غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)0%

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22622
ڈاؤنلوڈ: 3741

تبصرے:

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22622 / ڈاؤنلوڈ: 3741
سائز سائز سائز
غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

پہلا باب: مفہوم غیبت

پہلی فصل: غیبت کی تعریف

غیبت کی لغوی تعریف

لفظ "غیبت" ، مادۂ "غیب" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پوشیدہ ہونا، غائب ہونا ہے۔ مشہورومعروف لُغَوی راغب اصفہانی کا کہنا ہے:

"الغيب مصدر غابت الشمس وغيرها اذا استترت عن العين ؛ "غیب" مصدر ہے۔ سورج وغیرہ غائب ہوگیا، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب یہ نگاہوں سے پوشیدہ اور غائب ہوجائیں۔ غابَ عنِّی کذا؛ میری نگاہوں سے پوشیدہ ہوگیا۔ قرآن کریم میں آیا ہے:( اَم کان من الغایبین ) ؛ کیا وہ غائب ہوگیا ہے؟(۱) ؛ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد کے نہ دیکھنے پر کہا تھا"(۲) ۔

نیز راغب سے پہلے کہ بزرگ لُغَویّین جیسے ابن فارس (متوفی ۳۹۵ ہجری) اور بعد میں آنے والے جیسے ابن منظور (متوفی ۷۱۱ ہجری) اور فیومی (متوفی ۷۷۰ ہجری) وغیرہ کا کہنا ہے: "الغیب کُلّ ما غاب عنک "۔غیب یعنی ہر وہ چیز جو تم سے غائب ہو۔

پس غیب کے معنی پنہان و پوشیدہ اور ہر وہ چیز جو نگاہ یا علم سے مخفی و پوشیدہ ہو۔

صاحب مجمع البحرین رقمطراز ہیں:

"قوله تعالي :( وَأَلْقُوهُ فِي غَيابَة الْجُبِّ ) ،بفتح الغين، ‏ای فی قعره. سمی به لغيبوبته عن أعين الناظرين، ‏وکلّ شیء غيب عنک فهو غيابة ...، ‏وما من غائبة أی ما من شیء شديد الغيبوبة و الخفاء . ..."(۳)

اور صاحب لسان العرب تحریر کرتے ہیں:

"والغيب أيضاً ما غاب عن العيون وإن کان محصّلاً فی القلوب، ‏ويقال سمعت صوتاً من وراء الغيب أی من موضع لا أراه...، ‏وقد تکرر فی الحديث ذکر الغيب وهو کلّ ما غاب عن العيون "(۴)

غیبت کی اصطلاحی تعریف

غیبت کی اصطلاحی معنی کے سلسلہ میں چند صورتیں متصور ہیں:

۱ ۔ امام علیہ السلام ایام غیبت میں ایک مخصوص جگہ پر ماسوا سے کنارہ کشی کرکے گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔

۲ ۔ امام علیہ السلام ہر جگہ موجود ہیں لوگوں کے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں البتہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب و پوشیدہ ہیں۔

۳ ۔ انھوں نے لوگوں سے رابطہ منقطع کرلیا ہے البتہ صرف ضروری موقع پر ارتباط قائم کرتے ہیں۔

حضرت سے مربوط روایات میں تین قسم کے الفاظ "ظہور" ، "خروج" اور "قیام" کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ظہور اور حضور میں فرق پایا جاتا ہے؛ ظہور یعنی اس طرح آشکار و ظاہر ہونا کہ دیکھا جاسکے جبکہ حضور اس سے اعم ہے، یعنی حاضر ہونا چاہے دکھائی دے یا دکھائی نہ دے۔ جب یوں کہا جاتا ہے کہ حضرت غائب ہیں، ظاہر نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انکا فزیکل ظہور نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ حاضر بھی نہیں ہیں۔ بنابریں حضرت کو غائب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ ظاہر نہیں ہیں نہ یہ کہ حاضر بھی نہیں ہیں۔

بالفاظ دیگر حضرت کی غیبت کا مطلب انکا نامر ئی ہونا نہیں ہے اور نہ ہی یہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ عرصۂ غیبت کے دوران ظہور ہونے تک ایک وجود نامر ئی ہیں، لوگوں سے مکمل طورپر دور گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے ہیں؛ بلکہ روایات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ امام علیہ السلام کوچہ و بازار میں آمد و رفت کرتے ہیں، لوگوں کی محافل میں شرکت کرتے ہیں لیکن پہچانے نہیں جاتے۔(۵)

پس اصطلاحی طور پر غیبت ظہور کے مدّ مقابل ہے، جس کے معنی نگاہوں سے مخفی او رپوشیدہ ہونا ہے، غیبت بمعنی عدم حضور نہیں ہے۔ یہ معنی لغوی معنی سے بھی سازگار ہیں اور روایات سے بھی انہی معنی کی تائید ہوتی ہے بطور نمونہ ہم یہاں دو مثالیں پیش کر رہے ہیں:

علی بن محمد سمری کے پاس آنے والی توقیع شریف میں وارد ہوا ہے:

"... فقد وقعت الغيبة التامّة ، ‏فلا ظهور إلّا بعد إذن الله تعالي... ألا فمن ادّعی المشاهدة قبل خروج السفيانی والصيحة فهو کذّاب مفتر "(۶)

میری غیبت تامہ واقع ہوچکی ہے۔ اور جب اللہ کا حکم ہوگا اسی وقت ظہور ہوگا ۔۔۔ مگر جو خروج سفیانی اور صدائے آسمانی کے پیدا ہونے سے پہلے مجھے دیکھنے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔"

صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عبید بن زرارہ نے روایت نقل کی ہے: "يفقد الناس إمامهم فيشهدهم الموسم، ‏فيراهم ولا يرونه "(۷)

"لوگ اپنے امام کو گم کردیں گے (امام غائب ہوجائیں گے) لیکن موسم حج میں وہ حاضر ہوں گے البتہ وہ لوگوں کو دیکھیں گے مگر لوگ انھیں نہیں دیکھیں گے"۔

ان روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ امام عصر علیہ السلام ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ حاضر بھی نہیں ہیں۔

پس احادیث مہدویت پر غور و فکر اور جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان روایات میں غیبت کے دو معنی ہیں۔

اول یہ کہ وہ ہمارے انسانی اجتماعات سے دو ر زندگی بسر کر رہے ہیں اور لوگوں کی دسترس سے اس طرح دور ہیں کہ لوگ ان کے دیدار یا ملاقات کے لئے ان کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ گویا جس طرح ایک عام آدمی کو دیکھا جاسکتا ہے ، کوئی اپنا ہو یا غیر، کوئی بھی انہیں نہیں دیکھ سکتا۔

دوئم یہ کہ آنجناب اپنی چاہت کے مطابق عام لوگوں سے مخفی ہیں، ان کی نگاہیں انھیں دیکھنے سے عاجز ہیں اور سوائے چند پرہیز گار و وارستہ انسانوں کے کوئی بھی انھیں دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ جس طرح ارواح، ملائکہ اور جن انسانی اجتماعات میں موجود ضرور ہیں لیکن سوائے چند مخصوص افراد کے کوئی بھی انھیں دیکھنے پر قادر نہیں ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائکہ انبیاء کے علاوہ دیگر افراد کے لئے بھی ظاہر ہوئے ہیں اور انھیں بعض لوگوں نے اپنی نگاہوں سے دیکھا ہے جیسا کہ تاریخ کے صفحات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ جناب سارا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ جناب مریم کی مثال رقم ہے۔

حضور سرور کائنات جناب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں جبرئیل علیہ السلام دحیہ کلبی نامی ایک صحابی کی شکل و صورت میں ظاہر ہوتے تھے جبکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ دحیّہ ہیں۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر بھی مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے سامنے فرشتے ظاہر ہوئے تھے۔(۸)

دوسری فصل: غیبت امام عصر (عج) پر ایمان کی اہمیت

حقیقت یہ ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا لہ الفداء کی غیبت و ظہور کا مسئلہ صرف شیعہ اثنا عشری مذہب سے مختص نہیں ہے بلکہ ایک منجی عالم کی آمد فریقین کی کتب میں موجود قطعی دلائل سے قابل اثبات ہے۔ منجی عالم کے وجود کے معتقدین خصوصاً مسلمانوں میں شیعہ مذہب نے اس مسئلہ کو خاص اہمیت دی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق منجی عالم، حضور سرور کائنات پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاک و پاکیزہ آل سے ہیں، کیونکہ یہ دنیا کبھی بھی ایک سچے اور برحق امام سے خالی نہیں ہوسکتی اور یہ بات بالکل روز روش کی طرح واضح ہے کہ ان صفات کا حامل امام صرف ائمہ شیعہ ہی میں ہے جن کا سلسلہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے شروع ہوا ہے اور حضرت مہدی موعود (عج) پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اسلام میں حضرت کے وجود و غیبت پر ایمان کو خاص اہمیت حاصل ہے اور فریقین کی روایات کے مطابق غیبت امام عصر پر ایمان کو غیبت پر ایمان کے مصادیق میں سے شمار کیا گیا ہے۔

قرآن کریم غیب پر ایمان کو متقین کی صفات میں شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( الم ٭ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ٭الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ) (۹) ؛

"الم، یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ، یہ ایسے صاحب ایمان اور پرہیزگاروں کے لئے مجسم ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں"۔

قرآن کریم کے بعد اب اس سلسلہ میں فریقین کی روایات پیش خدمت ہیں:

شیعہ نقطہ نظر

غیبت امام عصر پر ایمان کے سلسلہ میں شیعہ کتب میں کثرت سے ایسی روایات موجود ہیں جو اس مسئلہ پر نہایت تاکید کر رہی ہیں اور اس پر ایمان کی اہمیت کو بیان کر رہی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"القائم من ولدی اسمُه اسمی و کنیتُهُ کنیتی و شمائلُهُ شمائلی و سنّتُهُ سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی و یدعوهم الیٰ کتاب الله عزوجل من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی ومن انکره فی غیبته فقد أنکرنی و من کذّبه فقد کذّبنی و من صدّقه فقد صدقنی اِلی الله اشکو المکذبین لی فی أمره و الجاهدین لقولی فی شأنه و المُضلّین لأمتی عن طریقته ( وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون ) "(۱۰)

"قائم میری اولاد میں سے ہوگا، جس کا نام میرا نام، جس کی کنیت میری کنیت، جس کے شمائل میرے شمائل، جس کی سنت میری سنت ہوگی۔ جو لوگوں میں میرے طریقے اور شریعت کو قائم کرے گا، لوگوں کو کتاب الٰہی کی طرف دعوت دے گا، جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

جس نے اس کی غیبت کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا، جس نے اسے جھٹلایا اس نے مجھے جھٹلایا، جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی۔ میں اللہ سے ان لوگوں کی شکایت کروں گا جنہوں نے اس امر میں مجھے جھٹلایا اور اس کے بارے میں میرے قول کا انکار کیا اور اس کے راستے میں میری امت کو گمراہ کیا۔( وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا اَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ) (۱۱) اور جنہوں نے ظلم کیا عنقریب وہ جان لیں گے کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں"۔

اہل سنت کا نقطۂ نظر

عقیدۂ مہدی علیہ السلام خود پیغمبر گرامی قدرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیش کیا اور لوگوں کو اسکی تعلیم دی ہے۔ علمائے اہل سنت کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کردہ روایات و احادیث کے مضمون کے مطابق یہ عقیدہ ضروریات دین اسلام میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کا انکار کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس قول کی وضاحت اور تائید میں ذیل میں چند روایات بطور مثال پیش کی جا رہی ہیں:

۔ "من کذّب بالمهدیّ فقد کفر "(۱۲) جس نے مہدی علیہ السلام کو جھٹلایا وہ کافر ہوگیا۔

۔ "من أنکر خروج المهدیّ فقد کفر "(۱۳) جس نے خروج مہدی کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔

۔"من أنکر خروج المهدیّ فقد کفر بما أنزل علی محمّد ومن أنکر نزول عيسي ‏فقد کفر ومن أنکر خروج الدجّال فقد ک فر "(۱۴) جس نے خروج مہدی کا انکار کیا اس نے (حضرت) محمدؐ پر نازل ہونے والی تمام چیزوں کا انکار کیا، جس نے نزول عیسیٰ کا انکار کیا وہ کافر ہوا اور جس نے خروج الدجال کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔

اس قسم کی روایات کی بنا پر بعض علمائے اہل سنت خروج مہدی علیہ السلام پر ایمان کو واجب اور بعض اس کے منکرین کو کافر سمجھتے ہیں۔

احمد بن محمد بن صدیق کا کہنا ہے:"حضرت مہدی علیہ السلام کے خروج پر ایمان رکھنا واجب ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق کی وجہ سے ان کے ظہور پر اعتقاد حتمی او رثابت ہے ۔۔"(۱۵)

سفارینی حنبلی(۱۶) ، ناصر الدین البانی(۱۷) اور عبد الحسین بن حمد العباد(۱۸) سے بھی یہ تعبیرات نقل کی گئی ہیں۔

فقیہ شافعی، ابن حجر تصریح کرتے ہیں: "اگر انکار مہدی اصل و اساس سنت کے انکار کا سبب ہو تو کفر ہے اوراس کا مرتکب واجب القتل ہے اور اگر صرف ائمہ اسلام سے عناد و دشمنی کی وجہ سے انکار کرے تو علی الاعلان اس کی توہین کی جائے اور سزا دی جائے تاکہ وہ اس عمل سے رُک جائے ۔۔۔"(۱۹)

احمد بن محمد بن صدیق غماری ازھری احادیث مہدی ؑ کے بارے میں کہتے ہیں: "یہ احادیث متواتر ہیں اور انکا منکر بدعت گزار اور گمراہ ہے"۔(۲۰)

آئندہ فصل میں ہم بعض ایسے علمائے اہل سنت کا تذکرہ کریں گے جو امام عصر (عج) کی غیبت کے قائل ہوئے ہیں۔ بنابریں جس مہدی علیہ السلام کی تکذیب اور انکار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب اور کفر کا سبب ہے وہ حضرت مہدی حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام ہی ہیں۔

تیسری فصل: ولادت امام عصر (عج) کے بارے میں اقوال علمائے اسلام

اگرچہ یہ بحث ہمارے رسالہ کے موضوع سے براہ راسست مرتبط نہیں ہے لیکن کیونکہ بعض محققین و صاحبان نظر یہ کہہ کر غیبت امام عصر (عج) کا انکار کردیتے ہیں کہ اصلاً ابھی تو انکی ولادت بھی نہیں ہوئی ہے اور جب ولادت ہی نہیں ہوئی تو پھر غیبت کا کیا سوال ۔ لہذا اس نقطۂ نظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے بطور مختصر اس موضوع کو بیان کردینا مناسب ہے۔

شیعہ علماء کا نقطہ نظر

شیعہ حضرات امام زمانہ (عج) کی ولادت کے بالکل اسی طرح معتقد ہیں جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی ولادت باسعادت پر اعتقاد و ایمان رکھتے ہیں۔

شیعہ عقیدہ کے مطابق امام عصر حضرت حجت بن الحسن العسکری شب نیمہ شعبان ۲۵۵ ؁ ہجری کو دنیا میں تشریف لائے(۲۱) اور آج تک بحکم خداوند عالم حضرت عیسیٰ کی طرح زندہ ہیں۔ شیعہ احادیث و تالیفات حضرت مہدی (عج) کی ولادت کو ایسے امور ثابت و مسلم میں شمار کرتی ہیں جس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے(۲۲) ۔ شیعہ حضرات اسی مناسبت سے طول تاریخ میں آج تک پندرھویں شعبان کی شب میں مساجد، امام بارگاہوں اور مقدس مقامات کے علاوہ اپنے گھروں پر جشن ولادت با سعادت امام مہدی علیہ السلام مناتے ہیں اور جگہ جگہ محافل و میلاد کا انعقاد کرتے ہیں۔

علمائے اہل سنت کا نقطۂ نظر

بعض علمائے اہل سنت کے نزدیک ولادت و غیبت امام زمانہ حضرت مہدی (عج) اثبات شدہ ہے، لیکن بعض کا خیال ہے کہ ابھی آپ کی ولادت ہی نہیں ہوئی ہے کہ غائب ہوں بلکہ آخری زمانے میں متولد ہوں گے۔

حضرت کی ولادت کا انکار کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر امام حسن عسکری ؑ کے یہاں مہدی نامی فرزند موجود ہوتا تو علمائے اہل سنت بھی اپنی کتابوں اور تحریروں میں اسکا ذکر کرتے،لیکن کیونکہ اہل سنت علماء نے اپنی تالیفات میں اس قسم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسکری ؑ کے اس قسم کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا۔ لہذا اہل سنت حضرت مہدی (عج) کو امام حسن عسکری ؑ کا فرزند تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آنجناب آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے۔

اس گروہ ثانی کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ حضرت مہدی (عج) کی ولادت کے مخفی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی ولادت سے کوئی بھی شخص مطلع ہی نہیں ہے اور یہ امر ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ امر شیعہ مکتب فکر کے مطابق امر مسلم و اثبات شدہ ہے۔ نیز اہل سنت کے علماء و مؤلفین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی اپنی کتابوں میں ۲۵۵ ہجری میں امام مہدی (عج) کی تاریخ ولادت ثبت کرتے ہوئے آپ کو امام حسن عسکری ؑ کا بلا واسطہ فرزند قرار دیا ہے۔

اس سلسلہ میں انجام شدہ تحقیق و جانچ پڑتال کے مطابق یہ موضوع سب سے پہلے اہل سنت کے قابل قدر دانشمند اور عالم دین شیخ سلیمان حنفی قندوزی بلخی مقیم قسطنطنیہ (متوفی ۱۲۹۴ ہجری) نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ینابی ع المودۃ میں بیان کیا ہے۔

تقریباً اسی دوران شیعہ نابغۂ زمان سید میر حامد حسین ہندی (متوفی ۱۳۰۶ ہجری) نے اپنی کتاب الاستقصاء الافحام میں ۔۔۔ ینابی ع المودہ میں ذکر شدہ افراد اور علماء کے اسماء میں ہندوستان وغیرہ کے دیگر بزرگ اہل سنت علماء (جنکی کتابوں کا انھوں نے مطالعہ کیا تھا) کے اسماء کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں انکے اقوال بھی ثبت کئے ہیں۔

عالی مقام محدث حاج میرزا حسین نوری (متوفی ۱۳۲۰ ہجری) نے اثبات غیبت امام عصر کے سلسلہ میں "کشف الاستار" نامی کتاب تالیف فرمائی جس میں آپ نے ان دو کتابوں (ینابی ع المودۃ اور استقصاء الافحام) سے استفادہ کرتے ہوئے چند دیگر افراد کے اسماء کا اضافہ کرتے ہوئے اہل سنت کے تقریباً چالیس ایسے علماء کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے اس موضوع پر خاص مطالب بیان کئے ہیں۔ امام زمانہ (عج) کے وجود مقدس کے بارے میں محدث اپنی دوسری ارزشمند کتاب نجم الثاقب میں ان میں سے بیس علماء کا تذکرہ کرتے ہیں۔

عصر گزشتہ کے بزرگ عالم مرحوم سید محسن امین عاملی مؤلف کتاب اعیان الشیعہ اپنی کتاب البرہان علی وجود صاحب الزمان، مرحوم شیخ علی یزدی اپنی کتاب الزام الناصب اور ان کے علاوہ کتاب الامام الثانی عشر، منتخب الاثر، ذرایع البیان اور الامام المہدی وغیرہ کے مؤلفین نے مذکورہ کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کتب میں دیگر افراد کے اسماء کا اضافہ کیا ہے اور کم و بیش اجمال و تفصیل کے ساتھ ان دانشمندوں اور علماء کے نام بیان کئے ہیں۔ ان میں سے کتاب منتخب الاثر کے مؤلف آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی نے مجموعاً ۶۵ افراد کے اسماء بیان کئے ہیں۔(۲۳)

دانشمند معاصر حجۃ الاسلام جناب علی دوانی صاحب نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام دانشمندان عامہ ومہدی موعود ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں تمام ان افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید پچاس افراد کا اضافہ کیا ہے اور مجموعی طور پر ۱۲۰ افراد و علمائے اہل سنت کا تذکرہ کیا ہے۔

اس تعداد میں سے اکثر علماء نے متفقہ اور واضح طور پر کہا ہے کہ ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری ؑ متولد سامر ا ۲۵۵ ؁ ہجری یا سنوات دیگر وہی مہدی موعود ہیں جن کا تذکرہ اہل سنت کی معتبر اور صحیح السند روایات میں آیا ہے اور ان کے علاوہ یہ کوئی اور دوسرا شخص نہیں ہوسکتا۔

مذکورہ تعداد ۱۲۰ افراد میں سے کچھ ایسے علماء ہیں جنہوں نے صرف امام حسن عسکری ؑ کے فرزند کا نام بیان کیا ہے یا فقط انکی ولادت کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں بیان کیا کہ یہی وہ مہدی موعود ہیں۔ لیکن انھیں مہدی موعود تسلیم کرنے کے لئے انکا فرزند امام حسن عسکری قبول کرلینا ہی کافی۔ بعض علماء مثلاً علاء الدولہ سمنانی، حافظ ذہبی اور ابن حجر مکی نے کہا ہے کہ ولادت کے بعد انکا انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انکا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو حضرت مہدی (عج) کو امام حسن عسکری کا فرزند تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جن لوگوں نے ولادت محمد بن الحسن ؑ کی خبر نقل کی ہے انھوں نے انکی شرح زندگانی اور سرنوشت بیان نہیں کی کہ وہ کہاں چلے گئے لہذا یہ چند افراد افکار شیعہ کو منحرف کرنے کے لئے کہنے لگے کہ حضرت مہدی (عج) کا انتقال ہوگیا ہے تاکہ شیعہ وغیرہ ان کے انتظار میں زندگی بسر نہ کریں۔(۲۴)

ہم یہاں اہل تحقیق اور مطالعہ سے شغف رکھنے والے حضرات کی اطلاع کے لئے بعض ایسے علمائے اہل سنت کا ذکر کر رہے ہیں جو امام عصر (عج) کی ولادت کے بھی قائل ہوئے ہیں اور انھوں نے حضرت کو حضرت امام حسن عسکری ؑ کا فرزند بھی تسلیم کیا ہے:

۱ ۔ علی بن حسین مسعودی (متوفی ۳۴۶ ہجری)

انھوں نے رحلت امام حسن عسکری ؑ کو ۲۶۰ ہجری کے حوادث میں قرار دیتے ہوئے امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کی تصریح کی ہے:"ابو محمد حسن عسکری بن علی نے ۲۶۰ ھ؁ میں وفات پائی اور یہ مہدی منتطر امام شیعوں کے بارہویں امام ؑ کے والد بزرگوار ہیں۔"(۲۵)

۲ ۔ عز الدین ابن اثیر (متوفی ۶۳۹ ہجری)

یہ اہل سنت کے بزرگترین مؤرخ ہیں۔ اپنی معروف کتاب "الکامل" میں ۲۶۰ ہجری کے حوادث میں تحریر کرتے ہیں:"اس سال میں ابو محمد عسکری نے وفات پائی، وہ شیعہ مکتب کے مطابق ائمہ اثنا عشر میں سے ایک ہیں، ان کی ولات ۲۳۲ ہجری میں ہوئی اور یہی محمد ؑ کے والد ہیں جنہیں شیعہ، منتظر کہتے ہیں۔"(۲۶)

۳ ۔ سبط ابن جوزی (متوی ۶۵۴ ہجری)

یعنی اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ و واعظ شمس الدین ابو المظفر یوسف بن قزاوغلی بن عبد اللہ بغدادی حنفی امام حسن عسکری ؑ کے بیان احوال کے بعد رقمطراز ہیں: " انکے فرزند کا نام محمد، کنیت ابو عبد اللہ اور ابو القاسم ہے۔ یہی حجت ،صاحب الزمان، قائم اور منتظر ہیں اور یہی ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے آخری امام ہیں۔"(۲۷)

۴ ۔ محمد بن یوسف شافعی گنجی (متوفی ۶۵۸ ہجری)

اہل سنت کے یہ مشہور عالم امام حسن عسکری ؑ کی وفات کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "انکے صرف ایک ہی فرزند محمد تھے اوریہی امام منتظر ہیں۔"(۲۸)

۵ ۔ ابن خلکان اشعری شافعی (متوفی ۶۸۱ ہجری)

انکے قلم نے تحریر کیاہے: "ابو القاسم محمد بن الحسن العسکریؑ شیعوں کے بارہویں امام ہیں۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظر وقائم ہیں ۔۔۔ ان کی ولادت جمعہ کے دن نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوئی اور والد کے انتقال کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی۔"(۲۹)

۶ ۔ ابو الفداء عماد الدین اسماعیل (متوفی ۷۳۴ ہجری)

یہ تحریر کرتے ہیں: "حسن عسکری ، قائم و منتظر اور صاحب سرداب کے والد ہیں اور یہ محمد منتظر شیعہ عقیدے کے مطابق بارہویں امام ہیں انھیں قائم و مہدی اور حجت بھی کہتے ہیں انکی ولادت ۲۵۵ ہجری میں ہوئی ہے۔"(۳۰)

۷ ۔ خواجہ محمد پارسا (متوفی ۷۲۲ ہجری)

یہ اپنی کتاب فصل الخطاب میں رقمطراز ہیں: "محمد فرزند حسن عسکری ؑ نیمہ شعبان ۲۵۵ ھ؁ میں پیدا ہوئے۔ انکی والدہ کا نام نرجس تھا۔ جب انکی عمر پانچ سال تھی اس وقت ان کے والد کا انتقال ہوا اور یہ اس وقت سے آج تک غائب ہیں، یہی شیعوں کے امام منتطر ہیں ان کا وجود خواص اصحاب ثقہ افراد کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔ خداوند عالم نے انھیں خضر و الیاس کی طرح طول عمر عطا فرمائی ہے۔ "(۳۱)

۸ ۔ ابن صباغ مالکی (متوفی ۸۵۵ ہجری)

اپنی کتاب الفصول المھمہ میں امام حسن عسکریؑ سے متعلق فصل کے آخر میں تحریر کرتے ہیں: "ابو محمد کے صرف ایک فرزند ہے وہ ہی حجت و قائم ہے اور سب لوگ اسی کی برحق حکومت کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔ خلیفہ وقت کے خوف، حالات کی تنگی و دشواریوں اور شیعوں کی قید و بند، اسیری سختیوں کی وجہ سے انکی ولادت مخفی اور ماجرا پوشیدہ رہا ہے۔(۳۲)

۹ ۔ میر خواند (متوفی ۹۰۳ ہجری)

یہ عالم اہل سنت اپنی کتاب روضۃ الصفاء میں یوں رقمطراز ہیں: "محمد ، حسن کے فرزند تھے۔ انکی کنیت ابو القاسم ہے۔ امامیہ والے انھیں حجت اور قائم مہدی سمجھتے ہیں۔ حضرت امام مہدی (رضی اللہ عنہ) کہ جنکا نام اور کنیت رسول گرامی کے نام اور کنیت پر ہے (عراق کے شہر) سُرَّمن رای (سامر ا) میں نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے اور والد بزرگوار کے انتقال کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی۔ خداوند نےانھیں سن طفولیت میں اسی طرح حکمت عطا فرمائی جس طرح حضرت یحیٰ ؑ نبی کو عطا فرمائی تھی اور انھیں بچپن میں اسی طرح امام قرار دیا ہے جس طرح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بچپن میں نبی مرسل قرار دیا تھا۔"(۳۳)

۱۰ ۔ ابن حجر ہیثمی مکی (متوفی ۹۷۳ ہجری)

یہ اپنے زمانے کے بزرگترین عالم اہل سنت شمار ہوتے تھے۔ یہ نہایت متعصب عالم دین ہیں انھوں نے شیعہ اعتقادات کی ردّ میں مشہور کتاب "الصواعق المحرقہ" بھی تالیف کی ہے۔ وہ اپنی اس کتاب کے آغاز میں لکھتے ہیں: "میں نے دیکھا کہ اس سال بہت کثرت سے رافضی (شیعہ) حج کے لئے مکہ آئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انکی کثرت سے آمد اہل سنت کے عقائد کو متزلزل کردے لہذا میں یہ کتاب لکھنے پر مجبور ہوگیا۔"

اگرچہ وہ حضرت مہدی منتظر اور انکی غیبت کے بارے میں شیعہ عقائد کو اپنی پوری سعی و کوشش کے ساتھ خطا اور غلط قرار دینا چاہتے ہیں لیکن جب ایک دوسرے مقام پر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اسماء کا ذکر کرتے ہیں تو حق و حقیقت انکے قلم پر جاری ہوجاتی ہے اور امام حسن عسکری ؑ کی شرح حال تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "انکے بعد انکا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام ابو القاسم محمد الحجۃ ہے۔ باپ کی وفات کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی اور پروردگار عالم نے انھیں اسی عمر میں حکمت عطا فرمائی ۔ انھیں قائم منتظر کہا جاتا ہے۔"(۳۴)

۱۱ ۔ محی الدین ابن عربی (متوفی ۶۳۸ ہجری)

یہ اپنی کتاب فتوحیات مکیہ میں لکھتےہیں: "جب زمین ظلم و جور سے بھر جائےگی اس وقت مہدی خروج فرمائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ آنجناب اولادِ رسول خدا اور نسل فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں۔ ان کے جد حسین ؑ ہیں اور والد گرامی حسن عسکری ؑ فرزند امام علی نقی ۔۔۔ فرزند حسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔ انکا نام رسول اللہؐ کے نام سے قرین ہے اور مسلمان رکن و مقام کے مابی ن انکی بیعت کریں گے۔"(۳۵)

شعرانی نے بھی اپنی کتاب الیواقیت الجواہر میں ابن عربی کے اسی قول کو نقل کیا ہے۔(۳۶)

۱۲ ۔ شیخ عبد اللہ بن محمد شبروای شافعی ( متوفی ۱۱۷۲ ہجری)

اپنی کتاب "الاتحاف فی حب الاشراف میں لکھتے ہیں: "بارہویں امام، محمد حجت ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہی مہدی منتظر ہیں۔ امام محمد حجت پسر امام حسن عسکری ؑ نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری کو متولد ہوئے۔"(۳۷)

۱۳ ۔ محمد امین سویدی بغدادی (متوفی ۱۲۴۶ ہجری)

یہ اپنی کتاب سبائک الذہب فی معرفۃ قبائل العرب میں امام حسن عسکری ؑ و دیگر ائمہ علیہم السلام کے اسماء کا ذکر کرنے کے بعد امام حسن عسکری کے خط شجرہ میں تحریر کرتےہیں: "محمد المہدی کی عمر اپنے والد گرامی کی رحلت کے وقت پانچ سال تھی۔ وہ متوسط القامہ (میانہ قد) تھے خوبصورت، خوبصورت بال ، ابھری ہوئی ناک اور روشن رخساوں کے مالک تھے۔"(۳۸)

۱۴ ۔ خیر الدین زرکلی (متوفی ۱۳۹۶ ہجری)

حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں یہ عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں: محمد بن الحسن العسکری بن علی الہادی ابو القاسم و صاحب الزمان و منتطر و حجت اور صاحب سرداب ہیں۔ یہ سامر ا میں پیدا ہوئے اور جب انکے والد کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر پانچ سال تھی۔"(۳۹)

چوتھی فصل: غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں علمائے اسلام کا کلی نظریہ

شیعت کا نقطۂ نظر

شیعہ نقطۂ نظر کے مطابق حضرت محمد بن حسن عسکری مہدی موعود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارہویں جانشین ہیں جنکی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوچکی ہے۔ شہادت امام حسن عسکری ؑ کے بعد وہ غائب ہوگئے تھے اورآج تک پردۂ غیبت میں بحکم خدا زندگی بسر کر رہے ہیں۔

شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین خدا کبھی بھی حجت الٰہی سے خالی نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ اگر زمین ایک لحظہ کے لئے بھی حجت خدا سے خالی ہوجائے تو اپنی تمام آبادیوںٰ کے ساتھ تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اس سلسلہ میں صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: "لَو بَقِيت الارضُ بِغَيرِ حُجَّة ٍ لَساخَت بِاهلِها "(۴۰) ۔

بنابریں شیعوں کا عقیدہ مہدویت ایک مسلم امر ہے کیونکہ تمام فرقِ اسلامی میں شیعوں کے اصول و امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ حضرت مہدی موعود پر نام و نشان کے ساتھ عقیدہ و معرفت رکھتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اگرچہ اصل مہدویت پر اعتقاد و وایمان رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عام طور پر حضرت مہدی ؑ کو امام حسن ؑ کا فرزند تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

شیعوں نے ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں ان سے ظہور کی کیفیت، زمانۂ قیام اور امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے بارے میں بہت سے سوالات کئے اور بے شمار احادیث و روایات نقل کی ہیں۔ انکے یہ سوال و جواب ، ائمہ معصومین ؑ کے دور میں انکے عقیدہ مہدویت پر بہترین دلیل ہیں۔

بیشک پیغمبر گرامی قدر اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس مہر تابان یعنی حضرت مہدی ؑ کے بارے میں فراوانی کے ساتھ صحیح السند روایات نقل کی گئی ہیں اور آنجناب کے بارے میں یہاں تک کہ آپ کی ولادت سے ماقبل بھی آپ کی ولادت کی کیفیت، غیبت اور قیام کے بارے میں بے شمار کتابی ں رشتہ تحریر سے منسلک کی گئیں اور علماء و افاضل نے نہایت محنت اور مشقت اور عرق ریزی کے بعد اس سلسلہ میں اپنے علمی شاہکار بطور یادگار چھوڑے ہیں، اور اسی اہتمام کے ذریعے شیعوں کے نزدیک اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک روایت کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں: "تکون له غيبة و حيرة تضل فيها الامم‏ (۴۱) ؛ ان (قائم) کے لئے غیبت و حیرت ہے جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے۔"

اہل سنت کا نقطۂ نظر

اصل ظہور حضرت مہدی علیہ السلام اسلام میں ثابت اور تمام فرق اسلامی میں مشترک امر ہے۔ اہل سنت کے یہاں بھی آنجناب کے بارے میں کثرت سے متواتر احادیث و ارد ہوئی ہیں۔ ایسے موضوعات بہت کم ہیں جنکے بارے میں اتنی کثیر تعداد میں احادیث نبوی وارد ہوئی ہوں۔ طرق اہل سنت اور انکے منابع و مآخذ میں یہ حقیقت اتنی زیادہ واضح و چشم گیر ہے کہ جس کی بنا پر بہت سے علمائے حدیث مثلاً حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی (ساتویں صدی ہجری) اپنی کتاب البیان میں، ابن حجر عسقلانی شافعی (نویں صدی ہجری) اپنی کتاب فتوح البلدان میں، ابن حجر ہیثمی کتاب الصواعق المحرقہ میں، شبلنجی کتاب نور الابصار میں، ابن صباغ کتاب الفصول المھمۃ، محمد الصبان کتاب اسعاف الراغبین میں، شیخ منصور علی کتابغایة المأمول میں انکے علاوہ دیگر علماء حضرت مہدی ؑ کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے متواتر ہونے کی تصریح کرتے ہیں یا انھوں نے دوسرے علماء سے انکےتواتر کو نقل کیا ہے۔

حضرت مہدی (عج) کی خصوصیات ، شمائل، نسب ، کیفیت ظہور اور انکے اقتدا میں حضرت عیسی بن مریم کے نماز پڑھنے کے بارے میں پیغمبر گرامی قدر اور صحابہ کرام مثلاً حذیفہ، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ابو سعید خدری، ابو امامہ باھلی، انس بن مالک اور ابو ہریرہ وغیرہ سے کثرت سے اخبار و روایات نقل کی گئی ہیں، اور حضور سرور کائنات ؐو صحابہ کرام ہمیشہ لوگوں کو انکے ظہور کا مژدہ سناتے رہتے تھے۔

شیعوں کی طرح بہت سے بزرگان اہل سنت نے بھی حضرت مہدی موعودؑ کی تمام خصوصیات کا اعتراف کیا ہے جن میں مندرجہ ذیل علماء کے اسماء سرفہرست بیان کئے جاسکتے ہیں: کمال الدین محمد بن طلحہ نے اپنی مشہور کتب مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول میں، سبط ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الائمہ میں اور شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی معروف کتاب ینابی ع المودۃ میں ان خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔

انکے علاوہ اور بہت سے علماء نے حضرت امام زمانہ (عج) کے بارے میں احادیث کو جمع کیا ہے اور اس سلسلہ میں مخصوص کتابی ں تالیف کی ہیں مثلاً محمد بن یوسف گنجی نے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تحریر کی ہے، حافظ ابو نعیم نے چہل حدیث ترتیب دی ہے۔ جبکہ ینابی ع المودۃ میں بہت سے بزرگان اہل سنت کے اعتراف کا ذکر کیا گیا ہے۔

رواجنی جو کہ مشہور علماء و محدثین اہل سنت مثلاً بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، ابو حاتم اور بزاز وغیرہ کے مشائخ میں سے ہیں اور ان سب نے ان سے روایت نقل کی ہے اور انکی وثاقت و صداقت پر تاکید کی ہے۔ رواجنی کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں: وہ امام زمانہ ؑ سے اتنا والہانہ عشق رکھتے تھے کہ اپنے سرپر تلوار لٹکائے پھرتے تھے تاکہ جیسے ہی حضرت ظہور فرمائیں تو وہ فوراً انکی خدمت میں پہنچ کر انکی رکاب میں جنگ کریں اور انکی مدد کریں(۴۲) ۔

اہل سنت کے بزرگ علماء خصوصاً ائمہ اربعہ نے بھی حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں روایات کو قبول کیا ہے۔ متقی ہندی (متوفی ۹۷۵ ہجری) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: "چاروں مذاہب کے علماء شافعی ، حنفی، مالکی اور حنبلی حضرت مہدی ؑ کے بارے میں منقول احادیث کی صورت پر ا تفاق نظر رکھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ اس موضوع پر ایمان رکھنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔"(۴۳)

اہل سنت کے مشہور و معروف مؤرخ قاضی بہلول بہجت افندی (متوفی ۱۳۵۰ ہجری ) بھی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں: "ظہور مہدی قائم آل محمد ؐ امت اسلامی کا متفق علیہ مسئلہ ہے جس میں کسی قسم کی تشریح و محاکمہ کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ حدیث "من مات ولم يعرف إمام زمانه فقد مات ميتة الجاهلية " علمائے عامہ و خاص کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ بنابریں مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حضرت صاحب العصر و الزمان کا اقرار نہ کرتا ہو۔"(۴۴)

بنابریں تمام فرق اسلامی حضرت مہدی (عج) کے وجود پر ایمان رکھتےہیں اور اس بات پر متفق ہیں یہ دنیا اور لوگوں پر تکلیف اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوسکتی جب تک کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور نہ ہوجائے۔ ابن ابی الحدید معتزلی اس سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:"قد وقع إتّفاق الفرق من مسلمين علي أنّ الدنيا و التکليف لا ينقضی إلّا عليه ؛ تمام فرق اسلامی اس بات پر متفق ہیں کہ ظہور تک یہ دنیا اور تکلیف اختتام پذیر نہیں ہوسکتی۔"(۴۵)

وہابی ت کا نقطۂ نظر

مسئلہ مہدویت اسلام کا اتنا واضح و روشن مسئلہ ہے کہ جسے یہاں تک کہ وہابی وں نے بھی قبول کیا ہے۔ اس مکتب فکر کی بنیاد رکھنے والے ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ ہجری) اپنی کتاب منھاج السنۃ النبویہ میں رقمطراز ہیں: "احادیث حضرت مہدی مشہور ہیں اور انھیں امام احمد بن حنبل، ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔"

سعودی عرب میں وہابی ت کے سب سے اہم مرکز مؤسسہ رابطۃ العالم الاسلامی کے ڈائریکٹر محمد علی کنانی نے ۱۹۷۶ ؁ عیسویمیں اس مرکز وہابی ت سے امام زمانہ کے بارے میں کینیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد صالح القزاز کے پیش کردہ سوالات کے جواب میں نہایت اہم مطالب بیان کئے تھے، مثلاً انھوں نے جواب میں لکھا: جب دنیا ظلم و فساد سے بھر جائے گی تو خداوند عالم حضرت مہدی کے وسیلہ سے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اور یہی پیغمبر اسلام کے آخری خلیفہ و جانشین ہیں جن کے بارے میں خود رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خبر دی تھی اور صحابہ کرام سے روایت کردہ بہت سی احادیث و روایات ا س کی تصدیق کر رہی ہیں۔

پھر وہ بطور دلیل بیس اصحاب کے نام تحریر کرتے ہیں اور بالآخر اپنے کلام کو اس جملہ کے ذریعہ ختم کرتے ہیں:

"إنّ الإعتقاد بخروج المهدی واجب و إنّه من عقائد السنة والجماعة ولا ينکره إلّا جاهل بالسنة ومبتدع فی العقيدة والله يهدی إلی الحقّ ويهدی السبيل (۴۶) ؛ ہمارے عقیدے کے مطابق قیام مہدی پر ایمان رکھنا (ہر مسلمان پر) واجب ہے اور یہ اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا جزء ہے، سوائے نادان (جاہل) و بدعت گزار کے کوئی اس کا انکار نہیں کرتا، خداوند سب کی حق اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرے۔"

۱۳۸۸ ہجری میں سعودی عرب میں دانشگاہ مدینہ میں ہونے والی کنفرانس میں وہابی وں کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز (متوفی ۱۴۲۰ ہجری) نے انکے قول کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا تھا: "مسئلہ مہدویت آشکار و روشن ہے اور اس کے بارے میں فراوان احادیث ہیں بلکہ یہ احادیث متواتر و مستحکم ہیں اور بہت سے اہل علم حضرات نے انکے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے، یہ امام جو کہ اس امت پر الطاف الٰہی ہے آخری زمانے میں ظہور کرے گا، حق و عدالت برپا کرے گا، ظلم و جور کا خاتمہ کردے گا اور خداوند عالم عدالت و ہدایت اور لوگوں کی راہنمائی کے لئے لوائے حق اس امت پر سایہ فگن کردے گا۔(۴۷) "

امام مہدی ؑ کے منکرین کا نقطۂ نظر

اگرچہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل شدہ نصوص و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام اور انکی غیبت پر اعتقاد رکھنا ضروریات دین اسلام میں سے ہے اور اقوال ِ علمائے اسلام میں بھی اس کی تصریح موجود ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کی ایک قلیل تعداد شیعہ و سنی کتابوں میں درج ہونے والی ان تمام معتبر روایات سے چشم پوشی کرتے ہوئے حضرت مہدی اور انکی غیبت کے عقیدے کو شیعہ اثنا عشری کے مختصات میں سے سمجھتی ہے:

احمد امین کتاب المہدی و المہدیہ فی الاسلام(۴۸) ، سعد محمد حسن کتاب المہدیہ فی الاسلام(۴۹) ، محمد فرید وجدی اپنی دائرۃ المعارف(۵۰) میں لفظ "سلم" کے تحت، طنطاوی اپنی تفسیر الجواہر میں اور محمد عبد اللہ عنان کتاب مواقف حماسہ میں اور انکے علاوہ بعض دیگر علماء بھی اس حقیقت کو چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اپنی کتابوں میں موجود تمام مطالب کو نادیدہ لیتے ہیں اور مسئلہ مہدی کو فقط ایک ایسا افسانہ خیال کرتے ہیں جس کے صرف شیعہ معتقد ہیں۔(۵۱)

اس راہ میں سب سے پہلے پیش قدمی کرنے والے صاحب، ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶ ہجری) ہیں۔

ابن حزم کے بارے میں ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور کتاب لسان المیزان میں نام "ابن حزم" کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں: "ابن حزم کے دور کے تمام علمائے عامہ نے ان کی تکفیر کی تھی۔"

ابن حزم اپنے ہم مذہب علماء کے رویہ کے باوجود اپنی کتاب جمھرۃ انساب القریش، ص ۶۱ پر گستاخی کے ساتھ لکھتے ہیں: "حسن عسکری ؑ رافضیوں کے آخری امام ہیں ! ان کے کوئی اولاد نہیں تھی!! رافضی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ صیقل نامی انکی ایک کنیز تھی جس نے انکی وفات کے بعد ایک بیٹے کو جنم دیا، لیکن یہ جھوٹ ہے!"(۵۲)

صاحب تفسیر المنار، محمد رشید رضا اپنی تفسیر میں آیت( لِيُظْهِرَهُ عَلَي الدِّينِ كُلِّهِ ) کے ذیل میں حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں نقل شدہ روایات پر تبصرہ کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ عقیدہ مہدی صرف شیعوں سے مربوط ہے یا ان لوگوں سے مربوط ہے جو شیعوں کی طرف تمایل رکھتے ہیں، وہ یہ سمجھ کر کلی طور پر احادیث مہدی ؑ کا انکار کرتے ہیں اور انھیں متضاد و غیر قابل قبول سمجھتے ہیں بلکہ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ عقیدہ مہدی کو مسلمانوں کے جمود اور پس ماندگی کاسبب قرار دیتے ہیں۔(۵۳)

کتاب المہدیہ فی الاسلام کےمؤلف لکھتےہیں: "ابن خلدون نے ان احادیث (حضرت مہدی سے مربوط احادیث) کو ضعیف و ناقابل قبول قرار دیا ہے۔"(۵۴)

مذکورہ نظریات کے نتائج

اہل سنت کی اکثریت ان اخبار و احادیث کی منکر نہیں ہے کیونکہ یہ روایات انکی معتبر کتب میں ثبت شدہ ہونے کے علاوہ کثرت تعداد کی وجہ سے بھی ناقابل انکار ہیں۔ بنابریں کوئی بھی آخری زمانے میں انکے ظہور، قیام، تمام ادیان پر انکے غلبہ اور روئے زمین پر انکے تسلط کا انکار نہیں کرتا ہے۔

ایک تقسیم بندی کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مہدی ؑ پر عقیدے کے سلسلہ میں اہل سنت تین دستوں میں تقسیم ہیں:

۱ ۔ پہلے دستے کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت کی ولادت ہوچکی ہے لیکن جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت آپ ظہور فرمائیں گے۔ یہ گروہ تمام اعتقادات میں شیعوں سے موافق ہیں۔

۲ ۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو حضرت کو نسل علی و فاطمہ و امام حسین علیہم السلام سے تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان پر حضرت کی ولادت کا امر مخفی ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ آنجناب کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے بلکہ جب قیام کا زمانہ قریب ہوگا وہ اس وقت متولد ہوں گے۔ یہ گروہ بقیہ خصوصیات، علائم اورکیفیات ظہور میں جیسا کہ روایات میں دیکھتے ہیں گروہ اول کی طرح ہیں۔

۳ ۔ تیسرے گروہ کا نظریہ ہے کہ حضرت مہدی ؑ سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں جو آسمان سے نازل ہوں گے۔ یہ لوگ روایات میں بیان کردہ خصوصیات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر منطبق کرتے ہیں۔ اس گروہ کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے نزدیک مردود و ناقابل قبول ہے۔ اور شاید آج اس دور میں کوئی بھی اس عقیدہ کا قائل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ نظریہ اس نظریہ کے بالکل بر خلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہونے کے بعد حضرت مہدی ؑ کے پیچھے نماز ادا کریں گے(۵۵) اور اس حقیقت کو شیعہ و سنی دونوں نے نص پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔

____________________

۱ ۔سورہ نمل (۲۷)، آیت ۲۰۔

۲ ۔راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن۔

۳ ۔احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۴، ص ۴۰۳؛ ابن منظور، لسان العرب؛ احمد بن محمد بن علی المقری الفیومی، مصباح المنیر، ج۱؛ سید اکبر قریشی، قاموس القرآن، ج۵، ص ۶ و۷؛ مجمع البحرین ، ص۱۳۰۔

۴ ۔لسان العرب، ج۱، ص ۶۵۴؛ ابن اثیر، نہایہ، ج۳، ص ۳۹۹؛ تاج العروس، ج۱، ص ۴۱۶۔

۵ ۔"بنفسی انت من مغیب لم یخل مِنَّا بنفسی من نارُحٍ ما نزح عنّا ؛ میری جان آپ پر قربان کہ آپ ہم سے بے خبر (اور دور)نہیں ہیں۔ اس کوچ کرنے والے پر میری جان فدا (جو ہم سے دور ہو کر بھی) ہم سے دور نہیں ہے۔" (مفاتیح الجنان،دعا ندبہ)۔

۶ ۔کمال الدین، ص ۵۱۶؛ بحار الانوار، ج۵۲، باب ۲۳، ص ۱۵۱، ح۱، کمال الدین اردو ترجمہ، ص ۴۸۹، توقیع ۴۴۔

۷ ۔ نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، فصل ۴، ح ۱۳ و ۱۴؛ الکافی، ج۲، ص ۱۲۳، ح ۶ و ص ۱۲۷؛ ح ۱۲، کمال الدین، ص ۳۴۶، ح ۳۳ و ص ۳۵۱ ح ۴۹ و ص ۴۴۰، ح ۷؛ دلائل الامامۃ، ص ۲۰۹ و ۲۹۰؛ اثبات الھداۃ، ج۳، ص ۴۴۳، ح ۱۹ و ص ۴۴۴، ح ۲۵ و ص ۴۸۵، ح ۲۰۵۔

۸ ۔اصول کافی، ج۲، ص ۵۸۷، ح ۲۵؛ شیخ صدوق، امالی، ص ۳۴۵، ح ۳۔

۹ ۔سورہ بقرہ (۲)، آیت ۱۔ ۳۔

۱۰ ۔کما الدین، ج۲، باب ۳۹، ح ۶، بحار الانوار، ج۵۱، ص ۷۳۔

۱۱ ۔سورہ شعراء (۲۶)، آیت ۲۲۷۔

۱۲ ۔عقد الدرر، ص ۱۵۷۔

۱۳ ۔فرائد السمطین، ج۲، ص ۵۹۔

۱۴ ۔القول المختصرفی علامات المہدی المنتظر، ص ۵۹۔

۱۵ ۔ابراز الوہم المکنون، ص ۴۳۳۔

۱۶ ۔الاذاعہ، ص ۱۲۶۔

۱۷ ۔مجلۃ التمدن الاسلامی،ش ۲۲، ص ۶۴۳۔

۱۸ ۔مجلۃ الجماعۃ الاسلامیۃ، ش۳۔

۱۹ ۔البرہان، ص ۱۷۸۔

۲۰ ۔المہدی المنتظر، ص ۵۔

۲۱ ۔شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۲۳۷۔

۲۲ ۔سید محمد کاظم قزوینی، الامام المہدی، ص ۱۱۱۔

۲۳ ۔علی دوانی، دانشمندان عامہ و مہدی موعود، ص ۴۔ ۲۔

۲۴ ۔ایضاً، ص ۴۱۔

۲۵ ۔مروج الذھب، ج۲، ص ۴۴۱۔

۲۶ ۔الکامل فی التاریخ، ج۵، ص ۳۷۳۔

۲۷ ۔تذکرۃ الخواص الامۃ، ص ۲۰۴۔

۲۸ ۔کفایۃ الطالب، ص ۳۱۲۔

۲۹ ۔وفیات الاعیان، ج۱، باب المیم، ص ۳۱۶، ش ۵۳۴۔

۳۰ ۔المختصر فی اخبار البشر (معروف بتاریخ ابو الفداء)، ج۲، ص ۵۸۔ ۴۵۔

۳۱ ۔فصل الخطاب (بر بنائے نقل ینابیع المودۃ، باب ۷۹، ص ۴۵۱)۔

۳۲ ۔ابن صباغ مالکی، الفصول المھمۃ، ص ۲۲۷۔

۳۳ ۔روضۃ الصفاء، ج۳، ص ۵۹۔ ۶۲۔

۳۴ ۔الصواعق المحرقہ، ص ۲۰۶۔

۳۵ ۔ابن عربی، فتوحات مکیہ، باب ۳۶۶۔

۳۶ ۔عبد الوہاب شعرانی، الیواقیت و الجواہر، ج۲، ص ۱۴۳۔

۳۷ ۔الاتحاف بحب الاشراف، باب پنجم، ص ۱۷۹۔

۳۸ ۔سوید بغدادی، سبائک الذھب فی معرفۃ قبائل العرب، باب۶، ص ۱۷۷۔

۳۹ ۔زرکلی، قاموس الاعلام، ج۶، ص ۸۰، لفظ محمد۔

۴۰ ۔الکافی، ج۱، کتاب الحجۃ، باب ان الارض لا تخلوا من حجۃ، ج۱۰۔

۴۱ ۔کمال الدین، ص ۲۸۷۔

۴۲ ۔میزان الاعتدال، ج۲، ص ۳۷۹۔

۴۳ ۔البرہان فی علامات المہدی آخر الزمان، باب ۱۳، ص ۱۷۷۔

۴۴ ۔تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمدؐ، ص ۱۳۹ و ۱۴۱۔

۴۵ ۔شرح نہج البلاغہ، ج۱۰، ص ۹۶۔

۴۶ ۔گنجی شافعی، البیان فی الاخبار صاحب الزمان، ج۲، ص ۱۳۳۔

۴۷ ۔نشریۃ الجامعۃ الاسلامیہ، ش۳، سال اول، ذی العقدہ ۱۳۸۸ ، ص ۱۴۶۔

۴۸ ۔المہدی و المہدویہ، ص ۱۰۸۔

۴۹ ۔المہدیہ فی الاسلام، ص ۶۹۔

۵۰ ۔دائرۃ المعارف قرن عشرین، ج۱۰، ص ۴۸۱۔

۵۱ ۔علی دوانی، دانشمندان عامہ و مہدی موعود، ص ۳۱۔

۵۲ ۔ایضاً۔

۵۳ ۔محمد رشید رضا، تفسیر المنار، ج۱۰، ص ۳۴۹۔

۵۴ ۔سعد محمد حسن، المہدیہ فی الاسلام، ص ۶۹؛ مقدمہ ابن خلدون، ص ۱۹۹۔

۵۵ ۔معجم الاحادیث المہدی، ج۱، ص ۵۴۳، ح ۳۶۴ و ص ۵۳۵، ح ۳۶۵ و ص ۵۳۷، ح ۳۶۶ و ص ۵۳۹ ، ح ۳۶۷۔