جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا0%

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا

مؤلف: دیوی روپ کنور کماری
زمرہ جات:

مشاہدے: 4110
ڈاؤنلوڈ: 2506

تبصرے:

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 5 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4110 / ڈاؤنلوڈ: 2506
سائز سائز سائز
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا

مؤلف:
اردو

زینتِ حجلہ عفّت ہیں جنابِ زہراؑ - تا - جب تلک دم ہے بھروں گی یوں ہی دم زہراؑ کا

زینتِ حجلۂ عفّت ہیں جنابِii زہراؑ

رونقِ کشور عصمت ہیں جنابِii زہراؑ

خلق میں حق کی ودیعت ہے جنابِii زہراؑ

پرتوِ مہر نبوت ہیں جنابِii زہراؑ

باپ کی طرح سے یکتائے زمانہ یہii ہوئیں

مختصر یہ ہے کہ دنیا میں یگانہ یہ ہوئیں

مظہرِ نورِ رسالتؐ ہیں جنابِii زہرا

گل جو احمدؐ ہیں تو نگہت ہیں جنابِ زہراؑ

دائی ملکِ شریعت ہیں جنابِii زہراؑ

منبعِ عفت و عصمت ہیں جنابِii زہراؑ

مصحفِ پاک میں دیکھے کوئی قصہ انii کا

مہر کا خلد میں ہے پانچواں حصہ انii کا

زینتِ پہلوئے محبوبِ خدا ہیں زہراؑ

مثل حیدرؑ کے معین الضعفا ہیںii زہراؑ

دردِ عصیاں کے مریضوں کی دوا ہیںii زہراؑ

کیا کہوں دختر احمدؐ کو کہ کیا ہیںii زہراؑ

جس سے خوشبو ہے جہاں وہ گلِ سادات دئے

ان کو بھگوان نے دو گوہرِ نایابii دئے

عرش و کرسی میں ہے تنویرِ جناب زہراؑ

حق کی تصویر ہے تصویر جناب زہراؑ

کسے روشن نہیں توقیر جنابii زہراؑ

حبّدا اخترِ تقدیر جنابii زہراؑ

گیارہ معصوموں کی ماں شاہِ زنان آپ ہوئیں

حد یہ ہے خلق میں خاتونِ جناں آپ ہوئیں

دامنِ عفو ہے دامانِ جنابِii زہراؑ

خلق ہے بندۂ احسانِ جنابَii زہراؑ

واہ کیا شان ہے قربانِ جنابِii زہراؑ

حق کا فرمان ہے فرمانِ جنابِii زہراؑ

عین بھگوان کی رحمت ہے کرم زہراؑ کا

جب تلک دم ہے بھروں گی یوں ہی دم زہراؑii کا

کس کا زہرہ ہے جو کرے وصفِ جنابِ زہراؑ - تا - اس کی تعظیم رسولؐ دوسَرا کرتے تھے

کس کا زہرہ ہے جو کرے وصفِ جنابِii زہراؑ

غیر ممکن ہے دو عالم میں جوابِ زہراؑ

اعثِ قہرِ الہٰی ہے عتابِ زہراؑ

بے شمار آئے ہیں قرآن میں خطابِ زہراؑ

وصف جس بی بی کا قرآن میں بھگوانii کرے

اُس کی توصیف بھلا کیا کوئی انسانii کرے

زینتِ محفلِ حورانِ جناں ہیںii زہراؑ

دلِ محبوبِؐ خدا جانِ جہاں ہیںii زہراؑ

ساکنِ فرش ہیں پر عرشِ مکاں ہیںii زہراؑ

خلق میں احمد مرسلؐ کا نشاں ہےii زہراؑ

سہو و نسیاں سے بری مثلِ پدر ہیں بیii بی

عین محبوبِ الہٰی کی نظر ہیں بیii بی

لکھنے گو بیٹھی ہوں اس صاحبِ عفت کا میں حال

پردہٗ دل سے یہ مضموں کا نکلنا ہےii محال

مدح زہراؑ کروں پر ہو گی نہیں میری مجال

مجھ سے در پردہ میرا ذہن یہ کرتا ہےii مقال

بے خبر بنتِ پیمبرؐ کی ثنا مشکلii ہے

ہو سکے مدحتِ داور بخدا مشکلii ہے

کس قدر آپ کے یا فاطمہؑ اچھے ہوئےii بھاگ

کوکھ ٹھنڈی رہی قائم رہا حیدرؑ کاii سہاگ

خلق کے سارے رشی آپ کے گاتے رہےii راگ

جس کو جی چاہا عطا کیا اُسے جنت بےii لاگ

سب سے بڑھ کر یہ نئی بات نیا طور سنو

کلمہ زہراؑ کا پیمبرؐ نے پڑھا اورii سنو

کس کو کونین میں حاصل ہوئی عزت ایسی

کب ملی یوسفِ کنعان کو صورتii ایسی

طاہرہ ہو گئیں مشہور طہارت ایسی

فخرِ کونین ہوئیں پائی سعادتii ایسی

دیکھ کر بیٹا کا منہ شکرِ خدا کرتےii تھے

اس کی تعظیم رسولؐ دوسَرا کرتےii تھے

آپ ہی حق کی کنیزوں میں ہیں مخصوص کنیز - تا - چمنِ خلد تلک جس کی مہک جاتی تھی

آپ ہی حق کی کنیزوں میں ہیں مخصوص کنیز

با حیا، عاقلہ، با عفّت و با ہوش تمیز

جانِ محبوبِؐ خدا حضرتِ عمراں کی عزیز

اس شرف پر سمجھتی رہیں خود کوii ناچیز

راز اللہ و نبیؐ نے کئے ظاہر ان سے

گیارہ معصومؑ ہوئے طیّب و طاہر ان سے

ان کے بچے ہوئے سردارِ جوانانِii جناں

رونقِ خانۂ دل نورِ نظر راحتِii جاں

انہی بچوں کا تو پرماتما ہے مرتبہ داں

دور ان سے کیا خالق نے خطا وii نسیاں

روح ناناؐ کی فدا باپؑ کی جاں قرباںii ہو

تربیت ایسی ہو بچوں کی، جب ایسی ماںii ہو

ان کی ہمسر ہوئیں مریمؑ نہ جنابِii حواؑ

آسیہؑ خود درِ زیراؑ پہ رہیں ناصیہii سا

مرتبہ آپ سے آدھا بھی نہ ساراؑ کوii ملا

ان کی توقیر کجا مادرِ شبیرؑii کجا

ان کی تعظیم شہنشاہِ عرب کرتے تھے

یہ وہ بی بی ہیں مَلک جن کا ادب کرتے تھے

زینتِ عرشِ بریں پاک چلن خوشii اوقات

اپ کی طرح سے مقبول خدا نیکii صفات

وہی احمدؐ کی سی خو بو وہی ساریii عادات

ساری خالق کی کنیزوں میں رفیع الدرجات

کس نے زہراؑ کی طرح رتبہ عالیii پایا

کون سی بی بی کو تطہیر کا آیہii آیا

ہمسرِ حیدرِؑ صفدر بنیں اللہ رےii وقار

حکمراں کشورِ عصمت کی ہوئیں بےii تکرار

حامیِ دینِ خدا گلشنِ ایماں کی بہار

زینتِ عرشِ عُلا شاہِ زنان نیکii شعار

فطرتاً سیب کی بو ان سے سدا آتیii تھی

چمنِ خلد تلک جس کی مہک جاتیii تھی

راج دربار میں بھگوان کے عزّت پائی - تا - ان کو سردار زنان حق نے بہر طور کیا

راج دربار میں بھگوان کے عزّت پائی

اشرفِ خلق ہوئیں ایسی شرافت پائی

مثلِ قرآنِ مبیں نور کی صورت پائی

حق رسیدہ ہوئیں راج کی رفعتii پائی

باپ کی طرح سے امت کی مدد گار ہے یہ

کُل کی سرکار ہیں سرتاج ہیں سردار ہیںii یہ

آپ ایشور کی یگانی بھی ہیں بیگانیii بھی

اس کے محبوبؐ کی محبوب ہیں جانی بھی

آپ کے پانے میں مشکل بھی ہے آسانی بھی

آپ مسلم بھی ہیں اسلام کی بانیii بھی

پنجتن مل گئے زہراؑ کو اگر جانii لیا

ان کو پہچانا تو بھگوان کو پہچانii لیا

صدقے میں ہیں آپ کے اسمِ گرامی کیاii کیا

فاطمہؑ زاہدہؑ صدیقہؑ بتولؑ وii عذراؑ

طاہرہؑ سیّدہؑ محبوبۂ محبوبِ خدا

ہاجرہؑ راضیہؑ مرضیہ جنابِii زہراؑ

مرتضٰیؑ آپ کو حسنینؑ کی ماں کہتےii تھے

خلد والے انہیں خاتونِ جناں کہتےii تھے

اسی بی بی سے ہوا گیارہ اماموں کاii ظہور

اسی بی بی سے رجس کو کیا بھگوان نےii دور

نیکیوں کا اسی بی بی نے نکالاii دستور

حوریں آتی رہیں مجری کے لئے ان کےii حضور

پیشِ حق ان کی توقیر بڑی رہتیii ہے

رحمتِ حق درِ دولت پہ کھڑی رہتی ہے

کس کو بھگوان نے یہ رتبہ ذی جاہ دیا

کچھ یہ کم رتبہ ہے شوہر اسداللہ دیا

مہرِ تاباں دیا اک لال تو اک ماہii دیا

باپ ایشور نے محمدؐ سا شہنشاہii دیا

شافعِ حشر کیا اک یہ شرف اورii دیا

ان کو سردار زنان حق نے بہر طورii کیا

کس سے تشبیہ دوں زہراؑ کو عجب ہے مرا حال - تا - حق نے بھیجا ہے تمہیں لطف و عنایت کے لیے

کس سے تشبیہ دوں زہراؑ کو عجب ہے مراii حال

سوچتی ہوں کوئی ملتی نہیں عالم میں مثال

کی نظر مہرِ مبیں پر تو اسے بھی ہےii زوال

کہوں گر ماہ تو اس میں نہیں ہے یہii کمال

اس میں تو داغ ہے دھبہ ہے یہ نورانیii ہیں

آپ کونین میں بے مثل ہیں لاثانیii ہیں

آپ کا فرقۂ نسواں پہ ہے احسان عظیم

صنف نازک کے لیے ہے یہی عمدہii تعلیم

مثلِ شوہر کے ملا آپ کو بھی قلبِii سلیم

سب مٹا دیں وہ جہالت کی جو رسمیں تھیں قدیم

نا پسندیدہ جو باتیں تھیں اسے دور کیا

حکم جو باپ سے پایا اسے منظورii کیا

ارسائی میں خواتین جو مشہور ہیں آج

یہی خاتونِ قیامت ہوئیں ان کیii سرتاج

اسی بی بی نے لیا حق سے مناسب یوراج

اسی خاتون سے جاری ہوا پردہ کا رواج

آپ سے سب نے محبت کا طریقہii سیکھا

خوبیاں سیکھیں ادب سیکھا سلیقہii سیکھا

پہلے یوں شوہر و زوجہ میں مساوات نہii تھی

اب زمانے میں طریقہ جو ہے یہ بات نہii تھی

سچ یہ ہے پہلے تو عورت کی کوئی ذات نہii تھی

غم سے اک دم کے لیے ترکِ ملاقات نہii تھی

بھیڑ بکری سے بھی عورت کی تھی بد تر حالت

ان سے پہلے تھی عجب طرح کی ابترii حالت

آپ سنسار میں آئیں تو گئی خیر سےii شر

آپ کُل پردہ نشینوں کی بنی ہیںii افسر

عین احسان و کرم آپ کا ہے نسواںii پر

واہ کیا بات ہے اے فاطمہؑ نیکii سر

آپ پیدا ہوئیں ہم سب کی ہدایت کےii لیے

حق نے بھیجا ہے تمہیں لطف و عنایت کے لیے

کس قدر آپ کا چال و چلن نستعلیق - تا - تم نے عورت کے پردہ کا سر انجام دیا

کس قدر آپ کا چال و چلنii نستعلیق

بیکسوں پر رہیں شوہر کی طرحii شفیق

اپنے دشمن کی بھی محسن تو محبوں کیii رفیق

ہم کو بتلا گئیں دنیا میں مشیت کےii طریق

اپ کے ساتھ رسالت کا ہر اک کام کیا

تم نے عورت کے پردہ کا سر انجامii دیا

صاحبِ شرم و حیا صاحب اخلاقِii خلیق

ذی چشم ذی قدم و ذی شرف و ذیii توفیق

واقفِ سرِ خدا عالم و دانا وii لئیق

خالق کل کو پسند آیا وہ تھا ان کاii طریق

گر زمانہ میں نہ یہ صاحبِ عصمت ہوتیں

پھر تو نسوانِ جہاں قابلِ نفرت ہوتیں

اک رسالہ میں یہ مضمون ہے میں نےii دیکھا

باپ کے پاس تھیں اک روز جنابِ زہراؑ

ناگہاں کان میں آئی کسی سائل کیii صدا

آپ چھپنے لگیں آواز کو اس کی جا سنا

اُس کی آنے کی خبر پاتے ہی تھرانے لگیں

پردہ کرنے لگیں چھپنے لگیں گھبرانے لگیں

ہنس کے فرمایا پیمبرؐ نے کہ بی بی میںii فدا

کس لئے چھپتی ہو کیوں کرتی ہو اس سے پردا

اے مری نورِ نظر یہ تو ہے خودii نابینا

عرض کی آپ نے بینا تو مگر ہےii زہراؑ

غیر محرم پہ نظر گر میری پڑ جائےii گی

بابا غیرت سے وہیں فاطمہؑ گڑ جائےii گی

ہے کوئی پردۂ زہراؑ کی زمانے میںii مثال

مرتے مرتے رہا جس بی بی کو پردہ کاii خیال

مرحبا مرحبا اے فاطمہؑ نیکii خصال

نزع میں بھی رہی تاکید یہ حیدرؑ سے کمال

میرا تابوت کسی کو نہ دکھاناii صاحب

رات کے وقت جنازے کو اُٹھاناii صاحب

کربلا یاد ہے کچھ تجھ کو قیامت کا وہ دن - تا - غیر توحید و رسالت سے امامت نہ رہے

کربلا یاد ہے کچھ تجھ کو قیامت کا وہ دن

وہ بلا خیز سماں حشر کا آفت کا وہii دن

اسی بی بی کے گھرانے کی حراست کا وہii دن

بنتِ زہراؑ کی مصیبت کا ندامت کا وہii دن

خلق کو ہائے ستم جانے سکھایاii پردہ

اس کی بیٹی کا لعینوں نے اٹھایاii پردہ

کیا نہ تھی دخترِ خاتون قیامتii زینبؑ

کیا نہ تھی حضرتِ زہراؑ کی امانتii زینبؑ

کیا نہ تھی فاطمہؑ پاک کی راحتii زینبؑ

کیا قیامت ہے کہ ہو زیرِ حراست زینبؑ

کیا ستم ہے نہ مقنہ ہو نہ چادر ہوئے

بیٹی خاتونِ قیمت کے کھلے سر ہوئے

گلشنِ دہر میں ہے فاطمی پھولوں کیii بہار

صدقے ان پھولوں کے ہو جائے نہ کیوں روپ کنوارؔ

ان نہالوں کے چمن میں ہے نہ گل میں کوئیii خار

ان کا ہمسر ہو دو عالم میں کوئیii استغفار

منتخب گل ہیں پسندیدۂ یزدان ہیںii یہ

عرش تک جن کی رسائی ہے وہ ذی شان ہیںii یہ

یہی فردوس کا رستہ ہیں یہی خلد کاii راہ

نوحؑ کا بھی تو سفینہ ہیں یہی ظلِii الہ

یہ ضیائے رخِ خورشید ہیں نور رخِii ماہ

یہی کونین میں ہیں سب کے لیے پشت وii پناہ

آسرا آپ ہی کا رکھتے ہیں عقباii والے

پیروی آپ ہی کی کرتے ہیں دنیاii والے

راز یہ تھا جنم حیدرؑ کا جو کعبہ میںii ہوا

یعنی جب گھر میں ہو بھگوان کا بیٹاii پیدا

ہو پھر دخترِ محبوب سے اس کاii رشتا

اُنس تا عاشق و معشوق میں بڑھ جائے سوا

ایک ہو جائیں دوئی کی صورت نہii رہے

غیر توحید و رسالت سے امامت نہii رہے

وصف میں آپ کے مداحوں نے کیا کیا نہ کہا - تا - کیوں نہ ہوں خلق میں جب ایک رہی ہیں زہراؑ

وصف میں آپ کے مداحوں نے کیا کیا نہii کہا

کون سی بات ہے جو چھوڑ گئے ہیںii شعرا

لاکھ کچھ کہہ گئے پھر کچھ بھی نہیں ہےii بخدا

ختم پر مدحتِ زہرا کا فسانہ نہii ہوا

وصف جس بی بی کا قرآن میں بھگوانii کرے

اس کی تعریف بھلا کیا کوئی انسانii کرے

اللہ اللہ یہ شرف باپ نبیؐ پوتےii امام

پایا شوہر بھی مقدر سے خدا کا ہمii نام

خادمہ حوریں فرشتے درِ دولت کے غلام

نعمتیں اپنی کیں اللہ نے سن ان پرii تمام

پیشِ حق کون سی بی بی کی توقیر ہوئی

کس کی زہراؑ کی سی کونین میں تقدیر ہوئی

گلشنِ عالمِ امکاں میں انھیں کی ہے بہار

ان کی جبریلؑ نے کی آسیا سائی سوii بار

نسل میں ان کی جہاں میں ہوئے گیارہii اوتار

آئے فردوس سے ان کے لئے میوے کئی بار

ان کی خدمت سے فرشتوں نے بھی عظمتii پائی

پر ملے جب کے مقرب ہوئے عزتii پائی

ناز برداریاں سہتے تھے محمدؐ انii کی

قدر کرتے تھے جبریلؑ کے مرشد انii کی

پانچ معصوموں میں ہے تیسری مسند انii کی

مدح کی مرے بھگوان نے بے حد انii کی

چار جب تک رہے چادر میں نہ حق کوii بھایا

جب یہ داخل ہوئیں تطہیر کا آیہii آیا

اسد اللہ کی مونس بھی ہیں ناموس بھی ہیں

شمع دیں بھی ہیں ایمان کی فانوس بھی ہیں

حق سے بھی انس ہے بھگوان سے مانوس بھی ہیں

عکس بھی نورِ امامت کا ہیں معکوس بھیii ہیں

حق تو یہ ہے کہ جو حیدرؑ ہیں وہی ہیںii زہراؑ

کیوں نہ ہوں خلق میں جب ایک رہی ہیںii زہراؑ

پارسا ایسی کہ حیدرؑ پڑھیں دامن پہ نماز - تا - آج زہراؑ کی ردا دھو کے پلا دے ساقی

پارسا ایسی کہ حیدرؑ پڑھیں دامن پہii نماز

زہد و تقویٰ میں طہارت میں جہاں سے ممتاز

ناز ہے جن پہ نمازوں کو وہ ہے ان کیii نماز

کیسا بھایا میرے پرماتما کو حُسنِii نیاز

تھیں جو محبوب کی محبوب تو محبوب ہوئیں

کل ادائیں مرے بھگوان کو مرغوب ہوئیں

منزلت آپ کی کرتے رہے سلطانِ حجاز

آپ کی خلقتِ پاکیزہ ہے بھگوان کاii راز

خاص ایشور نے کیا آپ کو زہراؑii ممتاز

بہ درِ فیض تو استادہ بصد عجز و نیاز

زنگیؔ و رومیؔ و طوسیؔ، یمنیؔ وii چلبی

فخر سمجھا کئے سب آپ کی جاروبii کشی

وجہ خلقت ہیں یہی آب و نمک ان کاii ہے

بحر و بر ان کا زمیں ان کی فلک ان کاii ہے

حوریں سب ان کی ہیں غلماں و مَلک ان کاii ہے

کچھ خدائی نہیں اللہ تلک ان کاii ہے

سب ہیں اللہ و علیؑ ان کے محمدؐ ان کے

ساری دنیا سے فضائل ہوئے بے حد انii کے

وہ زمیں پوش ترے در کا ہے ایشور کیii قسم

گرچہ پا جاؤں تو آنکھوں پہ رکھوں ہرii دم

دل سے یا فاطمہؑ آتی ہے صدا یہii پیہم

نسبت خود بہ سگت کردم پس متعنم

یہ خطا ہے یہ غلط ہے نہیں عزتii طلبی

با چہ نسبت بہ سگِ کوی تو شد بےii ادبی

بادۂ الفتِ زہراؑ کی طلب گار ہوںii میں

پی چکی جو کئی ساغر وہی میخوار ہوں میں

گو خطاوار ہوں دیرینہ گناہ گار ہوںii میں

پر ازل سے اسی بادہ کی پرستار ہوںii میں

مرے دیرینہ گناہوں کی دوا دےii ساقی

آج زہراؑ کی ردا دھو کے پلا دے ساقی

وہ پلا کو کہ ہے زہراؑ کی محبت کی شراب - تا - دل میں پر آلِ پیمبرؐ سے ولا رکھتی ہوں

وہ پلا کو کہ ہے زہراؑ کی محبت کیii شراب

وہ پلا ہو جو حقیقت میں حقیقت کیii شراب

ساقیا دے مجھے خمخانۂ قدرت کیii شراب

ہاں پلا پنجتنِؑ پاک کی الفت کیii شراب

ماسوا اس کے جو ہیں اس سے سروکارii نہیں

اور بادہ کسی عنواں مجھ درکار نہیں

جس میں شامل رہی بھگوان کی رحمت وہii پلا

نکھری جس بادہ سے اسلام کی رنگت وہii پلا

جس کی پینے کی ہے اسلام میں ہدایت وہii پلا

پی گئے جس کو شہیدانِ محبت وہii پلا

ہاں پلا جلد کہ میخوار کا جی چھوٹتاii ہے

دیکھ انگڑائیاں آتی ہیں بدن ٹوٹتا ہے

ڈھانپ لے جو مرے عصیاں وہی دینا ساقی

جس میں ہو جوشِ طہارت وہی دیناii ساقی

نور عفت کا ہو جس میں وہی صہبا ساقی

مہر عصمت کی ہو جس پر وہی میناii ساقی

پردہ پوشی کی ہو خُو جس میں وہ صہبا دے دے

سیر ہو کر پیوں خود ساغر و مینا دےii دے

جب سے منہ مرے لگی ہے یہ شرابِii عالی

کوئی بادہ نہ پیوں گی یہ قسم ہے کھاii لی

کبھی اب تک نہ ترے در سے پھری ہوںii خالی

ہاں اُٹھا دے ترے صدقے وہی زہراؑ والی

دور چلتا رہے ساقی اُسی پیمانہii کا

کہ بڑا نام ہوا ہے ترے میخانےii کا

اللہ اللہ مرا منہ اور یہ شرابِii طاہر

غیر مسلم ہوں بظاہر ہوں ثناii گستر

دل سے ہوں پر درِ میخانہ پہ تیرےii حاضر

اور عقائد سے بھی اسلام کے اب ہوںii ماہر

یوں تو کہنے کو تہی دست ہوں کیا رکھتیii ہوں

دل میں پر آلِ پیمبرؐ سے ولا رکھتیii ہوں

پہلے بھگوان سے پوچھے کوئی لذت اس کی - تا - فاطمہؑ کرتی تھیں باتیں شکمِ مادر میں

پہلے بھگوان سے پوچھے کوئی لذت اسii کی

مدتوں حق سے رہی عرش پہ صحبت اسii کی

مستند صورت قرآن ہے طہارت اسii کی

ہر زمانے کے رشی کرتے تھے رغبت اسii کی

نام پر فاطمہؑ زہراؑ کے یہ تاثیرii بڑھی

پاشا بنت عنب ہو گئی توقیرii بڑھی

طاہر ایسی کہ نازاں ہے طہارت اسii پر

اس کی پاکی پہ ہوئی مُہر نبوّت اسii پر

ہوئی اللہ و پیمبرؐ کی شہادت اس پر

حد ہے موقوف رسالت اسii پر

بے پیئے اس کے عبادت کوئی مقبولii نہیں

یہ وہ فاعل ہے جس کا کوئی مفعولii نہیں

کیوں بہکنے لگی تُو پی کرے سوا روپii ؔکنوار

مجھ سے مفعول کی تفصیل کو سن ہوii ہوشیار

فعل جب اس پہ ہوا الفتِ شاہii ابرار

ساتھ بھی اس کے ہے عترت آلِ اطہار

سب وہ مفعول ہیں اس مئے کے جو میخوار بنے

جان کو بیچ کے اس مئے کے خریدارii بنے

تو بھی مفعول ہے لے بن گئی قسمتii تیری

حسن تقریر سے ظاہر ہے عقیدتii تیری

فاطمہؑ زہرا سے رعشن ہے محبتii تیری

آلِ اطہار کے بھی ساتھ ہے الفتii تیری

نکلی گنگا سے تو پھر اب نہ گنہگارii رہی

کوثر و خلد کی نعمات کی حقدارii رہی

عقد جب مخبرِ صادقؐ کا خدیجہ سےii ہوا

منحرف ہو گئیں بی بی سے زنانِii مکّا

طعنہ زن ہو کے ہر ایک کرنے لگی ترکِ وفا

آپ مغموم و حزیں رہتی تھی اکثرii تنہا

ہے عجب بات نہ ہوتا تھا کوئی جب گھرii میں

فاطمہؑ کرتی تھیں باتیں شکمِ مادرii میں

آپ پیدا ہوئیں امت کی ہدایت کے لیے - تا - بی بی ڈھان کے ہوئے منہ گھر پڑی رہتی تھیں

آپ پیدا ہوئیں امت کی ہدایت کے لیے

منتخب ہو گئیں حیدرؑ کی قرابت کے لیے

کارِ حق کرتی رہیں اخذِ سعادت کےii لیے

دکھ سہے آپ نے سنسار کی راحت کے لیے

دوستوں کی طرح غیروں کی خطا پوش رہیں

پہلوئے پاک شکستہ ہوا خاموشii رہیں

بالخصوص آپ نے نے اسلام پہ احسانii کیا

اسی اسلام پہ شبیرؑ کو قربانii کیا

اپنی بیٹی کے بھی پردے کا نہ کچھ دھیانii کیا

جو کیا کام پسندیدہ بھگوانii کیا

ایسی محسن سے بھی غداروں نے غداریii کی

غضب حق کرنے کو مکاروں نے مکاری کی

صدمے کیا کیا ہوئے چھوڑا نہ مگر استقلال

مرتے مرتے بھی رہا باپ کی امت کاii خیال

گو کہ امت نہ کیا آپ کا حق پامال

میں فدا، صبر کا دکھلا گئیں دنیا کو کمال

اپنے بچوں کو بھی تعلیمِ وفا دے کےii گئیں

اٹھیں دنیا سے تو امت کو دعا دے کےii گئیں

سختیاں جھیلیں زمانے کی ہراساں نہii ہوئیں

دکھ سہے، سکھ سے نہ رہنے دیا گریاں نہ ہوئیں

خدمتی بن گئیں بی بی پر پریشاں نہii ہوئیں

بے وفائی کی شکایت نہ کی نالاں نہ ہوئیں

رنج تا زیست سہے غم سے ہم آغوش رہیں

دکھ اُٹھاتی رہیں پر ساکت و خاموشii رہیں

سر سے جب اُٹھا سایہ محبوبِii خداؐ

سوگ میں باپ کے تا زیست نہ بدلاii کرتا

عمر بھر سر پہ رہی ایک وہی میلیii ردا

بس عبادت سے سروکار تھا با آہ و بکا

نہ تکلم نہ تبسم نہ کچھ کہتیii تھیں

بی بی ڈھان کے ہوئے منہ گھر پڑی رہتیii تھیں

باپ کی موت کا ایسا ہوا زہراؑ پہ اثر - تا - چوم لینا مری جانب سے گلا بھائی کا

باپ کی موت کا ایسا ہوا زہراؑ پہii اثر

مرتے دم تک رہیں نالاں و پریشانii مضطر

گھر میں رونے کے سوا کام نہ تھا آٹھ پہر

شب کو آہیں تھیں گزر جاتا تھا روتے دنii بھر

رفتہ رفتہ اسی حالت میں بخار آنےii لگا

دن بدن پھول محمدؐ کا یہ کملانے لگا

راتیں رونے میں تو دن آہ و بکا میںii گزرا

وقتِ شب فرقتِ شاہِ دوسراؐ میںii گزرا

گزرا جو دم وہ اسی رنج و بلا میںii گزرا

وقت باقی کا عباداتِ خدا میںii گزرا

کبھی رونے میں کبھی آہ و بکا میں کاٹے

آخری زیست کے دن جور و جفا میںii کاٹے

دن بدن مرض بڑھا خون گھٹا ضعفii ہوا

باتیں کرنے میں الٹنے لگا دم حد سے سوا

رات بے چینی میں دن کرب میں سارا گزرا

آہ لب تک کبھی آئی تو کبھی غشii آیا

اشک باری سے کسی وقت بھی فرصت نہii ملی

باپ کے بعد زمانے میں طبیعت نہii لگی

کر دیا ضعف و نقاہت نے تکلمii دشوار

چین دل کو کبھی ملتا نہ تھا شب کو قرار

غش پہ غش آ گئے کروٹ جو کبھی لی اک بار

آخرش موت کے جو ہو گئے ظاہر آثار

جمع بچوں کو کیا پند و نصیحت کےii لیے

پاس حیدرؑ کو بھی بلوایا وصیت کےii لیے

بولی زینبؑ سے وہ ناموس بدر اور حنین

تجھ سے اک آخری خواہش ہے مری نور العین

پہنچے جس وقت کہ تو کرب و بلا کےii مابین

اور پاس آئے تیرے آخری رخصت کو حسینؑ

صدقہ جاؤں نہ کہا بھولیو اس دائیii کا

چوم لینا مری جانب سے گلا بھائی کا

پھر کہا فخر امامت سے کہ اے شاہِ ہُدا - تا - یہ جو روئے گا تو مرقد سے نکل آؤں گی

پھر کہا فخر امامت سے کہ اے شاہِii ہُدا

وقت آخر ہے مرا آپ سے ہوتی ہوںii جدا

معاف کر دیجئے ہو آپ کو مجھ سے جوii گِلا

گر خطا کوئی ہوئی ہو تو بحل کر دینا

چاہتے ہوں قیامت میں نہ روپؔ وشii رہوں

آپ کے حق سے بھی محشر میں سبکدوش رہوں

شہؑ نے فرمایا رضامند ہے حیدرؑ تمii سے

کچھ شکایت نہیں اے بنت پیمبر تمii سے

آپ میں ہوتا ہوں محجوبِ سراسر تمii سے

ضبط دشوار ہے زہراؑ کہوں کیوں کر تمii سے

فاقہ پر فاقے کیے تم نے علیؑ کے گھر میں

چکیاں پیسی ہیں خالق کے ولیؑ کے گھرii میں

فاطمہؑ بولیں نہ اس طرح کی کیجئے گا مقال

آپ پر کب ہے چھپا اے مرے والی مراii حال

خشک و تر آپ سے مخفی ہو یہ ہے امر محال

ملتجی ہوں کہ رہے میری وصیت کاii خیال

بعد میرے میرے بچوں پہ عنایتii رکھنا

یہی الطاف کا شیوہ یہی شفقتii رکھنا

یوں تو مظلوموں کا شبیرؑ حزیں ہےii سرتاج

پر تمھیں علم ہے جس طرح کا نازک ہے مزاج

صدمہ اس کا ہے زہراؑ سے یہ چھٹ جائے گا آج

بعد میرے نہ کسی شے کا رہے یہii محتاج

اس کو دکھ ہو گا تو میں قبر میں دکھ پاؤںii گی

یہ جو روئے گا تو مرقد سے نکل آؤںii گی