مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 42268
ڈاؤنلوڈ: 3500

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42268 / ڈاؤنلوڈ: 3500
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری فصل

مہدی موعود (عج) کے ظہور کے بارے میں اصحاب کرام و تابعین ذوی الاحترام کی بشارتیں

حضرت مہدی (عج) کے بارے میں روایات اہل سنت کی تیسری قسم

جب ہم علمائے اہل سنت کی کتب میں حضرت مہدی موعود# کے بارے میں نقل شدہ روایات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم پیغمبر گرامی قدر اور اہل بیت علیھم السلام سے نقل شدہ روایات کے علاوہ اصحاب و تابعین کی روایات بھی جابجا ملاحظہ کرتے ہیں: اور افسوس اس سلسلہ میں کتب اہل سنت میں سب سے زیادہ روایات کعب الاحبار(۱) سے نقل کی گئی ہیں۔ انہوں نے ۱۷ ہجری یعنی رحلت پیغمبرؐ کے سات سال بعد حضرت عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ یہ پہلے ایک یہودی عالم تھے لیکن مسلمان ہونے کے بعد وہ حضرت عمر کے ملازم ہوگئے اور پھر اس کے بعد حضرت عثمان کے مشاور قرار پائے تھے۔ یہی وہ شخص ہیں جن کے ذریعے کتب اہل سنت میں کثرت سے اسرائیلی روایات وارد ہوئی ہیں۔ یہ اپنی جانب سے فتویٰ دیدیتے تھے جیسا کہ حضرت رسول خدا نے حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں تصریح فرمائی تھی کہ ابوذر زیر آسمان راستگو ترین شخص ہے، کعب الاحبار نے اس پر اعتراض کردیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ حضرت ابوذر نے کعب الاحبار کے سر پر عصا مارا اور حضرت عثمان کے حضور سخت غم و غصہ کا اظہار کیا لیکن حضرت عثمان نے جناب ابوذر غفاری کو شام کی جانب تبعید کردیا۔ گویا جس کی صداقت کے بارے میں حضور سرور کائنات کی واضح حدیث موجود تھی ان سے زیادہ اس شخص کے احترام کو ملحوظ رکھا گیا جو ۱۷ ہجری میں مسلمان بن کر پیغمبر اسلامؐ کی احادیث پر اعتراض کر رہا تھا۔ (تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام صفحہ ۳۵۷)

حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں کتب علمائے اہل سنت میں جن افراد سے بکثرت روایات نقل کی گئی ہیں ان میں سے ایک کعب الاحبار ہے، میں نے معروف عالم اہل سنت جناب یوسف بن یحیی مقدسی شافعی کی کتاب "عِقدُ الدُّرر فی اخبار المنتظر" کا مطالعہ کیا تو صرف صفحہ نمبر ۱۵۰ تک ہی کعب الاحبار سے نقل شدہ دس روایات کا مشاہدہ کیا۔ ہم اس پیش نظر فصل میں کتب اہل سنت سے حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں اصحاب و تابعین سے نقل شدہ روایات نقل کر رہے ہیں تاکہ گذشتہ دو فصلوں سمیت مجموعاٍ ۱۰۰ روایات ہوجائیں۔

حضرت مہدی (عج)، حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کی اولاد سے ہیں

۱ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی(۲) روایت نقل کرتے ہیں:

"وَ عَنۡ قَتادَةَ، قالَ : قُلۡتُ لِسَعیدِ بن المُسَیِّبِ (۴) : اَحَقٌّ الۡمَه ۡدی (عج) ؟ قالَ: نَعَمۡ ه ُوَ حَقٌّ قُلۡتُ: مِمَّنۡ ه ُوَ؟ قالَ : مِنۡ قُرَیۡشٍ قُلۡتُ: مِنۡ ای قُرَیۡشٍ ؟قالَ: مِنۡ بَنی ه اشِمٍ؟ قُلۡتُ: مِن ای بَنی ه اشِمٍ؟ قالَ: مِن وُلۡدِ عَبۡدِ الۡمُطَّلِبِ؟ قُلۡتُ: مِن ای وُلۡدِ عَبۡدِ الۡمُطَّلِبِ؟ قالَ: مِنۡ اَوۡلَادِ فاطِمَةَ؟ قُلۡتُ: مِنۡ ای وُلۡدٍ فاطِمَةَ؟ قالَ: حَسۡبُکَ الۡآنَ "

قتادہ کا کہنا ہے کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا: کیا مہدی حق ہیں؟ انہوں نے کہا: بالکل برحق ہیں۔ میں نے سوال کیا: وہ کس قوم سے ہوں گے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ قریش سے ہوں گے۔ پھر سوال کیا کہ وہ قریش کے کس خاندان سے ہوں گے؟ جواب دیا: فرزندانِ عبد المطلب سے ہوں گے۔ پھر پوچھا وہ عبد المطلب کی کس اولاد سے ہوں گے؟ جواب دیا فاطمہ زہراؑ کی اولاد سے ہوں گے۔ پھر سوال کیا کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا کی کس اولاد سے ہوں گے؟ جواب دیا: ابھی تمہارے لئے اتنا جان لینا ہی کافی ہے۔

یہ روایت ابو الحسن احمد بن جعفر بن منادی اور ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نسب المہدی میں کتاب اَلفتن صفحہ نمبر ۱۰۱ سے نقل کی ہے۔

آسمان سے منادی ندا دیتا ہے کہ تمہارے امیر مہدی ہوں گے

۲ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی روایت نقل کرتے ہیں(۵) :

"عَنۡ عَمّار بۡن یاسِر، قالَ : اِذا قُتِلَ النَّفۡسُ الزَّکیَّةُ وَ اَخُوه ُ یُقۡتَلُ بِمَکَّةَ ضَیعَةً، نادی مُنادٍ مِنَ السَّماءِ: اِنَّ اَمیرَکُمۡ فُلانٌ وَ ذلِکَ الۡمَه ۡدیُّ الَّذی یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ حَقّاً وَ عَدۡلاً "

عمار بن یاسر سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: جب نفس زکیہ کی شہادت ہوگی اور ان کےبھائی کو مکہ میں قتل کر دیا جائے گا اس وقت آسمان سے منادی ندا دے گا کہ تمہارا امیر فلاں (یعنی مہدیؑ)ہے جو زمین کو حق و عدل سے پُر کر دے گا۔

اس روایت کو ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کیا ہے۔(۶)

ماہ رمضان میں آسمانی ندا

۳ ۔ نیز یوسف بن یحیی نے روایت نقل کی ہے(۷) ۔

"عَنۡ اَبی ه ُرَیۡرَة، اَحۡسبُه ُ رَفَعَه ُ، قالَ: یُسۡمَعُ فی شَه رِ رَمَضان صَوۡتٌ مِنَ السَّماءِ، وَ فی شَوَّال ه َمۡه َمَةٌ، وَ فی ذِی الۡقَعۡدَةِ تُحَزَّبُ الۡقَبائِلُ، وَ فی ذِی الۡحَجَّةِ یُسۡلَبُ (۸) الحاجُّ وَ فِی الۡمُحَرَّمِ اَلۡفَرَجُ "

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ماہ رمضان میں آسمان سے ایک ندا آئے گی اور شوال میں مختلف صدائیں آئیں گی۔ ذی قعدہ میں قبائل یکجا ہوکر تقسیم ہوں گے، ذی الحجہ ہی میں حاجی مکمل لباس میں ملبوس ہوں گے اور محرم میں فَرج و گشائش کا وقت ہوگا۔

یہ روایت جناب ابو الحسن احمد بن جعفر منادی نے بھی کتاب "الملاحم" میں نقل کی ہے۔

نکات:

۱ ۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں آسمان سے ندا آئے گی کہ جو ظہور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی علامات میں سے ہے۔

۲ ۔ ہم نے اس سے قبل دوسری فصل میں روایت نمبر ۳۴ کے ذیل میں ماہ رمضان میں نمودار ہونے والی دو علامات ظہور اور بھی نقل کی تھیں لہذا اس طرح رمضان المبارک میں تین مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہوں گی:

۱. ندائے آسمانی کا آنا،

۲. ماہ رمضان کے درمیان سورج گرہن،

۳. آخرِ رمضان میں چاند گرہن۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، لشکر سفیانی کے روبرو اور ندائے آسمانی

۴ ۔ عِقد الدّرر(۹) میں روایت نقل کی گئی ہے:

"وَ عَنِ الزُّه ری، قالَ : اِذا الۡتَقَی السُّفۡیانی وَ الۡمَه دیُّ لِلۡقِتالِ یَوۡمَئِذٍ یُسۡمَعُ صَوۡتٌ مِنَ السَّماءِ: اَلا اِنَّ اَوۡلیاءَ الله ِ اَصۡحابُ فُلانٍ یَعنی الۡمَه ۡدی "

زہرہ کا کہنا ہے: جس وقت لشکر سفیانی و حضر ت مہدیؑ جنگ کے لئے روبرو ہوں گے اس وقت آسمان سے ایک ندا آئے گی کہ یاد رکھو! اولیائے خدا اصحابِ فلاں یعنی حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) والے ہیں۔ پھر زہری نے اسماء بنت عمیس سے اس دن کی علامات نقل کی ہیں۔

یہ روایت حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے(۱۰) ۔

ظہور مہدی (عج) اور طلوع خورشید کے وقت عجیب نشانی

۵ ۔ یوسف بن یحیی نے روایت نقل کی ہے(۱۱) ۔

"وَ عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بۡنِ عَبّاس رَضیَ الله ُ عَنۡه ُما، قالَ: لَا یَخۡرُجُ الۡمَه ۡدیُّ حَتّی تَطۡلُعَ مَعَ الشَّمۡسِ آیةٌ "

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہاآ فرماتے ہیں: جب مہدی موعودؑ خروج کریں گے تو اس وقت طلوع خورشید کے ساتھ ایک آیت و نشانی ظاہو ہوگی۔

یہ روایت حافظ ابوبکر بن حسین بیہقی و حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے(۱۲) ۔

خروج مہدی (عج) سے قبل مشرق سے ایک ستارہ کا نمودار ہونا

۶ ۔ "وَ عَنۡ کَعۡب، قالَ : انَّه ُ یَطۡلُعُ نَجۡمٌ مِنَ المَشۡرِقِ قَبۡلَ خُرُوجِ الۡمَه ۡدی، لَه ُ ذَنَبٌ یُضیءُِ "

نیز روایت کی ہے: کعب الاحبار کہتےہیں: خروج مہدی سے قبل ایک دمدار ستارہ نمودار ہوگا جس کی دُم نورانی ہوگی۔(۱۳)

یہ روایت حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے نقل کی ہے۔(۱۴)

نکتہ: اس روایت کو گذشتہ روایت کے ساتھ ملا کر یہ بات معلوم ہوتی ہے ممکن ہے کہ جس عجیب علامت کے بارے میں ابن عباس نے خبر دی ہے وہ یہی ستارہ ہو۔

لوگوں کی مایوسی کے وقت ظہور مہدی (عج)

۷ ۔ عقد الدّرر فی اخبار المنتظر باب ۵ ، ص ۱۶۵ میں روایت ہے:

"وَ عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بۡنِ عَبّاس ، قالَ: یَبۡعَثُ الله ُ الۡمَه ۡدی بَعدَ اِیاسٍ، وَ حَتّی تَقُولَ النّاسُ: لا مَه ۡدی "

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: خداوند حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو اس وقت ظاہر کرے گا جب لوگ ان کی آمد سے مایوس ہوچکے ہوں گے اور کہنے لگیں گے کہ مہدی کا کوئی وجود نہیں ہے۔

یہ روایت حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نےنقل کی ہے۔(۱۵)

اولاد حسین  سے ایک خروج کرے گا

۸ ۔ نیز عقد الدرر میں روایت ہے(۱۶) "عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بن عَمۡرو، قالَ: یَخۡرُجُ رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ مِنۡ قِبَلِ الۡمَشۡرِقِ، وَلَوِ اسۡتَقۡبَلَتۡه ُ الۡجِبالُ ه َدَمَه ا وَ اتَّخَذَ فیه ا طُرُقاً "

عبد اللہ بن عمرو کا کہنا ہے: اولاد حسین  سے ایک ایسا شخص مشرق کی جانب سے خروج کرے گا کہ اگر اس کے سامنے کوئی پہاڑ بھی آجائے گا تو وہ اسے پاش پاش کر دے گا، اور اس کے درمیان اپنا راستہ بنالے گا۔

یہ روایت حافظ ابو نعیم اصفہانی نے "صفۃ المہدی" میں، حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے "الفتن"(۱۷) میں اور حافظ ابو القاسم طبرانی نے "معجم" میں نقل کی ہے۔

اسفار انبیاء میں نام مہدی (عج)

۹ ۔ عقد الدّرر میں روایت ہے(۱۸) ۔

"وَ عَنۡ کَعۡبِ الۡاَحۡبارِ ، قالَ : اِنّی لَاَجِدُ الۡمَه ۡدیَّ مَکۡتُوباً فی اَسۡفارِ الۡاَنبیاءِ، ما فی حُکۡمِه ظُلۡمٌ وَلا عَیۡبٌِ"

کعب الاحبار کہتے ہیں: میں نے حضرت مہدی (عج) کے بارے میں اسفار انبیاء میں بھی مطالب پائے ہیں، ان کے حکم و فرمان میں نہ ظلم ہوگا نہ عیب۔

نکات:

۱ ۔ یوسف بن یحیی نے اسی کتاب کے باب سوم، ص ۶۸ پر کعب الاحبار سے یہی روایت اس فرق کے ساتھ نقل کی ہے: "ما فی حُکۡمِه ظُلۡمٌ وَ لاعَنَتٌ " یعنی ان کے حکم میں نہ ظلم ہوگا اور نہ ہی کسی کو اذیت دی جائے گی۔

نیز ابو عمرو الدانی(۱۹) نے اس روایت کے ذیل میں کعب الاحبار سے اس طرح نقل کیا ہے: "ما فی عِلۡمِه ظُلۡمٌ وَ لاعَیۡبٌ " یعنی ان کے علم میں نہ ظلم ہے اور نہ عیب۔

نیز حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد(۲۰) نے اس طرح نقل کیا ہے: "ما فی عَمَله ِ ظُلۡمٌ وَ لاعَیۡبٌ " یعنی ان کے عمل میں نہ ظلم ہے نہ عیب۔

پس روایت کے ذیل میں چار چیزیں نقل ہوئیں ہیں:

۱ ما فی حُکۡمِه ظُلۡمٌ وَلا عَیۡبٌ

۲ ما فی حُکۡمِه ظُلۡمٌ وَ لاعَنَتٌ

۳ ما فی عِلۡمِه ظُلۡمٌ وَ لاعَیۡبٌ

۴ ما فی عَمَله ِ ظُلۡمٌ وَ لاعَیۡبٌ

۲ ۔ اس روایت میں موجود اختلافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس روایت کو نقل کرتے وقت ناقل کی جانب سے کتابت میں غلطی واقع ہوئی ہے کہ کبھی لفظ "عیب" کو "عنت" لکھ دیا گیا اور "حکمہ" کو "علمہ" اور "عملہ" لکھ دیا گیا ہے۔

رکن و مقام کے مابین حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی بیعت کی جائے گی۔

۱۰ ۔ عقد الدّرر میں روایت ہے(۲۱) ۔

"وَ عَنۡ اَبی ه ُرَیۡرَةَ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ: یُبایَعُ لِلۡمَه ۡدی بَیۡنَ الرُّکۡنِ وَ الۡمَقامِ، لا یُوقِظُ نائِماً وَلا یُریقُ دَماً "

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے: رکن و مقام کے مابین حضرت مہدی (عج) کی بیعت اس طرح کی جائے گی کہ نہ کسی سوتے ہوئے کو اٹھایا جائے گا اور نہ ہی کسی کا خون ہی بہایا جائے گا۔

یہ روایت ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے(۲۲) ۔

نکتہ: یوسف بن یحیی نے اس روایت کو عقد الدّرر کے باب ۹ ، ص ۲۸۶ میں بھی نقل کی ہے۔

اے مہدی (عج) مجھے عطا کیجئے

۱۱ ۔ یوسف بن یحیی نے روایت نقل کی ہے(۲۳) :"وَ عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری، فی قِصَّةِ الۡمَه ۡدی علیه السلام، قالَ: فَیَجیءُ رَجُلٌ فَیَقُولُ: یا مَه ۡدیُّ اَعۡطِنی یا مَه ۡدیُّ اَعۡطِنی، قالَ: فَیَحۡثی لَه ُ فی ثَوۡبِه مَا اسۡتَطاعَ اَنۡ یَحۡمِلَه ُ "

ابو سعید خدری قصۂ حضرت مہدی (عج) کے ذیل میں بیان کرتے ہیں: ایک شخص حضرت مہدی(عج) کے پاس آکر کہے گا: اے مہدی مجھے عطا کیجئے، مجھے عطا کیجئے۔

ابو سعید خدری کہتے: پس حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اس شخص کی اتنی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ جی بھر کے اپنی جھولی پُر کرلے گا۔

یہ روایت ابو عیسیٰ ترمذی(۲۴) نے نقل کی ہے وہ کہتے ہیں: "یہ حدیث حسن ہے"۔

نیز جناب حافظ ابو محمد حسین بن مسعود نے بھی کتاب "مصابیحُ السنۃ" کے باب "اشراط الساعۃ" میں کتاب "الفتن"(۲۵) سےنقل کی ہے۔

پرچم مہدی پر البیعۃ لِلہ لکھا ہے

۱۲ ۔ "وَ عَنۡ اَبی اِسۡحَاقَ عَنۡ نَوۡف (۲۶) ، قالَ: رایَةُ الۡمَه ۡدی فیه ا مَکۡتُوبٌ: اَلۡبَیعَةُ لِلّٰه ِ "

یوسف بن یحیی نے نیز یہ روایت بھی نقل کی ہے(۲۷) :ابو اسحاق نے نوف سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: پرچم مہدی (عج) پر "البیعۃ لِلہ" لکھا ہے۔

یہ روایت ابو عمرو عثمان بن سعید المقری نے کتاب السنن(۲۸) میں اور حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں بھی نقل کی ہے(۲۹) ۔

حضرت مہدی (عج) کا بَلَنجر وجبل دیلم کو فتح کرنا

۱۳ ۔ نیز یوسف بن یحیی مقدسی نے روایت کی ہے(۳۰) : "وَ عَنۡ حُذَیۡفَةَ بن الۡیَمانِ (۳۱) ، اَنَّه ُ قالَ: لا یُفۡتَحُ بَلَنۡجَرُ (۳۲) وَلا جَبَلُ الدَّیۡلَم اِلّا عَلی یَدَی رَجُلٍ مِنۡ آلِ مُحَمَّدٍﷺ " حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: بلنجر اور جبل الدیلم صرف محمد وآل محمد کے ایک فرد کے ہاتھوں فتح ہوگا۔

یہ روایت ابو الحسن احمد بن جعفر بن منادی نے بھی کتاب الملاحم میں نقل کی ہے۔

حضرت عیسیٰ  کا آسمان سے نزول اور حضرت مہدی (عج) کی اقتداء میں نماز جماعت

۱۴ ۔ یوسف بن یحیی نے مذکورہ کتاب میں ص ۲۹۲ پر روایت نقل کی ہے:

"وَ عَنۡ عَبۡدِ الله ِ بنَ عَمۡرو، قالَ : اَلۡمَه ۡدیُّ الَّذی یَنۡزِلُ عَلَیۡه ِ عیسَی بن مَرۡیَمَ وَ یُصَلّی خَلۡفَه ُ عیسی "

عبد اللہ بن عمرو کا کہنا ہے:مہدی وہی ہیں عیسیٰ  جن کے سامنے نازل ہوں گے اور ان کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔

یہ روایت حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے۔(۳۳)

اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب "صحیح مسلم" کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔(۳۴)

مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کو مہدی کیوں کہتے ہیں؟

۱۵ ۔ عقد الدّرر میں روایت کی گئی ہے(۳۵) :"وَ عَنۡ کَعۡبِ الۡاَحۡبارِ ، قالَ : اِنَّما سُمِّیَ الۡمَه ۡدیُّ لِاَنَّه ُ یُه ۡدی اِلی اَمۡرٍ خَفِیَ وَ یَسۡتَخۡرِجُ التَّوۡراةَ وَ الۡاِنۡجیلَ مِنۡ اَرضٍ یُقالُ لَه ا اَنۡطاکِیَّةُِ (۳۶) "

کعب الاحبار کا کہنا ہے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو مہدی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ ایک پوشیدہ امر کی طرف ان کی ہدایت کی گئی ہے اور وہ سرزمین انطاکیہ سے توریت و انجیل کو استخراج کریں گے۔

پھر صاحب عقد الدّرر نقل کرتے ہیں:

"قالَ : اِنَّما سُمِّیَ الۡمَه ۡدیُّ لِاَنَّه ُ یُه ۡدی اِلی اَسۡفارِ مِنۡ اَسۡفارِ التَّوراةِ فَیَسۡتَخۡرِجُه ا مِنۡ جِبالِ الشّامِ، یَدۡعُوا اِلَیۡه َا الۡیَه وُدَ فَیُسۡلِمُ عَلی تِلۡکَ الۡکُتُبِ جَماعَةٌ کَبیرَةٌ "

انہیں مہدی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ توریت کی بعض اسفار کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہے۔ پس وہ اسفار توریت کے یہ حصے شام کے پہاڑوں سے استخراج کریں گے اور انہیں کے ذریعے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں گے جس کی بدولت بہت سے یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے۔

ایسی ہی ایک روایت ابو عمر و الدانی(۳۷) نے ابن شوذب(۳۸) سے بھی نقل کی ہے۔

بیت المقدس میں بنی ہاشم کے ایک خلیفہ کا نازل ہونا اور زمین کو عدل و انصاف سے پُر کرنا

۱۶ ۔ عقد الدّرر نے روایت نقل کی ہے(۳۹) : "وَ عَنۡ مُحَمَّدِ بۡنِ الۡحَنَفیّةِ، قالَ: یَنۡزِلُ خَلیفَةٌ مِنۡ بَنی ه اشِمٍ بَیۡتَ الۡمقۡدِسِ، فَیَمۡلَأُ الۡاَرضَۡ عَدلاً، یَبۡنی بَیۡتَ الۡمُقۡدِسِ بَناءً لَمۡ یُبۡنَ مِثلُه ُ "

محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں: بنی ہاشم سے ایک خلیفہ بیت المقدس میں آئے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے پُر کر دے گا اور بیت المقدس کو اس انداز سے تعمیر کرے گا کہ اس سے قبل ایسا تعمیر نہ ہوا ہوگا۔

یہ روایت حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی کتاب الفتن میں نقل کی ہے۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا ہندوستان کی جانب لشکر بھیجنا

۱۷ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی نے روایت نقل کی ہے(۴۰) :

"وَ عَنۡ کَعۡبِ الۡاَحۡبارِ ، قالَ : یَبۡعَثُ مَلِکُ بَیۡتِ الۡمَقۡدِسِ یعنی الۡمَه ۡدیَّ جیشاً اِلَی الۡه ِنۡدِ، فَیَفۡتَحُه ا وَ یَأۡخُذُ کُنوُزَه ا فَتُجۡعَلُ حِلۡیَةً لِبَیۡتِ الۡمَقۡدِسِ ، یُقیمُ ذلِکَ الۡجیۡشُ فِی الۡه ِنۡدِ اِلی خُروُجِ الدَّجّالِ "

کعب الاحبار کہتے ہیں: بادشاہ بیت المقدس یعنی حضرت مہدی (عج) ہندوستان کی جانب اپنا لشکر بھجیں گے جو ہند کو فتح کرکے اس کے خزانے اپنے قابو میں لے لے گا وہ زیورات کو بیت المقدس سے مخصوص کردیں گے۔ یہ لشکر اس وقت تک ہندوستان میں رہے گا یہاں تک کہ دجال خروج کرے۔

یہ روایت ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے(۴۱) ۔

خداوند عالم کے لئے حضرت مہدی (عج) کا خشوع و خضوع

۱۸ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی روایت کرتے ہیں(۴۲) :

"وَ عَنۡ کَعۡبِ الۡاَحۡبارِ، قالَ : اَلۡمَه ۡدیُّ خاشِعٌ لِلّٰه ِ کَخُشوُعِ النَّسۡرِ جَناحَه ُ "

کعب الاحبار سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں: حضرت مہدی (عج) خداوند عالم کے حضور اس طرح خاشع اور فروتن ہیں جس طرح پرندہ اپنے پروں کو پھیلائے ہوئے ہوتا ہے۔

یہ روایت ابو محمد حسین بن مسعود نے "المصابیح" اور ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی کتاب "الفتن" میں نقل کی ہے(۴۳) ۔

حضرت مہدی (عج) کے زمانے میں زمین اپنے خزانے اُبل دے گی

۱۹ ۔ عقد الدّرر میں روایت نقل کی گئی ہے(۴۴) ۔

"وَ عَنۡ عَبۡد الله ِ بۡنِ عَبّاس فی قِصَّةِ الۡمَه ۡدی قال: اَمَّا الۡمَه ۡدیُّ یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً وَ تَأۡمَنُ الۡبَه ائِمُ السِّباعَ، وَ تُلۡقِی الۡاَرۡضُ اَفَلاذَ کَبِدِه ا (۴۵) و؛ قُلۡتُ: وَما اَفَلاذُ کَبِدِه ا؟ قالَ: اَمۡثالُ الۡاُسۡطُوانَةِ مِنَ الذَّه َبِ و الۡفِضَّةِ "

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں: مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) وہ ہی ہیں جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ ان کے زمانے میں چوپائے درندوں سے محفوظ رہیں گے اور زمین جو کچھ اپنے اندر چھپائے ہے اسے ظاہر کر دے گی۔ راوی کہتا ہے: میں نے سوال کیا کہ زمین کے اندر کیا خزانے اور اموال پوشیدہ ہیں؟ ابن عباس نے جواب دیا: سونے چاندی کے ستونوں جیسے خزانےپوشیدہ ہیں۔

یہ روایت حاکم ابو عبد اللہ نے بھی نقل کی ہے اور کہتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے(۴۶) لیکن مسلم و بخاری نے یہ روایت نقل نہیں کی ہے۔

کتاب عقد الدرر باب ہفتم ۷ میں یہ روایت تفصیل کے ساتھ نقل کی ہے لہذا وہاں رجوع کیا جاسکتا ہے۔(۴۷)

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) بہترین انسان اور محبوب خلائق ہوں گے

۲۰ ۔" وَ عَنۡ کَعۡبِ الۡاَحۡبارقالَ، قالَ قَتادَةُ : اَلۡمَه ۡدیُّ خَیۡرُ النّاسِ، اَه ۡلُ نُصۡرَتِه ِ وَ بَیۡعَتِه ِ مِنۡ اَه ۡلِ کُوفانَ (۴۸) ، وَ الۡیَمَنِ وَ اَبۡدالِ الشّامِ ، مُقَدِّمَتُه ُ جَبۡرَئیلُ، وَ ساقَتُه ُ میکائیلُ، مَحۡبُوبٌ فی الۡخَلائِقِ یُطۡفِیءُ الله ُ تَعالی بِه ِ الۡفِتۡنَةَ الۡعَمۡیاءَ، وَ تَأۡمَنُ الۡاَرۡضُ حَتّی اِنۡ الۡمَرۡاَةَ لَتَحُجُّ فی خَمۡسِ نِسۡوَة ما مَعَه ُنَّ رَجُلّ، لا یَتَّقی شَیئاً اِلّا عَزَّوَجلَّ، تُعۡطی الۡاَرضُ بَرَکاتِه ا وَ السَّماءُ بَرَکاتِه ا "

یوسف بن یحیی(۴۹) نے کعب الاحبار سے روایت نقل کی ہے : وہ کہتے ہیں کہ قتادہ کا کہنا ہے: مہدی بہترین انسان ہوں گے، کوفان، یمن اور شام کے شہر مردان کے نیک و صالح افراد ان کی بیعت کریں گے۔ ان کے آگے آگے جبرئیل اور پیچھے میکائیل ہوں گے۔ وہ محبوب خلائق ہوں گے۔ خداوند ان کے توسط سے فتنہ کا خاتمہ کردے گا اور زمین پر اس طرح امن و امان قائم ہوجائے کہ اکیلی عورت حج کرنے پہنچ جائے گی اور پانچ عورتیں بغیر کسی مرد کی ہمراہی کے سفر کرلیں گی۔ حضرت مہدیؑ کو خدا کے علاوہ کسی کی پرواہ نہ ہوگی۔ زمین و آسمان اپنی اپنی برکتیں پیش کردیں گے۔

یہ روایت ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے بھی نقل کی ہے(۵۰) ۔

مذکورہ روایات کا نتیجہ

جیسا کہ آپ نے اصحاب و تابعین کرام سے نقل شدہ روایات ملاحظہ فرمائی ہیں ان سے حاصل شدہ نتائج کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں: حصہ اول ان روایات پر مشتمل ہے جو عمار بن یاسر، عبد اللہ ابن عباس، ابو سعید خُدری، حذیفہ بن یمان اور محمد حنفیہ وغیرہ سے نقل ہوئی ہیں۔ جبکہ حصہ دوم ان روایات پر مشتمل ہے جو ابو ہریرہ اور کعب الاحبار سے نقل کی گئی ہیں۔

حصہ اوّل کا نتیجہ

حضرت مہدی موعود (عج)، حضرت فاطمہ زہرا  اور امام حسین  کی اولاد میں سے ہوں گے۔ قیام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے قبل نفس زکیہ اور ان کے بھائی کو مکہ میں شہید کیا جائے گا، حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اس وقت ظہور فرمائیں گے جب لوگ آپ کی آمد سے مایوس ہوچکے ہوں گے۔ آپؑ کے خروج کے وقت طلوع خورشید کے ساتھ ایک عجیب نشانی ظاہر ہوگی اور آسمان سے ندا آئے گی کہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) تمہارے امیر ہیں۔ آپ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ آپؑ کے پرچم کے پھریرے پر "البیعۃ للہ" لکھا ہوگا۔ آپؑ کے زمانے میں محتاجوں کو اتنا کثیر مال عطا کیا جائے گا کہ اٹھائے نہ اٹھے گا۔ حضرت عیسیٰ  آسمان سے نازل ہوں گے اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ زمین اپنے خزانے پیش کر دے گی۔ بَلنجر اور جبل دیلم آپؑ کے ہاتھوں فتح ہوجائے گا، جب سپاہِ سفیانی سے آپؑ کے لشکر کا سامنا ہوگا تو اس وقت آسمان سے ندا آئے گی کہ اولیائے الہی، اصحاب مہدی ہیں۔

حصۂ دوم کا نتیجہ

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام اسفارِ انبیاء میں بھی ہے۔ آپؑ کو مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اس لئے کہتے ہیں کیونکہ ایک مخفی امر کی طرف آپ کی ہدایت کی گئی ہے اور وہ مخفی امر یہ ہے کہ آپؑ انطاکیہ کے پہاڑوں سے توریت کو استخراج کریں گے جس کے ذریعے آپؑ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں گے اور وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ آپؑ کے ظہور سے قبل کچھ علامات رونما ہوں گی مثلاً رمضان کے مہینہ میں ندائے آسمانی سنی جائے گی، طلوع خورشید کے ساتھ مشرق سے دمدار ستارہ رونما ہوگا جس کی دُم نورانی ہوگی، جب مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ظہور فرمائیں گے تو رکن و مقام کے مابین لوگ آپ کی بیعت کریں گے اور وہ ہندوستان کی طرف اپنا ایک لشکر بھیجیں گے۔

مہدیؑ، خداوند عالم کے حضور خاشع و فروتن ہیں وہ بہترین انسان اور محبوب خلائق ہوں گے۔

ابوہریرہ اور کعب الاحبار کی روایات ناقابل قبول ہیں

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ ہم نے روایات صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور کعب الاحبار و ابو ہریرہ کی روایات کے نتائج کو جداگانہ پیش کیا ہے کیونکہ ان کی روایات مختلف دلائل کی بنا پر ناقابل قبول ہیں۔

ابو ہریرہ: چھ دلائل کی روشنی میں ابوہریرہ کی روایات ناقابل اعتبار ہیں:

۱ ۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب تاریخ میں ۲۳ ہجری کے حالات کے ذیل میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ(۵۱) میں نقل کیا ہے۔

جب حضرت عمر نے ۲۱ ہجری میں ابو ہریرہ کو بحرین کا والی مقرر کیا تو انہیں اطلاع دی گئی کہ ابوہریرہ نے بہت مال جمع کرلیا ہے، کئی گھوڑے بھی خریدے ہیں۔ لہذا حضرت عمر نے ۲۳ ہجری میں اسے معزول کردیا، جب ابوہریرہ خلیفہ کے حضور حاضر ہوئے تو خلیفہ نے ان سے کہا: "یا عَدُوَّ الله ِ وَ عَدُوَّ کِتابِه اَسرَقتَ مَالَ الله ؟" یعنی اے دشمنِ خدا و کتاب خدا! تم نے مال خدا کو چرایا ہے؟! ابوہریرہ نے کہا: میں نے ہرگز مال خدا نہیں چرایا بلکہ یہ سب لوگوں کی عطا اور ان کے تحفے تحائف ہیں!!

نیز ابن سعد(۵۲) ، ابن حجر عسقلانی(۵۳) اور ابن عبد ربہ نے عقد الفرید جلدِ اول میں رقم کیا ہے: خلیفہ نے کہا: اے دشمن خدا جب میں نے تمہیں بحرین کا والی بنایا تھا اس وقت تمہارے پیر میں نعلین تک نہ تھی؟ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے ایک ہزار چھ سو دینار کے گھوڑے خریدے ہیں؛ یہ سب مال کہاں سے لائے ہو؟!

ابو ہریرہ نے کہا: جناب یہ سب تو لوگوں کا عطا کیا ہوا مال و متاع ہے۔ یہ سن کر خلیفہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، اپنی جگہ سے اٹھے اور ہاتھ میں تازیانہ لیکر ان کی کمر پر برسانا شروع کردیا یہاں تک کہ پشت خون آلود ہوگئی اور دس ہزار دینار جو انہوں نے بحرین سے جمع کئے تھے ان سے واپس لیکر بیت المال میں جمع کر دیئے۔

۲ ۔ ابن ابی الحدید رقم طراز ہیں(۵۴) :

"قالَ ابو جَعفر (الۡاِسۡکافی): اَبُو ه ُرَیۡرَةَ مَدۡخُولٌ عِنۡدَ شُیوُخِنا، غَیۡرُ مَرۡضِیّ الرِّوایَةِ ضَرَبَه ُ عُمَرُ بِالدّرةِ، وَ قالَ : قَدۡ اَکۡثَرۡتَ مِنَ الرّوایة احری بِکَ اَنۡ تَکونَ کاذِباً عَلی رَسُولِ الله ﷺ "

ابو جعفر اسکافی (شیخ معتزلہ) کہتے ہیں: ابوہریرہ ہمارے شیوخ کی نظر میں (عقل کے اعتبار سے) مدخول ہیں۔ ان کی روایات ہماری نظر میں ناقابل قبول ہیں کیونکہ حضرت عمر نے انہیں تازیانے مارے ہیں اور کہا ہے تم نے روایات کے سلسلہ میں زیادہ روی سے کام لیا ہے اور تم رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے میں بھی سزاوار نظر آتے ہو۔

ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ میں اور متقی ہندی نے نقل کیا ہے(۵۵) :

حضرت عمر نے ابوہریرہ کو تازیانے مارے انہیں تنبیہ کی، پیغمبر اکرمؐ کی احادیث نقل کرنے سے منع فرمایا اور کہا: کیونکہ تم پیغمبر اکرمﷺ کی طرف سے بہت کثرت سے روایات نقل کرتے ہو لہذا تم ان پر جھوٹ باندھنے میں بھی سزاوار نظر آتے ہو۔ پس آئندہ ان کی طرف سے احادیث نقل مت کرنا ورنہ میں تمہیں سرزمین "دوس" (یمن کا ایک قبیلہ ہے جہاں سے ابوہریرہ آئے تھے) یا سرزمین بوزینگال (وہ کوہستانی علاقہ جہاں بندر زیادہ ہوتے ہیں) تبعید کردوں گا۔

۳ ۔ ابن ابی الحدید معتزلی(۵۶) اپنے استاد و شیخ ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

"اَلا اِنّ اَکۡذَبَ النّاسِ، اَوۡ قالَ: اَکۡذَبَ الۡاَحۡیاءِ عَلی رَسُولِ الله ِ ﷺ، اَبُو ه ُرَیۡرَةِ الدُّوسی "

یاد رکھو! پیغمبر اکرم پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا، یا یوں فرمایا: کہ زِندوں میں نبی پاک پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا ابوہریرہ دوسی ہے۔

۴ ۔ ابن قتیبہ دینوری(۵۷) ، حاکم(۵۸) ، ذہبی(۵۹) اور مسلم(۶۰) وغیرہ سب ہی نے ابوہریرہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ امّ المؤمنین نے بارہا ابو ہریرہ کے بارے میں فرمایا؛ "ابوہریرہ کذّاب ہے اور رسول اللہﷺ کے نام سے اس نے بہت سی حدیثیں جعلی بنائی ہیں"۔

۵ ۔ معروف و بزرگ علمائے اہل سنت جناب طبری، ابن اثیر، ابن الحدید معتزلی، سمہودی، ابن خلدون اور ابن خلقان نے یمن پر بسر ابن ارطاۃ کے حملہ کے حالات لکھتے ہوئے رقم کیا ہے:

جب معاویہ بن ابی سفیان نے بسر ابن ارطاۃ خونخوار کی سرگردگی میں چار ہزار جنگجو سپاہی اہل یمن کی سرکوبی کے لئے روانہ کئے تو انہوں نے مدینہ سے گذر کیا اور راستے میں شہر مدینہ، مکہ، طائف، تبالہ، نجران، قبیلہ ارحب (جو ہمدانی قبائل میں سے تھا) صنعاء، حَضرَموت اور اس کے گردو نواح نہایت درجہ ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کرتے ہوئے کسی شیعہ پیر و جوان پر رحم نہ کھایا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن عباس جو کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانب سے مدینہ کے والی مقرر کئے گئے تھے، ان کے دو طفل صغیر کو بھی تہہ تیغ کرکے سر تن سے جدا کر دیئے تھے اور اس طرح انہوں نے تیس ہزار ( ۳۰ ہزار) لوگ قتل کر ڈالے!!

اس قتل و غارت گری میں ابوہریرہ ان کے ہمراہ تھے جب لشکر نے مکہ کی سمت پیش قدمی کی تو ابوہریرہ وہیں رُک گئے اور اس خدمت کے صلہ میں معاویہ کی جانب سے مدینہ کے گورنر معین ہوئے۔

اب ہمارا یہ ایک سوال ہے کہ کیا ابوہریرہ نے رسول اللہؐ سے یہ روایت نہیں سنی تھی کہ آپ نے فرمایا:

"مَنۡ اَخافَ اَه ۡلَ الۡمَدینَةِ ظُلۡماً اَخافَه ُ الله ُ وَ عَلَیۡه ِ لَعۡنَةُ الله ِ وَ الۡمَلائِکةِ وَ النّاسِ اَجۡمَعینَ "

جس نے بھی اہل مدینہ کو از روئے ظلم و ستم ڈرایا دھمکایا اللہ بھی اسے ڈراتا ہے اور اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

یہ روایت احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں، سمہودی نے تاریخ مدینہ میں اور سبط ابن جوزی(۶۱) نے بھی نقل کی ہے۔

علاوہ بریں: ابوہریرہ نے خلیفہ برحق و وصی رسول اللہﷺ حضرت علی علیہ السلام (کہ اہل سنت حضرات بھی جنہیں خلفاء راشدین میں شمار کرتے ہیں) لہذا ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا خلفائے راشدین سے جنگ کرنے والے اور وسیع قتل و غارت گری میں شرکت کرنے والے کی روایات صحیح اور قابل قبول ہیں؟!!

حضرت عائشہ جیسی امّ المؤمنین نے جسے کذاب کہا ہو، حضرت عمر بن خطاب نے جسے دو مرتبہ تازیانے مارے ہوں اور اسے جھوٹا او ر ممنوع الحدیث قرار دیا ہو، حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب‘ نے جسے رسول اللہﷺ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا قرار دیا ہو، کیا ایسے شخص کی روایات کو قبول کیا جاسکتا ہے؟!

اگر آپ کا جواب منفی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت ایک طرف تو اپنی کتب تاریخ میں اس قسم کے مطالب نقل کر رہے ہیں اور دوسری طرف ابوہریرہ کی روایات سے اپنی کتب کو زینت دے رہے ہیں اور "رضی اللہ عنہ" لکھ رہے ہیں۔

بیشک یہ واضح اور آشکار تناقض ہے اور کتب عامّہ میں یہ موارد "لا تُعَدُّ وَلا تُحۡصی " پائے جاتے ہیں!!

۶ ۔ ابو ہریرہ کی روایات کے ناقابل اعتبار ہونے کی جملہ دلائل میں سے ایک ان کا نفاق اور حضرت علی علیہ السلام کی نسبت دُھرا رویہ ہے؛ جیسا کہ زمخشری نے کتاب ربیع الابرار اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ ابوہریرہ جنگ صفین میں بعض مرتبہ نماز حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے پڑھتے لیکن کھانا ہمیشہ معاویہ کے پُرچرب دستر خوان پر تناول کرتے تھے؛ جب ان سے اس دُھرے رویہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو کہنے لگے:

"مضیرَةُ مُعاوِیَة اَدۡسَم، وَ الصّلوةُ خَلۡفَ عَلیَّ اَفۡضَل "

مضیرہ(۶۲) اور طعام معاویہ چرب تر ہے جبکہ نماز علی کے پیچھے افضل ہے۔

ان چھ مذکورہ دلائل کی روشنی میں قطعی طور پر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم اس ابوہریرہ پر تنقید کرتے ہیں جس پر حضرت عمر بن خطاب، امّ المؤمنین حضرت عائشہ و دیگر بزرگ صحابہ و تابعین کرام اور معتزلہ و حنفی شیوخ و علمائے کرام تنقید کرتے ہوئے نظر آ رہےہیں۔

ہم اس ابوہریرہ پر تنقید کرتے ہیں جو شکم پرست تھے اور حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب‘ کی افضیلت معلوم ہونے کے باوجود ان سے کنارہ کشی کرکے حاکم شام کے پُر چرب دستر خوان پر جلوہ افروز ہوتے رہے کہ جن کی جعلی احادیث کا سہارا لیکر امام المتقین و خلیفۃ المسلمین (کہ جنہیں اہل سنت حضرات بھی خلفاء راشدین میں تسلیم کرتے ہیں) کو سب و لعن کیا جاتا رہا۔(۶۳)

کعب الاحبار

ابن سعد(۶۴) ، بخاری(۶۵) ، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کی ج ۱ ، ص ۲۴۰ و ج ۲ ، ص ۳۸۵ میں، یعقوبی اپنی کتاب تاریخ ج ۲ ، ص ۱۴۸ اور مسعودی اپنی کتاب مروج الذہب ج ۱ ، ص ۴۳۸ اور دیگر اکابر علمائے اہل سنت نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں جناب ابوذر کے جلا وطن ہونے اور کعب الاحبار کے ان سے الجھنے کے واقعہ کو تفصیل کے ساتھ اس انداز سے لکھا ہے:

۱۷ ہجری (یعنی رسول اللہ کی وفات کے سات سال بعد) حضرت عمر ابن خطاب کی خلافت کے دور میں "کعب الاحبار" مسلمان ہوئے اور ان کے ملازم بن گئے اور ان کے بعد وہ حضرت عثمان کے مشاور بنے۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایک مجلس میں اپنی جانب سے فتویٰ صادر کیا تو ابوذر نے ان پر اعتراض کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ عصا سے کعب الاحبار کی خبر لینے پر مجبور ہوگئے اور حضرت عثمان کے سامنے انہوں نے اس مسئلہ پر شدید موقف اختیار کیا۔ جب حضرت عثمان نے جناب ابوذر کی یہ شدت دیکھی تو انہوں نے آپ کو شام جلا وطن کرنے کا حکم صادر کردیا۔

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی حدیث کی روشنی میں کیا ابوذر راستگو ترین انسان نہ تھے؟ احمد بن حنبل(۶۶) نیز حاکم نے بھی مستدرک ج ۳ ص ۳۴۲ پر روایت نقل کی ہے:

"قال رسول الله ﷺ:ما اَضَلَّتِ الۡخَضۡراءُ عَلی رَجُلٍ اَصۡدَقُ لَه ۡجَةٍ مِنۡ اَبی ذَر "

رسول اکرمﷺ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا۔

پس ایسے حالات میں جبکہ جناب ابوذر جیسا سچا انسان کعب الاحبار کے روایت بیان کرنے پر اتنا غضب ناک ہوتا ہے کہ عصا اٹھانے پر مجبور ہوجائے تو پھر کعب الاحبار کی روایات کو کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے؟!

کیا یہ بات "یک بام و دو ہوا" کا مصداق نہیں کہ ایک طرف تو جناب ابوذر کو خالص سچا اور راستگو ترین انسان مانا جائے اور دوسری طرف اس شخص سے روایت نقل کی جائے جس کی ابوذر شدید مخالفت کر رہے ہیں؟

ہم کعب الاحبار کی روایات کے ناقابل قبول اور بے اعتبار ہونے کے سلسلہ میں اتنا ہی کافی سمجھ رہے ہیں البتہ جو حضرات تفصیلات چاہتے ہیں وہ کتب رجال کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کتب اہل سنت میں بہت سی اسرائیلیات کعب الاحبار ہی کی بدولت وارد ہوئی ہیں۔

روایات حضرت مہدی (عج) کے متواتر(۶۷) ہونے پر متعدد علمائے اہل سنت کی تصریح

اب جبکہ ہم پہلی فصل میں حضور سرور کائنات سے چالیس روایات، دوسری فصل میں اہلبیت  اطہار سے چالیس روایات اور تیسری فصل میں اصحاب و تابعین سے بیس ر وایات نقل کرچکے ہیں جو سب کی سب اہل سنت سے نقل کی ہیں، قطعی طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود کے بارے میں نقل شدہ روایات کثرت اسناد کی بنا پر متواتر ہیں (جس کی وجہ سے روایات میں شک کی گنجائش نہیں ہے)۔

وضاحت:

۱ ۔ جیسا کہ ہم اس کتاب کے مقدمہ میں ۵۴ ایسے اصحاب نبیؐ کا تذکرہ کرچکے ہیں جنہوں نے نبی کریمؐ سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں مثلاً امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب‘، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا، امام حسن مجتبیٰ  سبط الشہید، امام حسین  سید الشہداء جو سب اہل بیت علیھم السلام عصمت و طہارت ہیں اور اصحاب جیسے ابوذر غفاری، سلمان فارسی مقلب بہ سلمان محمدیؐ، عمار یاسر اور جابر بن عبد اللہ انصاری وغیرہ ہیں۔

۲ ۔ اہل سنت میں محدثین و ناقلین روایات مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی تعداد ۱۶۰ سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے جن کے نام ہم نے مقدمہ کے آخر میں ذکر کردیئے ہیں۔ جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا صرف موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات بھی ان کی توجہ کا مرکز قرار پائی ہیں۔

۳ ۔ ہم نے اسی کتاب کے مقدمہ میں علمائے اہل سنت کی تالیف کردہ ۱۱۵ ایسی کتب کے اسامی کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں۔

۴ ۔ بعض محققین کی تحقیق کے مطابق ۴۰ سے زائد اہل سنت محدثین نے امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں مستقل طور پر روایات نقل کی ہیں یعنی موضوع مہدویت اور اس سے مربوط مسائل کو مستقل طور پر بیان کیا ہے جن کے اسماء ہم نے اس کتاب کے مقدمہ میں بیان کئے ہیں اور اگر اب دوبارہ جانچ پڑتال کی جائے تو ان کتب کی تعداد ۶۰ ہوجائے گی۔

۵ ۔ اہل سنت کے ۲۳ علماء نے بطور "نص جلی" بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں نقل شدہ روایات، متواتر ہیں اور انہوں نے اپنی کتب میں اس حقیقت کو ثابت بھی کیا ہے؛ جن کے اسامی ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں:

۱. شیخ محمد صبان؛ کتاب اسعاف الراغبین(۶۸) در حاشیہ نور الابصار صفحہ ۱۴۰ ؛

۲. مؤمن شبلنجی؛ کتاب نور الابصار، صفحہ ۱۷۱(۶۹) ؛

۳. شیخ عبد الحق؛ کتاب لَمَعَات، جو سنن ترمذی، ج ۲ ، ص ۴۶(۷۰) کے حاشیہ پر نقل کی گئی ہے؛

۴. ابو الحسن اَبری، کتاب مناقب شافعی، نیز بنابر نقل صواعق، صفحہ ۹۹(۷۱) ؛

۵. ابن حجر، کتاب الفتوحات الاسلامیہ(۷۲) ؛

۶. سید احمد بن سید زینی دحلان مفتی شافعیہ، کتاب الفتوحات الاسلامیہ، ج ۲ ، صفحہ ۲۱۱(۷۳) ؛

۷. ابن تیمیہ نے اپنے فتوؤں میں بیان کیا ہے جو کہ "رابطۃ العالم الاسلامی" کے رسمی بیانیہ میں نشر کئے گئے ہیں جو وہابیت کا اہم ترین مرکز ہے۔ اس بیانیہ کو ہم آئندہ صفحات پر پیش کریں گے۔

۸. شوکانی، کتاب "التوضیح فی تواتُرِ ما جاءَ فی المنتظر و الدّجال و المسیح" بر بنائے نقل کتاب غایۃ المامول، ج ۵ ، ص ۳۸۲ ؛

اہم بات یہ ہے کہ شوکانی نے یہ کتاب خاص اسی موضوع پر لکھی ہے یعنی یہ کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں روایات تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔

۹. محمد بن یوسف گنجی شافعی، کتاب "البیان" باب ۱۱ ؛

۱۰. از علمائے معاصر جناب شیخ منصور علی ناصف جو کہ "الازہر" مصر سے تعلق رکھتے ہیں، کتاب "غایة المأمول فی شرح التّاجِ الجامع للاُصول " جناب موصوف کتاب "التاج الجامع لِلاصول" کے مؤلف ہیں؛

۱۱. استاد احمد محمد صدیق ، کتاب ابرازُ الوہم المکنون من کلام ابن خلدون؛

۱۲. ابو طیب؛ کتاب الاذاعہ؛

۱۳. ابو الحسن سحری در حاشیہ کتاب صواعق محرقہ؛

۱۴. عبد الوہاب عبد اللطیف، مدرس دانشکدہ شریعت، کتاب صواعق محرقہ کے حاشیہ میں؛

۱۵. محمد بن جعفر الکتابی، کتاب نظم المتناثر فی الحدیثِ المتواتر؛

۱۶. شیخ محمد زاہدی کوثری، کتاب نظرۃٌ عابرۃٌ؛

۱۷. اسنوی، مناقب شافعی میں(۷۴) ؛

۱۸. محمد علی حسین بکری مدنی، کتاب ارشاد المستَہدِی، صفحہ ۵۳ ؛

۱۹. حافظ(۷۵) ابن حجر عسقلانی شافعی، کتاب فتح الباری؛

۲۰. سخاوی، کتاب فتح المغیث؛

۲۱. محمد بن احمد بن سفاوینی، کتاب شرح العقیدہ؛

۲۲. جلال الدین سیوطی، کتاب الحاوی؛

۲۳. ابو العباس بن عبداً لِمؤمن، کتاب الوہم المکنون۔

ہم یہاں پر اہل سنت کے دس بزرگ ایسے علماء کرام کا تذکرہ کرنا بھی مناسب سمجھ رہے ہیں جنہوں نے حضر ت مہدی موعود علیہ السلام کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کے متواتر ہونے کی تصریح فرمائی ہے تاکہ حقیقت روزِ روشن کی مثل واضح اور آشکار ہوجائے اور کوئی شک وشبہہ کی گنجائش باقی نہ رہے:

۱ ۔ شوکانی: جناب شوکانی نے ان روایات کو متواتر ثابت کرنے کے لئے خصوصی کتاب "اَلتُّوضیحُ فی تَواتُرِ ما جاءَ فی الۡمُنتَظَر وَ الدَّجّالِ وَ الۡمَسیح " تالیف کی ہے۔ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"وَ جَمیعُ ما سقناه ُ بالِغٌ حَدَّ التَّواتُر کَما لا یَخۡفی عَلی مَنۡ لَه ُ فَضۡلُ اِطّلاع، فَتُقُرِّرَ بِجَمیعِ ما سقناه ُ اَنَّ الۡاَحادیثَ الۡوارِدَةَ فِی الۡمَه ۡدیِّ الۡمُنۡتَظَرِ مُتواتِرَةٌ وَ ه ذا یَکۡفی لِمَنۡ کانَ عِنۡدَه ُ ذَرَّةٌ مِنۡ ایمانٍ وَ قلیلٌ مِنۡ اِنۡصافٍ (۷۶) "

تمام احادیث جنہیں ہم نے نقل کیا ہے، متواتر ہیں جیسا کہ اہل علم و فضل سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔ پس بنابریں یہ بات مسلم ہے کہ حضرت مہدی منتظر  کے بارے میں نقل شدہ روایات، متواتر ہیں لہذا جس کے قلب میں ذرہ ایمان اور تھوڑا سا بھی انصاف کا مادہ ہے تو اس کے لئے یہی کافی ہے۔

۲ ۔ محمد بن جعفر الکتانی، "نظم المتناثر" میں رقمطراز ہیں:"اَلۡاَحادیثُ الۡوارِدَةُ فِی الۡمَه ۡدیِّ الۡمُنۡتَظَرِ مُتواتِرَةٌ (۷۷) " یعنی حضرت مہدی المنتظر  کے بارے میں وارد شدہ احادیث، متواتر ہیں۔

۳ ۔ شیخ محمد زاہد کوثری، "نظرۃٌ عابِرَۃٌ" میں تحریر کرتے ہیں:

"وَ اَمّا تَواتُرُ اَحادیثِ الۡمَه ۡدی وَ الدَّجالِ وَ المَسیحِ فَلَیۡسَ بِمَوۡضِعِ ریۡبَةٍ عِنۡدَ اَه ۡلِ الۡعِلۡمِ بِالۡحَدیثِ (۷۸) " یعنی جو لوگ احادیث سے آشنائی رکھتے ہیں وہ بغیر کسی شک و شبہ کے جانتے ہیں کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، دجال او ر مسیح کے بارے میں نقل شدہ روایات، متواتر ہیں۔

۴ ۔ اسنوی، "مناقب شافعی" میں بیان کرتے ہیں: حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے ظہور کے بارے میں اور یہ کہ وہ اہل بیت پیغمبرؐ سے ہوں گے، نقل شدہ اخبار و روایات متواتر ہیں(۷۹) ۔

۵ ۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی (متوفی ۶۵۸ ھ ق) اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان، باب ۱۱ میں رقمطراز ہیں: "تَواتَرَتِ الۡاَخبارُ وَ اسۡتَفاضَتۡ بِکَثۡرَةِ رُواتِه ا عَنِ المُصطفیﷺ فی اَمۡرِ الۡمَه ۡدی (۸۰) " حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں احادیث پیغمبر اکرمﷺ، کثیر التعداد راویوں کے نقل کرنے کی بنا پر "متواتر" ہیں۔

۶ ۔ ابن حجر عسقلانی شافعی (متوفی ۸۵۲ ھ ق) کتاب فتح الباری شرح صحیح بخاری میں رقمطراز ہیں: "تَواتَرَتِ الۡاَخبارُ بِانَّ الۡمَه ۡدی مِنۡ ه ذِه ِ الۡاُمَّة وَ اَنّ عیسی سَیَنۡزِلُ وَ یُصَلّی خَلۡفَه ُ (۸۱) " تواتر کے ساتھ احادیث موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ مہدی اس امت سے ہوں گے اور عیسیٰ آسمان سے نازل ہوکر ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

۷ ۔ مؤمن شبلنجی (متوفی ۱۲۹۱ ھ ق) کتاب "نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار" میں لکھتے ہیں: "تَواتَرَتِ الۡاَخبارُ عَنِ النّبیﷺ اَنَّه ُ مِن اهل بَیتِه ِ وَ اَنَّه ُ یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدلاً (۸۲) " نبی کریمﷺ سے ایسی متواتر احادیث نقل کی گئی ہیں جو بیان کر رہی ہیں کہ مہدی آپؐ کے خاندان سے ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

۸ ۔ شیخ محمد بن علی صبان (متوفی ۱۲۰۶ ھ ق) کتاب اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفی و فضائل اہل بیتہ الطاہرین" میں رقمطراز ہیں: "تَواتَرَتِ الۡاَخبارُ عَنِ النّبیﷺ بِخُروُجِه وَ اَنَّه ُ مِن اهل بَیتِه ِ وَ اَنَّه ُ یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدلاً (۸۳) " پیغمبر گرامی قدر سے متواتر روایات نقل کی گئی ہیں جو اس بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ مہدی خروج کریں گے اور وہ اہل بیت نبی سے ہوں گے اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

۹ ۔ شیخ منصور علی ناصف جو کہ "الازھر" مصر کے معروف علمائے معاصر میں سے ہیں اپنی تالیف التاج الجامع للاُصول(۸۴) میں تحریر کرتے ہیں: "گذشتہ و حالیہ تمام علماء میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ یقیناً اہل بیت پیغمبرؐ میں سے آخر الزمان میں ایک شخص ظہور کرے گا جس کا نام مہدیؑ ہے وہ تمام اسلامی ممالک پر مسلط ہوجائے گا، تمام مسلمان اس کے پیروکار ہوجائیں گے وہ لوگوں میں عدل و عدالت قائم کرے گا، دین کو قوت و استحکام عطا کرے گا اور عیسیٰ آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو نابود کریں گے یا دجال کو نابود کرنے میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی مدد فرمائیں گے۔

نیز لکھتے ہیں کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں بہت سے عظیم اصحاب کرام نے نبی کریمﷺ سے احادیث نقل فرمائی ہیں اور ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، ابو یعلی، بزّاز، امام احمد ابن حنبل اور حاکم نیشاپوری جیسے بزرگ محدثین نے انہیں اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے"(۸۵) ۔

۱۰ ۔ محمد علی حسین البکری مدنی، کتابارشاد المستهدی فی نقل بَعض الاحادیث، و الآثار الواردِة فی شأن الامام المه دی (۸۶) ص ۵۳ میں لکھتے ہیں:

"اے صاحبِ عقل و خِرَد! ظہور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں ہر قسم کے شک و شبہہ سے پرہیز کرو۔ کیونکہ آنجنابؐ کے ظہور پر یقین و اعتقاد خدا و رسول خدا اور ہر وہ چیز جو رسول اللہ نے بیان فرمائی ہے اس پر ایمان کامل کی علامت ہے۔ یاد رکھو! پیغمبرؐ صادق و مصدق ہیں۔

نیز یقین رکھو کہ ابھی تک حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور جس نے بھی اس بات کا دعویٰ کیا ہے وہ کذّاب اور جھوٹا ہے کیونکہ اس شخص میں وہ علامات موجود ہی نہیں تھیں جو روایات و احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے ظہور کی علامات بالکل واضح و روشن ہیں۔ ان کا ظہور حضرت عیسیٰ  کے نزول سے قبل واقع ہوا اور حضرت عیسیٰ  سے ان کی ملاقات ضروری و بدیہی امور میں سے ہے۔ جو شخص اس سلسلہ میں مبسوط و بھرپور معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اسے اس موضوع کے بارے میں تالیف شدہ کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ ہم اس کتاب یعنی "ارشاد المستھدی" میں صرف ظہور مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں نقل شدہ روایات کے متواتر ہونے کو بطور اختصار ثابت کرنا چاہتے ہیں"(۸۷) ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ یہ بزرگ عالم اہل سنت حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں نقل شدہ روایات کے متواتر ہونے پر صرف یقین ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان روایات کے تواتر کو ثابت بھی کر رہے ہیں۔ جناب مؤلف کتاب ارشاد المستھدی کے صفحہ ۵۲ پر لکھتے ہیں:

ظہور اور اس کے آثار کے بارے میں تقریباً محدثین و غیر محدثین سب ہی نے احادیث نقل کی ہیں۔ ظہور مہدی رضی اللہ عنہ پر ایمان، اصحاب کے درمیان مشہور و معروف تھا اور اصحاب نے یہ عقیدہ پیغمبر گرامی قدر ہی سے حاصل کیا تھا۔ نیز تابعین کرام سے ہم تک پہنچنے والے آثار و مراسیل بھی اس عقیدے کی گواہی دے رہے ہیں کیونکہ یہ حضرات اس قسم کے مسائل میں اپنی طرف سے کوئی اظہار خیال نہیں کرتے تھے۔

نتیجہ:

۱. علمائے اہل سنت کے مطابق حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے بارے میں اصحاب رسول اکرمﷺ میں سے ۵۴ افراد نے روایات نقل کی ہیں۔

۲. ۲۲۷ ہجری سے تابحال ۱۶۰ سے زائد علمائے اہل سنت نے یہ روایات نقل کی ہیں۔

۳. کتب صحاح، مسانید سنن اور سیرت میں متعدد علمائے اہل سنت نے یہ روایات نقل کی ہیں۔

۴. روایات حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں ۴۰ مستقل طور پر لکھی جانے والی کتب اہل سنت۔

۵. اور علمائے اہل سنت کے ۲۳ افراد کی جانب سے اس بات کی تصریح کہ روایات حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) متواتر ہیں۔

ان تمام نکات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے بارے میں اہل سنت سے نقل شدہ احادیث متواتر، مسلم اور ثابت شدہ ہیں اور حضور سرور کائنات کے صادق القول ہونے پر ایمان کی صورت میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ یہ احادیث "اخبار غیبی" میں سے ہیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ خداوند عالم اہل دنیا کی آنکھوں کو آنجناب کی زیارت سے منور فرمائے:

"اَللّه ُمَّ عَجِّلۡ لِوَلیِّکَ الۡفَرَجَ، وَ اجۡعَلۡنا مِنۡ اَنۡصارِه وَ اَعۡوانِه "

روایات حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں ابن ابی الحدید کا بیان

اہل سنت کے معروف عالم و محقق اور شارح نہج البلاغہ جناب ابن ابی الحدید حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے سلسلہ میں وارد شدہ روایات کے بارے میں اپنے عقیدہ کا اس انداز سے اظہار کرتے ہیں:

"قَدۡ وَقَعَ اِتّفاقُ الۡفِرَقِ مِنَ الۡمُسۡلِمینَ اَجۡمَعینَ عَلی اَنَّ الدُّنۡیا وَ التکلیفَ لا یَنۡقَضی اِلَّا عَلَیۡه (المَه دی علیه السلام)" تمام فِرق اسلامی ا س بات پر متفق ہیں کہ عمر دنیا اور تکلیف بشر (یعنی احکام الٰہی کو اجراء کرنے کی پابندی) اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک کہ حضرت مہدی کا ظہور نہ ہوجائے۔(۸۸)

عقیدہ مہدویت پر عامۃ المسلمین و وہابیت کی زندہ دلیل:

رابطہ العالم الاسلامی کا بیان

اب جبکہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے بارے میں نقل شدہ روایات کا متواتر ہونا ثابت ہوچکا ہے اور نبی کریم کے صادق القول ہونے پر ایمان کی وجہ سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ اخبار غیبی میں سے ہے، اس موقع پر مکہ میں واقع وہابیت کے سب سے بڑے مرکز" رابطۃ العالم الاسلامی" کے جاری کردہ رسمی بیان کو ایک زندہ و جاوید دلیل و سند کے طور پر پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمانان عالم عقیدہ مہدویت پر یقین رکھتے ہں ۔

اس بیان کے اہم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شیعوں کی شدت سے مخالفت کرنے والوں (یعنی وہابیوں) نے بھی اس موضوع کو صرف قبول ہی نہیں کیا ہے بلکہ شدت سے اس کا دفاع بھی کیا ہے اور اسے اسلامی قطعی و مسلم عقائد میں سے تسلیم کیا ہے اور اس کی وجہ اس موضوع پر کثرت سے دلائل و اسناد کا موجود ہونا ہے۔ علاوہ بر ایں یہ مرکز اسلامی دنیا کے باہمی تعلقات و روابط کے مرکز کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔

بہرحال ۱۹۷۶ میں "کینیا" کے رہنے والے ایک شخص "ابو محمد" نے حضرت مہدی منتظر کے بارے میں "رابطہ العالم الاسلامی" سے سوال کیا، اس کے جواب میں اس مرکز کے ڈائریکٹر جنرل نے اس نکتہ کی طرف ا شارہ کرتے ہوئے کہ وہابی مذہب کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی حضر ت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں نقل شدہ روایات کی تصدیق کی ہے، مکمل نامہ ارسال کیا ہے، جس کے متن کو حجاز کے پانچ معروف علماء کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔

اس نامہ میں حضرت کے نام و محل و ظہور (یعنی مکہ) کے ذکر کے بعد بیان کیا گیا ہے: "جب دنیا میں فتنہ و فساد، کفر و نقاق اور ظلم و ستم پھیل جائے گا تو اس وقت پروردگار عالم ان کے (یعنی حضرت مہدیؑ) کے ذریعے دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی وہ بارہ خلفاءِ راشدین میں سے آخری ہوں گے کہ کتب صحاح میں پیغمبر اکرم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے۔ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں بہت سے اصحاب کرام نے احادیث بیان فرمائی ہیں جیسے: عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، طلحہ بن عبد اللہ، عبد الرحمن بن عوف، عبد اللہ بن عباس، عمار بن یاسر، عبد اللہ بن مسعود ، ابو سعید خدری، ثوبان، قرۃ بن ایاس مزنی، عبد اللہ بن حارث، ابوہریرہ، حذیفہ بن یمان، جابر بن عبد اللہ، ابو امامہ، جابر بن ماجد، عبد اللہ بن عمر، انس بن مالک، عمران بن حصین و امّ سلمہ۔

نیز لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمﷺ سے منقول مذکورہ بالا احادیث نیز صحابہ کرام کی گواہی جو کہ اس مقام پر حدیث ہی کا حکم رکھتی ہے، بہت سی معروف کتب، اور احادیث پیغمبر کو بیان کرنے والی اصیل کتب سنن اور معاجم و مسانید میں نقل کی گئی ہیں جیسے: سنن : ابی داود، ترمذی، ابن ماجہ، ابو عمرو الدانی؛ مسانید: مسند احمد، مسند ابی یُعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم؛ معاجم: طبرانی، رویانی، دار قطنی، علاوہ بر ایں ابو نعیم نے کتاب "اخبار المہدی" میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں اور ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" وغیرہ میں یہ احادیث نقل کی ہیں۔

نیز لکھتے ہیں: بعض اہل علم و فضل نے اس سلسلہ میں مخصوص کتب تالیف کی ہیں جیسے:

ابو نعیم: کتاب اخبار المہدی؛ ابن حجر ہیثمی: کتاب "اَلۡقَوۡلُ المُخۡتَصَرُ فی عَلاماتِ الۡمَه ۡدیِ الۡمُنۡتَظَر "؛ شوکانی: کتاب "اَلتَّوۡضیحُ فی تَواتُرِ ما جاءَ فیِ الۡمُنتَظَرِ وَ الدَّجالِ وَ المَسیحِ "؛ ادریس عراقی مغربی: کتاب "المہدی؛ ابو العباس بن عبد المؤمن مغربی: کتاب: "اَلۡوَه ۡم الۡمَکۡنُون فیِ الرَّدِّ عَلی اِبۡنِ خَلدُون

اور سب سے زیادہ تفصیل سے اس سلسلہ میں دانشگاہ اسلامی مدینہ کے رئیس نے قلم اٹھایا ہے جن کی تحریر دانشگاہ کے متعدد مجلات میں شایع ہوچکی ہے۔

متعدد قدیم و جدید بزرگ علمائے اسلام نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں نقل شدہ احادیث، متواتر ہیں (جو کسی صورت قابل انکار نہیں ہیں) مثلاً:

سخاوی نے کتاب فتح المغیث میں، محمد بن احمد سفاوینی نے کتاب "شرح العقیدہ" میں ابو الحسن آبری نے "مناقب الشافعی" میں؛ ابن تیمیہ نے اپنے فتاوا میں، سیوطی نے "الحاوی " میں، ادریس عراقی مغربی نے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں اپنی تالیف کردہ کتاب میں، شوکانی نے کتاب "التوضیح فی تواتُرِ ما جاءَ فی المنتظر " میںِ محمد بن جعفر کتانی نے کتاب "نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر" میں اور ابو العباس بن عبد المؤمن نے کتاب "الوه م المکنون " وغیرہ میں تصریح فرمائی ہے۔

اور اس بیان کے اختتام پر لکھتے ہیں: صرف ابن خلدون نے ایک مجعول و بے بنیاد حدیث "مہدی، عیسیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے" کی وجہ سے اس سلسلہ میں وارد ہونے والی بے شمار احادیث کو قابل اشکال و اعتراض قرار دیا ہے لیکن بزرگ علمائے اسلام نے ان کے قول کو سختی سے رد کیا ہے خصوصاٍ ابن عبد المؤمن کہ جنہوں نے ابن خلدون ہی کی رد میں کتاب رقم کی ہے، تیس سال قبل مشرق و مغرب میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی، اسی طرح حفّاظ و محدثین احادیث نے بھی تصریح فرمائی ہے کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں نقل شدہ احادیث "صحیح" اور "حسن" پر مشتمل ہیں بہرحال یہ احادیث قطعامتواتر اور صحیح ہیں۔

بنابرایں، ظہور حضرت مہدی پر اعتقاد رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، اور اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا جزء ہے۔ اور سوائے نادان، نا آشنا یا بدعت گزار افراد کے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے۔

"مدیر ادارۂ مجمع فقہی اسلامی محمد منتصر کنانی": ہم نے یہاں محترم قارئین کی خدمت میں اس نامے کے صرف حساس حصہ کا ترجمہ پیش کر دیا ہے کامل متن سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے " کتاب مہدی انقلابی بزرگ" کے صفحہ ۱۵۱ تا ۱۵۵ کو ملاحظہ فرمائیں(۸۹) ۔

____________________

۱ ۔ "احبار" ، "حِبر" کی جمع ہے جس سے مراد یہودی عالم ہے۔

۲ ۔ عقد الدُّرر فی اخبار المنتظر، باب اول، صفحہ ۴۴، طبع مسجد مقدس جمکران ۱۴۲۵ ھ ق۔

۳ ۔ سعید بن مسیب بزرگ تابعین اور فقہائے مدینہ میں سے تھے، نیز امام زین العابدین  کے ہم عصر تھے۔

۴ ۔ عِقد الدّرر فی اخبار المنتظر، باب چہارم: فیما یَظہَر من الفِتَن الدّالہ علی ولایتہ، صفحہ ۹۹، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۵ ۔ اَلفتن، باب علامۃ اخری عند خروج المہدی (عج)، ص ۹۳۔

۶ ۔ عقد الدّرر فی اخبار المنتظر، باب۴: فیما یظہر من الفتن الدالۃ علی ولایتہ، ص ۱۴۲، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۷ ۔ کتاب العین ، ج۲، ص ۸۳۹ میں مادہ "سلب" کے ذیل میں ہے کہ کُلُّ لباس علی الانسان سَلَبٌ۔ حجاج احرام کے بجائے اپنے لباس پہنیں گے۔

۸ ۔عقد الدررّ فی اخبار المنتظر، باب۴، فصل ۳، ص ۱۴۴ (طبع مسجد مقدس جمکران) ۔

۹ ۔ الفتن، باب علامۃ اُخری عند خروج المہدیؑ، صفحہ ۹۳ ۔

۱۰ ۔ عقد الدّرر ، باب ۴، فصل۳، ص ۱۴۵، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۱۱ ۔ الفتن، باب آخر از "علامات المہدی فی خروجہ، ص ۹۱۔

۱۲ ۔عقد الدّرر، باب ۴، فصل ۳، ص ۱۵۰ ۔

۱۳ ۔الفتن، باب ما یُذکر من علامات من السماء، ص ۶۰ ۔

۱۴ ۔ الفتن، باب اجتماع الناس بمکۃ و بَعیتہم للمہدی فیہا، ص ۹۴۔

۱۵ ۔ عقد الدّرر، باب ۵، ص ۱۷۰ و ۲۸۲۔

۱۶ ۔الفتن باب نسب المہدی، ص ۱۰۲ ۔

۱۷ ۔ عقد الدّرر، باب ۷ "فی شرفہ و عظیم منزلتہ" ص ۲۰۷، طبع مسجد مقدس جمکران ۱۴۲۵ ھ۔

۱۸ ۔ سنن، ص ۱۰۰۔

۱۹ ۔ الفتن باب "سیرۃ المہدی و عدلہ خصب زمانہ:" ص ۹۹۔

۲۰ ۔عقد الدّرر، باب ۷، ص ۲۰۷، طبع مسجد مقدس جمکران ۔

۲۱ ۔الفتن، باب اجتماع الناس بمکۃ و بیعتہم للمہدی فیہا، ص ۹۴ ۔

۲۲ ۔ عقد الدّرر، باب ۸؛ "فی کرمہ و فتوّتہ" ص ۲۲۴، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۴۵ھ ۔

۲۳ ۔ کتاب جامع باب "ما جاء فی المہدی من ابواب الفتن، ج۹، ص ۷۵۔

۲۴ ۔ الفتن ج۳، ص ۱۹۴۔

۲۵ ۔ تہذیب التہذیب ج۱۰، ص ۴۹۰ میں ہے کہ یہ شخص ابو اسحاق ہمدانی ہے۔ اور تقریب التہذیب میں ہے کہ ابن نوف فضالہ شامی مستور ہے جو ۹۰ ہجری کے بعد فوت ہوا تھا۔

۲۶ ۔ عقد الدّرر، باب ۹، ص ۲۷۴، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵۔

۲۷ ۔السنن، ص ۱۰۰ ۔

۲۸ ۔ الفتن، باب سیرۃ المہدی و خصب زمانہ، ص ۹۸۔

۲۹ ۔ عقد الدّرر، باب ۹، فصل ۳، ص ۲۸۲ طبع مسجد مقدس جمکران۔

۳۰ ۔ حذیفہ بن حسل بن جابر بن عمر بن ربیعہ، رسول اللہؐ کے بزرگ صحابہ میں سے ہیں اور حضور ﷺ کے رازدار کے نام سے مشہور ہیں اور یہ ۳۶ ہجری میں فوت ہوئے ہیں۔

۳۱ ۔ معجم البلدان، ج۱، ص ۷۲۹ میں ہے کہ بلنجر، ساحل خزر کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔

۳۲ ۔ الفتن، باب نسب المہدیؑ، ص ۱۰۳۔

۳۳ ۔ صحیح مسلم، ج۱، ص ۱۳۷، باب "نزول عیسی بن مریم حاکماً بشریعۃ نبیاً محمد از کتاب الایمان۔

۳۴ ۔ عقد الدّرر، باب ۳، ص ۶۷، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ھ۔

۳۵ ۔ کتاب معجم البلدان، ج۱، ص ۳۸۲ و ۳۸۳ میں ہے: انطاکیہ موجودہ شام کا ایک شہر ہے جو شہر حلب سے ایک شب و روز کی مسافت پر واقعہ ہے۔

۳۶ ۔السنن، ص ۱۰۱ ۔

۳۷ ۔ کتاب تہذیب التہذیب، ج۵، ص ۲۵۶ و ۲۵۵ میں ہے: ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن شوذب خراسانی، بلخی، بلخ کے رہنے والے تھے، سالہا شام میں مقیم رہے اور ۱۴۴ ہجری یا ۵۶ یا ۵۷ ہجری میں وفات پائی۔

۳۸ ۔ عقد الدّرر، باب ۱۱، ص ۳۰۷ ، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۳۹ ۔ عقد الدّرر، باب ۹، فصل ۳، ص ۲۷۷، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۴۰ ۔ الفتن، باب غزوۃ الہند، ص ۱۱۳۔

۴۱ ۔ عقد الدّرر، باب۳، ص ۶۵، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ھ۔

۴۲ ۔ صفۃ المہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)و نعتہ، ص ۱۰۰۔

۴۳ ۔ عقد الدّرر، باب۳، ص ۱۸۵۔

۴۴ ۔کتاب العین، ج۳، ص ۱۴۱۴ میں ہے: حدیث میں آیا ہے تَرمِی بِاَفَلاذِ کَبِدِہَا یعنی ما فیہا من الکنوز و الاموال؛ یعنی زمین اپنے خزانے اور اموال باہر نکال ڈالے گی۔

اسی کتاب العین ج۳، ص ۱۵۴۹ میں ہے: "کِبَد" ہر شئے کے وسط و درمیان کو کہتے ہیں ۔

۴۵ ۔ مستدرک (الملاحم و الفتن)، ج۴، ص ۵۱۴۔

۴۶ ۔ عقد الدّرر، ص ۲۰۱۔

۴۷ ۔ "کوفان" ایک سرزمین کا نام ہے؛معجم البلدان، ج۴، ص ۳۲۱۔

۴۸ ۔ عقد الدّرر، باب۷، ص ۲۰۲، طبع مسجد مقدس جمکران ۱۴۲۵ ھ ۔

۴۹ ۔ الفتن، باب سیرۃ المہدی و عدلہ و خصب زمانہ، ص ۹۸۔

۵۰ ۔ شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۱۰۴، طبع مصر۔

۵۱ ۔ طبقات ابن سعد، ج۴، ص ۹۰۔

۵۲ ۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔

۵۳ ۔شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص ۳۶۰ ۔

۵۴ ۔ کنز العمال، ص ۲۳۹۔

۵۵ ۔ شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص ۳۶۰۔

۵۶ ۔تاویل مختلف الحدیث ۔

۵۷ ۔ مستدرک، ج۳۔

۵۸ ۔ تلخیص المستدرک۔

۵۹ ۔ صحیح مسلم، ج۲ ۔

۶۰ ۔تذکرہ، ص ۱۶۳ ۔

۶۱ ۔ "مضیرہ" دودھ سے تیار کی جانے والی ایک خاص غذا ہے جو حاکم شام سے مخصوص تھی۔

۶۲ ۔شبہای پیشاور مرحوم سلطان الواعظین شیرازی، ص ۳۵۱، ۳۵۲ و ۳۲۸، طبع ۳۱، حیدری پرنٹنگ پریس ۔

۶۳ ۔ طبقات ابن سعد، ج۴، ص ۱۶۸۔

۶۴ ۔ زکات صحیح۔

۶۵ ۔ مسند احمد ابن حنبل، ج۲، ص ۱۶۳ و ۱۷۵۔

۶۶ ۔ "تواتر" و "متواتر" علم حدیث کی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے: ایسی جماعت کی جانب سے خبر کا صادر ہونا جن کا جھوٹ و کذب پر یکجا ہونا محال ہو جس کے نتیجہ میں مفہوم خبر قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔

۶۷ ۔طبع مصر، سال ۱۳۱۲ ھ ق ۔

۶۸ ۔ طبع قاہرہ، مکتبۃ المشھد الحسینی۔

۶۹ ۔ طبع مصر۔

۷۰ ۔ طبع مصر۔

۷۱ ۔ ج۲، ص ۲۱۱، طبع مصر۔

۷۲ ۔ طبع مصر۔

۷۳ ۔کتاب: نوید اَمن و امان، آیت اللہ صافی گلپائیگانی، طبع دفتر انتشارات اسلامی، (جلد دوم از امامت و مہدویت)، ص ۳۰۷۔

۷۴ ۔ حافظ، علم حدیث کی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سنن رسول اکرمؐ پر احاطہ رکھتا ہو۔ احادیث کے موارد اتفاق و اختلاف، راویوں کے حالات و مشائخ حدیث کے طبقات سے بھرپور آگاہی رکھتا ہو (کتاب علم الحدیث کاظم مدیر شانہ چی)۔

۷۵ ۔نقل از غایۃ المامول فی شرح التاج الجامع للاصول تالیف شیخ منصور علی ناصف، در حاشیہ التاج، طبع۲، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ج۵، ص ۳۲۷ (سیرہ پیشوایان، مہدی پیشوائی، ص ۶۹۸، طبع مؤسسہ امام صادق علیہ السلام، طبع ۱۲، تابستان ۱۳۸۰ شمسی) ۔

۷۶ ۔ نوید امن و امان، آیت اللہ صافی گلپائیگانی، طبع دفتر انتشارات اسلامی، جلد دوم از امامت و مہدویت، ص ۳۰۷۔

۷۷ ۔نوید امن و امان، آیت اللہ صافی گلپائیگانی، طبع دفتر انتشارات اسلامی( جلد دوم از امامت و مہدویت) ص ۳۰۷، ذکر معنی میں مختصر تصرف کے ساتھ۔

۷۸ ۔ نوید امن و امان، آیت اللہ صافی گلپائیگانی، طبع دفتر انتشارات اسلامی( جلد دوم از امامت و مہدویت) ص ۳۰۷۔

۷۹ ۔منتخب الاثر، ص ۵ پاورقی۔

۸۰ ۔فتح الباری شرح صحیح بخاری ، بیروت ، دار المعرفۃ، ج۶، ص ۴۹۳، ۴۹۲۔

۸۱ ۔ نور الابصار، قاہرہ، مکتبۃ المشہد الحسینی، ص ۱۷۱۔

۸۲ ۔اسعاف الراغبین، در حاشیہ نور الابصار، ص ۱۴۰۔

۸۳ ۔جیسا کہ ہم مقدمہ میں ذکر کرچکے ہیں کہ یہ کتاب اہل سنت کی مہم ترین کتب حدیث یعنی اصول پنجگانہ حدیث میں سے ایک قابل اطمینان مجموعہ کی جمع آوری کی غرض صے تالیف کی گئی ہے، اور پانچ جلدوں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔ مؤلف کتاب نے اس کتاب کی شرح بھی لکھی ہے جس کا نام "غایۃ المامول" رکھا ہے اور اسے بھی اس کے حاشیہ پر پرنٹ کیا گیا ہے۔

۸۴ ۔التاج الجامع للاصول ، قاہرہ، طبع دوم، ج۵، ص ۳۱۰، دار احیاء الکتب العراقیہ۔

۸۵ ۔طبع شہر حلب۔

۸۷ ۔آخر کتاب "ارشاد المستھدی" بنابر نقل از "نوید امن و امان" آیت اللہ صافی گلپائیگانی۔

۸۸ ۔شرح نہج البلاغہ، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۹۶۰؁، ج۱۰، ص ۹۶۔

۸۹ ۔سیرۂ پیشوایان (مہدی پیشوائی) س ۷۰۴ طبع انتشارات مؤسسہ امام صادق علیہ السلام ۱۳۸۰ شمسی۔