پہلی فصل
سُنّت پر طائرانہ نظر
قولِ صحابی کس حد تک معتبر ہے؟ اس مسئلہ پر مفصّل بحث کرنے سے پہلے ُسنّت کی تعریف جاننامناسب ہے لہٰذا سنّت کی تعریف بیان کرنے کے بعد اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی جائے گی.
سُنّت کی لغوی تعریف :
لفظ “سُنّت” لُغت میں ، رَوِش، طریقہ، سرِشت، طبیعت اور آئین و شریعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے
.
صاحبِ لسانُ العرب،اِبنِ منظورکاکہناہے:فَاِنَّمَا یُرادُ بِها مَا أمَرَبه النَّبی ونهٰی عنه ونَدَبَ اِلیه قولاً وفعلاً ممّا لم ینطق بهِ الکِتَاب الْعزیز، ولهذا یقال فِی ادلّة الشرع: الکتاب والسنّة ای القرآن والحدیث
.
سُنّت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبرؐاسلام نے جس چیز کا حکم دیا اور جس چیز کی نہی فرمائی، اس کے علاوہ قرآن نے جس چیزکے بارے میں وضاحت نہیں کی آنحضرتؐ نے اپنے قول و فعل کے ذریعہ اسے سمجھایا ہے اسی لئے ادلّہ شرعیہ میں اسے کتاب وسنت سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی قرآن وحدیث.
سنّت، اہلِ سنّت کی نگاہ میں:
اہلِ سنّت، پیغمبرِؐ اسلام کی گفتار و کردار کے علاوہ اصحاب کے اقوال کوبھی سُنّت قراردیتے ہیں، اگرچہ انکی نظر میں اصحاب کے اقوال کا مرتبہ آنحضرتؐ کی احادیث سے کمتر ہی ہے.
سُنّت، امامیہ اثناعشری کی نگاہ میں:
اِمامیہ اثناعشری پیغمبر اکرمؐ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بارہ معصوم اماموں کے اقوال،افعال اور تقاریر
کو سنت قرار دیتے ہیں
.
ضرورتِ حدیث:
تفسیر و فہم ِقرآن کے سلسلہ میں بحث و گفتگوکے موقع پر اکثریہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخرہمیں حدیث کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ کیا حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھاجاسکتاہے؟
حدیث و سُنّت کی ضرورت اوراسکی حُجیت پردلائل بیان کرنے سے پہلے یہ جان لیناضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی آیات بھی موجودہیں کہ جن کے معنی کوسمجھنے کے لئے صرف لُغت اورعربی اسلوب کلام کو جان لینا کافی نہیں جیسے:(
وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحاً
)
فراٹے بھرتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم،(
وَالذَّاریَاتِ ذرواً
)
اور ہواؤں کی قسم جو بادلوں کو منتشر کرنے والی ہیں،(
وَالْفَجْر، وَلَیَال عَشْر
)
قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی، کونسی دس راتیں مرادہیں؟ شبِ قدرکیاہے؟ اسی طرح اوربہت سی آیات ہیں جو فقط حضورختمی مرتبتﷺ کے ارشادات کی روشنی ہی میں سمجھی جاتی تھیں اورفریقین یعنی شیعہ اور اہل سنت کی صدرِاسلام سے آج تک یہ ہی سیرت رہی ہے کہ قرآنی مشکلات کو حدیث کے ذریعے حل کرتے رہے ہیں اِسکے علاوہ عالمِ اسلام میں انواع تربیت اور مختلف علوم نے حدیث ہی کے ذریعے رواج پیداکیا ہے ، تاریخ بھی ابتداء میں حدیث کے ذریعے مرتب ہوئی ہے اورپھر اسکے بعد رفتہ رفتہ یہ خود ایک مستقل اورمخصوص فن میں تبدیل ہوگئی ، اِس اَمر پر دلیل یہ ہے کہ سیرة ابنِ ہشام، تاریخ اِبنِ جریر طبری ، روایت اِبنِ اسحاق بلازری درفتوح البلدان بطور حدیث نقل ہوئی ہیں
.
اسی طرح شروع میں قصصُ الانبیاء بھی قرآن وحدیث ہی میں نقل ہوئے اوراسکے بعد پھر داستان پرداز لوگوں نے ان میں وُسعت دیناشروع کردی ، اس طرح حکمت و اخلاق، اصول ، تربیت اورکچھ فلسفہ یونان وہند ،حدیث میں داخل ہوگئے. علاوہ بر ایں احادیث عبادی، معاشرتی اور اختلافی مسائل کے حل کی تفصیل کا سرچشمہ ہیں
.
دلائل حُجیت سنّت پیغمبرِؐ اسلام :
پیغمبرِ اسلامﷺ کی سنّت و احادیث کے حُجت ہونے پر کیا دلیل ہے؟
حضوراکرم ﷺکی سُنّت واحادیث کے حُجت ہونے پر اہلِ علم و فن نے مختلف قرآنی وعقلی دلائل قائم کی ہیں جن میں سے چند ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں.
۱.سنت کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ قرآن کریم ملکوں کے اساسی قوانین (آئین) کی طرح عام طورپر کلّی احکامات بیان کرتا ہے جب کہ اکثرجُزئی احکامات سُنّتِ نبویﷺ کے ذریعے بیان کئے گئے ہیں.مثلاً قرآن کریم نے نمازکاحکم تودیاہے لیکن اِسکے مکمل احکامات احادیث و سنت رسولؐ میں وارِد ہوئے ہیں.
۲.قرآن پر عمل کرنا احادیث اور سنت رسولؐ کی طرف رُجوع کرنے اور ان پر عمل کرنے کا سبب بنتا ہے کیونکہ خداوندِ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
(
اَطِیعُواْ اللّٰهُ وَاَطِیعُواْ الرَّسُوْل
)
اللہ کی اطاعت کرو اوراسکے رسولﷺکی اطاعت کرو.
لہٰذاکیا آنحضرتؐ کے اَوامر ونواہی سے آشنائی کے بغیر آپﷺکی اطاعت و فرمانبرداری ممکن ہے؟ ہرگز ممکن نہیں ہے کیونکہ ارشادِ ربّ العزت ہے(
لَقَدکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسوَة حَسَنَة
)
بتحقیق تمہارے لئے رسولﷺ کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہے. بنابرایں آنحضرتؐ کے کردارو گفتار سے آشنائی کے بغیر آپؐ کی اطاعت ممکن نہیں ہے.
۳.خود قرآنِ کریم، سرورِکائناتﷺ کومبیّن قرآن قراردیتے ہوئے ارشادفرماتاہے:(
وَاَنزَلنَا اِلیک الذِکْرَلِتُبیّنِْ لِلنّاس مَا نُزِّلَ اِلِیْهمْ
)
اورہم نے آپکی طرف بھی ذکر(قرآن) کونازل کیاہے تاکہ ان کیلئے احکام کو واضح کردیں جو انکی طرف نازل کئے گئے ہیں.
۴.شیعہ و سنّی کتب احادیث میں پیغمبر اکرمﷺ کی لا تعداد احادیث جمع کی گئی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر احادیث کی ضرورت نہ ہوتی تو حضور سرورِ کائناتﷺ یہ بے شمار احادیث ارشاد نہ فرماتے! احادیث لکھنے اور انہیں محفوظ رکھنے کا حکم نہ دیتے ، آپؐ کا ارشاد گرامی ہے:مَنْ حَفِظَ مِنْ اُمَّتِی اَرْبَعِیْنَ حَدِیثاً مِمَّا یحْتَاجُونَ اِلَیْهِ مِنْ أمْرِ دِیْنِهِم بَعَثَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَل یَوْمَ الْقَیَامَةِ عَالِماً فَقِیْهاً وَلَم ْ یُعَذبْه
آپؐ فرماتے ہیں:میری اُمت میں جو شخص اپنی دینی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے چالیس احادیث حفظ کریگا تو خداوند قیامت کے دن اسے دین شناس شخص کی صورت میں محشور کرے گا اور اس پر عذاب سے نہ کرے گا.
اسی طرح اگرحدیث کی ضرورت نہ ہوتی تو آنحضرتؐ، آپؐ سے کسی حدیث کو سن کر دوسروں تک پہنچانے والے کیلئے دعائے خیرنہ فرماتے جیسے آپؐ نے فرمایا: “رَحِمَ اللّٰهُ اِمرَئاً صنع مقالتی
... ” نیز فرماتے ہیں: “فالیبلغ الشاهدُ الغائبَ
”.
اسی طرح اگراحادیث کی ضرورت نہ ہوتی تو أئمہ علیہم السلام اور اصحاب کرام احادیث کے لئے اتنا اہتمام نہ کرتےاورحدیث وعلوم حدیث کے سلسلے میں اتنی کثیرتعدادمیں کُتب ضبط تحریرمیں نہ لائی جاتیں.
حدیث کی عدم حاجت پر اوّلین نغمہ سرائی:
حضورؐ سرورِ کائنات، آئمہ اہلِ بیتؑ اورصحابہ کرامؓ سے اتنی بے شمار احادیث کا نقل ہونا خودضرورتِ حدیث کی بہترین و مبینہ دلیل ہے لیکن جب ہم تاریخِ اسلامی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں حدیث کے خلاف آواز اُٹھتی ہوئی نظرآئی لہٰذا ذہنوں میں یہ سوال اُٹھتاہے کہ حدیث کی عدم حاجت پر اولین نغمہ سرائی کب اورکس نے شروع کی تھی ؟
جواب : تاریخ اسلامی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ حضورؐ ختمی مرتبت نے رحلت سے قبل اپنے پاس موجود اصحاب سے قلم و قرطاس کا مطالبہ کیا تاکہ ایسی تحریر رقم کردیں جس کی وجہ سے بعد میں اُمّت گمراہی وضلالت سے محفوظ رہے تواس موقع پر حضرت عمرنے حَسبُنا کتاب اللّٰہ کا نعرہ بلندکردیا(آج بھی بعض ممالک میں یہ فکر پائی جاتی ہے) جو پیغمبرؐ اسلام کی وصیت کی عدم کتابت کا سبب قرارپایا، اس لئے نبی ؐکریم نے ان حضرات کوباہر نکلنے کا حکم دے دیا.تاریخ میں یہی لمحہ منع کتابت حدیث کا آغازقرارپایا. تاریخ نے اس واقعے کو "واقعہ ٔ قرطاس" و رزیّۂ یوم الخمیس کے نام سے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے
.
نیز حضورؐکے بعد حضرت عمر نے باقاعدہ کتابت حدیث کو ممنوع قراردیدیا تھا آج بھی انکے فرمان کی عکاسی کرنے والا جملہ (اَقِلّو االرِّوایَة عَن رَسُولِ اللّٰه
؛رسول اللہ سے کم سے کم روایت نقل کرو ) تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے.
نیز تاریخ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ اولین حدیث سوزی حضرت ابوبکر کی جانب سے انجام پائی اور ۵۰۰ احادیث جوخودانہوں نے یکجا اورتحریر کی تھیں انہیں جلادیا
.
اس موقع پر کیا مسلمانوں کو ان سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے کہ انہوں نے یہ احادیث کیوں ضائع کردیں ؟ کیا یہ احادیث جھوٹی تھیں؟ اگر سچی تھیں توسنّتِ پیغمبرؐکو کیوں نابودکیاگیا؟
حدیث سے مقابلے کی وجہ:
سوال: گُذشتہ و عصر حاضر میں بعض لوگوں کی جانب سے نقل و کتابت حدیث کی مخالفت کی کیا وجہ ہے؟
جواب: مخالفین حدیث کو دوگروہ (معاندین
وغیرمعاندین) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
غیرمعاندین کی جانب سے حدیث کی مخالفت کی وجہ:
فریقین کی کُتُب حدیثی میں موجود جعلی وضعیف روایات کی ترویج و تشہیر کا خوف.
لیکن غیر معاندین حضرات کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ احادیث کی کتب میں ایسی روایات کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تمام احادیث کو ترک کردیں بلکہ یہ امر تو ہمیں اس بات کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ صحیح احادیث کوغیرصحیح سےجدا اورممتاز کیا جائے. کیاخاک وطلاکے باہمی اختلاط کی وجہ سے تمام مواد کو دور پھینک دیا جائے یا انہیں بذریعہ مختلف وسائل ایک دوسرے سے جدا کیا جانا چاہےا؟!
معاندین کی جانب سے حدیث کی مخالفت کی احتمالی وجوہات:
۱.متعدد احادیث میں بیان شُدہ فضائل اہلِ بیتؑ کی روک تھام.
۲.بعض حکمران وقت اور انکے حامیوں کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کی نشر واشاعت کا سدِ باب.
مثال کے طور پر بعض ایسی احادیث ہیں جن میں حکومت کے بعض افرادکی مذمت کی گئی ہے. مثلاً آیت (اِنْ جَائَکم ْ فَاسِق
.اگرتمہارے پاس کوئی فاسق آئے تو پہلے اسکی تفتیش کرلو) کے ذیل میں حدیث میں آیا ہے کہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جسے حضرت عثمان کے دور ِ حکومت میں کوفے کا گورنر بنادیا گیا اور اس نے حالتِ مستی و نشہ میں نماز صبح چار رکعات پڑھادی تھیں
.
۳.خلافت و امامت اہلِ بیت کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کی نشرواشاعت کا سدِّ باب. مثلاً : حدیثِ ثقلین ، سفینہ ، غدیر ، منزلت ، یوم الدار،اَنَا مَدِیِنَة ُ الْعِلم
وغیرہ.
۴.انکے عمل کی مخالفت کرنے والی احادیث کی روک تھام.
جس قدر احادیث و سُنّت پیغمبرؐ اکرم لوگوں میں رائج ہوں گی اسی قدر حکومت کا ہاتھ بھی غلط سے کھنچارہے گا لہٰذا اگرتمام احادیث ِ نبویؐ لوگوں کے پیشِ نظر رہیں گی تو حکومت ان احادیث کے خلاف اعمال انجام نہ دے سکے گی اوراگرعمل کرے گی تو انگشت نمائی کا نشانہ قرارپائے گی.
نیز روایت نوےیؐ ہے:لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ تَخَلَّفَ جَیْشَ اُسَامَة
. لشکرِ اُسامہ کی مخالفت کرنے والے پر خدالعنت کرے نیز پیغمبرؐگرامی قدر نے یہ کہہ کر ایک شخص پر لعنت فرمائی ہے:اللّهُمَّ لَا تَشبِعْ بَطْنَه
... پروردگار کبھی اس شخص کاپیٹ نہ بھرے
.
حدیث کی اہمیت اورقدرومنزلت:
حدیث کی نشرواشاعت کے بارے میں قرآن اور حدیث پیغمبرؐ اسلام وائمہ اہل بیتؑ میں خصوصیت کے ساتھ تاکید کی گئی ہے.
احادیث مبیِّن قرآن ہیں خصوصاً مشاتبہات اورآیات میں کلی مطالب کی جزئیات کو بیان کرتی ہیں.
احادیث میں امامت کا مکمل تعارف موجود ہے.
اصحاب پیغمبرؐ اور أئمہ اہل بیتؑ کا خاص اہتمام کرنا خود حدیث کی اہمیت اورقدرو منزلت کواُجاگر کررہا ہے مثلاً :
(الف) عَنْ کَثِیر بن قیس قالَ :کُنْتُ جَالِساً مع أ بی الدرداء فِی مَسْجِد دَمِشق فجاء رَجُلٌ، فَقَالَ : یَا اَبَا الدَّرداء جِئتُکَ مِنْ مَدِینَةِ الرَّسُولِ لِحَدِیثٍ بَلَغنِی اَنَّکَ تَحْدِ ثُهُ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ مَاجِئْتُ لِحَاجَةٍ
...
یعنی کثیر بن قیس سے روایت کی گئی ہے ، وہ کہتے ہیں میں ایک دفعہ دمشق کی مسجدمیں ابودرداء کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے ابودرداء میں مدینة الرَّسول سے تمہارے پاس صرف ایک حدیث کی خاطرآیا ہوں کہ جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے تم نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے...
(ب) اہمیت حدیث کے بارے میں اصحاب ِ پیغمبرؐ وأئمہ اہلِ بیتؑ سے فراواں احادیث واردہوئی ہیں.
البتہ اصحاب پیغمبرؐ کو دو گرہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :
۱.مُکثرین فی الحدیث، یعنی کثرت سے حدیث نقل کرنیوالے حضرات جیسے حضرت علیؑ ، ابوہریرہ ، حضرت عائشہ، عبدُاللہ بن عمر وغیرہ.
۲.مقلّین فی الحدیث ، جن افرادکی نقل کردہ احادیث کی تعداد مکثرین فی الحدیث سے کم ہے.
(ج) شیعہ مکثرین جیسے محمد بن مسلم و زرارہ نے صادقین علیہما السلام سے کثرت سے روایات نقل کی ہیں
(د) بعض حضرات نے احادیث کی جمع آواری کی خاطر طویل سفر اختیار کیا ہے شیعوں میں عالم بزرگوار یعقوب کلینی، اسی طرح اہلِ سُنّت میں بخاری صاحب نے کسبِ حدیث کے لیے کافی طولانی سفر کیے ہیں یہاں تک کہ بعض حضرات نے ایک حدیث حاصل کرنے کے لیے ایک شہرسے دوسرے شہرسفرکیا ہے مثلاً صاحب سفینةُ البحار نے مادہ حَدَثَ کے ذیل میں شام کی جانب جابر اورمصر کی طرف ابوایوب کے سفر کرنے کا تذکرہ کیا ہے اورکہا ہے کہ انہوں نے ایک حدیث کی خاطر یہ طویل سفر کیا تھا. نیز کتاب سنن ابی داؤد ، کتاب علم ، باب فضل العلم میں ایک حدیث نقل کرنے کی خاطر ایک راوی کے مدینہ سے دمشق سفر کا تذکرہ کیا گیا ہے.
(ہ) پیغمبر اکرمﷺ کی مشہورومعروف حدیث ہے کہ آ پؐ نے فرمایا:مَنْ حَفِظَ عَلیٰ اُمَّتِی اَرْبَعِینَ حَدِیثًا بَعَثَهُ اللهُ یَومَ القَیَامَة فَقِیهاً؛
میری اُمت میں سے جو شخص چالیس احادیث حفظ کریگا توخدا وندِ عالم قیامت کے دن اسے دین شناس محشور کرے گا.
نبی کریمؐ کی اس حدیث شریف پر عمل کرنے کے لیے فریقین نے متعدد اربعینات
تدوین کی ہیں مثلاً اہلِ سُنّت کے یہاں نُوٰوی کی اربعین معروف ترین ہے جو کہ حوزہ ہائے علمیہ میں تدریس بھی کی جاتی ہے جب کہ شیخ آقا بزرگ تہرانی اپنی معروف کتاب الزریعہ اِلیٰ تصانیف الشیعہ میں ۸۳ شیعہ اربعین کُتب کا تذکرہ کرتے ہیں.
سُنّت نبوی تک رسائی:
گُذشتہ مطالب سے حدیث کی قدرومنزلت اوراسکی ضرورت واہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ حدیث اور سُنّتِ نبی کریمؐ کے بغیر ہم قرآن کریم کی آیات کی صحیح تفسیر بیان نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے ہم لازمی طورپر حدیث و سُنّتِ نبوی کے محتاج ہیں. اب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ نبی کریمؐ کی حدیث وسُنّت تک کس طرح ہماری رسائی ممکن ہے ؟
اہلِ سُنّت حضرات نبیﷺ کے بعد اصحاب کے قول کو حُجت تسلیم کرتے ہیں اسی لیے انہیں مطلق طورپرعادل قراردیتے ہیں ، جب کہ شیعہ حضرات نبی کریمﷺ کے بعدآنحضرتؐ کے اہلِ بیتؑ اطہار اورعادل صحابہؓ کے ذریعے سُنّتِ نبوی کو حاصل کرتے ہیں. شیعہ اہلِ بیتؑ کو معصوم مانتے ہیں لہٰذا قول و فعل اورتقریرمعصومینؑ کو مکمل طورپر نمونۂ حیات اورتفسیر قرآن کے لیے حُجت قراردیتے ہیں.
پس ہم آئندہ مطالب میں فریقین کے نقطۂ نظر کی قرآن و سُنّت کی روشنی میں مفیدومختصر اورمُستند تحلیل وتشریح پیش کریں گے اوراس کے بعد فیصلہ قارئین کی ضمیر کی عدالت پر چھوڑدیں گے.
____________________