مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 43446
ڈاؤنلوڈ: 4210

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43446 / ڈاؤنلوڈ: 4210
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسرا باب

اسم، کنیت اور لقب حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)

اس باب میں دو فصلیں ہیں جو چالیس روایات پر مشتمل ہیں

 پہلی فصل: کتب اہل سنت سے ۲۵ روایات رسول خداﷺ سے نقل کی گئی ہیں

 دوسری فصل: کتب اہل سنت سے ۱۵ روایات اہل بیت عصمت و طہارت  سے نقل کی گئی ہیں

پہلی فصل

روایات رسول خدا ﷺ میں مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کا نام، کنیت اور لقب

اس باب و فصل میں محترم قارئین جو روایات ملاحظہ فرمائیں گے:

اولاً: تمام روایات کتب اہل سنت سے ماخوذ ہیں۔ جیسا کہ تمام ابواب میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے۔

ثانیاً: اس سلسلہ میں فراوانی سے روایات وارد ہوئی ہیں لیکن صرف محدود تعداد پر اکتفاء کرتے ہوئے منظور نظر مطلب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

اسم مہدی (  )، اسم رسول اللہ (ﷺ)ہے

۱ ۔ احمد بن حنبل(۱) ، ترمذی(۲) ، ابن ماجہ اپنی کتاب کے باب خروج مہدی میں، ابو داؤد(۳) ، بخاری اپنی کتاب کی جلد دوم باب نزول عیسی میں، نور الابصار(۴) ، ینابیع المودّۃ(۵) ، مطالب السئول باب ۲ ، تذکرۃ الخواص اور صواعق محرقہ وغیرہ میں اور بہت سے دیگر بزرگ علمائے اہل سنت نے روایت کی ہے:"قالَ رَسولُ الله ﷺ: لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى یَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِی" رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک مرد عرب پر بادشاہ و حاکم نہ بن جائے جو میرا ہم نام ہوگا۔

نکتہ: جناب ترمذی(۶) نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام ، ابو سعید خدری، ام سلمہ اور ابو ہریرہ سے بھی روایت موجود ہے اور یہ نقل شدہ روایت "حسن و صحیح" ہے۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام و کنیت، پیغمبر اسلامﷺ کے نام و کنیت جیسا ہے

۲ ۔ سبط ابن جوزی(۷) ، کفایۃ الاثر (بنابر نقل منتخب الاثر ص ۱۸۲) اور ینابیع المودۃ(۸) نے عبد العزیز محمود بن بزاز سے اور انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے: "قالَ رَسولُ الله ﷺ: یَخۡرُجُ فی آخِرِ الزَّمان رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدی اِسۡمُه ُ کَاِسۡمی کُنۡیَتُه ُ کَکُنۡیَتی یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً فَذلِکَ ه ُوَ الۡمَه ۡدِی (۹) " رسول خداﷺنے فرمایا: آخر زمانہ میں میری اولاد میں سے ایک مرد آئے گا جس کا نام میرا نام ہوگا اور جس کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی، جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور وہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہے۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام نبی کریمﷺ کے نام جیسا ہے

۳ ۔ متقی ہندی(۱۰) کتاب "البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان" باب نمبر ۳ میں لکھتے ہیں: "وَ اَخۡرَجَ اَیۡضاً (یعنی نیم بن حماد) عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدۡری عَنِ النَّبیﷺقالَ: "اِسۡمُ الۡمَه ۡدی اِسۡمی " نعیم بن حماد نے ابو سعید خُدری کے توسط سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: مہدی میرا ہم نام ہوگا۔

میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص میرا ہم نام ہوگا جو بہرحال حاکم بنے گا

۴ ۔ احمد بن حنبل(۱۱) نے مسنداً روایت کی ہے :"لا تَنۡقَضِی الاَیّامُ وَلا یَذۡه َبُ الدَّه ۡرُ حَتَّى یَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِی " رسول خداﷺ نے فرمایا: یہ شب و روز اور زمانہ اس وقت تمام نہ ہوگا جب تک کہ میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص عرب پر حاکم نہ بن جائے جو میرا ہم نام ہوگا۔

میرے اہل میں سے سے میرا ہمنام ایک شخص ولی و سرپرست بنے گا

۵ ۔ ترمذی(۱۲) نے مُسنداً روایت کی ہے: "عَنِ النَّبیﷺ، قالَ: یَلی رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِی " نبی کریمﷺنے فرمایا: میرے اہل بیت میں سے میرا ہمنام ایک شخص ولی و سرپرست بنے گا۔

اس وقت تک قیامت نہ آئے گا جب تک کہ میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے میرا ہمنام ولی و سرپرست نہ بن جائے

۶ ۔ احمد بن حنبل(۱۳) نے عاصم سے انہوں نے زر سے انہوں نے عبد اللہ سے انہوں نے حضور سرور کائنات سے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: "لا تَقُومُ السّاعَةُ حَتَّى یَلِیَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِی " اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک کہ میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے وہ شخص ولی و سرپرست نہ بن جائے جس کا نام میرے نام سے موافق ہوگا (میرا ہمنام ہوگا)۔

حاکم و خلیفۂ عرب میرا ہمنام ہوگا

۷ ۔ ابو داؤد(۱۴) نے عاصم سے انہوں نے زر سے انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا:"لَا تَذْهَبُ اَوۡ لا تَنۡقَضِی الدُّنْيَا حَتَّى یَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِی " دنیا کا اس وقت تک خاتمہ نہ ہوگا اور اس وقت تک یہ زمانہ تمام نہ ہوگا جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے میرا ہمنام ایک شخص عرب پر حاکم و خلیفہ نہ بن جائے۔

نکتہ: حنبلیوں کے امام، احمد بن حنبل(۱۵) نے بھی اسی روایت کو عاصم سے اور انہوں نے عبد اللہ سے نقل کیا ہے البتہ انہوں نے فقط یُواطی کہا ہے یعنی اس روایت میں "اسمہ اسمی" نقل نہیں کیا ہے اور اس کی کتاب(۱۶) میں یہ روایت دوسرے طریق و سند سے بھی نقل کی ہے۔

اسے مہدی (عج) کہتے ہیں

۸ ۔ متقی ہندی(۱۷) نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:"کَیفَ اَنتُم یا عَوفُ ؟اِذا اَفتَرقَت الۡاُمَّةُ عَلی ثَلاث وَ سَبعینَ فِرقَه ، واحِدَةٌ مِنه ا فِی الجَنَّه ِ وَ سائِرُه ُنَّ فِی النَّارِ – ثُمَّ ذَکَرَ بَعض فَتنِ آخِرِ الزَّمانِ اِلی اَن قالَ: ثُمَّ تَتَبَّعَ الفِتَنُ بَعضُه ا بَعضاً حَتّی یخرُجَ رَجُلٌ مِن اهل بَیتِی یقالُ لَه ُ المَه دی فَاِن اَدرَکتَه ُ فاَتَّبِعه ُ وَکُن مِنَ المُه تَدینَ "

اے عوف تم اس وقت کیا کرو گے ؟ جب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے ان میں سے صرف ایک فرقہ بہشت میں جائے گا اور باقی آتش جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ پھر حضورؐ نے آخر زمانہ میں پیدا ہونے والے چند فتنوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا: فنتے پے در پے رونما ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص خروج کرے گا جسے "مہدی" کہتے ہیں۔ پس اگر تم اسے درک کرلو اور تم اس کے زمانہ میں موجود ہو تو حتماً اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا تاکہ مہتدین و ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجاؤ۔

میری اولاد میں سے میرا ہمنام ایک شخص مبعوث ہوگا

۹ ۔ شیخ سلیمان(۱۸) نے روایت کی ہے: "عَنۡ حُذَیۡفَة الۡیَمان قالَ خطَبَنا رَسوُلُ الله ِ ﷺ فَذَکَرَ لَنا ما ه ُوَ کائِنٌ اِلی یَوۡمِ الۡقیامَةِ ثُمَّ قالَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ الله ُ عَزَّوَجَلَّ ذلِکَ الۡیَوم حَتّی یَبۡعَثَ الله ُ رَجُلاً مِنۡ وُلۡدی اِسۡمُه ُ اِسۡمی، فَقَامَ سَلمانُ فَقال: یا رَسُولَ الله ِ اِنَّه ُ مِن ای وُلۡدِکَ،؟ قالَ - ﷺ- ه ُوَ مِن وُلِدِی ه ذا وَ ضَرَب بِیدِه ِ عَلَی الحُسَینِ"

حذیفہ کہتے ہیں: حضور سرور کائنات نے ہمیں خطبہ دیا جس میں آپؐ نے قیامت تک ہونے والے واقعات سے آگاہ فرمایا اور فرمایا کہ اگر دنیا ختم ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی بچے گا تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا یہاں تک کہ میری اولاد میں سے ایک شخص کو مبعوث فرما دے، جس کا نام میرے نام سے موافق ہوگا۔ اس موقع پر سلمان نے کھڑے ہوکر سوال کیا: یا رسول اللہ! وہ آپؐ کے کس فرزند سے ہوگا؟ حضورؐ نے امام حسین  کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: وہ شخص میرے اس بیٹے کی اولاد میں سے ہوگا۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، نام و اخلاق میں نبی کریم جیسے ہوں گے

۱۰ ۔ منتخب کنز العمال(۱۹) میں رسول اللہﷺسے روایت کی گئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "یَخۡرُجُ رَجُلٌ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتی یُواطی اِسۡمُه ُ اِسۡمی وَ خُلۡقُه ُ خُلۡقی فَیَمۡلَأُه ا عَدۡلاً وَ قِسۡطاً کَما مُلِئَتۡ ظُلۡماً وَ جَوۡراً " میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص خروج کرے گا جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا اور اس کا اخلاق بھی میرے اخلاق جیسا ہوگا پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ اس سے قبل ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔

نکتہ: طبرانی نے یہ روایت معجم الکبیر میں ابن مسعود سے اور متقی ہندی نے کتاب "البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان" میں طبرانی سےنقل کی ہے۔

"قائم" و "منتظر" ہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود ہیں

۱۱ ۔ ینابیع المودۃ(۲۰) میں ثابت بن دینار سے، انہوں نے سعد بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

" قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: إِنَّ عَلِياً إِمَامُ أُمَّتِي مِن بَعْدِي وَ مِنْ وُلْدِهِ "الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ" الَّذِي ظَه َرَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدلاً وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ بَشِيراً وَ نَذِيراً إِنَّ الثَّابِتِينَ عَلَى الْقَوْلِ بِاِمامَتِه ِ فِي زَمَانِ غَيْبَتِهِ لَأَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحْمَرِ فَقَامَ إِلَيْهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِوَلَدِكَ "القائِمِ" غَيْبَةٌ؟

قَالَ إِي وَ رَبِّي وَ لِيُمَحِّصُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ يَمْحَقُ الْكافِرِينَ يَا جَابِرُ إِنَّ هَذَا أَمْرَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ عِلْمُهُ مَطْوِيٌّ عَنْ عِبَادِ اللَّهِ فَاياكَ وَ الشَّكَّ فِيهِ فَإِنَّ الشَّكَّ فِي أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كُفْرٌ"

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بتحقیق علی میرے بعد میری امت میں امام ہیں اور "قائم" و "منتظر" ان کی اولاد میں سے ہوں گے؛ جب وہ ظہور کریں گے تو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، قسم ہے اس پروردگار کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر بناکر مبعوث کیا ہے، یاد رکھو! جو لوگ زمانہ غیبت میں ان کی امامت پر ثابت قدم رہیں گے وہ سرخ عقیق سے زیادہ قیمتی اور اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اس موقع پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے کھڑے ہوکر سوال کیا، یا رسول اللہؐ! کیا آپ کے اس فرزند "قائم" کے لئے "غیبت" پیش آئے گی؟ حضور سرور کائنات نے فرمایا: جی ہاں یقیناً میرے اس فرزند کے لئے غیبت پیش آنے والی ہے پھر آپؐ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۱ کی تلاوت فرمائی: یعنی خداوند عالم مؤمنین کو پاک و پاکیزہ بنا دے گا (انھیں خالص بنا دے گا) اور کافروں کو نابود کر دےگا۔ پھر حضورؐ نے فرمایا: اے جابر! یہ غیبت، امر الٰہی و سرّ الٰہی ہے۔ خداوند عالم نے اسے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ہے، پس اس میں ہرگز شک مت کرنا کیونکہ امر الٰہی میں شک کرنا کفر ہے۔

نکتہ: شیخ سلیمان نے یہ روایت فرائد السمطین ، ص ۴۴۸ سے بھی نقل کی ہے۔

اس روایت کے قابل توجہ نکات:

۱ ۔ جیسا کہ ہم نے شیعت کی حقانیت اور پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل امامت کے سلسلہ میں سینکڑوں روایات پیش کی ہیں یہ روایت بھی شیعہ و اہل سنت میں متفق علیہ ہے۔ لہذا صرف اہل سنت ہی نے اسے نقل نہیں کیا بلکہ شیعوں نے بھی نقل کیا ہے مثلاً شیخ صدوق(رح) نے اپنی معروف کتاب کمال الدین(۲۱) میں اس روایت کی تصدیق فرمائی ہے۔

۲ ۔ آپ اس جیسی ایک روایت بھی متفق علیہ نہیں دیکھ پائیں گے جس میں حضور سرور کائنات نے (حضرت) ابوبکر و عمر و عثمان کے لئے فرمایا ہو کہ یہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کی روایات تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔

۳ ۔ اس روایت میں نبی کریمؐ کی تصریح کے مطابق امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ، آنحضرتؐ کے بلا فصل امام  ہیں(۲۲) ۔ کیونکہ حضور سرور کائنات نے اس روایت میں فرمایا ہے کہ "إِنَّ عَلِياً إِمَامُ أُمَّتِي مِن بَعْدِي " یعنی میرے بعد میری امت کے امام و سرپرست علی علیہ السلام ہوں گے۔

اب آپ خود ہی ذرا انصاف سے بتائیے کہ اگر پیغمبر اسلامﷺ، حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل امامت و سرپرستی کے سلسلہ میں تصریح فرمائیں تو کیا اس کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی ضرورت تھی؟!!

پس کہاں ہے ذرّہ بھر انصاف کہ حق کو سنیں اور پختہ ایمان کے ساتھ تعصب کی عینک اتار کر اسے قبول کریں؟

جی ہاں، اگر تھوڑے سے انصاف سے کام لیا جائے تو تعصب کے پردے چاک ہوکر رہ جائیں گے اور سب پر حقیقت آشکار ہوجائے گی۔ اور معلوم ہوجائے گا کہ کیا واقعاً بطور مطلق تمام صحابہ عادل ہیں یا نہیں؟

۴ ۔ حضور سرور کائنات (ﷺ) نے تصریح فرمائی ہے کہ مہدی علیہ السلام کے لئے غیبت پیش آئے گی، اور ہم انشاء اللہ غیبت کی بحث میں بیان کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ شیعوں کے بارہویں امام ہی ہیں جو غائب ہیں اور ۷۳ فرقوں میں سے "شیعہ اثنا عشری" ہی اہل نجات ہیں۔

۵ ۔ پیغمبر اکرمﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے، ہم اس روایت کے ذریعے آئندہ بہت سے شبہات کے جواب دیں گے اور بنی عباس و بنی امیہ کو اس زمرہ سے خارج کریں گے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود ان میں سے نہیں ہیں۔

۶ ۔ پیغمبر اکرمﷺنے جابر سے فرمایا: "غیبت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) میں شک، امر الٰہی میں شک کرنا ہے اور امر الٰہی میں شک کرنا، کفر ہے"

پس قارئین گرامی قدر اس متفق علیہ روایت پر غور و فکر کرکے حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں اپنے عقیدہ کو استوار کر لیجئے۔

امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام و اخلاق، نبیؐ کے نام و اخلاق جیسا ہے اور کنیت ابا عبد اللہ ہے

۱۲ ۔ یوسف بن یحیی(۲۳) نے حذیفہ کے حوالے سے رسول اللہؐ سے روایت کی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

" لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَبَعَثَ اللَّهُ فیه رَجُلًا اسْمُهُ اسْمِي وَ خُلُقُهُ خُلُقِي يُكَنَّى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ یُبایِعُ لَه ُ النّاسُ بَینَ الرُّکنِ وَ المَقامِ، یَرُدُّ الله ُ بِه ِ الدّینَ وَ یَفۡتَحُ لَه ُ الفُتُوحُ فلا یَبۡقی عَلی وَجه ِ الاَرضِ اِلّا مَن یقُول؛ لا اِله َ اِلّا الله ، فَقَامَ سَلمانُ فَقال: یا رَسُولَ الله ِ مِن ای وُلدِکَ؟ قالَ: مِن وُلِدِ ابۡنی ه ذا وَ ضَرَب بِیدِه ِ عَلَی الحُسَینِ  "

اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن ہی باقی بچا ہوگا تب بھی پروردگار ایک شخص کو مبعوث کرے گا جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا، جس کا اخلاق میرے اخلاق جیسا ہوگا اور اس کی کنیت ابا عبد اللہ ہوگی، لوگ رکن و مقام کے مابین اس کی بیعت کریں گے، خداوند عالم اس کے ذریعے دوبارہ دین کو (اصلی حالت پر) لوٹا دے گا، اسے پے در پے فتح حاصل ہوگی پس زمین پر ہر طرف "لا الہ الا اللہ" کہنے والوں کا بول بالا ہوگا۔ اس موقع پر سلمان نے کھڑے ہوکر سوال کیا، یا رسول اللہ، وہ آپ کے کس فرزند سے ہوگا؟ حضورؐ نے امام حسین  پر اپنا دست مبارک رکھتے ہوئے فرمایا: وہ شخص میرے اس فرزند کی اولاد میں سے ہوگا۔

آخر زمانہ میں میری اولاد میں سے میرا ہمنام ایک شخص خروج کرے گا

۱۳ ۔ "عقد الدرر فی اخبار المنتظر(۲۴) " میں عبد اللہ ابن عمر سے روایت کی گئی ہے:"قالَ رَسوُلُ الله ِﷺ: یَخۡرُجُ فی آخِرِ الزَّمانِ رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدی اِسۡمُه ُ کَاِسۡمی وَ کُنۡیَتُه ُ کَکُنۡیَتی،یَمۡلَأُ الۡاَرضَ عَدۡلاً، کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً "

حضور سرور کائنات (ﷺ) نے فرمایا: آخر زمانہ میں میری اولاد میں سے میرا ہمنام ایک شخص خروج کرے گا، جس کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

ہم نے یہی روایت ینابیع المودۃ اور تذکرۃ الخواص کے حوالے سے العزیز محمود بن بزّاز کے وسیلہ سے عبد اللہ ابن عمر سے نقل کی ہے(۲۵) ۔ البتہ یہاں اس روایت میں "فذالک ہو المہدی" نہیں ہے۔

مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود زمین پر حاکم و سرپرست ہوں گے

۱۴ ۔ نیز اسی کتاب(۲۶) میں روایت کی گئی ہے:" وَ عَنۡ عَبدِ الله ِ بن مَسۡعُود ، قالَ : قالَ رَسوُلُ الله ﷺ: لا تَقُومُ السّاعَةُ حَتّی یَلِیَ الۡاَرۡضَ رَجُلٌ مِنۡ اَه ۡلِ بِیۡتی، اِسۡمُه ُ کَاِسۡمی" اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص زمین پر حاکم و سرپرست نہ بن جائے جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا۔

نکتہ: یہ روایت صاحب کتاب" البعث و النشور" جناب حافظ ابو بکر بیہقی اور احمد بن حنبل(۲۷) نے بھی نقل کی ہے(۲۸) ۔

اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی جب تک کہ اہل بیت نبیؐ سے ایک شخص مبعوث نہ ہوجائے

۱۵ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی(۲۹) نے عبد اللہ ابن عمر سے روایت نقل کی ہے:

" قالَ رَسولُ الله ﷺ: لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى یَبۡعَثَ الله ُ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِی اِسْمُهُ اسْمِیَ وَ اِسۡمُ اَبیه ِ اِسۡمُ اَبی یَمۡلَأُه ا قِسطا و عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً و ظُلۡماً "

رسول خدا (ﷺ) نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے اللہ ایک شخص کو مبعوث نہ فرما دے، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام جیساہوگا(۳۰) وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے وہ اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

نکتہ: یہ روایت حافظ ابو نعیم اصفہانی نے کتاب "صفت المہدی" میں بھی نقل کی ہے اور ہم اس فصل کے آخر میں ثابت کریں گے کہ عبارت "اسم اَبیہ اسم ُابی" رسول گرامی قدر کی زبان مبارک سے صادر شدہ نہیں ہے۔

مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) موعود شہاب ثاقب کی مانند نمودار ہوں گے

۱۶ ۔ شیخ سلیمان حنفی بلخی(۳۱) نے روایت نقل کی ہے:

"وَ فِی الۡمَناقِبِ حَدَّثَنا جَعۡفَرُ بۡنُ مُحَمَّدِ بۡنِ مَسۡرُور، حَدَّثَنا الۡحُسَیۡنُ بن مُحَمَّدِ بن عامِر عَنۡ عَمِّه عَبۡدِ الله ِ بن عامِرِ، عَنۡ مُحَمَّدِ بن اَبی عُمَیۡر، عَنۡ اَبی جَمیلَةِ اَلۡمُفَضَّلِ بن صالِح، عَنۡ جابِرِ بۡنِ یَزید، عَنۡ جاِبرِ بۡنِ عَبدِ الله ِ الۡاَنصاری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُما، قالَ، قالَ رَسولُ الله ِ ﷺ : اَلۡمَه ۡدیُّ مِنۡ وُلۡدی اِسۡمُه ُ اِسۡمی وَ کُنۡیَتُه ُ کُنۡیَتی اَشۡبَه ُ النّاس بی خَلۡقاً و خُلقاً، تَکُونُ لَه ُ غَیۡبَةٌ وَ حَیۡرَةٌ، تَضِلُّ فیه ا الۡاُمَمُ، ثُمَّ یَقۡبَلُ کَالشَّه ابِ الثاقِبِ یَمَلَأُ الۡاَرۡضَ عَدۡلاً وَ قِسۡطاً کَما مُلِئَتۡ جَوراً وَ ظُلۡماً"

رسول خدا (ﷺ) نے فرمایا: مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام میرا نام، ان کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی وہ خلقت و اخلاق کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہوں گے، ان کے لئے غیبت پیش آئے گی جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوں گے اور زمین کو اس طرح عد ل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح اس سے قبل ظلم وجور سے بھری ہوگی۔

نکتہ: یہی روایت مناقب سے مسنداً امام باقر  کے توسط سے امیرالمؤمنین سے رسول اللہﷺ سے نقل کی گئی ہے البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اس میں "کالشہاب الثاقب" کے بعد "یأتی بِذخِیرَة الانبیاء ، یعنی ذخیرۂ انبیاء کے ساتھ آئیں گے" بھی فرمایا ہے۔

مہدی خلیفۃ اللہ ہیں اور وہ حتماً آئیں گے

۱۷ ۔ نیز انہوں نے روایت کی ہے۔(۳۲)

"وَ عَنۡۡ ثَوۡبانَ (۳۳) رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ قالَ : قالَ رَسولُ الله ِ ﷺ: یَقۡتَتِلُ عِنۡدَ کَنۡزِکُمۡ ثَلاثَةٌ کُلُّه ُمۡ ابۡنُ خَلیفَة، لا یَصیرُ اِلی واحِدٍ مِنۡه ُمۡ، ثُمَّ تَجیءُ الرّایاتُ السُّودُ مِنۡ قِبلِ الۡمَشۡرِقِ فَیَقۡتُلُونَه ُم قِتالاً لَمۡ یُقۡتَلۡه ُ قَوۡمٌ، ثُمَّ یَجیءُ خَلیفَةُ الله ِ الۡمَه ۡدیُّ، فَاِذا سَمِعۡتُمۡ فَأۡتوُه ُ فَبایِعُوه ُ خَلیفَةُ الله ِ الۡمَه ۡدی " تمہارے ذخیرہ کے نزدیک تین افراد میں جنگ ہوگی اور وہ تینوں خلیفہ کے فرزند ہوں گے، ان میں سے کسی کا بھی ذخیرہ نہ ہوسکے گا پھر مشرق کی سمت سے سیاہ پرچم والے آئیں گے اور اس طرح آپس میں لڑیں گے کہ کسی قوم نے ایسی جنگ نہ لڑی ہوگی، پھر خلیفۃ اللہ مہدی آجائیں گے پس جب تم ان کے آنے کی خبر سنو تو ان کے پاس آکر ان کی بیعت کرنا کیونکہ یہی خلیفۃ اللہ مہدی ہوں گے۔

نکتہ: یہ روایت جناب حافظ ابو نعیم اصفہانی نے صفت المہدی میں، ابن ماجہ نے الفتن، ج ۲ ، باب خروج المہدی میں اور ابو عمرو الدانی نے کتاب سنن (صفحہ ۹۳) میں نقل کی ہے۔

وہ شخص جسے "مہدیؑ" کہتے ہیں

۱۸ ۔ یوسف بن یحیی نے روایت کی ہے(۳۴) :

"وَ عَنۡ اَبی سَعیدٍ الۡخُدری رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، قالَ : قالَ رَسولُ الله ِ ﷺ: یَکوُنُ عِنۡدَ انۡقِطاعٍ مِنَ الزَّمانِ، وَ ظُه وُرٍ مِنَ الۡفِتَنِ، رَجُلٌ یقالُ لَه ُ الۡمَه ۡدیُّ، عَطائُه ُ ه َنیّاً"

رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب طرح طرح کے فتنے سر اٹھائیں گے اس وقت ایک شخص ظاہر ہوگا جسے مہدی کہتے ہیں وہ اہل عطا و بخشش ہوگا۔

نکتہ: حافظ ابو نعیم اصفہانی نے یہ روایت عوالی اور صفت المہدی میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے ابو سعید خدری کے حوالے سے کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں نقل کی ہے۔

مہدیؑ ہی بارہویں امام اور "قائم" ہیں

۱۹ ۔ ینابیع المودۃ(۳۵) میں مناقب خوارزمی اخطب الخطباء سے روایت کی گئی ہے:

"وَ فی المَناقِبِ، حَدَّثَنا اَحمَدُ بۡنُ مُحَمد بنِ یَحۡیَی العَطّار، حَدَّثَنا اَبی عَن مُحَمَد بۡنِ عَبدِ الجَبّارِ، عَن اَبی اَحمَد مُحَمَّد بۡنِ زیادِ اَلاَزۡدی، عَن اَبان بن عُثمانِ، عَن ثابِت بن دینار، عَن زینِ العابِدینِ عَلی بن الحُسَینِ، عَن اَبیه ِ سَیدِ الشُه َداء الحُسَینِ عَن اَبیه ِ سَیدِ الاَوصیاء عَلی سَلامُ الله ِ عَلَیه ِم قالَ : قالَ رَسُولُ الله ِ ﷺ: اَلۡاَئِمَةُ بَعدی اِثنا عَشَرَ اَوَّلُه ُم اَنتَ یا عَلی وَ آخِرُه ُمۡ القائِمُ الَّذی یَفۡتَحُ الله ُ عَزَّوَجَلَّ عَلی یدَیه ِ مَشاِرقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا"

خوارزمی نے اپنی اسناد کے مطابق کتاب مناقب میں امام زین العابدین علی بن الحسین‘ سے انہوں نے سید الشہداء امام حسین  سے انہوں نے اپنے والد سید الاوصیاء امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے اور انہوں نے رسول خداﷺ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں پہلے تم ہوگے اور آخری "قائم" ہوں گے جن کے ہاتھوں پر خداوند عالم مشرق و مغرب کی فتح عطا فرمائے گا۔

امت محمد ﷺ میں بہترین شخص "مہدیؑ" ہے اور ان کا نام احمد ہے

۲۰ ۔"وَ عَنۡ حُذَیۡفَةَ بن الیَمانِ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ، عَنۡ رَسوُلِ الله ﷺ فی قِصَّةِ السُّفۡیانی، وَ ما یَفۡعَلُه ُ مِنَ الۡفُجوُرِ وَ الۡقَتۡلِ فَقالَ : فَعِنۡدَ ذلِکَ یَنادی مُنادٍ مِنَ السَّماءِ : یا اَیُّه َا النّاسُ، اِنَّ الله َ عَزَّوَجَلَّ قَد قَطَعَ عَنۡکُمۡ مُدَّةَ الۡجَبّارینَ وَ الۡمُنافِقینَ وَ اَشۡیاعِه ِمۡ، وَ وَلّاکُمۡ خَیۡرَ اُمَّةٍ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَاَلۡحِقُوا بِه بِمَکَّةَ، فَاِنَّةُ الۡمَه ۡدی وَ اِسۡمُه ُ اَحمَدُ بن عَبۡدِ الله ِ (۳۶) قالَ حُذَیۡفَةُ: فَقامَ عِمۡرانُ بن الۡحُصَینِ الخُزاعِیُّ، فَقالَ یا رَسولَ الله کَیفَ لَنا بِه ذا حَتّی نَعۡرِفَه ُ ؟ قالَ: ه ُوَ رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدی کَاَنَّه ُ مِنۡ رِجالِ بَنی اِسرائیلَ، عَلَیه ِ عَبائَتانِ قَطۡوانِیَّتانِ (۳۷) کَاَنَّ وَجۡه َه ُ الۡکَوۡکَبُ الدُّرّیُّ فِی اللّوۡنِ، فی خَدِّه ِ الاَیۡمَنِ خالٌ اَسوَدُ، اِبۡنُ اَرۡبَعینَ سَنَةً "

یوسف بن یحیی(۳۸) نے حذیفہ بن یمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے قصۂ سفیانی اور اس کے فساد اور قتل و غارتگری کے بارے میں بیان فرمایا: اس وقت آسمان سے منادی ندا دے گا: اے لوگو! خداوند عالم نے جبار و منافقین اور ان کے پیروکاروں کی مدت مہلت کو ختم کر دیا ہے اور امت میں سے بہترین شخص کو تمہارا والی و سرپرست بنا دیا ہے پس مکہ میں اس سے ملحق ہوجاؤ، بیشک یہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہے اور اس کا نام احمد بن عبد اللہ ہے۔

حذیفہ کہتے ہیں: اس موقع پر عمران بن حُصین خزاعی نے کھڑے ہوکر سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم مہدی کو کس طرح پہچانیں؟

حضورؐ نے فرمایا: وہ میری اولاد میں سے ہوں گے اور وہ بنی اسرائیل کی مانند خوش اندام ہوں گے، ان کی عباء سفید ہوگی انکا چہرہ کوکبِ دُرّی کی طرح ہوگا، دائیں رخسار پر سیاہ تِل ہوگا اور وہ بظاہر چالیس سال کے لگیں گے۔

نکتہ: ابو عمرو عثمان بن سعید مقری نے بھی کتابِ سنن میں یہ روایت نقل کی ہے۔

میر ی امت و اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص مبعوث ہوگا

۲۱ ۔ ابن صباغ مالکی نے فصول المھمہ میں ابو داؤد و ترمذی نے اپنی اپنی سنن میں عبد اللہ ابن مسعود سے(۳۹) روایت کی ہے:

"قالَ رَسولُ الله ِ ﷺ:لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَثَ فیه ِ رَجُلًا مِنۡ اُمَّتی وَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً"

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن سے بھی زیادہ باقی نہ بچا ہو تب بھی خداوند عالم اس دن کو طولانی کر دے گا اور میری امت و اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو میرا ہمنام ہوگا وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

جب مہدی خروج کریں گے تو بادل ان کے سر پر سایہ فگن ہوگا

۲۲ ۔ کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں روایت نقل کی گئی ہے:(۴۰)

"حافظ اَبو عَبدِ الله محمّد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی بِجبلِ قاسیون قالَ: اَخۡبَرَنا اَبوُ الفَرَجِ یحیی بن محمود بن سعد الثقفی بِدَمِشۡق، وَ الصّیدَلانی بِاِصبه ان قالا: اَخۡبَرَنا اَبو عَلیّ الحسن اَخۡبَرَنا اَبو نَعیم الحافظِ اخبَرَنا اَبُو اَحمد الغَطۡریفی اَخبَرنا محمّد بن محمّد بن سلیمان الۡباغَندی حَدَّثنا عبد الوه اب بن الضحاک حَدَّثنا اِسماعیل بن عیاش عَن صَفوان بن عمرو عَن عَبد الرَّحمن بنِ جُبیر عَن کثیر بن مُرّة عَن عَبد الله بن عُمر قالَ: قالَ رسول الله ﷺ یَخۡرُجُ الۡمَه ۡدیُّ عَلی رَأۡسِه غَمامَةٌ فیه ا مُنادٍ یُنادی ه ذا الۡمَه ۡدی خَلیفَةُ الله فَاتَّبِعُوه ُ"

رسول اکرمﷺنے فرمایا: مہدیؑ جب خروج کریں گے تو ان کے سر پر بادل سایہ فگن ہوگا اور اس میں سے منادی ندا دے گا، یہ مہدی خلیفۃ اللہ ہیں، ان کی اطاعت و پیروی کرو۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کتاب البیان میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت "حسن" ہے۔

نکتہ: یہ روایت کشف الغمہ نے ابو نعیم اصفہانی کی کتاب اربعین احادیث سے نقل کی ہے۔ نیز کتاب البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، باب ۱ میں بھی نقل کی گئی ہے۔ ابو نعیم کتاب البرہان میں لکھتے ہیں کہ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی کتاب عقد الدرر فی اخبار المنتظر میں کہتے ہیں کہ یہ ندا تمام اہل زمین تک پہنچے گی جو شخص جس زبان سے تعلق رکھنے والا ہوگا وہ اسے سمجھے گا ۔

جب مہدی خروج کریں گے تو فرشتہ ان کے سر پر سایہ فگن ہوگا

۲۳ ۔ شیخ محمد بن علی صبان نے کتاب "اسعاف الراغبین(۴۱) " (ص ۱۳۷) میں روایت نقل کی ہے: "وَ جاءَ فی روایات اَنَّه ُ عند ظه ورِه ینادی فَوقَ رَأۡسِه مَلَکٌ : ه ذا المَه دی "خَلیفَةُ الله ِ" فَاتَّبِعُوه ُ"

روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ظہور فرمائیں گے تو اس وقت ایک فرشتہ ان کے سر پر سایہ فگن ہوگا جو آواز دے رہا ہوگا: "یہ مہدی خلیفۃ اللہ" ہیں؛ پس تم سب ان کی اتباع کرو۔

نکتہ: اس روایت اور اس سے ما قبل والی روایت کو جمع کرکے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ مؤمن شبلنجی(۴۲) نے عبد اللہ ابن عمر سے روایت کی ہے:"و عَلی رَاسِه ِ غَمامَةٌ مَلَکٌ یُنادی " یعنی ان کے سر مبارک پر بادل سایہ فگن ہوگا جس پر فرشتہ موجود ہوگا اور وہ ندا دے رہا ہوگا۔(۴۳)

نکتہ: ہم اسی باب کی دوسری فصل میں بارہویں روایت کے ضمن میں بیان کریں گے کہ حضرت امام رضا  نے آسمانی نداء اور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کی اطاعت و اتباع کے واجب ہونے پر سورہ شعراء کی آیت نمبر ۴ کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ تفصیل کے لئے اسی مقام پر رجوع فرمائیں۔

عسکری علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند (م ۔ ح۔ م۔ د) ہیں وہی مہدی، قائم و حجت ہیں

۲۴ ۔ شیخ سلیمان نے ینابیع المودۃ(۴۴) میں روایت کی ہے:

"وَ فیِ الۡمَناقِبِ عَنۡ واثِلَةِ بن الۡاَصۡقَعِ بن قَرۡخاب عَنۡ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِي قَالَ: دَخَلَ جَنْدَلُ بْنُ جُنَادَةَ بن جُبَیۡرِ الْيَهُودِيُّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی الله ُ عَلَیۡه ِ –وَ آلِه ِ- وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَمَّا لَيْسَ لِلَّهِ، وَ عَمَّا لَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ، وَ عَمَّا لَا يُعَلِّمُهُ اللَّهُ، فَقَالَﷺاما ما لَيْسَ لِلَّهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ شَرِيكٌ ، وَ اما ما لَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ فَلَيْسَ عِنْدَ اللَّهِ ظُلْمٌ لِلْعِبَادِ، وَ اما ما لَا يُعَلِّمُهُ اللَّهُ فَذَلِكَ قَوْلُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ اِنَّ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَ اللَّهُ لَا يُعَلِّمُ أَنَّه ُ لَهُ وَلَدٌ بَلۡ یُعَلِّمُ اَنَّه ُ مَخۡلُوقُه ُ وَ عَبۡدُه ُ، فَقالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقّاً وَ صِدۡقاً ثُمَّ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ فِي النَّوْمِ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ  ، فَقَالَ: يَا جَنْدَلُ أَسْلِمْ عَلَى يَدِ مُحَمَّدٍ خاتَمِ الۡاَنبیاءِ وَ اسْتَمْسِكْ أَوْصِيَائَه ُ مِنْ بَعْدِه فَقُلۡتَ أَسْلِمۡ، فَلِلّٰه ِ الۡحَمۡدُ اَسۡلَمۡتُ وَ ه َدانی بِکَ، ثُمَّ قالَ: أَخْبِرْنِي یا رَسوُلَ الله ِ عَنۡ أَوْصِيَائِکَ مِنۡ بَعْدِكَ لِأَتَمَسَّكَ بِهِمْ، فَقَالَ: أَوْصِيَائِي اَلۡاِثۡنا عَشَرَ، قَالَ جَنۡدَلُ هَكَذَا وَجَدْنَاه ُمۡ فِي التَّوْرَاتِ وَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِّهِمْ لِي فَقَالَ: اَوَّلُه ُمۡ سَيِّدُ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَبُو الْأَئِمَّةِ عَلِيُّ ثُمَّ ابْنَاه ُ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ فَاسْتَمْسِكْ بِهِمْ وَ لَا يَغُرَّنَّكَ جَهْلُ الْجَاهِلِين فَإِذَا وُلِدَ عَلِيُّ بْنِ الْحُسَيْنِ زَیۡنُ الْعَابِدِينَ يُقْضِي اللَّهُ عَلَيْكَ وَ يَكُونُ آخِرَ زَادَكَ مِنَ الدُّنْيَا شَرْبَةَ مِنْ لَبَنٍ فَقَالَ جَنۡدَلُ وَجَدۡنا فِي التَّوْرَاتِ وَ فی کُتُبِ الۡاَنبیاءِ علیه م السلام ایلیاءَ شَبۡراً وَ شُبُيۡراً فَه ذِه ِ اِسۡمُ عَلیٍ وَ الۡحَسَنِ وَ الۡحُسَیۡنِ فَمَنۡ بَعْدَ الْحُسَيْنِ وَ مَا أَسَامِيهِمْ قالَ اِذَا انْقَضَتْ مُدَّةُ الْحُسَيْنِ فَالۡاِمامُ ابۡنُه ُ عَلِيٌّ وَ يُلَقَّبُ بِزَيْنِ الْعَابِدِينَ فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ یُلَقَّبُ بِالْبَاقِرِ فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ جَعْفَرٌ يُدْعَى بِالصَّادِقِ فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ مُوسَى يُدْعَى بِالْكَاظِمِ فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ عَلِيٌّ يُدْعَى بِالرِّضَا فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ مُحَمَّدٌ يُدْعَى بِالتَّقی وَ الزَّكِي فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ عَلِيٌّ يُدْعَى بِالنَّقِيِّ وَ الۡه ادی فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ الْحَسَنُ يُدْعَى بِالۡعَسۡکَری فَبَعْدَهُ اِبْنُهُ "مُحَمَّدُ" یَدۡعی "بِالمَه ۡدی" وَ "الۡقائِمِ" و "الۡحُجَّةِ" فَيَغِيبُ ثُمَّ یَخۡرُجُ فَاِذا خَرَجَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلۡماً طُوبَى لِلصَّابِرِينَ فِي غَيْبَتِهِ، طُوبَى لِلْمُقِيمِينَ عَلَى مَحَبَّتِه ِمۡ، الَّذینَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَ قَالَ: ه ُدًی لِلۡمُتَّقینَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ، ثُمَّ قَالَ تَعالی: أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ، فقَالَ جَنْدَلُ:

اَلۡحَمۡدُ لِلّه ِ وَ فَّقَنی بِمَعۡرِفَتِه ِم عاشَ اِلی اَنۡ کَانَتۡ وِلادَة عَلیِّ بن الْحُسَيْنِ فَخَرَجَ إِلَى الطَّائِفِ وَ مَرِضَ وَ شَرُبَ لَبَنًا وَ قالَ اَخۡبَرَنی رَسُولُ اللَّهِﷺ أَن يَكُونَ آخِرُ زَادِي مِنَ الدُّنْيَا شَرْبَةَ لَبَنٍ وَ مَاتَ وَ دُفِنَ بِالطَّائِفِ بِالْمَوْضِعِ الْمَعْرُوفِ بِالْكوُزارَةِ"

مناقب میں واثلہ بن اصقع بن قرخاب کے توسط سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے ، وہ کہتے ہیں: جندل بن جنادہ یہودی نے حضور سرور کائنات کی خدمت اقدس میں پہنچ کر عرض کیا: اے محمد (ﷺ) مجھے بتائیے کہ وہ کیا چیز ہے جو خدا کے لئے نہیں ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو خدا کے پاس نہیں ہے؟، وہ کیا ہے جو خدا نے تعلیم نہیں دی؟، حضور نے فرمایا: یاد رکھو! جو چیز خدا کے لئے نہیں ہے وہ اس کا شریک ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ جو چیز خدا کے پاس نہیں ہے وہ بندوں پر ظلم ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا، اور جس بات کی خدا نے تعلیم نہیں دی ہے وہ تم یہودیوں کا یہ قول ہے کہ عُزیر، اللہ کے بیٹے ہیں حالانکہ خداوند عالم نے ہرگز تمہیں اس بات کی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ خداوند عالم نے تو اس بات کی تعلیم دی تھی وہ اللہ کے بندے اور مخلوق خدا ہیں۔ یہ سن کر یہودی بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے برحق او ر سچے رسول ہیں۔ پھر کہنے لگا: میں نے شب گذشتہ موسیٰ بن عمران  کو خواب میں دیکھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے جندل! محمد خاتم الانبیاء (ﷺ) پر ایمان لاکر مسلمان ہوجا، اور ان کے بعد آنے والے ان کے اوصیاء سے متمسک ہوجا۔ اور آپؐ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مسلمان ہوجاؤں۔ پس خدا کا شکر ہے کہ میں مسلمان ہوگیا اور آپؐ کے توسط سے میں نے ہدایت حاصل کرلی۔ پھر جندل نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اپنے اوصیاء کا تعارف کرا دیجئے تاکہ میں ان سے متمسک ہوجاؤں۔ حضور(ﷺ) نے فرمایا: میرے بارہ جانشین ہوں گے۔ جندل نے کہا کہ ہم نے کتاب تورات میں یہی پڑھا ہے۔ اور پھر کہا: یا رسول اللہ! مجھے اپنے جانشینوں کے نام بتائیے۔ حضور نے فرمایا: ان میں سے پہلے سید الاوصیاء، ابو الائمہ علی علیہ السلام ہیں پھر ان کے بیٹے حسن  و حسین پس ان سے متمسک رہو اور جاہلوں کے جہل سے فریب میں نہ آجانا۔ پس علی علیہ السلام بن حسینؑ کی ولادت کے بعد قضائے الٰہی تمہارے حق میں اس طرح رقم شدہ ہے کہ تم دودھ کو اپنی آخری غذا کے عنوان سے نوش کرو گے۔ جندل نے کہا کہ ہم نے اپنی کتاب توریت اور دیگر کتب انبیاء میں ایلیاء اور شبّر و شبیر نام دیکھے ہیں پس یہی علی علیہ السلام و حسنؑ و حسینؑ کے نام ہیں۔ لیکن حسینؑ کے بعد آپ کے جانشین کون کون ہیں۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا: حسینؑ کے چلے جانے کے بعد ان کے بیٹے علی علیہ السلام ہوں گے جن کا لقب زین العابدین ہے، ان کے بعد ان کے فرزند محمد باقر ہوں گے، پھر ان کے بیٹے جعفر صادق ہوں گے، پھر ان کے فرزند موسیٰ کاظم پھر ان کے فرزند علی علیہ السلام رضا پھر ان کے فرزند محمد تقی و ذکی پھر ان کے بیٹے علی نقی ہادی پھر ان کے فرزند حسن عسکری اور پھر ان کے بیٹے "محمد" ہوں گے جن کا لقب "مہدی"، "قائم" اور "حجت" ہوگا اور وہ غائب ہوجائیں گے، پھر خروج کریں گے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، پس خوش بحال ہیں وہ لوگ جو ان کی غیبت کے زمانے میں صبر کرنے والے ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زمانہ غیبت میں ان کی محبت کے ساتھ متقی و پرہیز گار ہیں، خداوند عالم نے قران کریم میں ان لوگوں کی اس طرح تعریف فرمائی ہے اور فرمایا:( هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ) (۴۵) اور پھر پروردگار عالم نے فرمایا:( أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) (۴۶) یہی لوگ اللہ کے گروہ والے ہیں اور یاد رکھو بتحقیق اللہ کے گروہ والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔

پس جندل نے عرض کیا: الحمد للہ کہ میں نے ان کی معرفت حاصل کرلی اور خداوند عالم نے مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائی۔ پھر جندل امام زین العابدین  کی ولادت تک زندہ رہے اور امام زین العابدین کے زمانہ حیات میں انہوں نے طائف کا سفر کیا وہاں جاکر مریض ہوگئے اور جب انہیں دودھ پلایا گیا تو کہنے لگے کہ مجھے حضور سرور کائنات نے خبر دی تھی کہ دنیا سے جاتے وقت میری آخری غذا دودھ ہوگی، اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا اور طائف ہی میں "کوزارہ" نامی جگہ پر انہیں دفن کر دیا گیا۔

مناقب کی روایت سے حاصل شدہ دس نکات

اس روایت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے قابل توجہ نکات پائے جاتے ہیں مثلاً:

۱ ۔ اہل سنت کی کتابوں میں یہ روایت جابر بن عبد اللہ انصاری سے مسنداً نقل کی گئی ہے اور روایات اثنا عشریہ کے ذیل میں اس کے متواتر ہونے کو ثابت کریں گے۔

۲ ۔ یہ روایت رسول خدا حضرت محمد مصطفیﷺسے منقول ہے وہی رسولؐ جس کی شان میں خداوند عالم نے قران کریم میں فرمایا ہے:( ما ضَلَّ صاحِبُکُمۡ وَما غَوی، وَما یَنۡطِقُ الۡه َوی، اِنۡ ه ُوَ وَحۡیٌ یُوحی، عَلَّمَه ُ شَدیدُ القُوی ) (۴۷) تمہارا ساتھی (پیغمبر اسلام) نہ گمراہ ہوا ہے، نہ بہکا ہے اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔ اسے نہایت طاقت والے (جبرئیل) نے تعلیم دی ہے۔

۳ ۔ اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جندل یہودی مسلمان ہونے اور اپنا خواب بیان کرنے کے بعد حضور سرور کائنات سے سوال کرتا ہے: "اَخۡبِرۡنی یا رَسُولَ الله عَنۡ اَوۡصیائِکَ مِن بَعدِکَ " یعنی اے رسول خدا! مجھے آپ اپنے بعد آنے والے اپنے جانشینوں اور ائمہ کے بارے میں بتائیے؟!

جندل کے سوال کے جواب میں وہی پیغمبرؐ کہ جس کا تعارف سورہ نجم کے آغاز میں دوست و ساتھی کہہ کر کروایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ گمراہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی بہکا ہے، وہ اپنے ہوائے نفس سے کلام نہیں کرتا، اس کا کلام صرف و صرف وحی ہے اور جبرئیل نے اسے تعلیم دی ہے؛ وہ ہی پیغمبر جواب میں فرماتا ہے کہ میرے اوصیاء میں سے پہلے علی علیہ السلام ابو الائمہ ہیں پھر ان کے بیٹے حسنؑ و حسینؑ تا آخر اور آخری و بارہویں مہدیؑ ہیں۔

۴ ۔ کیا خداوند عالم نے قران مجید میں نہیں فرمایا:( ما آتاکُمُ الرَّسوُلُ فَخُذُوه ُ وَما نَه اکُمۡ عَنۡه ُ فَانۡتَه وُا ) (۴۸) اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لیلو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔

پس اس آیت و روایت کی روشنی میں اہل سنت عمل کیوں نہیں کرتے جبکہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس روایت کو جگہ دی ہے؟! کیا وہ لوگ رسول اللہ کے قول پر عمل کرنے کے دعویدار نہیں ہیں؟ کیا خداوند عالم نے اسی آیت میں نہیں فرمایا:( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ) اور خدا (کی مخالفت کرنے) سے ڈرو کہ اللہ کا عقاب شدید ہے۔ پس اب جبکہ حضور کی تصریح کے مطابق علی ابن ابی طالب‘ آپؐ کے اوصیاء میں پہلے ہیں اور مسلمان انہیں چوتھا قرار دیدیں تو کیا یہ کلام نبی (ﷺ) کی مخالفت نہیں ہے؟ اور کیا قران و کلامِ الٰہی کی مخالفت نہیں ہے؟

جی ہاں حضور سرور کائنات نے تصریح فرمائی ہے کہ میرا اولین و پہلا وصی علی علیہ السلام ہے جبکہ اہل سنت نے حضرت ابوبکر کو پہلا اور حضرت علی علیہ السلام کو چوتھا جانشین قرار دیا ہے، تو کیا یہ کھلی مخالفت نہیں ہے؟!

۵ ۔ حضور سرور کائنات (ﷺ) کی تصریح کے مطابق آپؐ کے چھٹے جانشین حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں توپھر علمائے اہل سنت نے حضرت جعفر صادق علیہ السلام کو چھوڑ کر آنجنابؑ کے شاگرد ابو حنیفہ کا دامن کیوں تھام لیا ہے؟! کیا خود ابو حنیفہ نے (جیسا کہ ہم کتاب کے مقدمہ میں بیان کرچکے ہیں) امام جعفر صادق علیہ السلام کی افضلیت کا اقرار نہیں کیا؟ اب اس صورت حال میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو چھوڑ کر ابوحنیفہ کے پیچھے جانے سے نبی کریمؐ کے قول کی کھلی مخالفت نہیں ہوتی؟، کیا کلام الٰہی کی کھلی مخالفت نہیں ہوئی؟ سنت رسولؐ کو آنحضرت کے جانشین و وصی سے لینا چاہئے یا غیر وصی سے؟!

۶ ۔ جندل اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ نام علی و حسن و حسین علیھم السلام ، توریت اور دیگر کتب انبیاء میں بھی موجود ہیں جو ایلیاء اور شبّر و شبیر ہیں اور یہ خود اس امر کی مستحکم و مضبوط دلیل ہے کہ وصی پیغمبرؐ کو بھی خداوندِ عالم ہی معین کرتا ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے حکم الٰہی سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ و جانشین قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ  بھی اس بات سے واقف ہیں کہ ان کا وصی خداوند متعال ہی معین فرمائے گا اسی لئے نص قرانی کے مطابق "اجعل" یعنی بنادے، کہہ کر خداوند عالم سے اپنے بھائی ہارون کو اپنا وصی بنانے کی درخواست کرتے ہیں۔ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:( قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي ، يَفْقَهُوا قَوْلِي، وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي ، هَارُونَ أَخِي ، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ) (۴۹) موسیٰ نے عرض کیا پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے کہ یہ لوگ میری بات کو سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دیدے، ہارون کو جو میرا بھائی بھی ہے۔ اس سے میری پشت کو مضبوط کردے۔ اسے میرے کام میں میرا شریک بنادے۔

بیشک حدیث منزلت ا س حقیقت پر برہان قاطع ہے۔ (تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں کتاب "اول مظلوم عالم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام " اس کتاب میں حضرت عمر کی زبانی منزلت ہارونی کو بیان کیاگیا ہے)(۵۰)

۷ ۔ جب علمائے اہل سنت تمام اصحاب کو مطلق طور پر عادل مانتے ہیں تو جابر کی اس روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے؟!

پیغمبر اسلام کے ہاتھوں مسلمان ہونے والے جندل سے بے توجہی اور لاپرواہی کیوں برتتے ہیں؟

۸ ۔ اس روایت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ اثنا عشری کے عقائد (یعنی حضرت علی کو امام اول ماننا اور امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کو بارھواں امام تسلیم کرنا) برحق ہیں اور ۷۳ فرقوں میں سے وہ فرقہ ناجیہ، شیعہ اثنا عشری ہی ہے۔(۵۱)

۹ ۔ نبی کریمﷺنے اس روایت میں اپنے اوصیاء کے نام بیان فرمائے ہیں اور ایک ایک وصی کا لقب بھی بیان کیا ہے لہذا یہ روایت رسول اللہؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے پر آنے والے تمام افراد کی خلافت پر خطِ بطلان کھینچ رہی ہے۔

کتنی عجیب و حیرت انگیز بات ہے کہ کچھ لوگ اپنی کتابوں کے نام صحاح، سنن، مسند اور سیرت وغیرہ رکھتے ہیں اور ان میں بہت سے حقائق بھی نقل کرتے ہیں لیکن عقیدہ و عمل کی منزل میں متزلزل نظر آتے ہیں اور اپنی نقل کردہ باتوں کے برخلاف بیان دیتے ہیں۔

جی ہاں اگر تعصب کی عینک اتار دی جائے اور جہل و گمراہی کے پردے چاک کر دیئے جائیں تو حقائق روزِ روشن کی طرح آشکار ہوجائیں۔

۱۰ ۔ مذکورہ روایت و مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقی اہل سنت، شیعیان امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ انہوں نے سنت کو نبی کریم ؐ کے انہی اوصیاء کے ذریعے حاصل کیا ہے کہ جن کے ناموں کی شیعہ و سنی علماء نے متفقہ طورپر تصریح فرمائی ہے۔

حسن بن علی ‘ کے بعد امام "قائم" ہیں وہ میرے ہمنام و ہم کنیت ہوں گے

۲۵ ۔"وَ فی المَناقِبِ حَدَّثَنا اَصحابُنا وَ قالوُا حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بنِ ه َمّام قالَ حَدَّثَنا جَعۡفَرُ بۡنُ مُحَمَّدِ بن مالِکِ الۡفراری قالَ حَدَّثَنِی الۡحُسَیۡنُ بن مُحَمَّدِ بن سَماعه قالَ حَدَّثَنِی اَحۡمَدُبن الۡحارِثِ قالَ حَدَّثَنِی الۡمُفَضَّلُ بن عُمَر عَنۡ یُونِس بن ظَبۡیان عَنۡ جابِرِ بۡنِ یَزید الۡجُعۡفی قالَ سَمِعۡتُ جاِبرَ بۡنَ عَبۡدِ الله ِ الۡأَنۡصاری یَقوُلُ قالَ لی رَسوُلُ الله ِ ﷺ، یا جابِرُ اَنَّ اَوۡصیائی وَ اَئِمَّةَ الۡمُسۡلِمینَ مِنۡ بَعۡدی اَوَّلُه ُمۡ عَلیُّ ثُمَّ الۡحَسَنُ ثُمَّ الۡحُسَیۡنُ ثُمَّ عَلیُّ بن الحُسَیۡنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بن عَلیٍ الۡمَعۡروُفُ بِالۡباقِرِ سَتُدۡرِکُه ُ یا جابِرُ فَاِذا لَقَیۡتَه ُ فَاَقۡرِئه ُ مِنّیِ السَّلامَ ثُمَّ جَعۡفَرُ بۡنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَی بن جَعفَرَ ثُمَّ عَلیُّ بن مُوسی ثُمَّ مُحَمَّدُ بن عَلیٍّ ثُمَّ عَلیُّ بن مُحَمَّدٍ ثُمَّ الۡحَسَنُ بن عَلیٍّ ثُمَّ الۡقائِمُ اِسۡمُه ُ اِسۡمی وَ کُنۡیَتُه ُ کُنۡیَتی اِبۡنُ الۡحَسَنِ بن عَلیٍّ ذاکَ الَّذی یَفۡتَحُ الله ُ تَبارَکَ وَ تَعالی عَلی یدَیه ِ مَشاِرقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا ذاکَ الَّذی یَغیبُ عَن ۡ اَوۡلیائِه غَیۡبَةً لا یَثۡبُتُ عَلَی الۡقَوۡلِ بِاِمامَتِه اِلّا مَنِ امۡتَحَنَ الله ُ قَلۡبَه ُ للۡأیمان، قالَ جابِرُ: فَقُلۡتُ : یا رَسوُلَ الله ِ فَه َلۡ لِلنّاسِ الۡاِنۡتِفاعُ بِه فی غَیۡبَتِه ، فقالَ: ای وَ الّذی بَعَثَنی بِالنُّبُوَّةِ اِنَّه ُمۡ یَسۡتَضیئوُنَ بِنوُرِ وِلایَتِه فی غَیۡبَتِه کَاِنۡتِفاعِ النّاسِ بِالشَّمۡسِ وَ اِنۡ سَتَرَه ا سَحابٌ، ه ذا مِنۡ مَکۡنُوںِ سِرِّ الله ِ وَ مَخۡزوُنِ عِلۡمِ الله ِ، فَاکۡتُمۡه ُ اِلّا عَنۡ اَه ۡلِه "

شیخ سلیمان بلخی حنفی(۵۲) نے جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرے بعد میرے اوصیاء و ائمہ مسلمین (جو کہ بارہ افراد ہیں) ان میں اول علی علیہ السلام پھر حسن، پھر حسین پھر علی بن الحسین پھر محمد باقر ہوں گے اے جابر تم میرے اس بیٹے باقر  سے ملاقات کرو گے، جب تم اس سے ملاقات کرو تو اسے میرا سلام پہنچا دینا، پھر ان کے بعد جعفر بن محمد ہوں گے پھر موسیٰ بن جعفر پھر علی بن موسیٰ، پھر محمد بن علی پھر علی بن محمد پھر حسن بن علی اور پھر قائم ہوں گے قائم میرے ہمنام ہوں گے ان کی کنیت بھی میری کنیت جیسی ہوگی وہ حسن بن علی کے بیٹے ہوں گے وہ وہی ہیں خداوند عالم جن کے ہاتھ پر شرق و غرب عالم کی فتح عنایت کرے گا، وہ اپنے چاہنے والوں اور اولیاء سے غائب ہوجائیں گے۔ ان کے زمانہ غیبت میں وہ ہی لوگ ان کی امامت پر ثابت قدم رہیں گے خداوند عالم جن کے قلوب کا امتحان لے چکا ہے۔ جابر کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!لوگ غیبت کے زمانہ میں کس طرح ان سے فیض یاب ہوں گے؟

حضور سرور کائنات (ﷺ) نے فرمایا: کیوں نہیں! قسم ہے اس خدائے بزرگ و برتر کی جس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے، لوگ زمانہ غیبت میں ان کے نورِ ولایت سے ضیاء حاصل کریں گے جس طرح بادلوں کے باوجود سورج کی روشنی سے بہرہ مند ہوتے ہیں حالانکہ سورج مکمل طور پر بادلوں میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔(اے جابر) امر غیبت اسرار الٰہی و خزانہ علم الٰہی میں سے ہے اسے نا اہل لوگوں سے پوشیدہ ہی رکھنا۔

نکتہ: یہ روایت شیعہ و اہل سنت کے درمیان متفق علیہ ہے لہذا تفسیر صافی و نفحات الرحمن میں آیت مبارکہ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ) (۵۳) کے ذیل میں روایت نقل کی گئی ہے:

"عَنۡ جاِبرِ بۡنَ عَبۡدِ الله ِ الۡأَنۡصاری، قالَ لَمّا نَزَلتَۡ الۡآیَةُ قُلۡتُ یا رَسوُلُ الله ِ عَرَفۡنَا الله َ وَ رَسوُلَه ُ فَمَنۡ اُولِی الۡاَمۡرِ الَّذینَ قَرَنَ الله ُ طَاعَتَه ُم بِطاعَتِکَ فَقالَ: ه ُمۡ خُلَفائی یا جابِرُ و الۡاَئِمَّةُ الۡمُسۡلِمینَ مِنۡ بَعۡدی اَوَّلُه ُمۡ عَلیُّ بۡنُ اَبیطالِبٍ ثُمَّ الۡحَسَنُ ثُمَّ الۡحُسَیۡنُ ثُمَّ عَلیُّ بن الحُسَیۡنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بن عَلیٍ الۡمَعۡروُفُ فِی التَّوۡراتِ بِالۡباقِرِ وَ سَتُدۡرِکُه ُ یا جابِرُ فَاِذا لَقَیۡتَه ُ فَاَقۡرَأۡه ُ مِنّیِ السَّلامَ، ثُمَّ الصَّادقُ جَعۡفَرُ بۡنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَی بن جَعفَرَ ثُمَّ عَلیُّ بن مُوسی ثُمَّ مُحَمَّدُ بن عَلیٍّ ثُمَّ عَلیُّ بن مُحَمَّدٍ ثُمَّ الۡحَسَنُ بن عَلیٍّ ثُمَّ سَمِیّی مُحَمَّدٌ وَ کَنّیی حُجَةُ الله ِ فِی اَرۡضِه وَ بَقیَّتُه ُ عَلی عِبادِه ابۡنُ الۡحَسَن بن عَلیٍّ ذاکَ الّذی یَفۡتَحُ الله ُ عَلی یدَیه ِ مَشاِرقَ الاَرضِ وَ مَغارِبَه ا وَ ذاکَ الَّذی یَغیبُ عَن ۡ شیعَتِه وَ اَوۡلیائِه غَیۡبَةً لا یَثۡبُتُ عَلَی الۡقَوۡلِ بِاِمامَتِه اِلّا مَنِ امۡتَحَنَ الله ُ قَلۡبَه ُ للۡأیمان، قالَ جابِرُ: فَقُلۡتُ : یا رَسوُلَ الله ِ فَه َلۡ لِشیعَتِه ِ الۡاِنۡتِفاعُ بِه فی غَیۡبَتِه ، فقالَ: ای وَ الّذی بَعَثَنی بِالنُّبُوَّةِ اِنَّه ُمۡ یَسۡتَضیئوُنَ بِنوُرِه وَ یَنۡتَفِعوُنَ بِوِلایَتِه فی غَیۡبَتِه کَاِنۡتِفاعِ النّاسِ بِالشَّمۡسِ وَ اِنۡ تَجَلَّلَه ا سَحابٌ، یا جابِرُ ه ذا مِنۡ مَکۡنُوںِ سِرِّ الله ِ وَ مَخۡزوُنِ عِلۡمِ الله ِ، فَاکۡتُمۡه ُ اِلّا عَنۡ اَه ۡلِه "

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں روایات مختصر فرق کے باوجود بہت زیادہ ایک دوسرے سے شباہت رکھتی ہیں۔ یہ مختصر فرق حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے نام و لقب کا فرق ہے۔ مناقب کی روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے: "ثُمَّ الۡقائِمُ اِسۡمُه ُ اِسۡمی وَ کُنیَتُه ُ کُنِیَتی، ابن الحسن بن علی " یعنی حسن بن علی علیہ السلام کے بعد قائم ہوں گے وہ میرے ہمنام ہوں گے اور ان کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی جبکہ صافی و نفحات الرحمن کی روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے: " ثُمَّ سَمِیّی مُحَمَّدٌ وَ کَنّیی حُجَةُ الله ِ فِی اَرۡضِه وَ بَقیَّتُه ُ عَلی عِبادِه ابۡنُ الۡحَسَن بن عَلیٍّ " یعنی حسن بن علی‘ کے بعد میرے ہنمام "م، ح،م، د" اور میری ہم کنیت ہوں گے وہ ہی زمین پر حجت خدا اور لوگوں کے درمیان انبیاء کی یادگار ہیں۔

اس دوسری روایت مناقب میں موجود بارہ حقائق

شیعہ و سنی کے درمیان متفق علیہ ہونے کے علاوہ اس روایت میں بارہ دیگر نکات قابل استفادہ ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کئےجا رہے ہیں:

۱ ۔ علمائے اہل سنت کی کتابوں میں یہ روایت جابر بن عبد اللہ انصاری سے مسنداً نقل کی گئی ہے لہذا اس اعتبار سے ہم پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوسکتا اور ہم بحمد اللہ روایات اثنی عشری کے ذیل میں ان کے متواتر ہونے کو ثابت کریں گے۔

۲ ۔ علمائے اہل سنت کی تصریح کے مطابق یہ روایت پیغمبر اسلامﷺ سے منقول ہے وہی رسولؐ کہ علمائے اہل سنت جن کی سنت پر عمل کرنے کے دعویدار ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہرگز نبی کریمﷺ کے فرامین سے روگردانی نہیں کرتے۔ وہی رسولؐ کہ جن کے بارے میں خداوند عالم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

( مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ) (۵۴) یعنی تمہارا ساتھی (پیغمبر اسلام) نہ گمراہ ہے، نہ بہکا ہے اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا اس کا کلام وہ ہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے اسے نہایت طاقت والے (جبرئیل) نے تعلیم دی ہے۔

۳ ۔ اس روایت میں "من بعدی" عبارت آئی ہے یعنی کلمہ "بعد" یائے متکلم "ی" کی طرف مضاف ہوا ہے جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد آنحضرت کے بارہ جانشین ہوں گے جن میں پہلے علی علیہ السلام اور آخری قائم ہوں گے ان کا نام پیغمبر (ﷺ) کے نام (م، ح، م، د) جیسا ہوگا اور ان کی کنیت پیغمبر ؐ کی کنیت جیسی ہوگی۔

۴ ۔ کیا خداوند عالم نے قران کریم میں واضح طور پر نہیں فرمایا:( مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) (۵۵) اللہ کا رسولؐ جو تمہیں دیدے اسے لیلو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔

اس آیہ کریمہ اور مناقب کی اس روایت کی روشنی میں کہ جسے علمائے اہل سنت نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے؛ اس روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں۔

کیا یہ لوگ اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ یہ قول نبیؐ کے پابند اور سنت نبیؐ پر عمل کرنے والے ہیں۔

کیا خداوند عالم نے اسی آیت میں یہ نہیں فرمایا:( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ) (۵۶) خداوند عالم کی مخالفت کرنے سے ڈرو کہ اس کا عقاب شدید ہے۔

حضرت علی علیہ السلام جو کہ اوصیاء میں پہلے ہیں اگر انہیں چوتھا قرار دیدیا جائے تو کیا اس طرح کلام نبیؐ کی مخالفت نہ ہوگی، کیا اس طرح آیت قران و کلام الٰہی کی مخالفت نہ ہوگی؟!

جی نبی کریمؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ علی بن ابی طالب میرے پہلے وصی ہوں گے اہل تسنن حضرت علی علیہ السلام کو چوتھا قرار دیتے ہیں کیا یہ بات نبی کریمؐ کی کھلی مخالفت نہیں ہے؟!

۵ ۔ رسول اکرمﷺ کی تصریح کے طابق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کے چھٹے جانشین ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ آپؑ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو چھوڑ کر ان کے شاگرد ابو حنیفہ سے تعلق کیوں قائم کیا ہے؟ !

کیا ابو حنیفہ نے (جیسا کہ مقدمہ کتاب میں بیان کیا جا چکا ہے) امام جعفرصادق علیہ السلام کی افضلیت کا اقرار نہیں کیا تھا؟!

کیا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو چھوڑ کر ابو حنیفہ سے تعلق قائم کرنا نبی کریمﷺ کی کھلی مخالفت نہیں ہے؟

کیا یہ کلامِ الٰہی کی مخالفت نہیں ہے؟

سنت نبی کریمؐ کو آپ حقیقی جانشین سے حاصل کرنا چاہئے یا غیروں سے؟

۶ ۔ علمائے اہل سنت جب تمام اصحابؓ کو بطور مطلق عادل مانتے ہیں تو پھر جابر بن عبد اللہ انصاری کی ا س (عظیم) روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

اس جیسی اور بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جیسا کہ اس سے قبل فقط دس روایات ایسی نقل کی ہیں جن میں کلمہ "بعدی" استعمال ہوا ہے اور حضورؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ میرے بعد علی بن ابی طالب‘ خلیفہ ٔ بلا فصل ہوں گے پس اہل سنت ان روایات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

کیا نبی کریمؐ نے خطبہ غدیر کے آغاز میں یہ نہیں فرمایا تھا: اے لوگو! عنقریب خداوند عالم کی جانب سے مجھے دعوت دیدی جائے گی میں بھی مسئول ہوں اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا۔ وہاں کیا کہو گے اور کیا جواب دو گے؟

واقعاًٍ علمائے اہل تسنن حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرنے والی اتنی کثیر روایات کو ترک کرنے پر کیا جواب دیں گے؟

جب علمائے اہل سنت عربی قواعد (علم نحو) پر بحث و گفتگو کرتے ہیں تو شاہد مثال کے لئے امر ء القیس وغیرہ کے اشعار سے استشھاد کرتے ہیں لیکن حدیث غدیر، حدیث یوم الانذار، حدیث منزلت، حدیث مناشدہ رحبہ، حدیث طیر مَشوِی وغیرہ سے مطلق چشم پوشی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بارگاہ الٰہی میں کیا جواب دیں گے؟

مناقب کی گذشتہ بیان کردہ دو روایات کی طرح روایات اثنا عشریہ سے استشھاد کیوں نہیں کرتے؟ آخر روایات مہدی موعودؑ سے استشھاد کیوں نہیں کرتے؟

۷ ۔ حضور سرور کائنات (ﷺ) نے مناقب کی اس روایت میں حضرت مہدی (عج) کی غیبت کی تصریح فرمائی ہے۔ ہم غیبت کے موضوع کے ذیل میں اسے تفصیل سے بیان کریں گے۔

۸ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا تھا کہ لوگ زمانہ غیبت میں ان کے وجود مبارک و ہدایت سے کیونکر بہرہ مند ہوں گے؟ تو آنحضرتؐ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا: "ای وَ الّذی بَعَثَنی بِالنُّبُوَّتِ اِنَّه ُمۡ یَسۡتَضیئوُنَ بِنوُرِ وِلایَتِه فی غَیۡبَتِه کَاِنۡتِفاعِ النّاسِ بِالشَّمۡسِ وَ اِنۡ سَتَرَه ا سَحابٌ " جی ہاں قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا ہے قائم کی غیبت کے زمانے میں لوگ ان کے وجود سے اور ان کے نور ولایت سے اسی طرح ضیاء حاصل کریں گے جس طرح لوگ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں حالانکہ بادل سورج کو مکمل ڈھانپے ہوتے ہیں۔

جس طرح خداوند عالم نے عالم خلقت میں اہل زمین کے لئے ایک سورج کو پیدا کیا ہے تاکہ لوگ مختلف انداز سے اس سے بہرہ مند ہوں اسی طرح اس نے منظومۂ نفوس میں ایک خورشید کو معین کیا ہے تاکہ اس انسان کامل نورانی خورشید کے ذریعے قلوب بھرپور انداز سے منور ہوسکیں۔

نیز جس طرح عالم خلق و ملک میں اگر سورج کے سامنے بادل آجائیں تب بھی لوگ نور خورشید سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اگر عالم نفوس میں یہ انسان کامل مطلق طور پر پردہ غیبت میں ہو تب بھی اہل ایمان اور اس خورشید کے شیفتہ اس کے نور ہدایت سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔

اس خورشید عالم تاب کے نور ہدایت سے بہرہ مند ہونے کی دو راہیں ہیں:

۱. نفس و روح کو تمام اختلاط سے پاک کرنا، یعنی مقام صفائے کامل پر پہنچنا، اور اس منزل پر صرف و صرف قران و عترت سے متمسک ہوکر ہی پہنچا جاسکتا ہے یعنی حدیث ثقلین کے زیر سایہ اس منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

۲. تمام اسباب سے انقطاع اور ذات اقدس الٰہی سےمتصل ہونا لہذا بطور مطلق فقر محض کا احساس کرنا اور خدا کے علاوہ تمام چیزوں سے لاتعلق ہونا۔

جی ہاں جس طرح تابش خورشید، نجس زمین کو پاک کر دیتی ہے اور پلیدی کا خاتمہ کر دیتی ہے اسی طرح وجودِ قائم آل محمدؐ کے نور کی تابش، مستعد و آمادہ قلوب کی پرورش کرتی ہے اور ظلمت و تاریکی اور دلوں میں لگے زنگ کا خاتمہ کردیتی ہے۔

جس طرح نور خورشید ، پھلوں اور پھولوں کی تیاری کا سبب ہے اسی طرح خورشید وجود حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) مستعد قلوب کے پھلوں کے تیار ہونے اور پھولوں کے کھلنے کا سبب ہے۔

تم خود اس مجمل کی مفصل حدیث کو پڑھو کہ رسول اکرمﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ خداوند عالم اور نبیؐ کے نزدیک اس خورشید عالم تاب کا کیا مقام و مرتبہ ہے ۔ اس کا وجود باعثِ نجات ہے اور نہ ہونا باعث ہلاکت ہے بالکل اسی طرح کہ اگر عالم تکوین میں سورج موجود نہ ہو تو کرہ ارض سردی وغیرہ سے نابود ہوجائے گی۔

۹ ۔ پیغمبر اکرمﷺ، جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرماتے ہیں: "ه ذا مِنۡ مَکۡنُونِ سِرِّ الله ِ وَ مَخۡزُونِ عِلۡمِ الله " یہ امر غیبت، اسرار الٰہی و خزانۂ علم الٰہی میں سے ہے۔ ہم نے پہلے باب کے آخر میں روایات مہدی کے متواتر ہونے کو ثابت کیا تھا اور کہا کہ یہ روایات مندرجہ ذیل پانچ حقائق کی روشنی میں متواتر ہیں:

۱. علمائے اہل سنت کے مطابق حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں اصحاب رسول اکرمﷺ میں سے ۵۴ افراد نے یہ روایات نقل کی ہیں۔

۲. ۲۲۷ ہجری سے تا بحال ۱۶۰ سے زائد علمائے اہل سنت نے یہ روایات نقل کی ہیں۔

۳. کتب صحاح، مسانید، سنن اور سیرت میں متعدد علمائے اہل سنت نے یہ روایات نقل کی ہیں۔

۴. روایات حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں ۴۰ مستقل طور پر لکھی جانے والی کتب اہل سنت۔

۵. اور علمائے اہل سنت کے ۲۳ افراد کی جانب سے اس بات کی تصریح کہ روایات حضرت مہدی (عج) متواترہیں۔

ان تمام نکات سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں اہل سنت سے نقل شدہ احادیث متواتر، مسلم اور ثابت شدہ ہیں، اور حضور سرور کائنات(ﷺ) کے صادق القول ہونے پر ایمان کی صورت میں کسی شک و شبھہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ یہ احادیث "اخبار غیبی" میں سےہیں۔

۱۰ ۔ اس روایت (مناقب) کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ اثناعشری کے عقائد یعنی حضرت علی علیہ السلام کو امام اول ماننا اور امام مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کو بارہواں امام تسلیم کرنا، برحق ہیں اور ۷۳ فرقوں میں سے وہ فرقۂ ناجیہ، شیعہ اثنا عشری ہے۔(۵۷)

۱۱ ۔ نبی کریمﷺ نے اس روایت میں اپنے اوصیاء کے نام بیان فرمائے ہیں اور ایک ایک وصی کا لقب بھی معین فرمایا ہے لہذا یہ روایت رسولؐ اللہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے پر آنے والے تمام افراد کی خلافت پر خط بطلان کھینچ رہی ہے۔

۱۲ ۔ مذکورہ روایت و مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقی اہل سنت، شیعیان امیرالمومنین علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ انہوں نے سنت کو نبی کریمؐ کے انہی اوصیاء کے ذریعے حاصل کیا ہے جن کے ناموں کی شیعہ و سنی علماء نے متفقہ طورپر تصریح فرمائی ہے۔ نہ کہ ایسے افراد سے جو رسول اللہؐ سے ۱۵۰ سال کے بعد پیدا ہوئے تھے۔

باب دوم کی پہلی فصل کی روایات کا نتیجہ

ہم نے اس فصل میں اہل سنت کی کتابوں میں سے نبی کریمؐ سے منقول ۲۵ روایات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کی ہیں جن سے اخذ شدہ نتیجہ ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا رسول گرامی قدر (ﷺ) نے فرمایا: مہدی کا نام میرے نام جیسا ہوگا اور ان کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی۔

اور جیسا کہ روایات میں آپ کا نام احمد اور "م، ح، م، د" نقل ہوا ہے یعنی مہدی رسول اللہؐ کے ہمنام ہیں۔

اور آپؑ کی کنیت؛ ابو القاسم (یعنی کنیت رسول خداﷺہے)، ابو عبد اللہ اور آپؑ کے القاب مہدی، قائم، حجت، منتظر اور خلیفۃ اللہ ہیں۔

روایات میں اسم محمدؐ کے بارے میں دو باتوں کا ممنوع ہونا

روایات کے مطابق حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نام احمد اور "م، ح، م،د" ہے اور شیعہ و اہل سنت کی روایت کے مطابق حضرت مہدی (عج) کا نام "م، ح، م، د" لینا ممنوع ہے جیساکہ علامہ مجلسی کتاب جلاء العیون میں صاحب الامر  کے حالات کے ذیل میں فرماتے ہیں: "وَلا یَحِلُّ لَکُمۡ ذِکۡرُه ُ بِاِسۡمِه ِ " یعنی تمہارے لئے ان کے نام کا ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہم یہ روایت اسی باب دوم کی دوسری فصل میں (روایت نمبر ۱۴) بیان کریں گے۔

جس طرح حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا یہ نام "م، ح،م، د" ذکر کرنا ممنوع ہے اسی طرح ایک چیز اور ممنوع ہے اور وہ اسم محمد اور ابو القاسم کا ایک شخص کے لئے جمع ہونا ہے۔ ایک روایت میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم اپنی اولاد کی کنیت اور لقب بچپن ہی میں رکھ دیتے ہیں تاکہ جس کنیت و لقب کا جمع کرنا ممنوع ہے، نہ رکھیں۔ روایت میں تصریح کی گئی ہے: "بِکُرۡه ِ الۡجَمۡعِ بَیۡنَ کُنۡیَتِه بِاَبی الۡقاسِمِ وَ تَسۡمِیَتِه بِمُحَمَّد (۵۸) "

لہذا دو چیزیں ممنوع ہیں

۱ ۔ زمانہ غیبت میں حضرت مہدی علیہ السلام کا نام "م، ح، م، د" ذکر کرنا۔

۲ ۔ رسول اللہؐ اور حضرت مہدی (عج) کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے محمد اور ابو القاسم ایک ساتھ رکھنا ممنوع ہے (کیونکہ پیغمبر اکرمﷺ کی تصریح "اِسۡمُه ُ اِسۡمی وَ کُنۡیَتُه ُ کُنۡیَتی " کی بناء پر فقط حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے لئے وارد ہوا ہے۔ پس حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے لئے یہ ممنوعیت نہیں ہے)۔

کیا حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے والد کا نام عبد اللہ ہے؟

ہم یہاں پر محترم قارئین کی خدمت میں ایک نہایت اہم نکتہ پیش کرنا مناسب سمجھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ : اہل سنت کے بعض منابع میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے و الد کا نام "عبد اللہ" بیان کیا گیا ہے جیسا کہ آپ نے اسی فصل (حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے نام و لقب و کنیت کے بارے میں رسول خداؐ کی روایات) میں روایت نمبر ۱۵ اور ۲۰ کو ملاحظہ فرمایا ہے کہ روایت نمبر ۱۵ میں یہ عبارت نقل ہوئی ہے: "اسم اَبِیه ِ اسمُ اَبی " یعنی حضرت مہدی کے والد کا نام میرے والد کے نام "عبد اللہ" جیسا ہوگا۔ اور روایت نمبر ۲۰ میں اس طرح نقل ہوا ہے: "وَ اِسۡمُه ُ اَحۡمَدُ بۡنُ عَبۡدِ الله ِ " یعنی ان کا نام احمد بن عبد اللہ ہوگا۔ نیز پہلے باب کے آخر میں رابطۃ العالم الاسلامی کے بیان میں آیا ہے کہ ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا؛ جبکہ شیعہ اور کثیر التعداد منابع اہل سنت میں بیان کیا گیاہے کہ آپ کے والد کا نام "حسن" ہے۔

قرائن اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جملہ "اسمُ ابیه اسم ابی " یعنی ان کے والد کا نام میرے والد کے نام جیسا ہوگا، عمداًٍ یا اشتباھاً راوی کی جانب سے اضافہ ہوا ہے اور حضورؐ کے کلام میں صرف "اسمہ اسمی یعنی ان کا نام میرے نام جیسا ہوگا" موجود تھا۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی اس سلسلہ میں کہتے ہیں: ترمذی(۵۹) نے اس حدیث کو نقل کیا ہے لیکن اس میں یہ عبارت موجود نہیں ہے(۶۰) ۔ نیز امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند سے متعدد مقامات پر یہ حدیث نقل کی لیکن اس میں بھی یہ جملہ "اسمُ اَبیہِ اِسمُ ابی" نہیں ہے۔

گنجی شافعی مزید لکھتے ہیں: اہل سنت کے معتبر حافظان حدیث ومحدثین نے اس سلسلہ میں اکثر جو روایات نقل کی ہیں ان میں یہ جملہ موجود نہیں ہے یہ جملہ فقط اس حدیث میں موجود ہے جسے "زائدہ" نامی شخص نے عاصم سے نقل کیا ہے اور کیونکہ "زائدہ" حدیث میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیتا تھا اس لئے اس کی نقل کردہ حدیث غیر معتبر ہے۔ اور ہمارے بیان پر یہ بات بہترین دلیل و گواہ ہے کہ یہ حدیث عاصم سے نقل کی گئی ہے اور حافظ ابو نعیم نے کتاب مناقب المہدی میں ۳۱ راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب راویوں نے اس حدیث کو عاصم ہی سے سنا اور نقل کیا ہے لیکن کسی ایک نے بھی اس آخری جملہ کو نقل نہیں کیا فقط زائدہ کی نقل کردہ حدیث میں یہ جملہ دیکھنے میں آتا ہے لہذا اُن روایات کے مقابلہ میں زائدہ کی روایت یقیناً غیر معتبر ہے۔(۶۱) ،(۶۲)

اہل سنت کے معروف عالم دین جناب شیخ سلیمان بلخی حنفی(۶۳) ، گنجی شافعی کے کلام کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وَ قالَ الۡکَنۡجی قَدۡ ذَکَرَ التِّرۡمَذی اَلۡحَدیثَ وَ لَمۡ یَذۡکُرۡ اِسۡمَ اَبیه ِ اِسۡم اَبی، وَ ذَکَرَ اَبُو داوُد فی مُعۡظَمِ روایات الۡحُفّاظِ الثّۡقاتِ مِنۡ نَقۡلَةِ الۡاَخبارِ اسۡمُه ُ فقط وَ الّذی رُوِیَ " وَ اِسۡمُ اَبیه ِ اِسۡمُ اَبی" فَه ُوَ زیادَةٌ " یعنی محمد بن یوسف گنجی شافعی کہتے ہیں: ترمذی نے یہ حدیث (قالَ رَسولُ الله ﷺ: لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى یَمۡلِکَ الۡعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِیءُ اِسْمُهُ اسْمِی ) نقل تو کی ہے لیکن یہ جملہ (اِسم اَبِیه اسمُ اَبی ) نقل نہیں کیا ہے۔

نیز ابو داؤد نے بھی بہت سے ثقہ حافظین حدیث سے اس حدیث کو نقل کیا ہے تو فقط جملۂ (اسمُه اسمی ) کو نقل کیا ہے لہذا معلوم ہوتا ہے کہ جملۂ اسم ابیہ اسم ابی اضافہ شدہ ہے اور یہ کلام نبی ؐ نہیں ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ معروف و بزرگ علماء اہل سنت مثلاً احمد ابن حنبل و ابو داؤد جیسے افراد جو کہ صاحبانِ "مسند" و "سنن" ہیں انہوں نے حضور سرور کائنات کی روایت کو قبول کیا ہے لیکن انہوں نے اس اضافی جملہ (وَ اِسۡمُ اَبیه ِ اِسۡمُ اَبی ) کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

اسی طرح کتاب "عقد الدرر فی اخبار المنتظر(۶۴) " میں بھی اس اضافہ کو نقل کیا گیا ہے لیکن حوزہ علمیہ قم کے بعض محققین نے اس کے حاشیہ پر تحریر کیا ہے کہ:

"لَم تَکُنۡ ه ذِه ِ الزَّیادة (وَ اِسۡمُ اَبیه ِ اِسۡمُ اَبی) فِی اَکۡثَرِ الرِّوایات بَلۡ کَما یَأۡتی مِنۡ رِوایَةِ اَحۡمَد بۡنِ حَنۡبَل فی مُسۡنَدِه ِ، وَ الطَّبَرانی فی مُعۡجَمِه ِ الصَّغیر، وَ التِّرۡمَذی فی جامِعِه ، وَ غَیۡرِ ه ؤُلاء : (یُواطِیءُ اِسۡمُه ُ اِسۡمی) وَ فی بَعۡضِه ا: (اِسۡمُه ُ کَاِسۡمی) "

یہ اضافہ "اسمُ اَبیه ِ اسمُ ابی " اکثر روایات میں موجود نہیں ہے مثلاً احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم صغیر میں، ترمذی نے کتاب جامع میں اور دیگر علماء نے بھی اپنی اپنی کتب میں اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن اس میں صرف "یُواطِی اِسمُه اِسمی " یا جملہ "اِسمُه کَاِسمِی " نقل کیا ہے۔

____________________

۱ ۔مسند، ج۱، ص ۳۷۶، طبع مصر، سال ۱۳۱۳ ھ ق۔

۲ ۔صحیح، ج۲، ص ۴۶، طبع دہلی، سال ۱۳۴۲ ھ ق۔

۳ ۔صحیح، ج۲، ص ۲۱۷، طبع مصر۔

۴ ۔نور الابصار، باب۲، ص ۱۵۴۔

۵ ۔ینابیع المودۃ، ص ۴۳۲۔

۶ ۔ج۲، ص ۴۶، طبع دہلی، سال ۱۳۴۲ ھ ق۔

۷ ۔تذکرۃ الخواص، ص ۳۷۷، سا ل ۱۳۶۹ ھ ق ۔

۸ ۔ص ۴۸۸ بنابر نقل از منتقم حقیقی، عماد زادہ ، ص ۱۷۱، طبع ۶۔

۹ ۔یوسف بن یحیی مقدس شافعی نے بھی کتاب عقد الدرر فی اخبار المنتظر ، ص ۵۶، طبع مسجد مقدس جمکران سال ۱۴۲۵، میں اس جیسی عبد اللہ ابن عمر سے روایت نقل کی ہے البتہ اس روایت میں "فذالک ہو المہدی" عبارت موجود نہیں ہے۔

۱۰ ۔علاء الدین، علی بن حسام الدین، المعروف بن متقی ہندی، متوفی ۹۷۵ ھ۔

۱۱ ۔مسند، ج۱، ص ۳۷۶، طبع مصر سال ۱۳۱۳ ھ ۔

۱۲ ۔صحیح، ج۲، ص ۴۶، باب: ماجاء فی المہدی، طبع دہلی، سال ۱۳۴۲ ھ۔

۱۳ ۔مسند، ج۱، ص ۳۷۶، طبع مصر، سال ۱۳۱۳ ھ ق۔

۱۴ ۔صحیح، ج۲، ص ۲۰۷، کتاب المہدی، طبع مصر، مطبعۃ التازیہ۔

۱۵ ۔مسند، ج۱، ص ۳۷۷، طبع مصر، ۱۳۱۳ ھ۔

۱۶ ۔مسند، ج۱، ص ۴۳۰۔

۱۷ ۔منتخب کنز العمال، ج۵، ص ۴۰۴، وہ ایڈیشن جس کے حاشیہ پر مسند احمد حنبل بھی ہے۔

۱۸ ۔ینابیع المودۃ، ص ۴۹۰ و ۴۸۸، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ ھ۔

۱۹ ۔منتخب کنز العمال، ج۶، ص ۳۲۔

۲۰ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص ۴۹۴، از مناقب، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۲۱ ۔کمال الدین، طبع دار الحدیث، سال ۱۳۸۰ شمسی، ترجمہ منصور پہلوان، ج۱، ص ۵۳۷، روایت ہفتم از رسول خداؐ۔

۲۲ ۔پہلے اور تیسرے نکتہ میں یہ فرق ہے کہ پہلے نکتہ میں روایت کے متفق علیہ ہونے پر توجہ دلائی گئی ہے جبکہ تیسرے نکتہ میں حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر پیغمبر اسلام کی تصریح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کیونکہ روایت میں لفظ "بعدی" آیا ہے۔

۲۳ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص ۵۶، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ ھ ق۔

۲۴ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب دوم فی اسمہ و خلقہ و کنیتہ، ص ۵۶۔

۲۵ ۔اسی باب کی دوسری روایت۔

۲۶ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب دوم، ص ۵۵، انتشارات مسجد مقدس جمکران، سال ۱۴۲۵۔

۲۷ ۔مسند، ج۳، ص ۳۷۶۔

۲۸ ۔جمع الجوامع، ج۱، ص ۹۰۳۔

۲۹ ۔عقد الدرر، باب۳، ص ۵۳، ناشر مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ ھ۔

۳۰ ۔یہ عبارت اسم ابیہ اسم ابِی ، اکثر روایات میں موجود نہیں ہے اور ہم بعداً ثابت کریں گے کہ یہ حضورؐ کے کلمات نہیں ہیں جیسا کہ بہت سے بزرگ علماء نے اس اضافی عبارت کا تذکرہ نہیں کیا ہے جیسے احمد بن حنبل مؤلف مسند، طبرانی مؤلف معجم صغیر، ترمذی مؤلف جامع

۳۱ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص ۴۹۳، طبع دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ ۔

۳۲ ۔عقد الدرر، باب۴، فیما یظھر من الفتن الدّالۃ علی ولایتہ، ص ۹۰، طبع مسجد مقدس جمکران، سال ۱۴۲۵ ھ۔

۳۳ ۔تقریب التھذیب، ج۱، ص ۱۲۰ کے مطابق ثوبان ہاشمی اصحاب و ملازمان رسول اللہ میں سے ہیں اور ۵۴ ھ میں ان کا انتقال ہوا تھا۔

۳۴ ۔ عقد الدرر، باب ۴، ص ۹۴، طبع مسجد مقدس جمکران۔

۳۵ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص۴۹۲ و ۴۹۳، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۳۶ ۔آپ کے والد کا نام عبد اللہ ہے یا نہیں، اس فصل کے آخر میں مفصل گفتگو کریں گے۔

۳۷ ۔ابن اثیر کی کتاب نہایہ ج۴، ص ۸۵ کے مطابق سفید عباء کو کہتے ہیں۔

۳۸ ۔عقد الدرر، باب ۳، ص ۶۱، طبع مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ ھ۔

۳۹ ۔بنابر نقل منتخب الاثر، آیت اللہ صافی گلپائیگانی، فصل دوم، باب اول، ص ۲۰۴، طبع سپہر سال ۱۴۱۹ھ۔

۴۰ ۔بنابر نقل منتخب الاثر، آیت اللہ صافی، فصل ۶، باب۴، ص ۵۵۴، طبع سپہر، ۱۴۱۹ ھ ۔

۴۱ ۔بنا بر نقل از منتخب الااثر، آیت اللہ صافی، فصل ۶، باب۴، ص ۵۵۴، طبع سپہر، ۱۴۱۹ھ۔

۴۲ ۔نور الابصار، ص ۱۵۵۔

۴۳ ۔شبلنجی کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مہدیؑ کے سر پر بادل و فرشتہ سایہ فگن ہیں۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

۴۴ ۔ینابیع المودۃ، باب۷۶، ص ۴۴۲، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ ۔

۴۵ ۔سورہ بقرہ: آیات۲ اور ۳۔

۴۶ ۔ سورہ مجادلہ، آیت ۲۲۔

۴۷ ۔سورہ نجم، آیت ۲ تا ۵۔

۴۸ ۔سورہ حشر، آیت ۷۔

۴۹ ۔سورہ طہ، آیات ۲۵ تا ۳۲۔

۵۰ ۔اول مظلوم عالم امیر المؤمنین علیؑ، تالیف ہادی عامری، طبع اول، ص ۶۹ تا ۷۵۔

۵۱ ۔جیسا کہ فصل اول (رسول اللہؐ کی بشارتیں) کی بارہویں روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔

۵۲ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص ۴۹۴، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ ۱۳۸۵ھ۔

۵۳ ۔سورہ نساء (۴) آیت ۵۹۔

۵۴ ۔سورہ نجم (۵۳)، آیات ۲ تا ۵۔

۵۵ ۔سورہ حشر (۵۹)، آیت ۷۔

۵۶ ۔سورہ حشر (۵۹)، آیت ۷۔

۵۷ ۔جیسا کہ فصل (رسول اللہؐ کی بشارتیں) کی بارہویں روایت میں ذکر کیا جا چکا ہے ۔

۵۸ ۔بنابر نقل از زندگانی صاحب الزمان، عماد زادہ، ص ۱۱۵، انتشارات قائم، طبع ۶۔

۵۹ ۔محمد بن عسیٰ بن سورۃ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ مؤلف صحیح ترمذی جو کہ صحاح ستہ میں سے ہے۔

۶۰ ۔اسی کتاب کے دوسرے باب میں پہلی روایت ملاحظہ فرمائیں ۔

۶۱ ۔منتخب الاثر، آیت اللہ صافی، مرکز نشر کتاب، تہران، ۱۳۷۳ھ، ص ۲۳۱، ۲۳۵؛موسوعۃ الامام المہدی، اصفہان مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین العامہ، ج۱، ص ۱۳، ۱۶۔ اس سلسلہ میں دیگر احتمالات بھی دیئے گئے ہیں۔

۶۲ ۔سیرۂ پیشوایان، مہدی پیشوائی، طبع ۱۲، مؤسسہ امام صادق ؑ، ص ۷۰۵۔

۶۳ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص ۴۹۲، دار الکتب العراقیہ، طبع ۸، سال ۱۳۸۵۔

۶۴ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، یوسف بن یحیی مقدسی شافعی، باب۲، ص ۵۱، روایت ۲، طبع مسجد مقدس جمکران، سال ۱۴۲۵ھ۔