دوسری نشست
پہلا باب: بیان احکام کی تیاری کے مراحل
دریچہ:
جو شخص احکام شرعی بیان کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کو دینی احکام کی تعلیم دینا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ پہلے خود مسائل سے بھرپور آشنائی حاصل کرے یعنی مسائل بیان کرنے سے قبل اچھی طرح مسائل سمجھ لینا چاہئیں اور اپنی علمی سطح مضبوط و مستحکم کرنی چاہیے۔
علمی سطح کے استحکام و بھرپور آشنائی کے بعد چند مراحل پیش نظر رہنے چاہئیں جو مختلف صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے مسائل بیان کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں لہذا ضروریات سے ہماری مراد یہ ہے کہ "کیا بیان کیا جائے؟، کون سے مطالب و مسائل بیان کرنے چاہئیں؟"
لہذا بیان احکام کی آمادگی و تیاری کے لئے مندرجہ ذیل مراحل طے کرلینا ضروری ہیں:
۱. انتخاب موضوع بحث؛
۲. انتخاب شدہ موضوع بحث کا بغور اور کامل مطالعہ؛
۳. منتخب شدہ موضوع بحث سے مختلف مسائل کا انتخاب؛
۴. مناسب تقسیم بندی؛
۵. خلاصہ نویسی
۶. خلاصہ کا مطالعہ۔
انتخاب موضوع بحث
احکام بیان کرنے سے پہلے موضوع بحث منتخب کرنا ضروری ہے مثلاً تقلید، طہارت، نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد وغیرہ۔ لیکن موضوع بحث منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل نکات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
۱ ۔ عوام کی ضرورت
موضوع منتخب کرتے وقت لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے کہ منتخب شدہ موضوع آپ کے مخاطبین کی ضرورت ہے یا نہیں؟
۲ ۔ فہم افراد:
اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ جو احکام و مسائل ہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ مخاطبین کے لئے قابل فہم ہیں یا نہیں۔ اگر ایسے مسائل بیان کریں جو ان کی سمجھ سے بالا ہوں یا کچھ مسائل سمجھیں اور کچھ نہ سمجھیں تو بیان کا فائدہ کیا رہ جائے گا؟
۳ ۔ مقررہ وقت:
یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس کتنا مقرر وقت موجود ہے۔ اگر مقرر وقت قلیل ہو اور ایسے میں طویل فقہی بحث شروع کردی جائے تو بالکل غیر مناسب اور مشکل ساز ہوجائے۔ لہذا مقررہ وقت کی مناسبت سے موضوع کو ترتیب دینا چاہیے۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
"إِنَّ رَأيَكَ لَا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شيءٍ ففرغهُ لِلمُهم
"۔
"بیشک جو کچھ تمہاری نظر میں ہے، وہ سب بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے تو صرف مہم پر اکتفا کرلینا بہتر ہے"۔
مولائے کائنات کے اس فرمان کی روشنی میں مقررہ وقت کی طرف خاص توجہ رکھنا چاہیے اور اس وقت صرف اہم مسائل کا سہارا لینا چاہیے اور بقیہ مسائل کو دیگر اوقات پر موکول کردینا بہتر ہے۔
نیز مولا امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے:
"لَا تَقُلۡ مَا لَمۡ تَعۡلَم
"
وہ بات مت کہو جو تم جانتے نہیں ہو؛ یعنی جاہلانہ گفتگو سے پرہیز کرو اور عالمانہ گفتگو کرو۔
پس عالمانہ گفتگو کے لئے بھرپور اور مکمل مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
پھر آنجناب ؑ فرماتے ہیں:
"وَ لَا تَقُلۡ کُلُّ مَا تَعۡلَم
"
؛ جو کچھ جانتے ہو سب کا سب بیان مت کرو۔
یعنی گفتگو یقیناً عالمانہ ہونی چاہیے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ موقع محل اور مخاطب دیکھ کر کلام کرنا چاہیے، ہر بات ہر جگہ اور ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ حاضرین کی ضرورت کو دیکھ کر موضوع منتخب کرنا چاہیے، بیان شدہ مطالب حاضرین کی سمجھ میں آرہے ہیں یا نہیں اور دامن وقت میں گنجائش ہے یا نہیں؟
معیار ضرورت
لوگوں کی ضرورت و احتیاج کے مطابق گفتگو کرنا تبلیغ کے مسلم اصول میں سے ایک اصول ہے۔ لہذا ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ضرورت و احتیاج کو کس طرح سمجھا جائے یعنی کون سے مسائل و احکام مخاطبین کی ضرورت ہیں اور کون سے مسائل کی انھیں ضرورت نہیں ہے پس ان کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے چند مددگار عوام ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں:
۱ ۔ عمر؛ احکام بیان کرنے میں مخاطبین کی عمر کا خیال رکھنا بیحد مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے بچوں کے لئے الگ مسائل بیان کئے جائیں، نوجوانوں کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق اور بزرگوں کے لئے ان کی شایانہ شان مسائل بیان کرنے چاہئیں۔
۲ ۔ صنف مخاطب؛ بیان احکام میں صنف مخاطب کا علم بھی ایک مؤثر عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں اور خواتین و حضرات کے مسائل الگ الگ ہوتے ہیں اور کچھ اِن سے مخصوص اور کچھ اُن سے مخصوس ہیں مثلاً طہارت، نماز اور حج وغیرہ میں کچھ مسائل صنف نازک سے مخصوص ہیں جنکی مرد حضرات کو ضرورت پیش نہیں آتی ہے لہذا مردوں کے لئے اس قسم کے مسائل بیان کرنا نہ صرف مفید نہیں بلکہ کبھی کبھی ان کے لئے باعث اذیت و خستگی قرار پائے گا۔ پس مسائل بیان کرتے وقت مخاطبین کی صنف کا خیال رکھنا بیحد ضروری اور مفید ہے۔
۳ ۔ مکانِ مخاطب؛مسائل بیان کرتے وقت مکان مخاطب یعنی لوگوں کے محل زندگی اور علاقے کا خیال رکھنا بھی ایک بہترین عامل کی حیثیت رکھتا ہے مثلاً بعض احکام و مسائل گاؤں ، دیہات کے رہنے والوں کے لئے بیحد ضروری ہوتے ہیں جبکہ شہریوں کے لئے ممکن ہے بالکل غیر ضروری ہوں اور کبھی انھیں ان مسائل کی ضرورت پیش نہ آئے۔ مثلاً کراچی یا اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں رہنے والے نوجواں کے لئے نجاست خور اونت کے پسینے کی نجاست کا مسئلہ بیان کرنا چاہئیے یا نہیں کہ ممکن ہے وہ زندگی بھر اونٹ ہی نہ دیکھ پائے۔ نیز غیر اسلامی ملکوں میں رہنے والے افراد بہت سے ایسے مسائل سے دچار ہوتے ہیں کہ ممکن ہے اسلامی ملکوں میں رہنے والوں کو کبھی ان کی ضرورت پیش نہ آئے۔ پس مخاطبین کے محل وقوع کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
۴ ۔ زمان مخاطب؛ احکام کے بیان کرنے میں وقت و زمانہ کا خیال رکھنا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے مثلاً ایک وقت تھا کہ جب شطرنج کے مسائل آج کی طرح نہ تھے کیونکہ کل تک سب اسے حرام سمجھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب موضوع تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کے مسائل بھی تبدیل ہوجاتے ہیں آج شطرنج ذہنی ورزش اور کھیل میں تبدیل ہوچکی ہے اسے بعض فقہاء نے ہار جیت کی شرط کے بغیر جائز قرار دیا ہے۔
ایک دور تھا جب فقط انگشت شمار افراد ہی اعتکاف کے لئے مساجد کا رخ کرتے تھے جبکہ آج ہزاروں افراد اعتکاف کی سعادت سے شرفیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں لہذا وہ اعتکاف کے مسائل جاننا چاہتے ہیں پس آج اعتکاف کے مسائل بیان کرنے کی خاص ضرورت پیش آتی ہے۔
گذشتہ دور میں نماز مسافر کے مسائل زیادہ پیش نہ آتے تھے کیونکہ لوگ کمی کے ساتھ سفر کرتے تھے لیکن آج کل لوگوں کی زندگی میں سفر کثرت سے داخل ہوچکا ہے لہذا اس کے مسائل بھی بیان کرنے کی ضرورت کثرت سے پیش آتی ہے۔
نیز نئی نئی اشیاء مثلاً موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ گذشہ زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ تھے لیکن آج کل یہ تمام وسائل عوام کی دستر س میں موجود ہیں لہذا احکام بیان کرتے وقت "زمانہ" کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ لوگوں پر فقہ کی افادیت ظاہر نہ ہوسکے گی۔
اگر آج فقط چند عمومی مسائل و احکام بیان کرنے پر اکتفاء کیا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ یہ عصر حاضر کے لئے مفید ثابت نہ ہوں گے بلکہ جدید مسائل میں اپنی تکلیف شرعی سے نابلد رہ جائیں گے لہذا "زمانہ" نے لوگوں کی ضرورت کو تبدیل کردیا ہے۔
۵ ۔مخاطبین کا مشغلہ؛ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ احکام شرعی کی دو قسمیں ہیں مشترک اور مخصوص۔ تقلید، طہارت، نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل تقریباً تمام مخاطبین و مکلفین میں مشترک ہوتے ہیں اور سب کے لئے یہ مسائل بیان کئے جاتے ہیں لیکن زراعت، مساقات، مضاربہ ، اجارہ اور وکالت وغیرہ کے مسائل عام مکلفین کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے مشغلہ کے اعتبار سے ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مثلاً اگر نرسنگ ڈے Nursing day پرگفتگو کرنے کا موقع ملے اور مبلغ نرسوں سے خطاب کے دوران اگر کچھ شرعی احکام بیان کرنا چاہتا ہے تو اسے نرسنگ سے مخصوص مسائل بیان کرنے چاہئیں۔ لہذا اگر ان کے شعبہ سے متعلق مسائل بیان کرے گا تو اس کی گفتگو خاطر خواہ مؤثر ثابت ہوگی۔
اسی طرح اگر انجینئرز کے مجمع میں ان سےمتعلق مسائل، ڈاکٹرز کے اجتماع میں ان سے متعلق مسائل، تجارت کے مجمع میں تجارت کے مسائل اور پولیس یا فوج کے درمیان ان سے متعلق مسائل بیان کرنے چاہئیں۔
نکتہ:
اب جبکہ ہمنے بیان احکام میں مؤثر عوامل جان لیئے ہیں تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ان عوامل کے بارے میں کس طرح معلومات حاصل کی جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جس مقام پر احکام بیان کرنے کے لئے جانا چاہتے ہیں تو پہلے وہاں رہنے والے کسی معتبر اور ذمہ داری شخص یا میزبان سے چند سوالات کے جوابات دریافت کرلینے چاہئیں۔ مثلاً:
۱. مخاطبین کی تعداد کتنی ہے؟
۲. مخاطبین کی صنف کیا ہے (مرد یا خواتین، لڑکے یا لڑکیاں یا مشترک)
۳. ان کی عمر کیا ہے؟
۴. ان کا مشغلہ کیا ہے؟
۵. ان کی سطح علمی کیا ہے؟
۶. نشست کی مناسبت کیا ہے؟
۷. آپ کے لئے کتنا وقت مقرر کیا گیا ہے؟
ان کے مطابق درس مرتب کرکےمسائل بیان کرنے چاہئیں۔
معیار فہم
پس احکام بیان کرنے کے لئے پہلے لوگوں کی ضرورت، ان کے فہم اور مقررہ وقت کے مطابق موضوع منتخب کرنا چاہیے۔
ہم نے لوگوں کی ضرورت معلوم کرنے کے لئے تفصیل سے نکات پیش کئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کا فہم و ادراک کس طرح معلوم کیا جائے؟
عام طور پر دو عوامل یعنی عمر اور علمی سطح کو لوگوں کے فہم وادراک کا معیار قرار دیا جاتاہے یعنی نوعمر اور کم علم افراد کے مقابلے میں پکی عمر اور تعلیم یافتہ افراد بہتر مسائل سمجھنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ مثلاً یونیورسٹی اور پرائمری اسکول کے بچوں کے فہم و ادراک میں یقیناً فرق پایا جاتا ہے۔
سوالات
۱. احکام بیان کرنے سے پہلے کن مراحل کا طے کرنا ضروری ہے؟
۲. موضوع منتخب کرتے وقت کن نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے؟
۳. مخاطبین کی ضرورت معلوم کرنے میں مؤثر عوامل کیا ہیں؟
____________________