محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد0%

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: عمار سالم سعد
زمرہ جات: مشاہدے: 9651
ڈاؤنلوڈ: 2886

تبصرے:

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9651 / ڈاؤنلوڈ: 2886
سائز سائز سائز
محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی فصل

{ایک جوان اور صلوات}

قرآن مجید خود اسرار و عظمت صلوات کو بیان کرتا هے:

امام حسن عسکری علیه السلام سے مروی هے که:

ایک تاریخی واقعه قوم بنی اسرائیل کا که بنی اسرائیل میں ایک خوبصورت لڑکی تھی جو که با اخلاق و شریف و با عظمت تھی و فاضله اور اچھے خاندان سے تھی اور اسکے بهت سے رشتے آتے تھے، اور اسکے تین چچا زاد بھائی تھے تو وه ان میں سے جو سب سے افضل و برتر تھا اس کے ساتھ شادی کرنے پر راضی هو گئی، لیکن اس کے اور جو دوسرے باقی چچازاد بھائی تھے وه بهت ناراض هوئے یهاں تک که اپنے تیسرے بھائی سے حسد کے شکار هو گئے تو ایک مرتبه انھوں نے اپنے اس تیسرے بھائی کو(جسی شادی اس لڑکی کے ساتھ هونے والی تھی) مدعو کیا اور جب وه انکے گھر آیا تو اسے قتل کرکے اسے بنی اسرائیل کے ایک ایسے محله میں پھینک دیا جو که کئی قبیلوں پر مشتمل تھا، جب صبح نمودار هوئی تو محله والوں نے لاش دیکھی اورپهچان گئےکه یه کون هے، اسی اثنا میں میت کے دونوں چچازاد بھائی جوکه قاتل تھے وه بھی آگئے، اور اپنا گریبان چاک کرکے رونے پیٹنے لگے اوریه بین کرنے لگےکه اس محله والوں نے همارے بھائی کو قتل کردیا، تو جناب موسی(علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اس محله والوں کو بلایا اور ان سے حقیقت دریافت کی تو محله والوں نے کها که نه تو هم نے اسے قتل کیا هے اور نه هی هم اس کے قاتل کو جانتے هیں۔ تو جناب موسی علیه السلام نے کها که ٹھیک هے اگر تم نهیں جانتے هو تو جو حکم پروردگار هے اسے ماننا پڑے گا تو ان لوگوں نے کها اےموسی علیه السلام ایسی قسم سے همیں کیا فائده جو که سنگین جرمانه کو برطرف نه کرے اور اتنا سنگین جرمانه دینے سے کیا فائده جو که قسم کو برطرف نه کرے۔

تو جناب موسی علیه السلام نے فرمایا: فائده اطاعت خداوندی اور اس کے امر کے بجالانے میں هے، اور جس چیز سے اس نے روکا هے اس سے رکنے میں هے، تو ان لوگوں کها که اے نبی خدا جرمانه بهت سنگین هے جبکه هم نےکوئی خطا نهیں کی اور یه قسم بھی بهت سنگین و عظیم هے جبکه همارے اوپر کسی کاکوئی حق بھی نهیں هے، اور اگر پروردگار عالم قاتل کی نشان دهی کردے تو آپ دعا کریں که پروردگار قاتل کو مشخص کردے تاکه وه جس سزاء کا مستحق هے اسے دیا جائے، اور سب کے لئے حقیقت واضح هو جائے۔

جناب موسی علیه السلام نے کها که حکم خداوند عالم اس مسئله میں موجود هے اور دعا کی ضرورت نهیں هے اور نه اس کے حکم پر اعتراض کر سکتا هوں؛ کیا تم نے نهیں دیکھا که جب پروردگار عالم نے سنیچر کے دن هم پر کسب معاش حرام قرار دیا اور اسی طرح سے اونٹ کا گوشت حرام کیا تو همیں اصلا ً یه حق نهیں تھا که هم پروردگار عالم سے تبدیلی حکم کا مطالبه کرتے یا اس کے خلاف آواز اٹھاتے بلکه همارے لئے ضروری هے که هم اس کے حکم کو مانیں اور اس کی پابندی کریں۔

جناب موسی علیه السلام اس مسئله کا حکم بیان فرمانے والے هی تھے که وحی پروردگار نازل هوئی که اے موسی علیه السلام ان لوگوں نے جو کها هے اسے طلب کرو ، اور هم سے مطالبه کرو که هم بتائیں که قاتل کون هے تاکه وه قتل کیا جائے اور بےخطا قتل و جرمانه سے محفوظ رهے۔

میں ان کے دعا و سوال کے قبولیت کے ذریعہ سے تمہاری امت کے نیک افراد میں سے ایک شخص کے رزق میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ، جسکا شیوہ یہ ہے وہ محمد و آل محمد (ع) پر صلوات پڑھتا ہے۔ اور کائنات میں سب سے افضل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد علی علیہ السلام کو جانتا ہے ، میں اس واقعہ کے ذریعہ سے اس کو دنیا میں غنی بنانا چاہتا ہوں تا کہ اس کو محمد و آل محمد علیهم السلام کی تکریم و احترام کا کچھ ثواب دیدوں ۔

تو جناب موسی (علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا خدایا تو بتا کہ قاتل کون ہے ؟

تو پروردگار عالم نے وحی کی کہ بنی اسرائیل سے کہو اگر جاننا چاہتے ہیں کہ قاتل کون ہے تو گائے ذبح کریں اور اسکا ایک حصہ میت کے جسم پر ماریں تو وہ مقتول زندہ ہو جایئگا تو حکم پروردگار کو تسلیم کریں ورنہ سوال نہ کریں اور جو ظاہر حکم ہے اسی پر عمل کریں، جیسا کہ پروردگار نے کہا (( وَ إِذْ قَالَ مُوسىَ‏ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبحَواْ بَقَرَةً ) )۱) اور اس وقت کو یاد کرو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ پروردگار عالم نے تم کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ۔

اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ قاتل کون ہے ۔ اور پھر گائے کے ایک حصہ کو میت سے مس کرو ، تو وہ مقتول زندہ ہو جائیگا اور بتائیگا کہ قاتل کون ہے پھر قرآن نے کہا( قَالُواْ أَ تَتَّخِذُنَا هُزُوًا ) )۲) ان لوگوں نے کہا آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں کیا ایسا ہو سکتا ہے اور یہ معقول ہے کہ پروردگار گائے ذبح کرنے کا حکم دے اور پھر یہ کہے کہ یک میت کے بعض حصہ کو دوسرے میت کے بعض حصہ سے مس کیا جائے تو ایک زندہ ہو جائیگا دوسرے سے ملنے کی وجہ سے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا( اعوذ بالله ان اکون من الجاهلین ) کہ میں پرودگار کی طرف ایسی بات منسوب کروں جو اس نے کہا نہ ہو اور میں جاہلوں مین سے ہو جاؤں کہ میں قیاس کے ذریعہ سے حکم پروردگار کی مخالفت کروں، اور حکم پروردگار عالم کو رد کروں اور تسلیم نہ کروں۔

اس کے بعد جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کیا ایسا نہیں ہے کہ مرد و عورت کی منی مردہ و میت ہے، اور ان کے آپس میں ملنے سے پروردگار انسان کو خلق کرتا ہے ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ بیج جو بے جان ہے جب تم اس کو زمین میں دفن کرتے ہو تو سڑ جاتی ہے ، خراب ہو جاتی ہے ، پھر پروردگار عالم اسی بیج سے درختوں کی پیدا کرتا ہے ، اناج اگاتا ہے ؟

جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے انھیں دلیل سے خاموش کر دیا تو انھوں نے کہا( قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ما هی ) ) ان لوگون نے کہا کہ اپنے پروردگار سے کہو کہ اس گائے کی صفت بیان کرے ۔

جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اپنے پروردگار سے سوال کیاتو جواب آیا( إنها بقرة لا فارض ) ) نہ بوڑھی ہو( ولا بکر ) ) نہ ہی بچھیا ہو( عوان ) ) بلکہ اوسط عمر کی ہو پس جو پروردگار نے حکم دیا ہے اسے بجا لاؤ۔

تو ان لوگوں نے کہا اے موسیع) اپنے پروردٍگار سے پوچھو کہ اس کا رنگ بتائے کہ گائے کس رنگ کی ہونی چاہئے جسے ذبح کرنا ہے )

پھر جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سوال و جواب کے بعد کہا( إنها بقرة صفراء فاقع ) ) کہ یہ گائے ہلکی پیلی رنگ کی ہو ، گاڑھا رنگ نہ ہو دیکھنے والے کا جی خوش ہو جائے اس کے طرگ کے سبب۔

پھر ان لوگوں نے کہا اپنے پروردگار سے اس کی مزید صفت دریافت کریں، تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا پروردگار کہہ رہا ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہئے جس سے خدمت نہ لی جاتی ہو نہ زمین جوتنے میں نہ پانی کھینچنے میں ، اور اس میں کسی قسم کا عیب بھی نہیں ہونا چاہئے اور بے داغ ہو۔

جب انھوں نے یہ سنا تو کہا اے موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) پروردگار عالم نے ایسی صفت کی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے جواب دیا ہاں۔

پھر فرماتے ہیں کہ جب وہ سمجھ گئے کہ کیسی گائے ہونی چاہئے تو اس کی تلاش مین نکلے تو وہ گائے بنی اسرائیل کے ایسے جوان کے پاس ملی جسکو پروردگار عالم نے خواب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی علیه السلام اور ان کے اولاد کی زیارت کرائی تو ان ذوات مقدسہ نے فرمایا کہ تم میرے ولی و دوست ہو اور ہمیں سب سے افضل مانتے ہو تو ہم تمہے اس کی بعض جزاء اسی دنیا میں دینا چاہتے ہیں ، جب وہ لوگ تم سے گائےخریدنے کےلئے آئیں تو اپنی ماں سے پوچھے بغیر گائے نہ بیچنا کہ پروردگار انکو ایسی چیز کی تلقین کریگا کہ جس سے تم اور تمہاری اولاد مالدار ہو جاؤ گے تو وہ جوان خوش ہو گیا۔

اور جب وہ لوگ گائے خریدنے آئے اور پوچھا کہ گائے کی قیمت کیا ہے؟ تو اس جوان نے جواب دیا دو دینا ر اور اس کے بعد میرے ماں کو اخیتار ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ایک دینار کی خریدیں گے تو اس جوان نے اپنی ماں سے دریافت کیا تو ماں نے جواب دیا کہ چار دینار تو جوان نے ان لوگوں سے کہا چار دینار تو ان لوگوں نے کہا دو دینار پھر اس نے اپنی ماں کو بتایا تو ماں نے کہا آٹھ دینار یہاں تک کے اس کی ماں جتنا کہتی تھی اس کا آدھا وہ لوگ کہتے تھے، اور قیمت زیادہ ہوتی رہی یہاں تک کہ اس کی قیمت ایک بیل کے وزن کے برابر ہو گئی۔ پھر انھوں نے وہ گائے خریدی اور اسے ذبح کیا اور اس کے ایک حصہ کو لیا جو دم کا حصہ تھا کہ جس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور جب دوبارہ زندہ کیا جائیگا تو وہیں سے خلقت ہو گی ، تو انھوں نے اس حصہ کو مقتول سے مس کیا اور کہااللهم بجاه محمد و آله الطیبین لما احییت هذا المیت ) خدایا تجھے محمد و آل محمدعلیهم السلام کا واسطہ اس میت کو زندہ اور گویا کر دے تا کہ وہ قاتل کی نشان دہی کرے ۔

تو وہ مقتول بالکل ٹھیک ٹھاک کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ اے نبی خدا مجھے میرے ان دونوں چچازاد بھائیوں نے مجھ سے حسد کی وجہ سے چونکہ مجھے اپنی چچا کی بیٹی سے شادی کرنی تھی قتل کر دیا تھااور اس محلہ میں میری لاش ڈال دی تاکہ ان سے دیت لیں۔

تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان دونوں کو قتل کر دیا، اور اس مقتول کے زندہ ہونے سے پہلے جب اس گائے کے ایک حصہ کو مقتول سے مس کیا گیا تو وہ زندہ نهیں ہوا ، تو ان لوگوں نے کہا اے نبی خدا کہاں گیا خدا کا وعدہ جو آپ نے کیا تھا؟!

تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ میں نے سچا وعدہ کیا تھا باقی خدا کے اختیار میں ہے، تو پروردگار عالم نے وحی کی اے موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) میں وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن پہلے اس جوان کو اس گائے کی قیمت جو ایک بیل کے وزن کے برابر دینار ہے دیدیں پھر میں اس مقتول کو زندہ کرونگا تو ان لوگوں نے پیسوں کو جمع کیا اور پروردگار عالم نے بیل کی کھال کو اور وسیع کر دیا تو جب اس کو وزن کیا گیا تو اس میں پانچ ملینپچاس لالکھ) دینار تھے۔

تو بنی اسرائیل کے بعض لوگوں نے اس مقتول کی موجودگی میں اس کے زندہ ہونے کے بعد کہا کہ نہیں معلوم زیادہ تعجب خیز اس کا زندہ ہونا اور اس کا کلام کرنا هے، یا اس جوان کا اس طرح سے غنی و مالدار ہونا ہے۔

تو پروردگار عالم نے وحی کی اے موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی زندگی خوشگوار ہو اور جنت میں بلند مرتبہ حاصل ہو ،اور محمد وآل محمد علیهم السلام کا رفیق ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہی کرے جو اس جوان کیا ہے، کہ اس نے محمد و آل محمد علیم السلام کا ذکر موسی ابن عمران علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے سنا تھاتو یہ ان پر صلوات پڑھتا تھا ، اور ان کو تمامی مخلوقات جن و انس و ملائکہ سب سے افضل جانتا تھا، اس وجہ سے میں نے اس کو یہ مال عظیم عطاء کیا تا کہ بہترین زندگی بسر کرے، ھدیہ و تحفہ کے ذریعہ سے معزز ہو سکے اور اپنے دوستوں پر انفاق کر سکے ۔

پھر جوان نے جناب موسی ع) سے پوچھا کہ ائے نبی خدا اس مال کی حفاظت کیسے کریں؟ اور اپنے دشمنوں سے کیسے محفوظ رہیں، اور حاسدین کے حسد سے کیسے بچیں؟

تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کاد کہ اس کے لئے تمہیں محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنا ہوگا جیسے پہلے پڑھتے تھے، اس لئے کہ جس ذات نے تم کو اس ذکر پر یقین کے ساتھ یہ رزق عطا کیا ہے، وہی ذات اسی یقین کے ذریعہ سے اسکی حفاظت بھی کریگی۔ پھر اس جوان نے صلوات پڑھی تو پھر کوئی بھی حاسد یا چور یا غاصب اسکو اذیت نہیں پہنچا سکا پروردگار عالم نے اسکو سب کے شر سے محفوظ رکھا یہاں تک کے اس پر نہ کوئی چاهتے هوئے ظلم کر سکا اور نه ناچاهتے هوئے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اس جوان سے صلوات کے لئے کا اور پروردگار اسکا محافظ ہو گیا تو پھر وہ مقتول کہ جو زندہ ہوا تھا، اس نے کہا پروردگارا تجھے محمد و آل محمد علیهم السلام کا واسطہ کہ مجھے زندگی عطا کر اس دنیا میں تا کہ میں اپنے چچا کی بیٹی کے ساتھ زندگی گذار سکوں اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رہوں اور مجھے بھی رزق کثیر عطا کر۔

تو پروردگار عالم نے جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) پر وحی کی، اے موسی، اس جوان کی عمر قتل کے وقت ساٹھ سال بچی تھی اور میں نے اسکو محمد و آل محمد علیهم السلام کےتوسل کی وجہ سے ستر سال کی زندگی اور عطا کی یعنی پورے ایک سو تیس سال بالکل صحیح و سالم اور تندرستی کے ساتھ اس دنیا میں زندہ رہے گا اور حلال دنیا سے استفادہ کریگا، اور اس کے اور اسکی زوجہ کے درمیان جدائی نہیں ہوگی، جب اسکی موت کا وقت ہوگا، تب اسکا بھی وقت اجل ہوگا اور دونوں ایک ساتھ اس دنیا سے رخصت ہونگے، اور ساتھ میں جنت میں داخل ہونگے،اور رزق جنت سےمستفیض ہونگے۔

اور موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) جسطرح سے اس جوان نے ہم سے توسل کیا اس عقیده کے ساتھ اگر اسی طرح سے یہ قاتل بھی توسل کرتے اسی عقیدہ کے ساتھ تو میں اسکو بھی حسد سے محفوظ رکھتا، اور اسکو بھی رزق ملک عظیم) عطاء کرتا،اور اگر ہم سے محمدوآل محمد علیهم السلام کے واسطہ سے دعاء کرتا تو بہ کرنے کے بعد کہ میں اسکو ذلیل و خوار نہ کروں اس کے قتل کے سبب تو میں اسکو اس چیز سے محفوظ رکھتا، اور پھر وہ لوگ بھی یہ سوال نہ کرتے کہ اس شخص کا قاتل

کون ہےاور میں اس جوان کو دوسرے راستہ سے مالدار بنا تا اور یہ مال کثیر عطا کرتا اور اگر یہ قاتل یہ سب کچھ ہو جانے کےبعدبھی مجھ سے محمد و آل محمدعلیهم السلام کے واسطہ سے دعا کرتا ،تو میں ان لوگوں کو سب بھلا دیتا کہ پھر اولیاء مقتول اسکے قصاس کو بھی معاف کر دیتے ، اور کوئی بھی اس فعل کی وجہ سے اسکی مذمت نہ کرتا اور کسی کو بھی یہ واقعہ یاد نہ رہتا، لیکن یہ ایسا فضل و نعمت ہے کہ جسے میں چاہتا ہوں اسے عطاء کرتا ہوں اور جسے نہیں دینا چاہتا اسے نہیں دیتا کہ میں عزیز و حکیم ہوں۔

تو جب ان لوگوں نے گائے ذبح کر لی تو پروردگار نے کہا کہ ان لوگوں نے گائے ذبح کی جبکہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔۳) )چونکہ گا ئے کی قیمت بہت زیادہ تھی ، اس لئے وہ ذبح نهیں کرنا چاہ رہے تھے، لیکن ان کی کٹ حجتی اور جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) پر تہمت نے انکو ایسسا کرنے پر مجبور کیا ۔

اور یہاں پر ایک راز اور ہے وہ یہ ہے کہ یہود نے جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے شکوہ کیا انکی طرف رجوع کیا اور کہا کہ یہ قبیلہ فقیری کی وجہ سے گدائی پر مجبور ہو گیا ہے اور ہم اپنی کٹ حجتیوں کی وجہ سے رزق قلیل اور کثیر سے محروم ہو گئے ہیں ، ہمارے لئے دعاء کریئے کہ ہمارے رزق میں وسعت ہو۔تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ وائے ہو تم پر کہ کیسے تمہارے دل اندھے ہو گئے ہیں! تمہاری بصیرت کہاں ہے تم نے اس گائے والے جوان کی دعا نہیں سنا ، اسکے بارے میں نہیں جانتے کہ پروردگار نے کیسے اسکو مالدار بنا دیا ؟ کیا تم نے اس مقتول کی جو کہ زندہ کیا گیا تھا دعا کو نہیں سنا کہ جسکےذریعہ سے طولانی عمر مل گئی اور اسکے تمام اعضاء جسم سالم رہے۔ جیسے ان دونوں نے دعا ء کی تھی ویسے دعا ء کیوں نہیں کرتے ، جیسے انھوں نے توسل کیا تھا ویسے تم توسل کیوں نہیں کرتے کہ تم کو فاقہ سے نجات مل جائے اور فقیری و گدائی سے نجات پا جاؤ ؟

تو ان لوگوں نے کہا !خدایا ہم تیری طرف متوجہ ہیں ، تیرے فضل پہ اعتماد کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں فقر و فاقہ سے نجات دے، تجھے محمد ،علی و فاطمہ و حسن و حسین علیهما السلام کا اور انکی ذریت طیبہ کا واسطہ، تو پروردگار عالم نے جناب موسی ع) پر وحی کی کہ ائے موسی انکے روَساء سے کہو فلاں کے ویرانہ میں جائیں اور فلاں جگہ پر زمین تھوڑی سی کھودیں اور جو وہاں ہو اسے نکال لیں کہ وہ دس ملینایک کروڑ) دینار ہیں،تا که جس جس نےبھی اس گائے کے لئے مال دیا تھا سبکو واپس مل جائے ، تا کہ انکی حالت پہلے جیسی ہو جائے ، پھر جو اس میں سے بچے جو کہ پانچ ملین دینار ہیں وہ جس نے جتنا دیا تھا اسی اعتبار سے اسکو دیا جائے تاکہ اسکا حصہ دوگنا ہو جائے اور یہ سب کا سب محمد و آل محمد علیهم السلام سے توسل کا نتیجہ ہے اور اس عقیدہمحمد و آل محمد علیهم السلام سب سے افضل ہیں) کا نتیجہ ہے ۔۴) میرا کہنا یہ ہے کہ جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے عصا کی صفت یہ ہے کہ وہ پتھر کو شگافتہ کر سکتا ہے، چشموں کو جاری کر سکتا ہے ، اور رسّی اژدھوں میں بدل سکتی ہے اور اسکے علاوہ دوسرے معجزات، اور پتھر جناب صالح کے لئے شگافتہ ہو سکتا ہے اور اس سے ناقہ نکل سکتا ہے، تو جب اس عصا میں یہ تاثیر ہے ،پتھر میں یہ اثر ہے گائے کی دم میں وہ اثر تھا ، تو محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذکر کی کیا تاثیر ہوگی۔کہ محمد و آل محمد علیهم السلام کے اسماء مین بہت سے اسرار و راز ہیں اور یہ سارے کے سارے عالم ملکوت میں ہیں، جو کہ پروردگار عالم کی جانب سے عطاءہوئے ہیں۔

____________________

۱۔ بقرہ؍۶۷

۲۔ بقرہ؍ ۶۷

۳۔۷۱ /بقرہ.

۴۔ تفسیر منسوب امام عسکری ع)، ص ۲۸۱

پانچویں فصل

{جناب آدم و حوّا علیهما السلام کا نکاح}

جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) و حوّا ع) کا عقد نکاح کیسے ہوا ؟

ایک مخصوص صیغہ کی ضرورت ہوتی ہے عقد نکاح کیلئے اور اسی طرح سے مہر کا معین ہونا بھی ضروری هوتا ہے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) کا مہر کیا تھا؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہی ذکر ملکوتیاللهم صل علی محمد و آل محمد ) جناب آدم ع)کا مہر تھا۔ کہ صلوات کے ذریعہ سے جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے جناب حوا ع) سے عقد کیا تھا ، جب جناب آدم نے جناب حوا کی طرف جانا چاہا تو ملائکہ نے کہا اے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) ٹہرئیے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ کیوں ! کیا حواء ہمارے لئے خلق نہیں ہوئیں ہیں ؟

تو فرشتوں نے کہا کہ اس کے لئے اذن پروردگار ضروری ہے ، تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ کیسے حاصل ہوگا اذن پروردگار۔ تو ملائکہ نے کہا کہ مہر کے ذریعہ سے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ جناب حواء آپکی زوجہ ہو جائیں تو مہر معین کرنا ضروری ہے ، جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ انکا مہر کیا ہے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ پروردگار عالم کی جانب سے دعاء ربانی اور وہ ہے تین مرتبہ:اللهم صل علی محمد و آل محمد ۔۱) یعنی اس بشریت کی تخلیق و ابتداء اس ذکر صلوات پر تھی۔

صلوات بتراء

صلوات تبراء یعنی دم کٹی صلوات آدھی و نا قص صلوات ) اس لئے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات کے بعد آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنا ضروری ہے کہ صلوات پڑھنے والا ایسے کہے :اللهم صل علی محمد وآل محمد ) اور فقط یہاللهم صل علی محمد ) نہ کہے اسلئے کہ یہ صلوات بتراء دم کٹی یا ناقص) ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور پروردگار عالم سے دوری کی باعث ہے اور اس صلوات کی مذمت میں فریقین نے روایتیں نقل کی ہیں۔

سب سے پہلے شیعوں کی روایتیں نقل کرتے ہیں: کتاب وسائل میں سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی کہےصل الله علی محمد وآله ) تو پروردگار کہتا ہےصل الله علیک ) پس زیادہ سے زیادہ صلوات پڑھی جائے ، لیکن اگر کسی نے میری آل پر صلوات نہیں پڑھا تو جنت کی خوشبو جو کہ پانچ سو سال کے فاصلہ سے بھی محسوس ہوگی، اس کو نصیب نہ ہوگی۔۲)

اور جناب ابان ابن تغلب نے ایک روایت امام محمد باقر علیه السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : جو مجھ پر صلوات پڑھے لیکن میری آل پر صلوات نہ پڑھے تو وہ جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکتا، جو کہ پانچ سو سال کے فاصلہ سے بھی محسوس ہوگی۔۳)

اور ایک حدیث میں ہیکہ سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولائے کائنات علیه السلام سے کہا کہ کیا آپ کو خوشخبری سنائیں؟

تو مولا نے جواب دیا کہ بیشک ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ، آپ ہمیشہ خوشخبری دینے والے ہیں، تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمایا کہ : ابھی جبرئیل نے مجھے بہت تعجب خیز خبر دی ہے ، مولا نے کہا کہ کیا خبر دی ہے آپکو جبرئیل نے؟تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر دی ہے کہ اگر میرا امتی مجھ پر اور میرے ساتھ ساتھ میری آل پر صلوات پڑھتا ہے تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے اس پر ستر صلوات پڑھتے ہیں، اور انکی صلوات کا مطلب یعنی گناہوں کا ختم ہونا ہے اور گناہ ایسے ختم ہوتے ہیں جیسے درختوں سے پتے جھڑ تے ہیں، اور پروردگار کہتا ہےلبیک عبدی و سعیدک ) اے فرشتوں تم اس پر ستر صلوات پڑھتے ہو اور میں سات سو صلوات پڑھتا ہوں لیکن اگر مجھ پر تو صلوات پڑھے لیکن میری آل پر صلوات نہ پڑھے تو اسکے اور آسمان کے درمیان ستر حجاب ہو جاتے ہیں اور آواز پروردگار آتی ہےلا لبیک و لا سعیدک ) فرشتوں اسکی دعا کو اوپر مت لیجاؤ مگر یہ کہ یہ آل پر بھی صلوات پڑھے ، تو جب تک وہ صلوات میں میری آل کو مجھ سے ملحق نہیں کرتا وہ مانع و حجاب باقی رہتا ہے۔۴)

اور ایک روایت امام سجاد علیه السلام سے ہے آ پ نے اپنے بابا اور انھوں نے اپنے جد سے نقل کی ہے کہ اگر کوئی رسول خدا پر صلوات پڑھے اور ہمارے اوپر صلوات نہ پڑھے تو اسکی ملاقات پروردگار عالم سے اس حالت میں ہوگی کہ اس نے ناقص صلوات پڑھی اور حکم پروردگار کو ترک کیا ۔۵)

اور اب اس سلسلہ میں اہل سنت کی بعض روایتیں:

ابن حجر عسقلانی نے کتاب صواعق محرقہ میں صفحہ ۸۷ پر ، سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا صلوات بتراءدم کٹی اور ناقص صلوات) تو لوگوں نے پوچھا کہ صلوات بتراء کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللهم صل علی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہہ کر خاموش ہو جائے بلکہ ایسے کہو ۔اللهم صل علی محمد وآل محمد )

اور اسی طرح سے سلمان قندوزی نے کتاب ینابیع المودة میں جلد ۷ صفحہ ۲۹۵ پر اور دیگر لوگوں نے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں۔ اور اس سلسلہ سے کتاب احقاق الحق کا مراجعہ کیا جا سکتا ہے جلد ۹ صفحہ ۶۳۶ اور فخر رازی نے اپنی تفسیر میں جلد ۷ صفحہ ۳۹۱ پر اس طرح سے لکھا ہے کہ آل پر دعا بہت ہی بڑا منصب ہے اور اسی وجہ سے اس دعاء و صلوات سے نماز میں تشہد مکمل ہوتا ہے یعنی تشہد صلوات پر تمام ہوتا ہے ) اور وہ ہے اللهم صل علی محمد و آل محمد وارحم محمداً و آل محمد، اور یہ رتبہ و عظمت سوائے آل محمدعلیهم السلام کے کس کو حاصل نہیں ہے او ر یہ سب کا سب اسی چیز پر دلالت کرتا ہے کہ محبت آل واجب ہے ، اور اس نے کہا کہ اہلبیت رسول علیهم السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ پانچ چیزوں میں مساوی و شریک ہیں : صلوات میں ، تشہد میں ، سلام میں ، صدقہ کی حرمت میں صدقہ سے طہارت) اور محبت میں ۔

اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں( قُل لَّا أَسْلُكمُ‏ْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فىِ الْقُرْبى ) ‏) آل محمدعلیهم السلام کے شرف کے لئے یہی کافی ہے کہ تشہد انکے ذکر پر تمام ہوتا ہے ، اور ہر نماز ان پر صلوات سے مکمل ہوتی ہے ۔

۲ ۔ توفیق اِلھی جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کیلئے :

میں اس شخصیت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہونکہ جو زہد و عبادت و علم میں بہت ہی عظیم شخصیت ہے اور وہ ہیں شیخ الفقهاء جناب مرتضی انصاریؒ کہ ان کے پاس جو علوم و فنون تھے وہ سب کے سب دو چیزوں کی وجہ سے تھے :

پہلا : مولائے کائنات علی علیه السلام کی زیارت کی پائبندی اور محمد و آل محمد علیهم السلام پر زیادہ سے زیادہ صلوات۔

دوسرا: ہر روز زیارت عاشورا کی پائبندی چونکہ اسمیں دشمنان آل محمد علیهم السلام سے برائت ہے اور ان پر لعنت ہے۔

۳ ۔ نشست اولیاء سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر :

اولیاءو انبیاءعلیهم السلام جب جمع ہوتے ہیں تو انکے درمیان سب سے اہم ذکر جو ہوتا تھا وہ تھا اللهم صل علی محمد و آل محمد) صبح و شام، رات و دن۔ اور اسی وجہ سے سب کو مشکلات سے نجات ملی ، چاہے وہ شکم ماھی میں ہو چاہے نار نمرود میں ہو ، اور چاہے آری سے کٹنے سے ہو انکا توسل فقط و فقط یہ تھا خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام کے واسطے سے ہمیں مشکلات سے نجات دے۔

( وَ كَذَالِكَ نُجِى الْمُؤْمِنِين ) ‏)۶) ائمہ علیهم السلام کے ذریعہ سے یعنی اسی طرح سے مومنین کو نجات دیتے ہیں ائمہ علیهم السلام کے ذریعہ۔

۴ ۔ آل علی علیه السلام کی تکبیریں:

ایک عارف کی بہت ہی تعجب خیز بات ، کہتے ہینکہ جب انبیاء و مرسلین آپس میں مل کر تکبیر کہتے ہیں ، تو ان سب کی تکبیر علی و آل علی علیه السلام کی ایک تکبیر کے برابر ہوتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اسلاف کو نجات کیسے ملتی تھی مشکلات سے ، فرعون سے کیسے بچتے ، کون سی مناجات کرتے تھے؟

جب بنی اسرائیل پر برا وقت آن پڑا تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے کہنے لگے کہ اس کی وجہ سے ہم لوگ قتل ہو رہے ہیں یا ذبح کئے جا رہے ہیں یا قید کئے جا رہے ہیں یا اسیر ، ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیے ، تو حکم پروردگار آیا کہ سمندر کی طرف جاؤ جب وہ لوگ سمندر سے نزدیک ہوئے اور اس میں اترنا چاہا تو کہا کہ ہم سمندر کیسے پا کریں؟

تو انمیں سے ایک نے که جس کا نام کالب ابن یوحنا تھا ، جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے کہا کہ کس نے آپ سے کہا ہے کہ هم لوگ سمندر میں اتر جائیں ، جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کها کہ میرے خدا نے حکم دیا ہے تو کالب نے کہا کہ کیسے اتریں ؟ تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ وحدانیت پروردگار کا اقرار کرو اور جو میرے بعد آئیں گے ان کا اقرار کرو که وہی اس کائنات کا راز ہیں ۔ تو کالب نے کہا کہ وہ راز کیا ہے؟

جناب موسی ع) نے کہا کہ کہواللهم بجاه محمد و آله الطیبین لما أعنتني بجواز البحر ) کہ خدایا تجھے محمد و آل محمد علیهم السلام کا واسطہ که سمندر کو پار کرنے میں ہماری مدد کر ۔ جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ یہ ذکر نبی سے نبی اور اولی العزم سے اولی العزم تک منتقل ہوا ہے۔جب بھی ہم کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تھے تو ذکر محمد و آل محمد علیهم السلام سے مدد لیتے تھے جو کہ سب سے افضل ہے ۔

اس طلسم ملکوتی کے ذریعہ سے پانی مٹی اور مٹی پانی ہوگئی، تو اس شخص نے کہا :اللهم بجاه محمد وآل الطیبین الطاهرین ، پھر پانی میں اتر گیا اور گویا کہ وہ پانی پر چلنے لگا ، پھر وہ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف کودنے لگا تو جب ان لوگوں نے دیکھا تو مطمئن ہو گئے ۔ تب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ اب سمندر کو پار کرو اور سب سے افضل و اشرف نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام لو اور پار کر جاؤ۔

پھر ان لوگوں نے کہا کہ اگر پانی خشک نہیں ہوتا تو هم پار نہیں کر سکتے ۔ تو جناب موسی ع) نے پروردگار سے پوچھا خوایاکیا کروں؟

تو آواز پروردگار آئی کہ سر اعظم جو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں انکے ذریعہ سے دعا کرو۔اور جیسے ہی جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے نبی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام لیا پانی خشک هوگیا۔ پھر ان لوگوں نے کہا کہ پم بارہ قبیلے ہیں ، اور ہر قبیلہ کے لئے الگ الگ راستہ بنائے اسلئے کہ اگر سب کے لئے ایک ہی راستہ ہوگا تو مشکلات پیش آئیگی اس لئے کہ ہر قبیلہ آگے نکلنا چاہیگا کہ جس کے نتیجہ میں دین سے خارج ہو جائیگا۔ تو جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے دعاء کی تو بارہ راستے بن گئے ۔

جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا کہ اب پار کرو تو انھوں نے کہا ہمارے لئے ایک سوراخ بنائیں تا کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکیں ، اس لئے کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کسی کو کوئی مشکل پیش نہ آجائے ۔

پھر جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے دعاء کہ کہ سوراخ روشن دان ) بن جائے ، اور جب وہ بن گیا تو ان لوگوں نے سمندر پار کیا ۔اور جب وہ لوگ سمندر کے دوسری طرف پہنچ گئے ، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ داخل ہوا تو جیسے ہی اس کے لشکر کے پہلے آدمی نے نکلنا چاہا اور آخری آدمی داخل ہوا تو پروردگار عالم نے سمندر کو بند ہو جانے کا حکم دیایعنی پانی ہو جائے تو سمندر اپنی پہلی حالت پر پلٹ گیا اور سب کے سب بنی اسرائیل کے سامنے غرق ہو گئے ، تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان لوگوں سے کهاکہ تم لوگ فقط و فقط محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے بچ گئے ہو ۔

تو جب وہ نجات پا گئے اور سمندر کو پار کر گئے تو اب طے یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کرینگے، جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ میں پروردگار عالم سے کتاب لینے کے لئے جاونگا، اور ان سے کہا کہ تم میرا انتظار کرنا اور ایک مہینہ کے لئے جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) چلے گئے اور جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) کی غیبت چالیس دن تک کھینچی، یہاں تک کہ قوم بچھڑے کی عبادت کرنے لگی۔

تو جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) لوٹے اور انھوں نے دیکھا کہ یہ لوگ بچھڑے کی عبادت کر رہے ہیں ، تو جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اسکا سبب جاننا چاہا کہ یہ لوگ کیسے بچھڑے کی عبادت کرنے لگے ، کیسے گمراہ ہو گئے جب کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو دیکھا کہ سمندر میں راستہ بن گیا ، یہ لوگ گذر گئے اور قوم فرعون انکے سامنے غرق ہو گئی،تو آواز پروردگار آئی کہ اے موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) یہ لوگ فقط و فقط اس وجہ سے ذلیل و خوار ہوئے کہ ہماری عبادت کو ترک کر دیا چونکہ انھوں نے محمد وآل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنے میں کوتاہی کی۔اس میں درس و عبرت یہ ہے جیسا کہ امام عسکری علیه السلام نے فرمایا کہ جب پروردگار عالم بچھڑا پرستوں کو محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنے میں کوتاہی کے عوض ذلیل و خوار کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں ڈرتے محمد و آل محمد علیهم السلام کی دشمنی سے کہ جسکا نتیجہ سب سے بڑی ذلت و ناکامی ہے جبکہ تم آیات و نشانیوں اور دلیلوں کو دیکھ چکے ہو۔۷)

جب بھی کسی نبی کا ذکر آئے تو پہلے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھے سوائے جناب ابراھیم علیه السلام کے

اس سلسلہ میں روایات و احادیث موجاد ہیں کہ جن سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب بھی کسی نبی کا ذکر آئے سوائے جناب ابراھیم علیه السلام کے تو پہلے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھے پھر اس نبی پر۔

جناب معاویہ ابن عمار سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں امام صادق علیه السلام کے محضر میں بعض انبیاء کا ذکر کیا اور ان پر صلوات پڑھی تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جب بھی کسی نبی کا ذکر ہو تو پہلے محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھو ہر اس نبی پر۔۸)

اور ایک روایت میں ہے کہ سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب اپنے اصحاب کے ساتھ فرمایا کہ جب بھی تم انبیاء و اولین میں سے کسی کا ذکر کرو تو پہلے مجھ پر صلوات پڑھو پھر ان پر، سوائے میرے جد ابراھیم علیه السلام کے ، کہ جب انکا ذکر کرنا تو پہلے ان پر صلوات پڑھنا پھر مجھ پر۔۹)

____________________

۱۔ القطرہ، ج ۱، باب فضل الصلاۃ علی محمد و آل محمد

۲۔ وسائل باب ۴۲ ،ابواب الصلاۃ علی محمد و آلہ، ح ۶

۳۔ وسائل باب ۴۲ ،ابواب الصلاۃ علی محمد و آلہ، ح ۷

۴۔ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص ۵۱

۵۔ احقاق الحق، ج ۳، ص ۲۷۴

۶۔ انبیاء، ۸۸

۷۔ تفسیر منسوب امام عسکری ع) ۱۲۱ ،۲۴۵

۸۔ وسائل، باب ۴۳ ابواب الصلاۃ علی محمد و آلہ ح ۱

۹۔ مجمع البحرین مادہ: شیع