مجلس اول
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
( ایاک نعبد و ایاک نستعین )
حضرات محترم!
انسان اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا ہو کر یہ اقرار کرتا ہے‘ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اے میرے پالنے والے! میری گردن‘ میری سیس‘ میرا سر تیرے سامنے جھکے گا‘ تیری بارگاہ اقدس میں خم ہو گا‘ تیرے سوا کسی اور کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گا۔
اتنی بڑی ذات کے دربار میں یہ دعویٰ کرتا ہے اور یہ دعویٰ ایک دفعہ نہیں بلکہ شب و روز میں دس دفعہ کرتا ہے۔ یاللہ! میری گردن تیرے سامنے جھکے گی اور تیرے سوا کسی کے سامنے نہ جھکے گی تو اب خدا یہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے تو جس بات کا دعویٰ کر رہا ہے‘ بار بار اقرار کر رہا ہے اب تیرا عمل بھی اس زبانی دعوے اور اقرار باللسان کے عین مطابق ہونا چاہئے‘ یہ نہ ہو کہ تیرا دعویٰ صرف دعویٰ رہ جائے اور عمل اس کی گواہی نہ دے۔
سامعینِ مکرم!
سورئہ فاتحہ آپ اکثر پڑھتے ہیں اور اس میں ایاک نعبد و ایاک نستعینکا ہمیشہ اقرار کرتے ہیں۔ لفظ عبد کے کئی معانی ہیں‘ لیکن قرآن مجید میں یہ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے اور تینوں معانی پر مشتمل آیات موجود ہیں۔ عبد کے معنی ہیں غلام دوسرے معنی ہیں اطاعت و فرمانبرداری اور عبد کے تیسرے معنی نعبد یعنی پرستش اور پوجا کرنا ہیں یہ تین معانی قرآن مجید نے بیان کئے ہیں۔ پہلا معنی ہے غلامی‘ جیسے حضرت علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام فرعون کے دربار میں جاتے ہیں اور فرعون کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں فرعون کے حامی کہتے ہیں کہ آپ دعوت دے رہے ہیں‘ خدائے وحدہ لاشریک کی! حالانکہ آپ خود بھی ہمارے غلام ہیں اور آپ کی قوم بھی ہماری غلام ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر احسان جتایا کہ اے موسیٰ(علیہ السلام) ! آج تو ہمارے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ہمیں نادیدہ خدا کی طرف بلا رہا ہے‘ جس کو آج تک کسی نے نہ دیکھا نہ بھالا‘ حالانکہ ہم نے تیری تربیت و پرورش کی ہے۔ مراد یہ تھی کہ تجھے پال پوس کر اتنا بڑا کیا ہے‘ کیا اس احسان کا بدلہ یہی ہے؟ آیت قرآنی ہے:
( قالوا نومن بشرین مثلنا و قومهما لنا عابدون)
یعنی فرعون کے ساتھیوں نے کہا: کیا ہم ان دو آدمیوں کے کہنے پر عمل کر لیں جو ہم جیسے ہیں‘ ہماری طرح کے بشر ہیں‘ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ کیا ہم ان کے کہنے پر عمل کریں قومھما لنا عابدون‘ جن کی قوم ہماری غلام ہے فرعون کے ساتھ رہنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اپنا غلام کہہ رہے ہیں‘ لیکن جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہم نے آپ کی تربیت کی ہے تو حضرت موسیٰ(علیہ السلام)نے جواباً کہا‘ وہ قرآن میں یوں منقول ہے:
"اے فرعون! تیرا یہی العدم ہے مجھ پر جس کا احسان جتلا رہا ہے۔"
عبدت بنی اسرائیل
"کہ تو نے پورے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اور الٹا احسان جتلا رہا ہے کہ میں نے تیری تربیت کی!"
آپ نے غور کیا کہ دونوں آیات میں عبد کے معنی غلام ہی کے ہیں۔ حضرت موسیٰ(علیہ السلام)جب فرعون و آل فرعون کو دعوت توحید دینے گئے تو فرعون کے کارندے بنی اسرائیل کو غلام کہنے لگے۔ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نے کہا کہ تم احسان جتلا رہے ہو مجھ پر کہ ہم نے تمہاری تربیت کی‘ حالانکہ تم نے تو میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ گویا اس آیہ مبارکہ میں عبد کے معنی غلام ہوئے۔
حضرات گرامی!
عبد کے دوسرے معنی اطاعت کے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں سورئہ مبارکہ یٰسین میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
الم عهد الیکم یا بنی آدم الا تعبدوا الشیطن
"اے بنی آدم (علیہ السلام) ! کیا ہم نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا‘ عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی اطاعت نہیں کرو گے"
اب ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ شیطان کا غلام ہے یا شیطان کی عبادت کرتا ہے‘ لہٰذا اس آیت میں عبد کے معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں۔
اب تیسری آیت جس میں عبد کے معنی تعبد اور پرستش کے ہیں‘ ارشاد ہوتا ہے:
"عبادت کرتے ہیں‘ اللہ کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتی ہیں‘ نہ نقصان دے سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چیزیں دربار خداوندی میں ہماری شفاعت کرتی ہیں۔"
گویا اس آیہ مبارکہ میں عبد کے معنی عبادت و پرستش کے ہیں۔
مومنین!
آپ نے دیکھا کہ ان تینوں معنوں میں گہرا ربط پایا جاتا ہے‘ کیونکہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو خدا کا غلام سمجھے گا تو پھر یقیناً خدا کی اطاعت کرے گا اور اپنے آپ کو مطلقاً خدا کا غلام خیال کرتے ہوئے احکام خداوندی کے مطابق عمل کرے گا اور اگر اس عمل اطاعت میں کوئی لالچ نہ ہو‘ طمع نہ ہو‘ خوف نہ ہو اور اس قسم کی کوئی دوسری چیز نہ ہو تو یہی پرستش و عبادت ہو گی۔
تو قرآن مجید میں عبد کے یہ تین مربوط معانی مذکور ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں ایاک نعبد‘ خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سامنے سر نیاز خم کرتے ہیں تو ان معانی میں سے کون سا معنی مراد ہے؟
جیسے کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ ان تینوں معانی میں گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ ایک معنی کا دوسرے معنی سے گہرا تعلق ہے یعنی غلامی ہو گی تو اطاعت ہو گی اور اطاعت کا اعلیٰ ترین درجہ تعبد و ترقی ہو گا۔ چنانچہ قرآن مجید کی ایک اور آیہ مبارکہ میں تینوں معنی یکجا نظر آتے ہیں۔ پانچویں پارے میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لا یجدون فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما
"تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز مومن نہیں بنتے‘ ایمان کا دعویٰ ہے کہتے ہیں یا رسواللہ ہم آپ کی ذات پر ایمان لائے ہیں‘ لیکن یہ مومن ہرگز نہیں ہو سکتے جب تک ان کے اندر تین شرطیں نہ پائی جاتی ہوں۔"
پہلی شرط کیا ہے؟
حتی یحکموک فیما شجر بینهم
جب ان کے درمیان کوئی جھگڑا ہو‘ جب ان کے درمیان کوئی اختلاف ہو‘ جب ان کے درمیان کوئی تنازعہ ہو تو کسی اور کے پاس نہ جائیں‘ کسی کے دروازہ پر نہ جائیں‘ طاغوت کے پاس نہ جائیں بلکہ آپ کے دروازے پر آئیں‘ آپ کو حاکم بنائیں‘ آپ کی ذات کو فیصلہ کنندہ بنائیں اور آپ سے فیصلہ کرائیں تو پہلی شرط کیا ہوئی؟
بھئی آپ کی ذات کو فیصلہ کنندہ بنائیں‘ آپ کی ذات کو حاکم سمجھیں تو کیا تب اپنے آپ کو مومن سمجھیں‘ تب اپنے آپ کو مومن کہلائیں؟ کیا حافظ حاکم سمجھنے سے مومن بن جائیں گے؟ نہیں۔
ثم لا یجدوا فی انفسهم حرجا
یہ دوسری شرط صرف یہی نہیں کہ آپ کو حاکم سمجھیں بلکہ جب کوئی فیصلہ کر دیں‘ اپنی طرف سے کوئی حکم کر دیں تو ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ یہ حکم کیسا ہے؟ یہ فیصلہ کیسا ہے؟
اس حکم کے خلاف ان کے دل میں خیال نہ ہو‘ دل سے بھی یہ نہ کہیں کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ٹھیک نہیں۔
تیسری شرط‘ ویسلموا تسلیما‘ سر تسلیم خم کر دیں جس طرح سر تسلیم خم کرنے کا حق ہوتا ہے۔
تو آپ نے دیکھا کہ رسالتمآب کو خدا مخاطب کر کے کہہ رہا ہے‘ تیرے رب کی قسم! اے میرے حبیب۔ خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ اپنی قسم کھاتا ہوں‘ حالانکہ قسم اپنی کھائی جا رہی ہے‘ لیکن رسول اللہ کی عظمت کے اظہار کے لئے کہا جا رہا ہے‘ تیرے رب کی قسم! یہ مومن نہیں ہو سکتے‘ یہ مومن نہیں ہو سکتے‘ جب تک تمام معاملات میں تیری غلامی اختیار نہ کریں‘ تمام معاملات میں تیرے سامنے نہ جھکیں‘ پھر جب آپ فیصلہ دے دیں‘ کبھی فیصلے پر اشکال نہ کریں اور سر تسلیم اس طرح خم کریں‘ جس طرح خم کرنے کا حق ہے۔
تو گویا کہ غلامی بھی آ گئی‘ اطاعت بھی آ گئی‘ تعبد و پرستش بھی آ گئی۔ اب اگر کوئی اپنے آپ کو مومن کہلاتا ہے‘ لیکن رسول اللہ کوئی فیصلہ دے دیں تو اس میں کوئی کہہ دے کہ جس طرح آج مجھے نبوت میں شک ہوا ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تو ایسا شخص اپنے آپ کو سب کچھ کہلا سکتا ہے‘ لیکن مومن نہیں کہلا سکتا۔
ہم سب اپنے آپ کو خدا کا غلام کہتے ہیں‘ عبودیت کے قائل ہیں۔ ایک واقعہ جس سے ہم سمجھنے کی کوشش کریں‘ آیا واقعی ہم خدا کے عبد ہیں؟
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا گزر ایک گھر کے باہر سے ہوا‘ کیا سنتے ہیں کہ اس گھر سے گانے بجانے کی آواز آ رہی ہے‘ ناچ گانا ہو رہا ہے‘ دف بج رہی ہے‘ طنبورے بج رہے ہیں۔ حضرت اس گھر کے سامنے سے گزرے تو ایک کنیز باہر آئی۔
امام (علیہ السلام)نے پوچھا:
"اے کنیز خدا! یہ گھر کسی غلام کا ہے؟ جس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز آ رہی ہے؟ یہ کسی غلام کا گھر ہے‘ یا آزاد کا؟"
کنیز نے جواب دیا:
"یہ آزاد کا گھر ہے‘ غلام کا نہیں۔"
تو حضرت نے ارشاد فرمایا:
"کہ اگر یہ شخص اپنے آپ کو کسی کا غلام سمجھتا تو اس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز نہ آتی۔"
عبودیت کس طرح ہے؟ ہمارے آئمہ ۱ کے نزدیک‘ اگر یہ شخص اپنے آپ کو کسی کا غلام سمجھتا تو اس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز نہ آتی‘ یہ کہہ کر حضرت چلے گئے۔
کنیز گھر میں پہنچی‘ مالک نے سوال کیا‘ اس نے بتایا کہ باہر ایک خوبصورت اور نیک سیرت شخص آیا تھا‘ اس نے مجھ سے پوچھا‘ جب میں نے بتایا کہ یہ آزاد کا گھر ہے تو اس نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اپنے آپ کو کسی کا غلام سمجھتا تو اس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز نہ آتی۔
گویا جس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز آئے‘ جو حکم خدا کی نافرمانی کرے‘ جو خدا کے احکام کی نافرمانی کرتا ہے‘ جس کی توجہ خدا کے اوامر کی طرف نہیں ہوتی‘ جس کی توجہ خدا کے نواہی کی طرف نہیں ہوتی‘ جو اپنے آپ کو کسی کا پابند نہیں سمجھتا‘ اپنے آپ آزاد سمجھتا ہے تو اس کے گھر سے ایسی ہی آواز آئے گی۔
تو مولا فرماتے ہیں کہ اگر یہ کسی کا پابند ہوتا‘ کسی کے حکم پر کاربند ہوتا‘ کسی کا غلام ہوتا تو اس کے گھر سے گانے بجانے کی آواز نہ آتی۔ جب کنیز نے یہ بات بتائی تو اس بندئہ خدا نے جوتا تک نہیں پہنا‘ دوڑا ہوا آیا اور امام (علیہ السلام)کے قدموں میں گر گیا اور کہنے لگا:
"یا امام (علیہ السلام) ! آج سے پہلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا‘ آج کے بعد میں خود کو آپ کا بھی اور خدا کا بھی غلام سمجھوں گا۔"
یہ ہے امام (علیہ السلام)کے فرمان کی تاثیر کہ اس کے ایمان کی کایا پلٹ گئی۔ آپ کا اور آپ کے جد امجد کا غلام ہوں‘ خدا کا غلام ہوں‘ پھر کبھی مجھ سے ایسی غلطی سرزد نہ ہو گی‘ چونکہ یہ ننگے پاؤں امام (علیہ السلام)کی خدمت میں گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ساری زندگی یہ تہیہ کر لیا کہ ساری زندگی جوتے نہ پہنوں گا اور یہ کہا کرتا تھا کہ
"دیکھو لوگو! تم اپنے گھروں میں فرش بچھاتے ہو‘ جبکہ فرش اتنا قیمتی نہیں‘ جتنی خود زمین قیمتی ہے۔ فرش کی قیمت کم ہو گی‘ زمین کی قیمت سے‘ تو اگر فرش بچھا ہو تو جوتے سمیت اس فرش پر نہیں جاتے ہو‘ یہ زمین خدا کا بچھایا ہوا فرش‘ میں اس فرش زمین پر جوتے کے ساتھ کیسے چلوں؟
کیا میرے پاؤں میں اتنی عظمت پیدا ہو گئی ہے کہ میں زمین پر جوتے کے بغیر نہیں چل سکتا اور ساتھ ہی ساتھ کہتا تھا کہ میری توبہ کا ذریعہ امام (علیہ السلام)بنے ہیں اور اس وقت میں نے توبہ کی تھی جب میں جوتے کے بغیر گیا تھا اور ان کے قدموں میں توبہ کی تھی‘ جب میں ان کے قدموں میں جھکا ہوں‘ اب ساری زندگی جوتا نہ پہنوں گا۔"
اخلاقاً ادھر خدا فرماتا ہے:
"جو میرا بنتا ہے‘ میں اس کا ہو جاتا ہوں۔"
مولا فرماتے ہیں:
"جس کے دل میں خدا کا خوف ہو وہ کسی سے نہیں ڈرتا‘ بلکہ دنیا کی ہر چیز اس سے خوف زدہ ہوتی ہے۔"
چنانچہ اس تائب کے دل میں خوف خدا تھا‘ اس کے دل میں محبت ایمان تھی‘ اس کے دل میں محبت رسول ۱ تھی۔ اس کے دل میں محبت خدا پیدا ہو گئی تو خداوند عالم نے بھی جانوروں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ جس جس گلی سے بشیر حافی کا گزر ہوتا ہے‘ اس اس گلی میں جانور اپنا گوبر نہیں کرتے۔ چنانچہ جہاں سے یہ گزرتا تھا‘ وہاں سے جانور اگر گزرتے تو گوہر نہ کرتے اور جب لوگوں نے اس گلی میں جانوروں کا گوبر دیکھا تو سمجھ گئے کہ بشیر حافی فوت ہو گئے ہیں‘ ورنہ ان گلیوں میں جانوروں کا گوہر نظر نہ آتا۔
یہ ہے عظمت تائب آل محمدکی‘ جو پہلے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا‘ اب اپنے آپ کو خدا کا غلام سمجھتا ہے۔ جب سے غلام بنا‘ خدا نے جانوروں کو بھی اس کی عزت کرنے کا حکم دے دیا۔
تو جو خدا کا غلام ہو گا‘ وہ خدا کی اطاعت بھی کرے گا۔ جب اطاعت کرے گا اور یہ اطاعت بے خوف ہو گی‘ بغیر لالچ کے اطاعت ہو گی۔
لہٰذا ایسی اطاعت کو تعبد اور پرستش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہم سب مومن ہیں‘ مولائے کائنات ۱ کے ماننے والے ہیں‘ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ حکومت خدا کی ہے‘ جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے‘ یہ ہمارے ہاتھ میں امانت ہے‘ دیا اس نے ہے جب چاہے لے لے۔ ہم سارا دن کوشش کرتے ہیں‘ صبح سے لے کر شام تک کام کرتے ہیں‘ ہمیں کچھ مل جاتا ہے‘ مال و دولت ہمارے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے۔ ہم اگر یہ خیال کریں کہ مال و دولت ہمارا ہے تو ساتھ ہی یہ خیال ہونا چاہئے ہم جیسے اور لوگ بھی ہیں جو سارا دن محنت کرتے ہیں‘ لیکن ان کے پاس مال و دولت اکٹھا نہیں ہوتا‘ ہمارے پاس اکٹھا کیوں ہو گیا؟
ظاہر ہے جس کا مال ہے‘ اس کی ملحت ہے کہ اس نے ایک کو دیا ہے اور ایک کو نہیں دیا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں‘ مال و دولت کسی کے پاس ہوتا ہے‘ وہ زیادہ زحمت کرتا ہے‘ مال و دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ باوجود کوشش بسیار کے یہ خالی ہاتھ ہوتا جاتا ہے۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ بیچارہ گر رہا ہے‘ پستی کی طرف جا رہا ہے‘ زوال کی طرف جا رہا ہے‘ تو گویا یہ ہمارے اپنے ہاتھ کی چیز نہیں‘ کسی اور کے قبضے میں ہے‘ وہ چاہے تو دے دے‘ چاہے تو لے لے‘ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جب ہم دنیا میں آئے تھے تو دونوں ہاتھ خالی آئے تھے‘ حتیٰ کہ کپڑے تک بھی نہ تھے اور جب اس دنیا سے جائیں گے تو خالی ہاتھ جائیں گے‘ کسی نے کپڑے یعنی کفن دے دیا تو ٹھیک ہے ورنہ
حالت یہ ہے تو درمیان کا وقت جو ہمیں مہیا کیا گیا ہے‘ ہمیں چاہئے کہ ہماری توجہ خدا کی طرف ہو۔ رسول اللہ اور امام (علیہ السلام)کی طرف ہو۔ ہماری توجہ ان ذوات مقدسہ کہ جن کے ساتھ محبت کا حکم دیا گیا ہے‘ ان کی طرف ہو‘ ان کے حکم کے مطابق عمل کریں‘ پھر ہماری زندگی کامیاب ہو سکتی ہے۔ جب حکومت خدا کی ہے‘ سلطنت خدا کی ہے تو سلطنت میں فیصلہ بھی حکم خدا کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہم اور آپ جب عدالت میں بیٹھتے ہیں‘ فیصلہ کرتے ہیں‘ وہ فیصلہ کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط‘ لیکن نبی اور امام (علیہ السلام)جو فیصلہ دے دیں‘ وہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ کسی کی سمجھ میں فیصلہ نہ آئے‘ یہ الگ بات ہے‘ ممکن ہے کہ کوئی فیصلہ کو نہ سمجھ سکے‘ لیکن جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے وہ حق کو حقیقت تک پہنچاتا ہے‘ حکم خدا کے مطابق ہوتا ہے۔
ایک نبی جن کا نام داؤد علیہ السلام ہے‘ ان کو خداوند عالم کی طرف سے ارشاد ہو رہا ہے:
"اے میرے نبی ۱! اے داؤد! جب فیصلہ کرو تو حق کے مطابق کرو‘ کبھی اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔"
کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ نبی اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟
قطعا نہیں۔ خداوند عالم فرما رہا ہے:
"اے داؤد ۱! ہم نے زمین میں آپ کو خلیفہ بنایا ہے‘ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو۔"
فیضل عن سبیل الله
نبی کو کہا جا ر ہاہے کہ اگر اپنی خواہشات کے مطابق چلے تو خدا کے راستے سے بھٹک جاؤ گے‘ اتنا اہم حکم ہے جو داؤد نبی پر آ رہا ہے کہ آپ میرے نبی ہیں۔ نبی غلط فیصلہ نہیں کرتا‘ لیکن خداوند عالم پہلے سے آگاہ کر رہا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ فیصلہ ہمارے ذہن میں نہ آئے۔ اسی طرح ہو سکتا ہے‘ نبی فیصلہ کرے اور ہمارے ذہن میں نہ آئے‘ تو پہلے کہا جا رہا ہے کہ آپ نے حق کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے‘ خواہ کسی کے ذہن میں آئے یا نہ آئے۔
ایک فیصلہ ہمارے امام جعفر صادق کرتے ہیں۔
ابان بن تغلق‘ امام (علیہ السلام)کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے‘ عرض کرتا ہے:
"مولا فرزند رسول! اگر کوئی آدمی کسی عورت کی ایک انگلی کاٹ دے تو اس کی دیت کیا ہے؟"
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:
"دس اونٹ"۔
وہ عرض کرنے لگا:
"اگر دو انگلیاں کاٹ دی جائیں تو؟"
حضرت نے فرمایا:
"بیس اونٹ"۔
پھر عرض کرتا ہے کہ
"مولا ! اگر تین انگلیاں کاٹ دی جائیں تو؟"
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:
"تیس اونٹ"۔
پھر کہنے لگا:
"مولا ! اگر چار انگلیاں کاٹ دی جائیں تو؟"
امام (علیہ السلام)نے ارشاد فرمایا:
"بیس اونٹ"۔
توجہ فرمائیں اس بات پر اگر ایک انگلی کٹیں تو دیت دس اونٹ‘ دو انگلیاں کٹیں تو بیس اونٹ‘ اگر تین انگلیاں کٹیں تو تیس اونٹ اور اگر چار انگلیاں کٹیں تو پھر بیس اونٹ۔
ابان حیران و ششدر ہو کر کہتا ہے:
"فرزند رسول! آپ کیا فرما رہے ہیں؟ کہ اگر تین انگلایں کٹیں تو تیس اونٹ اور اگر چار انگلایں ہوں تو حکم چالیس اونٹ کی بجائے بیس اونٹ ہو گیا ہے‘ یہی حکم میں نے اپنے وطن میں سنا تھا‘ کسی نے مجھے بتایا تو میں نے کہا کہ معاذ اللہ یہ کسی اور کا حکم ہے‘ امام (علیہ السلام)کیسے حکم دے سکتے ہیں؟ کہ تین انگلیاں کاٹ دی جائیں تو تیس اونٹ دیت ہو گی اور اگر چار انگلیاں کاٹ دی جائیں تو بیس اونٹ۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ کسی غیر کا حکم ہے۔"
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:
"رک جا‘ کیا کہتا ہے؟ یہ اللہ کا حکم ہے‘ اللہ کے رسول ۱ کا حکم ہے‘ ہمارا ۱ حکم ہے۔"
کیسے ذہن میں آتا ہے؟
"مولا ! دو ہوں تو بیس اونٹ‘ تین ہوں تو تیس اونٹ‘ چار ہوں تو بیس اونٹ‘ پھر تو بہتر ہے کہ تیسری انگلی کے بعد چوتھی بھی کاٹ دینی چاہئے۔"
حضرت نے فرمایا:
"اللہ اور اس کے رسول ۱ کا حکم ہے اور ہمارا حکم ہے‘ تو کیسی بات کر رہا ہے۔"
وہ حیران ہو کر کہتا ہے کہ میں تو پریشان ہو رہا تھا کہ یہ غیر امام کا حکم ہے۔
امام (علیہ السلام)نے فرمایا:
"کیا تو نے سنا نہیں کہ عورت اور مرد دیت میں برابر ہوتے ہیں‘ مگر جب معاملہ تہائی ۳/۱ سے آگے بڑھ جائے تو عورت کی دیت آدھی ہو جاتی ہے‘ مرد برابر ہوتا ہے۔ جب معاملہ تہائی سے آگے بڑھ جائے تو عورت کی دیت آدھی ہو جاتی ہے‘ مرد کی دیت دگنی۔
اس لئے کہا ہے کہ ایک انگلی پر دس اونٹ‘ دو انگلیوں پر بیس اونٹ اور تین انگلیوں پر تیس اونٹ اور چار انگلیوں پر‘ تین انگلیوں تک معاملہ تہائی کا ہے اور جب معاملہ تہائی سے بڑھے گا تو میرے جد امجد ۱ کا حکم ہے کہ اب عورت کی دیت نصف ہو جائے گی۔"
تو ظاہر ہے یہ حکم انسان کی سمجھ میں نہیں آتا‘ لیکن یہ حکم خدا اور رسول اور آئمہ کا ہے اور ان کا فیصلہ حق ہوتا ہے۔
اسی طرح کا فیصلہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے۔
پہلے متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اے داؤد! لوگوں کو نہ دیکھنا کہ لوگ اشکال کریں گے‘ بلکہ حق کے ساتھ فیصلہ کرنا‘ کیسا فیصلہ ہو رہا ہے‘ لوگ کیا کہیں گے‘ کبھی اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرنا‘ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے‘ بھٹک جاؤ گے۔
حضرت داؤد ۱ کے پاس ایک فیصلہ آتا ہے‘ ایک مقدمہ آتا ہے‘ کیا ہے؟
ایک آدمی ایک نوجوان باغ میں داخل ہوا‘ اس نے باغ سے انگور توڑے‘ سیر ہو کر کھائے‘ جب یہ کھا لئے تو اس نے باغ سے اور انگور توڑے‘ اپنی جھولی بھری اور چل پڑا۔ اتفاقاً مالک آ گیا‘ اس نے دیکھا کہ اس نوجوان نے انگور کھائے بھی ہیں اور لے کر جا بھی رہا ہے‘ مالک نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور حضرت داؤد ۱ کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ اس نے میرے باغ سے انگور کھائے بھی ہیں اور لے کر بھی جا رہا ہے۔ نبی ۱ کے سامنے معاملہ پیش کیا گیا کہ یہ شخص بغیر اجازت باغ میں داخل ہوا۔
اس شخص سے پوچھا گیا کہ بتاؤ کیا معاملہ ہے؟
اس شخص نے کہا کہ یہ بالکل صحیح ہے کہ میں باغ میں آیا ہوں اور انگور توڑ کر کھائے بھی ہیں اور ساتھ بھی لے کر جا رہا ہوں‘ بغیر اجازت کے۔
ظاہر ہے چور اقرار کر رہا ہے‘ اس کو سزا بھی ملنی چاہئے‘ جب وہ خود کہہ رہا ہے تو اس کو سزا ملنی چاہئے ناں۔
جب وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ بس ہو گیا جو ہونا تھا‘ میں نے ایسا ہی کیا ہے۔
سرکار داؤد ۱ نے جب یہ معاملہ سنا تو پہلے مالک کو دیکھا‘ پھر چور کو دیکھا۔ دیکھنے کے بعد حکم دیا کہ چور کو بری کر دیا جائے‘ مالک کو قتل کر دیا جائے‘ یعنی چور کو سزا ملنی چاہئے تھی لیکن نبی ۱ فرما رہے ہیں کہ اس کو بری کر دو‘ مالک کو سزا دے دو۔ جس کا باغ ہے اس کو سزا کا حکم دے رہے ہیں۔
اب لوگ بڑے حیران ہیں کہ یہ کیسا فیصلہ ہو رہا ہے‘ شریعت کے مطابق چور کے ہاتھ کٹنا چاہئے تھے۔
داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے ساتھ باغ میں چلیں‘ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ باغ میں سب لوگ پہنچے‘ ایک جگہ کی نشان دہی فرمائی اور حکم دیا کہ اس جگہ کو کھودا جائے۔ جب کھودا گیا تو گڑھے میں سے لاش برآمد ہوئی۔ حضرت داؤد ۱ نے اس لاش کو حکم خدا سے زندہ کیا‘ جب اس سے پوچھا تجھے کس نے قتل کیا ہے؟
تو اس نے بتایا کہ میں مالک تھا۔ یہ میرے باپ کا نوکر تھا‘جو اب مالک بنا پھرتا ہے‘ اس نے مجھے قتل بھی کیا اور تیس ہزار درہم بھی لوٹ لئے اور باغ پر بھی قابض ہو گیا۔ یہ شخص جس نے انگور کھائے ہیں‘ یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ اس وقت اپنی ماں کے پیش میں تھا‘ ماں اسے لے کر اپنے میکے چلی گئی یہ وہاں پیدا ہوا‘ بڑا ہوا۔ ماں کبھی کبزی ذکر کرتی کہ ہمارا وطن فلاں فلاں جگہ ہے‘ اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ اپنے باپ کا وطن دیکھوں‘ سیر کروں‘ لہٰذا یہ باغ میں آیا اور انگور کھائے۔ اسے پتہ نہیں کہ یہ باغ کس کا ہے‘ انگور کھائے بھی ہیں اور ساتھ لے کر بھی جا رہا ہے۔
گویا نبی ۱ نے جو فیصلہ کیا گواہیوں کو نہیں دیکھا بلکہ نبی ۱ نے اپنی نبوت کی آنکھ سے دیکھا‘ نبوت کے علم سے دیکھا‘ نبوت کے اعجاز سے دیکھا کہ یہ شخص مالک ہے جس کو چور بنایا جا رہا ہے اور چور تو یہ ہے کہ جس کو مالک بنایا جا رہا ہے۔
اسی قسم کا فیصلہ ہی مولائے کائنات ۱ کا ہے۔
حلال مشاکل کا گزر ایک جگہ سے ہو رہا تھا‘ دیکھا کہ دو آمی آپس میں گتھم گتھا ہیں‘ لڑ رہے ہیں۔ پوچھا کیوں لڑتے ہو؟
وہ کہنے لگے کہ پیسوں کا معاملہ ہے۔ ایک دمی نے کہا کہ یہ میرے پیسے نہیں دیتا۔ دوسرے نے کہا کہ جتنا اس کا حق بنتا ہے میں اسے دے رہا ہوں‘ یہ لیتا نہیں‘ یہ اپنے حق سے زیادہ طلب کرتا ہے۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک آدمی کے پاس پانچ روٹیاں تھیں‘ جب یہ کھانے لگا تو ایک دوسرا شخص جس کے پاس تین روٹیاں تھیں‘ شامل ہو گیا اور دونوں مل کر روٹیاں کھانے لگے تو ایک تیسرا آدمی مہمان آ گیا‘ دونوں نے اسے دعوت دی‘ تینوں نے مل کر روٹیاں کھائیں۔ جب وہ تیسرا آدمی جانے لگا تو اس نے جیب سے آٹھ درہم نکالے اور انہیں دے دیئے اور چلا گیا‘ پہلا شخص کہنے لگا کہ میری پانچ روٹیاں تھیں اور اس کی تین روٹیاں‘ لہٰذا یہ تین درہم لے لے اور میں پانچ درہم لوں گا‘ کیونکہ میری پانچ روٹیاں تھیں۔
مولائے کائنات ۱ دوسرے آدمی سے فرمانے لگے کہ یہ تین درہم لے لے‘ یہ بہتر ہیں‘ لیکن تین والا کہتا ہے کہ نہیں‘ برابر برابر‘ چار درہم یہ لے اور چار درہم مجھے دے کیونکہ روٹیاں سب نے مل کر برابر کھائیں ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ پانچ درہم لے اور مجھے تین درہم دے۔
بہرحال ان میں یہ جھگڑا تھا۔
مولا نے فرمایا‘ تین لے لو‘ بہتر ہے۔
وہ کہنے لگا‘ نہین‘ میں تو حق کے ساتھ فیصلہ چاہتا ہوں‘ جو فیصلہ حق کے ساتھ ہو گا‘ وہ میرے لئے بہتر ہو گا۔
آپ نے فرمایا‘ بندئہ خدا! تیرا حق چار نہیں بنتا تین درہم لے لو فائدہ میں رہے گا۔ کہنے لگا کہ نہیں‘ جو حق بنتا ہے وہی لے دیں۔
مولا نے فرمایا‘ تو سنو میرا فیصلہ:
"پانچ روٹی والے کو سات درہم دے دو اور تین روٹی والے کو ایک درہم دے دو‘ کیونکہ اس کا حق تین درہم نہیں‘ ایک درہم ہے۔"
وہ حیران ہوا‘ عرض کرنے لگا:
"مولا ! وہ کیسے؟"
آپ نے فرمایا‘ تو سنو:
"تیری تھیں تین روٹیاں اور اس کی تھیں پانچ روٹیاں‘ جن کو مل کر تین آدمیوں نے کھایا‘ تو تین ضرب تین برابر نو اور پانچ ضرب تین برابر‘ پندرہ۔ نو اور پندرہ ہوئے چوبیس ٹکڑے جو کہ تم تینوں نے مل کر کھائے۔ ان میں سے آٹھ ٹکڑے تم نے خود کھائے‘ تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا بچا اور اس کے پندرہ ٹکڑوں میں سے آٹھ اس نے خود کھائے اور سات ٹکڑے اس کے آنے والے مہمان نے کھائے۔ اس طرح سات ٹکڑے اس کے تھے‘ اسے سات درہم لیں گے۔ تیرا ایک تکڑا مہمان نے کھایا‘ تجھے ایک درہم ملے گا۔"
امام (علیہ السلام)اور نبی جو بھی فیصلہ کرتے ہیں‘ حق کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ امام (علیہ السلام)تو وہ ہے جس کو نبی نے فرما دیا تھا‘ الحق مع علی و علی مع الحق لہٰذا ان ۱ کے کئے فیصلوں میں کبھی نقص نہیں آ سکتا‘ کیونکہ حق و حقیقت اس سے جدا نہیں اور یہ حق و حقیقت سے جدا نہیں۔
دوسرا کوئی بھی بڑا بن جائے‘ چودھری بن جائے‘ وہ فیصلہ کرے‘ اگرچہ وہ فیصلہ حق کا ہو‘ اس کے باوجود ایسی کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروا سکتا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہے وہ اشکال کرتا ہے‘ اعتراض کرتا ہے کہ جو عیب میرے اندر پائے جاتے ہیں وہ عیب آپ میں بھی تو پائے جاتے ہیں۔
ایک مشہور مقدمہ ہے۔
حضرت عمر کے پاس ایک عورت آئی‘ کہنے لگی کہ آپ کے فرزند نے میرے ساتھ زنا کیا تھا اور یہ بچہ پیدا ہوا ہے‘ یہ آپ کا پوتا ہے لہٰذا اسے لے لیجئے۔ اس نے پہلے شراب پی تھی پھر زنا کیا۔ وہی حد جاری کرنے والا واقعہ۔ جس پر سزا لاگو ہونا تھی اس نے اقرار جرم تو کر لیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے سزا وہ دے‘ حد وہ جاری کرے‘ نفاذ شریعت وہ کرے‘ جو خود ان عیبوں سے پاک ہو‘ جس میں یہ عیب نہ ہوں۔
اب سب لوگ کہاں چلے؟
حلال مشاکل کے پاس۔
صلواة
سب لوگ اکٹھے ہو کر مولا کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ گھر آئے‘ مولا گھر میں نہیں ہیں‘ یہودی کے باغ میں پہنچے‘ دیکھا کہ مولا مزدوری کر رہے ہیں۔
کہنے لگے‘ یاعلی (علیہ السلام)ہم پھنس گئے ہیں۔
مولا نے فرمایا:
"بتاؤ کیا مشکل آن پڑی کہ تم پھنس گئے ہو۔"
پورا واقعہ سنا کر عرض کی:
"مولا مجرم کہہ رہا ہے کہ حد وہ جاری کرے جو خود بے عیب ہو۔ اب مجمع میں کوئی زانی ہے‘ کوئی شرابی رہا ہے‘ یہ جرائم تو ہم میں ہر ایک سے کبھی نہ کبھی سرزد ہوا ہے‘ کدھر جائیں۔"
آپ نے ارشاد فرمایا:
"یہ کوئی مشکل نہیں‘ میں حلال مشاکل جو ہوں تمہاری مشکل حل کرنے کیلئے۔ ارے یہ حد تو میرے حسنین ۱ بھی جاری کر سکتے ہیں۔"
صلواة
یہ وہ ذوات مقدمہ ہیں‘ جو طاہر و پاکیزہ ہیں‘ طہارت کی انتہا پر فائز ہیں‘ یہ مجمع طہارت ہیں۔ انسان جو نطفہ گنجیدہ سے پیدا ہوا ہے‘ نجس ہے‘ اب یہ نجس انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو جنت کا حقدار ٹھہرائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو پاک بنائے۔
کس طرح بنائے؟
اس طرح کہ ان ذوات مقدسہ کی طہارت کی شعاعیں اس شخص تک پہنچیں‘ تب یہ پاک ہوا۔ اب اگر اس پر طہارت یا پاکیزگی کی شعاعیں اس پر پڑتی ہیں تو کچھ نہ کچھ طہارت اس میں بھی پیدا ہو جائے گی۔ طہارت کے حصول کے بعد اس قابل ہو گا کہ جنت میں جا سکے۔
ایک دفعہ ایک آدمی دربار میں آیا اور کہنے لگا:
"میں فتنہ کو دوست رکھتا ہوں‘ اس کے ساتھ مجھے محبت ہے‘ جس کو آج تک نہیں دیکھا‘ اس پر ایمان رکھتا ہوں‘ جو چیز آج تک پیدا نہیں ہوئی۔"
اب جو صاحب تھے حیران و پریشان ہو گئے کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ میں فتنے کو دوست رکھتا ہوں‘ جس کو نہیں دیکھا اس پر ایمان لایا ہوں‘ حق کو ناپسند کرتا ہوں‘ جو چیز پیدا نہیں ہوئی اس پر ایمان لایا ہوں۔
جب انسان کو جواب نہ آئے تو کہتا ہے‘ زندیق ہے‘ کہہ دیا کر‘ اس کو نکال دو‘ فتوے دہریہ لگائے گئے۔ جب اس کو دربار سے نکالنے لگے تو اس شخص نے کہا کہ عجیب حکومت ہے‘ عجب بادشاہی ہے کہ جب جواب نہ آئے تو اس پر فتوے لگائے جائیں۔
اس نے اسلام پر اشکال کیا‘ یہ نہیں دیکھا کہ سامنے کون بیٹھا ہے‘ اسلام پر اشکال کر رہا ہے‘ حاکم‘ دین اسلام کی حکومت کا ہے کہ جو مسئلہ نہ آتا ہو‘ جس مسئلے کا جواب نہ آئے تو مسئلہ پوچھنے والے کو دھتکار دیا جائے۔
حضرت سلیمان فارسی نے جب یہ ماجرا دیکھا تو پوچھا:
"اے بندگانِ خدا! اس کے مسئلے کا جواب دو‘ اسے کیوں باہر نکال رہے ہو؟"
تو حاکم نے جواب دیا کہ:
"مجھے اس کا جواب نہیں آتا۔"
اب اجتماعی طور پر سب یہودی کے باغ میں پہنچے‘ جہاں مولا مزدوری کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:
"سب دوزانو ہو کر بیٹھو جیسے شاگرد دوزانو ہو کر بیٹھتا ہے‘ پھر میں جواب دوں گا۔" (کیا کہنا ہے)
سب دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت نے بیلچہ ایک طرف رکھا اور فرمانے لگے:
"اے یہودی! اب سوال کر تیرا سوال کیا ہے؟"
یہودی نے وہی سوالات دہرائے۔
مولائے کائنات ۱ نے فرمایا:
"اگرچہ یہ یہودی ہے لیکن سچا ہے سچ کہہ رہا ہے۔"
سب حیران ہو گئے کہ
انما اموالکم و اولاد کم فتنة
مولا نے فرمایا‘ کیا قرآن مجید میں نہیں کہا گیا؟ تمہارا مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے۔ کون ہے جو مال کے ساتھ دوستی اور اولاد کے ساتھ محبت نہیں رکھتا ہے؟
دوسرا سوال کہ حق کو ناپسند کرتا ہوں تو یہ موت کو ناپسند کرتا ہے۔ آپ میں سے کون ہے‘ جو موت کو پسند کرتا ہو؟
وجاعت سکراة الموت بالحق ذلک ماکنت منہ تحید
"موت ہمیشہ حق ہے‘ حق کو کون پسند کرتا ہے‘ آپ سب موت کو ناپسند کرتے ہیں‘ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ میں حق کو ناپسند کرتا ہوں۔"
تیسرا سوال‘ ایسی چیز تو رسالتمآب ۱ کو اس نے نہیں دیکھا‘ لیکن ان پر ایمان لایا ہے۔
یہ سچ کہتا ہے۔
چوتھا کہ یہ قیامت کا اقرار کرتا ہے کہ جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئی‘ قیامت۔
یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں جو ہر سائل کے ہر سوال کا جواب ہر وقت دے سکتے ہیں۔ کبھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ سائل سوال کرے اور یہ جواب نہ دیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے چوتھے امام (علیہ السلام)فرمایا کرتے تھے کہ اگر تشہد میں کلمہ "لا" نہ ہوتا‘ جسے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں‘ تو کبھی ہماری زبان پر "لا" نہ آتا‘ یعنی تشہد میں اگر کلمہ "لا" نہ ہوتا تو ہم بھی "لا" نہ کہتے۔
ایک دفعہ مولا تشریف لے جا رہے تھے‘ سلیمان ۱ بھی ساتھ ہے۔ دیکھا کہ ایک جگہ چیونٹیاں بکثرت موجود ہیں۔
سلیمان نے عرض کیا:
سبحان من احصی عدد النمل
"پاک ہے وہ ذات جو ان کی ذات کو جانتی ہے۔"
امام (علیہ السلام)نے فرمایا‘ اے سلیمان! ایسے نہ ہو کہ جو ان کی تعداد کو جانتا ہے‘ بلکہ کہو:
سبحان من خلق النمل
"پاک ہے وہ ذات جس نے ان کو پیدا کیا۔"
سلیمان نے پوچھا:
" یا مولا ! کیا خدا کے علاوہ بھی کوئی ہے جو ان چیونٹیوں کی تعداد کو جانتا ہے؟"
حضرت مولا کائنات نے فرمایا:
"تم تعداد کا کہہ رہے ہو‘ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ ان میں نر کتنے ہیں اور مادہ کتنے۔ اس کی موت کب آئے گی اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کی موت کس ذریعے سے آئے گی؟"
یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں‘ جن کے سامنے کائنات ہے‘ لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ جب بھی کوئی کام کیا ہے‘ دین کے لئے کیا ہے۔
مولا ارشاد فرماتے ہیں:
افضل الجهاد من قال کلمة حق عند سلطان جائر
"سب سے بڑا جہاد وہ ہے کہ سچی بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہے‘ بادشاہ کے خوف سے رک نہ جائے‘ ڈر نہ جائے‘ تھیلوں کو دیکھ کر لالچ میں نہ آ جائے‘ مذہب کو تبدیل نہ کرے‘ سامنے اولاد اسی طرح کہہ دے۔"
ان ذوات مقدسہ نے کبھی کسی ظالم بادشاہ سے خوف نہیں کھایا‘ ہمیشہ حق کی بات کہی‘ کبھی ڈرے نہیں۔
جب معاویہ دنیا سے چلا گیا‘ یزید کی حکومت آئی‘ اس نے امام (علیہ السلام)کو بلایا۔ یزید کی بیعت کریں۔
کس کو کہا؟
حسین(علیہ السلام)کو کہا جا رہا ہے۔
کیا کہنا حسین(علیہ السلام)ابن فاطمہ ۱ کا۔
فرمایا:
مثلی لا یبایع مثله
"یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ مجھ جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کرتا۔"
پورے اہل بیت (علیھم السلام)آ گئے‘ اس جملے میں۔
جو بھی یزید جیسا ہو گیا‘ پھر کبھی جرات نہیں کی کہ اہل بیت (علیھم السلام)سے بیعت مانگیں۔
امام (علیہ السلام)نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
نیک بی بی سلمیٰ:
"اے میرے بیٹے حسین(علیہ السلام)ہمیں غمگین نہ کریں‘ آپ عراق کی طرف سفر نہ کریں‘ کیونکہ میں نے اپنے نبی سے سنا کہ میرا بیٹا کربلا کی زمین پر تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کر دیا جائے گا۔ کسی اور جگہ چلے جانا‘ لیکن عراق میں نہ جایئے۔"
امام (علیہ السلام)نے جواباً فرمایا:
یا اماه انی اعلم
"مجھے علم ہے کہ میں شہید ہو جاؤں گا۔"
انی لا عرف یوم الذی اقتل فیه
"نانی اماں! مجھے تو اس دن کا بھی پتہ ہے جب کہ دسویں محرم کو مجھے ذبح کیا جائے گا‘ مجھے اس جگہ کا بھی پتہ ہے جس جگہ میری شہادت واقع ہو گی۔
نانی اماں! اگر آپ میری مقتل دیکھنا چاہیں تو میری ان انگلیوں میں سے دیکھیں۔"
امِ سلمیٰ نے جو دیکھا کہ ایک گہری جگہ پر ایک یک و تنہا مظلوم ہے‘ جس کا سر سجدہ کی حالت میں ہے‘ کوئی تیر مارتا ہے‘ کوئی پتھر مارتا ہے اور اس سر سے آواز آتی ہے کہ
سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده
عرض کی مولا :
"آپ بہنوں کو تو نہ لے جائیں۔"
فرمایا:
"اللہ چاہتا ہے کہ زینب (علیھا السلام)و کلثوم (علیھا السلام)اسیر ہو جائیں‘ میرے بچے مارے جائیں‘ قید ہو جائیں۔"
صرف ایک جملہ‘ امِ سلمیٰ رو رہی ہیں اور امِ سلمیٰ نے بتایا کہ آپ کے نانا نے مجھے ایک مٹی دی تھی۔ امام (علیہ السلام)نے بھی ایک شیشی دے دی۔ ایسا وقت آیا کہ امِ سلمیٰ نے خواب میں رسول ۱ کو دیکھا۔
میری جان قربان ہو۔
رسول کے سر پر خاک ہے‘ گریبان چاک ہے‘ ایک ہاتھ میں خون سے بھری شیشی ہے اور کہہ رہے ہیں:
"امِ سلمیٰ! ابھی ابھی کربلا سے آیا ہوں‘ میرے حسین(علیہ السلام)کو شہید کر دیا گیا۔"
امِ سلمیٰ نے دیکھا شیشی کو‘ دروازے پر گئیں‘ شیشی کو رکھ دیا اور رو رہی ہیں۔ جب ہاشمی عورتیں جمع ہوئیں‘ عورتیں پیٹتی ہیں‘ ماتم کر رہی ہیں کہ اچانک امِ سلمیٰ نے کہا‘ دیکھو حسین(علیہ السلام)کی ایک چھوٹی بچی اس گھر میں رہتی ہے‘ اسے تمہارے گریہ کا علم نہ ہونا چاہئے‘ اسے دیکھ کر گریہ نہ کرنا‘ وہ برداشت نہ کر سکے گی۔
اتنی دیر میں دختر حسین(علیہ السلام)آئی‘ چھوٹا سانس ہے کمر جھکی ہوئی ہے‘ سب نے اپنے آنسو صاف کر لئے‘ نانی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہیں:
کیوں رو رہی ہیں‘ نانی اماں؟
میں حسین(علیہ السلام)کی بیٹی ہوں‘ اکبر کی بہن ہوں‘ قاسم کی بہن ہوں۔
بتایئے ناں۔ آپ کیوں رو رہی ہیں اور یہ شیشی خون کی کیوں ہو گئی؟
اب امِ سلمیٰ ۱ کو ساری حقیقت بتانا پڑی۔
جب رسول اللہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو حالت کیا ہو گی؟ آستینیں چڑھی ہوں گی‘ آنسو رواں ہوں گے‘ سر کے بال کھلے ہوں گے۔
اس حالت میں رسول کے پیچھے انبیاء(علیہم السلام)بھی ہوں گے‘ روتے ہوئے آئیں گے۔
گویا میں احمد مصطفی (ص)کو دیکھ رہا ہوں‘ کیا کہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ تم نے میری اولاد کا خیال نہ کیا۔
اے میری امت! تمہاری تلواروں نے خون حسین(علیہ السلام) نہیں بہایا بلکہ خون محمد بہایا ہے۔
کیا کبھی سوچا ہے کہ یہ خون کس کا ہے؟
کس کی بیٹی تھی جن کو کوفہ و شام کے بازار میں پھرایا ہو گا؟
فرشتے رو رہے ہوں گے‘ انبیاء(علیہم السلام)رو رہے ہوں گے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کہ تمہاری بیٹیاں پردوں میں بیٹھی ہوں اور میری بیٹیاں بازاروں اور درباروں میں پھرائی گئیں۔
جب میں دنیا سے جانے لگا تو میں نے وصیت کی تھی کہ میری اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
لیکن جب میری بیٹی فاطمہ ۱ میرے پاس آئی تو اس کا پہلو زخمی تھا‘ اسے تم نے کتنی اذیت دی۔
کس طرح مسلمانوں کے دربار میں کھڑی رہی؟