حضرت لقمان کون ہے ؟
تاریخ کے عظیم اور سچے حکماء میں سے ایک حضرت لقمان علیہ السلام ہے کہ جس کا نام قرآن مجید میں دو مرتبہ بہت ہی عظمت کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔
اور قرآن مجید کی اکیسویں سورہ اسی کے نام سے آئی ہے ۔ خدا وند متعال نے قرآن مجید میں اس کو اس لئے یاد کیا ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت ہی اہم دس نصیحتیں کی ہیں جن کو سورہ لقمان میں پانچ آیتوں کےضمن میں بیان فرمایا ہے ۔
حضرت لقمان کی یاد اور ان کی دس نصیحتوں کو قرآن میں بیان کرنا اور قرآن کا ایک مکمل سورہ ان کے نام پر ہونا اور وہ بھی ایسی کتاب میں جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ خداوند عالم یہ چاہتا ہے کہ لقمان کا نام اور ان کی وہ حکیمانہ باتیں نصیحتوں کے طور پر قرآن میں ثبت کردے تاکہ ہر زمانے میں اور ہر دور میں حق او رعرفان کے عاشقوں کیلئے ایک نمونہ عمل اورہدایت قرار پائے اور لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں ۔
اسی بنا پر یہاں پر سب سے پہلا سؤال یہ پیش آتا ہے کہ یہ لقمان کون تھے؟ کہاں پر رہےا تھے ؟ اور کس زمانے میں زندگی کزار رہے تھے ؟ کیا وہ کوئی پیغمبر تھے یا نہیں ؟
ان سؤالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لئے ہم درجہ ذیل مطالب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائیں گے ۔
۱۔ اس کا نام لقمان اور اس کا کنیہ ابو الاسود تھا ۔ وہ سرزمین سوڈان سے تھے جو افریقہ میں نوبہ نامی ایک شہر میں متولد ہوئے ۔
وہ رنگ کے اعتبار سے گندمی اور تقریبا کالے رنگ کا تھا اور تاریخ لکھنے والوں نے اس کو سیاہ رنگ اور بلند قامت والا جانا ہے۔
پس وہ افریقی نسل کا تھا لیکن بعض نے اس کو سرزمین فلسطین میں دریا کے کنارے (ایلہ ) نام کے ایک شہر سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔
اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ حضرت لقمان کی عمر بہت ہی طولانی تھی اس نے بہت سارے پیغمبروں کے ساتھ زندگی کی ہے حتی بعض روایات کے مطابق چار سو پیغمبروں کے ساتھ اس نے ملاقات کی ہے ۔
اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہےکہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے اور ظاہر بھی یہی ہوتا ہے ۔
بعض کے عقیدے کے مطابق حضرت داؤد کی حکومت سے کئی سال پہلے اور بعض کے مطابق حضرت داؤد کی حکومت کے دس سال بعد میں لقمان کی ولادت ہوئی ہے اور اس کی عمر حضرت یونس کے پیغمبر بننے تک جاری رہی ۔
حضرت داؤد کی حکومت کے دوران جالوت کے ساتھ جنگ کرنے میں لقمان نے شرکت کی اور جالوت کو قتل کرنے میں شریک ہوئے ۔
حضرت لقمان کے نسب کے بارے میں اس طرح سے لکھا گیا ہے کہ :
(لقمان بن عنقی بن مزید بن صارون ) اور بعض نے ان کو حضرت ایوب علیہ السلام کا خالہ زاد یا خواہر زاد قرار دیا ہے اور اس کا سلسلہ نسب میں ( ناحور بن تارخ ) کو جو کہ حضرت ابراہیم کے بھائی تھے بیان کیا ہے ۔
اس کی عمر بہت ہی طولانی تھی تقریبا دوسو سال سے پانچ سو ساٹھ سال تک اور اسی طرح سے ایک ہزار سے تین ہزار پانچ سو سال تک لکھی گئی ہے ۔
حضرت لقمان بہت ہی زاہد تھا اس کے نزدیک اس دنیا کی مثال ایک سایہ جیسی تھی ۔
وہ کچھ عرصے تک بنی اسرائیل کے ثروتمندترین شخص ( قین بن حسر ) کا غلام رہا اور اس کیلئے چوپانی کرتا رہا لیکن لقمان کی حکیمانہ باتوں سے متاثر ہو کر اس نے لقمان کو آزاد کر دیا ۔
لگتا ہے حضرت سلیمان نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ فلسطین بیت المقدس میں گزارا ہے اور اس کی قبر مبارک بھی فلسطین کے کسی ساحل ( ایلہ ) کے مقام پر واقع ہے ۔
کہتے ہیں کہ ان کی بہت ساری اولاد تھی ان سب کو اپنے ارد گرد جمع کرکے انکو نصیحتیں کرتے تھے اور بعض کے کہنے کے مطابق وہ ( یا بنی ! ) اے میرے بیٹے کہہ کر اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہوتے تھے لیکن حقیقت میں وہ اپنے سارے بیٹوں کو مخاطب قرار دیتے تھے بلکہ تمام انسانوں کو مخاطب قرار دیتے تھے ۔
وہ اپنی اس محبت آمیز تعبیر سے ان کی محبت کو جلب کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کو یہ سمجھائیں کہ میں آپ کے لئے دلسوز اور مہربان ہوں اور میری ان دلسوز نصیحتوں کو اپنی اچھائی کے خاطر قبول کریں ۔
جیسا کہ یہی طریقہ امام علی علیہ السلام کی اپنے بیٹے امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو کی ہوئی نصیحتوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
استادمحقق آیت اللہ جوادی آملی لکھتا ہے کہ : لفظ ابن کا تصغیر بنی کی صورت میں ہونا ان کی دلجوئی اور اپنی محبت کی اظہار کے لئے ہے جیسا کہ امام علی علیہ کا کا وہ خط جو اپنے بیٹے امام حسن کو لکھا ( نہج البلاغہ مکتوب ۳۱ ) میں دیکھا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے کس عاطفہ اور مہربانی کے ساتھ ان کی راہنمائی کی ہے اسی بنا پر ایسی فائدہ مند باتیں اور نصیحتیں کہ جن میں عطوفت اور رحمت موجود ہو وہ صرف امام علی اور حضرت لقمان کی باتوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے ۔
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں حضرت لقمان کی بعض نصیحتوں کے بارے میں ذکر ہوا ہے اگرچہ راوایات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی بہت ساری نصیحتیں موجود ہیں اگر ان سب نصیحتوں کو ہم جمع کرنا چاہیں تو بہت ساری کتابیں بن جائیں گی ۔ لیکن پھر بھی حضرت لقمان کواچھی طرح سے پہچاننے کے لئے ایک حدیث کی طرف آپکی توجہ مبذول کرائیں گے ۔
وہ اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں :(
يا بُنَيَ إِنِّي خدمت أَرْبَعَمِأَةِ نبي وَ أَخَذْت مِنْ كَلَامِهِم أَرْبَعِ كَلِمَاتٍ , و هى : اذا كنت فى الصلوه فاحفظ قلبك, و اذا كنت على المائده فاحفظ حلقك, و اذا كنت فى بيت الغير فاحفظ عينك, واذا كنت بين الخلق فاحفظ لسانك
)
;
اے بیٹے میں نے چار سو پیغمبروں کی خدمت کی ہے اور ان کے گفتار سے چار چیزوں کو لیا ہے ,
۱۔ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں تو حضور قلب کا خیار رکھو ۔
۲۔ جب دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو حرام مال کھانے سے پرہیز کرو ۔
۳۔ جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو اپنی آنکھوں کو نامحرم سے محفوظ رکھو ۔
۴۔ اور جب انسانوں کے اندر رہو تو اپنی زبان کی حفاظت کرو ۔
حضرت لقمان کی خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے بہت سارے سفر کئے اور مختلف لوگوں کے ساتھ رہے جیسا کہ علماء فقہاء وغیرہ کے ساتھ انکا رہنا سہنا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بہت سارا تجربہ کسب کیا ہے اس حد تک مولانا جلال الدین کے اس شعر کا مصداق بن گئے:
حاصل عمرم سه سخن پیش نیست
خام بدم پخته شدم سوختم
یعنی میری کل زندگی کا نتیجہ تین کلمات سے زیادہ نہیں ہے ۔ پہلئے خام تھا پھر پک گیا اور جل گیا ۔
حکمت کا معنی ا اور ان کے ابعاد :
حکمت اصل میں ( حکم ) کے مادہ سے ہے جو حرف کے وزن پر ہے جسکا معنی منع کرنا ہے کیونکہ یہ علم اور تدبیر جو کہ حکمت کے معانی میں سے ہیں انسان کو خلاف کاموں سے منع کرتی ہیں ان کو حکمت کہا جاتا ہے ۔
حکمت کے بہت سارے معانی بیان ہوئے ہیں جس کامفہموم بہت ہی وسیع ہے اور انہی میں سے ایک معرفت ہے اور اس جہان کے اسرار کی شناخت حاصل کرنا ہے اور حقائق سے آگاہی اور گفتار و عمل کے اعتبار سے حق تک پہنچنا اور خدا کو پہچاننا ہے ۔
اور اسی طرح سے نور الہی کے معنی میں ہے جو انسان کو شیطان کے وسوسوں اور گمراہی سے بچاتا ہے ۔
اور درس فلسفہ کو حکمت کہا جاتا ہے وہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ علم حکمت کا ایک شعبہ حساب ہوتا ہے اور انسان کو حکمت کی راہ میں قرار دے سکتا ہے ۔
کلی طور پر حکمت کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ حکمت نظری : جو تمام چیزوں کے بارے میں عمیق اور وسیع آگاہی رکھنا ہے ۔
۲۔ حکمت عملی : جو ایک معنوی حالت اور باطنی نور ہے جو انسان کو بلند مقام تک پہنچاتا ہے ۔
اس قسم کے بندے کو حکیم نام دیا ہے حکیم ایسے بندے کو کہا جاتا ہے جو عاقل اور ہوشیار اور مدبر ہو اور فکر و عمل کے اعتبار سے پاک اور خالص ہو ۔ خدا وند عالم حکیم مطلق ہے قرآن مجید میں خدا کی پاک ذات کو ۹۷ مرتبہ حکیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور لفظ حکمت قرآن مجید میں ۲۰ مرتبہ ذکر ہوا ہے اور تمام انبیاء کے نزول کا مقصد و ہدف اسی حکمت کی تعلیم دینا بیان ہوا ہے ۔
قرآن مجید کی نظر میں اس حکمت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خداوند متعال نے اس زمین کو اتنی وسعت کے باوجود اس کو بہت ہی کم اور ایک دہوکہ کا نام دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔(
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ
)
یعنی زندگی کا سرمایہ بہت ہی کم ہے ۔
اور اسی طرح سے فرماتے ہیں کہ(
وَ مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَعُ الْغُرُور
)
یعنی یہ دنیا کی زندگی صرف ایک دہوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ لیکن اس حکمت کے بارےمیں کہہ رہے ہیں کہ(
..يُؤْتىِ الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَ مَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتىَِ خَيرْا كَثِيرًا
)
وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیرکثیر دیا گیا ہے۔
اور امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ (...الْحِكْمَةِ الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ
;
حکمت مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے اور امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ(ِ أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ ..، ونَوِّرْه بالحِكْمَة
،
اپنے دل کو موعظہ کے ذریعے سے زندہ رکھو اور حکمت کے نور سے اسے جلا بخش دو ۔
اور حکمت کی اہمیت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ فرمایا : (الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ
حکمت مؤمن کا گمشدہ مال ہے اگرچہ وہ منافق کے پاس ہی کیوں نہ ہو اس کو حاصل کرنا چاہیے ۔
اسی طرح سے کسی اور تعبیر کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ (إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْأَبْدَانُ فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ
انسان کا دل اس کے جسم کی طرح سے سست اور تھکا ہوا ہوتا ہے اس کو خوش حال کرنے کے لئے نیک حکمتوں سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
حکمت عملی کے آثار :
حکمت کا معنی اور اس کے آثار کے بارے میں ہم حضرت عیسی کی نصیحتوں میں پڑ ھتے ہیں کہ :بِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ إِنَ النَّفْسَ نُورُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِنَّ الْحِكْمَةَ نُورُ كُلِّ قَلْبٍ وَ التَّقْوَى رَأْسُ كُلِّ حِكْمَة
; حقیقت میں آپ کو بتادوں کہ ہر چیز کی روشنی سورج کے ذریعے سے ہوتی ہے اور روح انسان کی روشنی حکمت کے ذریعے سے ہوتی ہے اور پرہیز گاری ہر حکمت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
اور اسی طرح سے فرماتا ہے کہ: (ُبِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ إِنَ الصَّقَالَةَ تُصْلِحُ السَّيْفَ وَ تَجْلُوهُ كَذَلِكَ الْحِكْمَةُ لِلْقَلْبِ تَصْقُلُهُ وَ تَجْلُوهُ وَ هِيَ فِي قَلْبِ الْحَكِيمِ مِثْلُ الْمَاءِ فِي الْأَرْضِ الْمَيْتَةِ تُحْيِي قَلْبَهُ كَمَا يُحْيِي الْمَاءُ الْأَرْضَ الْمَيْتَةَ وَ هِيَ فِي قَلْبِ الْحَكِيمِ مِثْلُ النُّورِ فِي الظُّلْمَةِ يَمْشِي بِهَا فِي النَّاس;
اور حق کے ساتھ آپ کو بتا دو ں کہ تلوار کو صیقل لگانا یا اس کو تیز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو جلا بخش دے اسی طرح سے حکمت بھی انسان کے دلوں کو جلا بخشتی ہے ۔
انسان کے دل میں حکمت کا ہونا بنجر زمین کو پانی دینے کی مانند ہے انسان کے دل کو زندگی دیتی ہے جس طرح سے پانی بنجر زمین کو زندہ کرنا ہے اور اسی طرح سے ایک نور کی طرح سے ہے جو رات کی تاریکی میں انسان اپنے ساتھ لیکر چلتا ہے ۔
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس حکمت کے آثار کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
(يَا بُنَيَّ تَعَلَّمِ الْحِكْمَةَ تُشَرَّفْ فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَدُلُّ عَلَى الدِّينِ وَ تُشَرِّفُ الْعَبْدَ عَلَى الْحُرِّ وَ تَرْفَعُ الْمِسْكِينَ عَلَى الْغَنِيِ وَ تُقَدِّمُ الصَّغِيرَ عَلَى الْكَبِيرِ وَ تَجْلِسُ الْمِسْكِينَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ وَ تَزِيدُ الشَّرِيفَ شَرَفاً وَ السَّيِّدَ سُؤْدَداً وَ الْغَنِيَّ مَجْدا
...)
اے میرے بیٹے حکمت کی تعلیم حاصل کرو تاکہ شرافت کے بلند ترین درجہ پر پہنچ سکو چونکہ حکمت دین کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور غلام کو آزاد پر شرافت بخشتا ہے اور فقیر کو دولتمند اور امیر سے زیادہ ارجمند بناتا ہے چھوٹے کو بڑے پر مقدم کرتا ہے اور فقیروں کو بادشاہوں کی جگہ عطا کرتا ہے اور انسان کی شرافت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
انسان کی زندگی اور دین دونو ں ہی اس حکمت کے علاوہ ممکن نہیں ہیں اور دنیا و آخرت کا کام صرف اسی حکمت پر موقوف ہے جس طرح سے خدا کی اطاعت کسی حکمت کے بغیر ہو تو بغیر روح والے جسم کی طرح ہوگی یا بغیر پانی والی زمین کی طرح سے ہے ۔
بس جس طرح سے جسم بغیر روح کے اور زمین پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی ہے اسی طرح سے حکمت کے بغیر خدا کی اطاعت بھی بے نشاط ہوگی ۔
حضرت لقمان کا حکیم ہونا اور اس کا راز :
سورہ لقمان کی آیت ۲۱ میں ہم پڑھتے ہیں کہ :(
وَ لَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَانَ الحْكْمَةَ
)
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ہے ۔
یہ آیت اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ وہ خدا وند عالم جو حکیم مطلق ہے حضرت لقمان کے حکیم ہونے کو قبول کرتا ہے اور اس کو حکمت سے بہرہ مندکیا ہے ۔
اور یہ کہ حضرت لقمان پیغمبر تھے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں قرآن مجید سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے اور روایات میں بھی ان کے پیغمبر ہونے کی نفی ہوئی ہے ان میں سے جو روایت پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہے کہ فرمایا : (حَقّاً أَقُولُ لَمْ يَكُنْ لُقْمَانُ نَبِيّاً وَ لَكِنَّهُ كَانَ عَبْداً كَثِيرَ التَّفَكُّرِ حَسَنَ الْيَقِينِ أَحَبَّ اللَّهَ فَأَحَبَّهُ وَ مَنَّ عَلَيْهِ بِالْحِكْمَة
;
حقیقت میں بتادوں کہ حضرت لقمان کوئی پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ زیادہ فکر کرنے والے انسان تھے خدا پر اس کا ایمان اور یقین کامل تھا خدا کو دوست رکھتا تھا اور خداوند عالم بھی اس کو دوست رکھتا تھا اور خدا وندعالم نے ان کو حکمت جیسی نعمت سے نوازا ۔
اب سؤال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے کس طرح سے وہ حکمت کے اس بلند ترین درجے پر پہنچ گئے ؟
کہ خداوند متعال نے ان کی بعض حکمتوں کو نصیحت کے طور پر قرآن مجید میں ذکر کیا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت لقمان ایک پاک اور مخلص انسان تھے سیر و سلوک اور عرفان کے راستے میں اس نے بہت ہی زحمت اٹھائی ہے اور اسی طرح ہوائے نفس کی مخالفت اور بہت ساری مشکلات کو تحمل کرنے کی وجہ سے خدا وند عالم نے ان کے دل میں حکمت کے چشمے پھوٹ دئیے اور لقمان کی یہی قابلیت خداوندعالم کا لطف قرار پائی ۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : (مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً إِلَّا جَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِه
;
جو بھی خدا کی خاطر اگر چالیس دن تک اخلاص پیدا کریں تو خداوند عالم ان کے دل اور زبان حکمت جاری کرتا ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ کسی نے حضرت لقمان سے پوچھا آپ نے یہ علم اور حکمت کہاں سے حاصل کی ہے ؟ جبکہ آپ نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا ؟ تو حضرت لقمان نے فرمایا ۔(قَدَّرَ اللَّه و أداءِ الأمانَة و صدقِ الحَديثِ، و الصمت
خدا کی چاہت اور امانت داری اور سچائی اور اپنی زبان پر کنٹرول کرنے سے یہ مقام حاصل ہوا ہے ۔
حضرت لقمان کو حکمت عطا ہونے کے راز کو امام صادق علیہ السلام اس طرح سے بیان کرتے ہیں خدا کی قسم جو حکمت لقمان کو عطا ہوئی ہے وہ نہ ہی اس کی جمال و خوبصورتی کیوجہ سےتھی اور نہ ہی ان کے حسب ونسب اور مال و دولت کی وجہ سے بلکہ وہ پاک اور پرہیز گار انسان تھے جو ہمیشہ خدا کے حکم کی اطاعت کرتے تھے اور ہمیشہ اپنی زبان پر کنٹرول کرتے تھے اور بہت زیادہ فکر کرنے والے تھے ۔
اور بعض موارد کے علاوہ کبھی سوتے نہیں تھے کسی مجلس میں لوگوں کے سامنے کبھی ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے اور قضاے حاجت کے وقت ایسی جگہ نہیں بیٹھتے تھے جہاں پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے ۔ وہ بہت ہی باوقار انسان تھے ،کبھی بے جا ہنستے نہیں تھے اور کبھی بھی غصہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کبھی مذاق کرتے تھے اور دنیوی امور میں کبھی خوشحال یا غمگین نہیں ہوتے تھے۔ حضرت لقمان کی کئی بیویاں تھیں جن سے بہت زیادہ اولاد تھے ان میں سے بہت سارے مر گئے تو حضرت لقمان خدا کی خوشنودی کے خاطر ان کے موت پر کبھی روئے نہیں ۔
اور جب دو بندوں کے درمیان لڑائی ہوتی تو ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتے تھے اور جب تک ان کے درمیان صلح نہیں ہوتی ان کو چھوڑ تے نہیں تھے ۔ جب کسی سے کوئی اچھی بات سنتے تھے تو اس کی تفسیر اور منبع و ماخذ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ علماء اور فقہاء کے ساتھ زیادہ بیٹھا کرتے تھے جو بھی اس کے معنوی فائدہ کے لئے ہوتا تھا اس پر زیادہ توجہ دیتے تھے ۔ بے ہودہ کاموں سے بیزار تھے اسی وجہ سے خداوند متعال نے ان کو حکمت جیسی خصلت سے نوازا ۔
نتیجہ اور جمع بندی :
انہی مطالب اور دوسرے مطالب سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمان اگرچہ نسل اور قوم کے اعتبار سے بہت ہی کم درجے پر تھے لیکن علم و عمل اور ریاضت اور کمال کے مراحل کو طی کرنے میں بہت بڑے مقام حکمت تک پہنچ گئے مثال کے طور پر سلمان ایک عجمی تھے لیکن خود سازی اور ریاضت کے اعتبار سے تکامل تک پہنچ چکے تھے جس کیوجہ سے امام علی علیہ السلام نے ان کو لقمان کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اس کی شان میں فرمایا : (قَالَ بَخْ بَخْ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ مَنْ لَكُمْ بِمِثْلِ لُقْمَانَ الْحَكِيمِ عَلِمَ عِلْمَ الْأَوَّلِ وَ عِلْمَ الْآخِر
;
واہ واہ سلمان کا کیسا مقام ہے وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں آپ کہاں سے سلمان کے درجے پر پہنچ پاوگے وہ لقمان حکیم کی طرح ہے جو گزشتہ اور آئندہ کے بارے میں علم رکھتے ہیں ۔
لقمان کی زبان سے حکمت کا جاری ہونا :
پیغمبر اسلام کی روایت ہے کہ فرمایا ایک دن حضرت لقمان بستر پر آرام فرما رہے تھے ۔ اچانک کوئی آواز سنی جو اس کو مخاطب قرار دے کر کہہ رہی تھی اے لقمان کیا آپ چاہتے ہو کہ خداوند متعال آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ بنائے تاکہ لوگوں کے درمیان حق کی قضاوت کرو ؟
تو لقمان نے کہا اگر میرا پرودگار اس حکم پر مجھے اختیار دے دیں تو میں اس قضاوت کے امتحان کو کبھی قبول نہیں کرونگا لیکن اگر میرا خدا اس کام پر مجھے حکم دے تو میں ان کے حکم کی اطاعت کرونگا چونکہ مجھے معلوم ہے کہ اگر ایسی ذمہ داری مجھے دی ہے تو وہ ضرور میری مدد کرے گا ۔
اور فرشتے نے جبکہ لقمان ان کو نہیں دیکھ رہے تھے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں اس قضاوت کو قبول نہیں کرتے ہیں ؟ تو لقمان نے جواب دیا اگرچہ لوگوں کے درمیان قضاوت کرنا بہت ہی ضروری بھی ہے اور سخت بھی ہے چونکہ ہر طرف سے ظلم و ستم اور لغزشوں کے امواج اسی کی طرف متوجہ ہوتی ہیں ۔ اگر خدا وند عالم انسان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے تو لوگ نجات پائیں گے وگرنہ انہی لغزشوں کے امواج میں غرق ہونے کا امکان ہے ۔ بس کل قیامت کے دن انسان کے ذلیل وخوار ہونے سے بہتر ہے کہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہو جائے اور جو بھی اس دنیا کو آخرت پر ترجیح دے تو وہ کبھی بھی اس دنیا کو حاصل نہیں کرسکے گا اور اس کی آخرت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی ۔
فرشتے لقمان کی ان حکیمانہ اور منطقی باتوں سے متعجب ہوئے اس کے بعد لقمان کو نیند آگئی خداوند متعال نے لقمان کے دل میں حکمت کا نور ڈال دیا اور جب وہ نیند سے اٹھے تو ان کی زبان پر حکمت جاری ہونے لگی ۔
لقمان اگرچہ حضرت داؤد کے مشکلات میں مددگار تھے حضرت داؤد ان کو کہنے لگے طُوبَى لَكَ يَا لُقْمَانُ أُعْطِيتَ الْحِكْمَة.
اے لقمان آپ کتنے خوش قسمت ہو کہ خدا نے آپ کو حکمت عطا کی ہے ۔
لقمان کی دس حکمتیں قرآن میں:
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی ہوئی بعض نصیحتیں کو خدا وند عالم نے قرآن مجید کی سورہ لقمان میں پانچ آیتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے (سورہ لقمان آیات ۱۳۔ ۱۶۔ ۱۷ ۱ ۔۱۸۔ ۱۹۔ )
اور وہ دس نصیحتیں درجہ ذیل ہیں :
۱۔ توحید ۔ ۲۔ معاد۔ ۳۔ نماز ۔ ۴۔ امر بالمعروف ۔۵۔ نہی عن المنکر ۔ ۶۔ صبر و استقامت ۔۷۔ تواضع ۔۸۔ خود خواہی سے دور رہنا ۔ ۹۔ چلتے وقت اعتدال کا ہونا ۔ ۱۰۔ بات کرتے وقت اعتدال کا ہونا ۔
یہی نصیحتیں حکمت نظری اور عملی ، اعتقادی اور عبادی ، اجتماعی اور سیاسی ،تقویتی اور اخلاقی کا ایک مجموعہ ہیں ۔ اگر خدا نے چاہا تو ہم ان میں سے ہر موضوع کے بارے میں آئندہ مقالوں میں بحث کریں گے اس امید سے کہ لقمان کی ان نصیحتوں سے ہم فائدہ اٹھائیں اور ان کو سعادت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیں ۔
پہلی حکمت : توحید اور خدا شناسی :
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :(
« يَابُنىََّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم
)
;
لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔
حضرت لقمان نے اپنی پہلے سخن کو وہی انبیاء والا سخن قرار دیا چونکہ تمام انبیاء کا مقصد و ہدف یکتا پرستی کی تبلیغ تھی اور ہر قسم کے شرک سے پرہیز کرناتھا لہذا حضرت لقمان نے بھی اپنی تمام نصیحتوں کا اساس توحید خدا وندی کو قرار دیا اس کی علت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یکتا پرستی اور خدا کی وحدانیت سے منحرف ہوکر اس کو شریک قرار دینا بہت ہی بڑا ظلم ہے ۔
لقمان کی اس نصیحت میں دو چیزیں توجہ کی طالب ہیں ۔
پہلی یہ کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شرک سے پرہیز کریں اور خداکو تلاش کرنے کی کوشش کریں اور خدا کو بے ہمتا اور یکتا جانیں ۔
اور دوسری یہ کہ شرک قرار دینا ایک بہت بڑا ظلم ہے ۔
اور پہلے مطلب کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ دنیا اور اس جہان کو خلق کرنے والا کوئی ضرور ہے تو انسان کو غیر جانبدار نہیں رہنا چاہیے چونکہ بہت سارے ایسے دلائل موجود ہے کہ اس جہان کو خلق کرنے والے خدا وند عالم کی ذات پاک ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کی اپنی عجیب و غریب خلقت اور دوسرے موجودات کی عجیب خلقتوں کے ہوتے ہوئے خداوند عالم کی ذات پر اعتقاد نہ رکھیں ۔
اب جب خداوند عالم کو تلاش کیا تو پھر اس کو پہچاننے کی ضرورت ہے اس کے لئے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت کو قبول کریں اور اس کو بے ہمتا جانیں اور کسی کے ساتھ شریک قرار نہ دیں چونکہ خدا کی ذات ایسی ہے کہ وہ ہر جہت سے بے انتہاء ہے ۔ اسی بناپراس کی کوئی بھی صفت اس کی ذات سے خارج نہیں ہے کیونکہ وہ کمال مطلق ہے اس کی صفات کا اسکی ذات سے خارج ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
توحید کے اقسام :
توحیدکے راستے میں قدم اٹھانے اور ہر قسم کے شرک سے پاک ہونے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح سے شرک کے مختلف اقسام ہیں اسی طرح سے توحید کے بھی کئی اقسام ہیں۔عقائد کے مشہور و معروف علماء نے توحید کے چار اقسام بیان کئے ہیں۔ ۱۔ توحید ذاتی ۲۔ توحید صفاتی ۔ ۳۔ توحید عبادی یعنی عبادت و پرستش کے لائق صرف خداوند عالم کی ذات ہے ۔ ۴۔ توحید افعالی ۔ اور ان میں سے ہر ایک کئی قسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔ اور اسی طرح سے شرک کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔
جیسا کہ ذاتی شرک ہے : یعنی خداکی ذات میں کسی کو شریک قرار دینا ذاتی شرک کہلاتا ہے مثال کے طور پر دو خداؤں کی پرستش کرنے والوں کی طرح جو دو خداؤں - اہریمن یعنی تمام برائیوں کا خدا اور - یزدان یعنی تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا خدا ۔ اور اسی طرح سے مسیحی جو تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا خدا ( اب - ابن - اور روح القدس ) ہے جو ان تین سے ملکر بنا ہے ۔
اور صفات میں شرک کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ خداکی تمام صفات اس کی ذات سے جدا ہیں ۔
اور عبادت میں شرک یعنی خداکی پرستش اور عبادت میں کسی کو شریک قرار دیناہے چنانچہ تمام انبیاء کا مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کامقصد یہی تھا کہ وہ لوگ اپنی عبادتوں میں دوسرے خداؤں کو شریک قرار دیتے تھے ۔
اوراسی طرح سے شرک افعالی جو کہ توحید افعالی کے مقابل میں ہے یعنی انسان کا اس طرح عقداہ رکھنا اس جہان کی خلقت یا اس کے نظام تدبیر میں کسی اور کو بھی شریک قرار دینا ۔ لہذا انسان کو ہر قسم کے شرک اور قیاس سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ خدا کی وحدانیت کے راستے پر چل سکے ۔ شرک اس حد تک نفرت انگیز ہے کہ انسان کو حتی ایک لحظہ کے لئے بھی اس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے صحابی عبداللہ ابن مسعود کو فرمایا : «ٍإِيَّاكَ أَنْ تُشْرِكَ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَ إِنْ نُشِرْتَ بِالْمِنْشَارِ أَوْ قُطِعْتَ أَوْ صُلِبْتَ أَوْ أُحْرِقْتَ بِالنَّار
;
خداکو شریک قرار دینے سے حتی ایک لحظہ کے لئے بھی پر ہیز کیا کرو چاہیے ایسا کرنے میں تمہیں ایک آرے سے ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کریں اور دروازے پر لٹکایا ہی کیوں نہ دیں یا آگ کے اندر جلایا ہی کیوں نہ دیں ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں مشرکین کے عذاب کے بارے میں فرمارہا ہے :(
وَ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيرْ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فىِ مَكاَنٍ سَحِيق
)
. جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمانوں سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے
تاریخ اسلام میں آیا ہے کہ ہجرت کی آٹھویں سال میں ثقیف نام کا ایک قبیلہ گزرا ہے جو سب کے سب مشرک تھے ایک دن مدینے میں پیغمبر اسلام کے پاس آکر کہنے لگے ہم اسلام قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ہماری دو شرطوں کو مان لیں پہلی یہ کہ آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم تین سال تک اسی بت ( لات ) کی ہی پوجا کریں اور دوسری یہ کہ اس نماز کا جو حکم ہے وہ ہم سے اٹھالیں تو پیغمبر اسلام نے ان کی اس خواہش کو رد کردیا کیونکہ ان کی پہلی خواہش سے شرک ثابت ہوتا تھا اور دوسری خواہش توحید کی نشانی کو چھوڑنا ثابت کرتی تھی پھر نماز کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا : «لَا خَيْرَ فِي دِينٍ لا صَلَاة فِيه
ایسا دین کہ جس میں نماز نہ ہو اس دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔
شرک اور بت پرستی انسان کے لئے سب سے بڑی آفت اور کمالات انسان کو جلانے اور نابود کرنے کے لئے آگ شمار ہوتی ہے
پیغمبر اسلام نے سخت ترین شرائط میں بھی اس شرک کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے جب مشرکین مکہ نے یہ سازش کی کہ پیغمبر اسلام ان کی باتوں کے قبول کریں اور ہم ایک سال تک آپ کے آئین کی پیروی کریں گے اور ایک سال آپ ہمارے آئین کی پیروی کریں تو اس وقت ہم آپ کو بہترین امتیازات دینگے لیکن پیغمبر اسلام نے ان کے جواب میں فرمایا : «معاذ الله ان اشرك به غیره;
میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز سے کہ خدا کا شریک قرار دوں تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے بعض خداؤں پر ہاتھ رکھیں اور ان سے تبرک حاصل کریں تو ہم آپ کی سچائی کا اعلان کریں گے اور آپ کے خدا کی پرستش کریں گے لیکن پیغبر اسلام نے ان کو اس طرح سے جواب دیا میں خداوند متعال کے حکم کا انتظار کررہا ہوں اسی وقت سورہ کافرون نازل ہوا اور پیغمبر اسلام نے اس کے مطابق کہا میں کبھی بھی آپ کے آئین کو قبول نہیں کرونگا ۔
پیغمبر اسلام سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے کہ فرمایا : جو بھی سورہ کافرون کی تلاوت کرے گا تو گویا اس نے قرآن مجید کے ایک چوتھائی حصہ کو پڑھ لیا اور اس سے شیاطین درو ہو جاتے ہیں ۔
اس تعبیر سے اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ قرآن مجید کے ایک چوتھائی حصہ بت پرستی اور شرک کے ساتھ مقابلہ کرنے کو بیان کرتا ہے کہ جس کا خلاصہ قرآن کی اس سورہ میں بیان ہوا ہے اور شرک سے پرہیز کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور اس سرکش شیطان کے مقابلہ میں اپنا دفاع کریں تاکہ شیطان انسان پر مسلط نہ ہو سکے
اور جالب بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں تقریبا دو سو سے زیادہ مرتبہ شرک ا ور غیر توحیدی چیزوں سے منع کیا گیا ہے اور جہاں پر صرف شر ک سے منع کیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ مشرکین کے لئے سخت غذاب ہے جیسا کہ فرمایا :
«(
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ
)
; اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں
کسی اور جگہ پر فرمایا : «(
وَ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظيما
)
; اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا۔
توحید ناب پیغمبراسلام اور امیر المؤمنین کے کلام میں :
اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے ہم یہاں پر پیغمبر اسلام اور امام علی علیہ السلام کی دو باتوں کو ذکر کریں گے ۔
۱۔ ایک شخص پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھنے لگا کہ علم کا بلند ترین مرحلہ کونسا ہے ؟ تو پیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں فرمایا خداوند متعال کی شناخت جس طرح سے وہ لائق ہے اس طرح سے پہچاننا۔ پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ یہ جان لیں کہ خداکا نہ کوئی مثل ہے اور وہ نہ ہی کسی سے شباہت رکھتا ہے بلکہ اس کو واحد اور خالق و قادر مطلق جانے ۔ نہ ہی اس کاکوئی شریک ہے اور نہ ہی کوئی اس جیسا ہے اور یہی خدا کی حقیقی معرفت ہے ۔
۲۔ جنگ جمل میں اسی جنگ کی حالت میں ایک شخص امیر المؤمنین کے پاس آکر کہنے لگا کیا آپ یہی کہتے ہیں کہ خداوند عالم واحد ہے؟ تو اسی وقت امیر المؤمنین کے اصحاب نے اعتراض کیا کہ یہ سؤال کرنے کا کونسا وقت ہے؟ لیکن امام علی علیہ السلام نے کہا کہ اس کو اپنے حال پرہی چھوڑ دو یہ مر د عرب جو ہم سے چاہتا ہے وہی ہم اپنے دشمنوں سے چاہتے ہیں اور اسی کی خاطر لڑتے ہیں پھر اس کے بعد فرمایا اے اعرابی میں یہ جو کہہ رہا ہوں کہ خدا واحد ہے اس کے چار معانی ہیں ان میں سے دو صحیح اور دو غلط ہیں۔
۱ ۔ اگر کوئی بندہ کہہ دے کہ خدا واحد ہے یعنی عدد مراد ہو یعنی عدد کے اعتبار سے ایک ہے جو دو کے مقابل میں ہے تو اسی صورت میں خدا ایک ایسا واحد اور یکتا ہوگا کہ جس کے لئے دوسرے کے نہ ہونے کا تصور ہی نہیں اس بناپر یہ اعداد میں داخل نہیں ہوتاہے۔
۲۔ اور کوئی کہہ دے کہ خدا واحد ہے اور اس کا مقصد جنس کا ایک ہو تو یہ بھی صحیح نہیں ہیں کیونکہ اس کا مفہوم خداکو تشبیہ دینے کے معنی میں ہوتا ہے ۔ لیکن وہ جو دومعانی صحیح و ثابت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایسا یکتاہے کہ جو کسی سے شباہت نہیں رکھتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی کہہ دے کہ خدا (احدی المعنی ) ہے یعنی وہ وجود کے اعتبار سے نہ ہی عقل و وہم میں اور نہ ہی خارج میں قابل تجزیہ و تقسیم نہیں ہے ۔
شرک کا سب سے بڑا ظلم ہونا :
شرک کے باطل ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں حضرت لقمان کی اس شرک کے بطلان پر موجود دلیلوں میں سے ایک جامع دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے چونکہ شرک کرنا خدا پر ظلم ہے کیونکہ ایسے موجودات مثال کے طور پر بت وغیرہ خدا وند عالم کے ہمتا قرار پائے ہیں مثلا اگر ہم یہ کہہ دیں کہ کالی چیونٹی حضرت سلیمان کی ہمتا قرار پائی ہے تو کیا اس طرح کا مقایسہ کرنا حضرت سلیمان پر ظلم نہیں ہے ؟ اور دوسری طرف سے خدا کی اس خلقت پر ظلم ہے چونکہ اس کو حقیر اور ناتواں جاننے سے اس کی فکر کو ٹھیس پہنچتا ہے جس کی وجہ سے وہ فکری انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے سے پست تر ایک چیز کو خدا کا ہمتا قرار دیا ہے ۔
اور تیسرا یہ کہ شرک انسان کو خدا کے بلند ترین درجہ عبودیت سے گرا کر ذلت اور غیر خدا کی عبادت کرنے کا باعث بنتاہے ۔
حضرت لقمان کی باتیں اس چیز کو بیان کرتی ہیں کہ تمام چیزوں میں عدالت اور انصاف ہونا چاہیے اور عدالت ہر چیز کو اپنے محل اور صحیح جگہ پر قرار دینا ہے اور ظلم اس کا مخالف ہے ۔
یہاں پر اس نکتے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ شرک کے لئے بہت سارے معانی اور اقسام بیان ہوئے ہیں ۔ اور حضرت لقمان کی نصیحت تمام پیغمبروں کی اطاعت اور ہر قسم کے شرک کرنے سے پرہیز کرنے کے بارے میں ہے ۔اس بنا پر شرک آشکار(بت پرستی ) اور شرک خفی ( یعنی ریا اور خود نمائی ) کرنا بیا اس شرک میں شامل ہے ۔ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے شرک رات کی تاریکی میں کالے کپڑوں پر چیونٹی کی حرکت سے بھی زیادہ مخفی ہے ۔
اور اس کا ایک قسم یہ ہے کہ انسان اپنی حاجت کو خداسے طلب کرنے کے لئے اپنی انگوٹھی کو انگلی میں گماتا رہتا ہے ۔
توحید کے اقسام میں سے ایک خداوند عالم کے سامنے تسلیم ہونا ہے اور اس کا عکس خدا کے احکام میں شک و تردید میں پڑنا ہے جو ایک قسم کا شرک شمار ہوتا ہے ۔ اسی لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی مؤمن خداوسول کی بتائی ہوئی چیز کے مخالف عمل کریں یا اس کے اندر ایسی حالت پیدا ہو جائے حتی وہ زبان پر نہ بھی لائے پھر بھی یہ شرک شمار ہوتا ہے اس کے بعد امام علیہ السلام نے سورہ نساء کی آیت ۶۴ کو مثال کے طور پر تلاوت فرمایا ۔
دوسری حکمت : حساب وکتاب :
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ حضرت لقمان کی پہلی نصیحت توحید اور خداشناسی کے بارے میں تھی اور ابھی حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کے بارے میں تشریح کریں گے کہ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں : «(
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطيفٌ خَبيرٌ
)
;(۳۹ )
اے بیٹے! اگررائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تواللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
اس آیت میں دو اہم مطلب بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ خداوند متعال کی قدرت کی وسعت اور اس کا تمام جہان پر احاطہ جوکہ خداشناسی میں سے ہے اورخدا کے نظام اور حساب رسی کو بیان کرتی ہے ۔
۲۔ اور خود انسان کے حساب وکتاب کا مسئلہ : یعنی انسان کو خود اپنے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے اعمال کا خود حساب و کتاب کریں اور اپنی کردار و رفتار کو خدا کے احکام کے ساتھ ہماہنگ کریں اور ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ دنیا اور آخر ت دونوں میں انسان سے سخت حساب ہونا ہے ۔ ایک دن اس کو حساب وکتاب کے میزان پر کھڑ ا ہونا پڑے گا اور اپنے کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں یا آخرت میں ملنا ہے ۔
اس آیت میں خردل کی مثال دی گئی ہے اس سے مراد کسی جڑی بوٹی کانام ہے کہ جس کے کالے کالے اور چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں اس آیت میں اس کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعمال اگرچہ اس خردل کے مانند چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں اس کا بھی حساب ہو جائے گا ۔
خداوند عالم کے حساب کا میزان اس طرح سے ہے کہ اگر انسان کے اعمال میں سے ذرہ بھی کسی پتھر کے اندر چھپا ہوا ہو خدا اس کو بھی اپنے میزان حساب میں حاضر کردے گا ۔
اور آسمانوں کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز وسعت کی طرف توجہ کرنے سے ہم خدا کے اس میزان حساب و کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں علم سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بعض ستاروں کا زمین سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ لاکھوں سال تک ایک نور کی ضرورت ہے جو زمین تک پہنچ جائے اور اس بات کی توجہ دیتے ہوئے کہ اس نور کی جو حرکت ہے اس کی سپیڈ ایک سکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر تک ہے ۔ جب انسان کے اعمال میں سے ایک چھوٹا ساعمل بھی انہی ستاروں میں سے کسی ایک ستارے کے کونے میں بھی ہو تو وہ بھی خدا اپنے میزان حساب میں حاضر کرے گا ۔ لہذا حضرت لقمان کی یہ نصیحت انسان کو متوجہ کرتی ہے انسان اس خطرے کی گنٹی کی طرح ہمیشہ ہوشیا ر رہے ۔
آسمانوں کی وسعت اور اس کی عظمت ایک مثال سے بہتر سمجھ میں آئے گی مثال کے طور پر سورج کی روشنی تقریبا آٹھ منٹ تک زمین پر پہنچ جاتی ہے اور زمین سے سورج کا فاصلہ تقریبا ۲۴ ملیون فرسخ ہے ۔ اب زمین سے ان ستاروں کا فاصلہ کتنی وسعت کے ساتھ ہونا چاہیے یہاں سے ہمیں آسمانوں کی وسعت اور عظمت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
حضرت لقمان خدوند عالم کے اس احاطہ علمی اور اس کی قدرت اور حساب کتاب کو یاد کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ہوشیار کرتاہے کہ اپنے اعمال کی حفاظت کرو اور اپنے اعمال کا حساب کرکے خود کو کنٹرول میں رکھو تاکہ کل حساب و کتاب کردیتے وقت سرخرو ہو جاؤ اور خدا کے لطف اور انعام کےمستحق ہوجائے ۔
حساب و کتاب قرآن کی دوسری آیتوں میں :
علم خداکی وسعت اور حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان ہوا ہے انہی میں سے ایک سورہ سبا آیت ۳ میں ہم اس طرح سے پڑھتے ہیں کہ :لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِي السَّماواتِ وَ لا فِي الْأَرْضِ وَ لا أَصْغَرُ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرُ إِلاَّ في كِتابٍ مُبين
: آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے.۔
جب ہم کلمہ حساب کو قرآن میں دیکھتے ہیں تو یہ کلمہ قرآن مجید میں مختلف شکلوں میں تقریبا ۴۷ مرتبہ ذکر ہوا ہے انہی میں سے اٹھ آیتوں میں سریع الحساب کا لفظ ذکر ہوا ہے یعنی خداوند عالم کی حساب رسی بہت ہی سرعت کے ساتھ بغیر کسی سستی اور کاہلی کے انجام پائے گی ۔ اور اسی طرح سے پانچ آیتوں میں قیامت کے دن کیلئے یوم الحساب آیا ہے ۔
جو قیامت کے مشہور ترین ناموں میں سے ہے ۔
اور اصل میں قیامت اس لئے ہے کہ سورہ انبیاء آیت ۴۷ میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا: «(
وَ نَضَعُ الْمَوازينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَ إِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَ كَفى بِنا حاسِبين
)
; اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم کافی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نامہ اعمال کا میزان اور ان اعمال کو ( رقیب و عتید ) دو فرشتوں کے ذریعے سے ثبت کرنا جیسا کہ قرآن مجید سورہ ق آیت ۱۸ میں تکرار کے ساتھ آیا ہے یہ سب کل قیامت کے دن خداوند عالم کے حساب و کتاب کو بیان کرتا ہے لہذا انسان کو حساب و کتاب کے مسئلہ سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
حساب و کتاب روایات کی نظر میں :
پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کی روایات میں حساب و کتاب کے بارے میں بہت ساری روایات تقل ہوئی ہیں انہی میں سے کچھ روایتوں کو ہم یہاں پر ذکر کریں گے ۔
پیغمبر اسلام کا فرمان ہے «حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا
;
اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اپنا حساب وکتاب کرو ۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا : «قَيِّدُوا أَنْفُسَكُمْ بِالْمُحَاسَبَة
;
حساب و کتاب کے ذریعے سے اپنے اوپر کنٹرول کرو ۔
اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے «أَكْيَسُ الْكَيِّسِينَ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ
،;
چالاک ترین انسان وہ ہے جو اپنا حساب و کتاب خود کرتاہے ۔
اور امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے «حَقٌ عَلَى كُلِ مُسْلِمٍ يَعْرِفُنَا أَنْ يَعْرِضَ عَمَلَهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ عَلَى نَفْسِهِ فَيَكُونَ مُحَاسِبَ نَفْسِهِ فَإِنْ رَأَى حَسَنَةً اسْتَزَادَ مِنْهَا وَ إِنْ رَأَى سَيِّئَةً اسْتَغْفَرَ مِنْهَا لِئَلَّا يَخْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ
:
ہر وہ مسلمان جو ہمیں جانتا ہے اور ہماری امامت کو قبول کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ ہر صبح و شام اپنا حساب و کتاب کرے اگر اپنے اعمال میں نیکی پائے تو اس میں اور اضافہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے اعمال میں گناہ پائے تو استغفار اور توبہ کیا کرے تاکہ کل قیامت کے دن رسوا نہ ہو جائے ۔
روایات میں جو مختلف مسائل ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ انسان کے اعمال کا پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کا ہے اور یہ موضوع بھی اسی حساب و کتاب کو بیان کرتا ہے اس طرح سے کہ پورے ہفتے میں ہمارے اعمال کئی مرتبہ پیغمبر اور ائمہ معصومین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اسی موضوع کے بارےمیں اصول کافی میں تقریبا چھ روایتیں آئی ہیں انہی میں سے پہلی روایت امام صادق سے نقل ہوئی ہے «تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص أَعْمَالُ الْعِبَادِ كُلَّ صَبَاحٍ أَبْرَارُهَا وَ فُجَّارُهَا فَاحْذَرُوهَا وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى- اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُه;
نیکو کار اور فاسق لوگوں کے اعمال ہر صبح اور شام کو پیغمبر اسلام کے سامنے پیش ہوتے ہیں لہذا اپنے برے کردار سے بچو اور قرآن مجید میں خداوند عالم کا کلام سورہ توبہ کی آیت ۱۰۵ میں اسی معنی پر دلالت کرتا ہے ۔
اور کہدیجیے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا د ے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔
اور اسی طرح اعمال کے ائمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کے بارےمیں بھی کئی روایات ذکر ہوئیں ہیں ۔
مکہ میں ہارون رشید اور امام کاظم علیہ السلام کا جو مناظرہ ہوا اس میں ہارون نے امام سے کئی سؤالات پوچھے کہ دین کیا ہے ؟ اور اس دین کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں بیان کریں تو امام علیہ السلام نے کچھ اعداد گن کر کہا کہ دین سے مراد یہی اعداد ہیں ؟ تو ہارون ہنستے ہوئے کہنے لگے میں آپ سے دین کے بارے میں پوچھتاہوں اور آپ مجھے ریاضی کے اعداد گن کر بتا رہے ہیں تو امام کاظم نے فرمایا : «َ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَ الدِّينِ كُلَّهُ حِسَاب; کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ اس دین میں سارا حساب ہی ہے ؟
پھر اسی کی تائید میں سورہ انبیاء کی آیت ۴۸ کی تلاوت کرنے لگے ۔
حساب و کتاب کے بارے میں تجزیہ و تحلیل :
محاسبہ اورحساب و کتاب یہ ہیں کہ انسان اپنے کردار کی حفاظت کریں اور اس کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور اس کو اسلامی احکام کے ساتھ ہماہنگ کریں تاکہ صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو جائیں ۔
روایات میں آیا ہے کہ کسی نے امیر المؤمنین سے پوچھا محاسبہ سے مراد کیا ہے ؟ اور انسان کس طرح سے اپنا محاسبہ کریں ؟ تو امام نے فرمایا : جب صبح ہو جائے تو انسان اپنے روز مرہ کاموں میں مشغول ہو جائیں اور جب رات ہو جائے تو اپنے وجدان کی طرف رجوع کریں اور اس کو مخاطب قرار دے کر کہیں ! اے وجدان ! آپ کی عمر کا ایک اور دن گزر گیا اور وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خداوند عالم اس دن کے بارے میں تم سے سؤال کرے گا کہ تم نے اس دن کو کیسے گزارا ؟ کونسا عمل انجام دیا ؟ اور کیا خدا کا شکر ادا کیا یا نہیں ؟ اور کسی بندے کے غم کو برطرف کیا یا نہیں ؟ اور اس کی غیبت پر اس کی آبرو کو محفوظ رکھا یانہیں ؟ اور اس کے مرنے کے بعد اس کے خاندان میں ان خدمات کو محفوظ رکھا یانہیں ؟ اور کسی مسلمان کی مدد کی یانہیں ؟
اگر انسان کا وجدان اس کے جواب میں کہے کہ میں نے نیک کاموں کو انجام دیا ہے تو اس کو خداوند عالم کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر اس کے جواب میں گناہ آجائے تو اس وقت انسان کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے ۔
پیغمبر اکر م کا فرمان ہے کہ انسان اسوقت تک پرہیز گار نہیں بن سکتا ہے جب تک اپنا حساب و کتاب نہ کرے جس طرح سے وہ اپنا شریک سے حساب کرتا ہے اسی طرح سے اپنا محاسبہ کرے اور اس کو یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ کھانے پینے کی چیزیں کہاں سے آئیں اور اس کے کپٹرے کہاں سے آئے ؟ کیا وہ حرام مال سے ہاتھ آئیں ہیں یا حلال مال سے ؟ ( ۴۸)
اسی بنا پر علماء اخلاق نے محاسبہ کرنے کا طریقہ اس طرح سے بیان فرمایا ہے کہ جب مؤمن صبح کو نیند سے اٹھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان پانچ مراحل کو طے کریں ۔ ۱ ۔ مشارطہ ۔۲۔ مراقبہ ۔ ۳۔ محاسبہ ۔ ۴۔ معاقبہ ۔ ۵۔ مکافئہ ۔
یعنی سب سے پہلے انسان اپنے ساتھ شرط باندھے کہ میں آئندہ گناہ نہیں کرونگا پھر اسی کی مراقبت کرے تاکہ کوئی گناہ انجام نہ دے اور اس کا وعدہ نہ ٹوٹ جائے اس کے بعد جب رات ہوتو اپنا محاسبہ کرے کہ کیا دن میں کوئی گناہ اس سے سرزد ہوا یانہیں؟ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اپنی سرزنش کرے اور توبہ کرنے کی کوشش کرے ۔
اور پانچواں مرحلہ میں اپنے انجام دئیے ہوئے ان گناہوں کی تلافی میں نیک اور اچھے کام کرنے کی کوشش کرے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : «ثَمَرَةُ الْمُحَاسَبَةِ إِصْلَاحُ النَّفْسِ
.
محاسبہ کرنے کا نتیجہ انسان کی روح اور نفس کی اصلاح ہے۔
شیخ عباس قمی نے شیخ بہائی سے نقل کیا ہے کہ ( ثوبہ بن صمۃ ) نام کا ایک شخص ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا تھا وہ ایک دن اپنا محاسبہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ساٹھ سال کی عمر گزر گئی جو اکیس ہزار پانچسو دن بن جاتے ہیں اگر میں ہر دن ایک گناہ انجام دیتا تو میرے اکیس ہزار پانچسو گناہ بن جاتے اور اس وقت میں خدا کو کیا جواب دیتا لہذا وہ اپنے اس حساب کتاب سے غمگین ہو کر زمین پر گر جاتے ہیں اور اسی حالت میں ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔
اور اسی طرح سے نقل کرتے ہیں کہ ( احمد بن ابی الجواری ) جو کہ پرہیز گاری میں بہت ہی مشہور و معروف تھے ۔اس کا ایک استاد ( ابو سلیمان دارانی ) تھا اس کے مرنے کے ایک سال بعد اسکو خواب میں دیکھا اور احوال پرسی کرنے کے بعد اس سے کہنے لگا اے استاد آپ کے مرنے کے بعد خداوند عالم نے آپ سے کیسا سلوک کیا ؟ تو ابو سلیمان نے اس کے جواب میں کہا اے احمد ! میں ایک دن دمشق میں باب الصغیر کے کنارے سے گزر رہا تھا ایک بوڑ ھے کو دیکھا جو اونٹ پر لکڑیاں لادھے ہوا تھا میں نے اس کے اونٹ سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا تنکا اٹھایا لیکن ابھی مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اس کو خلال کے طور پر استعمال کیا تھا یا اسے پھینک دیا تھا ؟ جب سے میں مرا ہوں ابھی تک اسی عذاب میں گرفتار ہوں کہ میں نے اجازت کے بغیر وہ لکڑی کیوں اٹھائی ؟ اور میں ابھی اسی کا حساب دے رہا ہوں ۔
اس عجیب واقعہ کونقل کرنے کے بعد محدث قمی فرماتے ہیں قرآن مجید کی آیات اس واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت لقمان کے قول کونقل کرتے ہوئے فرمایا : «(
إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في صَخْرَة
)
...»
اگررائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تواللہ اسے یقینا نکال لائے گا
اور اسی طرح سے امام صادق کا یہ قول بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ فرمایا: «اتَّقُوا الْمُحَقَّرَاتِ مِنَ الذُّنُوبِ فَإِنَّهَا لَا تُغْفَر; چھوٹے چھوٹے گناہوں سے پرہیز کرو اور ان کو کبھی بھی چھوٹا نہیں سمجھو کیونکہ ان کے انجام دینے والے جب تک توبہ نہیں کریں گے بخشے نہیں جائیں گے ۔
امام علیہ السلام کے ایک شاگرد ( زید بن شحام ) کا کہنا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا چھوٹے گناہ سے مراد کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : «الرَّجُلُ يُذْنِبُ الذَّنْبَ فَيَقُولُ طُوبَى لِي لَوْ لَمْ يَكُنْ لِي غَيْرُ ذَلِكَ
; ایک شخص گناہ انجام دیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے کہ میرا صرف اسی کے علاوہ کوئی اور گناہ نہیں ہے ۔
اور اسی طرح سے امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام اپنے شاگردوں اور مسلمانوں کو حساب و کتاب سمجھانے کے لئے ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ کسی سفرپر گئے اور جب ایک صحرا میں ٹہرنے لگے تو پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا جاکر کوئی لکڑیاں جمع کرو تاکہ کھانے کا بندوبست کریں تو اصحاب نے کہا یا رسول اللہ اس بیابان میں کہاں سے لکڑی آئے گی ؟ تو پیغمبر نے کہا جو ملے وہ لیکر آو تو اصحاب چلے گئے اور لکڑیاں لیکر آئے ان سب کو جمع کیا تو لکڑیوں کا ایک ڈھیر بن گیا تو پبغمبر نے اصحاب کو کہا «هَكَذَا تَجْتَمِعُ الذُّنُوب
; انسان کے گناہ بھی اسی طرح سے جمع ہو جائیں گے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ایسی چھوٹے چھوٹے گناہ جو آپ کی نظر میں بہت ہی حقیر اور چھوٹے ہیں ان سے بچو ! چونکہ ان چھوٹے گناہوں کا بھی حساب ہے اور جب یہ جمع ہونگے تو گناہوں کا ایک ڈھیر بن جائے گا ۔
کسی اور روایت میں صفوان کہتا ہے کہ عبد اللہ بن حسن ( یعنی امام حسن مجتبی کا پوتا اور امام صادق کے درمیان کسی سیاسی بحث پر اختلاف پیدا ہوا اور بہت سارے لوگ جمع ہوگئے ۔ لوگوں کے مجمع میں ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں اسی طرح سے رات ہوگی تو ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور گھروں کو چلے گئے۔ اگلے دن صبح کو میں جلدی گھر سے نکلا راستے میں امام صادق کو عبد اللہ کے گھر کے دروازے پر دیکھا جو عبداللہ کی کنیز سے کہہ رہا تھا کہ جاکر عبداللہ کو بتاؤ کہ میں دروازے پر انتظار کررہا ہوں۔ جب عبداللہ گھر سے نکلا تو امام کو غمگین حالت میں دیکھ کر پوچھنے لگا کہ آپ اتنے غمگین کیوں ہیں ؟ تو امام صادق علیہ السلام نے کہا کل کی اس بحث میں جب اختلاف ہوا تو رات کو گھر جاکر جب قرآن کی یہ آیت(
وَ الَّذينَ يَصِلُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ يَخافُونَ سُوءَ الْحِساب
)
)
پڑ ھ کر میں بہت ہی متاثر ہوا گویا کہ یہ آیت میں نے نہیں پڑھی تھی لذا میں ابھی صلح کرنے آیا ہوں دونو ں ایک دوسرے کو آغوش میں لیکر بہت رونے لگے ۔