روش بیان احکام

روش بیان احکام0%

روش بیان احکام مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

روش بیان احکام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 5337
ڈاؤنلوڈ: 2517

تبصرے:

روش بیان احکام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 27 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5337 / ڈاؤنلوڈ: 2517
سائز سائز سائز
روش بیان احکام

روش بیان احکام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آٹھویں نشست

دوسرا باب: کیفیت بیان

پہلی فصل: ضروریات

یہاں ضروریات سے مراد ایسے اصول اور روشیں ہیں ، جن کا احکام بیان کرتے وقت خیال رکھنا ضروری ہے۔

الف: اصول

اصول اول۔ سادہ گوئی

یہ شریعت ، شریعت سہلہ ہے اور اسے احکام قابل فہم ہیں خود پروردگار عالم کا ارشاد پاک ہے( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ) (۲۹) "اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے"۔

پس پیچیدہ اور مشکل الفاظ کے بجائے اسے سادہ اور آسان زبان ہی میں بیان کرنا چاہیے۔ ہم اس سے قبل حضرت علی علیہ السلام کا فرمان نقل کرچکے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں: "بہترین کلام وہی ہے جو منظم ہو اور اسے خاص و عام بآسانی سمجھ لیں"۔

حضور سرور کائناتﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا: "یَسِّرۡ وَلَا تُعَسِّر "(۳۰) آسان کرو ان پر سختی نہ کرو۔

حضور ؐ نے معاذ کو یمن کا حاکم، ولی یا گورنر بنا کر نہیں بھیجا تھا بلکہ انھیں مبلغ کی حیثیت سے وہاں اعزام کیا تھا اور آنحضرتؐ کا مقصد ظاہراً تبلیغ دین تھا یعنی تبلیغ دین میں ایسی روش اور طریقہ کار اپناؤ کہ جس کے ذریعے لوگوں کے لئے دین سمجھنا مشکل نہ رہے یعنی وہ دین کو مشکل اور سخت نہ سمجھیں۔ پس ہمیں بھی احکام بیان کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم احتیاط واجب کو احتیاط مستحب یا واجب کو مباح کہہ دیں۔ بلکہ مطالب اتنے آسان اور سادہ کرکے بیان کرنے چاہئیں کہ مخاطبین بآسانی سمجھ لیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

"أَحۡسَنُ الكلام ما لا تَمَجُّهُ الآذان وَ لَا يُتۡعِبُ فَهۡمُهُ الأفهام "(۳۱) ۔

"بہترین کلام وہ ہے جو گوش نواز اور قابل فہم ہو"۔

یاد رہے کہ ہم احکام کو دو چیزوں کے ذریعے مخاطبین کے لئے آسان اور قابل فہم بنا سکتے ہیں:

(الف) غیر ضروری ناموس الفاظ و اصطلاحات سے اجتناب۔

(ب) چھوٹے اور رواں جملوں کا استعمال۔

سالہا سال مدارس میں پڑھتے پڑھتے اور اپنے ہم جماعت طلاب وغیرہ کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے کرتے علمی و فقہی اور فنی اصطلاحات ہماری زبان اوور روزمرہ محاورہ کا حصہ بن جاتی ہیں لیکن عوام کے اکثر افراد ان چیزوں سے نا آشنا ہوتے ہیں لہذا جب ہم اپنے درس اور تقریر وغیرہ میں یہ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو عوام کے لئے خاطر خواہ قابل استفادہ نہیں ہوتیں لہذا ہم درس دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کرنے اور غیر ضروری ناموس الفاظ و اصطلاحات سے اجتناب کی باقاعدہ مشق کرنی چاہیے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم قرآنی و روائی اور علمی اصطلاحات سے بالکل دوری اختیار کرلیں اور انھیں استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ نہیں! بلکہ صرف ایسی اصطلاحات جو غیر مانوس اور غیر ضروری ہیں ان سے اجتناب کیا جائے۔

ہمارے بزرگ فقہاء بھی اسی ر وش سے استفادہ کرتے ہیں اور توضیح المسائل میں ایسے الفاط و اصطلاحات بیان کرنے کی بجائے دوسرے الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں مثلاً: صلاۃ کے بجائے نماز اورصوم کے بجائے روزہ استعمال کرتے ہیں نیز فقاع کے بجائے آب جو۔

فریضہ = واجب

بیع و شرع = خرید و فروش وغیرہ

بعض اصطلاحات و الفاظ عربی ہونے کے باوجود ان کو اسی صورت میں استعمال کرنا ضروری ہے کیونکہ لوگ ان سے مانوس ہوتے ہیں جیسے وضو، غسل، نماز ظہر و عصر، خمس و زکات وغیرہ۔

بعض اصطلاحات اور کلمات ایسے ہوتے ہیں اگرچہ مخاطبین ان سے نا آشنا ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے یعنی اگر اہم یہ الفاظ استعمال نہ کریں تو ان کا بدل پیدا نہ کرسکیں گے جیسے غسل کا بدل نہیں ہے اور اگر ہم اس کا بدل بنا بھی لیں تو ممکن ہے وہ اس کے معنی و مفہوم کو کما حقہ بیان نہ کرسکے۔

ذیل میں ایسی ہی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

حد ترخّص، حد نصاب، وقف، وصیت، استحالہ، تبعیّت۔

پس فقہی اصطلاحات و لغات کی تین قسمیں ہیں:

۱ ۔ اصطلاحات و لغات مانوس: ایسی لغات و اصطلاحات جن سے مخاطبین آشنا اور مانوس ہوتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم کو خاطر خواہ سمجھتے ہیں جیسے نماز ظہر و نماز عصر ، خمس و زکات وغیرہ۔

۲ ۔ اصطلاحات و لغات نامانوس لیکن ضروری: ایسی اصطلاحات و لغات جن سے مخاطبین نا آشنا ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا استعمال ضروری ہوتا ہے جیسے حد ترخص اور حد نصاب وغیرہ۔

۳ ۔ اصطلاحات و لغات نامانوس و غیر ضروری: یعنی ایسی اصطلاحات و لغات جن سے مخاطبین مانوس نہیں ہوتے اور ان کے لئے ان کا بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے جیسے: استحالہ، شارع مقدس، قصد انشاء، جلالہ، تذکیہ، مسکرات، محجور، موجر، راہن، بایع ومشتری، جہرو اخفات، ثمن و مثمن، ربح سال، نقدین، عصیر عنبی، اکل و شرب وغیرہ۔

لیکن یاد رہے کہ اگر مخاطبین کی علمی سطح بلند ہے اور اس قسم کی اصطلاحات کے معنی و مفہوم کو سمجھتے ہیں یا اگر ان اصطلاحات کے معنی بیان کئے جائیں اور مخاطبین کے لئے اکتاہٹ کا باعث نہ ہو تو آہستہ آہستہ یہ اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

چھوٹے چھوٹے اور رواں جملوں سے استفادہ

علمی نقطۂ نظر سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مخاطبین کے لئے چھوٹے اور مختصر جملے سمجھنا آسان ہوتا ہے اور جلد ہی ان کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ یہاں بطور مثال ایک فقہی مسئلہ اصطلاحات سے پُر پیش کیا جا رہا ہے اس کے بعد اسے چھوٹے چھوٹے اور رواں جملوں میں تبدیل کرکے پیش کریں گے توجہ فرمایئے:

"اگر حیوان کی اوداج اربعہ، مستقبلاً الی القبلہ، بذریعہ آہنی آلہ، بوسیلہ یدِ مسلمان اور ذکر اسم جلالہ کے ہمراہ کاٹا جائے تو حلال ورنہ حرام ہے"۔

اس قسم کی گفتگو طلاب اور صاحبان علم کے لئے توضیح اور مناسب ہے لیکن عوام کے لئے عام طور پر قابل فہم و استفادہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر پورے مسئلہ میں وہ ایک اصطلاح بھی سمجھنے سے قاصر رہا تو حکم بیان کرنے کا مقصد حاصل نہ ہوسکے گا لہذا اسی مسئلہ کو مندرجہ ذیل طریقے سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے:

اگر جانور کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ ذبح کیا جائے تو حلال ہے ورنہ حرام ہوگا:

۱. چاروں معروف رگیں مکمل طور پر کاٹ دی جائیں،

۲. ذبح کرتے وقت حیوان کا گلا اور اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو،

۳. لوہے سے بنی ہوئی چیز سے ذبح کیا جائے،

۴. ذبح کرنے والا مسلمان ہو (چاہے مرد ہو یا عورت)،

۵. ذبح کے وقت اللہ کا نام یعنی "بسم اللہ" کہا جائے۔

اسی طرح ہم دیگرمفصل مسائل کو چند مختصر مسائل میں تبدیل کرکے آسان و رواں زبان میں پیش کرسکتے ہیں مثلاً آیت اللہ خمینیؒ کی توضیح المسائل سے مسئلہ نمبر ۷۴۴ منتخب کرکے یہی کام انجام دے رہے ہیں۔

"اگر دو عادل مرد وقت کے داخل ہونے کی خبر دیں یا انسان خود یقین کرکے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور نماز شروع کرے اور اثناء نماز میں اسے معلوم ہوجائے کہ ابھی تک وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے اور یہی حکم ہے اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے البتہ اگر اثناء نماز میں اسے معلوم ہو کہ وقت داخل ہوگیا ہے یا نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ اثناءِ نماز میں وقت داخل ہوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے"

یہ مفصل مسئلہ مندرجہ ذیل چار مختصر مسائل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جن میں سے دو کا تعلق اثناءِ نماز سے ہے اور دو کا تعلق نماز سے فراغت کے بعد سے ہے:

۱ ۔ اگر نماز گزار کو اثناء نماز میں معلوم ہوجائے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے۔

۲ ۔ اگر اثناء نماز میں نماز گزار کو معلوم ہوجائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے (یعنی ابھی تک نماز کا وقت شروع نہیں ہوا تھا اب شروع ہوا ہے) تو اس کی نماز صحیح ہے۔

۳ ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے تو نماز باطل ہے۔

۴ ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ نماز کا کچھ حصہ وقت سے پہلے پڑھا گیا ہے ؛ یعنی نماز کے دوران وقت داخل ہوا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔

سوالات

۱. معاذ بن جبل سے نبی کریم ﷺ کا فرمان "یَسِّر وَلَا تُعَسِّر " کس طرح احکام میں سادہ گوئی پر دلالت کر رہا ہے؟

۲. بیان احکام میں سادہ گوئی سے کیا مراد ہے؟

۳. فقہی اصطلاحات و لغات کی کتنی قسمیں ہیں؟ مثال کے ساتھ بیان کریں۔

۴. توضیح المسائل سے کوئی ایک مفصل مسئلہ منتخب کرکے اسے مختصر، رواں اور سادہ زبان میں بیان کریں۔

____________________

۲۹ ۔توضیح المسائل، م ۷۹۷۔

۳۰ ۔سورہ قمر (۵۴) آیت ۱۷۔

۳۱ ۔سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص ۵۹۰۔

نویں نشست

اصول دوم۔بشارت دِہی

جب حضور ؐ سرور کائنات نے معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے بھیجا تو آپؐ نے ان سے یہ بھی فرمایا: "بَشِّر وَ لَا تُنَفِّر " اے معاذ جب تم لوگوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کرو تو اس نکتہ کی طرف متوجہ رہنا کہ تم احکام و معارف دین اس طرح بیان کرنا کہ ان میں دین کی نسبت تنفر پیدا ہوجائے بلکہ تمہارا طریقہ کار بشارت دہندہ ہونا چاہیے جس کے ذریعے ان میں امید کی کرن پیدا ہو اور وہ معارف دین و احکام شریعت کو مشکل سمجھنے کے بجائے آسان سمجھیں اور اس طرح وہ احکام سیکھنے میں دلچسپی پیدا کرنے لگیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان میں کس طرح یہ بشارت اور امید کی کرن پیدا کرسکتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم مندرجہ ذیل نکات کی پابندی کریں تو یقیناً ان میں بشارت و امید پیدا کی جاسکتی ہے:

(الف) اس طرح احکام بیان نہ کئے جائیں کہ مخاطبین سلب آزادی محسوس کریں۔ اگر مخاطبین خصوصاً نوجوان طبقہ یہ محسوس کرنے لگے کہ ہر چیز حرام ہے، ہر چیز ممنوع ہے، ہر جگہ خطرہ ہے کی علامت ہے تو وہ یقیناً احکام دین سے فرار کرنے لگیں گے۔ حالانکہ اسلام نے ممنوع و محرمات کی نسبت مباح اور جائز چیزوں کا دائرہ بہت وسیع قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام نے چار اصول متعارف کروائے ہیں جنکی بنیاد پر ہم لوگوں میں سے سلب آزاد کے احسا س کا خاتمہ کرسکتے ہیں؛ جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ اصل طہارت: "کُلّ شیءٍ طاهرٌ حتی تَعۡلَم انه قَذِر ؛ یعنی ہر چیز پاک ہے جب تک کہ اس کی نجاست کا علم نہ ہوجائے۔

۲ ۔ اصل اباحت: اسلام کا قانون یہ ہے کہ عام طور پر تمام اعمال اور کام کاج مباح اور جائز ہیں مگر یہ کہ کسی عمل یا کام کو نص و دلیل کے ذریعے خارج کر دیا جائے۔ جیسے تمام چیزوں مثلاً دریا، درخت، پہاڑ، گلشن، سبزہ، قدرتی نظارے سب کچھ دیکھنا جائز ہے صرف نامحروم کی طرف دیکھنا جائز ہے۔ اسی طرح تمام کھیل Games جائز ہیں صرف دو شرائط کے ساتھ جائز نہیں ہیں:

۱. اگر کھیل کے وسائل جوئے سے مخصوص ہو۔

۲. ہار جیت کی شرط کے ساتھ ہو۔

۳ ۔ اصل حلیت:یعنی خداوند عالم نے تمام پاک وپاکیزہ کھانے پینے کی اشیاء کو حلال قرار دیا ہے۔ اسلام میں جو غذا حرام ہے وہ سب کے لئے حرام ہے اور ہر جگہ حرام ہے۔ البتہ اگر کوئی مریض ہے یا کوئی غذا بدن کے لئے مضر ہو تو حرام ہوجاتی ہے ورنہ حلال ہے۔

۴ ۔ اصل صحت: یعنی اسلام کا قانون یہ ہے کہ عام طور پر لوگوں کے اعمال صحیح ہیں یعنی مسلمان جو کام انجام دیتا ہے اسلام نے اسے صحیح قرار دیا ہے مثلاً مسلمان کے ہاتھوں دُھلے ہوئے کپڑوں کے بارے میں شک ہو کہ پاک ہوئے ہیں یا نہیں تو اسلام اس عمل کو صحیح قرار دیتا ہے لہذا کپڑے پاک ہیں۔

بازار کے خریدے گئے گوشت کے بارے میں اگر شک کریں کہ اسے ذبح کے وقت "بسم اللہ" کہا یا نہیں؟ جانو قبلہ رخ تھا یانہیں؟، چاروں رگیں کاٹی تھیں یا نہیں؟، اسلام نے صحیح قرار دیا ہے لہذا گوشت حلال و پاک ہے۔

اگر اس طرح مسائل بیان کئے جائیں گے تو یقیناً مخاطبین کے دل میں سلب آزادی کے احساس کا خاتمہ ہوگا احکام سیکھنے کی طرف رغبت بڑھے گی اور دلچسپی کے ساتھ درس احکام میں شرکت کریں گے۔

لیکن اگر اس طرح بیان کئے جائیں کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اسلام کی نظر میں ہر کام ناجائز ہے، ہر چیز ناپاک ہے، ہر چیز حرام ہے اور ہر کام غلط ہے تو یقیناً وہ احکام دین سے دوری کرنے لگیں گے اور رفتہ رفتہ وہ اسلام ہی سے دور ہوجائیں گے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے مثلاً اگر ہم طہارت و نجاست کے مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس طرح بیان کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر م یں صرف گیاہ چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں۔ اس طرح مخاطب کی نظرمیں خود بخود وسعت پیدا ہوجائے گی اور وہ خوشی محسوس کرےگا کہ اسلام کتنا اچھا دین ہے جس نے تمام اشیاء کو پاک قرار دیا ہے؛ اور ان گیارہ چیزوں میں بھی کسی چیز کو نجس کرنے کے لئے یہ دو شرطیں پائی جاتی ہیں:

۱. دونوں یا کوئی ایک تر ہو۔

۲. تری اتنی ہو کہ دوسرے پر سرایت کر جائے۔

(ب) گرہ گشاء: احکام بیان کرتے وقت آپ کی روش گرہ گشاء ہونی چاہیے یعنی مشکل اور مبہم مسائل کو حل کرنا چاہیے مثلاً بعض لوگ چوہے، لال بیگ وغیرہ کو نجس سمجھتے ہیں حالانکہ نجس نہیں ہیں۔

بعض لوگ خرگوش کو حلال سمجھتےہیں حالانکہ حرام ہے۔

نیز بعض لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً:

دوران جماعت شرکت کرنے پر تشہد پڑھنا چاہیے یا نہیں؟

تسبیحات اربعہ میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

سجدۂ سہو میں تکبیرۃ الاحرام ہے یا نہیں؟

زمین پر چپکے ہوئے کار پیٹ کو کس طرح پاک کیا جائے؟

کیا واشنگ مشین کپڑوں کو پاک کر دیتی ہے یا نہیں؟

پس اس طرح احکام بیان کرنا چاہیں کہ لوگ درس احکام کو گرہ گشاء خیال کریں اور اس بات کا یقین حاصل کرلیں کہ بہرحال اسلام ہماری بہت سی مشکلات کو حل کرتا ہے۔

(ج) بیان احکام کلی و کلیدی: یعنی احکام عمومی اور کلیدی عنوان سے بیان کرنے چاہئیں جس کی بنا پر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اس نے بہت سے مسائل سیکھ لئے ہیں مثلاً بعض لوگ جب عمل صالح کی تعریف بیان کرتے ہیں تو اسے صرف نماز روزہ میں محدود کر دیتے ہیں حالانکہ عمل صالح صرف نماز روزہ میں محدود نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص کوئی چیز بیچتا ہے یا کوئی چیز بناتا ہے تو اس میں بھی عمل صالح درکار ہے اس لئے کہ اگر وہ شخص بیچنے میں یا بنانے میں خیانت کرتا ہے تو اس کا وہ عمل ، صالح نہیں ہوگا اور اسلام کی نظر میں قابل مذمت و ملامت ہے۔

پس اسے بعض مسائل کلی طور پر بیان کرنے چاہئیں تاکہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوکہ اس نے بہت سے مسائل سیکھ لیئے ہیں۔ مثلاً:

o نماز میت کے سوا تمام نمازوں میں طہارت شرط ہے۔

o تمام غسل کیفیت کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں صرف نیت میں فرق ہوتا ہے۔

o جو اعمال وضو کے ساتھ صحیح ہیں وہ وضو کے بدلے تیمم سے بھی صحیح ہوتے ہیں۔

o جو اعمال غسل کے ساتھ صحیح ہیں وہ و ضو کے بدلے تیمم سے بھی صحیح ہوتے ہیں۔

o ہر نجس چیز حرام ہے لیکن ہر حرام چیز نجس نہیں ہوتی۔

o صرف نماز پنجگانہ اور ان کی قضاء کے علاوہ کسی واجب یا مستحب نماز کے لئے اذان و اقامت نہیں ہے۔

o نماز وتر کے علاوہ تمام مستحب نماز دو رکعت ہوتی ہیں۔

سوالات

۱. احکام بیان کرتے وقت بشارت دہی سے استفادہ کا کیا فائدہ ہے؟

۲. مخاطبین میں کن عوامل کے ذریعے امید کی کرن پیدا کی جاسکتی ہے؟

۳. سلب آزادی کے احساس کا خاتمہ کن اصولو ں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے؟

۴. چار کلی و کلیدی احکام بیان کریں۔

دسویں نشست

اصول سوم۔کلیدی و کلّی احکام اور بیان مثال

احکام بیان کرتے وقت مثال و مصداق بیان کرنے کی افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ اگر ان کے لئے مثال و مصداق بیان نہ کیا جائے تو احکام نہیں سمجھ پاتے۔ لہذا استاد احکام کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل نکات کی پابندی کرے:

۱. احکام سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے،

۲. احکام کے مصادیق سے مکمل آشنائی رکھتا ہو،

۳. حکم کے مطابق مصداق بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اگر ہم احکام بیان کرتے وقت مثال و مصداق بیان کرتے رہیں تو ہمارا یہ طریقہ کار لوگوں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگا اور وہ اس بات کو محسوس کریں گے کہ یقیناً فقہ کا کام ہماری زندگی کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔

شرائط مثال و مصداق

ہم جن احکام کے لئے جو مصداق و مثال بیان کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی کرنی چاہیے:

۱ ۔ مصداق ، حکم کے مطابق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ حکم کچھ اور بیان کیا جائے اور مثال کا تعلق کسی اور حکم سے ہو۔

۲ ۔ مخاطبین کی احتیاج کے مطابق ہو۔ یعنی مصداق بیان کرتے وقت زمان و مکان کا خیال رکھا جائے اور قدیمی و پرانی مثالوں سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ مثلاً

۱ ۔ اشیاء، دیوار یا ظروف کی کیفیت تطہیر میں نجس تنور کی تطہیر کے طریقے کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے(۳۳) لیکن یہ مثال اس وقت بالکل مناسب و بروقت تھی جب گھر گھر تنور بنے ہوئے تھے اور کسی بچہ یا جانور کا پیشاب سے وہ نجس ہوجاتا تھا جبکہ آج کے دور میں یہ مثال بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

۲ ۔ احکام طہارت میں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کپڑا وغیرہ دھونے کے بعد اس میں تھوری سی مٹی یا اُشنان کے ٹکڑے نظر آئیں تو وہ پاک ہیں ہاں اگر نجس پانی مٹی یا اشنان کے اندر والے حصہ کو لگا ہے تو متی اور اشنان کا ظاہر پاک اور باطن نجس ہوگا۔(۳۴)

اشنان صحرائی گھاس ہے جو خود بخود اُگ آتی ہے، گذشتہ زمانے میں لوگ اس سے اپنے کپڑے دھو لیتے تھے اگر اسے اچھی طرح مَل کر صاف نہ کیا جاتا تواس کے ٹکڑے کپڑوں پر لگے رہ جاتے تھے لیکن آج لوگ بالکل اُشنان سے نا آشنا ہیں لہذا آج کل تو سرف کی مثال بیان کرنی چاہیے۔

۳ ۔ احکام جعالہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر جو شخص بھی میرا گم شدہ گھوڑا ڈھونڈ کر لائے گا تومیں اسے یہ گندم دوں گا۔(۳۵)

آج کل یہ مثال دینا موقع و محل کی مناسبت سے صحیح نہیں ہے بلکہ آج کل جو چیزیں گم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں مثلاً پرس، اے ٹی ایم کارڈ، گاڑی کی چابی، موٹر سائیکل، گاڑی اور مکان وغیرہ کے کاغذات۔

۴ ۔ ضمانت کے عنوان کے تحت بیان کیا جاتا ہے:

اجارہ؛ اگر کسی کا جانو کرایہ پر لیا جائے اور مالک معین کردے کہ اس جانور پر صرف اتنا وزن لادنا۔ پس اگر کرائے پر لینے والا شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرے جس کی وجہ سے حیوان مر جائے یا عیب دار ہوجائے تو کرائے پر لینے والا شخص ضامن ہوگا۔(۳۶)

آج اس مثال کا دور تقریباً ختم ہوچکا ہے لہذا آج گاڑی وغیرہ کی مثال دینی چاہیے۔

اگر ہمارے مخاطب اسکول کے بچے ہوں تو ہمیں پین، کاپی، شارپنر، ربڑ وغیرہ کی مثال دینی چاہیے کیونکہ بچے عام طور پر ایک دوسرے سے یہ چیزیں لیتے ہیں لہذا انھیں بتانا چاہیے کہ اگر ہم نے بد احتیاطی کی تو نقصان بھرنا پڑے گا۔

اسی طرح نوجوان ایک دوسرے سے سائیکل یا موٹر سائیکل وغیرہ عاریۃً لے لیتے ہیں یا مہمان داری کے لئے پڑوسیوں سے برتن وغیرہ لے لئے جاتے ہیں اگر احتیاط نہ کی جائے گی تو نقصان بھرنا پڑے گا لیکن اگر احتیاط سے کام لیا ہے تو نقصان کی صورت میں ضامن نہیں ہوگا یعنی اسے نقصان نہیں بھرنا پڑے گا کیونکہ یہ امانت ہے اور امین ضامن نہیں ہوا کرتا۔

آفس اور دفتر وغیرہ میں کام کرنے والوں کے لئے دفتری اشیاء کی مثال دینی چاہیے جیسے: کمپیوٹر، گاڑی، ٹیلیفون اور فرنیچر وغیرہ، یعنی اگر ان کی بد احتیاطی سے کسی چیز کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ ضامن ہے اور اسے نقصان بھرنا پڑے گا۔

اگر پولیس والے بلا جواز دروازہ توڑ کر گھر میں گھستے ہیں اور گھریلو یا طلائی زیورات ناجائز لے جاتے ہیں تو تمام تر نقصان کے ذمہ دار ہیں۔

نیز سڑک پر No Parking کی جگہ پر کھڑی گاڑی کو اگر متعلقہ محکمہ اٹھا کر لے جاتا ہے، اگر گاڑی کو نقصان پہنچتا ہے تو اٹھانے والا یا نقصان پہنچانے والا ضامن ہے اور نقصان بھرنا پڑے گا۔

ضمانت ایک ایسا حکم شرعی ہے جس کے مختلف مصادیق پائے جاتے ہیں لہذا مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ان کے پیشوں کی مناسبت سے مثالیں بیان کرنی چاہئیں۔

روش تحریر: اگر درس احکام میں بعض مطالب بورڈ پر لکھے جائیں تو یہ بیان کرنے سے زیادہ موثر اور سودمند ثابت ہوتا ہے لہذا بعض مسائل میں صرف سوال لکھ دینا چاہیے یا بعض مطالب کی جدول و نموداری ترسیم بنادینی چاہیے، یا بعض نہایت تاکیدی مطالب لکھ دینے چاہئیں مثلاً جب ہم یہ مسئلہ بیان کریں "جن مسائل کی انسان کو عام طور پر ضرورت پڑتی ہے تو ان کا سیکھنا واجب ہے" تو اس میں صرف دو الفاظ "ضرورت" اور "واجب" لکھ دیا جائے۔

سوالات

۱. استاد احکام کو بیان مثال کے لئے کس قسم کی مہارت درکار ہوتی ہے۔

۲. مثال و مصداق بیان کی شرط کیا ہے؟

۳. ضمانت کی چار مختلف شعبوں سے سے مربوط مثالیں بیان کریں۔

____________________

۳۲ ۔غرر الحکم، ح ۳۳۷۱۔

۳۳ ۔توضیح المسائل مراجع، م ۱۵۸۔

۳۴ ۔توضیح المسائل، م ۱۶۹۔

۳۵ ۔توضیح المسائل، م ۲۲۱۵۔

۳۶ ۔توضیح المسائل، م ۲۱۹۹۔

گیارھویں نشست

ب:روشیں

روش عملی

احکام کی تعلیم کے لئے جس طرح ہر چیز کی تصویر بنانا ممکن نہیں ہے اسی طرح تمام احکام کی عملی تعلیم نہیں دی جاسکتی البتہ بہت سے احکام ایسے ہیں کہ اگر ان کی عملی تعلیم نہ دی جائے تو کسی صورت صحیح عمل انجام نہیں دیا جاسکتا مثلاً وضو جبیرہ، نماز جماعت، نماز آیات، حج وغیرہ۔ جب تک تیمم کی عملی تعلیم نہ دی جائے چاہے جتنی وضاحت بیان کرتے رہیں صحیح تیمم کرنے میں اشتباہ کرتے رہتے ہیں۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ دو سال کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے حالانکہ اسے نماز نہیں آتی ہے کیا اس کا ا س طرح کھڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ نماز بھی پڑھ رہا ہے؟ نہیں کیونکہ اسے حمد و سورہ نہیں آتی ہیں۔ لیکن وہ جس طرح اپنی والدہ کو عمل انجام دیتے ہوئے دیکھتا ہے وہ عمل دہراتا رہتا ہے۔

اور اس طرح وہ رفتہ رفتہ قیام، رکوع اور سجود سیکھ لیتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ بچہ عمل تیزی سے سیکھ لیتا ہے۔

حدیث میں وارد ہوا ہے: "دُعَاةَ النَّاسِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ "(۳۷) لوگوں کو بغیر زبان کے دین کی طرف دعوت دو۔

اگرچہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ تم نیکو کار بن جاؤ تاکہ لوگ تمہارے نیک کردار سے متاثر ہوکر دین کی طرف کِھچنا شروع ہو جائیں۔ لیکن ہم اس حدیث سے یہ استفادہ بھی کر سکتے ہیں کہ تبلیغ دین میں فقط گفتار و کلام سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ لوگوں کو احکام دین کی عملی تعلیم بھی دینی چاہیے۔

جب ہم حضور ؐ سرور کائنات اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عملی تعلیم کے نمونہ جابجا نظر آتے ہیں مثلاً:

پیغمبر گرامی قدر ﷺ نے فرمایا:

"صَلُّوا کَمَا رَأَیۡتُمُونِی اُصَلِّی "(۳۸) جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتےہو اس طرح نماز پڑھو۔

جب آپ مخاطبین کو نماز کی تعلیم دینا چاہیں اور ان سے کہیں کہ نماز کے لئے روبقلبہ کھڑے ہوجاؤ، نیت کرو، تکبیرۃ الاحرام کہو پھر سورہ حمد پھر کوئی دوسرا سورہ پڑھو، پھر رکوع کرو پھر کھرے ہوکر سجدے میں جاؤ وغیرہ وغیرہ تو یہ آپ نے انھیں صرف زبانی تعلیم دی ہے جبکہ آپ انھیں عملی تعلیم بھی دے سکتے ہیں کہ ان سے کہیں جس طرح میں نماز پڑھ رہا ہوں اسی طرح تم بھی نماز پڑھو۔

نیز جب امام حسن ؑ و امام حسین ؑ نے بچپن میں ایک شخص کو غلط وضو کرتے ہوئے دیکھا تو آپؑ نے اس سے براہ راست یہ نہیں کہا کہ تمہارا وضو غلط ہے اور صحیح وضو کا طریقہ اس اس طرح ہے ، آپ نے اس کی زبانی اصلاح نہیں فرمائی بلکہ فرمایا: اے شیخ! ہم دونوں آپ کے سامنے وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر بتائیے کہ کس کا وضو زیادہ اچھا ہے۔(۳۹)

امام علیہما السلام نے یہاں دو کام انجام دیئے ہیں:

(الف) عملی تعلیم،

(ب) غیر مستقیم تعلیم۔

اگر براہ راست اس سے یہ کہہ دیتے کہ تمہارا وضو غلط ہے تو شاید وہ ان کی بات کی بالکل پرواہ بھی نہ کرتا لیکن ائمہ علیہما السلام کے اس انداز تبلیغ کی وجہ سے اس کی اصلاح بھی ہوگئی اور اس نے ان کی بات مان بھی لی۔

ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے پانی اور تشت طلب کیا اور لوگوں کو وضو پیغمبر کی عملی تعلیم دی۔(۴۰)

نیز کتب حدیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے اونٹ پر سوا ر ہوکر کعبہ کا طواف انجام دیا۔(۴۱)

پوچھنے والوں نے پوچھا: پیدل طواف کرنا افضل ہے یا سوار؟ جواب دیا گیا کہ پیدل۔

سوال کیا: اگر پیدل طواف کرنا افضل ہے تو آنحضرت نے سوار ہوکر طواف کیوں کیا ہے؟ جبکہ آنحضرتؐ افضل کو ترک نہیں کرسکتے ہیں!

فرمایا: یہ طواف، تعلیمی طواف تھا یعنی ہمیں یہ بات تعلیم دینا چاہتے تھے کہ سواری پر بھی طواف میں مضائقہ نہیں ہے۔ آنحضرتؐ زبانی بھی بیان کرسکتے لیکن اس لئے خود سوار ہوکر طواف کرکے دکھایا تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

یاد رہے کہ منابع فقہ میں سے ایک سنت معصومینعلیہم السلام ہےاور سنت، معصوم ؑ کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے۔ یعنی فعل معصوم ؑ بھی منابع فقہ میں سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ معصوم ؑ کے عمل کو دیکھ کر ہم اپنے عمل کی اصلاح کرسکتے ہیں۔

نیز احکام کی عملی تعلیم کا ایک بہترین اور واضح نمونہ مندرجہ ذیل روایت حماد بن عیسیٰ ہے۔

"حماد بن عیسیٰ کہتےہیں: ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:تحسن أن تُصلی یا حماد ۔ اے حماد! کتنا اچھا ہوگا کہ تم کھرے ہو کر ذرا میرے سامنے نماز پڑھو۔

میں نے عرض کیا:

یا سیدی اَنا أحفظ کتاب حریز فی الصلاة ۔

مجھے حریز کی پوری کتاب صلاۃ حفظ ہے اور میں اسی کے مطابق نماز پڑھتا ہوں۔

فرمایا: لا علیک، قم صلّ؛ کوئی بات نہیں، کھڑے ہوجاؤ اور نماز پڑھو۔

کہا: پس میں نے کھڑے ہوکر ایک نماز پڑھی ۔۔۔(۴۲) "

امام ؑ نے ان کی نماز کی کیفیت دیکھ کر فرمایا:تم ہمارے اصحاب میں سے ہو اور تمہاری نماز کی یہ حالت ہے۔ اس کے بعد آنجناب ؑ خود کھرے ہوئے اور فرمایا: اب تم ہماری نماز کی کیفیت دیکھو اور آئندہ اسی طرح نماز پڑھنا۔

اس کے بعد حماد نے امام ؑ کے تکبیر کہنے، قرائت و ذکر وغیرہ کی مکمل کیفیت نقل کی ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض احکام و مسائل کی تعلیم لازمی طور پر عملی ہونی چاہیے۔

سوالات

۱. احکام کی عملی تعلیم کے بارے میں نبی کریم ؐ کی روایت بیان کریں۔

۲. سیرہ معصومین ؑ میں سے احکام کی عملی تعلیم کا ایک نمونہ بیان کریں۔

۳. احکام کی عملی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟

____________________

۳۷ ۔وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص ۱۹۴۔

۳۸ ۔بحار الانوار، ج۸۵، ص ۲۷۹۔

۳۹ ۔بحار الانوار، ج۱۰، ص ۸۹۔

۴۰ ۔بحار الانوار، ج۱۰، ص ۸۹۔

۴۱ ۔کافی، ج۳، ص ۲۵۔

۴۲ ۔وسایل الشیعہ، ج۵، ابواب افعال الصلاۃ، ص ۴۵۹؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص ۳۰۰۔

روش ہُنری

کبھی کبھی یہ مشاہد ہ کیا جاتا ہے کہ احکام کا درس خستہ کنندہ ہوجاتا ہے ایسے موقع پر خستگی کو دور کرنے اور درس کو دلچسپ اور جاذب بنانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

یاد رہے کہ خستگی کو دور کرنے اور درس احکام کو دلچسپ اور جاذب بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہنر سے استفادہ کرنا ہے۔ ذیل میں بعض مختلف ہنر پیش کئے جا رہے ہیں جن سے مبلغ مختلف مواقع پر موقع و محل کی مناسبت سے استفادہ کرسکتا ہے:

۱. نقاشی

۲. معمّا

۳. شعر

۴. داستان

۵. فیلم و نمائش

۶. خوشخط

۱ ۔ نقاشی: اگر نقاشی سے استفادہ کرنا فقہی مسائل کی تفہیم میں بہترین اور مؤثر کردار ادا کرتا ہے لیکن یاد رہے کہ بہت سے مسائل کی تصویر کشی نہیں کی جاسکتی مثلاً اجتہاد و تقلید کے احکام قابل نقاشی نہیں ہیں البتہ طہارت کے بہت سے مسائل کو نقاشی کے ذریعہ سمجھایا جا سکتا ہے مثلاً باب مطہرات میں پانی اور سورج وغیرہ کی تصویریں بنائی جاسکتی ہیں یہاں تک کے بعض جزئی احکام بھی تصویر کے ذریعے سمجھائے جاسکتے ہیں۔

پانی کی اقسام

۱. بارش کا پانی

۲. جاری پانی جو زمین سے پھوٹ کر زمین پر بہہ رہا ہو

۳. کنوئیں کا پانی

۴. ٹھہرا ہوا پانی، جو نہ زمین سے پھوٹے اور نہ آسمان سے برسے

کُر پانی وہ ٹھہرا ہوا پانی جس کی مقدار زیادہ ہو

قلیل پانی وہ ٹھہرا ہوا پانی جس کی مقدار کم ہو

مطہرات میں سے ایک سورج ہے

سورج درخت اور پودوں کو پاک کرتا ہے

نیز مکانات کو بھی کرتا ہے

نکتہ:احکام کے استاد کا ڈرائنگ ماسٹر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کلاس میں کوئی فرد اچھی ڈرائنگ جانتا ہو تو اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ پہلے سے ڈرائنگ شیٹ پر تصاویر بنی ہوئی ہوں اور ان کا چارٹ اپنے ساتھ لے جائے۔

اسی طرح نماز آیات میں چاند گرہن، سورج گرہن، زلزلہ، طوفان وغیرہ کی بھی تصاویر بناکر پیش کی جاسکتی ہیں۔

۲ ۔ معما: کلاس کے جمود کو توڑنے کے لئے کوئی سوال اٹھا دیا جائے مثلاً وہ کون سی نماز ہے جو بغیر وضو بھی جائز ہے؟ (نماز میت)

۳ ۔ شعر: مطالب کے نقل و انتقال میں اشعار کی تاثیر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آج بہت بہت سی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی شہرت کے لئے شعر پر مبنی ایڈوَرٹائز بناتے ہیں۔ نیز علمائے اسلام نے بھی اس ہنر سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔

توجہ: وہ درس جس میں ہم صرف ایک جگہ زانو طے کرکے یا کرسی پر بیٹھ کر اور چہرہ پر رعب ڈال کر سیدھے سیدھے مسائل بیان کرتے رہیں۔ نہ اس میں کوئی معما ہو، نہ نقاشی و تصویر ہو یا شعر وغیرہ سے بالکل خالی ہو تو ایسا درس دلچسپ اور جاذب کیسے ہوسکتا ہے؟!

سوالات

۱. احکام کے درس میں مختلف ہنر سے استفادہ کا کیا فائدہ کیا ہے؟

۲. احکام کے درس میں نقاشی (ڈرائنگ) کی اہمیت بیان کریں؟

۳. پانی کے احکام یا مطہرات نقاشی کے ذریعے بیان کریں۔