غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)0%

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22619
ڈاؤنلوڈ: 3737

تبصرے:

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22619 / ڈاؤنلوڈ: 3737
سائز سائز سائز
غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

دوسرا باب

دلائل غیبت امام عصر ؑ

ہم اپنی تحریر کے اس دوسرے باب میں دو محور پر گفتگو کریں گے اوراسی بنیاد پر ہم نے اسے دو فصلوں میں تقسیم کیا ۔ اول یہ کہ کیا قرآن و سنت نبی کریم کے ذریعہ اصل غیبت کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟ دوم یہ کہ قرآن و سنت میں امام عصر (عج) کی غیبت پر کیا دلائل موجود ہیں؟

پہلی فصل:اثبات اصل غیبت

اس فصل میں ہم پہلے اثبات اصل غیبت کے سلسلہ میں ایسی آیات پیش کریں گے جن کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ بشریت بلکہ عالم امکان میں بھی غیبت ممکن ہے یہ کوئی نئی اورانوکھی چیز نہیں ہے ۔ پھر اس کے بعد ہم اس سلسلہ میں روایات پیش کریں گے ۔

(الف) آیات

۱ ۔ امکان غیبت پر دلالت کرنے والی آیات

پروردگار عالم نے قرآن کریم میں ہدایت بشریت کے لئے تمام ۱ ہم مسائل یاواضح طور پر بیان کردئے ہیں یا انکی طرف اشارہ کرکے نبی کریم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیدیاہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ہدایت ونجات کے اسباب یا قرآن کریم میں تلاش کریں یا پیغمبر اسلام کے فرمودات میں ۔ امکان غیبت کو ثابت کرنے کے لئے ہم پہلے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ ان کےشان نزول وغیرہ پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم نے اس اہم موضوع کی جستجو کرنے والوں کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے اور اس میں ایسی آیات کریمہ موجود ہیں جو کسی چیز کے آنکھوں سے قلیل یا طویل مدت کے لئے پوشیدہ اور مخفی ہونے کے امکان پر دلالت کررہی ہیں ۔مثلا ً:

پہلی آیت

( وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لا يُبْصِرُونَ ) ( ۱ ) ؛ اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوارن ان کے پیچھے بنادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔

مفسرین ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ قریش جب حضور سرورکائنات کو ختم کرنے کے ارادے سے درخانہ رسالت پر جمع ہوئے آنحضرت جس وقت اپنے گھر سے باہر آئے تو آپ نے ان کی طرف خاک پھینک دی جس کی وجہ سے وہ لوگ سرکار انبیاء کو دیکھ نہ سکے ۔( ۲ )

ابن عباس کہتے ہیں :

قریش نے جمع ہوکرکہا : جیسے ہی محمد نظر آئیں گے سب ملکر ایک دم ان کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے ۔ جب رسول گرامی قدر باہر نکلے تو اس وقت پروردگار عالم نے ان لوگوں کے آگے پیچھے ایسی دیواریں کھڑی کردیں جن کی وجہ سے وہ آنحضرت کودیکھ نہ سکے ۔ آنحضرت نماز پڑھ کر ان کی طرف چلے اورآپ نے کچھ خاک اٹھا کر ان کے سروں پر پھینک دی تو وہ حضور کو دیکھ نہیں پارہے تھے ۔ جب حضور گذر گئے تو قریش نے اڑتی ہوئی مٹی کو دیکھ کر کہا : " یہ وہ چیز ہے کہ فرزند ابی کبشہ ( یعنی رسول خدا ) نے جس کے ذریعے ہم پر جادو کردیاہے ۔( ۳ )

طبری شافعی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں عکرمہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

ابوجھل نے کہا: " جب محمد کو دیکھیں گے تو ایسا ویسا کردیں گے " تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :

( إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلالاً فَهِيَ إِلَى الأذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لا يُبْصِرُونَ ) ( ۴ ) ؛ ہم نے ان کی گردن میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اور وہ سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے اور پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔

وہ لوگ کہہ رہے تھے : " یہ محمد ہیں جبکہ ابوجہل کہہ رہاتھا : کہاں ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ ۔۔۔ اور وہ حضور سرورکائنات کو نہیں دیکھ پا رہاتھا ۔( ۵ )

دوسری آیت

( وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا ) ( ۶ ) ؛ جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ایک پوشیدہ پردہ حائل کردیتے ہیں ۔

تفاسیر کی کتب میں مرقوم ہے کہ( الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ ) سے مراد ابو سفیان ، نضر بن حارث ، ابوجہل اور ام جمیل ( ابو لھب کی بیوی) ہیں کہ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو قرآن پڑھتے وقت ان لوگوں سے پوشیدہ کردیاتھا ۔ یہ لوگ آنحضرت کے قریب آتے ، ارد گرد سے گذر جاتے تھے لیکن انھیں دیکھ نہیں پاتے تھے ۔( ۷ )

اس آیت کریمہ میں عبارت "حجابا مستوراً" قابل غور وفکرہے ۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص لوگوں سےچھپنےکے لئے کسی پردے کے پیچھے چھپ جائے اورلوگ صرف اس پردے کو دیکھ سکیں لیکن اس آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس پردے نے حضور سرور کائنات کو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا وہ خود بھی انکی نگاہوں سے مخفی ہے ۔ علاوہ برین دونوں آیات میں موجود عبارت "وجعلنا " کاملا قدرت الہی پر دلالت کررہی ہے ۔

تیسری آیت

( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ) ( ۸ )

اس نے کہا : میں نے وہ دیکھا جوان لوگوں نے نہیں دیکھا ( جبرئیل گھوڑے پر سوار تھے ) تومیں نے جبرئیل فرشتے ( کے گھوڑے ) کے نشان قدم کی ایک مٹھی ( خاک کی ) اٹھا لی ۔ پھر میں نے( بچھڑے کے قالب میں ) ڈالدی ( تو وہ بولنے لگا ) اور اس وقت میرے نفس نے مجھے یہی سمجھا یاتھا ۔

یہ آیت کریمہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور گوسالہ بنانے والے سامر ی جادو گر کے مابی ن ہونے والی گفتگو کی عکاسی کررہی ہے :( فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ ) ( ۹ ) پھر سامر ی نے ان لوگوں کے لئے (اسی زیور سے) ایک بچھڑنے کی صورت بنائی جس کی آواز بھی بچھڑے کی سی تھی اس پر بعض لوگ کہنے لگے یہی تمہارا بھی معبود ہے اورموسیٰ کا بھی جس سے وہ غافل ہوکر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ۔

حضرت موسیٰ نے اس کے اس عمل پر سوال کیا( فما خطبک یا سامری ؟) اے سامر ی تو نے یہ کیونکر انجام دیا ؟

اس نے جواب دیا :( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ) ( ۱۰ ) اس نے کہا میں نے وہ دیکھا ہے جوان لوگوں نے نہیں دیکھا (جبرئیل گھوڑے پر سوار جارہے تھے ) تومیں نے جبرئیل فرشتے (کے گھوڑے) کے نشان قدم کی ایک مٹھی (خاک کی ) اٹھالی ۔ پھر میں نے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دی (تو وہ بولنے لگا) اور اس وقت میرے نفس نے مجھے یہی سمجھایا تھا۔

مفسرین کاکہنا ہے کہ جب حضرت جبرئیل ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نازل ہوئے تو سامر ی نے جبرئیل کوشکل بشر میں دیکھا یا یوں کہتے ہیں کہ : جبرئیل ایک اسب پر سوار بہشت سے زمین پر تشریف لائے ۔ پس سامر ی نے انکے یا انکے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور اسے گوسالہ کے مجسمہ پر چھڑک دیا تو اس کے اس عمل سے گوسالہ میں جان پڑگئی۔

مقصد یہ ہے کہ سامر ی نے جبرئیل امین کو اس وقت دیکھا تھا جبکہ بنی اسرائیل میں سے کسی شخص نے بھی اسے نہیں دیکھا اور ہم نے اس آیت کریمہ کو بطور استدلال اس لئے پیش کیا ہے کہ اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی کے لئے بعض آنکھوں سے پوشیدہ رہنا ممکن ہے جبکہ اسی وقت بعض آنکھیں اسے دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔( ۱۱ )

نتیجہ

مذکورہ ٓایات سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں

۱ ۔ قرآن کریم کی روسے اصل امکان غیبت ،قابل اثبات ہے

۲ ۔ غیبت بمعنی عدم حضور نہیں بلکہ بمعنی عدم ظھورہے کیونکہ اگر غیبت بمعنی عدم حضور ہوتو پھر ایسی صورت میں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا ، جبکہ آیہ اول ودوم کی بنیاد پر دیگر افراد پیغمبر گرامی قدر کودیکھ رہے تھے لیکن ابوجہل وغیرہ نہیں دیکھ پارہے تھے نیز تیسری آیت کی روشنی میں سامر ی تو حضرت جبرئیل کودیکھ رہاتھا لیکن دوسرے لوگ انھیں دیکھنے سے عاجز تھے۔

۲ ۔ اولیاء واوصیاء کی غیبت پر دلالت کرنے والی آیات کریمہ

حضرت خضر علیہ السلام

اکثر مسلمانوں کے عقیدے اورمورخین کی تحریروں کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر آج تک زندہ ہیں لیکن نہ کسی کو ان کے محل زندگی کے بارے میں علم ہے اورنہ ہی کسی کو ان کے اصحاب کے بارے میں کوئی خبر ہے( ۱۲ ) ۔ صرف ہم ان کے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ انکا تذکرہ آیاہے ۔( ۱۳ )

حضرت موسی علیہ السلام

حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی غیبت کی داستان موجود ہے کہ آپ فرعون اور اپنی قوم سے دور چلے گئے اور غائب ہوگئے تھے اورجسے قرآن کریم نے اپنے دامن میں سمویا ہے ۔ اس دوران کسی کو ان کے بارے میں اطلاع نہیں تھی اورکوئی حضرت موسیٰ کو نہیں پہچانتا تھا اورجب تک خداوند عالم نے انھیں مبعوث نہیں کیا اور لوگوں کو خد ا کی طرف دعوت دینے کا حکم نہیں دیا یہی کیفیت اور صورت حال جاری رہی ۔ اوریوں بعد از بعثت دوست ودشمن نے آپ کوپہچان لیا ۔( ۱۴ )

حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف ابن یعقوب پیغمبر علیہ السلام کی داستان معروف ہے نیز قرآ ن کریم نے ایک سورہ مبارکہ میں ان کے والد سے دوری اور غیبت کا تذکرہ کیاہے ۔

اگرچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نبی خدا بھی تھے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ غیبت یوسف سے باخبر نہیں تھے ۔ یہ ماجرا ان کے فرزندوں سے بھی پوشیدہ تھا بلکہ حضرت یعقوب کے فرزندان تو فلسطین سے مصر بھی آئے حضرت یوسف سے ملاقات بھی کی اورانکے ساتھ انہوں نے معاملہ بھی انجام دیا لیکن اس کے باوجود وہ لوگ حضرت یوسف کو پہچان نہیں سکے حضرت یوسف کی غیبت کے کئی برس بعد خداوند عالم نے انھیں حقیقت حال سے مطلع کردیا اورحضرت یوسف کے زندہ ہونے کی اطلاع عام ہوگئی اورپھر جناب یوسف اپنے والد اوربھائیوں کے ساتھ مل گئے ۔( ۱۵ )

حضرت یونس علیہ السلام

داستان حضرت یونس پسرمتی علیہ السلام قرآن کریم میں مذکور ہے ۔ جب حضرت یونس کی قوم نے انکی سخت مخالفت اور سرزنش کی تو آپ ان سے دور چلے گئے اور سب کی نگاہوں سے اس طرح پوشیدہ ہوگئے کہ کسی کو ان کی جائے قرار کے بارے میں علم نہیں تھا ۔ خداوند عالم نے انھیں مچھلی کے شکم میں پوشیدہ رکھا اوراپنی مصلحت ومشیت کی بنا پر انھیں زندہ رکھا پھر انھیں صحیح وسالم مچھلی کے پیٹ سے نکال کر قوم کی طرف واپس بھیج دیا یہ واقعہ بھی ہماری آج کی عادت وعرف سے عاری ہے ۔( ۱۶ )

اصحاب کہف

اصحاب کہف وہ حضرات ہیں جو اپنے دین کی حفاظت کی خاطر اپنی قوم سے فرار ہوئے تھے اگر ا ن کی داستان قرآن مجید میں مذکور نہ ہوتی تو امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا انکار کرنے والے انکی غیبت کا بھی انکار کردیتے لیکن قرآن کریم نے ان کے بارے میں خبردی ہے کہ اصحاب کہف تین سونو ( ۳۰۹ سال اپنی قوم سے غائب رہے اورخوف کی حالت میں غار میں رہے یہاں تک کہ خداوند عالم نے انھیں زندہ کرکے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹایا ۔( ۱۷ )

(ب) روایات

روایات کی کتابوں میں کثرت سے ایسی احادیث موجود ہیں جو انبیاء واولیاء گذشتہ کی غیبت پر دلالت کررہی ہیں شیخ صدو ق نے اپنی کتا ب کمال الدین میں غیبت انبیاء کے بارے میں ایسے ابواب ترتیب دیئے ہیں جن میں ایسی ہی روایات معصومین کو جمع کیاہے ان احادیث میں مندرجہ ذیل انبیاء کی غیبت کا تذکرہ موجود ہے ۔

۱ ۔ حضرت ادریس؛

۲ ۔ حضرت نوح ؛

۳ ۔حضرت صالح ؛

۴ ۔ حضرت ابراہیم ؛

۵ ۔ حضرت یوسف ؛

۶ ۔ حضرت موسیٰ ؛

۷ ۔ حضرت عیسیٰ ۔( ۱۸ )

بطور نمونہ ان میں سے فقط چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

غیبت حضرت صالح علیہ السلام

شیخ صدوق اپنی اسناد کے مطابق زید شحّام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:"اِنّ صالِحاً غابَ عن قومہ زماناً ؛ صالح پیغمبر ایک عرصہ تک اپنی قوم سے غائب رہے۔

پھر فرماتے ہیں : جس دن وہ ان سے غائب ہوئے اس دن وہ ادھیڑ عمر کے کشادہ پیٹ والے ، خوبصورت بدن والے ، گھنی داڑھی والے، نازک عارض ( رخسار) والے ،اور درمیانہ قد کے مالک تھے جب آپ اپنی قوم میں واپس آگئے تو قوم نے انھیں چہرے سے نہیں پہچانا ۔ اورآپ نے انھیں تین گروہوں میں منقسم پایا ۔ ایک گروہ منکر بن چکاتھا ، جواپنے انکار سے واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں تھا اور ایک گروہ آپ کے بارے میں شک کرنے والوں کا تھا اور تیسرا گروہ اپنے ایمان پر باقی تھا ۔ یعنی انھیں یقین تھا کہ وہ صالح پیغمبر ہیں پس آپ نے شک کرنے والے گروہ کی طرف رجوع کیا اور ان سے فرمایا:" میں صالح ہوں" تو انہوں نے آپکو جھٹلایا اوربرابھلا کہا اورجھڑک دیا اورکہنے لگے : ہم تم سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ،صالح پیغمبر شکل و صورت میں تم سے مختلف تھے ۔

پھر آپ منکرین کے پاس آئے تو انہوں نے آپکی کوئی بات نہیں سنی اورآپ سے سخت نفر ت کااظہار کیا پھر آ پ تیسرے گروہ کے پاس گئے اوروہ صاحبان یقین کا گروہ تھا آپ نے ان سے فرمایا " میں صالح ہو ں" انہوں نے کہا ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کی وجہ سے ہم آپ کے بارے میں کہ آپ صالح ہیں کوئی شک نہ کریں ، ہم اس بات میں کوئی بحث یا شک نہیں کرتے کہ بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ جو خالق ہے وہ کسی کوکسی بھی شکل وصورت میں تبدیل کرسکتاہے ۔ ہمیں بتایا گیا اورہم نے قائم کے ظہور کے بارے میں علامات اورنشانیوں کے بارے میں جستجو اور تحقیق کی ہے اور یہ اس وقت صحیح ہوگا جب وہ خبرآسمان سے لیکر آئے ، صالح نے ان سے فرمایا وہی صالح ہوں جو معجز کے ذریعے اونٹنی لایا ۔ انہوں نے کہا آپ نے سچ کہا، یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہم بحث کرتے تھے لیکن بتائیے اس کی علامت اورنشانی کیاتھی ؟

آپ نے فرمایا: اس اونٹنی کے لئے نہر سے پینے کا ایک دن اورتمہائے لئے پینے کا ایک دن معین اورمعلوم تھا ۔

( قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ ) ( ۱۹ ) ؛ صالح نے کہا کہ یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن کا پانی اس کے لئے ہے اور ایک مقرر دن کا پانی تمہارے لئے ہے ۔

پس انہوں نے کہا: ہم اللہ پر ایمان لائے اورجو کچھ آپ لیکر آئے ہیں ہم اس پر بھی ایمان لائے ۔

اس وقت خدائے تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:( أَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّهِ ) ؛ بیشک صالح اپنے پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا ہے ۔ پس اہل یقین نے کہا :( إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ) ؛ بیشک ہمیں انکے پیغام کا ایمان اور ایقان حاصل ہے ۔

( قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ) ؛ لیکن مستکبرین (یعنی شک کرنے والے اورمنکرین کے گروہ)نے کہا ہم اس چیز کے منکرہیں جس پر تم ایمان لے آئے ہو۔( ۲۰ )

زید شحام نے پوچھا : " کیا اس دن ایسا شخص بھی تھا جو ان کو جانتا تھا اور اہل علم میں سے تھا ؟ امام نے فرمایا: خداوند عالم کا عدل اس سے زیادہ ہے کہ زمین کو کسی ایسے عالم کے بغیر چھوڑ دے جو اللہ تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرتاہو اس قوم نے صالح کے خروج اور ظہور کے بعد سات دن تک اس حالت میں گذارے کہ وہ اپنے لئے کوئی پیشوا اورامام کی معرفت نہیں رکھتے تھے ، مگر اس کے باوجود جو کچھ دین خدا میں سے ان کے ہاتھوں میں تھا اس پر قائم رہے ، ان کے عقائد ایک تھے اورجب حضرت صالح علیہ السلام نے ظہور فرمایا تو ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور اس میں شک نہیں کہ حضرت قائم ( آل محمد ) علیہ السلام کی مثال صالح کی طرح ہے ۔( ۲۱ )

غیبت حضرت یوسف

شیخ صدوق کتا ب اکمال الدین اورعلل الشرائع میں سدیر سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سناہے ، آپ نے فرمایا:"ہمارے قائم میں ایک سنت حضرت یوسف کی بھی ہے " میں نے عرض کیا : شاید آپ ان کے بارے میں یا انکی غیبت کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں ؟ " فرمایا : اس امت کے صرف خنزیر صفت افراد ہی اس امر کو جھوٹ سمجھیں گے۔

یوسف کے بھائی تو اولاد انبیاء میں سے تھے لیکن انہوں نے یوسف کو بیچ ڈالا حالانکہ وہ سب ان کے بھائی تھے اوروہ بھی ان کے بھائی تھے پھر بھی جب ملاقات ہوئی تووہ انھیں پہچان نہ سکے ۔ یہاں تک کہ خود انہوں نے اپنے آپ کو پہچنوایا اورفرمایا : میں یوسف ہوں اوریہ میرا بھائی ہے،، پس یہ امت کس طرح انکار کرتی ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک زمانے میں اپنی حجت ان سےمخفی رکھنا چاہتاہے اوریوسف ایک دن اسی مصر کے بادشاہ بن گئے اور ان کے اور انکے والدکے درمیان فاصلہ اٹھارہ دن سفرکاتھا ۔ اوراگر خداوند عالم چاہتا توحضرت یوسف کی جائے قرار بتادیتا۔

لیکن جب اللہ نے چاہا کہ انکی قدر ومنزلت کو پہچنوائے تو خدا کی قسم ان کے گھر والوں نے اسی فاصلے کو بشارت اورخوشخبری ملنے کے بعد نو دن میں طے کیا ۔ پس یہ امت کس طرح انکار کرسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حجت کے ساتھ ایساہی سلوک کرے جیسا کہ اس نے یوسف کے ساتھ کیاتھا کہ اس کی حجت ان کے درمیان چلے پھر ،بازاروں میں ان کے درمیان سے گذرے اور ان کے درمیان بیٹھے لیکن وہ اسے نہ پہچان سکیں ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ یہ اجازت دے کہ حجت خدا اپنے آپ کوپہچنوائے جیساکہ اس نے یوسف علیہ السلام کو اجازت دی تھی جب انہوں نے یہ کہا :( قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ قَالُوا أَئِنَّكَ لأنْتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي ) ( ۲۲ ) کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا جب تم جاہل اورنادانی کی حالت میں تھے ؟ انہوں نے کہا: کیا آپ یوسف ہیں ؟ فرمایا : ہاں میں یوسف ہوں اوریہ میرا بھائی ہے ۔"( ۲۳ )

ابوبصیر نے حضرت مام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:"فی القائم شبہٌ من یوسف؛ قائم میں یوسف کی ایک شباہت ہے ۔،، میں نے عرض کیا : "وماهو ؟" وہ شباہت کیاہے ؟ حضرت نے فرمایا : "الحیرة والغیبة ، وہ شباہت حیرت وغیبت ہے ۔"( ۲۴ )

غیبت حضرت موسیٰ

شیخ صدوق نے کمال الدین میں عبداللہ بن سنان سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا ہے آپ نے فرمایا : "فی القائم سنة من موسیٰ بن عمران ؛ قائم میں موسیٰ بن عمران کی ایک علامت پائی جاتی ہے۔" میں نے عرض کیا : "وَمَا سنّتهُ من موسیٰ بن عمران ؟ وہ علامت کیاہے ؟ حضرت نے فرمایا: "خفاء مولده و غیبة عن قومه ؛ انکی ولادت وپیدائش کا مخفی رہنا اوراپنی قوم سے غائب رہنا " میں نے پوچھا :"و کم غاب موسیٰ عن اهله و قومه؟؛ موسیٰ اپنی قوم سے کتنا عرصہ غائب رہے ؟ فرمایا: "ثمانی و عشرین سنۃ؛ اٹھائیس سال !"۔( ۲۵ )

دوسری فصل : اثبات غیبت امام عصر

ہم اس فصل میں قرآن وسنت اور اقوال علماء اہل سنت کی روشنی میں غور وفکر کرتے ہوئے غیبت امام عصر علیہ السلام کو ثابت کریں گے ۔

(الف) دلائل قرآنی

اس سلسلہ میں آیات پیش کرنے سے پہلے ہم اس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کردینا مناسبت سمجھتے ہیں کہ تاویل وتفسیر ، علوم قرآن کی اہم مباحث میں سے ہیں ، علماء اور دانشوروں نے انکی مختلف تعاریف اور تحلیل پیش کی ہیں ۔ لھذا موضوع کی مناسبت سے ہم انکی تعریف وتحلیل پیش کررہے ہیں ۔

" التفسیرکشف القناع عن المشکل؛ تفسیر مشکل الفاظ کے چہرے سے نقاب اٹھانے کانام ہے ۔"

بنابر یں تفسیر ، ظاہر قرآن سے مربوط ہوتی ہے ، اورحضور سرور کائنات کا فرمان مبارک ہے : "مامن القرآن آیۃ الا ولھا ظھر وبطن؛ قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں ہے جسکا ظاہر وباطن نہ ہو۔"( ۲۶ )

بنا برایں تاویل بمعناے بطن قرآن کے ہے جو قرآن کی اندرونی دلالت کو بیان کرتی ہے اوریہ قرآن کی ظاہری وبیرونی دلالت کے مد مقابل ہے کہ جسےظھر قرآن سے تعبیر کیاجاتاہے لذ ا اس بنیاد پر قرآن کریم کی تمام آیات کا بطن پایاجاتاہے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بطن فقط چند آیات متشابہ سے مخصوص ہو ۔( ۲۷ )

قرآن کریم کی نورانی آیات کی صحیح تفیسر ، حقیقی معنی کو درک کرنے ، عمیق مضامین ومفاہیم آیات الھی کو سمجھنے اور ان کے بہترین وارزشمند معارف سے بہرہ مند ہونے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تفسیر سے مراد مطالب کا حصول ہے جو الفاظ وظواھر کلام الھی میں غور وفکر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں اوریہی آیات قرآن کی ظاہری مراد ہوتے ہیں ۔

لیکن کبھی آیات قرآن کے الفاظ وظواھر کے ماوراء ایسے حقایق پائے جاتے ہیں جوابتدائی مطالعہ سے حاصل نہیں ہو پاتے اورنہ ہی انسان کا تدبر اور غور وفکر ہی اس میں کارساز ہوتاہے ، بلکہ ایسی صورت میں صرف معصومین علیہم السلام کی روایات واقوال ہی ان کے اوپر سے پردہ اٹھاتی اور ان کے اسرار کو آشکار کرتی ہیں ۔ فہم قرآن کے اس مرحلے کو جو باطن قرآن سے وابستہ ہے ، تاویل کہا جاتاہے بنابریں قرآن کریم سے بھر پور فیضیاب ہونے اورمکمل طور پر بہرہ مند ہونے کے لئے قرآن کے ظاہر وتفسیر پر بھی توجہ رکھنی چاہیے اور باطن وتاویل پر بھی مکمل نظر رکھنی چاہیے ۔

اس مقدمے کے بیان کرنے کے بعد اب ہم ایسی آیات پیش کریں گے جن سے وجود امام عصر(عج) ثابت کیاجاسکتاہے ان آیات کو دوقسموں میں تقسیم کیاجا سکتاہے :

۱ ۔ وجود امام عصر (عج) کو بیان کرنے والی آیات

۱ ۔ آیات قدر

( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) ( ۲۸ )

بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے اورآپ کیا جانیں یہ شب قدر کیا چیز ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خداکے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے ۔

اس سورہ مبارکہ کی آیات واضح طور پر اس بات کی نشان دہی کررہی ہیں کہ ملائکہ ہرسال شب قدر میں تمام امور کے ہمراہ زمین پر نازل ہوتے ہیں اسی طرح سورہ دخان میں بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کیا گیاہے ،

ارشاد رب العزت ہوتاہے :

( حم وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا اَنزَلْنَاهُ فِى لَيْلَة مُّبَارَكَة إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ ) ؛روشن کتاب کی قسم ، ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیاہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے اس رات میں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ کیا جاتاہے ۔( ۲۹ )

رمضان المبارک قیامت تک آتارہے گا لہذا لیلۃ القدر بھی قیامت تک آتی رہے گی پس ملائکہ اور روح القدس کے نزول کا سلسلہ بھی جاری وساری رہے گا اب یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ ملائکہ اور روح القدس جو ہرسال شب قدر میں زمین پرنازل ہوتے ہیں رسول اکرم کے دنیاسے چلے جانے کے بعد کس کے پاس آتے رہے ہیں ؟

مسلمانوں میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ ملائکہ خلفاء کے پاس نازل ہوتے تھے ،بلکہ خود انہوں نے بھی کبھی اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ، پس غور وفکر اوربھر پور تدبر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہرزمانے میں ایک کامل ومعصوم امام کا ہونا ضروری ہے جو ملائکہ اور روح القدس کا محل نزول قرار پائے ۔ اس سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"يا معشر الشيعة ! خاصموا بسورة إنّا أنزلناه تفلجوا، ‏فَوَالله أنّها لحجّة الله تبارک و تعالی علی الخلق بعد رسول‌الله و أنّها لسيّدة دينکم و أنّها لغاية علمنا. يا معشر الشيعة ! خاصموا بِحم والکتاب المبين فإنّها لِولاة الأمرخاصّة بعد رسول‌الله ..."( ۳۰ )

اے شیعو !اپنے مخالفین سے سورہ انا انزلناہ کے ذریعہ حتجاج کرو تاکہ کامیاب ہو سکو خداوند عالم کی قسم یہ سورہ مبارکہ رسول اللہ حجت خدا کے بارے میں یہ سورہ تمہارے دین کی دلیل اورہمارے علم کی انتہا ہے ۔ اے شیعو! آیت حم والکتاب المبین ۔۔۔ کے ذریعے بحث کرو کیونکہ یہ آیات رسول گرامی قدر کے بعد والیان امر سے مخصوص ہیں ۔۔۔ "

نیز امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

"وأيم الله إنّ من صدّق بليلة القدر، ‏ليعلم أنّها لنا خاصّة ( ۳۱ ) ...؛ بیشک جو شخص لیلۃ القدر کی تصدیق کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہم سے مخصوص ہے۔۔۔"امیر المومنین حضرت علی علیہ لسلام نے ابن عباس سے فرمایا:

إنّ لیلة القدر فی کلّ سنة ، ‏وانّه ینزل فی تلک اللیلة أمر السنة وإنّ لذلک الأمر ولاة بعد رسول‌الله فقلت: من هم؟ فقال أنا وأحدعشر من صلبی أئمة محدّثون ...( ۳۲ ) ؛بیشک لیلۃ القدر ہرسال ہے ، اس رات میں ایک سال کے امور نازل ہوتے ہیں جو رسول اللہ کے بعد والیان امر کے لئے ہیں َ۔ ابن عباس کہتے ہیں : جب میں نے عرض کیا: یہ کون حضرات ہیں ؟ حضرت نے فرمایا : میں اورمیرے صلب سے گیارہ افراد ہیں جو سب کے امام ومحد ث ہیں۔"

رسول گرامی قدر نے اپنے اصحاب سے فرمایا :

آمنوا بليلة القدر، إنّها تکون لعلیّ بن أبی‌طالب و لولده الأحدعشر من بعده ( ۳۳ ) ؛لیلۃالقدر پر ایمان لاؤ ، بیشک یہ رات علی اوراس کے بعد اس کے گیارہ فرزند وں کے لئے۔"

۲ ۔ آیت امامت

خداوند عالم ، سورہ اسراء کی ۷۱ ویں آیت کریمہ میں ارشاد فرماتاہے :

( يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلا يُظْلَمُونَ فَتِيلا ) ( ۳۴ ) قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب ہم ہرگروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جس کانامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریہد برابر ظلم نہیں ہوگا۔( ۳۵ )

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہرشخص سے امام حق کے بارے میں سوال کیاجائے گا اگر وہ اس امام حق کا معترف ومعتقد ہوگا توکامیاب وکامر ان ا وررستگار ہوگا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ لہذ ہردور میں ایک واجب الاطاعت امام کا ہونا ضروری ہے ، ایساامام جس کی معرفت واطاعت کے بغیر قیامت میں کوئی انسان فلاح ورستگاری حاصل نہیں کرسکتا بنا بر ۱ یں ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات نے فرمایا:

"من مات ولا يعرف إمامه مات ميتة جاهليّة ؛( ۳۶ ) جوشخص اپنے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاھلیت وگمراہی کی موت مراہے۔"

یہی مطلب فریقین کی کتب احادیث میں مختلف عبارات کی صورت میں نقل ہواہے کہ جن میں سے بطورنمونہ چند احادیث پیش کی جارہی ہیں :

۱ ۔ کتاب محاسن برقی میں پیغمبر اسلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں : "من مات وهو لايعرف إمامه مات ميتة جاهليّة ؛( ۳۷ ) جوشخص اپنے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے وہ جاہلیت وگمراہی کی موت مراہے ۔"

۲ ۔ عمار سا باطی نے حضرت ابا عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آنجناب نے فرمایا:

"لا تترک الأرض بغير إمام يحلّ حلال الله، ‏ويحرّم حرامه، ‏وهو قول الله :( يوم ندعو کلّ أناس بإمامهم ) ثمّ قال: قال رسول‌الله: من مات بغير إمام مات ميتة جاهليّة ؛( ۳۸ )

خداوند عالم نے ہرگز زمین کو ایسے امام سے خالی نہیں چھوڑا ہے جو حلال الٰہی کو حلال اور حرام الٰہی کو حرام قرار دے اور اس کا یہ فرمان ہے کہ- ہم ہر شخص کو قیامت کے دن اس کے امام کے ساتھ بلائیں- پھر فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص بغیر امام کے مر جائے، اس کی موت جہالت کی موت ہے۔

۳ ۔عیون اخبار الرضا میں حضرت علی بن ابی طالب سے روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "من مات وليس له إمام من ولدی مات ميتة جاهليّة ؛( ۳۹ ) جوشخص مرجائے اور میری اولاد میں سے اس کا کوئی امام نہ ہو تو وہ جہالت وگمراہی کی موت مراہے ۔"

۴ ۔ کمال الدین میں پیغمبر گرامی قدر سے اس طرح روایت نقل کی گئی ہے :

"من أنکر القائم من ولدی فی زمان غيبته ‏فمات ميتة جاهليّة . ؛( ۴۰ ) جس نے زمانہ غیبت میں میرے فرزند قائم کا انکار کیا اور وہ مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔"

اہل سنت نے بھی اپنی کتب روائی میں اس سلسلہ میں کثرت سے روایات نقل کی ہیں مثلاً: صحیح ابن حبّان میں معاویہ نے پیغمبر گرامی قدر سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

"من مات وليس له إمام مات ميتة جاهليّة ؛ جوشخص امام کی معرفت کے بغیر مرجائے تو اسکی موت جہالت کی موت ہے ۔"( ۴۱ )

طبقات ابن سعد میں حضور سرورکائنات سے اس طرح روایت کی گئی ہے :

"من مات ولا بيعة عليه مات ميتة جاهليّة ؛ جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ بیعت نہ ہو تو وہ جہالت کی موت مراہے ۔"( ۴۲ )

مسند الطیالسی میں ابن عمر نے پیغمبر گرامی قدر سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

"من مات بغير إمامٍ مات ميتة ، ‏ومن نزع يداً مِن طاعة جاء يومُ القيامة لا حجّة له "( ۴۳ )

نیز تاریخ بخاری میں عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے اپنے والد کے توسط سے پیغمبر اکرم سے اس طرح روایت نقل کی ہے :

"من مات ولا طاعة عليه مات ميتة جاهليّة ؛جوشخص مرجائے اور اس کے ذمے کوئی اطاعت نہ ہو تو وہ جہالت کی موت مراہے ۔"( ۴۴ )

ممکن ہے کوئی شخص مذکورہ آیت کریمہ اور روایات کو دیکھ کر یہ کہنے لگے آیت اور روایات صرف اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ امام عصر کی معرفت لازم وضروری امر ہے اور یہ بات تو حاکمان وقت کی شناخت واطاعت سے بالکل ہم آھنگ اور سازگارہے کیونکہ یہ لوگ بھی امام ورھبرہوتے ہیں اور آیت میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ ہر شخص اپنے امام کے ساتھ محشور ہوگا۔

یہ وہی چیزہے اصحاب وتابعین جس پر ہمیشہ عمل کرتے تھے ۔ بیان کیا جاتاہے کہ عبداللہ ابن عمر کہ جس نے امیر المومنین کے زمانے میں آنجناب کی بیعت سے گریز کیا اور عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں رات کے وقت حجاج بن یوسف کے گھر گئے تاکہ ا س کےذریعے عبدالملک بن مروان کی بیعت کریں کہ مباد ایک رات بغیر امام کے گذرجائے ۔

معتزلی اہل سنت دانشور ابن ابی الحدید رقمطراز ہیں :" حجاج بن یوسف کے گھر میں عبداللہ بن عمر کی اس قدر تحقیر وتذلیل کی گئی کہ جب انہوں نے بیعت کے لئے حجاج بن یوسف کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا یا تو اس نے ہاتھ بڑھانے کے بجائے ان کی طرف اپنا پیر بڑھا دیا ۔( ۴۵ ) "

اس خیال خام کے جواب میں یہی کہا جاسکتاہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ قیامت میں ہرشخص اپنے امام کے ساتھ محشور ہوگا اوریہ روایات بھی اسی مطلب پردلالت کررہی ہیں کہ ہردور میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ جہالت کی صورت سے بچتے رہیں ، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امام دوطرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امام ہے جولوگوں کو خداوند عالم کی طرف ہدایت ودعوت کرتاہے اور دوسرا وہ ہے جو بندگان الھی کو شیطان وطاغوت کی طرف کھینچ لے جاتاہے ۔

سیوطی نے ابن عباس سے نقل کیاہے کہ آیت کریمہ میں دونوں طرح کے امام یعنی امام ہدایت اور امام ضلالت مراد ہیں ۔

پس جو شخص نجات اخروی کا خواہاں ہے اورچاہتاہے کہ اس کی موت ، جہالت کی موت قرار نہ پائے تو اسے ایسے امام کی اطاعت کرنا چاہئے جو اہل بیت وفرزندان رسول اکرم میں سے اورقرشی ہو ۔

بر بنائے حدیث "الائمة من قریش "( ۴۶ ) امام کے قریشی ہونے کے بارے میں ہم یہاں فریقین کی چند احادیث کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

کمال الدین میں ہے کہ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی قدرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

"يکون من بعدي إثنی عشر‏. يعنی أميراً ؛ میرے بعد بارہ ہونگے یعنی امیر ، پھر فرمایا :"کلُّهم من قريش ؛( ۴۷ )

کفایۃ الاثر میں سلمان فارسی نے پیغمبر اکرم سے اس طرح روایت نقل کی ہے :

"الائمة بعدی اثنا عشر." ثمّ قال: "کلّهم من قريش، ‏ثمّ يخرج قائمنا فيشفی صدور قومٍ مؤمنين ."( ۴۸ )

میرے بعد بارہ امام ہوں گے، پھر فرمایا: وہ سب کے سب قریش ہوں گے پھر ان میں سے ہمارا قائم خروج کرے گا جو مومنین کی تشفی کا باعث ہوگا۔

جناب یعقوب کلینی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"لمّا نزلت هذه الآية :( يوم ندعوا کلّ أناس بإمامهم ) قال المسلمون: يا رسول‌الله! ألست إمام الناس کلّهم أجمعين؟ قال: فقال رسول‌الله: أنا رسول‌الله إلی الناس أجمعین ولکن سيکون من بعدی أئمّة علی الناس من الله من أهل بيتي، ‏يقومون فی الناس فيکذّبون ؛( ۴۹ ) جب آیہ( يوم ندعوا کلّ أناس بإمامهم ) نازل ہوئی تو مسلمانوں نے سوال کیا : یارسول اللہ کیا آپ تمام لوگوں کے امام نہیں ہیں ؟ آنحضرت نے فرمایا : میں سب پر خد ا کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں لیکن عنقریب میرے بعد میرے اہل بیت میں سے امام آئیں گے وہ لوگوں میں قیام کریں گے لیکن لوگ ان کی تکذیب کریں گے ۔۔۔"

نیز اہل سنت کی روایات کی کتب میں بھی امام کے قریشی ہونے کی تصریح کی گئی ہے ؛ مسند الطیالسی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے :

جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر گرامی قدر سے سناہے کہ آپ نےفرمایا:

"إنّ الإسلام لايزالُ عزيزاً إلی إثنی عشر خليفة " اسلام بارہ خلفاء تک عزیز وبا قی رہے گا ۔

پھر کہتے ہیں میں اس وقت ایک لفظ سمجھ نہ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ پیغمبراکرم نے کیا فرما یا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ حضور نے فرمایا : "کلهم من قریش "( ۵۰ ) وہ سب قریشی ہونگے ۔

مسند احمد بن حنبل میں وارد ہواہے کہ جابر بن سمرہ نے رسول اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا :

"لايزال الدين قائماً حتی يکون اثنا عشر خليفة من قريش ؛( ۵۱ ) دین اس وقت تک قائم ودائم رہے گا یہاں تک کہ قریش سے بارہ خلیفہ آجائیں ۔"

بعض صحیح السند احادیث کی بنیاد پر خلافت،قریش سے باہر نہیں جاسکتی ، اگر روئے زمین پر صرف دو افراد ہی باقی کیوں نہ رہ جائیں ۔

"لايزال هذا الأمر فی قريش ما بقی من الناس إثنان ؛( ۵۲ ) یہ امر خلافت قریش ہی میں باقی رہے گا اگرچہ روئے زمین پر دو افراد ہی باقی رہ جائیں" اس حدیث کا مفہوم ومطلب یہ ہے کہ اگر روئے زمین پر صرف دو افراد باقی بچیں تو ان میں سے ایک قریشی خلیفہ ہوگا ۔ بر بنائے نقل ابن بطّال ابوبکر وعمر نے سقیفہ کے دن ایسی ہی احادیث کے ذریعے روسائے انصار پر دلیل وحجت قائم کی تھی ۔( ۵۳ )

نتیجہ

فریقین کی روایات سے ثابت ہوتاہے کہ وہ امام جو نجات دھندہ بشریت ہے اور جس کی معرفت تمام امت اسلامی پر لازم وضروری ہے وہ پیغمبر اسلام کی عترت واہل بیت سے اورقریشی ہے کہ جس کی عدم معرفت گویا جہالت کی موت ہے( ۵۴ ) ۔ پس کسی جاھل وفاسق ، جابر اور غیر قریشی پر یہ شرایط صادق نہیں آسکتیں ۔

لذیا ہردور میں پیغمبر گرامی قدر کی اولاد میں سے امام عصر کی حیثیت سے کسی ایک فرد کا موجود ہونا ضروری ہے جس میں روایات میں ذکر شدہ تمام خصوصیات موجود ہوں تاکہ لوگ اس کی معرفت حاصل کرکے اس کی اطاعت کریں ، ورنہ پیغمبر اسلام کے قول کی تکذیب ہوجائے گی ۔ ان روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ موجود ہ دور میں حضرت مہدی عج کے سواکوئی امام عصر نہیں ہے جو پردہ غیبت میں موجود ہیں ، کیونکہ ان روایات میں آیاہے کہ حضور سرورکائنات نے فرمایا : " جو شخص زمانہ غیبت میں میری اولاد میں سے قائم کا انکار کرے ، اس کی موت جہالت کی موت ہے ۔"

۳ ۔ آیہ"اُولی الأمر "

خداوند متعال سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد فرماتاہے :

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ) ( ۵۵ ) اے ایمان والو: اللہ کی اطاعت کرو رسول اورصاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں ۔

تبصرہ : خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پر تمام فرق اسلام کا اتفاق نظر ہے ،لیکن یہ کہ اولی الامر سے کیامر اد ہے ؟ اوریہ کون حضرات ہیں ؟ مفسرین سلام میں اس مسئلہ میں کافی اختلاف نظر دیکھنےمیں آتاہے ۔ ہم یہاں بطور خلاصہ اولی الامر کے معنی اور مصادیق کے بارے میں پہلے علماء ومختلف مفسرین کے اقوال بیان کریں گے اورپھر اس کے بعد ان کے اقوال کا تجزیہ پیش کریں گے :

۱ ۔ اہل سنت کے کچھ مفسرین کا نظریہ ہے کہ اولی الامر سے مرادہرزمانے اورہر ماحول سے تعلق رکھنے والے بادشاہ اورصاحبا ن اقتدار ہیں ۔ وہ اس میں کسی استثناء کے قائل نہیں ہیں ۔ اس نظریے کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہرحکومت کی چاہے وہ کسی شکل میں کیوں نہ ہو پیروی کریں چاہے وہ تاتاریوں کی حکومت کیوں نہ ہو ۔

۲ ۔ بعض دوسرے مفسرین مثلاً صاحب تفسیر المنار وصاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولی الامر سے مرادعام طبقات کے نمائندے ، سر براہ حکام اورزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام عہد یدار ہیں لیکن مطلق طور پر نہیں اورکسی شرط ، قید اور پابندی کے بغیر نہیں بلکہ ان کی اطاعت کے لئے یہ پابندی اورشرط ہے کہ ان کے احکام، اسلام کے مقرر کردہ احکام کے خلاف نہ ہوں ۔

۳ ۔ بعض دوسرے مفسرین کا اعتقاد ہے کہ اولی الامر سے مراد وہ معنوی وفکری رہنما یعنی علماء ہیں جو عادل ہوں اورکتاب وسنت سے مکمل ٓاگاہی رکھتے ہوں ۔

۴ ۔بعض اہل سنت کے مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ اس لفظ سے مراد پہلے چار خلفا ہیں اوریہ لفظ انہی تک محدود ہے اس وجہ سے دوسرے زمانوں میں اولو الامر نہ ہوگا ۔

۵ ۔ بعض مفسرین اولوالامر سےمراد اصحاب پیغمبر لیتے ہیں ۔

۶ ۔ اولوالامر کی تفیسر میں ایک اور احتمال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مراد اسلامی لشکر وں کے سپہ سالار ہیں ۔

۷ ۔ تمام شیعہ مفسرین اس سلسلہ میں ایک متفق نظریہ رکھتے ہیں کہ اولولامر سے مراد ائمہ معصومیں ہیں ۔ جن کو تمام امور زندگی میں اسلامی معاشرے کی مادی اورروحانی رہنمائی خد ااور پیغمبر کی طرف سے سپرد کی گئی ہے ۔ ان کے علاوہ یہ لفظ کسی پر صاد ق نہیں آتا ۔ البتہ ایسے لوگ جو ان کی طرف سے کسی مرتبے یاعہدے کے لئے مقرر کئے جائیں اوراسلامی معاشرے کے کسی عہدے پر فائز ہوں تو معینہ شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی ضروری ہے لیکن یہ اس لحاظ سے نہیں کہ وہ اولوالامر ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اولوالامر کے نمائندے ہیں ۔( ۵۶ )

اب مندرجہ بالاتفاسیر کی تحقیق ومطالعہ کے لئے پوری تن دہی سے توجہ دیتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ پہلی تفسیر کسی بھی طرح مفہوم آیت اورتعلیمات اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ ممکن نہیں ہے کہ ہرحکومت کی اطاعت وپیروی کسی قید وشرط کے بغیر خدا ورسول کی اطاعت کے ساتھ ملادی جائے ۔ اسی بنا پر شیعہ مفسرین کے علاوہ اہل سنت کے بڑے بڑے مفسرین نے بھی اس کی نفی کی ہے ۔

دوسری تفسیر بھی آیت کے معانی ومفہوم کے ساتھ سازگار نہیں کیونکہ آیت اولوالامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید وشرط کے لازم اورواجب قرار دیتی ہے ۔

تیسر ی تفسیر یعنی اولوالامر کی تفسیر کتاب وسنت سے آگاہ علماء عادل کے ساتھ کرنا بھی آیت کے مطابق نہیں ہے کیونکہ علماء کی اطاعت بھی کچھ شرائط سے مشروط ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی بات کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو اس وجہ سے اگر وہ اشتباہ میں پڑ جائیں ( چونکہ وہ معصوم نہیں ہیں اس لئے ان سے اشتباہ ہوسکتاہے ) یا اور کسی وجہ سے حق سے منہ موڑ لیں تو اس صورت میں ان کی اطاعت ضروری نہیں ہوگی جبکہ آیت اولوالامر کی اطاعت مطلق اطاعت پیغمبر کی طرح لازم قرار دے رہی ہے علاوہ ازیں علماء کی اطاعت تو ان احکام میں ہے جن کاوہ کتاب وسنت سے استفادہ کرتے ہیں اس بنا پر ان کی اطاعت خدا تعالیٰ اورپیغمبر کی اطاعت کے علاوہ اورکچھ نہیں اس لئےاس کاذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔

چوتھی تفسیر کہ اولی الامر کو پہلے چار خلفاء سے محدود کردینا ،تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آج دنیائے اسلام میں لفظ اولوالامر کاکوئی مصداق نہیں ہے علاوہ ازیں اس تخصیص کے بارے میں کوئی دلیل بھی نہیں ہے ۔

پانچویں اورچھٹی تفسیر میں اس کو صحابہ یا افسران لشکرکے ساتھ مخصوص کرنا ، اس پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔

اہل سنت کے بعض مفسرین جیسے مصر کے مشہورعالم محمد عبدہ اورمعروف مفسر فخرالدین رازی کی بعض باتوں کے مطابق اولولامر کے معنی وہ ہیں جنہیں دوسرے نمبر پر بیان کیاگیا ہے ان کی نظر میں اس کے مجموعی مفہوم میں اسلامی معاشرے کے مختلف طبقوں کے نمائندے وہ عالم ہوں یاحاکم اوردوسرے طبقوں کے نمائندے شامل ہیں وہ انھیں کچھ شرطوں اورپابندیوں کے ساتھ اولوالامر مانتے ہیں ۔ اور ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہوں ، جیسا کہ منکم سے معلوم ہوتاہے، ان کاحکم کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو وہ اپنے اختیار سے حکم دیں نہ کہ مجبوری سے وہ مسلمانوں کے مصالح کے مطابق حکم دیں اورصرف انہی مسائل کاحکم دے سکتے ہیں جن میں دخالت کا انھیں حق ہے نہ عبادات اور ان چیزوں کاجو کہ اسلام نے مقرر اورمعین کردی ہیں وہ اس مسئلہ کاحکم دینے کا حق رکھتے ہیں جس کے بارے میں نص شرعی موجود نہ ہو ان سب چیزوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سب متفقہ طورپر اپنا نظریہ پیش کریں ۔

انکا خیال یہ ہے کہ تمام امت یا ان کے سب نمائندے مل کرغلطی نہیں کرسکتے دوسرے لفظوں میں یہ کہ امت اجتماعی طورپر معصوم ہے ۔ ان شرطوں کانتیجہ یہ ہوگا اس قسم کے حکم کی اطاعت مطلق طورپر ہرقسم کی پابندی کے بغیر رسول اکرم کی اطاعت کی طرح واجب ہوگی ( اس گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ اجماع امت حجت ہے ) لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ اس تفسیر میں بھی کئی اشکالات ہیں کیونکہ :

پہلی بات یہ ہے کہ اجمایعی مسائل میں فکر ونظر کا اتفاق بہت ہی کم مواقع پر واقع ہوتاہے ، اس لئے مسلمانوں کے زیادہ ترحالات وواقعات میں ہمیشہ بے چینی وبے اطمینانی رہے گی ، اگر وہ اکثریت کے نظریے کو قبول بھی کرنا چاہیں تو پھر یہ اشکال سامنے آئے گا کہ اکثریت کبھی معصوم نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کی اطاعت مطلق ہونے کی حیثیت سے لازمی نہ ہوگی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ علم اصول میں یہ امر ثابت ہوچکاہے کہ امام معصوم کو نکال کرتمام امت کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس تفیسر کے طرفداروں نے ایک شرط کا ذکر کیاہے جو یہ ہے کہ ان کاحکم کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو ، تو اب دیکھنایہ ہے کہ اس بات کی تشخیص کہ یہ حکم کتاب وسنت کے خلاف ہے کہ مطابق ، کون کرے گا یقینا مجتہدین وکتاب وسنت سے آگاہ علماء ہی اس کے ذمہ دار ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مجتہدین اورعلماء کی اجازت کے بغیر اولوالامر کی اطاعت جائز نہیں کیونکہ اہل علم کی اطاعت تواولوالامر کی اطاعت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے اوریہ مفہوم ظاہر بظاہر آیت شریفہ کے مطابق نہیں ہے ۔

یہ صحیح ہے کہ انہوں نے علماء کوبھی اولوالامر کا جزو قرار دیاہے لیکن حقیقت میں اس تفسیر کے مطابق اہل علم باقی طبقاتی نمائندوں کی نسبت مرجع عالی تر اور ناظر کی حیثیت رکھتے ہیں نہ دوسرے کیونکہ علماء اوردانشمند دوسروں کی نسبت یہ بہتر جانتے ہیں کہ کوئی چیز کتاب وسنت کی نظر سے درست ہے یانہیں اس بنا پر وہ مرجع اعلیٰ ہونگے اوریہ مندرجہ بالاتفیسر کے ساتھ موافق نہیں ہے اس بنا پر مذکورہ تفسیر کو کئی پہلوؤں سے اشکالات کا سامناہے ۔

واحد تفسیر جو مذکورہ اعتراضات کی زد میں نہیں آسکتی وہ ساتوٰیں تفسیر ہی ہے یعنی اولو الامر سے مراد معصوم رہبر اور آئمہ ہیں کیونکہ یہ تفسیر اس وجوب اطاعت کے اطلاق کے ساتھ ہے جس کا مندرجہ بالا آیت سے پتہ چلتاہے اور یہ اس کے ساتھ سوفیصد موافقت رکھتی ہے کیونہہ مقام "عصمت" ایسے امام کے ہرخطا گناہ اوراشتباہ سے محفوظ ہونے کی گواہی دیتاہے اس لئے اس کا ہرحکم فرمان پیغمبر کی طرح کسی قیدوشرط کے بغیر واجب الاطاعت ہے اوریہ اس امر کی استعداد رکھتاہے کہ رسول کی اطاعت کا ہم ردیف اورہم پلہ قرار پائے ، یہاں تک کہ "اطیعو ا" کی تکرار کے بغیر اس کا عطف رسول پر ہو ۔

ایک قابل توجہ بات

بعض مشہور علمائے اہل سنت بھی جن میں مشہور ومعروف مفسر فخرالدین رازی بھی ہیں اس آیت کے بارے میں اپنی تحریر کے شروع میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"خداوند عالم جس شخص کی اطاعت کو قطعی طورپر بے چون وچرالازم قرار دے یقیناً اسے معصوم ہوناچاہیے کیونکہ اگروہ معصوم عن الخطا نہ ہوگا توخطا کرے گا اورخداتعالیٰ نے اس کی اطاعت لازم قرار دی ہے اور اس کی پیروی خطا کے باوجود ضروری سمجھی ہے تو اس سے خود حکم خداوند عالم میں تضاد پید اہوتاہے کیونکہ ایک طرف تو اس عمل کا کرنا حرام ہے اوردوسری طرف اولوالامر کی اطاعت واجب ہے اس طرح یہ حکم خدا امر ونہی کے اجتماع کاسبب بن جاتا ہے۔"

فخرالدین رازی اپنی گفتگو کوجاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

"یہ معصوم یاتوتمام امت ہے یا اس میں سے چند لوگ ۔ یہ دوسرے معنی قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ ضروری ہے کہ ہم ان چند لوگوں کو پہچانیں اور ان تک پہنچ سکتے ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے جب یہ احتمال یا شک دور ہوجاتاہے تو پہلا احتمال باقی رہ جاتاہے کہ تمام امت معصوم ہے اوریہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اجماع واتفاق امت حجت اورقابل قبول ہے اوریہ معتبر اورقابل اعتماد دلائل میں شمار کیاجاتاہے ۔( ۵۷ ) "

ہم دیکھ رہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ فخررازی علمی مسائل میں اشکال تراشی کے سلسلہ مشہورہیں لیکن انہوں نے اس آیت کی اس دلالت کو کہ امام معصوم ہونا چاہیے بسروچشم قبول کیاہے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ یہی کہاجا سکتاہے کہ چونکہ وہ مکتب اہل بیت اور اس کے معصوم اماموں اوررہبروں کو قبول نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ اولوالامر خد ا کے معین کئے ہوئے افراد ہونے چاہیں بلکہ وہ مجبور ہوگئے کہ اولوالامر تمام امت یا مسلمانوں کے تمام طبقات کے نمائندوں کو قراردیں حالانکہ یہ معنی کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ۔ جیساکہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اولوالامر تووہ ہوگا جواسلامی معاشرے کارہبر ہو تاکہ ا سلامی حکومت اورمسلمانوں کی گونا گوں مشکلات اس کے ناخن تدبیر سے حل ہوتی رہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام آراء، حکومت یہاں تک کہ اس کے نمائندون کا بھی عملی طورپر اتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ مختلف اجتماعی ، سیاسی ، ثقافتی اخلاقی ،اور اقتصادی مسائل جن سے مسلمانوں کوسابقہ پڑتاہے ان میں اکثر اوقات تمام امت کا یا ان کے نمائندوں کے اتفاق رائے کا حصول ممکن نہیں ہے اور اکثریت کی پیروی اولوالامر کی پیروی نہیں سمجھی جاسکتی اس بنا پرفخر رازی اورہمارے معاصر علماء جو اس عقیدے کے پیرو ہیں ان کی گفتگو کا عملی مقصد یہ ہے کہ اولوالامر کی اطاعت عملا معطل رہے یا ایک استثنائی حیثیت باقی رہے ۔

ہم مندرجہ بالا تمام بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ صرف اورصرف معصوم پیشواؤں کی رہبری ثابت کرتی ہے جو امت کی چندخاص ہستوں پر مشتمل ہیں ۔

چند سوالات کے جواب

اس موقع پر مندرجہ بالا تفسیر پر کچھ اعتراض ہوئے ہیں ۔ بحث میں غیر جانبداری کا خیال رکھتے ہوئے انھیں بیان کرکے انکے جوابات پیش کئے جارہے ہیں :

۱ ۔ اگر اولوالامر سے مراد معصوم امام ہیں تو یہ مفہوم لفظ "اولیٰ" کے ساتھ جو جمع ہے کوئی مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ اس مفہوم کی صورت ہرزمانے میں ایک سے زیادہ معصوم امام نہ ہوگا۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ ہر زمانے میں ایک سے زیادہ امام معصوم نہیں ہوتا لیکن ظاہر یہ ہےکہ یہ آیت کریمہ ایک زمانے کی ذمہ داری کا تعین نہیں کررہی ہے ۔

۲ ۔ اولوالامر اس معنی کے مطابق توپیغمبر کے زمانے میں موجودنہیں تھا تو اس صورت میں اس کی اطاعت کاحکم کس طرح دیاگیا ہے ؟

اس کا جواب بھی گذشتہ جواب سے واضح ہوجاتاہے کیونکہ آیت کسی معین زمانے کے لئے محدود نہیں ہے بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے فرائض کو ہرزمانے کے لئے واضح کررہی ہے دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں حضور خود اولوالامر تھے کیونکہ حضرت رسول اکرم دو منصب رکھتے تھے ایک منصب رسالت اور تبلیغ احکام جو آیت میں "اطیعوا الرسول" کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے اور دوسرا منصب امت اسلامی کی رہبری اورسربراہی جس کا ذکر قرآن کریم نے اولو الامر کے نام سے کیاہے اس لئے پیغمبر اکرم کے زمانے میں خود پیغمبر معصوم رہبر وپیشوا تھے اور شاید لفظ "اطیعوا" کا عدم تکرار رسول اور اولو الامر کے درمیان اسی معنی کی طرف اشارے سے خالی نہ ہو ۔

دوسرے لفظوں میں منصب رسالت اورمنصب اولوالامر دومختلف منصب ہیں جو حضرت رسول اکرم کے وجود میں ایک جگہ جمع ہیں لیکن یہ امام میں جاکر الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔ اور امام صرف دوسرا ( اولوالامر کا ) منصب رکھتے ہیں ۔

۳ ۔اگر واقعی اولوالامر سے مراد معصوم امام اور رہبر ہیں تو پھر کیوں مسلمانوں کے اختلاف اورجھگڑے کو بیان کرتے ہوئے کہتاہے :

( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِى شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَي اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذ لِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيلاً ) ؛ اگر کسی چیز میں اختلاف پڑ جائے تو اسے خدا ورسول کی طرف پلٹادو ۔ اگرتم خدا اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو تویہ تمہارے لئے بہترہے اور اس کا انجام بھی بہت ہی اچھاہے ۔

ظاہرہے کہ یہاں اولوالامر کا ذکر نہیں ہے اوراختلاف کودور کرنے کا جو طریقہ بتایا گیاہے وہ خد اکی کتاب اورحضرت رسول اکرم کی سنت ہے ۔

جواب : اس سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف شیعہ علماء کی تفیسر پر نہیں ہے بلکہ تھوڑے سےغورو فکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ دوسری تفاسیر پر بھی اعتراض کا سایہ پڑتاہے یعنی یہ اعتراض اہل سنت کی تفاسیر پر بھی وارد ہوتاہے دوسرے یہ کہ اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا جملہ میں اختلاف وتنازع سے مراد احکام میں اختلاف ہے ، نہ کہ ان مسائل میں جن کا تعلق حکومت اوررہبری کی جزئیات سے ہے کیونکہ ان مسائل میں تو لازما اولوالامر کی اطاعت کرناہوگی جیسا کہ آیت کے پہلے جملہ میں وضاحت ہوچکی ہے اس بناپر اس اختلاف سے مراد اسلام کے احکام اورقوانین کلی کا اختلاف ہے جنکی تشریع خد ا اور پیغمبر سے متعلق ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ امام تو احکام جاری کرنے والے ہیں نہ کہ قانون وضع کرنے اورمنسوخ کرنےوالے ۔ امام توہمیشہ خداکے احکام اورسنت رسول کے اجرا کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اسی لئے احادیث اہل بیت میں ہے کہ اگر ہم سے کوئی شخص کوئی بات کتاب خدا ور حدیث پیغمبر کے خلاف نقل کرے تو اسے ہرگز قبول نہ کرو کیونکہ یہ ناممکن اور محال ہے کہ ہم کتاب خد ا اورسنت پیغمبرکے خلاف کچھ کہیں اسی لئے احکام وقوانین اسلامی میں لوگوں کے اختلاف دور کرنے کا پہلا مرجع خدا اور حضرت رسول اکرم ہیں جن پر وحی خدا نازل ہوتی ہے اب اگر ائمہ معصومین احکام بیان کرتے ہیں تو وہ خود ان کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ وہ کتاب خدا یا اس علم سے ہیں جو حضرت رسالت مآب کی طرف سے ا ن تک پہنچاہے یہی وجہ ہے کہ اولوالامر کالفظ اختلافی احکام ومسائل کے حل کرنے والوں میں شامل نہیں ہے ۔( ۵۸ )

احادیث کی گواہی

اسلامی کتب ومصاد ر میں کچھ احادیث موجود ہیں جواس تفسیر کی تائید کرتی ہیں کہ لفظ اولوالامر سے مراد ائمہ اہل بیت ہی ہیں ان میں سے شیعہ وسنی کتب میں وارد ہونے والی احادیث کے چند نمونے درج ذیل ہیں :

۱ ۔اہل سنت کے مشہور ومعروف مفسر ابو حیان اندلسی مغربی ( متوفی ۷۵۶ ھ) تفیسر بحرالمحیط میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی اورائمہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔( ۵۹ )

۲ ۔ عالم اہل سنت ابوبکر بن مومن شیرازی رسالہ اعتقاد میں ( مناقب کاشی کے مطابق ) ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت حضرت علی کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام نے انھیں جنگ تبوک کے موقع پر اپنی جگہ مدینہ منورہ میں چھوڑا تھا اور حضرت علی نے عرض کیاتھا کہ آپ مجھے عورتوں اوربچوں کی طرح شہرمیں چھوڑ ے جاتے ہیں تو پیغمبر اکرم نے فرمایاتھا :

"أما تَرضی أن تکونَ منّی بمنزلة هارون من موسی حين قال اخلفنی فی قومی و أصلح فقال عزوجل ( و اُولی الأمر منکم ) ؛ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون (برادر موسیٰ ) کو موسیٰ سے تھی جبکہ موسیٰ نے ان سے کہا تھا کہ تم بنی اسرائیل میں میرے جانشین بن جاؤ اور ان کی اصلاح کرو۔ اس کے بعد خداوند عالم نے فرمایا:و اُولی الأمر منکم ( ۶۰ ) ۔

۳ ۔ شیخ سلیمان حنفی قندوزی جو اہل سنت کے مشہور عالم ہیں ، ینابی ع المودۃ میں کتاب مناقب میں سلیم بن قیس ہلالی سے نقل کرتے ہیں :

"ایک دن ایک شخص حضرت علی کی خدمت میں حاضرہوا ۔ اس نے پوچھا : کم ازکم وہ کونسی چیزہے جس کے ذریعے انسان مومنین کی صف میں شامل ہوسکتاہے اور کم ازکم وہ کونسی چیزہے جس سے انسان کافروں یاگمراہ لوگوں میں شمار ہوجاتاہے حضرت امیر المومنین نے فرمایا : کم از کم وہ چیز انسان جس کی وجہ سے گمراہوں میں شامل ہوجاتاہے یہ ہے کہ وہ خداکی حجت اورنمائندے اور اس کے شاہد وگواہ کو جس کی اطاعت وولایت ضروری ہے نہ پہچانے ، اس شخص نے کہا :اے امیر المومنین مجھے ان کا تعارف کرائیے ، حضرت علی نے فرمایا: وہ وہی ہیں جنہیں خدانے اپنے پیغمبر کے بر ابر قراردیا ہے اورفرمایا:

( يا أيّها الذين آمنوا أطيعوا الله و أطيعوا الرسول و أولی الأمر منکم )

اس شخص نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ، مزید وضاحت فرمائیے ، امیر المومنین نے ارشاد فرمایا: جن کا رسول اللہ نے مختلف موقعوں پر اور اپنی زندگی کے آخری دن کے خطبہ میں تذکرہ کیا اورفرمایا:

"إنِّی ترکت فيکم أمرينِ لن تضلُّوا بعدی إِن تمسَّکتم بهما کتاب الله و عترتی أهل بيتي ؛میں تمہارے درمیان دوچیزیں بطور یاد گارچھوڑ رہاہوں اگرتم ان سے تمسک کروگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،خد اکی کتاب اورمیری عترت جو میرے اہل بیت ہیں ۔( ۶۱ )

۴ ۔ نیز یہی عالم ، کتاب"ینابی ع المودۃ" میں لکھتے ہیں کہ صاحب کتاب مناقب نے تفسیر مجاہد سے نقل کیاہے کہ یہ آیت حضرت علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔( ۶۲ )

شیعہ کتب کی متعدد روایات جو اصول کافی ، تفسیر عیاشی اور کتب صدوق وغیرہ میں منقول ہیں ، سب کی سب یہ گواہی دے رہی ہیں کہ اولوالامر سے مراد ائمہ معصومیں ہیں ۔ یہا ں تک کہ بعض میں تو ہر ایک امام کا نام صراحت کے ساتھ مذکورہے ۔( ۶۳ )

جابر بن یزید جعفی نے بیان کیا کہ میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم پر یہ آیہ کریمہ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ) (سورہ نساء، آیت نمبر ۵۹) ؛اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو۔ رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی نازل ہوئی تومیں نے عرض کیا : یارسول اللہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پہچان لیاہے ۔ یہ اولوالامر کون ہیں ؟ جنکی اطاعت آپکی اطاعت قرار پائی ہے ۔حضور اکرم نے فرمایا : اے جابر وہ میرے خلفاء اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں ۔ ان میں پہلے علی ابن ابی طالب ہیں پھر حسن پھر حسین پھر علی بن حسین ، پھر محمد بن علی ، پھر جعفر بن محمد ، پھر موسیٰ بن جعفر ، پھر علی بن موسیٰ ،پھر محمد بن علی ، پھر علی بن محمد ، پھر حسن بن علی علیہم السلام ، پھر وہ فردہوگا جس کی کنیت اورنام میراہوگا وہ زمین پر اللہ کی حجت ہوگا ، اس کے ہاتھوں پر اللہ مشرق و مغرب کی فتح عطاکرے گا ۔ وہ ایک عرصہ تک اپنے شیعوں اوراپنے چاہنے والو ں سے غائب رہے گا ۔ اور اس کی امامت پر صرف وہی ٹھہرا رہے گا جس کے قلب کا اللہ نے امتحان لے لیاہوگا۔( ۶۴ ) "

پس روایات سے ثابت ہوتاہے کہ اس زمانے میں بھی ایک معصوم کاہونا ضروری ہے تاکہ قرآن کریم کے فرمان کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے ۔تمام شیعوں اور بعض اہل سنت کی نظر کے مطابق حضرت صاحب الزمان (عج) آج بھی بند گان خدا پر حجت الہی کی حیثیت سے زندہ وموجود ہیں البتہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہیں ۔

۴ ۔ آیہ انذار

خداوند عالم سورہ رعد کی آیت نمبر ۷ میں ارشاد فرماتاہے :

( إِنَّمَا اَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَاد ) ( ۶۵ ) ؛"(اے پیغمبر ) آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور ہرقوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے۔"

تبصرہ:

مذکورہ بالا آیت کریمہ سے ظاہر ہوتاہے کہ ہر دور اورہر زمانے میں ہر قوم وملت کے درمیان ایک ایسا شخص موجود رہاہے جولوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتاہے اورحق وحقیقت کی جانب ہدایت کرتا رہاہے اوریہی امر پروردگار عالم کے ذوق ربوبیت کے عین مطابق ہے نیز آیہ کریمہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے کہ زمین کبھی بھی ہادی برحق سے خالی نہیں ہوسکتی چاہے ہادی نبی کی صورت میں ہو یاغیر نبی کی صورت میں ، کیونکہ آیت کا اطلاق اس بات کی نفی کررہاہے کہ ہادی صر ف وصرف نبی ہی ہوسکتاہے جیسا کہ زمخشری نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں اشارہ کیاہے( ۶۶ ) ۔ ورنہ اگرہادی کوصرف انبیاء کے دائرئے میں منحصر کردیا جائے تو ایسی صور ت میں جس زمانے میں نبی موجود نہیں ہوگا تو اس زمانہ کاحجت خدا اورہادی برحق سے خالی ہونا لازم آجائے گا ۔

بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ دونوں صفات "منذر" اور"ھادی" پیغمبرؐ کی صفات ہیں اور درحقیقت آیت اسی طرح تھی :( أنتَ منذر و هادٍ لِکُل قوم ) تم ہی ہرقوم کو ڈرانے والے اور ہدایت کرنے والے ہو۔"

لیکن یہ تفسیر مذکورہ بالا آیت کے مفہوم کے برخلاف ہے کیونکہ آیت میں موجود "واو" جملہ "لکل قوم هاد " کو جملہ "انّما انت منذر " سے جدا کررہاہے ، اگر کلمہ "ھاد"، "لکل قوم" سے پہلے ہوتا توبیان کردہ معنی کا ملا قابل قبول تھے لیکن ایسا نہیں ہے علاوہ بریں یہاں حق کی جانب دو قسم کے دعوت دینے والے افراد کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ، اول ایسے دعوت دینے والے افراد جنکا کام انذار ہے اور دوسرے وہ دعوت دینے والے افراد جنکا وظیفہ ہدایت ہے ۔

انذار کا مقصد گمراہوں کوراہ حق وصراط مستقیم پر لاناہے جبکہ ہدایت راہ حق پر آنے کے بعد انھیں صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے ہے ۔

درحقیقت منذر علت محدثہ وایجاد کنندہ کی مانند ہے جبکہ ہادی علت مبقیہ ورشد یہ کی مانند ہے ، یہی وہ چیزہے جسے ہم رسول اورامام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ رسول شریعت کی بنیاد رکھتاہے جبکہ امام اس شریعت کا محافظ ونگھبان ہوتاہے ۔( بیشک دیگر موار د میں پیغمبر اکرم پر بھی ہدایت کا اطلاق کیاگیاہے لیکن آیت میں موجود لفظ منذر کی وجہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں ہادی سے مراد وہ شخص ہے جو پیغمبر کی راہ کو جاری رکھے اور اس کی شریعت کا محافظ ونگھبان ہے )۔( ۶۷ )

فریقین کی کتب میں پیغمبر گرامی قدر سے متعدد ایسی روایات منقول ہوئی ہیں جن میں آنحضرت نے فرمایا ہے : میں منذر اور علی ھادی ہے ۔

علماءاہل سنت میں سے فخررازی نے تفسیر کبیر میں معروف عالم اہل سنت علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں علامہ ابن صبا غ مالکی نے کتاب فصول المہمہ میں گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں ابو حیان اندلسی نے اپنی کتاب تفسیر بحرالمحیط میں معروف عالم اہل سنت جناب حموینی نےاپنی کتاب فرائد السمطین میں میر غیاث الدین نے اپنی کتاب حبیب السیر کی دوسری جلد میں آلو سی نے روح المعانی میں شبلنجی نے نور الابصار میں اور شیخ سلیمان قندوزی نے ینابی ع المودہ میں اس حدیث کو اسی عبارت یااس سے مثابہ عبارت کے ساتھ نقل کیاہے۔

اگرچہ اکثر طرق سند میں اس حدیث کے روای ابن عباس ہیں لیکن ابو ھریرہ (حموینی کے نقل کے مطابق ) اور خود حضرت علی ؑ (ثعلبی کے نقل کے مطابق ) سےبھی روایت کی گئی ہے۔

طبری شافعی اپنی تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن میں مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں صیحر السند کے مطابق ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :" لمّا نزلت( إِنَّمَا اَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَاد ) وضع يده علی صدره، ‏فقال: أنا المنذر و لکلّ قوم هاد، ‏و أومأ بيده إلی منکب علي، ‏فقال: أنت الهادی يا علي، ‏بک يهتدی المهتدون بعدي ؛( ۶۸ ) جس وقت آیہ( إِنَّمَا اَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَاد ) نازل ہوئی تو حضور سرور کائنات نے اپنا دست مبارک سینہ پر رکھتے ہوئے فرمایا میں منذر ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کیلئے ایک ھادی ہے یہ کہہ کر آپؐ نے علیؑ کے شانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے علی ؑ تم ھادی ہو اور میرے بعد لوگ صرف تمارے ذریعہ ہی ہدایت حاصل کر سکیں گے۔"

حاکم نیشابوری نے صیح السند کےمطابق مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : "رسول الله المنذر و أنا الهادی ( ۶۹ ) ؛ رسول خدا منذر اور میں ہادی ہوں ۔"

شیعہ علماء سے جناب کلینی نے صحیح السند کے مطابق آیہ کریمہ کے ذیل میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : "رسول الله المنذر ولکل زمان هاد یهدیهم الی ماجاءبه نبی الله ؛( ۷۰ ) رسول خدا منذر ہیں اورہرزمانہ کے لئے ایک امام وہادی ہوتاہے جو لوگوں کو پیغمبر کی لائی ہوئی چیزوں کی طرف دعوت دیتاہے ۔"

نیز امام باقر علیہ السلام ہی سے نقل کرتے ہیں کہ آنجناب نے مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں فرمایا:"رسول‌الله المنذر و علیّ الهادی، ‏أما والله ما ذهبت منّا و ما زالت فينا إلی الساعة ؛( ۷۱ ) رسول خدا منذر اورعلی ہادی ہیں ۔ یاد رکھو آیات کریمہ کا مصداق ہم سے باہرنہیں جاسکتا اور قیامت تک اس کے مصداق ہم ہی رہیں گے ۔"

فریقین کی روایات پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علی ہادی ہیں اور ہر زمانہ میں ایک ہادی کا ہونا ضروری ہے اورقیامت تک یہ ہادی کا سلسلہ جاری وساری رہے گا ۔

پس بنا بریں موجودہ زمانہ میں بھی ائمہ معصومیں میں سے ایک ہادی کا ہونا ضروری ہے تاکہ آیت وروایات کا مصداق ہر دور میں موجود ہو ورنہ زمانہ ہادی سے خالی ہوجائے گا اوریہ بات قرآن وروایات کے مفہوم کے برخلاف ہے ۔

۵ ۔ آیات شہادت

قرآن کریم کی بعض آیات میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ خداوند عالم نے ہرامت پر ایک شخص کو بطور شاھد قرار دیاہے تاکہ قیامت کے دن وہ لوگوں پر اس کے ذریعہ احتجاج کرسکے ۔ ذیل میں بعض ایس ہی آیات پیش کی جارہی ہیں :

( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا ) ( ۷۲ ) اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہرامت کواس کے گواہ کے ساتھ بلائیں گے اورپیغمبر آپکو ان سب کا گواہ بنا کربلائیں گے ۔

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ ) ( ۷۳ ) اور قیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں اوراس کے بعد کافروں کو کسی طرح کی اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان کا عذر ہی سنا جائے گا ۔

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلاءِ ) ( ۷۴ ) اور قیامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انھیں میں کا ایک گواہ اٹھائیں گے اورپیغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئیں گے ۔

ان آیات سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ خداوند عالم نے ہردور میں لوگوں پر خطاء واشتباہ سے معصوم افراد کو معین کیاہے تاکہ وہ قیامت میں ان کے اعمال کی گواہی دے سکیں ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جوشخص اعمال امت پر شاھد وگواہ ہے اسے ایسا ہوناچاہیے کہ وہ اپنی گواہی میں اشتباہ نہ کرے نیز امت کے تمام اعمال پر احاطہ علمی بھی رکھتاہو ۔ یہی وہ افراد ہیں جو خداوند عالم کی جانب سے روئے زمین پر لوگوں کے اوپر حجت خدا ہیں ۔

قرآن کریم کی آیات سے استفادہ ہوتاہے کہ امت پر شاھد اورحجت معصوم میں مندرجہ ذیل صفات پائی جاتی ہیں :

۱ ۔ نوع بشر سے ہوناچاہیے :"شهیداً من أنفُسِهِم

۲ ۔ ہر زمانہ میں ایک کا ہونا ضروری ہے کیونکہ آیت میں صیغہ مفرد "شھیدا" استعمال ہوا ہے؛

۳ ۔ مکمل احاطہ علمی رکھتاہو ؛

۴ ۔ کتا ب کا علم ہو :( وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلا قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ ) ( ۷۵ ) اوریہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہہ دیجئے کہ ہمارے اورتمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اوروہ شخص کافی ہےجس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے ۔

بعض شیعہ وسنی مفسرین نے آیہ کریمہ کوہردور میں ایک عادل گواہ وحجت خدا کے وجود پر دلیل کے طورپر تسلیم کیاہے ۔

اہل سنت کے مشہور ومعروف مفسر فخررازی اس آیت کریمہ( وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ) ( ۷۶ ) ؛ "اورہم ہر قوم میں سے ایک گواہ نکا ل کرلائیں گے "؛ کے ذیل میں کہتے ہیں :"یہ وہ شاھد ین ہیں جو ہرزمانہ میں لوگوں پر گواہ ہیں اورانہیں شاھدین میں سے انبیائے الھی بھی ہیں ۔"( ۷۷ )

نیز آیت کریمہ( يَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ) ؛"اورقیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے " ؛ کے ذیل میں کہتے ہیں روئے زمین پر وجود میں آنے والے ہرگواہ پر ایک گواہ کا ہوناضروری ہے ۔ اورقرآن کریم کی اس آیت( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ) ( ۷۸ ) ؛اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اورپیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں ، کی روشنی میں حضور سرور کائنات کے دور میں خود آنحضرت امت پر شاھد تھے ۔

اسی طرح ضروری ہے کہ عصر رسول کے بعد بھی امت کے اعمال پر ایک شاھد کا ہوناضروری ہے لذرا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت پر گواہ وشاھد سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہوسکتا اس شاھد کا خطا وغلطی سے معصوم ہونابھی ضروری ہے ورنہ بصورت دیگر دوسرے گواہ کی ضرورت پڑ جائے گی اور اگر یہ بھی غیر معصوم ہوگاتو پھر نئے گواہ کی ضرور ت پڑے گی اوراس طرح یہ سلسلہ لا متناھی ہوجائے گا جو کہ باطل ہے ۔"

فخر رازی یہاں تک شیعہ عقیدہ کے موافق اورساتھ ساتھ چلے ہیں لیکن اس کے بعد کہتے ہیں: "نتیجتاً ہر دور اور ہر عصر میں ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جنکا قول حجت ہو اور اسکی تنا ایک یہی راہ ہے کہ ہم اجماع امت کو حجت قرار دیں ،یعنی کسی بھی زمانہ میں امت مجموعی طور پر راہ خدا کو ترک نہیں کرسکتی۔( ۷۹ ) "

اگر فخر رازی اپنے عقائد کو بالائے طاق رکھ کر آیت پر غور وفکر کرتے تویہ تعصب آمیز بیان جاری نہ کرتے کیونکہ قرآن کریم تو یہ فرما رہاہے کہ ہم نے ہر امت کے لئے ایک گواہ انہی کی جنس سے قرار دیاہے نہ کہ مجموع امت کو فرد فردکے لئے حجت وگواہ قرار دیاہے ۔( ۸۰ )

شیعہ مفسرین نے بھی سورہ نساء کی اکتالیسویں آیت( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا ) ؛کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:"نزلت فی امّة محمد خاصّة، فی کلّ قرنٍ منهم اِمام مِنَّا شاهد علیهم و محمد شاهد علینا ؛( ۸۱ ) یہ آیت کریمہ خصوصیت سے امت محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ہر دور میں ان میں ہم میں سے ایک گواہ موجود رہے گا جو انکے اعمال پر گواہ ہوگا اورمحمد (مصطفیٰ) ہم پر گواہ ہیں ۔"

ابو سعید خدری کہتے ہیں : "میں نےحضور سرور کائنات سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا کہ اس سے کیامر اد ہے ؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اس سے مراد میرے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔( ۸۲ ) "

نتیجہ : فریقین کی روایات پر نرں کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہرزمانہ میں امت کے اعمال پر ایک ایسے شاھد وگواہ کا ہونا ضروری ہے جو خطا اورغلطی سے محفوظ ہو ، ورنہ بصورت دیگر ایک دوسرے کے گواہ کی ضرورت پڑے گی ۔ لذرا اس شاھد کے مصداق کامل فقط اہل بیت ہی ہیں کیونکہ یہی حضرات آیت کریمہ میں ذکر شدہ صفات کے حامل ہیں۔

۶ ۔ آیہ ٔ صادقین

خداوند متعال سورہ توبہ کی ۱۱۹ آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ) ( ۸۳ ) ؛ "اے ایمان لانے والو! تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔"

آیت کریمہ میں صادقین سے مراد تمام مومنین نہیں ہیں بلکہ بعض مومنین ہیں۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بعض مومنین کی خصوصیات کیاہیں جن کی ہمراہی و معیت کا حکم دیا جا رہا ہے؟

خود آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقین سے مراد صادقین علی الاطلاق ہیں اسی لئے انکی علی الاطلاق اطاعت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ مطیع و فرمانبردار لوگ انکی ہدایت کے ذریعہ حق و حقیقت اور سعادت حاصل کرسکیں۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہاں صادقین سے مراد وہی حاملان وحی و خلفائے رسول، امینان شریعت و حامیان دین، ائمہ ہدایت اور چراغ ہدایت ہیں؛ یہ وہ افراد ہیں خداوند عالم نے جن سے رجس و پلیدی کو دور رکھا ہے اور انھیں ہر عیب و نقص سے پاک رکھا ہے، اور یہ افراد پیغمبر ؐ گرامی قدر کے اہل بیت عصمت و طہارت کے علاوہ اور کوئی نہیں ہیں کہ جن میں پہلے علی ابن طالب اور آخری حضرت مہدی موعود علیہما السلام ہیں۔

جناب یعقوبی کلینی، برید بن معاویہ عجلی کے توسط سے حضرت امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے آیت کریمہ( اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: ایّانا عنّی؛ اس میں ہمارا قصد کیا گیا ہے۔( ۸۴ ) "

نیز حضرت امام رضا علیہ السلام سے اسی آیت کریمہ کے ذیل میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "الصادقون ہم الائمہ؛ صادقین سے مراد ائمہ ہی ہیں۔( ۸۵ ) "

اہل سنت علماء و مفسرین نے بھی اس آیت شریفہ کے ذیل میں روایات نقل کی ہیں مثلاً حاکم جسکانی حنفی نے اپنی اسناد کے مطابق عبد اللہ بن عمر سے روایت نقل کی ہے اس آیت میں صادقین سے مراد محمدؐ و اہل بیت محمد علیہم السلام ہیں۔( ۸۶ )

سبط ابن جوزی نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں آیت کا مقصد یہ ہے کہ علی اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجاؤ۔( ۸۷ )

فخر رازی اس آیت کی روشنی میں عصمت کے قائل ہوئے ہیں اور کہتے ہیں: "اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں معصوم صادقین کا ہونا ضروری ہے۔"( ۸۸ )

نتیجہ:

شیعہ و سنی احادیث و تفسیر کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں عترت اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک معصوم شخص کا ہونا ضروری ہے جو "صادقین" کا کامل مصداق ہو۔ لہذا آج کے دور میں شیعہ و سنی روایات کی روشنی میں وہ معصوم اور مصداق صادقین حضرت مہدی موعود کے سوا کوئی نہیں ہے جو کہ تمام شیعیان حیدر کرار کی اتفاق نظر اور بعض اہل سنت کے عقیدے کے مطابق پردہ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

۷ ۔ آیۂ ہدایت

خداوند عالم سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۸۱ میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ) ( ۸۹ ) ؛ "اور ہماری ہی مخلوقات میں سے وہ قوم بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور حق کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔"

علمائے اہل سنت میں سے مشہور عالم فخر رازی نے جبائی سے روایت نقل کی ہے کہ : "یہ آیت اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ کوئی دور ایسے فرد سے خالی نہیں ہوسکتا جو حق کے ساتھ قیام و عمل انجام دے اور لوگوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دے۔( ۹۰ ) "

جبکہ شیعہ علمائے میں سے میرزا محمد مشہدی اپنی تفسیر کنز الدقائق میں کہتے ہیں: "آیت اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ ہر دور میں ایک معصوم فرد کا ہونا ضروری ہے کیونکہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ ہادی و عادل افراد بعض مخلوقات ہیں نہ کہ تمام مخلوقات اور جو شخص معصوم نہیں ہے وہ مکمل طور پر ہادی و عادل نہیں ہوتا۔( ۹۱ ) "

عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں: میں نے حضرت صادق آل محمدؐ امام جعفر صادق ؑ سے اس آیت کریمہ( وممّن خلقنا أمّة ...) کے بارے میں سوال کیا تو آنجناب نے فرمایا: "ہم الائمۃ؛ آیت سے مراد ائمہ علیہم السلام ہیں۔( ۹۲ ) "

نتیجہ: مفسرین کے اقوال کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر دور میں ایک ہادی برحق و عادل کا ہونا ضروری ہے اور بر بنائے تصریح روایات شیعہ یہ ہادی و عادل صرف و صرف ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں۔

۸ ۔ آیہ ٔ نذیر

خداوند متعال سورہ فاطر کی آیت نمبر ۲۴ میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِن مِّنْ اُمَّة إِلاَّ خلاَ فِيهَا نَذِيرٌ ) ؛( ۹۳ ) " کوئی قوم ایسی نہیں ہے جسے کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔"

تبصرہ:

مندرجہ بالا آیت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں حجت خدا ہادی علی الاطلاق کا ہونا ضروری ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "اے شیعو! خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:( وَإِن مِّنْ اُمَّة إِلاَّ خلاَ فِيهَا نَذِيرٌ ) عرض کیا گیا:"اے ابا جعفر! لیکن کیا پیغمبر ؐ گرامی قدر اس امت کے نذیر نہیں ہیں؟ "فرمایا: "...صدقت فهل کان نذير و هو حیّ ‏من البعثة فی أقطار الأرض ... ؛ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو ، کیا محمد مصطفی اپنے زمانہ حیات میں تمام روئے زمین کے لئے اپنے بعثت کے وقت سے منذر اور ڈرانے والے نہ تھے؟ ۔۔۔ محمد مصطفی اس وقت تک دنیا سے نہیں گئے جب تک کہ آنحضرت نے اپنی جانب سے منذر کو معین نہیں کردیا۔ اگر تم کہتے ہو کہ انھوں نے کسی کو معین نہیں کیا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنے والی نسلوں کو ایسے ہی چھوڑ دیا!؟

کسی نے سوال کیا: "کیا امت کی ہدایت و ارشاد کے لئےقرآن کریم کافی نہیں تھا؟" آنجناب نے جواب میں فرمایا: "کیوں نہیں! یقیناً کافی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کے مفسر و شارح سے متمسک رہیں۔" اس شخص نے عرض کیا: "لیکن کیا خود حضور سرور کائنات نے اس کی شرح و تفسیر بیان نہیں فرمائی تھی؟" حضرت نے فرمایا: "کیوں نہیں! حضور نے ایک فرد واحد کو پورے قرآن کریم کی شرح و تفسیر بیان کردی اوراس کا مقام بھی لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے اور وہ فرد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے۔( ۹۴ ) "

مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں آیا :"لکلّ زمانٍ امامٌ؛ ہر زمانے کے لئے ایک امام ہوتا ہے۔( ۹۵ ) "

نتیجہ:

روایات اہل بیت علیہم السلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جو منذر اور ڈرانے والا ہو اور یہ انذار کنندہ منصوص من اللہ اور اعلانِ پیغمبر کے ذریعے معین ہونا چاہیے۔ ورنہ زمانہ منذر سے خالی ہوجائے گا اور یہ بات حکمت الٰہی و روایات اہل بیت علیہم السلام کے برخلاف اور شیعہ عقیدہ کے منافی ہے۔

۲ ۔غیبت ا مام عصر (عج) کی تاویل یا تفسیر بیان کرنے والی آیات

اول: سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳

( الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاة وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ) ؛ جو لوگ غیبت پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں۔"

تبصرہ:

لغوی اعتبار سے لفظِ "غیب" مصدر ہے جس کے معنی پنہان و مخفی ہونا ہے ۔ مشہور و معروف زبان شناس و لغوی راغب اصفہانی کا کہنا ہے: "الغيب: مصدر، ‏غابت الشمس و غيرها، إذا استترت عن العين ؛( ۹۶ ) لفظ "غیب" مصدر ہے جیسے خورشید وغیرہ کا غائب ہوجانا جب وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوجائے۔

اور اصطلاح میں غیب سے مراد وہ امر ہے جسے حواس سے درک نہیں کیا جاسکتا ۔ کتاب مفرادت راغب میں بیان کیا ہے: "( یؤمنون بالغيب ) ،ما لا يقع تحت الحواس ولا تقتضيه بدائة العقول و إنّما يعلم بخبر الأنبياء ؛( ۹۷ ) آیت میں غیب سے مراد وہ شئ ہے جس کو حواس سے محسوس نہیں کیا جاسکتا ، (یعنی ماورائے حواس ہے) اور انسانی عقل صرف انبیاء کی خبر رسانی ہی کے ذریعہ اُس کا علم پیدا کرسکتی ہے۔"

آیت کریمہ میں غیب سے مراد

آیت کریمہ میں غیب سے مراد کے بارے میں متعدد اقوال ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے ہم یہاں چند مہم ترین اقوال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

الف: اہل سنت مفسرین کے اقوال

۱ ۔ اللہ عزوجل؛ یعنی ذات پروردگار پر ایمان رکھنا( ۹۸ ) ۔

۲ ۔ الوحی؛ یعنی وحی پر ایمان( ۹۹ ) ۔

۳ ۔القرآن وما نزل فيه من الغيوب ؛ قرآن اور اس میں نازل ہونے والے غیبی ا مور( ۱۰۰ ) ۔

۴ ۔ما غاب من العباد من أمر الجنة و النّار و نحو ذلک ؛ وہ چیزیں جو بندگانِ خدا سے غائب و پنہان ہیں مثلاً جنت و دوزخ وغیرہ( ۱۰۱ ) ۔

۵ ۔الغيب کلّ ما أخبر به الرسول مما لا تهتدی إليه العقول من اشراط الساعة و عذاب القبر و ...؛ غیبت سے مراد ہر وہ غائب چیز ہے جس کے بارے میں رسولِ خدا نے خبر دی ہے اور خود عقل انھیں درک نہیں کرسکتی مثلاً قیامت کی علامات اور عذابِ قبر وغیرہ( ۱۰۲ ) ۔

اہل سنت کے معروف مفسر قرطبی ، ابن عطیہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان تمام اقوال میں کوئی باہمی تعارض نہیں ہے بلکہ ان تمام پر غیب کا اطلاق ہوتا ہے( ۱۰۳ ) ۔ پس غیب کا مصداق عام ہے۔

ب: شیعہ مفسرین کے اقوال

۱ ۔ غیبت پر ایمان سے مراد، ذاتِ خداوند پر ایمان ہے( ۱۰۴ ) ۔

۲ ۔ اس سے عام مراد ہے اور تمام غیبی امور مثلاً جنت، جہنم، وعد اور وعید وغیرہ سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ روایات اہل بیت علیہم السلام کے مطابق غیبت امام زمانہ علیہ السلام بھی اس کا ایک مصداق ہے کہ پیغمبر گرامی قدر نے جس کی خبر دی تھی۔( ۱۰۵ )

اقوال پر نقد و تبصرہ

شیعہ و اہل سنت مفسرین کے اقوال کی روشنی میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں غیب پر ایمان سے مراد ایک عام و وسیع مفہوم ہے اور تمام مذکورہ امور اس میں شامل ہیں کیونکہ آیت کی تفسیر مطلق ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی قید ذکر نہیں کی گئی ہے کہ جو اس کے معنی کو کسی ایک خاص مصداق میں محدود کردے۔

فخر رازی کا کہنا ہے: "شیعوں کا عقیدہ ہے کہ غیب سے مراد مہدی متظر ہیں کہ قرآن میں سورہ نور کی آیت نمبر ۵۵ میں جنکے آنے کی خبر دی گئی ہے، نیز روایات میں بھی پیغمبر گرامی قدر کے فرمودات میں جن کی آمد کی اطلاع دی گئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "لو لم يبق من الدنيا إلّا يوم لطوّل الله ذالک اليوم حتّی يخرج رجل من أهل بيتی إسمه إسمی و کنيته کنيتی يملأ الأرض عدلاً و قسطاً کما ملئت جوراً و ظلماً ۔"

فخر رازی اس کے بعد کہتے ہیں: "واعلم أنّ تخصيص المطلق من غير الدليل باطل ؛( ۱۰۶ ) بغیر دلیل کے مطلق کو خاص کرنا جائز نہیں ہے۔"

ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ آیت مطلق ہے اور اس کے متعدد مصادیق ہیں اور انہی میں سے ایک مصداق حضرت مہدی موعود علیہ السلام ہیں۔

روائی بحث

روایات اہل سنت

مفسرین اہل سنت نے مذکورہ آیت کے ذیل میں دو قسم کی روایات نقل کی ہیں:

روایات کی پہلی قسم: اس قسم کی روایات میں ایک عام مصداق کو بیان کیا گیا ہے۔

ابو العالیہ اس آیت کریمہ( الذين يؤمنون بالغيب ) کے بارے میں کہتے ہیں:"بالله وملائکته ورسله واليوم الآخر وجنّته وناره ولقائه والحياة بعد الموت ؛( ۱۰۷ ) یہاں غیب سے مراد اللہ تعالیٰ، ملائکہ، رسولوں، روز آخرت، جنت و جہنم اور موت کے بعد زندگی پر ایمان ہے۔"

اس روایت کے علاوہ بھی دیگر ایسی روایات موجود ہیں جن میں کم و بیش غیب کے مصادیق بیان کئے گئے ہیں۔( ۱۰۸ )

روایات کی دوسری قسم: اس قسم کی روایات میں ایک مخصوص مصداق کو بیان کیا گیا ہے۔

انس بن مالک نے حضور سرور کائنات جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرت نے اپنے اصحاب سے خطاب کے دوران فرمایا: "أیّ الخلق أعجب إيمانا؟" ‏قالوا: "الملائکة." "... ولکنّ أعجب الناس إيماناً، ‏قوم يجيئون من بعدکم فيجدون کتاباً من الوحي، ‏فيؤمنون به ويتبعونه فهولاء أعجب الناس إيماناً "( ۱۰۹ ) ؛ ایمان کے اعتبار سے کون سی مخلوق عجیب ترین ہے؟" کہا: "ملائکہ"۔ (فرمایا: نہیں) بلکہ ایمان کے اعتبار سے عجیب ترین لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد آنے والے ہے، وہ قرآن و وحی کو پائیں گے اس پر ایمان رکھیں گے اور اس کی پیروی کرتے ہوں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان کے اعتبار سے عجیب ترین مخلوق ہیں۔"

قندوزی حنفی اپنی کتاب ینابی ع المودہ میں جابربن عبد اللہ انصاری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک دن جندل بن جنادۃ بن جبیر یہودی پیغمبر گرامی قدر کی زیارت سے مشرف ہوا اور عرض کی: "یا رسول! اپنے بعد آنے والے اوصیاء کا مجھے تعارف کرا دیجئے تاکہ میں ان کی طرف مائل اور ان سے متمسک رہوں۔" آنحضرت نے فرمایا: میرے بارہ اوصیاء ہوں گے، ان میں پہلے سید الاوصیاء، اور ابو الائمۃ الاطہار ہیں ۔۔۔ پھر ان کے بعد ان کے فرزند محمد ؑ ہیں جنہیں مہدی، قائم و حجت کہا جائے گا اور وہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوجائیں گے اور جب ظاہر ہوں گے تو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پُر کردیں گے جس طرح زمین ظلم و جور سے بھری ہوگی، خوشبحال ہوں زمانہ غیبت میں صبر کرنے والے اور خوشبحال ہے وہ شخص جو انھیں محبوب رکھتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے اپنی مقدس کتاب میں یہ وصف بیان بیان کی ہے:( هدی للمتقين الذين یومنون ...) ۔۔۔( ۱۱۰ ) "

شیعہ روایات

شیعہ منابع میں بھی مذکورہ آیت کے ذیل میں دو قسم کی روایات پائی جاتی ہیں:

روایات کی پہلی قسم: اس قسم کی روایات میں ایک عام مصداق بیان کیا گیا ہے۔

ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "يصدّقون بالبعث والنشور والوعد والوعيد ؛( ۱۱۱ ) ایسے بھی افراد ہیں جو قبروں سے اٹھائے جانے، روز حشر اور خدائی وعد و وعید کی تصدیق کرتے ہیں۔"

اس جیسی دیگر روایات بھی موجود ہیں جن میں ایسے مصادیق کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ان آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کئےجاسکتے بلکہ صرف عقلی دلائل کے ذریعہ قابل شناخت ہیں جیسے جنت و جہنم وغیرہ( ۱۱۲ ) ۔

روایات کی دوسری قسم: اس قسم کی روایات میں ایک خاص مصداق کو بیان کیا گیا ہے۔

یحیی بن ابو القاسم کہتے ہیں: میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں سوال کیا:( الم... الذين يؤمنون بالغيب ) تو حضرت ؑ نے فرمایا:""المتقون" شيعة علیّ و "الغائب" فهو الحجّة الغائب ؛( ۱۱۳ ) متقین سے مراد شیعیان علی ؑ اور غیب پر ایمان سےمراد حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ہیں جو غائب ہوجائیں گے۔"

نتیجہ گیری

فریقین کی روایات میں کسی قسم کا کوئی تضاد موجود نہیں ہے بلکہ روایات کی پہلی قسم عام مصداق کو بیان کر رہی ہیں جبکہ دوسری قسم خاص مصداق کو بیان کر رہی ہیں۔ لیکن چونکہ مہدویت کے سلسلہ میں فریقین کی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ حضور سرور کائنات نے حضرت مہدی (عج) کی آمد کی بشارت دی ہے لہذا اس سے مہدی موعود کو غیب کا ایک مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ نیز قندوزی نے پیغمبر گرامی سے ایسی ہی ایک روایت نقل کی ہے جو شیعہ دعویٰ کو ثابت کرتی ہے۔

دوئم: سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۲۸

( لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ اَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذ لِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِى شَيْءٍ إِلاَّ اَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاة وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَي اللهِ الْمَصِيرُ ) ؛ خبر دار! صاحبان ایمان، مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی و سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔"

اس آیت کریمہ کے ذیل میں عمار ساباطی سے ایک مفصل روایت نقل کی گئی ہے جس میں عصر غیبت میں تقیّہ کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے:

عمار ساباطی کہتے ہیں: میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا: "أيّما أفضل العبادة فی السِرّ مع الإمام منکم ‏المستتر فی دولة الباطل أو العبادة فی ظهور الحقِّ ودولتِه مع الإمام الظاهر؟ ؛ ان دونوں میں کون سی عبارت بہتر ہے حکومتِ باطل کے زمانہ میں آپؑ اہل بیت میں سے امام غائب کے ساتھ پوشیدہ عبادت یا حکومت حق میں امام ظاہر کے ساتھ آشکار عبادت؟"

حضرت نے فرمایا: اے عمار"الصّدَقة فی السرِّ والله أفضلُ من الصدقة فی علانية وکذالک والله عبادتُکم فی السرّ مع إمامکم المستتر فی دولة الباطل ...؛( ۱۱۴ ) خدا کی قسم پوشیدہ صدقہ، آشکار صدقہ سے بہتر ہے، اسی طرح بخدا باطل حکومت کے دور میں غائب امام کے ساتھ تمہاری پوشیدہ عبادت اس سے افضل و بہتر ہے جو برحق حکومت کے زمانہ میں ظاہر و آشکار برحق امام کے ساتھ آشکار طور پر انجام دی جائے، باطل حکومت میں خوف کے عالم میں عبادت برحق حکومت میں آسائش کے ساتھ عبادت کے برابر نہیں۔"

یہ روایت غیبت امام عصر (عج) پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ اس میں عصر غیبت میں تقیہ اور صدقہ دینے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔

سوئم: سورہ لقمان ( ۳۱) آیت نمبر ۲۰

( اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَة وَبَاطِنَة وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِى اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلاَ هُدًى وَلاَ كِتَابٍ مُّنِيرٍ ) ؛ کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے اور تمہارے لئے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو مکمل کردیا ہے اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو علم و ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

تبصرہ

مندرجہ بالا آیت کریمہ میں خالق کائنات لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی بے شمار نعمتوں کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ کیا تم لوگ زمین و آسمان اور کائنات کے حیرت انگیز نظام کو نہیں دیکھتے کہ خداوند عالم نے کس طرح اس نظام کائنات کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے تاکہ تم لوگ اس نظام تخلیق سے بہرہ مند ہو کر اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرکے حد کمال تک پہنچ سکو؟ خداوند عالم نے اس معاملہ میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا کمی نہیں کی ہے، اس نے تمہیں تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ نعمت کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو انسان کی طبع و وجود کے ساتھ سازگار ہو۔ خدا کی طرف سے عطا ہونے والی نعمتیں ظاہری بھی ہیں جنہیں انسان بآسانی محسوس کرسکتا ہے، مثلاً نعمتوں سے نوازا ہے۔ مثلاً اعضائے بدن، سلامتی و رزق پاک و طیب، اور اس نے انسان کو باطنی شعور، ارادہ اورعقل جیسی باطنی نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ ہر چند لطف الٰہی نہایت روشن و غیر قابل انکار ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ناحق ، حق کے مدّ مقابل محاذ آرای شروع کردیتےہیں اور بغیر علم و دانش حقائق کا انکار کردیتے ہیں۔ یہ لوگ علم و عقل، حقائق، الہامات الٰہی اور کتب آسمانی پر تکیہ کئے بغیر ناقابل اعتماد دلائل کا سہارا لیکر حقیقت و واقعیت کا انکار کردیتے ہیں!

روایات اہل بیت علیہم السلام میں نعمت ظاہر و با طن کے مصادیق میں سے ایک مصداق امام ظاہر و امام غائب کو بیان کیا گیا ہے۔ محمد بن زیاد ازدی کہتےہیں: میں نے حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے اس کلام خدا( و أسبغ علیکم ) کے بارے میں دریافت کیا تو آنجناب ؑ نے فرمایا: "ظاہری نعمت سے مراد امام ظاہر اور باطنی نعمت سے مراد امام غائب ہیں۔" میں نے عرض کیا: "مولا! کیا ائمہ معصومین ؑ میں سے کوئی امام غیبت اختیار کرے گا؟" آپ ؑ نے فرمایا: "ہاں وہ خود لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگا مگر اس کا ذکر مومنین کے قلوب میں رہے گا۔ وہ ہم میں سے بارہویں امام ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہر مشکل کو آسان اور ہر سختی کو سہل کردے گا۔ ان کے لئے زمین کے خزانے آشکار ہوں گے، ہر فاصلہ قربت میں تبدیل ہوجائے گا۔ ہر جابر ان کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا اور تمام شیاطین ان کے ہاتھوں ہلاک ہوجائیں گے۔"( ۱۱۵ )

مذکورہ آیت کریمہ سے مختلف نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں جن میں سے ہم ذیل میں سے بعض نکات بیان کر رہے ہیں:

۱ ۔ نعمت وہ چیز ہے جو انسان کی سرشت کے موافق ہو اور کمال تک پہنچنے میں اس کی مدد گار ہو۔ امام غائب کو نعمت باطن سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ انکی غیبت کی وجہ سے لوگوں کو بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کے کمال میں خاص طور پر اثر انداز ہے کہ جس سے انسانوں کو غافل نہیں رہنا چاہیے؛ مثلاً خاص امتحان اور فراواں اجرو پاداش وغیرہ۔

۲ ۔ خداوند عالم نے بہترین نظام تخلیق کیا ہے او رانسانوں پر نعمت امامت کو تمام کیا ہے، لیکن اس عظیم نعمت سے استفادہ خود انسان کی اپنی صواب دید پر ہے، وہ اس نعمت سے بہرہ مند ہونے پر مجبور نہ ہو بلکہ خود مختار ہونا چاہیے۔

۳ ۔ امام غائب نعمت ہے؛ لہذا اس سے بہرہ مند ہونا ممکن ہونا چاہیے، البتہ مومن کے لئے غیبت امام کا مطلب دل سے غائب ہونا نہیں ہے بلکہ فقط نگاہوں سے غائب ہونا ہے لہذا ہر وقت مومن کے دل میں امام کی یاد زندہ و تابندہ رہتی ہے اور یہی امر اس کی بالیدگی اور رشد و کمال کا سبب بنتا ہے۔

۴ ۔ امام ، خدائے متعال کی کامل نعمت ہے؛ پس اس کا ظہور و غیبت لوگوں کی مدد کرنے اور بہرہ مند ہونے میں کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں، اسی لئے پیغمبر گرامی قدر اور ائمہ اطہار حتیٰ کہ خود امام زمانہ ؑ نے امام غائب کو پس ابر سورج سے تشبیہ دی ہے۔

چہارم: سورہ ملک ( ۶۷) آیت نمبر ۳۰

( قُلْ اَرَاَيْتُمْ إِنْ اَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْراً فَمَن يَاْتِيكُم بِمَاء مَّعِينٍ ) ؛ "کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارا سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی بہا کر کون لائے گا؟"

تبصرہ

آیت کریمہ میں موجود لفظ "أَرَأَیتُم"،همزهٔ استفهام اور فعل "رَأَیتُم " سے مرکب ہے جو "أخبرونی " (مجھے خبر دو) کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور قرآن کریم میں تیس سے زائد بار یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہ ترکیب ایسے موارد میں استعمال ہوئی ہے جہاں نہایت غور وفکر اور مخاطبین کی توجہ کو ابھارا گیا ہے۔

لفظ "معین" ، "معن" (بروزن طعن) کے مادے سے جاری پانی کے معنی میں ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ "عین" سے لیا گیا ہے اور اس کی میم زائدہ ہے جس کے معنی ظاہر و نمایاں کے ہیں اس لیئے بعض مفسرین نے معین کو اس پانی کے معنی میں لیا ہے جو آنکھ سے دیکھا جاسکے اگرچہ وہ جاری نہ ہو۔

زمین دو قسم کے مختلف قشروں سے بنی ہوئی ہے: "نفوذ پذیر قشر" جو پانی کو اپنے اندر لے جاتا ہے اور اس کے نیچے "نفوذ ناپذیر" قشر ہے جو پانی کو وہیں محفوظ رکھتا ہے، تمام چشمے، کنوئیں، ندی، نالے اسی خاص ترکیب کی برکت سے وجود میں آئے ہیں ۔ کیونکہ اگر تمام روئے زمین زیادہ گہرائیوں تک نفوذ پذیر قشر ہوتی تو پانی اتنا نیچے چلا جاتا کہ ہرگز اس تک کسی کی رسائی نہ ہوتی۔ اگر وہ ساری کی ساری نفوذ ناپذیر ہوتی تو روئے زمین کے تمام پانی اس کے اوپر ہی کھڑے رہتے اور دلدل اور کیچڑ میں تبدیل ہوجاتے یا جلدی سمندروں میں جا پڑتے اور اس طرح سے پانی کے زیر زمین ذخیرے ہاتھ سے نکل جاتے۔

یہ خداوند عالم کی عام رحمت کا ایک چھوٹا سانمونہ ہے کہ جس سے انسان کی موت و حیات شدت کے ساتھ وابستہ ہے۔( ۱۱۶ )

بنابرین ، گرچہ آیت کریمہ ظاہری طور پر انسانی زندگی میں جاری پانی کی اہمیت ہی سے مربوط ہے لیکن اہل بیت ؑ سے ہم تک پہنچنے والی متعدد روایات میں وجود حضرت مہدی (عج) کو جاری پانی کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔

معتبر روائی منابع میں حضرت امام محمد باقر و دیگر ائمہ طاہرین سے روایت کی گئی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت امام عصر (عج) کے بارے میں ہے:

"هذِه نَزَلَت فی القائم يقول: إن أصبح إمامکم غائباً عنکم لا تدرون أين هو فمن يأتيکم بإمامٍ ظاهرٍ يأتيکم بأخبار السماء والأرض وحلال الله جلّ‌وعزّ وحرامه. ثمّ قال والله ما جاء تأويل الآية ولابُدّ أن يجيئ تأويلها ؛( ۱۱۷ ) یہ آیت امام قائم کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر تمہارا امام تمہاری نظروں سے غائب ہوجائے اور تم کو معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں چلے گئے توکون تمہارے لئے امام ظاہر کو بھیجے گا جو آسمانوں اور زمین کی خر یں اور خدا کے حلال و حرام کو تمہارے لئے بیان کرے، اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم اس کی تاویل ابھی تک نہیں آئی اور بالآخر یہ آکر رہے گی۔"

تھوڑے تدبر سے ہم اس بات کو محسوس کرسکتے ہیں کہ "ماء" یعنی پانی کو جو کہ انسان کی مادی زندگی کا سرچشمہ ہے وجود امام زمانہ (عج) سے جو کہ انسانی معاشرے کی حیات معنوی کا سبب ہے، تفسیر کرنا ایک بالکل مناسب، قابل فہم اور قابل قبول امر ہے۔ انسانی معاشرے میں امام کے وجود کی مثال پانی جیسی ہے، البتہ ان دونوں کے درمیان اور بھی مختلف شباہتیں پائی جاتی ہیں:

۱ ۔ قرآن کریم میں پانی کو تمام زندہ موجودات کاسرچشمہ قرار دیا گیا ہے:( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ اَفَلاَ يُؤْمِنُونَ ) ؛( ۱۱۸ ) " اور ہم ہی نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے، تو کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے؟( ۱۱۹ ) "

امامت حضرت مہدی (عج) بھی انسان کی فکری ومعنوی زندگی کا سرچشمہ ہے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

"إذا قام قائمُنا وضع الله يده علی رؤوس العباد فجمع بها عقولهم و کملت بها أحلامهم ؛( ۱۲۰ ) جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو اللہ اپنے بندوں پر اپنا دست کرم قرار دے گا اور اس طرح وہ انکی عقلوں کو یکجا کرے گا اور انکے فہم و فراست کو کمال عطا کرے گا۔"

۲ ۔ جس طرح پانی کا نزول ، عالم بالا سے ہوتا ہے، اسی طرح موضوع امامت حضرت مہدی اور ان کا ظہور بھی ایک آسمانی امر ہے۔ قرآن کریم نے نزول آب کے بارے میں فرمایا ہے:( و أنزل من السماء ماءً ) ( ۱۲۱ ) ؛ "اور اللہ نے پانی آسمان سے نازل کیا ہے۔" اور امامت کے بارے میں فرمایا ہے:( ولا ينال عهدی الظالمين ) ( ۱۲۲ ) ؛ میری طرف کا یہ عہدہ( ۱۲۳ ) ظالموں تک نہیں پہنچے گا (ترجمہ: علی نقی نقوی)۔

۳ ۔ پانی پاکیزگی و رفع آلودگی کا سبب ہے، اسی طرح حکومت حضرت مہدی (عج) بھی دلوں کی طہارت و پاکیزگی کا سرچشمہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "لو قد قام قائمنا... لذهبت الشحناء من قلوب العباد ( ۱۲۴ ) ؛ اگر ہمارے قائم کا قیام ہوجائے ۔۔۔ تو بندوں کے دلوں سے کینہ و دشمنی نابود ہوجائے۔"

بس یاد رہے کہ جس طرح اگر پانی زمین کی نہایت تہہ میں چلا جائے تو کوئی بھی اسے زمین کی تہہ سے نہیں نکال سکتا اور انسان اپنی تمام تر توانائیوں کےباوجود اس تک دسترسی پیدا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر امام وقت ارادۂ پروردگار سے پس پردہ غیبت چلا جائے تو لوگ اپنے درمیان سے امام کا انتخاب نہیں کرسکتے بلکہ وہ ہمیشہ امام و پیشوا آسمانی ہی کے محتاج رہیں گے۔ لہذا بندوں کو اسی کا خواہاں ہونا چاہیے اور خداوند عالم سے اس کے ظہور کی دعا کرنی چاہیے کہ جس طرح پانی کے عدم وجود کے موقع پر خداوند قدوس سے دعا کرتے ہیں کہ ان کے چشموں کو جاری کردے۔

سلسلۂ امامت کی ساتویں کڑی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے بھائی علی بن جعفر سے اس آیت کی تاویل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "إذا فقدتم إمامکم فلم تروه فماذا تصنعون ؛( ۱۲۵ ) جب تمہارے امام تم سے غائب ہوجائیں اور تم انہیں دیکھ نہ سکو گے تو کیا کرو گے؟!"

پس ہمارے اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آیت کا مضمون امام زمانہ (عج) کے عصر غیبت سے متعلق ہوسکتا ہے، جیسا کہ سرور کائنات نے جب اپنے بعد آنے والے ائمہ اثناءعشر سے باخبر فرمایا تو عمار یاسر نے حضرت مہدی (عج) کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت نے اس موقع پر فرمایا: "اے عمار! خداوند عالم نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ نسل حسین علیہ السلام سے نو امام قرار دے گا جن میں سے نواں امام غائب ہوجائے گا اور یہ وہ فرمان خداوندی ہے کہ جس میں وہ فرماتا ہے:( قُلْ اَرَاَيْتُمْ إِنْ اَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْراً فَمَن يَاْتِيكُم بِمَاء مَّعِينٍ ) اس (مہدی) کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ جس میں بہت سے لوگ اس کی امامت سے منحرف ہوجائیں گے جبکہ دوسرا گروہ اس کی امامت پر ثابت قدم رہے گا، وہ آخر الزمان میں قیام کرے گا اور دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی۔( ۱۲۶ ) "

پنجم :سورہ تکویر ( ۸۱) آیت نمبر ۱۵ اور ۱۶

( فَلاَ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ )

کتاب غیبت نعمانی میں مرقوم ہے کہ اس آیت کریمہ کے بارے میں امّ ہانی کے سوال کے جواب میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:"إمامٌ يخنس نفسه حتّی ينقطع عن الناس علمه، ‏سنة ستّين و مأتين، ‏ثمّ يبدو کالشهاب الواقد فی الليلة الظلماء فإن أدرکت ذالک الزمان، ‏قرّت عينک ( ۱۲۷ ) ؛ اے امّ ہانی اس سے مراد وہ امام ؑ ہیں جو لوگوں سے ۲۶۰ ھ میں اس طرح دور چلیں جائیں گے کہ انکے بارے میں لوگوں کی معلومات منقطع ہوجائیں گی اور پھر (وقت ظہور) اس طرح ظاہر ہوں گے جس طرح تاریک رات میں روشن ستارے ظاہر ہوتے ہیں اگر تم اس زمانے کو پاؤ تو تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگا۔"

یہی روایت جناب شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین( ۱۲۸ ) اور شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ( ۱۲۹ ) میں اس آیت کریمہ کے ذیل میں نقل کی ہے۔ نیز تفسیر نور الثقلین( ۱۳۰ ) میں بھی اسی آیت شریفہ کے ذیل میں نقل کی گئی ہے۔

ششم: سورہ نمل ( ۲۷) آیت نمبر ۶۲

( اَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاء الاَرْضِ اَإِلَهٌ مَّعَ اللهِ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ ) ؛ "وہ بھلا کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم لوگوں کو زمین کا وارث بناتا ہے۔ کیا خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہے، نہیں بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔"

کتاب غیبت نعمانی میں اسماعیل بن جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "اس صاحب امر کے لئے یہاں ایک وادی میں غیبت ہوگی اور یہ کہہ کر آپ نے مکہ کے اطراف میں واقع ذی طوی نامی پہاڑ کی طرف اشارہ فرمایا۔"

پھر آنجناب ؑ نے فرمایا: "بخدا وہ وہی مضطر ہے کہ جس کے بارے میں یہ فرمان خداوندی:( أمّن يجيب المضطرّ إذا دعاه ...) نازل ہوا ہے۔( ۱۳۱ ) "

ہفتم: سورہ مدثر ( ۷۴) آیت نمبر ۸

( فَإِذَا نُقِرَ فِى النَّاقُورِ ) ؛ " پھر جب صور پھونکا جائے گا۔"

مفضل ابن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب اس فرمان الٰہی( فَإِذَا نُقِرَ فِى النَّاقُورِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آنجناب نے فرمایا:"إنّ منّا إماماً مستتراً فإذا أراد الله عزّوجلّ ذکره إظهار أمره نکت فی قلبه نکتة فظهر فقام بأمر الله عزّوجلّ ( ۱۳۲ ) ؛ ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک امام ہوگا جو پوشیدہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ ظاہر ہو تو اس کے دل میں ایک نکتہ پیدا کر دے گا پس وہ ظاہر ہوجائے گا اور حکم خدا نافذ کرے گا۔"

ہشتم: سورہ حدید ( ۵۷) آیت نمبر ۱۶

( وَلاَ یَكُونُوا كَالَّذِينَ اُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ) ؛ اور ان اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں کتاب دی گئی تو ایک عرصہ گزرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت بدکار ہوگئی۔"

عالم بزرگوار جناب شیخ نعمانی( ۱۳۳ ) کہتے ہیں: محمد بن ہمام نے اپنی اسناد سے مجھ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ روایت بیان کی کہ آنجناب ؑ نے فرمایا: یہ آیت کریمہ( ولا يکونوا کالذين ...) زمانہ غیبت کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔"

آیت میں موجود لفظ "أمَد " یعنی مدت کے طولانی ہونے سے مراد حضرت قائم کی مدت غیبت کا طولانی ہونا ہے ۔ بنابریں اس آیت کی تاویل عصر غیبت سے قبل کے لوگوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ زمانہ غیبت کے لوگوں کے بارے میں ہے۔ خداوند عالم چاہتا ہے کہ وہ اپنی حجت کے بارے میں شیعوں کو شک سے نجات دے یا یہ کہ شیعوں کو معلوم ہوجائے کہ خداوند عالم زمین کو ایک لحظہ کے لئے بھی حتج سے خالی نہیں چھوڑتا ۔

جیسا کہ حضرت امیر المومنین ؑ نے کمیل بن زیاد سے فرمایا: "پروردگار! اپنی زمین کو حجت آشکار و شناختہ شدہ یا ہراسان وغائب سے خالی نہ چھوڑنا۔"

شیخ نعمانی اوائل عصر غیبت کے بزرگ عالم دین ہیں اور یہ نواب اربعہ کے ہم عصر تھے، یہ اپنی کتاب غیبت کے آغاز میں تحریر فرماتے ہیں:"ہم لوگوں میں ایسے افراد دیکھ رہے ہیں جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں لیکن وہ لوگ غیبت امام زمانہ کے بارے میں حیران و پریشان اور پراکندہ ہوگئے ہیں اور صرف تھوڑے سے افراد اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہے ہیں! حالانکہ امام زمانہ کی غیبت ایک ایسا امتحان ہے کہ جس کے بارے میں پہلے ہی پیغمبر گرامی قدر، امیر المومنین و دیگر ائمہ طاہرین اس کے بارے میں باخبر کرچکے ہیں اور مسلمانوں کو اشتباہ و گمراہی میں پڑنے سے خبر دار فرمایا تھا اورواضح طور پر فرمایا تھا کہ یہ غیبت خداوند عالم کی جانب سے ایک امتحان ہے جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا تاکہ نیک لوگ، بدکاروں سے ممتاز ہوجائیں۔

اسی لئے بہت سے لوگ شک و تردید اور حیرانی و سرگردانی کا شکارہوگئے اور وادی ضلالت و گمراہی میں جا پڑے ہیں! اور یہ صرف روایات کے بارے میں کم علمی اورعدمِ درایت و فہم کی بناء پر ہے۔ یہ لوگ روایات کو ان کے اصلی مآخذ و معادن سے حاصل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ (یعنی پیغمبر گرامی قدر و ائمہ اطہار سے نقل شدہ صحیح السند احادیث)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "یاد رکھو! ہمارے نزدیک ہمارے شیعوں کا مقام و مرتبہ اسی قدر ہے کہ جتنا انہوں نے ہماری احادیث کو اخذ و حفظ کیا ہے اورحقائق دین کو حاصل کیا ہے؛ کیونکہ روایت میں درایت و فہم بہت ضروری ہے اور یاد رکھو! کہ ایک روایت کے معنی کو سمجھنا سو ایسی روایات نقل کرنے سے بہتر ہے جن کے معنی نہ سمجھتے ہوں۔( ۱۳۴ ) "

غیبت امام زمانہ سے منحرف ہونے والے اکثر افراد کا یہی حال ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ از روئے نادانی، بہت سے دنیا پرستی، بعض ضعیف ایمان کی وجہ سے حق سے منحرف ہوکر مخالفین سے جاملے ہیں۔

پھر آنجناب ؑ نے راوی سے فرمایا: "کیا تم نے بعد والی آیت کو ملاحظہ کیا جس میں خداوند عالم فرماتا ہے:( إعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يُحْيِى الاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ) ، خداوند عالم ظہور کے بعد عدالت قائم کے ذریعہ ظالمین کے ظلم و بربریت کی وجہ سے مردہ ہوجانے والی زمین کو دوبارہ زندہ کرے گا۔۔۔( ۱۳۵ ) "

(ب) دلائل روائی

غیبت امام عصر پر دلالت کرنے والی احادیث کو دو دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

دستہ اول: عام روایات

ہم یہاں پہلے مسئلہ امامت کو بیان کرنے والی چند روایات پیش کریں گے جن کے ذریعہ حضرت امام مہدی (عج) کی امامت کو ثابت کیا جائے گا اس کے بعد انہی روایات کے مفہوم کے ذریعے غیبت امام عصر (عج) کو ثابت کریں گے۔

اول: حدیث ثقلین

تقریباً ۳۴ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ مسلم، ترمذی اور احمد بن حنبل جیسے اہل سنت کے ۲۸۷ بزرگ علماء نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ پیغمبر گرامی قدر نے یہ حدیث مختلف مقامات و مواقع پر بیان فرمائی ہے۔( ۱۳۶ )

مسلم( ۱۳۷ ) و ترمذی( ۱۳۸ ) جو کہ صحاح و سنن کے مؤلفین میں سے ہیں، ان دونوں نے لفظ "اہل بیت" پر تاکید کی ہے۔

ان کے علاوہ نیشابوری اپنی کتاب "مستدرک" میں، ابن حجر کتاب "صواعق" میں، سیوطی کتاب "جامع الصغیر" میں اور ملک العلماء کتاب "ہدایۃ السعداء" میں اُس حدیث کے مقابلے میں کہ جس میں لفظ "اہل بیتی" کے بجائے لفظ "سنتی" آیا ہے اس حدیث کے صحیح السند ہونے پر تاکید کر رہے ہیں۔ جبکہ لفظ "سنتی" بیان کرنے والی حدیث مجہول ہے کہ جس میں ضعف سند کے علاوہ اس کے جعلی ہونے کا احتمال بھی پایا جاتا ہے۔( ۱۳۹ )

اہل بیت در حدیث ثقلین

لفظ "اہل بیت ؑ" کوئی نیا ایجاد کردہ لفظ نہیں ہے بلکہ خود قرآن کریم میں موجود ہے، خداوند عالم کا ارشاد پاک ہے:

( إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً) ( ۱۴۰ )

سنن ترمذی، مسلم، مسند احمد اور عبد بن حمید میں انس ابن مالک سے نقل کیا گیا ہے: "إنّ رسول‌الله کان يمرّ بباب فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلی صلاة الفجر يقول: الصلاة يا أهل البيت إنّما يريد الله ليذهب. .. ؛ حضور سرور کائنات اہل بیت کے معنی سمجھانے کے لئے چھ ماہ تک روزانہ نماز صبح کے وقت در خانۂ حضرت زہرا کے سامنے سے گزرتے ہوئے فرماتے: اے اہل بیت! بتحقیق خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے کہ ۔۔۔"

اہل بیت وہی افراد ہیں جو مباہلہ میں موجود تھے۔ مسلم نیشابوری نے سعد بن وقاص سے نقل کیا ہے کہ جب (آیہ مباہلہ)( نَدْعُ اَبْنَاءنَا وَاَبْنَاءكُمْ ) ( ۱۴۱ ) نازل ہوئی تو رسول خداؐ نے علی ؑ اور فاطمہ و حسن و حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: "اللّهمّ هٰؤلاءِ أهلي ؛ اے اللہ ؛ یہی میرے اہل بیت ہیں۔( ۱۴۲ ) "

اہل بیت وہی حضرات ہیں جنکے بارے میں حدیث کساء بیان ہوئی ہے۔( ۱۴۳ )

بعض اسناد کے مطابق حدیث ثقلین میں لفظ "اہل بیت" کے بجائے یا اس کے ساتھ لفظ "عترت" بھی استعمال ہوا ہے۔ زید بن ثابت کہتے ہیں: "قال رسول‌الله إنّی تارک فيکم الثقلين خلفی کتاب الله و عترتی فإنّهما لن يفترقا حتّی يردا علیّ الحوض ؛ ھربی محمد بن اسحاق سے نقل کرتے ہیں کہ : "ہذا حدیث صحیح"( ۱۴۴ ) ۔

حدیث ثقلین کے انداز سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ پیغمبر گرامی قدرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کو قرآن کے ہمراہ قرار دیا ہے۔ عترت سے کون لوگ مراد ہیں؟ اور پیغمبر اسلام ؐ نے اپنی عترت کے کن افراد کو قرآن کے مرادف اور ثقل اصغر قرار دیا ہے؟

ابن اثیر (متوفی ۶۰۶ ہجری قمری) کہتے ہیں: "عترت، انسان کے خاص ترین او ر نزدیک ترین رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے اور عترت رسول اللہ، فرزندان فاطمہ زہرا ہیں۔"

ابن اثیر کا بھی یہی قول ہے۔( ۱۴۵ )

پس یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حدیث ثقلین میں عترت و اہل بیت ؑ سے مراد محدود افراد ہیں اور تمام پیغمبر اکرم سے منسوب ہونے والے افراد اس میں شامل نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کے ہمسر ہونے کی وجہ سے صرف وہی افراد ہیں جن میں خاص امتیازات پائے جاتے ہیں۔ یہ حضرات قرآن کے ہمسر ہیں اور اسی کی طرح اہمیت کے حامل ہیں اور ان سے تمسک لغزش و انحراف سے مانع ہے۔ جیسا کہ علامہ مناوی کہتے ہیں: "والمراد بعترته هنا العلماء العاملون إذ هم الذين لا يفارقون القرآن ( ۱۴۶ ) ؛ عترت پیغمبر اسلامؐ سے مراد انکے خاندان کے صرف باعمل علماء ہی ہیں؛ کیونکہ یہ حضرات کبھی بھی قرآن سے جدا نہیں ہوتے۔"

چند نکات

اس حدیث شریف کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حضور ؐ سرور کائنات نے دو گرانقدر چیزوں کو اپنی رسالت کا ما حصل قرار دیا ہے۔ ایک کتاب خدا اور دوسری آنحضرت کی وہ پاکیزہ عترت ہے جو قیامت تک قرآن سے جدائی ناپذیر اور لوگوں کی ہدایت و نجات کا ذریعہ ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، لہذا یہ حدیث مختلف جہات سے نہایت قابل قدر و ارزشمند ہے:

اول: جس طرح تا قیام قیامت کتاب خدا جاوید رہے گی، اسی طرح ہمیشہ اس کے ہمراہ اہل بیت میں سے ایک فرد کا ہونا ضروی ہے، اور یہ بات حدیث میں موجود لفظ "لن یفترقا" سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔ ابن حجر اپنی معروف کتاب صواعق میں کہتے ہیں:

" اہل بیت ؑ سے متمسک رہنے کی تاکید کرنے والی احادیث اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ کتاب خدا کی طرح اہل بیت ؑ میں سے قیامت تک ایک لائقِ تمسک فرد کا موجود ہونا ضروری ہے ۔ لہذا یہی حضرات اہل زمین کے لئے وجہ حفظ و بقاء ہیں، اور ان میں تمسک کے لئے سزاوار ترین فرد، امام و عالم حضرت علی ابن ابی طالب ہیں جو فراوان علم و دقیق استنباط سے سرشار ہیں۔ اسی لئے ابوبکر کہتے ہیں: "علی عترت رسول خداؐ ہیں"یعنی یہ انہی افراد میں سے ہیں رسول خدا ؐ نے جن سے متمسک رہنے کا حکم دیا ہے"۔( ۱۴۷ )

دوم:جس طرح قرآن حجت ہے اور سب پر اس کی پیروی کرنا واجب ہے، اہل بیت کی بھی اطاعت و پیروی واجب ہے۔ بنابریں صرف اہل بیت علیہم السلام ہی کو لوگوں کی رہبری و سرپرستی کا حق حاصل ہے۔ ثقل اکبر و ثقل اصغر کے بھی یہی معنی ہیں۔

سوئم: قرآن کریم ہر قسم کے خطا و اشتباہ سے محفوظ ہے اور قرآن کے حقیقی پیروکار کبھی بھی اشتباہ و ضلالت و گمراہی کا شکار نہیں ہوسکتے، پیغمبر گرامی قدر نے اہل بیت ؑ کو قرآن کے ساتھ قرار دیتے ہوئے فرمایا:"اگر ان دونوں سے وابستہ رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت بھی ہر گز خطا سے دچار نہ ہوں گے (یعنی یہ صاحبان عصمت اور معصوم ہیں)؛ کیونکہ اگر یہ خطا سے دوچار ہوجائیں تو پھر لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نجات نہیں دلاسکتے۔

چہارم: اس ہمسری و ہمراہی کا ایک اور نتیجہ یہ بھی ہے کہ صرف اہل بیت ؑ ہی وہ حضرات ہیں جو مکمل طور پر آیات کے صحیح مفہوم اور عمیق و دقیق لطائف لوگوں کو بیان کرسکتے ہیں۔ لہذا قرآن کریم سے صحیح استفادہ کرنے کے لئے ان ذوات مقدس کی رہنمائی و ہدایات سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔

پنجم: قرآن علوم و معارف کا بحر بیکراں ہے اور قرآن سے اہل بیت ؑ کا اتصال ان کے عمیق علم و معرفت کی علامت ہے۔

حدیث ثقلین سے اثبات وجود و غیبت امام عصر (عج)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حدیث ثقلین کی بنا پر ہمیشہ قرآن کے ساتھ اہل بیت ؑ میں سے ایک فرد کا موجود ہونا ضروری ہے۔ احادیث کی روشنی میں عصر حاضر میں حضرت مہدی (عج) ہی حضور سرور کائنات کی اولاد اور انکی عترت و اہل بیت کے فرد فرید ہیں اور ان دو گرانقدر چیزوں میں سے ہیں جن کے بارے میں پیغمبر گرامی قدر نے تاکید فرمائی ہے۔

اب ہم ذیل میں ایسی بعض روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

۱ ۔ مہدی (عج) اہل بیت ؑ میں سے ہیں

"قال رسول‌الله لا تنقضی الأيّام ولا يذهب الدهر حتّی يملک العرب رجل من أهل‌بيتی إسمه يواطی إسمي ( ۱۴۸ ) ؛ رسول خداؐ نے فرمایا: یہ گردش ایام اس وقت تک ختم نہ ہوگی اور دنیا اس وقت تک نابود نہ ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت ؑ میں سے ایک شخص عرب پر حاکم نہ ہوجائے جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا۔"

ابو الحسن محمد بن حسین بن ابراہیم بن عاجم سجزی کہتے ہیں: حضرت مہدی (عج) کی آمد اور یہ کہ وہ پیغمبر گرامی قدر کے اہل بیت ؑ کے ایک فرد ہوں گے، اس سلسلہ میں متواتر و مستفیض روایات و اخبار وارد ہوئی ہیں اور یہ ایک حتمی وعدہ ہے جس کے بارے میں ان اخبار میں اطلاع دی گئی ہے) کہ: حضرت مہدی زمین کو عدل و انصاف سے پُر کردیں گے اور انکا ظہور حضرت عیسیٰ کے ظہور کے ساتھ ساتھ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کرنے میں حضرت مہدی کی مدد کریں گے۔ مہدی اس امت کی پیشوائی و امامت فرمائیں گے جبکہ عیسیٰ انکی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔( ۱۴۹ ) "

۲ ۔ مہدی عترت میں سے ہیں

یوسف بن یحیی مقدسی سلمی اپنی معروف کتاب عقد الدرر کے پہلے باب میں حصہ اول کا یہ عنوان قرار دیتے ہیں: "فی بیان انّه (المهدی) من ذریّة رسول الله و عترته ؛ حضرت مہدی (عج) کے ذریت و عترت پیغمبر ؐ سے ہونے کے بیان میں"۔ اس کے بعد وہ اس سلسلہ میں ۳۴ احادیث نقل کرتے ہیں جن میں سے بعض المعجم الکبیر، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور مستدرک الصحیحین میں نقل ہوئی ہیں۔

بطور نمونہ اس روایت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: "المهدیّ من عترتی من وُلد فاطمة ؛( ۱۵۰ ) مہدی میری عترت و فاطمہ کی اولاد میں سے ہیں۔"

ینابی ع المودۃ میں صاحب جواہر العقدین کے حوالے سے عائشہ کے توسط سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "المهدی رجل من عترتی يقاتل علی سنّتی کما قاتلت أنا علی الوحي ؛( ۱۵۱ ) مہدی میری عترت سے ہیں وہ میری سنت کے خاطر اسی طرح جنگ کریں گے جس طرح میں نے وحی کی خاطر جنگ کی ہے۔"

۳ ۔ مہدی ؑ اولاد فاطمہ سے ہیں

بعض اخبار و روایات میں حضور سرو ر کائنات نے حضرت مہدی ؑ کا تعارف یہ کہہ کر کروایا ہے کہ آپؑ فرزندان فاطمہ میں سے ہیں:

قال رسول اللہ: "المهدی هو من وُلد فاطمة ؛( ۱۵۲ ) مہدی اولاد فاطمہ میں سے ہیں۔"

ایک روایت میں جناب امّ سلمہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ : "المهدی من عترتی من وُلد فاطمة ؛ مہدی میری عترت و اولاد فاطمہ سے ہیں۔( ۱۵۳ ) "

حافظ ابو القاسم عبد الرحمن نخعی سہیلی کتاب شرح سیرہ رسول اللہ میں عالمین کی خواتین پر حضرت فاطمہ ؑ زہرا کی فضیلت و برتری کے بارے میں رقمطراز ہیں: "حضرت فاطمہ ؑ زہرا کی برتری و فضیلت کے دلائل میں سے ایک بہترین دلیل یہ ہے کہ آخر الزمان میں جس مہدی (عج) کے ظہور کی اطلاع دی گئی ہے وہ انہی کی ذریت سے ہے۔ پس یہ شرف و فضیلت فقط حضرت فاطمہ ؑ زہرا ہی کو حاصل ہے۔ "( ۱۵۴ )

۴ ۔ مہدی اولاد پیغمبر سے ہیں

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعض روایات میں حضرت مہدی ؑ کو اپنی اولاد میں سے قرار دیاہے:

قال رسول اللہ: "المهدی مِنّی ...؛( ۱۵۵ ) مہدی مجھ سے ہیں۔"

قال ر سول اللہ : "المهدیّ رجل من وُلدي ...؛( ۱۵۶ ) مہدی میری اولاد سے ہیں۔"

نتیجہ

گزشتہ عرائض کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام مہدی ؑ، فرزندانِ پیغمبر اور انکی عترت اہل بیت میں سے ہیں جو حدیث ثقلین کا ایک یقینی مصداق ہیں۔ یہ کبھی قرآن سےجدا نہ ہوں گے اور ان کی سیرت و سنت، قرآن کریم پر مبنی ہے۔ نیز عصر حاضر میں انسان قرآن سے تمسک اور انکے فرمودات کی اتباع کے بغیر ہرگز سرچشمہ ہدایت سے سیراب نہیں ہوسکتا۔

دوئم : حدیث "من مات ۔۔۔"

اگرچہ ہم اس سلسلہ میں( يوم ندعو کلّ أناس بإمامهم ) آیت کے ذیل میں کسی حد تک تفصیلات بیان کرچکے ہیں لیکن مزید چند نکات پیش کر رہے ہیں:

حضور سرور کائنات کا ارشاد پاک ہے: "من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهليّة ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے اس کی موت جہالت و گمراہ کی موت ہے۔( ۱۵۷ ) "

اہل سنت میں سے صحاح ستہ کے مؤلفین نے صحابہ کرام میں سے سات افراد سے یہ حدیث نقل کی ہے: ۱ ۔ زید بن ارقم؛ ۲ ۔ عامر بن ربیعہ غنری؛ ۳ ۔ عبد اللہ بن عباس؛ ۴ ۔ عبد اللہ بن عمر؛ ۵ ۔ ابو الدرداء؛ ۶ ۔ معاذ بن جبل؛ ۷ ۔ معاویہ بن ابی سفیان۔

مذکورہ سات اصحاب کے علاوہ نیز اس سے مشابہ احادیث ابوہریرہ اور انس بن مالک سے نقل کی گئی ہیں۔ شیعہ علماء میں سے بزرگوار شخصیت جناب علامہ مجلسی نے اس حدیث شریف کو چالیس اسناد سے خاص شیعہ طرق سے اپنی معرکۃ الآراء کتاب بحار الانوار میں نقل کیا ہے۔( ۱۵۸ )

علمائے اہل سنت نے منابع حدیث میں سے ستر سے زائد کتب میں اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے جن میں سے بعض ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں: سنن ابی داؤد؛ مصنف حافظ عبد الرزاق بن ہمام صنعانی؛ سنن سعید بن منصور خراسانی؛ طبقات الکبریٰ محمد بن سعد کاتب واقدی؛ مسند حافظ ابو الحسن علی بن جعد جوہری؛ مصنف ابن شیبہ؛ صحیح بخاری؛ صحیح مسلم و ۔۔۔( ۱۵۹ )

یہ حدیث شریف فراوانی متون اور بعض کلمات کے اختلاف کے ساتھ وارد ہوئی ہے، زیادہ تر عبارت "مات میتۃ جاہلیۃ" کبھی عبارت " مات یھودیاً و نصرانیاً" اور کبھی ایسی عبارت کے ساتھ مرقوم ہوئی ہے جو ایسے شخص کی سوءِ عاقبت کی نشاندہی کر رہی ہے۔

ان احادیث کا آغاز عبارت " من مات" سے ہو رہا ہے جو جہالت و گمراہی کی موت کو امام زمانہ کی عدم معرفت کا نتیجہ قرار دے رہی ہے یا پھر " من خرج" جیسے الفاظ سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے جو امام کی نافرمانی میں آنے والی موت کو جہالت و گمراہی کی موت قرار دے رہی ہیں۔ بیشک جس امام کی عدم معرفت جہالت کی موت ہے اور جس کےدستورات سے سرپیچی جہنم کا سبب ہے، وہ امام واجد شرائط اور داعی اِلی اللہ ہونا چاہیے نہ کہ امام کفر اورآتش جہنم کی طرف دعوت دینے والا اور انواع و اقسام کے فسق و فجور میں آلودہ شخص۔

بنابریں ایسے امام میں ہر چیز سے پہلے مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

۱ ۔ بلند ترین علمی مقام و مرتبہ کا حامل ہو اور ہر اعتبار سے لائق و فائق ہو جس میں وسیع و عریض سلطنت اسلامی کی امامت و رہبری کی مکمل صلاحیت موجود ہو تاکہ مسلمان اس کی معرفت اور اس کے دستورات پر عمل پیرا ہوکر جہالت کی موت سے نجات حاصل کرسکیں۔

۲ ۔ ہر اعتبار سے پاک و پاکیزہ اور ہوائےنفس و خطا سے محفوظ ہو تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ خود بھی عقیدتی، علمی اورعملی کج روی کا شکار نہ ہو بلکہ لوگوں کو بھی حق کی جانب ہدایت کرسکے۔ کیونکہ اس امام کی معرفت یا عدم معرفت سے انسان کی تقدیر وابستہ ہے اور یہی انسان کی جنت و جہنم کا سبب بنتی ہے۔

مؤرخین کے تحریروں سے واضح ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےامر نبوت کے آغاز اور بعثت کے ابتدائی دور ہی میں لوگوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کردیا تھا کہ انکے بعد خلیفہ معین کرنے میں کوئی شخص یا جماعت حتیٰ کہ خود بھی مستقل نہیں ہیں بلکہ اس کا اختیار و انتخاب فقط دست خداوندی میں ہے۔

بطور نمونہ اس واقعہ پر غور فرمائیے کہ قبیلہ بن عامر بن صعصعہ نے آنحضرتؐ سے کہا: "اگر ہم آپ کی مدد کر یں اور آپؐ اپنے مخالفین پر کامیاب ہوجائیں توکیا آپؐ اپنے بعد زمام امور ہمارے سپرد کر دیں گے؟" رسول خداؐ نےفرمایا: "زمام امور خدا کے ہاتھوں میں ہے اور وہ جو چاہے گا، کرے گا۔"( ۱۶۰ )

پس اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بعد از پیغمبر امامت و خلافت لوگوں کے ذمے چھوڑ کر جانے والی چیزنہیں ہے۔ جبکہ اہل سنت کےعقیدے "یہ کام امت کے سپرد کیا گیا ہے" کے مطابق پیغمبرؐ گرامی قدر کا لوگوں کو معرفت امام کی ترغیب دلانا تاکہ لوگ جہالت کی موت سے بچ جائیں اور انکی زندگی کا خاتمہ آتش جہنم پر نہ ہو، یہ سب بے معنی ہوکر رہ جائے گا کیونکہ امام کو خود انہوں نے ہی انتخاب کیا ہے۔

حدیث "من مات ۔۔۔" اور گذشتہ عرائض کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات حاصل ہوتےہیں:

۱ ۔ اسلام کے عقیدتی نظام میں واجد شرائط امامت و رہبری کی ضرروت؛

۲ ۔ استمرار امامت اور ہر دور میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے؛

۳ ۔ تعداد امام ممالک و اقوام کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ بحسب زمانہ ہے؛

۴ ۔ ہر زمانہ میں امام کی عدم معرفت انسان کی جہالت کی موت کا سبب ہے؛

۵ ۔ امام کا اعلم و متقی ہوناو ضروری ہے؛

۶ ۔ متصدّیین و مدّعیین خلافت کی امامت کی نفی: (کیونکہ نہ انکی راہ و رسم ہی امام زمانہ سے ملتی ہے اور نہ ہی کسی نے انکی عدم معرفت کو جہالت کی موت قرار دیا ہے۔)؛

۷ ۔ امام زمانہ کی پہچان کا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا گزشتہ امام کی جانب سے تعارف یا اظہار معجزہ پر مبنی ہونا؛

۸ ۔ جس شخص کے پاس امام زمانہ کے بارے میں کوئی جواب نہ ہو کہ اس کا امام کون ہے اور وہ اسی حالت پر مر جائے تو اس کی موت جہالت کی موت ہے؛

۹ ۔ حدیث "من مات" کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف شیعہ اثاو عشری ہی ائمہ اثنا عشر پر یقین رکھتے ہیں کہ جن میں آخری حضرت مہدی و امام عصر (عج) ہیں اور اس حدیث شریف کے واحد مصداق ہیں۔ (کیونکہ امام ؑ میں پائی جانے والی تمام لازمی شرائط صرف شیعوں کے ائمہ اثنا عشر ہی میں پائی جاتی ہیں)

۱۰ ۔ اس حدیث اور پیغمبر اسلام کے خلفاء کی تعداد اور ائمہ اثنا عشر کے بارے میں دیگر احادیث کی روشنی میں بارہویں امام اور خلیفہ رسولؐ خدا، حضرت مہدی موعود (عج) ہی ہیں۔

سوئم: حدیث "خلفائے اثنا عشر"

جابر بن سمرہ کا کہنا ہے: "سمعت رسول‌الله يقول: لا يزال الإسلام عزيزاً إلی اثناعشر خليفة. ثمّ قال کلمة لم أسمعها فقلت لأبی ما قال؟ فقال کلّهم من قريش ( ۱۶۱ ) ؛ میں نے پیغمبر اسلام سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا: اسلام ہمیشہ میرے بارہ خلفاء کے سائے میں عزیز و غالب رہے گا۔ پھر حضور نے ایک لفظ اور بیان فرمایا تھا جسے میں سن نہیں سکا تھا، پس میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ حضور نے کیا فرمایا ہے؟ والد نے بتایا کہ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ سب قریش سے ہوں گے۔"

یہ حدیث شریف فریقین( ۱۶۲ ) (شیعہ و سنی) نے اپنی کتب حدیث میں درج کی ہے اور سب نے پیغمبر گرامی قدرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کے صدور کو قبول کیا ہے ۔ لہذا اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ آخر پیغمبر اسلام کے وہ بارہ خلیفہ کون ہیں۔ ہم دو طریقوں سے آنحضرتؐ کی مراد پہنچ سکتےہیں۔ ایک یہ کہ ہم روایت کو ملاحہل کریں دوسرے یہ کہ ہم تاریخ کا جائزہ لیں۔

روایات پر نظر:

کسی بھی شخص کے کلام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اس کے کلام میں موجود قرائن پر توجہ رکھنی چاہیے اور مجمل امور کو سمجھنے اور روشن کرنے کے لئے دیگر کلمات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ احادیث نبوی ؐ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ آنحضرتؐ نے بارہا اپنے بارہ خلفاء کی وضاحت بیان فرمائی ہے۔ مثلاً

۱ ۔ محمد بن ابراہیم حموئی شافعی، عبد اللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں: "قال رسول‌الله إنّ خلفائی وأوصيائی وحجج الله علی الخلق بعدی إثناعشر، أوّلهم أخی وآخرهم وَلَدي. قيل: يا رسول‌الله! ومن أخوک؟ قال: علی بن ابی‌طالب. ‏قيل: ومن ولَدُک؟ قال: المهدیّ الذی يملأ الأرض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً وظلماً ؛( ۱۶۳ ) رسول اکرم ؐ نے فرمایا: میرے بعد میرے خلفاء و اوصیاء اور مخلوق پر حجت الٰہی بارہ افراد ہیں۔ جن میں پہلا میرا بھائی اور آخری میرا بیٹا ہوگا۔ کسی نے سوال کیا: یا رسول اللہؐ! آپ کا بھائی کون ہے؟ فرمایا: علی بن ابی طالب ۔ پھر سوال ہوا: یا رسول اللہ ! آپ کا بیٹا کون ہے؟ فرمایا: مہدی، وہ وہی ہے جو ظلم و جور سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔"

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بارہ خلفاء کے بارےمیں خبر دیتے ہوئے پہلے اور بارہویں امام کے تعارف پر اکتفا کیا ہے؛جبکہ دیگر احادیث میں تمام بارہ خلفاء کے اسمائے مبارکہ حتیٰ کہ ان کے والد کے نام بھی بیان فرمائے ہیں۔

۲ ۔ ایک اور حدیث کے مطابق پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:"إنّ وصیّي وخليفة من بعدی علی بن ابی‌طالب وبعده سبطای الحسن ثمّ الحسين يتلوه تسعة من صلب الحسين أئمّة أبرار. قال (نعثل): يا محمّد! فسمّهم لی قال: نعم إذا مضی الحسين فابنُه علیّ فإذا مضی علیّ فابنه محمّد فإذا مضی محمّد فابنه جعفر فإذا مضی جعفر فابنه موسی فإذا مضی موسی فابنه علیّ فإذا مضی علیّ فابنه محمّد ثمّ ابنه علیّ ثمّ ابنه حسن ثمّ ابنه الحجّة بن الحسن فهذه إثناعشر أئمّة عدد نقباء بنی‌إسرائيل ؛( ۱۶۴ ) میرے بعد جانشین و خلیفہ علی بن ابی طالب ہیں، انکے بعد میرے دونوں نواسے پہلے حسن پھر حسین اور انکے بعد حسین ؑ کے نو بیٹے یکی پس از دیگری امام ہوں گے۔ (نعثل) نے کہا: اے محمدؐ! ان نو ائمہ کے مجھے نام بتا دیئے۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: حسین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انکے بیٹے علی امام ہوں گے، انکے دنیا سے چلے جانے کے بعد انکے بیٹے محمد امام ہوں گے، انکے دنیا سے چلے جانے کے بعد انکے بیٹے جعفر امام ہوں گے، انکے دنیا سے چلے جان کے بعد انکے بیٹے موسیٰ امام ہوں گے، انکے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انکے فرزند علی امام ہوں گے، علی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انکے فرزند محمد امام ہوں گے، پھر انکے بیٹے علی، پھر انکے بیٹے حسن پھر انکے بیٹے حجت ابن الحسن امام ہوں گے یہ بارہ امام ، نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر ہیں۔"

ان روایات اور دیگر شیعہ و سنی احادیث کی روشنی میں یہ بات و اضح ہوجاتی ہے کہ بارہ خلفاء سے پیغمبر گرامی قدرکی مراد یہی بارہ امام ہیں۔

تاریخ پر نظر:

تاریخ اسلام میں ایسے خلفائے اثنا عشر جو عزت اسلام کے محافظ و نگہبان ہوں صرف شیعہ اثنا عشری ہی کے ائمہ طاہرین ہیں ورنہ کسی اور فرقے میں ایسے بارہ خلیفہ نہیں دیکھے جاسکتے کیونکہ یہ ائمہ اثنا عشر پیغمبر اسلام کے بعد بلا فصل آنحضرت کے خلیفہ کی حیثیت سے متعارف ہوئے ہیں۔

نیز یہی ائمہ علیہم السلام اسلام کے لئے مایۂ عزت و افتخار رہے ہیں اور اسلام کبھی بھی انکے وجود سے خالی نہیں رہا، جیسا کہ حدیث میں موجود لفظ "لایزال" اسی امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پس کوئی دور اور زمانہ ایسانہیں جس میں پیغمبر اسلام کا کوئی ایک خلیفہ موجود نہ ہو۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بارہ خلیفہ کون ہیں؟ اموی و عباسی خلفاء کی تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ کسی صورت اسلام کے لئے مایہ عزت و افتخار نہ تھے، جبکہ تمام شیعہ ائمہ اثنا عشر اپنے اپنے دور حیات میں تقوی و پرہیزگاری کے مظہر اور سنت رسولؐ خدا کے محافظ و نگہبان تھے، ہمیشہ صحابہ و تابعین اور نسلاً بعد نسل امت اسلامی کی توجہ کا مرکز رہے او ر علم و وثاقت میں مشہور و معروف اور فرد فرید تھے۔

علاوہ بریں، شیعوں کے علاوہ کسی نے ایسے خلفائے اثنا عشر کا دعویٰ نہیں کیا ہے جنکا سلسلہ رحلت پیغمبر اسلام کے وقت سے آخر دنیا تک جاری و ساری رہے اور اگر حدیث "اثنا عشر خلیفہ" کے مصداق کو قبول کر لیا جائے تو تاریخ اسلامی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گیارہ ائمہ علیہم السلام آچکے اور شہید ہوچکے ہیں اور عصر حاضر بارہویں امام یعنی حضرت مہدی (عج) کی امامت و خلافت کا زمانہ ہے۔

خلاصہ:

وہ اخبار و روایات جن میں عبارت " اثنا عشر خلیفہ" یا اس سے مشابہ تعابی رات وارد ہوئی ہیں، ان سے مندرجہ ذیل نکات حاصل ہوئے ہیں:

۱ ۔ ائمہ ، صرف بارہ افراد ہ ہیں، نہ کم نہ زیادہ؛

۲ ۔ ائمہ اثنا عشر کی امامت کا سلسلہ دنیا کے اختتام تک جاری و ساری رہے گا، کیونکہ روایات میں جملہ "لایزال الاسلام و لا ینقضی" موجود ہے؛

۳ ۔ یہ تمام ائمہ قریشی ہیں؛

۴ ۔ شیعوں کے علاوہ کسی کا ایسا دعویٰ نہیں ہے؛

۵ ۔ حضرت مہدی علیہ السلام بارہویں امام ہیں جو ۲۶۰ ہجری میں ظاہری منصب امامت پر فائز ہوئے ہیں۔

پس وہ ثقل و ہمسر قرآن جس سے متمسک رہنا ضروری ہے، وہ خلیفہ جس کی امامت کے سائے میں اسلام عزیز و سربلند رہے گا اور جس کے عدم معرفت اسلام سے خروج کا سبب ہے، حضرت مہدی (عج) ہی ہیں جو اس وقت پردہ غیبت میں زندہ موجود ہیں۔

دستہ دوئم: خاص روایات

غیبت امام عصر (عج) پر دلالت کرنے والی احادیث کےدوسرے دستے میں خاص روایت پائی جاتی ہیں یعنی کچھ مخصوص روایات وہ ہیں جن میں حضرت مہدی موعود اور آپ ؑ کی غیبت کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں۔ البتہ آنجناب ؑ کی غیبت کے بارے میں اکثر شیعہ حضرات نے روایات نقل کی ہیں جبکہ اہل سنت نے اس سلسلہ میں بہت کم روایات نقل کی ہیں۔

روایات کا جائزہ لینے سے مندرجہ ذیل طبقہ بندی حاصل ہوتی ہے:

۱ ۔ بعض روایات میں اصل غیبت بیان ہوئی ہے؛

۲ ۔ بعض روایات میں حضرت کی غیبت کے طولانی ہونے کو بیان کیا گیا ہے؛

۳ ۔ بعض روایات میں آنجناب ؑ کی دو غیبتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے؛

۴ ۔ بعض روایات میں آنحضرت کی غیبت کے فوائد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛

۵ ۔ بعض روایات میں غیبت کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں؛

۶ ۔ بعض روایات ایسی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ قائم آل محمد ؑمیں سنن انبیاء پائی جاتی ہیں اور سنن انبیاء میں سے ایک سنت غیبت ہے؛

۷ ۔ بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹے ہیں جو آج تک زندہ و پائندہ ہیں۔

اول: اصل "غیبت" بیان کرنے والی روایات

شیعہ:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے: "إنّ لصاحب هذا الأمر غيبة ؛ اس صاحب امر کے لئے غیبت واقع ہوگی۔( ۱۶۵ ) "

جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضور سرور کائنات سے سوال کیا : "و للقائم من ولدک غيبة؟ قال: إی وربّی ( وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ ) ؛ یا رسول اللہ ! کیا آپ کے فرزند قائم (آل محمد علیہ السلام) کے لئے غیبت واقع ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مومنین کوسرفراز کرے گا اور کافرین کو نیست و نابود اور ہلاک کردے گا۔"( ۱۶۶ )

اہل سنت:

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

"والذی بعثنی بالحقّ بشيراً ونذيراً إنّ الثابتين علی القول بإمامته فی زمان غيبته لأعزّ من الکبريت الأحمر فقام إليه جابر بن عبدالله فقال: يا رسول‌الله وللقائم من ولدک غيبة؟ قال إی وربّی ( وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ ) ( ۱۶۷ ) ثمّ قال يا جابر! إنّ هذا أمرٌ مِن أمر الله وسرٌّ من سرِّ الله فإيّاک والشکّ فيه فإنّ الشکّ فی أمر الله عزّوجلّ کفرٌ ( ۱۶۸ ) ؛ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ جو لوگ اس کے زمانہ غیبت میں اپنے قول اور عقیدہ امامت پر قائم رہیں گے وہ کبریت احمر( ۱۶۹ ) سے زیادہ قابل قدر ہوں گے۔

جابر بن عبد اللہ نے اپنی جگہ کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے فرزند قائم آل محمدؐ کے لئے غیبت واقع ہوگی؟ فرمایا: ہاں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مومینا کو سرفراز کرے گا اور کافرین کو نیست و نابود کردے گا۔ پھر فرمایا: اےجابر! یہ اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اور راز ہائے پروردگار میں سے ایک راز ہے اور یہ اسرارِ الٰہی میں سے ہے، پس اس میں ہرگز شک مت کرنا کیونکہ امر الٰہی میں شک کرنا کفر ہے۔"

حسن بن خالد کہتے ہیں کہ حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے فرمایا: "...إنّ الرّابع من وُلدی ابن سَيِّدَة الاِماءِ يُطَهِّرُ اللهُ به الأرضَ مِن کلِّ جور وظلمٍ وهو الذی يشُکّ الناسُ فی وِلادَتِه، ‏وهو صاحبُ الغيبة ؛( ۱۷۰ ) ۔۔۔ یاد رکھو! میری نسل میں سے میرا چوتھا فرزند، سیدۃ الاماء کا لال ہے، خداوند عالم جس کےذریعے روئے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کردے گا۔ لوگ اس کی ولادت میں شک میں پڑ جائیں گے اس کے لئے ایک طویل غیبت واقع ہوگی۔"

جابر بن عبد اللہ انصاری نے پیغمبر ؐ گرامی قدر سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

"...فبعده إبنه محمّد يدعی بالمهدیّ والقائم والحجة فيغيب ثمّ يخرج ( ۱۷۱ ) ؛ میرے بارہ اوصیاء ہوں گے جن میں اول سیدہ الاوصیاء و ابو الائمہ الاطہار ہیں اور پھر ۔۔۔ انکے بیٹے محمد ہوں گے جنہیں مہدی، قائم اور حجت کہا جاتا ہے اور انہی کے لئے غیبت واقع ہوگی۔"

متقی ہندی اپنی کتاب البرہان میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

ابو جعفر محمد بن علی علیہ السلام قال:"يکون لصاحب هذا الأمر غيبة فی بعض هذه الشهاب وأومأ بيده إلی ناحية ذی‌طوی ؛ ( ۱۷۲ ) اس صاحب امر کے لئے ان وادیوں میں سے ایک وادی میں غیبت واقع ہوگی اور پھر آپؑ نے مکہ کے اطراف میں واقع ذی طویٰ نامی پہاڑ کی طرف اشارہ فرمایا۔"

دوئم: غیبت کے طولانی ہونے کے بارے میں روایات

اس سلسلہ میں تقریباً ۹۱ روایات نقل کی گئی ہیں۔( ۱۷۳ )

شیعہ:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "إنّ للقائم منّا غيبة يطول أمَدُها ( ۱۷۴ ) ؛ ہمارے قائم کی غیبت طولانی ہوگی۔"

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "للقائم منّا غيبة أمَدُها طویل ( ۱۷۵ ) ؛ ہمارے قائم کی غیبت کا وقت طولانی ہوگا۔"

اہل سنت:

شیخ سلیمان بلخی نے روایت نقل کی ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں:قالَ رسول اللہ: "المهدی من وُلدی إسمُه إسمی کنيته کنيتی أشبه الناسِ بی خلقاً و خُلقا، ‏تکون له غيبة وحيرة، ‏تضلّ فيها الأمَمُ ثمّ يقبلُ کالشهاب الثاقب يملأ الأرضَ عدلاً وقسطاً کما مُلِئَت جورا ًوظلماً ( ۱۷۶ ) ؛ مہدی میری اولاد سے ہے۔ اس کا نام میرا نام ہے اس کی کنیت میری کنیت ہوگی وہ لوگوں میں خَلق و خلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہوگا۔ اس کے لئے غیبت واقع ہوگی جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے کہ پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوگا اور ظلم و جور سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔"

سوئم: دو غیبت بیان کرنے والی روایات

اس موضوع کے بارے میں تقریباً دس روایات نقل کی گئی ہیں، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے قائم کے لئےدو غیبتیں واقع ہوں گی؛ ایک غیبت صغریٰ اوردوسری غیبت کبریٰ:

شیعہ:

صادق آل محمدؐ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: "للقائم غيبتان إحديهما طويلة والأخری قصيرة ( ۱۷۷ ) ؛ قائم علیہ السلام کے لئے دو غیبتیں واقع ہوں گی ایک طویل اور دوسری مختصر ہوگی۔"

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "إنّ لصاحب هذا الأمر غيبتين ؛ اس صاحب امر کے لئے دو غیبتیں واقع ہوں گی۔( ۱۷۸ ) "

اہل سنت:

کتاب ینابی ع المودۃ میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "إنّ للقائم منّا غيبتين إحديهما أطول من الأخري ( ۱۷۹ ) ؛ ہمارے قائم کے لئے دو غیبتیں واقع ہوں گی، ایک طولانی تر ہوگی جبکہ دوسری مختصر ہوگی۔"

اس قسم کی روایات صرف شیخ سلیمان نے ینابی ع المودہ ہی میں نقل نہیں کی ہیں بلکہ حموئی اور متقی ہندی اپنی کتاب البرہان میں حضرت امام حسین ؑ سے اس طرح روایت نقل کرتے ہیں: "لصاحب هذا الأمر يعنی المهدیّ غيبتان إحديهما تطول حتّی يقول بعضهم مات و بعضهم ذهب، ‏ولا يطّلع علی موضعه أحدٌ من ولیّ ولا غير إلّا المولی الذی يلی أمره ( ۱۸۰ ) ؛ اس صاحب امر یعنی مہدی موعود ؑ کے لئے دو غیبتیں واقع ہوں گی ان میں سے ایک اتنی طولانی ہوگی کہ بعض لوگ یہ کہنے لگیں کہ وہ دنیا سے جاچکے اور بعض کہیں گے ان کا انتقال ہوگیا۔ سوائے انکے خاص چاہنے والوں کے جو انکے امور سنبھالنے والے ہوں گے ، اپنے پرائے کوئی انکی قرار گاہ سے واقف نہ ہوگا۔"

چہارم: حضرت مہدی (عج) کے فرزند امام حسن عسکری ؑ ہونے کے بارے میں روایات

شیعہ:

حضرت امام جعفرصادق ؑ فرماتے ہیں:"الإمام من بعدی موسی و الخلف المنتظر م ح م د بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ؛( ۱۸۱ ) اے مفضل! میرے بعد میرا بیٹا موسیٰ امام ہوگا اور آخری امام منتظر "م ح م د" بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ علیہم السلام ہے۔"

اہل سنت:

جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ جس وقت جندل بن جنادہ یہودی مسلمان ہوا اور اس نے حضور سرور کائنات سے انکے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرت ؐ نے فرمایا: "میرا پہلا جانشین سید الاوصیاء و ابو الائمہ علی ابن طالب ؑ ہے پھر ۔۔۔ پھر نقی کے بعد انکے بیٹے حسن ہیں جنہیں عسکری کہتے ہیں پھر عسکری کے بعد انکے بیٹے "م ح م د" امام ہیں جنہیں مہدی، قائم اور حجت کہا جاتا ہے، وہ غائب ہوجائیں گے پھر خروج کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔۔۔( ۱۸۲ ) "

پنجم: بعد از پیغمبر ؐ بارہ ائمہ کے بیان میں وار د ہونے والی احادیث

پیغمبر گرامی قدر نے فرمایا: "إنّ خلفائی وأوصيائی وحجج الله علی الخلق بعدی الإثنا عشر أوّلهم علیّ و آخرهم المهديّ ( ۱۸۳ ) ؛میرے بعد میرےجانشین و اوصیاء اور خلق خدا پر حجت الٰہی بارہ افراد ہوں گے ، جن میں پہلے علی اور آخری مہدی ہوں گے۔"

ششم : امام مہدی ؑ، نسل حسین ؑ کے نویں فرزند ہوں گے

جناب سلمان فارسی کہتے ہیں:میں حضور سرور کائنات کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ امام حسین آنحضرت کی آغوش مبارک میں تشریف فرما ہیں اور حضور انکی آنکھوں اور لبوں کا بوسہ لے رہے ہیں اور پھر فرمایا:"أنت سيّد بن سيّد، أخو سيّد، أنت إمام بن إمام، أخو إمام، أنت حجّة، أخو حجّة، ‏و أنت أبو حجج تسعة، ‏تاسعهم قائم ؛( ۱۸۴ ) تم سید بن سید او ربرادر سید ہو، تم امام ابن امام اور امام کے بھائی ہو، تم حجت خدا ہو، حجت خدا کے بھائی ہو اور نو حجتوں کے باپ ہو اور ان میں نویں امام قائم ہوں گے۔"

ہفتم: غیبت سنن انبیاء میں سے ہے

قرآن و احادیث اور تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صرف حضرت امام مہدی ؑ ہی کے لئے غیبت رونما نہیں ہوئی ہے بلکہ حضرات ادریس، صالح، موسی اور ابراہیم علیہم السلام جیسے بہت سے انبیاء کرام کو بھی ہجرت و غیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خداوند عالم نے چاہا ہے کہ آنجناب ؑ میں بھی اس سنت انبیاء کو جاری کیا جائے۔ اس سلسلہ میں دو طرح کی روایات دیکھنے میں آتی ہیں۔

الف) وہ روایات جو کہتی ہیں کہ غیبت سنت انبیاء ہے:

جلیل القدر عالم دین جناب شیخ صدوق اپنی معروف کتاب علل الشرایع میں سدیر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: "إنّ للقائم منّا غيبة يطول أمدها فقلت له ولِمَ ذاک يابن رسول‌الله؟ قال: إنّ الله عزّوجلّ أبی إلّا أن يجری فيه سنن الأنبياء فی غيباتهم وأنّه لابدّ له يا سدير من أسفياء مدد غيباتهم قال عزّوجلّ ( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَن طَبَقٍ ) ( ۱۸۵ ) أی سنناً علی سنن من کان قبلکم ( ۱۸۶ ) ؛ ہمارے قائم کے لئے طولانی غیبت واقع ہوگی۔ میں نے عرض کیا: یابن رسول اللہ! وہ کیوں غائب ہوجائیں گے؟فرمایا: خداوند عالم ان میں انبیاء کی سنت غیبت کو جاری کرنا چاہتا ہے۔ اے سدیر! قائم کی غیبت تمام انبیاء کی مدت غیبت کے برابر ہوگی۔ جیسا کہ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَن طَبَقٍ ) یعنی تم سے قبل امتوں میں موجود سنت اس امت میں بھی جاری ہوگی۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: "إنّ ابنی هو القائم من بعدی وهو الذی يجری فيه سنن الأنبياء ...( ۱۸۷ ) ؛ میرے بعد میرا بیٹا قائم ہوگا ۔ جس کی طویل عمر اور غیبت کے ذریعے سنن انبیاء علیہم السلام جاری ہوں گی۔"

ب) وہ روایات جو کہتی ہیں کہ غیبت سنن انبیاء میں سے ایک ہے

کتاب کمال الدین میں مرقوم ہے کہ ابو بصیر کہتےہیں: میں نے سنا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "فی صاحب هذا الأمر أربع سنن من أربعة أنبياء، ‏سنّة من موسی و سنّة من عيسی و سنّة من يوسف و سنّة من محمّد صلوات الله عليهم أجمعين، ‏فأمّا من موسی فخائف يترقّب، ‏وأمّا من يوسف فالسجن، ‏وأمّا من عيسی ‏فيقال له: إنّه مات ولم يمت وأمّا من محمّد فاليسف ( ۱۸۸ ) ؛ امام قائم ؑ کے لئے چار انبیاء علیہم السلام کی چار سنتیں ہوں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عسیٰ علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت خوف( ۱۸۹ ) ، حضرت یوسف علیہ السلام کی قید، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت یہ کہ کچھ ان کے بارے میں کہیں گے مر گئے کچھ کہیں گے نہیں مرے اور محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیت تلوار (یعنی قیام)۔" کتاب (غیبت طوسی میں یہ عبارت نقل ہوئی ہے "اما سنۃ من یوسف فالغیبۃ: یعنی سنت یوسف غیبت ہے)۔

کتاب کمال الدین میں سعید بن جبیر سے ر وایت نقل کی گئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے سنا، آپ ؑ نے فرمایا: "ہمارے قائم کے لئے انبیاء کی سنتوں میں سے حضرت آدم ؑ کے سنت، حضرت نوح ؑ کی سنت، حضرت موسیٰ کی سنت، حضرت عیسیٰ کی سنت ، حضرت ایوب کی سنت اور حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے۔ حضرت آدم ؑ اور حضرت نوح ؑ کی سنت طویل عمر ہے، حضرت ابراہیم کی سنت ولادت کا مخفی اور پوشیدہ ہونا اور خدا کے دین کی حمایت میں لوگوں سے الگ تھلگ رہنا، حضرت موسیٰ کی سنت خوف اور غیبت، حضرت عیسیٰ کی سنت یہ کہ لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا، حضرت ایوب کی سنت یہ کہ بلاؤں اور مصیبتوں کے بعد کشائش و کشادگی نصیب ہوئی اور حضرت محمد ؐ کی سنت خروج بالسیف ہے۔"( ۱۹۰ )

کتاب کمال الدین میں محمد بن مسلم سے روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کہ قائم آل محمدؐ کے بارے میں آنجناب سے کچھ دریافت کروں، لیکن انھوں نے میرے سوال سے پہلے ہی فرمایا: "اے محمد بن مسلم قائم آل محمدؐ کو پانچ رسولوں سے پانچ خصوصیات میں شباہت حاصل ہے۔ حضرت یونس بن متی، حضرت یوسف بن یعقوب ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات اللہ علیہم۔

حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے انکی غیبت میں اس طرح شباہت رکھتے ہیں کہ حضرت یونس اپنی قوم سے ایک طویل عرصہ تک غیبت میں رہنے کے بعدجب ظاہر ہوئے تو اس وقت بھی وہ جوان تھے۔ جناب یوسف بن یعقوب علیہما السلام سے شباہت اس طرح ہے کہ آپ خاص و عام کی نظروں سے غائب رہے یہاں تک کہ اپنے والد اور اپنے اہل خانہ اور اپنے دوستوں سے بھی مخفی رہے حالانکہ آپ ؑ ان سے قریبی مسافت پر تھے، حضرت موسیٰ فرعون کے خوف سے غائب رہے اور طویل غیبت واقع ہوئی اور آپ کی ولادت مخفی رہی، اور حضرت موسیٰ کے بعد ان کی قوم پر انتہائی مصائب و آلام ڈھائے گئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے حضرت موسیٰ ظاہر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان دشمنوں پر ان کی مدد و نصرت فرمائی، حضرت عیسیٰ سے یہ شبہات ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا، ایک گروہ نے کہا وہ پیدا ہی نہیں ہوئے، دوسرے نے کہا وہ مرگئے، تیسرے گروہ نے کہا وہ قتل ہوگئے اور صلیب پر چڑھا دیئے گئے( ۱۹۱ ) اور ان کے بعد حضور سرور کائنات سے یہ مشابہت ہے کہ آپ خروج بالسیف کریں گے اور اللہ و رسولؐ کے دشمنوں ، جباروں اور طاغوتوں کو قتل کریں گے۔ آپ کی نصرت تلوار اور رعب سے کی جائے گی اور آپ کا پرچم سرنگوں نہ ہوگا۔( ۱۹۲ ) "

شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں سدیر صیرفی سے یہ روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، مفضل ابن عمر، ابو بصیر اور ابان بن تغلب اپنے آقا حضرت امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ خاک پر تشریف فرما ہیں، بالوں والی خیبری چادراوڑھے ہوئے، گریبان بستہ اور کوتاہ آستین، اور آپ اس طرح گریہ فرما رہے تھے گویا ایک اکلوتے بیٹے کی ماں اپنے لخت جگر کی لاش پر رو رہی ہو، غم و اندوہ کے آثار آپ کے چہرہ مبارک سے عیاں ہو رہے تھے اور اس کے اثرات آپ کے رخساروں پر چھائے ہوئے تھے، آنسوؤں نے آپ کی آنکھوں کے حلقوں کو تر کیا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے:

"اے میرے آقا! آپ کی غیبت نے میری نیند حرام کردی ہے، مجھ پر زمین تنگ کردی ہے، مجھ سے قرار دل چھین لیا ہے اور میرے غم و اندوہ کو ابدی بنا دیا ہے، ایک کے بعد دوسرے کا فقدان ہماری جمعیت اور تعداد کو کم کر رہا ہے۔ پس کوئی ایسے آنسو نہیں جو میری آنکھوں سے ٹپکیں یا آہ و فریاد میرے سینے سے بلند ہو مگر یہ کہ اس کے اسباب سے زیادہ سخت مصائب اور سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں اور یہ کہ میری آنکھوں کے سامنے وہ مستقبل اور آنے والا دور ہے جس میں تم ان تمام مظالم کا انتقام لوگے اور دشمنوں پر تمہارے غضب کی تلواریں چلیں گی۔

سدیر کہتے ہیں کہ امام کی یہ حالت دیکھ کر ہم پریشان ہوگئے اور آپ کے بین سن کر ہمارے دل پگھلنے لگے اور ہم سمجھےسمجھا کہ شاید آپ ؑ کے ساتھ کوئی دلخراش واقعہ پیش آیا ہے یا زمانے کے کسی ناگوار حادثے نے آپؑ کو پریشان کردیا ہے۔ ہم نے عرض کیا: اے بہترین مخلوق کے فرزند! خدا آپ کو کبھی نہ رلائے، کس حادثے کی وجہ سے آپ ؑ کے آنسو ٹپک رہے ہیں اور آپ شدید گریہ فرما رہے ہیں اور کس وجہ سے آپ ؑ یوں غمزدہ ہیں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک آہِ سر بھری اور فرمایا: تمہیں کیا معلوم، آج میں نے کتاب جعفر کا مطالعہ کیا ہے، یہ وہ کتاب ہے جو موت، مصیبت اور آزمائش پر مشتمل ہے، اس میں قیامت تک کے ہونے والے تمام حالات کا تذکرہ ہے جو اللہ نے محمد مصطفی ؐ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ سے مخصوص کئے ہیں۔ اس میں، میں نے ان حالات کا مطالعہ کیا ہے جو ہمارے قائم کے سلسلے میں وقوع پذیر ہوں گے اور جو انکی غیبت اور ان کی طویل عمر میں وقوع پذیر ہوں گے، اور اس زمانے میں مومنین پر مصائب نازل ہوں گے اور لوگوں کے دلوں میں غیبت کے طویل ہونے کی بنا پر شکوک پیداہوں گے، یہاں تک کہ اکثر لوگ اپنے دین سے منحرف ہوجائیں گے اور اسلام یعنی ولایت کے طوق کو اپنے گلے سے اتار دیں گے۔ جس کو اللہ نے یہ کہہ کر واجب کیا( وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ) ( ۱۹۳ ) ؛ ہر انسان کا عمل ہم نے اس کے گلے کا ہار بنا دیا ہے۔ پس اس بات نے مجھے مضمحل کردیا۔ ہم نے کہا: فرزند رسولؐ آپ ؑ نے جو کچھ مطالعہ فرمایا اس میں سے کچھ ہمیں بھی عطا فرمائیں۔

آپؑ نے فرمایا: "خداوند متعال نے ہمارے قائم کے لئے اپنے تین انبیاء کی خصوصیات عطا کی ہیں۔ اس کی ولادت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت جیسی۔ اس کی غیبت حضرت عیسیٰ کی غیبت جیسی۔ اس کے ظہور میں تاخیر حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کی تاخیر جیسی۔۔۔"

پھر آنجناب ؑ نے تینوں امور کی وضاحت فرمائی لیکن ہم حدیث شریف کے طولانی ہونے کی وجہ سے صرف غیبت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ توضیح پیش کر رہے ہیں۔

"غیبت عیسیٰ علیہ السلام سے شبیہ اس طرح ہے کہ یہود و نصاریٰ کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل کر دیئے گئے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید ان الفاط میں کی( وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ) ( ۱۹۴ ) ؛ اور انہوں نے انھیں نہ قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھایا بلکہ ایک شخص ان کی صورت بنا دیا گیا۔ اسی طرح ہمارے قائم کی غیبت واقع ہوگی، کچھ لوگ طویل غیبت کی وجہ سے ان کے وجود ہی کا انکار کردیں گے اور جو قائل ہوں گے وہ کہیں گے وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اور کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ امامت تیرہ یا اس سے زیادہ تک جائے گی اور کچھ لوگ یہ کہہ کر اللہ کے گناہ گار ہوں گے کہ امام عصر (عج) کی روح کسی اور کے بدن میں حلول کرکے گفتگو کرے گی۔( ۱۹۵ ) "

پس آیات و روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی زمانہ حجت الٰہی سے خالی نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی ایک حجت کو لوگوں کی ہدایت اور زمین و زمان کی بقاء کے لئے رکھا ہے اور آج ہمارے زمانہ میں روایات کی روشنی میں نسل پیغمبر ؐ سے امام حسن عسکری ؑ کے فرزند حضرت مہدی موعود (عج) زندہ موجود ہیں اور اس پر تمام شیعہ علماء کا اجماع و اتفاق ہے بلکہ بہت سے منصف مزاج سنی علماء نے بھی آپ کے زندہ موجود ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اس تذکرے سے اپنی تالیفات کو مزین کیا ہے۔ ہم یہاں اختصار کا لحاظ کرتے ہوئے صرف ۱۴ سنی بزرگ علماء کا تذکرہ کر رہےہیں کیونکہ ۱۴ کا عدد متبرک ہے ورنہ ایسے علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے ایک فرزند کے موجود ہونے کےبارے میں لکھا ہے جیسا کہ جناب حجۃ الاسلام علی دوانی دامت برکاتہ نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب بنام "دانشمندان عامہ و مہدی موعود" تالیف کی ہے جس میں ۱۲۰ علماء کا تذکرہ کیا ہے۔

(ج) غیبت امام عصر (عج) پر علمائے اہل سنت کا اقرار

۱ ۔ عباسی خلیفہ الناصر الدین اللہ احمد بن المستضئ بنور اللہ (متوفی ۶۲۲ ھ)

احمد بن مستضی نے ۶۰۶ ہجری قمری میں حکم دیا کہ اس سرداب کو تعمیر کیا جائے جس میں امام زمانہ (عج) غائب ہوئے تھے اور پہلے وہ ان کے والد امام حسن ؑ عسکری کا مکان تھا اور کہا کہ صفہ و سرداب کے مابی ن ساج کی لکڑی سے تیار کردہ بہترین اور خوبصورت دروازہ لگایاجائے۔

اس دروازے پر سامنے کی طرف یہ عبارت تحریر ہے:"( بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُل لاَّ أَسْأَلُكُمْ عَلَيهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ) ( ۱۹۶ ) هذا ما أمره بعمله سيّدنا ومولانا الإمام المفترض الطاعة علی جميع الأنام أبوالعباس أحمد بن الناصر لدين الله أميرالمؤمنين وخليفة ربّ العالمين الذی طبق البلاد إحسانه وعدله... وحسبنا الله ونعم الوکيل وصلّی الله علی سيّدنا خاتم النبيّين وعلی آله الطاهرين وعترته وسلم ."؛ (بسم اللہ الرحمن الرحیم اے حبیب! کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا تو ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے) یہ کام ہمارے سید و سردار آقا و مولیٰ وہ امام کہ جن کی اطاعت تمام مخلوقات عالم پر واجب ہے یعنی ابو العباس احمد بن ناص لدین اللہ امیر المومنین اور خلیفہ رب العالمین کے حکم سے انجام پایا ہے۔

اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے اور درود و سلام ہو ہمارے سید و سردار خاتم النبیین اور ان کی پاکیزہ آل اور عترت طاہرہ پر۔

جبکہ دروازے کی پشت پر یہ عبارت تحریر ہے:"بسم الله الرحمن الرحيم محمّد رسول‌الله أميرالمؤمنين علیّ ولیّ الله، ‏فاطمة، ‏الحسن بن علیّ، ‏الحسين بن علیّ، ‏محمّد بن علیّ، ‏جعفر بن محمّد، ‏موسی بن جعفر، ‏علیّ بن موسی، ‏محمّد بن علیّ، ‏علیّ بن محمّد، ‏الحسن بن علیّ و محمّد بن الحسن القائم بالحقّ "

محدث نوری کتاب "کشف الاستار" میں رقمطراز ہیں : "اگر ناصرالدین کا اس بات پر عقیدہ نہ ہوتا کہ مذکورہ سرداب حضرت مہدی (عج) سے منسوب ہے اور یہ مکان ان کی جائےولادت ہے یا آنجناب کی غیبت یا ظہور کرامات سے وابستہ ہے، تو وہ ہرگز اس کی تعمیر نو کا حکم صادر نہ کرتا اور نہ ہی اس کی زیب و زینت پر خطیر رقم خرچ کرتا۔"( ۱۹۷ )

علاوہ از این اگر اس دور کے علماء اس بات پر متفق نہ ہوتے کہ یہ گھر امام کی جائے ولادت ہے، یا یہ کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی حیات کے قائل نہ ہوتے تو یقیناً ناصر لدین اللہ کا یہ تعمیری اقدام مشکل بلکہ محال ہوجاتا، لہذا ماننا پڑے گا کہ اس دور کے علماء و محدثین امام مہدی ؑ کی حیات طیبہ کے بارے میں ناصر لدین اللہ کے ہم عقیدہ و ہم خیال تھے۔

اس کے بعد محدث نوری کہتے ہیں: "ہم نے ناصر لدین اللہ کو حیات امام کے قائل سنی علماء کی فہرست میں ان کے فضل و کمال علم کی بنیاد پر اور ان کے محدثین کے زمرہ میں شامل ہونے کی وجہ سے کیا ہے، ان کے راوی حدیث ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان سے ابن سکینہ اور ابن خضر و ابن نجار و ابن دامغانی جیسے لوگوں نے روایت نقل کی ہے( ۱۹۸ ) ۔

۲ ۔ حافظ ابو نعیم محمد بن ابراہیم بن ہاشم طوسی بلاذری (متوفی ۳۳۹ ھ)

علامہ سمعانی اپنی کتاب "انسان کبیر" میں لکھتے ہیں : علامہ بلاذری، حافظ، فہیم، عارف بالحدیث تھے، انھوں نے طوس میں ابراہیم بن اسماعیل عنبری تلیم بن محمد طوسی سے علم حاصل کیا اور آپ سے حافظ ابو عبد اللہ حاکم (صاحب کتاب مستدرک علی الصحیحین ) نے کسب فیض کیا۔

حافظ حاکم نے لکھا ہے: بلاذری طوس کے ایک شہر طابران میں ۳۳۹ ھ میں شہید کر دیئے گے۔ یہ بلاذری بھی حیات امام کے قائل ہیں جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث کی کتاب (النوادر من حدیث الاوائل و الاواخر) سے ظاہر ہوتا ہے۔( ۱۹۹ )

شیخ عبد العزیر دہلوی متوفی ۱۲۳۹ ھ ، شیعیت کی ردّ میں لکھی جانے والی کتاب "تحفہ اثنا عشریہ" کے مؤلف اپنی کتاب النزھۃ میں اپنے والد شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب "الفضل المبین" سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جسے انھوں نے شیخ محمد بن عقلہ کی کتاب "مسلسلات" سے نقل کیاہے، بلاذری کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا (م ح م د) بن الحسن بن علی المحجوب امام عصر نے، ان سے انکے والد، ان سے انکے والد علی بن موسیٰ علیہم السلام ۔۔۔ ان سے علی بن ابی طالب ؑ سید الاوصیاء نے فرمایا کہ مجھ سے سید الانبیاء نے فرمایا، ان سے جبرئیل سید الملائکہ نے بیان کیا: خداوند فرماتا ہے:"اِنّی انا الله لا اله الا انا، من اقرّ بالتوحید دخل حصنی و من دخل حصنی امن مِن عذابی "

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بلاذری جو کہ بزرگان اہل سنت میں سے ہیں صاحب تحفہ اثنا عشریہ کے نقل کے مطابق ا س حدیث مسلسل میں تصریح کر رہے ہیں کہ انھوں نے خود امام زمانہ علیہ السلام کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث نقل کی ہے!

علماء اہل سنت میں سے ۱۵ بزرگ علماء نے بلازری سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور انکی علمی شخصیت کو بھی قبول کیا ہے۔( ۲۰۰ )

۳ ۔ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بن محمد گنجی شافعی (متوفی ۶۵۸ ھ)

جناب شافعی گنجی کا شمار اہل سنت کے مشہور ومعروف علماء اور بزرگ محدثین میں ہوتا ہے۔

اگرچہ ابن صلاح دمشقی، فقیہ شامی، ابو البرکات ہمدانی یمنی، محمد بن ابو الفضل مرسی مغربی، یوسف بن خلیل دمشقی، ابن جوزی بغدادی، محمد بن طلحہ شافعی قاضی حلب، صقر بن یحیی شافعی، ابن نجار، محمد بن عبد اللہ مادرائی، ابو اسحاق ابراہیم بن حاجب کاشغری و۔۔۔ جیسے انکے تمام اساتذہ معروف سنی علماء تھے لیکن اس کے باوجود شافعی گنجی ایک حقیقت پسند و منصف مزاج شخصیت کے حامل تھے۔ ابن صباغ مالکی نے اپنی کتاب "الفصول المہمہ" میں انکی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: "علامہ گنجی شافعی امام اور حافظ تھے، جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب "فتح الباری فی شرح البخاری" میں آپ کی نقل کردہ روایات کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔

آپ نے کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین علی بن ابی طالب اور البیان فی اخبار صاحب الزمان جیسی بہترین کتاب تالیف کی ہیں جن میں آپ نے اپنے سلسلۂ سند کے مطابق تمام روایات اہل سنت کی معتبر کتب سے نقل کی ہیں اور اس طرح اہل بیت عصمت و طہارت سے اپنی محبت و الفت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان ۲۵ ابواب پرمشتمل ہے اور یہ آپ کی مشہور و معروف کتاب کفایۃ الطالب سے ملحق چھپی ہے، علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں کفایۃ الطالب کا تذکرہ کیا ہے۔ شافعی صاحب نے حضرت مہدی (عج) سے مربوط پچیس باب میں امام زمانہ علیہ السلام کے وجود و غیبت کو قرآن و سنت سے ثابت کیا ہے جس کا ایک حصہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:

محترم مؤلف آغاز کلام میں رقمطراز ہیں: "حضرت مہدی ؑ کے غیبت سے لیکر آج تک زندہ و باقی رہنے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ قرآن و سنت کی روشنی میں حضرت عیسیٰ، حضرت خضر، حضرت الیاس جیسے اولیائے الٰہی کے با حیات ہونے اور دجال و شیطان جیسے دشمنان خدا کے زندہ ہونے کے شواہد بھی تو پائے جاتے ہیں۔

اہل حدیث ان سب کے زندہ ہونے پر ا تفاق نظر رکھتے ہیں لیکن حضرت مہدی ؑ کے وجود کا انکار کرتے ہیں! انھوں نے دو وجوہات کی بنا پر حضرت مہدی کے وجود کا انکار کیا ہے: اول زمانۂ غیبت میں انکی طول عمر اور دوم یہ کہ وہ آج تک سرداب میں بغیر کچھ کھائے پیئے کس طرح رہ سکتےہیں جبکہ یہ بات عام طور پر محال ہے۔"

اتنا تحریر کرنے کے بعد جناب گنجی شافعی ان اشکالات کا اس انداز سے جواب دیتے ہیں:

ہم پروردگار کی مدد سے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کہتےہیں:

حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ ہونے کی دلیل:

قرآن:

ارشاد رب العزت ہوتا ہے( وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ) ( ۲۰۱ ) ؛ اور (جب عیسیٰؑ، مہدی موعود کے وقت آسمان سے اتریں گےتو) اہل کتاب میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور عیسیٰ ؑ قیامت کے دن ان کے گواہ ہوں گے( ۲۰۲ ) ۔ جبکہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے لیکر ابھی تک اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان نہیں لائے ہیں پس یقیناً ایسا آخر الزمان میں ہی ہوگا۔

سنت:

صحیح مسلم میں ایک مفصل حدیث کے ضمن میں خروج دجال کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر گرامی قدرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:پس عیسیٰ دمشق کے مشرق میں اس حالت میں آسمان سے نازل ہوں گے کہ وہ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوں گے "؛

نیز ابو ہریرہ سے نقل کرتےہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:"کَیفَ اَنتُم اِذَا اَنزلَ اِبنُ مَریَمَ فِیکُم وَ اِمَامُکم مِنکُم ؛ اس وقت تم کیسا محسوس کرو گے جب عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارے امام تم میں سے ہوں گے"( ۲۰۳ ) ۔

اور حضرت خضر و الیاس کے بارے میں محمد بن جریر سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روئے زمین پر گردش کر رہے ہیں۔

دجال کے زندہ ہونے پر دلیل:

دجال کے زندہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے تمیم داری کی اس روایت کو نقل کرتے ہیں جسے حدیث حسن و صحیح کے طور پر تسلیم کر تے ہیں ، اس روایت کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت دجال کے زندہ ہونے پر صراحت کر رہی ہے۔

شیطان کے وجود پر دلیل:

آیات قرآن، شیطان کے وجود پر بہترین گواہ ہیں مثلا ً اس آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے:( قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ) ( ۲۰۴ ) ؛ اس نے کہا کہ مالک مجھے روز حشر تک کی مہلت دیدے، جواب ملا کہ تجھے مہلت دیدی گئی ہے، ایک معلوم اور معین وقت کے لئے۔

حضرت مہدی موعود (عج) کے زندہ ہونے پر دلیل:

ارشاد رب العزت ہوتا ہے:( لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) ( ۲۰۵ ) ؛ "تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اس آیہ شریفہ کے ذیل میں سعید بن جبیر نے روایت کی ہے کہ اس سے مراد مہدی ہیں جو عترت فاطمہ سے ہیں۔

پھر انھوں نے حضرت امام زمانہ (عج) کے وجود مبارک اور غیبت پر اس سے استدلال کیا ہے:

گذشتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر الزمان تک تین افراد موجود ہوں گے جن میں سے کوئی بھی امام مہدی ؑ نہیں ہے؛ کیونکہ حضرت مہدی ؑ موعود لوگوں کے امام ہیں جبکہ حضرت عیسیٰ ان کےپیچھے نماز ادا کریں گے اور دجال بھی موجود ہے جس کے وجود پر شیعہ و سنی اہل حدیث حضرات کا اتفاق ہے۔

اس موقع پر ہم کہیں گے کہ اس طولانی مدت میں انکا وجود دو حالتوں سے خارج نہیں ہے یعنی انکا وجود یا تو خداوند عالم کے دست اختیار میں ہے یا محال ہے، محال ہونا باطل اور ناممکن ہے؛ کیونکہ وہ خدائے قادر مطلق جو مخلوقات کو عدم سے معرض وجود میں لاسکتا ہے ، اس کے بعد انھیں فنا بھی کرسکتا ہے اور پھر انھیں دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے وہ انھیں طولانی عمر عطا کرنے پر بھی مکمل طور پر قادر ہے۔

پس انکا موجود ہونا دست خدا سے باہر نہیں ہے، یہ امر مقدور خداوند ہے البتہ یہ امر بھی دو حالتوں سے خارج نہیں ہے۔ یا ان کوباقی رکھنے میں خداوند خود مختار ہے یا لوگوں کی مرضی کے مطابق ہے۔ ظاہر ہے اس میں عوام کی مرضی کا دخل نہیں ہے؛ کیونکہ اگر یہ کام ہمارے دست اختیار میں ہوتا تو سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو یا اپنی آل و اولاد کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے۔

پس اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس طولانی مدت میں انکا وجود ذات مقدس الٰہی کے مکمل اختیار سے ہے۔ نیز انکا وجود دو حال سے خارج نہیں یعنی یا ان کے موجود ہونے کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے یا بغیر کسی علت کے باقی ہیں۔ اگر ان کے وجود کی کوئی علت نہ ہو تو انکا وجود بے حکمت ہوجائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ خدائے حکیم بغیر حکمت کے کوئی فعل انجام نہیں دیتا۔ پس ان کے موجود رہنے میں ایک ایسی علت و سبب ہونا چاہیے جو حکمت الٰہی کے عین مطابق ہو۔ حضرت عیسیٰ کے باقی رہنے کی علت و وجہ اس آیت( واِن من اهل الکتاب ) کی تفسیر سے واضح ہے۔ دجال لعین کے باقی رہےا کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ پیغمبر گرامی قدر نے اسکی علامات کے بارے میں فرمایا ہے: "وہ ایک ایسا مرد ہے جسکی ایک آنکھ ہے، غذا کا پہاڑ ہر جگہ اس کے ہمراہ ہے" وہ بھی ابھی تک نہیں آیاپس وہ آخر الزمان ہی میں آئے گا۔

اور امام عصر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے بارے میں ہم یہ بات بطور دلیل پیش کریں گے: جب سے آنجناب غائب ہوئے ہیں اس وقت سے آج تک جیسا کہ اخبار و روایات سے ظاہر ہوتاہے کہ زمین عدل و انصاف سے پُر نہیں ہوئی ہے بنابریں یہ علائم آخر الزمان میں ظاہر ہوں گی۔ یہی حضرت مہدی و عیسیٰ علیہما السلام اور دجال علیہ اللعنۃ کی بقاء کا سبب ہے۔ پس جب عیسیٰ و دجال زندہ رہ سکتے ہیں اور محدثین اہل سنت انھیں قبول کرتے ہیں تو حضرت ختمی مرتبت کی یادگار امام مہدی کے وجود کو قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہے جبکہ امام مہدی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برحق نمائندہ بھی ہیں اور اختیار و قدرت الٰہی سے زندہ و جاوید ہیں۔ پس انکا وجود تو انکے وجود سے بھی زیادہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ ممکن ہے حضرت مہدی ؑ آخر الزمان جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے انکی بقاء میں مکلفین کے لئے مصلحت مضمر ہو اور بندوں پر اللہ کی جانب سے لطف و کرم ہو۔

ہر چند دجال کا وجود و خروج لوگوں کے عقیدہ میں فساد کا باعث ہے لیکن خود اس کا وجود لوگوں کا امتحان ہے جس کے ذریعے نیک و بد الگ الگ ہوجائیں گے۔

اسی طرح آج تک حضرت عیسیٰ کا باقی رہنا اور آخر الزمان میں انکا نزول ہونا اہل کتاب کے ایمان لانے اور پیغمبر گرامی قدر کی خاتمیت کی تصدیق کاباعث ہے۔ عیسیٰ مومنین کے ایمان کو مستحکم اور منکرین کے مقابلے میں امام زمانہ کی امامت کی تصدیق کریں گے، آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے، آپ کی مدد کریں گے اور لوگوں کو دین اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ پس بقائے حضرت مہدی اصل اور آمد حضرت عیسیٰ و خروج دجال فرع ہے۔

جو لوگ آنجناب کے سرداب میں غائب ہونے کی وجہ سے ان کے وجود کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ محدثین کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ نیز آسمان پر موجود ہیں جبکہ کوئی روایت اس امر پر دلالت نہیں کر رہی ہے کہ وہاں کوئی انھیں آب و غذا فراہم کر رہا ہے حالانکہ وہ بھی حضرت مہدی کی طرح ایک بشر ہیں۔ جب منکرین کے نزدیک حضرت عیسیٰ کا اس انداز سے ہونا مسلم اور ثابت ہے تو پھر سرداب میں حضرت مہدی کے ہونے پر بھی انھیں اشکال نہیں ہونا چاہیے!

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ کو خداوند عالم اپنے خزانہ غیب سے غذا عطا کرتا ہے؛ تو ہم کہیں گے کہ حضرت مہدی کو بھی اگر وہ اپنے خزانہ غیب سے رزق عطا کر دے گا تو اس کا خزانہ ختم نہ ہوجائے گا۔

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ (عروجِ آسمانی کی وجہ سے) طبیعت بشری سے خارج ہوگئے ہیں (اور انھیں اب غذا کی ضرورت نہیں) اور انکا معاملہ حضرت مہدی کے معاملے سے بالکل مختلف ہے؛ تو ہم کہیں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے؛ کیونکہ خداوند عالم اشرف المخلوقات کے بارے میں فرماتا ہے:( قُلْ إِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَي إِلَيَّ ) ( ۲۰۶ ) ؛ "پیغمبر ! کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں بس اتنا فرق ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔"

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ نے یہ طبیعت ثانوی، عالم بالا میں حاصل کی ہے؛ تو ہم یہ کہیں گے کہ آپ کا یہ دعویٰ ثابت شدہ نہیں اور نہ ہی اس کے اثبات پر کوئی دلیل موجود ہے۔

۴ ۔ حمد اللہ مستوفی قزوینی ( متوفی ۷۳۰ ھ)

معروف عالم اہل سنت مؤلف نزھۃ المجالس اپنی فارسی میں تالیف کردہ کتاب منتخب جغرافی و منتخب تاریخ خصوصاً منتخب تاریخ میں ائمہ اطہار کی سوانح حیات کے ضمن میں بارہویں امام علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:

"المہدی محمد بن حسن العسکری بن ۔۔۔ علی المرتضیٰ بارہویں امام اور خاتم معصومین ؑ تھے جنکی عمر ساڑھے چار سال تھی، ان کی ولادت جمعرات کی شب پندرہ شعبان ۲۵۵ ہجری کو شہر سامر ہ میں ہوئی۔ جب آپ کی عمر ۹ سال ہوئی تو ۲۶۴ ہجری میں غائب ہوگئے ۔"

صحیح و مشہور یہ ہے کہ آنجناب نیمہ شعبان کو متولد ہوئے اور ۲۶۰ ہجری میں جب آپ کے والد بزرگوار کی رحلت ہوئی تو غائب ہوگئے۔ مؤلف کی عبارت سے واضح ہے کہ یہ بھی غیبت امام ِ عصر علیہ السلام کے قائل تھے۔

۵ ۔ شیخ علاء الدین سمنانی (متوفی ۷۳۶ ھ)

معروف عارف شخصیت ہیں، یہ عبد الرحمن جامی کی کتاب شواہد النبوۃ کے مطابق عرفاء و صوفیوں کے اقطاب و ابدال کے نظریے کے ضمن میں لکھتے ہیں:

"مرتبہ قطیب پر پہنچنے والوں میں سے ایک ائمہ اہل بیت اطہار میں سے محمد بن الحسن العسکری رضی اللہ عنہ و عن آبائہ الکرام ہیں۔ جب وہ غائب ہوئے تو دائرۃ ابدال میں داخل ہوگئے۔"

البتہ شیعوں کا اقطاب و ابدل پر کوئی عقیدہ نہیں ہے بلکہ شیعہ معتقد ہیں کہ امام زمانہ محمد بن الحسن العسکری علیہما السلام پیدا ہوچکے ہیں اور آج تک بحکم خدا زندہ ہیں۔ بہر کیف وہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ امام ؑ زمان غائب ہوگئے ہیں لیکن غیبت کے بعد وہ اقطاب میں داخل ہوئے یا نہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے بارے میں خود اہل سنت نے بھی تصریح اور استدلال کیا ہے کہ آنجناب غیبت کے بعد بھی آج تک زندہ ہیں( ۲۰۷ ) ۔

۶ ۔ خواجہ محمد پارسا بخاری حنفی (متوفی ۸۲۲ ھ)

یہ مشہور و معروف عالم اہل سنت اپنی کتاب فصل الخطاب میں تحریر کرتے ہیں:

"محمد ؑ فرزند حسن عسکری ؑ نیمہ شعبان ۲۵۵ ھ میں پیدا ہوئے۔ جب آپ کی عمر پانچ سال ہوئی تو آپ کے والد محترم وفات پا گئے اور آپ اس وقت سے آج تک غائب ہیں۔ ہر زمانہ میں موجود نگاہوں سے غائب صاحب الزمان حضرت مہدی کے بے شمار مناقب ہیں۔ اس سلسلہ میں کثرت سے روایات موجود ہیں کہ وہ ظہور فرمائیں گے اور انکے نور وجود سے پوری دنیا میں روشنی پھیل جائے گی اور وہ دین اسلام کو نئی زندگی عنایت کریں گے اور اپنے دور میں راہ خدا میں اس انداز سے جہاد کریں گے کہ پوری دنیا کو آلودگیوں سے پاک کردیں گے۔ خلافت و امامت انہی پر ختم ہوجائے گی۔ وہ اپنے والد بزرگوار کی وفات سے لیکر تا روز قیامت امام ہیں۔ عیسیٰ انکے پیچھے نماز ادا کریں گے اور ان کی امامت کی تصدیق کریں گے۔( ۲۰۸ ) "

۷ ۔ شیخ حسن عراقی (متوفی ۹۲۵ ھ)

عبد الوہاب شعرانی، کتاب "الواقح الانوار فی طبقات الاخیار" میں تحریر کرتے ہیں:

"شیخ صاحب ایک صالح، عابد اور زاہد مرد تھے، وہ صاحب کشف صحیح اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ میں اپنے استاد ابو العباس حریثی کے ہمراہ انکے پاس جاتا رہتا تھا۔ ایک دن انھوں نے کہا: کیونکہ تم بچپن سے مجھے جانتے پہچانتے ہو اس لئے میں تمہیں آغاز کار سے لیکر آج تک کی داستان سنانا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا : فرمائیے: میں دمشق میں صنعت گر تھا اور جمعہ کا دن عشرت و شراب خوری میں گزارتا تھا۔

ایک دن متوجہ ہوا اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ کیا میں ان کاموں کے لئے پیدا ہوا ہوں؟ یہ سوچ کر میں اپنے دوستوں سے علیحدہ ہوگیا انھوں نے میرا پیچھا بھی کیا لیکن وہ مجھ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ اسی اثناء میں ، میں مسجد اموی میں داخل ہوا، میں نے دیکھا کہ ایک شخص کرسی پر بیٹھا حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں اتنی خوبصورت گفتگو کر رہا تھا کہ میرے دل میں انکا شوق دیدار پیدا ہوگیا۔ اس وقت کے بعد سے میں نے کوئی سجدہ نہیں کیا مگر یہ کہ خداوند عالم سے دعا کی کہ مجھے ان کی زیارت و ملاقات کا شرف نصیب ہوجائے۔

ایک رات جب میں نماز مغرب کے بعد مستحب نماز میں مشغول تھا، میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے کوئی آکر بیٹھا ہے اور اس نے اپنا ہاتھ میرے دوش پر رکھ دیا اور کہنے لگا: بیٹا! خداوند عالم نے تمہاری دعا مستجاب فرمائی ہے۔ اب تم کس بات کے منتظر ہو؟ میں مہدی ہوں۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے گھر تشریف لے چلیں گے؟ فرمایا: کیوں نہیں! پھر وہ میرے ساتھ میرے گھر تشریف لے آئے اور فرمایا: میرے لئے ایک جائے خلوت مہیا کردو میں کچھ تنہائی چاہتا ہوں پس آنجناب ایک ہفتہ ہمارے پاس رہے۔( ۲۰۹ ) "

۸ ۔ شیخ علی خواص (متوفی ۹۳۹ ھ)

شعرانی ، کتاب یواقیت و جواہر کے باب نمبر ۶۵ میں امام زمانہ علیہ السلام سے شیخ حسن عراقی کی ملاقات کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: میرے استاد و سرور اور مربی جناب علی خواص، امام زمانہ علیہ السلام سے شیخ حسن عراقی کی داستان ملاقات کی تصدیق فرماتے تھے۔"( ۲۱۰ )

۹ ۔ عبد الوہاب شعرانی (متوفی ۹۷۳ ھ)

یہ اہل سنت کے معروف عالم اور بزرگ عارف شخصیت ہیں۔ انکی مشہور و معروف کتاب الیواقیت و الجواہر کے مقدمہ میں شیخ الاسلام فتوحی رضی اللہ نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے:

"کوئی بد اندیش یا جھوٹے منکر کے سوا اس کتاب کے معانی کی تکذیب نہیں کرسکتا؛ جیسا کہ کوئی مؤلف اس کو خطا کار نہیں کہہ سکتا مگر یہ کہ وہ قرآن اور اس کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو اور اس نے راہِ راست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہو۔ جس طرح سوائے حاسد و کینہ پرور یا نادان بدخواہ، کجرو و مخالف سنت، بے دین اور اسلامی معاشرے سے منحرف شخص بھی اس کتاب کے مؤلف کے فضل وبزرگواری کا انکار نہیں کرتا۔"

شعرانی رقمطراز ہیں: مہدی ؑ امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ان کی ولادت شب نیمہ شعبان ۲۵۵ ھ میں ہوئی ، وہ ابھی تک زندہ ہیں یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم ان کے پاس آجائیں گے۔"

مزید لکھتے ہیں:

اگر آپ یہ سوال کریں کہ مہدی ظہور کے بعد کس طرح حکم خدا کو جاری کریں گے؟ کیا وہ نصوص یا اجتہاد یا دونوں کی مدد سے فیصلہ کریں گے؟ تو ہم کہتےہیں: جیسا کہ شیخ محی الدین کا کہنا ہے کہ خدا انھیں جو الہام کرے گا وہ اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔کیونکہ خداوند عالم شریعت محمدی انھیں الہام کردے گا اور وہ اسی کے مطابق فیصلے کریں گے جیسا کہ حدیث "يقفوا أثری ولا يخطئ " اسی مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

پس پیغمبر الاسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں یہ بات سمجھا دی ہے کہ مہدی پیرو ہیں نہ بدعت گزار، اور یہ کہ وہ فیصلہ کرنے میں بالکل معصوم ہیں کیونکہ حکم میں معصوم کے معنی یہ ہیں کہ وہ اشتباہ نہیں کرتا، اور حکم پیغمبر ؐ بھی خطا سے محفوظ ہے۔( وما ينطق عن الهوی إن هو إلّا وحی يوحي ) بنابریں انھیں پیغمبرؐ کی مانند سمجھتے ہیں۔

۱۰ ۔ سید جمال الدین عطاء اللہ شیرازی (متوفی ۱۰۰۰ ھ)

سید عطاء اللہ کتاب روضۃ الاحباب میں رقمطراز ہیں:

"ہماری یہ گفتگو بارہویں امام مؤتمن محمد بن الحسن کے بارے میں ہے ان کی ولادت باسعادت اکثر اہل روایت کے قول کے مطابق نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری کو شہر سامر ہ میں ہوئی ہے۔ ان امام ذوِ الاحترام کا نام و کنیت ،حضرت خیر الانام علیہ والہ تحف الصلاۃ و السلام سے موافقت رکھتا ہے اور مہدی، منتظر ، الخلف الصالح اور صاحب الزمان ان کے القابات ہیں۔

وہ اپنے والد گرامی کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے، پروردگار صاحب العطایا نے اس شگوفۂ گلزار کو حضرت یحیی ابن ذکریا علیہ السلام کی طرح بچپن میں حکمت عطا فرمائی تھی۔

اور یہ صاحب الزمان یعنی مہدی دوراں معتمد عباسی خلیفہ کے زمانے میں ۲۶۵ یا ۲۶۶ ہجری میں فِرَقِ برایا کی نگاہوں سے غائب ہوگئے۔( ۲۱۱ ) "

۱۱ ۔ محمد بن ابراہیم جوینی شافعی (متوفی ۱۱۷۶ ہجری)

یہ اپنی معروف کتاب "فرائد السمطین" میں دعبل خزاعی کی امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام ؑ نے فرمایا: میرے بعد امام جواد تقی علیہ السلام انکے بعد انکے فرزند علی الہادی نقی علیہ السلام ، انکے بعد انکے فرزند حسن عسکری پھر ان کے فرزند محمد الحجۃ المہدی (عج) ہیں کہ انکی غیبت کے زمانے میں ان کا منتظر رہنا چاہئے اور ظہور کے بعد انکی اطاعت کی جائے گی۔( ۲۱۲ ) "

۱۲ ۔ شیخ محمد بن صبان مصری (متوفی ۱۲۰۶ ہجری)

یہ معروف عالم اہل سنت اپنے کتاب اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفی و فضائل اہل البیت الطاہرین کہ جسے انھوں نے ۱۱۸۵ ہجری میں تالیف کیا ہے اور یہ کتاب، مشہور صاحب قلم جناب شبلنجی کی کتاب نور الابصار کے حاشیہ پر مصر میں چھپی ہے، وہ اس میں کتاب یواقیت میں سخن شعرانی نیز گفتار شیخ حسن عراقی اور شعرانی کےا ستاد شیخ علی خواص کی تصدیق کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ شعرانی کے نقل کردہ شیخ محی الدین عربی کے کلام کا حوالہ دیتے ہوئے بارہ ائمہ اطہار کے اسماء کا بھی ذکر کیا ہے، نیز خود بھی حضرت محمد بن الحسن العسکری کے نام مبارک کا ذکر کرتے ہیں۔

بنابریں بغیر کسی نقد و تنقید کے یہ نقل کرنا خود غیبت امام علیہ السلام کو قبول کرنے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اگر ابن صبان غیبت امام عصر (عج) کو قبول نہ کرتے تو یا وہ ان اقوال کو نقل ہی نہ کرتے یا ان پر نقد و تنقید کرتے۔( ۲۱۳ )

۱۳ ۔ قاضی جواد ساباط بصری حنفی (متوفی ۱۲۵۰ ھ)

انکا تعلق بحرین سے ہے لیکن بصرہ میں آکر آباد ہوگئے تھے، یہ عیسائی تھے پھر سنی مسلمان ہوگئے۔

اسماعیل پاشا بغدادی کتاب ہدیۃ العارفین فی اسماء المؤلفین وآثار المصنفین (جو کہ کشف الظنون کے ذیل میں ہے) لکھتے ۃیں: "جواد ساباط ۱۲۲۸ ھ میں کتاب "البراهین الساباطیه فیما یستقیم به دعائم الملة المهدیه و تنهدم به اساطین الشریعة المنسوخة العیسویه " کی تالیف سےفارغ ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ جناب ساباط کی مختلف علوم میں تالیف کردہ بارہ دیگر کتب کا تذکرہ کرتے ہیں۔( ۲۱۴ )

قاضی جواد ساباطی صاحب نے اپنی یہ کتاب اپنے گذشتہ مذہب کی ردّ میں لکھی ہے جس میں انھوں نے دین مبین اسلام کی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے مدلل جوابات دیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

" مسلمانوں میں حضرت مہدی کے وجود کے بارے میں اختلاف نظر ہے۔ ہم اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آنجناب ؑ حضرت فاطمہ زہرا کی اولاد سے ہیں۔ ان کا نام محمد، ان کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے۔

امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ وہ محمد بن الحسن العسکری ؑ ہیں جو ۲۵۵ ہجری میں ایک نرجس نامی کنیز کے بطن مبارک سے معتمد عباسی خلیفہ کے دور حکومت میں شہر سامر ہ میں پیدا ہوئے تھے پھر اس کے بعد غائب ہوگئے پھر آشکار ہوئے اور پھر دوبارہ غائب ہوگئے، یہی غیبت کبریٰ ہے اور جب خدا چاہے گا ظہور فرمائیں گے۔

البتہ چونکہ شیعہ امامیہ کا نقطۂ نظر پیغمبر گرامی قدر کی نص صریح سے مطابقت کرتا ہے اور میرا مقصد بھی بغیر کسی تعصب کے امت محمدی کا دفاع کرنا ہے اس لئے میں نے محترم قارئین کے لئے اس بات کو نقل کر دیا ہے تاکہ آپ کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ مہدی کے بارے میں شیعوں کا نظریہ، پیغمبر گرامی قدر کے فرمان کے مطابق ہے۔"( ۲۱۵ )

۱۴ ۔ قاضی بہلول بہجت افندی (متوفی ۱۳۵۰ ہجری)

"کیونکہ حدیث "من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ الجاہلیۃ" پر تمام علمائے اسلام متفق ہیں اس لئے عالم اسلام میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو صاحب العصر و الزمان (عج) کے وجود کا اقرار نہ کرتا ہو۔ ہمارے عقیدے کے مطابق امام مہدی صاحب العصر و الزمان شہر سامر ہ میں پیدا ہوئے ہیں اور انھیں وراثت نبوت و وصایت امامت نصیب ہوئی۔ حکمت الٰہی کے مطابق امامت کا سلسلہ تا قیام قیامت محفوظ و جاری رہے گا۔ پیغمبر اکرم کے بعد ائمہ معصومین کی تعداد محصور و معلوم یعنی بارہ افراد پر مشتمل ہے کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں پیغمبر گرامی قدر سے با سند معتبر روایت نقل کی گئی ہے کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ سب کے سب بنی ہاشم سے ہوں گے۔"( ۲۱۶ )

اس کے علاوہ وہ اپنی کتاب محاکمہ در تاریخ آل محمد میں رقمطراز ہیں : "امام تا بحال زندہ ہیں اور جب خداوند عالم انھیں اجازت دے گا ظہور فرمائیں گے اور روئے زمین کو عدل و انصاف سے مالا مال کردیں گے۔"( ۲۱۷ )

____________________

۱ ۔سورہ یس، (۳۶) آیت ۹۔

۲ ۔مجمع البیان، ج۸، مذکورہ آیت کریمہ۔

۳ ۔مجمع البیان میں ہے کہ مشرکین آنحضرت کو ابی کبشہ سے منسوب کرتے تھے اور انھیں ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے۔ ابو کبشہ درحقیقت قبیلۂ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو بتوں کی پرستش کی وجہ سے قریش کی مخالت کرتا تھا اور قبیلہ کے دیگر افراد کی طرح بتوں کی عبادت نہیں کرتا تھا۔ لہذا حضور ؐ بھی بتوں کی پرستش کی وجہ سے قریش کی مخالفت کرتے تھے اسی لئے انھوں نے انھیں ابی کبشہ سے تشبیہ دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابو کبشہ ماں کی طرف سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد میں سے تھے۔

۴ ۔سورہ یس، (۳۶) آیت ۹۔ ۸۔

۵ ۔محمد بن جریر طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۲۲، ص ۹۹، طبع ۱۳۲۸ ھ ۔

۶ ۔سورہ اسراء (۱۷) آیت ۴۵۔

۷ ۔مجمع البیان، ج۶، ص ۴۱۸، طبع لبنان ۱۳۷۹ ھ۔

۸ ۔ سورہ طہ (۲۰) آیت ۹۶۔

۹ ۔سورہ طہ (۲۰) آیت ۸۸۔

۱۰ ۔سورہ طہ (۲۰) آیت ۹۶۔

۱۱ ۔الامام المہدی من المہد اِلی الظہور، ص ۱۸۲، تفسیر نمونہ ذیل آیۂ کریمہ۔

۱۲ ۔بحار الانوار، ج۵۱، ص ۲۰۳۔

۱۳ ۔سورہ کہف (۱۸) آیت ۸۲۔ ۵۹۔

۱۴ ۔سورہ قصص (۲۸) آیت ۱۸ و ۲۱، سورہ شعراء (۲۶) آیت ۲۱؛ بحار ، ج۵۱، ص ۲۰۴۔

۱۵ ۔بحار الانوار، ج۵۱، ص ۲۰۴۔

۱۶ ۔بحار، ج۵۱، ص ۲۰۴۔

۱۷ ۔بحار الانوار، ج۵۱، ص ۲۰۴۔

۱۸ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۱۲۷۔ ۱۶۱۔

۱۹ ۔سورہ شعراء (۲۶) آیت ۱۵۵۔

۲۰ ۔سورہ اعراف (۷) آیت ۷۵۔ ۷۶۔

۲۱ ۔کمال الدین، ج۱، باب ذکر غیبۃ صالح، ص ۱۳۶، ح ۶؛ بحار الانوار، ج۵۱، باب ۱۳، ص ۲۱۶، ح۱۔

۲۲ ۔سورہ یوسف (۱۲) آیت ۹۰۔ ۸۹۔

۲۳ ۔علل الشرائع، باب ۱۷۹، ص ۲۴۴، ح۳؛ کمال الدین، ج۱، باب فی غیبۃ یوسف، ص ۱۴۴، ح ۱۱؛ بحار الانوار، ج۵۱، باب۶، ص ۱۴۲ ح ۱۔

۲۴ ۔شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۶۳۔

۲۵ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۱۵۲، ح ۱۴؛ بحار الانوار، ج۵۱، ص ۲۱۶، ح۲۔

۲۶ ۔شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص ۱۹۶، ح ۳۳۵۸۰۔

۲۷ ۔مہدی یوسفیان، امام مہدی در قرآن، ص۱۵۔

۲۸ ۔سورہ قدر (۹۷) آیت ۵۔ ۱۔

۲۹ ۔سورہ دخان (۴۴) آیت ۴۔ ۱۔

۳۰ ۔الکافی، ج۱، باب ۴۱،ص ۲۴۹، ح۶۔

۳۱ ۔ایضاً، ص ۳۱۱، ح ۹۔

۳۲ ۔ایضاً، ص ۳۰۶، ح ۲۔

۳۳ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۲۸۰۔ ۲۸۱، ح ۳۰۔

۳۴ ۔سورہ اسراء (۱۷) آیت ۷۱۔

۳۵ ۔ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی۔

۳۶ ۔الکافی، ج۲، ص ۴۳۸، باب ۸۷؛ مسند احمد ابن حنبل، ج۴، ص ۹۶۔

۳۷ ۔کتاب المحاسن، ج۱، باب ۲۲، ص ۱۵۳ ح ۷۸۔

۳۸ ۔تفسیر عیاشی، ج۲، ص ۳۰۳، ح ۱۱۹۔

۳۹ ۔شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج۲، باب ۳۱، ص ۶۳، ح ۲۱۴۔

۴۰ ۔کمال الدین، ج۲، ص ۳۸۰، باب ۳۹، ح ۱۲۔

۴۱ ۔صحیح ابن حبان، ج۷، ص ۴۹، ح ۴۵۵۴۔

۴۲ ۔الطبقات الکبریٰ، ج۵، ص ۱۴۴؛ کنز العمال، ج۱، ص ۱۰۳۔

۴۳ ۔مسند ابی داؤد، ص ۱۲۵۹، ح ۱۹۱۳۔

۴۴ ۔مسند احمد بن حنبل، ج۳، ص ۴۴۶؛ امام بخاری، تاریخ کبیر، ج۶، ص ۴۴۵، ح ۲۹۴۳؛ المصنف، ج۱۵، ص ۳۸، ح ۱۹۰۴۷۔

۴۵ ۔ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص ۲۴۲۔

۴۶ ۔المستدرک ، ج۴، ص ۷۶؛ الفرق بین الفرق، ص ۳۰۸۔

۴۷ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۲۵۸، ح ۱۹۔ ۲۱۔

۴۸ ۔قمی رازی، کفایۃ الاثر، ص ۴۴۔

۴۹ ۔الکافی، ج۱، ص ۲۱۵۔

۵۰ ۔مسند ابی داؤد، ص ۲۷۸، ح ۷۶۷۔

۵۱ ۔مسند احمد بن حنبل، ج۵، ص ۸۶۔ ۸۸۔

۵۲ ۔تحفۃ الاشراف، ج۶، ص ۳۹؛ صحیح مسلم، ج۱۲، ص ۴۴۳، فیض القدیر، ج۲، ص ۵۸۲۔

۵۳ ۔شرح صحیح بخای، ج۸، ص ۲۱۱۔

۵۴ ۔صحیح بن حبان، ج۷، ص ۴۹، ح ۵۴۔

۵۵ ۔سورہ نساء: (۴) آیت ۵۹۔

۵۶ ۔تفسیر نمونہ، ج۴، ص ۴۸۱۔ ۴۹۰۔

۵۷ ۔فخر رازی، تفسیر کبیر، ج۱۰، ص ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ھ۔

۵۸ ۔تفسیر نمونہ، ج۳، ذیل آیت ۵۹ سورہ نساء۔

۵۹ ۔محمد بن یوسف ابو حیان اندلسی، بحر المحیط، ج۳، ص ۲۷۸، طبع مصر۔

۶۰ ۔احقاق الحق، ج۳، ص ۴۲۵۔

۶۱ ۔ینابیع المودۃ، ص ۱۱۶، طبع استنبول۔

۶۲ ۔ینابیع المودۃ، ص ۱۱۴، طبع استنبول۔

۶۳ ۔تفسیر برہان، ج۱، آیہ مذکورہ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

۶۴ ۔کمال الدین، ج۱، باب ۲۳، ح ۳۔

۶۵ ۔سورہ رعد (۱۳) آیت ۷۔

۶۶ ۔تفسیر کشاف، ج۲، ذیل آیت مذکور۔

۶۷ ۔تفسیر نمونہ، ج۱۰، ذیل آیت۔

۶۸ ۔جامع البیان، ج۱۳، ص ۱۴۲۔

۶۹ ۔حاکم نیشاپوری، مستدرک، ج۳، ص ۱۲۹۔

۷۰ ۔الکافی، ج۱، ص ۱۹۱۔

۷۱ ۔ایضاً۔

۷۲ ۔سورہ نساء (۴) آیت ۴۱۔

۷۳ ۔سورہ نحل(۱۶) آیت ۸۴۔

۷۴ ۔سورہ نحل (۱۶) آیت ۸۹۔

۷۵ ۔سورہ رعد (۱۳)، آیت ۴۳۔

۷۶ ۔سورہ قصص (۲۸)، آیت ۷۵۔

۷۷ ۔تفسیر فخر رازی، ج۲۵، ص ۱۲۔ ۱۳۔

۷۸ ۔سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۴۳۔

۷۹ ۔تفسیر فخر رازی، ج۲۰ ص ۹۸۔

۸۰ ۔تفسیر نمونہ، ج۱۱، ص ۳۶۰۔

۸۱ ۔الکافی، ج۱، کتاب الحجۃ، باب ۹، ح۱۔

۸۲ ۔المیزان، ج۱۱، ص ۳۸۸۔

۸۳ ۔سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

۸۴ ۔الکافی، ج۱، ص ۲۰۸۔

۸۵ ۔ایضاً۔

۸۶ ۔شواہد التنزیل، ج۱، ص ۲۶۰، ش ۲۵۳۔

۸۷ ۔تذکرۃ الخواص، ص ۱۶۔

۸۸ ۔تفسیر فخر رازی، ج۱۶، ص ۲۲۰۔

۸۹ ۔سورہ اعراف (۷) آیت ۱۸۱۔

۹۰ ۔تفسیر فخری رازی، ج۱۵، ص ۷۲۔

۹۱ ۔تفسیر کنز الدقائق، ج۳، ص ۶۵۷۔

۹۲ ۔الکافی، ج۱، باب ۱۰۸، ص ۴۱۴، ح ۱۳۔

۹۳ ۔سورہ فاطر (۳۵) آیت ۲۴۔

۹۴ ۔الکافی، ج۱، کتاب الحجۃ، باب انا انزلنا، ص ۲۴۹، ح ۴؛ بحار الانوار، ج۲۵، باب ۳، ص ۷۱، ح ۶۲۔

۹۵ ۔تفسیر علی بن ابراہیم قمی، ج۲، ص ۲۰۹۔

۹۶ ۔راغب اصفہانی، مفردات قرآن، مادہ غیب۔

۹۷ ۔ایضاً۔

۹۸ ۔تفسیر قرطبی، ج۱، ص ۱۶۳؛ تفسیر زاد المسیر، ج۱، ص ۲۱۔

۹۹ ۔ایضاً۔

۱۰۰ ۔تفسیر قرطبی، ج۱، ص ۱۶۳؛ تفسیر الماوردی، ج۱، ص ۶۹۔

۱۰۱ ۔تفسیر جامع البیان، ج۱، ص ۱۶۳؛ تفسیر دُر المنثور، ج۱، ص ۶۴، تفسیر زاد المسیر، ج۱، ص ۲۱۔

۱۰۲ ۔تفسیر قرطبی، ج۱، ص ۱۶۳۔

۱۰۳ ۔ایضاً۔

۱۰۴ ۔تفسیر المیزان، ج۱، ص ۵۵۔

۱۰۵ ۔تفسیر مجمع البیان، ج۱، ص ۱۲۱؛ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص ۳۱؛ تفسیر نمونہ، ج۷، ص ۷۲۔

۱۰۶ ۔فخر رازی، تفسیر کبیر، ج۲، ص ۲۸۔

۱۰۷ ۔سیوطی، تفسیر در المنثور، ج۱، ص ۶۴؛ تفسیر جامع البیان، ج۱، ص ۱۰۱۔

۱۰۸ ۔ایضاً؛ تفسیر قرطبی؛ جامع الاحکام، ج۱، ص ۱۶۳؛ تفسیر زاد المسیر، ج۱، ص ۲۱۔

۱۰۹ ۔سیوطی، در المنثور، ج۱، ص ۶۵۔

۱۱۰ ۔ینابیع المودہ، ج۲، ص ۷۶۔

۱۱۱ ۔تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص ۳۱۔

۱۱۲ ۔ تفسیر البرہان، ج۱، ص ۱۳۲۔

۱۱۳ ۔کمال الدین، ج۲، باب ۳۳، ح ۱۹؛ تفسیر البرہان، ج۱، ص ۱۲۵؛ نور الثقلین، ج۱، ص ۳۱؛ المحجۃ، ص ۱۶۔

۱۱۴ ۔ الکافی، ج۱، ص ۳۳۴، ح ۲؛ کمال الدین، ج۲، ص ۵۴۸، ح۷۔

۱۱۵ ۔ کمال الدین ، ج۲، باب ۳۴، ح ۶۔

۱۱۶ ۔ تفسیر نمونہ، ج۲۴، ص ۳۵۸۔

۱۱۷ ۔کمال الدین، ج۱، باب ۳۲، ص ۳۲۵، ح ۳؛ الکافی، کتاب الحجۃ، باب در امر غیبت، ح ۱۴؛ نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، ح ۱۷؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۵۸، ۱۱۵؛ تفسیر علی بن ابراہیم، ج۲، ص ۳۷۹؛ تفسیر نور الثقلین، ج۵، ۳۸۷۔

۱۱۸ ۔سورہ انبیاء (۲۱) آیت ۳۰۔

۱۱۹ ۔ترجمہ مولانا فرمان(اعلیٰ اللہ مقامہ)۔

۱۲۰ ۔الکافی، ج۱، کتاب العقل و الجھل، ح ۲۵۔

۱۲۱ ۔سورہ بقرہ (۲) آیت ۲۲۔

۱۲۲ ۔سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۲۴۔

۱۲۳ ۔یہاں عہد الٰہی سے مراد امامت ہے (رجوع فرمائیں تفسیر مجمع البیان و تفسیر المیزان ذیل آیت)۔

۱۲۴ ۔شیخ صدوق، الخصال، ج۲، ص ۶۲۶۔

۱۲۵ ۔شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۶۰، ح ۱۱۷؛ کمال الدین، ج۲،باب ۳۴، ح ۳۔

۱۲۶ ۔سید ہاشم بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص ۷۹، ح ۱؛ بحار الانوار، ۳۳/ ۱۸، باب ۱۳، باب شہادت عمار؛ بحار الانوار، ۳۶/ ۳۲۶، باب ۴۱، باب نصوص الرسول؛ کفایۃ الاثر، ص ۱۲۰، باب ما جاء عن عمار بن یاسر۔

۱۲۷ ۔نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، ح ۶ و ۷۔

۱۲۸ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۳۲۴، باب ۳۲، ح ۱، و ۱۴۔

۱۲۹ ۔شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۵۹، ح ۱۱۶۔

۱۳۰ ۔تفسیر نور الثقلین، ج۵، ص ۵۱۷، ح ۱۸، ۱۹ و ۲۰۔

۱۳۱ ۔نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، ح ۳۰۔

۱۳۲ ۔نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، ح ۴۰؛ نور الثقلین، ج۵، ص ۴۵۴، ح ۳؛ کمال الدین، ج۲، باب ۳۳ باب ما اخبر بہ الصادق من وقوع الغیبۃ، ح ۴۲؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، باب ما ورد عن الائمہ فی غیبتہ، ح ۱۲۶۔

۱۳۳ ۔نعمانی، الغیبۃ، ص ۲۴۔

۱۳۴ ۔علی دوانی، موعودی کہ جہان در انتظار ا وست، ص ۲۴۰۔

۱۳۵ ۔نعمانی، الغیبۃ، ص ۲۴۔

۱۳۶ ۔عبقات الانوار، ج۱ و ۲ ص ۸۲۵۔ ۸۲۴ (بربنائے نقل مہدی یوسفیان، امام مہدی در احادیث شیعہ و سنی، ص ۳۹)۔

۱۳۷ ۔صحیح مسلم، ج۴، ص ۱۸۰۳۔

۱۳۸ ۔سنن ترمذی، ج۵، ص ۶۶۳، ش ۳۷۸۸۔

۱۳۹ ۔امام مہدی در حدیث ثقلین۔

۱۴۰ ۔سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

۱۴۱ ۔سورہ آل عمران (۳) آیت ۶۱۔

۱۴۲ ۔صواعق محرقہ، باب۹، ص ۱۲۱۔

۱۴۳ ۔صحیح مسلم، ج۷، ص ۱۳۰؛ صواعق محرقہ، باب ۱۱، فصل ۱۱، ص ۱۴۳۔

۱۴۴ ۔لسان العرب، ج۵، ص ۵۳۸۔

۱۴۵ ۔ابن اثیر، نھایہ، ج۳، ص ۸۶۹ مادہ عتر۔

۱۴۶ ۔فیض القدیر، ج۳، ص ۱۵۔

۱۴۷ ۔الصواعق المحرقہ، ص ۹۰ (بر بنائے نقل مہدی یوسفی، امام مہدی در احادیث شیعہ و سنی، ص ۴۵)۔

۱۴۸ ۔مسند احمد بن حنبل، ج۱، ص ۳۷۶؛ سنن ابی داؤد، کتاب المہدی، ص ۱۰۷؛ صحیح ترمذی، ج۲، ص ۴۶۔

۱۴۹ ۔الحاوی للفتاوی، ج۲، ص ۸۶۔ ۸۵۔

۱۵۰ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص ۳۵۔

۱۵۱ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۷۳، ص ۴۳۳۔

۱۵۲ ۔حاکم نیشابوری، مستدرک، ج۴، ص ۵۵۷۔

۱۵۳ ۔سنن ابی داؤد ، ج۴،کتاب المہدی، ص ۱۰۷، ح ۴۲۸۴؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۸۵، ح ۱۴۵۔

۱۵۴ ۔عقد الدرر، ص ۲۰۵۔

۱۵۵ ۔سنن أبی داؤد ، ج۴، ص ۱۰۷، ح ۴۲۸۵۔

۱۵۶ ۔کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ص ۲۸۷ ح۵؛ فرائد السمطین، ج۲، ص ۳۳۵، ح ۵۸۷۔

۱۵۷ ۔شرح المقاصد، ج۵، ص ۲۳۹؛ تشریح و محاکمہ تاریخ آل محمد، ص ۱۶۶؛ ینابیع المودۃ، ص ۴۸۳؛ المسند الامام احمد، ج۱۳، ص ۱۸۸۔

۱۵۸ ۔بحار الانوار، ج۲۳، ص ۹۵۔ ۷۶۔

۱۵۹ ۔فقیہ ایمانی، شناخت امام مہدی، ص ۳۰ و ۴۰۔

۱۶۰ ۔سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص ۶۶و ۴۲۴۔

۱۶۱ ۔صحیح مسلم، ج۶، ص ۱۰۲ و ج ۱۲، ص ۴۴۳۔

۱۶۲ ۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام، باب الأمراء من قریش، ح ۷۱۳۹؛ شرح صحیح مسلم، ج۱۲، ص ۴۴۳؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۸۸؛ نعمانی ، الغیبۃ، ص ۷۵۔

۱۶۳ ۔فرائد السمطین، ج۲، ص ۳۱۲، ح ۵۶۲۔

۱۶۴ ۔فرائد السمطین، ج۲، ص ۱۳۳؛ ذیل حدیث ۴۳۱؛ ینابیع المودۃ، باب ۷۶، ص ۴۴۱۔

۱۶۵ ۔کمال الدین، ج۲، ص ۳۴۳، باب ما اخبر بہ الصادق، ح ۲۵۔

۱۶۶ ۔سورہ آل عمران، آیت ۱۴۱؛ کمال الدین ، ج۱، ص ۲۸۷، باب ۲۵، ح ۷۔

۱۶۷ ۔سورہ آل عمران، آیت ۱۴۱۔

۱۶۸ ۔فرائد السمطین، ج۲، ۳۳۶؛ ینابیع المودۃ، ج۳،ص ۳۹۷؛ احقاق الحق، ج۱۳، ص ۱۵۶؛ کمال الدین، ج۱، ص ۲۸۷، باب ۲۵، ح ۷۔

۱۶۹ ۔سُرخ یاقوت۔

۱۷۰ ۔ینابیع المودۃ، ج۳، ص ۲۹۶؛ فرائد السمطین، ۳۳۶۔

۱۷۱ ۔ینابیع المودۃ، ج۲، باب ۷۶، ص ۳۸۸۔

۱۷۲ ۔متقی ہندی، البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، باب ۱۲، ح ۳۔

۱۷۳ ۔منتخب الاثر، ۳۱۶۔

۱۷۴ ۔کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ص ۴۸۰، ح ۶؛ بحار الانوار، ج۵۱، باب ۶، ص ۱۴۲، ح ۲۔

۱۷۵ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۳۰۳، باب ۲۶،ح ۱۴۔

۱۷۶ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۴، ص ۴۹۳۔

۱۷۷ ۔نعمانی، الغیبۃ، باب ۱۰، ص ۱۷۰، ح۱۔

۱۷۸ ۔ایضاً، ح ۳؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۴۲۳، ح ۴۰۷۔

۱۷۹ ۔ینابیع المودۃ، ص ۴۲۷۔

۱۸۰ ۔متقی ہندی، البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، باب ۱۲، ح ۴؛ عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب۵، ص ۱۷۸۔

۱۸۱ ۔کمال الدین، ج۲، باب ۳۳، ح۴۔

۱۸۲ ۔ینابیع المودۃ، باب ۷۶، ص ۴۴۲۔

۱۸۳ ۔ینابیع المودۃ، ج۳، ص ۱۰۸؛ فرائد السمطین، ج۲،ص ۳۱۳، ح ۵۶۲۔

۱۸۴ ۔ینابیع المودۃ، ج۳، باب ۹۴، ص ۱۶۷۔

۱۸۵ ۔سورہ انشقاق (۸۴) آیت ۱۹۔

۱۸۶ ۔علل الشرائع ، ص ۲۴۵، باب ۱۷۹، ح ۷؛ بحار الانوار، ج۵۱، باب ۶، ص ۱۴۲، ح ۲۔

۱۸۷ ۔کمال الدین، ج۲، باب ۴۶، ص ۵۲۴، ح ۴۔

۱۸۸ ۔کمال الدین، ج۱، باب ۳۲، ح ۶؛ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۴۲۴، رقم ۴۰۸؛ بحار الانوار ، ج۵، ص ۲۱۶، ح۳۔

۱۸۹ ۔آیہ شریفہ( فخرج منها خائفاً یترقب ) کی طرف اشارہ ہے کہ موسیٰ بحالت خوف و ترس قوم سے دور چلے گئے اور سالھا سال امرِ الٰہی کا انتظار کرتے رہے کہ وہ کب انھیں فرعونیوں سے بنی اسرائیل کو نجات دلانے کی اجات دیتا ہے۔ ۔

۱۹۰ ۔کمال الدین، ج۱، ص ۳۲۱، باب ۳۱، ح ۳؛ بحار الانوار، ج۵۱، باب ۱۳، ص ۲۱۷، ح۴۔

۱۹۱ ۔قرآن کریم نے ان تینوں عقیدوں کو رد کردیا۔ سورہ مریم (۱۹) کی آیت نمبر ۱۶ تا ۳۷ میں حضرت عیسیٰ کی ولادت کا تفصیل سے ذکر موجود ہے جبکہ سورہ نساء (۴) کی آیت نمبر ۵ اور ۱۵۸ میں فرماتا ہے:وما قتلوه ۔۔۔یعنی نہ انھیں قتل کیا ہے اور نہ ہی انھیں سولی پر چڑھایا گیا ہے بلکہ یہ امر ان پر مشتبہ ہوگیا، یقیناً وہ قتل نہیں ہوئے بلکہ خدا نے انھیں اوپر اٹھالیا ہے۔

۱۹۲ ۔کمال الدین، ج۱، باب ۳۲، ص ۳۲۷، ح۷۔

۱۹۳ ۔سورہ بنی اسرائیل (۱۷) آیت ۱۳۔

۱۹۴ ۔سورہ نساء (۴) آیت ۱۵۷۔

۱۹۵ ۔کمال الدین، ج۲، باب ۳۳، ص ۳۵۲ و ۳۵۷، ح ۵۱۔

۱۹۶ ۔سورہ شوریٰ (۴۲) آیت ۲۳۔

۱۹۷ ۔شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ امام عصر (عج) سرداب میں غائب ہوئے ہیں یا سرداب سے ان کا کوئی ربط ہے۔ سامرا میں موجود سرداب کا ماجرا کچھ اسی طرح ہے کہ مرور ایام کے بعد بھی حضرت امام حسن عسکری ؑ کے اس مکان کا ایک حصہ باقی بچ گیا تھا جس میں لوگوں نے آنجناب ؑ کے پانچ سالہ فرزند ارجمند کو دیکھا تھا اور پھر آپؑ کی رحلت کے بعد اس مکان کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ جب ناصر الدین عباسی نے اسے بطور یادگار (امام حسن عسکری ؑ) تعمیر کروایا تو اسے لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ حاصل ہوگیا!

موجودہ سرداب در حقیقت امام حسن عسکری ؑ کا مکان ہے جس میں سے امام زمانہ (عج) غائب ہوئے تھے ورنہ خود سرداب کی شیعوں کے نزدیک کوئی نہ خصوصیت ہے اور نہ ہی شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ امام زمانہ سرداب میں غائب ہوئے ہیں؛ (علی دوانی، دانشمندان عامہ و مہدی موعود، ص ۵۹)۔

۱۹۸ ۔کشف الاستار، ص ۴۳۔ کتاب کامل ابن اثیر وغیرہ کے مطابق ناصر لدین اللہ عباسی خلفاء میں سے ایک بہترین و دانا ترین خلیفہ تھا۔

۱۹۹ ۔کشف الاستار، ص ۶۵۔

۲۰۰ ۔علی دوانی، دانشمندان عامہ و مہدی موعود، ص ۴۴۔ یہ بلاذری، احمد ابن یحیی بلاذری (متوفی ۲۷۹ ھ) مؤلف فتوح البلدان کے علاوہ ہیں۔

۲۰۱ ۔سورہ نساء (۴) آیت ۱۵۹۔

۲۰۲ ۔ترجمہ مولانا ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)، جب حضرت عیسیٰ آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور حضرت مہدیؑ کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو سارے اہل کتاب ان کی حقیقت پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی باتوں کو تسلیم کرلیں گے جن میں سے ایک حضرت مہدی (عج) کی امامت بھی ہے۔

۲۰۳ ۔مسلم کے علاوہ یہ روایت بخاری نے ج۲ کتاب بدء الخلق فی باب نزول عیسیٰ بن مریم میں؛ مومن شبلنجی نے نور الابصار ، باب ۲، ص ۱۵۴ میں؛ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۷۲، ص ۴۳۲، طبع ہشتم، دار الکتب العراقیہ سال ۱۳۸۵ ھ۔ ق اور محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السؤل باب ۱۲ میں قاضی ابو محمد حسین بغوی کی کتاب شر ح السنۃ سے نقل کی ہے۔

۲۰۴ ۔سورہ حجر (۱۵) آیت ۳۸۔ ۳۶۔

۲۰۵ ۔سورہ صف (۶۱) آیت ۹۔

۲۰۶ ۔سورہ کہف (۱۸)، آیت ۱۱۰۔

۲۰۷ ۔عبد الرحمن جامی، شواہد النبوۃ۔

۲۰۸ ۔کشف الاستار، ص ۲۶۔

۲۰۹ ۔الواقح الانوار، ج۲، ص ۱۳۹۔

۲۱۰ ۔شعرانی، کتاب لواقح ج۲، ص ۵۰پر خاص تعریف کرتے ہیں ۔

۲۱۱ ۔علی دوانی، دانشمندان عامہ و مہدی موعود، ص ۱۲۸۔

۲۱۲ ۔ینابیع المودۃ، ص ۴۷۱۔

۲۱۳ ۔اسعاف الراغبین در حاشیہ نور الابصار ، ص ۱۵۳۔

۲۱۴ ۔اسماعیل پاشا بغدادی، ھدیۃ العارفین، ج۱، ص ۲۵۸۔

۲۱۵ ۔کشف الاستار، کتاب البراہین الساباطیہ، ص ۵۲۔

۲۱۶ ۔تاریخ آل محمد، ص ۱۹۷۔

۲۱۷ ۔محاکمہ در تاریخ آل محمد، ص ۱۳۹۔