:
"وَ مِنه ا عَن اِبْنُ الْخَشَّابِ قالَ حَدَّثَنا أَبُو الْقَاسِمِ طَاهِرُ بْنُ هَارُونَ بْنِ مُوسَى الکاظِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ، قَالَ سَيِّدِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، اَلْخَلَفُ الصَّالِحُ مِنْ وُلْدِي وَ هُوَ الْمَهْدِيُّ اِسْمُهُ مُحَمَّدُ وَ كُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يُقَالُ لِأُمِّهِ نَرْجِسُ وَ عَلَى رَأْسِهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ مِنَ الشَّمْسِ تَدُورُ مَعَهُ حَيْثُ مَا دَارَ تُنَادِي بِصَوْتٍ فَصِيحٍ هَذَا الْمَهْدِيُّ سَلامُ الله ِ علَیه
"
ابو القاسم طاہر بن ہارون بن موسیٰ کاظم نے اپنے والد کے وسیلہ سے اپنے جد بزرگوار سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میرے سید و سردار حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا: میری اولاد میں سے جانشین صالح، مہدی ہوں گے، ان کا نام" م، ح، م، د" ہے اور کنیت ابوالقاسم ہے، وہ آخر الزمان میں ظہور کریں گے، ان کی والدہ کا نام نرجس ہوگا، ان کے سر پر بادل سایہ فگن ہوگا جو انہیں تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھے گا، اور یہ بادل ہر جگہ ان کے ہمراہ ہوگا اور فصیح آواز میں ندا دیتا ہوگا کہ یہ مہدی (عج) ہیں ان کی اطاعت و پیروی کرو، خدا کا ان پر سلام ہو۔
اصحاب مہدی (عج) معرفت خداوند رکھتے ہیں "حَقَّ مَعرِفَتِہِ"
۹ ۔ "مِنه ا عَن ابن الاعثم الکوفی فی کِتابه "الفتوح" عَن عَلیِّ کَرمَ الله ُ وَجه َه ُ قالَ
وَيْحاً لِلطَّالَقَانِ فَإِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى كُنُوزاً لَيْسَتْ مِنْ ذَهَبٍ وَ لَا فِضَّةٍ وَ لَكِنْ بِهَا رِجَالٌ مَعۡروُفُونَ عَرَفُوا اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَ هُمْ اَیضاً أَنْصَارُ الْمَهْدِي سَلامُ الله َ عَلَیه ِ فِي آخِرِ الزَّمَا ن
"
نیز روایت کی ہے: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: طالقان کے شہریوں پر رحمت ہو! کیونکہ یہ اللہ کے لئے سونے چاندی جیسا خزانہ نہیں بلکہ یہ لوگ خداوند عالم کی برحق معرفت رکھتے ہیں؛ یہی لوگ حضرت مہدی آخر الزمان (عج) کے یاور و انصار ہیں۔
نکتہ: اس روایت کو عقد الدرر
نے بھی نقل کیا ہے۔
امام حسین
نے نویں فرزند "قائم آلؑ محمدؐ" ہیں
۱۰ ۔ "وَ فی کِتابِ المَناقِبِ (لموفق بن احمد الخوارزمی اخطب خطباء خوارزم) حَدَّثنا مُحَّمَدُ بن عَلی، حَدَّثَنی عَمّی مُحَّمَدُ بن اَبی الۡقاسِمِ عَن اَحَمد بن اَبی عَبدِ الله البَرقی عَن مُحَمَّد بن عَلی القُرَشی عَن ابنِ سَنان عَنِ المُفَضَّلِ بن عُمَرَ، عَن اَبی حَمۡزَةِ الثُمالی عَن مُحَمَّدٍ الباقِرِ عَن اَبیه ِ عَلی ابنِ الحُسَینِ عَن اَبیه ِ الحُسَینِ بن عَلی سَلامُ الله ِ عَلَیه ِم قالَ: دَخَلتُ عَلی جَدّی رَسولِ الله ِﷺ فَاَجلَسَنی عَلی فَخِذِه وَ قالَ لی اِنَّ الله َ اِختارَ مِن صُلبِکَ یا حُسَینُ اَئِمَةً تاسِعُه ُمۡ قائِمُه ُم وَ کُلُّه ُمۡ فی الفَضلِ وَ المنۡزِلَةِ عِندَ الله ِ سَواء
"
ینابیع المودۃ
نے مناقب خوارزمی سے روایت نقل کی ہے کہ امام محمد باقر نے اپنے والد امام زین العابدین سے اور انہوں نے اپنے والد امام حسین سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: میں اپنے جدّ بزرگوار رسول خداؐ کے حضور حاضر ہوا انہوں نے مجھے اپنی آغوش میں بٹھایا اور فرمایا: بیشک اے حسین ! اللہ نے تیری ذریت میں سے نو ائمہ کا انتخاب کیا ہے جن میں سے نویں قائم آل محمد ہیں اور یہ سب اللہ کی بارگاہ میں قدر و منزلت میں برابر ہیں۔
بعد از پیغمبرؐ بارہ امام ہوں گے جن میں اول علی علیہ السلام اور آخری قائم ہوں گے
۱۱ ۔"وَ فی المَناقِبِ حَدَّثَنا اَحمَدُ بۡنُ مُحَمد بنِ یَحۡیَی العَطّارِ اَبی عَن مُحَمَد بۡنِ عَبدِ الجَبّارِ عَن اَبی اَحمَد مُحَمَّد بۡنِ زیادِ اَلاَزدی عَن اَبان بن عُثمانِ عَن ثابِت بن دینار عَن زینِ العابِدینِ عَلی بن الحُسَینِ عَن اَبیه ِ سَیدِ الشُه َداء الحُسَینِ عَن اَبیه ِ سَیدِ الاَوصیاء عَلی سَلامُ الله ِ عَلَیه ِم قالَ قالَ رَسُولﷺ: اَلاَئِمَةُ بَعدی اِثنا عَشَرَ اَوَّلُه ُم اَنتَ یا عَلیُّ وَ آخِرُه ُمۡ القائِمُ الَّذی یفتَحُ الله ُ عَزَّوَجَلَّ عَلی یدَیه ِ مَشاِرقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا
"
شیخ سلیمان
نے مناقب خوارزمی سے روایت کی ہے کہ امام زین العابدین نے اپنے پدر بزرگوار سید الشہداء سے، انہوں نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے اور انہوں نے رسول اکرمﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میرے بعد بارہ ائمہ ہوں گے جن میں سے پہلے اے علی علیہ السلام تم ہو اور آخری قائم (عج) ہوں گے کہ اللہ جن کے ہاتھ پر مشرق و مغرب کی فتح عنایت کرے گا۔
مہدی موعود (عج) خَلق و خُلق میں سب سے زیادہ پیغمبرؐ سے مشابہ ہوں گے
۱۲ ۔"وَ فی الۡمَناقِبِ حَدَّثَنا عَبدُ الۡواحِدِ بۡنِ عَبدُوسِ العَطارِ النِیشابوری قالَ حَدَّثَنا حَمدانُ بن سُلِیمانِ النیشابُوری عَن مُحَمَّدِ بن اِسماعیلِ بن بَزیع عَن صالِح بن عَقَبَه عَن اَبی جَعفَرَ مُحَمَّدٍ الۡباقِرِ عَن اَبیه ِ عَن جَدِّه عَن اَمیرِ الۡمؤۡمِنینَ عَلی سَلامُ الله ِ عَلَیه ِم قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: الْمَهْدِيُّ مِنْ وُلْدِي، اسْمُهُ اسْمِي وَ كُنْيَتُهُ كُنْيَتِي وَ ه ُوَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِي خَلْقاً وَ خُلْقاً تَكُونُ لَهُ غَيْبَةٌ وَ حَيْرَةٌ تَضِلُّ فِي الْاُمَم حَتّی تَضلَّ الخَلقُ عَن اَدیانِه ِم فَعِندَ ذلِک يُقْبِلُ كَالشِّهَابِ الثَّاقِبِ یَأتی بِذَخیرَةِ الاَنبیاءِ عَلَیه مِ السلام فَيَمْلَأُ الۡاَرضَ قِسْطاً و َ عَدلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلماً
"
شیخ سلیمان حنفی
نے مناقب خوارزمی سے روایت کی ہے کہ امام باقر نے اپنے والد امام زین العابدین سے اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: مہدی (عج) میری اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہوگی، وہ خَلق و خُلق (یعنی خلقت و اخلاق ) میں بالکل مجھ جیسے ہوں گے، وہ غائب ہوجائیں گے، لوگ ان کے دین کے بارے میں شک و شبہات میں پڑ جائیں گے، اسی اثناء میں وہ شہاب ثاقب کی طرح انبیاء کے ذخیروں کے ہمراہ ظاہر ہوجائیں گے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
مہدی موعود (عج) کے لئے دو غیبتیں واقع ہوں گی
۱۳ ۔"وَ عَن اَبی عَبدِ الله ِ الحُسَینِ بن عَلی‘ اَنَّه ُ قالَ: لِصاحِبِ ه ذَ ا الاَمر – یعنی المَه دی
- غَیبَتانِ اِحداه ُما تَطُولُ حَتی یَقُولَ بَعضُه ُم ماتَ وَ بَعضُه ُم قُتِلَ وَ بَعضُه ُم ذَه َبَ وَلا یطَّلِعُ عَلی مُوضِعِه ِ اَحَدٌ مِن وَلِیٍّ وَلا غَیرِه ِ اِلَّا الۡمَولی الَّذی یَلی اَمرَه ُ
"
یوسف بن یحیی
نے امام حسین سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اس صاحب الامر یعنی مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے لیے دو غیبت واقع ہوں گی، ایک صغریٰ جس کی مدت کم ہوگی، دوسری غیبت کبریٰ جس کی مدت طولانی ہوگی، ان میں سے ایک اتنی طولانی ہوگی کہ بعض کہیں گے وہ مر گئے، بعض کہیں گے وہ قتل کر دیئے گئے، بعض کہیں گے وہ چلے گئے، سوائے ان کے حقیقی پیرو کاروں کے اپنے پرائے میں سے کوئی بھی ان کی جائے قرار سے واقف نہ ہوگا۔
منادیِ آسمان ندا دے گا "حق آل محمد" میں ہے
۱۴ ۔ معجم، مناقب المہدی، الفتن
اور عقد الدّرر
نے امیر المؤمنین سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "وَ عَن اَمیرِ المُؤمِنینَ عَلی بن اَبیطالِب‘ :قالَ : اِذا نادی مُنادٍ مِنَ السَماءِ : اِنَّ الحَقِّ فی آلِ مُحَمَدٍﷺ فَعِندَ ذلِکَ یَظۡه َرُ المَه دی
"
جب منادیِ آسمان سے ندا دے گا، "حق آل محمدؐ میں ہے" تو اس وقت مہدی (عج) موعود کا ظہور ہوجائے گا۔
مشرق و مغرب والے نام مہدی (عج) آسمان سے سنیں گے
۱۵ ۔ یوسف بن یحیی
نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "وَ عَن ابی جَعۡفَر مُحَمَّد بن عَلی علیه ما السلام قالَ: یُنادی مُنادٍ مِنَ السَّماءِ بِاِسۡمِ المَه دی فَیُسمِعُ مَن بِالمَشرِقِ وَ مَن بِالمَغرِبِ حَتّی لا یَبۡقی راقِدٌ اِلّا استَیقَظَ
"
منادی آسمان سے اس طرح نام مہدی (عج) پکارے گا کہ تمام مشرق و مغرب کے رہنے والے اس آواز کو سنیں گے اور کوئی سوتا ہوا اور خواب غفلت میں نہ رہے گا۔
پرچم، لباس اور شمشیر رسول اللہؐ مہدی (عج) کے ہمراہ
۱۶ ۔ "وَ عں جابِر عَن اَبی جَعۡفَرِ محمَّدِ بن عَلی علیه ما السلام قالَ : یَظۡه َرُ الۡمَه ۡدی بِمَکَّة عِندَا لۡعِشاءِ وَ مَعَه َ رایَةُ رَسولِ الله ِﷺ، وَ قَمیصُه ُ وَسیفُه وَ عَلاماتٌ وَ نُورٌ وَ بَیانٌ فَاِذا صَلَّی الۡعِشاءَ نادی بِاَعۡلی صَوۡتِه یَقُولُ: اُذَکِّرُکُمُ الله َ اَیُّه َا النّاسُ وَ مُقامَکُم بَیۡنَ یَدَیۡ رَبِّکُمۡ َقَدِ اتَّخذَ الحُجَّة وَ بَعَثَ الاَنۡبیاءَ وَ انزَلَ الکِتَابَ وَ اَمَرَکُمۡ اَنۡ لا تُشۡرِکُوا بِه شَیۡئًا وَ اَنۡ تُحافِظُوا عَلی طاعَتِه ِ وَ طاعَةِ رَسولِه ِ، وَ اَن تُحیوا ما اَحۡیَی الۡقُرآن، وَ تُمیتُوا ما اَماتَ وَ تَکونُوا اَعۡواناً عَلَی اله ُدی وَوَزَراً عَلَی التَقۡوی، فَاِنَّ الدُّنۡیا قَدۡ دَنا فَناوُه ا وَ زَوالُه ا، وَ اَذِنَتۡ بالوِداعِ وَ اِنّی اَدۡعُوکُم اِلَی الله ِ وَ رَسُولِه وَ العَمَلِ بِکِتابِه وَ اِماتَةِ الباطِلِ وَ اِحیاءِ سُنَّتِه
"
نعیم بن حماد اور یوسف بن یحیی
نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: مہدی (عج) مکہ میں بوقت عشاء ظہور فرمائیں گے، پرچم، لباس اور شمشیر رسول اللہﷺ ان کے ہمراہ ہوں گے، وہ علامات کے ساتھ آئیں گے، نور ان کے ہمراہ ہوگا، وہ واضح بیان کے ساتھ ہوں گے، پس نماز عشاء برپا کریں گے اور پھر بلند آواز سے ندا دیں گے اور فرمائیں گے: اے لوگو! خدا اور اس وقت کو یاد کرو جبکہ تم اس کے حضور کھڑے ہوتے ہو۔ پس بتحقیق حجت الٰہی آچکی ہے، انبیاء مبعوث ہوچکے ہیں، کتاب نازل ہوچکی ہے، خدا نے تمہیں حکم دیا ہے کہ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دو، خدا و رسولؐ کی فرماں برداری کرو، جن چیزوں کو قران نے زندہ کیا ہے انہیں زندہ رکھو اور جن چیزوں کو نابود کیا ہے انہیں ترک کردو، دوسروں کی ہدایت میں مدد کرو اور تقویٰ و پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مساعدت کرو۔ بتحقیق فناء و زوالِ دنیا قریب ہے اور حتماً یہاں سے کوچ کرنا ہے، یاد رکھو! میں تمہیں خدا و رسولؐ کی اطاعت، کتاب الٰہی پر عمل، باطل کی نابودی اور احانئے سنت الٰہی کی دعوت دیتا ہوں۔
حضرت مہدی (عج) اپنی پہچان کے لئے نشانیاں دکھائیں گے
۱۷ ۔ یوسف بن یحیی
نے امیرالمؤمنین سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "وَ عَن اَمیرِ المُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن اَبیطالِبٍ‘ قالَ : یُؤۡمِی الۡمَه ۡدی
اِلَی الطَّیۡرِ فَیَسۡقُطُ عَلی یَدِه وَ یغۡرُسُ قَضِیۡباً فی بُقعَةٍ مِنَ الاَرضِ فَیَخۡضَرُّ وَ یُورِقُ
"
مہدی ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ ان کے ہاتھ پر آجائے گا اور ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی کو زمین میں دبا دیں گے تو وہ فورا ہری بھری ہوجائے گی اور اس کے اوپر پتے نمودار ہوجائیں گے۔
نکتہ: یوسف بن یحیی
نے یہ روایت مفصل بھی نقل کی ہے کہ جب سید حسنی اپنی سپاہ کے ہمراہ حضرت مہدی کا سامنا کریں گے تو ان سے عرض کریں گے: "ه َل لَکَ مِن آیةٍ فَنُبایِعُکَ
؟" آپ کے مہدی (عج) ہونے کا کیا ثبوت ہے کہ ہم آپ کی بیعت کریں؟
حضرت مہدی (عج) ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ ان کے ہاتھ پر آجائے گا، خشک لکڑی کو زمین میں دبا دیں گے تو ہری بھری ہوجائے گی اور اس پر پتے نمودار ہوجائیں گے۔
حضرت مہدی (عج ) کا زمانہ
۱۸ ۔ "وَ عَن اَمیرِالمُؤۡمِنینَ عَلی بن اَبیطالِب‘ فی قِصَّةِ المَه دی قالَ: فَیبعَثُ المَه دی
الی اُمَرائِه ِ بسائِرِ الاَمصارِ بِالعَدلِ بَینَ الناسِ وَ تَرعی الشّاةُ وَ الذِئبُ فی مَکانٍ واحِدٍ وَ تَلعَب الصِبیانُ بِالۡحَیاتِ وَ الۡعَقارِبِ، لا یَضُرُّه ُ، شَئٌ وَ یذه َبُ الشَّرُّ وَ یَبۡقی الخَیرُ وَ یَزۡرَعُ الاِنسانُ مُدّاً یخرُجُ لَه ُ سَبعَ مِاَة مُدّاً کَما قالَ الله ُ تَعالی:
کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنَبَتَت سَبعَ سَنابِلَ فی کُلِ سُنۡبُله ٍ مِأةُ حَبَّةٍ وَ الله ُ یُضاعِفُ لِمَنۡ یَشاءُ
وَ یَذۡه َبُ الرّبا وَ الزِّنا وَ شُرۡبُ الۡخَمرِ وَ الرّیاء وَ تُقبِلُ النّاسُ عَلَی العِبادَةِ وَ الۡمَشروُعِ وَ الدِّیانَةِ وَ الصّلاةِ فی الَجماعاتِ وَ تَطُوُل الاَعمارُ وَ تُؤَدّی الاَمانَةُ وَ تَحمِلُ الاَشجارُ وَ تَتَجاعَفُ البَرَکاتُ وَ تَه لِکُ الاَشرارُ وَ یَبۡقی الۡاَخۡیارُ وَلا یَبۡقی مَن یُبۡغِضُ اهل البَیتِ علی
ھ
م السلام
"
نیز سید المسلمین، یعسوب الدین، قائد غرّ المُحجلین، امام المتقین، امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب‘ سے روایت
کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: مہدی (عج) عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے تمام شہروں میں اپنے نمائندے بھیجیں گے، بھیڑ اور بھیڑیا ایک چراگاہ سے فیضیاب ہوں گے، بچے سانپ بچھوؤں سے کھیلا کریں گے اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے گا۔ شر فرار کرے گا اور خیر پا برجا ہوگا، انسان ایک مُد کے برابر بوئے گا اور سات سو گنا کاٹے گا جیسا کہ خداوند کریم نے قران میں فرمایا ہے: جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے۔
حضرت مہدی (عج) کے زمانہ میں سود خوری، زنا، شراب خوری اور ریاکاری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لوگ عبادات، اعمال شرعیہ اور نماز با جماعت کی طرف متوجہ ہوجائیں گے، عمریں طولانی ہوجائیں گی، لوگ امانتیں ادا کریں گے، درخت پُر بار ہوجائیں گے، برکتوں میں اضافہ ہوگا، اشرار ہلاک ہوجائیں گے، نیک لوگ زندہ رہیں گے اور دشمنان اہل بیت علیھم السلام میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔
مہدی موعود (عج)، قائم آل محمدؐ اور ذریت احمدؐ مختار ہیں
۱۹ ۔ "وَ عَن سالِم الاَشَل قالَ : سَمِعۡتُ اَبا جَعفَر مُحَمَّدُ بنَ عَلی یقولَ نَظَرَ مُوسی فی السِفرِ الاَوَلِ اِلی ما یعطِی قائِم آلِ مُحَمَّد فَقالَ موسَی :رَبِّ اجعَلنی قائِمَ آل مُحَمَّد، فَقیلَ له ُ : اِنَّ ذلِکَ مِن ذُریةِ اَحمَد فَنَظَرَ فی السِّفرِ الثّانی، فَوَجَدَ فیه ِ مِثلَ ذلِکَ فَقیلَ لَه ُ مِثلُ ذلِکَ ثُمَّ نَظَرَ فی السِّفۡرِ الثالثِ فَرَاَی مِثلَه ُ فَقالَ مثلَه ُ، فَقیلَ لَه ُ مِثۡلُه ُ
"
عقد الدرر
نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے:
حضرت موسیٰ نے توریت
کے سِفر اول میں قائم آل محمدؐ پر پروردگار کی عنایات کا مشاہد ہ کیا تو اللہ سے قائم آل محمد ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا، جواب ملا: بتحقیق قائم آل محمدؐ ، ذریت احمد مختار سے ہیں۔
پھر حضرت موسیٰ نے سِفر دوم کا مشاہدہ کیا تو اس میں بھی انہوں نے قائم آل محمدؐ پر ہونے والے الطاف و عنایات کو دیکھا، دوبارہ اشتیاق ظاہر کیا، جواب ملا: قائم آل محمدؐ، احمدؐ کی ذریت سے ہوں گے۔
پھر سِفر سوم پر نظر ڈالی تو اسے بھی سِفر اول و دوم کی طرح پایا، انہوں نے پھر اپنا اشتیاق ظاہر کیا اور انہیں پھر یہی جواب ملا: قائم آل محمدؐ، ذریت احمد سے ہوں گے۔
مہدی موعود (عج) بدعتوں کے نابود اور سنتوں کو قائم کریں گے
۲۰ ۔ یوسف بن یحیی
نے امیرالمؤمنین سے روایت کی ہے :"وَ عَنۡ اَمیرِ المُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن ابیطالبٍ‘، فی قِصَّة الۡمَه ۡدیِّ، قالَ: وَلا یَتۡرُکُ بِدعَةً اِلّا اَزالَه ا، وَلا سُنَّةً اِلّا اَقامَه ا، وَ یَفتَحُ قُسۡطُنۡطینیَّةَ وَ جِبالَ الدِّیۡلَم، فَیمکُثُ عَلی ذلِکَ سَبۡعَ سنِینَ مِقدارُ کُلِّ سَنَةٍ عَشرُ سِنینَ مِن سنِینِکُمۡ ه ِذه ِ، ثُمَّ یَفۡعَلُ الله ُ ما یَشاءُ
"
کوئی بدعت ایسی نہ رہے گی جسے مہدی نابود نہ کردیں اور کوئی سنت ایسی نہ بچے گی جسے وہ قائم نہ کردیں، وہ قسطنطنیہ، چین اور دیلم کے پہاڑوں کو فتح کرلیں گے، اس طرح وہ سات سال رہیں گے جس کا ہر سال تمہارے دس سال کے برابر ہوگا پھر اللہ جو چاہے گا انجام دے گا۔
علی علیہ السلام "واجب امر خدا" کے حق میں کوتاہی
۲۱ ۔ شیخ سلیمان بلخی
نے آیت کریمہ :(
اَنۡ تَقوُلَ نَفۡسٌ یا حَسۡرَتی عَلی ما فَرَّطۡتُ جَنۡبِ الله ِ
)
پھر تم سے کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس کہ میں نے خدا کے واجب حق میں بڑی کوتاہی کی ہے۔ کے ذیل میں امام کاظم سے روایت نقل کی ہے:
" وَ فی الۡمَناقِبِ عَنۡ عَلی بۡنِ سوید عَنۡ مُوسی الۡکاظِمِ فی ه ذه الآیةِ قالَ جَنۡبُ الله ِ اَمیرُ المؤۡمِنینَ عَلیُّ وَکَذلِکَ ما بَعۡدَه ُ مِنَ الۡاَوۡصیاءِ بِالۡمَکانِ الرَّفیعِ اِلی اَن یَنۡتَه یَ الۡاَمۡرُ اِلی آخِرِه ُمُ الۡمَه ۡدی سَلامُ الله ِ عَلَیۡه ِمۡ"
"جنب اللہ" یعنی واجب امر خدا، امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں (کہ جن کے حق میں کوتاہی کی گئی ہے اور ان کے حق امامت و ولایت کو فروگذاشت کیا گیا ہے) اور اسی طرح ان کے بعد ان کے اوصیاء بھی ہیں جو مقامِ رفیع پر فائز ہیں یہاں تک کہ ان میں آخری فرد حضرت مہدی (عج) ہیں۔
سیرت مہدی (عج) بوقت خروج
۲۲ ۔ یوسف بن یحیی
نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے:
"وَ عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بن عَطاء، قالَ سَأَلۡتُ اَبا جَعفَرِ مُحَمَّدَ بن عَلَیِّ الۡباقِرَ علیه ما السلام، فَقُلۡتُ : اِذا خَرَجَ الۡمَه ۡدیُّ بِاَیِّ سیرةٍ یَسیرُ؟ ؛ قالَ: یَه ۡدِمُ ما قَبۡلَه ُ، کَما صَنَعَ رَسولُ الله ِﷺ وَ یَسۡتَأنِفُ الاِسۡلامَ جَدیداً
"
عبد اللہ بن عطاء نے امام محمد باقر سے سوال کیا: بوقت خروج حضرت مہدی کی سیرت کیا ہوگی؟
فرمایا: سیرت مہدی (عج)، سیرت رسول خداﷺ ہی ہے کہ اس سے قبل جو بدعتیں ہوں گی وہ انہیں نابود کردیں گے اور اسلام کونئی زندگی (سنت رسولؐ کے مطابق) عطا کریں گے۔
بیت المقدس میں ورود مہدی (عج) اور نزول حضرت عیسیٰ
۲۳ ۔ عقدر الدرر فی اخبار المنتظر
نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے:
"وَ عَنۡ اَمیرِ المُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن ابیطالبٍ‘، فی قِصَّة االدَّجال، قالَ : اَلا و اِنَّ اَکۡثَرَ اَتۡباعِه ِ اَوۡلادُ الزِّنا، لا بِسُوا التّیجان، و ه ُمُ الۡیَه وُدُ عَلَیۡه ِم لَعۡنَةُ الله ِ وَ یَدۡخُلُ الۡمَه ۡدِیُّ
بَیتَ الۡمَقۡدِسِ وَ یُصَلَّی بِالنّاسِ اِماماً، فَاِذا کانَ یَومَ الۡجُمۡعَةِ؛ وَ قَدۡ اُقیمَتِ الۡصَلوةِ، نَزَلَ عیسی بن مَریَم
فَیَلۡتَفِتَ الۡمَه ۡدیُّ فَیَنۡظُرُ عٰیسی
، فَیقوُلُ لِعیسی: یَابۡنَ الۡبَتول، صَلِّ بالنّاسِ فَیَقُولُ : لَکَ اُقیمَتِ الصَّلوةُ، فَیَتَقَدَّمُ الۡمَه ۡدیُّ
، فَیُصَلّی باِلنّاسِ وَ یُصَلّی عیسی
خَلۡفَه ُ وَیُبایِعُه ُ
"
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے قصہ دجّال کے سلسلہ میں فرمایا: آگاہ رہو کہ دجال کے اکثر چاہنے والے ولد الزنا ہوں گے، ان کے لباس ابریشمی ہوں گے اور وہ یہودی ہوں گے، خدا ان پر لعنت کرے ۔۔۔ وہ بیت المقدس میں وارد ہوں گے اور نماز جماعت کی امامت کا فریضہ انجام دیں گے، پس جمعہ کے دن جس وقت نماز کا وقت ہوگا حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہوں گے، حضرت مہدی(عج) ان کی طرف متوجہ ہوں گے اور انہیں دیکھیں گے پھر فرمائیں گے: اے ابن بتول! لوگوں کو نماز پڑھائیے، عیسیٰ جواب میں فرمائیں گے: نماز با جماعت تو آپ کے لئے برپا کی گئی ہے، پس مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) امامت کے لئے آگے بڑھیں گے اور لوگوں کو نماز پڑھائیں گے اور عیسیٰ ان کے پیچھے نماز بھی پڑھیں گے اور ان کی بیعت بھی کریں گے۔
مہدی موعود (عج) از فرزندان امام حسنؑ مجتبیٰ
۲۴ ۔ "وَ عَنۡ اَبی اِسحاق، قالَ، قالَ علی علیه السلام ، وَ نَظَر اِلی اِبۡنِه ِ الۡحَسَنِ فَقالَ :اِنّ ابۡنِی ه ذا سَیِّدٌ، کَما سَمّاه ُ رَسولُ الله ِﷺ، وَ سَیَخۡرُجُ مِنۡ صُلۡبِه رَجُلٌ یُسَمّی بِاِسمِ نَبیِّکُمۡ، یُشۡبِه ُه ُ فِی الۡخُلۡقِ وَلا یُشۡبِه ُه ُ فی الۡخَلۡقِ، یَمۡلَاُ الۡاَرضَ عَدلاً
"
ابو داؤد
و ابوبکر بیہقی اور عقد الدرر
،
نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے: حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن کو اپنی آغوش میں بٹھایا ہوا تھا کہ آپؑ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا "سید" و "سردار" ہے جیسا رسول اکرمﷺ نے اسے سید و سردار قرار دیا ہے
۔ میرے اس بیٹے حسن کے صلب سے ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام، نبیؐ کے نام پر ہوگا وہ ان سے خُلق میں سب سے زیادہ مشابہ ہوگا لیکن خلقت میں نہیں، وہ زمین کو عدل سے پُر کردیں گے۔
نکتہ: امام محمد باقر اولین وہ امام ہیں جن کی والدہ ماجدہ امام حسن کی دختر نیک اختر ہیں
لہذا یہ امام، حسنی بھی ہیں اور حسینی بھی ہیں نیز ان کے بعد تمام ائمہ حسنی بھی ہیں اور حسینی بھی پس بنابر یں حضرت مہدی (عج) امام حسن کے بھی فرزند قرار پائیں گے اسی لئے امیر المؤمنین علی نے فرمایا: مہدی خلقت میں حسن سے مشابہ نہیں بلکہ اخلاق میں حسن کی شبیہ ہیں۔
دین حضرت مہدی (عج ) پر اختتام پذیر ہوگا جس طرح ہم سے شروع ہوا
۲۵ ۔ "وَ عَنۡ اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن ابیطالِبٍ‘، قالَ : قُلۡتُ یا رَسُولَ الله ِ، اَمِنَّا الۡمَه ۡدیُّ اَوۡمِنۡ غَیۡرِنا؟ فَقالَ رَسولُ الله ِ ﷺ ، "بَلۡ مِنَّا، یَخۡتِمُ الله ِ بِه ِ الدّینَ، کَما فَتَحَه ُ بِنا"
۔۔۔"
یوسف بن یحیی
نے امیرالمؤمنین سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: مہدی (عج) ہم میں سے ہیں یا غیروں میں سے؟ فرمایا: ہم میں سے ہیں، خدا مہدی پر دین کو ختم کرے گا جس طرح ہم سے شروع کیا تھا ۔۔۔
نکتہ: یوسف بن یحیی یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: بعض حافظان (اہل سنت) نے اس روایت کو نقل کیا ہے مثلاً: ابو القاسم طبرانی، ابو نعیم اصفہانی، عبد الرحمن بن ابی حاتم و ابو عبد اللہ نعیم بن حماد۔
مہدی (عج) موعود بیت المقدس ہجرت کریں گے اور تین ہزار فرشتے ان کی مدد کریں گے
۲۶ ۔ یوسف بن یحیی
نے امیر المؤمنین سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
"وَ عَنۡ اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن ابیطالِبٍ‘ قالَ:اَلۡمَه ۡدیُّ مَوۡلِدُه ُ بِالمَدینَةِ، مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِ النّبیﷺ، وَ اسۡمُه ُ اسمُ نَبیِّ، وَ مَه اجَرُه ُ بَیۡتُ المَقۡدِسِ، کَثُّ اللِّحۡیَةِ، اَکۡحَلُ الۡعَیۡنَیۡنِ( ۴۱)، بَرّاقُ الثَّنایا فی وَجۡه ِه ِ خالٌ، اَقۡنی، اَجۡلی، فی کَتفِه ِ عَلامَةُ النَّبی، یَخۡرُجُ بِرایَةِ النَّبیﷺ، منۡ مِرۡطٍ مُخمَلَةٍ، سَوۡداءَ مُرَبَّعَةٍ فیه ا حِجرٌ، لَم تُنشَر مُنۡذُ تُوُفِیَ رَسولُ الله ﷺ وَلا تُنشَرُ حَتّی یَخۡرُجَ الۡمَه ۡدیُّ، یُمِدُّه ُ الله ُ بِثَلاثَةِ آلافِ مِنَ الۡمَلائِکَةِ، یَضۡرِبُونَ وُجُوه َ مَنۡ خالَفَه ُ وَ اَدۡبارَه ُم یُبۡعَثُ وَ ه ُوَ ما بَیۡنَ الثّلاثینَ اِلی الۡاَرۡبَعینَ
"
مہدی کی ولادت اس شہر میں ہوگی، وہ اہل بیت پیغمبر اسلام سے ہوں گے، ان کا نام نبی کے نام پر ہوگا وہ بیت المقدس کی طرف ہجرت کریں گے، ریش مبارک بڑی ہوگی، آنکھوں میں قدرتی طور پر سرمہ لگا ہوگا، دانت چمکدار اور سفید ہوں گے، رخسار پر تِل ہوگا، ناک لمبی ہوگی، پیشانی کشادہ ہوگی، شانہ پر رسول اللہﷺ کی نشانی ہوگی، بوقت خروج پرچم رسول ؐ ان کے ہمراہ ہوگا جو پشم و مخمل کا ہوگا، اس کا رنگ سیاہ ہوگا اور مربع شکل کا ہوگا۔ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد سے کھلا نہیں ہے اور نہ ہی کھلے گا جب تک کہ مہدی (عج) ظہور نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں سے ان کی مدد کرے گا، یہ فرشتے مخالفین حضرت مہدی (عج) کے چہروں اور پشت پر تازیانے ماریں گے، جب ظہور کریں گے تو تیس اور چالیس سال کی عمر کے مابین معلوم ہوں گے۔
نکتہ: یہ روایت ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی کتاب "الفتن" میں صفحہ ۱۰۱ پر "فی صفۃ المہدی" کے زیر عنوان نقل کی ہے۔
خروج مہدی (عج) کے وقت اہل آسمان خوشحال ہوں گے
۲۷ ۔" وَ عَنۡ اَبی وائِل، قالَ : نَظَرَ عَلیٌّ اِلَی الۡحَسَنِ‘، فَقالَ : اِنَّ اِبۡنی ه ذا سَیِّدٌ، کَما سَمّاه ُ رَسُولُ الله ِﷺ ، سَیَخۡرُجُ مِنۡ صَلۡبِه ِ رَجُلٌ بِاِسۡمِ نَبیِّکُمۡ، یَخۡرُجُ عَلی حین غَفۡلَةٍ مِنَ النّاس، وَ اِماتَةِ الۡحَقِّ وَ اِظۡه ارِ الۡجَوۡرِ وَ یَفۡرَحُ بِخُروجِه اَه ۡلُ السَّماءِ وَ سُکّانُه ا وَ ه ُوَ رَجُلٌ اَجۡلَی الۡجَبینِ، اَقۡنَی الۡاَنفِ، ضَخۡمُ الۡبَطۡنِ یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ ظُلۡماً وَ جَوراً"
یوسف بن یحیی
نے ابو وائل سے روایت کی ہے کہ امیرالمؤمنین نے اپنے فرزند امام حسن کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میرا یہ بیٹا "سید و سردار " ہے جیسا کہ رسول اللہؐ نے اسے سید و سردار قرار دیا ہے
۔ عنقریب اس کے صلب سے ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام تمہارے نبیؐ کے نام پر ہوگا، وہ اس وقت خروج کرے گا جبکہ لوگ غفلت کے اندھیروں میں ہوں گے، حق قتل اور باطل ظاہر ہوچکا ہوگا، اہلیان و ساکنین آسمان ان کے خروج سے خوشحال ہوجائیں گے، ان کی پیشانی روشن، ناک لمبی اور سینہ کشادہ ہوگا ۔۔۔ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
مہدی (عج) خوبصورت اور نورانی ہوں گے
۲۸ ۔ "وَ عَنۡ ابی جَعفر مُحَمَّدِ بن عَلیٍّ الۡباقِرِ‘، قالَ : سُئِلَ اَمیرُ الۡمُؤۡمِنینَ علی علیه السلام ، عَن صِفَةِ الۡمَه ۡدیِّ فَقالَ: ه ُوَ شابٌّ، مَربُوعٌ، حَسَنُ الۡوَجۡه ِ، یَسیلُ شَعۡرُه ُ عَلی مِنۡکَبَیۡه ، یَعۡلُو نُورُ وَجۡه ِه ِ سَوادَ شَعرِه وَ لَحۡیَتِه وَ رَأسِه
"
عقد الدّرر
نے روایت نقل کی ہے: ابو جعفر امام محمد باقر نے فرمایا: امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے صفات مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) متوسط القامہ جوان ہیں، ان کا چہرہ خوبصورت ہے، ان کے بال کاندھوں پر پڑے ہوں گے، ان کے چہرہ کا نور ان کے بالوں کی سیاہی اور ریش مبارک پر غالب آرہا ہوگا۔
تمام لوگوں مہدی موعود (عج) کے محتاج ہیں
۲۹ ۔ "وَ عَنۡ الۡحارِثِ بۡنِ الۡمُغَیۡرَةِ النَّضۡری، قالَ : قُلۡتُ لِابَی عَبۡدِ الله ِ الۡحُسَیۡنِ ابۡنِ علی علیه السلام : بِاَیِّ شَئٍ یُعۡرَفُ الۡاِمامُ المَه ۡدیُّ (عج)، قالَ:بالسَّکینَةِ وَ الۡوَقارِ، قُلۡتُ: وَ بِاَیِّ شَئٍ؟ قالَ: بِمَعۡرِفَةِ الۡحَلالِ وَ الۡحَرامِ وَ بِحاجَةِ النّاسِ اِلیۡه ِ، وَلا یَحۡتاجُ اِلی اَحَدٍ
"
یوسف بن یحیی
نے حارث بن مغیرہ النضری سے روایت کی ہے کہ حارث نے ابی عبد اللہ الحسین سے عرض کیا: امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی پہچان کس طرح ہوگی؟ فرمایا: اطمینان و بردباری سے مزین ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: کوئی اور پہچان بھی بتا دیجئے؟ فرمایا: وہ حلال و حرام کا عرفان رکھتے ہوں گے، لوگ ان کے محتاج ہوں گے لیکن وہ لوگوں کے محتاج نہ ہوں گے۔
نکتہ:حارث بن مغیرہ کا امام حسین سے سوال بتا رہا ہے کہ وہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو "امام" تسلیم کرتے تھے اسی لئے انہوں نے یہ کہا: امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی پہچان کس طرح ہوگی؟
مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف ائمہ میں فاصلہ زمانی کے ساتھ آئیں گے
۳۰ " وَ عَن شُعَیبِ
اِبنِ اَبی حَمزةُ، قالَ: دَخَلتُ عَلی اَبی عَبدِ الله ِ الۡحُسیۡنِ ابۡنِ عَلیٍّ‘، فَقُلۡتُ لَه ُ: اَنۡتَ صاحِبُ ه ذَا الۡاَمۡرِ؟؛ قالَ : لا، فَقُلۡتُ: فَوَلَدُک؟ قالَ: لا، فَقُلۡتُ: فَوَلَدُ وَلَدِکَ؟ قَال : لا، فَقُلۡتُ فَمَنۡ ه ُو؟
قالَ: اَلَّذی یَمۡلَأُه ا عَدۡلاً، کَما مُلِئَتۡ جَوۡراٍ، عَلی فَتۡرَةٍ مِنَ الۡاَئِمَةِ تَأۡتِی، کَما اَنَّ رَسُولَ الله ِﷺ بُعِثَ عَلی فَتۡرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ" عقد الدّرر
ابن ابی حمزہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابی عبد اللہ الحسین کی خدمت اقدس میں پہنچا تو عرض کیا: کیا آپ ہی صاحب الامر (مہدیؑ) ہیں؟
حضرت نے فرمایا: نہیں، عرض کیا: کیا آپ کے فرزند ہیں؟ فرمایا: نہیں، پھر عرض کیا: کیا آپ کے فرزند کے فرزند ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: پس صاحب الامر (مہدیؑ) کون ہیں؟ فرمایا: وہ زمین کو اسی طرح عدل سے پر کردیں گے جس طرح سے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی۔ جس طرح رسول اکرمﷺ سلسلۂ نبوت میں فاصلۂ زمانی کے ساتھ آئے تھے اسی طرح مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف سلسلۂ امامت میں فاصلۂ زمانی کے ساتھ آئیں گے۔
حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے زمانے میں تمام خوبیاں ظاہر ہوجائیں گی
۳۱ ۔ یوسف بن یحیی
" وَ عَنۡ اَبی عَبۡدِ الله الۡحُسَیۡنِ بۡنِ علی علیه السلام ، قالَ : لا یَکُونُ الۡاَمۡرُ الَّذی یَنۡتَظِروُنَ یَعۡنی ظُه وُرَ الۡمَه ۡدیِّ
حَتّی یَتَبرّأَ بَعۡضُکُمۡ مِنۡ بَعۡضٍ، وَ یَشۡه َدَ بَعۡضُکُم عَلی بَعضٍ باِلۡکُفرِ، وَ یَلۡعَنَ بَعۡضُکُم بَعۡضاً، فَقُلۡتُ، ما فی ذلِکَ الزَّمانِ مِنۡ خَیۡرٍ؛ فَقالَ
: اَلۡخَیۡرُ کُلُّه ُ فی ذلِکَ الزَّمانِ، یَخۡرُجُ اَلۡمَه ۡدیُّ فَیَرۡفَعُ ذلِکَ کُلَّه ُ
"
وہ امر (یعنی ظہور مہدیؑ) جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں اس وقت ہوگا جبکہ بعض لوگ، بعض لوگوں سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہوں گے، بعض لوگ بعض لوگوں پر کفر کے فتوے لگائیں گے، بعض لوگ بعض لوگوں پر لعنت کر رہے ہوں گے، میں نے عرض کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دورمیں کسی قسم کی خیر و خوبی کا وجود نہ ہوگا؟
فرمایا: جب مہدی موعود خروج کریں گے تو تمام خوبیاں ظاہر ہوجائیں گی اور وہ تمام برائیوں کا خاتمہ کردیں گے۔
ظہور حضرت مہدی (عج) سے قبل لوگوں میں شدید اختلافات اور مصائب
۳۲ ۔ "وَ عَنۡ اَبی جَعۡفَر مُحَمَّدِ بۡنِ عَلیٍّ‘، قالَ : لا یَظۡه َرُ الۡمَه ۡدِیُّ اِلّا عَلی خَوۡفٍ شَدیدٍ مِنَ النّاسِ، وَ زِلۡزالٍ، وَ فِتۡنَةٍ، وَ بَلاءٍ یُصیبُ النّاسَ، وَ طاعُونٍ قَبۡلَ ذلِکَ، وَ سَیۡفٍ قاطِعٍ بَیۡنَ الۡعَرَبِ، وَ اخۡتِلافٍ شَدیدٍ فیِ النّاسِ، وَ تَشَتُّتٍ فی دینِه ِم، وَ تَغَیُّرٍ فی حالِه ِمۡ، حَتّی یَتَمَنَّی الۡمُتِمَنّی الۡمَوۡتَ صَباحاً وَ مَسائاً، مِنۡ عِظَمِ ما یَری مِنۡ کَلَبِ النّاسِ وَ اَکۡلِ بَعۡضِه ِمۡ بَعۡضاً، فَخُروُجُه ُ
اِذا خَرَجَ یَکُونُ عِنۡدَ الۡیَأۡسِ وَ القُنُوطِ مِنۡ اَنۡ نَری فَرجاً، فَیا طوبی لِمَنۡ اَدۡرَکَه ُ وَ کانَ مِنۡ اَنصارِه ، وَ الۡوَیۡلُ کُلُّ الۡوَیۡلِ لِمَنۡ خالَفَه ُ وَ خالَفَ اَمرَه ُ
"
یوسف بن یحیی
نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ظہور مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے قبل لوگ شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہوں گے، زلزلہ، مختلف فتنوں اور طرح طرح کے مصائب کا سامنا ہوگا۔ آمد مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے قبل لوگ طاعون سے دچار ہوں گے، عربوں میں جنگ و جدائی حاکم ہوگی اور لوگوں میں شدید اختلافات رونما ہوں گے، لوگ دین میں پراکندگی کا شکار ہوں گے، اور اسی طرح ان کے حالات متغیر ہوجائیں گے کہ لوگ صبح و شام موت کی آرزو کریں گے کیونکہ حالات کا مشاہدہ ان کے لئے گرانبار ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو درندوں کی طرح چیر پھاڑنے لگیں گے اور ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑیں گے اور جب لوگ فَرج و گشائش سے مایوس ہوجائیں گے تو اسی اثناء میں مہدی موعودؑ ظہور و خروج کریں گے پس مہدی کے زمانے کو پانے والےاور ان کی مدد کرنے والے خوش نصیب ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والوں پر حیف ہے۔
زمانہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) میں سرخ و سفید موت
۳۳ ۔"وَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَوْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ
: بَيْنَ يَدَيِ الْقَائِمِ مَوْتٌ أَحْمَرُ ، وَ مَوْتٌ أَبْيَضُ، وَ جَرَادٌ فِي حِينِهِ وَ جَرَادٌ فِي غَيْرِ حِينِهِ أَحْمَرُ كَأَلْوَانِ الدَّمِ، فَأَمَّا الْمَوْتُ الْأَحْمَرُ فَالسَّيْفُ، وَ أَمَّا الْمَوْتُ الْأَبْيَضُ فَالطَّاعُونُ "
عقد الدّرر
نے نقل کیا ہے کہ علی بن اودی نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: زمانہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) میں لوگوں کو سرخ و سفید موت کا سامنا ہوگا، ان کے زمانے میں ٹڈے نمودار ہوں گے نیز ان کے ظہور سے قبل لال ٹڈے بھی برامد ہوں گے۔ پھر فرمایا: سرخ موت سے مراد، تلوار سے موت ہے، اور سفید موت سے مراد، طاعون کے ذریعے موت ہے۔
ظہور مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے قبل سورج و چاند گہن
۳۴ ۔"وَ عَنۡ یَزیدَ بن الۡخَلیلِ الۡاَسَدی، قالَ: کُنۡتُ عِنۡدَ اَبی جَعۡفَر مُحَمَّدِ بن عَلیٍّ‘ فَذَکَرَ آیَتان یَکُونانِ قَبۡلَ الۡمَه ۡدیّ
، لَمۡ یَکوُنا مُنۡذُ اَه ۡبَطَ الله ُ تَعالی آدَمَ
، وَ ذلِکَ: اَنّ الشَمۡسَ تَنۡکَسِفُ فیِ النَّصۡفِ مِنۡ شَه ۡرِ رَمَضانِ وَ الۡقَمَرَ فی آخِرِه ، فَقالَ لَه ُ رَجُلٌ، یَا ابۡنَ رَسُولِ الله ِ! لا، بَلِ الشَّمۡسُ فی آخِرِ الشَّه ۡرِ وَ الۡقَمَرُ فی النَّصۡفِ؛ فَقالَ اَبُو جَعۡفَر -
- : اَعۡلَمُ الَّذی تَقولُ، اِنَّه ُما آیَتانِ لَمۡ یَکُونا مُنۡذُ ه َبَطَ آدَمُ
"
یوسف بن یحیی
نے یزید بن خلیل اسدی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں حضرت امام محمد باقر کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ آنجناب نے قبل از ظہور مہدی رونما ہونے والی علامات میں سے دو ایسی علامتوں کی نشاہدہی فرمائی جو زمین پر حضرت آدم کے آنے سے لیکر آج تک رونما نہیں ہوئی ہیں:
اول: نیمہ ماہ رمضان میں سورج گہن ہوگا
دوم: آخر ماہ رمضان میں چاند گہن ہوگا
ایک شخص کہنے لگا: اے فرزند رسول ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ سورج رمضان کے آخر میں اور چاند نصف رمضان میں ہوگا۔
حضرت نے فرمایا: جو تم کہہ رہے ہو اس کے بارے میں ہم بہتر جانتے ہیں؛ کیونکہ یہ دو علامتیں حضرت آدم کے زمین پر آنے سے لیکر آج تک رونما نہیں ہوئی ہیں۔
مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کا ظہور روز عاشورا ہوگا
۳۵ ۔ عقد الدّرر
نے ابو جعفر امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
"وَ عَنۡ اَبی جَعۡفَر
، قالَ: یَظۡه َرُ الۡمَه ۡدیُّ فی یَوۡمِ عاشُوراء، وَ ه ُو الۡیَوۡمُ الّذی قُتِلَ فیه ِ الۡحُسَیۡنُ بن علی علیه السلام ، وَ کَاَنّی بِه یَوۡمَ السَّبۡتِ الۡعاشَرِ مِنَ الۡمُحَرَّمِ، قائِمٌ بَیۡنَ الرُّکۡنِ وَ الۡمَقامِ، وَ جَبۡرَئیلُ عَنۡ یَمینِه وَ میکائیلُ عَن یَسارِه ، وَ تَصیرُ اِلیۡه ِ شیعَتُه ُ مِنۡ اَطۡرافِ الۡاَرۡضِ، تَطۡوی لَه ُمۡ طَیّاً، حَتّی یُبایِعُوه ُ فَیَمۡلَأُ بِه ِم الۡاَرضَ عَدۡلاٍ، کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً وَ ظُلۡماً
"
مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا ظہور روز عاشورا واقع ہوگا اور یہ وہ دن ہے جس روز حسین بن علی علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئے، ہفتہ دس محرم کا دن ہوگا، قائم رکن و مقام کے مابین کھڑے ہیں جبرئیل ان کی دائیں جانب اور میکائیل بائیں جانب موجود ہیں، اطراف زمین سے شیعہ ان کی طرف دوڑ پڑیں گے، زمین کے فاصلے ان کے لئے سمٹ جائیں گے کہ وہ ان کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوجائیں۔ پس وہ ان کے ذریعے زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے جس طرح اس سے قبل ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔
قبل از فَرج آل محمدؐ مشرق سے آگ نمودار ہوگی
۳۶ ۔ نیز اسی کتاب
میں ابو جعفر امام محمد باقر سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
"وَ عَنۡ اَبی جَعۡفَر مُحَمَّدِ بۡنِ عَلیٍّ‘، اَنَّه ُ قالَ : اِذَا رَأَیۡتُمۡ ناراً مِنَ الۡمَشرِقِ ثَلاثَةَ اَیّام اَوۡ سَبۡعَةً، فَتَوَقَّعُوا فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ اِنۡ شاءَ الله ُ تعالی، ثُمَّ قالَ : یُنادی مُنادٍ مِنَ السَّماءِ بِاِسۡمِ الۡمَه ۡدیِّ فَیُسۡمِعُ مَنۡ بِالۡمَشرِقِ وَ مَنۡ بِالۡمَغرِبِ، حَتّی لا یَبۡقی راقِدٌ اِلّا اسۡتَیۡقَظَ، وَ لا قائِمٌ اِلّا قَعَدَ، وَ لا قاعِدٌ اِلّا قامَ عَلی رِجۡلَیۡه ِ، فَزَعاً مِنۡ ذلِکَ فَرَحِمَ الله ُ عَبۡداً سَمِعَ ذلِکَ الصَّوۡتَ فَاجابَ، فَانَّ الصَّوۡتَ الاَوَّلَ ه ُوَ صَوۡتُ جِبۡریلَ الرُّوحِ الۡاَمینِ
"
جب تم لوگ تین یا سات دن مشرق سے آگ نمودار ہوتے ہوئے دیکھو تو فَرَج آل محمدؐ کے منتظر رہنا (انشاء اللہ تعالیٰ)۔ پھر فرمایا: اس دن آسمان سے منادی حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام پکارے گا جسے مشرق و مغرب والے سب ہی سنیں گے اور کوئی ا س بات سے غافل نہ رہے گا، کوئی کھڑا نہیں ہوگا مگر یہ کہ بیٹھ جائے اور کوئی بیٹھا ہوا نہ ہوگا مگر یہ کہ خوف سے کھڑا ہوجائے۔ خدا اس صدائے آسمانی کے سننے والوں اور اس پر لبیک کہنے والوں پر رحمت کرے کیونکہ وہ جبرئیل روح الامین کی ندا ہوگی۔
خروج مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی پانچ علامات ہیں
۳۷ ۔ یوسف بن یحیی
نے امام حسین سے روایت کی ہے آپؑ نے فرمایا:"وَ عَنۡ اَبی عَبۡدِ الله ، الۡحُسَیۡنِ بۡنِ عَلیٍّ‘، اَنَّه ُ قالَ: لِلۡمَه ۡدِیِّ خَمۡسُ عَلاماتٍ، اَلسُّفۡیانیُّ، وَ الۡیَمانیُّ، وَ الصَّیۡحَةُ مِنَ السَّماء، وَ الۡخَسۡفُ بِالۡبَیۡداءِ ، وَ قَتۡلُ النَّفۡسِ الزَّکیَّةِ
"
خروج مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی پانچ علامات ہیں: ۱ ۔ خروج سفیانی، ۲ ۔ خروج و قیام یمانی در یمن، ۳ ۔صدائے آسمانی، ۴ ۔ بیداء (مکہ و مدینہ کے مابین) کی زمین کا دھنسنا، ۵ ۔ نفس ذکیہ کا قتل (جنہیں محمد بن حسن کہتے ہیں)۔
اصحاب المہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ۳۱۳
ہیں جو رکن و مقام کے مابین ان کی بیعت کریں گے
۳۸ ۔ نیز عقد الدّرر
نے جابر بن یزید جعفی کے توسط سے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"وَ يَبْعَثُ السُّفْيَانِيُّ جَيْشاً إِلَى الْكُوفَةِ، وَ عِدَّتُهُمْ سَبْعُونَ أَلْفاً، فَيُصِيبُونَ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ قَتْلًا وَ صَلْباً وَ سَبْياً وَ يَبْعَثُ السُّفْيَانِيُّ بَعْثاً إِلَى الْمَدِينَةِ، فَيَنْفِرُ الْمَهْدِيُّ مِنْهَا إِلَى مَكَّةَ، فَيَبْلُغُ أَمِيرَ جَيْشِ السُّفْيَانِيِّ أَنَّ الْمَهْدِيَّ قَدْ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ، فَيَبْعَثُ جَيْشاً عَلَى أَثَرِهِ، فَلَا يُدْرِكُهُ حَتَّى يَدْخُلَ مَكَّةَ خائِفاً يَتَرَقَّبُ، عَلَى سُنَّةِ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ علیه ما السلام ، وَ يَنْزِلُ أَمِيرُ جَيْشِ السُّفْيَانِيِّ الْبَيْدَاءَ، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ، يَا بَيْدَاءُ أَبِيدِي الْقَوْمَ فَيُخْسَفُ بِهِمْ، فَلَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ إِلَّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، يُحَوِّلُ اللَّهُ وُجُوهَهُمْ إِلَى أَقْفِيَتِهِمْ، وَ هُمْ مِنْ كَلْب؛ قالَ : فَيَجْمَعُ اللَّهُ تَعالی لِلۡمَه ۡدیِّ أَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، وَ يَجْمَعُهُمُ اللَّهُ تَعالی عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَ قَزَعٌ كَقَزَعِ الْخَرِيفِ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ؛ قالَ: وَ الۡمَه ۡدیُّ، یا جابِرُ، رَجُلٌ مِنۡ وَُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ، یُصۡلِحُ الله ُ لَه ُ اَمَره ُ فِی لَیۡلَةٍ واحِدَةٍ
"
سفیانی تقریباً ستّر ہزار سپاہیوں پرمشتمل ایک لشکر کوفہ کی بربادی کے لئے بھیجے گا وہ کوفہ پہنچ کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیں گے کسی کو سُولی پر لٹکائیں گے اور کسی کو اسیر بنالیں گے نیز ایک لشکر مدینہ کی جانب روانہ کرے گا اس وقت حضرت مہدی مدینہ سے مکہ مکرمہ کی جانب کوچ کریں گے، امیر سپاہ سفیانی کو اطلاع ملے گی کہ حضرت مہدی مکہ کے ارادہ سے خارج ہوچکے ہیں پس وہ ان کے پیچھے ایک لشکر روانہ کرے گا لیکن تمامتر کوششوں کے باوجود وہ انہیں ڈھونڈنے میں ناکام رہیں گے جبکہ حضرت مہدی بصورت خائف مکہ میں وارد ہوں گے جس طرح حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔
جب لشکر سفیانی، حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو ڈھونڈنے اور انہیں اسیر کرنے کی غرض سے سر زمین بیداء (مکہ مدینہ کے مابین ہے) میں داخل ہوگا تو آسمان سے منادی ندا دے گا:
اے بیابان! اس قوم کونگل جا۔ پس وہ قوم زمین میں دھنس جائے گی صرف تین افراد بچ جائیں جن کی گردنیں خداوند عالم پیچھے کی جانب پلٹا کر "کتے" کی صورت میں تبدیل کردے گا۔
پھر امام باقر نے فرمایا: (جب مہدی مکہ میں وارد ہوں گے تو) اس وقت خداوند عالم ان کے لئے ۳۱۳ اصحاب کو جمع کر دے گا جو پہلے سے کئے ہوئے وعدہ کے بغیر ایک دم یکجا ہوجائیں گے اور بکھرے ہوئے بادلوں کی طرح سمٹ جائیں گے اور رکن و مقام کے مابین ان کی بیعت کریں گے۔
نیز فرمایا: اے جابر! مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ذریت حسین سے ہوں گے خداوند عالم ایک رات میں ان کی راہ ہموار کردے گا۔
کتب اہل سنت میں شیعہ اثنا عشری کی حقانیت کی تصریح
۳۹ ۔ شیخ سلیمان
،
نے کتاب مناقب سے روایت نقل کی ہے:
"وَ فِی الۡمَناقِبِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ قَالَ: جَاءَ يَهُود مِنْ يَهُودِ الْمَدِينَةِ الی "عَلیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ قَالَ إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ وَ عَنْ ثَلَاثٍ وَ وَاحِدَةٍ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ لِمَ لَا تَقُولُ أَسْئَلُكَ عَنْ سَبْع قَالَ أَسْئَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ فَإِنْ أَصَبْتَ فِيهِنَّ سَئَلْتُكَ عَنِ الثَّلَاثِ الْآخَر فَإِنْ أَصَبْتَ فیه ِنَّ سَئَلْتُكَ عَنِ الْوَاحِدَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ مَا تَدْرِي إِذَا سَئَلْتَنِي فَأَجَبْتُكَ أَخْطَأْتُ اَمۡ اَصِبۡتُ، فَاَخۡرَجَ الۡیَه وُدیُّ مِن كُمِّهِ كِتَاباً عَتِيقاً قَالَ هَذَا وَرِثْتُهُ عَنْ آبَائِي وَ أَجْدَادِي عَن ه اروُنَ جَدّی إِمْلَاءُ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ وَ خَطُّ هَارُون بن عِمۡران‘ وَ فِيهِ هَذِهِ الۡمَسۡأَلَةُ الَّتِي أَسْئَلُكَ عَنْهَا، قَالَ عَلِيٌّ إِنْ أَجَبْتُكَ بِالصَّوَابِ فِيهِنَّ لِتَسْلِم؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ اَسْلِمُ السَّاعَةَ عَلَى يَدَيْكَ اِنۡ اَجِبۡتَنی بِالصَّوابِ فیه ِنَّ، قَالَ لَهُ سَلْ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ حَجَرٍ وُضِعَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، وَ عَنْ أَوَّلِ شَجَرَةٍ نُبِتَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، وَ عَنْ أَوَّلِ عَيْنٍ نُبِعَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، قَالَ: -- أَمَّا أَوَّلُ حَجَرٍ وُضِعَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعُمُونَ أَنَّهَا صَخْرَةُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَ كَذَبُوا وَ لَكِنَّهُ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ نَزَلَ بِهِ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ فَوَضَعَهُ فِي رُكْنِ الْبَيْتِ وَ النَّاسُ يَتَمَسَّحُونَ بِهِ وَ يُقَبِّلُونَهُ وَ يُجَدِّدُونَ الْعَهْدَ وَ الْمِيثَاقَ لِاَنَّه ُ کانَ مَلَکاً فَصارَ حَجَراً، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ - - وَ أَمَّا أَوَّلُ شَجَرَةٍ نَبَتَتْ عَلَى الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعُمُونَ أَنَّهَا الزَّيْتُونَةُ وَ كَذَبُوا وَ لَكِنَّهَا النَّخْلَةٌ مِنَ الْعَجْوَةِ نَزَلَ بِهَا آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ فَاَصْلُ كُلِّ النَّخۡلَةِ الْعَجْوَةِ، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ: وَ أَمَّا أَوَّلُ عَيْنٍ نَبَعَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعُمُونَ أَنَّهَا الْعَيْنُ الَّتِي نَبَعَتْ تَحْتَ صَخْرَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَ كَذَبُوا وَ لَكِنَّهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ الَّتِي نَسِيَ عِنْدَهَا صَاحِبُ مُوسَى السَّمَكَةَ الْمَالِحَةَ فَلَمَّا أَصَابَهَا مَاءُ الْعَيْنِ حُیِّیَتۡ وَ عَاشَتْ وَ شَرُبَتْ مِنۡه ُ فَاتَّبَعَهَا مُوسَى وَ صَاحِبُهُ الْخَضِرُ‘، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ سَلْ عَنِ الثَّلاثِ الۡآخَرِ، قَالَ: أَخْبِرْنِي کَمۡ لِه ذِه ِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّها مِنْ إِمَامٍ، وَ أَخْبِرْنِي عَنْ مَنْزِلِ مُحَمَّدٍ أَيْنَ هُوَ فِی الْجَنَّةِ وَ اَخۡبِرۡنی مَنْ يَسْكُنُ مَعَهُ فِي مَنْزِلِهِ قَالَ عَلِيٌّ : لِهَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْد نَبِيِّهَا "اثْنَا عَشَرَ إِمَاماً" لَا يَضُرُّهُمْ خِلَافُ مَنْ خَالَفَ عَلَيْهِمْ، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ: عَلِيٌّ : یُنْزِلُ مُحَمَّدٌﷺ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ وَ هِيَ وَسَطُ الْجِنَانِ وَ اَعۡلاه ا وَ أَقْرَبُهَا مِنۡ عَرْشِ الرَّحْمَانِ جَلَّ جَلَالُهُ، قَالَ الۡیَه ُودیُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ : وَ الَّذِي يَسْكُنُ مَعَهُ فِي الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ الۡاَئِمَّة الۡاِثْنَا عَشَرَ "اَوَّلُه ُمۡ اَنا وَخِرُنا القۡائِمُ الۡمَه ۡدیُّ (عج) " قَالَ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ :
سَلْ عَنِ الۡوَاحِدَةِ، قالَ: اَخۡبِرۡنی كَمْ تَعِيشُ بَعْدَ نَبیِّکَ وَ هَلْ تَمُوتُ أَوْ تُقْتَلُ،قَالَ : اَعِيشُ بَعْدَهُ ثَلَاثِينَ سَنَةً وَ تَخْضِبُ هَذِهِ، مِنْ هَذَا، أَشَارَ بِرَأْسِهِ الشَّریف، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّ رَسُولِ اللَّهِﷺ"
مناقب میں ابو طفیل عامر بن وائلہ سے روایت نقل کی گئی ہے وہ کہتے ہیں: مدینہ کے رہنے والے ایک یہودی نے حضرت امیرالمؤمنین کی خدمت اقدس میں پہنچ کر عرض کیا: میں آپ سے تین، تین اور پھر ایک سوال کرنا چاہتاہوں۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا: یہ کیوں نہیں کہتے کہ مجھے سات سوالوں کے جوابات چاہئیں؟
یہودی نے کہا: میں پہلے آپ سے تین سوال کروں گا اگر آپ نے ان کے صحیح جوابات دیئے تو پھر دیگر تین سوال پیش کروں گا، اگر آپؑ نے ان کے بھی جوابات دیدیئے تو پھر اپنا آخری سوال پیش کروں گا۔
امام نے فرمایا: اگر میں تمہارے سوالات کے جوابات دیدوں تو تمہیں کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے صحیح جواب دیئے ہیں یا غلط؟ یہ سن کر یہودی نے اپنی آستین میں سے ایک پرانی کتاب نکالی اور کہا: مجھے یہ کتاب میرے آباء واجداد سے ورثہ میں ملی ہے، میں نے اسے اپنے جد ہارون (برادر موسیٰ ) سے ورثہ میں پایا ہے کہ جسے موسیٰ بن عمران نے انہیں اِملاء کروایا تھا؛ اور جو میں نے آپ سے سوالات کئے ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔
امام نے فرمایا: اگر میں نے تمہارے سوالات کے صحیح جوابات دیدیئے تو مسلمان ہوجاؤ گے؟
یہودی نے کہا: خدا کی قسم اگر آپ نے میرے سوالات کے صحیح جوابات دیدیئے تو میں ابھی اور اسی وقت آپ کے سامنے اسلام لے آؤں گا!
امامؑ نے فرمایا: تو پھر اپنے سوالات پیش کرو۔
یہودی نے کہا: ۱ ۔ کرۂ ارض پر آنے والا پہلا پتھر کون سا تھا؟
۲ ۔ زمین پر اگنے والا پہلا درخت کون سا تھا؟
۳ ۔ زمین پرجاری ہونے والا پہلا چشمہ کون سا تھا؟
امیرالمؤمنین نے فرمایا: یہودی گمان کرتے ہیں کہ زمین پر نازل ہونے والا پہلا پتھر، بیت المقدس کا پتھر ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے بلکہ یہ حجر اسود ہے جو حضرت آدم کے ساتھ بہشت سے آیا تھا۔ اورانہوں نے اسے رکن بیت اللہ الحرام میں نصب کیا تھا تاکہ لوگ اسے مسح کریں، اسے بوسہ دیں اور اس کے ذریعے تجدید ِ عہد و میثاق کریں کیونکہ وہ اصل میں ایک فرشتہ تھا جو بعد میں پتھر کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔
یہودی نے کہا: بالکل صحیح فرمایا آپؑ نے!
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: زمین پر اگنے والے پہلے درخت کے بارے میں یہودی گمان کرتے ہیں کہ وہ زیتون کا درخت ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے بلکہ وہ کھجور کا درخت ہے حضرت آدم بہشت سے جسے اپنے ہمراہ لائے تھے اور اسے کاشت کیا اور تمام کھجور کے درخت اسی کی نسل سے ہیں۔
یہودی نے کہا: صحیح فرمایا آپؑ نے!
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: زمین پر جاری ہونے والے اولین چشمے کے بارے میں یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صخرۂ بیت المقدس کے نیچے سے جاری ہونے والا چشمہ ہے لیکن یہ بات غلط ہے بلکہ وہ چشمہ حیات ہے کہ جس کے نزدیک حضرت موسیٰ کے رفیق (خضر )اپنی نمک زدہ مچھلی فراموش کر گئے اور پھر انہوں نے جب اسے اٹھا کر پانی میں ڈالا تو وہ زندہ ہوکر تیرنے لگی، اس وقت موسیٰ و خضر علیہما السلام نے اس مچھلی کا پیچھا کیا۔
یہودی نے کہا: آپؑ نے بالکل صحیح فرمایا۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنے دیگر تین سوال پیش کرو۔
یہودی نے کہا: فرمائیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اس امت میں کتنے امام ہوں گے؟ بہشت میں حضرت محمدﷺ کی منزل کیا ہے؟ اور اس منزل پر ان کے ہمراہ کون ہوگا؟
امیرالمؤمنین نے فرمایا: پیغمبر اسلامﷺ کے بعد بارہ امام ہوں گے جنہیں مخالفین کی کوئی مخالفت نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
یہودی نے کہا: صحیح فرمایا آپؑ نے!
امیرالمؤمنین نے فرمایا: حضرت محمدﷺ بہشت عدن میں ہوں گے جو بہشت کے وسط میں بالا ترین مقام اور عرش الٰہی سے نزدیک ترین ہے۔
یہودی نے عرض کیا: صحیح فرمایا آپؑ نے!
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہشت میں حضرت محمدﷺ کے ہمراہ بارہ امام ہوں گے جن میں سے اول میں ہوں اور آخری حضرت قائم مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں۔
یہودی نے عرض کیا: آپؑ نے صحیح فرمایا۔
امیرالمؤمنین نے فرمایا: اپنا آخری سوال پیش کرو۔
یہودی نے عرض کیا: پیغمبر اسلامﷺ کے بعد آپؑ کتنے سال زندہ رہیں گے، قتل کئے جائیں گے یا طبعی موت سے اس دنیا سے جائیں گے؟
حضرت نے فرمایا: پیغمبر اسلامﷺ کے بعد میں تیس سال زندہ رہوں گا اور (ریش مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) یہ میرے سر کے خون سے رنگیں ہوگی۔
یہ سن کر یہودی نے کہا: میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں کہ "اللہ" کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی وصی رسول خداؐ ہیں۔
اس روایت میں موجود حقائق
اس روایت میں کچھ اہم نکات پائے جاتے ہیں مثلاً:
۱ ۔ یہ روایت اہل سنت کی معتبر کتب میں وارد ہوئی ہے یعنی ان کے علماء نے اس کی تصریح کی ہے لہذا اس سلسلہ میں ہمارے اوپر اشکال نہیں کیا جاسکتا ۔
۲ ۔ حضرت علی علیہ السلام نے واضح کر دیا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں پہلا میں ہوں اور آخری مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں۔
۳ ۔ جب اہل سنت تمام اصحاب رسولؐ کو بطور موجبہ کلیہ عادل سمجھتے ہیں تو پھر اس امر کے پیش نظر وہ اس حقیقت کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اصحاب رسول میں سے ہیں، رسول خداؐ کے چچا زاد بھائی، داماد اور اہل بیت میں سے ہیں نیز اہل سنت کے خلیفہ چہارم اور روایت نبوی کے مطابق فاروق اور مدار حق ہیں اور جہاں علی علیہ السلام ہیں حق وہیں ہے؟
کیا حضرت علی علیہ السلام ہی نے نہیں فرمایا کہ میں امام اوّل اور قائم مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) بارہویں امام ہیں؟ تو پھر اہل سنت حضرات اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ کیا اس طرح ان کے عقیدہ میں تناقض نہیں پایا جاتا کہ وہ ایک طرف حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور حضرت علیؑ کی خلافت کے قائل ہیں اور دوسری جانب ایسی متعدد روایات پر توجہ نہیں دیتے کہ پیغمبر گرامی قدر کے بعد اس امت کے بارہ امام ہوں گے جن میں اوّل امام علی علیہ السلام اور آخری قائم مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہوں گے ؟!!
۴ ۔ روایت میں موجود لفظ "بعد نبیِّہا" اس امر پر دلالت کر رہا ہے پیغمبر اکرمؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے حق خلافت غصب کرنے والوں کی خلافت باطل ہے کیونکہ روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام امام اوّل ہیں۔
۵ ۔ روایت اتنی واضح و آشکار ہے کہ ذیل روایت میں یہودی مسلمان ہوجاتا ہے بلکہ شیعہ امیرالمؤمنین ہوگیا اور شہادت دیتا ہے کہ "آپ ہی وصی پیغمبر اسلام" ہیں۔
۶ ۔ یہودی شخص نے امیرالمؤمنین کی خدمت میں عرض کیا:
ان مسائل کے جوابات میرے پاس موجود اس کتاب میں محفوظ و مرقوم ہیں جو میں نے اپنے اجداد اور ہارون بن عمران سے ا رث میں حاصل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اجداد اور انبیائے ماقبل مثلاً ہارون و موسیٰ جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام کے نزدیک علی علیہ السلام کا وہی مقام ہے جو حضرت موسیٰ کے نزدیک حضرت ہارون کا مقام تھا۔
نیز جانتے تھے کہ جس طرح نقبائے بنی اسرائیل بارہ تھے اسی طرح پیغمبر اسلام کے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں اول امام علی علیہ السلام اور آخری امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہوں گے۔
نیز جانتے تھے کہ پیغمبر اکرمﷺ کا وصی ان کے بعد تیس سال زندہ رہے گا اور اس کی ریش مبارک اس کے سر کے خون سے رنگین ہوگی۔
۷ ۔ اس روایت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "عقائد شیعہ اثناء عشری" برحق عقائد ہیں کیونکہ شیعوں کے پہلے امام علی علیہ السلام اور آخری امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں اور ۷۳ فرقوں
میں سے نجات پانے والا فرقہ شیعہ اثنا ء عشری ہی ہے۔
جی ہاں اگر تعصبات کی عینک اتار کر رکھ دی جائے تو یقیناً جہل و نادانی کے پردے چاک ہوجائیں اور حقائق روز روشن کی مانند آشکار ہوجائیں۔
لشکر سفیانی پر خدا و دیگر مخلوقات کا غضب
۴۰ ۔ یوسف بن یحیی نے امیرالمؤمنین سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے کہ جسے اختصار کے ساتھ یہاں نقل کیا جا رہا ہے:
"عَنۡ اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن اَبیطالِبٍ‘، قالَ: اَلا فَه ُوَ (اَی الۡمَه ۡدی (عج)) اَشۡبَه ُ خَلۡقِ الله ِ عَزَّوجلَّ بِرَسُولِ الله ِﷺ، وَ اِسۡمُه ُ عَلی اِسۡمِه ِ، وَ اِسۡمُ اَبیه ِ عَلی اِسۡمِ اَبیه ِ
، مِنۡ وُلۡدِ فاطِمَةَ اِبۡنَةِ مُحَمَّدٍﷺ، منۡ وُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ، اَلا فَمَنۡ تَوالَی غَیۡرَه ُ لَعَنَه ُ الله ُ؛
ثُمَّ قال : فَیَجۡمَعُ الله ُ عَزَّوجَلَّ اَصۡحابَه ُ عَلی عَدَدٍ اَه ۡلِ بَدۡرٍ، وَ عَلی عَدَدِ اَصۡحابِ طالُوتَ، ثَلاثِمأَة وَ ثلاثَة عَشَرَ رَجُلاً، ؛
ثُمَّ قالَ اَمیرُالۡمُؤۡمِنینَ وَ اِنّی لَاَعۡرِفُه ُمۡ وَ اَعۡرِفُ اَسۡمَائَه ُم، ثُمَّ سَمّاه ُمۡ، وَ قالَ: ثُمَّ یَجۡمَعُه ُمُ الله ُ عَزَّوجَلَّ، مِنۡ مَطۡلَعِ الشَّمۡسِ اِلی مَغرِبِه ا فی اَقَلَّ مِنۡ نِصۡفِ لَیۡلَةٍ، فَیَأۡتُونَ مَکَّةَ، فَیُشۡرِفُ عَلَیۡه ِمۡ اَه ۡل مَکَّةَ فَلا یَعۡرِفوُنَه ُمۡ، فَیَقوُلَونَ: کَبَسَنا اَصۡحابُ السُّفیانی؛
فَاِذا تَجَلّی لَه ُمُ الصُّبۡحُ یَرَوۡنَه ُمۡ طائِعینَ مُصَلّینَ، فَیُنۡکِروُنَه ُمۡ، فَعِنۡدَ ذلِکَ یُقَیِّضُ الله ُ لَه ُمۡ مَنۡ یُعَرَّفُه ُمُ الۡمَه ۡدیَّ وَ ه ُوَ مُخۡتَفٍ، فَیَجۡتَمِعُونَ اِلَیۡه ِ، فَیَقُولُونَ لَه ُ: اَنۡتَ الۡمَه ۡدیُّ؟؛ فَیَقُولُ: اَنا اَنۡصاریُّ؛ وَ الله ِ ما کَذِبَ، وَ ذلِکَ اَنَّه ُ ناِصرُ الّدینِ؛ وَ یَلۡحَقُه ُ ه ُناکَ ابۡنُ عَمِّه ِ الۡحَسَنیُّ فی اِثۡنی عَشَرَ اَلف فارِسٍ، فَیَقُولُ الۡحَسَنیُّ ه َلۡ لَکَ مِنۡ آیَةٍ فَنُباِیِعُکَ؟؛ فَیُؤۡمِیِ الۡمَه ۡدیُّ اِلَی الطَّیۡر، فَتَسۡقُطُ عَلی یَدِه ِ، وَ یَغۡرُسُ قَضیباً فی بُقۡعَةٍ مِنَ الاَرجِ، فَیَخۡضَرُّ وَ یُورِقُ، فَیَقُولُ لَه ُ الۡحَسَنیُّ : یَابۡنَ عَمّ ه ِیَ لَکَ، وَ یُسَلَّمُ اِلَیۡه ِ جَیۡشَه ُ؛ فَیَسیرُ الۡمَه دیُّ بِمَنۡ مَعَه ُ، لا یُحۡدِثُ فی بَلَدٍ حادِثَةٍ اِلَّا الۡاَمۡنَ وَ الۡاَمانَ وَ الۡبُشۡری، وَ عَنۡ یَمینِه جِبۡریلُ، وَ عَن شِمآله میکائیلُ علیه ما السلام وَ النَّاسُ یَلۡحَقُونَه ُ مِنَ الآفاقِ ؛
وَ یَغۡضبُِ الله ُ عَزّوَجَلَّ عَلَی السُّفۡیانی وَ جَیۡشه ِ وَ یُغۡضِبُ سائِرَ خَلۡقِه عَلَیۡه ِمۡ حَتّی الطَّیۡرِ فِی السَّماءِ فَتَرۡمیه ِمۡ بِاَجۡنِحَتِه ا وَ اِنَّ الۡجِبالَ لَتَرۡمیه ِمۡ بِصُخُورِه ا، فَتَکُون وَقۡعَةٌ یُه ۡلِکُ الله ُ فیه ا جَیۡشَ السُّفۡیانی، وَ یَمۡضی ه ارِباً، فَیَأۡخُذُه رَجُلٌ مِنَ الۡمَوالی اِسۡمُه ُ صبَاح، فَیَأۡتی بِه اِلَی الۡمَه دیّ ، و ؛
وَ یَکوُنُ السُّفۡیانی قَدۡ جُعِلَتۡ عِمامَتُه ُ فی عُنُقِه وَ سُحِب، فَیُوقِفُه ُ بَیۡنَ یَدَیۡه ِ فَیَقُولُ السُّفۡیانی لِلۡمَه ۡدی : یَابۡنَ عَمّی
و
، مُنَّ عَلَیَّ بِالحَیاةِ اکُونُ سَیۡفاً بَیۡنَ یَدَیۡکَ وَ اُجاه ِدُ اَعۡدائَکَ؛
وَ الۡمَه ۡدیُّ جالِسٌ بَیۡنَ اَصۡحابه وَ ه ُوَ اَحیی مِنۡ عذراء، فَیَقُولُ : خُلُّوه ُ، فَیقوُلُ اَصۡحابُ الۡمَه ۡدی : یَابۡنَ بِنۡتِ رَسوُلِ الله ِ، تَمُنُّ عَلَیۡه ِ بِالۡحَیاةِ؟ وَ قَدۡ قَتَلَ اَوۡلادَ رَسُولِ الله ِﷺ، ما نَصۡبِرُ عَلی ذلِکَ؛
فَیَقُولُ : شَأنُکُمۡ وَ ایّاه ُ اِصۡنَعُوا بِه ما شِئۡتُم وَ یذبَحُه ُ، وَ یَاۡخُذُ رَأسَه ُ، وَ یَأتی بِه ِ الۡمَه ۡدی، فَیَنۡظُرُ شیعَتُه ُ اِلَی الرّأۡسِ فَیُکَبِّروُنَ وَ یُه َلِّلُون وَ یَحۡمَدُونَ الله تعالی علی ذلِکَ، ثُمَّ یَأۡمُرُ الۡمَه ۡدی بِدَفۡنِه "
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: یاد رکھو! مہدیؑ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اکرمﷺ سے مشابہ ہوں گے، ان کا نام پیغمبر کے نام پر اور ان کے والد کا نام پیغمبر اسلامﷺ کے والد کے نام پر ہوگا
۔ مہدی، فاطمہ زہرا کی اولاد میں سے ہوں گے، وہ ذریت حسینؑ سے ہیں۔ یاد رکھو جو شخص بھی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اپنا امام قرار دے گا خداوند عالم اس پر لعنت کرے گا۔
پھر فرمایا: اللہ ان کے اصحاب کو یکجا کردے گا جن کی تعداد جنگ بدر میں لشکر اسلام کی تعداد اور سپاہ طالوت کے برابر ۳۱۳ ہے ۔۔۔،
پھر فرمایا: میں ان تمام اصحاب مہدی سے آشنا ہوں اور ان سب کے نام مجھے معلوم ہیں پھر آپؑ نے سب کے نام بیان فرمائے؛ اور فرمایا: خداوند عالم ان ۳۱۳ اصحاب کو مشرق و مغرب سے ایک نصف رات سے کم وقت میں یکجا کردے گا۔ وہ مکہ میں داخل ہوں گے اہل مکہ انہیں دیکھیں گے لیکن پہچانیں گے نہیں کہ یہ کون ہیں بلکہ وہ یہ کہنے لگیں گے سپاہ سفیانی نے ہم پر دباؤ ڈال دیا ہے۔ جب صبح نمودار ہوگی تو اہل مکہ اصحاب مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو نماز اور اطاعت امر الٰہی میں مشغول پائیں گے لیکن اب بھی انہیں نہیں پہچانیں گے، اسی اثنا میں خداوند عالم ان میں ایک شخص کو تیار کرے گا کہ وہ ان اصحاب سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی ملاقات و تعارف کرائے جبکہ وہ انہی لوگوں میں مخفی و غیر متعارف ہوں گے، پس یہ اصحاب، حضرت مہدی کی خدمت میں پہنچ کر سوال کریں گے کہ کیا آپؑ ہی حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف ہیں؟ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) فرمائیں گے:میں مدد کرنے والوں میں سے ہوں۔
امیرالمؤمنین نے فرمایا: خدا کی قسم مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہرگز جھوٹ نہیں بولیں گے وہ دین خدا کی مدد کرنے والے ہیں ۔۔۔ ان کے پسر عم سید حسنی بارہ ہزار سواروں کے ہمراہ ان سے ملحق ہوجائیں گے، سید حسنی پہلے ان سے عرض کریں گے کہ آپؑ کے پاس کوئی علامت ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ کی بیعت کریں؟
حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اس وقت ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ ان کے ہاتھ پر آجائے گا اور سوکھی ہوئی لکڑی کو زمین میں گاڑ دیں گے تو فورا سرسبز ہوجائے گی۔
یہ دیکھ کر سید حسنی، حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے عرض کریں گے: اے پسر عم! یہ تمام سپاہ آپ کے لئے ہے اور اس طرح وہ لشکر ان کے اختیار میں دے دیں گے۔ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اپنے تمام لشکر کے ہمراہ کوچ کریں گے اور جس شہر میں وارد ہوں گے اس کے لئے امن و سلامتی کا پیغام لیکر بڑھیں گے، ان کے دائیں جانب جبرئیل اور بائیں جانب میکائیل ہوں گے اور اطراف عالَم میں لوگ ان کے ساتھ ملحق ہوتے جائیں گے ۔۔۔
جب سپاہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) و سپاہِ سفیانی ایک دوسرے کے روبرو اور برسر پیکار ہوں گے تو خداوند عالم اس وقت سفیانی اور اس کے لشکر پر اپنا غضب نازل کرے گا، تمام مخلوقات الٰہی یہاں تک کے آسمانی پرندے اپنے پروں سے ان پر پرتاب کریں گے اور پہاڑ بھی ان کے اوپر اپنے پتھر پھینکیں گے۔ اس طرح خداوند عالم تمام لشکر سفیانی کو ہلاک کردے گا اور سفیانی فرار ہوجائے گا، موالیان مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) میں سے "صباح" نامی ایک شخص اسے گرفتار کرکے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی خدمت میں لے جائے گا، سفیانی کا عمامہ اس کے گلے میں لپٹا ہوا ہوگا اور لوگ اسے کشاں کشاں پھرائیں گے اور جب اسے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے سامنے لاکر کھڑا کریں گے تو کہے گا: اے پسر عم (کیونکہ جدِّ سفیانی، عبد شمس اور جدّ حضرت مہدی، جناب ہاشم ہیں جو کہ جڑواں بھائی تھے) مجھ پر احسان کیجئے کہ مجھے زندہ رہنے دیں تاکہ آپ کی خدمت میں رہ کر اپنی تیز دھار تلوار سے آپ کے دشمنوں سے مقابلہ کرسکوں۔
حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اپنے اصحاب سے فرمائیں گے کہ اسے رہا کردو۔ اصحاب (دست بستہ) عرض کریں گے۔ اے بنت رسولؐ کے فرزند! کیا آپ اسے زندہ جانے دیں گے؟ اس نے اولاد رسولؐ کو قتل کیا ہے اور یہ بات ہمارے لئے نہایت گراں ہے، حضرت اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے: تم جو چاہو اس کے ساتھ سلوک کرو ۔۔۔ اصحاب مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، سفیانی کے سر کو قلم کرکے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے پاس لائیں گے اور ان کی زبانوں پرتکبیر، لا الہ الّا اللہ اور حمد الٰہی ہوگی، پھر حضرت مہدی حکم دیں گے کہ سفیانی کو دفن کر دیا جائے ۔۔۔
مذکورہ بشارات کے نتائج
علمائے اہل سنت نے اپنی مختلف کتب میں اہل بیت کی جن متعدد روایات کو نقل کیا ہے ان سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:
حضرت مہدی موعود ایک خوبصورت و نورانی جوان ہیں جو اہل بیت عصمت و طہارت کے فرد ہوں گے، جن کا نام "م، ح، م ، د" کنیت ابو القاسم ہے، ان کی والدہ گرامی کا نام نرجس خاتون ہے، وہ امام حسین کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔ یہی قائم آل محمدؐ ہیں، وہ خُلق اور خَلق میں سب سے زیادہ پیغمبر اسلام سے مشابہ ہیں، خاتم الائمہ اور امت کے نجات دہندہ ہیں کیونکہ پیغمبر اسلامؐ کے بارہ جانشین ہوں گے جن میں اول حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں، وہ صاحب الزمان ہیں، پرچم محمدی ان کے ہی ہاتھ میں ہوگا، وہی حکومت احمدی کے سرپرست ہوں گے، ان کے ظہور سے اَہالی و ساکنین عرش خوشحال ہوں گے، خداوند کریم شب میں ان کی راہ ہموار کردے گا، منادی آسمان میں ندا دے گا کہ حجت خدا کا ظہور ہوگیا ہے، پس عاشور کےدن ان کا ظہور ہوگا اور ظہور کے وقت پرچم، پیراہن اور شمشیر رسول اللہؐ ان کے ہمراہ ہوں گے، ان میں تمام خوبیاں جمع ہیں، ان کے اصحاب کہ جن کی تعداد ۳۱۳ ہے کما حقہ ان کی معرفت رکھتے ہیں، یہ اصحاب رکن و مقام کے مابین ان کی بیعت کریں گے، وہ بدعتوں کو نابود اور سنتوں کو قائم کریں گے، بیت المقدس میں حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا اور نزول کے بعد وہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے، تین ہزار فرشتے ان کی خدمت کیلئے بیت المقدس میں موجود ہوں گے، حضرت مہدیؑ اور ان کے اصحاب جس شہر و قریہ میں داخل ہوں گے تو وہاں کے رہنے والوں کے لئے امن و سلامتی اور بشارتیں لیکر جائیں گے، اور جس طرح زمین ظلم و ستم اور بربریت سے بھری ہوگی اسے اسی طرح عدل و انصاف سے پُر کردیں گے۔ حسنی سید بارہ ہزار سواروں کے ہمراہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے ملیں گے اور ان سے علامت ونشانی کا تقاضا کریں گے، اس وقت آنجناب ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ ان کے ہاتھ پر آجائے گا؛ پھر سوکھی ہوئی لکڑی کو اٹھا کر زمین میں گاڑیں گے تو سرسبز ہوجائے گی، عشاء کے وقت مکہ معظمہ میں نماز جماعت ادا کریں گے اور لوگوں سے خطاب کریں گے کہ اے لوگو! خدا اور اس وقت کو یاد کرو جبکہ تم اس کے حضور کھڑے ہوتے ہو، بتحقیق حجت الٰہی آچکی ہے، انبیاء مبعوث ہوچکے ہیں، کتابِ خدا نازل ہوچکی ہے، خدا نے حکم دیا ہے کہ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دینا، خدا و رسولؐ کے فرمان کی اطاعت و پیروی کرنا، جن چیزوں کو قران نے زندہ کیا ہے انہیں زندہ رکھو اور جن چیزوں کو اس نے مردہ قرار دیا ہے، انہیں زندہ نہ کرو، ہدایت اور تقویٰ و پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ پس یاد رکھو! دنیا کے فناء و زوال کا وقت قریب ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے، بتحقیق میں تمہیں خدا و رسول کی طرف، کتاب الٰہی پر عمل، ابطال باطل اور احیائے سنت الٰہی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔
جب حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)ظہور فرمائیں گے توجوان ہوں گے یہ دیکھ کر کچھ لوگ ان کا انکار کردیں گے کیونکہ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) بوڑھے ہوں گے جب سپاہِ مہدیؑ و سپاہِ سفیانی روبرو ہوں گے توخداوند عالم سفیانی اور اس کے لشکر پر اپنا غضب نازل کرے گا بلکہ تمام مخلوق الٰہی ان پر اپنا غضب نازل کریں گی یہاں تک کہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے انہیں اپنے پروں سے نشانہ بنائیں گے اور پہاڑ پتھروں کی بارش کریں گے؛ اس وقت جبرئیل ان کے دائیں جانب اور میکائیل ان کے بائیں جانب ہوں گے، لوگ اطراف عالَم سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی مدد کے لئے لبیک کہیں گے، خداوند عالم سپاہِ سفیانی کو ہلاک کردے گا اور خود سفیانی فرار ہوجائے گا لیکن گرفتار ہوجائے گا اور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے پاس لایا جائے گا ، بالآخر سفیانی کا سرقلم کردیاجائے گا، جب پیروان حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سفیانی کے سر کو دیکھیں گے تو ان کی زبانو پر تکبیر، لا الہ الا اللہ اور حمد الٰہی جاری ہوجائے گی، پھر حضرت مہدیؑ ، سفیانی کے دفن کا حکم دیں گے۔
جی ہاں اس دن پورے عالم پر یہ آیت کریمہ محقَّق ہوجائے گی :(
اِنّ الاَرضَ یرِثُه َا عِبَادِی الصَّالِحُونَ
)
بیشک میرے صالح بندے ہی زمین کے وارث قرار پائیں گے۔
بیشک اس دن تمام جن و انس عبادت پروردگار میں مشغول ہوجائیں گے و ۔۔۔
اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام
شیخ عباسی قمی علیہ الرحمہ نے مفاتیح الجنان میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زیارات مطلقہ کے ذیل میں پانچویں زیارت میں نقل کیا ہے کہ شیخ کلینی نے حضرت ابو الحسن ثالث یعنی امام علی علیہ السلام نقی سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: قبر امیرالمؤمنین کے پاس کھڑے ہوکر اس طرح کہا کرو: "اَلسَّلامُ عَلَیۡکَ یا وَلیَّ الله ِ، اَنۡتَ اَوَّلُ مَظۡلُومٍ وَ اَوَّلُ مَنۡ غُصِبَ حَقُّه ُ
" سلام ہو آپ پر اے ولی خدا؛ آپ اوّلین مظلوم عالم اور پہلے وہ شخص ہیں جس کے حق کو غصب کیا گیا۔
بیشک حضرت علی علیہ السلام ہی اولین مظلوم عالم ہیں جیسا کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں نقل کردہ روایات اہل بیت علیھم السلام میں سے ۲۱ ویں روایت کے ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ زمر کی ۵۶ ویں آیت کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام واجب امر الٰہی ہیں جسے فراموش کردیا گیا ہے۔ اگرچہ کتب اہلسنت حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺ و اہلبیت کی کثیر التعداد روایات سے پُر نظر آتی ہیں لیکن اس کے باوجود علمائے اہل سنت حقائق سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ ہم یہاں چند نمونے پیش کر رہے ہیں:
ہم نے گذشتہ صفحات پر بحثِ مقدمات میں مندرجہ ذیل دو عنوان پیش کئے تھے:
۱ ۔ کتب اہلسنت میں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے بارے میں روایات نبوی؛
۲ ۔ "تلک عَشَرَةٌ کامِلَةٌ
"۔
اس موقع پر کتب اہل سنت میں پیغمبر اسلامﷺسے نقل شدہ دس روایات پیش کی تھیں جن میں سے سات روایات میں لفظ "بعدی" پیغمبر اکرمؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی تصریح کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ بشارات پیغمبر اسلام کے ذیل میں روایات نمبر ۱ ۔ ۲۱ ۔ ۲۸ ۔ ۳۰ ۔ ۳۵ بھی حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کر رہی ہیں۔ اسی طرح کتب اہل سنت میں مرقوم بشارات ائمہ اہل بیتؑ کے ذیل میں روایات نمبر ۱۱ و ۳۲ بھی اسی مطلب پر دلالت کر رہی ہیں۔
روایت نمبر ۱۱ میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
"اَلۡاَئِمَةُ "بَعۡدی" اِثنا عَشَرَ، اَوَّلُه ُمۡ اَنۡتَ یا عَلی وَ آخِرُه ُم اَلۡقَائِمُ الَّذی یَفۡتَحُ الله ُ عَزَوَجَلَّ عَلی یَدِیۡه ِ مَشارِقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا
"
میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں اوّلین امام تم ہو اے علی! اور آخری امام قائم ہوں گے۔ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) وہ ہیں جن کے ہاتھوں پر خداوند عالم مشرق و مغرب کی فتح عنایت کرے گا۔
جبکہ روایت نمبر ۳۹ میں امیرالمؤمنین نے یہودی سے فرمایا:
" ه ؤُلآءِ اَلۡاَئِمَةُ الۡاِثنا عَشَرَ اَوَّلُه ُمۡ اَنا وَ آخِرُنا اَلۡقَائِمُ الۡمَه ۡدی (عج)
"
جو افراد جنت میں پیغمبر اکرمﷺ کے ہمراہ ہوں گے وہ یہی بارہ امام ہوں گے جن میں اوّل میں ہوں اور آخری قائم مہدی ہوں گے۔
حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر لفظ "بعدی" کے ذریعے پیغمبر اسلامﷺ کی دس تصریحات
ہم اس کتاب کے پہلے باب میں "مقدمات" کے ذیل میں سات روایات بیان کرچکے ہیں جن میں لفظ "بعدی" حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کی تصریح کر رہا ہے
۔ اور تمام سفیھانہ اجتہادات کو باطل کر رہا ہے۔
نیز بشارات اہل بیت میں بھی گیارہویں روایت میں لفظ "بعدی" آیا ہے۔ نیز نبی کریمؐ سے دو روایات اور بھی کتب اہل سنت سے نقل کریں گے تاکہ کتب اہل سنت سے نقل شدہ دس روایات کے ساتھ ملاکر، اوّلاً: حضرت علی کی بلافصل خلافت کے قطعی تواتر کو ثابت کریں۔ ثانیاً: مخالفین کا دندان شکن جواب دے سکیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر تمام دس روایات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
۱ ۔ محمد بن یوسف
گنجی شافعی نے رسول اکرمﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
"وَ ه ُوَ یَعۡسُوبُ المؤمنینَ، وَ ه ُوَ بَابِیَ الّذی اُوۡتی مِنۡه ُ، وَ ه ُوَ خَلیفَتی "مِن بَعۡدی
""علی علیہ السلام مؤمنین کے بادشاہ مجھ تک پہنچنے کا دروازہ اور وہی میرے بعد میرے خلیفہ ہیں۔
نکات:
اوّل: رسول کریمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو مؤمنین کا بادشاہ قرار دیا ہے اور بادشاہت سے جس مطلب کا ذہن میں تبادر ہوتا ہے وہ اس کی "حاکمیت و فرمانروائی" ہے۔
دوم: کسی مکان و مقام میں وارد ہونے والے افراد کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
۱ ۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہین جو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہوجاتے ہیں؛ تمام عقلائے عالم ایسے افراد کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے دوسرے کی مِلک میں تجاوز کیا ہے لہذا مستحق عقاب قرار پائیں گے۔
۲ ۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو دروازے سے داخل ہوتے ہیں ۔ مذکورہ بالا روایت میں حضور سرورکائنات نے فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام مجھ تک آنے کا راستہ ہے لہذا جو میرے پاس آنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اسی دروازے کے ذریعے آئے۔ اب اگر کوئی شخص غیر راہ یا اس دروازہ سے ہٹ کر ورود کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے سارق کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
سوم: رسول اکرمؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی بن ابی طالب میرے بعد میرے خلیفہ و جانشین ہیں پس جو لوگ خلیفۂ پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہل حل و عقد نے انہیں رائے ( vote ) دیکر معین کیا ہے؛ اگر اس قسم کی رائے دہی کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی وہ خلیفہ نہیں کہلائے جاسکتے بلکہ اس صورت میں انہیں صرف صدر مملکت قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ خلیفہ کو "مستخلف" ہی معین کرسکتا ہے یعنی اگر رسول اللہ کسی کو معین کریں گے تو اسے "خَلیفَةُ رَسُولِ الله
" کہا جائے گا۔
لیکن اگر چند افراد جمع ہوکر کسی کے حق میں رائے دے دیں وہ بھی اگر واقعاً رائے دہی انجام پائی ہو تو اس شخص کو خلیفہ نہیں کہا جاتا بلکہ صدر مملکت کہا جاتا ہے۔ لہذا اگر رائے دہی کا دعویٰ کرنے والے خلیفہ پیغمبر ہونے کا دعویٰ کریں تو بالکل غلط ہے۔
چہارم: اس جیسی اور بہت سے روایات جن میں حضرت علی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کی تر یح کی گئی اہل سنت کے بزرگ علماء نے اپنی کتب میں نقل کی ہیں لہذا اس سلسلہ میں ہمارے اوپر کسی قسم کی تہمت و اعتراض وارد نہیں کیا جاسکتا۔
پنجم: پیغمبر اکرمﷺکی تصریح اور شیعہ و سنی کتب میں متفقہ طور پر اس قسم کی روایات کی موجودگی کی وجہ سے بے بنیاد باتیں کرنے والوں کا منہ بند ہوجانا چاہیے۔
۲ ۔ کفایۃ الطالب نے حضرت ابوذر غفاری سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
"تَرِدُ عَلَیَّ الۡحَوض رایَةُ عَلیٍّ امیرِ الۡمُؤمِنینَ وَ اِمامِ الۡغُرِّ الۡمُحَجِّلینَ وَ الۡخَلیفَةِ "مِن بَعۡدی
" "
حوض کوثر پر میرے پاس علی علیہ السلام امیرالمؤمنین، سفیدے چہرے والوں کے امام اور میرے بعد میرے خلیفہ و جانشین کا پرچم وارد ہوگا۔
نکات:
اول: رسول اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو اس روایت میں امیرالمؤمنین کے لقب سے یاد کیا ہے اور یہ بات خود حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے کی دلیل ہے۔
دوم: رسول کریمﷺنے خلفاء میں سے کسی بھی صاحب کو امیرالمؤمنین کے لقب سے یاد نہیں کیا ہے۔ بعبارت دیگر شیعہ و سنی کثیر التعداد روایات کے مطابق نبی کریمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے امیرالمؤمنین ہونے کی تصریح فرمائی ہے؛ لیکن ایک متفق علیہ روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں حضرت ابوبکر، عمر یا عثمان کو امیرالمؤمنین کہا ہو!
سوم: رسول اکرمﷺ نے "خلیفہ" اور "من بعدی" کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کی تصریح فرمائی ہے؛ جس طرح حضرت علی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین سے ملقب کرکے تصریح فرمائی ہے۔
۳ ۔ بیہقی، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی شافعی نے اپنی اپنی کتاب مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
"اِنَّه ُ لا یَنۡبَغی اَنۡ اَذۡه َبَ اِلّا وَ اَنۡتَ خَلیفَتی وَ اَنۡتَ اَوۡلی بِالۡمؤمِنینَ مِنۡ بَعۡدی
"
"یہ بات مناسب نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے چلا جاؤں مگر یہ کہ اے علیؑ! تم میرے بعد میرے خلیفہ اور مؤمنین کے سرپرست بن کر رہو۔
قارئین گرامی توجہ فرمائیے کہ حضور سرور کائنات ابتدائے کلام میں پہلے لفظ "لَا یَنبَغِی" کے ذریعے نفی کر رہے ہیں اس کے بعد لفظ "اِلّا" کے ذریعے اس نفی کی نفی کر رہے ہیں اور کلام عرب میں یہ انداز گفتگو "حصر" کا فائدہ پہنچاتا ہے اور اسے اصطلاح میں حصر بالفظِ الّا کہتے ہیں۔ بنابریں نبی کریمﷺ لفظ "الّا" کے ذریعے کلام کو مکمل فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں: "یہ بات مناسب نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے چلا جاؤں مگر یہ کہ اے علیؑ! تم میرے بعد میرے خلیفہ قرار پاؤ" قابل توجہ بات یہ ہے کہ کلام نبیؐ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ "اَنۡتَ اَوۡلی بِالۡمؤمِنینَ مِنۡ بَعۡدی
" کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کی تصریح فرمائی ہے۔ جس کے بعد کسی قسم کے شک و شبہ اور سفیھانہ اجتہاد کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی؛ کیونکہ مذکورہ جملہ میں "اِلّا وَ اَنۡتَ خَلیفَتی
" کے ذریعے یقین ہوجاتا ہے کہ اَولیٰ سے مراد امامت و رہبری ہے اور پیغمبر گرامی قدر نے خطبہ غدیر کی ابتداء میں حاضرین سے اسی مطلب کا اقرار لیا تھا؛ اور فرمایا تھا: "اَلَسۡتُ اَوۡلی بِکُمۡ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ"
اور لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا: "بلیٰ"
حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ علمائے اہل سنت علم نحو میں تو کبھی کبھی ایک لفظ اور کلمہ پر کئی کئی صفحات پر بحث کرتے ہیں اور بال کی کھال نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں چشم پوشی سے کام کیوں لیتے ہیں؟!
اگر کوئی عربی شاعر مثلاً "اِمرَءُ القیس" کوئی کلام کہتا ہے تو علمائے اہل سنت گھنٹوں اپنے شاگردوں کے سامنے اس پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں لیکن اگر نبی کریمؐ سے اس قسم کی کوئی تصریح وارد ہوتی ہے تو ہزار اغماض کے باوجود بغیر کسی توضیح و تشریح کے اس سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
اگر تعصبات کی عینک اتار دی جائے تو حقائق روز روشن کی طرح واضح ہوجائیں گے۔
۴ ۔ خصائصُ العلویہ
نے ابن عباس سے مناقب علی علیہ السلام نقل کئے ہیں اور آنجنابؑ کی منزلت ہارونی ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں کہ نبی کریمؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
"اَنۡتَ خَلیفَتی یَعنی فی کُلِّ مؤمِنٍ بَعۡدی
"
"اے علیؑ! تم میرے خلیفہ ہو یعنی میرے بعد ہر مؤمن پر خلیفہ ہو"
ہم یہاں علمائے اہل سنت سے سوال کرنا چاہیں گے کہ اگر رسول اسلامﷺ اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ المسلمین قرار دینا چاہیں تو کیا اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر بیان کریں گے؟!
اس روایت میں حضور سرور کائنات تصریح فرما رہے ہیں کہ علی علیہ السلام میرے بعد بلافصل خلیفہ ہیں۔ پس اس قسم کی روایت کی موجودگی میں علمائے اہل سنت کے لئے کسی اجتہاد کی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ کیونکہ نبی کریمﷺ نے تصریح فرمائی ہے اور تصریح کے مقابلے میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
۵ ۔ کتاب "الولایۃ"
میں نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے خطبۂ غدیر کے آغاز میں فرمایا:
"وَ قَد اَمَرنی جَبۡرَئیلُ عَنۡ رَبّی اَنۡ اَقوُمَ فی ه ذَا الۡمَشۡه َدِ وَ اُعۡلِمَ کُلَّ اَبۡیَض وَ اَسۡوَد اَنَّ عَلیَّ ابۡنَ ابیطالِبٍ اَخی وَ وَصیَّی وَ خَلیفَتی وَ الۡاِمامُ بَعۡدی
"
"جبرئیل نے مجھے پروردگار عالم کی جانب سے حکم سنایا ہے کہ میں اس مقام پر قیام کرکے تمام سفید و سیاہ لوگوں کو اس امر سے آگاہ کردوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی ، وصی، خلیفہ اور میرے بعد امام ہوں گے"
نکات:
۱ ۔ حضورؐ سرورکائنات نے فرمایا کہ پروردگار عالم کی جانب سے "امر و فرمان" آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت، حضرت علی علیہ السلام کی امامت و بلافصل خلافت کے بارے میں جو کچھ لوگوں سے فرمائیں گے وہ سب فرمانِ الٰہی ہوگا؛ جیسا کہ آیت کریمہ بھی ہماری بات اور تصریح روایت کی تائید کر رہی ہے؛ ارشاد ہوتا ہے""قالَ اللہُ تعالی:(
وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي ، هَارُونَ أَخِي ، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي
)
(طہ ۲۹ ۔ ۳۲) ۔ خدایا! میرے خاندان سے میرا وزیر بنا دے، میرے بھائی ہارون کو اس کے ذریعے میری پشت کو محکم کردے، اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے۔
جیسا کہ آیت کریمہ اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ حضرت موسیٰ جانتے ہیں کہ ان کی جانشینی کا مسئلہ پروردگار کے دست اختیار میں ہے بنابریں جیسا کہ لفظ "اِجعَل" سے واضح ہے کہ وہ خداوند کریم سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا جانشین بنا دے۔ پس اگر مسئلہ خلافت حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں ہوتا تو جانشینی ہارون کی درخواست کے بجائے ان کی خلافت کا اعلان کردیتے۔
نیز اسی طرح آیت ابلاغ (مائدہ آیت ۶۷) بھی دلالت کر رہی ہے کہ مسئلہ خلافت پروردگار کی جانب سے ہی ہے۔
۲ ۔ نبی کریمﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ امین وحی "جبرئیل" یہ فرمان لیکر آئے ہیں یعنی وحی مِن جانب الٰہی ہے جیسا کہ سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے:
(
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی، اِنۡ ه ُوَ اِلّا وَحی یُوحی
)
تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا، اس کا کلام وہی وحی ہے۔
نکتہ اول و دوم میں یہ فرق ہے کہ نکتہ اوّل میں اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ مسئلہ خلافت بطور عام ایک مسئلہ ہے جس کا "جعل" کرنا صرف خداوند عالم کے دست اختیار میں ہے اور صرف اللہ ہی اپنے نبی کا جانشین معین کرسکتا ہے جبکہ دوسرے نکتہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کا پیغام جبرئیل امین لیکر آئے تھے یعنی یہ پیغام بھی "وحی الٰہی" تھا، پس ذکر خاص بعد از عام ہے۔
۳ ۔ ابن جریر طبری نے اپنی کتاب "الولایہ" میں تصریح کی ہے کہ حضور سرور کائنات نے یہ فرمان غدیر کے دن فرمایا تھا اور خطبہ غدیر کے دیگر نسخوں (جو شیعوں کے پاس محفوظ ہیں) سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ گرامی قدر نے فرمایا تھا"اَنۡ اَقُومَ فِی ه َذا المَشۡه َد
" بنابرین اہل سنت کا یہ کہنا کہ "نبی کریمؐ نے غدیر میں صرف حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا اعلان فرمایا تھا" بالکل غلط ہے کیونکہ خود انہوں نے ہی روایت نقل
کی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے غدیر میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی تصریح کی ہے۔
علاوہ بریں یہ روایت شیعوں کے قول پر بہترین دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ کی لفظ مولیٰ سے مراد "اَولی بالتصرف" اور خلافت علی علیہ السلام ہے۔
۴ ۔ پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا:"اُعۡلِمَ کُلَّ اَبۡیَض وَ اَسۡوَد
" کہ تمام سفید و سیاہ لوگوں کو بتا رہا ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام لوگ حضور کے مخاطبین تھے، کوئی خاص طبقہ یا گروہ مقصود نہ تھا۔ نتیجتاً پیغمبر اکرمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو تسلیم کرنا تمام لوگوں پر لازم و واجب تھا۔
۵ ۔ حضورؐ نے اپنے اس کلام میں مختلف تاکیدی کلمات جیسے "قَد" اور "اَنَّ" استعمال کئے ہیں جو اس امر کی تصریح ہیں کہ علی علیہ السلام میرا بھائی ہے اور جس طرح سورہ طہ کی آیت نمبر ۲۹ کی روشنی میں "وزارت"، "امر تبلیغ میں شراکت" وغیرہ منزلت ہارونی ہیں اسی طرح "اخوت" بھی منزلت ہارونی ہے؛ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضورؐ سرورکائنات نے متعدد مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کے لئے فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام میرا بھائی ہے؛ جیسا کہ خوارزمی نے مناقب میں، ابن حجر مکی نے صواعقِ محرقہ میں اور ابن اثیر نے نہایہ کی جلد سوم میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا ہے: ہم لوگ خدمت پیغمبر اکرمﷺ میں موجود تھے کہ علی علیہ السلام تشریف لے آئے، پیغمبرؐ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: "قَدۡ اتَاکُم اَخِی
" دیکھو تمہاری طرف میرے بھائی (علی علیہ السلام ) آ رہے ہیں۔ پھر آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ تھام کر کعبہ کی طرف رخ کرکے فرمایا: "وَ الَّذی نَفۡسی بِیَدِه ِ اِنَّ ه ذا وَ شیعَتَه ُ ه ُمُ الۡفائزِوُنَ یَوۡمَ الۡقیامَةِ
" قسم ہے خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بتحقیق روز قیامت علیؑ اور ان کے شیعہ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
۶ ۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی علیہ السلام میرا وصی ہے۔ ہم نے اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام " میں ادائے غسل، ادائے دَین، وزارت و خلافت وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی وصیتوں کو ثابت کیا ہے اور منکرین وصیت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔
۷ ۔ پیغمبر اکرمﷺنے تصریح فرمائی ہے کہ علی علیہ السلام میرا خلیفہ ہے۔ اور حقیقتاً شیعہ و سنی متواتر روایات کی روشنی میں صرف حضرت علی علیہ السلام ہی رسول خداؐ کے بلافصل خلیفہ ہیں۔
ایک مرتبہ اہل سنت کے ایک شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے اس سے کہا: کیا تم اہل سنت رسول اکرمﷺ سے اس روایت کو نقل نہیں کرتے ہو کہ آپؐ نے فرمایا: "لا تجتمع اُمَّتی عَلَی الخَطاء، اَو عَلَی الضَّلآلَه
" یعنی میری امت خطا و گمراہی پر یکجا نہیں ہوسکتی۔
اس نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے۔
میں نے کہا: آپ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ امت اسلامی نے یکجا ہوکر اپنا ہاتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ میں دیدیا لہذا وہ خلیفہ ہوگئے۔
کہا: جی ہاں! ایسا ہی ہے۔
میں نے کہا: کیا تم اپنی اس بات سے پھر نہیں سکتے۔
کہا: ہر گز نہیں۔
میں نے کہا: بالفرض اگر امت جمع ہوئی ہو (حالانکہ جمع نہیں ہوئی تھی
) اور اہل حل و عقد نے حضرت ابوبکر کو رائے دی بھی ہو تب بھی حضرت ابوبکر صدر مملکت کہلائیں گے نہ کہ خلیفہ رسولؐ اللہ کیونکہ ضروری ہے کہ خلیفہ کو مستخلف ہی معین کرے اور متواتر روایات سے یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین معین فرمایا تھا پس حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول اللہؐ ہیں نہ کہ حضرت ابوبکر، ہذا اوّلا۔
ثانیاً: آپ کے قول کی روشنی میں تو حضرت عمر غاصب خلافت قرار پائیں گے کیونکہ انہیں ہرگز اہل حل و عقد نے رائے نہیں دی تھی بلکہ انہوں نے بالین حضرت ابوبکر کے پاس آکر ان پر اعتراض کیا تھا جیسا کہ منقول ہے اور کہا جاتا ہے کہ طلحہ اعتراض کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش تھے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ حضرت ابوبکر کی وصیت کی بنا پر حضرت عمر خلیفہ بنے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
۱ ۔ آپ ہی کے قول کے مطابق آپ کا معیار وصیت و انتصاب نہیں ہے بلکہ اہل حل و عقد کی رائے ہے۔
۲ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر کو پیغمبر گرامی قدر سے زیادہ عاقل و دانا اور فہیم سمجھ رہے ہیں کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی اور لوگوں کو حیرت زدہ چھوڑ کر دنیاسے رحلت فرما گئے۔ جبکہ حضرت ابوبکر دلسوز و عاقل تھے او ر وہ ہرگز اس بات پر راضی نہ تھے کہ لوگ ان کے بعد حیرت و استعجاب کا شکار ہوں لہذا انہوں نے حضرت عمر کی خلافت کے بارے میں وصیت کردی۔
ثالثاً: آپ اس بات کے قائل ہیں کہ "امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی" آپ کے اس قول کی روشنی میں تو حضرت عثمان کافر قرار پائیں گے کیونکہ لوگوں نے ان کے خلاف اجتماع کرکے انہیں قتل کردیا (یہ آپ ہی کے قول کا نتیجہ ہے اس میں کسی پر کوئی الزام و اعتراض وارد نہیں کیا جاسکتا)
کہا: جن لوگوں نے قتل عثمان پر اجتماع کیا وہ کافر تھے!!
میں نے کہا: یہ کیا بات ہے کہ جب چند لوگ خدعہ و نیرنک کے ذریعے سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ لوگ جمع ہوئے اور لوگ خطاء و گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتے لہذا انہوں نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنادیا۔ لیکن جب لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا تو وہ کافر ہوگئے؟!
جی ہاں حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر اپنے عقائد بناتے ہیں۔ کبھی حضرت ابوبکر کے لئے اجماع کے قائل ہیں
، کبھی حضرت عمر کے لئے وصیت و انتصاب
کا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور کبھی حضرت عثمان کے لئے شوریٰ
کے قائل ہوجاتے ہیں اور یہ حیرانی و اضطراب خود ان کے اصولوں کو باطل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
۸ ۔ پیغمبر اسلامﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی علیہ السلام میرے بعد امام ہیں۔ اب ہم یہاں اہل سنت سے سوال کریں گے کہ اگر رسولؐ اسلام اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ بنانا چاہیں گے تو کیا اس کے علاوہ کچھ اور فرمائیں گے؟!
دلچسپ بات یہ ہے کہ حتی ایک متفق علیہ روایت بھی ایسی دیکھنے میں نہیں آتی جس میں نبی کریمؐ نے فرمایا ہو کہ میرے بعد حضرت ابوبکر میرے وصی، امام اور خلیفہ ہوں گے جبکہ متعدد متواتر روایات پائی جاتی ہیں جن میں حضور سرورکائنات نے تصریح فرمائی ہے کہ "میرے بعد علی علیہ السلام میرے جانشین، وصی، وزیر اور امام ہوں گے اور ہم اب تک ایسی ہی کئی روایات پیش کرچکے ہیں منجملہ مذکورہ پانچ روایات بھی ہیں جن میں آنحضرت نے لفظ "بعدی یعنی میرے بعد" استعمال کیا ہے۔ اب ہم مزید پانچ روایات اسی سلسلہ میں پیش کر رہے ہیں۔
۶ ۔ احمد بن حنبل
، نسائی
، حاکم
اور ذہبی اپنی تلخیص میں درجہ ذیل روایت کی صحت کا اعتراف کرتے ہیں۔ نیز دیگر افراد جیسے صاحبان سنن بھی اس کی صحت پر اتفاق و اجماع کا اظہار کرتے ہیں اور تمام افراد نے اسے "عمرو بن میمون" سے نقل کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں: میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ۹ گروہ ان کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس یا آپ ہمارے ساتھ تشریف لائیے یا اپنے اطراف خلوت کیجئے ہم آپ سے علیحدگی میں کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
ابن عباس نے کہا: میں تمہارے ساتھ آتا ہوں۔
ابن میمون کہتے ہیں کہ ابھی ابن عباس کی بینائی موجود تھی، انہوں نے ایک طرف جاکر گفتگو شروع کردی، ہمیں نہیں معلوم ہوسکا کہ انہوں نے کیا بات کی (کچھ دیر بعد) ابن عباس اپنے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے: افسوس صد افسوس! لوگ ایسے شخص کی برائیاں کر رہے ہیں جس میں ایسی دس سے زیادہ فضیلتیں پائی جاتی ہیں جو کسی میں موجود نہیں ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے ۔۔۔ اور علی علیہ السلام سے فرمایا:"اَنۡتَ وَلیُّ کُلِّ مُؤۡمِنٍ بَعۡدی وَ مُؤمِنَةٍ
" اے علی ! تم میرے بعد ہر مؤمن اور مؤمنہ کے ولی و سرپرست ہو"۔
نکات:
اس روایت میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:
اوّلاً: رسول اکرمﷺ لفظ "بعدی" تصریح فرما رہے ہیں کہ میرے بعد میرا جانشین و خلیفہ علی علیہ السلام ہے۔
ثانیاً: روایت عام ہے کیونکہ حضور سرور کائنات نے ادات عموم یعنی لفظ "کُلّ" کا استعمال کیا ہے نیز دو لفظ مؤمن و مؤمنہ بھی استعمال کئے ہیں تاکہ تمام لوگوں کو بتا دیں کہ علی بن ابی طالب‘ "ہر مؤمن و مؤمنہ کے امام ہیں"۔
ثالثاً: اس روایت میں لفظ "ولی" امام اور اولیٰ بالتصرف کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کی تین دلیلیں ہیں:
۱ ۔ کثیر متواتر روایات مثلاً اسی باب کی تیسری روایت کہ جس میں پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا: "اَنۡتَ اَوۡلی بِالۡمؤمِنینَ مِنۡ بَعۡدی
" نیز حدیث غدیر کے آغاز میں آیا ہے: "اَلَسۡتُ اَوۡلی بِکُمۡ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ
" اولیٰ بالتر ف ہے یعنی حضرت علیؑ کی سرپرستی کا اعلان ہے۔
۲ ۔ آیۂ ولایت:(
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
)
(مائدہ: ۵۵) ۔
تمہارا سرپرست و ولی صرف خدا ہے، اس کا پیغمبر اور وہ مؤمنین ہیں جو نماز برپا کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہیں۔
جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں لفظ "ولیکم" آیت کریمہ میں "نص" ہے جس کے معنی سرپرست اور جس کا مصداق کامل حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں۔
۳ ۔ وہ متواتر روایات جو اس روایت کے لئے بمنزلہ تفسیر و بیان ہیں مثلاً اسی باب کی پانچویں روایت کہ جس میں ہم نے تفصیل کے ساتھ آٹھ نکات بیان کئے تھے جس میں نبی کریمؐ نے اس روایت کی طرف لفظ "بعدی" کے ذریعے تصریح کی ہے کہ علی علیہ السلام میرے بعد وصی، خلیفہ اور امام ہیں؛ علاوہ بریں کسی منصف مزاج شخص سے ان روایات کا اتحاد سیاق پوشیدہ نہیں ہے۔
۷ ۔ نیز جس روایت میں نبی کریمؐ نے لفظ "بعدی" کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کی تصریح فرمائی ہے، یہ روایت ہے:
احمد بن حنبل (اہل سنت کے معروف امام جن کی مسند اہل سنت کے یہاں نہایت معتبر مانی جاتی ہے) اپنی مسند
کتاب میں عبد اللہ بن بریدہ سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اورنسائی نے اپنی کتاب خصائص العلویہ میں ان کی عین عبارت نقل کی ہے:
جب ۸ ہجری میں پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن بھیجا تو مدینہ واپسی پر بعض لوگ پیغمبرؐ کی خدمت میں ان کی شکایت لیکر پہنچ گئے، یہ دیکھ کر حضور اتنے ناراحت و رنجیدہ ہوئے کہ آپ کے چہرے پر خشم کے آثار نمایاں ہوگئے اور بریدہ سے فرمایا: دیکھو ہرگز علی علیہ السلام کی برائی مت کرنا کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں "وَ ه ُوَ وَلیُّکُمۡ بَعۡدی
" اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و سرپرست ہیں۔
ہم نے اس سے ماقبل روایت میں لفظ "ولی" کے بارے میں جتنی دلیلیں پیش کی تھیں اور ثابت کیا تھا کہ یہاں "ولی" بمعنائے سرپرست اور اولیٰ بالتصرف ہے؛ اس روایت میں بھی وہی دلیلیں قائم ہیں۔
۸ ۔ شیخ سلیمان
نے کتاب مناقب خوارزمی سے روایت نقل کی ہے:
"وَ فی الۡمَناقِبِ حَدَّثَنا اَحۡمَدُ بنِ مُحمَّد بن یَحۡیَی الۡعَطّار، حَدِّثَنا اَبی عَنۡ مُحَمَّد بن عَبۡدِ الۡجَبّارِ عَنۡ اَبی اَحۡمَد مُحَمَّد بن زیادِ الۡاَزۡدی عَنۡ اَبانِ بن عُثۡمان عَنۡ ثابِت بِن دینار عَنۡ زَیۡنِ الۡعابِدینَ عَلیِّ ابۡنِ الۡحُسَیۡنِ عَنۡ اَبیه سَیّد الشُّه َداءِ الۡحُسَینِ عَنۡ اَبیه ِ سَیِّدِ الۡاَوۡصِیاء "عَلی" سَلامُ الله ِ عَلَیۡه ِمۡ قالَ، قالَ رَسولُ الله ِﷺ: اَلۡاَئِمَةُ "بَعۡدی" اِثنا عَشَرَ، اَوَّلُه ُمۡ اَنۡتَ یا عَلی وَ آخِرُه ُم اَلۡقَائِمُ الَّذی یَفۡتَحُ الله ُ عَزَوَجَلَّ عَلی یَدِیۡه ِ مَشارِقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا
"
رسول اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں اے علیؑ اول تم ہو اور آخری مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہوں گے جن کے ذریعے مشرق و مغرب فتح ہوجائیں گے۔
۹ ۔ ینابیع المودہ
اور حموینی
نے عبایہ بن ربعی کے توسط سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"اَنا سَیِّد ُ النَّبِیینَ، وَ عَلیٌّ سَیِّدُ الۡوَصییّنَ وَ اِنَّ اَوۡصیائی بَعۡدی اِثۡنا عَشرَ اَوَّلُه ُم "عَلی" وَ آخِرُه ُمۡ " الۡقائِمُ الۡمَه ۡدی (عج)"
میں انبیاء کا سردار اور علی علیہ السلام اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے بعد میرے بارہ جانشین ہوں گے جن میں اول علی علیہ السلام اور آخری قائم مہدی ہوں گے۔
اس روایت میں آنحضرت تصریح فرما رہے ہیں کہ "میرے بعد" بارہ اوصیاء ہوں گے؛ نیز تصریح فرما رہے ہیں کہ ان میں اول علی علیہ السلام اور آخری مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں۔
پس حضور سرور کائنات کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی تصریح کے بعد کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
بیان رسالت میں حضرت علی علیہ السلام کے حیرت انگیز فضائل
۱۰ ۔شیخ سلیمان قندوزی
نے موفق بن احمد خوارزمی سے ، عبد الرحمن بن ابی لیلی سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
نبی کریمﷺ نے خیبر کے دن پرچم حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں دیا اور خداوند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور غدیر خم میں رسول خداؐ نے حضرت علی علیہ السلام کا ان الفاظ میں تعارف کروایا:
"اِنَّهُ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ قَالَ لَهُ: أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ وَ اَنۡتَ تُقَاتِلُ عَلَى التَّأْوِيلِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى التَّنْزِيلِ وَ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى وَ أَنْتَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى وَ أَنْتَ تُبَيِّنُ لَهُمْ مَا اشْتَبَهَ عَلَيْهِمْ بَعْدِي "وَ أَنْتَ إِمَامٌ وَ وَلیٌّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ بَعْدِي" وَ أَنْتَ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ "وَ أَذانٌ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ وَ أَنْتَ الْآخِذُ بِسُنَّتِي وَ ذابُّ الۡبِدَعِ عَنْ مِلَّتِي وَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ اِنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ، وَ أَنْتَ مَعِي فی الۡجَنَّةِ وَ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُه ا اَنَا وَ أَنْتَ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ وَ إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ اَنْ اُخۡبِرَ فَضْلِكَ فَقُمْتُ بِهِ بَیۡنَ النَّاسِ وَ بَلَّغْتُهُمْ مَا أَمَرَنِيَ اللَّهُ بِتَبْلِيغِهِ وَ ذلِکَ قَوۡلُه ُ تَعَالی: یا اَیُّه َا الرَّسوُلُ بَلِّغۡ مَا اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَبِّکَ الآیة یا عَلیُّ، اِتَّقِ الضَّغَائِنَ الَّتِي ه ِیَ فِي صُدُورِ مَنْ لَا يُظْهِرُهَا إِلَّا بَعْدَ مَوْتِي أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ، ثُمَّ بَكَىﷺوَ قالَ: أَخْبَرَنِي جَبْرَئِيلُ أَنَّهُمْ يَظْلِمُونَهُ بَعۡدی وَ اِنَّ ذلِکَ الظُّلۡم یَبۡقی حَتّی اذا قَامَ قَائِمُهُمْ وَ عَلَتْ كَلِمَتُهُمْ وَ اجْتَمَعۡتِ الْأُمَّةُ عَلَى مَحَبَّتِهِمْ وَ كَانَ الشَّانِی لَهُمْ قَلِيلًا وَ الْكَارِهُ لَهُمْ ذَلِيلًا وَ كَثُرَ الْمَادِحُ لَهُمْ، وَ ذَلِكَ حِينَ تَغَيُّرِ الْبِلَادُ وَ اِلۡیَأۡسِ مِنَ الْفَرَجِ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَظْهَرُ قَائِمُ الۡمَه ۡدی مِنْ وُلْدِی یَقوُمُ يَظْهِرُ اللَّهُ الْحَقَّ بِهِمْ وَ يُخْمِدُ الْبَاطِلُ بِأَسْيَافِهِمْ وَ يُتْبِعُهُمُ النَّاسُ بَيْنَ رَاغِباً إِلَيْهِمْ اَوۡ خَائِفاً ثُمَّ قَالَﷺ: مَعَاشِرَ النّاسِ أَبْشِرُوا بِالْفَرَجِ فَإِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حقٌ لَا يَخْلُف، وَ قَضَائُهُ لَا يُرَدُّ وَ هُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ وَ إِنَّ فَتْحَ اللَّهِ قَرِیبٌ
"
بتحقیق علی بن ابی طالب‘ ہر مؤمن و مؤمنہ کے ولی و سرپرست ہیں، پھر حضورؐ نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے علیؑ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، تم اسی طرح تاویل قران کے بارے میں جنگ کرو گے جس طرح مجھے تنزیل قران کے سلسلہ میں جنگ کرنی پڑی ہے، تمہیں مضبوط و محکم ریسمان الٰہی ہو، تمہیں میرے بعد قران کی مشتبہ آیات کی وضاحت کرنے والے ہو، "تم ہی میرے بعد ہر مؤمن و مؤمنہ کے امام و ولی ہو" اور تم ہی وہ شخص ہو جس کے بارے میں خداوند عالم نے سورہ توبہ کی تیسری آیت میں فرمایا ہے: "حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے یہ خدا و رسولؐ کی ندا ہے" (سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کی طرف اشارہ ہے جو حجۃ الوداع میں حضرت علی علیہ السلام کے ذریعے قرائت کی گئیں تھیں)، تم ہی میری سنت پر عمل پیرا اور میری امت سے بدعتوں کو نابود کرنے والے ہو، میں پہلا شخص ہوں جس کے لئے زمین نے اپنے شگاف کو پُر کیا ہے، تم ہی جنت میں میرے ہمراہ ہوگے، جنت میں وارد ہونے والے سب سے پہلے افراد میں، تم، حسن و حسین اور فاطمہ ہیں، اللہ نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ میں تمہارے فضائل بیان کروں پس اللہ نے مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا تھا میں اسے بیان کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ہوں، اس نے مجھے حکم دیا" یا ایھا الرسول اس پیغام کو پہنچا دو جو تمہارے ربّ کی جانب سے تمہیں مل چکا ہے۔ اے علی علیہ السلام ! ان لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے کینے کی پرواہ مت کرو جو میری موت کے بعد ظاہر ہوں گے، خدا اور تمام لعنت کرنے والوں کی ان پر لعنت ہے۔ اس موقع پر حضور نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا: "جبرئیل نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ لوگ میرے بعد علی علیہ السلام پر ظلم کریں گے اور اہل بیت پر یہ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ قائم آل محمدؐ قیام کریں گے۔ ان کی بات بلند ہوجائے گی، ان کی محبت پر لوگ جمع ہو جائیں گے اور لوگ ان کی طرف جھک جائیں گے، ان کے مداح کثیر ہوجائیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جب شہروں کی حالت متغیر ہوجائے گی لوگ فَرَج و گشائش سے مایوس ہوجائیں گے پس اس وقت قائم مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا ظہور ہوجائے گا جو میری ہی نسل سے ہوں گے، خدا ان کے ذریعے حق کو استوار کر دے گا اور ان کی تلواروں کے ذریعے باطل کو نابود کردے گا، لوگ رغبت یا خوف سے ان کی اتباع کرنے لگیں گے۔
پھر فرمایا: اے لوگو! میں تمہیں فرَج و گشائش کی بشارت دیتا ہوں، یاد رکھو اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے جو کسی صورت ٹل نہیں سکتا، وہ حکیم و دانا ہے، یاد رکھو فتح خداوندی نزیک ہے"۔
نکات:
مذکورہ دس روایات میں حضورؐ سرور کائنات نے نص جلی و تصریح فرمائی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب‘ میرے بعد خلیفہ ، امام اور تمام مؤمنین کے سرپرست ہیں لہذا لفظ "بعدی" کے ذریعے حقیقت واضح اور روشن ہوجاتی ہے۔
صلاح الدین صفدی نے کتا ب وافی بالوفیات میں حرف الف کے ذیل میں ابراہیم بن سیار ہانی بصری بہ نظام معتزلی کے حالات میں لکھا ہے:
"نَصَّ النَّبیﷺ عَلی اَنَّ الۡاِمامَ علی علیه السلام ، وَ عَیَّنَه ُ وَ عَرَفَتِ الصَّحابَةُ ذلِکَ وَ لکِنۡ کَتَمَه ُ عُمَرُ لِاَجۡلِ اَبی بَکر
"
حضورؐ سرور کائنات نے امامت علی علیہ السلام پر نص فرمائی تھی اور انہیں لوگوں کا امام و رہبر معین فرمایا تھا اور اصحاب نے اس مطلب کو سمجھ بھی لیا تھا لیکن عمر بن خطاب نے رسول اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر کی خاطر خلافت بلافصلِ علی علیہ السلام کو کتمان کرلیا تھا۔
اب ہم اپنے محترم قارئین کے لئے مذکورہ دس روایات میں موجود چند اہم نکات پیش کر رہے ہیں:
۱ ۔ ابھی تک آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے بارے میں جو روایات ملاحظہ فرمائی ہیں جو اس سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات نبویؐ کے بحرِ بیکراں کا ایک معمولی سا قطرہ ہے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے حقیر کی تالیف کردہ کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام " کی طرف رجوع فرمائیں جس میں صفحہ ۵۴ تا ۸۰ کتب اہل سنت سے نصوص وصایت اور صفحہ ۸۰ تا ۱۱۱ ادلہ قاطعہ مثلاًٍ تمام صحابہ پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت پر چہل روایات بھی پیش کی ہیں۔
۲ ۔ مذکورہ تمام نصوص و روایات علمائے اہل سنت کی بیان کردہ ہیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمام کی تمام یہاں بیان نہیں کی جاسکتی ہیں اور اگر حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر شیعہ نصوص و روایات کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا جائے تو یہ متواتر روایات کا ایسا بحرِ بیکراں بن جائے گا کہ جس میں لجوج و متعصب غرق ہوجائے!
۳ ۔ ہم اپنے محترم قاری سے گزارش کرتے ہیں کہ پیغمبر ختمی مرتبت، خیر البشر حضرت محمد مصطفی ؐ کے فرمودات پر غور و فکر اور تدبر سے کام لیں کہ کیا خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی خلافت کے بارے میں اس طرح کی تصریحات وارد ہوئی ہیں؟!
روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حتی ایک متفق علیہ روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کی سند کو دونوں مذاہب نے صحیح قرار دیا ہو اور اس میں نبی کریمؐ نے حضرت ابوبکر، عمر یا عثمان کی خلافت کی تصریح فرمائی ہو۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں متعدد روایات ہی نہیں بلکہ آیات بھی نازل ہوئی ہیں جن کا مطالعہ کرنے والا اندازہ کرسکتا ہے کہ یقیناً حضرت علی علیہ السلام ، ہی نبیؐ کے بعد ان کے خلیفہ، جانشین اور وزیر ہیں۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ کس طرح آنحضرتؐ نے انہیں دنیا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیا ہے اور اپنے تمام رشتہ داروں پر مقدم رکھا ہے نیز کس طرح انہیں منزلت ہارونی پر فائز کیا ہے۔ صرف نبوت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام میں نبوت کے علاوہ آنحضرتؐ کی تمام صفات و خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ کی نسبت سے جو مقام و مرتبہ اور شرف ملا ہے ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں مثلاً مقام "وزارت"، "پشت پناہی"، امر تبلیغ رسالت میں "شرکت" اور تمام امت کے لئے "واجب الاطاعت" ہونا ہے کیونکہ ارشاد رب العزب ہے: (موسیٰ نے خدا سے درخواست کی) میرے خاندان سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے، اس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط کر دے اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے۔ (طہ ۲۹ تا ۳۲) ۔
نص قرانی کے مطابق سورہ اعراف کی ۱۴۲ ویں آیت میں حضرت موسیٰ نے ہارون سے فرمایا:(
وَقَالَ مُوسَى لأخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
)
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم قوم میں میری نیابت کرو اور اصلاح کرتے رہو اور خبردار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا۔
نیز خداوند عالم نے سورہ طہ کی ۳۶ ویں آیت حضرت موسیٰ سے فرمایا ہے:(
قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى
)
ارشاد ہوا موسیٰ ہم نے تمہاری مراد تمہیں دیدی ہے۔
بنابریں حضرت علی علیہ السلام آیات کریمہ اور حدیث منزلت (جو کہ شیعہ و سنی اتفاق نظر کے مطابق) جو کہ صحیح ہے، کی روشنی میں قوم میں آنحضرت کے خلیفہ و جانشین، ان کے خاندان میں سے ان کے وزیر، ان کے امر تبلیغ میں شریک، امت میں فضل و برتر قرار پائیں گے۔
بیشک جو شخص بھی سورہ طہ کی ۲۹ اور اس کے بعد والی آیات سے آشنا ہو نیز حدیث منزلت پر غور کرے تو اس کے ذہن میں یہ تمام مقام و منزلتیں سما جاتی ہیں اور وہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرسکتا۔
۴ ۔ اب ہم یہاں وہی بنیادی سوال کرنا چاہیں گے کہ اگر رسول اسلامﷺ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و جانشینی کا اعلان کرنا چاہتے تو کیا جو کچھ اب تک ہم نے کتب اہل سنت سے دلائل و روایات پیش کی ہیں؛ اس کے علاوہ کچھ اور بیان کرتے؟!
اس سوال کے جواب میں یہی کافی ہے کہ ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر منصفانہ فیصلہ کریں اور تعصبات کی عینک کو اتار کر رکھ دیں کیونکہ قیامت کے دن ہم سب سے اس کے بارے میں سخت سوال کیا جائے گا!!
۵ ۔ کیا خداوند عالم نے سورہ حشر کی آیت نمبر ۷ میں ارشاد نہیں فرمایا:
(
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
)
اللہ کا رسولؐ جو کچھ تمہارے لئے لایا ہے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے رک جاؤ۔
پس آخر کیا وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت رسول گرامی قدر کی اتنی کثیر متواتر روایات کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان کی طرف راغب ہوتے ہیں؟ آخر آیت اطاعت پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟!
محترم قارئین آپ خود فیصلہ کریں اگر اتنی کثیر روایات (کہ جن میں سے یہاں صرف دس روایات نقل کی گئی ہیں جن میں لفظ "بعدی" استعمال ہوا ہے) کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کے پیچھے جائیں اور حضرت علی علیہ السلام کو چوتھے درجہ پر رکھیں تو کیا عقلائے عالم کے اعتراض و مواخذہ سے بچ سکیں گے!؟
کیا قیامت کے دن ہم سے اس سلسلہ میں سوال نہیں کیا جائے گا؟! خدا اور اس کے رسولؐ کو کیا جواب دیں گے؟!
اگر کوئی غیر مسلم شیعہ وسنی کتب میں وارد ہونے والی اتنی کثیر اور متواتر روایات کا مشاہدہ کرکے مسلمانوں سے یہ سوال کرنے لگے کہ کیا وجہ کہ بعض لوگ ان تمام نصوص عالیہ کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کو چوتھے درجہ پر قرار دے رہے ہیں؛ تو آپ کیا جواب دیں گے؟!
پس اس حقیقت کے بارے میں فیصلہ آپ کے ضمیر کی عدالت پر چھوڑ رہے ہیں۔
۶ ۔ جب ہم کتب اہل سنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعض ایسی روایات نظروں کے سامنے آتی ہیں جن کے مطابق حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر ممانعت عائد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ہم یہاں بطور نمونہ صرف ایک مثال پیش کر رہے ہیں۔
ابو الفضل احمد بن طاہر اپنی کتاب تاریخ بغداد میں سند معتبر کے ساتھ اور ابن ابی الحدید
بھی حضرت عمر کی شرح زندگانی میں روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ راستہ میں ایک مقام پر عمر اور عبد اللہ بن عباس کا سامنا ہوگیا تو عمر نے عبد اللہ بن عباس سے سوال کیا تمہارے چچا زاد بھائی کا کیا حال ہے؟
ابن عباس نے کہا: جب میں ان سے آخری مرتبہ ملا تو دیکھا کہ وہ اپنے ڈول کے ذریعے کنوئیں سے پانی کھینچ رہے تھے اور لبوں پر ان کے تلاوت قران تھی۔
عمر نے کہا: دیکھو جو کچھ میں تم سے معلوم کرنا چاہتا ہوں اگر تم پردہ پوشی سے کام لو گے تو تمام قربان ہونے والے اونٹوں کا خون تمہاری گردن پر ہوگا؛ سچ بتاؤ! کیا اب بھی ان کے دل میں خلافت کی آرزو موجود ہے؟
ابن عباس نے کہا: کیوں نہیں!
حضرت عمر: کیا وہ یہ سمجھتے کہ رسول اللہﷺنے ان کی خلافت کی تصریح فرمائی تھی؟
ابن عباس: کیا اس سے بھی بڑھ کر بتاؤں؟ میں نے اپنے والد سے خلافت کے بارے میں نص سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: وہ سچ کہتے ہیں۔
عمر نے کا: یقیناً رسول اللہؐ ان کے (علیؑ) بلند مقام و مرتبہ کے قائل تھے لیکن ہرگز اس کا مطلب اثبات حجت یا قطع عذر نہ تھا۔ رسول خداؐ کبھی کبھی امت کو ان کے بارے میں آزماتے اور کبھی علی علیہ السلام کو امر خلافت سپرد کرنے کے سلسلہ میں امت کو آزماتے تھے اور جب اپنے آخری ایام میں بستر بیماری پر اس امر کی تصریح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو "میں ان کے اس عمل میں حائل ہوگیا"۔
(حضرت) عمر ابن خطاب کا یہ کہنا تو بالکل ٹھیک ہے کہ یقیناً پیغمبر گرامی قدر حضرت علی علیہ السلام کے بلند مقام و مرتبہ کے قائل تھے لیکن ان کا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ اپنا جانشین معین کرنے کے بارے میں نبی کریمﷺ کا فرمان حجت نہیں ہے۔ کیونکہ اگر حضور سرور کائنات رسول اللہﷺ کا فرمان اپنے جانشین کے بارے میں حجت نہیں ہوسکتا تو پھر کس کا قول حجت بن سکتا ہے؟!
جی ہاں در اصل حضرت عمر بن خطاب نے اس آیت کریمہ کو فراموش کر دیا جس میں اعلان ہوتا ہے:(
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
)
جو کچھ رسولؐ تمہیں دیدے اسے لے لو"۔
اگر واقعاً کوئی شخص عقیدہ رکھتا ہے کہ نص قرانی کی روشنی میں نبی کریمﷺ کا فرمان وحی الٰہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو بقول عمر حضور سرور کائنات گاہی بگاہی خلافت علی علیہ السلام کا اعلان کرتے رہتے تھے تو قطعی طور پر اسے یقین ہوجائے گا کہ فرمان نبیؐ اثبات حجت اور قطع عذر کا سبب ہے؛ مگر یہ کہ العَیَاذُ باللہ کوئی یہ توقع کرے کہ خود خدا آکر خلافت علی علیہ السلام کا اعلان کرے !!
حضرت عمر نے یہ بات بھی صحیح کہی ہے کہ پیغمبر اسلام اپنی بیماری کے وقت حضرت علی علیہ السلام کے نام کی تصریح کرنا چاہتے تھے لیکن وہ مانع ہوگئے تھے اور کہا تھا: "دَعَوۡا الرَّجلُ فَاِنَّه ُ لَیَه ۡجُرُ
" اس شخص کو رہنے دو، یہ ہذیان کہہ رہا ہے"۔ اسی لئے کتاب وافی بالوفیات میں حرف الف کے ضمن میں نظام (ابراہیم بن سیار) کے حالات کے ذیل میں آیا ہے کہ نظام قائل ہیں کہ"پیغمبر اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی تصریح فرمائی تھی اور علی علیہ السلام کو معین کر دیا تھا نیز صحابہ اس حقیقت سے آشنا تھے "وَ لکِنۡ کَتَمَه ُ عُمَرُ لِاَجۡلِ اَبی بکر
" لیکن عمر نے ابوبکر کی خلافت کی خاطر خلافت علی علیہ السلام پر پردہ ڈال دیا۔
ہم نے اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین " ص ۲۲۴ پر "جمعرات کے دن کے مصائب" کے عنوان کے تحت کچھ اہم مطالب نقل کئے ہیں۔ حقائق و واقعات سے آشنائی حاصل کرنے کے لئے وہاں رجوع کرسکتے ہیں۔
۷ ۔ اس قسم کا استدلال و احتجاج کہ جسے ہم نے پیش کیا ہے صدرِ اسلام ہی سے دیکھنے میں آتا ہے جیسا کہ حضرت عمر اور جناب عبد اللہ بن عباس کے مابین بحث ہوئی اور اس دوران حضرت عمر نے کچھ حقائق کا اعتراف بھی کیا ہے۔ عظیم عالم ربانی مرحوم سید عبد الحسین شرف الدین نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب "المراجعات" میں اس قسم کے استدلالات و احتجاجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
"بنی ہاشم نے اس زمانے میں بہت سے ایسے احتجاجات کئے ہیں یہاں تک کہ جب ایک مرتبہ حضرت ابوبکر منبرِ رسولؐ پر تھے تو امام حسن بن علی علیہ السلام نے قریب آکر فرمایا: میرے والد کے منبر سے نیچے اتر آؤ، نیز ایسا واقعہ امام حسین اور عمر بن خطاب کے مابین پیش آیا تھا۔
مزید تفصیلات اور حقانیت شیعہ کے لئے کتاب صواعق محرقہ
کی طرف رجوع فرمائیں جس میں آیہ مؤدت فی القربی گیارہویں باب کی چودھویں آیت کے ذیل میں دونوں واقعات نقل کئے ہیں۔
شیعہ کتب میں ایسے ہی صحابہ و بنی ہاشم اور تابعین کے بہت سے احتجاجات ثبت کئے ہیں مثلاً مرحوم علامہ طبرسی نے کتاب احتجاج میں متعدد صحابہ کے احتجاج کا تذکرہ کیا ہے منجملہ: خالد بن سعید بن عاص اموی نے سلمان فارسی سے اسی طرح ابوذر غفاری، عمار یاسر، مقداد، برید اسلمی، ابو الہیثم بن تیہان، سہل و عثمان بن حنیف، خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین، ابی بن کعب اور ابو ایوب انصاری وغیرہ نے پیغمبر ؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کے بارے میں احتجاج کیا اور دلائل سے ثابت بھی کیا ہے نیز انہوں نے سقیفہ کے جعلی اجماع کی بھرپور مخالفت بھی کی تھی، ہم نے اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام " میں اس اجماع کی مخالفت کرنے والے اصحاب کہ جن کے نام اہل سنت کی کتب میں بھی فرداً فرداً موجود ہیں؛ تذکرہ کیا ہے۔
اخبار اہل بیت علیھم السلام اور ان کے دوستداروں کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے والا اچھی طرح اس بات کو محسوس کرسکتا ہے کہ انہوں نے کوئی موقع و محل ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس طرح بھی، جہاں بھی، جب بھی موقع ملتا خلافت بلافصل علی علیہ السلام کے بارے میں تصریح یا اشارہ (نرمی یا شدت کے ساتھ) کردیتے، نیز تقریر و خطابت یا تحریر یا شعر یا نثر کی صورت میں جس طرح ممکن ہوتا اپنا پیغام پہنچا دیتے تھے حالانکہ سخت سے سخت حالات اور شدید ترین واقعات سے دچار ہونا پڑتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود حضرت سرور کائنات کی وصیت یاد دلاتے رہتے اور احتجاج کرتے رہتے تھے جیسا کہ اہل علم حضرات اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں۔
حتیٰ کہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانہ ہی میں سن ۱۰ ہجری میں خطبۂ غدیر کے بعد آنحضرتؐ کے اِذن مبارک سے حسان بن ثابت نے اس سلسلۂ میں اشعار نظم کئے جنہیں علماءِ اہل سنت نے بھی اپنی مختلف کتب میں نقل کیا ہے؛ انہوں نے اپنے ان اشعار میں نصّ نبوی کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ، نبی کریمﷺ کے بعد امت کے امام و ہادی اور سرپرست ہیں۔ ہم بحث کی مناسبت
کی بنا پر یہاں ان اشعار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
غدیر میں حسان بن ثابت کے اشعار
حافظ ابو نعیم اصفہانی
، محمد بن عمران خراسانی
، ابو سعید خرکوشی
، سجستانی
، خوارزمی
، ابن جوزی
، محمد بن یوسف گنجی شافعی
، حموینی
اور جلال الدین سیوطی
نے نقل کیا ہے کہ خطبہؐ غدیر کے بعد حسان بن ثابت نے عرض کیا:
"اے رسول خداﷺ! علی علیہ السلام کی شان میں اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا: خدا برکت عطا کرے؛ پیش کرو! انہوں نے کھڑے ہوکر عرض کیا:
يُنَادِيهِمْ يَوْمَ الْغَدِيرِ نَبِيُّهُمْ بِخُمٍّ فَاَسمع بِالرَّسُولِ مُنَادِياً
يَقُولُ فَمَنْ مَوْلَاكُمُ وَ وَلِيُّكُمْ؟ فَقَالُوا وَ لَمْ يَبْدُوا هُنَاكَ التَّعَامِيَا
إِلَهُكَ مَوْلَانَا وَ أَنْتَ وَلِيُّنَا وَ لَنْ تَرَ مِنّا فِی الۡوِلَایَةِ عَاصِياً
فَقَالَ لَهُ قُمْ يَا عَلِيُّ فَإِنَّنِي رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماً وَ هَادِياً
ه ُناکَ دَعا اَللّه ُمَّ والِ وَلیَّه ُ وَ کُنۡ لِلّذی عادی عَلیّاً مُعادیاً
۱ ۔ روز غدیر نبی کریمﷺ نے لوگوں کو آواز دی، پس اس دن حضور ؐ نے کیا خوب فرمایا۔
۲ ۔ تمہارا مولا و سرپرست کون ہے؟ کور دِ ل لوگوں نے اظہار نہ کیا جبکہ سب نے کہا۔
۳ ۔ آپ کا پروردگار ہی ہمارا مولا ہے اور آپ ہی ہمارے ولی و سرپرست ہیں۔ اور امر ولایت میں ہمیں آپ نافرمان نہ پائیں گے۔
۴ ۔ پس پیغمبر اسلامﷺ نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی علیہ السلام اٹھو کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ تم میرے بعد امت کے امام و ہادی ہو۔
۵ ۔ اس موقع پر آنحضرت نے دعا فرمائی پروردگار! علی علیہ السلام کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو اپنا دشنت قرار دے۔
بزرگ عالم دین علامہ امینی
نے اپنی کتاب "الغدیر" میں اہل سنت اور شیعہ کتب سے یہ اشعار نقل کئے ہیں۔ نیز حدیث غدیر بارے میں مختلف ادوار میں جن عرب شعراء نے اشعار نظم کئے اور اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کی "خلافت"، "امامت" اور "ولایت" کو امت پرمکمل سرپرستی شمار کرتے ہیں اور علمائے اہل سنت نے انہیں اپنی مختلف کتب میں نقل کیا ہے؛ اور اعتراف کیا ہے کہ نبیؐ کریم نے اس حدیث کے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کی تبلیغ کا ارادہ فرمایا ہے۔ "قالَ الله ُ تَعالی
:(
فَماذا بَعۡدَ الۡحَقِّ اِلَّا الضَّلال
)
اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
لفظ "بعدی" پر اشکال اور اس کے جوابات
بعض علمائے اہل سنت یہاں لفظ "بعدی" کے بارے میں اشکال وارد کرتے ہیں جس کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔
اشکال:
کلام عرب میں لفظ "بعدی" میں اتنی زیادہ وسعت پائی جاتی ہے کہ اس لفظ کا اطلاق "فورا بعد" ہی پر نہیں ہوتا بلکہ مع الفصل کے اوپر بھی اطلاق ہوتا ہے یعنی اس لفظ کا اطلاق نبی کریمﷺ کے فورا بعد ہی پر اطلاق نہیں ہوگا بلکہ آنحضرت کے ۲۵ سال بعد بھی لفظ بعدی کا استعمال صحیح ہے پس پیغمبر اسلام یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو بتا دیں کہ علی علیہ السلام میرے ۲۵ سال بعد میرے امام و خلیفہ ہوں گے۔
پس اگر پیغمبر اکرمﷺ سے یہ روایت نقل ہوتی ہے کہ میرے بعد علی بن ابی طالب‘ تمہارے امام ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے ۲۵ سال بعد علی علیہ السلام امام قرار پائیں گے۔
جواب:
اول۔ کتب اہل سنت سے نقل شدہ دس روایات میں لفظ "بعد" یائے متکلم "ی" کی طرف مضاف ہوا ہے؛ جو تین دلیلوں کی بنا پر بلافصل ہونے پر دلالت کر رہا ہے:
۱ ۔ دلیل تبادر: مخاطبین جب رسول اکرمؐ سے یہ جملہ سنتے ہیں کہ "میرے بعد علی بن ابی طالب خلیفہ ہوں گے" توجو بات فورا ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام ، نبی کریمﷺ کی رحلت کے فورا بعد خلیفہ قرار پائیں گے خصوصاً جبکہ مختلف انداز سے یہ لفظ نقل ہوا ہےمثلاًٍ: "ه و خلیفتی مِنۡ بَعۡدی، اَنۡتَ خلیفتی و اَنۡتَ اَوۡلی بِالۡمُؤۡمنین مِنۡ بَعۡدی، اَنۡتَ وَلیُّ کُلّ مؤمنٍ بَعۡدی و مؤمِنَةٍ، اَخی و وَصیِّی و خلیفتی وَ الاِمامُ بَعۡدی
۔۔۔"
۲ ۔ دلیل صحت حمل: ہر عام و خاص پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ لفظ "بعدی" کو بلافصل پر حمل کرنا صحیح ہے؛ یعنی نبی کریمؐ کے فورا بعد حضرت علی علیہ السلام کو ان کا جانشین تسلیم کرنا چاہیے۔
۳ ۔ دلیل عدم صحت سلب: یعنی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ "لفظ بعدی" بلافصل پر حمل نہیں ہوتا تو اس کا یہ کلام خطاء اور غلط ہے۔ ہرگز یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نبی کریمؐ کے بعد امامت بلافصل علی علیہ السلام لفظ "بعدی" سے منافات رکھتا ہے۔
دوم۔ اگر اس بات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے کہ لفظ "بعدی" کو مع الفصل پر حمل کرنا بغیر کسی قرینہ کے صحیح ہے تو آنحضرت کی رحلت کے بعد حضرت علی بلافصل خلیفہ بھی قرار پائیں گے کیونکہ ایک مسلَّم قاعدہ ہے کہ جب کسی لفظ کو حقیقی معنی پر حمل کرنا مشکل ہوجائے تو اسے اقرب المجازات پر حمل کیا جاتا ہے بنابریں حضرت علی علیہ السلام نبی کریمؐ کے بعد بلافصل خلیفہ قرار پائیں گے کیونکہ لفظ بعدی کا اقرب المجازات مورد بلافصل ہی ہے۔
سوم۔ نبی کریمﷺ نے متعدد مقامات پر نصّ جلی کے مطابق اپنے بعد اپنے امام و جانشین کو معین فرمایا ہے لہذا کسی کے لئے اب کوئی عذر اور بہانہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے؛ اور وہ روایات اثنی عشریہ ہیں جن میں آپ نے فرمایا ہے: میرے پہلے خلیفہ علی علیہ السلام ہوں گےلہذا نصّ جلی کی روشنی میں چوتھے ہونے کی نفی ہو رہی ہے۔ ہم یہاں بطور نمونہ صرف تین روایات پیش کر رہے ہیں اگرچہ اس سے قبل روایات اثنی عشریہ کے بارے میں کچھ توضیحات پیش کر رہے ہیں؛ شیخ سلیمان بلخی حنفی
رقمطراز ہیں۔
"ذَکَرَ یَحۡییَ بن الۡحَسَنِ فی کتابِ الۡعُمۡدَةِ مِنۡ عِشۡرینَ طَریقاً فی اَنَّ الۡخُلَفاءَ بَعۡدَ النَّبیﷺ اِثۡنی عَشَرَ خَلیفَه ، کُلُّه ُمۡ مِنۡ قُرَیۡش، فیِ الۡبُخاری مِنۡ ثَلاثَةِ طُرُق، وَ فی مُسۡلِم مِنۡ تِسۡعَةِ طُرُق، وَ فی اَبی داوُد مِنۡ ثَلاثَةِ طُرُق، وَ فِی التِّرمَذی مِنۡ طَریقٍ واحدٍ، وَ فیِ الۡحَمیدی مِنۡ ثَلَاثِة طُرُق
"
یحیی ابن حسن نے کتاب "العمدۃ" میں بیس طریق اسناد سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ کے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریشی ہوں گے، یہ روایت صحیح بخاری میں تین طریق سے ، صحیح مسلم میں نو طریق سے، سنن ابی داؤد میں تین طریق سے، صحیح ترمذی میں ایک طریق سے اور حمیدی میں تین طریق سے نقل کی گئی ہے۔
اب ہم ذیل میں روایات اثنی عشریہ میں سے وہ تین روایات پیش کر رہے ہیں جن میں رسول اکرمﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی بن ابی طالب‘ میرے بعد خلیفہ و جانشین ہوں گے۔
۱ ۔ "وَ فیِ الۡمَناقِبِ حدَّثنَا اَحمَدُ بۡنُ محمّدِبۡنُ یَحۡیی الۡعَطار حَدَّثَنا اَبی عَنۡ محمّدِ بۡنِ عَبۡدِ الۡجَبّار عَنۡ ابی اَحۡمَد مُحَمّدِ بۡنِ زیادِ الۡاَزۡدِی عَنۡ اَبانِ بن عُثمان عَنۡ ثابِتِ بن دینار عَنۡ زَیۡنِ الۡعابدین عَلیِّ بن الۡحُسَیۡنِ عَنۡ اَبیه ِ سَیِّد الشُّه َداء الۡحُسَیۡنِ عَنۡ اَبیه ِ سَیِّدِ الۡاَوۡصیاءِ اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ عَلی سَلامُ الله عَلَیۡه ِمۡ قَالَ قالَ رَسُولُ الله ﷺ: اَلۡاَئِمَّةُ بَعۡدی اِثۡنی عَشَرَ اَوَّلُه ُمۡ اَنۡتَ یا عَلیُّ وَ آخِرُه ُمۡ اَلۡقائِم الَّذی یَفۡتَحُ الله ُ عَزَّوَجَلَّ عَلی یَدَیۡه ِ مَشارِقَ الۡاَرۡضِ وَ مَغارِبَه ا
"
شیخ سلیمان حنفی
روایت کرتے ہیں: میرے بعد بارہ امام ہوں گے، اے علی علیہ السلام ان میں سے پہلے تم ہو اور آخری قائم ہوں گے خداوند عالم جن کے ہاتھوں میں مشرق و مغرب کی فتح عطا کرے گا۔
۲ ۔ "وَ فیِ الۡمَناقِبِ حدَّثنَا اَصۡحابُنا وَ قالوُا حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بۡنُ ه َمّام قالَ حَدَّثَنا جَعۡفَرُ بۡن مُحَمَّد بۡنِ مالِکِ الۡفِراری، قالَ: حَدَّثَنی اَلۡحُسَیۡنُ بن مُحَمَّد بۡنِ سَماعَة قالَ حَدَّثَنی اَحۡمَدُ بۡنُ الۡحارِثِ قالَ حَدَّثَنی الۡمُفَضَّلُ بن عُمَر عَنۡ یُونُسِ بن ظَبۡیان عَنۡ جابِرِ بۡنِ یَزیدِ الۡجُعفی قالَ سَمِعۡتُ جابِرَ بۡنَ عَبۡدِ الله ِ الۡاَنۡصاری یَقُولُ: قالَ لی رَسُولُ الله ِﷺ: یا جابِرُ اِنَّ اَوۡصیائی وَ اَئِمَّةَ الۡمُسۡلِمینَ مِنۡ بَعۡدی اَوَّلُه ُمۡ عَلی ثُمَّ الۡحَسَنُ ثُمَّ الۡحُسَیۡنُ
۔۔۔"
نیز شیخ صاحب
روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے جابر! میرے بعد میرے اوصیاء اور جانشینوں میں سے اول علی علیہ السلام ہوں گے پھر حسنؑ، پھر حسین ۔۔۔ ہوں گے۔
تفسیر صافی و نفحات الرحمن میں بھی آیۂ اطاعت (سورۂ نساء/ آیت ۵۹) کے ذیل میں ایسی ہی روایت نقل کی گئی ہے۔
۳ ۔ "وَ فیِ الۡمَناقِبِ عَنۡ واثِلَةِ بن الۡاَصۡقَعِ بن قَرۡخاب عَنۡ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِي قَالَ: دَخَلَ جَنْدَلُ بْنُ جُنَادَةَ بن جُبَیۡرِ الْيَهُودِيُّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ –وَ آلِه ِ- وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَمَّا لَيْسَ لِلَّهِ، وَ عَمَّا لَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ، وَ عَمَّا لَا يَعْلَمُهُ اللَّهُ، فَقَالَﷺ اما ما لَيْسَ لِلَّهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ شَرِيكٌ ، وَ اما ما لَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ فَلَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ ظُلْمٌ لِلْعِبَادِ، وَ اما ما لَا يَعْلَمُهُ اللَّهُ فَذَلِكَ قَوْلُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ اِنَّ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَ اللَّهُ لَا يَعْلَمُ أَنَّه ُ لَهُ وَلَدٌ بَلۡ یُعَلِّمُ اَنَّه ُ مَخۡلُوقُه ُ وَ عَبۡدُه ُ، فَقالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقّاً وَ صِدۡقاً ثُمَّ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ فِي النَّوْمِ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ‘، فَقَالَ: يَا جَنْدَلُ أَسْلِمْ عَلَى يَدِ مُحَمَّدٍ خاتَمِ الۡاَنبیاءِ وَ اسْتَمْسِكْ بِالْأَوْصِيَائَه ُ مِنْ بَعْدِه فَقُلۡتَ أَسْلَمۡ، فَلِلّٰه ِ الۡحَمۡدُ اَسۡلَمۡتُ وَ ه َدانی بِکَ، ثُمَّ قالَ: أَخْبِرْنِي یا رَسوُلَ الله ِ عَنۡ أَوْصِيَائِکَ مِنۡ بَعْدِكَ لِأَتَمَسَّكَ بِهِمْ، فَقَالَ: أَوْصِيَائِي اَلۡاِثۡنا عَشَرَ، قَالَ جَنۡدَلُ هَكَذَا وَجَدْنَاه ُمۡ فِي التَّوْرَاتِ وَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِّهِمْ لِي فَقَالَ: اَوَّلُه ُمۡ سَيِّدُ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَبُو الْأَئِمَّةِ عَلِيُّ ثُمَّ ابْنَاه ُ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ فَاسْتَمْسِكْ بِهِمْ وَ لَا يَغُرَّنَّكَ جَهْلُ الْجَاهِلِين
۔۔۔"
نیز شیخ سلیمان
نے واثلہ بن اصقع بن قرخاب کے حوالے سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: جَندل بن جنادہ یہودی، رسول اکرمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے محمدﷺ بتائیے! وہ کیا چیز ہے جو خدا کےلئے نہیں، وہ کیا چیز ہے جو خدا کے پاس نہیں ہے اور وہ کیا چیز ہے خدا نے جس کی تعلیم نہیں دی ؟
حضورؐ نے فرمایا: جو خدا کے لئے نہیں ہے وہ شریک ہے؛ جو چیز خدا کے پاس نہیں ہے وہ بندوں پر ظلم کرنا ہے؛ اور جس چیز کی خدا نے تعلیم نہیں دی وہ بات ہے جس کے تم یہودی قائل ہو کہ "عزیر" پسر خداوند عالم ہے حالانکہ خداوند عالم نے ہرگز تمہیں اس بات کی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ اس نے تو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ عزیر مخلوق اور بندۂ خدا ہیں۔ یہ سن کر یہودی کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور شہادت دیتا ہوں کہ آپ ہی اس کے برحق نبی و رسولؐ ہیں؛ اور یہ ایک سچی حقیقت ہے۔
پھر جندل نے عرض کیا: میں نے شب گذشتہ خواب میں حضرت موسیٰ بن عمران کو دیکھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے جندل محمد مصطفی خاتم الانبیاءﷺ کی تصدیق کرکے مسلمان ہوجاؤ اور ان کے بعد ان کے جانشینوں اور اوصیاء سے متمسک ہو جاؤ۔ پس آپؐ نے بھی مجھ سے فرمایا: کہ مسلمان ہوجاؤں۔ لہذا الحمد للہ میں مسلمان ہوگیا اور آپؐ کے وسیلہ سے میں نے ہدایت حاصل کرلی۔ اے رسول خدا! اب آپ ؐ مجھے اپنے بعد آنے والے اوصیاء کے بارے میں بتائیے تاکہ میں ان سے متمسک ہوجاؤں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: میرے بارہ اوصیاء ہوں گے۔
جندل نے عرض کیا: ہم نے توریت میں یہی پڑھا ہے کہ (نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر) بارہ جانشین ہوں گے۔ یا رسول اللہﷺ! ان کے اسمائے مبارکہ بھی بتا دیئےر!
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان میں سے پہلے سید الوصیّین، ابو الائمہ علی بن ابی طالب‘ ہوں گے ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسن و حسینؑ پس ان سے متمسک رہنا کہ جہل جاہلین تمہیں فریب نہ دیدیے ۔۔۔
بطور نمونہ پیش کی جانے والی یہ تین روایات آپ نے ملاحظہ فرمائی ہیں ان میں حضورؐ سرور کائنات نے نصّ جلی کے مطابق فرمایا ہے کہ میرے بعد پہلے امام علی بن ابی طالب‘ ہوں گے۔
اب ہم اس موقع پر شیخ سلیمان بلخی حنفی کی تحقیق و پیش کرنا مناسب سمجھ رہے ہیں
:
"قالَ بَعۡضُ الۡمحقّقین اِنَّ الۡاَحادیثَ الدّالّةَ عَلی کَوۡنِ الۡخُلَفاءِ بَعۡدَه ُﷺ اِثۡنی عَشَرَ قَدۡ اِشۡتَه َرَتۡ مِنۡ طُرُقٍ کَثیرَةٍ فَبِشَرۡحِ الزَّمانِ وَ تَعۡریفِ الۡکَوۡنِ وَ الۡمَکانِ عُلِمَ اَنَّ مُرادَ رَسوُلِ الله ِﷺ مِنۡ حَدیثِه ، ه ذَا الۡائِمَّةِ الاِثۡنا عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ عِتۡرَتِه ِ اِذۡ لا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِل ه ذَا الۡحَدیثِ عَلَی الۡخُلَفاءِ بَعۡده مِنۡ اَصۡحابِه لِقِلَّتِه ِمۡ عَنۡ اِثۡنی عَشَرَ ولا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِلَه ُ عَلَی الۡمُلُوکِ الۡاُمَویَّةِ لِزیادَتِه مۡ عَلی اِثۡنی عَشَرَ وَ لِظُلۡمِه ِمُ الۡفاحشِ اِلّا عُمَر بنۡ عَبۡدِ الۡعَزیزِ وَ لِکَوۡنِه ِمۡ غَیرَ بَنی ه اشِمٍ لِاَنَّ النَّبی صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ قالَ کُلُّه ُمۡ مِنۡ بَنی ه اشِمٍ فی روایَة، عَبۡدِ الۡمَلِکِ عَنۡ جابِرٍ، وَ اِخۡفاءُ صَوۡتِه صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ فی ه ذَا الۡقَوۡلِ یُرَجَّحُ ه ذِه ِ الرِّوایَةَ، لِاَنَّه ُمۡ لا یُحَسِّنُونَ خِلافَةَ بَنی ه اشِمٍ وَ لا یُمۡکِنُ اَنۡ یَحۡمِلَه ُ عَلَی الۡمُلُوکِ الۡعَبّاسِیَّةِ لِزیادَتِه ِمۡ عَلَی الۡعَدَدِ الۡمَذۡکُورِ، وَ لِقِلَّةِ رَعایَتِه مۡ الۡآیَة:
قُلۡ لا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡه ِ اَجۡراٍ اِلّا الۡمَوَدَّةَ فِی الۡقُرۡبی
(شوری، ۲۳)، و حدیث الۡکَساءِ، فَلا مِنۡ اَنۡ یَحۡمِلَ ه َذا الۡحَدیثِ عَلَی الۡاَئِمَّةِ الۡاِثۡنی عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ عِتۡرَتِه صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ، لِاَنَّه ُمۡ کانُوا اَعۡلَمَ اَه ۡلِ زَمانِه ِمۡ وَ اجَلَّه ُمۡ وَ اَوۡرَعَه ُمۡ وَ اَتقاه ُمۡ وَ اَعۡلاه ُمۡ نَسَباً، وَ اَفۡضَلَه ُم حَسَباً وَ اَکۡرَمَه ُمۡ عِنۡدَ الله ِ، وَ کانَ عُلوُمُه ُمۡ عَنۡ آبائِه ِمِ مُتَّصِلاً بِجَدِّه ِمۡ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه -وَ سَلَّمۡ، وَ بِالۡوِراثَةِ وَ الدّینَةِ کَذا عَرَفَه ُمۡ اَه ۡلُ الۡعِلۡمِ وَ التَّحۡقیقِ وَ اَه ۡلُ الۡکَشۡفِ وَ التَّوفیقِ، وَ یُؤَیِّدُ ه ذَا لۡمَعۡنی ای اَنَّ مُرادَ النَّبی صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ الۡائِمَّةُ الۡاِثۡنی عَشَرَ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتِه وَ یَشۡه َدُه ُ وَ یُرَجِّحُه ُ حَدیثُ الثَّقَلَیۡنِ وَ الۡاَحادیثُ الۡمُتَکَثِّرَةُ الۡمَذۡکُورَةُ فی ه ذَا الۡکِتابِ وَ غَیۡرِه ا، وَ اَمَّا قَوۡلُه ُ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ کُلُّه ُمۡ تَجۡتَمِعُ الۡاُمَّةُ فی روایَةٍ عَنۡ جابِرِ بۡنِ سَمُرَة فمُرادُه ُ صَلَّی الله َ عَلَیۡه ِ - وَ آلِه - وَ سَلَّمَ اَنَّ الۡاُمَّةَ تَجۡتَمِعُ عَلَی الۡاِقۡرارِ بِاِمامَةِ کُلِّه ِمۡ، وَقتَ ظُه وُرِ قائِمِه ِمُ الۡمَه ۡدی رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ"
نبی کریمؐ کے بعد بارہ خلفاء کی تعداد بیان کرنے والی روایات متعدد اَسناد و طُرق کے ساتھ نقل کی گئی ہیں پس پیغمبر گرامی قدر سے مختلف اوقات و مقام پر صادر ہونے والی ان روایات سے یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ روایات اثنی عشریہ میں نبی کریمﷺ کی مراد یہی بارہ ائمہ اہل بیت عصمت و طہارت ہیں؛ کیونکہ نبیؐ کے بعد خلفاء پر ان روایات کا اطلاق صحیح نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعداد صرف چار ہے، مُلوک اموی پر بھی اس کا اطلاق ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور عمر و بن عبد العزیز (کہ جس نے فدک واپس کردیا تھا اور سبِّ علی علیہ السلام کو ممنوع قرا ر دیا تھا) کے سوا سب نے اہل بیت پر بھرپور ظلم و ستم روا رکھا تھا۔ اور خصوصاً بنی امیہ، بَنی ہاشم سے بھی نہیں ہیں۔ جبکہ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ یہ بارہ خلفاء بنی ہاشم سے ہوں گے۔ عبد الملک کی جابر سے نقل کردہ روایت کے مطابق نبی مکرَّم نے آہستہ سے فرمایا کہ یہ بارہ خلفاء بنی ہاشم میں سے ہوں گے؛ اور یہاں نبی کریمؐ کا عمل روایت کی ترجیح کا سبب بن رہا ہے کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ بنی امیہ، کسی صورت بنی ہاشم کی خلافت کو قبول نہ کریں گے۔
نیز عباسی بادشاہوں پر بھی ان روایات اثنی عشریہ کو حمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے بہت زیادہ ہے۔ اور انہوں نے اس آیت کریمہ:قُلۡ لا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡه ِ اَجۡراٍ اِلّا الۡمَوَدَّةَ فِی الۡقُرۡبی
(شوری، ۲۳) اور حدیث کساء پر عمل نہیں کیا ہے۔ لہذا ان روایات کو بارہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام ہی پر حمل کرنا صحیح ہے کیونکہ اہل بیت رسولؐ ہی اپنے دور میں سب سے زیادہ عالم، متقی پرہیزگار، حسب و نسب سے سب سے افضل و برتر اور یہی حضرات بارگاہ خدا میں سب سے زیادہ محترم و مکرم ہیں ان کے علوم ان کے آباء و اجداد کے توسط سے پیغمبراسلامﷺ سے کسب شدہ ہیں اور وراثت و دین کے اعتبار سے نبی کریمﷺ سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔ اہل علم و تحقیق اور اہل کشف و توفیق نے ان کی اسی طرح معرفت حاصل کی ہے۔ نبی کریمﷺ کے اس مقصد کہ میرے بارہ جانشین ہوں گے، اس پر بہترین شاہد و مرجّح اور مؤید حدیث ثقلین و دیگر اس کتاب وغیرہ میں مذکورہ روایات ہیں۔
البتہ جابر بن سمرۃ کی روایت میں نبی کریمؐ کے اس فرمان "کہ ان بارہ امام کی ولایت پر امت اجماع کرے گی" سے مراد قائم آل محمدؐ کے ظہور کا وقت ہے۔ (یہاں شیخ سلیمان کی تحقیق تمام ہوئی)۔
چہارم۔ آپ کے اس قول "کہ رسول اکرمﷺ کی مراد یہ ہے کہ علی علیہ السلام ان کے ۲۵ سال بعد خلیفہ قرار پائیں گے" کا مطلب یہ ہوجائے گا کہ حضرت علی علیہ السلام خلفاء ثلاثہ کے دور اقتدار میں ان کے اور کسی بھی مسلمان کے مولیٰ نہیں ہوسکتے اور یہ بات پیغمبر اکرمؐ کے اس فرمان کے مخالف ہے کہ جس میں آپؐ فرماتے ہیں: "اَلَسۡتُ اَوۡلی بِکُمۡ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ
؟" کیا میں تمہاری جانوں پر خود تم سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا: کیوں نہیں یا رسولؐ اللہ۔ پھر آپ نے فرمایا:"مَنۡ کُنۡتُ مَوۡلاه ُ فَه ٰذا عَلیُّ مَوۡلاه
" جس کا میں مولا ہوں بلا امتیاز علیؑ اس کے مولا ہیں؛ اور جس وقت حضرت ابوبکر و عمر نے جب غدیر کے دن پیغمبر اسلام کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنے تھے تو کہنے لگے: "اَمۡسَیۡتَ یَابۡنَ اَبیطالبٍ مَوۡلی کُلِّ مُؤۡمِنٍ وَ مُؤۡمِنَةٍ
" اے فرزند ابو طالب آج آپؑ ہر مؤمن و مؤمنہ کے مولیٰ بن گئے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت ابوبکر و عمر خاص عصر غدیر تصریح کر رہے ہیں کہ علی علیہ السلام تمام مؤمنین و مؤمنات کے مولیٰ ہیں۔
اس سلسلہ میں بہت سے شواہد پیش کئے جاسکتے ہیں مثلاً صواعق محرقہ
میں موجود یہ روایت کہ حضرت عمر سے پوچھا گیا: آپ جیسا رویہ حضرت کے ساتھ اپناتے ہیں کسی صحابی کے ساتھ نہیں اپناتے؟
حضرت عمر نے جواباًٍ کہا: آخر وہ میرے مولا ہیں۔
حضرت عمر کی ولایت علی علیہ السلام کے بارے میں یہ تصریح اس وقت ہے کہ ابھی ۳۵ ہجری بہت دور ہے اور ابھی آپ کے ہاتھوں پر لوگوں نے بیعت بھی نہیں کی اور نہ ہی انہیں خلیفہ تسلیم کیا ہے۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی تمام مؤمنین کے مولا تھے نہ کہ رحلت پیغمبرؐ کے ۲۵ سال بعد۔
پنجم۔ اگر اشکال و اعتراض کرنے والوں کے یہ بہانے صحیح تسلیم کرلئے جائیں اور یہ کہا جائے کہ پیغمبر اکرمؐ لفظِ "بعدی" استعمال کرکے ۳۵ ہجری میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر اور اعلان فرما رہے تھے تو نعوذ باللہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبرؐ کا یہ فرمان لغو و بیہودہ ہوجائے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غدیر کی شدید گرم فضا میں پیغمبر اکرم نے کوئی خاص چیز بیان نہیں فرمائی اور وہ صرف لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ میرے چلے جانے کے ۲۵ سال بعد لوگوں کی بیعت کے ذریعے علی علیہ السلام خلافت و امامت پر فائز ہوں گے اور یوں یہ اولیٰ بالتصرف ہوجائیں گے۔
ذرا سوچئے کتنی عجیب بات ہے یہ! اس طرح تو حضرت علی علیہ السلام اور دیگر لوگوں میں کوئی امتیاز ہی نہ رہے گا؛ کیونکہ جس شخص کی بھی لوگ بیعت کرلیں وہ خلافت کے لئے ا ولی ہوجائے گا لہذا اس بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام و دیگر اصحاب و عوام سب برابر و مساوی قرار پائیں گے۔ پس غدیر کے دِن نبی کریمﷺ لفظ "بعدی" کے ذریعے کون سی فضیلت بیان کرنا چاہتے تھے کہ جسے صرف حضرت علی علیہ السلام سے مختص کرنا چاہتے تھے؟!
اگر تعصبات کی عینک اتار کر بھرپور توجہ کے ساتھ غور و فکر سے کام لیا جائے تو یقیناً حقائق روشن ہوجائیں گے اور آپ کو صحیح جواب بھی مل جائے گا، ہم محترم قارئیں سے صحیح جواب کے حصول کے خواہاں ہیں !!
ششم۔ احمد بن حنبل
نے مقام رحبہ پر پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں زید بن ارقم اور ابو طفیل کے مابین ہونے والی گفتگو کو اس طرح نقل کیا ہے:
(حضرت) علی علیہ السلام نے کوفہ کے ایک مقام "رحبہ" پر اپنی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کو جمع کرکے فرمایا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم میں سےجو شخص بھی غدیر کے دن وہاں موجود تھا وہ کھڑا ہوجائے اورجو کچھ اس نے پیغمبر اسلام سے سنا تھا اس کی گواہی دے۔
اگرچہ واقعہ غدیر کو ۲۵ سال گزر چکے تھے ۳۰ اصحاب پیغمبر کھڑے ہوگئے جن میں ۱۲ افراد غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے بھی تھے ان سب نے ولایت علی علیہ السلام کے بارے میں زبان پیغمبر اسلام سے جو کچھ سنا تھا اس کی گواہی بھی دی۔
ابو طفیل کہتے ہیں: میں مقام رحبہ سے دل میں یہ سوچتا ہوا باہر نکلا کہ آخر! امت کی اکثریت نے اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کیا؟ (یعنی اگر حضور سرور کائنات نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد خلیفہ و جانشین معین کیا تھا تو پھر حضرت ابوبکر کیسے خلیفہ بن گئے؟) لہذا میں نے زید ابن ارقم سے ملاقات کی اور کہا کہ حضرت علی علیہ السلام اس اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں: زید نے کہا: یہ ناقابل انکار حقیقت ہے؛ میں نے خود بھی نبی کریمﷺ سے یہی سب کچھ سنا تھا۔
پس عجیب بات ہے کہ یہ دامنِ تاریخ میں پائے جانے والے ابوطفیل و زید ابن ارقم جیسے افراد تو نبی کریمؐ کے کلمات و جملات سے امامت علی علیہ السلام سمجھ رہے ہیں جبکہ آج کے علمائے اہل سنت آنحضرت کے کلمات سے دوستی علی علیہ السلام سمجھ رہے ہیں!!
قطع نظر اس کے؛ بہت سے بزرگ و معتبر اصحاب پیغمبرؐ کی جانب سے حضرت ابوبکر کی خلافت سے انکار و مخالفت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری پر عقیدہ نیز حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں ان اصحاب کا جمع ہونا اور مخالفت اسامہ بن زید بن حارثہ یہ تمام امور واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ سب غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ کے اعلان کا یہی مطلب سمجھ رہے تھے یعنی پیغمبر اسلامﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام ہی امت کے سرپرست و رہبر اور نبی کریمﷺ کے خلیفہ و جانشین ہیں۔ تفصیلات کے لئے ہماری تالیف کردہ کتاب اولین مظلوم عالم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرف رجوع فرمائیں۔
ہفتم۔ کیا حضورؐ ختمی مرتبت نے حدیث منزلت (کہ جس کا صادر ہونا شیعہ و اہل سنت کی کتب سے ثابت شدہ ہے) میں حضرت علی علیہ السلام سے نہیں فرمایا؟: "اَنۡتَ مِنّی بِمَنۡزِلَةِ ه اروُنَ مِنۡ مُوسی اِلّا اَنَّه ُ لا نبیَّ بَعۡدی
" نیز کیا حدیث یوم الدار اور حدیث یومِ انذار میں نہیں فرمایا؟ "فَاسۡمَعوُا لَه ُ وَ اَطیعُوا
" یعنی علی علیہ السلام کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔
کیا سورہ طہ کی آیات ۲۸ تا ۳۲ میں منزلت ہارونیہ بیان نہیں کی گئی؟ پس حدیث منزلت کو ان آیات کریمہ "وَ اجۡعَلۡ لی وَزیراً مِنۡ اَه لی
۔۔۔" میں ضمیمہ کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد ان کے وزیر و جانشین حضرت علی علیہ السلام کی نوبت آجاتی ہے؛ جس طرح حضرت موسیٰ کے بعد ان کے جانشین حضرت ہارون کو مقام ومنزلت حاصل تھی۔
کیا حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں حکم و فرمان رسالت "فَاسۡمَعوُا لَه ُ وَ اَطیعُوا
" کی تاویل کرکے بعض لوگ حضرت علی علیہ السلام کو پچیس سال خانہ نشینی پر مجبور کرسکتے ہیں؟ کیا ان کا یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ نبی کریمؐ کا مقصد یہ تھا کہ ان کے چلے جانے کے پچیس سال بعد علی علیہ السلام جانشین قرار پائیں گے؟!
ہشتم۔ ہم نے اپنی تالیف کردہ کتاب "اول مظولم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام
" میں غُسل پیغمبرؐ، ادائے قرض، حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و جانشینی اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کے بارے میں آنحضرت کی وصیتوں کو تفصیلاً اہل سنت کی کتب سے ثابت کیا ہے لہذا اہل سنت کی کتب میں موجود متعدد روایات کی روشنی میں کلمہ "بعدی" کے "مع الفصل" پر دلالت کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ہے کیونکہ یہ تمام روایات اس امر کی حکایت کر رہی ہیں کہ رحلت رسول اللہﷺ کے فورا بعد حضرت علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
علمائے اہل سنت جناب متقی ہندی
اور طبرانی
نے سلمان فارسی سے روایت کی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: میرا وصی و مرکز اسرار اور اپنے بعد جسے بہترین فرد کی حیثیت سے تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں وہ علی بن ابی طالب‘ ہے وہ ہی میرے وعدوں کو پورا اور قرض کو ادا کرے گا۔
اس روایت کے بعد کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ کا مقصد یہ تھا کہ علی علیہ السلام میرے چلے جانے کے ۲۵ سال بعد میرے وصی قرار پائیں اور ۲۵ سال بعد قرض ادا کریں؟!
ابن سعد
نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: پیغمبر اسلامﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ انہیں میرے علاوہ کوئی غسل نہ دے۔
ذرا سوچئے! اگر پیغمبر اسلامﷺ یہ وصیت نہ فرماتے تو کیا قریش حضرت علی علیہ السلام کو یہ فریضہ انجام دینے دیتے؟!
عبد الرزاق نے کتاب جمع میں معمر کے توسط سے قتادہ سے روایت کی ہے کہ حضور کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ان کے قرض یعنی تقریباً پانچ لاکھ درہم ادا کئے۔
جب عبد الرزاق سے سوال کیا گیا: کیا پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے اس میں ہرگز شک نہیں ۔ اگر اس قسم کی وصیت نہ ہوتی تو لوگ کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام کو نبی اکرمؐ کا قرض ادا کرنے کی اجازت نہ دیتے۔
احمد ابن حنبل مسند میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودّۃ القربیٰ کی چوتھی مودت کے آخر میں روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: "یا عَلیُّ اَنۡتَ تُبۡرِءُ ذِمَّتی وَ اَنۡتَ خَلیفَتی عَلی اُمَّتی
" اے علی علیہ السلام تمہیں میری ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ہے اور تم ہی میری اُمت میں میرے جانشین ہو۔
کیا اس موقع پر یہ کہنا صحیح ہے کہ حضور کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ان کی وفات کے بعد ان کے ذمہ جو کچھ ہے اسے فورا ادا کریں لیکن خلیفہ و جانشین ۲۵ سال بعد ہوں گے؟! اگر یہ کہنا صحیح ہے تو پھر آنحضرت نے روایت کے صدر یا ذیل میں کوئی تفصیل کیوں بیان نہیں فرمائی؟
کیا کسی دلیل و قرینہ کے بغیر نبی کریمﷺ کے کلمات میں تفکیک کرنا صحیح ہے؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو پھر دین و شریعت اور سنت پیغمبر اسلام میں کیا باقی رہ جائے گا؟ کیونکہ اس طرح تو جس کا جس طرح دل چاہے گا تفکیک و توجیہ اور تفسیر بیان کردے گا۔
نہم۔ ہم نے متفق علیہ متعدد ایسی روایات بطور نمونہ پیش کی ہیں جن میں نبی کریمؐ نے لفظ "بعدی" کے ذریعے تصریح فرمائی ہے کہ ان کے بعد علی علیہ السلام ان کے خلیفہ، جانشین ہوں گے جبکہ کسی ایک متفق علیہ روایت میں بھی حضرت ابوبکر، عمر یا عثمان کو اپنا خلیفہ، ولی یا وزیر وغیرہ قرار نہیں دیا؛ یا لفظ "بعدی" کے ذریعے لوگوں میں ان کا تعارف نہیں کروایا۔
اگر لفظ "بعدی" کا استعمال خلیفۂ مع الفصل کے لئے صحیح تھا تو پھر حضورؐ نے حضرت عمر و عثمان کے لئے یہ لفظ استعمال کیوں نہیں فرمایا؟
پس معلوم ہوا کہ
۱. یہ حضرت حقیقتا حتی مع الفصل بھی نبی کریمؐ کے خلیفہ نہیں تھے۔
۲. درحقیقت مع الفصل پر لفظ "بعدی" کا اطلاق حقیقی نہیں ہے۔
۳. علی بن ابی طالب‘ بلا فصل خلیقہ قرار پائیں گے۔
دھم۔ اہل سنت حضرات کے اس اشکال و اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موضوعات خارجیہ اور عالم خارج میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر اپنے عقائد بنا لیتے ہیں یا ان کی بنیاد پر اپنے عقائد کی تاویل پیش کر دیتے ہیں مثلاً :
۱ ۔ خلفاء کی خلافت کو اعتراض سے بچانے کے لئے مطلق العنان تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہوجاتے ہیں۔
۲ ۔ حضرت ابوبکر کی خلافت کو استوار و تثبیت کرنے اور شرعی حیثیت دینے کے لئے خلافت میں عمر رسیدہ ہونے کی شرط کے قائل ہوجاتے ہیں؛ اور ہم نے اپنی کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام
" میں مفصل اس شرط کا جواب دیا ہے۔
۳ ۔ جن موارد میں اہل سنت بیرونی عوامل و حوادث کی روشنی میں اپنے عقائد کی تاویل کرتے ہیں ان میں سے ایک مورد یہ بھی ہے کہ جس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا کی متعدد روایات میں خلافت ، وزارت و ولایت علی علیہ السلام سے مراد ان کی رحلت کے ۲۵ سال بعد ہے اور اس کا بھی ہم نے تفصیلی جواب دیدیا ہے۔ (و الحمد للہ)
حضرت علی علیہ السلام یا دیگر اہل بیت علیھم السلام کے اسماء قران کریم میں کیوں نہیں آئے ہیں؟
اس موقع پر مخالفین کی جانب سے کئے گئے ایک اہم سوال اور اس کا جواب پیش کردینا مناسب ہے؛ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر شیعوں کے بارہ ائمہ کی امامت برحق ہے تو پھر قران کریم میں ان کے اسماء کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا ہے؟!
ہم جواباً کہتے ہیں:
الف: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قران کریم نے ہر مسئلہ کی تمام جزئیات کو بیان کیا ہے حالانکہ قران کریم نے مسائل کے کلیات کو بیان کیا ہے اور بطور اختصار پیش کیا ہے اور جزئیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اکرمﷺ کی طرف ارجاع دیا ہے لہذا ارشاد ہوتا ہے:(
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
)
؛
رسولؐ جو تمہیں دیں اسے قبول کرلو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رُک جاؤ۔
نیز ایک دوسرے مقام پر ائمہ اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:(
فَاسۡئَلوُا اَه ۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لا تَعلَموُنَ
)
؛ پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے سوال کرلو۔ صحیح السند روایات کے مطابق اہل ذکر سے اہل بیتؑ کو مراد لیا گیا ہے۔ اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کے حکم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:
۱. قران میں تمام جزئیات کو بیان نہیں کیا گیا ہے اور چونکہ ان کے بارے میں ہمیں "علم نہیں" ہے لہذا اس سلسلہ میں اہل بیت علیھم السلام سے رجوع کرنا چاہیے۔
۲. نیز حضرت عمر کا مشہور قول "حَسبُنَا کتابُ الله
" سورہ نحل کی اسی آیت نمبر ۴۳ کے مخالف ہے۔ نیز ان کا یہ قول، سورہ حشر کی آیت نمبر ۷(
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ
)
کے بھی مخالف ہے؛ کیونکہ آنحضرت نے جب قلم و قرطاس کا تقاضا کیا تھا تو انہوں نے اسی جملہ کے ذریعے مخالفت کی تھی۔
ب: جب ہم طہارت سے دیّت تک قوانین و احکام اسلامی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قران کریم نے جزئیات کے بجائے کلیات کے بیان پر اکتفاء کیا ہے مثلاً: قران نے نماز کی رکعات کی تعداد بیان نہیں کی نیز مبطلات نماز، شکوک و اجزاء اور شرائط نماز کی جزئیات کو بیان نہیں کیا ہے۔
ج: خداوند تبارک و تعالیٰ قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے:(
اِنّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَه ُ لَحافِظُون
)
؛ ہم نے ہی اس قران کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
قران کریم کی آیات میں ہیر پھیر اور تحریف سے بچانے کی ایک اہم صورت یہ بھی تھی کہ اس میں نبی کریمؐ کے خلفاء و جانشین کے اسماء کا تذکرہ صراحت سے نہ کیا جائے تاکہ مریض فکریں اور دشمنان دین مبین اس میں کمی و بیشی کرنے کی فکر میں نہ لگیں۔ بالفاظ دیگر خداوند عالم نے قران کریم میں اہل بیت علیھم السلام کے اسماء کا تذکرہ نہ کرکے اسے لوگوں کی دستکاریوں سے محفوظ رکھا ہے۔
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم نے آیات کو تحریف سے بچانے کے لئے بعض مواقع پر انہیں ایسی جگہ معین فرمایا ہے کہ فکر تحریف اپنی کار فرمائی نہ دکھا سکے۔ مثلاً آیۂ تطہیر کو اپنی زوجات کے بارے میں نازل ہونے والی عورتوں کے درمیان رکھا ہے کہ اس میں تمام ضمیریں جمع مذکر ہیں جبکہ زوجات سے مربوط آیات میں جمع مؤنث ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں آیات کا لب و لہجہ بھی مختلف ہے۔
یا مثلاً خداوند عالم قران کریم میں سورہ توبہ کی آیت نمبر ۴۰ جو آیت الغار کے نام سے معروف ہے نبی کریم کی زبانی نقل فرمایا ہے کہ آپؐ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا: "لَا تَحزَن اِنَّ الله مَعَنا
؛ غم مت کرو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ اس آیت الغار کو تحریف سے بچانے کے لئے سورہ یونس کی آیت نمبر ۶۲ سے دور رکھا ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:(
أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ
)
بیشک اولیاءِ الٰہی کی شان یہ ہے کہ انہیں نہ خوف ہے نہ کسی چیز کا غم"۔
د: اگر حقیقت کو اسی طرح تسلیم کیا جائے جو آپ کہتے ہیں تو پھر خلفاءِ راشدین، خلفاءِ بنی امیہ و عباس کے نام بھی تو قران میں مذکور نہیں ہیں لہذا حضرت ابوبکر کی اتباع بھی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ آپ ہی اعتراض کرتے ہیں کہ ان کا نام قران میں نہیں ہے لہذا ان کی خلافت و امامت برحق نہیں ہے ۔۔۔
ھ: اگر آپ کے کہنے کے مطابق صرف وہی بات قابل قبول ہو جس کا ذکر قران میں موجود ہو تو پھر بہت سے احکام الٰہی، معاملات عبادت کو ترک کرنا پڑے گا کیونکہ صراحت کے ساتھ ان کا ذکر قران میں نہیں آیا ہے یا ان کی جزئیات کو قران میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔
____________________