پانچواں باب:
بعض شبہات و سوالات کے جوابات
آغاز کلام
جس سوال کو ہم اس فصل کا آغاز کلام قرار دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں عقیدہ مہدویت میں سب سے پہلے شک و شبہہ ایجاد کرنے اور اس کا انکار کرنے والا کون ہے؟
تاریخ و کتب احادیث کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان کو پہلا وہ شخص قرار دیا جاسکتا ہے جس نے عقیدہ مہدویت میں شک اور اس کا انکار کیا ہے۔ تاریخی منابع میں وارد ہوا ہے کہ معاویہ نے ایک دن بنی ہاشم کی ایک جماعت سے مخاطب ہو کر کہا:
"تمہارا یہ گمان ہے کہ بادشاہ ہاشمی و مہدی قائم تم میں سے ہے بالکل باطل ہے، بلکہ مہدی و ہی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہے۔ یاد رکھو! امر خلافت ہمارے ہاتھوں میں رہے گایہاں تک ہم اسے یہ امر سپرد کریں گے۔"
اس موقع پر ابن عباس بھی وہاں موجود تھے، وہ اس تاریخی تحریف اور اسلامی عقیدہ کے ساتھ کھیل کرنے پر سخت آشفتہ ہوئے اور معاویہ سے کہنے لگے:
"اے معاویہ !تو یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا وہم و گمان ہے کہ ہمارے لیے حکومت ہے کہ مہدی جس کے حاکم ہوں گے ۔ تو سن گمان شرک ہے جیسا کہ خداوند متعال کا فرمان ہے:(
زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا
)
؛ان کفار کا گمان یہ ہے کہ انہیں دوبارہ اٹھایا نہیں جائے گا، حالانکہ سب ہی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بہرحال ہمارے لیے ملک و حکومت ہے۔ اگر عمر دنیا میں سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تب بھی خداوند عالم، ہم میں سے ایک شخص کو بھیجے گا تاکہ وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
اور تیرا یہ کہنا کہ مہدی ، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں؛ تو سن عیسیٰؑ، دجال سے مقابلہ کے لیے بھیجے جائیں گے اور جب دجال کا ان سے سامنا ہوگا تو وہ نابود ہوجائےگا۔ لیکن ہم میں سے امام وہ شخص ہے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام جس کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے"
ہم اس حصہ میں پہلے مہدویت اور غیبت امام عصر علیہ السلام کے بارے میں وارد کئے جانے والے چند شبہات اور پھر کچھ سوالات اور اُن کے جوابات پیش کریں گے۔
پہلی فصل: شبہات
اس فصل میں ہم چند ایسے شبہات پیش کررہے ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں نے وارد کئے ہیں، ہم نے انہیں تین قسموں میں تقسیم کرکے انہیں نقد کیا ہے۔ بعض شبہات کا تعلق عقیدہ مہدویت و غیبت سے ہے؛ بعض مصداق و اسم حضرت مہدیؑ سے معلق ہیں اور بعض آنجنابؑ کے طول عمر سے مربوط ہیں۔ اسی لیے ہم نے انہیں تین مراحل میں بیان کیا ہے:
شبہات کی پہلی قسم: عقیدہ مہدویت کا سرچشمہ او رتاریخچہ
۱ ۔ شبہ خرافات
مغرب سے تعلق رکھنے والے بعض مستشرقین اور مشرق سے تعلق رکھنے والے ان کی افکار کے مقلدین کے کثیر التعداد آثار میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ مستقبل میں قیام موعود اور ان کے انتطار کو خرافات اور کہانی قصوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تصور بھی الف لیلہ کی طرح لوگوں کے ذوق خیال کا نتیجہ ہے یا جس طرح عدد تیرہ ۱۳ کی نحوست مشہور ہے اسی طرح یہ بھی لوگوں کے توہمات و شایعات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ، پھر آہستہ آہستہ کوچہ و بازار میں لوگوں کی زبان زد ہو کر سینہ بہ سینہ ایک دوسرے سے نقل ہوتا رہا ہے اور یوں یہ قوموں کے درمیان مضبوط ہوگیا ہے۔ ورنہ اس عقیدہ کی کوئی حیثیت و حقیقت نہیں ہے۔
اگر ان مغربی و مشرق اہل قلم کے اس عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ تھوڑا بہت ارفاق و ملائمت سے کام لیا بھی ہے تو اس کے بارے میں اتنا کہا ہے کہ یہ عقیدہ ظلم و استبداد کی وجہ سے مظلوم و پسی ہوئی قوم نے اپنے دل کو آرام بخشنے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے عقیدہ مہدویت کے الٰہی و آسمانی ہونے کا یکسر انکار کیا ہے، یہ لوگ اسے بشری ساخت و پرداخت ہی قرار دیتے ہیں۔
ہم یہاں ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ترین مستشرقین کی شبہہ آمیز و اشکال انگیز عبارات پیش کر رہے ہیں:
۱ ۔ جیمز ڈارمسٹیٹر James Darmsteter ( ۱۸۴۹
–
۱۸۹۴)
"نہایت کم وقت میں آدھے ایرانیوں نے اپنے مذہب شاقہ اور سخت قوانین سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کر لیا، لیکن انہوں نے اپنے اساطیر ایرانی کو اسلام میں ضم کر دیا
یہ پہلا واقعہ تھا کہ جس کی بدولت ایک مشہور افسانہ جو علم اساطیر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اسلام میں داخل ہوگیا اور وہ افسانہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایک قہرمان کے مرنے کے بعد یہ خیال کرنے لگے کہ وہ منتظر ہے یہاں تک کہ اس کے ظہور کا وقت آپہنچے۔ یہ داستان آریا قوم مخصوصاً ایرانیوں کا پسندیدہ افسانہ ہے
فرانسویوں کی قدیم انقلابی فکر اور مسلمانوں کے درمیان فکر مہدویت ان دونوں کا ایک ہی منشا و منبع ہے، البتہ ہمارے یہاں اسے عرف عام کی حیثیت حاصل ہے جبکہ اسلام میں شرعی حیثیت کا حامل ہے یہ دونوں گروہ حقیقت امر سے غافل ہیں اور دونوں غیر طبیعی امیدوں سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔"
۲ ۔ فین فلوٹن ( ۱۸۶۶- ۱۹۰۳)
بنی عباس کا ظلم و ستم ان کے ابتدائی قیام ہی سے بنوامیہ کے آشفتہ نظام سے کمتر نہ تھا، اس لیے لوگ ظہور مہدی کے عقیدے سے متمسک ہونے لگے اور اس طرح وہ اس نئے نظام کے ظلم و ستم سے نجات کے خاطر ان کے ظہور کے مشتاق ہوگئے۔"
۳ ۔ ایگناز گلدزیر Ignaz Goldziher ( ۱۸۵۰
-
۱۹۲۱)
پرہیزگار مسلمانوں کے درمیان یہ عقیدہ (مہدویت) اور اس میں پوشیدہ ارمان و آرزوئیں ، صمیم قلب سے اٹھنے والی اس آہ سوزاں کی مانند ہے جس کی علت شدت غم و اندوہ اور انتظار کی کیفیت ہے اور یہ غم و اندوہ انتظار اور اس میں جوش و خروش سیاسی و اجتماعی حالات کی سختیوں کی وجہ سے رونما ہوئے
علاوہ بر ایں یہ لوگ معاشرے کی حقیقت ( Realogy ) کو اپنے ایمان و تقویٰ کے تصور( Idealogy ) میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لہذا ن کے اس تصور و امید میں ظہور مہدی کے خیال نے خاطر خواہ مدد کی ہے
پس قیام مہدی کے تصور میں رفتہ رفتہ اس طرح تبدیلیاں واقع ہوئیں کہ عقیدہ مہدویت گویا امید آباد میں تبدیل ہوگیا اور صاحبان ایمان کو دور و دشوار مستقبل کی طرف دھکیل دیا گیا اس طرح اس میں ہمیشہ تعجب آور خرافات و افسانوں کی آمیزش ہوتی رہی "
۴ ۔ ڈوایٹ دونالڈسن
"سر زمین اسلامی میں مساوات اور عدل کے قیام میں اموی حکومت کی واضح ناکامی کو قطعی طور پر عقیدہ مہدویت کی پیدائش کا ایک اہم سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔"
مسلمان مستشرقین میں بھی بعض ایسے اہل قلم دیکھے جاسکتے ہیں جو مغربی مستشرقین کی افکار سے متاثر نظر آتے ہیں یا انہوں نے اپنے خاص اہداف کے حصول کے لیے ان کے نظریات کو وسیلہ قرار دیا ہے۔
ذیل میں چند مسلم مستشرقین کے نظریات پیش کئے جار ہے ہیں:
۱ ۔ احمد کسروی ( ۱۹۴۵)
"عقیدہ مہدویت ایک افسانہ ہے کہا جاتا ہے کہ دیگر ادیا ن میں بھی ایک منجی کے منتظر پائے جاتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ وہ بھی افسانہ ہے۔"
۲ ۔ احمد امین مصری ( ۱۹۵۴)
"داستان مہدی ایک خرافاتی افسانہ ہے کہ جس نے لوگوں کی فکروں کو ایک قصہ کے ساتھ مدغم کر دیا ہے اور جس کی وجہ سے بہت روایات تیار کر لی گئی ہیں اس کے علاوہ اس عقیدے نے لوگوں کی گمراہی اور اوہام پذیری میں بہت سے غلط اثرات مرتب کئے ہیں مثلاً تاریخ اسلام میں بہت سے پئے در پئے انقلابات اسی عقیدے کی دین ہیں کہ جسے عقیدہ مہدی کہا جاتا ہے۔"
علاوہ بریں سعد محمد حسن اپنی کتاب"المہدیۃ فی الاسلام"
عبداللہ بن زید آل محمود اپنی کتاب "لامهدی ینتظر بعد الرسول خیر البشر
"
میں اور بہت سے دیگر افراد نے بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے۔
رفع شبہ:
ہم اس قسم کے شبہات کے جوابات دینے سے قبل مسلمانوں کے اذہان میں ایسے شبہات ڈالنے والے محققین کے اسباب و اہداف پر مختصر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتے ہیں۔
شبہ کے علل و اسباب
اگرچہ مستشرقین کے آثار و افکار میں بعض جدید نکات پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کے یہ آثار کجی روی، کمی کاستی اور نادرستی مطالب کا شکار ہیں اور اس کی وجہ ذیل میں ذکر شدہ علل و عوامل کو قرار دیا جاسکتا ہے:
الف) اسلام کی نسبت ان کے فکر و ذہن کی تیرگی و آشفتگی، ان محققین نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، جن گھروں میں ان کی پرورش کی گئی ان کے اسکول و مدارس کا ماحول، خصوصاً اردگرد کے ماحول اور کینہ وکلیسا وغیرہ کے ذریعے ان کے ذہنوں کی تربیت کی گئی ہے اس کی وجہ سے اسلام کے بارے میں ان کی فکر و نظر مثبت نہیں ہے۔
ب) مغربی استعماری حکومتوں کی جانب سے رسمی طور پر بعض افراد کی ماموریت و تعیناتی یا کم از کم ان کی مالی و معاشرتی مشکلات کو حل کرکے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ تحقیقات انجام پاتی ہیں۔
ج) اصیل و معتبر منابع خصوصاً شیعہ منابع کی طرف رجوع نہ کرنا، نیز ضعیف و صحیح اقوال اور غیر مستند و مستند اخبار و روایات میں خلط کرنا۔
د) تعابی ر و اصطلاحات نصوص اور مصادر اسلامی کے فہم و فراست میں ضعف و ناتوانی اور اشتباہات ، خصوصاً ایسے موارد میں جبکہ وہی الفاظ یا ان جیسے الفاظ مغربی تہذیب و فلسفہ یا مسیحی کلام و عرفان میں دوسرے معنی و مفہوم میں استعمال ہوئے ہوں۔
ہ) ان صاحبان قلم کا اپنی جیسی تالیفات پر اعتماد اور ان سے نسخہ برداری کرنا، جس کی بنا پر ایک شخص کی عمداً یا سہواً غلطی کے برسہا برس تکرار ہونے کا سبب مہیا ہوا ہے۔
عقیدہ مہدویت کے عوامل
عقیدہ مہدویت فطری و طبیعی ہے
مستشرقین کی جانب سے پیدا کئے گئے شبہات کے عوامل و اسباب جاننے کے بعد ہم ان کے اولین شبہہ کے جواب میں یہ کہنا چاہیں گے کہ یہ عقیدہ مہدویت افسانہ اور خرافات کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری و طبیعی عقیدہ ہے۔
انسان عام طور پر اپنی عمیق فطرت و طبیعت کی بنا پر ایک عادل اور منصف رہبر چاہتا ہے اور عدالت پر مبنی حکومت کا خواہاں ہے تاکہ اس کے ذریعہ رخسار زمین سے تیرگی کا خاتمہ کرکے لوگوں کو وحدت وکمال تک پہنچا دے۔ صاحبان عقل و شعور کے وجود اور عمق روح میں موجود یہ عظیم چاہت ان لوگوں کے باطل تصور پر مہر ابطال ہے جو عقیدہ مہدویت کو خیالات وتوہمات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
انسان فطری طور پر چند چیزوں کا خواہش مند ہے:
الف) کمال پرستی
مشاہدہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ برکات طبیعی ، نعمات زندگی اور کمالات وجودی سے افراد بشر یکساں طور پر بہرہ مند نہیں ہیں لیکن ان میں سے ہر شخص جس حد تک بھی دانائی و دارائی، بینائی و گویائی، زیبائی و توانائی اور نیک بختی و تندرستی حاصل کر لیتا ہے اس کے بعد بھی ہل من مزید کہتا ہوا نظر آتا ہے اور اس سے زیادہ اور بالاتر کی جستجو کرتا رہتا ہے۔
یہ حالت و کیفیت انسان کے اندر موجود ایک اہم بعد کی نشاندہی کرتی ہے کہ جسے کمال پرستی و تکامل طلبی کہا جاتا ہے۔ رفعت و ثروت، قدرت و شہرت، بصیرت و معرفت اور سلامتی و سعادت حاصل کرنے کے لیے انسان کی یہ تمام ترتلاش و کوشش اسی تغییر ناپذیر فطرت کی وجہ سے ہے۔
عصر حاضر کے مشہور فلسفی و تمدن شناس ویل ڈورنیٹ کا کہنا ہے:
"مدینہ فاضلہ وکمال مطلوب کی جانب کشش ہمارے خون میں شامل ہے اور یہ ہمیں خاموش نہیں بیٹھنے دے گی مگر یہ کہ رشد و حرکت سے قطع نظر کر لیں۔"
ب) عدالت خواہی
انسان کی فطرت متین و طبیعت راستین ہمیشہ ایسے وقت و حالات کی خواہاں ہے جس میں حق وعدالت حاکم اور ظلم وجور محکوم ہو۔ انسان کے اندر موجود اس عمومی آرزو کو آپ مندرجہ ذیل عبارت میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
روس کے معروف اہل قلم اور ۱۹۸۷ میں ادبیات کے موضوع کے تحت نوبل انعام یافتہ یوزف برودسکی موجودہ صدی کے آخری عشرے کے بارے میں اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:
"انسانی فکر غیر معین عالم یا رائج اصطلاح کے مطابق "مدینہ فاضلہ" کی طرف مائل ہونے کی طرف نشاندہی کر رہی ہے ظاہراً آئندہ دس سالوں میں ایسا معاشرہ وجود میں آجائے گا جس میں آج کی نسبت عدل و انصاف زیادہ ہوگا۔"
ج) نیاز امنیت:
روئے زمین پر انسان کی زندگی ابتدائے زمانہ ہی سے انواع و اقسام کے خطرات و صدمات سے دچار رہی ہے۔ انسان نے اپنی ہم نوع کے متعددحملات کی وجہ سے اپنی زندگی کے عزیز و لذیذ اور حسین ترین لمحات خوف و ہراس کے عالم میں گذارے ہیں۔ اس لیے اس نے ان خطرات سے نمٹنے اور اپنی حفاظت کے لیے بہت سے محل، قلعے اور برج تعمیر کئے اور متعدد محافظ و نگہبان تعینات کئے۔ عصر حاضر کے معروف ماہر حیاتیات ڈاکٹر الکیس کارل جیسے دنیا کے مشہور دانشمند بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پرامن و اطمینان بخش زندگی تمام زندہ موجودات خصوصاً انسان کی زندگی کی فطری حاجت بلکہ طبیعی حقوق کا حصہ ہے۔
گذشتہ امتوں اور اقوام کی بشارتوں میں وارد ہوا ہے کہ موعود آخر الزمان کے زمانہ ظہور میں ہر طرف امن و امان ہوگا کیونکہ چور و راہزنوں کا خاتمہ ہوجائے گا، جنگ و جدال ختم ہوجائیں گے، زمین اپنی برکتیں باہر نکالے گی، آسمان سے نعمتوں کا نزول ہوگا، درندوں کو چرندوں سے کوئی سروکار نہ رہے گا، حکومت اپنی قوم و ملت اور رعیت کے ساتھ رفیق شفیق اور طبیب لبیب کا برتاؤ کرے گی۔ پس جو شخص بھی عقل و شعور اور خرد و وجدان کی بنیاد پر غور وفکر کرے یقیناً دل و جان سے اس زمانہ کی آرزو کرے گا۔
مذکورہ ارکان کے علاوہ بھی عقیدہ مہدویت کے اور بہت سے فطری ارکان پائے جاتے ہیں لیکن صاحبان فہم و اہل تحقیق حضرات پر انہی مطالب کے بیان سے یہ بات روشن و مبرہن ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شروع ہی سے انسان کی عمیق فطرت میں زندہ و جاوید رہا ہے، اسی لیے اس زمانہ کا انتظار ہر دور اور ہر جگہ پر پایا جاتا ہے۔
اس فطری کشش اور غریزی رجحان کا تذکرہ شیعہ اور اہل سنت کے مصادر روائی میں بھی پایا جاتا ہے بطور نمونہ یہاں صرف دو روایات پیش کی جارہی ہیں۔
ابو سعید خدری نے پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت کی ہے:
"یأوی إِلی المهدی اُمَّتُه کما یَأوِی النَّحلُ إلی یَعسوِبها یملأُ الأرضَ عدلاً
...؛
حضرت مہدی ؑ کے پیروکار اس طرح ان کے سائے میں پناہ حاصل کریں گے اور ان سے ملحق ہوجائیں گے جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کے سائے میں پناہ حاصل کر لیتی ہیں، وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے"
ابراہیم بن مہریار اہوازی نے حضرت ولی عصر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنجنابؑ نے فرمایا کہ میرے والد نے فرمایا:
"یا بنی اِنّ قلوبَ اهلِ الطاعة و الإخلاص نُزَّعٌ الیک مِثلَ الطیر الی اَوکارِها
...؛
اے میرے لعل یہ بھی یقین کر لو کہ اہل خلوص و عقیدت کے قلوب تمہارے دیدار کے ایسے مشتاق ہیں جیسے طائر اپنے آشیانے کے شائق ہوتے ہیں۔"
متون اسلامی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ظہور مہدوی موعود علیہ السلام کے بعد روئے زمین وحدت، عدالت ، امن و امان اور باکمال زندگی کا گہوارہ بن جائے گی، جو قوم و ملت اور مذہب ومکتب بھی اپنی اس روح نواز سرشت حقیقی کی آواز سنے گا اس پر لبیک کہنے اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ لہذا بغیر کسی دلیل و برہان کے عقیدہ مہدویت کو فقط بین الاقوامی ہونے کے جرم میں عامیانہ خرافات وعوامانہ خیالات کا حصہ قرار دنیا بالکل غیر مناسب ہے۔
۲ ۔ شبہ اقتباس
منکرین و مخالفین عقیدہ مہدویت کی جانب سے وارد کئے گئے شبہات میں سے ایک شبہہ اقتباس ہے۔
اس غلط تصور کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں بلکہ ان کے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جس طرح اپنے دین کے دیگر ارکان مثلاً نماز اور خواتین کے مَہر وغیرہ دوسرے ادیان کی تعلیمات سے اخذ کئے ہیں اورانہیں بڑی ہوشیاری کے ساتھ معارف اسلامی کا حصہ بنا یا ہے اسی طرح انہوں نے برترین روزگار میں ایک منجی عالم کے ظہور کے عقیدہ کو دوسرے ادیان سے حاصل کر کے اپنے دین کا حصہ بنالیا ہے۔ بنابر ایں یہ شبہہ پیدا کرنے والوں کے گمان باطل کے مطابق ان کے اس اعتقاد کی کوئی حیثیت واہمیت نہیں ہے بلکہ کشف حقیقت کے لیے اسلامی متون کی چھان بین کرنے کے بجائے قدیمی و اصیل منابع کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
اس دستاویز کے اکثر مبتکر و مخترع مستشرقین و غیر مسلم اسلام شناس ہیں، اور ان کے علاوہ جن بعض مسلمانوں کے قلمی آثار میں یہ اشکال دیکھنے میں آتا ہے وہ در حقیقت آنکھ کان بند کر کے ان کی فکر و نظر کے مروج و مقلد ہیں۔
غربیوں کی جانب سے شبہہ اقتباس ایجاد کرنے کا مقصد مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل اور اپنے پسندیدہ سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس شبہہ کے بارے میں دو مغربی اہل قلم کے ترشحات کا اقتباس پیش کر رہے ہیں:
۱ ۔ جیمز ڈارمسٹیٹر( ۱۸۴۹ - ۱۸۹۴)
اسلام میں یہودیت و عیسائیت کے اصول دین کے آثار و اساطیر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان تینوں ادیان میں ایک مشترک نکتہ یہ پایا جاتا ہے کہ آخر الزمان میں ایک ایسا فوق الطبع شخصیت کا حامل ظہور کرے گا جو روئے زمین سے ناپید عدل و انصاف کو واپس پلٹا دے گایہ در حقیقت ایرانی اساطیر کے اثرات ہیں مسلمانوں نے خصوصاً منجی عالم کے ظہور کے عقیدہ عیسائیوں سے حاصل کیا ہے۔
۲ ۔ ایگنازگلدزیہر Ignaz Goldziher ( ۱۹۲۱)
"منجی غائب کی) بازگشت و رجعت کا عقیدہ شیعوں کا ساختہ یا ان کے خصوصی عقائد کا حصہ نہیں ہے بلکہ احتمال پایا جاتا ہے کہ یہودیت و عیسائیت سے متاثر ہو کر اسلام میں وارد کیا گیا ہے۔
یہود و انصار کا عقیدہ ہے کہ ایلیا پیغمبر کو آسمان کی طرف اٹھالیا گیا ہے اور آخر الزمان میں روئے زمین پر حق وعدالت قائم کرنے کے لیے یہ پیغمبر واپس آئیں گےبے شک یہ عقیدہ مہدویت کہ جس کی جڑیں اور اصل یہودیت و عیسائیت میں پائی جاتی ہیں، آئیں زردشتی میں موجود سوشیانت کی خصوصیات سے بھی متاثر ہوا ہے۔
بعض مسلمان اہل قلم جو مغربی افکار سے متاثر نظر آتے ہیں اور انہوں نے مراکز دانشگاہی میں مستشرقین کی شاگردی اختیار کی یا تحقیق کے موقع پر ان کے آثار سے استفادہ کیا ہے، جن میں انہوں نے حضرت مہدیؑ کے انتظار کے عقیدے کو دوسرے ادیان سے "اقتباس" قرار دیا ہے، ان مسلمان اہل قلم نے ان کے اقوال کو پسند کرتے ہوئے قبول کیا اور طوطے کی طرح اپنے قلمی آثار میں انہیں دہرا دیا ہے۔ یہ لوگ شیعہ و اہل سنت کی تمام مہم کتب میں نقل شدہ روایات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور شیعہ کے مذہب کی طرف نارونسبت دیتے ہیں۔
ذیل میں ایسے ہی بعض افراد کے نام ذکر کئے جا رہے ہیں:
۱ ۔ شیخ محمد رشید رضا، تفسیر المنار میں؛
۲ ۔ احمد کسروی، ایرانی تاریخ نویس ایک کتابچہ بنام "بامئی گری"؛
۳ ۔ سعد محمد حسن مصری، کتاب "المهدیة فی الاسلام
" میں؛
۴ ۔ ڈاکٹر کامل مصطفی الشیبی، کتاب "الصلة بین التصوف والتشیع
" میں؛
۵ ۔ ڈاکٹر محسن عبد الحمید، کتاب "حقیقة البابیه و البهائیه
"۔
ان افراد کے علاوہ ڈاکٹر ناصر الدین قفاری کتاب "اصول مذہب الشیعہ" میں حضرت مہدی ؑ اور ان کی غیبت کے عقیدہ کو شیعہ مذہب سے مختص قرار دیتے ہوئے یہودیت کو اس کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے یہاں فقط ناصر الدین قفاری کی عبارت ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
"یمیل بعض المستشرقین أنها ذات اصل یهودی لأن الیهود یعتقدون بأن «ایلیاء» رفع الی السماء و سیعود فی آخرالزمان، ولذالک فان الیهود – حسب رأیهم – النموذج الاول لأئمه الشیعه المختفین الغائبین
؛بعض مستشرقین کے مطابق مہدی و منجی کے انتظار کا نظریہ یہودیت سے اخذ شدہ ہے کیونکہ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایلیاء آسمان پر چلے گئے ہیں اور اب آخر الزمان میں واپس پلٹ کر آئیں گے۔ پس مستشرقین کی رائے کے مطابق شیعوں کا یہ عقیدہ یہودیت سے ماخوذ ہے۔"
یہ شخص عقیدہ مہدویت کا انکار کرتے ہوئے یہودی اخبار کو اس کا سر چشمہ قرار دیتا ہے۔ وہ اس سلسلہ میں دو قول نقل کرکے درج ذیل قول کو قول برتر قرار دیتا ہے:
"وأرجح فی هذه المسئله أن عقیدة الاثنی عشریه فی المهدی والغیبه ترجع الی اصول مجوسیه، فالشیعه اکثرهم من الفرس والفرس من ادیانهم المجوسیه، والمجوس تدعی أن لهم منتظراً حیاً باقیاً مهدیاً مِن ولد بشتاسف ابن بهراسف ویقال له أبشاوثن، و أنه فی حصن عظیم من خراسان والصین. و هذا مطابق لجوهر المذهب الاثنی عشری
؛
حضرت مہدی اور ان کی غیبت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ درحقیقت مجوسی اعتقادات سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اکثر شیعہ اہل فارس ہیں اور فارس والے مجوسی تھے اور مجوسیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم ایک منتظر کا انتظار کر رہے ہیں جو زندہ اور مہدی ہے وہ بشتاسف بن بہر اسیف کی اولاد سے ہے اور وہ خراسان و صِین (چین) کے عظیم حصار میں محفوظ ہے اور یہ عقیدہ اثناعشری مذہب کی اصل و اساس کے عین مطابق ہے۔"
رفع شبہ
پہلا نکتہ
ہم اس قسم کے افراد کے جواب میں اتنا کہنا چاہیں گے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل شدہ نصوص و روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مہدی ؑ اور ان کی غیبت کے مسئلہ میں تمام شیعوں اور بعض اہل سنت کا اتفاق پایا جاتا ہے، کیونکہ خود حضرت ختمی مرتبتصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی نے اس مسئلہ کو بیان فرمایا تھا۔ اگر جناب قفاری صرف اہل سنت کی صحا ح ستہ ہی کی طرف رجوع کرنے کی زحمت گوارا کرلیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ اس عقیدہ کا سرچشمہ مجوس و یہود نہیں ہیں بلکہ عظیم الشان پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بیانات اور قرآن کریم ہیں۔
شیعہ و سنی روایات اس مسئلہ کی تصریح کر رہی ہیں کہ حضرت مہدی ؑ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نسل اور اولا علی بن ابی طالب علیہما السلام سے ہیں ۔ ان کا نام و کنیت حضور سرور کائنات کے نام و کنیت سے مماثل ہے وہ ظلم و جور سے بھر ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور ان کے لیے طولانی غیبت واقع ہوگی ۔
یہ نصوص دو قسموں پر مشتمل ہیں، پہلی قسم ائمہ اطہار علیہم السلام کے توسط و طریق سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل ہوئی ہے جبکہ دوسری قسم صحابہ کے توسط سے آنحضرتؐ سے حکایت کی گئی ہے۔ ان دونوں قسموں کے مضمون و منطوق میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ دونوں قسموں کی روایات میں اتفاق برقرار ہے اور یہ ایک دوسرے کی تائید کررہی ہیں ۔ یہ روایات و نصوص تواتر کا حکم رکھتی ہیں اور تواتر قطع و یقین کا فائدہ پہنچاتا ہے۔
ہم یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا مناسب سمجھتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری مذہب کا سرچشمہ زمانہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی میں خود صحابہ کرام تھے اور تمام ائمہ شیعہ عرب اور بنی ہاشم ہیں ۔ جبکہ اکثر ائمہ اہل سنت اور تمام صاحبان صحاح ستہ ایرانی ہیں اور ان کی اصل مجوسیت ہے ۔ آج بھی تمام شیعہ اہل فارس و ایرانی نہیں ہیں تقریباً دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔
بہر کیف مناسب تو یہ تھا کہ جناب قفاری شیعوں کی طرف ناروا نسبت دینے کی بجائے فریقین کے منابع کی طرف رجوع کرتے اور پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل شدہ روایات ملاحظہ کرتے۔
مرحوم شیخ حرم عاملی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مقدس کے بارے میں اہل سنت کی کتب سے دو سو روایات نقل کی ہیں۔
موضوع مہدویت و حضرت مہدیؑ ان مسائل میں سے ہے جو علمائے خاصہ و عامہ کے نزدیک ہمیشہ ہی سے خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں یہاں تک کہ تمام غیر اسلامی فرق و مذاہب بھی اس پر خاصی توجہ دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے امام زمانہؑ کے بارے میں دنیا کے مختلف مذاہب میں مختلف زبانوں مثلاً عربی، فارسی اور اردو وغیرہ میں دو ہزار سے زائد کتب رقم کی گئی ہیں۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کتب ایسی بھی ہیں جو حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت سے قبل لکھی گئی ہیں۔ آنجناب ؑ کی ولادت سے قبل اصحاب ائمہ میں سے بیس افراد نے ان کے بارے میں کتابی ں رقم ہیں۔ شیعوں کی جانب سے امام زمانہؑ کے بارے میں لکھی جانے والی پہلی کتاب "السقیفہ" ہےجسے امیر المومنین علیہ السلام کے باوفا صحابی سلیم بن قیس ہلالی نے مرتب کیا تھا۔ علمائے علم رجال نے بھی سلیم کی توثیق بیان کی ہے۔ انہوں نے امام زمانہ ؑ کی ولادت سے ۱۶۵ سال قبل ان کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے اور اس میں ان کے بارے میں نقل شدہ روایات ثبت کی ہیں۔
ابان بن ابی عیاش کہتے ہیں:"میں نے امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں اس کتاب کو مکمل پڑھ کر سنایا تو حضرت ؑ نے بھی اس کے تمام مطالب کی تائید فرمائی۔"
شیعہ علماء کے علاوہ علمائے اہل سنت نے بھی تقریباً ۱۵۰۰ کتابی ں مستقل طور پر امام زمانہ ؑ کے بارے میں قلمبند کی ہیں۔ جبکہ وہ کتب جن میں امام زمانہؑ کی مناسبت سے گفتگو کی گئی ہے ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔
ابو نعیم اصفہانی(متوفی ۴۳۰ ہجری) جو اہل سنت کے بزرگ عالم دین ہیں انہوں نے مستقل طور پر امام زمانہ ؑ کے بارے میں بالترتیب پانچ کتابی ں: مناقب المہدی، نعمت المہدی، صفۃ المہدی، اخبار المہدی اور اربعون حدیثا رشتہ تحریر سے منسلک کی ہیں۔
حضرت صاحب العصر و الزمان ؑ کے بارے میں لکھی گئی کتب میں ، کتاب اخبار المہدی تالیف عباد بن یعقوب رواجنی(متوفی ۲۵۰ ہجری، قدیم ترین کتاب ہے
۔ اس عالم اہل سنت نے امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت سے قبل آنجناب کے بارے میں یہ کتاب تالیف کی ہے۔
اس تمام تر صورت حال کے پیش نظر جائے تعجب ہے کہ اس صاحب قلم (جناب ناصر الدین قفاری)نے ظاہراً ایک مرتبہ بھی اپنی مورد قبول کتابوں کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی، کیونکہ اگر وہ اپنی ہی کتب کی طرف رجوع فرما لیتے تو ہر گز شیعہ مذہب حق کے بارے میں یہ افترا پردازی نہ کرتے۔
فریقین سے نقل شدہ ادلہ و برہان کی بنا پر مسئلہ مہدویت کے ضروریات اسلام میں ہونے کے بارے میں کسی قسم کی تردید یا شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہ کہ اصل اعتقاد و مہدویت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود صاحب کتاب "اصول مذہب شیعہ لامامیۃ الاثنی عشریہ" موہوم ادلہ اور شیعوں پر لگائی گئی تہمتوں کی بنیاد پر اصل وجود امام زمانہ علیہ السلام ہی کا انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں:
وجود امام مہدی ہی کے بارے میں فرق اسلامی ، شیعہ امامیہ کے مخالف ہیں چہ جائیکہ بلوغ ، رشد، امامت یا ان کی عصمت کے سلسلہ میں متفق ہوں اور شیعہ ان مذکورہ امور میں سے کسی ایک کو بھی برہان اور روشن دلیل کے ذریعے ثابت نہیں کرسکتے۔ اہل سنت نے نصوص شرعی و حقائق اور عقلی دلیلوں کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ غیبت مہدیؑ کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ ، وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ نہ ان کا کوئی اثر ہی موجود ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر حسن آئی ہے۔ ان پر اعتقاد کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہے نہ ہی آخرت میں بلکہ ان پر اعتقاد سے ایسا شر و فساد پیدا ہوتا ہے جس کا سوائے خدا کے کوئی حساب نہیں لگا سکتا اور علمائے انساب کا کہنا ہے کہ حسن بن علی العسکری کی نسل کا کوئی فرد باقی نہیں بچا ہے۔"
ہم اس سے قبل بزرگان اہل سنت کے اقوال پیش کر چکے ہیں اور بالاتفاق ان سب کا نظریہ یہ ہے کہ وجود حضرت مہدیؑ ، آخر الزمان میں ان کا ظہور اور یہ کہ وہ نسل پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ہوں گے، متواترات میں سے ہے اور مذاہب اسلامی میں سے کسی نے بھی آج تک ان کا انکار نہیں کیا ہے۔ پس یہ صاحب ، حضور سرور کائنات سے کثیر التعداد نقل شدہ روایات کے باوجود کیونکر انکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور شیعوں کی دلائل و براہین سے چشم پوشی کرکے یہ کہہ رہے ہیں کہ امام زمانہ ؑ کے وجود پر کوئی روشن دلیل نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ
یہودیت ، مسیحیت ، مجوسیت اور اسلام میں اس عقیدہ کے مشترک ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے یہ عقیدہ دیگر ادیان سے حاصل کیا ہے بلکہ یہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ منجی حقیقی کے انتظار کا موضوع ، انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ اس لیے ہر دین و آئین میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
کیا ،قدیم ایرانیوں کے یزدان پر عقیدہ اور صداقت کو اخلاق نیک میں شمار کرنے کی وجہ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ پس خدا پرستی ایک افسانہ ہے اور صداقت کو اخلاق نیک میں شمار نہیں کرنا چاہئے؟! لہذا کیونکہ دیگر قومیں بھی ایک مصلح و غیبی نجات دہندہ کا انتظار کر رہی ہیں، اس بات کو ہرگز دلیل بطلان و سند جرم قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ یاد رہے کہ یہ امر دلیل صحت بھی نہیں بن سکتی۔
تیسرا نکتہ
اگر مستشرقین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے اس موضوع پر قلمی آثار کا باہمی موازنہ کیا جائے تو آپ کو ان کے بیانات میں کافی اختلاف نظر آئے گا کیونکہ ان کی تحلیل و توجیہ منطقی نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد گمان و احتمال پر رکھی ہے اور خداوندعالم نے اس سلسلہ میں کیا خوب فرمایا ہے:(
إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
)
؛ گمان حق کے مقابلہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
۳ ۔ شبہ سکوت
شبہہ سکوت دو طرح پیش کیا جاتا ہے۔
الف) سکوت قرآن
اس شبہہ کا لب لباب یہ ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حضرت مہدی ؑ کا وجود اور ان پر عقیدہ رکھنا اتنا ضروری و اہم تھا تو پھر قرآن کریم میں ان کا نام کیوں نہیں بیان کیا اور ان کے حالات و کارنامے ثبت کیوں نہیں کئے؟ جبکہ یہ کتاب اپنے لیے بغیر کسی قید و شرط کے "تبیاناً لکل شئ
" کا دعویٰ کرتی ہے۔ پس بنابرایں عقیدہ مہدی کی اساس قرآنی نہیں ہے نتیجتاً اس کی بنیاد اسلامی بھی قرارنہیں دی جاسکتی۔
ذیل میں بطور نمونہ ، چند مغربی اہل قلم کے بیانات نقل کئے جا رہے ہیں جن میں اس شبہہ کی عکاسی نظر آتی ہے۔
۱ ۔ جیمز ڈار مسٹیٹر(معروف فرانسوی زبان شناس و مستشرق)
"قرآن نے مہدیؑ کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے بلکہ پیغمبر اسلام نے ان کے آنے کی خبر دی ہے۔"
۲ ۔ امر یکی مستشرق، اسٹووارد
"آغاز اسلام میں مہدویت کا اس طرح چرچا نہیں تھا اور نہ ہی قرآن میں ان کے بارے میں کوئی خبر موجود تھی بلکہ ان کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔"
یہ دونوں مستشرق صفحہ کے ذیلی حاشیے پر رقمطراز ہیں کہ احادیث مہدویت اور اس سلسلہ میں اقوال کے انکار کا بہترین منبع "مقدمہ ابن خلدون" ہے۔
۳ ۔مونٹگمری واٹ Montgomery Watt (برطانون اسلام شناس)
"مہدی کا ذکر قرآن میں نہیں ہےاحتمال پایا جاتا ہے کہ یہ سب سے پہلے شیعوں میں پیدا ہوا ہے اور پھر اس کے بعد اس میں وسعت پیدا ہوگئی ہے۔"
ان کے علاوہ فین فلوٹن، اگنیذ گلدزیہر، ڈوایٹ ڈونالدسن وغیرہ نے بھی کم و پیش یہی نظریات پیش کئے ہیں۔
عصر حاضر کے بعض مسلمان اہل قلم خصوصاً وہ افراد جنہوں نے دیار غرب میں تحصیل علم کے لیے اپنا وقت صرف کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو روشن فکر و جدت پسند خیال کرتے ہیں ، انہوں نے بھی اپنے مستشرق اساتذہ سے متاثر ہو کر متون و منابع مہدویت کو ضعیف قرار دینے کی بھر پور کوشش کی ہے ان قلمکاروں؛ جن کی اکثریت اہل سنت ہیں، نے بھی اپنے اساتذہ کی طرح ابن خلدون کی تحریر کو اپنے بیانات کی اساس قرار دیا ہے۔
جواب
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم و حکیم نے کلیات بیان کئے ہیں اور جزئیات بیان کرنے کی ذمہ داری حضورسرور کائنات کو سپر د کی گئی ہے۔ مثلاً نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے کلی احکام قرآن نے ذکر کئے ہیں لیکن ان کی جزئیات کو پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بیان کیا ہے۔ پس حقائق و دقائق آیات کی وضاحت کے لیے ، کتاب خدا میں موجود اجمالی و کلی احکام صاحبان ایمان کو سنت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور یہ قرآن کریم کی ایک خاص خصوصیت ہے تاکہ لوگ ہمیشہ سنت نبوی سے وابستہ رہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
۱ ۔(
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ
)
اورآپ کی طرف بھی ذکر(قرآن) کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لیے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں۔
۲ ۔(
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
)
بے شک تمہارے لیے رسول ؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے۔
۳ ۔(
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
)
اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔
۴ ۔(
...أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
...)
اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو۔
۵ ۔(
...وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
...)
اور جو کچھ رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اورجس چیز سے منع کر دے اس سے رک جاؤ
پس معارف و تعلیمات دینی کے بارے میں کتاب خدا کی روش کلی مسائل بیان کرنا اور موضوع کی طرف اجمالی اشارہ کردینا ہے اور اس نے اکثر موارد میں بسط و تفصیل کے لیے صاحبان ایمان کو آستانہ خاتم المرسلین کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا اگر بالریض قرآن کریم میں حضرت مہدی ؑ اور ان کے شکوہ مندقیام و انقلاب کا کوئی تذکرہ نہیں آیا ہے، لیکن پھر بھی ا س عقیدہ پر حملہ آور نہیں ہونا چاہئے کہ صرف حدیث و سنت ہی میں اس کا مژدہ کیوں سنایا گیا ہے؟ کتاب "الاحکام لاصول الاحکام" تالیف ابو محمد ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶ ھ) کی درجہ ذیل عبارت، شبہہ سکوت قرآن کے مدافعین کے لیے واضح طور پر تنبیہ اور بیدارباش ہے:
"اگر کوئی شخص اس بات کا پابند ہوجائے کہ قرآن کریم میں موجود حقائق دین قبول کریں گے اس کے علاوہ کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے ، تو ایسا شخص اجماع امت کے مطابق کافر شمار کیا جائے گا۔
ہم دوبارہ اصل شبہہ کی طرف پلٹتے ہیں کہ قرآن کریم حضرت مہدیؑ کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟
اس شبہہ کے جواب میں یہ کہنا چاہیں گے کہ اس قسم کا دعویٰ کرنا تہمت اور بالکل غیر مناسب بات ہے، کیونکہ کتاب الٰہی حضرت مہدیؑ کے بارے میں پیام و کلام سے ہرگز خالی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے کلی اور اجمالی طور پر انسان کو مستقبل میں نجات کی بشارت دی ہے اور اس زمانہ ظہور کی بعض خصوصیات و علائم بھی اجمالی طور پر بیان کی ہیں اور حضرت مہدی کے حسب و نسب، اندام ورخسار اور غیبت کی جزئیات کے بیان کو حضور سرورکائناتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سپرد کر دیا ہے۔
جیسا کہ ہم اس تحریر کے دوسرے حصہ میں بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات موجود ہیں، غیبت کے بارے میں جن کی تاویل و تفسیر بیان کی گئی ہے۔
ب) سکوت صحیحین:
بعض اہل سنت کی جانب سے مسئلہ مہدویت کے بارے میں کئے گئے اشکالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بخاری و مسلم نے احادیث مہدویت ثبت نہیں کی ہیں لہذا ان دو اہم منابع حدیثی میں احادیث مہدویت کے ثبت نہ کرنے کی وجہ سے ان کے ضعیف ہونے کا گمان پیدا ہوتا ہے ۔ احمد امین مصری کا کہنا ہے:
"صحیح بخاری و مسلم کے افتخارات میں سے ایک یہ ہے ان میں اس قسم کی احادیث نقل نہیں کی گئی ہیں۔ اگرچہ دیگر کتب میں ان احادیث کو جگہ دی گئی ہے۔"
یہی اشکال بعض غرب زدہ مفکرین اہل سنت مثلاً شیخ محمد ابو زہرہ،
سعد محمد حسن،
حسین سائح لیبائی مغربی،
سید محمد رشید رضا
اور شیخ ابن محمود
کی جانب سے بھی وارد کیا گیا ہے۔
جواب:
بعض مذکورہ افراد کی جانب سے یہ بے بنیاد و غیر علمی و غیر منطقی اشکال پیش کیا گیا تو خود اہل سنت ہی کی اکثریت اس سے مقابلہ کے لیے میدان میں اتر پڑے۔ ڈاکٹر بستوی کہتے ہیں:
"ان لوگوں کا گمان یہ ہے کہ بخاری و مسلم نے اسناد میں ضعف کی وجہ سے احادیث مہدویت کو نقل نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے اور ان کا یہ گمان بالکل باطل ہے؛ کیونکہ ان دونوں کا تمام صحیح احادیث پر احاطہ نہیں تھا اور انہوں نے تمام صحیح احادیث کے نقل کرنے کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے۔"
بخاری کا کہنا ہے:
"میں نے جو کچھ اپنی کتاب "الجامع الصحیح" میں نقل کیا ہے، صحیح ہے۔ بہت سی صحیح السند احادیث کو طولانی ہونے کی وجہ سے میں نے نقل نہیں کیا ہے۔"
مسلم بن حجاج قشیری کا کہنا ہے:"میں نے اس کتاب"صحیح" میں اپنے پاس موجود تمام صحیح احادیث نقل نہیں کی ہیں۔ میں نے اس میں صرف وہ احادیث ثبت کی ہیں جن پر اجماع کا اتفاق ہے۔"
حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:"بخاری و مسلم نے اپنی دو کتابوں (صحیح مسلم و صحیح بخاری) کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں نقل شدہ احادیث پر عدم صحت کا حکم نہیں لگایا ہے۔"
ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں:"کیا بخاری نے یہ بات کہی ہے کہ جو حدیث بھی میں نے اپنی کتاب میں نقل نہیں کی ہے وہ باطل، غیر حجت اور ضعیف ہے؟ بہت سی احادیث ایسی ہیں جنہیں بخاری نے "الجامع الصحیح"میں نقل نہیں کیا ہے لیکن ان کے ذریعے احتجاج کیا ہے، اور کتنی ہی احادیث ایسی ہیں جنہیں انہوں نے صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کتاب میں نقل نہیں کیا ہے۔"
دار قطنی کہتے ہیں:"کتنی ہی ایسی احادیث موجود ہیں جنہیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے حالانکہ ان احادیث کی سند یں ان کی صحاح میں نقل شدہ احادیث جیسی ہیں۔"
بیہقی رقمطراز ہیں:"بخاری و مسلم کا مقصد تمام احادیث کا احاطہ کرنا نہیں تھا جس کی دلیل یہ ہے کہ جو احادیث صحیح بخاری میں موجود ہیں ان میں سے بعض صحیح مسلم میں نقل نہیں ہوئی ہیں اور اسی طرح بالعکس یعنی جو احادیث صحیح مسلم میں ہیں بخاری نے نقل نہیں کی ہیں۔"
اس کے باوجود صحیح بخاری و مسلم کہ جن کی صحت میں اہل سنت کو کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے یہ دونوں کتابی ں بھی حضرت مہدیؑ کے بارے میں احادیث سے خالی نہیں ہیں ، اگرچہ ان میں لفظ مہدیؑ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند احادیث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
الف) احادیث نزول عیسیٰ بن مریم
بخاری میں ابوہریرہ کے توسط سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
"کیف انتم اذ نزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم
"
تم اس وقت کیسا محسوس کرو گے جب عیسیٰ بن مریم نزول کریں گے جبکہ تمہارے امام تم ہی میں سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی یہی مضمون نقل کیا ہے۔
ان روایات میں امام سے مراد حضرت مہدیؑ کے سوا کوئی نہیں ہے اسی لیے تمام شارحین صحیح بخاری ، متفق القول ہیں کہ ان روایات میں امام سے مراد حضرت مہدیؑ ہیں۔
ب) احادیث بخشش مال
مسلم نے جابر بن عبد اللہ انصاری کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
"یکون فی آخر امتی خلیفة یحثی المال حثیاً لا یعدّه عدداً
؛
"میری امت کے آخری زمانہ میں ایک خلیفہ آنے والا ہے جو لوگوں کو کثیر مال سے نوازے گا۔"
دیگر روایات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ یہ خلیفہ وہی حضرت مہدیؑ ہیں۔
ابن ابی شیبہ نے اپنی اسناد کے مطابق رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
"یخرج رجل من اهل بیتی عند انقطاع من الزمان وظهور من الفتن یکون عطاؤه حثیاً
؛
زمانہ میں وقفہ آنے کے بعد جبکہ فتنے سر اٹھا چکے ہوں گے اس وقت میرے اہل بیت علیہم السلام سے ایک شخص خروج کرے گا جو کثیر العطاء ہوگا۔
ج) احادیث خسف بیداء
مسلم نے پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت نقل کی ہے:
"یعوذ عائذ بالبیت فیبعث إلیه بعث فاذا کانوا ببیداء من الارض خسف بهم
؛
ایک شخص خانہ خدا میں پناہ حاصل کرے گا۔ اس کے پیچھے لشکر بھیجا جائے گا، جب وہ لشکر سر زمین بیداء پر پہنچے گا تو وہاں زمین میں دھنس جائے گا۔"
روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سرزمین بیداء کا دھنسا حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات میں سے ہے۔
۴ ۔ شبہ جعل وضعف
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مختلف علل و عوامل کی وجہ سے داستان مہدی علیہ السلام کا اعتقاد پیدا کرنے کے بعد متعصب شیعوں نے اپنے اس عقیدہ کی تائید میں احادیث گھڑ لی ہیں اور پھر پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف ان کی نسبت دے دی۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ یہ احادیث صرف شیعوں کی کتب میں موجود ہیں لیکن ہماری کتب صحاح میں نہ یہ درج ہیں اور نہ ہی ان میں ان کا کوئی نام و نشان ہی موجود ہے۔ سعد محمد حسن جو شیوخ الازہر مصرمیں سے ہیں انہوں نے شیعوں کی طرف یہ ناروا نسبت دی ہے۔
جواب شبہ
اگرچہ بنوامیہ اور بنوعباس کے دور اقتدار میں سیاسی و سماجی حالات اور مقتدر طبقہ اپنے شدید تعصب کی بنیاد پر ولایت و امامت کے بارے میں روایات نقل کرنے اور کتب میں ثبت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن اس کے باوجود اہل سنت کی روائی کتب ، حضرت مہدی علیہ السلام سے مربوط روایات سے خالی نہیں ہیں۔ کتب صحاح ستہ وغیرہ ۔ میں مختلف ابواب کے دوران اس سلسلہ میں پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ان کے اصحاب سے کثرت سے روایات نقل کی ہیں۔ کتاب "المہدیہ فی الاسلام" کے مؤلف رقمطراز ہیں:
"محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کی ہیں ، یہ دونوں صحاح معتبر ترین کتب ہیں اور ان میں نہایت احتیاط سے احادیث ثبت کی گئی ہیں، جبکہ یہ احادیث دیگر کتب مثلاً سنن ابی داؤو، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی اور مسند احمد کہ جن میں خاص توجہ اور احتیاط کے ساتھ روایات نقل نہیں کی گئی ہیں، ان میں موجود ہیں اور علمائے حدیث جیسے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف و مردود قرار دیا ہے۔"
ابن خلدون کا کہنا ہے:
تمام مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور آج تک معروف ہے کہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام میں سے ایک شخص آخر الزمان میں ظہور کرے گا جو دین کی تائید و عدل و انصاف قائم کرے گا اور تمام ممالک اسلامی پر مسلط ہوجائے گا۔ ان کا مدرک و منبع وہ احادیث ہیں جنہیں بعض علماء مثلاً ترمذی، ابو داؤود، ابن ماجہ، حاکم، طبرانی اور ابو یعلی موصلی وغیرہ نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ لیکن وجود مہدیؑ کے منکرین، ان احادیث کی صحت میں شک کرتے ہیں۔ پس ہمیں حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے مہدی فاطمی کے بارے میں نقل شدہ احادیث اور منکرین کے اشکالات و مطاعن ذکر کرنے چاہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات ذہن میں محفوظ رہنی چاہئے کہ اگر ان احادیث کے راوی جرح و قدح کا شکار ہوں گے تو اس حدیث سے استناد مشکل ہوجائے گا اگرچہ اس راوی کی تعدیل و توثیق ہی کیوں نہ کی گئی ہو؛ کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ تضعیف و برائی، تعدیل و توثیق پر مقدم ہے۔ اگر کوئی شخص ہم پر یہ اشکال کرے کہ یہ بات تو صحیح بخاری و مسلم کے بعض رجال الحدیث میں بھی پائی جاتی ہے، کیونکہ وہ بھی طعن و تضعیف سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ تو ا سکے جواب میں ہم کہیں گے کہ ان دو کتابوں میں ثبت شدہ احادیث پر علماء کا اتفاق و اجماع ہے اور ان کی مقبولیت نے ان کے ضعف کا ازالہ کر دیا ہے۔ لیکن دیگر کتب کو یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔"
ہم ابن خلدون کے جواب میں کہیں گے :
اولاً؛ بہت سے علمائے اہل سنت نے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں نقل شدہ روایات و احادیث کو یا خود متواتر تسلیم کیا ہے ، یا انہوں نے بغیر کسی اعتراض کے دوسروں سے ان کے تواتر کو نقل کیا ہے۔ مثلاً ابن حجر ہیثمی نے کتاب الصواعق المحرقہ میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن صباغ نے الفصول المہمۃ میں ، محمد بن صبان نے اسعاف الراغبین میں، گنجی شافعی نے البیان میں ، شیخ منصور علی نے غایۃ المامول میں اور سوید نے سبائک المذہب میں اور اسی طرح دیگر بہت سے علماء نے نقل کیا ہے۔ پس یہی تواتر بعض احادیث کی سند میں موجود ضعف کا ازالہ کردیتا ہے۔ علامہ حجر ابن عسقلانی لکھتے ہیں: متواتر خبر، یقین کا فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے کسی بحث اور تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کثیر التعداد ، بزرگ صحابہ نے بھی احادیث مہدی نقل کی ہیں مثلا عبد الرحمن بن عوف، ابو سعید خدری، قیس بن جابر، ابن عباس، جابر، ابن مسعود، حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام، ابو ہریرہ ، ثوبان، سلمان فارسی، ابو امامہ، حذیفہ، انس ابن مالک اور ام سلمہ وغیرہ۔
یہ احادیث بہت سے علماء و محدثین اہل سنت نے اپنی کتب میں نقل کی ہیں جن میں سے ذیل میں بعض علما کے اسامی ذکر کئے جارہے ہیں مثلاً ابو داؤو، احمد، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، نسائی، طبرانی، رویانی، ابو نعیم اصفہانی، دیلمی، بیہقی، ثعلبی، حموینی، مناوی، ابن مغازلی، ابن جوزی، محمد بن الصبان، ماوردی، گنجی شافعی، سمعانی، خوارزمی، شعرانی، دار قطنی ابن صباغ مالکی، شبلنجی، محب الدین طبری، ابن حجر ہیثمی، شیخ منصور علی ناصف، محمد بن طلحہ، جلال الدین سیوطی، شیخ سلیمان حنفی، قرطبی اور بغوی وغیرہ۔
حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث نقل کرنے والے یہ ان علمائے اہل سنت کے اسامی ہیں جن کا تذکرہ آیت اللہ ابراہیم نے اپنی کتاب"دادگسترجہان" میں کیا ہے۔
حضرت مہدی کے بارے میں احادیث پر تنقید کرتے وقت ابن خلدون صرف بعض ضعیف روایات کا حوالہ دیتے ہیں ، حالانکہ ان روایات کے مقابلے میں بہت سی ایسی روایات موجود ہیں جو سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہیں۔ لہذا ڈاکٹر بستوی نے اپنی کتاب میں حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں ۴۶ صحیح یا حسن روایات نقل کی ہیں۔
شیخ عبد المحسن بن حمد العباد کہتے ہیں:"ابن خلدون ایک عالم علم رجال نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مورخ ہیں لہذا ان کی جانب سے احادیث کی تضعیف کی کوئی اہمیت نہیں ہے"
ابن خلدون نے تضعیف کو تعدیل پر مقدم قرار دیا ہے حالانکہ تضعیف ہمیشہ تعدیل پر مقدمہ نہیں ہوتی، کیونکہ ممکن ہے جو صفت کسی کے نزدیک اسباب ضعف میں سے ہو، وہ دوسروں کے نزدیک اسباب ضعف میں سے نہ ہو۔ پس اس صورت میں تضعیف کنندہ کے قول پر توجہ دی جاسکتی ہے جبکہ وہ تضعیف کی علت بیان کرے۔
جو علمائے اہل سنت اس قاعدہ یعنی تضعیف ، تعدیل پر مقدم ہے) کو قبول نہیں کرتے ان میں احمد بن علی بن حجر عسقلانی، سبکی، خطیب بغدادی، نووی، سخاوی، سیوطی اور سندی مشہور ہیں۔
ڈاکٹر عبد الحکیم بستوی کہتے ہیں:
"اگر کسی راوی کے بارے میں جرح ثابت بھی ہوجائے تب بھی ہر جرح روایت کے اعتبار کو ساقط نہیں کرتا، بلکہ شدید جرح روایت کے اعتبار کو ساقط کرتا ہے۔ جب جرح سے متصف راوی کی اپنے سے معتبر دیگر افراد کی جانب سے تقویت کی جائے تو اس کی روایت قابل احتجاج ہوتی ہے۔"
پس بطور مطلق ہر موقع پر تضعیف کو تعدیل پر مقدم قرار دینا صحیح نہیں ہے اور تمام تضعیفات کو قابل عمل قرار دیا جائے تو پھر اس صورت میں بہت کم احادیث ہی طعن و قدح سے محفوظ رہیں گی، بلکہ حقیقت امر کی وضاحت کے لیے ان موارد میں نہایت غور و فکر اور اجتہاد سے کام لینا چاہئے۔
۵ ۔ شبہ تعارض
سید رشید رضا اور استاد سائح مغربی نے احادیث مہدویت میں تشکیک و تضعیف کے لیے ان احادیث میں باہمی تعارض کا دعویٰ کیا ہے۔ سید رشید رضا کہتے ہیں:"احادیث مہدی میں باہمی تعارض اتنا اقوا اور اظہر ہے کہ ان میں ارتباط قائم کرنا دشوار ہے۔" پھر بطور مثال اپنی بات کے ثبوت میں ان کے نام اور حسب و نسب میں اختلاف کہ حسن ہے یا حسینی، عباسی ہے یا علوی وغیرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جواب شبہ
اولاً: حالات و واقعات کی تفصیلات میں اختلاف مقتضی طبیعت ہوتا ہے لہذا کسی واقعہ کی تفصیلات میں اختلاف کے ذریعے اس کے عدم ثبوت پر استدلال کرنا، صرف مغالطہ ہے۔ ورنہ کوئی بھی اعتقادی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام مسائل میں اختلاف کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ثانیاً؛ تمام مورد اختلاف میں سے ہر ایک میں برحق قول ثابت ہوچکا ہے ۔ لہذا کسی میں کوئی تردید موجود نہیں ہے۔
شبہات کی دوسری قسم: مصداق مہدیؑ ؟
اگرچہ روایات میں حضرت مہدی علیہ السلام کے تمام مشخصات نام ونبی، خصوصیات و صفات اور شمائل بیان کردیئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اپنے مخصوص اہداف کی بنا پر حضرت مہدی ؑ کی شخصیت و مصداق میں شبہہ ایجاد کرنے کی کوششیں کی ہیں۔لہذا ذیل میں ایسے ہی چند شبہات اور ان کے جوابات پیش کئے جار ہے ہیں۔
۱ ۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی مہدی ہیں؟
ابن خلدون جیسے بعض علمائے اہل سنت نے ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے احادیث مہدویت پر شبہہ وارد کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ حضرت مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود کو غیر حقیقی وغیر واقعی قرار دے سکیں۔ یہ روایت صرف ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن میں نقل کی ہے جبکہ دیگر آئمہ صحاح نے اسے اپنی کتب صحاح میں جگہ دینے سے گریز کیا ہے اور وہ روایت یہ ہے کہ:
"ہم سے نونس بن عبد الاعلی نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن ادریس نے حدیث بیان کی ہے وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن خالد الجندی نے، انہوں نے زیان بن ابا ن بن صالح سے ، انہوں نے حسن سے انہوں نے انس ابن مالک سے حدیث روایت کی ہے کہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: امور بہت سخت ہوجائیں گے لوگ حریص ہوجائیں اور قیامت صرف بدکاروں کے لیے برپاہوگی اور مہدی عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔"
جواب شبہ
یہ روایت علماء کی نظر میں کسی بھی صورت قابل اعتبار نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ جعلی روایات کا حصہ ہے۔کیونکہ یہ روایت صرف مسلمات فریقین کے برخلاف ہی نہیں ہے بلکہ یہ صحیح و معتبر احادیث سے بھی معارض ہے۔ خود علمائے اہل سنت نے بھی شدت سے اس روایت کی نفی کی ہے اور اسے باطل قرار دیا ہے، بنابر ایں یہ روایت چند دلائل کی بنیاد پر باطل اور بے اساس ہے:
۱ ۔ عدم اعتبار سند
منصور علی ناصف کہتے ہیں:"حدیث"لامہدی الا عیسیٰ بن مریم"معتبر نہیں ہے بلکہ یہ روایت ضعیف ہے ۔ جیسا کہ حاکم و ہیثمی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔"
احمد بن اسماعیل حلوانی کہتے ہیں:"یہ حدیث خالد الجندی نے نقل کی ہے اور یہ مجہول الحال راوی ہے لہذا اس کی روایت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔"
ابو البرکات آلوسی نے کتاب"غالیت المواعظ" میں اس حدیث کو مجعول قرا ردیا ہے۔
حافظ مزی نے کتاب "تہذیب الکمال" میں محمد بن خالد الجندی کی شرح حال میں اسے مجہول الحال اور غیر قابل استناد قرار دیا ہے۔
عظیم آبادی کہتے ہیں: "ابن خلدون نے احادیث مہدویت کو ضعیف شمار کرنے میں خطا کی ہے۔"
ابن حجر نے "تہذیب التہذیب" میں اس روایت کو بے بنیاد و جعلی اور خالد کو مجہول الحال اور ضعیف قرار دیا ہے۔"
مندرجہ بالابی انات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اس روایت کی سند مخدوش ہے اور اس کا راوی علمائے علم رجال و حدیث کی نگاہ میں غیر قابل قبول ہے لہذا یہ روایت سند کے اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے۔
۲ ۔ صحیحہ و کثیرہ احادیث سے تعارض
ابن قیم کا کہنا ہے:"حدیث"لامہدی الا عیسیٰ بن مریم" معتبر نہیں ہے اور اس میں احادیث صحیحہ و معتبر کے مقابلہ میں قدرت مقاومت نہیں پائی جاتی۔"
حضرت مہدیؑ کے بارے میں بہت سے ائمہ حدیث مثلاً ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، بزاز، حاکم ، طبرانی اور ابو یعلی موصلی نے اپنی اپنی کتاب میں کثرت سے احادیث نقل کی ہیں اور ان کی بہت سے بزرگ صحابہ مثلاً حضرت علی علیہ السلام، ابن عباس، ابن عمر، طلحہ، عبد اللہ ابن مسعود، ابو ہریرہ، انس، ابو سعید خدری، ام حبیبہ، ام سلمہ، ثوبان، قرۃ ابن ایاس، علی الہلالی اور عبد اللہ بن حارث بن جزء کی طرف نسبت دی ہے۔
ابن حجر کہتے ہیں:"احادیث مہدویت، صحیح اور معتبر ہیں اور ان سے متعارض روایات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔"
حلوانی کہتے ہیں:"حدیث"لامہدی الا عیسیٰ ابن مریم" نہایت ضعیف ہے، کیونکہ کثرت سے روایات موجود ہیں جو بیان کر رہی ہیں کہ مہدی، عترت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں سے ہوں گے اور عیسیٰ عترت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نہیں ہیں۔"
صحیح و معتبر روایات موجود ہیں کہ اصحاب نے جب پیغمبر گرامی قدر سے دریافت کیا کہ مہدیؑ آپ میں سے ہیں یا غیروں میں سے؟ تو حضور نے فرمایا کہ مہدی ہم میں سے ہیں ۔ اسی طرح صحیح روایات موجود ہیں جو اس امر کی عکاسی کررہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد آسمان سے نزول فرمائیں گے اور ان کی اقتداء میں نما زادا کریں گے۔
ان دونوں قسموں کی روایات کی سند عالی ہے جو تمام اہل فن اور ائمہ حدیث کے نزدیک قابل قبول ہیں۔ خصوصاً وہ روایت جس میں بیان ہوا ہے کہ مہدی ؑ امام اور عیسیٰؑ کے ماموم ہوں گے ۔ متواتر روایات کا حصہ ہے اور اس کی سند اور دلالت پر علماء کا اتفاق نظر ہے۔
ان روایات کے مدمقابل یہ حدیث"لامہدی الا عیسیٰ بن مریم" ہے کہ جس کے راوی حدیث کے نقل کرنے میں تساہل و سستی میں مشہور ہیں، یہاں تک کہ ان میں بعض افراد کو کذاب و جاعل بھی قرار دیا گیا ہے۔ لہذا یہ روایت علمائے حدیث کی نگاہ میں مردوداور ناقابل قبول جبکہ روایات مہدی مورد اتفاق اور قابل قبول ہیں۔
پہلی روایت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب کو اس بات کا علم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مہدی نہیں ہیں۔ صرف وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ مہدیؑ ، اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں گے یا غیروں میں سے ۔ اگر عیسیٰ ہی مہدی ہیں تو پھر اصحاب کے سوال کرنے کا کیا مطلب تھا؟ اور پیغمبر گرامی قدر نے بھی جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ عیسیٰ ہی مہدی ہیں بلکہ فرمایا: "مہدی منا اہل البیت" مہدی ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں گے۔ اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ حضرت عیسیٰ، رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اہل بیت علیہم السلام میں سے نہیں ہیں۔
مختصر یہ کہ حدیث"لامہدی الا عیسیٰ بن مریم"فریقین کی فراوان و معتبر روایات سے معارض ہے کیونکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ مہدی، اہل بیت وعترت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں سے ہیں، بعض روایات میں ہے کہ وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا میں سے ہوں گے ، بعض روایات میں ہے کہ نسل امام حسین علیہ السلام میں سے ہوں گے اور بعض روایات بیان کر رہی ہیں کہ وہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہوں گے۔ یعنی روایات میں حضرت مہدی علیہ السلام کا تمام حسب و نسب بیان کر دیا گیا ہے ۔ پس فریقین کے یہاں اتنی کثیر روایات کی موجودگی کے بعد ایک ضعیف السند روایت سے تمسک کرنا صحیح نہیں ہے۔
۲ ۔ کیا حضرت مہدی علیہ السلام کا نام پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے والد کے نام سے مشابہ ہے؟
حدیث "یواطی اسمہ اسمی و اسم ابی ہ اسم ابی " کی روشنی میں بعض علمائے اہل سنت کا کہنا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا اور یہ فرمان رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
شیعوں کے اس عقیدے کو واضح طور پر رد کرتا ہے کہ مہدی موعود وہی القائم المنتظر ہیں کہ جن کا اسم گرامی محمد بن حسن العسکری علیہ السلام ہے۔
ابن کثیر نے اس حدیث مذکور کی تفسیر میں کہا ہے کہ روایات میں بیان شدہ حضرت مہدی وہ امام منتظر نہیں ہے کہ جس کے بارے میں شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ موجود ہیں اور سامر ہ کے سرداب سے ظہور فرمائیں گے، ان کے اس عقیدے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ عقیدہ صرف ایک باطل ہوس کا نام ہے ؛ کیونکہ حضرت مہدیؑ کے والد کا نام عبد اللہ ہے۔
نیز ابن المناری بھی کہتے ہیں کہ ابن عباس کی روایت کے مطابق حضرت مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ ہے۔
جس روایت میں حضرت مہدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ بیان کیا گیا ہے ، اسے صرف ابو داود نے اپنی کتاب سنن میں نقل کیاہے جبکہ ان کے علاوہ صحاح میں سے کسی ایک میں بھی یہ روایت نقل نہیں کی گئی ہے اور وہ روایت مندرجہ ذیل ہے۔
"لولم یبق من الدنیا الایوم لطول الله ذالک الیوم ثم اتفقوا حتی یبعث فیه رجلا منی اومن اهل بیتی یواطی اسمه اسمی و اسم ابیه اسم ابی یملأ الأرض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما وجورا
؛
اگر دنیا ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کردے گا یہاں تک کہ خداوند عالم مجھ سے یا میرے اہل بیت علیہم السلام سے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے جس کا نام میرا نام اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام سے مشابہ ہوگا اور وہ ظلم وجور سے بھر ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
یہی وہ روایت ہے جس کی بنیاد پر بعض اہل سنت یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے والد کا نام، پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے والد کے نام سے ہم آہنگ ہے۔
جواب
حضرت صاحب العصر والزمان امام مہدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کے نام اور پیغمبر ختمی مرتبت کے والد بزرگوار کے نا م میں ہم آہنگی اور مطابقت بیان کرنے والی روایت چند زاویوں سے قابل ملاحظہ ہے:
۱ ۔ جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی "اصل روایت میں اضافہ ہوا ہے:
یہ صرف ہمارا ہی دعویٰ نہیں ہے بلکہ خود بعض اہل سنت کے بزرگ علما بھی کہتے ہیں کہ جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی " صرف ابو داؤد نے نقل کیا ہے جبکہ ترمذی وغیرہ نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔ حفاظ و ثقات کی نقل کردہ اکثر روایات میں جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی " نقل نہیں ہوا ہے بلکہ فقط "اسمہ اسمی"آیا ہےپس "اسم ابی ہ اسم ابی "زائد ہے اور اصل روایت میں اضافہ ہوا ہے، ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی اس جملہ کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے صرف"اسمہ اسمی" نقل کیا ہے۔
حافظ ابن عربی کہتے ہیں:"جملہ اسمہ اسمی ہی صحیح ہے اور باقی اضافہ ہے۔"
۲ ۔ ضبط حدیث میں راوی کی تساہلی و عدم توجہ
بعض علماء و محققین احتمال دیتے ہیں کہ یہاں راوی نے تساہلی اور عدم توجہ کی وجہ سے اشتباہاً جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی " کو نقل کر دیا ہے جبکہ اصل خبر اس طرح تھی:
"اسمہ اسمی واسم ابی " یعنی "ان کا نام میرے نام اور میرے والد کے نام کے عین مطابق ہوگا" کیونکہ بعض روایات میں حضرت مہدی علیہ السلام کے تین اسماء ذکر کئے گئے ہیں: جن میں سے ایک نام ، رسول اللہ کے والد کے نام کے مطابق ہے۔
بعض روایات میں "اسمہ اسم ابی " آیا ہے، جبکہ "اسم ابی ہ" راوی کی جانب سے اضافہ ہوا ہے ، کیونکہ راوی تفسیر حدیث سے لابلد تھا اور اسے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے تین نام ہیں، لہذا اس نے روایت کی اصلاح کرنے کے لیے جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی " کا اضافہ کر دیا۔ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی کہ آنجنابؑ کے تین نام ہیں جن میں سے ایک عبد اللہ ہے تو ممکن ہے وہ یہ اشتباہ نہ کرتا۔
نیز یہ بھی ممکن ہے کہ روایت اس انداز سے ہو:"اسمہ اسمی و اسم ابنہ اسم ابی "یعنی ان کا نام میرے نام اور ان کے بیٹے کا نام میرے والد کے نام کے مطابق ہوگا" کیونکہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبد اللہ، حضرت مہدی علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ہیں۔"
ایک اور احتمال کے مطابق ممکن ہے کہ روایت اس طرح ہو: "اسم ابی ہ اسم ابنی" یعنی ان کے والد کانام میرے بیٹے کے نام کے مطابق ہوگا۔ کیونکہ رسول اللہ کے نواسے امام حسنؑ ہیں اور آنحضرتؑ یعنی امام مہدی علیہ السلام کے والد کا نام بھی حسن ہے اور راوی نے جملہ "اسم ابی ہ اسم ابنی" کے بجائے جملہ"اسم ابی ہ اسم ابی " نقل کردیا ہے اور لفظ ابنی و ابی جا بجا ہوگئے ہیں۔ احمد بن حنبل نے متعدد مقامات پر فقط "اسمہ و اسمی" نقل کیا ہے اور بقیہ اضافات مثلاً"اسم ابی ہ اسم ابی " وغیرہ کو اپنی روایات میں نقل نہیں کیا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اضافہ یا راوی کی جانب سے ہوا ہے، یا ضبط تحریر میں اشتباہ ہوا ہے یا دیگر علتوں کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔
۳ ۔ مستشکل کا دعویٰ باطل ہے:
بر فرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جملہ "اسم ابی ہ اسم ابی " صحیح ہے پھر بھی مستشکل کا دعویٰ باطل ہے، کیونکہ یہ حدیث قابل توجیہ ہے اور علمائے فریقین نے اس سلسلہ میں مختلف توجیہات پیش کی ہیں، ان میں سے بعض توجیہات یہاں پیش کی جارہی ہیں:
توجیہ اول:
فاضل متتبع مولا محمد رضا الامامی کا کہنا ہے کہ کتاب "جنات الخلود" میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے دو نام حسن اور عبد اللہ ذکر کئے گئے ہیں، اور یہ بات شیعوں میں سے صاحب کفایت الموحدین اور اہل سنت میں سے ملک العلماء قاضی شہاب الدین الدولہ آبادی صاحب تفسیر مناقب السادات و ہدایت السعداء وغیرہ نے نقل فرمائی ہے۔
اب جبکہ امام حسن عسکری کا نام مبارک عبد اللہ بھی ثابت شدہ ہے تو جملہ"اسم ابی ہ اسم ابی " شیعہ عقیدہ کے عین مطابق ہے اور اس طرح مستشکل کے لیے کوئی جائے اشکال باقی نہیں رہتی۔
توجیہ دوئم:
کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی کے بعض ہم عصر علماء سے نقل ہوا ہے کہ امام حسن عسکری کی کنیت ابو محمد ہے۔ حضرت عبد اللہ بھی کیونکہ رسول گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے والد بزرگوار ہیں لہذا ابو محمد کہلائیں گے۔
پس ان دونوں کنیتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، حضرت مہدی ؑ کے والد کی کنیت بھی ابو محمد ہے اسی طرح رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے والد بزرگوار کی کنیت بھی ابو محمد ہے ۔ لہذا حدیث "اسم ابی ہ اسم ابی " اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کیونکہ کلام عرب میں اسم کی جگہ کنیت بھی استعمال کی جاتی ہے۔
۴ ۔ بعض روایات کی تصریح کہ حضرت مہدی (عج) کے والد امام حسن عسکری ؑ ہیں:
بعض روایات و کلام علمائے اہل سنت میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے والد، حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں ، ان روایات کی روشنی میں آنجناب کانام نامی محمد بن الحسن العسکری ہے۔
سلیمان قندوزی کہتے ہیں: شیخ الجلیل العالم الکامل با اسرار الحروف، کمال الدین ابو سالم محمد بن طلہ بن محمد بن الحسن الحلبی الشافعی(قدس سرہ) اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔
نیز شیخ الکبیر الکامل با اسرار الحروف صلاح الدین الصفری، شرح دائرہ میں کہتے ہیں کہ مہدی وہی امام ثانی عشر فرزند حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔
اسی طرح شیخ الاسلام احمد الجامی، شیخ عطار نیشاپوری، شمس الدین تبریزی، جلال الدین، مولانا رومی، سید نعمت اللہ الولی، سید النسیمی وغیرہ نے اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں جو اشعار کہے ہیں ان میں حضرت مہدی علیہ السلام کو گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرزند تسلیم کیاہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے بزرگان اہل سنت نے اپنی اپنی مختلف کتب میں ایسی ہی روایات نقل کی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام، امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں
۔
۳ ۔ حضرت مہدی (عج)، امام حسن ؑ کی نسل سے ہیں یا امام حسین ؑ کی نسل سے ہیں؟
بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ حضرت مہدی (عج)، امام حسن ؑ کی نسل سے ہیں ۔ اس عقیدے یا شبہ کا سبب جو روایت ہے جسے فقط ابو داؤد سجستانی نے اپنی کتاب سنن میں نقل کیا ہے۔ وہ روایت ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے:
"قال علی و نظر إلی ابنه الحسن فقال ان ابنی هذا سید کما سماه النبی و سیخرج من سلبه رجل یُسَمَّی باسم نبیکم یشبه فی الخُلُقِ و لا یشبه فی الخَلقِ ثم قصّة یملا الارض عدلا
؛ (حضرت) علی ؑ نے اپنے فرزند (امام) حسن ؑ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے جیسا کہ رسول اکرم نے اسے اس نام سے نوازا ہے۔ اس کی نسل سے میرا ایک فرزند ظہور کرے گا جو تمہارے نبیؐ کا ہمنام ہوگا جو شکل و صورت میں تو ان سے مشابہ نہیں ہے لیکن خُلق و خو میں ان سے مشابہ ہوگا، پھر اس کے بعد انھوں نے ان کے زمین کو عدل و انصاف سے پُر کرنے کی داستان بیان فرمائی۔"
ابو داؤد سجستانی کی اس روایت کا سہارا لیکر بعض اہل سنت نے اس امر کا اظہار خیال کیا ہے کہ مہدی آخر الزمان، امام حسن ؑ کی اولاد میں سے ہوں گے نہ کہ امام حسین ؑ کی اولاد میں سے۔
عظیم آبادی کہتے ہیں: "حدیث ابو اسحاق میں وارد ہوا ہے کہ علی ؑ نے اپنے فرزند حسن ؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مہدی میرے اسی فرزند سے ہوں گے۔ یہ اختصاص اسی لیے تھا تاکہ کل کسی کو یہ گمان نہ ہوجائے کہ انکا مقصد امام حسین ؑ تھے۔ اسی لئے حضرت نے اشارہ کرکے مشخص و معین فرما دیا۔
یہ حدیث صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضرت مہدی ؑ، امام حسن ؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ البتہ دونوں روایات میں یکسانیت و ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ماں کی طرف سے حسینی ہوں گے؛ کیونکہ حضرت مہدی ؑ کی والدہ صلب امام حسین ؑ سے ہیں پس یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ باپ کی طرف سے حسنی اور ماں کی طرف سے حسینی ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم کے دونوں بیٹوں حضرات اسماعیل و اسحاق کے مابی ن واقعہ پیش آیا ہے یعنی جیسا کہ تمام انبیائے بنی اسرائیل حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں جبکہ حضرت اسماعیل ؑ سے فقط خاتم الانبیاء تشریف لائے ہیں اور قائم مقام کل و نعم العوض اور خاتم الانبیاء قرار پائے؛ اسی طرح اکثر ائمہ و اکابر امت امام حسین ؑ کی اولاد سے ہیں پس بہتر یہی ہے کہ خاتم الاوصیاء حضرت مہدی (عج) امام حسن ؑ کی نسل سے آئیں جو تمام اوصیائے الٰہی کے قائم مقام قرار پائیں۔
"
نیز ابن عربی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب، حضرت مہدی ؑ کے جدِ بزرگوار ہیں
۔
جواب
مختلف وجوہات کی بنا پر یہ شبہ یا نظریہ کہ حضرت مہدی ، امام حسن ؑ کی اولاد میں سے ہوں گے؛ قابل نقد ہے۔ ذیل میں چند وجوہات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
۱ ۔ نقل حدیث میں اختلاف:
جذری شافعی نے ابو داؤد سے اپنی اسناد کے مطابق اس حدیث کو نقل کیا ہے لیکن اس حدیث میں امام حسن ؑ کے نام کے بجائے امام حسین ؑ کا نام بیان کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : "صحیح بات یہ ہے کہ ہمارے شیخ الاجازہ کے حوالے سے عمر بن حسن الرفی سے جو خبر ہم تک پہنچی ہے اس میں موجود حضرت امیر المومنین علی ؑ کی تصریح کے مطابق حضرت مہدی، حسین بن علی ؑ کی نسل سے ہوں گے؛ کیونکہ حضرت علی ؑ نے اپنے فرزند امام حسین ؑ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: ۔۔۔؛ ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن میں حدیث اس طرح نقل کی ہے اور اس کے بعد سکوت اختیار کیا ہے۔
"
مقدسی شافعی نے اپنی کتاب عقد الدرر میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں امام حسن ؑ کا نام ہی ذکر کیا ہے لیکن محقق کتاب نے کتاب کے ذیلی حاشیہ میں اس حدیث کے نسخہ بدل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس میں امام حسین ؑ کا نام بیان کیا گیا ہے۔
نقل روایت میں یہ اختلاف،
اگر ان دونوں اسماء میں سے کسی کو ایک ترجیح دینے اور اختیار کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی اس پر مستحکم دلیل موجود نہ ہو تو روایت میں یہ نقل اختلاف، کسی ایک نام کے انتخاب کو بے اساس و بے بنیاد بنا دیتا ہے اور کیونکہ امام حسن ؑ کے بارے میں دلیل خارجی مفقود ہے پس امام حسین ؑ کے نام کو ترجیح حاصل ہے۔
۲ ۔ حدیث مقطوع ہے:
جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی سند مقطوع ہے؛ کیونکہ جس شخص (یعنی ابو اسحاق) نے اس حدیث کو حضرت علی ؑ سے نقل کیا ہے اس کا نام اسحاق سبیعی ہے لیکن جیسا کہ منذری نے اس حدیث کی شرح بیان کی ہے اس میں اظہار کیا ہے
کہ اس شخص نے حتیٰ کہ ایک حدیث بھی امام علی ؑ سے نقل نہیں کی ہے؛ کیونکہ آ نجناب کی شہادت کے وقت اس کی عمر صرف چھ یا سات سال تھی۔ بقول ابن حجر
وہ خلافت عثمانی کے خاتمہ سے ۲ سال قبل جبکہ ابن خلقان
کے بقول ۳ سال قبل پیدا ہوا تھا۔ اسی لئے مزی نے ان کے قول کو اس طرح نقل کیا ہے کہ اس شخص نے امام کو دیکھا تو ہے لیکن اس نے حضرت سے کوئی حدیث استماع نہیں کی ہے۔
۳ ۔ حدیث، مجہول السند ہے:
اس حدیث کی سند مجہول ہے؛ کیونکہ ابو داؤد نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے: "مجھے ہارون بن مغیرہ کے حوالے سے خبر پہنچی ہے۔۔۔" سلسلہ سند میں مغیرہ سے قبل کے راوی نامعلوم ہیں۔ پس نامعلوم ہونے کی وجہ سے اس حدیث کے راوی مجہول کہلائیں گے اور یہ حدیث مجہلو السند کہلائے گی؛ اور تمام علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اس قسم کی حدیث کو قابل اعتماد قرار نہیں دیا جاتا ہے۔
۴ ۔ اہل سنت میں اس حدیث کی معارض روایات:
طرق اہل سنت سے بہت سی ا یسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ حضرت مہدی ؑ ، امام حسین ؑ کی نسل سے ہوں گے؛ لہذا ٰ یہ حدیث، اس قسم کی متعدد روایات سے معارض ومخالف ہے۔
قندوزی نے اپنی کتاب ینابی ع المودۃ
، جوینی نے کتاب فرائد السمطین
، آلوسی نے کتاب غالیۃ المواعظ
، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ
، عدوی نے کتاب مشارق الانوار
اور طبری نے ذخائر العقبی
میں رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت کی ہے کہ مہدی اولاد امام حسین ؑ میں سے ہوں گے۔
اسی طرح عمری نے کتاب ذخیرۃ العجائب
، شعرانی نے المواقیت
، کنجی نے البیان
، ابن قتیبہ نے غریب الحدیث
، ذہبی نے میزان الاعتدال
اور ابن حجر نے کتاب لسان المیزان
میں روایات نقل کرنے کے بعد صراحتاً کہا ہے کہ مہدی آخر الزمان، امام حسین ؑ کی ذریت میں سے ہوں گے۔
برہان الدین اپنی کتاب سیرۃ الحلبیہ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان کہتے ہیں:
"رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہمارے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں آپؐ نے آئندہ زمانے میں پیش آنے والے حوادث زمانہ کے بارے میں خبردار کیا اور فرمایا: اگر اس دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ باقی نہ بچے خداوند عالم تب بھی ا س دن کو اتنا طولانی کردے گا یہاں تک کہ میری نسل سے ایک مرد قیام کرے گا جو میرا ہم نام ہوگا۔ اس موقع پر سلمان اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! وہ شخص آپ کے کس فرزند کی اولاد میں سے ہوگا؟ آپؐ نے امام حسین ؑ کی پشت مبارک پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا: وہ شخص میرے اس فرزند کی اولاد میں سے ہوگا۔
"
۵ ۔ مذکورہ حدیث کا "جعلی" ہونا:
مذکورہ حدیث کے "جعلی" ہونے کا احتمال بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حسنیوں اور ان کے چاہنے والوں کا یہ خیال تھا کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن بن امام حسن ؑ مجتبیٰ المعروف بہ حسن مثنی ہی مہدی ؑ ہیں جو ۱۴۵ ھ میں منصور عباسی کے دورِ اقتدار میں قتل کر دیئے گئے تھے۔ جبکہ عباسیوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ محمد بن عبد اللہ عباسی ملقب بہ مہدی ہی مہدی موعود ہے جس کا مقصد اپنے عظیم سیاسی مقاصد کا حصول تھا کیونکہ وہ اس دعوے کے بغیر اپنے سیاسی مقاصد کا حصول ناممکن سمجھ رہے تھے۔
۶ ۔ مذکورہ حدیث اور مہدی کے ابن الحسین بیان کرنے والی روایات میں عدم تعارض:
ان تمام تر بیان کردہ مشکلات کے باوجود اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ بات قابل توجہ اور شایان بیان ہے کہ اس حدیث اور حضرت مہدی ؑ کے ابن الحسین پر دلالت کرنے والی متواتر روایات میں کوئی تعارض نہیں ہو پائے گا اور ان میں کوئی باہمی مشکل پیش نہیں آسکتی جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دونوں طرح کی روایات کو اس طرح ہم آہنگ کرسکتے ہیں کہ حضرت امام مہدی ؑ حسینی الاب و حسنی الاُمّ ہیں؛ کیونکہ امام سجاد ؑ کی زوجہ یعنی امام محمد ؑ باقر کی والدہ جامدہ فاطمہ بنت الحسن یعنی امام حسن ؑ کی دختر نیک اختر ہیں۔ بنابر اس کے امام باقر ؑ حسینی الاب اور حسنی الام ہیں اور اسی طرح انکے فرزندان بھی ذریت سبطین قرار پائیں گے۔
پس اگر ابو داؤد کی نقل کردہ حدیث کو صحیح فرض کرلیا جائے تو فقط ایک یہی مناسب توجیہ پیش کی جاسکتی ہے ورنہ بصورت دیگر ابو داؤد کی حدیث کی صحت کو ثابت کرنا نہایت مشکل ہے۔
۷ ۔ روایات شیعہ:
اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے علاوہ شیعہ منابع میں کثرت سے روایات موجود ہیں جو بیان کر رہی ہیں کہ حضرت مہدی ؑ ، نسل امام حسین ؑ سے ہوں گے۔
جن میں بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مہدی ؑ امام حسین ؑ کی نسل میں نویں فرزند ہوں گے، بعض میں وارد ہوا ہے کہ حضرت مہدی (عج) ، نسل حسین سے ہیں۔ یہ روایات عظیم عالم دین شیخ کلینی نے کتاب کافی، شیخ نعمانی نے کتاب "الغیبۃ" میں اور شیخ صدوق نے کتاب "کمال الدین" میں نقل فرمائی ہیں۔
المختصر:
پس فریقین کی نقل کردہ روایات کی سند و متن ، علماء و افاضل کے اقوال اور ائمہ حدیث کی روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مہدی موعود ہرگز حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں لہذا اس سلسلہ میں منکرین مہدویت کا دعویٰ بالکل غلط ہے اور حدیث "لا مہدی اِلّا عیسیٰ بن مریم" غیر معتبر اور بے اہمیت ہے۔
اسی طرح فریقین کی روایات اور علمائے اہل سنت کے اقوال کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت مہدی ؑ کے والد بزرگوار امام حسن ؑ عسکری ہی ہیں اور روایتِ "اسم ابی ہ اسم ابی " مختلف دلائل کی بنا پر غیر معتبر ہے، اور بر فرض صحت، قابل توجیہ ہے یعنی اس حدیث اور اُس روایت میں تعارض نہیں ہے جس میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہی کو حضرت مہدی (عج) کا والد ماجد بیان کیا گیا ہے۔
نیز روایات کی جانچ پڑتال اور آرائے فریقین کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مہدی آخر الزمان حضرت امام حسین ؑ کی ذریت سے ہیں اور جس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ امام حسن ؑ کی اولاد سے ہوں گے وہ مختلف جہات سے قابل نقد ، غیر معتبر اور ناقابل صحت ہے۔
شبہات کی تیسری قسم: شبہ طول عمر
حقیت امر یہ ہے کہ صاحب العصر و الزمان حضرت مہدی ؑ کی طول عمر کے بارے میں بحث و جدال کرنا ایک بے معنی امر ہے اور یہ شبہ ایجاد کرنے کی وجہ خاندان پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بغض و عناد اور کینہ و حسد ہے یا اس امر کو پروردگار عالم کی قدرت مطلقہ سے باہر سمجھنا ہے! اور واقعی امر کے مقابلہ میں اس خام خیالی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
صاحب العصر علیہ السلام کی طول عمر ایک ایسی مسلم حقیقت ہے کہ جس سے انکار یا اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لہذا اس سلسلہ میں تمام ایجاد کئے گئے شبہات کی کوئی حیثیت نہیں ہے؛ کیونکہ اس مسئلہ میں شک کرنا، حرارت آتش اور روز روشن میں نور خورشید کے وجود اور دیگر مسلم الثبوت امور اور واضح حقائق میں شک کرنے کے مترادف ہے۔
لیکن بہر کیف ہم یہاں بطور مختصر قرآن کریم اور اعتقادی اعتبار سے آنجناب کی طول عمر کے بارے میں چند شواہد پیش کر رہے ہیں:
قرآن کریم کی روشنی میں طول عمر:
جب ہم قرآن کریم میں طول عمر کے مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کتاب عظیم میں متعدد ایسے موارد نظر آتے ہیں کہ جنہیں خداوند عالم نے طول عمر سے نوازا ہے ۔ لہذا ایسے موارد کی روشنی میں تو امام عصر کی عمر طولانی ایک عام سی بات قرار پائے گی۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
(
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
)
؛ "اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا ہے اور وہ انکے درمیان پچاس سالم کم ایک ہزار سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ لوگ ظالم تھے۔"
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال تبلیغ فرمائی تھی لیکن جب وہ مبعوث ہوئے تو ان کی عمر کتنی تھی اور طوفان کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہے؟ اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
"نوح ؑ کی عمر شریف ۲۳۰۰ سال تھی۔ ۸۵۰ سال بعثت سے قبل، ۹۵۰ سال قوم کو تبلیغ کرتے رہے اور ۵۰۰ سال طوفان کے بعد زندہ رہے ۔ پھر انھوں نے شہروں کو تعمیر کیا اور انکی آل و اولاد شہروں میں آباد ہوگئی۔
"
جبکہ دوسری روایت میں ۲۵۰۰ سال عمر بیان کی گئی ہے۔
بہرحال یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ حضرت نوح ؑ قدرت الٰہی سے متعدد صدیاں زندہ رہے۔ حضرت امام زین العابدین سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: "قائم میں نوح ؑ کی ایک سنت ہے اور وہ سنت طول عمر ہے۔
"
نیز حضرت یونس ؑ کے قصہ میں نظام طبیعت کے فرمانبردار ہونے اور مشیت و ارادہ الٰہی کے متحقق ہونے میں اس کی قدرت تجلی کرتی ہوئی نظر آتی ہے:
(
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ فَلَوْلا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
)
؛ "پھر انھیں مچھلی نے نگل لیا جبکہ وہ خود اپنے نفس کی ملامت کر رہے تھے، پھر ا گر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے۔"
اس آیت کریمہ کا ظاہر بیان کر رہا ہے کہ اگر حضرت یونس ؑ شکم ماہی میں تسبیح خدا نہ کرتے تو پروردگار عالم قیامت تک انھیں اسی کے پیٹ میں زندہ رکھتا۔
لہذا بعض مفسرین کا یہ کہنا : "اگر حضرت یونس کا انتقال ہوجاتا تو مچھلی کا پیٹ ہی انکی قبر بن جاتا اور قیامت تک انکا بدن اس میں محفوظ رہتا" ظاہر آیت کے برخلاف ہے۔
زمخشری ، تفسیر کشاف میں کہتے ہیں: "خداوند تعالیٰ کے اس فرمان: "للبث فی بطنہ" سے مراد یہ ہے کہ وہ مچھلی کی پیٹ میں قیامت تک زندہ رہتے۔"
نیز تفسیر بیضاوی میں بھی یہی کچھ بیان کیا گیا ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خداوند عالم اس کام پر مکمل طور پر قدرت رکھتا ہے کہ کسی انسان کو ایسی جگہ جہاں نہ ہواہو، نہ غذا اور نہ ہی کوئی اسباب زندگی موجود ہوں، زندہ و سلامت رکھ سکتا ہے بلکہ اسے شکم ماہی میں ہضم ہوکر اس کے بدن کا حصہ بھی نہیں بننے دیتا اور پھر لاکھوں کروڑوں سال زندہ رکھ سکتا ہے۔
تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہ خدائے بزرگ و برتر اپنے ولی برحق کو زندہ نہیں رکھ سکتا اور اسے طولانی عمر عطا نہیں کرسکتا؟!
اعتقاد کی روشنی میں طول عمر
اگر اعتقادی اعتبار سے حضرت مہدی (عج) کی طول عمر کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک عام اور معمولی امر معلوم ہوتا ہے کیونکہ جو شخص خداوند عالم پر اعتقاد رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ زندگی کا کاروبار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی خداوند عالم نے تمام زندہ موجودات کی موت و حیات کو خود معین کیا ہے۔ جس طرح اس نے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر کیا ہے وہ اسے آگے بڑھا سکتا ہے۔ پس اگر وہ اپنے بندوں میں سے کسی کو طولانی عمر عطا کرے گا تو اس کی اس طولا نی عمر کے اسباب بھی مہیا کرے گا چاہے اس کے لئے اسباب طبیعی ہوں یا غیر طبیعی۔ اور اس امر کے ذریعہ قانونِ طبیعت بھی نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس کے لئے تمام عوامل یکساں ہیں۔
عام طور پر مرنے کے بعد انسان کا بدن متعفّن و متلاشی ہونے لگتا ہے اور اس کا بدن متفرق ہوکر جراثیم میں تبدیل ہوجاتا ہے، یہ ایک بالکل طبیعی مسئلہ ہے لیکن شہر قاہرہ میں آج ہزاروں سال فراعنہ کے زمانہ کے کتنے ہی مومیائی بدن ملاحظہ کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک انکے بدن متفرق و متلاشی نہیں ہوئے ۔ انکے بارے میں کوئی یہ کہتا ہوا نظر نہیں آتا کہ خلاف عادت ہے بلکہ کہتے ہیں کہ ایک طبیعی قانون نے دوسرے طبیعی قانون کو نقض کیا ہے؛ یعنی بدن کا مومیائی ہونا اس کے متعفن و متلاشی ہونے میں مانع رہا ہے۔
مومیائی اجسام سے قطع نظر، آپ کو اس سے بھی زیادہ قابل تعجب مناظر دیکھنے میں آئیں گے مثلاً جب خدا کے بعض صالح بندوں کی قبریں منہدم ہوگئیں تو انکی قبروں میں انکے بدن بالکل صحیح و سالم دیکھے گئے جنہیں ذرّہ برابر گزند نہ پہنچا۔ جیسے شیخ صدوق کا بدن انکی وفات کے ۹۰۰ سال بعد بھی تازہ موجود تھا۔ اور یہ صرف حکم الٰہی ہی سے ممکن ہے۔
پس بنابر اس کے طبیعت یقینا ایک شئی ہے لیکن ارادۂ الٰہی طبیعت سے بالاتر ہے اور اس کی مشیت ،مادہ و مادیات سے بلند تر ہے؛ کیونکہ خداوند مادہ و طبیعت کا خالق و قادر ہے اور اسے اس میں ہر طرح کے مکمل تصرف کا اختیار حاصل ہے اور اسی نے تمام اشیاء کو مختلف خصوصیات مرحمت کی ہیں۔ تاریخ بشریت میں بہت سے ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو صدیوں زندہ رہے ہیں اور انھوں نے طولانی عمریں پائی ہیں۔ بعض صاحبان قلم نے اپنی اپنی کتب میں اس موضوع پر مستقل فصل قائم کی ہیں اور ثابت کیا ہے طولانی عمر کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بعض ادوار میں یہ ایک بالکل عام اور طبیعی مسئلہ رہا ہے۔ ذیل میں چند طولانی عمر پانے والی شخصیات کے نام ذکر کئے جا رہے ہیں:
۱. حضرت آدم ع؛ ۹۳۰ سال
۲. حضرت سلیمان بن داؤد؛ ۷۱۲ سال
۳. حکیم لقمان ۴۰۰۰ یا ۴۰۰ سال
۴. ربیع بن ضبع فزاری؛ ۳۸۰ سال
۵. شداد بن عامر ؛ ۹۰۰ سال
۶. عمر بن عامر ؛ ۸۰۰ سال
۷. قس بن ساعدہ ایادی؛ ۶۰۰ سال
۸. عزیز مصر؛ ۷۰۰ سال
۹. ریان پدر عزیز مصر؛ ۱۷۰۰ سال
۱۰. لقمان عادی؛ ۵۶۰ سال
دوسری فصل: چند سوالات اور ان کے جوابات
۱ ۔ کیا عصر غیبت میں امام عصر (عج) سے ارتباط ممکن ہے؟
جواب: امام زمانہ و حجت حق کے وجود پر ایمان و اعتقاد شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے ہے۔ روایات و ادلہ کی روشنی میں ہر زمانہ میں ایک امام برحق کا وجود ضروری ہے۔ اسی طرح یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی۔ آج اس زمانہ میں جبکہ حجت الٰہی پردہ غیبت میں موجود ہے تو ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ ؑ سے ارتباط ممکن ہے؟ اور اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟
غیبت صغریٰ میں تو کسی ایک شیعہ عالم نے بھی نواب اربعہ اور امام عصر (عج) کے باہمی ارتباط و دیدار کا انکار نہیں کیا ہے لیکن غیبت کبریٰ میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ نظریات پیش کرنے سے قبل بطور مقدمہ، ارتباط و رؤیت کےمراتب پیش کر رہے ہیں:
مراتب ارتباط:
۱ ۔ شناخت کے بغیر دیدار، اس کی دو صورتیں ہیں:
الف) کبھی کبھی حضرت بعض شیعوں کے درمیان حاضر ہوتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ حضرت حجت ہیں اور بعد میں بھی اس موضوع سے بے خبر رہتے ہیں۔
ب) جس سے حضرت کی ملاقات ہوتی ہے وہ بوقت مشاہدہ متوجہ نہیں ہوتا لیکن بعد میں متوجہ ہو جاتا ہے کہ جس شخص سے ملاقات کر رہا تھا وہ حضرت حجت (عج) تھے۔ شیخ طوسی نے اس سلسلے میں اپنی تالیف کردہ کتاب "الغیبۃ" میں اس موضوع کو خاص طور پر ذکر کیا ہے
۔
۲ ۔ شناخت کے ساتھ دیدار؛ یعنی جو شخص امام زمانہ (عج) سے ملاقات کرے یا انکا دیدار کرے اسے معلوم ہو کہ جس شخصیت سے وہ مل رہا ہے یا دیدار کر رہا ہے وہ امام عصر (عج) کی ذات ہے۔
۴ ۔ فیضیاب ہونا؛ یعنی حضرت کی معرفت و شناخت اور سوال و جواب کے ساتھ دیدار۔ اس مرحلہ میں شخص نے حضرت کو فقط دیکھا اور پہچانا ہی نہیں ہے بلکہ ان سے سوال اور گفتگو بھی کی ہے۔ یہ مرحلہ سب سے بالاتر اور اہم ہے۔
البتہ حضرت سے ارتباط صرف ان مذکورہ تین مراحل پر منحصر نہیں ہے بلکہ توسل اور آنجناب کی آواز سننا بھی ارتباط کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔
حضرت سے ارتباط کے بارے میں نظریات:
اس سلسلہ میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:
۱ ۔ غیبت کبریٰ میں ارتباط و مشاہدہ ممکن نہیں؛
۲ ۔ اولیائے الٰہی کے لئے ارتباط و استفادہ ممکن ہے۔
نظریہ عدم امکان ارتباط:
بعض بزرگ شیعہ علماء کا یہ نظریہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ (عج) سے شیعوں کا ارتباط ممکن نہیں ہے اور اگر اس عرصہ میں کوئی شخص دیدار کا دعویٰ کرے گا تو آنجناب کے فرمان کے مطابق اس کی تکذیب کردی جائے گی اور اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی۔ چوتھی صدی ہجری کے بزرگ عالم محمد بن ابراہیم معروف بہ شیخ نعمانی صاحب کتاب "الغیبۃ"
؛ ملا محسن فیض کاشانی صاحب کتاب "الوافی
؛ کاشف الغطاء صاحب رسالہ حق المبین
اور شیخ مفید، یہ وہ علمائے کرام ہیں جنہوں نے صراحت کے ساتھ اس نظریے کو قبول کیا ہے اور یہ حضرات غیبت کبریٰ کے زمانہ میں حضرت ولی عصر (عج) کے مخصوص خادموں کے لئے دیدار کو ممکن سمجھتے ہیں
۔
دلائل عدم امکان ارتباط:
۱ ۔ علی بن محمد سمری کے نام حضرت کی توقیع:
"بسم الله الرحمن الرحیم یا علی بن محمد سمری
۔۔۔؛
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اے علی محمد بن سمری ! اللہ تمہاری وفات پر تمہارے بھائیوں کو صبر کرنے پر اجر عظیم عطا کرے۔ اب سے چھ دن بعد تمہارا انتقال ہوجائے گا۔ لہذا اپنے امور کو منظم کرلو اور آئندہ کے لئے اپنا وصی کسی کو مقرر نہ کرنا جو تمہاری وفات کے بعد تمہارا قائم مقام ہو، ا س لئے کہ میری غیبت عامہ واقع ہوچکی ہے، اور جب اللہ کا حکم ہوگا اسی قت ظہور ہوگا اور یہ ایک طویل مدت کے بعد ہوگا۔ اس عرصے میں لوگوں کے دل سخت ہوجائیں گے، زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی۔ ہمارے شیعوں میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو مجھے دیکھنے کا دعویٰ کریں گے۔ مگر جو خروج سفیانی اور صدائے آسمانی کے پیدا ہونے سے قبل مجھے دیکھنے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور مفتری ہے۔ اور ہر قسم کی قوت و طاقت ذات الٰہی سے مخصوص ہے۔
۲ ۔ حضرت کی عدم شناخت پر دلالت کرنے والی روایات:
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے امیر المومنین حضرت علی ؑ سے نقل فرمایا ہے:
"ولو خلت الارض ساعة واحدة من حجة الله لساخت باهلها و لکن الحجة یعرف الناس ولا یعرفونه کما کان یوسف یعرف الناس وهم له منکرون
؛ اگر زمین ایک لحظہ کے لئے بھی حجت خدا سے خالی ہوجائے تو اپنےساکنوں سمیت تہس نہس ہوجائے، جو حجت خدا ہے وہ لوگوں کو جانتا ہے لیکن لوگ اسے نہیں پہچانتے ہیں، جس طرح یوسف لوگوں کو پہچانتے تھے لیکن لوگ انھیں نہیں پہچانتے تھے۔"
۳ ۔ موسم حج میں امام ؑ کے عدم دیدار پر دلالت کرنے والی روایات۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
"یفقد الناس امامهم فیشهد الموسم فیراهم ولا یرونه
؛ لوگ اپنے امام ؑ کو کھو بیٹھیں گے۔ وہ حج کے موقع پر وہاں ہوتے ہیں ، وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں دیکھ پاتے۔"
۴ ۔ عصر غیبت میں شیعوں کے امتحان پر دلالت کرنے والی روایات۔ امیر المومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: "ولکن بعد غیبة و حیرة فلا یثبت فیها علی دینه الّا المخلصون المباشرون لروح الیقین
؛ وہ غیبت و حیرت کے بعد قیام کریں گے صرف یقین کامل کی منزل پر فائز مخلصین ہی انکے دین پر باقی رہ جائیں گے۔"
پس ان روایات کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ غیبت کے زمانہ میں آنجناب سے ارتباط ممکن نہیں ہے۔
نظریہ امکان ارتباط:
عام طور پر قدماء و متاخرین علمائے شیعہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں حضرت کے دیدار و شرفِ ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں۔ بظاہر یہ نظریہ سید مرتضیٰ سے شروع ہوتا ہے اور انکے بعد تمام علماء میں مشہور ہو جاتا ہے، محدث نوری ، کراچکی اور شیخ طوسی وغیرہ نے خصوصیت کے ساتھ اس نظریہ کو پیش کیا ہے۔
سید مرتضیٰ کہتے ہیں:
"ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ نہ کوئی امام ؑ کی خدمت میں پہنچتا ہے اور نہ کوئی ان سے ملاقات کرسکتا ہے۔
"
نیز لکھتے ہیں: "ہم قطعا نہیں کہہ سکتے کہ امام ؑ اپنے بعض شیعہ و اولیاء کے لئے ظاہر نہ ہوتے ہوں، بلکہ یہ ایک جائز منطقی امر ہے
"
شیخ طوسی رقمطراز ہیں:
"ہم قطعا نہیں کہہ سکتے کہ امام ؑ اپنے تمام اولیاء سے پوشیدہ ہوں بلکہ اکثر اولیاء کے لئے ظاہر ہونا ایک جائز امر ہے۔
"
دلائل عدم ارتباط پر تنقیدی نظر:
پہلی دلیل پر نقد:
بعض حضرات نے زمانہ غیبت میں حضرت امام زمانہ (عج) سے عدم امکان ارتباط پر استدلال کرتے ہوئے حضرت صاحب العصر والزمان کی علی بن محمد سمری کے نام جس توقیع مبارک سے تمسک کیا ہے، اس میں مندرجہ ذیل نکات قابل ملاحظہ ہیں:
۱ ۔ کسی نے روایات کے اس اطلاق کو قبول نہیں کیا ہے اسی لئے بہت سے علماء و صلحا نے اپنے شرف ملاقات کے واقعات کو نقل کیا ہے۔
۲ ۔ توقیع شریف میں مشاہدہ کے دعویٰ کی تکذیب کی گئی ہے اور مشاہدہ شناخت کے ساتھ دیکھنے کو کہا جاتا ہے
۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثر دیدار ابتدائی طور پر شناخت کے ساتھ واقع نہیں ہوتا ہے۔
۳ ۔ ممکن ہے کہ توقیع شریف میں مشاہدہ کا دعویٰ کرنے والی کی تکذیب کرنے سے مراد یہ ہو کہ اگرکوئی شخص اس دعویٰ کے ذریعہ اپنی نیابت خاص کا دعویٰ کرنا چاہے تو اس کی تکذیب کردی جائے کیونکہ عصر غیبت میں امام ؑ نے خصوصیت کے ساتھ نیابت خاص کی نفی فرمائی ہے کیونکہ توقیع شریف میں یہ فقرہ موجود ہے: "شیعوں میں سے ایسے ہوں گے جو مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے "
۴ ۔ شیخ طوسی نے اس توقیع شریف کو نقل کرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا اور امت کے صالح افراد کے لئے امکان رؤیت کا نظریہ پیش کیا ہے۔
۵ ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ توقیع میں مشاہدہ سے مراد، اختیاری مشاہدہ ہو؛ یعنی غیبت کبریٰ میں رؤیت و دیدار خود ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ وہ جسے چاہیں گے اس شرف سے نوازیں گے۔
الحاصل یہ توقیع شریف دیدار و مشاہدہ کی نفی نہیں کر رہی ہے بلکہ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ صیحہ ء آسمانی و خروج سفیانی سے قبل یہ امر ظاہر نہیں ہوگا، نہ یہ کہ امکان رؤیت بھی نہ ہوگا۔ اسی لئے فرمایا ہے: "جو شخص ان دو علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے مشاہدہ کا دعویٰ کرے تو وہ شخص جھوٹا ہے۔" یعنی ظہور کے مشاہدہ کا دعویٰ کرے۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے مفضل سے فرمایا:
"لا تراه عینٌ ظهوره الّا رأته کلُّ عین، فمن قال لکم غیر هذا فکذبوه
؛ بوقت ظہور کوئی ایک آنکھ انھیں نہیں دیکھے گی بلکہ تمام آنکھیں انھیں دیکھیں گی۔ پس اگر اس سے سواکوئی شخص تم سے کچھ کہے تو اس کی تکذیب کر دو۔"
پس بنا بر اس کے یہ توقیع شریف امکان رؤیت کی نفی نہیں کر رہی ہے۔ علاوہ بریں دلیل قطعی بھی امکان رؤیت پر دلالت کر رہی ہے اور وہ دلیل قطعی تواتر اجمالی ہے یعنی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ کثیر التعداد صالح و نیک افراد نے انکی زیارت و دیدار کا واقعہ نقل کیا ہے لہذا انکا یہ دعویٰ قطع و یقین کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انکا دعویٰ حدیث کی مانند ہے کیونکہ ان میں اکثر اہل تقویٰ و ورع اور صاحبان وثاقت و اطمینان ہیں جو راویان حدیث سے کم نہیں، پس انکی یہ اخبار بھی حدیث ہی ہیں جو اُس حدیث کے معارض ہیں۔
پس اگر مفاد حدیث یہی نہ ہو جو بیان کیا گیا ہے اور رؤیت کی نفی کو تسلیم کیا جائے تو پھر نفی رؤیت سے مراد وہی معنی ہوں گے جو ہم نے بیان کئے ہیں۔
دوسری اور تیسری دلیل پرنقد:
بعض حضرات نے غیبت کے زمانہ میں حضرت صاحب الزمان کے عدم امکان رؤیت پر مخصوص روایات سے تمسک کرکے استدلال قائم کیا ہے، ان کے جواب میں ہم کہیں گے:
۱ ۔ ان روایات میں عام لوگوں کے لئے دیدار کی نفی کی گئی ہے اور یہ بعض صاحبان معرفت اور ممتاز شخصیات کے لئے دیدار کے منافی نہیں ہے۔
۲ ۔ دوسری روایت خاص موسم حج میں عدم رؤیت کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ لہذا دوسرے مواقع کو شامل نہیں کرسکتی۔
۳ ۔ پہلی روایت میں موجود قرینہ "لا یعرفونه
" کی بنا پر دوسری روایت میں عدم رؤیت سے مراد، عدم شناخت ہے۔ خصوصاً یہ کہ روایت میں حضرت مہدی (عج) کو حضرت یوسف ؑ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ لوگ انھیں دیکھتے تھے لیکن پہچانتے نہیں تھے۔
چوتھی دلیل پر نقد
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ کیونکہ عصر غیبت میں عدم رؤیت کے ذریعے شیعوں کا امتحان لیا جائے گا لہذا یہ امر ملاقات کے دعوے کے منافی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ امتحان شیعہ معاشرے کے عام افراد (عوام) کے لحاظ سے ہے لہذا یہ بات خاص مصالح کی بنا پر بعض بزرگ اور صاحبان تقویٰ سے ملاقات کے منافی نہیں ہے۔
۲ ۔ کیا عصر غیبت میں ملاقات، حکمتِ غیبت کے منافی نہیں ہے؟
بعض حضرات کا یہ خیال ہے کہ عصر غیبت میں ملاقات، حکمت غیبت کے برخلاف ہے کیونکہ غیبت کا مقصد یہ ہے کہ حضرت، تمام لوگوں سے غائب رہیں اور کسی کو انکے بارے میں اطلاع نہیں ہونی چاہیے۔
جواب: حکمت و مقتضی غیبت تمام افراد کے لئے؛ یعنی تمام افراد حضرت کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتے اور اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ بعض افراد بھی خاص مصالح و مقاصد کے تحت انکی خدمت میں نہیں پہنچ سکتے۔
۳ ۔ غیبت کبریٰ میں امکان رؤیت کی صورت میں اس غیبت اور غیبت صغریٰ میں کیا فرق ہے؟
جواب: غیبت صغریٰ میں امام زمانہ (عج) بطور کامل لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ تھے بلکہ اپنے وکلاء و خاص سفیروں سے رابطہ میں تھے اور یہ سفراء کبھی کبھی آنجناب سے بعض افراد کی ملاقات کا لائحہ عمل ترتیب دیتے تھے
۔ لیکن غیبت کبریٰ میں ملاقات کے اس انداز سے سلسلہ کا خاتمہ ہوچکا ہے بلکہ بوقت ضرورت حضرت خود بعض افراد کے دیدار کے لئے تشریف لاتے ہیں اور لوگ اس طرح انکے وجود سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
۴ ۔ کیا عصر غیبت میں امکان ملاقات کو قبول کرنے کی وجہ سے جھوٹے اور فریب کاروں کو فروغ نہ ملے گا؟
جواب: اگر دلیل قطعی کی بنا پر کوئی موضوع ثابت شدہ ہو تو پیش آنے والی بعض مشکلات کی وجہ سے مسلم الثبوت حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس موقع پر لوگوں کی ہدایت کرنا اور انھیں حیلہ گر اور فریب کاروں سے ہوشیار کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔ کیا نبوت کا جھوٹا دعوے کرنے والے بعض لوگوں کی وجہ سے خود نبوت کا انکار کیا جاسکتا ہے؟
۵ ۔ کیا قاعدہ سدّ ذرائع کی بنیاد پر حضرت سے ملاقات کے دعوے کو جھوٹ قرار دیا جاسکتا ہے؟
اہل سنت کے عقیدے کے مطابق مقدمۂ حرام ، بطور مطلق حرام ہے۔ یعنی ہر وہ چیز جو حرام کا سبب بنتی ہے، حرام ہے۔ لہذا انکے مطابق حرام کا سبب بننے والی تمام راہوں کو مسدود کردینا چاہیے۔
جواب: یہ بات اپنے مقام پر ثابت کی جا چکی ہے کہ ہمیشہ حرام کا مقدمہ، حرام نہیں ہوا کرتا بلکہ اس شخص کے لئے اور اس موقع پر حرام ہے جبکہ وہ قطعی و حتمی طور پر حرام کا سبب قرار پائے۔
اگر دعوائے ملاقات کسی کے انحراف کا سبب قرار پائے تو اس کا نقل کرنا حرام ہے لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہے بلکہ انکے نقل کرنے سے حضرت پر لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ہوا و ہوس کے شکار اس سے سوءِ استفادہ کریں لیکن یہاں علماء کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو انکے مکر و فریب سے آگاہ کریں اور دین کا تحفظ کریں۔
خلاصہ کلام و نتیجہ گیری:
ان دونوں نظریات کی جانچ پڑتا اور عدم امکان ارتباط کے دلائل پر غور وفکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے:
۱. عصرغیبت میں رؤیت و دیدار امکان پذیر ہے؛
۲. حضرت کی توقیع شریف، صیحۂ آسمانی و خروج سفیانی سے قبل مشاہدہ عدم ظہور پر دلالت کر رہی ہے، نہ مشاہدۂ رویت پر؛
۳. روایات حضرت کی عدم شناخت پر دلالت کر رہی ہیں، نہ عدم دیدار پر؛
۴. مشاہدہ و رؤیت نیابت خاص کے عنوان سے ممنوع ہے اور اس کے مدعی کی تکذیب کی جائے گی؛
۵. عصر غیبت میں ملاقات ہمارے دست اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ آنجناب کی جانب سے ہے؛
۶. توسل کے ذریعے بھی آنجناب سے ارتباط قائم کیا جاسکتا ہے، کیونکہ توسل بھی ارتباط کی ایک قسم ہے؛
۷. کثیر التعداد علماء کو حضرت کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔
تتمہ:
ذیل میں اس کتاب و رسالہ سے حاصل شدہ نتائج کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے:
۱ ۔ غیبت امام عصر کا موضو ع خود پیغمبر گرامی قدر نے پیش کیا پھر ائمہ ہدی علیہم السلام اور رسول خدا کے بزرگ صحابہ نے پیش کیا تھا۔
۲ ۔ غیبت، ظہور کے مقابلے میں ہے جس کے معنی آنکھوں سے پوشیدہ ہونا ہے، اس کے معنی عدم حضور نہیں ہیں اور یہی معنی احادیث شریفہ اور لغت سے بھی ہم آہنگ ہیں۔
۳ ۔ اسلام میں آنجناب کے وجود غیبت پر ایمان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم نے غیبت پر ایمان کو صفت متقین میں شمار کیا ہے۔
۴ ۔ شیعہ نقطۂ نظر کے مطابق حضرت کی ولادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھ میں واقع ہوئی ہے اور آج تک آنجناب بحکم خدا زندہ اور پردۂ غیبت میں موجود ہیں۔
جبکہ اس سلسلہ میں اہل سنت کے بیانات مختلف ہیں بعض حضرات بالکل شیعوں کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اور ابھی تک غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اہل سنت کی اکثریت کا کہنا ہے کہ آپؑ آخر الزمان میں پیدا ہوں گے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ پیدا تو ہوئے تھے لیکن دنیا سے جاچکے ہیں۔ جبکہ نہایت قلیل تعداد نے انکا بالکل انکار کر دیا ہے۔
۵ ۔ آیات و روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مسئلہ غیبت صرف انہی کے لئے پیش نہیں آیا ہے بلکہ ان سے قبل بعض انبیاء و اولیاء نے بھی غیبت اختیار کی تھی۔ لہذا اصل غیبت امکان پذیر ہے۔
۶ ۔ آیات و روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی زمانہ حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتا، ہر دور میں زمین پر ایک نہ ایک حجت خدا باقی رہتا ہے، بنابر اس کے عصر حاضر بھی حتل خدا سے خالی نہیں ہوسکتا۔
۷ ۔ حضرت کی غیبت بغیر علت و حکمت نہیں ہے۔ اس کی اصل علت و حکمت وہی ارادہ و مشیت الٰہی ہے، اگر چہ روایات میں بعض علل و آثار ضرور بیان کئے گئے ہیں۔
۸ ۔ آنجناب کی غیبت پر ایمان رکھنے والے اوراس ایمان سے عاری شخص کا عمل یکساں نہیں ہوتا۔ آنجناب کی غیبت پر ایمان انسان کی رفتار میں بہت زیادہ اثر انداز ہے۔
۹ ۔ آنجناب کے وجود کا فائدہ تمام زندہ وغیر زندہ موجودات عالم کے لئے میسر ہے کیونکہ حضرت واسطۂ فیض الٰہی ہیں۔ البتہ شیعوں کے لئے ان کے علاوہ بھی دیگر فوائد موجود ہیں۔
۱۰ ۔ فریقین کی روایات اور اقوال علماء کی روشنی میں مہدی آخر الزمان، وہی حضرت حجۃ بن الحسن العسکری ؑ ہی ہیں۔
۱۱ ۔ عصر غیبت میں رؤیت و دیدار ممکن ہے البتہ جس چیز کی توقیع شریف میں نفی کی گئی ہے وہ صیحہ آسمانی و خروج سفیانی سے قبل مشاہدہ ظہور یا نیابت خاص کا دعویٰ ہے۔
خدایا ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھ حقیر نے تیری توفیقات اور اہل بیت علیہم السلام سے استمداد کے ذریعے اس ناچیز اثر کو مکمل کیا ہے تو اسے اپنی بارگاہ اقدس میں درجہ قبولیت اور خوشنودی محمد و آل ؑ محمدؐ عطا فرما اور اسے میرے لئے اور میرے شفیق والدین و شریک حیات کے لئے ذریعہ نجات قرار دے۔بحقِ زهرا و ابیها و بعلها و بنیها
۔
ضمیمہ:غیبت امام ؑ میں شیعوں کی ذمہ داریاں
یوسف دوراں حضرت امام زمانہ (عج) کے عصر غیبت میں منتظرین امام زمانہ (عج) اور شیعوں کی اہم ترین ذمہ داریاں اور فرائض کو جنہیں مختلف احادیث سے جمع کیا گیا ہے۔ مرحوم حاج میرزا محمد تقی موسوی اصفہانی رحمۃ اللہ کی عظیم الشان کتاب "مکیال المکارم" سے نقل کر رہے ہیں ۔ خداوند متعال سے اُمید ہے کہ وہ امام عصر (عج) کی نسبت ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے نیز ہم سب کی مدد فرمائے اور امام کے حقیقی منتظرین اور شیعوں میں سے قرار دے۔
۱ ۔ امام (عج) کی شناخت: اس میں امام (ع) کی صفات، انداز ، خصوصیات اور ظہور کی حتمی نشانیوں اور علامتوں کی شناخت شامل ہے۔
۲ ۔ جب اُنہیں اُن کے بابرکت نام سے یاد کیا جائے تو اُن کی نسبت ادب کا لحاظ رکھنا۔
۳ ۔ آنحضرت سے خاص محبت کرنا۔
۴ ۔ لوگوں میں سب سے زیادہ امام زمانہ (عج) کو پسند کرنا۔
۵ ۔ اُس عظیم ہستی کے ظہور اور فرج کے لیے انتظار کی گھڑیاں کاٹنا۔
۶ ۔ آنحضرت کے رُخ زیبا کی زیارت کے لیے شوق و دلچسپی کا اظہار کرنا۔
۷ ۔ امام زمانہ (عج) کے فضائل اور مناقب کا ذکر کرنا۔
۸ ۔ امام عصر (عج) کی جدائی اور دوری کی وجہ سے غمگین اور پریشان رہنا۔
۹ ۔ ایسی مجالس میں شرکت کرنا جن میں حضرت (عج) کے فضائل و مناقب بیان ہوں۔
۱۰ ۔ امام زمانہ (عج) کے نام پر مجالس کا انعقاد کرنا۔
۱۱ و ۱۲ ۔ اُن کے فضائل و مناقب میں شعر پڑھنا ۔
۱۳ ۔ اُن کے بابرکت نام یا القاب کو لیتے وقت کھڑے ہونا۔
۱۴ و ۱۵ و ۱۶ ۔ امام زمانہ (عج) کی دوری میں رونا ، رلانا اور خود کو رونے پر مجبورکرنا۔
۱۷ ۔ خداوند عزوجل کی بارگاہ میں امام عصر (عج) کی معرفت و شناخت کے لیے دعا کرنا۔
۱۸ ۔ حضرت حجت (عج) کی شناخت کی توفیق کے لیے مسلسل یہ دعا پڑھنا:
"اَللّٰهُمَّ عَرِّفنی نَفسَک فَاِنَّکَ اِنۡ لَمۡ تُعَرِّفۡنی نَفسَک لَمۡ اَعۡرِف نَبِیَّکَ، اَللّٰهُمَّ عَرِّفنی رَسُولَکَ، فَاِنَّکَ اِنۡ لَمۡ تُعَرِّفنی رَسولَکَ لَم اَعۡرِف حُجَّتَک، اَللّٰهُمَّ عَرِّفنی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنۡ لَمۡ تُعَرِّفۡنی حُجَّتَکَ ضَلَلۡتُ عَنۡ دینی
"
"بار الٰہا! تو خود مجھے اپنی پہچان کرادے اگر تو خود کو نہ پہچنوائے گا تو میں تیرے پیغمبر کو نہیں پہچان پاؤں گا، پروردگارا! تو مجھے اپنے رسول کی پہچان کرادے اگر تو نےمجھے اپنے رسول کی پہچان نہ کروائی، تو میں تیرے ولی اور حجت کو پہچان نہ پاؤں گا، پروردگارا! تو مجھے اپنی حجت کی پہچان کرادے اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کروائی، تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا۔"
۱۹ ۔ مندرجہ ذیل دعائے غریق کو مستقل پڑھنا:
"یا اَللهُ یا رَحمانُ یارَحیمُ یا مُقَلِّبَ القُلُوبُ ثَبِّت قَلبی عَلی دینِک
"
" اے میرے اللہ! اے سب پر رحم کرنے والے! اے مسلسل مہربانی سے پیش آنے والے! اے دلوں کو پلٹانے والے! مجھے اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔"
۲۰ ۔ زمانہ غیبت حضرت ولی عصر (عج) میں مستقل دعا کرنا خاص طور پر یہ دعا پڑھنا جو مرحوم ابن طاووس سے نقل ہوئی ہے:
"اَللّهُمَّ اَنتَ عَرَّفتَنی نَفسَک وَ عَرَّفتَنی رَسُولَکَ وَ عَرَّفتَنی مَلائِکتَک وَ عَرَّفتَنی وُلاةَ اَمرِک، اَللّهُمَّ لا آخُذُ اِلّا ما اَعطَیتَ وَ لا اَقی اِلّا ما وَقَیتَ اَللّهُمَّ لا تُغَیَّبَنی عَن مَنازِلَ اُولِیائِک وَ لا تُزِغ قَلبی بَعدِ اِذ هَدَیتَنی اَللَّهُمَّ اهدِنی لِوِلایَةِ مَن اِفتَرَضتَ طاعَتَه
۔۔۔ "
"اے اللہ ! تو نے مجھے اپنی اور اپنے رسول ، فرشتوں اور اپنے اُمور کے صاحبان امر کی پہچان کرادی۔
اے اللہ! میں تیری عطا کے علاوہ کچھ اور نہ لوں اور تیرے علاوہ کوئی میرا خیال رکھنے والا نہیں۔
اے اللہ !مجھے اپنے اولیاؤں کے آستانے سے دور نہ کر اور میرے دل میں ہدایت کے نور کو گمراہی سے گل نہ کر۔
اے اللہ! جس کی اطاعت مجھ پر واجب کی ہے مجھے اُس کی ولایت کی طرف ہدایت کر ۔"
۲۱ ۔ آنحضرت ؑ کے ظہور کی علامات کی پہچان۔
۲۲ ۔ غیبت و ظہور کے مسئلہ میں امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور ہر طرح کی جلد بازی اور اضطراب سے پرہیز کرنا۔
۲۳ ۔ امام زمانہ (عج) کی نیابت میں صدقہ دینا۔
۲۴ ۔ امام زمانہ (عج) کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا۔
۲۵ و ۲۶ ۔ امام زمانہ (عج) کی نیابت میں حج کرنا اور دوسرے افراد کو امامؑ کی نیابت میں حج کے لیے بھیجنا۔
۲۷ و ۲۸ ۔ امام عصر (عج) کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور اُن کی طرف سے کسی نائب کو طواف کے لیے بھیجنا۔
۲۹ ۔ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارات سے شرفیاب ہونا۔
۳۰ ۔ امام زمانہ (عج) کی نیابت میں دوسرے افراد کو اِن مقامات کی زیارت کے لیے بھیجنا۔
۳۱ ۔ آنحضرت ؑ کی خدمت کرنے کے لیے کوشش کرنا۔
۳۲ ۔ جتنا بھی ممکن ہو امام زمانہ (عج) کی مدد کے لیے کوشش کریں اور اُس کا اہتمام کریں۔
۳۳ ۔ آنحضرت ؑ کے حضور اور ظہور کے وقت اُن کی مدد کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔
۳۴ ۔ ہر روز کے واجبات اور جمعہ کی خاص دعاؤں کے ذریعے آنحضرت سے تجدید بیعت کرنا۔
۳۵ ۔ اپنے مال کو ایسی راہ میں خرچ کرنا جس سے امام زمانہ (عج) راضی ہوں۔
۳۶ ۔ امام زمانہ (عج) کے دوستوں اور شیعوں سے رابطہ رکھنا اور اُن کی مالی مدد کرنا۔
۳۷ ۔ امام زمانہ (عج) کے دوستوں، شیعوں اور مومنین کو خوش کرنا۔
۳۸ ۔ خداوند متعال سے آنحضرت ؑ کے لیے طلب خیر کرنا۔
۳۹ ۔ کسی بھی جگہ کسی بھی وقت امام زمانہ (عج) کو سلام کرنا اور اُن کی زیارت کرنا۔
۴۰ ۔ آنحضرت ؑ کے خالص و صالح شیعوں اور مومنین سے ملاقات کرنا ، امام ؑ کی زیارت کےقصد سے اُنہیں سلام کرنا۔
۴۱ ۔ امام ؑ پر درود و سلام بھیجنا۔
۴۲ ۔ نماز کے ثواب کو امام ؑ کے لیے ہدیہ کرنا۔
۴۳ ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اور امام زمانہ (عج) کی خاص نماز ان کے لیے ہدیہ کرنا۔
۴۴ ۔ مخصوص اور معین وقت پر امام زمانہ (عج) کے لیے نماز ہدیہ کرنا۔
۴۵ ۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور اُس کا ثواب امام زمانہ (عج) کو ہدیہ کرنا۔
۴۶ ۔ آنحضرتؑ کے ذریعے خداوند متعال سے توسل اور شفاعت طلب کرنا۔
۴۷ ۔ امام ؑ کے سامنے اپنی ضرورتوں اور حاجات کو پیش کرنا۔
۴۸ ۔ لوگوں کی امام (عج) کی طرف رہنمائی کرنا۔
۴۹ ۔ امام عصر (عج) کےحقوق کی رعایت اور پابندی کرنا اور اپنے وظائف کو انجام دینا ۔
۵۰ ۔ اُس عظیم ہستی کو یاد کرتے وقت دل کا خاشع ہونا۔
۵۱ ۔ بدعتوں کے ظاہر ہونے پر عقلمندی سے کام لینا۔
۵۲ ۔ دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا اور اُن سے رازوں کو پوشیدہ رکھنا۔
۵۳ ۔ دوسروں کے جھٹلانے اور مشکلات میں صبر و تحمل سے کام لینا۔
۵۴ ۔ غیبت امام زمانہ (عج) میں خداوند متعال سے صبر کی درخواست کرنا۔
۵۵ ۔ اُن کی غیبت میں ساتھیوں اور ایک دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا۔
۵۶ ۔ ایسی مجالس اور پروگرام میں شرکت نہ کرنا جہاں امام عصر (عج) کے نام کا مذاق اُڑایا جائے۔
۵۷ ۔ ظالم اور باطل افراد کے ساتھ گزارا کرنا اور احتیاط سے پیش آنا۔
۵۸ ۔ گمنام رہنا اور شہرت سے دوری اختیار کرنا۔
۵۹ ۔ تہذیب نفس، خود سازی اور بری صفات کو دور کرنا۔
۶۰ ۔ امام زمانہ (عج) کی نصرت کے لیے متحدو یکجا ہونا۔
۶۱ ۔ سچی توبہ کرنا اور دوسروں کے حقوق اُن کو واپس کرنا۔
۶۲ ۔ ہمیشہ امام زمانہ (عج) کی یاد میں رہنا۔
۶۳ ۔ آنحضرت ؑ کے آداب کا ہمیشہ لحاظ رکھنا۔
۶۴ ۔ ہر وقت خداوند متعال سے امام زمانہ (عج) کی نصرت کے لیے درخواست کرنا اور اُنہیں فراموش نہ کرنا۔
۶۵ ۔ امام عصر (عج) کی یاد کے وقت خشوع و خضوع کا خیال رکھنا۔
۶۶ ۔ امام زمانہ (عج) کی چاہت کو اپنی چاہت پر مقدم رکھنا۔
۶۷ ۔ آنحضرت ؑ کے قریبی اور اُن سے نسبت رکھنے والوں کا احترام کرنا۔
۶۸ ۔ آنحضرت سے منسوب مقامات کا احترام کرنا جیسے: قم میں مسجد مقدس جمکران، کوفہ میں مسجد سہلہ، شہر سامر ا میں سرداب مقدس صاحب الزمان اور مسجد کوفہ وغیرہ کہ یہ جگہیں آنحضرت کے قدم ہائے مبارک سے مزین ہیں۔
۶۹ و ۷۰ ۔ ظہور کا وقت معین نہ کرنا اور وقت معین کرنے والے کو جھٹلانا۔
۷۱ ۔ غیبت کبریٰ میں امام ؑ کے خاص نائب ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو جھٹلانا۔
۷۲ ۔ ایمان و سلامتی کے ساتھ آنحضرت ؑکی زیارت کی درخواست کرنا ۔
۷۳ ۔ آنحضرت کے اعمال و اخلاق کی پیروی و اطاعت کرنا۔
۷۴ ۔ زبان کو خدا کے علاوہ کسی اور کی یاد سے محفوظ رکھنا اور با فضیلت خاموشی اختیار کرنا۔
۷۵ ۔ نماز حجت(ع) کو بجا لانا۔
۷۶ ۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونا۔
۷۷ ۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنا۔
۷۸ ۔ بنی امیہ پر ظاہری اور باطنی طور پر لعنت بھیجنا۔
۷۹ ۔ امام زمانہ (عج) کی نصرت کے سلسلے میں دینی بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوشش و اہتمام کرنا۔
۸۰ ۔ آنحضرت ؑ کی نصرت کی نیت سے ظہور کے انتظار میں اسلحہ اور گھوڑے کو فراہم کرنا۔
____________________