آٹھویں نشست
دوسرا باب: کیفیت بیان
پہلی فصل: ضروریات
یہاں ضروریات سے مراد ایسے اصول اور روشیں ہیں ، جن کا احکام بیان کرتے وقت خیال رکھنا ضروری ہے۔
الف: اصول
اصول اول۔ سادہ گوئی
یہ شریعت ، شریعت سہلہ ہے اور اسے احکام قابل فہم ہیں خود پروردگار عالم کا ارشاد پاک ہے(
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
)
"اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے"۔
پس پیچیدہ اور مشکل الفاظ کے بجائے اسے سادہ اور آسان زبان ہی میں بیان کرنا چاہیے۔ ہم اس سے قبل حضرت علی علیہ السلام کا فرمان نقل کرچکے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں: "بہترین کلام وہی ہے جو منظم ہو اور اسے خاص و عام بآسانی سمجھ لیں"۔
حضور سرور کائناتﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا: "یَسِّرۡ وَلَا تُعَسِّر
"
آسان کرو ان پر سختی نہ کرو۔
حضور ؐ نے معاذ کو یمن کا حاکم، ولی یا گورنر بنا کر نہیں بھیجا تھا بلکہ انھیں مبلغ کی حیثیت سے وہاں اعزام کیا تھا اور آنحضرتؐ کا مقصد ظاہراً تبلیغ دین تھا یعنی تبلیغ دین میں ایسی روش اور طریقہ کار اپناؤ کہ جس کے ذریعے لوگوں کے لئے دین سمجھنا مشکل نہ رہے یعنی وہ دین کو مشکل اور سخت نہ سمجھیں۔ پس ہمیں بھی احکام بیان کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم احتیاط واجب کو احتیاط مستحب یا واجب کو مباح کہہ دیں۔ بلکہ مطالب اتنے آسان اور سادہ کرکے بیان کرنے چاہئیں کہ مخاطبین بآسانی سمجھ لیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"أَحۡسَنُ الكلام ما لا تَمَجُّهُ الآذان وَ لَا يُتۡعِبُ فَهۡمُهُ الأفهام
"
۔
"بہترین کلام وہ ہے جو گوش نواز اور قابل فہم ہو"۔
یاد رہے کہ ہم احکام کو دو چیزوں کے ذریعے مخاطبین کے لئے آسان اور قابل فہم بنا سکتے ہیں:
(الف) غیر ضروری ناموس الفاظ و اصطلاحات سے اجتناب۔
(ب) چھوٹے اور رواں جملوں کا استعمال۔
سالہا سال مدارس میں پڑھتے پڑھتے اور اپنے ہم جماعت طلاب وغیرہ کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے کرتے علمی و فقہی اور فنی اصطلاحات ہماری زبان اوور روزمرہ محاورہ کا حصہ بن جاتی ہیں لیکن عوام کے اکثر افراد ان چیزوں سے نا آشنا ہوتے ہیں لہذا جب ہم اپنے درس اور تقریر وغیرہ میں یہ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو عوام کے لئے خاطر خواہ قابل استفادہ نہیں ہوتیں لہذا ہم درس دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کرنے اور غیر ضروری ناموس الفاظ و اصطلاحات سے اجتناب کی باقاعدہ مشق کرنی چاہیے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم قرآنی و روائی اور علمی اصطلاحات سے بالکل دوری اختیار کرلیں اور انھیں استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ نہیں! بلکہ صرف ایسی اصطلاحات جو غیر مانوس اور غیر ضروری ہیں ان سے اجتناب کیا جائے۔
ہمارے بزرگ فقہاء بھی اسی ر وش سے استفادہ کرتے ہیں اور توضیح المسائل میں ایسے الفاط و اصطلاحات بیان کرنے کی بجائے دوسرے الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں مثلاً: صلاۃ کے بجائے نماز اورصوم کے بجائے روزہ استعمال کرتے ہیں نیز فقاع کے بجائے آب جو۔
فریضہ = واجب
بیع و شرع = خرید و فروش وغیرہ
بعض اصطلاحات و الفاظ عربی ہونے کے باوجود ان کو اسی صورت میں استعمال کرنا ضروری ہے کیونکہ لوگ ان سے مانوس ہوتے ہیں جیسے وضو، غسل، نماز ظہر و عصر، خمس و زکات وغیرہ۔
بعض اصطلاحات اور کلمات ایسے ہوتے ہیں اگرچہ مخاطبین ان سے نا آشنا ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے یعنی اگر اہم یہ الفاظ استعمال نہ کریں تو ان کا بدل پیدا نہ کرسکیں گے جیسے غسل کا بدل نہیں ہے اور اگر ہم اس کا بدل بنا بھی لیں تو ممکن ہے وہ اس کے معنی و مفہوم کو کما حقہ بیان نہ کرسکے۔
ذیل میں ایسی ہی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
حد ترخّص، حد نصاب، وقف، وصیت، استحالہ، تبعیّت۔
پس فقہی اصطلاحات و لغات کی تین قسمیں ہیں:
۱ ۔ اصطلاحات و لغات مانوس: ایسی لغات و اصطلاحات جن سے مخاطبین آشنا اور مانوس ہوتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم کو خاطر خواہ سمجھتے ہیں جیسے نماز ظہر و نماز عصر ، خمس و زکات وغیرہ۔
۲ ۔ اصطلاحات و لغات نامانوس لیکن ضروری: ایسی اصطلاحات و لغات جن سے مخاطبین نا آشنا ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا استعمال ضروری ہوتا ہے جیسے حد ترخص اور حد نصاب وغیرہ۔
۳ ۔ اصطلاحات و لغات نامانوس و غیر ضروری: یعنی ایسی اصطلاحات و لغات جن سے مخاطبین مانوس نہیں ہوتے اور ان کے لئے ان کا بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے جیسے: استحالہ، شارع مقدس، قصد انشاء، جلالہ، تذکیہ، مسکرات، محجور، موجر، راہن، بایع ومشتری، جہرو اخفات، ثمن و مثمن، ربح سال، نقدین، عصیر عنبی، اکل و شرب وغیرہ۔
لیکن یاد رہے کہ اگر مخاطبین کی علمی سطح بلند ہے اور اس قسم کی اصطلاحات کے معنی و مفہوم کو سمجھتے ہیں یا اگر ان اصطلاحات کے معنی بیان کئے جائیں اور مخاطبین کے لئے اکتاہٹ کا باعث نہ ہو تو آہستہ آہستہ یہ اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
چھوٹے چھوٹے اور رواں جملوں سے استفادہ
علمی نقطۂ نظر سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مخاطبین کے لئے چھوٹے اور مختصر جملے سمجھنا آسان ہوتا ہے اور جلد ہی ان کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ یہاں بطور مثال ایک فقہی مسئلہ اصطلاحات سے پُر پیش کیا جا رہا ہے اس کے بعد اسے چھوٹے چھوٹے اور رواں جملوں میں تبدیل کرکے پیش کریں گے توجہ فرمایئے:
"اگر حیوان کی اوداج اربعہ، مستقبلاً الی القبلہ، بذریعہ آہنی آلہ، بوسیلہ یدِ مسلمان اور ذکر اسم جلالہ کے ہمراہ کاٹا جائے تو حلال ورنہ حرام ہے"۔
اس قسم کی گفتگو طلاب اور صاحبان علم کے لئے توضیح اور مناسب ہے لیکن عوام کے لئے عام طور پر قابل فہم و استفادہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر پورے مسئلہ میں وہ ایک اصطلاح بھی سمجھنے سے قاصر رہا تو حکم بیان کرنے کا مقصد حاصل نہ ہوسکے گا لہذا اسی مسئلہ کو مندرجہ ذیل طریقے سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے:
اگر جانور کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ ذبح کیا جائے تو حلال ہے ورنہ حرام ہوگا:
۱. چاروں معروف رگیں مکمل طور پر کاٹ دی جائیں،
۲. ذبح کرتے وقت حیوان کا گلا اور اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو،
۳. لوہے سے بنی ہوئی چیز سے ذبح کیا جائے،
۴. ذبح کرنے والا مسلمان ہو (چاہے مرد ہو یا عورت)،
۵. ذبح کے وقت اللہ کا نام یعنی "بسم اللہ" کہا جائے۔
اسی طرح ہم دیگرمفصل مسائل کو چند مختصر مسائل میں تبدیل کرکے آسان و رواں زبان میں پیش کرسکتے ہیں مثلاً آیت اللہ خمینیؒ کی توضیح المسائل سے مسئلہ نمبر ۷۴۴ منتخب کرکے یہی کام انجام دے رہے ہیں۔
"اگر دو عادل مرد وقت کے داخل ہونے کی خبر دیں یا انسان خود یقین کرکے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور نماز شروع کرے اور اثناء نماز میں اسے معلوم ہوجائے کہ ابھی تک وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے اور یہی حکم ہے اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے البتہ اگر اثناء نماز میں اسے معلوم ہو کہ وقت داخل ہوگیا ہے یا نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ اثناءِ نماز میں وقت داخل ہوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے"
یہ مفصل مسئلہ مندرجہ ذیل چار مختصر مسائل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جن میں سے دو کا تعلق اثناءِ نماز سے ہے اور دو کا تعلق نماز سے فراغت کے بعد سے ہے:
۱ ۔ اگر نماز گزار کو اثناء نماز میں معلوم ہوجائے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے۔
۲ ۔ اگر اثناء نماز میں نماز گزار کو معلوم ہوجائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے (یعنی ابھی تک نماز کا وقت شروع نہیں ہوا تھا اب شروع ہوا ہے) تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۳ ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ پوری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے تو نماز باطل ہے۔
۴ ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد معلوم ہو کہ نماز کا کچھ حصہ وقت سے پہلے پڑھا گیا ہے ؛ یعنی نماز کے دوران وقت داخل ہوا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
سوالات
۱. معاذ بن جبل سے نبی کریم ﷺ کا فرمان "یَسِّر وَلَا تُعَسِّر
" کس طرح احکام میں سادہ گوئی پر دلالت کر رہا ہے؟
۲. بیان احکام میں سادہ گوئی سے کیا مراد ہے؟
۳. فقہی اصطلاحات و لغات کی کتنی قسمیں ہیں؟ مثال کے ساتھ بیان کریں۔
۴. توضیح المسائل سے کوئی ایک مفصل مسئلہ منتخب کرکے اسے مختصر، رواں اور سادہ زبان میں بیان کریں۔
____________________