تیسری حکمت : نماز قائم کرنا :
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں(
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ
)
؛اے بیٹے نماز کو قائم کرو
پہلی والی دونوں نصیحتیں خدا شناسی اور معاد و حساب و کتاب کے بارے میں تھیں ۔ حضرت لقمان نے دین کے بنیادی اصول یعنی خدا شناسی و معاد اور قیامت کے دن حساب و کتا ب ہونے کے بارے میں بیان کیا پھر اس کے بعد اب اس دین کی فرع یعنی نماز کو قائم کرنے کے بارے میں نصیحت کرتا ہے فقط نماز کو انجام دینے کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے قائم و دائم رکھنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ یہ دن رات کی جو نماز ہے وہ خالق حقیقی سے ملنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے ۔
خدا شناسی انسان کو قیامت اور روز جزاء (مالک یوم الدین )کی یاد دلاتی ہے اور روزانہ کی یہ تمرین انسان کو صراط مستقیم اور حساب و کتاب کی یاد دلاتی ہے ۔
نماز کے بارے میں مختلف مسائل بیان ہوئے ہیں جو بحث کرنے کے قابل ہیں لیکن ان میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جو حضرت لقمان نے بیان کیا ہے وہ اس نماز کو قائم کرنا ہے ۔
اقامہ اصل میں قیام کے مادہ سے لیا گیا ہے جو اس مطلب کو بیان کرتا ہے کہ نماز کو طوطی کی طرح نہیں رٹے بلکہ اس کو بطور عبادت انجام دے اور ان الفاظ کےمفہوم کو روح وروان کے ساتھ ہماہنگ کرے اور نماز کے اس پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھے ۔
مناسب یہی ہے کہ ہم یہاں پر نماز کے بارے میں تین اہم مطالب کو بیان کریں ۔
۱۔ نماز کی اہمیت :
نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دین اسلام میں مختلف تعبیروں کے ساتھ اس کا معنی بیان ہوا ہے ۔
کبھی نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّي
ننماز دین کا ستون ہے
اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے (الصَّلَاةُ عَمُودُ الدِّين
نماز دین کی پناہ گاہ ہے
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ«يا بُنَيَ أَقِمِ الصَّلاةَ فَإِنَّمَا مَثَلُهَا فِي دِينِ اللَّهِ كَمَثَلِ عُمُدِ فُسْطَاط
؛ اے بیٹے نماز کو قائم کرو چونکہ دین اسلام میں نماز خیمے کےستون کی مانند ہے اس خیمے کا ستون جب تک استوار اور مضبوط رہے گا تب تک خیمہ سالم رہے گا لیکن اگر اس خیمے کا ستون ٹوٹ جائے تو پھر خیمہ گر جائے گا اور اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی
اسی طرح سے کبھی اس نماز کو بہترین عمل قرار دیا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ : «مَا أَعْلَمُ شَيْئاً بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ أَفْضَلَ مِنْ هذِهِ الصَّلَاةِ
؛ میں نے خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے بعد نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں دیکھا ہے
اس نماز کا ایک مخصوص وقت ہے جو خدا وند عالم کی طرف سے معین ہے اسی کو ایک بہترین موضوع قرار دیا ہے جیسا کہ روایت میں آیا ہے ابو ذر نے پیغمبر اسلام سے پوچھا نماز کیا چیز ہے ؟ تو پیغمبر اسلام نے فرمایا نماز بہترین موضوع ہے
اسی طرح سے کبھی اس نماز کو اسلام کا چہرہ قرار دیا ہے جیسا کہ پیغمبر کا فرمان ہے (لْيَكُنْ أَكْثَرُ هَمِّكَ الصَّلَاةَ فَإِنَّهَا رَأْسُ الْإِسْلَامِ
.
آپ کی تمام ہمت اور اہتمام اس نماز کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ نماز دین اسلام کا سر ہے
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہوتا ہے اور دین اسلام کا چہرہ نماز ہے ۔
اور روایات اسلامی میں معصومین کی زبان سے دوسری تعبیر ات بھی بیان ہوئیں ہیں جیسا کہ فرمایا نماز مومن کی معراج ہے نماز خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ ہے نماز خدا کی خوشنودی کا باعث ہے اور نماز خیر العمل یعنی ایک بہترین عمل ہے۔ نماز پیغمبر اسلام کے آنکھوں کا نور ہے ۔ نماز انسان کی تمام آلودگیوں کو پاک کرنے کی ایک نہر ہے۔ نماز گناہوں کا کفارہ ہے اور انسان کے تمام اعمال کی قبولیت اسی نماز پر موقوف ہے اور نماز وہ سب سے پہلا کام ہے کہ جس کے بارے میں قیامت کے دن پہلا سوال ہو گا
اور اس نماز کی اہمیت کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ ایک عبادی امر ہے جو انسان کی خلقت کی ابتداء سے ہی تھا اور ابھی تک باقی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پہلے سے ہی موجود تھی لیکن ہر زمانہ کے اعتبار سے مختلف تھی ۔ حضرت ابراہیم جوکہ توحید کا فاتح شمار ہوتا ہے جب اسماعیل اور ہاجر کو اس غیر آباد صحراء میں چھوڑ آیا تو اپنی دعاؤں میں اس طرح سے فرمایا اے خدا میں اپنی اولاد کو اس غیر آباد صحراء میں کہ جہاں پر آپ کا حرم ہے چھوڑ رہاہو ں (لِيُقِيمُوا الصَّلاة؛
تاکہ قائم کریں
۔
کسی اور مورد میں جب خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے کی حالت میں اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا تو بارگاہ الہی میں شکر گزاری کرتے ہوئے اس طرح سے دعا کی «رَبِ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي
؛خدایا مجھے اور میرے اولاد کو نماز قائم کرنے والوں میں سے قرار دے دیں ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحہر کیا کہ حضرت ابراہیم اپنی تمام چاہتوں سے پہلے نماز کو قائم کرنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں ۔ اور خدا وند عالم نے حضرت اسماعیل کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا : «(
وَ كانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاة
)
؛ حضرت اسماعیل اپنے خانوادے کو نماز قائم کرنے کا حکم دیتا تھا ۔
اور حضرت عیسی علیہ السلام جب گہوارہ میں باتیں کرنے لگے تو اپنی نبوت اور عبودیت کا اعلان کرنے کے بعد اس نماز کو قائم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا : « «(
وَ أَوْصانِي بِالصَّلاة
)
؛ خداوند عالم نے مجھے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ نماز بااہمیت ترین حکم ہے جو خدا وند عالم نے انسان کو عطا کیا ہے اور یہ بلدک ترین اطاعت الہی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا«ُإِنَ طَاعَةَ اللَّهِ خِدْمَتُهُ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ شَيْءٌ مِنْ خِدْمَتِهِ تَعْدِلُ الصَّلَاة
؛ اطاعت الہی میں یعنی زمین پر خدا کی خدمت کرنا اور کوئی بھی خدمت نماز کے برابر نہیں ہوسکتی ۔
اور جالب بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی اس نورانی زندگی اور اس کی سیرت میں ملتا ہے کہ ہجرت کے نویں سال طائفہ (طی ) قبیلہ طائف کی نمائندگی میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور مذاکرہ کے بعد وہ اس شرط پر تسلیم ہونے کو قبول کیا کہ ان سے نماز کا حکم ہٹادیا جائے لیکن پیغمبر اسلام نے بہت ہی سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ «ُ لَا خَيْرَ فِي دِين لَا صَلَاة معه؛ ایسا دین کہ جس میں نماز نہ ہو اس میں خیر و برکت نہیں ہے
اور یہی بات نماز کی عظمت اور پیغمبر اسلام کی نگاہ میں نماز کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ۔
۲۔ نماز کے آثار اور اسکا فلسفہ :
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اہم چیز نماز کو قائم کرنا ہے اور یہ تعبیر اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ نماز ہمیشہ قائم ہونی چاہیے اور انسان کااجتماعی اور فردی طور پر یہی انگیزہ ہونا چاہیے ایسی نماز کہ جس کو خداوند متعال مقبول اورحقیقی نماز جانتا ہے ۔ ایسی نماز کی اہمیت اسوقت ہے کہ جب یہی نماز دین کا حقیقی ستون بن جائے اور ملکوت اعلی میں مومن کی معراج بن جائے تو ایسی نماز اپنے تمام شرائط کے ساتھ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر ایک نماز کامل کو اس کے آثار میں ڈھونڈنا چاہیے اور اس کے آداب اور اسرار کے بارے میں جان لینا چاہیے اور اسے اپیک زندگی میں ان کا اظہار کرنا چاہیے ۔
نماز کا مقصد اور ہدف صرف اس کا خاکہ اور ڈھانچہ ہی نہیں بلکہ اس کا روح اور باطن ہونا چاہیے نماز میں ظاہری رکوع اور سجود پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جو اس نماز کا ظاہری جلد شمار ہوتا ہے حقیقت میں اس کا مغز اور باطن حقیقی نماز شمار ہوتا ہے ۔
جب ہم قرآن مجید اور روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس نماز سے مربوط آیات اور روایات کو دیکھتے ہیں کہ جن میں اس نماز کے اسرار اور اس کے فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ نماز اسی فلسفہ اور انہی رازوں کیوجہ سے کامل ہوئی ہے جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ فرمایا : ((
أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ
)
..؛ اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ۔
کسی اور آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ((
و أَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ لذكري
)
؛اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔
بنا بر این نماز کا اصل راز انسان کا اپنے روح و روان سے خدا وند عالم کو یاد کرنا ہے اور یہی خدا کی یاد انسان کا خدا سے رابطہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور انسان کی اصلاح اور کمال تک پہنچنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی نماز انسان کو برائیوں سے روکتی ہے اور تمام پریشانیوں کو دور کرکے انسان کو آرامش اور سکون کا سبب بنتی ہے اور حقیقت میں خدا کی یاد انسان کی خود سازی کا باعث بنتی ہے ۔
قرآن کی نظر میں غافل انسان خسارے میں ہیں اور ایسے شخص کی عاقبت یہ ہے کہ اس کی زندگی بہت ہی سخت اور ناگوار گزرے گی اور آخرت میں بھی وہ نابینا ہو گاجیسا کہ قرآن فرمارہا ہے ۔ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ذکر خدا سے تمہیں غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔
نماز جو کہ خدا کی یاد کرنے کا باعث ہے وہ انسان کی زندگی میں برے آثار کو پاک کرتی ہے اور اس کے خسارے میں ہونے کے بدلے میں خوشبخت اور بینا بنادیتی ہے ۔
انسان کے اندر موجود غرائز میں میں سے ایک غریزہ حرص اور لالچ ہے جو تمام گناہوں اور فسادوں کی جڑ ہیں لیکن نماز میں ایسی خاصیت ہے کہ انسان کے اندر موجود وہ بری صفت حرص اور بے تابی اور لالچ کو نابود کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے کہ انسان ھلوع اور حریص خلق ہوا ہے انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ، سوائے نمازگزاروں کے ، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں،
اور جن کے اموال میں معین حق ہے ۔
محمد بن سنان کہہ رہا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے نماز کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نماز کے فلسفہ اور اس کے آثار کے بارے میں فرمایا : نماز پڑھنے کی علت یہ ہے کہ آپ ۔
۱۔ خدا کی ربوبیت کا اقرار کرے ۔
۲۔ خدا کی ذات میں کسی کو شریک قرار نہیں دے ۔
۳۔ خدا کی بارگاہ میں اس کے سامنے تواضع اور انکساری کے ساتھ کھڑا ہونا ۔
۴۔ اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور بخشش کا تقاضا کرے ۔
۵۔ اور ہر دن خدا کی تعظیم کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دے ۔
۶۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اس طریقے سے کہ تمہارے اندر سے غرور مستی اور غفلت وغیرہ ختم ہو جائے ۔
۷۔ ہمیشہ خدا کو یاد کرنا چونکہ نماز خدا کو نہ بھولنے کا باعث بنتی ہے یہی یاد خدا ہے کہ جو انسان کو غرور اور تکبر سے روک دیتی ہے اور تمام گناہوں اور ہر قسم کے فساد سے روک دیتی ہے ۔
انہی آثار کی طرف توجہ دیتے ہوئے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں « الصَّلَاةُ حِصْنٌ مِنْ سَطَوَاتِ الشَّيْطَان؛نماز شیطان کے حملوں کے مقابل میں ایک مضبوط قلعہ ہے ۔
عالم ربانی شیخ عبد اللہ شوشتری ( متوفی ۱۰۲۱) جو علامہ مجلسی کے زمانے کے مشہور ترین عالم شمار ہوتے تھے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد میں داخل ہوئے اس کا بیٹا کسی سخت بیماری میں مبتلا تھا اسی لئے وہ بہت ہی پریشان تھے نماز جمعہ پڑھانے میں مشغول ہوئے جب وہ نماز کی دوسری رکعت میں سورہ منافقوں کی اس آیت ۹ «(
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوالُكُمْ وَ لا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّه
)
؛ کو پڑھنے لگا تو اس کو بار بار تکرار کرنے لگا ( اگر چہ وقت کے ہوتے ہوئے نماز میں آیات کو تکرار کرنا جائز ہے ) پھر بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بعض لوگوں نے اس تکرار کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے میرا بیٹا کسی بیماری کی وجہ سے بسترے میں ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی تو اپنے بیٹے کی یاد آگئی تو میں نے اس آیت کو باربار تکرار کیا تاکہ اپنے نفس پر کنٹرول کرسکوں جس طرح سے یہ آیت خدا کو یاد کرنے کا کہہ رہی ہے میں نے دوسروں کو اپنے دل سے نکال دیا اور یہ فرض کرنے لگا کہ میرا بیٹا مر گیا ہے اور اس کا جنازہ میرے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور میں خدا سے غافل نہیں ہوا ایسا وقت تھا کہ پھر میں نے آیت کو تکرار نہیں کیا
۳۔ نماز کے قبول ہونے اور اس کے اسرار میں تامل :
تمام عبادات میں سے اہم ترین مسائل کہ جن کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہیں جیسا کہ نماز ہے جس میں اہم ترین مسئلہ اس کا قبول ہونا ہے اور نماز کا قبول ہونا اس کی کامل ترین شرائط میں سے شمار ہوتا ہے اور نماز کا قبول ہونا بھی اس کے اثر پر موقوف ہے جو انسان کی پاکسازی میں دخالت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے «(
إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقين
)
؛ اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔
یعنی گناہ آلود اعمال کبھی بھی قبول نہیں ہوتے ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام اپنے کسی کلام میں فرماتے ہیں انسان کی زندگی کبھی پچاس سال سے بھی گزر جاتی ہے لیکن خدا وند عالم اس کی ایک نماز کو بھی قبول نہیں کرتا ہے پس اس سے بڑھ کر اور سخت چیز کیا ہو گی ؟ پھر اس کے بعد فرمایا «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَقْبَلُ إِلَّا الْحَسَنَ فَكَيْفَ يَقْبَلُ مَا يُسْتَخَفُّ بِه
؛ اعمال نیک اور شائستہ کے علاوہ کوئی عمل قبول نہیں پس حقیر اور ہلکا سمجھ کر انجام دیا جانے والا عمل کیسے قبول ہوگا
ممکن ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ ہم کہاں سے جان لیں کہ ہماری نماز یں قبول ہوئیں ہیں یا نہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنی پاکسازی میں اس نماز کی تاثیر کیطرف متوجہ رہے جس انداز اور مقدار کے مطابق اس پر اثر ہوا ہے اسی اندازے کے مطابق اس کی نماز قبول ہوئی ہے ۔ اسی لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں اس کی نما ز قبول ہوئی ہے یانہیں ؟ تو اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس کی نمازیں ان برے کام انجام دینے سے اور گناہوں سے روک رہی ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کو روکا ہے تو پھر اس کی نماریں قبول ہوئیں ہیں ۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور نمازوں کے قبول ہونے کے بارے میں فکر کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ساری کوششیں نابود ہو جائیں گی مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بہت زیادہ پیسہ خرچ کرکے ایک بہت بڑا خربوزہ خرید ے تو اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خربوزہ سرخ اور میٹھا ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا سارا خرچ کیا ہوا پیسہ بے مقصد اور فضول ہوا ۔
نماز کے قبول ہونے میں حضور قلب اور خشوع کا کردار :
پوچھا جاتا ہے کہ ہم کیا کریں کہ ہماری نمازیں خدا کی درگاہ میں قبول ہو جائیں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے صحیح ہونے والی شرائط کی اس نماز میں رعایت کرنی چاہیے اور اسی طرح سے اس نماز کو کمال تک پہنچانے والی شرائط کو بھی لحاظ رکھیں جو درجہ ذیل ہیں ۔
۱ ۔ ولایت ۔ ۲۔ خشوع اور حضور قلب ۔ ۳۔ نماز کے بارے میں تفکر ۔ ۴۔ کسی مقدس جگہ پر نماز پڑھنا ۔ ۵۔ نماز کی سجدہ گاہ اگر تربت امام حسین علیہ السلام کی ہو تو بہت ہی اثر رکیتج ہے ۔ ۶۔ اول وقت میں پڑھنا ۔ ۷۔نماز میں خوف الہی سے گریہ کرنا ۔ ۸۔ آداب نماز کی رعایت کرنا ۔ ۹۔ ذکر خدا کی مٹھاس کو حاصل کرنا ۔ ۱۰۔ کسی بھی قسم کے گناہ کو انجام نہ دینے کا ارادہ رکھنا ۔۱۱ ۔ اپنے دل کو ہر قسم کی ریا کاری اور ناخالص چیز سے پاک کرنا ۔۱۲۔ دنیا سے تعلق ختم کرکے خدا سے لو لگانا ۔
ان تمام شرائط میں سے خشوع اور حضور قلب کا ہونا بہت ہی زیادہ اہمیت کا متحمل ہے اگرچہ دوسری شرائط حضور قلب اور خشوع کو تقویت دیتی ہیں لیکن اہم چیز کونسی ہے کہ جس سے ہم خشوع اور حضور قلب پیدا کریں ؟
فیض کاشانی یہاں پر ایک اچھی مثال دیتے ہیں اگر مرد یا عورت میں سے کوئی میٹھی چیز کھالیں اور اس کے منہ میں مٹھاس باقی رہ جائے تو وہ منہ دھوئے بغیر نماز پڑھنا شروع کریں تو اسی حالت میں ایک مکھی اس کے منہ کی اس مٹھاس کی طرف باربار آرہی ہے لیکن وہ اپنے ہاتھ سے یا سر ہلاتے ہوئے اس کو بھگانے کی کوشش کرتا ہے ۔
عربی لغت میں مکھی کو ذباب کہا جاتا ہے جو دو کلمہ (ذب اور آب ) سے مل کر بنا ہے یعنی اس کو رد کیا لیکن وہ واپس آگئی ۔ اور یہ مکھی کی خاصیت ہے کہ اس کو جتنا بگانے کی کوش کرو اتنا ہی حریص ہو جاتی ہے اور اپنے ساتھ اور مکھیوں کو بھی لیکر آتی ہے تو پھر یہ بندہ اپنی پوری نماز میں مکھیاں مارنے میں مشغول رہا پھر فرماتے ہیں کہ یہ کونسی اور کیسی نماز ہوگئی کہ نماز کا پورا وقت مکھیاں مارتے ہوئے نکل جائے ۔ اس کو یہ بتایا جائے کہ یہ مکھیاں اس دنیا میں آپ کے تعلقات ہیں اور آپ کے منہ کی وہ مٹھاس اس دنیا سے آپکی محبت اور طمع ہے ۔ آپ نے نماز سے پہلے کیوں اپنی منہ کو نہیں دھویا تاکہ وہ دنیا کے تعلقات آپ کا پیچھا کرنا ہی چھوڑ دیتے اور جس کے نتیجے میں آپ حضور قلب اور خشوع کے ساتھ نماز پڑھ سکیں ۔
اسی بنا پر اگر نماز پڑھنے والا اپنے آپ کو اس دنیا کی مادیات سے خالی کرے تو نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لئے ایک بہترین راستہ فرماہم ہوگا اگرچہ حضور قلب کی حفاظت کرنا اس صفت کی بقا کے لئے بہت ہی اہم اور مؤثر ہے ابتداء میں آپ کچھ نمازوں کو حضور قلب کے ساتھ پڑھےق اور آہستہ آہستہ اسی کی مراقبت کرتے جائے اور اسی کو جاری رکھیں تو انشااللہ کامیاب ہوں گے ۔
حضور قلب کے بغیر پڑھی جانے والی نماز جماعت سے امام زمانہ کی بے اعتنائی :
حضور قلب کے بارے میں آپ کی نظروں کو اس قصے کی طرف مبذول کرائیں گے جو امام زمانہ عجل اللہ سے منسوب ہے
آیت اللہ شیخ جعفر نجفی جوکہ بہت بڑے عالم دین تھے اور تقوی و پرہیزگاری میں بھی معروف و مشہور تھے جیسا کہ سید مرتضی نجفی کا کہنا ہے کہ میں کئی سالوں سے شیخ جعفر کے ساتھ رہتا ہوں اور ہر وقت چاہے سفر ہو غیر سفر ہو میں اس کے ساتھ زندگی کزار رہا ہوں لیکن دین کے معاملے میں کبھی بھی اس کو کسی لغزش کا شکار ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور یہ عالم شیخ جعفرنجفی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ہم کوفہ کی مسجد میں نماز جماعت میں تھے۔ حوزہ نجف کا ایک بہت بڑا عالم جوکہ لوگوں کے درمیان بہت احترام سے مشہور تھے وہا ں پر موجود تھے جب نماز کا وقت ہوا تو وہ نماز پڑھانے کے لئے محراب میں گیا اور نماز جماعت پڑھانے کی تیاری کرنے لگا ۔ مؤذن آذان دے رہے تھے ۔بعض لوگ نماز کی وضو کرنے میں مشغول تھے اور بعض لوگ وضو کرکے نماز کے لائن میں کھڑے تھے تاکہ نماز شروع ہوجائے مسجد کوفہ کے صحن میں ہانی بن عروہ کے مرقد کے کنارے میں ایک چھوٹا سا نہر تھا جس میں تھوڑا سا پانی جاری تھا ۔ اسی نہر کی ایک جگہ پر تھوڑا سا گڑا تھا جس میں پانی جمع ہوا تھا جو صرف ایک بندے کے وضو کرنے کی جگہ تھی۔ جب میں وضو کرنے وہاں پر گیا تو دیکھا کہ ایک نورانی شخص وہاں پر بہت ہی اطمئنان کے ساتھ وضو کررہیں ہے میں جماعت میں حاضرہونے کے خاطر جلدی میں تھا تاکہ وہ جلدی وضو کرکے ہٹ جائیں اور مجھے وضو کرنے کا موقع ملے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ وہاں سے ہلتے ہی نہیں ! گویا وہ نماز جماعت میں حاضر ہونے کا قصد نہیں رکھتے ہیں ؟ بالاآخرہ میں نے اس کو کہا کیا آپ نماز جماعت میں شرکت نہیں کرنا چاہتے ؟ تو اس نے فرمایا نہیں ! تو میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں شرکت نہیں کرتے ؟ تو انہوں نے کہا «لانه الشيخ الدخينى؛ اس لئے کہ وہ شیخ جو امام جماعت بنا ہے وہ شیخ ارذنی ہے (یعنی ارزن کی کاشت کرتا ہے ۔ ارزن ایک چھوٹی قسم کا اناج ہے جس کے دانے ساگو دانے سے مشابہ ہے جو اکثر پالتو پرندوں کو کھلایا جاتا ہے ) میں نے تعجب کیا اور ان کی باتوں کو نہیں سمجھا اس کا مقصد کیا ہے ؟ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر چلے گئے پھر اس کے بعد میں نے اس کو نہیں دیکھا میں جلدی سے وضو کرکے نماز جماعت میں شرکت کی اور نماز کے ختم ہونے کے بعد جب سارے لوگ چلے گئے تو میں امام جماعت کے پاس جاکر وہ سارا قصہ بیان کیا تو میری وہ باتیں سن کر اس کا رنگ تغیر ہوا اور غمگین ہونے لگا اور پھر مجھے کہنے لگا کہ آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے لیکن اس کو نہیں پہچانا ہے ؟چونکہ اس نے ایک ایسی چیز کے بارے میں خبر دی ہے کہ جو صرف خدا کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہے۔ جان لو کہ میں نے اس سال کوفہ کے اطراف کسی زمین میں ارذن کے دانے کاشت کئے ہیں لیکن وہاں پر لوگوں کی رفت وآمد کی وجہ سے وہ کھیت خطرے میں ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ زراعت اور کاشت نابود ہوجائے جب میں ابھی نماز میں مشغول ہوا تو اسی ارذن کی کاشت کے بارے میں یاد آیا کہ اس کا کیا بنے گا ؟
میں ظاہرا نماز پڑھ رہا تھا اور باطن میں میری تمام سوچ اور فکر اس مزرعہ کی طرف تھی اسی وجہ سے امام نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ میں اس بندے کے پیچھے جو حضور قلب نہیں رکھتا نماز نہیں پڑھتا ہوں ۔
چوتھی اور پانچویں حکمت :
امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر :
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ((
وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر
)
. اے بیٹے امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کرو ۔
یہ حکمت بہت ہی اہم اور ضروری ہے اس کی وضاحت کرنے کے لئے درجہ ذیل مطالب کو بیان کریں گے ۔
معروف اور منکر کا معنی اور ان کے اقسام و مراحل:
معروف ہر نیک کام کو کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے انجام دینے والے کو ہمیشہ اسی صفت کے ساتھ ہی پہچان لیں ۔ اور بعض نے معروف کا معنی پہچانا ہوا لیا ہے چونکہ انسان کی پاک فطرت اسی سے آشنا ہے اور اس کا مخالف منکر ہے جو نہیں پہچاننے کے معنی میں ہے معروف اور نیکی کو پہچاننے کا بہترین طریقہ دین مقدس اسلام کی طرف رجوع کرناہے جو عقل خارجی شمار ہوتا ہے اور انسان کے اندر عقل اس کا باطنی شرع شمار ہوتا ہے ۔
بنابر این ہر وہ چیز کہ جس کا شارع مقدس اسلام نے حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو اس حکم کے انجام دینے کی ترغیب دی ہے وہی معروف ہے۔ اس حساب سے ہم معروف کو پہچاننے کے لئے دین اسلام کے دستور واجب اور مستحب ہونے کی رجوع کریں گے اور اس نیکی کو دین کی نظر سے حاصل کریں گے ۔
قرآن مجید اور روایات میں اس کے لئے ہزاروں مصداق ذکر ہو ئے ہیں جیسا ایمان ۔تلاوت قرآن۔تفکر ۔ توکل ۔ اور خدا پر اعتماد۔ صبر و تحمل ۔ پرہیز گاری ۔ خدا اور اس کے رسول کی پیروی ۔ نیک کاموں کی طرف جلدی کرنا ۔ انفاق اور عفو و درگزر ۔ احسان و نیکی ۔ توبہ ۔ جہاد ۔ شہادت ۔ عدالت ۔ شکر خدا ۔ دعا ۔ استقامت ۔ برد باری ۔ خوش اخلاقی ۔ قرآن مجید کی تعلیم ۔ حق بات کرنا اور مشکلات کو تحمل کرنا ۔ نماز ۔ روزہ ۔ حج ۔ صدقہ ۔ سچائی ۔ امانت داری ۔ وعدہ کی وفا کرنا ۔عفت ۔ شجاعت ۔ سخاوت اور عمل صالح ۔ دین کی مدد کرنا ۔ دعا و مناجات اور خدا کی رضا پر خوشنود ہونا اور حق کو آشکار کرنا اور قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا اور قیامت کو یاد کرنا وغیرہ ۔۔۔
اور منکر کااصل معنی برا کام ہے جو وہی حرام اور مکروہ ہے جو فطرت کے اعتبار سے ناشناختہ اور عجیب و غریب ہے ۔
بنا بر این نہی عن المنکر دو قسم کا ہیں
امر بالمعروف واجب : جو واجبات کے مقابل میں ہے ۔
اور امر بالمعروف مستحب : جو مستحبات کے مقابل میں ہے ۔
اس کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں عقلی اور شرعی اعتبار سے جو چیز واجب ہے اس کی طرف امر کرناہے اور جو چیز عقل کے اعتبار سے بری ہے اور شرع مقدس میں حرام ہے اس سے نہی کرنا واجب ہے اور جو چیز مستحب ہے اس کے بارے میں امر کرنا مستحب ہے اور جو چیز مکروہ ہے اس کے بارے میں نہی کرنا مستحب ہے ۔
منکر کے مصادیق بہت ہی زیادہ ہیں جیسا کہ کفر ۔قتل نفس ۔ جہالت اور نادانی ۔ نااہل لوگوں سے دوستی کرنا ۔ ارادہ کا ضعیف ہونا گناہوں کو تکرار کرنا ۔ ظلم وستم ۔ اور کافروں کی اطاعت کرنا ۔ مؤمنین کے ساتھ لڑائی جھکڑا کرنا ۔ ظلم پر راضی ہونا اور حق بات کو چھپانا ۔ جھوٹ ۔ خیانت ۔ غیبت ۔ تہمت ۔ باطل راستے پر انقاق کرنا ۔ فتنہ ۔ بدعت ۔ حسد ۔ تکبر ۔ لالچ اور طمع ۔ قطع رحم اور والدین کے ساتھ بے احترامی کرنا ۔ قرآن میں تدبر نہ کرنا اور پیغمبر اسلام کے ساتھ مخالفت کرنا وغیرہ ۔۔۔۔
شرعی دلائل قرآن سنت اجماع اور عقل کے اعتبار سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کے چہار شرائط ہیں۔
۱۔ معروف اور منکر کو جاننا کہ کیا یہ شرع کی نظر میں نیک اور پسندیدہ ہے یا نہیں ؟
۲۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تاثرم کا احتمال ہو ۔
۳۔ طرف مقابل معروف کو ترک کرنے اور گناہ کو انجام دینے میں مصر ہو ۔
۴۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کوئی جانی نقصان اور ضرر نہ ہو ، چاہیے امر کرنے والا ہو یا کوئی مؤمن ہو ان کو نقصان اور کوئی ضرر نہ پہنچنے لیکن ایسے موارد میں کہ جہاں اسلام کو کوئی خطرہ پیش آجائے تو وہاں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہو جاتاہے اگر چہ ایسا کرنے میں جان کے لئے ہی خطرہ کیوں نہ ہو ! جیسا کہ امام حسین علیہ السلام امر بالمعروف کرتے ہوئے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے اور اپنی جان قربان کردی اور ان کے اہل بیت اسیر ہوگئے ۔
اور دوسرا اہم مسئلہ جو کہ فقہی کتابوں میں بیان ہوا ہے وہ اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کے بارے میں ہے کہ جنکو جاننے کی بہت ہی ضرورت ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دل سے ہونا چاہیے پھر زبان پر اور پھر عمل کے ذریعے سے ہونا چاہیے۔ ان میں سے ہر کسی کے لئے مختلف درجے ہیں اور ہدف و مقصد جب پہلے درجے سے حاصل ہو جائے تو دوسر ے درجے کی باری ہی نہیں آتی ہے ۔ اسی لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے جیسے نرمی ۔ خشونت ۔ استدلال ۔ اور مجادلہ اور دوسروں کے ساتھ برخورد کیسا ہونا چاہیے ۔۔
لہذا انہی چیزوں کو جاننا چاہیے کہ اثر کرنے والی چیزیں کونسی ہیں اور اس کا طریقہ کیسا ہے اور انہی طریقوں کو پہچان کر پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے تاکہ اچھا نتیجہ حاصل ہو ۔
قرآن کی آیات اور روایات کی طرف ایک نگاہ :
اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انسان اور معاشرے کی پاک سازی میں ایک خاص اہمیت کے متحمل ہیں قرآن مجید جو کہ انسان سازی کی ایک کامل کتاب ہے وہ اس چیز کو بہت ہی اہمیت دی ہے اور اپنی پیروی کرنے والوں کو ان دو فریضوں کی طرف دعوت دیتی ہے۔ قرآن مجیدکبھی اس امر کی طرف تشویق دلاتی ہے اور اس امر کے ترک کرنے کے برے عواقب کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کبھی شرائط کے موجود ہوتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیتی ہے اور اس کو مؤمن کی خصوصیات میں سے شمار کرتی ہے ۔
قرآن مجید میں تقریبا دس سے زیادہ ایسے مقامات ہیں کہ جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ذکر ہوا ہے
اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ یہ اہم فریضے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نماز کی طرح ہر انسان پر واجب ہیں چاہے مرد ہو یا عورت ہو ان میں کوئی فرق نہیں بلکہ سب پر واجب ہیں ۔
اور روایات اسلامی میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاص اہمیت بیان ہوئی ہے اور اس کو خداوند عالم کی طرف سے اہم ترین حکم اور دستور فرض کیا گیا ہے ان روایتوں کو ہم پانچ گروہ میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے کو بیان کرتی ہیں ۔
وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کرنے والے کو خبر دار کرتی ہیں ۔
وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ۔
وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کو بیان کرتی ہیں ۔
وہ روایات جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آثار کو بیان کرتی ہیں ۔
یہاں پر ان پانچ گروہوں میں سے ہر کسی کے لئے کئی روایات ذکر ہوئی ہیں لیکن ہم ان میں سے ایک روایت کو ذکر کریں گے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے :« وَيْلٌ لِقَوْمٍ لَا يَدِينُونَ اللَّهَ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
;
افسوس ہے ایسی قوم پر جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی دین کا روش اور شعار قرار نہیں دیتے اور اس پر اعتقاد رکھنے میں خدا کو قبول نہیں کرتے ہیں
امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے «فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ يَلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِيَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ إِلَّا لِتَرْكِهِمُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكر;
خداوند متعال نے گزشتہ لوگوں کو اپنی رحمت سے دور نہیں کیا مگر یہ کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا۔
کسی اور مقام پر امام نے فرمایا : «وَ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَ إِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ
..; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدا وند متعال کی صفات میں سے ہیں یہ نہ ہی انسان کی موت کو نزدیک کرتیں ہیں اور نہ ہی ان سے رزق میں کمی آتی ہے ۔
کسی اور عبارت میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہاتھ ( عمل ) زبان اور دل سے منکرات کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہوں نے اپنے اندر تمام خصلتوں کو جمع کیا ہوا ہے ۔
اور ایک گروہ ایسا ہیں جو صرف اپنی زبان اور دل سے نہی عن المنکر کرتے ہیں انہوں نے دو نیک خصلتوں کو اپنایا ہے اور ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔ اور ایک گروہ ایسا ہے جو صرف اپنے دل سے مقابلہ کرتے ہیں اور عمل اور زبان کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور صرف ایک ہی خصلت کو اپنایا ہے ۔ اور ایک ایسا گروہ بھی ہے کہ جنہوں نے ان تین خصلتوں میں سے کسی سے بھی تمسک نہیں کیا ہے اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا ہے «فَذَلِكَ مَيِّتُ الْأَحْيَاء
، یہ لوگ حقیقت میں زندہ لوگوں کے درمیان مردہ شمار ہوتے ہیں پھر فرمایا :
«وَ مَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عِنْدَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّي
; خدا کی راہ میں میں انجام پانے والی تمام نیکیاں اور اچھائیاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک قطرہ کی مانند ہیں جو سمندر کے مقابل میں ہوتا ہے ۔
ان دو فریضہ الہی کے آثارکے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :بِهَا تُقَامُ الْفَرَائِضُ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْرُ
; امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے تمام فرائض اور واجبات انجام پاتے ہیں اور راستوں میں امن و امان بر قرار رہتا ہے اور لوگوں کی تجارت حلال ہو جاتی ہے اور ہر قسم کا ظلم و ستم ختم ہو جاتا ہے زمین آباد ہو جاتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور تمام امور اسی سے انجام پاتے ہیں ۔
نظارت عمومی اور آزادی کا مسئلہ :
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم معاشرے کی اصلاح اور عدالت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک عظیم پروگرام شمار ہوتا ہے ۔
یہ حکم کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اپنی توان اور قدرت کے مطابق ہر کسی پر واجب اور ضروری ہیں ۔
بنا بر این یہ دو فریضے عمومی ہیں جو معاشرے کو غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور معاشرے کی اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ اپنے منزل مقصود تک پہچاتے ہے اور عقل کے اعتبار سے ایسا کرنا ایک نیک اور اچھا کام ہے جس سے کہ ڈ اکٹر مریضوں پر نظارت عمومی رکھتا ہے اور انسان کے مریض نہ ہونے کے لئے مختلف چیزوں کو تجویز کرتا ہے اسی طرح سے معاشرے کو بیماری اور خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ دونوں فریضے بہت ہی اہم ہیں ۔
بعض آزادی کے دعویدار اس لفظ آزادی کو غلط معنی میں لیتے ہوئے آزادی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے درمیان تضاد ہونے کے قائل ہوئیں ہیں کیا واقعا ایسا ہی ہے ؟
تمام تمدنوں اور فرہنگوں میں آزادی کے لئے کوئی خاص حد اور حدود معین ہیں لذا کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ آزادی مطلق کو اجرا کرے آزادی اسوقت تک محترم اور اچھی ہے کہ معاشرہ کے انحراف اور سقوط یا حرج و مرج کا باعث نہ بنیں ۔
عقلی طور پر آزادی یعنی انسان کے تکامل اور رشدمیں جو رکاوٹیں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنا ہے اور اس کے لئے بہترین طریقہ وہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نظارت عمومی ہیں جو کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار کرتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صحیح آزادی کو تقویت دیتے ہیں ۔
پیغمبر اسلام کے زمانے کا ایک ایسا ہی شبھہ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے جواب دیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی مثال اس کشتی کے مانند ہے کہ جس میں سوار افراد اسوقت تک آزاد ہیں جب تک دوسروں کے ہلاک ہونے کا باعث نہ بنیں اور جب کوئی مسافر اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کشتی میں سراخ کرنا چاہے تو دوسرے مسافر اس کو اس کام سے نہی کریں گے اور روک دیں گے تاکہ دوسر ے مسافر غرق نہ ہو جائیں تو ایسا کرنا عقل اور فطرت کے اعتبار سے بہت ہی ضروری اور لازمی ہے اور اگر کوئی اس کے خلاف عمل کرے تو یہ دیوانگی اور خود کشی ہے کیا آزادی انسان کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ خود کشی کرے اور دیوانگی اختیار کرے ؟
اور دوسری مثال یہ ہے کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے اعضاء شمار ہوتے ہیں اگر کسی شخص کے جسم پر کوئی بدبودار پھوڑا نکلے اور ڈاکٹڑ اس پھوڑے کو آپریشن کرکے نکال دے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آزادی کے خلاف کام کیا ہے ؟
جبکہ اس نے دوسرے افراد کو اس پھوڑے کے خطرے سے محفوظ رکھا ہے ۔
قرآن کے دو سؤالوں کے جواب :
قرآن مجید میں کبھی ایسی آیات کی طرف بھی نظر پڑتی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔
۱۔ مثال کے طور پر سورہ مائدہ آیت ۱۰۵ میں ہم پڑھتے ہیں کہ «(
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم
)
; اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا،
اگرچہ یہ آیت ظاہری طور پر اس مطلب کو بیان کرتی ہے کہ ہر کوئی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو اس صورت میں گمراہوں کی طرف سے اس کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اسی لئے دوسروں کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد والی آیات کے طرف توجہ دیتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مورد کافر اور منافقین سے مربوط ہے جبکہ یہ آیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علم نہ ہونے کی بناپر اثر نہ کرنے والی صورت کو بیان کرتی ہے ۔ اس صورت میں یہ دونوں فریضے واجب اور ضروری نہیں ہیں ۔ اور دوسرا یہ کہ آیت یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے بعد اگر کافر اور منافقین قبول نہ کریں تو آپ اپنے کو پاک رکھو تو ان کی گمراہی آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گی ۔
۲۔ اور دوسری آیت یہ کہ بعض شبہہ کرنے والے کہتے ہیں کہ قرآن مجید فرمارہا ہے(
وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
)
..; اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنی جان کی حفاظت کرے اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے لیکن بعض مراحل میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں خطرہ اور ضرر پائے جاتے ہیں لذا ایسی چیزوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرنے چاہییں ؟
اس کا جواب پہلا یہ ہے کہ اس آیت کے شان نزول کی طرف توجہ دینے سے روشن ہوتا ہے کہ یہ آیت راہ خدا میں انقاق کرنے سے مربوط ہے اور اس سے پہلی والی آیات دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بارے میں بیان ہوئیں ہیں اور اس آیت سے مراد اس جہاد کے مقدمات کو فراہم کرنے کےلئے انفاق کرنے کا حکم ہوا ہے اور انفاق نہ کرنے یا انفاق میں اسراف کرنے کرکے خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد ہر چیز میں افراط اور تفریط کرنے سے روکنا ہے ۔
اما ایسی آیات اور روایات جو یہ کہہ رہی ہیں کہ نہیں عن المنکر کرنے کے راستے میں خود کو زحمت اور مشقت میں ڈالیں اور تمام سختیوں کو تحمل کرکے اس فریضہ الہی کو انجام دے دیں اور اسے ترک نہ کریں اور ایسا کرنے میں کوئی ہلاکت نہیں بلکہ اس میں انعام اور پاداش الہی سعادت اور شہادت ہیں کیا شہادت ہلاکت ہے ؟
دوسری عبارت میں مہم اور اہم کا قانون یہ ہیں کہ مہم کو اہم کی خاطر قربان کردے لہذا ایک بڑی منفعت کو حاصل کرنے کی خاطر ایک جزئی ضرر کو تحمل کرنا کبھی بھی ہلاکت شمار نہیں ہوتا ہے ۔ اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے اس واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائیں گے ۔
روایت میں آیا ہے کہ اسلم بن ابی عمران کہہ رہا ہے کہ ہم قسطنطنیہ( جو آج کا استانبول ترکیہ )میں موجود تھے عقبہ بن عامر جو کہ مصر کے لوگوں کے ساتھ موجود تھے اور فضالہ بن عبید جو شام کے لوگوں کے ہمراہ موجود تھے روم سے ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کرنے آئے ہم دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے جلدی سے اپنی لائن میں کھڑے ہوئے اسی دوران مسلمانوں میں سے کوئی اچانک دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوا تو بعض مسلمانوں نے چیخنا شروع کیا کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے جبکہ قرآن مجید نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے تو پیغمبر اسلام کا مشہور اور معروف صحابی ابو ایوب انصاری کھڑ ے ہو کر کہنے لگے اے لوگوں کیا آپ نے اس آیت(
وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
)
...)کی اپنی رائی سے تاویل اور تفسیر کی ہے ۔ جبکہ یہ آیت ہم انصاری گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب خدا وند عالم نے اپنے دین کو فتح اور کامیاب کیا تو دین کے حامی بہت ہی زیادہ ہونے لگے تو ہم میں سے بعض لوگ مخفیانہ طور پر ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنے اموال کو ضایع کیا جبکہ خدا وند عالم نے اپنے دین اسلام کو کامیابی عطا کی جس کی وجہ سے دین اسلام کے چاہنے والے بہت زیادہ ہوگئے اگر ہم اپنے اموال کو اپنے پاس رکھ دیتے تو ابھی اسی سے استفادہ کرتے ۔۔۔ تو اسی وقت میں ہماری ان باتوں کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی « وَ أَنْفِقُوا في سَبيلِ اللَّهِ وَ لا تُلْقُوا بِأَيْديكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة ; اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو،
اس بناپر ہلاکت سے مراد اموال کو اپنے پاس رکھ کر جنگ میں دشمن کے مقابل میں انفاق نہ کرنا ہے ۔
حضرت لقمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مسئلہ :
حضرت لقمان کی زندگی کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا تھا ۔ اس کو لقمان بہت ہی اہمیت دیتا تھا وہ اپنی حکیمانہ باتوں سے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی طرف دعوت دیتا تھا اور منحرف ہونے سے ہمیشہ انکو ہوشیار کرتا تھا اسی لئے ان کی وہ حکیمانہ باتیں قرآن مجید اور اولیاء خدا کے زبان پر ہر نسل میں منتقل ہوتی آئی ہیں اور لوگ ان کی حکیمانہ باتوں سے ہر زمانہ میں آگاہ ہیں ۔ حضرت لقمان بہت ہی زیادہ نصیحتیں کرتے تھے اور بہت ہی نرمی سے باتیں کیا کرتے تھے معنی کو سمجھانے کی خاطر مثالوں کو ذکر کیا کرتے تھے ۔
ہدایت کے مسئلے کو اپنے زوز مرہ کے کاموں میں شامل کیا ہوا تھا اور ہر عصر و زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس فریضہ الہی کو اہمیت دینے کی تاکید کیا کرتے تھے اسی لئے اپنے بیٹے کو اس امر کی سفارش کرتے ہیں ۔
چھٹی حکمت : صبر و استقامت :
اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں ۔(
وَ اصْبِرْ عَلى ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ.
)
)
اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔
تمام آسمانی کتابوں میں اور تمام پیغمبر وں اور ائمہ معصومین کے کلام میں صبرو استقامت کی بہت ہی تاکید ہوئی ہے اس طرح سے صبر و استقامت کو اکسیر اعظم یعنی تمام مشکلات کا حل قرار دیا ہے اور اس کے برعکس عمل کرنے کو سستی اور ضعف اور بدبختی کا باعث قرار دیا ہے ۔ بقول مولانا :
صد هزاران كیمیا حق آفرید
كیمیایی همچو صبر آدم ندید
یعنی خداوند متعال نے ہزار ہا کیمیا پیدا کئے ہیں لیکن صبر آدم کی طرح کوئی کیمیا نہیں ہے ۔
صبرو استقامت ان کلمات میں سے ہیں جو قرآن کریم میں مختلف تعبیروں کے ساتھ تقریبا دوسو مرتبہ ذکر ہوئے ہیں جو کہ اہم ترین مفاہیم میں سے ہیں اور انسان کے تقدیر بدلنے میں اساس اور بنیاد قرار پائے ہیں ۔ خدا وند متعال صابرین پر ہمیشہ دورد و سلام بھیجتا ہے اور انکو ہدایت پانے والوں میں سے قرار دیا ہے۔
اور خداوند متعال صابرین کی جزاء اور انعام کے بارے میں پیغمبر اسلام کو اس طرح سے فرمایا کہ ان کو خوش خبری دو پھر فرمایا :(
أُوْلَئكَ عَلَيهْمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُهْتَدُون
)
;
یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔
حضرت لقمان نے اپنی بیشتر نصیحتوں میں اس صبر و استقامت کو بیان کیا ہے اور وہ انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اس محکم اور مضبوط قدرت سے استفادہ کریں اور اسی کی روشنی میں کمالات تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔
انہی نصیحتوں میں سے ایک جو ہماری مورد بحث آیت ہے کہ جس میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو زندگی کے تلخ ترین حوادث اور سخت ترین مشکلات میں صبرو استقامت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کو ہوشیار رہنے کی سفارش کرتا ہے ۔
صبر استقامت کا مسئلہ بہت ہی اہم اور ضروری ہے انسان اس کو اپنی زندگی میں کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
ممکن ہے یہاں پر (من عزم الامور)کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہو کہ صبرو استقامت ایک محکم اور مضبوط ارادہ کا محتاج ہے کہ جس کے بغیر انسان کبھی بھی صبرو استقامت جیسے درجے تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ جیسا کہ لغت والوں نے صبر کا عزم اور ارادہ یا کسی کام کو انجام دینے کے لئے مصمم ارادہ کرنے کا معنی کیا ہے ۔
تجزیہ وتحلیل :
جس طرح سے تجربہ اور تاریخ سے ثابت ہوا ہے اور ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ مشکلات اور سختیاں بہت ہی زیادہ ہیں کبھی خاندانی اختلافات اور کبھی ہمسایوں کے درمیان اختلافات ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات اور پریشانیاں وجود میں آتی ہیں اور اسی طرح سے کبھي گلی سڑکوں میں اور کبھی ٹریفک حادثات اور ایک دوسرے کو بدزبانی کی وجہ اور کبھی بیماریوں اور کبھي سیاسی حالات اور فقر و تنگدستی کی وجہ سے اور کبھي شادی کے مسائل اور جنگوں کے مسائل کی وجہ سے بہت سارے اختلافات پیش آتے ہیں اور ہر جگہ پر یہی مشکلات اور مصائب پائی جاتی ہیں اور ہم ان مشکلات کو دیکھتے ہی ہیں ۔
اسی طرح سے کبھی کسی آسمانی آفت جیسے ( زلزلہ اور طوفان) وغیرہ جیسی مشکلات سے انسان دچار رہتا ہے کہ جس کا خلاصہ امام علی علیہ السلام کے اس کلام میں ملتا ہے کہ فرمایا : (الدُّنْيَا دَارٌ بِالْبَلَاءِ محفوفة
; دنیا ایک ایسا گھر ہے جو رنج اور بلاؤں میں لپٹا ہے ۔
ایسی شرائط میں انسان اپنی حفاظت اور آرامش کے لئے صبر اور استقامت جیسی خصلت سے مدد لے اور اس کی پناہ میں آکر انسان اپنے کو آرامش بخش دے لیکن اگر وہ بے صبری کا اظہار کرے تو اس کی مشکلات اور بلاؤں میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اس کی سالم زندگی بے سکونی اور ناراحتی میں تبدیل ہو جائے گی ۔
اور ظاہر ہے کہ انسان اس نفسانی حالت کے ساتھ ہو تو اس کے بہت برے آثار ظاہر ہونگے ۔ اسی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت لقمان کی یہ نصیحت بہت ہی قیمتی اور با ارزش ہے انسا ن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان جیسی نصیحتوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے دیں وگرنہ انسان کے پاس جب صبر حوصلہ نہ ہو تو ان کی زندگی کو ہمیشہ لڑائی جھگڑے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ اس قانون کے کچھ استثناءات بھی ہیں جیسا کہ ایسے موارد میں کہ جہاں انسان اپنے صبراور سکوت کو توڑکر اپنے حق کا دفاع کرسکتا ہے۔
صبر کے اقسام :
صبر اور استقامت کے مختلف انواع اور اقسام ہیں :
جیسا کہ گناہ کے مقابل میں صبر اختیار کرنا ۔ اطاعت کے راستے میں صبر کرنا ۔ اورمصائب و مصیبتوں کے وقت صبر کرنا ۔ لیکن حضرت لقمان نے ا پنی اس نصیحت میں مصیبتوں کے مقابل میں صبر کرنے کو بیان کیا ہے جو کہ صبر اور استقامت کے اہم ترین اقسام میں سے شمار ہوتا ہے ۔ اور ایسا صبر توان اور قوت قلبی کا منشا ہے اور یہی آثار انسان کو دوسرے موارد میں صبر کرنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری عظیم برکات کا سرچشمہ قرار پاتے ہیں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت لقمان کی مراد صبر کی تمام اقسام ہوں چونکہ اطاعت کے مقابل میں ایسے عوامل جو سستی اور گناہ کا سبب بنتے ہیں وہ بھی مصیبت ہی شمار ہوتے ہیں ۔
بہر حال اس دنیا کی مشکلات اور مصائب بہت ہی زیادہ طاقت فرسا ہیں اگر ان کے مقابل میں صبر و استقامت نہ ہو تو انسان کا وجود بے ہودہ اور بے مقصد ہوگا ۔ اور ہر کا م کسی چیز کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا اور اپنی روح و بدن کو ہلاکت میں ڈالے گا ۔
انہی سختیوں میں سے ایک جنگ کا میدان ہے کہ جس میں مرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ جب انسان ان سختیوں کے مقابل میں صبر نہ کرےتو گویا اس نے فرار ہونے کو ترجیح دے دی لیکن اگر انسان صبر اور استقامت کا راستہ اختیار کرے تو اس کی توان اور اس کی قدرت دوگنا ہو جائیں گے اور ایک دشمن کے بجائے دس دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے ۔ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْن; اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے ۔
اسی طرح سے قرآن مجید میں آیا ہے کہ شموئیل پیغمبر کا نائب طالوت جب ایک چھوٹا سا گروہ لیکر جن میں بہت کم افراد شامل تھے لیکن صبر و استقامت کے ساتھ جب جالوت کے اس بڑے عظیم لشکر کے مقابلے میں گیا جبکہ وہ اس دعا کو پڑھتے تھے ۔
(
« قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرين
)
; اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پرنکلے توکہنے لگے: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر ۔
ان لوگوں نے اس جذبہ کے ساتھ جالوت کے اس عظیم لشکر کے ساتھ جنگ کی اور کامیاب ہوئے چونکہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے تھے جس کا نتیجہ انکی استقامت تھی اور مضبوط اعتقاد کے ساتھ کہہ رہے تھے ۔
«(
كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرينَ
)
; بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔