پانچویں فصل
{جناب آدم و حوّا علیهما السلام کا نکاح}
جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) و حوّا ع) کا عقد نکاح کیسے ہوا ؟
ایک مخصوص صیغہ کی ضرورت ہوتی ہے عقد نکاح کیلئے اور اسی طرح سے مہر کا معین ہونا بھی ضروری هوتا ہے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) کا مہر کیا تھا؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہی ذکر ملکوتیاللهم صل علی محمد و آل محمد
) جناب آدم ع)کا مہر تھا۔ کہ صلوات کے ذریعہ سے جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے جناب حوا ع) سے عقد کیا تھا ، جب جناب آدم نے جناب حوا کی طرف جانا چاہا تو ملائکہ نے کہا اے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) ٹہرئیے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ کیوں ! کیا حواء ہمارے لئے خلق نہیں ہوئیں ہیں ؟
تو فرشتوں نے کہا کہ اس کے لئے اذن پروردگار ضروری ہے ، تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ کیسے حاصل ہوگا اذن پروردگار۔ تو ملائکہ نے کہا کہ مہر کے ذریعہ سے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ جناب حواء آپکی زوجہ ہو جائیں تو مہر معین کرنا ضروری ہے ، جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ انکا مہر کیا ہے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ پروردگار عالم کی جانب سے دعاء ربانی اور وہ ہے تین مرتبہ:اللهم صل علی محمد و آل محمد
۔
یعنی اس بشریت کی تخلیق و ابتداء اس ذکر صلوات پر تھی۔
صلوات بتراء
صلوات تبراء یعنی دم کٹی صلوات آدھی و نا قص صلوات ) اس لئے نبی محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر صلوات کے بعد آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنا ضروری ہے کہ صلوات پڑھنے والا ایسے کہے :اللهم صل علی محمد وآل محمد
) اور فقط یہاللهم صل علی محمد
) نہ کہے اسلئے کہ یہ صلوات بتراء دم کٹی یا ناقص) ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور پروردگار عالم سے دوری کی باعث ہے اور اس صلوات کی مذمت میں فریقین نے روایتیں نقل کی ہیں۔
سب سے پہلے شیعوں کی روایتیں نقل کرتے ہیں: کتاب وسائل میں سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی کہےصل الله علی محمد وآله
) تو پروردگار کہتا ہےصل الله علیک
) پس زیادہ سے زیادہ صلوات پڑھی جائے ، لیکن اگر کسی نے میری آل پر صلوات نہیں پڑھا تو جنت کی خوشبو جو کہ پانچ سو سال کے فاصلہ سے بھی محسوس ہوگی، اس کو نصیب نہ ہوگی۔
اور جناب ابان ابن تغلب نے ایک روایت امام محمد باقر علیه السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ : جو مجھ پر صلوات پڑھے لیکن میری آل پر صلوات نہ پڑھے تو وہ جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکتا، جو کہ پانچ سو سال کے فاصلہ سے بھی محسوس ہوگی۔
اور ایک حدیث میں ہیکہ سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مولائے کائنات علیه السلام سے کہا کہ کیا آپ کو خوشخبری سنائیں؟
تو مولا نے جواب دیا کہ بیشک ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ، آپ ہمیشہ خوشخبری دینے والے ہیں، تو سرکارصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرمایا کہ : ابھی جبرئیل نے مجھے بہت تعجب خیز خبر دی ہے ، مولا نے کہا کہ کیا خبر دی ہے آپکو جبرئیل نے؟تو سرکارصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ مجھے خبر دی ہے کہ اگر میرا امتی مجھ پر اور میرے ساتھ ساتھ میری آل پر صلوات پڑھتا ہے تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے اس پر ستر صلوات پڑھتے ہیں، اور انکی صلوات کا مطلب یعنی گناہوں کا ختم ہونا ہے اور گناہ ایسے ختم ہوتے ہیں جیسے درختوں سے پتے جھڑ تے ہیں، اور پروردگار کہتا ہےلبیک عبدی و سعیدک
) اے فرشتوں تم اس پر ستر صلوات پڑھتے ہو اور میں سات سو صلوات پڑھتا ہوں لیکن اگر مجھ پر تو صلوات پڑھے لیکن میری آل پر صلوات نہ پڑھے تو اسکے اور آسمان کے درمیان ستر حجاب ہو جاتے ہیں اور آواز پروردگار آتی ہےلا لبیک و لا سعیدک
) فرشتوں اسکی دعا کو اوپر مت لیجاؤ مگر یہ کہ یہ آل پر بھی صلوات پڑھے ، تو جب تک وہ صلوات میں میری آل کو مجھ سے ملحق نہیں کرتا وہ مانع و حجاب باقی رہتا ہے۔
اور ایک روایت امام سجاد علیه السلام سے ہے آ پ نے اپنے بابا اور انھوں نے اپنے جد سے نقل کی ہے کہ اگر کوئی رسول خدا پر صلوات پڑھے اور ہمارے اوپر صلوات نہ پڑھے تو اسکی ملاقات پروردگار عالم سے اس حالت میں ہوگی کہ اس نے ناقص صلوات پڑھی اور حکم پروردگار کو ترک کیا ۔
اور اب اس سلسلہ میں اہل سنت کی بعض روایتیں:
ابن حجر عسقلانی نے کتاب صواعق محرقہ میں صفحہ ۸۷ پر ، سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا صلوات بتراءدم کٹی اور ناقص صلوات) تو لوگوں نے پوچھا کہ صلوات بتراء کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللهم صل علی محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کہہ کر خاموش ہو جائے بلکہ ایسے کہو ۔اللهم صل علی محمد وآل محمد
)
اور اسی طرح سے سلمان قندوزی نے کتاب ینابیع المودة میں جلد ۷ صفحہ ۲۹۵ پر اور دیگر لوگوں نے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں۔ اور اس سلسلہ سے کتاب احقاق الحق کا مراجعہ کیا جا سکتا ہے جلد ۹ صفحہ ۶۳۶ اور فخر رازی نے اپنی تفسیر میں جلد ۷ صفحہ ۳۹۱ پر اس طرح سے لکھا ہے کہ آل پر دعا بہت ہی بڑا منصب ہے اور اسی وجہ سے اس دعاء و صلوات سے نماز میں تشہد مکمل ہوتا ہے یعنی تشہد صلوات پر تمام ہوتا ہے ) اور وہ ہے اللهم صل علی محمد و آل محمد وارحم محمداً و آل محمد، اور یہ رتبہ و عظمت سوائے آل محمدعلیهم السلام کے کس کو حاصل نہیں ہے او ر یہ سب کا سب اسی چیز پر دلالت کرتا ہے کہ محبت آل واجب ہے ، اور اس نے کہا کہ اہلبیت رسول علیهم السلام رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ پانچ چیزوں میں مساوی و شریک ہیں : صلوات میں ، تشہد میں ، سلام میں ، صدقہ کی حرمت میں صدقہ سے طہارت) اور محبت میں ۔
اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں(
قُل لَّا أَسْلُكمُْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فىِ الْقُرْبى
)
) آل محمدعلیهم السلام کے شرف کے لئے یہی کافی ہے کہ تشہد انکے ذکر پر تمام ہوتا ہے ، اور ہر نماز ان پر صلوات سے مکمل ہوتی ہے ۔
۲ ۔ توفیق اِلھی جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کیلئے :
میں اس شخصیت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہونکہ جو زہد و عبادت و علم میں بہت ہی عظیم شخصیت ہے اور وہ ہیں شیخ الفقهاء جناب مرتضی انصاریؒ کہ ان کے پاس جو علوم و فنون تھے وہ سب کے سب دو چیزوں کی وجہ سے تھے :
پہلا : مولائے کائنات علی علیه السلام کی زیارت کی پائبندی اور محمد و آل محمد علیهم السلام پر زیادہ سے زیادہ صلوات۔
دوسرا: ہر روز زیارت عاشورا کی پائبندی چونکہ اسمیں دشمنان آل محمد علیهم السلام سے برائت ہے اور ان پر لعنت ہے۔
۳ ۔ نشست اولیاء سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر :
اولیاءو انبیاءعلیهم السلام جب جمع ہوتے ہیں تو انکے درمیان سب سے اہم ذکر جو ہوتا تھا وہ تھا اللهم صل علی محمد و آل محمد) صبح و شام، رات و دن۔ اور اسی وجہ سے سب کو مشکلات سے نجات ملی ، چاہے وہ شکم ماھی میں ہو چاہے نار نمرود میں ہو ، اور چاہے آری سے کٹنے سے ہو انکا توسل فقط و فقط یہ تھا خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام کے واسطے سے ہمیں مشکلات سے نجات دے۔
(
وَ كَذَالِكَ نُجِى الْمُؤْمِنِين
)
)
ائمہ علیهم السلام کے ذریعہ سے یعنی اسی طرح سے مومنین کو نجات دیتے ہیں ائمہ علیهم السلام کے ذریعہ۔
۴ ۔ آل علی علیه السلام کی تکبیریں:
ایک عارف کی بہت ہی تعجب خیز بات ، کہتے ہینکہ جب انبیاء و مرسلین آپس میں مل کر تکبیر کہتے ہیں ، تو ان سب کی تکبیر علی و آل علی علیه السلام کی ایک تکبیر کے برابر ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اسلاف کو نجات کیسے ملتی تھی مشکلات سے ، فرعون سے کیسے بچتے ، کون سی مناجات کرتے تھے؟
جب بنی اسرائیل پر برا وقت آن پڑا تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے کہنے لگے کہ اس کی وجہ سے ہم لوگ قتل ہو رہے ہیں یا ذبح کئے جا رہے ہیں یا قید کئے جا رہے ہیں یا اسیر ، ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیے ، تو حکم پروردگار آیا کہ سمندر کی طرف جاؤ جب وہ لوگ سمندر سے نزدیک ہوئے اور اس میں اترنا چاہا تو کہا کہ ہم سمندر کیسے پا کریں؟
تو انمیں سے ایک نے که جس کا نام کالب ابن یوحنا تھا ، جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے کہا کہ کس نے آپ سے کہا ہے کہ هم لوگ سمندر میں اتر جائیں ، جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کها کہ میرے خدا نے حکم دیا ہے تو کالب نے کہا کہ کیسے اتریں ؟ تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ وحدانیت پروردگار کا اقرار کرو اور جو میرے بعد آئیں گے ان کا اقرار کرو که وہی اس کائنات کا راز ہیں ۔ تو کالب نے کہا کہ وہ راز کیا ہے؟
جناب موسی ع) نے کہا کہ کہواللهم بجاه محمد و آله الطیبین لما أعنتني بجواز البحر
) کہ خدایا تجھے محمد و آل محمد علیهم السلام کا واسطہ که سمندر کو پار کرنے میں ہماری مدد کر ۔ جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ یہ ذکر نبی سے نبی اور اولی العزم سے اولی العزم تک منتقل ہوا ہے۔جب بھی ہم کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تھے تو ذکر محمد و آل محمد علیهم السلام سے مدد لیتے تھے جو کہ سب سے افضل ہے ۔
اس طلسم ملکوتی کے ذریعہ سے پانی مٹی اور مٹی پانی ہوگئی، تو اس شخص نے کہا :اللهم بجاه محمد وآل الطیبین الطاهرین
، پھر پانی میں اتر گیا اور گویا کہ وہ پانی پر چلنے لگا ، پھر وہ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف کودنے لگا تو جب ان لوگوں نے دیکھا تو مطمئن ہو گئے ۔ تب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ اب سمندر کو پار کرو اور سب سے افضل و اشرف نبی محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا نام لو اور پار کر جاؤ۔
پھر ان لوگوں نے کہا کہ اگر پانی خشک نہیں ہوتا تو هم پار نہیں کر سکتے ۔ تو جناب موسی ع) نے پروردگار سے پوچھا خوایاکیا کروں؟
تو آواز پروردگار آئی کہ سر اعظم جو کہ محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہیں انکے ذریعہ سے دعا کرو۔اور جیسے ہی جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے نبی اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا نام لیا پانی خشک هوگیا۔ پھر ان لوگوں نے کہا کہ پم بارہ قبیلے ہیں ، اور ہر قبیلہ کے لئے الگ الگ راستہ بنائے اسلئے کہ اگر سب کے لئے ایک ہی راستہ ہوگا تو مشکلات پیش آئیگی اس لئے کہ ہر قبیلہ آگے نکلنا چاہیگا کہ جس کے نتیجہ میں دین سے خارج ہو جائیگا۔ تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذریعہ سے دعاء کی تو بارہ راستے بن گئے ۔
جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ اب پار کرو تو انھوں نے کہا ہمارے لئے ایک سوراخ بنائیں تا کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکیں ، اس لئے کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کسی کو کوئی مشکل پیش نہ آجائے ۔
پھر جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے دعاء کہ کہ سوراخ روشن دان ) بن جائے ، اور جب وہ بن گیا تو ان لوگوں نے سمندر پار کیا ۔اور جب وہ لوگ سمندر کے دوسری طرف پہنچ گئے ، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ داخل ہوا تو جیسے ہی اس کے لشکر کے پہلے آدمی نے نکلنا چاہا اور آخری آدمی داخل ہوا تو پروردگار عالم نے سمندر کو بند ہو جانے کا حکم دیایعنی پانی ہو جائے تو سمندر اپنی پہلی حالت پر پلٹ گیا اور سب کے سب بنی اسرائیل کے سامنے غرق ہو گئے ، تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان لوگوں سے کهاکہ تم لوگ فقط و فقط محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے بچ گئے ہو ۔
تو جب وہ نجات پا گئے اور سمندر کو پار کر گئے تو اب طے یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کرینگے، جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ میں پروردگار عالم سے کتاب لینے کے لئے جاونگا، اور ان سے کہا کہ تم میرا انتظار کرنا اور ایک مہینہ کے لئے جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) چلے گئے اور جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) کی غیبت چالیس دن تک کھینچی، یہاں تک کہ قوم بچھڑے کی عبادت کرنے لگی۔
تو جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) لوٹے اور انھوں نے دیکھا کہ یہ لوگ بچھڑے کی عبادت کر رہے ہیں ، تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اسکا سبب جاننا چاہا کہ یہ لوگ کیسے بچھڑے کی عبادت کرنے لگے ، کیسے گمراہ ہو گئے جب کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو دیکھا کہ سمندر میں راستہ بن گیا ، یہ لوگ گذر گئے اور قوم فرعون انکے سامنے غرق ہو گئی،تو آواز پروردگار آئی کہ اے موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) یہ لوگ فقط و فقط اس وجہ سے ذلیل و خوار ہوئے کہ ہماری عبادت کو ترک کر دیا چونکہ انھوں نے محمد وآل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنے میں کوتاہی کی۔اس میں درس و عبرت یہ ہے جیسا کہ امام عسکری علیه السلام نے فرمایا کہ جب پروردگار عالم بچھڑا پرستوں کو محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنے میں کوتاہی کے عوض ذلیل و خوار کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں ڈرتے محمد و آل محمد علیهم السلام کی دشمنی سے کہ جسکا نتیجہ سب سے بڑی ذلت و ناکامی ہے جبکہ تم آیات و نشانیوں اور دلیلوں کو دیکھ چکے ہو۔
جب بھی کسی نبی کا ذکر آئے تو پہلے محمد
صلىاللهعليهوآلهوسلم
پر صلوات پڑھے سوائے جناب ابراھیم علیه السلام کے
اس سلسلہ میں روایات و احادیث موجاد ہیں کہ جن سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب بھی کسی نبی کا ذکر آئے سوائے جناب ابراھیم علیه السلام کے تو پہلے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر صلوات پڑھے پھر اس نبی پر۔
جناب معاویہ ابن عمار سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں امام صادق علیه السلام کے محضر میں بعض انبیاء کا ذکر کیا اور ان پر صلوات پڑھی تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جب بھی کسی نبی کا ذکر ہو تو پہلے محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھو ہر اس نبی پر۔
اور ایک روایت میں ہے کہ سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
جب اپنے اصحاب کے ساتھ فرمایا کہ جب بھی تم انبیاء و اولین میں سے کسی کا ذکر کرو تو پہلے مجھ پر صلوات پڑھو پھر ان پر، سوائے میرے جد ابراھیم علیه السلام کے ، کہ جب انکا ذکر کرنا تو پہلے ان پر صلوات پڑھنا پھر مجھ پر۔
____________________