محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد0%

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: عمار سالم سعد
زمرہ جات: مشاہدے: 9649
ڈاؤنلوڈ: 2886

تبصرے:

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9649 / ڈاؤنلوڈ: 2886
سائز سائز سائز
محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

محمدو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات کے فوائد

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ساتویں فصل

{انبیاء علیهم السلام کا محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل}

انبیاء علیهم السلام محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے پروردگار سے توسل کرتے تھے اس کے لئے چند مثالیں پیش کرتے هیں:

۱ ۔ ایک روایت ابن عباس سے ہے کہ کہتے ہیں کہ جب پروردگار عالم نے جناب آدم ع) کو خلق کیا تو جناب آدمعلی نبینا وآله وعلیه السلام) چھیکنے چھینک آئی ) تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا ۔ الحمد للہ تو جواب پروردگار آیا ، یرحمک ربک تمہارا پروردگار تم پر رحمت نازل کرتا ہے ) تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سوال کیا خدایا کیا تو نے مجھ سے افضل بھی کیس کو بنایا ہے ؟ آواز پروردگار آئی ہاں۔ اور اگر ان کو خلق نہ کرتا تو تمہیں بھی نہ بناتا۔جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا خدایا مجھے دکھا کہ وہ کون ہیں ۔تو پروردگار عالم نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ حجابوں کو اٹھائیں۔ جب حجاب بر طرف ہوئے تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے عرش کے پاس پانچ نور دیکھا تو سوال کیا کہ خدایا یہ کون ہیں ؟

تو پروردگار نے کہا کہ اے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام)یہ میرا نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے اور یہ علی امیر المومنین علیه السلام ان کے وصی ۔ یہ فاطمہ سلام الله علیها میرے نبی کی بیٹی، اور یہ حسن و حسین علیهما السلام میرے نبی کے نواسے و علی علیه السلام کے بیٹے ہیں۔

پھر آواز پروردگار آئی کہ ائے آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) یہ تمہاری اولاد ہیں تو جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) خوش ہو گئے اور جب جناب آدم علی نبینا وآله وعلیه السلام) سے ترک اولی ہوا تو جناب آدمعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے کہا:یا رب اسئلک بحق محمد و علی و فاطمة والحسن والحسین علیهم السلام خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام کا واسطه کہ مجھے معاف کر دے ۔

تو پروردگار عالم نے معاف فرمایا، اور اسی چیز کو پروردگار عالم نے کہا ہے کہ( فتلقی آدم من ربه کلمات فتاب علیه انه هو التواب الرحیم )۱)

۲۔ جناب ابراھیم علیه السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو جناب ابراھیم علیه السلام نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل کیا کہ آگ ٹھنڈی ہو جائےکہ سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جب جناب ابراھیم ع) کو آگ مین پھینکا گیا تو جناب ابراھیم علیه السلام نے کہا( اللهم انی اسئلک بحق محمد و آل محمد لما نجیتنی منها )خدایا میں محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے تجھ سے سوال کرتا هوں که مجھے اس مشکل سے نجات دے دے، تو وہ آگ ٹھنڈی ہو گئی)۔۲)

۳ ۔ جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے توسل کیا :

سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جب جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اپنا عصا پھینکا اور خوف محسوس کیا تو کہا :خدایا میں تجھ سے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں مجھے امان بخش تو آواز قدرت آئیقلنا لا تخف انک انت الاعلی )۳) ہم نے کہا کہ موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) ڈرو نہیں تم بہر حال غالب رہنے والے ہو۔

۴ ۔ جناب عیسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان کے ذریعہ سے توسل کیا جب یہود انکو قتل کرنا چاہ رہے تھے امام رضا علیه السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب یہود جناب عیسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) کو قتل کرنا چاہ رہے تھے تو جناب عیسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ہمارے ذریعہ خدا سے نجات طلب کی ، تو پروردگار عالم نے انھیں بچا لیا اور اوپر اٹھا لیا۔۴)

۵ ۔ پروردگار عالم نے ہمارے لئے سفینہ نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) میں عظیم نشانیاں اور عبرتیں رکھیں ہیں تا کہ ان کے ذریعہ محمد و آل محمد علیهم السلام کی عظمت و فضیلت پر استدلال کیا جا سکے ۔

کوہ جودی جو کہ ارارات کے نام سے مشہور ہے اور وہ ارمنستان کا سب سے بلند پہاڑ ہے اور یہ ترکی و ایران و ارمنستان

کے باڈر پر ہے وہاں پر جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے سفینہ کا کچھ حصہ ملا ۔ اور ان لکڑی کے ٹکڑوں پر لکھا تھا کہ جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اهلبیت علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل کیا تھا۔

پروردگار عالم نے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے سفینہ کے لئے کہا ہے( وَ لَقَد تَّرَكْنَاهَا ءَايَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِر ) )۵) اور هم نے اسے ایک نشانی بنا کر چوڑ دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرےاور یہ بھی کہا( فَأَنجَيْنَاهُ وَ أَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَ جَعَلْنَاهَا ءَايَةً لِّلْعَالَمِين ) ‏)۶) پھرہم نے نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کو اور انکے ساتھ کشتی والوں کو نجات دیدی اور اسے عالمین کے لئے ایک نشانی بنا دیا ۔ اس کی تفصیل یوں ہے : دارالمعارف اسلامیہ لاهور نے ایک کتاب نشر کی تھی جسکا نام الیا) تھا اور اس کی ایک بحث کا ترجمہ جو کہ اس عنوان سے تھا : وہ اسماء مبارکہ کہ جن سے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے توسل کیا تھا ۔ ایک رسالہ بنام جمعیّة خیریہ اسلامیہ جو کہ کربلا مقدسہ سے شائع ہوتا ہے اس میں نشر کیا اور اس کے حوالہ سے بذرہ نجفیہ نے اپنے رسالہ نمبر دو اور تین میں جو کہ ماہ شوال و ذیقعدہ سن ۱۳۸۵ ھجری میں شائع ہوا اس میں نشر کیا ۔

وه اسماء مبارکہ کہ جن کے ذریعہ سے جناب نوحعلی نبینا وآله وعلیه السلام) نے توسل کیا تھا ماہ تموز سن ۱۹۵۱ میلادی میں جب علماء سوفیت کی بہترین ٹیم و گروہ کہ جسکا کام آثار قدیمہ کی جستجو و بررسی تھا ، جب وہ تحقیق کی غرض سے وادی قاف) میں وارد ہوئے توانھیں وہاں لکڑی کے کچھ ٹکڑے بکھرے ہوئے ملے جو کہ بہت پرانے اور خستہ حال تھے اور یہ وہ چیز تھی کہ جس نے ان کی تحقیق کو اور دلچسپ بنا دیا ، انھیں اسی دوران اور بھی کچھ لکڑیاں ملیں کہ جن میں کچھ لکھا تھا جو زمین کے بہت اندر تھیں۔

اور اسی تحقیق میں ایک چوکور لکڑی ملی جو کہ چودہ لمبی اور دس چوڑی تھی ، جسے دیکھ کر وہ لوگ بہت تعجب میں پڑ گئے ، اس لئے کہ نہ تو وہ خراب ہوئی تھی اور نہ ہی اسکا رنگ بدلا تھا دوسری لکڑیوں کی طرح تھا۔

اور سن ۱۹۵۲ میلادی میں یہ تحقیق مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ لکڑی جناب نوح ع) کےکشتی کی تھی اور دوسری

لکڑیاں بھی اسی سفینہ کی تھیں ، اور اسمیں کچھ لکھا ہوا تھا جو کہ بہت ہی پرانی زبان میں تھا ۔

اور سن ۱۹۵۳ ؁ میلادی میں جبکہ اس کی کھدائی مکمل ہوگئی تو ملک سوفیتیہ نے ایک گروہ سات لوگوں پر مشتمل جو کہ زبان قدیمی میں مہارت رکھتے تھے مرتب کیا اور ان کے نام یہ ہیں:

۱ ۔ سولہ نوف: جو کہ موسکو میں یونیورسٹی میں زبان کے استاد ہیں ۔

۲ ۔ ایفاھان خنیو : جو کہ چین کے ایک کالج لولوھان میں پرانی زبانوں کے استاد ہیں ۔

۳ ۔ میشاتن لو : آثار قدیمہ کے مدیر۔

۴ ۔ تانمول کورف: جو کہ کینفزو کے کالج میں زبان کے استاد ہیں ۔

۵ ۔ دی راکن: جو کہ لینین کے اسکول میں آثار قدیمہ کے استاد تھے ۔

۶ ۔ ایم احمد کولاد: جو اس سلسلہ کی تحقیق کے مدیر تھے ۔

۷ ۔ میجر کولتوف: جو کہ ستالین یونیورسٹی کے مالک تھے ۔

اور اس لکڑی پر لکھے حروف کی تحقیق کے بعد جو کہ آٹھ مہینہ جاری رہی۔ انھوں نے یہ طے کیا کہ یہ لکڑی کا ٹکڑا اسی لکڑی کا ہے جس سے جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) کی کشتی بنی تھی اور جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے اس لکڑی کو سفینہ کی حفاظت کے لئےرکھا تھا۔

اور اس لکڑی پر سامانی زبان میں کچھ لکھا تھا کہ جسکو برطانیہ کے ایک دانشور نے جسکا نام اف ماکس تھا جو که مانجستر کی یونیورسٹی میں زبان کے استاد تھے انھوں نے انگلش میں ترجمہ کیا ، اور عربی میں اسکا مطلب ہوا:

یا ِإلهی و یا معینی برحمتک و کرمک ساعدني و لاجل هذه النفوس المقدسة محمد ، إیلیا، شبر، شبیر، فاطمة الذین هم جمیعهم عظماء و مکرمون العالم قائم لاجلهم ساعدني لاجل اسمائهم انت فقط تستطیع ان توجهني نحو الطریق المستقیم )

اے میرے پروردگار ومدد گار میری مدد کر تجھے ان ذوات مقدسہ ،محمد و ایلیا و شبر و شبیر و فاطمہ علیهم السلام کا واسطہ کہ جن کے سبب یہ دنیا قائم ہے اور یہ تیرے با عظمت بندے ہیں ، خدایا تجھے انکا واسطہ کہ میری مدد کر فقط تو ہی راہ مستقیم کی طرف ہدایت کر سکتا ہے۔

اور آپ سے یہ مخفی نہ رہ جائے کہ ایلیا و شبر وشبیر سامانی زبان میں ہے جسکا معنی عربی میں علی و حسن و حسین علیهم السلام) ہے۔

اور وہ سارے دانشور بہت ہی تعجب میں پڑگئے چونکہ جناب نوح علی نبینا وآله وعلیه السلام) نے ان اسماء کے ذریعہ سے توسل کیا تھا۔اور سب سے اہم چیز جس نے انھیں تعجب میں ڈال دیا وہ یہ تھی کہ اتنے زمانے گذرنے کے بعد بھی یہ لکڑی خراب نہیں ہوئی ۔

____________________

۱۔ تفسیر برھان ج ۱ ص ۸۹ ۔ بحارالانوار ج ۲۶ ص ۳۲۵

۲۔ تفسیر برھان، ج ۱ ص ۳۱۹

۳۔ تفسیر برھان، ج ۱ ص ۳۱۹

۴۔ بحارالانوار ج ۶۶ ص ۳۲۵

۵۔ قمر؍ ۱۵

۶۔ عنکبوت؍ ۱۵

آٹھویں فصل

{محمد و آل محمدعلیهم السلام کے ذریعہ سے اہل کتاب کا

استغاثہ}

جس طرح سے بعد از اسلام لوگوں نے اہلبیت عصمت و اطہار علیهم السلام کے ذریعہ سے بارگاہ خداوندی میں استغاثہ کیا تھا اسی طرح سے قبل از اسلام بھی امتوں نے ان کے ذریعہ سے استغاثہ کیا تھا۔ جب بھی کسی مصیبت میں مبتلاء ہوئے انکو یاد کیا ، سوال یہ ہے کہ ان شریعتوں میں کیسے استغاثہ کیا جاتا تھا ؟ اس کی لفظیں کیا ہوتی تھیں ؟

قرآن کریم میں ہے( و لَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَ كاَنُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلىَ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلىَ الْكَفِرِين ) ‏)۱) اور اب جو کتاب اللہ سبحانہ تعالی کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ تھا ؟ با وجود یہ کہ وہ اس کتا ب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے تھی ، با وجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے پہچان بھی گئے تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ، خدا کی لعنت ہو کافروں پر ، تو سوال یہ ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں کیسے فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے ؟ یہود قبل از اسلام سختیاں اور امتحانات میں مبتلاء ہوئے ہیں ، اور قرآن اس چیز کو بیان بھی کرتا ہے ۔

اور ایک روایت امام عسکری علیه السلام سے ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک قبیلہ یہود کا جناب موسیعلی نبینا وآله وعلیه السلام) کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی بہت سے حملوں کا شکار ہوا ، جیسے کہ ایک قبیلہ جو جزیزہ عربیہ میں رہتا تھا اور ان پر دو قبیلہ بنام اسد و عطفان بہت ہی سخت حملے کرتے تھے کہ انھوں نے یہود کو مٹا دینے کی ٹھان لی تھی اور تین ہزار کے لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دی اور ان یہود کی تعداد تین سو تھی جب ان دو قبیلوں نے یہود پر حملہ کیا اور ان کا محاصرہ کر لیا تو عنقریب تھا کہ یہود ختم ہو جاتے تو ان کے بزرگ حضرات آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب یہ قبیلے انھیں برباد کر دینگے تو انھوں نے کتابوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا کہ جب جناب موسی علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے زمانے میں جب ان کے آباء و اجداد مشکلات کا شکار ہوتے تھے تو وہ کیسے استغاثہ کرتے تھے ، کیسے نجات حاصل کرتے تھے ، آخر میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ لوگ اس ذکر سے استغاثہ کرتے تھےاللهم بجاه محمد وآله الطیبین الطاهرین صل علیهم اجمعین، نسالکم کشف الغمه عنا ) تو پروردگار ان کی مشکلات کو برطرف کر دیتا تھا ۔

تو سارے یہود اس استغاثہ کے ذریعہ سے ان دونوں قبیلوں سے مقابلے کے لئے آمادہ ہو گئے ، اور انھوں نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں ایسے استغاثہ کیااللهم بجاه محمد و آله المیامین إلا ما کشفت عنا هذه الظلمة ) تو جیسے ہی انھوں نے ایسے دعاء کی تو ان میں سے ہر آدمی کو سو مرد کی قوت مل گئی کہ ان کی عدد تین سو تھی اب بہت زیادہ ہو گئی ۔( إن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَبرِونَ يَغْلِبُواْ مِاْئَتَين‏ ) ۔۲) اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے ۔) صبر و استقامت و ذکر محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے ۔

تو ان لوگوں نے تین ہزار کے لشکر کا مقابلہ کیا اور آخر میں بہت سخت جنگ کے بعد ناکامی ان دونوں قبیلوں کو ملی جنکی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ پھر ان دونوں قبیلوں نے فکر کیا کہ آخر کیسے اتنے سخت حملہ کے بعد تین سو لوگ تین ہزار پر غالب آ گئے ، پھر انھوں نے آپس میں غور و فکر کی اور سب کے سب متحد ہو گئے یہاں تک کہ ان کی تعداد تیس ہزار جنگجو تک پہنچ گئی اور انھوں نے مل کر یہود پر حملہ کا ارادہ کر لیا اور دوبارہ ان کا محاصرہ کر لیا ، یہود نے جب اس تعداد کو دیکھا تو سوچا کیا کریں ؟ تو ان کے بعض بزرگوں نے کہا کہ وہ خدا کہ جس نے تم کو نجات دی جب تم تین سو تھے اور وہ تین ہزار تو وہی خدا قادر ہے کہ تم کو پھر ان کے مقابلے میں نجات دیدے ، جس نے تمکو اس وقت کامیابی عطاء کی وہی اس وقت بھی کامرانی عطاءکر یگا، پس محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے استغاثہ کرو کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے کہ اس شئی کے ذریعہ سے تمہیں نجات ملیگی اور اگر اس سے نجات نہ ملے تو پھر کوئی چیز بھی کام آنے والی نہیں ہے اس لئے کہ ہر شئی ان کے ذریعہ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو گی ۔( و عنده مفاتیح الغیب لا یعلمها الا هو ) )۳) اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں کہ جنھیں اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔

سوال کیا گیا یہاں پر مفاتیح الغیب سے کیا مراد ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اہل بیت علیهم السلام تو انھوں نے استغاثہ کیاتو سخت گرمی میں بارش ہو گئی جس کی وجہ سے دشمن پریشان ہو گئے ، اور یہود بہت ہی اچھی حالات میں تھے ۔ میں یہ کہونگا کہ یہ محمد و آل محمد علیهم السلام کی صفت رحمانی ہے کہ بارش یہود کے لئے رحمت بن گئی چونکہ ان کے پاس پانی نہیں تھا اس لئے کہ دشمن نے انکا محاصرہ کر لیا تھا اور ساری چیزوں کو روک لیا تھا ، نہروں کو بند کر دیا تھا تو بارش دو قسم کی ہو گئی ایک قسم دشمنوں کے لئے عذاب اور دوسری یہود کے لئے رحمت بن گئی جو کہ محمد و آل محمد ع) کی برکت کا نتیجہ ہے پھر جب یہود پانی کی مشکل سے باہر نکل آئے تو کہنے لگے کے کھانے کی مشکل سے کیسے نجات حاصل کریں تو انھوں نے کہا کہ کوئی چارہ نہیں ہے تو ان کے بزرگوں نے کہا کہ محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے استغاثہ کرو کہ پروردگار نے انھی سے استغاثہ کے سبب تمہیں تین سو اور پھر تین ہزار پر فتح عطا کی تو ان لوگوں نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے توسل کیا کہ خدایا جیسے ہمیں سیراب کیا ہے ویسے ہی غذا کا انتظام کردے اتنا کہنا تھا کہ دشمن کے اوپر نیند طاری ہو گئی اور وہ سو گئے ، اور ان کے گھوڑے ، گدھے ، اونٹ جو کہ گندم و چاول سے پر تھے انکا ایک بڑا حصہ یہود کی طرف آ گیا اور انھیں خبر بھی نہیں ہوئی ، اور محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے استغاثہ کرنے والوں تک پہنچ گیا ، جب صبح ہوئی تو دشمن نے کہا کہ اب ان بھوکے یہود پر حملہ کرینگے اور بہت ہی آسانی سے یہ مار دیئے جائینگے ، جب نکلنا چاہا تو اپنے مال و متاع کو دیکھا اور یہود جنگ کے منتظر تھے یہان تک کہ بہت ہی سخت جنگ ہوئی کہ جسمیں کامیابی یہود کو ملی کہ اس تین سو نے تین ہزار پر حملہ کیا کہ ان میں کا ہر ایک یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا علی علیه السلام کہہ کر حملہ کرتا تھا ، یہاں تک کے انھوں نے اپنی آبائی زمین کو نکال پھینکا ، تو یہ تھی نصرت خدا۔

سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذکر کے ذریعہ سے یہود کی کامیابی مشرکین پر، اس کے سلسلہ سے کہا اے امت محمد وآل محمد علیهم السلام کو مصیبت و پریشانی کے وقت یاد کرو تا کہ ہم تمہارے فرشتوں کی مدد کریں شیاطین کے مقابلہ ، تم میں سے ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہیں ایک دوئیں طرف کہ جو نیکیاں لکھتا ہے اور ایک بائیں طرف کہ جو برائیاں و گناہوں کو لکھتا ہے اور اسی طرح سے ابلیس کی جانب سے دو شیطان بھی ہوتے ہیں جنکا کام اس کو گمراہ کرنا ہوتا ہے ۔

تو جب شیطان وسوسہ پیدا کرتا ہے اور جیسے ہی بندہ خدا کا ذکر کرتا ہے ۔لا حول و لا قوة إلا بالله العلي العظیم ) اور محمد و آلہ محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھتا ہے تو شیطان اس سے دور ہو جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں ۔

تو اس واقعہ میں عبرت یہ ہے کہ تم لوگ کیسے مدد مانگتے ہو ؟ کہ وہ لوگ فتح و نصرت حاصل کرتے تھے ، ذکر محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے ، اور یہ ذکر تمہارے پاس ہے( فلما جاءهم ما عرفوا ) ) یعنی جس شئی سے نصرت ملتی تھی اسے جان گئے تو اس کا انکار کر دیا سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بعد ، تو خدا کی لعنت ہو ظالمین پر جو حق کی معرفت کے بعد اس کا انکار کرتے ہیں ۔۴)

پس یہ بہت ہی عظیم عبرت ہے کہ جس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئیے ، گروہ و قبیلہ چاہے کتنا ہی منکر کیوں نہ ہو ، جب انھوں نے محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے استغاثہ کیا تو پروردگار عالم نے ان کی بھی مشکلات کو آسان کر دیا ، اور یہ سب کا سب محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کی وجہ سے ہے ۔

____________________

۱۔ بقرہ ؍ ۸۹

۲۔ انفال ؍۶۵

۳۔ انعام ؍ ۵۹

۴۔ تفسیر منسوب امام عسکری ع) ۳۹۴۔۴۰۱؍ ۲۶۹۔ ۲۷۱

{خاتمه}

اولا: ایک قصہ نقل کرتے ہیں بطور تبرک، بعض علماء نے نقل کیا ہے ، کہتے ہیں کہ ہم کشتی میں سوار تھے اور موسم خراب ہوا اور ایسا لگ رہا تھا کہ کشتی ڈوب جائیگی، یہاں تک کہ ہم لوگ زندگی اور نجات سے مایوس ہو گئے تھے کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں اپنی جگہ پر تھا کہ اچانک مجھے آنکھ میں حرارت محسوس ہوئی دیکھا کہ سرکار عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں سے کہوکہ مجھ پر اور میری آل پر ہزار مرتبہ صلوات پڑھیں تو میں بیدار ہو گیا اور ان لوگوں کو خواب سے با خبر کیا تو ہم لوگ ایسے صلوات پڑھنے لگے ۔اللهم صل علی سیدنا محمد و آله، صلاة تنجینا به من جمیع الاهوال و الآفات، و تطهرنا به من جمیع السئیات و ترفعنا به عندک الدرجات ، و تبلغنا به اقصی الغایات من جمیع الخیرات فی الحیاة و بعد الصمات )

خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام پر ایسی صلوات بھیج کہ جس کے ذریعہ سے ہمیں ہر آفت و بلاء سے نجات مل جائے ،اور ہر برائی اور گناہ سے پاک ہو جائیں ، ہمارے درجات کو بلند کر دے ، اور اس صلوات کے ذریعہ سے توفیق دے کہ ہم تمام اعمال صالحہ کو با خوبی انجام دے سکیں۔

ابھی تین سو کی عدد بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ہوا رک گئی ، موجیں ٹہر گئیں۔ راستہ مل گیا اور ہم شام پہنچ گئے ۔تو ہم سب نے خدا کا شکر ادا کیا اور محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھا۔۱)

ثانیا: صلوات دعاؤں میں:

۱ ۔ ایک دعا امام صادق علیه السلام ہے کہ جس کا مضمون بہت ہی عالی ہے ، آپ فرماتے ہیں، خدایا ذات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا کہ تو نے کہا ہے( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم ) ‏)۲) دیکھو! تم لوگو ں کے پاس ایک رسول آیا جوخود تم ہی میں سے ہے ، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ، تمہاری فلاح کا حریص ہے ، ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق و رحیم ہے ، میں گواہی دیتا هوں کہ سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے ہی

ہیں اور تو نے خود اور تیرے فرشتوں نے صلوات پڑھی ہے تب تو نے ہمیں صلوات بھیجنے کا حکم اس طرح دیا ہےإِنَّ اللَّهَ وَ مَلَئكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلىَ النَّبىِ‏ِّ يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَ سَلِّمُواْ تَسْلِيمًا ) اور خدایا تیری صلوات کے بعد کسی کی بھی صلوات کی ضرورت نہیں ہے ۔

مگر یہ کہ صلوات خود صلوات پڑھنے والے کے لئے نفع بخش ہے ، لہذامخلوقات کے لئے ضروری ہے کہ وہ صلوات پڑھیں ، اس لئے کہ محمد و آل محمد علیهم السلام وہ دوازدہ ہیں کہ جس سے آنے کا تو نے حکم دیا ہے ۔

پس صلوات ہماری احتیاج و ضرورت ہے نہ کی محمد و آل محمد علیهم السلام کی ۔

۲ ۔ مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام کی دعاء سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلہ سے :

ساری تعریفیں عالمین کے پروردگار کے لئے ہیں، اور خدا کی پاکیزہ صلوات حضرت محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جو کہ منتخب بارگاہ خدا وندی هیں اور تمامی امور کو بنحو احسن انجام دینے والے ہیں۔

خدایا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے شائستہ ذکر اور حوض کوثر سے مخصوص فرما، خدایا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسیلہ و مقام بلندتر عطا فرما، خدا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے برگذیدہ بندوں کے درمیان محبت اور سب سے بلند و بالا درجہ عطا فرما،نعمتوں میں سے وسیع ترین نعمت، عطا میں سب سے افضل عطا، امور میں سب سے زیادہ آسانی ، اور نصیبوں میں سب سے اچھا نصیب عطا فرما، یہاں تک کہ کوئی مخلوق بھی تجھ سے بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب تر نہ ہو، تیرے نزدیک کسی کا بھی ذکر ان سے بلند نہ ہو، اور کسی کا درجہ بھی ان سے بلند نہ ہو،تیرے نزدیک ان سے زیادہ کسی کا حق عظیم نہ ہو،اورکسی کا بھی وسیلہ ان سے ان سے زیادہ تجھ سے قریب تر نہ ہو، وہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خیر کے امام و رہبر اور لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دینے والے ، اور تیرے تمام بندگان اور شھروں کے لئےبرکت اور عالمین کےلئے رحمت تھے ،خدایا ہمیں محمد و آل محمد علیهم السلام کے ساتھ اعلی اور ارفع زندگی میں کہ تیرا درود و سلام ہو ان پر) نعمتوں میں ، خوشگواری میں ، لذات میں فضیلت و اطمئنان میں کرامت و خنکی چشم میں اور ایسی خوشحالی و نعمت کہ جسکے مثل دنیا میں خوشحالی و نعمت نہ ہو، جمع فرماہم گواہی دیتے ہیں کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حق رسالت ادا کیا، اسے پہنچا دیا، امانت ادا کر دیا، امت کے لئے خیر خواہی کی ، اس امت کے لئے کوششیں کیں، تیری راہ میں جہاد کیایہان تک کہ اس دنیا سے گذر گئے، پس خدایا تو صلوات بھیج محمدوآل محمد علیهم السلام پر، خدایا اے پروردگار شھر محترم مکہ، اے رب رکن و مقام، اے رب مشعر الحرام و رب حل و حرم،روح محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک ہمارا اسلام پہنچا،خدایا تو اپنے ملائکہ مقربین انبیاءو مرسلین پر صلوات۳)

بھیج، خدایا فرشتہ کرام الکاتبین اور تو اپنے اطاعت گذار مؤمن بندوں پر صلوات بھیج۔

۳ ۔ مولائے کائنات علی علیه السلام کے خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذکر کیا گیا ہے ۔

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اور دلوں کو انکی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرار دے ، جو سابق نعمتوں کے ختم کرنے والے ، دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ، حق کے ذریعہ حق کا علان کرنے والے ، باطل کے جوش و خروش کو دفع کرنے والے گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے جو بار جس طرح ان کے حوالے کیا گیا انھوں نے اٹھا لیا ، تیرے امر کے ساتھ قیام کیا ، تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے ، نہ آگے بڑھنے سے انکار کیا نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی ، تیری وحی کو محفوظ کیا ، تیرے عھد کی حفاظت کی ، تیرے حکم کے نفاذ کی راہ میں بڑھتے رہے ، یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کر دی اور گمراہ کردہ راہ کے لئے راستہ واضح کر دیا ، ان کے ذریعہ سے دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق ہونے کے بعد بھی ہدایت پا لی ، اور انھوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کر دئے ، وہ تیرے امانتدار بندہ ، تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار ، روز قیامت تیرے گواہ حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اور مخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے ۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایئہ رحمت میں وسیع ترین منزل قرار دیدے ، اور ان کے خیر کو ان کے فضل سے دگنا و چوگنا کر دے ،خدایا انکی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگتر بنا دے ۔ ان کے نور کی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انھیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کر کہ انکی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور انکا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے ۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوار زندگی ، نعمات کی منزل ، خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز ، آرائش و طمانیئت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کر دے ۔۴)

۴ ۔ جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیها سے منسوب دعا صلوات کے سلسلہ سے :

خدایا محمد وآل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیج ، اور محمد و آل محمد علیهم السلام پر برکت نازل کر ، اور محمد و آل محمد علیهم السلام پر رحمت نازل کر ۔

خدایا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسیلہ فضل و فضیلت عطاء کر ، مقام رفیع عطا فرما اور انکو اتنا عطا کر وہ راضی ہو جائیں، اور ان کے راضی ہو جانے کے بعد بھی انھیں عطاء کر کہ جسکا تو اہل ہے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

خدایا جیسے تو نے ہمیں صلوات بھیجنے کا حکم دیا ہے ویسے ہی محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیج ، خدایا جیسے ہمارے لئے سزاوار ہے کہ ہم صلوات بھیجیں تو بھی محمد وآل محمد علیهم السلام پرصلوات بھیج ، خدایا تو نے جو صلوات بھیجی ہے اس کے ہر ہر حرف کے عوض محمدوآل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیج ، خدا جنھوں نے صلوات بھیجی اور جنھوں نے صلوات نہیں بھیجی ان سب کی تعداد کے برابر محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیج ، خدایا صلوات بھیجنے والے اور نہ بھیجنے والے کے ہر بال ہر لفظ ہر لحظہ اور ہر سانس ہر صفت اور ہر جنبش کے برابر صلوات بھیج ، اور ان کے ہر گھنٹہ، منٹ، سکنڈ، جنبش، حقیقت و صفات و روز و مہینہ و سال ان کے بال و کھال اور ان کے ذرہ برابر عمل جو کر چکے ہیں یا کریں گے ، یا وہ عمل جو ان تک پہنچاہو یا جس کے بارہ میں انھیں گمان ہو ا ہو قیامت تک کے لئے اور اس سے کہیں زیادہ محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیج اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔۵)

۵ ۔امام جعفر صادق علیه السلام کی دعا صلوات کے سلسلہ سے :

امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو محمد و آل محمد علیهم السلام کو صلوات کے ذریعہ سے خوش کرنا چاہتا هے تو ایسے کہےاللهم صل علی محمد و آل محمد فی الاولین و صل علی محمد و آل محمد فی آخرین و صل علی محمد و آل محمد فی الملاء الاعلی و صل علی محمد و آل محمد فی المرسلین... )

خدایا محمد و آل محمد علیهم السلام پر اولین و آخرین و ملاء اعلی و مرسلین میں صلوات بھیج ، خدا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسیلہ عطاء فرما ، شرف و فضیلت و بلند مقام عطاء کر ، خدا میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس حالت میں ایمان لایا ہوں کہ میں نے انھیں دیکھا نہیں ہے ۔ تو

خدایا قیامت کے دن مجھے ان کے دیدار سے محروم نہ کرنا ، اور ان کی صحبت عطاء فرما اور ان کی ملت پر موت دے اور حوض کوثر سے ایسے سیراب کر کہ پھر جس کے بعد کبھی پیاس کا احساس نہ ہو ، خدایا تو ہر شئی پر قادر ہے ، خدایا جیسے میں انھیں بغیر دیکھے ان پر ایمان لایا ہوں ویسے جنت میں مجھے ان کی زیارت کا شرف عطاء فرما۔ خدایا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو میری طرف سے سلام و درود کثیر ایصال فرما۔۶)

اور روایت کی گئی ہے کہ اگر کوئی اس صلوات کو صبح میں تین مرتبہ اور تین مرتبہ آخر نہار پڑھتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، خوشیاں دائمی ہو جاتی ہیں ، دعائیں قبول ہوتی ہیں ، رزق وسیع ہو جاتا ہے ، دشمن سے محفوظ ہو جاتا ہے ، اور جنت مین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رفیق ہوگا ۔۷)

۶ ۔ جناب حریز سے ایک روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیه السلام سے کہا کہ میں آپ پر فدا ہوں جاؤں یہ بتائیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات کیسے بھیجی جائے تو امام علیہ السلام نے فرمایا ۔ کہو :اللهم صل علی محمد و اهل بیته الذین اذهب الله عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا ۔ حریز کہتے ہیں تو میں نےدل میں کہا : اللهم صل علی محمد و اهل بیته۔ تو امام علیہ السلام نےکہا ایسے نہیں کہا تم سے تو امام علیه السلام نے مجھ سے کہا اے حریز تم تو حافظ هو ایسے کہو :اللهم صل علی محمد و اهل بیته الذین اذهب الله عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا ۔ تو جیسے امام علیہ السلام نے کہا ویسے میں نے کہا ۔ پھر امام علیہ السلام نے کہا کہو :اللهم صل علی محمد و اهل بیته الذین الهمتهم علمک و استحفظتهم کتابک واسترعیتهم عبادک ، اللهم صل علی محمد و اهل بیته الذین امرت بطاعتهم و اجبت حبهم و مودتهم، اللهم صل علی محمد و اهل بیته الذین جعلتهم ولاة امرک بعد نبیک صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔۸)

آخر میں پھر ایک بار کہوں گا کہ میری یہ کتاب اختصار پر مبنی ہے ورنہ محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے سلسلہ سے بہت سی حدیثیں ہیں جس کے لئے بہت مفصل کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لئے کہ صلوات میں ایسے خزانے ہیں جنکو سوائے پروردگا ر کے کوئی اور نہیں جانتا ، اور میں پروردگار رب العزت و رحیم و کریم و رؤوف سے دعاء کرتا ہوں کہ

میرے اس عمل کو قبول فرمائے اور سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجھ سے راضی فرمائے اور اس کے ذریعہ سے مجھے اورمیرے والدین کو اور اس کتاب کو عین رضا و قبول سے دیکھنے والوں کو اسی دنیا میں اور قیامت کے دن نفع پہنچائے۔

اور محمد و آل محمد علیهم السلام کے ذریعہ سے ہماری عاقبت بخیر کر ، گناہ کو معاف فرما ۔ الهی آمین )

____________________

۱۔ خزینۃ الجواھر ۵۸۸

۲۔ توبہ؍ ۱۲۸

۳۔ تھذیب اللحکام ۷۳؍۸۲ ، صحیفہ علویہ ص ۸۷

۴۔ نہج البلاغہ ج ۱ ص ۱۷۲

۵۔ بحار الانوار ۸۳؍۱۶۷۔باب ۴۳

۶۔ بحار الانوار ۸۳؍۹۵ ۔ باب ۴۱

۷۔ باقیات الصالحات ۲۱

۸۔ مستدرک الوسائل ج ۵ ص ۳۴۴