تیرھویں نشست
دوسری فصل: ممنوعات
گذشتہ فصل ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے درس احکام کی تیاری میں جنکا خیال رکھنا ضروری ہے اور اس فصل میں ان چیزوں کو بیان کیا جا رہا ہے جنہیں درس احکام میں بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور وہ چار چیزیں ہیں:
۱ ۔ وسواسی مسائل، ۲ ۔ اختلاف و تفاوت فتویٰ، ۳ ۔ دلائل احکام،
۴ ۔فلسفہ احکام، ان کی تفصیلات آگے بیان کی جائیں گی۔
۱ ۔ وسواسی مسائل
ایسے مسائل بیان کرنے سے پرہیزکرنا چاہیے کہ جنکی وجہ سے لوگ ضرورت سے زیادہ احتیاط کرنے لگیں اور شک کرتے کرتے وسواسی بن جائیں۔
احتیاط اگرچہ اچھی چیز ہے لیکن ہمیشہ اور ہر جگہ نہیں بلکہ بعض مواقع پر احتیاط کا ترک کرنا ہی بہتر ہوتا ہے،نیز شک و وسوسہ بالکل غیر مناسب چیز ہے۔ بعض مسائل صحیح ہونے کے باوجود کبھی کبھی ان کا بیان کرنا مشکل ساز ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں شک و وسوسہ اور بلاوجہ کی احتیاط جیسی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاً؛
٭اگر مکھی یا اس قسم کا کوئی جانور کسی تر چیز پر بیٹھ جائے اور اس کے بعد کسی پاک تر چیز پر بیٹھے تو اب اگر انسان کو یقین ہو کہ اس جانور کے ساتھ نجاست لگی ہوئی تھی تو وہ پاک چیز نجس ہوجائے گی ورنہ وہ پاک رہے گی۔
احکام کے درس کے لئے اس قسم کے مسائل کا انتخاب بالکل غیر مناسب ہے کیونکہ اس قسم کے مسائل کی وجہ سے لوگوں میں ضرورت سے زیادہ احتیاط اور شک و وسواس پیدا ہوجائیں گے۔
لیکن اگر اس قسم کے مسائل بیان کرنا بھی چاہیں تو تصویر کا دوسرا رخ بیان کرنا چاہیے یعنی اس طرح بیان کریں جب تک نجاست کے منتقل ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ چیز پاک رہے گی۔
٭غسل میں بال کے برابر بھی اگر کوئی جگہ دھونے کےبغیر رہ جائے تو غسل باطل ہے۔
اس مسئلہ کے سلسلہ میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے :"غسل میں تمام بدن کا دھونا ضروری ہے اور کوئی حصہ بغیر دھوئے نہیں رہنا چاہیے"۔
توضیح المسائل میں بال کے سر کی طرف اشارہ صرف احکام میں دقت نظر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تاکہ مکلفین اس امر کی پابندی کرتے رہیں اور پورے بدن کو دھونے کی طرف متوجہ رہیں۔
لیکن اگر اس قسم کے مسائل بیان کئے جائیں گے تو مخاطبین رفتہ رفتہ غسل میں چند منٹ کے بجائے ایک گھنٹہ صرف کردیں گے اور ایک بالٹی پانی کے بجائے ایک ٹنکی پانی خرچ کرنے لگیں گے۔
اکثر لوگ ہمارے انداز بیان کی وجہ سے وسواسی ہوجاتے ہیں، خوردبین لیکر نہایت باریک بینی کے ساتھ مسائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فقہی مسائل میں اس طرح کاغور و فکر اور دقت نظر کی ضرورت نہیں ہے خصوصاً جبکہ لوگوں کے وسواسی ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس قسم کے مسائل میں عرف عام کی نظر کافی سمجھی جاتی ہے۔
٭گوشوارہ وغیرہ کے لئے کان میں جو سوراخ کیا جاتا ہے اگر وہ اتنا کشادہ ہو کہ اس کے اندر کا حصہ نظر آئے تو اس کو دھو لینا چاہیے اگر نظر نہیں آتا تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے۔
پانی مایع ہوتا ہے اور آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کسی چیز پر ڈالا جاتا ہے تو اس کے تمام اطراف کو گھیر لیتا ہے مثلاً انگلیوں وغیرہ کا درمیانی حصہ پانی ڈالنے سے تر ہوجاتا ہے کیا اس قسم کی دقت نظر اور احتیاط کی ضرورت ہے؟ جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ نے وضو کے لئے ایک مد ( ۷۵۰ گرام) پانی اور غسل کے لئے ایک صاع (تین کلو) سے زیادہ پانی استعال کرنے کو منع فرمایا ہے۔
لہذا اس طرح بیان مسائل سے پرہیز کرنا چاہیے جس کی وجہ سے لوگ احکام سے دور ہوجائیں اور شک و وسوسہ کا شکار ہوجائیں۔
۲ ۔ اختلاف فتویٰ
عام طور پر رسالہ عملیہ میں جن مسائل میں تفاوت دیکھنے میں آتا ہے وہ فتویٰ میں اختلا ف نہیں ہوتا بلکہ:
(الف) کبھی کبھی طرز نگارش و عبارت میں اختلاف ہوتا ہے۔
(ب) کبھی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے لیکن فتویٰ دونوں مراجع کا ایک ہی ہوتا ہے مثلاً اظہر و ظاہر وغیرہ۔
(ج) کبھی فتویٰ میں اختلاف ہوتا ہے لیکن قابل جمع ہوتا ہے۔
(د) کبھی فتویٰ میں اختلاف ہوتا ہے اور قابل جمع بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر توضیح المسائل میں ہم دیکھیں کہ مسائل میں قسم "الف" والا اختلاف و تفاوت ہے تو اس کا کوئی علمی و عملی ثمرہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہر مرجع اپنے ذوق کے مطابق رساتر عبارت استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگوں کے لئے مسائل سمجھنا آسان ہوجائیں۔
اگر قسم "ب" والا اختلاف نظر آئے تو اگرچہ اس کا علمی ثمرہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی عملی ثمرہ نہیں ہوتا لہذا اسے رسالۂ عملیہ کے بجائے رسالۂ علمیہ میں بیان کرنا چاہیے مثلاً ایک مجتہد فرماتے ہیں کہ "واجب ہے" جبکہ دوسرے مجتہد فرمائیں کہ "وجوب ، قوت سے خالی نہیں ہے"۔
یہ دو تعبیریں ہیں اور دونوں فتویٰ ہیں، مقام عمل میں اس کی کوئی تاثیر نہیں ہے یہ صرف ایک علمی تعبیر ہے جو حوزہ علمیہ میں اہل فن کے لئے بہتر و مفید ہے لیکن مقامِ عمل میں مقلِّد کے لئے اس پر عمل کرنا بہرحال ضروری ہے۔
نیز اسی جیسی دیگر تعابیر مثلاً، بعید نہیں ہے، مشہور ہے، اشہر ہے، بظاہر ایسا ہی ہے ، قوت سے خالی نہیں، وجہ سے خالی نہیں، ان تمام اختلاف و تفاوت کا کوئی عملی اثر نہیں ہے، اس طرح یہ تعابیر مثلاً محل اشکال ہے، اشکال سے خالی نہیں یا احتیاط واجب وغیرہ ان میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔
قابل جمع اختلاف فتویٰ
درحقیقت مراجع تقلید کے جن فتاویٰ میں عمل کے اعتبار سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں یا یہ اختلاف قابل حل اور قابل جمع ہوتا ہے یا نا قابل جمع ہوتا ہے۔ قابل جمع سے مراد یہ ہے کہ ایک فتویٰ بیان کرکے بقیہ دیگر فتاویٰ سے قطع نظر کرتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے مجتہد کے مقلدین اگر اس پر عمل کرلیں تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
یعنی جب ہم ایک فتویٰ بیان کریں اور دیگر مجتہد کے مقلدین بھی اس پر عمل کریں تو گویا انھوں نے:
۱ ۔ کوئی واجب ترک نہیں کیا،
۲ ۔ کسی حرام کا ا رتکاب نہیں کیا ہے۔
پس یہاں اختلاف بیان کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اگر انھوں نے اس بیان کردہ مسئلہ پر عمل کرلیا ہے تو گویا انھوں نے اپنے وظیفہ کو انجام دیا ہے، گرچہ ممکن ہے مستحب ترک ہوجائے، لیکن حرام کا مرتکب نہ پائے گا۔
البتہ جہاں اختلاف فتویٰ غیر قابل جمع ہو تو وہاں اشارہ کر دینا ضروری ہے۔ پس تمام اختلاف و تفاوت فتاویٰ کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ذیل میں اختلاف فتاویٰ کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن کا لوگوں کے سامنے تذکرہ کرنا ضروری نہیں ہے:
۱ ۔ "نجس برتن کو قلیل پانی میں تین مرتبہ دھونا ہوگا بلکہ کُر اور جاری پانی میں بھی احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے"
۔
بعض مراجع تقلید فرماتے ہیں کہ کُر اور جاری پانی میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔ اب اگر ہم یہ فتویٰ بیان کریں کہ کُر اور جاری میں تین مرتبہ دھونا چاہیے، اگر وہ شخص جو ایسے مجتہد کی تقلید کرتا ہے جو ایک مرتبہ دھونے کو کافی سمجھتا ہے؛ تین مرتبہ دھوئے تو کیا برتن پاک نہیں ہوگا؟ حتماً ہوجائے گا۔
لہذا یہاں اختلاف فتویٰ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۲ ۔ دونوں ہاتھ دھو لینے کے بعد وضو کے پانی کی تری سے جو کہ ہاتھ میں رہ گئی ہے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا جائے۔
بعض مراجع تقلید کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جبکہ بعض مراجع کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے ضروری ہے۔
اب اگر ہم اس طرح مسئلہ بیان کریں اور کہیں: "مسح دائیں ہاتھ سے کرنا ضروری ہے" اور دوسرے مرجع عالی کے مقلد نے جاکر ہمارے کہنے کے مطابق وضو کرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے مسح انجام دیا تو کیا اس نے کسی واجب کو ترک کیا ہے اور اس کا وضو باطل ہو جائے گا؟
۳ ۔ پاؤں کے مسح میں بھی بعض مراجع پاؤں پر اُبھری ہوئی جگہ تک جبکہ بعض ٹخنوں تک ضروری سمجھتے ہیں۔
اگر ہم نے دوسری نظر کے مطابق مسئلہ بیان کیا تو پہلی نظر کے مطابق بھی کوئی مشکل پیش آئے گی۔
۴ ۔ غسل جبیرہ کا حکم وضو جبیرہ کی طرح ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر اسے ترتیبی انجام دیا جائے نہ ارتماسی۔ جبکہ بعض ترتیبی کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔
اگر پہلا فتویٰ بیان کردیا جائے تو دوسرے کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۵ ۔ انسان رکوع میں جو ذکر بھی پڑھے کافی ہے بشرطیہ کہ تین مرتبہ "سبحان اللہ" کی مقدار سے کمتر نہ ہو۔
جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ ذکر احتیاط واجب کی بنا پر تین مرتبہ "سبحان اللہ" کی مقدار سے کمتر نہ ہو۔
اگر ہم اس طرح صحیح فتویٰ بیان کریں: "ذکر تین مرتبہ سبحان اللہ کی مقدار سے کمتر نہ ہو" تو کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ اگر دوسرے مجتہد کا مقلد بھی اس پر عمل کرے گا تو اس نے احتیاط واجب پر عمل کرلیا ہے۔
ناقابل جمع اختلاف فتویٰ
کبھی کبھی مراجع تقلید کے فتاویٰ میں اس طرح تفاوت و اختلاف نظر پایا جاتا ہے جو ناقابل جمع ہوتا ہے؛ ایسی صورت میں تذکر دینا ضروری ہوتا ہے۔ مسئلہ کی وضاحت کے لئے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
۱ ۔ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا نذر کرنا باطل ہے چاہے نذر کا تعلق مال سے ہو یا غیر مال سے، چاہے حق شوہر کی منافی ہو یا منافی نہ ہو۔
جبکہ اس کے مد مقابل یہ فتویٰ ہے کہ جب حق شوہر کے منافی ہو تو باطل ہے۔
ان دونوں فتووں کے اختلاف و تفاوت میں علمی اثر پایا جاتا ہے اور یہ قابل جمع بھی نہیں ہے۔
اگر اس موقع پر آپ کہہ دیں کہ تمہاری نذر باطل ہے تو جس مجتہد کا کہنا ہے کہ تمہاری نذر صحیح ہے اگر آپ کے بیان کردہ فتوی کے مطابق اپنی نذر پر عمل نہ کرے تو اس نے واجب کو ترک کر دیا ہے۔
۲ ۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ (بِیٹھ) نجس ہے
۔ جبکہ بعض مراجع کی نظر کے مطابق نجس نہیں ہے۔
۳ ۔ اگر عورت مرد کے برابر یا اس سے آگے کھڑی ہو تونماز باطل نہیں ہے جبکہ بعض مراجع تقلید فرماتے ہیں کہ نماز باطل ہے۔
۴ ۔ اگر نامحرم عورت اور مرد خلوت میں نماز پڑھیں تو نماز باطل نہیں ہے ، جبکہ بعض مراجع عظام کے نزدیک باطل ہے۔
۵ ۔ سفر جس کا شغل ہے جیسے ڈرائیور وغیرہ تمام مراجع فرماتے ہیں کہ وہ سفر میں پوری نماز پڑھے لیکن سفر جس کے شغل کا مقدمہ ہے جیسے ڈاکٹر ایک شہر میں رہتا ہے لیکن اس کا مطب دوسرے شہر میں ہو تو اس مسئلہ میں بعض مراجع فرماتے ہیں کہ پوری نماز پڑھے گا جبکہ بعض فرماتے ہیں کہ اس کی نماز قصر ہے۔
پس اگر یہاں ایک فتویٰ بیان کردیا جائے تو دوسرے مرجع کا مقلد اس پر عمل نہیں کرسکتا ہے اور اگر عمل کرے گا تو واجب ترک ہوجائے گا لہذا یہاں اختلافِ فتویٰ بیان کرنا ضروری ہے۔
یہ مختلف فتاویٰ میں ناقابل جمع ، تفاوت کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں جنکے بارے میں تذکر دینا ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ فتویٰ میں اس قسم کا تفاوت بہت کم موارد میں پایا جاتا ہے؛ لوگوں کو کس طرح خبردار کیا جائے؟
اگر موقع و محل اجازت دیں کلاس ہی میں اعلان کر دینا چاہیے اور اگر مصلحت کے خلاف ہو تو پھر مختلف مراجع کے مقلدین کو کاغذ پر لکھ کر دیدینا چاہیے۔یا مثلاً لفظ اختلافِ فتویٰ کے بجائے تفاوت اورفرق جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہیں اور اعلان کر دینا چاہیے کہ اس مسئلہ میں فرق یا تفاوت پایا جاتا ہے جو آپ کے سامنے بیان کیا جا رہا ہے۔
سوالات
۱. احکام کے درس میں کن چیزوں کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے؟
۲. وسواسی مسائل سے کیا مراد ہے مثال کے ساتھ بیان کریں؟
۳. اختلاف فتویٰ کی کتنی قسمیں ہیں مثال کے ساتھ بیان کریں؟
۴. کون سے تفاوت فتویٰ کے بارے میں مخاطبین کو تذکر دینا اور بتانا ضروری ہے مثال کے ساتھ بیان کریں؟
۵. قابل جمع تفاوت فتویٰ کی دو مثالیں بیان کریں۔
____________________