حضرت لقمان کی دس حکمتیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں0%

حضرت لقمان کی دس حکمتیں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات: مشاہدے: 21058
ڈاؤنلوڈ: 3481

تبصرے:

حضرت لقمان کی دس حکمتیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21058 / ڈاؤنلوڈ: 3481
سائز سائز سائز
حضرت لقمان کی دس حکمتیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت ایوب صبر کا قرآنی نمونہ :

قرآن مجید ان تلخ اور دشوار حوادث کے مقابل میں صبرو استقامت جیسی خصوصیت کی تعلیم دینے میں کبھی گزشتہ انبیاء کی تاریخ کو بیان کرتا ہے اور ان کی زندگی کے ایک حصے کو بطور نمونہ ذکر کرتا ہے تاکہ ہم بھی اپنی زندگی کو ان کے ساتھ مقایسہ کریں اور ان سے صبر و استقامت کا درس حاصل کریں ۔ انہی میں سے ایک نمونہ حضرت ایوب ہے جو زراعت اور چوپانی کرنے کی وجہ سے بہت ہی عظیم ثروت کے مالک تھے ۔

حضرت ایوب کی زندگی تمام نعمات الہی سے سرشار تھی وہ ہمیشہ خدا کا شکر انجام دیتے تھے اس حد تک وہ شکر خدا بجا لاتے تھے کہ ابلیس اس سے حسد کرنے لگا اور خدا کی درگاہ میں عرض کرنے لگا ایوب کا اتنا شکر بجالانا آپ کی نعمات کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے لہذا آپ مجھے اس پر مسلط کردیں تاکہ معلوم ہوجا‏‏‏ئے کہ وہ کیسے آپ کا شکر بجا لاتا ہے ؟ تو خداوند عالم نے ان کو اجازت دی تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے یہ حقیقت ثابت ہو جا‏‏‏ئے لہذا ابلیس نے حضرت ایوب کے تمام مویشیوں کو اور سارے باغوں کو اور یہاں تک کہ انکے گھر اور بیٹوں کو بھی نابود کردیا لیکن حضرت ایوب نے ان سب مصیبتوں اور مشکلات میں صبر و استقامت کے ساتھ انکا مقابلہ کیا اور ہمیشہ شکر خدا بجا لاتا رہا بلکہ ان سب مشکلات اور سختیوں کے بعد اس کے شکر بجا لانے میں اور اضافہ ہو گیا ۔(۹۹)

حضرت ایوب اسی حالت میں بھی اپنی پیشانی کو سجدے میں رکھ کر خدا وندمتعال سے اس طرح سے راز و نیاز کرتا ہے ۔(اے دن اور رات کو خلق کرنے والے خدا میں جس حالت میں اس دنیا میں آیا ہوں اسی حالت میں تیرے پاس آؤنگا خدایا آپ نے مجھے نعمت دی ہے اسی کو مجھ سے دوبارہ لے لیا ہے میں آپ کی اس رضا پر راضی ہوں )

اتنی ساری مشکلات کے ساتھ اس دفعہ حضرت ایوب اپنے پاؤں کے بہت ہی سخت درد میں مبتلا ہو‏‏‏ئے اس کا پاؤں زخمی ہوا جس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت ایوب تقریبا سات یا سترہ سال تک اسی حالت میں رہے لیکن پہاڑ کی طرح محکم اور مضبوط رہے اور ان سب مشکلات کے ساتھ مقابلہ کرے اور ہمیشہ خدا کا شکر بجا لاتے رہے ۔

حضرت ایوب نے نہ ہی اپنے دل میں اور نہ ہی زبان سے اور نہ ہی عملی طور پر ایک ذرہ بھي خدا کی نارضایتی کا اظہار نہیں کیا اور یہی اس کی صبر و استقامت کا بہترین نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو مقام شکر اور رضا حاصل ہوا ۔ خدا کی درگاہ میں وہ اس طرح سے کہہ رہا تھا :

تو را خواهم نخواهم نعمتت گر امتحان خواهی

در رحمت ‏به رویم بند و درهای بلا بگشا

یعنی میں تجھے چاہتا ہوں تیری نعمتوں کو نہیں اگر امتحان لینا چاہتاہے تو رحمت کے دروازے بند کرکے بلاؤں کے دروازے کھول دے !

حضرت ایوب کی کئی بیویاں تھیں لیکن ان کی اس بیماری کو تحمل نہیں کرسکیں وہ ایک ایک ہوتی ہو‏‏‏ئیں حضرت ایوب کو تنہا چھوڑ کر چلی گئیں ۔ حضرت ایوب کی صرف ایک ہی بیوی جو رحیمہ نام کی تھی اس کے ساتھ رہ گئی لیکن کچھ ہی مدت کے بعد وہ بھی بے صبری کا اظہار کرتی ہو‏‏‏ئی ایوب کو تنہا چھوڑ کر چلی گئی ۔

حضرت ایوب اتنی ساری مشکلات اور سختیوں کے ساتھ اس صحراء میں تنہا رہ گئے لیکن صبر اور استقامت کے ساتھ ان ساری مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے اور خدا کا شکر بجا لاتے رہے ۔

اب حضرت ایوب کے پاس کھانے کے لئے بھي کچھ نہ رہا بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہوتے ہو‏‏‏ئے سجدے میں گر پڑے اور خدا کو مخاطب قرار دیتے ہو‏‏‏ئے عرض کرنے لگے ۔ (رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ أَنْتَ‏ أَرْحَمُ‏ الرَّاحِمِينَ‏ ; جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: مجھے (بیماری سے) تکلیف ہو رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔

ایسے وقت میں حضرت ایوب کی دعا قبول ہو‏‏‏گئی اور ان کی ساری مشکلات اور سختیاں ختم ہو‏‏‏ئیں اور خدا وند متعال نے ان کو تمام بلاؤں کے بدلے میں بہت ساری نعمتوں سے نوازا اور ان کے صبر اور استقامت اور شکر کے بدلے میں ان کے مال و دولت میں اور بھي اضافہ ہوا جیسا کہ فرمایا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی تکلیف ان سے دور کر دی اور انہیں ان کے اہل و عیال عطا کیے اور اپنی رحمت سے ان کے ساتھ اتنے مزید بھی جو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت ہے۔ ( ۱۰۰)

قرآن مجید کی یہ تعبیر «...وَ ذِكْرَى‏ لِلْعَالَمِين‏ ‏» حضرت ایوب کے صبر کرنے کا جو واقعہ ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد یہ اعلان کررہا ہے کہ حضرت ایوب کی شخصیت تمام عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل بن گئی ہے بالکل یہی بات ہے کہ خداوند عالم نے حضرت ایوب کو تمام دنیا والوں کے لئے مایہ افتخار بنایا ہے کہ فرمایا : «( إِنَّا وَجَدْناهُ صابِراً نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّاب ) ; ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔(۱۰۱)

پیغمبر اکرم ص اور ا‏‏‏ئمہ معصومین ع کا صبر :

۱ ۔ رسالت کے ابلاغ کے راستے میں پیغمبر اسلام کی طرح کسی اور پیغمبر کو اذیت اور تکلیف نہیں ہو‏‏‏ئی ہے جیسا کہ خود پیغمبر اسلام کا فرمان ہے ۔ «مَا أُوذِيَ‏ نَبِيٌ‏ مِثْلَ‏ مَا أُوذِيت ‏; کسی بھی پیغمبر کو میری طرح اذیت و آزا ر نہیں پہنچا ہے ۔(۱۰۲)

اس کے باوجود پیغمبر اکرم کی تمام زندگی میں کو‏‏‏ئی ایسا مورد نہیں ملتا ہے کہ پیغمبر نے عاجزی یا ضعف و سستی کا اظہار کیا ہوا ہو بلکہ انہوں نے ایک پہاڑ کی مانند صبر و استقامت کے ساتھ اپنے راستے کو جاری رکھا ۔

جیسا کہ جنگ احد میں پیغمبر اسلام کو بہت ہی سخت ترین مصیبت ( حضرت حمزہ کی شہادت ) کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت علی جیسی محبوب ترین شخصیت زخمی ہو‏‏‏ئی اور اآپ کے مبارک دانتوں پر چوڑ لگی لیکن ان سب مشکلات کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ پیغمبر کے اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ دشمن کے لئے بدعا اور نفرین کریں لیکن انہوں نے فرمایا : (اللَّهُمَ‏ اهْدِ قَوْمِي‏ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ .خدا یا میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ہیں ۔(۱۰۳)

پیغمبر اسلام کے دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جو کہ حضرت خدیجہ سے تھے جب مدینہ میں وفات پا‏‏‏ئے تو اس کے بعد پیغمبر اسلام کو کو‏‏‏ئی اور بیٹا نہیں ہوا یہاں تک کہ ہجرت کی آٹھویں سال پیغمبر اسلام کی ایک بیوی ماریہ قبطیہ سے ایک بچہ ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا اور وہ بھی ایک سال دس مہینہ اور آٹھ دن کے بعد وفات پاگئے تو پیغمبر اسلام نے انکو بقیع میں دفن کیا ۔(۱۰۴)

پیغمبر اسلام کے لئے یہ بہت بڑی مصیبت تھی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو‏‏‏ئے اور فرمایا : میری آنکھیں رو رہی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن صبر اور شکر کے خلاف کو‏‏‏ئی ایسا کلام نہیں کرونگاجو خدا کی ناراضگی کا سبب بنے ۔

امام علی علیہ السلام کو کہنے لگے آپ قبر میں داخل ہو جا‏‏‏ئیں اور ابراہیم کو دفن کریں امام علی علیہ السلام پیغمبر کی اطاعت کرتے ہو‏‏‏ئے قبر میں داخل ہو‏‏‏ئے تو بعض اصحاب نے کہا کہ پیغمبر اسلام خود قبر میں داخل نہ ہونے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ باپ کا اپنے بیٹے کے قبر میں داخل ہونا مناسب نہیں ہے تو پیغمبر اسلام نے انکو کہا یہ کو‏‏‏ئی حرام کام نہیں ہے لیکن مجھے اس بات سے خوف ہے کہ کسی شخص کا بیٹا مرجا‏‏‏ئے اور اسکا باپ اس کو دفن کرے اور اس وقت اس کے بیٹے کے چہرے پر نظر پڑ جا‏‏‏ئے اور باپ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر بے صبری کا اظہار کرے اور بے تابی کرنے لگے تو اس کے نتیجہ میں جو خداکی درگاہ میں جو مقام اور اجر و ثواب ہے وہ نابود ہوجا‏‏‏ئے ۔(۱۰۵)

۲۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ان کے خاندان پر بہت بڑی مصیبتں آ‏‏‏ئیں امام علی علیہ السلام بہت ہی سخت ترین مشکلات میں گرفتار ہو‏‏‏ئے ایک طرف سے پیغمبر اسلام کی وفات کا غم اور ایک طرف سے حضرت زہرا کی شہادت کا غم اور انکی خلافت کو غصب کرنا لیکن ان ساری مشکلات میں امام علیہ السلام نے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا اور فرمایا : «فَرَأَيْتُ‏ أَنَ‏ الصَّبْرَ عَلَى‏ هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى، وَ فِي الْحَلْقِ شَجًى، » میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔(۱۰۶)

شاید پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی کی طرح کو‏‏‏ئی بھی رنج اور بلاء میں مبتلا نہیں ہوا ہے لیکن کبھی بھی عاجزی اور ضعف کا اظہار نہیں کیا ۔ امام صادق علیہ السلام کے قول کے مطابق امام علی علیہ السلام سخت ترین مشکلات اور مصا‏‏‏ئب میں گرفتار ہوتے تو نماز پڑھتے تھے اور اسی نماز کے ذریعے سے اپنی روح کو آرامش بخشتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے تھے : «( وَ اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ ) ;صبر اور نماز سے مدد لینا ۔(۱۰۷)

۳۔ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام سخت ترین شرا‏‏‏ئط میں قرار پا‏‏‏ئے تو اپنے اصحاب کو مخاطب قرار دے کر فرمایا : (صَبْراً يَا بَنِي‏ عُمُومَتِي‏ صَبْراً يَا أَهْلَ بَيْتِي ‏،اے میرے چچا زاد بھا‏‏‏ئیوں کے بیٹے اور اے میرے اہل بیت صبر کرو آج کے بعد پھر کبھی بھی ناراحتی نہیں دیکھو گے ۔(۱۰۸)

اور خود امام حسین علیہ السلام اتنے صابر تھے کہ کربلا کی تاریخ بیان کرنے والے حمید بن مسلم کہہ رہے ہیں : (فَوَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ‏ مَكْثُوراً قَطُّ قَدْ قُتِلَ وُلْدُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِهِ وَ أَصْحَابُهُ أَرْبَطَ جَأْشاً وَ لَا أَمْضَى جَنَاناً مِنْهُ ; خدا کی قسم میں نے ایسی شخصیت کو نہیں دیکھا جو اتنی مشکلات میں گرفتا رہو اور جس کے سارے خاندان اور انکے بیٹے اور اصحاب شہید ہو‏‏‏ئے ہوں اس کے باوجود وہ صابر اور استوار ہو ۔

امام علیہ السلام اپنی شہادت کے وقت خدا سے مناجات کر رہے تھے «صبرا علی قضائك یا رب; خدایا آپ کی چاہت اور رضا پر میں صبر اور استقامت اختیار کرتا ہوں ۔(۱۰۹)

۴۔ امام صادق علیہ السلام کا ایک شاگرد مفضل بن عمر کا اسما‏‏‏عیل نامی ایک بیٹا تھا جب وہ وفات پا گئے تو امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے موسی بن جعفر کو مفضل کے گھر تسلیت کے لئے بھیجا اور انکو کہا کہ مفضل کو میرا سلام کہنا اور بتانا کہ جب میرے بیٹے اسماعیل کے مرنے کی خبر مجھے دی تو میں نے صبر کیا اور آپ بھی ہماری طرح سے صبر کرنا چونکہ جو کام خدا کے ارادے سے ہوتا ہے ہم اسی کو پسند کرتے ہیں اور خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں ۔

جب امام صادق علیہ السلام بیماری کی حالت میں بسترے میں پڑے ہو‏‏‏ئے تھے تو امام کا ایک صحابی ان کی عیادت کو آ‏‏‏یا اور امام کی وہ حالت دیکھ کر رونے لگا تو امام نے اس سے پوچھا تم کیوں رو رہے ہے ؟ تو وہ کہنے لگے یا امام میں آپ کو اس کمزوری کی حالت میں دیکھوں اور نہیں روؤں ؟ تو امام علیہ السلام نے کہا ! آپ رو‏‏‏ئے نہیں چونکہ تمام نیکیاں مؤمن کو دی جاتی ہیں اگر کو‏‏‏ئی حقیقی مؤمن ہو اور اس کے جسم کے تمام اعضاء قطعہ قطعہ ہو جا‏‏‏ئیں تو یہ اس کے لئے بہتر ہے او ر اسی طرح وہ مشرق اور مغر ب کا مالک بن جا‏‏‏ئے تو بھی اس کے ‏‏‏لئے بہتر ہے ۔(۱۱۰)

۵۔ صبر اور استقامت کا ایک اور نمونہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ہے اگر حضرت زینب کربلا میں روتی تھی تو یہ احساسات کی بنا پر تھا اور جب وہ بولتی تھی تووہ عدالت اور نہی عن المنکر اور دشمن کو رسوا کرنے کی خاطر تھا ۔

حضرت زینب اس حد تک صابر اور شاکر تھی کہ ابن زیاد کی مجلس میں فخر کے ساتھ کہہ رہی تھی «مَا رَأَيْتُ‏ إِلَّا جَمِيلا ; میں نے صرف اچھا‏‏‏ئی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ! اے مرجانہ کے بیٹے قیامت کے دن دیکھنا کہ ہم میں سے کون جیتا اور کون ہارا؟(۱۱۱) ابن زیاد کی مجلس میں حضرت زینب کا خطبہ اتنا پر جوش تھا کہ ابن زیاد اپنی سلطنت کو بچانے کی خاطر حضرت زینب اور ان کے تمام ساتھیوں کو قید کر دیا ۔(۱۱۲)

۶۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے علی ابن بابویہ قمی ( متوفی ۳۲۹ ) کو خط لکھا کہ جس میں ان کو اور اپنے شیعوں کو صبر اور استقامت کی تاکید کی ہے انہی میں سے ایک جملہ میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ (میں تمہیں صبر اور انتظار فرج کی نصیحت کرتا ہوں ) اسی طرح سے کسی اور جملہ میں فرماتے ہے اے شیخ آپ میرے اعتمادوالے شخص ہیں آپ صبراور استقامت کریں اور ہمارے شیعوں کو بھی صبر و استقامت کی تلقین کریں ۔

محدث قمی اس خط کو نقل کرنے کے بعد لکھ رہے ہیں کہ اس خط میں صبر اور استقامت کی بہت ہی تاکید ہو‏‏‏ئی ہے کیونکہ صبر اور استقامت کے بہت ہی اچھے نتا‏‏‏ئج موجود ہیں جس طرح سے امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بہشت تمام رنج اور استقامت میں لپٹی ہو‏‏‏ئی ہے ( یعنی تمام بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر اور استقامت اخیتار کرکے بہشت کے بلند ترین درجات تک پہنچ سکتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد امام علیہ السلام کے یہ اشعار ذکر کرتے ہیں :

انی وجدت وفی الایام تجربة =للصبرعاقبة محمودة الاثر

وقل من جد فی امر یطالبه = فاستصحب الصبر الا فاز بالظفر

پھر کہتے ہیں ان اشعار کی فارسی میں معنی یہ ہے ۔

صبر و ظفر هر دو دوستان قدیمند - بر اثر صبر، نوبت ظفر آید

بگذرد این روزگار تلخ‏تر از زهر -بار دگر روزگار چون شكر آید

یعنی صبر اور کامیابی دونوں پرانے دو دوست ہیں ۔صبر کرنے کا نتیجہ فتح اور کامیابی ہے ۔

زہر سے بھی کڑوا یہ دن گزر جا‏‏‏ئے تو پھر شکر کرنے کا وہ دن آجا‏‏‏ئے گا ۔

پھر اپنی اس بات کو مکمل کرنے کے لئے بوذر جمہر ی کاوہ واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک دن ایران کا نوشیروان بادشاہ ( بوذر جمھر جوکہ اس زمانے کا سب سےبڑا حکیم شمار ہوتا تھا اس کو بادشاہ نے قید کیا اور حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قید خانے میں بند کردو۔ تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۔وہ پھر کچھ عرصے تک وہا ں رہا ایک دن نوشیروان نے ان کی حالت پوچھنے کے لئے کچھ بندوں کو بھیجا جب وہ ان کے پاس آ‏‏‏ئے تو دیکھا کہ وہ بہت ہی خوش ہے اور انکا چہر ہ بالکل ہی حشاش بشاش ہے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے زندان کی اتنی سختی میں ہوتے ہو‏‏‏ئے بھي اتنا خوش حال ہونے کی وجہ کیا ہے ؟

تو بوذر جمہر نے اس کے جواب میں کہا ! میں نے چھ چیزوں کا ایک معجون تیار کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے میں خوشحال ہوں ۔

اور وہ معجون میں نے ان چھ چیزوں سے ملکر بنایا ہے ۔

۱۔ خدا پر اطمئنان ۔۲۔ تقدیر الہی پر راضی رہنا ۔۳۔ صبر اور استقامت ۔۴۔ اگر میں صبر نہ کروں تو بے تابی کرنے سے کو‏‏‏ئی فا‏‏‏ئدہ نہیں ملے گا ۔ ۵۔ میں نے سوچا کہ میری اس حالت سے بھی بہت سخت حالات پا‏‏‏ئے جاتے ہیں ۔

۶۔ اس ستون سے دوسرے ستون تک فرج اور گشادگی ہے ۔(۱۱۳)

ایک سؤال کا جواب :

سؤال ہوتا ہے کہ صبر اور تحمل کا حکم ایک بے ہودہ چیز ہے کیونکہ کو‏‏‏ئی ظالم اگر کسی پر ظلم کرتا ہے تو ہم صبر کرتے ہو‏‏‏ئے اس ظالم کے خلاف خاموش رہے تو یہ اس ظالم کے ظلم میں مزید اضافہ کرنے کاباعث بنتا ہے اور وہ گستاخ بن جاتا ہے ۔اور یہی کمیونسٹ والوں کا نظریہ ہے اوردین اسلام پر یہ اشکال کرتے ہیں کہ دین اسلام ظالموں اور ستمگروں کے ظلم و ستم کے مقابل میں صبر و تحمل کا درس دیتا ہے پس دین آفیون کی طرح سے ایک نشہ ہے ۔

اس سؤال کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر اصل حقیقت کو عام دوسرے موارد کی طرح تحریف کیا گیا ہے چونکہ کلمہ صبر جو کہ تمام سختیوں اور ظلم و ستم کے مقابل مضبوط عزم اور ارادہ رکھنا اور استقامت کرنے کا نام ہے ۔ اس کو عجز اور تسلیم میں تحریف کیا گیا ہے اسی طرح سے اسکا بالکل ہی برعکس معنی کیا ہوا ہے ۔ اگر ہم لغت اور قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات کی طرف رجوع کریں تو دیکھتے ہیں کہ صبر و استقامت اختیار کرنا ظلم اور ستم اور طاغوتیت کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے نہ کہ ظلم کرنے یا طاغوت کو ثابت کرنے کا ۔

اسی بنا پر اس قسم کا اشکال کرنا ایک قسم کی غلط فہمی ہے چونکہ اسلام نے صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ :

«...( فَقَتِلُوا الَّتِى تَبْغِى‏ حَتَّى‏ تَفِى‏ ءَ إِلَى‏ أَمْرِ اللَّهِ ) »; زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، ۔۔۔۔(۱۱۴)

اور امام علی علیہ السلام نے فرمایا :« لَنْ‏ تُقَدَّسَ‏ أُمَّةٌ لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقُّهُ مِنَ الْقَوِيِّ غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ . ایسی امت ہرگز پاک و پاکیزہ نہیں ہوسکتاہے جو ضعیف اور کمزوروں کے حق کو ستمگروں سے چھین نہ لے ۔(۱۱۵)

ساتویں حکمت تواضع اور فروتنی :

حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی ہو‏‏‏ئی نصیحتوں میں ساتویں نصیحت تواضع اور فروتنی ہے کہ جس کو تمام کمالات کی کنجی جانا جاتا ہے اس نصیحت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو فرمارہے ہیں «( وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْض مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُور. ) ..)۔اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔(۱۱۶)

تواضع کا معنی اور اس کے اقسام :

تواضع اصل میں لفظ وضع سے لیا گیا ہے جس کا معنی تسلیم اور حقیر جاننا ہے اور اخلاق کے اعتبار سے اس کا معنی یہ بنتا ہے کہ انسان اپنے پروردگار کے سامنے اور دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر کرجانے اور اس کے برعکس تکبر اور غرور ہے یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا ! جوکہ ایک بری صفت ہے اور فکری انحراف کا باعث بنتی ہے ۔

البتہ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ تواضع سے مراد اپنے کو خوار و ذلیل کر نا نہیں ہے ۔ جیسا کہ بیان ہوتا ہے کہ یہ تواضع کی علامات میں سے ہے کہ انسان دوسرے لوگوں سے ملاقات کرتے وقت ان کے ساتھ خوش روی اور اچھی رفتار کے ساتھ ملا کرے اور اسی طرح سے ان سے جدا ہوتے وقت بھی بہت ہی خوش مزاجی کے ساتھ ان سے خدا حافظی کرے ان کی وہ جدا‏‏‏ئی محبت آمیز ہونی چاہیے نہ کہ کینہ اور دشمنی کے ساتھ ہو ۔

اسی طرح سے بری صفات میں سے ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے بہت بڑا سمجھے ۔

اور (وَ لا تُصَعِّرْ) کی یہ تعبیر اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہے کہ تواضع نہ کرنا انسان کے اند ر ایک قسم کی بیماری شمار ہوتی ہے چونکہ لفظ تصعر کا معنی جس طر ح سے لغت ( مصباح المنیر ) میں بیان ہوا ہے کہ یہ لفظ اصل میں( صعر )سے لیا گیا ہے جو کہ ایک بیماری کا نام ہے جو اونٹ کو لگ جاتی ہے یعنی جب یہ بیماری اونٹ کو لگتی ہے تو اس کا گردن جھکا دیتی ہے ۔

اسی بنا پر تواضع سے خارج ہونا ایک قسم کی بیماری ہے جو انسان کی باطنی حالت کو آشکار کرتی ہے ۔

تواضع کے مختلف درجات اور نشانیاں ہیں ضروری ہے کہ ہم ان کوپہچان لیں اور خاص طور پر ان کی رعایت کریں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ :« وَ قَالَ ع‏ التَّوَاضُعُ‏ الرِّضَا بِالْمَجْلِسِ‏ دُونَ شَرَفِهِ وَ أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى مَنْ لَقِيتَ وَ أَنْ تَتْرُكَ الْمِرَاءَ وَ إِنْ كُنْتَ مُحِقّا ; اصل تواضع یہ ہے کہ انسان کسی مجلس میں اپنی شان اور منزلت سے کمتر پر راضی ہو جا‏‏‏ئے اور جب دوسروں سے ملاقات کرے تو سلام کرنے میں پہل کرے اور فضول گفتگو سے پرہیز کرے اگرچہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ۔(۱۱۷)

کسی نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا تواضع کی حد کیا ہے ؟ اگر کو‏‏‏ئی اس کی رعایت کرے تو وہ متواضع کہلا‏‏‏ئے گا ؟ تو امام علیہ السلام نے انکے جواب میں فرمایا تواضع کے کئی درجات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی قدر اور منزلت کو جان لیں اور اسی کو اپنے محل میں قرار دیدے اور دوسروں کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور جب کسی سے برا‏‏‏ئی دیکھے تو اس کے بدلےمیں اسے نیکی کرے اپنا غصے پر کنٹرول کرے اور دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرے کہ خدا وند عالم نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے(۱۱۸)

تواضع انسان کے خضوع اور خشوع کی ایک اندرونی حالت ہے جو انسان کے کردار اور رفتار اور اس کی گفتا رسے ظاہر ہوتی ہے ۔

اور کبھي ممکن ہے کہ انسان معنوی اعتبار سے اس حالت تک نہ پہنچے لیکن عملی اعتبار سے اپنے آپ کو اس تواضع کی میزان میں ڈال دیں تو ایسا شخص عملی طور پر متواضع کہلا‏‏‏ئے گا ۔

تواضع کے اقسام :

تواضع دو قسم کا ہے ۔

۱۔ خدا کے مقابل میں تواضع : اس میں حق اور قانون خدا کے مقابل میں تواضع کرنا بھی شامل ہے اور اسی طرح سے پیغمبروں اور اماموں اور اولیاء : کے سامنے تواضع کرنا بھی شامل ہے ۔

۲۔ معاشرے میں لوگوں کے مقابل میں تواضع : جیساکہ دوست ہمسایہ والدین اور استاد و شاگرد وغیرہ۔۔۔ کو شامل ہے۔

اور یہ بات واضح اور روشن ہے کہ خداوند عالم کے سامنے جو تواضع ہے وہ سب سے بلند ترین درجے پر ہے کہ جس کا مخالف تکبر اور غرور ہے جو سب سے بڑا گناہ اور شرک شمار ہوتا ہے ۔

خدا کے مقابل میں جو تواضع ہوتی ہے وہ ایمان کا جزء اور معرفت خدا کو حاصل کرنے کے لئے راہ ہموار کرتی ہے ۔

جسکا نتیجہ احکام الہی کے مقابل میں تسلیم اور انکی اطاعت کرناہے اور خدا کی عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع حاصل کرناہے ۔

اس طریقے سے انسان اپنے کو خدا کے مقابل میں حقیر جانے اور اس کے حق پر کو‏‏‏ئی اعتراض نہ کرے اور اپنی زندگی کے تمام امور کو خدا کی رضایت کے خاطر انجام دے اور اسی کو راضی کرنے میں قدم اٹھا‏‏‏ئے اور اسی کو راضی کرنے کی کوشش کرے اور خدا کے ساتھ اس حد تک متصل رہنا چاہیے کہ جیسا شاعر فرمارہا ہے ۔

اسیر عشق تو از هشت‏ خلد مستغنی است

غلام كوی تو از هر دو جهان آزاد است

یعنی تیرے عشق کا اسیر آٹھوں بہشتوں سے مستغنی ہے -- اور تیری گلی کا غلام دونوں جہانوں سے آزاد ہے ۔

پیغمبر اسلام جو کہ ایک بہت عظیم اور بے نظیر انسان تھے خداوند عالم کی عظمت کے سامنے اس حد تک متواضع تھے کہ خداوند عالم کی طرف سے وحی نازل ہو‏‏‏ئی کہ میں آپ کو بادشاہت و رسالت یا بندگی اور رسالت کے درمیان اختیار دیتاہوں کہ آپ ان میں سے کس کو انتخاب کرتے ہیں ؟ تو پیغمبر اسلام نے بندگی اور رسالت کو انتخاب کیا ۔(۱۱۹)

امام صادق علیہ السلام پیغمبر اسلام کی خصوصیات اور صفات بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرما رہے ہیں۔«قَالَ‏ مَا أَكَلَ‏ رَسُولُ‏ اللَّهِ‏ مُتَّكِئاً مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِيّاً حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ مُتَوَاضِعاً لِلَّهِ عَزَّ وَ جَل‏; جب پیغمبر اسلام خداوند عالم کی طرف سے رسالت پر مبعوث ہو‏‏‏ئے تو خدا کے سامنے اتنے متواضع ہو‏‏‏ئے کہ اپنی رحلت تک کبھی بھی کسی چیز پر ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھا‏‏‏یا اس حد تک تواضع کی رعایت کیا کرتے تھے ۔

پیغمبر اسلام ایک دن اپنے غلاموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر ‏‏‏ گفتگو کر رہے تھے ایک عورت وہاں سے گزری اور پیغمبر اسلام پر اعتراض کرتے ہو‏‏‏ئے کہنے لگی اے محمد آپ کیوں زمین پر بیٹھے ہو‏‏‏ئے ہیں اور کیوں غلاموں کے ساتھ ہمنشین ہو‏‏‏ئے ہیں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ؟ جبکہ آپ پیغمبر ہیں آپ بزرگوں کے ساتھ بیٹھا کریں ؟ تو پیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں کہا ۔ «وَيْحَكِ‏ أَيُ‏ عَبْدٍ أَعْبَدُ مِنِّي ; افسوس ہو تم پر مجھ سے بڑھ کر کو‏‏‏ئی بندہ ہے ؟(۱۲۰)

پیغمبر اکرم ص اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کی وہ خاشعانہ اور مخلصانہ نمازیں اور انکی خضوع اور خشوع کے وہ طولانی سجدے اور دعا‏‏‏ئیں سب کے سب یا ان میں سے ہر کو‏‏‏ئی ہمارے لئے درس عبرت ہے ہمیں خدا کے مقابل میں بہترین تواضع حاصل کرنے کادرس دیتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ہم صحیفہ سجادیہ کو پڑھیں اور اس میں موجود دعاؤں کا مطالعہ کریں تاکہ تواضع کی حقیقت کو حاصل کر سکیں ۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنی کسی دعا میں فرمارہی ہیں «اللَّهُمَ‏ ذَلِّلْ‏ نَفْسِي‏ فِي‏ نَفْسِي‏ وَ عَظِّمْ شَأْنَكَ فِي نَفْسِي ;

خدایا مجھے میرے نزدیک چھوٹا کردے اور اپنا مقام میرے نزدیک عظیم بنا دے ۔(۱۲۱)

اور دوسروں کے مقابل میں تواضع کرنا اس کی دوسری قسم ہے جو اخلاقی اعتبار سے بہت ہی اہم اور ضروری ہے اور انسان کی زندگی میں اس کے بہت ہی اہم آثار موجود ہیں ۔

تواضع کی تعریف میں علامہ نراقی بیان کرتے ہیں کہ تواضع سے مراد انسان کا اپنے نفس کو توڈ دینا ہے یعنی انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بالاتر نہ سمجھے کہ جس کا لازمہ انسان کی گفتار اور کردار ہے جو دوسروں کے مقابل میں تعظیم اور اکرام کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔(۱۲۲)

یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو انسان کی شرافت اور اس کی وقار و زینت کا باعث بنتی ہے اور شیطان کے مقابل میں ایک ہتھیار اور اسلحہ شمار ہوتی ہے اور انسان کے عقل میں اضافہ ہونے کا باعث بنتی ہے۔ اور پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کی بہت ساری روایات میں بھی اسی مطلب کو بیان کیا گیا ہے ۔(۱۲۳)

اور اوپر والی آیت میں حضرت لقمان کا مقصد بھی یہی ہے یعنی دوسروں کے مقابل میں تواضع اختیار کرنا جو خصوصی طور پر اسی کی نصیحت کی ہے ۔اسی طرح سے حضرت لقمان اپنی کسی اورگفتار میں اپنے بیٹے کو نصیحت فرمارہے ہیں :( تَوَاضَعْ‏ لِلْحَقِ‏ تَكُنْ أَعْقَلَ النَّاس‏;حق کے مقابل میں تواضع اختیار کرو تاکہ عاقل ترین انسانوں میں سے شمار ہو جا‏‏‏و ۔(۱۲۴)

مختصر یہ کہ تواضع تمام نیکیوں کا خزانہ ہے جیسا کہ بتایا گیا کہ تمام امور کی کنجی ہے اور تمام فضیلتوں کی ماں شمار ہوتی ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے : (بِخَفْضِ الْجَنَاحِ‏ تَنْتَظِمُ‏ الْأُمُور ; تواضع اور فروتنی سے زندگی کے تمام امور منظم ہوتے ہیں ۔(۱۲۵)

امیر المؤمین اپنے کسی کلام میں پیغمبروں کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں:«.. وَ لَكِنَّهُ سُبْحَانَهُ كَرَّهَ‏ إِلَيْهِمُ‏ التَّكَابُرَ وَ رَضِيَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ فَأَلْصَقُوا بِالْأَرْضِ خُدُودَهُمْ وَ عَفَّرُوا فِي التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ وَ خَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِينَ;

خداوند عالم نے تمام پیغمبروں کو تکبر سے نفرت دلا‏‏‏ئی ہے اور تواضع و فرتنی کو انکے لئے پسندکیا ہے وہ اپنے رخسار کو زمین پر رکھتے تھے اور اپنے چہرے کو خاک میں ملا دیتے تھے اور اپنی پروں کو مؤمنین کے لئے پھیلادیتے تھے ۔(۱۲۶)

کسی اور مقام پر عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرمایا :«... وَ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ تَعْفِيرِ عِتَاقِ‏ الْوُجُوهِ‏ بِالتُّرَابِ تَوَاضُعاً وَ الْتِصَاقِ كَرَائِمِ الْجَوَارِحِ بِالْأَرْضِ تَصَاغُراً وَ لُحُوقِ الْبُطُونِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّيَامِ تَذَلُّلًا ;نماز میں اپنے چہرے کی بہترین جگہ اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ کر سجدہ کرنا تواضع کا باعث بنتا ہے اور اسی طرح سے اپنے جسم کے تمام اعضاء کو زمین پر رکھنا اپنے کو حقیر جاننے کی نشانی ہے اور روزہ کی حالت میں اپنے پیٹ کو کمر کے ساتھ لگا ‏‏نا فرتنی کا باعث بنتا ہے ۔(۱۲۷)

اور کلی طور پر خدا کی عبادت ایسی خصوصیات میں سے ہےکہ جو کبھی بھی خدا کی معرفت رکھنے والوں سے جدا نہیں ہوسکتی ہے اور عبادت اس وقت کامل ہوسکتی ہے کہ جس میں مٹھاس ہو کہ جس سے اس عبادت کے انجام دینے والے کو لذت حاصل ہوجا‏‏‏ئے نہ کہ وہ اس عبادت کے انجام دینے سے تھک جا‏‏‏ئے ۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے ایک دن اپنے اصحاب سے پوچھا میں آپ کی اس عبادت میں حلا‏‏‏وت اور مٹھاس کو کیوں نہیں دیکھتا ہوں ؟ تو اصحاب عرض کرنے لگے یا رسول اللہ وہ حلاوت اور مٹھاس کس چیز میں ہے ؟ تو پیغمبر اسلام نے فرمایا : التواضع ۔یعنی تواضع اور فروتنی اختیار کرنے سے عبادت میں حلاوت اور لذت حاصل ہوتی ہے ۔(۱۲۸)

تواضع اور ذلت پذیری کے درمیان فرق :

تمام موضوعات میں جو چیز سب سے زیادہ توجہ کی طالب ہے وہ اس کے صحیح معنی کو بیان کرنا ہے اور افراط و تفریط سے پرہیز کرنا ہے لہذا اس جیسے اہم مسئلہ کے طرف توجہ نہ کرنا انحراف کا باعث بنتا ہے جس طرح سے صبر کا معنی کیا ہے کہ ( عاجزی اور ظلم )کے مقابل میں صبرکرنا ! حالانکہ یہ صبر کے حقیقی معنی کے برعکس ہے ۔

اسی بنا پر بعض فضا‏‏‏ئل اور رذا‏‏‏ئل کے درمیان جو حد بندی بتا‏‏‏ئی گئی ہے وہ بہت ہی نازک اور باریک ہے جیسا کہ عزت اور تکبر کے درمیان جو حد ہے سیاست اور دنیا پرستی کے درمیان اور زہد و ترک دنیا کے درمیان اور اسی طرح سے ذلت اور تواضع وغیرہ۔۔۔۔کے درمیان جو حد ہے ۔

لہذا پہلے ان کے درمیان جو رابطہ اور معیار ہے اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ ان کے درمیان موجود حدود کو جان سکیں اور کو‏‏‏ئی بھي عزت کے جگہ پر تکبر کو اختیار نہ کرے اور قناعت کے نام سے بخیل نہ بنے یا تواضع کے بجا‏‏‏ئے ذلت اور خواری کو اختیار نہ کرے ۔

اور اسی طرح سے ضروری ہے کہ استثنا ءات کی طرف بھی توجہ دی جا‏‏‏ئے کیونکہ بہت ساری اخلاقی صفات ایسی بھی ہیں جو اس سے باکل ہی جدا ہیں مثال کے طور پر جھوٹ بولنا حرام ہے لیکن بعض ایسے موارد ہیں کہ جن میں جھوٹ بولنا واجب بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ کسی ظالم کے ہاتھوں سےمظلوم کو نجات دینا ۔

ہماری اس بحث میں اگرچہ تواضع ایک نیک اور اچھی صفت ہے لیکن یہی تواضع بعض موارد میں اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ پر تکبر کرنا اچھا ہے جیسا کہ کسی جنگ کا میدان ہے اور اپنے دشمن کے مقابل میں مغرورانہ انداز میں چلنا اچھا ہے تاکہ دشمن ان کی اس رعب اور دبدبہ سے خوف کھا‏‏‏ئے ۔ اس کی مثال تاریخ میں بھی ملتی ہے کہ جیسا کہ پیغمبر اسلام اور ابو دجانہ انصاری کے درمیان جنگ احد میں واقع ہوا ۔(۱۲۹)

اب ہم اپنے اس مطلب کی طرف آ‏‏‏ئینگے اور وہ یہ ہے کہ اس بات کی طرف توجہ کرنا بہت ہی ضروری ہے کہ تواضع ذلت اور خواری یا چاپلوسی جیسی صفات کا باعث نہ بنے جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ تواضع یہ ہے کہ انسان اپنے کو دوسروں کے مقابل میں ذلیل و خوار کرے اور ایسے اعمال انجام دے تاکہ لوگوں کے نظروں سے گر جا‏‏‏ئے اور اس کو سوء ظن کی نسبت دے دیں جیسا کہ بعض صوفیوں کے حالات میں نقل ہو‏‏‏ا ہے ۔

لیکن اسلام کبھی بھی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ تواضع کے نام پر اپنے کو حقیر کرے اور انسان کی جو کرامت ہے وہ پا‏‏‏ئمال ہو جا‏‏‏ئے ۔

اس کے بارے میں فیض کاشانی لکھتا ہے کہ دوسری عام اخلاقی صفات کی طرح تواضع بھی دو اطراف یعنی (افراط اور تفریط ) پر مشتمل ہے افراط یعنی ( تکبر ) اور تفریط یعنی(ذلت اور پستی کو قبول کرنا ) اور ان کے درمیانی حد وہی تواضع ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ تواضع وہی ہے جو انسان اپنے کو چھوٹا سمجھے یعنی بغیر کسی ذلت اور خواری کے ! مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور انکو پیچھے چھوڑدے تو وہ متکبر کہلا‏‏‏ئے گا لیکن جو آپنے آپ کو سب سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے وہ شخص متواضع کہلا‏‏‏ئے گا لیکن اگر کو‏‏‏ئی معمولی شخص مثلا کسی دانشمند یا کسی بڑے عالم کے پاس حاضر ہو جا‏‏‏ئے اور وہ عالم اس کا احترام کرتے ہو‏‏‏ئے کھڑا ہو جا‏‏‏ئے اور اس کو اپنی جگہ پر بٹھادے اور اس کے جوتے اٹھانے لگے تو یہ اس کی تواضع نہیں کہلا‏‏‏ئےگا بلکہ یہ ایک قسم کی ذلت ہے جو قابل مذمت ہے ۔(۱۳۰)

پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہواہے جیسا کہ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے ۔

«وَ مَنْ‏ أَتَى‏ ذَا مَيْسَرَةٍ فَيَخْشَعُ لَهُ طَلَبَ مَا فِي يَدِهِ- ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه ‏ ; اگر کو‏‏‏ئی شخص کسی امیر اور مالدار شخص کے پاس آ‏‏‏ئے اور وہ اس کی دولت کی خاطر یا اس سے کچھ حاصل کرنے کی امید سے اس کے سامنے تواضع اور فروتنی اختیار کرے تو اس کے دین کا تیسرا حصہ ضایع ہو جا‏‏‏ئے گا ۔(۱۳۱)

اسی طرح کی ایک اور روایت امام علی علیہ السلام سے بھی نقل ہو‏‏‏ئی ہے ۔(۱۳۲)

امام صادق کا فرمان ہے «مَا أَقْبَحَ‏ بِالْمُؤْمِنِ‏ أَنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ »; مؤمن شخص کے لئے برا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کے ساتھ علاقہ اور رغبت پیدا کرے جو اس کو ذلت اور خواری میں مبتلا کرے ۔(۱۳۳)

چاپلوسی ایک قسم کی ذلت اور پستی کو قبول کرنے کا نام ہے جو عام طور پر حرص اور طمع سے وجود میں آتی ہے اور بعض لوگ کبھی تواضع کا غلط معنی کرتے ہو‏‏‏ئے اسے با ارزش سمجھتے ہیں جبکہ یہ چاپلوسی صرف بعض موارد کے علاوہ بری سمجھی جاتی ہے جو انسان کی کرامت پر بہت ہی بھا‏‏‏ری چوٹ لگا دیتی ہے ۔

امام علی علیہ السلام اپنےکسی کلام میں فرماتے ہیں ):الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ‏ الِاسْتِحْقَاقِ‏ مَلَقٌ ; حد سے بڑھ کر کسی کی تعریف کرنا چاپلوسی ہے ۔(۱۳۴)

اور بسا اوقات بعض افراد تواضع کے عنوان سے حد سے بڑھ کر تعریف کرتے ہیں یا حد سے بڑھ کر اس کی تعظیم ‏‏‏و تکریم کرتے ہیں تو یہی وہ چاپلوسی ہے کہ جس کے بارے میں امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : «لَيْسَ‏ مِنْ‏ أَخْلَاقِ‏ الْمُؤْمِنِ‏ التَّمَلُّقُ‏ وَ لَا الْحَسَدُ إِلَّا فِي طَلَبِ الْعِلْم‏ ; چاپلوسی اور حسد مؤمن کے اخلاق میں سے نہیں ہے مگر علم حاصل کرنے کے راستے میں ۔(۱۳۵)

اسی بنا پر اسلام نے پاؤں پر بوسہ دینا منع کیا ہے اور بعض روایات کے مطابق ہاتھوں پر بوسہ دینا بھی مناسب نہیں مگر والدین کے ہاتھوں کے یا معلم اور استاد کے یا کسی دینی راہنما کےجو اس کے احترام کےخاطر ہو اور اسی طرح سے والدین اپنے چھوٹے بیٹے کو محبت کی وجہ سے چومنا ۔

روایت میں ہے کہ یونس بن یعقوب نے امام صادق علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہاتھ آگے کریں میں ان کا بوسہ لونگا تو امام نے ہاتھوں کو آگے کیا اور پھر میں نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤ آپ کے سر کا بوسہ دونگا تو امام نے اپنے سر کو آگے کیا تو میں نے بوسہ دیا پھر میں نے امام سے عرض کیا پاؤں کا بوسہ لونگا تو امام نے قبول نہیں کیا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کے بوسہ دینے کے بعد جسم کے کسی اور عضو کا بوسہ لینا مناسب نہیں ہے ۔(۱۳۶)

تواضع کی علامت اور اس کے درجات :

تواضع اور اس کی علامات کے بارے میں پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے اقوال میں تواضع کے بعض صحیح طریقوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ہم یہاں پر آپ کی توجہ کو انکی طرف مبذول کرا‏‏‏‏‏‏ئنگے جیسا کہ مجلس میں سب سے آخر میں بیٹھنا سلام میں پہل کرنا اونچی آواز میں سلام کرنا اور خود نما‏‏‏ئی سے پرہیز کرنا اپنی تعریف کرنے سے پرہیز کرنا اور دوسرے لوگوں کی تعریف کرنے کو پسند نہ کرے امیر اور فقیر لوگوں کے درمیان فرق کا قا‏‏‏ئل نہ ہو جا‏‏‏ئے راستے میں دوسروں سے آگے نہ بڑھے ۔

امیر المؤمنین کا فرمان ہے «مَا أَحْسَنَ‏ تَوَاضُعَ‏ الْأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللَّه‏; جزاء الہی کو حاصل کرنے کی غرض سے فقیروں کے مقابل میں امیروں کی تواضع اور فروتنی کتنی ہی اچھی ہے ۔(۱۳۷)

آٹھویں اور نویں حکمت :

بد رفتاری اور غرور:

آٹھویں اور نویں حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کررہے ہیں : «( وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُور ) ;(۱۳۸) اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

آداب معاشرت اور آداب اسلامی کے اہم ترین موارد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ نیک رفتاری سے پیش آ‏‏‏‏‏‏ئیں اور ہر قسم کی تکبر اور غرور سے پرہیز کریں چونکہ غرور اور خود پسندی برے اعمال کے انجام دینے کا باعث بنتے ہیں جس کا نتیجہ دوستوں کے درمیان اختلاف اور جدا‏‏‏ئی اور کینہ کا سبب بنتا ہے ۔

تکبر انسان کی ایک باطنی اور انحرافی حالت ہے جو کہ انسان کی زندگی میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے ۔

حضرت لقمان کی اس نصیحت میں تکبر اور خود پسندی کی دو اہم نشانیوں کے طرف اشارہ ہوا ہے کہ جن سے پرہیز کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔

۱۔غرور اور تکبر کی وجہ سے دوسروں سے رخ نہیں پھیرانا :

۲۔ غرور اور تکبر کی وجہ سے زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چلنا :

یہ دو ایسی بری صفات ہیں جو تکبر کی وجہ سے انسان کے اندر وجود میں آتی ہیں جو انسان کی زندگی اور معاشرے پر بہت ہی برا اثر رکھتی ہیں اور حتی بعض اوقات انسان کی دوستیوں کو دشمنی میں تبدیل کرتی ہیں اور ان کے درمیان موجود محبت اور صمیمیت کو کینہ اور عداوت میں تبدیل کرتی ہیں جس سے انسان کی زندگی میں اختلاف وجود میں آتا ہے خصوصا میاں اور بیوی کے درمیان اور ہمسایوں اور دوستوں کے درمیان اختلاف وجودمیں آتا ہے ۔

ممکن ہے یہاں پر یہ سؤال پیدا ہوجا‏‏‏ئے حضرت لقمان کی اس نصیحت میں انہوں نے جز‏‏‏ئیات کو بیان کیاہے ؟

تو اس سؤال کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتےہیں کہ چونکہ انسان کے اندر بری صفات انہی جز‏‏‏ئیات کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں مثال کے طور پر ماہ رمضان کے مہینے میں کو‏‏‏ئی شخص سب کے سامنے سگریٹ پیتا ہے اور اس کے دھواں کو آسمان کی طرف پھونکتا ہے تو اس کی یہ حالت ظاہری طور پر ایک جز‏‏‏ئی چیز ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جا‏‏‏ئے تو یہ خداوند متعال کے مقابل میں اس کے غرور کی علامت اور نشانی ہے اور معاشرے کے لوگوں کے سامنے ایک توہین اور گستاخی جو اس بندے کی اندرونی حالت یعنی ان کی روح کے فاسد ہونے کو بیان کرتی ہے ۔

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ انسان کے جسم کے بعض حصوں پر جو چھوٹے چھوٹے دانے موجود ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر کے نظریے کے مطابق جسم کی گندگی کی وجہ سے ہے جو خون اور گوشت کے درمیان جمع ہونے کیوجہ سے وجود میں آتے ہیں ۔

جبکہ یہی دانے اور نشانیاں انسان کے نفس (سانس ) کا علاج اور انکو پاک اور صاف کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔

حقیقت میں حضرت لقمان اپنی اس نصیحت میں تمام انسانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ان نشانیوں کے ذریعے سے اپنے اندرونی حالت کو پہچان لیں کیونکہ انسان کی اندرونی حالت کسی نہ کسی طریقے سے ان کے چہرے پر یا ان کے کردار و رفتار سے ظاہر ہو جاتی ہے ۔ جیسا کہ امیر المؤمنین کا فرمان ہے ۔ «مَا أَضْمَرَ أَحَدٌ شَيْئاً إِلَّا ظَهَرَ فِي فَلَتَاتِ لِسَانِهِ وَ صَفَحَاتِ وَجْهِه ‏; جو بھی اپنے دل میں کو‏‏‏ئی بات چھپا دیتا ہے وہ اس کی زبان سے نکلے گا یا اس کے چہرے پر ظاہر ہو جا‏‏‏ئے گا ۔(۱۳۹)

البتہ یہ بات واضح ہے کہ حضرت لقمان کی اس نصیحت سے مراد ہر قسم کی تکبر اور غرور سے پرہیز کرنا ہے ۔

اب مناسب ہے کہ ہم ان دونوں نشانیوں کا تجزیہ و تحلیل کریں ۔

۱۔غرور اور تکبر سے دوسروں سے رخ پھیرنا :

آداب اسلامی میں ہے ایک یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے سے ملتے وقت یا ان سے جدا ہوتے وقت ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ پیش آ‏‏‏ئیں سلام کریں اور خوش رفتاری سے ملیں یعنی آداب اسلامی کی رعایت کریں ۔ غصے کی حالت بناکر دوسروں سے منہ نہ موڑ یں چونکہ ایسا کرنے سے انسان کےاندر خود پسندی اور غرور پیدا ہوتا ہے جس کےنتیجہ میں انسان کی ایک دوسرے سے دوستیاں اور رابطے ختم ہو جاتے ہیں ۔

حضرت لقمان کی تعبیر میں جو بیان ہوا کہ :(( وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ) ) کلمہ تصعر اصل میں لفظ( صعر ) کے مادہ سے لیا گیا ہے ۔ یہ اصل میں ایک بیماری کا نام ہے جو غالبا اونٹ کو لگ جاتی ہے یعنی یہ بیماری اونٹ کی گردن کو ٹیڑھا کرتی ہے ۔ یہ تعبیر اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ کو‏‏‏ئی انسان جب دوسروں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کی اخلاقی بیماری کی نشانی ہے اور اس کے فکری انحراف کا ایک قسم ہے جبکہ سالم انسان کبھی بھی دوسروں کے ساتھ اس طرح کی رفتار اور اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کرتے ۔

کیونکہ دوسرے سے منہ موڑنا انکی توہین شمار ہوتا ہے اور اس کے بہت ہی برے آثار جیسے ( کینہ اور دشمنی ) وغیرہ وجود میں آتے ہیں اور انسان کے اخلاق کو تباہ و برباد کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ اور حتی کہ خداوند متعال نے پیغبر اسلام کو کافروں سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں اس طرح سے حکم دیا ہے کہ «... وَ اهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا»; اور شائستہ انداز میں ان سے دوری اختیار کیجیے۔(۱۴۰) یعنی ان سے آپکی یہ دوری محبت آمیز اور دلسوزی کے ساتھ ہو ۔

خداوند عالم کے اس حکم میں ان کے ساتھ نیک اور اچھی رفتار سے پیش آنے میں ایک حکمت ہے یعنی انکو اپنی طرف جلب کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔

علامہ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ «و في هذا دلالة على وجوب الصبر على الأذى لمن يدعو إلى الدين و المعاشرة بأحسن الأخلاق و استعمال الرفق ليكونوا أقرب إلى الإجابة; یہ آیت لوگوں کے ساتھ نیک اخلاق اور اچھی رفتار سے پیش آنے کو ثابت کرتی ہے تاکہ ان کو جو باتیں بتا‏‏‏ئی جاتی ہیں وہ جلدی قبول کریں ۔(۱۴۱)

اور پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کی روایات میں بھی اس کی تاکید ہو‏‏‏ئی ہے جیساکہ روایت میں ملتا ہے ایک شخص پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہو‏‏‏ا اور انکو نصیحت کرنے کو کہا تو پیغمبر اسلام نے فرمایا : «الْقَ‏ أَخَاكَ‏ بِوَجْهٍ‏ مُنْبَسِطٍ .; اپنے مسلمان بھا‏‏‏ئی کے ساتھ خوش رفتاری سے پیش آنا ۔(۱۴۲)

اور اسی طرح سے امام علی علیہ السلام نے بھی فرمایا :« زِينَةُ الشَّرِيفِ‏ التَّوَاضُع ‏; لوگوں کے ساتھ تواضع اور فروتنی کے ساتھ ملنا انسان کی شرافت اور زینت شمار ہوتی ہے ۔(۱۴۳)

نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے ‏‏‏لئے ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ملتے وقت ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آ‏‏‏ئے اور ہر قسم کی بداخلاقی اور غرور دور رہے تاکہ اس کے لئے آرامش اور محبت کا باعث بنے ۔