تیسرا باب: غیبت کے اقسام، علل و آثار
پہلی فصل: اقسام غیبت
کتب احادیث میں ثبت شدہ روایات اور کتب تاریخ جس حقیقت کی گواہی دے رہی ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب العصر والزمان (عج) کی غیبت کی دو قسمیں ہیں:
ایک مختصر جسے غیبت صغری جبکہ دوسری طولانی جیسے غیبت کبریٰ کہتے ہیں۔
غیبت صغریٰ
حضرت امام عصر علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کی مدت تقریباً ستر سال بیان کی جاتی ہے۔ غیبت کے اس مختصر عرصہ میں امام زمانہ علیہ السلام مکمل طور پر لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھے کیونکہ اس دوران خاص افراد امام عصر علیہ السلام سے مسلسل رابطے میں تھے جو امام کے خاص نائب کی حیثیت سے مشہور و معروف تھے ۔ لوگ اپنے امور کے سلسلہ میں انہی نوّاب خاص سے رجوع کرتے تھے، انہی کے ذریعہ اپنے خطوط امام زمانہ علیہ السلام کے حضور بھیجا کرتے اور جوابات موصول کرتے تھے اور کبھی انہی حضرات کے توسط سے بعض لوگ امام زمانہ علیہ السلام کی بارگاہ سے بھی شرفیاب ہوتے تھے۔
اگر اس غیبت صغریٰ کے آغاز کو آنجناب کی ولادت یعنی ۲۵۵ ہجری کے وقت سے غیبت کبریٰ یعنی ۳۲۹ ہجری تک شمار کیا جائے تو یہ غیبت صغریٰ ۷۴ سال پر مشتمل ہوگی،
لیکن اگر اس مدت کو آپ کے والد گرامی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت یعنی ۲۶۰ ہجری سے شمار کریں تو یہ غیبت صغریٰ ۶۹ سال پر مشتمل بنتی ہے۔
غیبت کبریٰ
غیبت کبریٰ کا آغاز ۳۲۹ ہجری قمری سے شروع ہوا ہے اور اس کا سلسلہ آنحضرتؑ کے ظہور تک جاری و ساری رہے گا۔ غیبت کے اس عرصے میں نواب خاص کی نیابت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ یہی وہ غیبت ہے جس میں عوام الناس کی سخت آزمائش کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے متعدد روایات کے ذریعہ ان دونوں غیبتوں کی ہمیں خبردی ہے ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"للقائم غيبتان إحداهما طويلة والأخری قصيرة، فالأولی يعلم بمکانه فيها خاصّة من شيعته، والأخری لا يعلم بمکانه فيها إلّا خاصّة مواليه فی دينه
؛
امام قائم کے لیے دو طرح کی غیبت واقع ہوگی جس میں سے ایک طولانی جبکہ دوسری مختصر ہوگی، پہلی غیبت میں ان کے صرف خاص شیعہ ان کے مکان سے آشنا ہوں گے جبکہ دوسری غیبت کے دوران ان کے خاص دوستدارن دینی ہی ان کی جائے قرار سے واقف ہوں گے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اِنّ لِصَاحِبِ هذا الأمر غیبتین: احداهما تَطُولُ حتَّی یقولُ بَعضُهُم: ماتَ، وَ یَقُولُ بَعضُهُم: قُتِلَ، وَیَقُولُ بَعضُهُم: ذَهَبَ حَتَّی لَا یبقیٰ علیٰ أمرِه مِن أَصحابِهِ اِلَّا نَفَرٌ یَسِیرٌ لَا یَطَّلِعُ عَلیٰ مَوضِعِهِ اَحَدٌ مِن وُلدِهِ غَیرِهِ اِلَّا المَولی الَّذِی یَلِی أَمرَهُ
"
"حضرت صاحب الامر کے لیے دو غیبتیں واقع ہوں گی جن میں سے ایک اتنی طولانی ہوگی کہ بعض لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ وہ مرگئے ، بعض کہیں گے کہ وہ قتل ہوگئے بعض کہیں گے وہ آکر چلے گئے ہیں،یہاں تک کہ ان کے اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد باقی بچیں گے، اس دور میں سوائے ان کے مخصوص خدمت گزاروں کے کوئی ان کی قرار گاہ سے واقف نہیں ہوگا۔"
اگرچہ اس سلسلہ میں کافی روایات وارد ہوئی ہیں جنہیں ہم یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
بنابریں روایات اہل بیت علیہم السلام میں دونوں غیبتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
جس طرح غیبت صغری کا ایک خاص وقت معین تھا اسی طرح غیبت کبریٰ کا بھی ایک خاص وقت یقیناً معین ہے لیکن اس غیبت کا سلسلہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور تک جاری رہے گا اس لیے اس کا وقت اور مدت بیان نہیں کی جا سکتی ہے جب امر الٰہی ہوگا یہ غیبت کبریٰ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور امام عصر علیہ السلام کا ظہور ہوجائے گا۔ البتہ احادیث میں اس غیبت کی مدت طولانی کے بارےمیں اتنا ضرور ہے کہ لوگ اس دوران شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں گے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے مرقوم ہے:"ان کی غیبت اتنی طولانی ہوجائے گی کہ جاہل شخص یہ کہنے لگے گا: خدا کو اہل بیت علیہم السلام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔"
اور اس ضمن میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:"نوح نبی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک قائم علیہ السلام سے وقوع پذیر ہوگی اور وہ خصوصیت ان کی عمر طولانی ہے۔"
دوسری فصل : علل و آثار غیبت
شیعہ نقطہ نظر
لوگ حضرت امام منتظر علیہ السلام کی غیبت کے علل و اسباب اور اس کی حکمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آنجنابؑ زمانہ غیبت کبریٰ میں شیعہ و دیگر افراد سے ملاقات کیوں نہیں فرماتے اور دنیا کے مختلف مثبت مسائل میں شرکت کیوں نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ؟
ظاہراً خداوند عالم نے اپنی حکمت و مصلحت کی بنا پر غیبت کی حکمت واقعی و سر اصلی کو اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ہے جیسا کہ اس نے بہت سے امور اپنے بندوں سے مخفی رکھے ہیں۔ مثلاً شب قدر، روز قیامت، جمعہ کے دن جس ساعت میں دعا مستجاب ہوتی ہے، روح کی ماہیت اور حقیقت اور اسی طرح جیسا کہ اس نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت کو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا تھا۔
یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ انسان اپنے محدود فہم و ادراک کی بنا پر خالق کائنات کے امور کی حکمت و فلسفہ کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ خداوند عالم نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اسی نے اس کی تدبیر و گردش کے لیے مخصوص قوانین ابداع کئے ہیں جن میں حکمت بالغہ اور مصلحت واقعی پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے محدود ادراک کے ذریعے اس کی نہایت مختصر سِرّ و فلسفہ ہی کو محسوس کرتا ہے جبکہ اکثر اوقات وہ انہیں سمجھنے سے عاجز و ناتوان رہتا ہے۔
بنابریں علت و اصلی حکمت وہی ارادہ و مشیت الٰہی ہے جس کا اعلان اس نے ان کے وجود سے پہلے کر دیا تھا، جیسا کہ اس نے ہر پیغمبر اور ہر وصی پیغمبر کی ولادت، دوران زندگی اور ان کی طرز زندگی میں خاص ارادہ و مشیت قرار دی تھی، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ایک مخصوص انداز، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا ایک علیحدہ انداز، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے الگ طریقہ کار اور پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے لیے دوسرا انداز اختیار کیا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں قرآن کریم ارشاد فرما رہا ہے:
(
وَيَفْعَلُ اللّهُ مَا يَشَاء
)
"اور خداوند جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔"
(
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
)
"اس سے بازپرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے۔"
(
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ
)
"اللہ تو کسی کو غیبت پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا۔"
غیبت امام عصر علیہ السلام کی علت و سبب فقط تقیہ و خوف ہی پر منحصر نہیں ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی اشکال یا اعتراض پیش آئے بلکہ اس کے کچھ ظاہری اسباب و علل بھی ہیں۔
البتہ روایات و اخبار میں بیان شدہ علل و اسباب میں سے خوف ایک ہے جسے مخالف نے اپنے خیال ناقص میں ایک بڑے اعتراض کی حیثیت سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے باوجود اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ علت غیبت اسی خوف پر منحصر ہے تب بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ بات صرف امور الٰہیہ میں تدبر اور غور و فکر کرنے کی ہے۔
اہل سنت کا نقطہ نظر
کتب اہل سنت میں تلاش و جستجو کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علمائے اہل سنت نے حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی ولادت، قیام اور ان کے ظہور کے بارے میں اپنی اپنی کتب میں متعدد روایات نقل کی ہے لیکن علل و فوائد غیبت کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی روایت بیان کی ہے یا مجھ بندہ حقیر کی دسترسی نہیں ہوسکی ہے۔
غیبت صغریٰ کی حکمت
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ جب امام عصر علیہ السلام کو غائب ہونا ہی ہے اور ان کے لیے غیبت کو لکھ دیا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ امر غیبت ایک ہی دفعہ میں انجام کیوں نہیں پایا، یہ دو غیبتوں کا سلسلہ کیوں رکھا گیا، غیبت کبرا سے قبل غیبت صغریٰ کی کیا ضرورت تھی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر براہ راست اچانک غیبت کبریٰ کا آغاز ہو جاتا تو ممکن تھا کہ اذہان اسے فورا قبول کرنے سے قاصر رہتے اور فکروں کے منحرف ہونے کا قوی امکان تھا۔ اسی لیے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ ہدی علیہم السلام نے مسلسل اپنے بیانات میں آنجناب کی غیبت کی خبر دی ہے اور لوگوں کو اس کے خطرات سے آگاہ بھی کیا ہے اور لوگوں کے لئے آنجناب کی غیبت قبول کرنے کے لیے معصومین علیہم السلام کی جانب سے یہ پہلا قدم تھا۔
اس کے علاوہ امام زمانہ علیہ السلام سے قبل بعض ائمہ خصوصاً امام علی نقی و امام حسن عسکری علیہما السلام لوگوں میں کمتر ظاہر ہوتے تھے جس کے ذریعے وہ گویا لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کی آہستہ آہستہ تعلیم دے رہے تھے۔ مسعودی کتاب "اثبات الوصیۃ" میں رقمطراز ہیں:
"امام ہادی علیہ السلام بہت کمی کے ساتھ لوگوں سے معاشرت کرتے تھے، سوائے اپنے خاص اصحاب کے کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام اکثر اوقات لوگوں سے پس پردہ سے گفتگو کرتے تھے تاکہ شیعہ اپنے آپ کو غیبت امام عصر علیہ السلام کے لیے تیار کرلیں۔"
بات یہ ہے کہ اگر امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد بطور کامل غیبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا تو ممکن تھا کہ لوگ اصلاً امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مبارک سے غافل ہو جاتے اور آہستہ آہستہ انہیں فراموش کردیتے لیکن غیبت صغریٰ میں نواب اربعہ کے ذریعہ امام و عوام میں ارتباط یہاں تک کہ بعض لوگوں اور شیعوں کا آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا مفید ثابت ہوا ہے اور اس طرح عوام خاطر خواہ آپ کی ولادت و حیات سے آگاہ ہوئے ہیں۔
جبکہ اگر غیبت کبریٰ ان مقدمات کے بغیر شروع ہو جاتی تو شاید یہ مسائل زیادہ روشن نہ ہو پاتے اور لوگوں کے شک و تردید میں پڑھنے کا زیادہ امکان تھا، لیکن غیبت صغریٰ کی وجہ سے غیبت کبریٰ کے لیے کافی حدتک ماحول سازگار بنا ہے۔
علل و آثار غیبت بیان کرنے والی روایات کا جائزہ
۱ ۔ حفظ جان
اس سلسلہ میں ظاہراً ۲۶ روایات وارد ہوئی ہیں جن میں سے ۱۹ روایات زرارہؒ نے نقل کی ہیں: (بارہ احادیث امام صادق علیہ السلام سے اور سات احادیث امام باقر علیہ السلام سے) ابو بصیر و عبدالملک بن اعین نے امام باقر علیہ السلام سے ، ابو اسحاق و کمیل نے امیر المومنین علیہ السلام اور ابان نے امام صادق سے روایات نقل کی ہیں۔
زرارہ نے جو روایات حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہیں ان میں سے ۶ روایات کافی میں، تین روایات غیبت نعمانی، چار روایات کمال الدین اور ایک روایت غیبت شیخ طوسیؒ میں مرقوم ہوئی ہیں۔ جبکہ امام باقر علیہ السلام سے نقل کردہ روایات میں سے تین غیبت نعمانی، تین روایات کمال الدین اور ایک روایت علل الشرائع میں آئی ہے۔
ان تمام روایات میں مندرجہ ذیل عبارات وارد ہوئی ہیں:
عبارت"یخاف و أومأ بیده اِلیٰ بطنه
؛ یعنی انھیں خوف ہوگا یہ کہہ کر امام نے اپنے شکم کی طرف اشارہ کیا، یعنی قتل کی طرف اشارہ تھا" پندرہ روایات میں آئی ہے۔
عبارت "یخاف علیٰ نفسه و اَومأ بیده اِلیٰ بطنه
؛ انھیں اپنی جان کا خوف ہوگا یہ کہہ کر اپنے شکم کی طرف اشارہ فرمایا" دو روایات میں آئی ہے۔
عبارت"یخاف علی نفسه الذبح
؛ یعنی انھیں ذبح ہونے کا خوف ہوگا" ایک روایت میں وارد ہوئی ہے۔
عبارت "یخاف و اشار بیده الی بطنه و عنقه
" ایک روایت میں وارد ہوئی ہے۔
کتاب علل الشرائع میں ابان کے توسط سے امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت اس عبارت "یخاف القتل" کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
غیبت نعمانی میں عبد الملک بن اعین کے توسط سے امام باقر علیہ السلام سے ایک روایت اس عبارت"یخاف و اوما بیدہ الی بطنہ" کے ساتھ جبکہ ایک روایت ابو بصیر کے توسط سے حضرت امام باقر علیہ السلام سے اس عبارت "خائف یترقب" کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
ابو اسحاق نے امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی کے توسط سے آنجنابؑ سے تین روایات نقل کی ہیں جن میں سے دو روایات کافی میں جبکہ ایک روایت غیبت نعمانی میں اس عبارت "خائف مغمور" کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔
نیز کمال الدین میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے کمیل بن زیاد کے حوالے سے ایک روایت امیر المومنین علیہ السلام سے اس عبارت "خائف یترتب" کے ساتھ نقل کی ہے۔
۲ ۔ ظالموں کی بیعت سے دوری
اس سلسلہ میں اٹھارہ روایات وارد ہوئی ہیں۔ جن میں ظاہراً بعض تکرار ہیں۔ مثلاً ہشام بن سالم امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: "قَالَ يَقُومُ الْقَائِمُ وَ لَيْسَ لِأَحَدٍ فِي عُنُقِهِ عَهْدٌ وَ لَا عَقْدٌ وَ لَا بَيْعَة
؛جب قائم قیام کریں گے تو نہ ان پر کسی کا کوئی عقد و عہد ہوگا اور نہ ہی ان کی گردن پر کسی کی بیعت ہوگی"۔یہ روایت کافی،
کمال الدین
اور دوبارہ غیبت نعمانی
(ص ۱۷۱ و ۱۹۱) میں نقل کی گئی ہے۔
حضرت شاہ عبد العظیم حسنی امام محمد نقی علیہ السلام سے اس طرح روایت نقل کرتے ہیں:
"إن القائم منا إذا قام لم يكن لأحد في عنقه بيعة
"یہ روایت بھی اعلام الوری
اور کمال الدین
میں وارد ہوئی ہے۔
ابو سعید عقیصا نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ"أما علمتم أنه ما منا أحد إلا و يقع في عنقه بيعة لطاغية زمانه إلا القائم؛
کیا تمہیں علم ہے کہ اہم اہل بیت علیہم السلام میں سے ہر ایک کی گردن میں اپنے زمانے کے طاغوت کے ساتھ مصلحت کا طوق ہوگا سوائے ہمارے قائم کے"۔ یہ روایت بھی اعلام الوریٰ اور کمال الدین میں نقل کی گئی ہے۔
توقیع امام عصر علیہ السلام توسط محمد بن عثمان عمری مندرجہ ذیل عبارت کے مطابق کتاب کمال الدین، اعلام الوری اور غیبت طوسی میں بھی نقل ہوئی ہے:"إنه لم يكن أحد من آبائي إلا وقعت في عنقه بيعة لطاغية زمانه و إني أخرج حين أخرج و لا بيعة لأحد من الطواغيت في عنقي
؛میرے باپ دادا میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے گلے میں اپنے زمانے کے طاغوت کی بیعت کا طوق نہ رہا لیکن جب میں خروج کروں گا تو میری گردن میں کسی کی بیعت کا طوق نہ ہوگا"۔
شیخ نعمانی نے ابراہیم بن عمر الیمانی کے حوالے سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے درجہ ذیل روایت نقل کی ہے:"لا يقوم القائم و لأحد في عنقه بيعة؛
قائم اس حال میں قیام نہ کریں گے کہ ان کی گردن میں کسی کی بیعت کا طوق ہو" اور اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:"يقوم القائم و ليس في عنقه بيعة لأحد
"جب قائم قیام کریں گے تو ان کی گردن میں کسی کی بیعت کا طوق نہ رہے گا۔
علاوہ بر یں کتاب کمال الدین میں مختلف راویوں کے حوالے سے مندرجہ ذیل روایات نقل کی گئی ہیں:"صاحب هذا الأمر تعمى ولادته على هذا الخلق لئلا يكون لأحد في عنقه بيعة إذا خرج "و "
صاحب هذا الأمر تغيب ولادته عن هذا الخلق كي لا يكون لأحد في عنقه بيعة إذا خرج و يصلح الله عز و جل أمره في ليلة واحدة
"یہ دونوں روایات ابو بصیر کے توسط سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہیں۔
"حين يخرج و ليس لأحد في عنقه بيعة
"سعیدابن جبیر کے توسط سے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے۔
"يبعث القائم و ليس في عنقه بيعة لأحد
"جمیل ابن صالح کے ذریعے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے۔
"لئلا يكون لأحد في عنقه بيعة إذا قام بالسيف
"علی بن فضال نے اپنے والد کے ذریعے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔
یہ تمام روایات سات ائمہ طاہرین (امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام رضاؑ، امام محمدتقیؑ اور امام عصرؑ) سے نقل کی گئی ہیں جن میں سے ایک روایت کتاب اصول کافی، چار روایات شیخ نعمانی کی کتاب "الغیبۃ"، نو روایات شیخ صدوقؒ کی کتاب "کمال الدین" تین روایات کتاب اعلام الوری اور ایک روایت شیخ طوسی کی کتاب "الغیبۃ" میں نقل کی گئی ہے۔
۳ ۔ لوگوں کی کوتاہی و عدم نصرت امام ؑ
متعدد روایات میں مختلف عناوین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں لوگوں کی کوتاہی اور ان کی جانب سے امام کی عدم نصرت کو پیش کیا ہے مثلاً امام ظالموں کی ہمراہی سے دور رہیں گے۔
۴ ۔ سنن الٰہی کا اجرا
اس سلسلہ میں ظاہراً دس روایات وارد ہوئی ہیں جو چارائمہ طاہرین (امام سجاد، امام باقر، امام صادق اور امام حسن عسکری علیہم السلام) سے منقول ہیں۔
ان مذکورہ روایات میں سے چھ ابو بصیر نے نقل کی ہیں جن میں سے انہوں نے پانچ روایات امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں جن میں سے دو روایات غیبت طوسی، ایک روایت غیبت نعمانی اور دو روایات کتاب کمال الدین میں اس عبارت "فی صاحب هذا الامر اربع سنن من اربعه انبیاء
" کے ساتھ نقل ہوئی ہے جبکہ ایک روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کتاب کمال الدین میں اس عبارت "انّ فی صاحب هذا الامر سنن من الانبیاء
" کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔
دو روایات سدیر کے حوالے سے امام صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوئی ہیں:"یجری فیه سنن الانبیاء فی غیباتهم
" ان میں سے ایک روایت علل الشرائع اور ایک کمال الدین میں وارد ہوئی ہے۔
ایک روایت سعید بن جبیر کے توسط سے امام سجاد علیہ السلام سے کمال الدین نے اس طرح نقل کی ہے: "فی القائم منّا سنن من الانبیاء
"
نیز ایک روایت کتاب کمال الدین میں حسن بن محمد بن صالح البزاز کے حوالے سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے اس طرح نقل کی گئی ہے : "یجری فیه سنن الانبیاء بالتعمیر و الغیبه
"
۵ ۔ امتحان
جن روایا ت میں مادہ "امتحان" استعمال ہوا ہے ظاہراً تیرہ روایات ہیں جو تین معصومین(پیغمبر اسلام، امام صادق اور امام کاظم علیہم السلام) سے نقل کی گئی ہیں۔
ان میں سے زرارہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے تین مضامین پر مشتمل چھ روایات نقل کی ہیں:
"أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُّ أَنْ يَمْتَحِنَ الشِّيعَةَ
" یہ روایت چار کتب کافی، کمال الدین، اعلام الوری اور غیبت طوسی میں آئی ہیں۔
"أن الله يحب أن يمتحن قلوب الشيعة
" یہ روایت غیبت نعمانی میں آئی ہے۔
"لأن الله عز و جل يحب أن يمتحن خلقه
" یہ روایت کمال الدین میں وارد ہوئی ہے۔
نیز چھ روایات علی بن جعفر علیہ السلام کے حوالے سے دو مضامین کے تحت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے نقل کی گئی ہیں:
"إنما هي محنة من الله يمتحن الله بها خلقه
" یہ روایت فقط غیبت نعمانی میں نقل کی گئی ہیں۔
"إِنَّمَا هِيَ مِحْنَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ امْتَحَنَ بِهَا خَلْقَهُ
" یہ روایت چار کتب کافی، علل الشرائع، کمال الدین اور غیبت طوسی میں دوبار نقل ہوئی ہیں۔
جبکہ کتاب کمال الدین میں ایک روایت زرارہ کے حوالے سے پیغمبر گرامی قدر سے بھی نقل کی گئی ہے۔
۶ ۔ تمییز و تمحیص
وہ روایات جن میں مادہ "امتحان" استعمال ہوا ہے ان کے علاوہ کچھ روایات ایسی بھی ہیں جن میں تمییز و تمحیص کے عنوان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جنہیں امتحان ہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
شیخ نعمانی نے اپنی تالیف کردہ کتاب "الغیبۃ" کے بارہویں باب میں اس سلسلہ میں متعدد روایات کو جمع کیا ہے اور اس باب کا یہ عنوان قرار دیا ہے: "باب ما يلحق الشيعة من التمحيص و التفرق و التشتت عند الغيبة حتى لا يبقى على حقيقة الأمر إلا الأقل الذي وصفه الأئمة
؛یعنی اس بیان میں کہ زمانہ غیبت میں شیعوں کو شدید آزمائش و پراکندگی اور اختلاف کا سامنا ہوگا یہاں تک کہ ان کی قلیل تعداد جن کی ائمہ نے توصیف کی ہے وہ ہی حق پر باقی رہ جائیں گے۔"
انہوں نے یہ روایات پانچ ائمہ معصومین (امام علی، امام حسین ، امام باقر، امام صادق اور امام رضا علیہم السلام) سے مندرجہ ذیل مختلف عبارات کے تحت نقل کی ہیں:
۱ ۔ امام علی علیہ السلام
مالک بن ضمرہ: "يا مالك بن ضمرة كيف أنت إذا اختلفت الشيعة هكذا
"
اصبغ بن نباتہ: "كذلك أنتم تميزون حتى لا يبقى منكم إلا عصابة
"
۲ ۔ امام حسین علیہ السلام:
عمیرہ بنت نفیل:"لا يكون الأمر الذي تنتظرونه حتى يبرأ بعضكم من بعض و يتفل بعضكم في وجوه بعض و يشهد بعضكم على بعض بالكفر و يلعن بعضكم بعضا فقلت له ما في ذلك الزمان من خير فقال الحسين ع الخير كله في ذلك الزمان يقوم قائمنا و يدفع ذلك كله
"
۳ ۔ امام باقر علیہ السلام :
سلیمان بن صالح: مرفوعاً نقل کرتے ہیں : "إنه لا بد من أن تكون فتنة يسقط فيها كل بطانة و وليجة حتى يسقط فيها من يشق الشعرة بشعرتين حتى لا يبقى إلانحن و شيعتنا
"
ابوبصیر: انہوں نے درجہ ذیل دو روایات نقل کی ہیں:
"و الله لتميزن و الله لتمحصن و الله لتغربلن كما يغربل الزؤان من القمح
"
"كذلك شيعتنا يميزون و يمحصون حتى تبقى منهم عصابة لا تضرها الفتنة
"
ابراہیم بن عمیر الیمانی ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: "لتمحصن يا شيعة آل محمد تمحيص الكحل في العين
"
منصور الصیقل:"لا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم حتى تمحصوا هيهات و لا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم حتى تميزوا و لا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم حتى تغربلوا و لا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم إلا بعد إياس و لا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم حتى يشقى من شقي و يسعد من سعد
."
فصل بن ابی قرہ التفلیسی: " المؤمنون يبتلون ثم يميزهم الله عنده
"
۴ ۔ امام صادق علیہ السلام:
علی بن رباب: "و الذيبعثه بالحق لتبلبلن بلبلة و لتغربلن غربلة حتى يعود أسفلكم أعلاكم و أعلاكم أسفلكم
"
عبد اللہ ابن حماد انصاری، ایک شخص سے نقل کرتے ہیں:"فكيف أصنع بهذه الشيعة المختلفة الذين يقولون إنهم يتشيعون فقال فيهم التمييز و فيهم التمحيص و فيهم التبديل يأتي عليهم سنون تفنيهم و سيف يقتلهم و اختلاف يبددهم
"
مہزم بن ابی بردہ اسدی: انہوں نے دو روایات نقل کی ہیں:
"فقلت فكيف أصنع بهذه الشيعة المختلفة الذين يقولون إنهم يتشيعون فقال فيهم التمييز و فيهم التمحيص و فيهم التبديل
."
"و الله لتغربلن و و الله لتميزن و و الله لتمحصن حتى لا يبقى منكم إلا الأقل و صعر كفه
."
ابوبصیر: "لا بد للناس من أن يمحصوا و يميزوا و يغربلوا و سيخرج من الغربال خلق كثير
."
عبد اللہ ابن یعفور:"لا بد للناس من أن يمحصوا و يميزوا و يغربلوا و يخرج من الغربال خلق كثیر."
عبد اللہ بن جبلہ: بعض افراد سے نقل کرتے ہیں: "لا يكون ذلك الأمر حتى يتفل بعضكم في وجوه بعض و حتى يلعن بعضكم بعضا و حتى يسمي بعضكم بعضا كذابين
."
علی بن حمزہ: "لو قد قام القائم ع لأنكره الناس لأنه يرجع إليهم شابا موفقا لا يثبت عليه إلا مؤمن قد أخذ الله ميثاقه في الذر الأول
."
۵ ۔ امام رضا علیہ السلام:
معمر بن خلاد: "يفتنون كما يفتن الذهب ثم قال يخلصون كما يخلص الذهب
"
ابراہیم بن ہلال:" أما و الله يا أبا إسحاق ما يكون ذلك حتى تميزوا و تمحصوا و حتى لا يبقى منكم إلا الأقل ثم صعر كفه
"
صفوان بن یحیی: "و الله لا يكون ما تمدون إليه أعينكم حتى تمحصوا و تميزوا و حتى لا يبقى منكم إلا الأندر فالأندر
"
نیز اصول کافی میں علی بن جعفر کے توسط سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے یہ روایت نقل ہوئی ہے: "لَا بُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ مِنْ غَيْبَةٍ حَتَّى يَرْجِعَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ مَنْ كَانَ يَقُولُ بِه
."
مفضل بن عمر کے توسط سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وارد ہوئی ہے:"أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِيبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِيناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّى يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَك.
"
محمد بن ابی عمیر نے ایک شخص کے توسط سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے: "كذلك القائم ع لن يظهر أبدا حتى تخرج ودائع الله تعالى فإذا خرجت ظهر على من ظهر من أعداء الله فقتلهم
"یہ روایت ابراہیم کرخی کے وسیلہ سے علل الشرائع اور کمال الدین میں بھی نقل ہوئی ہے۔
کتاب اعلام الوری میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ذریعہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے یہ روایت نقل ہوئی ہے:"يمحص الله الذين آمنوا و يمحق الكافرين
."
۷ ۔ سر الٰہی
اس سلسلہ میں مجموعی طور پر پانچ روایات نقل کی گئی ہیں جن میں سے دو روایات کتاب علل الشرائع اور کمال الدین میں مشترک ہیں لہذا یہ صرف چار روایات ہیں۔
ان روایات میں سے جابر بن عبد اللہ انصاری و ابن عباس کے توسط سے پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل کردہ روایت میں علت غیبت کی طرف اشارہ نہیں ہے ملاحظہ فرمائےم:"هذا من مكنون سر الله و مخزون علمه فاكتمه إلا عن أهله
"یہ اسرار الٰہی میں سے ہے، کسی کو اس کے بارے میں خبر نہ دینا۔۔۔"
نیز احمد بن اسحاق کی امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کردہ روایت جس میں آپ نے یہ فرمایا: "سر من سراللہ"اس میں علت غیبت کے بارے میں اشارہ نہیں ہے بلکہ یہ روایت اصل غیبت اور اس کے طولانی ہونے کی خبر دے رہی ہے۔
فقط فضل ہاشمی کی روایت میں علتِ غیبت کی تصریح کی گئی ہے کہ جسے بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
عبد اللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں: "میں نے حضرت صادق علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: صاحب الامر کے لیے یقیناً غیبت واقع ہوگی اور ان کے زمانہ غیبت میں ہر اہل باطل شک و تردید میں گرفتار ہو جائے گا۔ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہوجائے۔ مولا! آخر وہ اس طرح کیوں غائب ہو جائیں گے؟
فرمایا: ان کی غیبت میں بھی وہی حکمت مضمر ہے جو ان سے قبل حجج الٰہی کی غیبتوں میں تھی۔ ان کی غیبت کی حکمت ان کے ظہور کے بعد ظاہر ہوگی جس حضرت موسیٰ علیہ السلام پر حضرت خضر علیہ السلام کے انجام دادہ امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے اور لڑکے کو مارنے کی حکمت تا وقت مفارقت ظاہر نہ ہوئی۔
اے پسر فضل یہ اللہ کے معاملوں میں سے ایک معاملہ ہے، اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور اللہ کے غیب میں سے ایک غیب ہے اور جب ہم لوگوں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے تو اس کا بھی یقین کرلیا ہے کہ اس کے تمام افعال سراسر حکمت ہیں اگرچہ اس کی وجہ ہم لوگوں پر منکشف نہ ہوئی ہو۔
تذکر:
مذکورہ روایات میں سے صرف فضل ہاشمی کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمیں علت غیبت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا اس روایت کی رجالی جانچ پڑتال کرنا مناسب ہے۔
رجالی جانچ پڑتال
اس روایت کے سلسلہ رجال میں موجود افراد کی فرداً فرداً جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوتا ہے
کہ عبد الواحدبن محمد بن عبدوس مجہول الحال
ہے، علی بن قتیبہ
کی توثیق نہیں کی گئی ہے، حمدان بن سلیمان
ثقہ ہے، احمدبن عبد اللہ مہمل
اور عبد اللہ بن فضل ہاشمی ثقہ ہیں۔
پس اولاً اس روایت کی سند مخدوش ہے ؛ ثانیاً اس میں چند احتمال پائے جاتے ہیں:
۱ ۔ گذشتہ روایات میں بیان کردہ علل وہی ہیں جن کو بیان کرنے کی فضل ہاشمی کو ممانعت کی ہے، بنابریں اس روایت اور گذشتہ روایات میں آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
۲ ۔ اگر احتمال اول کو قبول نہ کیا جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ روایت فضل ہاشمی تنہا ایک روایت ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں متعدد روایات ہیں لہذا انہیں تعارض کی بنا پر روایت فضل ہاشمی سے دستبردار ہوتے ہوئے اس کے علم کو اس کے اہل علم پر چھوڑ دیں گے۔
۳ ۔ اگر فضل ہاشمی کے فضل و ثقہ ہونے کی بنا پر ان کی روایت کو معتبر تسلیم کرلیا جائے تو کہا جائے گا کہ اصل علت پوشیدہ ہے جو ظہور امام کے بعد ظاہر ہوگی اور دیگر روایات میں بیان کردہ وجوہات یا علتِ ناقصہ ہیں یا حکمت ہیں۔
علل و آثار غیبت
جیسا کہ امام زمانہ علیہ السلام کا وجود مبارک علت و آثار سے خالی نہیں ہے۔ ان کی غیبت اور اس مدت کا طولانی ہونا بھی علت سے خالی نہیں ہے۔
معصومین علیہم السلام سے منقولہ روایات کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں غیبت کے متعدد آثار و علل بیان کئے گئے ہیں جنہیں ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
بعض روایات میں غیبت کی علتوں کے علاوہ کچھ آثار بھی بیان کئے گئے ہیں لہذا ممکن ہے کوئی علت و آثار میں خلط کرتے ہوئے اشتباہ سے دوچار ہو جائے اور تمام امور کو علت یا آثار شمار کرنے لگے۔ بنابریں علت و اثر میں فرق بیان کرنے کے بعد غیبت کی علتیں اور آثار بیان کریں گے۔
علت و اثر میں فرق
معمولاً علت اسی چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ دوسری چیز وجود میں آتی ہے اور یہ اپنے معمول سے مقدم بھی ہوتی ہے جبکہ آثار اس شئ کے وجود میں آنے کے بعد مترتب ہوتے ہیں ۔
امر غیبت بھی ظاہراً اس صورت حال سے خالی نہیں ہے؛ بعض ایسے امور ہیں جو غیبت سے پہلے بھی موجود تھے اور یہی امور باعث بنے ہیں اور جب غیبت واقع ہوگئی تو اس کے کچھ آثار مترتب ہوئے ہیں۔
(الف) علل غیبت
۱ ۔ خوف قتل(حفظ جان)
کتب احادیث میں موجود روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعدد منقول روایات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ امام عصر علیہ السلام کی غیبت کی وجہ یہ ہے کہ انہیں مسلسل قتل ہوجانے کا خطرہ لاحق تھا؛ کیونکہ بنی عباس کے ظالم و ستمگر حکمرانوں نے انہیں قتل کرنے اور نابود کرنے کےلیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، خصوصاً جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ یہی وہ حضرت ہیں جو ظالم حکمرانوں کے تخت و تاج کو روند ڈالیں گے اور ظالموں کو نابود کر کے خدا کے بندوں کو ان کے خونی پنجوں سے نجات دیں گے۔
جب ہم ائمہ اطہار علیہم السلام کے تاریخ حیات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی طبیعی موت اس دنیا سے رخصت نہیں ہوا ہے بلکہ اس امت کے طاغوتوں نے انہیں شہید کیا ہے، جبکہ ان حضرات کے بارے میں ایسی روایات بھی وارد نہیں ہوئی تھیں جیسی حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً ان میں کسی بھی ایک کے بارے میں یہاں تک کہ ایک حدیث بھی ایسی وارد نہیں ہوئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ فلاں امام زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، پوری دنیا پر حکومت الٰہیہ نافذ کردے گا اور کامیابی و کامر انی کے تمام وسائل اس کے لیے فراہم ہو جائیں گے ۔جبکہ حضرت مہدی علیہ السلام کے لیے یہ تمام پیش گوئیاں موجود ہیں۔ لہذا ان تمام خصوصیات کے بعد ظالم و جابر حکومتوں کے لیے جو شخصیت سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آنے والی تھی اس کے لیے ان حکومتوں کی اس کے علاوہ اور کیا کوششیں ہو سکتی ہیں کہ وہ ہر لمحہ اسے نابود کرنے کی فکر کرتی رہیں۔
شیخ طوسیؒ اپنی کتاب "الغیبۃ" میں فقط خوف قتل کو آنجناب کی غیبت کی علت شمار کرتے ہیں۔
روایات:
۱ ۔ زرارہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"إنّ للقائم غيبة قبل أن يقومَ أنّه يخاف و أومأ بيده إلی بطنه يعنی القتل
"
یاد رکھو! قائم کے قیام سے قبل ان کے لیے غیبت واقع ہوگی کیونکہ انہیں خوف ہوگا۔ یہ کہہ کر آنجنابؑ نے اپنا ہاتھ اپنے بطن مبارک پر پھیرا یعنی وہ قتل کی طرف اشارہ فرمارہے تھے۔
۲ ۔ کتاب غیبت طوسیؒ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
"إنّ للقائم غيبة قبل ظهوره قلتُ لمَ؟ قال: يخافُ القتل
"
قائم کے لیے ظہور سے قبل غیبت واقع ہوگی ۔ میں نے عرض کیا: کیوں مولیٰ؟ فرمایا: قتل کے خوف سے۔
۳ ۔ حضور سرورکائناتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:"لابدّ للغلام من غيبة. فقيل له: ولم يا رسولالله؟ قال: يخاف القتل
؛
اس فرزند کے لیے غیبت یقینی ہے ، عرض کیا گیا : کیوں یارسول اللہ؟فرمایا: خوف قتل کی وجہ سے۔
۴ ۔ ایک اور حدیث شریف میں زرارہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:"إِنَّ لِلْغُلَامِ غَيْبَةً قَبْلَ أَنْ يَقُومَ قَالَ قُلْتُ وَ لِمَ قَالَ يَخَافُ وَ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى بَطْنِهِ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ وَ هُوَ الْمُنْتَظَرُ وَ هُوَ الَّذِي يُشَكُّ فِي وِلَادَتِهِ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَاتَ أَبُوهُ بِلَا خَلَفٍ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ حَمْلٌ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ إِنَّهُ وُلِدَ قَبْلَ مَوْتِ أَبِيهِ بِسَنَتَيْنِ وَ هُوَ الْمُنْتَظَرُ غَيْرَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُّ أَنْ يَمْتَحِنَ الشِّيعَةَ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَرْتَابُ الْمُبْطِلُون
"
اس فرزند کے لیے اس کے قیام سے قبل غیبت واقع ہوگی۔ میں نے عرض کیا: کیوں مولیٰ؟ فرمایا: اسے خوف ہوگا ، یہ کہہ کر آنجناب نے شکم مبارک کی طرف اشارہ کیا: پھر فرمایا: اے زرارہ! وہی منتظر ہے، وہ وہی ہے جس کی ولادت میں لوگ شک کریں گے۔ کچھ کہیں گے کہ ان کے والد ناخلف دنیا سے چلے گئے، بعض کہیں گے جب وہ اپنی والدہ کے شکم میں تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ بعض کہیں گے کہ وہ اپنے والد کے انتقال سے دو سال قبل پیدا ہوگئے تھے۔ پس خداوند عالم اس طرح شیعوں کا امتحان لینا چاہتا ہے پس یہی وہ زمانہ ہوگا جس میں اہل باطل کے شکوک و شبہات سراٹھائیں گے۔
۵ ۔اصول کافی میں امیر المومنین علیہ السلام کے ایک خطبہ کے ضمن میں یہ عبارت مرقوم ہے:"اور اے پروردگار تو زمین کو کبھی بھی اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑتا ، چاہے وہ ظاہر اور اس کی اطاعت کی جائے، چاہے وہ حجت گمنام و ترساں ہو۔ تاکہ تیری حجت باطل نہ ہونے پائے اور اہل ایمان ہدایت کے بعد گمراہ نہ ہونے پائیں۔"
۶ ۔ شیخ صدوق علیہ الرحمۃ نقل کرتے ہیں:حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سوال کیا گیا: "يا ابن رسول الله أنت القائم بالحق فقال أنا القائم بالحق و لكن القائم الذي يطهر الأرض من أعداء الله عز و جل و يملؤها عدلا كما ملئت جورا و ظلما هو الخامس من ولدي له غيبة يطول أمدها خوفا على نفسه
"
اے فرزند رسول! کیا آپ ہی قائم بالحق ہیں؟ آپ نےفرمایا: میں ضرور قائم بالحق ہوں لیکن وہ قائم جو زمین کو خدا کے دشمنوں سےپاک کرے گا اور عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ وہ میری اولاد میں سے پانچواں ہے ا س کے لیے طویل غیبت ہے کیونکہ اسے اپنی جان کا خوف ہے۔ اس عرصے میں قومیں مرتد ہو جائیں گی اور کچھ لوگ دین پر ثابت قدم رہیں گے۔
۷ ۔ کتاب کمال الدین میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:"في القائم منا سنن من الأنبياء سنة من أبينا آدم ع و سنة من نوح و سنة من إبراهيم و سنة من موسى و سنة من عيسى و سنة من أيوب و سنة من محمد ص فأما من آدم و نوح فطول العمر و أما من إبراهيم فخفاء الولادة و اعتزال الناس و أما من موسى فالخوف و الغيبة و أما من عيسى فاختلاف الناس فيه و أما من أيوب فالفرج بعد البلوى و أما من محمد ص فالخروج بالسيف
"
ہمارے قائم کے لیے انبیاء علیہم السلام کی سنتوں میں سے حضرت آدم علیہ السلام کی سنت، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سنت پائی جاتی ہے۔ حضرت آدم و نوح علیہما السلام کی سنت طویل عمر، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ولادت کا مخفی اور پوشیدہ ہونا، خدا کے دین کی حمایت میں لوگوں سے الگ تھلگ رہنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت خوف اور غیبت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سنت یہ کہ لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا، حضرت ایوب علیہ السلام کی سنت یہ کہ بلاؤں اور مصیبتوں کے بعد کشادگی نصیب ہوئی اور حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سنت خروج بالسیف ہے۔"
چند شبہات کے جوابات
اگرچہ متعدد روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امام عصر علیہ السلام کی غیبت کی ایک اہم علت جانی خوف اور قتل ہوجانے کا خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں اس سلسلہ میں مختلف سوالات سراٹھاتے ہیں اور مغرض دشمن موقع سے فائدہ اٹھا کر سادہ لوح افراد کے سامنے بے بنیاد شبہات ایجاد کر کے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا اسی نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں چند شبہات اور ان کے جوابات پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ ذہن دشمنوں کے پروپگنڈہ کی وجہ سے منحرف نہ ہونے پائیں۔
پہلا شبہ:
اگر حضرت مہدی علیہ السلام کی غیبت کا سبب دشمنوں سے خوف ہے تو اس بات کو نہ عقل قبول کر سکتی ہے اور نہ ہی کتب و روایات اس کی وضاحت کرتی ہیں؛ کیونکہ آنجنابؑ جانتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے تک زندہ سلامت رہیں گے اور کوئی انہیں قتل نہ کرسکے گا۔ اسی طرح انہیں اس بات کا بھی علم و یقین ہے کہ وہ زمین کے حاکم و مالک بن جائیں گےاور اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ بنابریں بھلا وہ دشمنوں سے کیسے ڈر سکتے ہیں اور ڈر بھی اتنا جو انہیں غیبت پر مجبور کر دے؟!
جواب:
اس شبہ کے جواب میں ہم یہاں نقضی جواب پیش کر رہے ہیں اور وہ یہی ہے کہ جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
یہ جانتے تھے کہ خداوند عالم سارے ادیان پر ان کے دین کو غلبہ عطا کرے گا تو وہ مشرکین سے کیوں خائف تھے؟ اور مدینہ ہجرت کے دوران انہوں شارع عام کو چھوڑ کر غیر معمولی راستہ کیوں اختیار کیا؟ اس کے علاوہ پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ما قبل انبیاءِ علیہم السلام گذشتہ میں بھی یہ دشمن سے خوف دیکھنے میں آتا ہے ۔ قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
(
فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا
)
اور موسیٰ جب صبح کے وقت شہر میں داخل ہوئے تو خوف کی حالت میں داخل ہوئے۔
(
فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
)
تو موسیٰ شہر سے باہر نکلے خوفزدہ اور دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اور کہا کہ پروردگار مجھے ظالم قوم سے محفوظ رکھنا۔
اورسورہ شعراء میں ارشاد فرماتا ہے:
(
فَفَررتُ مِنکم لَمَّا خِفتُکُم
)
؛پھر میں نے تم لوگوں کے خوف سے گریز اختیار کیا
"
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا کہ جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ بنی اسرائیل کی فرعون و آل فرعون کے ظلم سے نجات پانے تک زندہ و پائندہ رہیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ بہت جلد فراعنہ کے تخت و تاج کا خاتمہ کردیں گے۔
پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مشرکین سے خوف کے بارے میں آپ کا جو بھی جواب ہوگا حضرت مہدی علیہ السلام کی غیبت کی علت کے بارے میں ہمارا وہی جواب ہوگا۔
دوسرا شبہ:
اگر حضرت مہدی علیہ السلام قتل اور دشمنوں کی جانب سے ایذار سانی کے خوف کی وجہ سے غیبت پر مجبور ہوئے ہیں تو پھر ایسی صورت میں انہیں شجاع تسلیم کرنا صحیح نہیں ہے اور عدم شجاعت ان کے لیے ایک عیب و نقص ہے۔ جبکہ امام معاشرے کا شجاع ترین فرد ہوتا ہے لہذا انہیں خائف ہونے کے بجائے طاغوتی طاقتوں کو ان سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔
اس سے قطع نظر قتل ہوجانے کا ڈر خوف اس بات کا سبب نہیں بن سکتا کہ آنجنابؑ قیام نہ کریں۔ ایک اہم واجب شرعی کو ادا کرنے کے لیے اذیتیں اور سختیاں برداشت نہ کریں، اور نجات بشریت کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کریں۔
جواب:
اس شبہہ کے دو جواب دئیے جا سکتے ہیں:
۱ ۔ نقضی جواب:
پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
جس وقت مدینہ ہجرت فرمارہے تھے اور غار میں پناہ لی تھی کیا اس وقت (نعوذ باللہ) پیغمبر ڈر رہے تھے؟
جس وقت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
تین سال تک شعب ابو طالب ؑ میں نہایت سختیوں کا سامنا کر رہے تھے اور انہیں وہاں سخت دباؤ، بھوک و خوف کا سامنا تھا، کیا اس وقت آنحضرت فضلیت شجاعت سے عاری تھے؟!
جس وقت حضور سرور کائنات لوگوں کو مخفیانہ خداوند عالم کی طرف دعوت دے رہے تھے اور زید ابن ارقم کے گھر میں خود اور آنحضرت کے ساتھی چھپ کر عبادت خدا انجام دے رہے تھے یہاں تک کہ خداوند عالم کی طرف سے علی الاعلان تبلیغ کا حکم صادر ہو گیا۔ ان تمام حالات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ان سوالات کے بارے میں جو بھی آپ کا جواب ہے وہ ہی اس شبہہ کے بارے میں ہمارے بھی جوابات ہوں گے۔
۲ ۔ جواب حَلّی:
بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں آیات قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعونیوں کے خوف سے فرار کرنا یا پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غار ثور میں چھپنا اور شعب ابی طالب ؑ میں تین سال تک پنہاں و مخفی رہنا، یہ ان کے ضعف کی علامت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں تبلیغ رسالت کی صلاحیت و لیاقت نہیں پائی جاتی تھی بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ دستورات آسمانی اور مشیت الٰہی اس بات کا اقتضاء کررہی تھی کہ قیام و خروج کے لیے ماحول سازگار ہونے تک اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ و مخفی زندگی گزاری جائے۔
تیسرا شبہ:
جب حضرت مہدی علیہ السلام حکم خداوندعالم سے مخفی ہوئے ہیں اور اسی کے حکم سے ظہور فرمائیں گے تو کیا یہ اتنی طولانی غیبت اس بات کی علامت نہیں ہے کہ خداوندعالم ان کی مدد و نصرت کرنے سے عاجز ہے؟
جواب:
اس شبہہ کے جواب میں ہم قرآن کریم کی وہ آیات پیش کریں گے جن میں انبیاء علیہم السلام کے قتل ہوجانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کیا خداوند عالم دشمنوں کے مقالبے میں اپنے ان انبیاء علیہم السلام کی مدد کرنے سے عاجز و ناتواں تھا؟ مثلاً
۱ ۔(
قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاء اللّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
)
آپ ان سے کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو اس سے پہلے انبیاء خدا کو قتل کیوں کرتے تھے۔
۲ ۔(
بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ
)
یہ سب اس لیے ہوا کہ یہ لوگ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء خدا علیہم السلام کو قتل کر دیا کرتے تھے۔
۳ ۔(
سَنَكْتُبُ مَا قَالُواْ وَقَتْلَهُمُ الأَنبِيَاء بِغَيْرِ حَقٍّ
)
ہم ان کی اس مہمل بات کو اور ان کے انبیاء کے ناحق قتل کرنے کو لکھ رہے ہیں۔
۴ ۔(
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَيَقْتُلُونَ الأَنبِيَاء بِغَيْرِ حَقٍّ
)
یہ اس لیے کہ یہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کا قتل کرتے تھے۔
۵ ۔(
وَاَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلاً كُلَّمَا جَاءهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَي اَنْفُسُهُمْ فَرِيقاً كَذَّبُواْ وَفَرِيقاً يَقْتُلُونَ
)
"اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ہیں لیکن جب ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہش کے برخلاف حکم لے کر آیا تو انہوں نے ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کر دیتے ہیں۔"
۶ ۔(
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بَآيَاتِ اللهِ وَقَتْلِهِمُ الاَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقًّ
)
"پس ان کے عہد کو توڑ دینے ، آیات خدا کے انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کر دینے اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارے دلوں پر فطرتاً غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدا نے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے"
۷ ۔(
قُلْ قَدْ جَاءكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِى بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
)
"تو ان سے کہہ دیجئے کہ مجھ سے پہلے بہت سے رسول معجزات اور تمہاری فرمائش کے مطابق صداقت کی نشانی لے آئے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کر دیا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔"
امام حسین علیہ السلام نے عبد اللہ بن عمر سے فرمایا:
اے ابو عبد الرحمن! کیا خدا کے نزدیک دنیا کے بے ارزش ہونے کی علامات میں سے ایک یہ نہیں ہے کہ نبی یحیی بن زکریا کے سر کو بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ کو ہدیہ کے طور پر پیش کر دیا گیا؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ بنی اسرائیل نے طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ستر انبیاء خدا کو قتل کر دیا تھا؟ اور پھر اس کے باوجود وہ خرید و فروش میں اس طرح مشغول ہوگئےجیسے انہوں نے کوئی عمل ہی انجام نہ دیا ہو!!
ان تمام حالات کے بعد کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند عالم اپنے انبیاء علیہم السلام کی مدد سے عاجز و ناتواں تھا؟ پروردگار عالم نے اپنے جن انبیاء علیہم السلام کو امتوں کی طرف ہدایت کے لیے بھیجا وہ یقیناً خدا کے نزدیک بہترین خلائق تھے۔ جب ایسا ہے تو خدائے قادر و مختار نے ان کی مدد کیوں نہیں کی؟ کیا وہ ان کی مدد پر قادر نہیں تھا۔
آپ اس سلسلہ میں جو بھی جواب دینا چاہیں گے ہمارا بھی اس شبہہ کے سلسلہ میں وہی جواب ہوگا۔
چوتھا شبہ:
اگر حضرت مہدی علیہ السلام دشمنوں کے خوف کی وجہ سے غائب ہوئے تو غیبت دشمنوں سے نجات کا تنہا ایک ہی راستہ تو نہیں ہے، یہ بھی تو ممکن تھا کہ آنجنابؑ پردہ غیبت میں نہ جاتے بلکہ ظاہر رہتے اور طاغوت کے خلاف قیام نہ کرتے اور دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرح لوگوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہتے اور اگر وہ اسی روش پر عمل کرتے تو انہیں غائب ہونے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔
جواب:
اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ:
اولاً؛ غیبت کی علت فقط خوف پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی چند دیگر وجوہات بھی ہیں جن کی بنا پر غیبت ہی کو ترجیح دی جاسکتی تھی نہ کہ سکوت کو ۔
ثانیاً؛ غیبت، ترس و خوف سے نجات کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے بھی اسی راہ کا انتخاب فرمایا تھا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ تقیہ و حفظ جان کے لیے غیبت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔
اس اشکال کا مطلب یہ ہے کہ گویا یوں کہا جائے: حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی جان کے تحفظ کے لیے اپنے شہر بلکہ ملک فرعون ہی سے کیوں فرار ہوگئے جبکہ وہ اسی شہر میں کسی بھی ایک بنی اسرائیل کے گھر میں مخفی ہوجاتے۔
ثالثاً؛ حضرت مہدی علیہ السلام کی کیفیت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی جیسی ہے یعنی اگر وہ ساکت و وصامت بھی رہتے جب بھی فرعون اور اس کے ساتھی ان سے دستبردار نہ ہوتے کیونکہ جس شخص سے وہ لوگ برسوں سے خوفزدہ تھے کہ وہ ان کے تخت و تاج اور حکومت کا خاتمہ کر دے گا وہ موسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ لہذا وہ ان کا تعقب کرتے رہتے اور کسی نہ کسی حیلہ و مکر کے ذریعہ انہیں قتل کر دیتے اور خدائے تعالٰ انہیں قتل ہونے سے بچائے بھی رکھتا تو کم از کم انہیں شدید اذیتیں پہنچاتے اور مسلسل شکنجہ کرتے رہتے۔
حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے انتی کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں کہ جو لوگ ان کی خصوصیات سے جاہل تھے مسلسل قائم آل محمد علیہم السلام کاانتظار کر رہے تھے، اور ائمہ میں سے ہر ایک سے یہ سوال کرتے رہتے تھے کہ کیا قائم آل محمد علیہم السلام آپ ہی ہیں؟
بنی عباس خاص طور پر آنجناب کی خصوصیات سے باخبر تھے جیسا کہ خلیفہ عباسی منصور کا یہ جملہ نقل ہوا ہے : یقیناً آل ابو طالب میں سے ایک شخص کو آسمان سے ندا دی جائے گی اور جب وہ ظہور کر ے تو ہماری آرزو یہ ہے کہ ہم اس کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے قرار پائیں۔
اس نے لوگوں پر اس امر کو مشتبہ کر نے کے لیے اپنے بیٹے کا نام مہدی رکھا تھا اور کہتا تھا: "میں نے اس کا نام مہدی رکھا ہے اور امید رکھتا ہوں کہ یہی مہدی آل محمد قرار پائے۔"ہارون نے ایک دن کہا: "کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہو کہ میرا باپ مہدی ہے؟! ہرگز ایسا نہیں ہے۔"
پس اکثر لوگ آنجناب کے نام و نسب اور خصوصیات سے آگاہ تھے کہ وہ ہی تمام باطل حکومتوں کا خاتمہ کر دیں گے اور سب ان کے ظہور کے منتظرتھے۔ اسی لیے دشمن انہیں نابود کرنے اور اپنے راستے سے ہٹا نے کی فکر میں لگے ہوئے تھے۔
امام کا راستہ روکنے کے لیے جو اعمال انجام دئے گئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامر ہ منتقل کر دیا گیا تاکہ ان پر سخت نگرانی اور اولاد پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔
نیز حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور آنجناب ؑ کی زوجہ مطہرہ پر سخت نظر رکھی گئی اور جب حیات امام میں خلیفہ اور اس کے ساتھی امام ؑکے فرزند کی ولادت سے آگاہ نہ ہو سکے اور یہ سمجھے کہ امام بے اولاد دنیا سے چلے گئے تو انہیں سکون کا سانس نصیب ہوا۔
لیکن جب بعد میں وہ آنجنابؑ کے وجود مبارک سے مطلع ہوئے اور لوگوں میں آپ ؑ کا نام منتشر ہوا تو پھر تعقب میں لگ گئے۔ معتمد عباسی نے آنجنابؑ کو گرفتار کرنے کے لیے امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر اپنی سپاہ بھیجا۔ سپاہی گھر میں داخل ہوئے اور مکان کی تلاشی کے دوران انہیں سرداب میں پایا لیکن وہاں عجیب منظر یہ تھا کہ سرداب پانی سے پر تھا اور آنجنابؑ سطح آب پر ایک چٹائی پر ایک گوشہ میں موجود تھے۔ ایک سپاہی نے ان کی طرف بڑھنے کی کوشش کی بھی لیکن جیسے ذرا آگے بڑھا، اس کا پاؤ پھسل کر پانی میں پہنچ گیا قریب تھا کہ غرق ہو جائے اس کے ساتھیوں نے جلدی سے اسے واپس اپنی طرف کھینچ لیا اور آنجنابؑ سے عذر خواہی کرنے لگے۔ حضرتؑ نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور پھر غائب ہوگئے اور یہ سپاہی انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔
اس واقعہ کے بعد ان لوگوں نے ہر چند کوششیں جاری رکھیں اور ان کی گرفتاری کے لیے بھر پور جاسوس معین کئے گئے لیکن وہ انہیں پانے میں کامیاب نہ ہوئے اور نہ ہی انہیں ان کے مکان و جائے قرار کا کوئی سراغ ہی ملا، اور جب یہ لوگ سمجھ گئے کہ وہ غائب ہوگئے ہیں اور کسی کو ان کے بارے میں کوئی خبر و اطلاع نہیں ہے تو مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ تو بنی عباس کا حال تھا لیکن صرف بنی عباس ہی ان کو قتل کرنے کی فکر نہیں کر رہے تھے بلکہ روایت میں ہے کہ ابو خالد نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا: "مجھے قائم کا نام بتادیجئے تاکہ میں انہیں پہنچان سکوں۔ فرمایا: اے ابو خالد! تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر بنی فاطمہ انہیں پہچان لیں تو انہیں پارہ پارہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
رابعاً؛ اگر آنجنابؑ ساکت بھی رہیں تب بھی لوگ ان کا پیچھا نہ چھوڑیں گے، کیونکہ عوام ضعیف الایمان و کم حوصلہ ہیں لہذا ان کی طرح ساکت وصامت نہیں رہ سکتے، آہستہ آہستہ ان کے پاس آمد و رفت کا سلسلہ شروع کردیں گے اور جب یہ سلسلہ بڑھنے گلے گا جس کی وجہ سے مخالف حکومت میں بدگمانی پیدا ہونے لگے گی جس کی وجہ سے حکومت ان کے چاہنے والوں کو تشدد کا نشانہ بناتی رہتی۔ پس اس ظاہری سکوت سے غیبت بہتر تھی کیونکہ اس طرح خود بھی محفوظ ہیں اور شیعہ بھی محفوظ ہیں۔
اس موقع پر ممکن ہے ذہنوں میں یہ سوال آئے کہ دشمنوں کے خوف سے غیبت سمجھ میں آتی ہے لیکن اپنے چاہنے والوں سے کیوں غائب ہیں؟!
اگر اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ اپنے خاص دوستوں پر ظاہر ہونا چاہئے تو یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے؟ بلکہ زمانہ غیبت کے حالات میں متعدد واقعات پائے جاتے ہیں جن میں آپ کے خاص شیعوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔
اور اگر اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ اپنے تمام یا بعض چاہنے والوں کے لیے اس طرح ظاہر ہوں کہ ہمیشہ ان کے پاس آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہے تو اولاً؛ یہ بات مختلف پہلوؤں سے صحیح نہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں ثانیاً غیبت کی علت فقط تقیہ اور دشمن کا خوف نہیں ہے بلکہ دوستوں کا امتحان بھی مقصود ہے۔
ممکن ہے کسی کے ذہن میں ایک یہ شبہہ بھی سراٹھائے کہ اگر غیبت کی علت تقیہ ہے، تو جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جائے گا تقیہ میں شدت پیدا ہوتی جائے گی۔کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ حکومتیں مضبوط اور ان کے اسلحے طاقتور ہوتے جائیں گے؟
اس کا جواب یہ ہے :
اولاً؛ خوف و تقیہ مطلق نہیں ہے بلکہ محدود ہے یعنی یہ اسی وقت تک ہے کہ جب تک اذن ظہور نہیں ہےلیکن جب خداوند عالم کی طرف سے انہیں ظہور کا حکم ملے گا اور بارگاہ الٰہی سے اذن قیام صادر ہو جائے گا تو ان کا خوف و تقیہ ختم ہوجائے گا اور اس وقت ان کا حامی و محافظ خدا ہی ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر غور کیجئے وہاں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے کہ جب فرعون کی مہلت ختم ہوگئی تو خداوند عالم نے موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا اور فرمایا:(
لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى
)
تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں۔
ثانیاً؛ جب آنجنابؑ ظہورفرمائیں گے تو اس وقت امداد غیبی بھی ان کے ساتھ ہوگی، ان کے اعوان و انصار بھی کثرت سے ہوں گے اور ان کے اسلحے باطل حکومتوں کے اسلحوں سے زیادہ طاقتور ہوں گے۔
جب ۲۰۰۳ میں امر یکہ اور اس کے اتحادی فوجوں نے عراق پر لشکر کشی کرکے قبضہ کر لیااور حکومت پر مسلط کئے ہوئے اپنے ہی ایجنٹ صدام تکریتی
کو حکومت سے بے دخل کر دیا اور مختلف شہروں پر چڑھائی کے سلسلہ کو جاری رکھا تو عراق میں موجود مختلف گروہوں سے مسلحانہ جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سے ایک کسوت روحانیت میں ملبوس مقتد اصدر نے بغداد کے نزدیک محلہ صدر میں امر یکیوں کے خلاف محاذ قائم کر دیا جس کے جواب میں امر یکیوں نے اس علاقہ کا محاصرہ کر کے اسے خاک و خون میں غلطان کر دیا نتیجتاً جنگ نجف وغیرہ جیسے مقدس مقامات تک پھیل گئی اور انہوں نے سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کر دیا۔
حوزہ علمیہ قم میں چھپنے والے ایک مجلہ میں یہ خبر نشرہوتی ہے:"ایک امر یکی فوجی افسر سے سوال کیا جاتاہے۔ آخر اتیا شدید خونریزی کی کیا وجہ ہے(کہ جس سے تم لوگ دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو) تو جواب دیتا ہے: ہم مہدی موعود کو تلاش کر رہے ہیں۔
پس کثرت سے روایات میں حضر ت مہدی موعود علیہ السلام کو نابود کرنے کے جس خوف کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ اب بھی موجود ہے اور یہاں تک کہ باطل طاقتوں کو نابود کرنے والے عالمی مصلح کے وجود کے امر یکی بھی قائل ہیں۔
۲ ۔ ظالموں کی بیعت سے دوری
دنیا کے ظالم و جابر اور ستمگر حضرت امام مہدی علیہ السلام سے بیعت کے خواہاں ہیں اور وہ کسی بھی طاغوتی طاقت کی بیعت نہیں کرسکتے تاکہ جب ظہور و قیام فرمائیں تو کسی کی بیعت شکنی کا آپ پر الزام عائد نہ ہوسکے۔ اسی لیے روایات میں ظالموں کی بیعت سے دوری کو غیبت کی علتوں میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔
حسن بن فضال اپنے والد کے توسط سے امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:
"کأنّی بالشيعة عند فقدهم الثالث من ولدی کالنعم يطلبون المرعی فلا يجدونه قلت و لمَ ذالک يابن رسولالله؟ قال لاَنّ امامهم يغيب عنهم فقلت: و لِمَ؟ قال: لئلّا يکون فی عنقه لاَحدٍ بيعة اِذا قام بالسيف
"
میرے تیسرے فرزند کے اٹھ (غائب ہو) جانے کے بعد شیعہ اپنا ملجاء و ماویٰ تلاش کرتے پھریں گے اور انہیں ملجاء و ماویٰ نہ ملے گا۔ میں نے عرض کیا: فرزند رسول! ایسا کیوں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ ان کا امام ان سے غائب ہوگا۔ عرض کیا: کیوں یابن رسول اللہ؟ آپؑ نے فرمایا: اس لیے کہ جب وہ تلوار لے کر قیام کرے گا تو اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو۔
اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں ناحیہ مقدسہ (امام عصر ؑ) کی جانب سے جو مندرجہ ذیل توقیع صادر ہوئی ہے اس میں بھی اس مطلب کی طرف اشارہ موجود ہے، آپؑ فرماتے ہیں:
"...انه لَم يکُن أحدٌ مِن آبائی و قَد وَقَعَت فی عُنقِه بيعة لِطاغِيَة زَمانِه و اِنّی أَخرُجُ حين اخرج ولا بَيعَة لِأحدٍ مِن الطَّوا غِيتِ فی عُنقه
"
میرے باپ دادا میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے گلے میں اپنے زمانے کے طاغوت کی بیعت کا طوق نہ رہا ہو لیکن جب میں خروج کروں گا تو میرے گلے میں کسی کی بیعت کا طوق نہ ہوگا۔
ابراہیم بن عمر الکناسی کہتے ہیں کہ میں سنا: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
"لایقوم القائم ولِاَحد فی عنقه بیعة
؛
قائم جب قیام کریں گے تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی۔
یاد رہے کہ ان روایات میں ظاہری بیعت مراد ہے ورنہ حقیقی بیعت تو امام علیہ السلام کی سب کی گردن پر ہے اور کسی کو امام علیہ السلام سے بیعت لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
نیز حضرت امام حسنؑ نے جب معاویہ بن ابی سفیان سے صلح کی تو لوگ آپؑ کے پاس آئے اور اس صلح پر آپؑ سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔ پس آپ ؑ نے فرمایا: افسوس ہے تم پر تم نہیں جانتے کہ میں نے کیا کیا۔ اللہ کی قسم میں نے جو کچھ کیا میرے شیعوں کے لیے وہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں تمہارا امام ہوں جس کی اطاعت تم پر فرض ہے اور میں فرمان رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مطابق جوانان جنت کے سرداروں میں سے ایک ہوں۔ سب نے کہا: بے شک ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب حضرت خضرؑ نے کشتی میں سوراخ کیا، دیوار کوتعمیر کیا اور ایک بچہ کو قتل کیا تو یہ تمام باتیں موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو ناگوار گذریں کیونکہ وہ ان امور کی حکمت سے ناواقف تھے جبکہ وہ کام اللہ کی حکمتوں کے عین مطابق تھے۔
پھر آپ نے فرمایا:"أَ مَا عَلِمْتُمْ أَنَّهُ مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا وَ يَقَعُ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ لِطَاغِيَةِ زَمَانِهِ إِلَّا الْقَائِمُ الَّذِي يُصَلِّي خَلْفَهُ رُوحُ اللَّهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ع فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُخْفِي وِلَادَتَهُ وَ يُغَيِّبُ شَخْصَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِأَحَدٍ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ إِذَا خَرَجَ ذَاكَ التَّاسِعُ مِنْ وُلْدِ أَخِي الْحُسَيْنِ ابْنِ سَيِّدَةِ الْإِمَاءِ يُطِيلُ اللَّهُ عُمُرَهُ فِي غَيْبَتِهِ ثُمَّ يُظْهِرُهُ بِقُدْرَتِهِ فِي صُورَةِ شَابٍّ ابْنِ دُونِ الْأَرْبَعِينَ سَنَةً ذَلِكَ لِيُعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
"
کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے ہر ایک کی گردن میں اپنے زمانے کے طاغوت کے ساتھ مصلحت کا طوق ہوگا مگر سوائے ہمارے قائم کے جو روح اللہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو نماز پڑھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی ولادت کو مخفی رکھے گا اور اس پر غیبت کا پردہ ڈال دے گا تاکہ جب خروج کرے تو اس کی گردن پر کسی کی بیعت(کا طوق) نہ ہو۔ وہ میرے بھائی حسینؑ، جناب سیدہ ؑ کے فرزند کی اولاد میں سے نواں امام ہوگا۔ خدا انھیں زمانۂ غیبت میں طول عمر عطا کرے گا پھر خداوند عالم اپنی قدرت سے انھیں چالیس سالہ جوان کی صورت میں ظاہر کرے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہر شئ پر قادر ہے۔
نیز اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین ؑ، امام محمد باقرؑ،
امام جعفر صادقؑ
اور دیگر ائمہ علیہم السلام
سےمزید روایات وارد ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں خود امام عصر علیہ السلام توقیع شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:
اور علت غیبت کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے، یادرکھو! میرے آباء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جس کی گردن میں ان کے زمانے کے طاغوت کی بیعت کا طوق نہ رہا ہو لیکن جب میں قیام کروں گا تو کسی کی بیعت کا طوق میری گردن پر نہ ہوگا۔
اس سے یہ نکتہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر حضرت غائب ہوں گے تو ان کی گردن پر کسی کا کوئی حق نہ رہے گا کہ جس کا لحاظ کرتے ہوئے اخلاقاً اس کے احکام کی رعایت کریں ورنہ بصورت دیگر مورد طعن قرار پائیں۔ جیسا کہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام پر احسان جتاتا تھا:
(
أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ
)
اور اس (فرعون) نے کہا کیا ہم نے تمہیں بچپنے میں پالا نہیں ہے، اور کیا تم نے ہمارے درمیان اپنی عمر کے کئی سال نہیں گذارے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
(
وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ
)
یہ احسان جو تربیت کے سلسلہ میں توجتا رہا ہے تو تو نے بڑا غضب کیا تھا کہ بنی اسرائیل کو غلام بنالیا تھا۔
اب اگر آنجناب غائب ہوں اور یکبارگی ظاہر ہو جائیں تو یہ سب باتیں نہ سننے پائیں گی اور وہ سب کو حق کی نگاہ سے دیکھیں گے اور تمام روئے زمین کو باطل قوتوں سے پاک کردیں گے۔
اس موقع پر ایک اہم سوال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آج جبکہ خلافت و بیعت کی روش صدر اسلام سے بالکل مختلف ہے تو پھر آج امام ظاہر ہو کر لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کیوں نہیں کررہے ہیں تاکہ اپنی امامت کے فرائض انجام دے سکیں؟!
اس کے جواب میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ خلافت کا قدیم اسلوب و طریقہ کار ختم ہو چکا ہے لیکن ریاست و سلطنت اور فرمانروائی کا سلسلہ تو آج بھی قائم ہے ۔ بنابریں اس لئے اگر امام اس دور میں جس مملکت میں بھی ظاہری زندگی بسر کریں گے اس مملکت کے سربراہ کی تبعیت پر مجبور ہوں گے اور اس ملک کے قوانین کا احترام کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ امام ایسی شخصت نہیں ہیں کہ ناشناس رہیں اور اگر کسی ملک میں رہتے ہوئے اس کے قوانین پر عمل نہ کریں گے تو اپنے آباءواجداد کی طرح قتل کردئے جائیں گے اور سلسلہ امامت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اس موقع پر دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حضرت قائم آل محمد تمام روئے زمین پر حکومت الٰہیہ کا قیام کریں گے انہیں اسی دور میں پیدا ہونا چاہئے، یہ قبل از قیام، ولادت کی حکمت کیا ہے اگر اسی دور میں پیدا ہوں گے تو اتنی بحث و گفتگو کی گنجائش ہی پیدا نہیں ہوگی؟!
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قبل از قیام وحکومت آنجناب کا وجود بے فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ زمانہ غیبت میں بھی عالم کون و مکان انہی کے سر صدقہ سے چل رہا ہے وہ پس ابر خورشید کی مانند اپنے وظائف انجام دے رہے ہیں۔ لیکن علم خداوند عالم میں یہ امر بالکل طے شدہ اور مسلم ہے کہ وہ کسی دور میں روئے زمین پر حکومت الٰہی قائم کریں گے ۔ وہ اپنی حکمتوں سے واقف ہے لیکن ہمیں اس کی حکمتیں نہیں معلوم اور نہ ہم ان کے ظہور کے وقت سے آگاہ ہیں۔ ممکن ہے کل ہی یا صدیوں بعد ان کا ظہور واقع ہو ۔
علاوہ بر ایں کے ہمارے معتقدات دینی میں سے ایک امر کثیر التعداد روایات
بھی جس پر دلالت کررہی ہیں ، یہ بھی ہے کہ زمین ایک دن بھی بغیر حجت و امام کے باقی نہیں رہ سکتی۔ تمام فرق اسلامی کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر روئے زمین پر دو افراد بھی باقی بچ جائیں گے تو ان میں سے ایک حجت خدا ہوگا، اور اگر دنیا کی عمر صرف ایک دن کے برابر باقی رہ جائے گی تو رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ذریت میں سے ایک شخص زمام حکومت اپنے ہاتھ میں سنبھال لے گا۔
پس اگر یہ طے ہو جائے کہ حضرت مہدی علیہ السلام اپنے قیام و ظہور کے وقت پیدا ہوں گے تو اس دوران زمین کس طرح بغیر حجت و امام کے باقی رہ سکتی ہے؟
۳ ۔ لوگوں کی کوتاہی و عدم نصرت امام ؑ
تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ لوگوں نے مختلف زمانوں میں انبیاء علیہم السلام کی اتباع و پیروی نہیں کی۔ جس وقت پیغمبر گرامی قدر حدیبیہ کے موقع پر اسلام کی مصلحت صلح میں دیکھ رہے تھے اور آپؐ نے اس وقت مکمل طور پر صلح کا عزم و ارادہ کر لیا تھا تو وہ لوگ جو جنگ و جدال کے خوگر بن چکے تھے تفاخر عرب جن کے پورے وجود میں سرایت کر چکا تھا حضور سرورکائنات کی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگے: "ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں، ہ ہرگز صلح کی ذلت و خواری کو قبول نہ کریں گے!"
قرآن کریم نے اسی صلح کو فتح مبین سے تعبیر کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:(
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
)
اسی طرح اس وقت جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی پاکیزہ زندگی کے آخری ایام میں مسلمانوں کو لشکر اسامہ میں شرکت کا حکم دیا اور بار بار فرمار ہے تھے: "لعن اللہ من تخلف عن جیش اسامہ" جو لوگ حکم رسول خدا کو حکم خدا نہ سمجھتے تھے اور جن کے دل بعد از رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
مسئلہ خلافت میں پڑے ہوئے تھے وہ یہ بہانہ بنانے لگے: "ہم ایک نوجوان کی سپہ سالاری کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔"
یا اس وقت جبکہ آنحضرتؐ نے بستر بیماری پر فرمایا:"مجھے قلم و دوات لادو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ پھر گمراہ نہ ہونے پاؤ" اس وقت "حسبنا کتاب الله
"کا نعرہ بلند کر دیا۔"
جب ہم ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
گویا اس معاشرے میں غائب ہیں ۔ ایسی غیبت کہ سقیفہ میں واقعی طور پر جس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جہاں رسول کی وصیت اور قول و گفتار کے علاوہ ہر طرح کی بات ہوتی ہے!
رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کاندھوں پر ایک اہم ذمہ داری یہ بھی تھی کہ اپنے بعد دین کی حفاظت و بقاء کا انتظام کرکے جائیں اس اہمیت اور انتظام کے پیش نظر اپنے آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کے جم غفیر میں "من کنت مولاه فهذا علی مولاه
" کی ندا بلند کی اور اس اہم ذمہ داری سے عہدہ براء ہوئے اور اسی طرح مسلمانوں پر حجت قائم کردی۔ لیکن حضور سرور کائناتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وفات کے فوراً بعد ہی مسلمانوں کے عمل نے یہ ثابت کردیا گویا جیسے غدیر کا واقعہ رونما ہی نہیں ہوا اور انہوں نے پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اتنے بڑے اجتماع میں منبر پر کچھ فرماتے ہوئے سنا ہی نہ تھا!
جی ہاں! وحی سے وابستہ اور خداوندعالم کی جانب سے معین شدہ نبی ان کے درمیان گویا غائب ہے اور جو شخص اکثر مسلمانوں کی نگاہ میں ظہور پذیر ہے وہ ان کا اپنا منتخب کر دہ حاکم ہے!
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت کے معاشرے نے نبی کریم کو جیسا پہنچاننے اور ان کی معرفت حاصل کرنے کا حق تھا ، نہ پہنچانا اور اسی عدم معرفت کی وجہ سے ان کی اطاعت نہ کی اور اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے۔
جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ مہاجرین و انصار کے دروازوں پر گئے اور ان سے حق امامت کے دفاع کا مطالبہ کیا تو کسی نے ان کی آواز پر لبیک نہ کہا: وہ امام جو معاشرہ کی تعمیر و تشکیل کے لیے آیاتھا پچیس سال تک مدینہ کے اطراف میں خرمے کے درخت کاشت کرنے اور کنویں وغیرہ کھودنے پر مجبور رہا! گویا اس وقت کا معاشرہ اپنے امام کے ساتھ انکے غائب ہونے کاسا رویہ انجام دے رہا تھا!
جب لوگ اپنے خود ساختہ خلفاء کے ظلم و تبعیض سے تنگ آگئے تو در امام ؑ پر آکر دھاوا بول دیااور ان کی بیعت کرنے لگے لیکن جب انہیں حکومت و ولایت کی طرف سے اپنے مقاصد پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے تو اسی امامؑ بر حق کے خلاف تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور یوں جنگ جمل کے اسباب مہیاکر دئے اور جب معاویہ نے جنگ صفین میں نیزوں پر قرآن بلند کروادیئے تو اس وقت بھی قرآن ناطق کی نصتب پر کوئی کان نہ دھرا اور کہنے لگے: "اے علی! مالک اشتر کو واپس پلٹنے کا حکم دیدیجئےورنہ ہم آپ سے جنگ کرنے لگیں گے۔"
امام جنگ صفین میں اپنے بعض ایسے ساتھیوں کے مدمقابل تلوار رکھنے پر مجبور ہوگئے جو معاویہ کے لشکر والوں سے مختلف نہ تھے!اور حکمیت کے نتیجہ کے بعد انہوں نے اپنے شیطانی اہداف میں قرآنی آہنگ کو شامل کر کے اپنے امام بر حق کے خلاف جنگ نہروان کے اسباب فراہم کردیئے۔
امام علیہ السلام نے جنگ نہروان کی کامیابی کے بعد ان سے فرمایا: کہ اب معاویہ سے جنگ کرنے میں میری مدد کرو لیکن انہوں نے پھر بہانے بنانا شروع کر دیئے تو اس وقت امام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:
"لَوَدَدتُ اَنّی لَم أرَکُم وَ لَم اَعرِفکم
؛
کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اور تمہیں نہ پہچانتا!پروردگارا! تو مجھے ان سے دور کر دے ، مجھے ان کے بدلے اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے انہیں کوئی اور برا حاکم دیدے۔
نیز عصر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں یہی سپاہی لشکر امام ؑ میں تھے جو معاویہ کے مال و دولت کا شکار ہوئے اور امام ؑ کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ سے غائب ہوگئے۔ یہاں تک کہ امام ؑ اسلام و مسلمین کی جان و مال کی حفاظت اور معاویہ کے گھناؤنےچہرے سے نقاب اٹھانے کا تنہا راستہ صلح میں دیکھ رہے تھے اور آپ اس طرح صلح پر مجبور ہوگئے اگرچہ بہت سے قریبی ساتھی بھی اس صلح میں پوشیدہ کامیابی کو محسوس نہ کر سکے اور امام ؑ کو یہ کہہ کر خطاب کر رہے تھے:"السلام علیک یَا مُذِلَّ المومنین
"!
جب امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اس وقت جبکہ لشکر شام کا ایک سپاہی بھی کربلا میں نہ آیا تھا امام مسلمین ان لوگوں کے مد مقابل تھے جنہوں نے خود خطوط لکھ لکھ کر انہیں دعوت دی تھی۔
نیز امام زین العابدین علیہ السلام دین کے عظیم اور اعلیٰ و ارفع معارف و مفاہیم دعاؤں کے قالب میں ڈھال کر بیان کرنے پر مجبور تھے کیونکہ اس وقت کا معاشرہ یہ معارف سننے کے لیے تیار نہ تھا۔
امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں اگرچہ حالات کچھ سازگار ہوئے اور لوگ ان سے علمی اعتبار سے بہر مند ہو رہے تھے لیکن اس کے باوجود امام کی محفل میں موجود لوگوں کی بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل تھی جو انس بن مالک کے نشتوں میں بھی شریک ہورہے تھے اور امامؑ کی بزم سے بھی استفادہ کر رہے تھے لیکن ان دونوں میں کسی قسم کے فرق و امتیار کے قائل نہ تھے! یہاں تک امامؑ کی محفل میں بیٹھے والوں ہی نے ان کے مقابلے پر اپنا الگ الگ مکتب فکری قائم کر لیا۔
امام رضا علیہ السلام نے شہر نیشاپور میں دین کی مکمل حقیقت صرف ایک جملہ میں بیان فرما دی اور وہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:
"کلمة لا اله الا الله حصنی فمن دخل حصنی أمن من عذابي، لکن بشرطها و شروطها و أنا من شروطها
."
اگر لو گ امام کے اس خوبصورت انداز بیان کو سمجھ لیتے تو یقیناً ہدایت یافتہ ہوجاتے۔ امام محمد تقی علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور تک تو یہ عدم توجہ اور عدم معرفت سابقہ زمانوں سے بھی زیادہ شدید نظر آتی ہے۔ تاریخ میں ان بزرگواروں کے زیادہ حالات زندگی نقل نہ ہونا خود ہمارے دعوے کی دلیل ہے کہ ان کے ساتھ غیبت کا سلوک روا رکھتے تھے اور انہیں اپنی زندگی کے معاملات سے دور رکھتے تھے!
مذکورہ مثالوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جب تک لوگ امام ؑ کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے تو وہ امامؑ کی ضرورت کو محسوس نہ کرسکے اگرچہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی چاہے خلیفہ ہو یا عوام سب انہی حضرت سے رجوع کرلیتے تھے، لیکن ان کا یہ رجوع کرنا معرفت کی بنیاد پر نہیں تھا کیونکہ وہ امام ؑ کی طرف صرف اس لیے رجوع نہیں کرتے تھے کہ فقط امام ؑ ہی راہ ہدایت و نجات ہیں۔
ایک روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اللّهم... انّک لا تخلی أرضک من حجة لک علی خلقک ظاهرٍ ليس بالمطاع أو خائفٍ مغمور
...؛
اے اللہ! بے شک تو اپنی زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑے گا چاہے وہ ظاہر وآشکار ہو اور لوگ اس کی اطاعت کریں یا نہ کریں۔ چاہے وہ خائف اور ناشناختہ ہی کیوں نہ ہو۔
بنابرایں غیبت بمعنی عدم معرفت امام ؑ کی تاریخ نشاندہی کر رہی ہے ۔ اسی لیے جب لوگ امامؑ سے منحرف ہوگئے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے تیار نہ ہوئے تو اب مشیت پروردگار نے چاہا کہ اس مرتبہ امام ؑ کو معاشرے کی نگاہوں سے غائب کر دیا جائے تاکہ لوگ اچھی طرح امامؑ کی ضرورت و احتیاج کو محسوس کر لیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اِذا غضب الله تبارک و تعالی علی خلقه نحّانا عن جوارهم
؛
جب خداوندعالم اپنی مخلوق پر غضبناک ہوتا ہے تو ہم (اہل بیت علیہم السلام) کو ان سے دور کر دیتا ہے۔
اولیائے الٰہی کے نزدیک یہ خود ایک پسندیدہ و مرغوب امر ہے، کیونکہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کی دعوت بے اثر ہے اور لوگوں کے ناشائستہ اعمال کی وجہ سے انہیں صرف رنج و ملال کا سامنا ہے تو وہ خود ہجرت و غیبت پر متمایل نظر آتے ہیں خصوصاً جبکہ وہ سکوت و ترک دعوت پر بھی مامور ہوں جیسے حضرت صاحب الامر علیہ السلام کے لیے تاوقت قیام سکوت کا حکم تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اب ان کی تبلیغ و دعوت بے اثر ہوگی ہے تو کہنے لگے:(
فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِي مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
)
؛ اےمیرے اللہ! میرے اور ان کے درمیان کھلا فیصلہ فرما دے اور مجھے اورمیرے صاحبان ایمان ساتھیوں کو نجات دیدے۔
نیز حضرت ابراہیم نے آواز دی:(
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا
)
اور آپ کو آپ کے معبود سمیت چھوڑ کر الگ ہو جاؤں گا اور اپنے رب کو آواز دوں گا کہ اس طرح میں اپنے پروردگار کی عبادت سے محروم نہ رہوں گا۔
نیز فرمایا:(
إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ
)
میں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں کہ وہ میری ہدایت کرے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:(
رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
)
پروردگار مجھے ظالم قوم سے محفوظ رکھنا۔
حضرت لوط علیہ السلام سے لوگوں نے کہا:"اگر تم اپنی بات پر اٹے رہے تو ہم تمہیں قریہ سے باہر نکال دیں گے۔
حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا:(
إِنِّي لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِينَ ٭ رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ
)
انہوں نے کہا بہر حال میں تمہارے عمل سے بیزار ہوں، پروردگارا! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال کی سزا سے محفوظ رکھنا۔
نیز اصحاب کہف اپنی بت پرست قوم کی ایذارسانیوں کے سبب شہر سے نکل کر غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔
پس گوشۂ عزلت و ہجرت ایک پسندیدہ و مرغوب امر ہے اور خداوندعالم نے ان کے حق میں یہ لطف کرتے ہوئے انہیں اس آلودہ معاشرے سے دور کر دیا۔
خود آنجناب، علی بن مہریار سے ملاقات کے وقت فرماتے ہیں:
"ابی ابو محمد عهد الیّ اَن لا اجاورَ قوماً غَضِبَ الله علیهم ولهم الخزی فی الدنیا و الآخرة و لهم عذاب الیم
"؛میرے والدنے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم پر لعنت کی ہے ہرگز ان کی مجاورت اختیار نہ کروں وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان پر دردناک عذاب ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :"خداوند عالم ہمارے لیے جس قوم کی مجاورت پسند نہیں کرتا ہمیں ان سے دور کر دیتا ہے۔"
اسی طرح ایک دوسری حدیث شریف میں فرماتے ہیں:"جب خداوند عالم کسی قوم پر غضبناک ہوتا ہے تو ہمیں ان سے دور کردیتا ہے۔"
اس موقع پر اگر کوئی یہ سوال کرے گا کہ پروردگار عالم نے یہ ہجران و غیبت دیگر ائمہ کے حق میں کیوں قرار نہیں دی اور ان پر اپنا یہ لطف کیوں نہیں؟
ہم جواب میں کہیں گے:اولاً؛ ان کے انزجار کی مدت قلیل تھی ، ثانیاً؛ لوگوں کی ہدایت و تبلیغ کے لیے ان کا حاضر ہونا ہی ضروری تھا تاکہ ایک اندازے کے مطابق تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے، ان پر اتمام حجت ہوجائے تاکہ لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے اور اس طرح اہمال لازم نہ آنے پائے۔ پس جب انہوں نے اتمام حجت کی حد تک تبلیغ کا فریضہ انجام دیدیا ہے تو اب اس امام کے حق میں لطف خداوند عالم کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔
بالفاظ دیگر خداوند عالم نے اتمام حجت کے اعتبار سے دیگر ائمہ علیہم السلام کے حق میں نوعی لطف جاری کیا ہے جبکہ اس امام کے حق میں شخصی لطف جاری کیا ہے اور اس کی ذات کو بچانا مقصود ہے۔
پس غیبت در حقیقت لوگوں کے عمل اور ان کے رویے کا نتیجہ تھی اور انہی اعمال کی اصلاح ظہور کا مہمترین عامل ہوسکتا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا ظہور مسلسل موجودہ جاری فکر و عملی تبدیلی ہی کی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے؛ کیونکہ :(
إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ
)
خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے۔
لوگوں کو چاہئے تھا کہ وہ ائمہ علیہم السلام کی حمایت و حفاظت کرتے انہیں قتل نہ ہونے دیتے، ہر لمحہ ان کا دفاع کرتے لیکن لوگوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اسی لیے بعض روایات میں یہ وارد ہوا ہے کہ لوگوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے غیبت رونما ہوئی ہے۔ سیعمی خلقہ عنہا ظلہم و جورہم۔
۴ ۔ سنن الٰہی کا اجراء
جب خداوند عالم لوگوں کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو لوگوں کا فریضہ ہے کہ اس نعمت کی قدر دانی کریں اور اس نعمت کے سلسلہ میں اپنے وظیفہ اور ذمہ داری کو پورا کریں ورنہ خداوند عالم کی یہ سنت ہے کہ وہ لوگوں سے وہ نعمت چھین لیتا ہے، اسی لیے بعض روایات میں سنت الٰہی کے اجراء کو بھی غیبت کی ایک علت قرار دیا گیا ہے۔ بنابرایں غیبت کو سنن انبیاء علیہم السلام سے شباہت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ہجرت و غیبت دو ایسی چیزیں ہیں جو مسئلہ نبوت میں نہایت روشن و واضح اور مشہور ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کی کثیر تعداد میں ہجرت کا مشاہدہ کرکے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت سنن انبیاء علیہم السلام میں سے ایک سنت رہی ہے، بطور مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ہجرت پیش کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح انبیاء علیہم السلام ماسلف میں غیبت بھی کثرت سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاتاریخ کے صفحات پر حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی غیبتوں کا ذکر دیکھا جاسکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی غیبت کا مقصد اور اس کا لازمہ لوگوں کا امتحان اور ان کی شناخت تھی اسی لیےغیبت سنن انبیاء علیہم السلام میں سے قرار دی گئی ہے۔
پس چونکہ ہجرت وغیبت سنن انبیاء علیہم السلام میں سے ہے اور خداوند عالم حضرت مہدی علیہ السلام کے حق میں بھی سنن انبیاء علیہم السلام جاری کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے ان کے حق میں غیبت جاری کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت مرقوم ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
"اِنَّ للقائم مِنّا غيبة يَطُولُ أَمَدُها فقلت له: و لم ذاک يابن رسولالله؟ قال اِنّ الله عزّوجلّ أبی الّا أن يجری فيه سنن الأنبياء عليهم السلام فی غيباتهم و أنّه لا بدّ له يا سدير من استيفاء مدد غيباتهم قال الله عزوجل
:(
لترکبنَّ طبقاً عن طبق
)
علی سنن من کان قبلکم
"
ہم لوگوں میں سے جو امام قائم ہوگا اس کے لیے غیبت ہے اور یہ غیبت بہت طولانی ہوگی۔ میں نے عرض کیا: یہ کیوں؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فیصلہ کر رکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں جو غیبت کا دستور جاری تھا وہی دستور ان میں بھی جاری کرے اور اے سدیر! یہ لازمی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے جس جس مدت کے لیے غیبت اختیار کی ان کی مجموعی مدت تک یہ بھی غیبت میں رہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
)
کہ تم یونہی ایک ایک منزل طے کرو گے۔ یعنی بے شک جو لوگ تم سے پہلے گذر چکے ہیں تمہیں بھی ان کی طرح منزلیں طے کرنا پڑیں گی۔
(ب) آثار غیبت
بعض روایات میں علل غیبت سے قطع نظر کچھ آثار غیبت بھی بیان کئے گئے ہیں جنہیں ہم یہاں جداگانہ پیش کر رہے ہیں:
۱ ۔ آزمائش و امتحان
روایات کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایات میں لوگوں کی آزمائش و امتحان کو آثار غیبت میں شمار کیا گیا ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وذالک بعد غیبة طویلة لِيعلمَ الله مَن يُطِيعُه بالغيب و يُؤمِنُ بِه
"
یہ سب کچھ ایک طویل غیبت کے بعد ہوگا، تاکہ اس بات کا فیصلہ ہوجائے کہ کون زمانہ غیبت میں اللہ کا فرمانبردار ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
"وہ منتظر ہیں جس کی ولادت کے بارے میں لوگ شک کریں گے۔ بعض لوگ کہیں گے ان کے والد بے اولاد دنیا سے گئے ہیں، بعض کہنے لگیں گے وہ مرگئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ شیعوں کا امتحان لینا چاہتا ہے۔"
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اس صاحب امر علیہ السلام کے لیے غیبت ضروری ہےیہاں تک کہ عقیدت مند افراد بھی اس سے پلٹ جائیں گے ۔"إنّّما هی محنة من الله عزّوجلّ إمتحن بها خلقه
؛یہ خدا کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اس نے اپنے بندوں کا امتحان لیا ہے۔
امتحان کی کیفیت
یہاں امتحان کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں:
اول: اس اعتبار سے کہ غیبت کے زمانہ میں لوگوں کا خود امامؑ کے بارے میں کیا خیال ہے اور اس عرصہ میں ان کا رویہ کیا رہتا ہے؟ کیا عصر غیبت میں لوگ ان پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟ جس طرح گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے دور میں بھی لوگوں کا مختلف انداز سے امتحان لیا گیا اور انبیاء علیہم السلام ما سلف میں خداوندعالم نے کسی کو بیماری میں مبتلاء کیاجیسے حضرت ایوبؑ، کسی کو نابی نا کر دیا جیسے حضرت یعقوبؑ وغیرہ تاکہ اس طرح لوگوں کا امتحان لیا جاسکے کہ کون ہے جو اس صورت میں ان پر ایمان لا کر مومن رہے اور کون ہے جو ان سے منحرف ہو کر دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے؟
دوئم: یہ کہ لوگ زمانہ غیبت میں کسی حد تک اپنے فرائض و وظائف پر عمل پیرا رہتے ہیں، وہ امامؑ کے زمانہ حضور کی طرح زمانہ غیبت میں بھی اپنے اس سابقہ ایمان پر باقی رہتے ہیں یا نہیں؟ پس اس طرح ان کا امتحان لیا جائے گا تاکہ معلوم ہو جائےکہ کون ہے جو عصر حضور و غیبت دونوں میں ثابت قدم رہتا ہے اور کون ہے جو عصر حضور کو انجام تکالیف کا سبب اور عصر غیبت کو ترک تکالیف کا سبب سمجھتا ہے اور اس امتحان کے ذریعے لوگوں کے ایمان و بندگی کے مراتب کی طبقہ بندی ہوجائے گی۔
۲ ۔ تمحیص و تمییز
تمحیص سے مراد پاک کا ناپاک سے، مومن کا غیر مومن سے اور اہل دنیا کا اہل خدا سے جدا ہونا ہے، یہ ایسا امر ہے کہ مشیت الٰہی جس سے دائمی طور پر وابستہ ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
(
وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ
)
اورخداوند عالم مومنین کو چھانٹ کر الگ کر دینا چاہتا ہے اور کافروں کو مٹا دینا چاہتا ہے۔
(
مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ
)
خداوند عالم ، صاحبان ایمان کو انہیں حالات پر نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کردے۔
البتہ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ یہ جدائی و علیحدگی اور پاکیزگی ایک ظاہری سبب کے بغیر انجام پذیر نہیں ہوسکتی۔ پس لوگوں کے درمیان ایک ایسے امر کا ہونا ضروری ہے جس کے ذریعے انہیں آزمایا جائے اور وہ اس آزمائش و امتحان کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے جائیں۔
غیبت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام بھی انہی اسباب میں سے ایک ہے، جس طرح دیگر ائمہ علیہم السلام کا مقہوریت و ملوببیت کے ساتھ حضور لوگوں کے لیے ایک آزمائش تھا اسی طرح غیبت امام عصر علیہ السلام بھی سبب آزمائش ہے۔
نیز روایات میں غیبت کی حکمتوں میں سے تمحیص و تمییز کو بھی بیان کیا گیا ہے، مثلاً:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:"لا بد لصاحب ھذا الامر من غیبۃ حتی یرجع عن ھذا الامر مَن کان یقول بہ؛
اس صاحب الامر کے لیے غیبت ضروری ہے یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ان سے پلٹ جائیں گے جو ان کے قائل ہوں گے۔
نیز حضرت صادق آل محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی مختلف روایات میں ا س امر کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ جب حضرت مہدی علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو ان کا قیام، قیام بالسیف ہوگا جس کے نتیجہ میں کافر مارے جائیں گے اور ممکن ہے اس وقت کسی کافر کے صلب سے کوئی مؤمن بچہ آنے والا ہو لہذا اگر وہ کافر قتل ہوگیا تو وہ مومن جو اس کے صلب سے آنے والا ہے گویا وہ بھی مارا جائے گا۔ حالانکہ قتل مومن صحیح نہیں ہے اور کبھی صورت حال اس کے برعکس ہوگی یعنی کتنے ہی ایسے مومن ہو سکتے ہیں جن کےصلب سے کافر پیدا ہونے والے ہوں گے لہذا وہ تمام کافر بھی اپنے اصلاب کی پُشتوں سے خارج ہوجائیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں،لہذا جب تمام مومن و کافر اپنے اصلاب کی پشتوں سے باہر آجائیں گے تو ظہور و قیام امام مہدی علیہ السلام ہو جائے گا اور سورہ روم کی آیت ۱۹ کی تفسیر
بھی انہی معنی کی نشاندہی کر رہی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
(
يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ
)
امام زمانہ اس وقت قیام کریں گے کہ (خداوند عالم زندہ(مومن) کو مردہ(کافر) سے باہر نکالے گا اور مردہ (کافر) کو زندہ(مومن) سے باہر نکالےگا۔ اور چونکہ امام عصر علیہ السلام قیام بالسیف کریں کے اور کافر و فاجر کا قلع قمع کردیں گے اس لیے غیبت ضروری ہے اور یہ غیبت اتنی طولانی ہوگی تا قیام قیامت جو جو مومن بھی کافر و فاجر کے صلب میں ہوگا، باہر آجائے گا۔
اسی سلسلہ میں جب حضرت صادق آل محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیا گیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے ابتداء ہی میں اپنے مخالفین سے جنگ کیوں نہیں کی؟
حضرت نے فرمایا: قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ انہیں اس کام سے رک رہی تھی۔
عرض کیا گیا: وہ کون سی آیت کریمہ ہے یابن رسول اللہ؟ حضرت نے فرمایا:(
لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
)
اگر یہ لوگ (مومن و کافر) ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تو ہم کفار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے ۔
عرض کیا گیا اس "تَزَیَّلُ" یعنی جدائی سے کیا مراد ہے؟
حضرت نے فرمایا: اس سے مراد مومن امانتیں ہیں جو کافروں کے اصلاب میں ہیں اور قائم علیہ السلام کا اس وقت تک ظہور نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ کی امانتیں پیدا نہ ہو جائیں اور جب وہ امانتیں پیدا ہو جائیں گی تو وہ دشمنان خدا پر ظاہرہوجائیں گے پھر انہیں قتل کریں گے۔
____________________