غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)0%

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22606
ڈاؤنلوڈ: 3733

تبصرے:

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22606 / ڈاؤنلوڈ: 3733
سائز سائز سائز
غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

چوتھا باب: فوائد غیبت

ہر گزایسا نہیں ہے کہ غیبت امام عصر علیہ السلام ایک مہمل، بے معنی شئ ہو اور لوگوں کے لیے اس میں کوئی فائدہ موجود نہ ہو، اگر ایک عام سے عام آدمی جو صاحب عقل و شعور ہو کسی عمل کو بغیر کسی مقصد اور ہدف کے انجام نہیں دیتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیبت امامؑ جو کہ پروردگار عالم کے حکم سے واقع ہوئی ہے ، بےفائدہ ہے۔

آیات وروایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں غیبت کے کچھ فوائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔لہذا ہم تحریر کے اس حصہ میں دو اصلی محور پر گفتگو کریں گے:

الف) غیبت امام عصر پر ایمان و اعتقاد کا کیا فائدہ ہے؟

ب) امام غائب کے وجود کا فائدہ کیا ہے؟

پہلی فصل: امام غائب پر ایمان و اعتقاد کا فائدہ

اس فصل کا آغاز اس سوال سے کیا جا رہا ہے کہ وہ وجود غائب جس کے وجود کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ عدم کے مساوی ہوتا ہے یعنی اس کا ہونا، نہ ہونا برابر ہوتا ہے پس اسی طرح امام غائب پر ایمان و اعتقاد کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہم یہاں ابتداءً چند مقدمات بیان کر رہے ہیں اور پھر اس سوال کا جواب پیش کریں گے:

الف) امام علیہ السلام پر اعتقاد، ایمان کے اہم ارکان میں شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر گرامی قدر فرماتے ہیں:"من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة "(۱) جو شخص امام وقتؑ کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔

یہ حدیث فریقین کے منابع حدیثی میں مختلف عبارت کے ساتھ کثرت سے نقل ہوئی ہے۔

ب) خدا کے نزدیک غیب پر ایمان اہم امورمیں سے ہے اور یہ ایمان و اخلاص پر خاص تاثیر رکھتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:( الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ) (۲)

ج) ثواب و عقاب، جنت، دوزخ، سوال قبر اور جو کچھ قیامت کے بارے میں ہے ان سب چیزوں پر اعتقاد ایمان بالغیب ہی سے وابستہ ہے اور یہی ایمان بالغیب انسان کے ثبات قدم، استقامت، حدود سے خارج نہ ہونے اور حکم خداوندی سے سرپیچی نہ کرنے میں بہت اثر انداز ہوتا ہے۔

پس ان مقدمات کی روشنی میں وجود امام عصر علیہ السلام پر اعتقاد کے چند فوائد بیان کر رہے ہیں :

۱ ۔ جس مسلمان کو یہ علم ہو کہ اس کا امام حاضر ہے اور اس کے اعمال دیکھ رہا ہے تو اس کے رفتار و عمل میں اور جس کا یہ عقیدہ نہیں ہے اس کے عمل میں بہت فرق پایا جاتا ہے، جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو لوگ وجود امام غائبؑ کے معتقد ہیں اور انہیں اپنے کردار پر ناظر سمجھتے ہیں وہ لوگ ساکت، منکسر اور متواضع ہوتے ہیں، کسی کو اذیت نہیں دیتے اور گناہ و معصیت سے دور رہتے ہیں۔

۲ ۔ حضرت کے حاضر و ناظر ہونے کا اعتقاد لوگوں میں مصائب و آلام اور آزمائشات وحوادث کے مقابلے میں ان کی ہمت و حوصلہ افزائی اور دل گرمی کا سبب بنتا ہے ۔ جیسا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو معلوم ہوا کہ ان کا نبی زندہ ہے تو انہیں ان کے وجود سے ہمت و حوصلہ ملا۔ ان کے دلوں کو تسکین ملی اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۳ ۔ ان کے ظہور کے انتظار سے بھی لوگوں کو اطمینان و حوصلہ ملتا ہے، کیونکہ جب مسلمان ظلم و بربریت اور عدل و انصاف کو پامال ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کے ظہور کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور پریشانیوں میں ان سے توسل کرتے ہیں۔

۴ ۔ برسوں کی غیبت اور چشم انتظار کے بعد ان کا ظہور بیشتر لوگوں کی رغبت کا سبب قرار پائے گا نتیجتاً بآسانی ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی نصرت پر آمادہ اور باقی رہیں گے۔

دوسری فصل: امام غائب کے وجود کا فائدہ

ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہہ یا سوال سر اٹھائے کہ امام غائب کے وجود کا فائدہ کیا ہے؟

اگر امام لوگوں کا پیشوا اور رہبر ہوتا ہے تو اسے ظاہر ہونا چاہئے۔ ایسا امام جو صدیوں سے غائب ہو، نہ دین کی ترویج کرے، نہ معاشرے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کرے، نہ مخالفین کو کوئی جواب دے، نہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرے، نہ مظلومین کی حمایت کرے، نہ حدود و احکام اسلامی کو جاری کرے، نہ لوگوں کے حلال و حرام کے مسائل کی وضاحت کرے، بھلا ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے؟

ہم اس شبہہ یا سوال کے جواب میں اتنا کہنا چاہیں گے کہ زمانہ غیبت میں لوگ اگرچہ خود اپنی غلطیوں اور اپنے اعمال کی وجہ سے امام ؑ کے زمانہ حضور کے فوائد سے محروم ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے وجود کے فوائد صرف انہی پر منحصر نہیں ہیں بلکہ کچھ ایسے فوائد بھی ہیں جو زمانہ غیبت میں بھی مترتب ہوتے ہیں۔ ان فوائد کو دو حصوں عمومی و خصوصی میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

فوائد عمومی

حجت خدا کا وجود، واسط فیض الٰہی اور استقرار زمین کا سبب ہے۔

فریقین کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حجت خدا کا وجود زمین کے استقرار کا سبب ہے، اگر امام و حجت خدا زمین پر موجود نہ ہو تو زمین میں استقرار قائم نہیں رہ سکتا۔ بنابریں اگرچہ آنجنابؑ لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں لیکن ان کا وجود اہل زمین کے لیے باعث امان ہے۔ اس سلسلہ میں کثرت سے ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو اس کی تصریح کر رہی ہیں:

حضور سرورکائنات نے فرمایا:

"النُّجُوم امانٌ لأهلِ السَّماء، ‏اِذا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ اَهلُ السَّماء. ‏وَ أهلُ بَیتی اَمانٌ لأهلِ الأرض فاذا ذَهَبَ اهلُ بَیتی ذَهَبَ أهلُ الأرض "(۳)

ستارے اہل آسمان کے لیے باعث آرام و امان ہیں پس اگر ستارے ہٹ جائیں تو اہل آسمان مٹ جائیں اسی طرح میرے اہل بیت اہل زمین کے لیے امان ہیں اگر یہ درمیان سے ہٹ جائیں تو اہل زمین نابود ہو جائیں گے۔

مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کتاب تجرید الکلام میں امام زمانہ (عج) کے وجود کو لطف سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:"وجودہ لطفٌ و تصرّفہ آخر و عدمہ منّا؛ امام کا وجود لطف الٰہی ہے، اور ان کا تصرف کرنا(یعنی وظائف امامت پر عمل کرنا) یہ ایک اور لطف الٰہی ہے جبکہ ان کی غیبت ہمارے اعمال بدل کی وجہ سے ہے۔

یعنی امت اسلامی نے جو ان کے لیے فضا بنائی ہے حضرت اسی کی وجہ سے غیبت پر مجبور ہوئے ہیں۔

امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام غائب کا وجود مقدس، انسان کی کامل نوع و فرد اور عالم مادی و عالم ربوبی کے درمیان مکمل رابطہ ہے، اگر زمین پر امام و حجت خدا نہ ہو تو نسل انسانی منقرض ہوجائے گی اور دنیا کا بیٹرا غرق ہو کر رہا جائےگا۔ اگرامام نہ ہو تو خدا مکمل طور پر پہچانا نہیں جا سکتا، اس کی عبادت ممکن نہیں ہوسکتی۔ انہی کے ذریعے خدا پہنچانا جاتا ہے اور لوگ اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر امام نہ ہوتو خالق و مخلوق کا رابطہ منقطع ہوجائے گا۔

کیونکہ انسان میں فیاض علی الاطلاق سے فیضیاب ہونے کی توانائی نہیں(۴) ہے لہذا اشرافات و افاضات عالم غیب پہلے امامؑ کے پاک و پاکیزہ آئینہ قلب پر نازل ہوتے ہیں پھر ان کے ذریعے لوگوں تک منتقل ہوتے ہیں۔

امام، قلب عالم وجود اور رہبر و مربی نوع انسان ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعے فیوضات الٰہی جہان آفرینش تک پہنچتے ہیں۔ قانون لطف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خداوند عالم کے کچھ لائق و فائق اور شائستہ افراد اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے چاہییں۔ عظیم الشان پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے برحق جانشینوں نے اس اہم ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے وادی ضلالت میں بھٹکنے والوں کو شاہراہ سعادت پر گامزن کرنے کے لیے مشعل راہ بن گئے ہیں ۔ لہذا ان آثار کے مترتب ہونے میں امام زمانہ (عج) کے حضور و غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ائمہ علیہم السلام چاہے حاضر ہوں یا غائب، وہ ہر صورت میں واسطہ فیض الٰہی ہیں، ان کی غیبت میں بھی وہی منافع موجود ہیں جو ان کے حضور میں پائے جاتے ہیں۔(۵)

اس اشکال کا منشا و اساس کہ امام غائب سے کس طرح نفع حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ در حقیقت اس کی بنیاد امام کی عدم معرفت اور معنائے ولایت کی حقیقت کو نہ سمجھنا ہے۔ امام قطب عالم امکان ہے۔ تمام موجود چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے سب وجود امام کے محتاج ہیں۔ امام، منبع فیض الٰہی سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ امام معصوم ؑ کی امامت وولایت عالم تکوین و عالم تشریع اور اسی طرح ظاہر و باطن میں جاری و ساری ہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام زیارت جامعہ کبیرہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

"بِکم یُنزِلُ الغیث و بکم یمسک السماء أن تقع علی الارض الّا باذنه ؛(۶) آپ (ائمہؑ) ہی کے وجود کی وجہ سے بارش نازل ہوتی ہے اور آپ حضرات ہی کی وجہ سے آسمان زمین پر نہیں گررہا ہے۔

یاد رہے کہ کاروان حیات آگے بڑھانے میں امام کے مقدس وجود کا محتاج ہے ۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

"ارادہ الٰہی اس امر پر مبتنی ہے کہ ہر سال ایک ایسی رات قرار دے جس میں فرشتے تنظیم امور کے لیے زمین پر نازل ہوں اور خداوند اس سے بزرگ و برتر ہے کہ روح اور فرشتوں کو کافر یا فاسق کے پاس نازل کرے۔"(۷)

نتیجتاً تمام مخلوقات عالم کی حیات و زندگی امامؑ کے وجود سے وابستہ ہے۔ دعائے عدیلہ میں آیا ہے کہ :

"بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء "(۸) اِنھیں کے صدقے میں سب رزق پا رہے ہیں اور انھیں کے وجود سے زمین و آسمان قائم ہیں۔

نیز اسی سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:"لو بقیت الارض یوما بلا امام منّا لساخت الارض بأهلها ؛(۹) اگر ہم میں سے ایک دن کے لیے بھی روئے زمین پر امام موجود نہ ہوتو زمین اپنے تمام اہالی کے ساتھ تباہ ہوجائے گی۔

زمانہ غیبت میں وجود امام عصر(عج) کے فوائد کے بارے میں دینی پیشواؤں اور ہادیان برحق کی جانب سے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں مثلاً ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد پاک ہے:

"وَالذی بَعَثَنیِ بِلْحَقِّ نَبِیّا إِنَهُم یَستَضِیئُونَ بِنُورِه و یَنتفعون بولایته فی غیبته کانتفاع الناس بالشمس اذا سترها سحاب یا جابر! هذا من مکنونِ سرالله و مخزونِ علمه، ‏فَاۡکتُمه الاّعن أهله ؛(۱۰) اس خدا ئے پاک کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ معبوث کیا ہے، یہ لوگ ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے اسی طرح فیضیاب ہوں گے جس طرح لوگ بادلوں کے پیچھے سورج کے چھپ جانے کے بعد اس سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں ۔ اے جابر! یہ اللہ کے پوشیدہ اسرار اور پنہان علوم میں سے ہے اور تم بھی اسے نااہل لوگوں سے مخفی رکھنا۔

نیز ائمہ معصومین علیہم السلام سے مزید کئی ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جن کا مضمون ایک ہی ہے اور ان تمام احادیث میں زمانہ غیبت میں امام کے وجود کو پس ابر سورج سے تشبیہ دی گئی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت نقل فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا:

"ہم مسلمانوں کے پیشوا، اہل عالم پر حجت، سادات مومنین، نیکو کاروں کے رہبر اور امور مسلمین کے صاحب اختیار ہیں۔ جس طرح ستارے اہل آسمان کے لیے امان ہیں اسی طرح ہم اہل زمین کے لیے امان ہیں۔ ہماری ہی وجہ سے آسمان زمین کے اوپر نہیں گررہا ہے، مگر جب خدا چاہے۔ باران رحمت حق ہماری وجہ سے نازل ہوتی ہے اور زمین سے برکات نکلتی ہیں۔ اگر روئے زمین پر ہمارا وجود نہ ہوتا تو زمین اپنے ساکنان کو اپنے اندر سمیٹ لیتی، پھر فرمایا: خدا وند عالم نے جب سے آدم ؑ کو خلق فرمایا ہے اس سے آج تک کبھی بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی؛ لیکن وہ حجت خدا کبھی ظاہر و مشہود اور کبھی غائب و مستور ہوتی ہے اور اسی طرح تاقیام قیامت زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہ رہے گی۔ اگر امام نہ ہوتو خدا کی پرستش نہیں ہو سکتی، سلیمان کہتے ہیں۔

میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: "لوگ کس طرح امام غائب کے وجود سے بہرہ مند ہوں گے؟ فرمایا: جس طرح پس ابر سورج کے وجود سے فیضیاب ہوتے ہیں۔"(۱۱)

اس روایت اور چند دیگر روایات میں حضرت صاحب الامر کے مقدس وجود اور آپ سے فیضیاب ہونے کو پس ابر سورج سے تشبیہ دی گئی ہے؛ یعنی اگرچہ بادلوں کی وجہ سے زمین تک سورج کی روشنی نہیں پہنچتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے فیضان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا اور اہل زمین اس کے وجود سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔

اس تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ علم طبعیات و فلکیات میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سورج منظومہ شمسی کا محور ومرکز ہے۔ اسی کی قوت جاذبہ زمین و دیگر سیارات کی محافظ ہے اور انہیں درہم و برہم ہونے سے بچاتی ہے۔ سورج زمین کو اپنے گرد محور پر گھماتا رہتا ہے، دن رات اور موسم ایجاد کرتا ہے، اس کی حرارت ہی نباتات ، حیوانات اور انسانوں کی زندگی کا سبب ہے، اس کا نور زمین کو روشنی عطا کرتا ہے۔ سورج کے یہ فوائد ہمیشہ باقی رہتے ہیں چاہے وہ بادلوں کے پیچھے موجود ہو یا بالکل ظاہرو عیاں ہو، چاہے دن ہو چاہے رات۔

پس امام علیہ السلام کہ جن کا وجود مبارک قلب عالم اِمکان کی طرح مربی اور ہادی تکوینی ہے آپ کے مقدس وجود کو سورج سے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ ان آثار کے مترتب ہونے میں آپ ؑکے حضور و غیبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پس جس طرح خورشید عالم تاب کچھ وقت کے لیے پس ابر چلے جانے کے بعد بھی حافظ جہان ہوتا ہے اور اس کے قوت جاذبہ کے سائے میں کائنات اپنی زندگی کو رواں دواں رکھتی ہے اور تباہی سے محفوظ رہتی ہے، اسی طرح اگرچہ لوگوں کی ان تک دسترسی نہیں ہے لیکن ان کے عظیم فیوضات ہمیشہ اہل کائنات کے شامل حال رہتے ہیں، کائنات اپنی بقاء کی راہ کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے، آسمان زمین پر نہیں گررہاہے اور زمین اپنے ساکنون کو نہیں نگل رہی ہے۔

علامہ مجلسیؒ نے اس حدیث شریف کی درجہ ذیل مفید توضیحات پیش کی ہیں:

۱ ۔ مخلوقات عالم کو نور وجود و علم و ہدایت انہی کے واسطہ سے عطا ہوتاہے ، کیونک مستضیفہ روایات کے ذریعے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات کائنات کے وجود کی علت غائی ہیں۔ پس اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو کائنات نور ہستی سے محروم رہتی بلکہ انہی کی برکت اور توسل کے سبب علوم و معارف مخلوقات پر آشکار ہوتے ہیں اور ان سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ بنابریں اگر ان کا دخل نہ ہوتا تو لوگ اپنے برے اعمال کی وجہ سے مختلف قسم کے عذاب میں گرفتار ہو جاتے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد پاک ہے:( ما کان الله لِیُعَذِّبَهم و انت فیهم ) ۔

تجربہ بتاتا ہے کہ جب مشکلات نے ہر طرف سے گھیر لیا، معاملات الجھ کر رہ گئے اور خداوند تعالیٰ سے دور گئے اور ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر رحمت کے دروازے بند ہوگئے۔تو ہم نے انہیں بارگاہ خداوندی میں اپنا شفیع قرار دیا اور ان کے نور مقدس سے متوسل ہوگئے تو معاملات کی گتھی سلجھ گئی اور خداوندعالم نے جس کے قلب کو نور ایمان سے منور کر دیا ہے وہی اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کو دیکھتا ہے ، جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

۲ ۔ جس طرح لوگ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے استفادہ کرتے ہیں اور بادلوں کے ہٹ جانے کا انتظارکرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سورج سے فیضیاب ہو سکیں، اسی طرح حقیقی منتظرین اور ان کے مخلص شیعہ آپ کی غیبت کے زمانے میں انتظار کرتے ہیں تاکہ جیسے ہی آنجناب ظہور فرمائیں تو وہ زیادہ سے زیادہ آپ کے مقدس وجود سے بہرہ مند ہوسکیں۔

۳ ۔ جو شخص زمانہ غیبت میں آنجنابؑ کا انکار کرے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو پس ابر موجود سورج کا انکار کرے۔

۴ ۔ جس طرح بادلوں کے پیچھے سورج کا چھپنا بھی لوگوں کے لیے مفید ہوتا ہے اسی طرح کبھی آپؑ کے ظہور کی نسبت آپ کی غیبت لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

۵ ۔جس طرح جب سورج کے سامنے بادل نہ ہوں تو براہ راست اس کی طرف نگاہ کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات نابی نا ہونے کا سبب بھی ہوسکتا ہے، اسی طرح دیکھنے والے کی عدم قابلیت کی وجہ سے وہ آنجنابؑ کے خورشید وجود کے حق کی نسبت نابی نا ہوجائے۔

۶ ۔ کبھی سورج پس ابر سے نمایا ہوتا ہے تو بعض لوگ اسے دیکھتے ہیں اسی طرح بعض افراد زمانہ غیبت میں بھی انہیں دیکھتے ہیں اور ان کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔

۷ ۔ یہ حضرات خورشید کی مانند سب کو فائدہ پہنچاتے ہیں پس جو شخص نابی نا ہے وہی ان سے بہرہ مند ہونے سے عاجز ہے۔ خداوند متعال کا ارشاد پاک ہے:( وَمَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً ) (۱۲) اور جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا۔

۸ ۔ جس طرح سورج کی کرنیں مکان میں موجود کھڑکیوں کی تعداد و مقدار کے حساب سے داخل ہو کر اسے نور اور انرجی فراہم کرتی ہیں اسی طرح لوگوں کا خانہ دل جتنا زیادہ خواہشات نفسانی و جسمانی کے حجاب سے دور ہوگا اور جتنے زیادہ معرفت الٰہی کی جانب کھڑکیاں اور دریچے کھلے ہوں گے انسان اتنا ہی زیادہ ان حضرات کے نور ہدایت سے بہرہ مند ہوگا لہذا اگر انسان معرفت میں حائل حجابات و موانع کو دور کردے تو اس معنوی بہشت کے آٹھ دروازے اس پر کھل جائیں گے اور وہ براہ راست ان کی ولایت و ہدایت کی تمام شعاعوں سے بہرہ مند ہوسکے گا۔(۱۳)

پس بنابریں پروردگارعالم حضرت حجتؑ کے سبب انسانوں پر اپنے فیوضات کے سلسلہ کو منقطع نہیں کرتا۔ لہذا یہی وہ مقام ہے کہ جہاں آنجنابؑ کی سورج سے تشبیہ کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ پیشوایان دین کی وہ تعبیر بھی اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

"لو لاالجة لساخت الأرض بأهلها ؛اگر ایک لحظہ بھی روئے زمین پر حجت خدا نہ ہوتو زمین اپنے اہالی کے ساتھ برباد ہوجائے۔

یہ حقیقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہونے والی ان کثیر روایات میں بیان کی گئی ہے جن میں انہوں نے نظام ہستی کی بقا میں حجج الٰہی کا کردار بیان کیا ہے۔

رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

"انّی وَأحَد عشر من ولدی وانت یا علی! زرّالارض اعنی اوتادها وجبالها، ‏بنا اوتدالله ان تسیخ بأهلها فاذا ذهب الاثنا عشر من ولدی ساخت الارض بأهلها ولم یُنَظروا ؛(۱۴) اے علی میں، میرے گیارہ فرزند اور تم زمین کے لنگر ہو خداوند عالم نے ہمارے ہی سبب زمین کو استوار کیا ہے کہ اپنے ساکنان کو نگل نہ جائے، جب میرے بارہ فرزند زمین سے رخصت ہوجائیں گے تو زمین اپنے ساکنان کو سمیٹ لے گی اور پھر انہیں مہلت نہ دی جائے گی۔

اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں پیش کردہ خطبہ میں فرماتے ہیں:

"معاشرالناس! کأنّی ادعی فأجیب و اِنّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ما ان تمسکم بهما لن تضلّوا فَتَعلّموا منهم و لاتُعِلّموهم فانّهم اعلم منکم لا تخلوا الارض منهم ولو خلت اذاً لساخت الارض بأهلها ؛(۱۵) اے لوگو! گویا مجھے عنقریب پروردگار کی طرف سے دعوت دی جائے گی اور میں اس دعوت حق پر لبیک کہہ دوں ۔ میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اہل بیت ، اگر تم لوگ ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ دیکھو! ان سے سیکھتے رہنا اور انہیں سکھانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ یہ تم سے زیادہ عالم و دانا ہیں۔ روئے زمین کبھی ان سے خالی نہیں رہے گی اور اگر خالی ہوگئی تو اپنے تمام ساکنان کو نگل جائے گی۔

حضرت صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:" ان الارض لا تخلوا ساعة من الحجة ؛ زمین حتی ایک گھنٹہ بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔"(۱۶)

امام ؑ غائب کے خصوصی فوائد

پس جس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امام غائب کے وجود کے کچھ ایسے عمومی فوائد ہیں جن سے کل ہستی بہرہ مند ہو رہی ہے اسی طرح ہم آنجنابؑ کے وجود کے کچھ ایسے خصوصی فوائد بھی بیان کریں گے جو صرف بعض افراد کے شامل حال ہوتے ہیں اور ان کے ان فوائد سے ہر کس و ناکس بہرہ مند نہیں ہوسکتا۔ فوائد خصوصی کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ قسم ہے جن سے لوگوں کی ایک خاص نوع مستفید ہوتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جن سے صرف مخصوص لوگ ہی فیضیاب ہوتے ہیں:

امام غائب کے حضور و وجود کا نوعی فائدہ یہ ہے کہ شیعوں پر آپ کی مکمل نظررہتی ہے ، امام غائب مخفیانہ طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں، انہیں شر اشرار و کید کفار و فجار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ سری اور غیر مستقیم طور پر ظالموں کی منصوبہ بندی و پلاننگ کو ناکام اور خائین کے مکاریوں کو درہم برہم کردیتے ہیں۔

شیخ مفید ؒ کے لیے صادر کردہ توقیع شریف میں خود آنجناب نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

"اگرچہ ہم اپنے اور اپنے شیعوں کے بارے میں خدائے تعالیٰ کی صلاح دید کی پابندی کی وجہ سے اس وقت تک ایسے مقام پر رہنے پر مجبور ہیں جو ظالمین کی دسترسی سے دور ہے، جب تک حکومت دنیا فاسقین کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود ہم تمہارے حالات سے واقف ہیں اور تمہاری کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ہم نہ تم سے غافل ہیں اور نہ تمہیں فراموش کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مصائب و آلام کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑتے اور دشمن تمہیں تارتار کر کے نابود کر دیتے ۔ پس تقویٰ اختیار کرو اور اپنی نجات کے لیے ہماری مدد کرو۔(۱۷)

جبکہ وہ فوائدخصوصی جو صرف بعض افراد کو حاصل ہوتے ہیں یا کوئی شخص توسل کے ذریعے ان سے بہرہ مند ہوجاتا ہے یا کسی شخص پر آنجنابؑ کی خاص عنایت کی وجہ سے وہ ان فوائد سے بہرہ مند ہوجائے جیسے بینوا لوگوں کی فریاد رسی، بھٹکے ہوئے کی راہنمائی، غرق ہونے والوں کو نجات، اذن خدا سے بیماروں کو شفادنیا، مقروض قرض کی ادائیگی، اسیروں کی زندان و قیدخانوں سے نجات اور دشمنوں کے شر سے نجات دلانا۔

یہ ایسے امور ہیں جنہیں کبھی آنجناب خود بنفس نفیس انجام دیتے ہیں اور کبھی اپنے اعوان و انصار کے ذریعے انجام دیتے ہیں۔ جن موارد میں آپؑ خود وظیفہ انجام دیتے ہین۔ وہاں غالباً مخفی طور پر انجام دیتے ہیں اور اگر عیاں اور ظاہر ہوتے ہیں تو ناشناس صورت میں انجام دیتے ہیں کہ وہ شخص بعد میں متوجہ ہوتا ہے کہ اس کی مدد کرنے والے آپؑ تھے۔ ممکن ہے کہ کبھی یہ امور آپؑ بربنائے مصلحت دشمنوں کے لیے بھی انجام دے دیں مثلا ان کی ہدایت کے اسباب کے طور پر یا اپنے چاہنے والوں پر ظالمین کے ظلم و ستم میں کمی اور تخفیف کے لیے انجام دیتے ہیں۔

بہرحال زمانہ غیبت میں امام عصر(عج) کے حضور مشرف ہونے والوں کی تعداد کم نہیں ہے اور ان کے حالات زندگی مختلف کتابوں میں ثبت شدہ ہیں۔

____________________

۱۔ شرح مقاصد، ج۵، ص ۲۳۹؛ تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمدؑ، ص ۱۶۶، ینابیع المودۃ، ص ۴۸۳؛ المسند للامام احمد، ج ۱۳، ص ۸۸؛ الکافی، ج ۱، ص ۴۲۵، ح ۹۷۰۔

۲۔ سورہ بقرہ(۲) آیت: ۳۔

۳۔ ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل، فضائل الصحابہ، ج ۲، ص ۶۷۱، ح ۱۱۴۵؛ فرائد المسطین، ج ۲، ص ۲۵۲ - ۲۵۳، ح ۵۲۲؛ طبری، ذخائر العقبی، ص ۴۹، ج ۶، ص ۱۱۶۔

۴۔ ابراہیم امینی، دادگسترجہان، ص ۵۵۔

۵۔ سید رحمت اللہ موسوی، منجی حقیقی، ص ۱۶۹۔

۶۔ مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ۔

۷۔ الکافی، ج ۱، ص ۲۵۳۔

۸۔ مفاتیح الجنان، دعائے عدیلہ۔

۹۔ کمال الدین، ج ۱، باب ۲۱، ح ۱۴؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۳۷۔

۱۰۔ ینابیع المودۃ، ص ۴۲۲؛ کمال الدین، ج ۱، ص ۳۵۳؛ بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۹۲۔

۱۱۔ ینابیع المودہ، ج ۲، ص ۲۱۷؛ فرائد المسطین، ج ۱، ص ۴۵؛ احتجاج طبرسی، ج ۲، ص ۳۱۷؛ بحارلانوار، ج ۲۳، ص ۵۔

۱۲۔ سورہ اسراء(۱۷) آیت: ۷۲۔

۱۳۔ بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۹۳۔

۱۴۔ شیخ طوسی، الغیبۃ، ص ۱۳۹، ح ۱۰۲۔

۱۵۔کفایۃ الاثر، ص ۱۶۳؛ ینابیع المودہ، ج ۱، ص ۷۵ و ج ۳، ص ۳۶۰۔

۱۶۔ کمال الدین، ج ۱، باب ۲۱، ح ۷؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۳۴۔

۱۷۔ الاحتجاج طبرسی۔