تیسری فصل
تفسیر قرآن میں قول صحابہ کی قدر و منزلت
آغاز کلام
صحابی کی لُغوی تعریف:
“صُحبَة”یا “صحبت” لغت میں معاشرت و ملازمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے
جسکا جمع اِسم فاعل؛ صحِب، اصحاب اورصحابہ ہے۔ ماہر لُغت جناب راغب اِصفہانی، مفردات کلمات قرآن میں رقمطرازہیں کہ عرفِ عام میں صاحب اسی کو کہا جاتاہے جو کسی کے ساتھ کثرت سے پایا جاتا ہو
بنابرایں پیغمبر اسلامﷺ کے صحابی ہونے کا اِطلاق اسی فرد پر ہوسکتا ہے جو ان کے ساتھ کثرت سے معاشرت و ملازمت رکھتا ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، شائستہ ہو یا تباہکار، مومن ہویا منافق وغیرہ، کیونکہ اس تعریف کے مطابق جیسا کہ جناب فیّومی نے بھی کہاہے “یعنی صحابی وہ ہے جو پیغمبرِ اسلامﷺ کی صحبت میں زیادہ رہا ہویا انہیں دیکھاہو”
صحابی کی اصطلاحی تعریف:
اصولییّن ومحدثین اہلِ سنّت کا اتفاق نظر ہے کہ صرف مسلمان ہی پر صحابی کا اطلاق کیاجاسکتاہے.
صحابی، اہلِ سنّت علمائے اصول کی نگاہ میں:
اہلِ سنّت حضرات سے تعلق رکھنے والے علمائے اصول صحابی کی اِسطرح تعریف بیان کرتے ہیں:“هُوَ کُلُّ مَنْ لَقِیَ النَّبِی مُومِناً بهِ وَلَا زِمَه زمناً طَوِیلاً حَتَّی صَارَ یطلق علیه اِسم الصَاحب عرفاً”
صحابی اسے کہتے ہیں جوطویل عرصے تک نبی کریمﷺ کے ساتھ رہا ہو اور انکی پیروی کرتے ہوئے اوامر و دستورات الٰہی پرعمل پیرا ہو.
صحابی، اہلِ سنّت علمائے اہلِ حدیث کی نگاہ میں:
“الصحابی مَنْ لَقِیَ النَّبِی مُومِناً بِه وَمَاتَ عَلی الِاسْلام”
صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریمﷺ سے ملاقات کی ہو اورمسلمان ہی دنیا سے گیا ہو.
صحابی کی تعریف اور اس کے مصداق کو بیان کرنے کے لئے یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ شخص بھی صحابی ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ کو درک کیا ہو چاہے نبی کریمﷺ کو دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو ۔
بخاری نے مِسوَر ابنِ مُخرمہ جیسے افرادسے روایت نقل کی ہے کہ جنہوں نے فقط سنِ بلوغ سے قبل پیغمبرؐ ِ اسلام کی زیارت کی تھی۔
علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے بلوغ کی شرط بھی نہیں لگائی ہے، اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بہت سے صحابہ صغارکے نام دیکھنے میں آئے ہیں بلکہ بعض علماء نے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں انکے صغیر ہونے کی تصریح کی ہے جیسے الاصابة فی تمیز الصحابہ، ابنِ حجرعسقلانی؛ الاستیعاب، ابنِ عبدالبر اور اسدلغابة، ابنِ اثیر وغیرہ، ان سب کی نظر کے مطابق“ مِسوَر” ہجرت سے دوسال قبل پیدا ہوئے تھے.
صحابی اور شیعہ نقطۂ نظر
صحابی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں شیعہ نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ یہ ایک شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ جدیداصطلاح ہے کیونکہ:
اوّلاً: اہلِ سنّت کی بیان کردہ اصطلاحی تعریف پر کوئی قرآنی و روائی دلیل موجود نہیں ہے.
ثانیاً: اہلِ سنّت کی بیان کردہ اصطلاحی تعریف کے برخلاف قرآن کریم میں یہ لفظ لغوی معنی ہی میں کثرت سے استعمال ہوا ہے یعنی یہ لفظ کسی شخص کی کسی فرد یا مکان سے وابستگی میں استعمال ہوا ہے، حتّی کہ کسی انسان کی حیوان کے ساتھ ہمراہی اورمومن کی کافر کے ساتھ ہمراہی کے معنی میں استعمال ہواہے مطلب کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل مثالوں پر غور کیجئے.
٭(
اَلَم ترَ کیفَ فَعلَ رَبُّکَ بِاَصحَابِ الفِیل
)
۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا.
٭(
وَمَا صَاحِبکُم بِمَجنُون
)
اورتمہاراساتھی پیغمبرؐ دیوانہ نہیں ہے.
٭(
وَ مَاضلّ صَاحبکُم وَ مَا غویٰ)
۔
تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہواہے نہ بہکاہے.
٭(
قَالَ لَه صَاحبُه وَهُوَ یُحَاوِرُهُ اَکَفَرْ تَ بِا لّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ سَوَّاکَ رَجُلاً
)
۔
اسکے ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تو نے اسکا انکار کیا ہے جس نے تجھے خاک سے پیدا کیا ہے پھر نطفہ سے گذاراہے اورپھر ایک باقاعدہ انسان بنادیاہے.
٭(
وَاضْرِبْ لَهُم مَثلاً اَصْحَابَ القریَة اِذ جائَهاالمُرسلوُن
)
۔
اورپیغمبرؐ آپ ان سے بطور مثال اس قریہ والوں کا تذکرہ کریں جن کے پاس ہمارے رسول آئے.
نتیجہ:
مندرجہ بالا آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں:
اولاً : لفظ “اصحاب” لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگرکچھ لوگ کسی حیوان کے ہمراہ تھے جیسے اصحاب فیل (ہاتھی والے) تو قرآن مجید نے انہیں اس ہاتھی کا اصحاب قرار دیا ہے، اسی طرح کافرکو مومن کا صحابی کہا ہے جیسے سورۂ کہف کی سینتیسویں آیت میں آیاہے.
ثانیاً: یہ لفظ مضاف استعمال ہوا ہے جیسے صاحبکم، صاحبہ، حتٰی روایات میں بھی بغیر مضاف کے استعمال نہیں ہواہے بنابرایں اِصطَلاَح اَہلِ سُنّت“من لقی النَّبِی مومِناً به وَمَاتَ عَلی الِاسْلَام”
میں لفظ اصحاب کی قرآن وحدیث اورلُغت سے کوئی تائید نہیں ہوتی.
قول صحابہ کی قدر و منزلت
صحابہ کے قول کی ارزش واہمیت اوراسکی قدرومنزلت کے بارے میں خود اہلِ سنّت میں اختلافِ نظر پایا جاتاہے، بعض حضرات، صحابہ کے قول کو حُجت مانتے ہیں اورکچھ حُجت تسلیم نہیں کرتے ہیں. مثلاً ابوحنیفہ کہتے ہیں:
“اِذَالَم اَجِد فِی کِتَابِ اللّٰه وَلَا فِی سُنّة رسوُل اللّٰه اَخَذْتُ بِقولِ اَصحابِه فَاِذا اختَلفَتْ آرا ؤُهم فِی حکمِ الواقعة الواحدةِ اَخَذْتُ بِقولِ مَنْ شئتُ واَدْع مَن شئتُ”
جب مجھے کتاب خدا اورسنّتِ رسولؐ اللہ میں کوئی مسئلہ نہیں ملتا تو میں صحابہ کے قول سے استفادہ کرتا ہوں اوراگرکسی مسئلہ میں خود صحابہ کی آراء میں اختلاف نظر آتا ہے تو پھر جسکا قول چاہتاہوں انتخاب کرلیتا ہوں اورجس کا قول چاہتا ہوں ترک کردیتا ہوں.
اِبنُ القیم “اعلام الموقعین” میں کہتے ہیں:“اِنَّ الاُصولَ الاَحکامِ عِندَ الاِمامِ احمدخَمْسَة: الاَوّلُ النص، والثَانِی فَتْوَی الصَّحابِی،فَعَمَلُ الصَّحابی عَلٰی خِلاَ فِ عمومِ القُرآنِ دَلِیل عَلٰی التَخْصِیصِ وَقَولُ الصَّحابی بِمَنْزِلَةِ عَملِه”
امام احمد کے نزدیک اصول احکام پانچ ہیں اول: نص، دوئم: فتویٰ صحابہ پس عموماتِ قرآن کے برخلاف صحابہ کاعمل ان عمومات کو تخصیص کردیتاہے (یعنی اگرقرآن کسی چیز کے بارے میں عمومی حکم دے لیکن صحابہ اس کے برخلاف عمل انجام دیں تو ان کے اس عمل سے قرآن کے عمومی حکم کا دائرہ محدود ہوجاتاہے) اورصحابہ کا قول بھی انکے عمل ہی کی مانند ہے ۔
یادرہے کہ بعض کُتب اہلِ سنّت میں مذہب صحابی؛ ادلّہ و منابع احکام میں سے ایک دلیل و منبع کی حیثیت سے موردِ بحث و گفتگو قراردیا گیا ہے.
ڈاکٹر سلقینی اپنی مشہور و معروف کتاب“اَلْمیسرفِیْ اصول الْفِقَه الِاسْلامی
” میں قولِ صحابہ کی حجیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
علمائے اہلِ اصول، رائے و عقل اور اِجتہاد کے ذریعہ درک نہ ہونے والے امور میں صحابی کے قول کو حجت مانتے ہیں اورعلمائے حدیث انکے قول کو بعنوان حدیث موقوف تسلیم کرتے ہیں جو حدیث مرفوع کا حکم رکھتی ہیں.
اسی طرح علمائے علم اصول ایک صحابی کے قول کو دوسرے صحابی کے لئے حُجت نہیں مانتے ہیں ۔
عدالتِ صحابہ کے بارے میں اقوال
علمائے اہلِ سنّت کے درمیان صحابہ کرام کی عدالت کے بارے میں تین مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
۱.بعض حضرات صحابہ کو کافر مانتے ہیں جیسے فرقۂ کاملیہ
۔
۲.دوسرا گروہ وہ ہے جو تمام صحابہ کومطلق العنان عادل مانتے ہیں اور اس بات کو جائز نہیں مانتے ہیں کہ کوئی انکی روایات کی تکذیب کرے. کیونکہ وہ پیغمبرؐ اسلام کے ہم نشین رہے ہیں لہٰذا اس فضیلت کی بناء پر کسی بھی طرح انکی تکذیب جائز نہیں ہے.
مزنی اس بارے میں کہتے ہیں: “کلّهم ثقة مؤتمن
” ،
یہ سب کے سب ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔
خطیب بغدادی کہتے ہیں: “عدالة الصحابة ثابتَةومعلومَة
” ،
صحابہ کی عدالت ثابت شدہ اور معلوم ہے۔
ابنِ حزم کا کہنا ہے : “الصحابة کلّهم من اهلِ الجنّة قطعاً
” ،
یقیناً تمام صحابہ اہلِ بہشت ہیں۔
ابن عبد البر ،
ابن اثیر ،
اور غزالی
وغیرہ نے بھی اِس موضوع کی تصریح کی ہے۔
۳. سعد تفتازانی ،
مازری
(شارح برھان)، ابنِ حماد حنبلی ،
شوکانی
وغیرہ اور متاخرین میں شیخ محمد ابوریّہ ،
شیخ محمد عبدہ ،
سید محمد ابنِ عقیل العلوی ،
سیدمحمد رشید رضا ،
شیخ محمد مقبلی
اورشیخ مصطفی صادق رافعی (اعجازِ قرآن میں) وغیرہ کا یہ نظریہ ہے کہ صحابہ بھی خطاء واشتباہ سے محفوظ نہیں ہوتے ہیں، ان کے درمیان بھی عادل و غیر عادل افراد پائے جاتے ہیں یہ نظریہ بالکل شیعہ نقطۂ نظرکے مطابق ہے.
دلائل موافقین
چونکہ اہلِ سنّت حضرات کی اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں، اگرکوئی شخص اِن میں سے کسی ایک فرد کی تکذیب یا توہین کرتاہے تووہ زندیق ہے ۔
لہٰذا یہ حضرات اپنے اس عقیدہ کوثابت و پابرجا کرنے کے لئے تین دلیلیں پیش کرتے ہیں:
۱. قرآن ۲. سُنّت ۳. عقل
۱.قرآن:
تمام فرق اسلامی اور مکاتب ِ فکر اپنے اپنے نظریات و آراء اور عقائد کو اصلی اور ذریعہ نجات ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ قرآن وہ عظیم آسمانی کتاب ہے جس میں کسی قسم کے شک و شُبہ کی گنجائش نہیں ہے اوراگرکوئی نظریہ یا عقیدہ قرآنی اصولوں کے مطابق ہو تو دیگر نظریات کا باطل ہونا ثابت ہوجاتاہے لہٰذا تمام فرقے یہ ہی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کے ذریعے اپنے نطریات کو لوگوں کی نگاہ میں ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں، اسی نقطۂ نظر کو بنیاد بناتے ہوئے ان حضرات نے جو تمام صحابہ کوعادل اورانکے قول کو ہر قیمت پر حجت مانتے ہیں، انہوں نے پہلے مرحلے میں قرآن کی آیات کے ذریعے اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے. مثلاً:
۱.آیت امت خیر:(
کُنتُم خیرَ امّةٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاس تَامُروُنَ بِالْمَعْروُف و تنْهونَ عن المنکر و تُومِنُونَ بِاللّٰه
ِ
)
تم بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کیلئے منظرِ عام پر لایا گیاہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.
اہلِ سُنّت حضرات، سُنّت اور قولِ صحابہ کی حُجیت کوثابت کرنے کے لئے اس آیۂ کریمہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیہ ٔ کریمہ کی روشنی میں یہی حضرات بہترین اُمت ہیں جو ان کی عدالت، سنّت اورقول کی حُجیت ثابت کرنے کے لئے روشن دلیل ہے.
جواب :
اولاً: اس آیۂ کریمہ میں تفضیل (فضیلت) نسبی ہے یعنی یہ اُمت مسلمہ، گذشتہ اُمتوں کی نسبت بہترین ہے لیکن ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس اُمت کے درمیان کوئی گناہگار و خطاکار موجود نہیں. جس طرح اگر کسی کلاس یا ٹیم کے بارے میں کہاجائے کہ یہ اس سے بہتر ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ اس کلاس یا ٹیم میں کوئی خطاکار نہیں ہے.
ثانیاً : اس آیۂ کریمہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کو “خیر” کی عِلّت قرار دیا گیاہے لہٰذا کیا ایسے افراد اس آیت کا مصداق بن سکتے ہیں جونہی ازمنکر نہیں کرتے بلکہ خودبھی منکرات کا ارتکاب کرتے ہیں جیسے شرب خمر اور جنگ سے فرار کے مرتکب ہوئے ہوں!؟
ثالثاً: جیساکہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ آیۂ کریمہ میں لفظ صحابہ استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ لفظ اُمّت استعمال ہواہے جو صحابہ اورقیامت تک آنے والے اُمّت کے تمام افرادکوشامل کرتاہے.
اگر آپ یہ دعویٰ کریں کہ آیت میں کیونکہ لفظ کُنتُم مخاطب کا صیغہ استعمال ہواہے لہٰذا اِس سے صرف صحابہ ہی مراد ہیں.
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر صیغہ خطاب، صحابہ سے مخصوص کیاجائے تو پھرتمام خطابات قرآنی کو صحابہ سے مخصوص کرنا چاہیئے اور دین اور اسکے احکامات کو صحابہ سے مخصوص سمجھنا چاہیئے جیسےاقِیموا الصّلوٰة ، اٰتو الزکاة ، اعلموا انّما غنتم من شئیٍ
، وغیرہ.
اوراگرآیت کو تخصیص کیاجائے اورصرف مُخاطبین مرادلی جائے تو نزولِ آیت کے وقت تمام صحابہ آنحضرتﷺ کے مخاطب نہ تھے. بنابرایں آیت اخص از مُدعا ہوجائیگی یعنی آیت صرف مخاطبین کے بارے میں ہے جبکہ آپ تمام صحابہ پر اطلاق کررہے ہیں.
نیزصرف آیات مدح میں ہی خطابات قرآنی کو صحابہ پر تطبیق کیوں کرتے ہیں جبکہ مذمت میں نازل ہونے والی آیات میں بھی تو خطاب موجود ہے؟!
علّامہ ذیشان حیدر جوادیاعلی اللہ مقامہ اس آیۂ کریمہ کے ذیل میں رقمطراز ہیں: پروردگارعالم نے اُمّتِ اسلامیہ کو بہترین اُمّت بناکرپیداکیاہے لیکن اسکی بہتری کی تین علامتیں قراردی ہیں لوگوں کے فائدے کے لئے کام کرے، نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے منع کرے اور ان سب کے پیچھے جذبۂ ایمان باللہ ہو.
اب اگر ایسا نہیں ہے تو اُمّت کہے جانے کے قابل نہیں ہے اورجو اس قانون پر شدت سے عمل پیرا رہے گا وہ اسی قدرخیراوربہتری کا حامل ہوگا اوراسی لئے بعض روایات میں ائمۂ معصومین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اِنکی تمام تر زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکر میں بسرہوئی ہے اورانہوں نے قاتلوں کو بھی نیکیوں کاحکم دیاہے اور قریب ترین دوستوں کو بھی بُرائیوں سے روکاہے.
۲. آیت امت وسط:(
وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّةً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُهَدَاءَ عَلیٰ النّاسِ وَ یَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُمْ شَهِیداً
)
.اور تحویل ِ قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمّت قراردیاہے کہ تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبرؐ تمہارے اعمال کے گواہ رہیں.
اہلِ سُنّت کا استدلال
خداوندِ عالم نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اُمّت وسط قراردیا ہے اور اُمّت وسط یعنی امن، عدل اور معتدل ہے. نیز فرمایا کہ ہم نے تمہیں دیگر لوگوں پر گواہ قرار دیا ہے لہٰذا انہیں عادل ہونا چاہیئے تب ہی تو یہ لوگوں پر گواہ قرارپائیں گے.
جواب استدلال
اوّلاً: آیت میں اُمّت کا تذکرہ کیاگیاہے جس میں صحابہ و غیرصحابہ سب شامل ہیں. لہٰذا پوری اُمّت اسلامی کو صرف اُمّت وسط ہونے کے ناطے عادل قرا ر نہیں دیا جاسکتا اوراگر یہاں موجود لفظ کُم یعنی کلمہ ٔ خطاب کی وجہ سے آیت کو صرف صحابہ سے مختص کردیا جائے تو پھر تمام خطابات قرآنی کو صحابہ سے مخصوص کرنا چاہیئے!
ثانیاً: نزول ِ آیت کے وقت تمام صحابہ موردِ خطاب پیغمبرؐ نہ تھے.
۳. آیت رضی اللہ:(
لَقَدَ رَضِیَ اللهُ عَن المُؤ مِنیِنَ اِذ یُبایعُونکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
)
یقیناً خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپکی بیعت کررہے تھے ۔
استدلال اہلِ سُنّت
اس آیت کریمہ میں خداوندِ عالم نے بیعتِ رضوان کے موقع پر صحابہ سے رضایت کا اعلان کیا ہے اور اللہ کی رضایت انکی عدالت کی دلیل ہے.
تبصرہ
اوّلاً: اگر اس آیت کریمہ کو آپ کے دعوے کے مطابق عدالت کی دلیل تسلیم کرلیا جائے تب بھی یہ صرف اصحاب بیعتِ رضوان کی عدالت کی دلیل قرارپائے گی اور بقول ِ بخاری یہ اصحاب فقط ۱۴۰۰ افراد تھے حالانکہ صرف حجةُ الوداع میں تقریباً ۱۰۰۰۰۰ /اصحاب پیغمبرؐ موجود تھے جب کہ خواتین اورصاحبان عذر کی ایک بہت بڑی تعداد مدینہ اور دیگر شہروں سے اس حج میں شرکت سے قاصر رہی تھی. لیکن اس کے باوجود اگر مسلمانوں کی مجموعی تعداد ۱ ۰۱ ۴۰۰ فرض کرلی جائے تب بھی آیت نے صرف ایک فیصد لوگوں کو شامل کیا ہے یعنی آپ اس آیت کو تمام صحابہ کی عدالت کی دلیل قراردے رہے ہیں جب کہ آپکی دلیل صرف ایک فیصد؛ بلکہ اس سے بھی کم مقدار کو بیان کررہی ہے!
ثانیاً: اس آیت کریمہ میں مومنین سے رضایت کا اعلان ہورہا ہے۔ لہٰذا اگر ان میں کوئی منافق موجود ہو تو یہ آیت اس کی عدالت کی دلیل نہیں بن سکتی. کیونکہ اس آیت میں تمام لوگوں کے ایمان کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:(
وَمِنَ النّاس مَن یَقُولُ اٰمَنَّا بِاللهِ وَبِالیَومِ الآخِرِ وَمَاهُم بِمُؤمِنِین
)
.اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں اور بیعتِ شجرہ میں عبدُ اللہ ابنِ عبید جیسے منافق بھی موجود تھے اور سنن ترمذی و مستدرک الصحیحین، باب مناقب علی اور باب معرفة ُ الصحابہ میں بالترتیب پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیاگیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:“ لَا یُحِبُّکَ اِلّا مُومِن وَلَا یُبغِضُکَ اِلَا مُنَافِق ”
لہٰذا اس کی روشنی میں حضرت علیؑ سے دُشمنی رکھنے والا منافق ہے.
ثالثاً: یہ آیت واضح طور پراعلان کررہی ہے کہ خداوندِ عالم اصحابِ بیعت سے اسی وقت تک راضی رہا جب تک کہ وہ فاسق نہ بنے اس لیے کہ اس نے دوسرے مقام پر واضح اعلان کردیا ہے کہ:(
فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقیِن
)
خدا فاسق قوم سے راضی ہونے والا نہیں ہے.
یہ آیتِ کریمہ اس بات کی علامت ہے کہ خداوندِ عالم جن لوگوں سے راضی نہیں ان سے تمہیں بھی راضی ہونے کا حق نہیں ہے.
رابعاً:(
فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِه وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عَاهَدَ عَلَیه اللّٰهَ فَسَیُؤ تِیهِ اَجْراً عَظِیماً
)
پس جو شخص اللہ کی بیعت کو توڑدیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اورجو عہدِ الٰہی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجرِعظیم عطا کریگا.
۴.آیت معصیت:(
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه ِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدّآءُ عَلیٰ الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَینَهُمْ
...)
. محمدﷺ اللہ کے رسولؐ ہیں اورجو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں وہ کُفّار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں.
استدلال اہلِ سُنّت
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اس طرح استدلال کیاجاتاہے کہ اس میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھیوں کی فراواں مدح و ستائش کی گئی ہے لہٰذا یہ انکی عدالت کی بہترین دلیل ہے، خصوصاً آیت کے آخر میں ان کی مغفرت اوراجرِعظیم کا وعدہ کیا گیا ہے اورفرمایا ہے:(
وَعَدَاللّٰهُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مَغفِرَةً وَاَجْراً عَظِیماً
)
جواب:
۱. یہ بات یاد رہے کہ “ مَعِیّت ” کے معنی دیدارنہیں ہیں کیونکہ آپ تو صحابی ہونے کے لیے دیدارِ نبیﷺ کو بھی کافی سمجھتے ہیں. حالانکہ لُغت کے اعتبارسے فقط صاحبِ دیدارکو صحابی نہیں کہا جاتا.
۲. اگر “ مَعِیّت ” یعنی ہمراہی سے مراد مَعیتِ جسمی لی جائے تب بھی اس سے متعارف معیت جسمی مراد لی جائے گی لیکن اگر کسی حساس و خطرناک موقع پر نبی کریمؐ کو تنہا چھوڑکر راہِ فرار اختیار کی جائے تو اسے معیت قرارنہیں دیاجاسکتا.
۳. معیت کا مفہوم صحبت اور صحابیت سے کہیں زیادہ دقیق وعمیق ہے اوریہی وجہ ہے کہ صحابیت خدا پرصادق نہیں آتی ہے لیکن معیت کے اعتبارسے وہ بھی صابرین اور مُتقین کے ساتھ ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:(
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِریِنْ
)
،(
اِنَّ اللهَ مَعَ الّذینَ اتَقُوا وَ الَّذِیِنَ هُم مُحسِنُون
)
یاد رہے کہ صحابیت ایک مادی رشتہ ہے اور معیت ایک معنوی تعلق ہے جوہرصحابی کو حاصل نہیں ہوسکتا.
۴. یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں تناقُص نہیں پایا جاتاہے لہٰذا اگرکسی آیتِ کریمہ کے اس طرح معنی کیے جائیں کہ یہ معنی دیگر آیات سے متناقض ہوجائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے آیت کے معنی سمجھنے میں غلطی کی ہے.
پس اگر آپکے عقیدے کے مطابق اس آیت کے معنی کیے جائیں اورکہا جائے کہ تمام وہ افراد اس آیت کے مصداق ہیں جو جسماً پیغمبر اسلامﷺ کے ہمراہ تھے اورآپس میں نہایت مہربان تھے تو یہ تفسیر اس آیت سے معارض و مخالف ہوجائے گی جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ(
وَاِن طَا ئِفَتَینِ مِنَ المُومِنِیْنَ اقْتَلُوا فَاَصْلِحُوابَینَهُمَا
)
؛ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑاکریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ. جب ہم اس آیت کریمہ کی شانِ نزول پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صحیح بُخاری کتاب الصلح باب اوّل میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں (صحابہ) کے دو گروہ آپس میں دست و گریبان ہوئے “وَ تَضَارَبُوا بالجریِدَة وَ الایدی والنعال
” یہاں تک کہ لاٹھی، ہاتھ اور نعلین تک نوبت آگئی. کیا اس روایت کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ نہایت مہربان تھے؟
۵. قرآن کریم کبھی بھی مسلّم واقعہ ہونے والے واقعات کے برخلاف کلام نہیں کرتا لہٰذا کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم پیغمبرؐ اسلام کیساتھ جسماً رہنے والے تمام افراد کے بارے میں اس طرح اظہارِ خیال کرے کہ یہ سب آپس میں مہربان تھے حالانکہ جنگِ صفین و جمل اورنہروان تاریخ کے مسلّم اور قطعی واقعات میں سے ہیں جن میں دونوں طرف متعدد صحابہ موجود تھے. اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے؟ کیا قرآن کریم ان تاریخی مسلّمات کا انکارکرنا چاہتاہے یا یہ کہنا چاہتاہے کہ انکی باہمی جنگ و جدال اِنکے باہمی رحم دل اورمہربان ہونے کے منافی نہیں ہے ؟!
۶. لُغت و عرف اورقرآن کریم میں “ معیت ” دومعنی میں استعمال ہوا ہے.
الف) معیّت ظاہری: یعنی کسی کا کسی کے پاس موجود ہونا، چاہے اس کے ہم فکر ہو یا نہ وہ جیسے “وَهُوَ مَعَکُمْ اَینَمَا کُنْتُمْ
...؛ اور تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے.
ب) معیّتِ معنوی : یعنی کسی کا ہم عقیدہ اور اسکا یاور و مددگار ہونا ہے. ارشاد ہوتا ہے(
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَقُوْ والَذِیْنَ هُمْ مُحسِنُون
)
بے شک اللہ ان لوگوں کیساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور جو نیک عمل انجام دینے والے ہیں.
پس آیت پر غورکرنے سے صرف انہی افراد کومعیّت نبویﷺ کا مصداق قراردیاجاسکتاہے جو نبی کریمؐ کے ہم فکر، انکے یاور و مددگار اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہوں.
خُلاصہ ونتیجۂ کلام
پیش کردہ آیات کے علاوہ بھی حضرات اہلِ سُنّت تمام صحابہ کی عدالت کومطلق طور پر ثابت کرنے کے لیے دیگرمتعددآیات سے بھی استفادہ کرتے ہیں لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ ان کے ان استدلالات میں کوئی قوت اور جان نہیں ہے بلکہ آیات سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہے جب کہ اس نظرئیے کی نفی میں اور بہت سی آیات پیش کی جاسکتی ہیں جنہیں ہم بطور اختصار اگلے صفحات پرپیش کریں گے.
۲. سُنّت:
قولِ صحابہ کی حُجیت کوثابت کرنے کیلئے مختلف احادیث کا سہارا لیاگیا ہے جیسے:
“لَا تَمُسُّ النارُ مُسلماً رآنی او رَأَی مَن رآنی ”
جس مسلمان نے مجھے دیکھا یا اسے دیکھا جس نے مجھے دیکھا، آتشِ جہنم اسے ہرگز مس نہ کرے گی.
اسکے علاوہ اوربہت سی روایات اس مُدعا کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی گئی ہیں ۔
تبصرہ:
کسی بھی حدیث پر عمل کرنے کے لیے اسے صحیح وسقم کے اعتبارسے جانچنا ضروری ہے لہٰذا دو اعتبار سے اسکی جانچ پڑتال کی جاتی ہے یعنی یہ حدیث، سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے علاوہ متن کے لحاظ سے بھی مشکلات سے دوچارہے
.
نقد سندی: اس حدیث کے سلسلے میں وارد ہوا ہے کہ یہ حدیث جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کی گئی ہے اور اس کے تین راوی یحیٰ بن حبیب عربی، موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر انصاری اورطلحہ بن خراش ہیں.
اہلِ سُنّت کے عظیم عالم توانا ابنِ حجر عسقلانی اپنی مشہور و معروف کتاب تہذیب التہذیب میں موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر انصاری کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: قَالَ ابنِ حبان: “ کَانَ یُخطیٔ ” یعنی ابنِ حبان کہتے ہیں کہ وہ خطاکار تھا.
اورطلحہ بن خراش کے بارے میں لکھتے ہیں: ابُو موسیٰ نے اسے معرفة الصحابة کے ذیل میں ذکر کرکے کہا ہے کہ اس کی حدیث مرسل ہے
.
جب کہ اس حدیث کے بارے میں خود یحیٰ کا کہنا ہے:
هٰذا حَدِیث حسن غَرِیب لَا نَعرِفُه اِلَّا مِن حَدِیث موسیٰ بن ابراهیم الانصاری
، یہ حدیث حسن، غریب ہے کہ جسے ہم نے موسیٰ بن ابراہیم کے علاوہ کسی اور سے نہیں پایا ہے.
دلالتِ متنی: اگر سند کے اعتبار سے اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے صحیح نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس روایت کو پڑھ کر یا سُن کر کون عاقل اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ایک امرِغیر اختیاری عذاب جہنم سے نجات کا ذریعہ قرار پائے کہ جس کی بناء پر پیغمبر اکرمؐ کو دیکھ کر چند ہزار افراد جنتی قرارپائیں یعنی صرف حضورﷺ کا دیدارمہم ترین معیارِ فضیلت و ذریعہ نجات بن جائے چاہے اس نے ان کی پیروی بھی نہ کی ہو! جب کہ آج کا مسلمان چاہے راہِ خدا میں جتنی زحمتیں برداشت کرے، عبادات میں مشغول رہے اس شخص کے برابر نہیں ہوسکتا جس نے حضورﷺ کا ہر چند ایک لحظہ دیدارکیا ہو! یہ بات کوئی عاقل قبول کر ہی نہیں سکتا.
اگراس روایت کو قبول کرلیا جائے تو پھر یزیدبھی بہشتی ہوجائے حالانکہ کونسا سنگین جُرم تھا جو یزید نے نہ کیا ہو! قتلِ نفس، شرب خمر، قُماربازی، زنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قاتلِ حُسین ہے. تمام شیعہ و سُنی علماء نے اسے موردِ نفرین و لعن قراردیا ہے اورجہنمی تسلیم کیا ہے اس حدیث کو قبول کرنے کی بناء پر یہ بھی بہشتی ہوجائے گا کیوں کہ اس نے اسے دیکھا ہے جس نے پیغمبرﷺ کو دیکھا ہے.
۳. عقل:
اہلِ سُنّت حضرات نے جہاں قولِ صحابہ کی حُجیت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات اورپیغمبر اکرمﷺ کی احادیث کا سہارا لیا ہے وہیں اپنے مُدعا کو ثابت کرنے کے لئے عقلی دلیل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے. اور اس سلسلہ میں انکا خیال یہ ہے کہ کیوں کہ اصحاب، آیات کریمہ کے اسباب نزول سے واقفیت رکھتے تھے، احکام پیغمبرؐ ِ اسلام کے شاہد تھے، اصول ِ احکام سے مطلع تھے اور عربی زبان پر مکمل تسلُّط رکھتے تھے اس بناء پر ان کا قول، حق وصواب سے نزدیک ہے ۔
تبصرہ:
عقل ہی یہ بات بتاتی ہے کہ تمام اصحاب کے لئے یہ کہنا غلط ہے کہ وہ سب کے سب اسبابِ نزول سے واقف تھے اور احکام ِ اسلامی سے آشنا تھے جبکہ بہت سے مواقع پر حقیقت اسکے برخلاف تھی جس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا.
دلائل ِ مخالفین
شیعہ اوربعض اہلِ سُنّت حضرات اس نظریے (تمام صحابہ عادل ہیں اور انکا ہر قول حُجت ہے) کو مختلف دلائل کے ذریعے رد کرتے ہیں مثلاً:
۱. عقل:
عقل کسی غیر اختیاری امر(جیسے پیغمبر اسلامؐ ) کے دیدار کو معیارِ فضیلت قرارنہیں دے سکتی کیوں کہ قرآن کا فرمان ہے:
(
اِنَّ اکرمَکم عنداللّٰهِ اتقٰکُم
)
اور دوسری جگہ ارشادہوتاہے:
(
فَمَن یَعمَل مِثْقَالَ ذرّةٍ خیراً یَّره
)
اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات میں ایمان و عمل صالح کو معیار فضیلت قرار دیاہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ صرف آنحضرتﷺ کے دیدارکے ذریعے کسی شخص کو اتنی فضیلت حاصل ہوجائے کہ پھر چاہے وہ عملِ صالح انجام دے یا نہ دے وہ عادل ہوجائے اور اسکا قول حُجت بن جائے؟!
۲. قرآن:
یہ نظریہ قرآن کریم کی ان بہت سی آیات کے برخلاف ہے جن میں بعض صحابہ کی مذمت کی گئی ہے اور انہیں اہلِ نفاق قراردیا ہے جیسے:
۱. سورۂ بقرہ آیات ۸ تا ۲۰
۲. سورۂ توبہ(۹) آیت۲۵
(
لَقَدْ نَصَرَ کُم اللهُ فیِ مَواطِنَ کَثیِرَةٍ وَ یَومَ حُنینٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ فَلَنْ تُغْنِ عَنْکُم شیئاً وَضَاقَتْ عَلیکُمْ الاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدبِریْنَ
)
“بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اورحُنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اورتمہارے لئے زمین اپنی وُسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اس کے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے”.
فتح مکہ کے بعدبنی ہوازن وثقیف نے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے ایک عظیم لشکر تیار کیا. رسول اکرمﷺ کو اطلاع دی گئی تو آپ بھی دس ہزار انصار و مہاجرین اور دو ہزار نومسلم (ابوسفیان اور معاویہ) جیسے افراد کولے کر روانہ ہوگئے. کفار نے درّہ پر قبضہ کرلیا اورمسلمانوں کے پہنچتے ہی تیر بارانی شروع کردی. مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے، صرف دس افراد باقی رہ گئے: علیؑ، عباس، فضل بن عباس، مُغیرہ بن الحارث، زید بن اُسامہ، ایمن بن ام ایمن وغیرہ، عباس نے مسلمانوں کو آواز دی، اے بیعتِ شجرہ والو!
اے سورۂ بقرہ والو! واپس آجاؤ.
علامہ شرقاوی نے کتاب محمد رسول الحریّة میں لکھاہے کہ ابوسفیان وغیرہ جنگ کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو فرار پر آمادہ کرنے کے لئے ساتھ لگ گئے تھے.
آیت نے مجموعی طور پر کسی بھی شخص کا نام لئے بغیر فرار کا تذکرہ کیا ہے اورظاہر سی بات ہے فرارکرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ وہ افراد تھے جو رسول ِ اسلامﷺکے لشکر میں شامل تھے، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے رسول اللہﷺ کو دیکھا اور ان کی صحبت وہمنشینی اختیارکی تھی.
آیت ِ کریمہ کی روشنی میں واضح طور پر کہاجاسکتا ہے کہ جنگ سے فرار گناہانِ کبیرہ میں سے ہے نیز فرمانِ رسالتؐ سے سرپیچی ہے اورپیغمبر اکرمؐ کو ایسے حساس اورخطرناک موقع پر جانی دُشمنوں کے نرغے میں تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے. اب اگر خداوندِعالم بفرض ان کے اس رویّے سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کے گناہ کو معاف کردے تو بھی یہ معافی انکی عدالت اورانکے عدمِ ارتکاب ِ فسق کی دلیل قرار نہیں دی جاسکتی.
پس اِن مذکورہ آیات کی روشنی میں کہ جن میں سے بعض آیات میں عذاب کی وعید بھی دی گئی ہے، کیا صرف پیغمبرؐ کا دیدار صحابہ کو مطلق طور پر عادل اوراہلِ بہشت میں سے قراردے سکتاہے؟ اورکیاصرف دیدارِ پیغمبرؐ کسی بھی شخص کے قول و فعل کو مطلق طور پر حُجت قراردے سکتاہے؟!
۳. سورۂ توبہ(۹) آیات۳۹۔۳۸
(
یَا ایُهَا الذینَ اٰمنُوٰ مَا لَکُم اِذَا قِیلَ لَکُم انْفِرُو فِی سَبِیل اللّٰه اثَّا قَلتُم اِلیٰ الأرضط اَرَضِیتُم بِالحَیَاةِ الدُنِیا مِن الآخِرَةج فَمَتَاعُ الحیٰوةِ الدُنِیَا فِی الآخِرة اِلَّا قَلِیل. اِلَّا تَنفِروُ یُعَذِّبْکُم عذَاباً اَلِیماً. ویَستَبدِل قوماً غَیرَکُم وَلَا تضرّوه شیٔاًط واللّٰه علی کُلِ شیٍٔ قدیر
)
“ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہاگیا کہ راہِ خدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو؛ تو یادرکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے اگرتم راہِ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمہیں دردناک عذاب میں مُبتلا کریگا اورتمہارے بدلے دوسری قوم کولے آئیگا اورتم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہو کہ وہ ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے”.
شانِ نزول:
ابنِ عباس وغیرہ سے نقل کیاگیا ہے کہ یہ آیات جنگِ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہیں.
جب اسلام کی شوکت کو دیکھ کر روم کے بادشاہ ہرقل نے اسلام پر حملہ کا ارادہ کیا تو پیغمبر اکرمؐ نے لشکر سازی کا حکم عام دیدیا اور ۳۰ ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوگئے. روایات اسلامی میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ معمولاً جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنے تمام جنگی اہداف و مقاصد اورراز و رموزمسلمانوں پر آشکار نہیں فرماتے تھے تاکہ فوجِ اسلام کے اسرار دُشمن تک نہ پہنچنے پائیں. لیکن آنحضرتﷺ نے جنگِ تبوک کے موقع پر صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ اس وقت ہمارا مقابلہ کسی عام گروہ یا قبیلہ سے نہیں ہے بلکہ دُنیاکی بڑی طاقت روم سے ہے کیوں کہ رومیوں سے جنگ کرنا، مکے کے مشرکوں یا خیبر کے یہودیوں سے جنگ کرنے کی طرح آسان کام نہیں تھا اسکے علاوہ مدینہ اور روم کی سرزمین کے درمیان فاصلہ بھی بہت زیادہ تھا
اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ گرمی کا موسم تھا جو غلّات و پھلوں کے اُتارنے کا موسم تھا یہ تمام امور مسلمانوں کو جنگ میں شریک ہونے اورپیغمبرؐ کی اطاعت سے روک رہے تھے.
یہ شان نزول بطور اجمال مختلف مفسرین مثلاً طبری،فخررازی اور آلوسی نے روح المعانی میں نقل کی ہے.
پس بنابر ایں پیغمبراکرمﷺ کی اطاعت سے روگردانی کرنے والے کس طرح واجب الاطاعت ہوسکتے ہیں؟!
۴. سورۂ توبہ(۹)۴۶،۴۷.
(
وَلَو اَرادُوا الخروُجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَکِنْ کَرِهَ اللّٰهُ اِنَبِعَاثهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیْلَ اقْعُدوُا مع القَاعِدِیْنَ. ۴ لَوخَرَجُوا فِیْکُمْ مَازَادُوکُم اِلّا خَبَالاً وَلَا اَوضَعُواخِلٰلَکُمْ یَبْغُونَکُمْ الْفِتنَةَج وَفِیْکُم سَمّٰعُونَ لَهُمْط وَاللّٰهُ عَلِیم بِالظَّالِمِینَ
)
“یہ اگر نکلنا چاہتے تو اس کے لئے سامان تیارکرتے لیکن خدا ہی کو ان کا نکلنا پسندنہیں ہے اس لئے کہ اس نے انکے ارادوں کوکمزوررہنے دیا اوران سے کہاگیا کہ اب تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو”.
اگریہ تمہارے درمیان نکل بھی پڑتے تو تمہاری وحشت میں اضافہ ہی کردیتے اورتمہارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو انکی سننے والے بھی تھے اوراللہ تو ظالمین کو خوب جاننے والا ہے.
چندکلمات کے معانی:
عدّہ : سامان جہادہے.
انبعاث: جہاد کے لئے نکلنا ہے.
خبال: رائے میں اِضطراب کا نام ہے.
فتنہ: یہاں فتنہ سے مراد دین میں شُبہات پیداکرناہے، جو منافقین کا قدیمی شعاررہاہے.
یہ آیات پیغمبر اکرمﷺ کے ساتھ موجودلوگوں کے باے میں واضح طور پر بیان کررہی ہیں کہ یہ لوگ صرف باتیں ہی بناتے ہیں اگریہ اپنے قول میں سچے ہوتے اور پیغمبر اکرمﷺ کے سچے پیروکار اور چاہنے والے ہوتے اور جہاد میں شرکت کے لئے تیار ہوتے تو جہاد میں شرکت کے لئے آمادگی کرتے، اسلحہ، تیروتبر، گھوڑے وغیرہ فراہم کرتے لیکن ان میں کسی قسم کی آمادگی اور تیاری کے آثار موجود نہ تھے اسی لئے خداوندِ عالم کو کہنا پڑا کہ اگر یہ لوگ نکلنا چاہتے تو اس کے لئے سامان تیارکرتے. اب جبکہ ان میں جہاد کے کوئی آثارموجود نہ تھے اور وہ ذہنی طور پر جہاد میں شرکت کے لئے تیار نہ تھے تو بعد والی آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کردیا ہے جہاد میں اس قسم کے افرادکی عدم شرکت پر کوئی غم نہیں بلکہ خوشی و اطمینان کا سبب ہے کیوں کہ یہ لوگ جنگ نہ کرتے بلکہ لوگوں کو مُنحرِف کرنے میں سرگرمِ عمل رہتے.
اور پھر آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے کہ ان لوگوں کا کام تو یہ ہی ہوتا لیکن خود پیغمبرﷺ کے ہمراہ اصحاب میں کچھ ایسے بھی موجود تھے جو ان کی باتوں پر فوراً یقین کرلیتے اور حق سے منحرف ہوجاتے. آیت نے سمّٰعُون کہہ کر ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے سماع اس شخص کو کہتے ہیں جو بغیر غور و فکر کے کسی کی بات سن کر فوراً قبول کرلیتا ہے.
حیرت کی بات ہے کہ ایسے افرادکے ہوتے ہوئے سارے اصحاب پر کس طرح اعتبارکرلیا جاتا ہے.
۵. سورۂ توبہ (۹)۴۹.
(
وَمِنْهُم مَنْ یقولُ اِئذِنْ لِی وَلَا تَفتِنِّیط اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُواط وَاِنَّ جَهنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بَالکَافِرِینَ
)
“ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے تو آگاہ ہوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ میں گرچکے ہیں اور جہنم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے”.
مفسرین کا اتفاق ہے کہ جنگِ تبوک کے موقع پر جَدبن قیس(رأس المنافقین)نے رسول اکرمؐ سے اجازت چاہی کہ مجھے معاف کردیں میں ایک جنس زدہ آدمی ہوں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مبتلائے گناہ ہوجاؤں گا. قدرت نے اس موقع پر آیت نازل کرکے واضح کردیا کہ یہ فقط بہانہ بازی ہے یہ جہاد سے فرارکرنا چاہتے ہیں اوریہ خود انکے فتنے میں پڑنے کی دلیل ہے.
منافقین کا طرزِ عمل یہ رہتا ہے کہ اولاً (جہاد) راہِ خدا سے فرارکرتے ہیں اور پھر جب میدانِ جہاد تک آجاتے ہیں تو اسی انتظارمیں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا نقصان ہوجائے اورکفر کو فتح و کامرانی حاصل ہوجائے اور سادہ لوح عوام کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ اس جہاد میں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ اگرمسلمانوں کو نقصان پہنچ جاتاہے تو اپنے ساتھیوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم نے انہیں حالات کے پیشِ نظر میدان کا رُخ نہیں کیاتھا.
آیت ِ کریمہ نے اس مہمل بات کا یہ جواب دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہرحال میں فائدہ ہی فائدہ ہے وہ زندہ رہتے ہیں تو فاتح ہوجاتے ہیں اورمرجاتے ہیں تو شہیدکہے جاتے ہیں. نقصان صرف کُفار کے لئے ہے جنہیں دُنیا میں بھی رُسوائی اور آخرت میں بھی عذابِ الیم کے علاوہ کچھ نہیں ملتا ہے.
کیا ایسے منافق بہانہ تراش اور حکمِ خدا و رسولﷺ سے واضح طور پر روگردانی کرنے والوں پر بھی عدالت کا اطلاق کیا جاسکتا ہے؟
۶. سورۂ توبہ(۹)۵۴.
(
وَلَا یَاتُون الصّلوٰة اِلّا وَ هُم ْ کسالیٰ وَلَا یُنفِقُوْن اِلّا وَ هُمْ کٰرِهُون
)
“اور یہ نماز بھی سُستی و کسلمندی کے ساتھ پڑھتے ہیں. اور راہِ خدا میں کراہت و ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں”.
۷. سورۂ توبہ ۵۶.
(
وَیَحْلِفُونَ بِاللهِ اِنَّهُمْ لَمِنْکُمط وَمَا هُمْ مِنْکُمْ وَلٰکِنَّهُمْ قوم یَفْرَقُونَ
)
“اور یہ لوگ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ تمہیں میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ لوگ بُزدل ہیں”.
۸. سورۂ توبہ (۹)۷۶.
(
فَلَمَّا اٰتٰهُمْ مِنْ فَضْله بَخِلُوا بِه وَتَولَّوا و هُم مُعْرِضُوْن
)
“ اس کے بعد خدا نے جب اپنے فضل سے عطا کر دیا تو بُخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہوکر پلٹ گئے”.
۹. سورۂ توبہ (۹)آیت ۱۰۱.
(
وَمِمَّنْ حَولَکُمْ مِنَ الاَعْرَابِ مُنَافِقُونَط وَمِنْ اَهْلِ المَدِیْنَةِ مَرَدُوا عَلیٰ النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْط نَحْنُ نَعْلَهُمْط سَنُعَذِّبُهمْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ اِلیٰ عَذَابٍ عَظِیْمٍ
)
“اورتمہارے گرد دیہاتوں میں بھی منافقین ہیں اور اہلِ مدینہ میں تو وہ بھی جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم انکو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں عنقریب ہم ان پر دُہرا عذاب کریں گے اسکے بعد یہ عذابِ عظیم کی طرف پلٹادئیے جائیں گے”.
توضیح:
آیت واضح طورپر بیان کررہی ہے کہ نبی کریمﷺ کے اِرد گِرد اور مدینہ میں منافقین موجود تھے لہٰذا مطلق طور پر نبی کریمﷺ کے پاس اُٹھنے بیٹھنے حتیٰ صرف آپ کو دیکھنے والے افراد پر صحابیت کا اطلاق کس طرح مناسب ہوسکتاہے؟ اور کس طرح ان تمام افراد کو عادل مانتے ہوئے ان کے ہر قول و فعل کو تفسیر ِ قرآن کے لیے حُجت قرار دیاجاسکتا ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ُمنافقین کو کس طرح پہچانا جائے؟ تو اسکے لیے خود رسول اکرمﷺ نے ایک بہترین معیار و میزان مُعین فرمایا ہے جسے مختلف کُتب احادیث و روایات نے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا :“لَا یُحِبُّکَ اِلَا مُومِن وَلَا یُبغِضُکَ اِلَّا مُنَافِق
.اے علیؑ صرف مومن ہی تم سے محبت کرے گا اورمنافق تم سے بُغض رکھے گا. اس موقع پر سعید بن خدری سے روایت کی گئی ہے:“ مَاکُنَّا نَعرِف المُنَافِقین عَلیٰ عهدِ رَسوُ الله اِلَّا بِبُغْضِهِم عَلِیاً
.ہم عہدِ نبیﷺ میں منافق کو بغضِ علیؑ کے ذریعے پہچان لیتے تھے.
نیز قرآن کریم نے منافق کی ایک اور بھی پہچان بیان کی ہے ارشاد ہوتا ہے:(
وَالله یَشْهَدُ اِنَّ المُنَافِقیِنَ لَکٰذِبُونَ
)
.اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، اورپیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: “آیة المنافق ثلاثة: اِذاَ حَدَّثَ کَذِبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا ئتَمَنَ خَانَ؛
منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کریگا تو جھوٹ بولے گا، جب وعدہ کریگا تو پورا نہ کریگا اور امانت میں خیانت کریگا ۔
اس مقام پر ایک لمحہ ٔ فکریہ، یہ بھی ہے کہ جنگِ تبوک (۹ہجری) تک مدینہ اور اسکے اطراف میں منافقین بھرے ہوئے تھے تو ۱۱ ہجری میں یہ سب کہاں چلے گئے اور وفاتِ رسولﷺ کے بعد سارا مدینہ اہل ِ حل و عقد کا شہرکس طرح بن گیا اور سارے بزم نشین عادل کس طرح قرار پاگئے؟
نیز آیت میں دُہرے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے. عذابِ آخرت سے پہلے دو عذاب سے مُراد دنیا کی رُسوائی اورقبر کا عذاب ہے یا عالمِ احتضار اور قبر کا عذاب ہے ۔
۱۰. سورۂ جمعہ (۶۲) آیت ۱۱
(
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَ نِ انفَضُّوا اِلَیْهَا وَ تَرَکُوْکََ قَائماً ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰهِ خیْر مِنْ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ط وَاللّٰهُ خیْرُالرَّارِقِیْن
)
“ اور اے پیغمبرﷺ! یہ لوگ جب تجارت یا لہو و لعب کو دیکھتے ہیں تو اسکی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو تنہاکھڑا چھوڑ دیتے ہیں آ پؐ ان سے کہہ دیجئے کہ خدا کے پاس جوکچھ بھی ہے وہ اس کھیل اورتجارت سے بحرحال بہترہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے”.
بُخاری نے جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیاہے:“ قَا لَ اقبلَ عیرَه وَ نحنُ معاً النّبِی فثار النّاس الّا اثنا عشر رَجُلاً فَا نزل الله: اذا رَاَ ؤا تجارَةً اَو لهواً انفضّوا الیها وتَرکوکَ قَائماً”
.
حضور اکرمؐ خطبہ پڑھ رہے تھے اورمال ِ تجارت کا قافلہ آگیا تو بارہ افراد کے علاوہ سب بھاگ کھڑے ہوئے تو اللہ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی ۔
اب غورکیجئے کہ پیغمبر اکرمؐ کوچھوڑکر لہو و لعب (حرام) کی طرف دوڑکرجانے والے ایسے صحابہ کوکیوں کر بطورمطلق عادل کہا جاسکتا ہے. اس موقع پر آنحضرتﷺ نے فرمایا: اگریہ مختصرلوگ بھی چلے جاتے تو آسمان ان لوگوں پر سنگ بارانی کرتا ۔
۱۱. سورۂ آلِ عمران(۳)۱۵۳.
(
اِذ تُصِدوُنَ وَ لَا تَلْونَ عَلیٰ اَحَدٍِِ وَ الرَّسُولُ یَدعُوکُمْ فِیْ اُخرٰلَکُمْ فَاثَابَکُمْ غَمّاً بِغَمٍّ
)
“اس وقت کو یاد کرو جب تم بلندی پر جا رہے تھے اور مُڑ کرکسی کو دیکھتے بھی نہ تھے جب کہ رسولﷺ تمہیں پیچھے کھڑے آواز دے رہے تھے جس کے بدلے میں خدا نے تمہیں غم کے بدلے میں غم دیا”.
بخاری لکھتے ہیں: “براء بن عازب نے بیان کیا:جَعَلَ النَّبِیُّ صلی اللهُ علیه وَسَلّم عَلیَ الرِّجَالة یَومَ اُحدٍ عبدَالله بنِ جُبیِر، وَاقْبَلُوامنهزمِینَ، فَذاک، اِذیَدْعُوهُمْ الرَّسُولُ فِیْ اُخراهُم ، وَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَبِی صلَّی الله علیه وسَلّم غَیرُ اِثنَی عَشَررَجُلاً”
۔
یہ اصحاب ہی کا لشکر تھا جسے پیغمبر اکرمؐ کھڑے آواز دے رہے تھے اوروہ حضورﷺ کی طرف مڑکربھی نہ دیکھتے تھے اور انہیں مشرکین کے نرغے میں، برستے تیروں اورچلتی تلواروں کے درمیان تنہا چھوڑ کر اپنی جان بچاکر بھاگے چلے جارہے تھے.اورصرف بارہ ۱۲ افراد نبی کریمﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے.
ایسے اصحاب کی عدالت و وثاقت کے بارے میں آپ خود ہی فیصلہ کرلیجئے!
توجہ: علامہ ذیشان حیدرجوادی اس آیۂ کریمہ کے ذیل میں بیان فرماتے ہیں، میدانِ اُحد کی داستان بھی بڑی عجیب وغریب ہے ابھی صرف چند دن گذرے ہیں کہ مسلمانوں نے پروردگار کی طرف سے غیبی تائید کا مشاہدہ کیا ہے.ایمان و اِخلاص کے اثرات دیکھے ہیں. ملائکہ کی فوج آسمانی نصرت کے نتائج کا احساس کیاہے اور یکبارگی اتنا بڑا انقلاب آگیا کہ ذراسا مالِ غنیمت دیکھ کر رسول اکرمﷺ کاحکم بھول گئے. سردارِ لشکر کونظراندازکردیا. شیطان کی آوازپر لبیک کہہ بیٹھے. ظاہر ہے کہ ایسی قوم کا انجام ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اسے وقتی ذلت بھی نصیب ہو اور اسکی بدعملی کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں محفوظ بھی کرلیاجائے.
یہ بات بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ جنگِ اُحد میں لشکرِ کُفّار کی قیادت ابُوسفیان کے ہاتھ میں تھی، عملبردار لشکر طلحہ بن عُثمان تھا جس نے آواز دی کہ سچے مسلمان ہو تو مجھے جہنم میں بھیجو یا میری تلوار سے جنت میں جاؤ. جس پر حضرت علیؑ نے ایک ہی وار میں اسکے پاؤں کاٹ دیئے اور وہ گھوڑے سے گرپڑا پھر اس کی فریاد پر چھوڑبھی دیا کہ یہ علیؑ کے مخصوص رحم وکرم کا تقاضا تھا پھر جنابِ حمزہ نے ایسا جہادکیا کہ بالآخرشہیدہوگئے. مسلمان مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑے تو کُفار کے کمانڈر خالدبن ولید نے دوبارہ حملہ کردیا اور جنگ کا نقشہ بدل گیا، رسول اکرمﷺ زخمی ہوگئے ہندہ نے جنابِ حمزہ کا کلیجہ چبایا اورآج عالمِ اسلام میں ابوسفیان، خالدبن ولید اور ہندہ عظیم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں اور حضرت علیؑ اور حضرت حمزہ گویا ناقابلِ ذکر شخصیتیں ہیں بلکہ اتباع معاویہ کی نظر میں تو قابلِ سب و شتم ہیں.
فعلی الاسلام بعده السلام.
۳. رِوایات
شیعہ کُتب میں مرقوم روایات سے قطع نظر خود اہلِ سُنّت کی معتبر کتابوں میں کثیر التعداد روایات اس بے بنیاد نظریہ (کہ تمام صحابہ مطلق العنان عادل ہیں اور ان کا ہر قول و فعل حُجت ہے) کی مخالف و معارض نظر آتی ہیں بلکہ ان میں واضح طور پر بعض اصحاب کی مذمت کی گئی ہے، مثلاً :
۱.“اِنَّ فِی اصحَابِی اِثنَا عشر مُنَافِقاً
میرے اصحاب میں بارہ افراد منافق ہیں.
یہ حدیث واضح طور پر بیان کررہی ہے کہ میرے تمام اصحاب خالص مومن نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ منافق لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بظاہر میرے اصحاب ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے.
پس حضور نے بعض افراد کے نفاق کی طرف اشارہ کردیا ہے اور قرآن نے منافقین کے لئے عذاب الیم کا وعدہ کیا ہے لہٰذا اس اصول کی روشنی میں تمام اصحاب کو عادل قرارنہیں دیاجاسکتاہے.
۲.“ اَلشِرکُ اَخْفیٰ فِیکُم مِنْ دَبِیبِ النَّمْلِ”
۔
شرک انکے اندر چیونٹی کی چال چل رہا ہے.
اس حدیث سے واضح ہوجاتاہے کہ شرک انکے دلوں میں پوشیدہ تھا اور قرآن کریم نے مشرکین کے لئے جہنم کے عذاب کا وعدہ کیا ہے لہٰذا یہ حدیث بھی انکے نظریہ کو باطل قرار دے رہی ہے.
۳.“اِنَّ مِن اَصحَابِی مَنْ لَا یَرانِی بَعدِی وَلَا اَراده”
میرے کچھ اصحاب ایسے بھی ہیں جنہیں میں اپنے دُنیا سے چلے جانے کے بعد ہرگز نہ دیکھوں گا اور نہ ہی وہ مجھے دیکھیں گے.
اس حدیث سے واضح ہوجاتاہے کہ اصحاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر صحابی ہونے کا دعویٰ کررہے ہونگے لیکن دنیا میں انکا ساتھ چھوٹ جائے گا اور وہ ہرگز بہشت میں داخل نہ ہوسکیں گے.
۴.“ لَا تَرجَعُوا بَعدِی کُفّاراً ”
دیکھو! میرے بعد کافر مت ہوجانا.
۵.“جَعَلَ النَّبِیُّ صلی اللهُ علیه وَسَلّم عَلیَ الرِّجَالة یَومَ اُحدٍ عبدَالله بنِ جُبیِر، وَاقْبَلُوامنهزمِینَ، فَذاک، اِذیَدْعُوهُمْ الرَّسُولُ فِیْ اُخراهُم ، وَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَبِی صلَّی الله علیه وسَلّم غَیرُ اِثنَی عَشَررَجُلاً”
۶. بخاری نے جابر بن عبدُ اللہ انصاری سے نقل کیا ہے :اَقْبَلَت عِیرٌ یَومَ الْجُمعَةِ وَ نَحْنُ مَعَ النَّبِی فَثَار النَّاس اِلّا اثْنیٰ عَشَرَ رَجُلاً فَاَ نزَلَ اللهُ و اذَا رَأَو تِجَارَةً اَو لَهْوًا نْفَضُّو اِلَیْهَا”
...
ان دونوں روایات کے سلسلے میں گذشتہ صفحات پر آیات کے ذیل میں توضیحات پیش کی جاچکی ہیں لہٰذا یہاں تکرار کی وجہ سے گُریز کررہے ہیں.
۷. دیگرمتعدد روایات:
دیگرمتعدد رویات میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن بعض اصحاب کو حوضِ کوثر کے پاس سے پیغمبر اکرمؐ سے جدا کردیا جائیگا اور جب پیغمبرؐ اسکی علّت پوچھیں گے تو جواب آئے گا “لَا تَدْرِی مَا احْدَثُوا بَعْدَکَ
” کہ آپؐ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپؐ کے بعد کیا کیا اعمال انجام دیئے ہیں ۔
اور ایسی ہی بہت سی روایات اس نظرئیے کی نفی کررہی ہیں خصوصاً گذشتہ حدیث رؤیت سے مکمل معارض ہیں کہ صرف دیدار پیغمبرؐ کی وجہ سے کوئی بھی شخص ہر لحاظ سے قابلِ اتباع و اطاعت ہوجائے.
اَفَنَجعَلُ المُسلمین کالمُجرمین کیفَ تحکمُون
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرمین جیسا بنادیں گے؛ یہ تم کیسا حکم لگاتے ہو!
۴. تاریخ و واقعیت خارجی
نیز ان روایات کے علاوہ اہلِ سُنّت کی متعدد معتبر کُتب میں بہت سے ایسے واقعات مرقوم ہیں جو صحابہ کے مطلق عادل ہونے کے نظریہ کی تردیدکررہے ہیں مثلاً:
٭ بعض صحابیت کا دعویٰ کرنے والے افراد کتاب خدا و سُنّتِ نوری کے پابند نہ تھے اور دین میں بدعتیں قائم کررہے تھے لہٰذا کیا دین و شریعت میں بدعت گذاری کرنے والوں کا قول و فعل حجت ہوسکتا ہے؟ نمونہ کے لئے کتاب صحیح بخاری کے باب رضاعة الکبیر کا مطالعہ کیاجاسکتاہے.
٭ نیز شراب نوشی کرنے والے بعض اصحاب کا حال کتاب “ المبسوط
” میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے.
قرآن کریم نے شارب الخمر کی شدت سے مذمت کی ہے کیا ایسی صورت میں ایسے افراد کا قول حُجت قراردیاجاسکتاہے؟
٭ جنگِ جمل کے موقع پر بعض صحابہ نے پچاس افراد کو اس بات کی جھوٹی گواہی دینے کے لئے تیارکیا تھا کہ یہ مقام “ماء حوأب ” نہیں ہے، اور اسلام میں جھوٹی گواہی دلوانے کا سلسلہ ان اصحاب کے ذریعے شروع ہوا، اوریہ باب تاریخ میں مشہورو معروف ہے ۔
٭ زنا و قتل نفس کرنے والے صحابی پر حد جاری کرنے سے گریز کیا گیا ۔
٭ بعض صحابہ کبار نے حضورؐ سرورکائنات کے اس فرمان سے سرپیچی کی جس میں آپ نے انہیں لشکرِ اُسامہ میں شامل ہونے کا حکم صادر فرمایا تھا اور یہ اعتراض کرنے لگے تھے کہ حضورؐ نے ایک جوان کو ہمارے اوپرکیوں مُسلّط کیا ہے ۔
٭ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا تھا: جس نے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اورجس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی ۔
حضورﷺ کے اس واضح و روشن فرمان کے باوجود حضرت زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا کو مسلسل ایذائیں دی گئیں یہاں تک کہ انکے دَرِخانہ کو آگ لگادی گئی ۔
نیز کُتب تاریخ وغیرہ میں مرقوم ہے کہ بعض صحابہ، دُشمنِ علیؑ تھے اور انہوں نے حضرت علیؑ اور حضرت امام حسنؑ و حسینؑ سے جنگ کی ہے اور جو شخص اہلِ بیتؑ کا دُشمن ہے وہ خدا و رسولؐ اللہ کا دُشمن ہے، لہٰذا کیا ان تمام آیات و روایات اور کتبِ تاریخ میں نقل ہونے والے واقعات کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ خداوندعالم اپنے اور حضورؐ سرورِ کائنات کے دُشمنوں کے قول وفعل کو حجت قرار دیدے اور انہیں عادل و اہلِ بہشت قراردیدے؟!
۵. رُوحِ اسلام
اہلِ سُنّت کا یہ نظریہ کہ تمام صحابہ مطلق العنان عادل ہیں اوران کا ہرقول و فعل حجت ہے، روحِ اسلام کے بالکل مخالف ہے کیوں کہ اسلام رستگاری و قرب خداوندی کا معیار و میزان، ایمان و عمل صالح اورتقویٰ و پرہیزگاری کو قرار دیتاہے۔مثلاً:
٭(
اِنَّا جَعَلْنَا هَا مَا عَلیٰ الاَرضِ زِینَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً
)
بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قراردیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے.
٭(
الّذِی خَلَقَ المَوتَ وَالحَیَاة لِیَبْلُوَ کُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً
)
اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حُسنِ عمل کے اعتبار سے سب سے بہترکون ہے.
آیتِ کریمہ صاف صاف اعلان کررہی ہے کہ نگاہ پروردگار میں کثرت عمل کوئی معیارنہیں ہے بلکہ حُسنِ عمل معیارہے. انسان کثرتِ عمل بہت آسانی سے پیداکرسکتاہے لیکن حسنِ عمل بہت مشکل کام ہے، اس لئے کہ کثرتِ عمل کا تعلق تکرارِ عمل سے ہے اور حُسنِ عمل کا تعلق اخلاص ِ عمل سے ہے اور اخلاصِ عمل پیدا کرلینا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے وہ پیدا ہوجائے تو ایک ضربت بھی ثقلین کی عبادت سے بھاری ہوسکتی ہے مگر یہ شرف ہر ایک کو نصیب کہاں.
ایں سعادت بزوربازونیست
٭(
وَ العَصْرِ اِنَّ الاِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ اِلَّا الَّذِینَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
)
قسم ہے عصرکی؛ بیشک انسان خسارے میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے.
٭(
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِندَ الله ِ اَتْقٰکُمْ
)
بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو ذیادہ پرہیزگار ہے. اسلام میں فضیلت و شرافت کا معیار قوم و قبیلہ نہیں ہے بلکہ تقویٰ و کردارہے. جہاں پسرنوُح غرق کردیاجاتاہے اورسلمان کو اہلِ بیت میں شامل کرلیا جاتا ہے، نسبی شرافت پر اکڑنے والے بدکردار افراد آیتِ کریمہ کی تعلیم سے سبق لیں اور اِسلام کے مزاج ِ فضیلت کوپہچانیں.
بہرکیف، اِس نظریے کی رَد میں مزید بیشمار آیات، روایات اورتاریخی واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں مگر اختصار کے پیشِ نظر اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ
____________________