مقدمہ کتاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مختصر اثر میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں شیعہ و سنی علمی نظریات کی تحقیق اور جانچ پڑتال کی گئی ہے اور حتی الامکان معتبر شیعہ و سنی منابع سے استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالب کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
پہلے باب میں غیبت کی مفہوم شناسی کی گئی ہے۔ آغاز کلام میں لغوی معنی اور اہل لغت کے نظریات کو پیش کیا ہے پھر غیبت کے اصطلاحی معنی و مفہوم کو بیان کیا ہے۔ شیعہ و سنی مکتب فکر میں "امام عصر (عج) کی غیبت پر ایمان کی اہمیت" ایک اہم موضوع ہے جس کی مناسب تحلیل کرتے ہوئے امام زمانہ (عج) کی ولادت کے بارے میں شیعہ سنی علماء کے اقوال پیش کئے گئے ہیں اور پھر غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں علمائے اسلام کے کلی نظریات بیان کئے ہیں اور آخر میں ان نظریات کے نتائج کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسرے بابمیں امام عصر (عج) کی غیبت کو ثابت کیا گیا ہے۔ پہلی فصل امکان اصل غیبت اور دوسری فصل اثبات غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں ہے۔ امکان اصل غیبت کے سلسلہ میں ہم نے آیات قرآن کریم اور روایات معصومین علیہم السلام کے ذریعے استدلال کیا ہے؛
نیز فصل دوم میں دو قسم کی آیت کریمہ و روایات شریفہ کے ذریعہ استناد کیا گیا ہے: پہلی قسم میں وہ آیات پیش کی گئی ہیں جو وجود امام عصر (عج) پر دلالت کرتی ہیں، جبکہ دوسری قسم میں وہ آیات بیان کی گئی ہے جو غیبت امام عصر (عج) کی تاویل یا تفسیر میں پیش کی گئی ہیں۔ اسی طرح روایات کو دو قسم کی احادیث عام و خاص میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ان کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ آخر میں غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں علماء اہل سنت کے اقرار و اعتراف کو بیان کرکے نتیجہ کو بیان کیا گیا ہے۔
تیسرا باب غیبت کی انواع اور حکمتوں کے بارے میں ہے۔ اس باب میں ایک اہم سوال کا جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ امام عصر ؑ کیوں غائب ہوئے ہیں اور اُن حضرت کی غیبت میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں معصومین و ائمہ ہدی (علیہم السلام) کی روایات میں بیان کردہ حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔
چوتھا بابفوائد غیبت امام عصر (عج) سے مختص ہے۔ اس باب میں دو اہم بحثیں کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ ہم نے آیات و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ غیبت پر ایمان بے فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کے فوائد موجود ہیں جو آئندہ بیان کئے جائیں گے۔ دوم یہ کہ غیبت امام عصر (عج) کے فوائد ذکر کئے گئے ہیں؛ ابتداء میں عمومی فوائد بیان کئے ہیں جو تمام موجودات عالم چاہے جاندار ہوں یا غیر جاندار سب کو پہنچ رہے ہیں اور پھر خصوصی فوائد بیان کئے ہیں جن کا تعلق صرف شیعوں سے ہے۔
پانچواں بابمہدویت کے بارے میں شبہات و سوالات سے مختص کیا گیاہے۔ یہاں شبہات کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلی قسم عقیدہ مہدویت اور آپ ؑ کی غیبت سے مربوط ہے، دوسری قسم مصداق مہدی اور تیسری قسم آپؑ کی طولِ عمر سے مربوط ہے۔
اس کے بعد عصر غیبت میں امام زمانہ (عج) سے ارتباط کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور آخر میں تمام مطالب کی جمع بندی اور نتیجہ گیری کی گئی ہے۔
شیعہ نکتہ نظر کے مطابق غیبت امام عصر (عج) بے پناہ توجہ اور خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ موضوع صرف شیعہ مکتب فکر ہی میں محدود نہیں ہے بلکہ اہل سنت کے یہاں بھی اصل مہدویت اور اس کی بہت سی فروعات پر بحث و گفتگو کی گئی ہے اور اس پر بے شمار تحقیقات انجام دی گئی ہیں۔ در دست تحقیق میں اس موضوع کے بارے میں شیعہ وسنی نقطہ نظر کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور درج ذیل سوالات کا مدلّل جواب دیا گیا ہے۔
سوالات
۱ ۔ غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں شیعہ و سنی کا کیا نظریہ ہے؟
۲ ۔ کیا قرآن و سنت سے اصل غیبت کا اثبات ممکن ہے؟
۳ ۔ کیا قرآن و سنت کی روشنی میں غیبت امام عصر (عج) قابل اثبات ہے؟
۴ ۔ امام عصر کی غیبت کی علت و حکمت کیا ہے؟
۵ ۔ امام غائب کا کیا فائدہ ہے؟
۶ ۔ عقیدہ غیبت کے ہم پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
اہمیت و ضرورت تحقیق
امام عصر (عج) کی غیبت کے بارے میں پیدا ہونے والے بے شمار شبہات نے دنیا کے مختلف علاقوں اور اسی طرح ہمارے پیارے وطن پاکستان کے گوشہ و کنار میں بسنے والے شیعہ وغیر شیعہ خصوصاً نسل جوان کے اذہان کو مشوش کردیا ہے۔ اسی نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ان سوالات و شبہات کی جانچ پڑتال اور جوابات دینے کے لئے ایک جامع تحقیق کا انجام دینا ضروری امر تھا۔
جدّت تحقیق
مباحث مہدویت میں پیدا ہونے والے نئے سوالات اور شبہات ایک خاص اور جدید تحقیق کا تقاضہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید انداز سے اس مسئلہ کی تحقیق انجام دی گئی ہے اور یہی چیز اس کے مشابہ تحقیقات سے تمایز کا سبب ہے۔
تاریخچہ
(الف) تاریخچۂ موضوع
اسلام کے نکتۂ نظر سے امام عصر ؑ کی غیبت کا موضو ع اتنا اہم ہے کہ حضور سرور کائناتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اسلام کی ابتداء ہی میں لوگوں کو اس موضوع کی طرف متوجہ فرما دیا تھا۔ غیبت امام عصر(ع) کے بارے میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل ہونے والی روایات ہمارے اس دعوے کی روشن دلیل ہیں۔ اسی طرح آنحضرت(ص) کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام، حاکمان وقت اور دیگر مسلمانوں نے اسے خاص اہمیت دی ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی کتب فریقین میں موجود روایات و وقائع تاریخی بھی اس حقیقت کی روشن دلیل ہیں۔ ہم یہاں پر بطور نمونہ دونوں فرقوں سے ایک ایک روایت نقل کر رہے ہیں:
شیعہ:
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: "القائم من ولدی اسمُه اسمی و کنیتُهُ کنیتی و شمائلُهُ شمائلی و سنّتُهُ سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی و یدعوهم الیٰ کتاب الله عزوجل من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی ومن انکره فی غیبته فقد أنکرنی و من کذّبه فقد کذّبنی و من صدّقه فقد صدقنی اِلی الله اشکو المکذبین لی فی أمره و الجاهدین لقولی فی شأنه و المُضلّین لأمتی عن طریقته
(
وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون
)
؛
قائم میرے فرزندوں میں سے ہیں ، ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہے۔ وہ رفتار و گفتار اور سیرت میں میری طرح ہیں لوگوں کو میرے آئین و شریعت اور کتاب خدا کی طرف دعوت دیں گے، جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اورجس نے ان کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ جس نے زمانہ غیبت میں ان کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا اور جس نے انکی تکذیب کی اس نے میری تکذیب کی اور جس نے انکی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی۔ جس نے انھیں جھٹلایا اور میری اس بات کا انکار کیا اور میری امت کو گمراہ کیا، تو خدا کی بارگاہ میں ، میں اس کی شکایت کروں گا۔ اور ظالم و ستمکار عنقریب اپنے کرتوتوں کا انجام دیکھ لیں گے۔"
اہل سنت:
جس طرح شیعہ معتبر منابع میں یہ روایت موجود ہے اسی طرح یہ روایت مذکورہ اہل سنت منابع میں بھی موجود ہے حتی کہ بعض کتب صحاح ستہ میں بھی موجود ہے اگرچہ جملہ "تکون له غیبهٌ و حیرةٌ یضل فیها الاُمم
" صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد نے نقل نہیں کیا ہے لیکن فرائد السمطین میں بالکل شیعہ منابع جیسی روایت کو عیناً نقل کیا ہے۔
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: "المهدی من ولدی اسمه اسمی و کنیته کنیتی أشبه الناس بی خلقاً و خُلُقاً، تکون غیبةٌ و حیرةٌ یضلّ فیها الامم ثم یقبل کاالشهاب الثّاقب یملؤها عدلاً و قسطاً کما ملئت جوراً و ظلماً
؛
مہدی میرے فرزندوں میں سے ہیں انکا نام میرا نام اور انکی کنیت میری کنیت ہے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خلق و خلق میں مجھ سے مشابہ ہوں گے ان کے لئے ایسی غیبت و حیرت ہے جس میں لوگ گمراہ ہوجائیں گے، پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح آئیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔
تاریخچۂ تحقیق و آثار موجود:
تاریخ تشیع میں موضوع غیبت کی اہمیت کے پیش نظر بیش بہا اور متعدد کتابی ں لکھی گئی ہیں۔ شیعہ و سنی تاریخ حدیث میں اس موضوع کے تحت کتب روائی خاص اور کتب روائی عام تحریر کی گئی ہیں۔ ہم یہاں موضوع غیبت کو بیان کرنے والی چند کتب کا تذکرہ کر رہے ہیں:
۱ ۔ شیعہ مکتب فکر
جب ہم غیبت کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو ہم انہیں تین گروہ میں تقسیم کرتے ہیں:
اول، امام حسن عسکری تک ائمہ معصومین کے پاکیزہ دورۂ حیات میں لکھی جانے والی کتابی ں (یعنی ۲۶۰ ھ ق تک لکھی جانے والی کتب)۔
دوئم، غیب صغریٰ میں لکھی جانے والی کتب ( ۲۶۰ ۔ ۳۲۹ ھ ق)۔
سوئم، آغاز غیبت کبریٰ سے عصر حاضر تک ( ۳۲۰ ھ ق کے بعد) لکھی جانے والی کتب۔
۱ ۔ ۲۶۰ ھ ق سے قبل موضوع غیبت بیان کرنے والی کتب۔
اَئمہ معصومین علیہم السلام کے اصحاب اور شاگردوں نے گیارہ معصومین ؑ کے دورۂ حیات میں تقریباً ۴۰۰ کتابی ں رشتہ تحریر سے منسلک کی تھیں جو "اصول اربعمائہ" کے نام سے مشہور ہیں۔ یہی کتب جنہیں اصول کہا جاتا ہے چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی شیعہ جوامع روائی کی اصل اساس قرار پائی ہیں۔ انہی آثار میں سے بعض میں غیبت امام عصر کے بارے میں حضور سرور کائنات اور ائمہ ہدی علیہم السلام سے روایات نقل کی گئی ہیں۔ لہذا کتب امامیہ میں سے بطور نمونہ امام محمد تقی و امام علی نقی علیہما السلام کے وکیل علی بن مھزیار
کی دو کتب "الملاحم" اور "القائم" ، "المشیخہ" تالیف حسن بن محبوب
( ۲۲۴ ھ ق)، "کتاب الغیبۃ" اثر ابو الفضل ناشری اسدی(متوفی تقریبا ۲۲۰ ھ ق)، کتاب "الغیبۃ" اثر فضل ابن شاذان نیشاپوری، کتاب "الغیبۃ" اثر علی بن عمران رباح قلانی (راوی امام صادق ؑ) کے نام لئے جاسکتے ہیں اور نجاشی نے ان تمام کا تذکرہ کیا ہے۔
نیز نہج المقال میں ایک کتاب بنام "الغیبۃ" کی علی بن فضال کی طرف نسبت دی گئی ہے، علی بن فضال اپنے والد کے واسطہ سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے تھے۔
۲ ۔ غیبت صغری ( ۲۶۰ ۔ ۳۲۹ ھ ق) میں موضوع غیبت پر لکھی جانے والی کتب
اس عرصے میں ضبط تحریر میں لائی جانے والی کتب عموماً ما قبل یعنی ۲۶۰ ھ ق سے پہلے لکھی جانے والی کتب و آثار پر اعتماد و انحصار کرکے لکھی گئی ہیں۔ ان آثار کے مؤلفین وہ فقہاء و مبلغین تھے جو خود امام عصر کی رہبری و سرپرستی میں مرکز وکالت کے زیر تحت مخفی طور پر سرگرم عمل تھے۔ لہذا ان کی ثبت کردہ اہم اطلاعات کو اس دور میں لکھی جانے والی تاریخی کتب میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
پس بطورہ نمونہ کتاب "الغیبۃ"تالیف ابراہیم بن اسحاق نہاوندی ، کتاب "الغیبۃ و الحیرۃ" از عبد اللہ ابن جعفر حمیری متوفی بعد از ۲۹۳ ھ ق اور "امامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ" اثر ابن بابویہ، (متوفی ۳۲۹ ھ ق) کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
عظیم عالم یعقوب کلینی ( ۳۲۹ ھ ق) نے بھی اصول کافی میں "الحجۃ" عنوان کے تحت غیبت کے موضوع پر بحث کی ہے۔ انہوں نے امام زمانہ (عج) کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے منسوب احادیث کو ثبت کیا ہے ۔ انہوں نے واقفیہ و امامیہ کے قدیم اہل قلم حضرات مثلاً حسن بن محبوب ( ۲۲۴ ق) وغیرہ سے روایات نقل کی ہیں۔ علاوہ بر ایں امامیہ کی اطلاعات اور مخفی فعالیت کا اصلی ماخذ امام زمانہ (عج) کے وکلاء تھے
۔
نجاشی اپنی معرکۃ الآراء کتاب رجال میں رقمطراز ہیں:
"شیخ کلینی نے اپنی عظیم اور قابل قدر کتاب کافی بیس سال کے عرصہ میں تدوین کی ہے اور انہوں نے ۳۲۹ ھ ق میں بغداد میں دارِ فانی کو الوداع کہا ہے۔"
البتہ نجاشی نے یہ بیان نہیں کیا ہے کہ شیخ کلینی نے جس بیس سال کے عرصہ میں کتاب کافی تدوین کی ہے وہ عرصہ کب شروع ہوا اور کب اختتام ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کافی کی تدوین کا زمانہ ۳۰۰ ھ ق تا ۳۲۰ ھ ق یعنی غیبت صغریٰ کے آغاز سے تقریباً چالیس سال قبل ہے۔
شیخ کلینی نے اپنی اس کتاب میں آٹھ ابواب امام عصر (عج) سے مختص کئے ہیں جن میں سے دو ابواب آنجناب ؑ کی غیبت کے بارے میں ہیں، پہلا باب تین اخبار اور دوسرا باب تیس ۳۰ روایات پر مشتمل ہے۔
۳ ۔ ۳۲۹ ھ ق کے بعد یعنی غیبت کبریٰ میں غیبت کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب:
۳۲۹ ھ ق میں غیبت کبریٰ کے واقعہ نے تاریخ امامیہ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ غیبت امام عصر (عج) ایک طرف طولانی ہونی کی وجہ سے اور دوسری طرف جدید شبہات کی جواب دہی کی وجہ سے مزید آثار و تالیفات کا تقاضہ کر رہی تھی بنابریں فقہاء و علمائے حقہ نے اس اہم ضرورت کے پیش نظر کمر ہمت باندھ کر اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور وقت کے ساتھ ساتھ بہترین و برترین آثار بطور یادگار چھوڑے ہیں؛ اس دور میں تدوین و ترتیب دیئے جانے والے آثار، بعد میں غیبت کے موضوع میں عقائدِ امامیہ کی اساس تصور کئے جاتے ہیں
۔ اس دور کے پانچ مشہور آثار مندرجہ ذیل ہیں:
٭ ۱ ۔ غیبت نعمانی؛ اس کتاب کے مؤلف ابوعبداللہ محمدبن ابراہیم ہیں آپ غیبت کبریٰ میں غیبت کے موضوع پر کتاب تالیف کرنے والے پہلے مؤلف ہیں۔
غیبت صغریٰ کے اوائل میں شہر نعمانیہ میں ابراہیم بن جعفر کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام انہوں نے محمد رکھا۔
ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم نعمانی کسب فیض اور طلب علم کے لئے بغداد میں شیخ کلینی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ شیخ کی کتاب کافی کا املا لکھا کرتے تھے۔
جناب شیخ نعمانی نے ۳۴۲ ھق کے اواخر میں اپنے کاتب محمد بن ابو الحسن شجاعی کو کتاب "الغیبۃ" املاء لکھوائی
اور اس کتاب کی تالیف کے سبب کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ:
"میں نے ایسے افراد سے ملاقات کی جو اپنے کو شیعہ مذہب سے منسوب کر رہے تھے، پیغمبر گرامی قدر سے وابستگی کا اظہار بھی کر رہےتھے اور امامت کے بھی قائل تھے لیکن وہ تفرقہ و اختلاف کا شکار ہوکر واجبات الٰہی میں سستی کر رہے تھے اور محرمات الٰہی کو سبک شمار کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اہل بیت کے حق میں غلو کر رہے تھے اور کچھ ان کے حق میں کوتاہی کر رہے تھے۔
بجز چند افراد کے، اکثر امام عصر و الزمان کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہوگئے تھے۔ لہذا ایسے میں میں نے غیبت امام عصر کے بارے میں معصوم و صادق ائمہ اطہار علیہم السلام کے اقوال و فرمودات کے نقل کے ذریعے بارگاہ خداوندی میں تقرب حاصل کرنا چاہا۔"
شیخ نعمانی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا ان کی نظر میں اس جماعت کے کثیر شبہات کو دور کرنے کے لئے شیخ کلینی کی نقل کردہ اخبار و روایات ناکافی تھیں۔ لہذا شیخ نعمانی نے اپنے پاس موجود بزرگوں کی ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کردہ احادیث و روایات کو جمع کرکے غیبت کے موضوع پر ایک مستقل اور جامع کتاب تالیف فرمائی۔
٭ ۲ ۔ کمال الدین و تمام النعمۃ؛ اس کتاب کے مؤلف شیخ صدوق ہیں آپ غیبت کبریٰ میں غیبت کے موضوع پر تالیف ہونے والی دوسری کتاب کے مؤلف ہیں۔
شیخ صدوق ۳۰۷ ھ ق میں پیدا ہوئے۔ شیخ نجم الدین قمی نے ان سے غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے ان کی اس خواہش کو قبول کرتے ہوئے ایران کے شہر "رے" میں اثبات غیبت کے سلسلہ میں کتاب کمال الدین و تمام النعمۃ لکھنا شروع کی
، اور آج اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے جسے الکساء پبلشرز کراچی نے اگست ۱۹۹۹ ء میں شایع کیا ہے۔
٭ ۳ ۔ الفصول العشرۃفی الغیبۃ؛ یہ کتاب شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تالیف فرمائی، البتہ اس سے قبل آپ نے اپنی مشہور و معروف کتاب الارشاد میں"بارہویں امام کی امامت کے بارے میں روایات و نصوص" کے عنوان سے ایک باب تشکیل دیا ۔
آپ نے ۲۷۳ ہجری قمری میں اپنے مناظرات کو جمع کرکے ایک کتاب کی شکل میں ترتیب دیا ہے
۔ البتہ صرف کتاب الفصول المختارہ ہی ہم تک پہنچی ہے۔ اس کتاب کی دو فصلیں غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں مناظرات سے مختص ہیں۔
انہوں نے اس کے بعد الفصول العشرۃ فی الغیبۃ تحریر فرمائی تھی۔
٭ ۴ ۔ الذخیرۃ ؛ یہ کتاب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کی تالیفات میں سے ایک ہے جو آپ نے اپنی معروف کتاب "العیون و المحاسن" سے چند فصلیں اختیار کرکے تحریر فرمائی۔
٭ ۵ ۔ الغیبۃ؛ اس کتاب کے مؤلف جناب شیخ طوسی ہیں۔ یہ کتاب آپ نے ۴۴۷ ہجری قمری میں تحریر فرمائی۔ آپ اس کتاب کا آغاز اس عنوان سے کرتے ہیں: (فصل فی الکلام فی الغیبۃ)
۔اس کے علاوہ اس سے قبل ۴۳۲ ھ ق میں ۴۷ سال کی عمر میں کتاب "الشافی فی الامامۃ" کا خلاصہ کیا اور انہوں نے سید مرتضی کی کتاب "الذخیرۃ" سے غیبت کے بارے میں چند سوالات و اشکالات کا تذکرہ کرکے ان کے جوابات بھی دیئے ۔
شیعہ علماء و افاضل نے امام عصر (عج) کے بارے میں کثرت سے کتابی ں تالیف کی ہیں ان میں سے بہت سی کتابوں میں امام زمانہ کے وجود اور آپ کی غیبت کے بارے میں ثبوت و دلائل پیش کئے گئے ہیں۔
حجۃ الاسلام جناب مستطاب فقیہ ایمانی نے اپنی کتاب "مہدی منتظر را بشناسید" میں ۳۶۷ کتب کا تذکرہ کیا ہے جن میں تقریباً ۲۳ کتابی ں کتاب الغیبۃ کے عنوان سے موجود ہیں۔
۲ ۔ مکتب اہل سنت:
استاد محمد دخیل اپنی معروف کتاب "الامام المہدی" میں بزرگان اہل سنت کی تالیف کردہ ۲۰۵ کتابوں کے نام بیان کرتے ہیں، جن میں سے ۳۰ افراد نے مستقل طور پر حضرت ولی عصر (عج) کے بارے میں کتابی ں لکھی ہیں، ۳۰ افراد نے اپنی کتب میں آنجناب کے بارے میں وارد ہونے والی روایات پر مشتمل فصل ترتیب دی ہے جبکہ باقی حضرات نے مختلف مناسبت سے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں نقل ہونے والی روایات کو اپنی اپنی کتب میں ثبت کیا ہے۔
جناب حجۃ الاسلام ہادی عامر ی صاحب نے اپنی کتاب "مہدی آل محمدؐ در کتب اہل سنت" میں امام زمانہ کے بارے میں لکھی جانے والی ۴۰ خصوصی اور ۱۱۵ عمومی کتابوں کے اسماء کا تذکرہ کیا ہے جن میں اہل سنت کے عظیم محدثین و علماء نے حضرت مہدی موعود کے بارے میں روایات کو نقل کیا ہے۔
ہم اس مقام پر پہلے ان منابع اور کتابوں کا ذکر کریں گے جن میں بطور عموم امام عصر (عج) یعنی حضرت مہدی (عج) کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں اس کے بعد ہم ان کتابوں کا تذکرہ کریں گے جن میں آنجناب کے (وجود ، غیبت، ظہور اور قیام کے بارے میں بطورِ خاص مطالب ذکر کئے گئے ہیں۔
عام کتب ومنابع
علمائے اہل سنت نے حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے جن کثیر تعداد روایات کو بزرگ صحابہ سے نقل کیا ہے وہ صحیح نسائی
کے علاوہ صحاح ستہ جیسی اہل سنت کی معتبر ترین منابع و مآخذ میں زمانہ قدیم سے موجود ہیں۔
مسند احمد بن حنبل:
احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ ہجری)( حنبلی فرقۂ اہل سنت کے پیشوا) نویں اور دسویں امام یعنی امام محمد تقی و امام علی نقی علیہما السلام کے ہم عصر تھے۔ انکی قلمبند کردہ کتاب مسند اہل سنت کی قدیم ترین و معتبر ترین مدرک اور منبع حدیث ہے جس میں احادیث مہدی علیہ السلام کو ثبت و ضبط کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری
محمد بن اسماعیل بخاری (متوفی ۲۵۶ ہجری) اہل سنت کے نامی ترین محدث اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہم عصر تھے، یہ عین امام زمانہ (عج) کی ولادت کے سال دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں احادیث خلفاء اثنا عشر نقل کی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر گرامی قدر کے بعد بارہ خلفاء ہوں گے، جو سب کے سب قریش سے ہوں گے، اسلام کی عزت اور وقار ان کے وجود سے وابستہ ہوگا۔ نیز باب "نزول عیسیٰ ابن مریم" میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا امام مہدی (عج) کی مدد و نصرت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
صحیح مسلم
تقریباً اسی زمانے میں مسلم بن حجاج نیشاپوری اپنی مشہور و معروف کتاب صحیح جو کہ صحاح ستہ کی دوسری عظیم کتاب شمار کی جاتی ہے اگرچہ وہ اپنی اس کتاب میں بخاری کی طرح امام مہدی (عج) کا نام استعمال نہ کرنے پر مُصِرّ ہیں لیکن اس کے باجود انہوں نے باب نزول عیسیٰ بن مریم میں "الفتن و اشراط الساعۃ "عنوان کے تحت ان سے کچھ احادیث نقل کی ہیں۔
سنن ابن ماجہ
مسلم کے بعد ابن ماجہ قزوینی (متوفی ۲۷۳ ہجری) اپنی مشہور کتاب سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شامل ہے، ایک مخصوص باب "باب خروج المہدی" میں احادیث مہدی رقم کرتے ہیں۔
سنن ابو داؤد
نیز اسی عصر میں ابو داؤد سیستانی (متوفی ۲۷۵ ہجری) اپنی کتاب سنن میں "کتاب المہدی" کے عنوان سے موعود اسلام کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کو ثبت کرتے ہیں۔
سنن ترمذی
نیز اسی عرصہ میں ترمذی (متوفی ۲۷۹ ہجری) اپنی کتاب سنن میں باب "ما جاء فی المہدی (رضی اللہ عنہ)" میں حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں رویات نقل کرتے ہیں۔
اہل سنت کے یہ بزرگ محدثین ششگانہ یعنی احمد بن حنبل، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد اور ترمذی جو کہ محدثین کی سربرآوردہ شخصیات شمار کئے جاتے ہیں انھوں نے حضرت مہدی (عج) کے بارے میں یہ کثیر تعداد روایات حضرت عمر بن خطاب، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، ثوبان غلام عمر، جابر بن عبد اللہ انصاری، جابر بن سمرہ، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، انس بن مالک، ابو سعید خدری، ام سلمہ (ام المومنین) وغیرہ سے نقل کی ہیں۔
علمائے متاخرین اور احادیث مہدی (عج)
ان محدثین ششگانہ کے بعد اہل سنت کے دیگر علماء و دانشمندوں نے اپنے سابقہ اساتذہ کی پیروی کرتے ہوئے اختصار و تفصیل کے ساتھ احادیث مہدی علیہ السلام کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس فراوان و کثیر تعداد سے ہم یہاں اختصار کا لحاظ کرتے ہوئے صرف چند کتب احادیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
۱. غریب الحدیث تالیف ابن قتیبہ دینوری (متوفی ۲۷۶ ہجری) ؛
۲. ملاحم تالیف حافظ ابو الحسن مناوی (متوفی ۳۳۶ ہجری)؛
۳. معجم صغیر، معجم اوسط اور معجم کبیر تالیفات حافظ طبرانی (متوفی ۳۶۰ ہجری)؛
۴. مسند علی، مسند فاطمہ اور جرح و تعدیل تالیفات حافظ دارقطنی (متوفی ۳۸۵ ھ)؛
۵. مستدرک الصحیحین تالیف حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ ہجری)؛
۶. اربعین، فوائد اورعوالی تالیفات حافظ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ ہجری)؛
۷. تفسیر کبیر، عرائس اور قصص الانبیاء تالیفات ابو اسحاق ثعلبی (متوفی ۴۳۷ ہجری)؛
۸. استیعاب تالیف ابن عبد ریہ اندلسی (متوفی ۴۶۳ ہجری)؛
۹. تاریخ بغداد تالیف ابوبکر خطیب (متوفی ۴۶۳ ہجری)؛
۱۰. الجمع بین الصحیحین تالیف حمید قرطبی (متوفی ۴۸۸ ہجری)؛
۱۱. مصابی ح السنۃ تالیف حسین ابن مسعود فراء؛
۱۲. تاریخ مدینہ دمشق تالیف حافظ ابن عساکر (متوفی ۵۲۷ ہجری)؛
۱۳. تفسیر کشاف تالیف محمود بن عمر زمخشری (متوفی ۵۳۸ ہجری)؛
۱۴. تاریخ موالید و وفیات الائمۃ تالیف ابن خشاب بغدادی (متوفی ۵۶۷ ہجری)
۔
یہ مختصر سی تعداد جسے ہم نے یہاں اہل مطالعہ کی اطلاع اور انکے اذہان کو مہمیز کرنے کے لئے بیان کی ہے اور ان تمام کتب کو رقم کرنے والے حضرات اہل سنت کے نامی گرامی علماء اور بزرگ حفاظ ہیں، جناب حجۃ الاسلام علی دوانی مدظلہ العالی نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے؛ جبکہ جناب ہادی عامر ی صاحب نے اپنی کتاب "مہدی آل محمد در کتب اہل سنت" میں تیسری صدی ہجری سے آج تک کے محدثین اہل سنت اور روایات مہدی موعود کو نقل کرنے والوں میں سے ۱۶۰ افراد کے اسماء کا ذکرکیا ہے۔
خاص کتب و منابع
تاریخ کے صفحات پر بہت سے اہل سنت دانشمندوں اور علماء کے نام نظر آتے ہیں جنہوں نے حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں مستقل کتابی ں تالیف کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علمائے متاخرین اپنے پر ارزش اور قیمتی و قدیمی منابع میں مہدی آل محمدؐ کے بارے میں فراوانی اور کثرت سے موجود اخبار و روایات سے اتنا زیادہ متاثر ہوئے کہ وہ حضرت مہدی موعود کے بارے میں جداگانہ اور مستقل علمی شاہکار ترتیب دینے پر مجبور ہوگئے اور نہایت عرق ریزی و جانفشانی کے ساتھ کتابی ں تحریر کی ہیں۔ انھوں نے اپنے ان علمی آثار میں حضرت مہدی موعود کے وجود، غیبت، ظہور، قیام اور حکومت کے بارے میں بحث و بررسی کی ہے۔ ہم اہل مطالعہ حضرات کی اطلاع کے لئے ان میں سے فقط چند منابع کی طرف ا شارہ کر رہے ہیں:
۱ ۔ المہدی تالیف ابو داؤد (صاحب سنن) (متوفی ۲۷۵ ہجری)؛
۲ ۔ صاحب الزمان تالیف ابو العنس محمد بن اسحاق بن ابراہیم کوفی، قاضی صمیرہ (متوفی ۲۷۵ ہجری)؛
۳ ۔ اربعین حدیث فی المہدی تالیف ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ ہجری)؛
۴ ۔ البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف یوسف گنجی شافعی (متوفی ۶۵۷ ہجری)؛
۵ ۔ عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر تالیف یوسف بن یحیی دمشقی شافعی (متوفی ۶۵۸ ہجری)؛
۶ ۔ احوال صاحب الزمان تالیف سعد الدین حموی (متوفی ۷۲۲ ہجری)؛
۷ ۔ العرف الوردی فی اخبار المہدی تالیف جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۰ ہجری) ؛
۸ ۔ رسالۃ فی المہدی تالیف ابن حجر مکی (متوفی ۹۷۳ ہجری) ؛
۹ ۔ البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان تالیف متقی ہندی (متوفی ۹۷۵ ہجری) ؛
۱۰ ۔ الردّ علی من حکم و قضیٰ ان المہدی جاء و مضیٰ تالیف ملا علی قاری ہروی (متوفی ۱۰۱۴ ہجری)؛
۱۱ ۔ابراز الوہم ا لمکنون من کلام ابن خلدون تالیف احمد بن محمد صدیق بخاری (متوفی ۱۲۴۸ ہجری)
۔
کتاب الفتن و الملاحم، حضرت مہدی موعود کے بارے میں ہم تک پہنچنے والی اہل سنت کی قدیم ترین کتاب ہے جسے حافظ نعیم بن حماد مروزی (متوفی ۲۲۷ ہجری) نے تالیف کیا ہے انکا شمار صحاح ستہ کے مؤلفین کے اساتذہ میں ہوتا۔ آج بھی اس کتاب کے نسخے دنیا کے مشہور و معروف کتب خانوں مثلاً کتابخانہ دائرۃ المعارف عثمانی حیدر آباد ہند، کتابخانہ ظاہریہ دمشق اور انگلستان کے میوزم میں موجود کتابخانہ وغیرہ میں موجود ہیں
۔
تحقیق کی حدود
یہ تحقیق کسی خاص عصر یا علاقے سے مخصوص نہیں ہےگرچہ اس میں پاکستان کے اندر موجود مسائل و شبہات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
اس تحقیق کا خاص موضوع غیبت امام عصر ہے اوراس میں غیبت سے متعلق مسائل و سوالات وغیرہ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ لہذا ہم اس میں امام مہدی (عج) کی امامت و عصمت پر تبصرہ نہیں کریں گے، اور چونکہ اس میں قرآن و سنت کی روشنی میں بحث کی گئی ہے لہذا عقلی و تاریخی ابحاث سے گریز کیا گیا ہے بلکہ شیعہ و اہل سنت حضرات نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو کچھ بھی غیبت امام عصر کے بارے میں بحث و گفتگو کی ہے ہم نے اسے یہاں تحقیق کے میزان میں جانچنے کی کوشش کی ہے۔
مشکلات تحقیق
۱ ۔ اکثر ابتدائی اور اولیہ منابع ناپید ہوگئے ہیں جبکہ موجودہ منابع میں سے اکثر تیسری صدی ہجری کے بعد کے منابع ہیں۔
۲ ۔ تحقیق کا موضوع تطبیقی ہونے کی وجہ سے نہایت احتیاط و دقت اور توجہ کا طالب ہے۔
____________________