چوتھی نشست
احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۱
یقیناً بہترین و برترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خواص بھی بہرہ مند ہوں اور عوام بھی استفادہ کرسکیں۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
"أَحۡسَنُ الكلامِ مَا زَانَهُ حُسنُ النظام و فَهِمَهُ الخاص و العام
"
۔
بہترین کلام وہ ہوتا ہے جو منظم ہو اور اسے خاص و عام سمجھ سکیں۔
پس حضرت علی علیہ السلام کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ مفید و بہترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خاص لوگوں کے علاوہ عام لوگ بھی بہرہ مند ہوسکیں۔
نیز آنجنابؑ کے اس فرمان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کلام منظم و مرتب ہونا چاہیے، کیونکہ جو مسائل و احکام ہم مخاطبین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں اگر انھیں منظم و مرتب کرکے مناسب تقسیم بندی کرلی جائے تو یقیناً لوگوں کے لئے سمجھنا آسان ہوجائے گا ، اور یاد رہے کہ بیان احکام کا اوّلین مقصد لوگوں کا سمجھنا ہے اور پھر اس کے بعد عمل کرنا ہے۔
لہذا اگر ہم مسائل انتخاب کرنے کے بعد ان کی مناسب تقسیم بندی کریں تو ہم خود بھی اچھی طرح اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور مخاطبین بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انھیں یاد رکھ سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب شدہ مسائل کو کس طرح منظم کیا اور ان کی تقسیم بندی کے لئے کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔
ہم یہاں تنظیم بندی و تقسیم بندی کے چند طریقے پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱ ۔نموداری یا درختی ۲ ۔ سوالی
۳ ۔ عنوانی ۴ ۔ ترکیبی
٭روش نموداری یا درختی
منتخب شدہ مسائل کو متعارف نمودار یا درختی انداز پر منظم اور تقسیم کرنا ہے یعنی کُل اس طرح کو اجزاء میں تقسیم کیا جاتا ہے کہ تقسیم کرتے کرتے ہم کُل سے آخری مطلوبہ جُز تک پہنچ جائیں۔مطالب کی یہ تقسیم بندی عام و نسبتاً آسان سمجھی جاتی ہے اور بعض مقامات پر زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
٭ روش سوالی
اس روش کے مطابق ہم منتخب شدہ مطالب کو مختلف سوالات کے قالب میں ڈھالتے ہیں اور اس طرح ان کی منطقی ترتیب و تنظیم سے آراستہ کرکے خود ان کے جوابات فراہم کرتے ہیں۔
٭روش عنوانی
اس روش کے مطابق ایک مخصوص عنوان منتخب کرکے مختلف ابواب میں اس سے متعلق مسائل تلاش کرکے مطالب کو منظم و مرتب کیا جاتا ہے مثلاً احکام لباس وغیرہ۔
٭روش تلفیقی
درحقیقت روش تلفیقی الگ سے کوئی مخصوص روش نہیں ہے بلکہ گذشتہ تین روشوں کا باہمی ملاپ ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک نشست میں ہم مطالب بیان کرنے کے لئے تینوں روشوں سے بیک وقت استفادہ کرلیں۔ مثلاً کسی موضوع کے بارے میں ہم اپنی گفتگو کا آغاز سوالی روش سے کریں اور پھر چند سوالات پیش کرنے کے بعد نموداری اور درختی روش سے استفادہ کریں۔
روش نموداری یا درختی
گذشتہ مطالب کے بہتر فہم و تعلم کے خاطر روش نموداری یا درختی کے مطابق احکام کی تقسیم بندی کی ایک دو مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں:
خمس
خمس سات چیزوں پر واجب ہے:
۱. وہ نفع جو کسب (کارو بار) سے حاصل ہو،
۲. معدن (کان)،
۳. گنج (خزانہ)،
۴. جب حلال مال، حرام سے مل جائے،
۵. وہ جواہرات جو دریا میں غوطہ لگانے سے ہاتھ آئیں،
۶. جنگ میں مال غنیمت،
۷. وہ زمین جو کافر ذمی نے مسلمان سے خریدی ہو۔
ان سات موارد میں سے اکثر معاشرے کے لوگوں کے لئے جو مورد ابتلاء ہے وہ منفعت کسب ہے یعنی لوگ تجارت، صنعت اور مختلف کام کاج کرکے جو منافع حاصل کرتے ہیں اس پر واجب ہونے والا خمس ہے اور کیونکہ اس کے مسائل چندان مشکل بھی سمجھے جاتے ہیں اس لئے یہاں صرف منفعت کسب کی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔
خمس واجب ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے لوگوں کے اموال کی تین قسمیں ہیں:
۱. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے،
۲. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب نہیں ہے،
۳. مشکوک اموال یعنی جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان پر خمس واجب ہوا ہے یا نہیں۔
پہلی قسم (وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے)
۱ ۔ سرمایہ، ۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرہ، ۳ ۔ سالانہ بچت۔
۱ ۔ سرمایہ و کسب؛ وہ اصلی مال جو درآمد کے لئے بطور سرمایہ اور منبع استعمال کیا جائے جیسے دکان، آلات، کھیتی باڑی کے آلات، زراعت کی زمین، سلائی کا سامان، ویلڈنگ کا سامان، کارخانہ، ٹرک، بس اور ٹیکسی وغیرہ وغیرہ۔
۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرّہ؛یعنی وہ اشیاء صرف جو انسان دوران سال زندگی بسر کرنے کے لئے خریدتا ہے اور وہ تمام یا ان کا کچھ حصہ بچ جاتا ہے جیسے چاول، گھی، آٹا، چینی، پتی اور دالیں وغیرہ۔
زندگی بسر کرنے کے لئے عام طور پر انسان کو جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اسے اصطلاح میں مؤونہ کہتے ہیں (یعنی ضروریات زندگی) اور اس کی دو قسمیں ہیں:
۱ ۔ اشیاء صرف،
۲ ۔ اشیاء غیر صرف۔
اشیاء صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو استعمال کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی رہتی ہیں جیسے آٹا، چینی، پتی، گھی ،دالیں وغیرہ۔ اگر استعمال کرتے کرتے ان اشیاء میں سے سال کے آخر میں کچھ بچ جائے تو ان پر خمس واجب ہوگا۔
اشیاء غیر صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو سال بھر استعمال ہونے کے باوجود باقی رہتی ہیں جیسے مکان جس میں سالہا سال رہتا ہے لیکن پھر بھی باقی رہتا ہے اسی طرح قالین، ریفریجریٹر، ٹی وی، کمپیوٹر، گاڑی وغیرہ بھی ہیں۔ جو شخص پابندی سے خمس کا حساب کتاب رکھتا ہے اگر وہ سالانہ مخارج میں سے یہ اشیاء مہیا کرتا ہے تو ان پر خمس نہیں ہے لیکن جس نے کبھی خمس کا حساب نہیں کیا اور مشکوک ہو تو ان اشیاء کے سلسلہ میں مصالحہ کرنا پڑے گا۔
۳ ۔ سالانہ بچت؛ یعنی وہ نقدی رقم جو انسان قناعت کی وجہ سے اپنی سالانہ آمدنی میں سے بچا لیتا ہے چاہے اس نے وہ رقم اپنے پاس رکھی ہو یا بینک وغیرہ میں محفوظ کی ہو، یہاں تک کہ اگر اس نے وہ رقم کسی کو بطور قرض دی ہو۔
دوسری قسم (وہ اموال جن پر خمس نہیں ہے)
۱ ۔ ارث، ۲ ۔ دیت، ۳ ۔ ہبہ، ۴ ۔ شہریہ، ۵ ۔ مہر، ۶ ۔ جہیز۔
۱ ۔ ارث؛ جو چیز انسان کو بطور میراث ملتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اسے یقین ہو کہ مالک نے اس مال کا خمس ادا نہیں کیا تھا۔ لیکن اگر ہم جانتے ہوں کہ مالک خمس کا پابند تھا یا اس نے اس مال کا خمس ادا کردیا تھا یا ہمیں نہیں معلوم کہ اس مال پر خمس واجب ہوا تھا یا نہیں تو ایسی صورت میں خمس واجب نہیں ہوگا۔
۲ ۔ دیت؛ جو چیز انسان کو بطور دیت حاصل ہوتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ ہبہ؛ جو چیز انسان کو بخش دی جاتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔ مثلاً انعام و اکرام، عیدی، سوغات اور تحفہ وغیرہ۔
۴ ۔ مہر؛ عورت کو جو رقم بطور مہر ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔
۵ ۔ شہریہ؛ حوزہ علمیہ اور مدارس و یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب کو بطور شہریہ و وظیفہ جو رقم ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔
۶ ۔ جہیز؛ اگر جہیز کی اشیاء بیٹی کو بخش دی جائیں تو ہبہ شمار ہوتی ہیں اور ان پر خمس نہیں ہوگا۔
نکتہ
مذکورہ بالا موارد میں اختلاف فتویٰ بھی پایا جاتا ہے لہذا خمس کا حساب کرتے وقت ا س بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ خصوصاً ہبہ کے بارے میں بہت سے فقہاء کی نظریہ ہے کہ اگر سال بھر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہے۔
تیسری قسم (اموال مشکوک)
گھر کی جن اشیاء غیر صرف کے بارے میں علم نہ ہو کہ ان پر خمس واجب ہے یا نہیں یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ اشیاء مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے تو ان میں مصالحت کرنا پڑے گی یعنی فقیہ یا اس کے نمائندے سے رضایت لینا پڑے گی۔
مسئلہ کی وضاحت کے لئے اس مثال پر غور کیجئے۔
مثلاً عادل کی طرف احمد کی کچھ رقم ہے اور دونوں واجب الاداء رقم کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن مقدار دونوں میں سے کسی کو معلوم نہیں ہے اور کسی صورت نہ رقم کی مقدار انھیں یاد آتی ہے اور نہ ہی معلوم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں صرف مصالحت ہی راہِ حل ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو کسی بھی مخصوص مقدار کی ادائیگی پر راضی کرلیں۔
خمس میں بھی ایک طرف طلبگار ہے اوردوسری طرف وہ شخص ہے جس پر واجب الاداء ہے۔ طلبکار ارباب خمس ہوتا ہے اور عصر غیبت میں فقہاءِ جامع الشرائط ارباب خمس قرار پاتے ہیں۔ اور چونکہ مرجع تقلید فرداً فرداً ہر شخص سے مصالحت نہیں کرسکتے ہیں لہذا وہ اپنے نمائندے معین کرتے ہیں جو ان کی جانب سے اس فریضہ کو انجام دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ بغیر مصالحت اموال مشکوک میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
اگرچہ خمس کے مسائل مذکورہ مقدار سے یقینا بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے اور نموداری روش سمجھانے کے لئے اسی مقدار پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔
مسائل خمس کی نموداری تنظیم و تقسیم بندی
۱ ۔ سرمایہ کسب
جن پر خمس واجب ہے ۲ ۔ زائد بر مخارج روز مرّہ (اشیاء صرف)
۳ ۔ سالانہ بچت
۱ ۔ ارث
۲ ۔ دیت
اموال جن پر خمس واجب نہیں ۳ ۔ ہبہ
۴ ۔ شہریہ
۵ ۔ مہر
۶ ۔ جہیز
مشکوک اموال گھریلو اشیاء غیر صرف جس کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے۔ ان کو مصالحت کرنا پڑے گی۔
وضو جبیرہ کے احکام
وہ چیزیں جن سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندھا جائے اور وہ دوائی جو زخم وغیرہ پر لگائی جائے اُسے "جبیرہ" کہتے ہیں۔
معمولاً جن افراد کو وضو جبیرہ کرنا پڑتا ہے ان کا زخم یا ٹوٹا ہوا عضو یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جنہیں وضو میں دھونا پڑتا ہے جیسے چہرہ اور ہاتھ، یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جن پر مسح کیا جاتا ہے جیسے سر اور پاؤں، ان دونوں کے احکام جدا ہیں اور بعض مسائل میں جزئی تفاوت بھی پایا جاتا ہے۔ ذیل میں وضو جبیرہ کے احکام کی نموداری و درختی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔
زخم، پھنسی یا شکستگی
۲ ۔ مسح مضر نہیں عضو مسح کھلا ہے تو معمول کے مطابق وضو کرے گا۔
عضو مسح بند ہے۔ اگر کھولنا ممکن ہو تو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے ورنہ وضو جبیرہ کرے گااور بنا بر احتیاط واجب تیمم بھی کرے گا۔
اسی طرح ہم فقہ کے مختلف ابواب میں سے احکام و مسائل منتخب کرکے مناسب تنظیم و ترتیب اور ان کی تقسیم بندی کرسکتے ہیں مثلاً توضیح المسائل میں نماز آیات کے اگرچہ عام طور پر دو ہی عناوین بیان کئے جاتے ہیں اول: "نماز آیات" دوم" "نماز آیات کا طریقہ" لیکن ہم انھیں اپنی سہولت کے لئے مختلف عناوین میں تقسیم کرکے تنظیم و ترتیب دے سکتے ہیں۔ مثلاً
۱. وجوب نماز آیات کے اسباب و عوامل،
۲. نماز آیات کا وقت،
۳. نماز آیات کی کیفیت،
۴. جن افراد پر نماز آیات واجب ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوالات
۱. احکام کس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور انھیں کس طرح لوگوں کے سامنے کے لئے آسان بنایا جاسکتا ہے؟
۲. احکام کی تنظیم و تقسیم بندی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے کس فرمان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
۳. احکام کی تنظیم بندی کس طرح کی جاسکتی ہے اور متداول تقسیم بندی کون سی ہے؟
۴. مؤنہ (ضروریات زندگی) کی کتنی قسمیں ہیں اور کس پر خمس واجب ہوتا ہے؟
۵. اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہونے کے باوجود مکلف کے لئے کس صورت میں معمول کے مطابق وضو کرنا ضروری ہے؟
____________________