ساتویں فصل
{انبیاء علیهم السلام کا محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل}
انبیاء علیهم السلام محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے پروردگار سے توسل کرتے تھے اس کے لئے چند مثالیں پیش کرتے هیں:
۱ ۔ ایک روایت ابن عباس سے ہے کہ کہتے ہیں کہ جب پروردگار عالم نے جناب آدم ع) کو خلق کیا تو جناب آدمعلی نبینا وآله وعلیه السلام) چھیکنے چھینک آئی ) تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا ۔ الحمد للہ تو جواب پروردگار آیا ، یرحمک ربک تمہارا پروردگار تم پر رحمت نازل کرتا ہے ) تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سوال کیا خدایا کیا تو نے مجھ سے افضل بھی کیس کو بنایا ہے ؟ آواز پروردگار آئی ہاں۔ اور اگر ان کو خلق نہ کرتا تو تمہیں بھی نہ بناتا۔جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا خدایا مجھے دکھا کہ وہ کون ہیں ۔تو پروردگار عالم نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ حجابوں کو اٹھائیں۔ جب حجاب بر طرف ہوئے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے عرش کے پاس پانچ نور دیکھا تو سوال کیا کہ خدایا یہ کون ہیں ؟
تو پروردگار نے کہا کہ اے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام)یہ میرا نبی محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے اور یہ علی امیر المومنین علیه السلام ان کے وصی ۔ یہ فاطمہ سلام الله علیها میرے نبی کی بیٹی، اور یہ حسن و حسین علیهما السلام میرے نبی کے نواسے و علی علیه السلام کے بیٹے ہیں۔
پھر آواز پروردگار آئی کہ ائے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) یہ تمہاری اولاد ہیں تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) خوش ہو گئے اور جب جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے ترک اولی ہوا تو جناب آدمعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا:یا رب اسئلک بحق محمد و علی و فاطمة والحسن والحسین علیهم السلام
خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام کا واسطه کہ مجھے معاف کر دے ۔
تو پروردگار عالم نے معاف فرمایا، اور اسی چیز کو پروردگار عالم نے کہا ہے کہ(
فتلقی آدم من ربه کلمات فتاب علیه انه هو التواب الرحیم
)
)۔
۲۔ جناب ابراھیم علیه السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو جناب ابراھیم علیه السلام نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل کیا کہ آگ ٹھنڈی ہو جائےکہ سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جب جناب ابراھیم ع) کو آگ مین پھینکا گیا تو جناب ابراھیم علیه السلام نے کہا( اللهم انی اسئلک بحق محمد و آل محمد لما نجیتنی منها
)خدایا میں محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے تجھ سے سوال کرتا هوں که مجھے اس مشکل سے نجات دے دے، تو وہ آگ ٹھنڈی ہو گئی)۔
۳ ۔ جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذریعہ سے توسل کیا :
سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جب جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اپنا عصا پھینکا اور خوف محسوس کیا تو کہا :خدایا میں تجھ سے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں مجھے امان بخش تو آواز قدرت آئیقلنا لا تخف انک انت الاعلی
)
ہم نے کہا کہ موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) ڈرو نہیں تم بہر حال غالب رہنے والے ہو۔
۴ ۔ جناب عیسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان کے ذریعہ سے توسل کیا جب یہود انکو قتل کرنا چاہ رہے تھے امام رضا علیه السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب یہود جناب عیسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) کو قتل کرنا چاہ رہے تھے تو جناب عیسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ہمارے ذریعہ خدا سے نجات طلب کی ، تو پروردگار عالم نے انھیں بچا لیا اور اوپر اٹھا لیا۔
۵ ۔ پروردگار عالم نے ہمارے لئے سفینہ نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) میں عظیم نشانیاں اور عبرتیں رکھیں ہیں تا کہ ان کے ذریعہ محمد و آل محمد علیهم السلام کی عظمت و فضیلت پر استدلال کیا جا سکے ۔
کوہ جودی جو کہ ارارات کے نام سے مشہور ہے اور وہ ارمنستان کا سب سے بلند پہاڑ ہے اور یہ ترکی و ایران و ارمنستان
کے باڈر پر ہے وہاں پر جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے سفینہ کا کچھ حصہ ملا ۔ اور ان لکڑی کے ٹکڑوں پر لکھا تھا کہ جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اهلبیت علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل کیا تھا۔
پروردگار عالم نے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے سفینہ کے لئے کہا ہے(
وَ لَقَد تَّرَكْنَاهَا ءَايَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِر
)
)
اور هم نے اسے ایک نشانی بنا کر چوڑ دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرےاور یہ بھی کہا(
فَأَنجَيْنَاهُ وَ أَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَ جَعَلْنَاهَا ءَايَةً لِّلْعَالَمِين
)
)
پھرہم نے نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کو اور انکے ساتھ کشتی والوں کو نجات دیدی اور اسے عالمین کے لئے ایک نشانی بنا دیا ۔ اس کی تفصیل یوں ہے : دارالمعارف اسلامیہ لاهور نے ایک کتاب نشر کی تھی جسکا نام الیا) تھا اور اس کی ایک بحث کا ترجمہ جو کہ اس عنوان سے تھا : وہ اسماء مبارکہ کہ جن سے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے توسل کیا تھا ۔ ایک رسالہ بنام جمعیّة خیریہ اسلامیہ جو کہ کربلا مقدسہ سے شائع ہوتا ہے اس میں نشر کیا اور اس کے حوالہ سے بذرہ نجفیہ نے اپنے رسالہ نمبر دو اور تین میں جو کہ ماہ شوال و ذیقعدہ سن ۱۳۸۵ ھجری میں شائع ہوا اس میں نشر کیا ۔
وه اسماء مبارکہ کہ جن کے ذریعہ سے جناب نوحعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے توسل کیا تھا ماہ تموز سن ۱۹۵۱ میلادی میں جب علماء سوفیت کی بہترین ٹیم و گروہ کہ جسکا کام آثار قدیمہ کی جستجو و بررسی تھا ، جب وہ تحقیق کی غرض سے وادی قاف) میں وارد ہوئے توانھیں وہاں لکڑی کے کچھ ٹکڑے بکھرے ہوئے ملے جو کہ بہت پرانے اور خستہ حال تھے اور یہ وہ چیز تھی کہ جس نے ان کی تحقیق کو اور دلچسپ بنا دیا ، انھیں اسی دوران اور بھی کچھ لکڑیاں ملیں کہ جن میں کچھ لکھا تھا جو زمین کے بہت اندر تھیں۔
اور اسی تحقیق میں ایک چوکور لکڑی ملی جو کہ چودہ لمبی اور دس چوڑی تھی ، جسے دیکھ کر وہ لوگ بہت تعجب میں پڑ گئے ، اس لئے کہ نہ تو وہ خراب ہوئی تھی اور نہ ہی اسکا رنگ بدلا تھا دوسری لکڑیوں کی طرح تھا۔
اور سن ۱۹۵۲ میلادی میں یہ تحقیق مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ لکڑی جناب نوح ع) کےکشتی کی تھی اور دوسری
لکڑیاں بھی اسی سفینہ کی تھیں ، اور اسمیں کچھ لکھا ہوا تھا جو کہ بہت ہی پرانی زبان میں تھا ۔
اور سن ۱۹۵۳ میلادی میں جبکہ اس کی کھدائی مکمل ہوگئی تو ملک سوفیتیہ نے ایک گروہ سات لوگوں پر مشتمل جو کہ زبان قدیمی میں مہارت رکھتے تھے مرتب کیا اور ان کے نام یہ ہیں:
۱ ۔ سولہ نوف: جو کہ موسکو میں یونیورسٹی میں زبان کے استاد ہیں ۔
۲ ۔ ایفاھان خنیو : جو کہ چین کے ایک کالج لولوھان میں پرانی زبانوں کے استاد ہیں ۔
۳ ۔ میشاتن لو : آثار قدیمہ کے مدیر۔
۴ ۔ تانمول کورف: جو کہ کینفزو کے کالج میں زبان کے استاد ہیں ۔
۵ ۔ دی راکن: جو کہ لینین کے اسکول میں آثار قدیمہ کے استاد تھے ۔
۶ ۔ ایم احمد کولاد: جو اس سلسلہ کی تحقیق کے مدیر تھے ۔
۷ ۔ میجر کولتوف: جو کہ ستالین یونیورسٹی کے مالک تھے ۔
اور اس لکڑی پر لکھے حروف کی تحقیق کے بعد جو کہ آٹھ مہینہ جاری رہی۔ انھوں نے یہ طے کیا کہ یہ لکڑی کا ٹکڑا اسی لکڑی کا ہے جس سے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کی کشتی بنی تھی اور جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اس لکڑی کو سفینہ کی حفاظت کے لئےرکھا تھا۔
اور اس لکڑی پر سامانی زبان میں کچھ لکھا تھا کہ جسکو برطانیہ کے ایک دانشور نے جسکا نام اف ماکس تھا جو که مانجستر کی یونیورسٹی میں زبان کے استاد تھے انھوں نے انگلش میں ترجمہ کیا ، اور عربی میں اسکا مطلب ہوا:
یا ِإلهی و یا معینی برحمتک و کرمک ساعدني و لاجل هذه النفوس المقدسة محمد ، إیلیا، شبر، شبیر، فاطمة الذین هم جمیعهم عظماء و مکرمون العالم قائم لاجلهم ساعدني لاجل اسمائهم انت فقط تستطیع ان توجهني نحو الطریق المستقیم
)
اے میرے پروردگار ومدد گار میری مدد کر تجھے ان ذوات مقدسہ ،محمد و ایلیا و شبر و شبیر و فاطمہ علیهم السلام کا واسطہ کہ جن کے سبب یہ دنیا قائم ہے اور یہ تیرے با عظمت بندے ہیں ، خدایا تجھے انکا واسطہ کہ میری مدد کر فقط تو ہی راہ مستقیم کی طرف ہدایت کر سکتا ہے۔
اور آپ سے یہ مخفی نہ رہ جائے کہ ایلیا و شبر وشبیر سامانی زبان میں ہے جسکا معنی عربی میں علی و حسن و حسین علیهم السلام) ہے۔
اور وہ سارے دانشور بہت ہی تعجب میں پڑگئے چونکہ جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان اسماء کے ذریعہ سے توسل کیا تھا۔اور سب سے اہم چیز جس نے انھیں تعجب میں ڈال دیا وہ یہ تھی کہ اتنے زمانے گذرنے کے بعد بھی یہ لکڑی خراب نہیں ہوئی ۔
____________________