مجلس سوم
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
( ایاک نعبد و ایاک نستعین )
عزیزان گرامی!
انسان بارگاہ رب العزت میں یہ اقرار کر رہا ہے‘ دعویٰ کر رہا ہے‘ اے خدا! میرا سر فقط تیرے سامنے خم ہو گا‘ فقط تیری ہی عبادت کرے گا‘ تیرے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرے گا۔ اسی دعویٰ کے بارے میں پارہ نمبر ۱۵ میں ارشاد ہو رہا ہے
وقضی ربک الا تعبد والا ایاه و بالوالدین احسانا
"اٹل فیصلہ ہے کسی اور کے سامنے نہیں جھکے گا انسان"
وقفیٰ خدا کا اٹل فیصلہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو سکتی ہے‘ سر تسلیم اس کے سامنے خم ہو گا۔ اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکنا چاہئے۔ اسی عبادت کے ساتھ ساتھ ہمیں خدا ایک اور حکم دیتا ہے۔ انسان اس حکم کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ کہاں عبادت خدا اور کجا یہ حکم۔
ارشاد ہوتا ہے‘ خدا کا اٹل فیصلہ ہے اس کی عبادت کرو اور خدا کا اٹل فیصلہ ہے کہ
و بالو الدین احسانا
"اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو۔"
یعنی اپنی عبادت اور والدین کے ساتھ احسان‘ خدا نے دونوں کو اکٹھا بیان کیا ہے‘ دونوں کے لئے اکٹھا جملہ کہا گیا ہے‘ دونوں کے لئے ایک جملہ ہے کہ اس کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔
اس لئے فرمایا کہ دنیا میں رہنے والا جو شخص اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا‘ حالانکہ ان کے احسان کو دیکھ رہا ہے‘ اس کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی‘ اچھائی سے پیش نہیں آتا‘ ان کی عزت نہیں کرتا‘ تعظیم سے پیش نہیں آتا۔
خداوند عالم نے والدین کا درجہ بہت بلند فرمایا ہے کہ اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا ہے۔
اور کہا‘ دیکھو
اما ببلغن عندک الکبر احد هما او کلاهما
"اگر والدین میں سے ایک بوڑھا ہو جائے تو کبھی والدین کے سامنے اُف تک نہ کہو۔"
یعنی کہ والدین کی توہین کرے یا ان کی بات نہ مانے بجائے اس کے کہ خدا فرماتا ہے کہ ان کے سامنے اُف تک نہ کہو اور اس کے ساتھ دلیل یہ دی گئی کہ دیکھو انہوں نے تیری پرورش کی‘ جب تو بچہ تھا تیری تربیت کی‘ رات دن تیرے لئے ایک کیا‘ ہر قسم کا آرام تجھے پہنچایا‘ خود تکلیف برداشت کرتے رہے‘ لیکن تجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں دی۔ اب ان کو تیری ضرورت ہے‘ اب ان کو تیری خدمت کی ضرورت ہے‘ جس طرح انہوں نے تیری پرورش‘ تیری تربیت کی ہے‘ اسی طرح تجھے چاہئے کہ بڑھاپے میں ان کی خدمت کرے‘ ان کی اطاعت کرے اگر تو ایسا کرے گا تو یہ معمولی سا ان کی خدمت کا بدلہ ہو گا‘ احسان اتار نہیں سکتا۔
انسان کہہ رہا ہے خدایا! میں تیرے آگے تیرے سامنے جھکوں گا‘ تیرے علاوہ کسی اور کے سامنے نہیں جھکوں گا۔
سامعین گرامی!
دو طرح کی شخصیتیں پائی جاتی ہیں‘ کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ساری زندگی ایسی عبادت کی کہ اول زندگی سے لے کر آخر زندگی تک کبھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا‘ خدا کے علاوہ کبھی کسی کے سامنے سر خم نہیں کیا۔ انہیں مال کی ضرورت تھی‘ نہ دوست احباب کے سامنے جھکے نہ کسی بڑی شخصیت کے سامنے جھکے‘ ان کی توجہ صرف اور صرف خدا کی طرف تھی۔
دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی زندگی میں کافی حصہ خدا کے سامنے نہیں جھکتے‘ بتوں کے سامنے جھکتے رہے اور جب بھی کبھی جھکے تو اپنی خواہشات کی خاطر جھکے‘ کبھی دوست احباب کے پیچھے لگ گئے‘ کوئی مال و دولت کی خواہش میں جھک گئے‘ مختلف چیزوں کے سامنے جھکتے رہے۔ جس طرح خدا کے سامنے جھکنا تھا وہ نہیں جھکے۔
تو اب دو قسم کے لوگ ہیں‘ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کے علاوہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکتے حتیٰ کہ اپنی خواہشات کے سامنے بھی کبھی نہیں جھکتے اور دوسری قسم کے لوگ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا کافی حصہ بتوں کی پرستش کرتے رہے اور جب بھی خدا کے سامنے جھکے اپنی مطلب براری کیلئے
دوسرے لوگ ایسے ہیں جو خدا کے علاوہ غیر خدا کی پوجا کرتے رہے۔ تو جب یہ دو قسم کے گروہ ہو گئے تو خداوند عالم دونوں کا تذکرہ قرآن میں فرما رہا ہے
افمن یهدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یهدی
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو حق کی پیروی کرتے ہیں‘ حق کی طرف ہدایت کرتے ہیں‘ حق کی طرف رہبری کرتے ہیں‘ حق کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ہمیشہ خود حق کے مطابق چلتے رہے‘ ان کی خواہش ہے کہ تم بھی حق کے مطابق چلو۔ ہمیشہ وہ حق کے پیروکار ہیں‘ وہ چاہتے ہیں‘ تم بھی حق کی پیروی کرو۔ حق کی پیروی سے کبھی انہوں نے انحراف نہیں کیا‘ وہ چاہتے ہیں‘ تم بھی کبھی حق کی پیروی سے انحراف نہ کرو۔ وہ بھی حق کے سامنے جھکتے رہے‘ حق کے علاوہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے‘ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی حق کے سامنے حق کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکو۔
اس کے مقابلے میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جن کو پتہ ہی نہیں کہ حق کیا ہے؟
جو ہدایت یافتہ ہی نہیں‘ خود ہدایت سے دور ہیں‘ جو لوگ خود ہدایت سے دور ہیں‘ وہ تمہیں ہدایت کیا کریں گے؟
جو خود حق سے دور ہیں‘ وہ تم کو حق تک کیسے پہنچائیں گے؟ جو لوگ خود ہدایت یافتہ نہیں‘ وہ رہبری کیا کریں گے؟ یہ لوگ غیر اللہ کے سامنے جھکتے رہے‘ ان کی پرستش کرتے رہے‘ ان کی فرمانبرداری کرتے رہے‘ بتوں کے سامنے جھکتے رہے‘ اپنی خواہشات کے سامنے جھکتے رہے‘ مال و دولت کے سامنے ان کا سر خم ہوتا رہا۔
اب یہ دو قسم کے لوگ ہیں‘ ایک وہ جو فقط حق کے سامنے جھکتے رہے‘ حق کی رہنمائی کرتے رہے۔ ایک وہ جنہیں حق کا علم ہی نہیں جنہیں معرفت ہی نہیں‘ حق کی جنہیں پہچان ہی نہیں
جو ہدایت یافتہ ہیں‘ دوسرے لفطوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ جو حق کی رہبری کرتے‘ بتوں کے توڑنے والے ہیں۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں‘ جن کو حق کا پتہ نہیں‘ لہٰذا وہ بتوں کے سامنے جھکنے والے ہیں۔ اب یہ دو قسم کے لوگ موجود ہیں۔
خداوند کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
فما لکم کیف تحکمون
اب بتاؤ تمہارا فیصلہ کیا ہے؟ کیا ان کی پیروی کرو گے؟ جنہوں نے حق کی پیروی نہیں کی‘ حق کی رہبری نہیں کی‘ جو ہدایت یافتہ نہیں اور بتوں کی پرستش کرنے والے ہیں۔ ان کے سامنے جھکو گے جنہیں خود پتہ نہیں کہ حق کیا ہے۔ جنہیں خود پتہ نہیں کہ ہدایت کیا ہے۔ جو خود بے ہدایتے ہیں‘ وہ تمہیں ہدایت کیا دیں گے؟ جو خود بتوں کے آگے جھکنے والے ہیں‘ وہ تمہیں کیا بتائیں گے؟ اب بتاؤ تمہارا فیصلہ کیا ہے؟ آیا ان کی طرف جاؤ گے؟
جو حق کی طرف جھکنے والے ہیں‘ حق کی طرف رہبری کرنے والے ہیں‘ بتوں کو توڑنے والے ہیں یا ان کے سامنے جھکو گے جو بتوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے والے ہیں۔
تم بتلاؤ تمہارا فیصلہ کیا ہے؟
خدا اپنی طرف سے فیصلہ نہیں کر رہا‘ پوچھ رہا ہے‘ تم بتاؤ تمہارا فیصلہ کیا ہے؟
کیا ان کی طرف جاؤ گے جو خواہشات کی پیروی کرتے ہیں؟ ہم اگرچہ توحید کے قائل ہیں‘ لیکن اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں‘ خدا کے حکم کی پرواہ کم کرتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خدا کے حکم کی پیروی نہیں کرتے تھے‘ حکم خدا پر نہیں چلتے تھے‘ خدا کی نہیں ان کی توجہ غیر خدا کی طرف ہوتی تھی‘ انہیں کا تذکرہ قرآن مجید میں ہو رہا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے
"اے میرے بندے! کبھی ایسے لوگوں کی اطاعت نہ کرنا جو میرے ذکر سے غافل ہیں۔ ان کی توجہ میری یاد کی طرف نہیں‘ ان کی توجہ میرے ذکر کی طرف نہیں‘ وہ مجھ سے غافل ہیں‘ کبھی ان کی اطاعت نہ کرنا۔"
جو میرے ذکر سے غافل ہیں‘ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں‘ وہ حد سے زیادہ تلاوت کرتے ہیں‘ جو لوگ خود خدا سے غافل ہیں‘ جن کی توجہ خدا کی طرف نہیں‘ ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور حق کی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
دوسری طرف ارشاد ہوا
من تبع هواه
"جو شخص اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے‘ وہ تباہ ہو جاتا ہے‘ وہ خدا کا بندہ کہلانے کا حق دار نہیں۔"
تیسری جگہ ارشاد ہوتا ہے
"کتنا گمراہ ہے وہ شخص جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔"
حالانکہ خدا نے اسے اس لئے نہیں بنایا تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق چلے‘ خدا کی یہ ہدایت نہیں تھی کہ اپنی خواہشات کے مطابق چلے۔
یہ کس کی بات ہوئی؟ جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے‘ خواہشات کے مطابق چلتا ہے‘ یہ خواہش کے پیچھے چلنا کوئی معمولی چیز نہیں۔
قرآن کے تئیسویں پارہ میں ذکر کیا گیا ہے
"میرے حبیب! ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہا کہ انہوں نے خواہش کو خدا بنا لیا ہے۔ کیا اس میں کوئی شک ہے؟ جو یہ کہتے ہیں کہ خواہش میرا خدا ہے۔"
کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خواہش کی پیروی کرتا ہوں‘ خواہش کو خدا سمجھتا ہوں؟ کوئی شخص یہ کہنے کو تیار نہیں۔
انسان کی خواہشات یہ ہیں کہ خواہش کے مطابق عمل ہو۔
خدا کہتا ہے کہ اس کے حکم پر عمل ہو۔
جب انسان احباب اور خدا کے حکم کی تعمیل کا ٹکراؤ ہو جائے‘ انسان کے دوست یہ چاہتے ہیں کہ تم یہ کام کرو۔
خدا چاہتا ہے کہ انسان اس طرح کام کرے‘ جب انسان کے مال و دولت اور خدا کے حکم کے درمیان ٹکراؤ ہو جائے۔
دیکھئے خداکچھ چاہتا ہے۔ معاشرہ‘ دوست‘ احباب‘ انسانی خواہشات کچھ چاہتی ہیں۔ فیصلہ کیسے ہو گا؟ اگر ہم خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں‘ دوست احباب کی خواہشات کو ٹھکرا دیتے ہیں‘ اپنی خواہشات کو ٹھکرا دیتے ہیں‘ جیسے خدا کا حکم ہے اس کے مطابق چلتے ہیں تو
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم خدا کے عبد ہیں۔
ہم خدا کے غلام ہیں۔
ہم خدا کے بندے ہیں۔
لیکن اگر خدا کے حکم کو ٹھکرا دیا‘ اپنی خواہشات پر عمل کیا‘ خدا کے حکم کو ٹھکرا دیا‘ دوست احباب کے کہنے پر عمل کیا‘ خدا کے حکم کو ٹھکرا دیا۔
زبان سے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں‘ لیکن ہمارا عمل گواہی دے رہا ہے کہ ہم خدا کے بندے نہیں۔
بلکہ اپنی خواہش کے پیرو ہیں۔ صلواة
اسی لئے ارشاد ہو رہا ہے
ارایت من اتخذاله هواه
کیا دیکھ نہیں رہا کہ اپنی خواہش کے مطابق چل رہا ہے‘ اس کا عمل گواہی دے رہا ہے‘ دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہے۔
ادھر منادی ندا دے رہا ہے
حی علی الصلوٰة‘ حی علی الفلاح
دوست احباب کہتے ہیں کہ نماز میں ابھی بڑا وقت پڑا ہے‘ پڑھ ہی لیں گے۔ اب دوست احباب کی محفل کو نہیں چھوڑتا۔
کیونکہ دوست احباب کی محفلیں کبھی کبھی ہوتی ہیں‘ نماز پانچ وقت پڑھنی پڑتی ہے۔
اب ٹکراؤ آ گیا دوست احباب کی محبت اور خدا کی محبت میں۔
اگر ہم نے محفل ترک نہ کی‘ نماز نہ پڑھی‘ منادی کی ندا کو نظرانداز کر دیا تو یاد رکھئے زبانی تو ہم کہہ رہے ہیں۔
خدایا! ہم تیرے بندے ہیں‘ لیکن ہمارا عمل اس کی گواہی کی نفی کر رہا ہے۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں‘ ہمارا سر تیرے سامنے ہی جھکے گا‘ لیکن عملی طور پر ہمارا سر تیرے سامنے نہیں جھکا‘ ہمارا سر دوست احباب کے سامنے جھک رہا ہے‘ ہمارا سر معاشرے کے سامنے جھک رہا ہے۔ جس طرح معاشرہ چلتا ہے‘ ہم اسی طرح چلتے ہیں۔
خدا کہتا ہے کہ یہ کام کرو گے تو گنہگار ہو جاؤ گے۔ رسول اللہ کہتے ہیں گناہ ہے‘ امام (علیہ السلام)کہتے ہیں گناہ ہے‘ اہل بیت (علیھم السلام)کہتے ہیں گناہ ہے‘ لیکن ہم پھر بھی اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
انسان کہتا ہے‘ میں نے معاشرے میں رہنا ہے‘ میں معاشرے کی مخالفت کس طرح کروں؟ میری بیوی نہیں مانتی یا میرے بچے نہیں مانتے یا میرے خاندان والے نہیں مانتے‘ میرے سسرال والے نہیں مانتے۔
اب ظاہر ہے ایک طرف معاشرہ ہے جو سب کو مجبور کر رہا ہے‘ دوسری طرف حکم خدا ہے‘ حکم رسول اللہ ہے‘ اہل بیت (علیھم السلام)کا حکم ہے‘ آئمہ معصومین ۱ کا حکم ہے‘ حسین(علیہ السلام) ابن علی (علیہ السلام)کا حکم ہے۔ اب جب ٹکراؤ ہو گا تو فیصلہ ہو گا کہ ہم کس کے بندے ہیں؟ اسی وقت یہ فیصلہ ہو گا کہ ہم کس کے عبد ہیں؟ کس کے غلام ہیں؟
ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہم تیرے سامنے جھکیں گے‘ تیرے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے‘ ہمارا سر فقط تیرے سامنے خم ہو گا‘ کسی اور کے سامنے نہیں۔ اگر اس معاملے میں ہم معاشرے کے سامنے جھک گئے‘ اپنے خاندان کے اسمنے جھک گئے تو خدا کے حکم کو ٹھکرا دیا‘ رسول اللہ کے حکم کو ٹھکرا دیا۔
زبان سے تو ہم اقرار کر رہے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں‘ لیکن عملی طور پر ہم معاشرے کے بندے ہیں‘ معاشرے کے غلام ہیں‘ خدا کے غلام نہیں ہیں۔
دوستو!
انسان کو اپنی خواہشات کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہئے‘ بلکہ جیسے حخم خدا ہے‘ حخم خدا کے مطابق عمل کرنا چاہئے‘ کیونکہ انسان دعویٰ تو یہی کرتا ہے کہ میں تیرے سامنے جھکوں گا‘ تیرے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکوں گا۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان حکم خدا پر عمل کرے‘ دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہے‘ جب انسان کی روحانیت بلند ہو گی‘ مادیت میں غرق نہ ہو جائے‘ مال و دولت یا دوسری چیزوں کی محبت اتنی نہ ہو جائے کہ محبت خدا کو ٹھکرا دے۔
روحانیت بلند ہو جائے‘ روحانیت کو اپنے سر کا تاج بنائے‘ مادیت کو اپنے پیروں تلے روندے‘ تبھی وہ حکم خدا پر عمل کرے گا‘ خدا کے سامنے جھکے گا‘ خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے نہیں جھکے گا۔
کل بھی عرض کیا تھا کہ انسان کی عظمت کا دار و مدار اس کے بدن پر ہے۔ ہمارا بدن بڑا خوبصورت ہے۔
خدا نے اس بدن کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا
تبارک الله احسن الخالقین
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری عظمت بدن کی وجہ سے ہے‘ ہماری عظمت خوراک کھانے کی وجہ سے‘ ہماری عظمت کپڑے پہننے کی وجہ سے ہے۔
ہماری عظمت خوراک کی وجہ سے نہیں‘ اس لئے کہ خوراک تو اندر جاتی ہے۔ جانور حیوانات اور انسان میں کیا فرق رہ گیا؟
انسان کی عظمت اس کی روحانیت کی وجہ سے ہے۔ جتنی اس کی روح بلند ہوتی جائے گی‘ انسان اتنا ہی بلند ہوتا جائے گا۔
اس کی روحانیت جتنی پست ہوتی جائے گی‘ انسان اتنا ہی پست ہوتا جائے گا۔
روحانیت بلند ہو تو اس کا درجہ اتنا بڑا ہو جائے کہ فرشتے اس کی خدمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔
روحانیت پست ہو جائے تو درجہ اتنا کم ہو جائے گا کہ انسان کیا جانوروں سے بھی بدتر ہو جائے گا۔
سارا دار و مدار ہے روح پر‘ روح کی خصوصیتیں آپ کے سامنے بیان کی جا رہی ہیں
ذکر کیا گیا تھا کہ انسان کی روح انسان سے پہلے انسان بعد میں پیدا ہوا۔ انسان کی روح کو علم ہے کہ اس کے بدن میں کیا کچھ ہے‘ بدن کے تمام کمالات کا علم ہے‘ تمام اعضاء کا علم ہے۔
تیسری چیز کیا ہے؟
بدن پر روح کا کنٹرول۔
کہ جیسے وہ چاہے بدن کو چلائے۔ ہاتھ کو حکم دے تو ہاتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں‘ زبان کو حکم دے زبان بولنا شروع کر دیتی ہے‘ آنکھوں کو حکم دے آنکھیں دیکھنا شروع کر دیتی ہیں‘ بلکہ روح کو کہنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی‘ ادھر کوئی خواہش ہوئی اعضاء خود بخود کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
تو جیسے انسان کی روح انسان سے پہلے ہے‘ انسان کی روح انسان کی عالم ہے‘ انسان کی روح انسان کی حاکم ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ پوری کی پوری کائنات آسمان و زمین بمنزلہ ایک بدن کے لئے‘ بمنزلہ ایک جسم کے لئے‘ اس کائنات کے لئے بھی ایک روح کی ضرورت ہے اور وہ روح ہے حقیقت محمدیہ۔
روح کی وجہ سے یہ کائنات زندہ ہے‘ روح جس کی بدولت یہ ہر چیز زندہ ہے اور آج ذکر حسین(علیہ السلام)کر رہے ہیں‘ اس روح کو عالم کلی کی روح کہتے ہیں۔ پوری کائنات کی روح‘ روح عالم کلی کہلاتی ہے۔
سامعین گرامی!
پچھلی مجلس میں ذکر کیا تھا کہ روح عالم کلی حقیقت محمدیہ ۱ کا نام ہے۔ انسان کی روح‘ روح جزوی کہلاتی ہے۔
اب صرف ایک چیز رہ گئی جو بیان کرنی ہے۔ جیسے انسان کی روح انسان کے بدن کی حاکم ہے‘ اس روح کو مکمل کنٹرول ہے بدن پر‘ اس طرح اس پوری کائنات کی روح جس کو حقیقت محمدیہ ۱ تعبیر کیا گیا ہے‘ حاکم ہے پوری کائنات پر۔ کائنات کی ہر شے اس کے قبضہ قدرت میں ہے‘ کائنات کی جس چیز سے تصرف چاہے‘ جس وقت چاہے‘ جس حالت میں چاہے ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
جیسے میری روح میرے بدن پر حاکم ہے‘ جس طرح چاہے میرے بدن کو چلائے۔
جس طرح آپ کی روح آپ کے بدنوں پر حاکم ہے‘ جس طرح چاہے آپ کے بدنوں کو چلائے۔
اسی طرح تمام کائنات پر حقیقت محمدیہ حاکم ہے‘ زمین پر حاکم ہے‘ زمین پر جتنی چیزیں ہیں ان پر حاکم ہے۔
جیسے ہماری روح کے سامنے بدن کا کوئی جز ایسا نہیں جو انکار کرے‘ اسی طرح پوری دنیا میں پوری کائنات میں حقیقت محمدیہ ۱ جس طرح چاہے کائنات کو چلائے‘ کوئی بھی چیز ان کے حکم کے بغیر نہ چلے۔
صلواة
مثال کے طور پر
زمین پر حقیقت محمدیہ حاکم ہے‘ زمین پر محمد و آل محمدحاکم ہیں‘ زمین کی ہر چیز پر ان کی حکومت ہے۔ زمین کے راستے لوگ طے کرتے ہیں‘ مختلف ذرائع سے‘ لیکن۔
محمد و آل محمدکی یہ خصوصیت یہ ہے کہ سینکڑوں میلوں کا راستہ کسی کو طے کرانا چاہیں تو لمحہ بھر میں کروا سکتے ہیں۔
ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جس میں عبرت بھی ہے اور حکمت و دانائی بھی اور واقعہ بھی سچا۔
امام موسیٰ کاظم کے زمانے کی بات ہے کہ علی ابن بفطین‘ حاکم کا وزیراعظم امام (علیہ السلام)کے دربار میں حاضر ہوا۔
غور سے سنیں ایک انسان جسے کوئی عہدہ مل جائے تو وہ بڑا افسر بن جاتا ہے‘ اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ میں بہت بڑا ہو گیا ہوں۔
حکومت کا وزیراعظم!
اتنی بڑی حکومت کا وزیراعظم‘ اس وقت مسلمانوں کی ایک ہی حکومت تھی‘ اس کا وزیراعظم امام (علیہ السلام)کے دربار میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ دستک‘ دق الباب کرتا ہے‘ تین دن دق الباب کرتا رہا۔ پریشان ہے کہ کسی طرح امام (علیہ السلام)تک پیغام پہنچ جائے‘ مگر امام (علیہ السلام)فرماتے ہیں‘ اس نے ہمارے ماننے والے کا کام نہیں کیا۔
کہاں ایک اونٹ والا‘ کہاں وزیراعظم۔
لیکن امام (علیہ السلام)کی نظر میں سب برابر ہیں۔
امام (علیہ السلام)نے فرمایا
میرے پاس ابراہیم جمال آیا تھا‘ اس نے تمہاری شکایت کی کہ تم نے اسے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔
وزیراعظم کہنے لگا
مولا ! وہ کس طرح یہاں آ سکتا ہے کہ میں اس سے معافی مانگ سکوں‘ سینکڑوں میل دور ہے یا میں اس کے پاس کیسے جا سکتا ہوں؟
امام (علیہ السلام)نے فرمایا
بھیجنا میرا کام ہے‘ معافی لینا تیرا کام۔
فرمایا آنکھیں بند کرو‘ ایک سیکنڈ کے لئے آنکھیں بند کرو‘ اب آنکھیں کھولو‘ جب آنکھیں کھولیں تو سینکڑوں میل کا راستہ ایک سیکنڈ میں طے ہو گیا۔
امام (علیہ السلام)نے اسے پہنچا دیا‘ اس کے دروازے پر پہنچا‘ دق الباب کیا‘ جب اسے پتہ چلا کہ وزیراعظم میرے دروازے پر تو وہ گھبرا گیا۔
وزیراعظم نے کہا‘ گھبراؤ نہیں‘ میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں یہ میری نہیں بلکہ میرے درباریوں کی غلطی ہے کہ تمہیں میرے پاس نہیں آنے دیا۔ میں معافی کا خواستگار ہوں‘ معاف کر دو۔
اس نے کہا میں نے تجھے معاف کیا‘ لیکن کیا کہنا مولائی کا۔
وزیراعظم کہتا ہے‘ میں اس طرح معافی نہیں لوں گا‘ کوئی نشانی دے۔
میں اپنا رخسار زمین پر رکھتا ہوں‘ دوسرے رخسار پر تو اپنا قدم رکھ تاکہ مہر لگ جائے اور امام (علیہ السلام)کو یہ مہر دکھا سکوں کہ میں نے معافی لے لی ہے۔
یہ ہے اتنی بڑی حکومت کا وزیراعظم۔ اس کے دل میں امام (علیہ السلام)کی محبت اس قدر ہے‘ امام (علیہ السلام)کی خوشنودی کے لئے اپنا رخسار زمین پر رکھ کر معافی مانگ رہا ہے تاکہ یہ مہر دیکھ کر امام (علیہ السلام)راضی ہو جائیں۔
ہمارے پاس مال و دولت ہوتا ہے‘ ہمارے پاس کوئی نعمت آ جائے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اس نعمت کا شکریہ ادا کس طرح کریں۔ جتنی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں‘ اتنی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔
امام (علیہ السلام)کی حکومت زمین پر ہے کہ ایک شخص کو سینکڑوں میل کی مسافت ایک سیکنڈ میں طے کرا دی۔ اسی طرح امام (علیہ السلام)کی حکومت پہاڑوں پر بھی ہوتی ہے۔
امام رضا ‘ امام کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام وہ ہوتا ہے جس کو ہر چیز کا علم ہو۔ امام وہ ہے جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہوتی۔ امام کلمة اللہ ہے‘ امام حجة اللہ ہے۔ امام متقی ہوتا ہے‘ امام پاکیزہ ہوت اہے۔
یہاں تک کہ امام وہ ہوتا ہے جس کو کنٹرول ہو‘ پوری زمین پر۔
امام پہاڑ کو اشارہ کرے‘ پہاڑ چلنا شروع کر دے۔
یہی کلمہ امام جعفر صادق نے فرمایا تھا کہ پہاڑ کا چلنا دیکھنا ہو تو اہل بیت (علیھم السلام)کو دیکھ کر مباہلہ میں دیکھو۔
پانچ تن پاک کی ہستیاں موجود ہیں‘ رسول اللہ موجود ہیں‘ حسن ۱ و حسین(علیہما السلام)موجود ہیں‘ فاطمہ زہرا (علیھا السلام)موجود ہیں‘ مولائے کائنات ۱ موجود ہیں۔ ابھی انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ بلند نہیں کئے کہ عیسائیوں کا پادری یہ کہتا ہوا نظر آیا
"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ پہاڑ کو حکم دیں تو پہاڑ چلنا شروع کر دے۔"
جمادات پر اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت ہے‘ دوسرا نمبر نباتات‘ نباتات پر اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت ہے۔
ایک شخص امام باقر ۱ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ عرض کرتا ہے
ہم نے سنا ہے کہ جناب رسالتمآب جس درخت کو حکم دیتے وہ درخت اپنی جگہ چھوڑ دیتا تھا‘ کیا آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں؟
آپ نے فرمایا‘ ہاں۔
اس نے کہا کہ آپ ایسا کر کے دکھائیں۔
امام (علیہ السلام)نے درخت کو حکم دیا‘ درخت دو ٹکڑے ہو گیا‘ ایک ٹکڑا امام (علیہ السلام)کے پاس آ گیا‘ دوسرا ٹکڑا اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔
امام (علیہ السلام)نے دوسرے ٹکڑے کو حکم دیا‘ وہ پہلے والے حصے کے ساتھ آ کر مل گیا‘ پھر حضرت نے حکم دیا کہ پورا درخت جس جگہ پر پہلے تھا اپنی جگہ پر چلا جائے تو ایسا ہو گیا۔
حیوانات پر اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ امام محمد تقی (علیہ السلام)کی دعوت کی گئی۔ دعوت میں بہت سے لوگ موجود ہیں‘ ابھی کھانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا کہ خلیفہ وقت نے کہا کہ
"فرزند رسول! بسم اللہ فرمائیں‘ آپ ابتداء کریں ہم بعد میں کھا لیں گے۔"
فرزند رسول نے روٹی کا ٹکڑا اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک شعبدہ باز نے روٹی کا ٹکڑا اٹھا لیا‘ امام خاموش ہو گئے۔ خلیفہ وقت کہتا ہے‘ آپ گھبرائیں نہیں روٹی بہت ہے اور لے لیں۔ امام (علیہ السلام)نے دوسری دفعہ ٹکڑا اٹؤانا چاہا تو ایک ہندی شعبدہ باز نے اپنے شعبدے کے ذریعے وہ ٹکڑا بھی اٹھا لیا‘ ایسا دوسری مرتبہ ہو رہا ہے۔ امام (علیہ السلام)ابھی تک کچھ نہیں کہہ رہے‘ حجت تب تمام ہوتی ہے جب تیسری دفعہ ایسا ہو‘ تو اب تیسری دفعہ ہاتھ بڑھایا تو اب کی بار بھی روٹی اٹھا لی گئی۔ اب لوگ خوش ہو رہے ہیں‘ مذاق کر رہے ہیں‘ ہنس رہے ہیں کہ فرزند رسول ۱ کی توہین ہو گئی۔ اب اس شعبدہ باز کو غضب دکھایا جاتا ہے‘ امام (علیہ السلام)نے دیکھا کہ قالین پر شیر کی تصویر بنی ہوئی ہے‘ امام (علیہ السلام)نے شیر کی طرف نظر کی‘ شیر کا مجسمہ نہیں تھا‘ جسم نہیں تھا‘ فقط تصویر بنی ہوئی تھی‘ امام (علیہ السلام)نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا
کن اسدالله خذ عدو الله
"اللہ کا شیر بن کے اللہ کے دشمن کو کھا جا۔"
امام (علیہ السلام)کی پیشانی پر نور علی (علیہ السلام)موجود تھا‘ نور رسول اللہ موجود تھا۔
جب عبدالمطلب آئیں گے‘ ہماری طاقت کو دیکھ کر گھبرا جائیں گے‘ ہاتھیوں کو انہوں نے آج تک دیکھا نہیں‘ انہیں دیکھ کر ڈر جائیں گے۔
عبدالمطلب آئے خوف زدہ نہیں ہوئے۔ جب ہاتھیوں کے پاس سے گزرے تو ہاتھیوں کے سردار نے جو سب سے بڑا تھا‘ عبدالمطلب کے پاؤں پر اپنا سونڈ رکر بھوسہ لیا اور بتا دیا کہ اگر نور محمد کسی میں موجود ہو تو ہاتھی اس کے پاؤں چومتے ہیں۔
ادھر ابراہہ سوچ رہا تھا کہ میری منت سماجت کریں گے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں‘ جب اس نے ہاتھی والا ماجرا دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہے تو بتائیں‘ میں آپ کی خدمت کے لئے تیار ہوں۔
عبدالمطلب فرماتے ہیں
میری اونٹنی گم ہو گئی ہے‘ آپ لوگوں نے تو اسے نہیں پکڑا‘ میں نے وہ حاجیوں کے لئے رکھی ہے‘ کیونکہ مکہ والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب حاجی آئیں تو انہیں لوٹنا نہیں بلکہ انہیں کھانا بھی کھلانا ہے۔
بنی ہاشم کی خصوصیت یہ تھی کہ چاہے ہزاروں کی تعداد میں حاجی آ جائیں‘ کھانا اپنی طرف سے دیتے تھے۔
آج کی حکومت اسلام کے پاسدار‘ اسلام کے ٹھیکدار ہیں‘ سبزی‘ مکان ہر چیز کے پیسے لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے ٹھیکیدار ہیں۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ میری اونٹنی تمہارے قافلے والوں نے پکڑ لی ہے‘ وہ چھوڑ دی جائے۔ ابراہہ حیرانی کے ساتھ کہنے لگا‘ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ بہت عقلمند ہیں‘ میں خانہ کعبہ گرانے آیا ہوں اور اس بارے میں بات کریں گے اور آپ کہہ رہے ہیں میری اونٹنی دے دو‘ آپ کو تو چاہئے تھا کہ آپ کہتے کہ خانہ کعبہ کا خیال کرنا‘ اسے کچھ نہ کہنا اور آپ خانہ کعبہ کی بات ہی نہیں کر رہے۔ کیا کہنے عبدالمطلب کے‘ ایمان کی بلندی کے‘ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی نہیں تھے‘ کافر تھے‘ لیکن ایمان کی بلندی دیکھیں‘ جناب عبدالمطلب کہتے ہیں
اے ابراہہ! مجھے میری اونٹنی واپس کر دے‘ خانہ کعبہ کا مالک خدا ہے‘ وہ جانے اور خانہ کعبہ ‘ وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔
اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت کائنات کی ہر چیز پر۔ انسان جو کسی وقت مغرور ہو جاتا ہے‘ تکبر کرتا ہے‘ سمجھتا ہے کہ مجھ پر کسی کی حکومت نہیں‘ خدا کی حکومت کا اسے خیال نہیں رہتا‘ لیکن ایسے مواقع آئے ہیں جہاں معجزہ کے طور پر بتایا گیا کہ اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت انسان پر اس قدر ہے کہ وہ انسان کی ماہیت و حقیقت کو بھی جانتے ہیں‘ انسان کی ماہیت کو تبدیل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
جیسے ایک مشہور واقعہ ہے
امام حسن ۱ خطبہ دے رہے ہیں‘ اس خطبہ میں اپنی عظمت بیان کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! تم میرا ساتھ نہیں دے رہے ہو‘ تم میرے ساتھ مل کر معاویہ کے ساتھ لڑنے کو تیار نہیں ہو‘ میں اہل بیت (علیھم السلام)کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں‘ رسول کا نواسہ ہوں‘ اگر میں ۱ چاہوں تو خود بھی معاویہ کو تباہ کر سکتا ہوں‘ تمہاری ضرورت نہیں‘ لیکن یہ دنیا محل افترا ہے‘ یہاں جو کام کیا جاتا ہے ظاہری طور پر کیا جاتا ہے‘ اپنے اعجاز کے ذریعے نہیں۔ اگر میں ۱ چاہوں تو عراق شام ہو جائے اور شام عراق دونوں کو اس طرح پلٹ دوں۔ سبحان اللہ!
جن کے غلام جبرائیل ۱‘ ان کے اتنے پر ہیں کہ وہ چاہیں تو پورا شہر اپنے پروں پر اٹھا لیں‘ تو جب غلام میں اتنی طاقت ہے تو یہ تو ان کے مالک ہیں‘ آقا ہیں۔
فرماتے ہیں‘ اگر میں ۱ چاہوں تو شام کو اس طرح پلٹ دوں کہ کوفہ شام ہو جائے اور شام کوفہ۔ ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ مولا آپ اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر رہے ہیں؟ حضرت نے اسے کہا کہ تجھے شرم نہیں آتی عورت ہو کر مردوں کے مجمع میں کھڑی ہے۔ جب اس شخض نے اپنے بدن کی طرف نظر کی تو وہ واقعی عورت بن چکا تھا۔
مطلب یہ ہے کہ اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت انسانوں پر بھی اس قدر ہے کہ اگر چاہیں تو ان کی ماہیت بدل دیں۔ صلواة
امام حسین(علیہ السلام)کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر کہتا ہے کہ مولا ! میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے‘ مولا مجھے مال چاہئے۔ اس کے پاس مال کافی تھا جیسے بعض کی عادت ہوتی ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اسے خرچ نہیں کرتے۔ اس کے پاس بہت مال و دولت تھا‘ وہ مجھے نہ دے سکی اور فوت ہو گئی۔ مجھے علم نہیں کہ اس نے مال و دولت کہاں چھپایا ہوا ہے‘ میں جاننا چاہتا ہوں۔ آپ مہربانی فرما کر بحیثیت امام مجھے بتائیں کہ میری ماں نے مال و دولت کہاں رکھا ہے؟
حضرت نے ارشاد فرمایا کہ
"مجھ سے پوچھنا چاہتا ہے یا اپنی ماں سے۔"
وہ شخص کہنے لگا‘ مولا اگر ماں بتا دے تو کیا بات ہے۔
حضرت نے ارشاد فرمایا کہ
تو قبرستان چلا جا اپنی ماں کی قبر پر کھڑا ہو کر کہنا‘ اے ماں! حسین(علیہ السلام) ابن علی (علیہ السلام)کہہ رہے ہیں کہ زندہ ہو جاؤ۔
حضرت خود تشریف لے جاتے‘ پاؤں کی ٹھوکر مار کر کہتے "قم بازن اللّٰہ" تب مردہ زندہ ہوتا‘ مگر کیا کہنے علی (علیہ السلام)کے بیٹے حسین(علیہ السلام)کے‘ خود نہیں جا رہے‘ اسے بھیج رہے ہیں۔
وہ قبر پر پہنچا‘ اس نے ویسا ہی کیا جیسا امام (علیہ السلام)کا فرمان تھا‘ اس کی ماں زندہ ہو کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے پوچھا کہ مال و دولت کہاں ہے؟ اس کی ماں نے بتایا کہ فلاں جگہ پر اور ایک حصہ خود رکھ لینا‘ دوسرا حصہ امام (علیہ السلام)کو دے دینا‘ وہ غریبوں‘ مسکینوں میں تقسیم کر دیں‘ تیسرا حصہ تجھے امام (علیہ السلام)کے ساتھ محبت ہے تو تو لے لے اگر نہیں تو وہ بھی بانٹ دے۔
اہل بیت (علیھم السلام)کی حکومت زمین کی تمام چیزوں پر ہے‘ نباتات پر حکومت‘ جمادات پر حکومت‘ حیوانات پر حکومت‘ انسان پر حکومت۔ صرف زمین پر ہی نہیں‘ آسمان کی چیزوں پر بھی حکومت۔
اہل بیت (علیھم السلام)اگر کبھی سفر پر ہوں‘ دوران سفر پاک رسول علی (علیہ السلام)کے زانو پر سر رکھ کر سو جائیں‘ کافی دیر آرام کرنے کے بعد آئیں‘ رسول اللہ اٹھتے ہیں‘ پوچھتے ہیں‘ اے علی (علیہ السلام)میرا سر تیرے زانو پر تھا‘ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟
تو علی (علیہ السلام)کہتے ہیں‘ یا رسول اللہ میں نے اشارے سے نماز پڑھی ہے۔
میں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ آپ کا سر مبارک اٹھا کر نیچے رکھ دوں اور نماز پڑھوں‘ اس لئے میں نے اشارے سے نماز پڑھ لی۔
اشارے کے ساتھ نماز مجبوری کے ساتھ ہو جاتی ہے‘ لیکن رسول اللہ کیسے برداشت کرتے کہ میرے بھائی کی ایک نماز جس کا درجہ کم ہو‘ کیونکہ اشارے کی نماز کا درجہ کم ہوتا ہے‘ پڑھے۔
فرماتے ہیں‘ خدایا تجھے واسطہ ہے اس کام کا جو علی (علیہ السلام)ابن ابی طالب نے آج کیا ہے‘ تجھے واسطہ ہے اس کام کا‘ سورج کو واپس پلٹا دے تاکہ علی (علیہ السلام)نماز پڑھ لے۔
علی (علیہ السلام)نے فلاں نماز نہیں پڑھی تھی لوگ یہ نہ کہیں۔ یہ نہیں کہا کہ خدایا تجھے ہماری عظمت کا واسطہ‘ یہ نہیں کہا‘ خدایا تجھے میری محبت کا واسطہ‘ بلکہ یہ کہا کہ علی (علیہ السلام)نے جو کام آج کیا ہے اس کا واسطہ‘ اس کام کے صدقے میں سورج کو پلٹا دے۔ سورج پلٹا‘ علی (علیہ السلام)نے نماز پڑھی اور یہ بتا دیا کہ ہماری حکومت سورج پر بھی ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے تو ہم اسے واپس پلٹا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح حکومت چاند پر بھی ہے‘ چاند کو اشارہ کیا‘ چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ ستاروں پر حکومت ہے‘ ستارہ طواف کر رہا ہے‘ مدینے کے لوگ میدان میں کھڑے کہہ رہے ہیں خہ یہ ستارہ کس کے گھر میں اترے گا؟ لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ ستارے نے فاطمہ زہرا (علیھا السلام)کے گھر کا طواف کرتے کرتے سلامی لی اور واپس چلا گیا۔ صلواة
کائنات کی تمام چیزوں پر ان کی حکومت ہے‘ آسمان و زمین پر ان کی حکومت۔ آپ نے دیکھا‘ سائنس دانوں نے کتنی ترقی کی کہ ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ میل کا فاصلہ طے کر کے مریخ تک جا پہنچے‘ جتنے سیارے ہیں مریخ سب سے زیادہ قریب ہے۔ سائنس دان ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ میل کا فاصلہ طے کر کے یہاں تک پہنچا تو ظاہر ہے اتنا بڑا فاصلہ تو فقط مریخ تک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے سیارے پائے جاتے ہیں‘ جن سیاروں کا ہمیں علم تک نہیں‘ تعداد معلوم نہیں۔ لوگ پہلے کہتے تھے کہ سات سیارے ہیں‘ ترقی کر کے اب تعداد زیادہ کر دی‘ ترقی ہو رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں سیارے ہیں‘ جن کا علم تک ہمیں نہیں‘ لہٰذا اگر آدمی کو عرش علیٰ تک جانا ہو تو اسے کتنا فاصلہ طے کرنا پڑے گا؟ جس طرح آج دنیائے انسانی کو مریخ تک جانے کے لئے اتنا لمبا فاصلہ طے کرنا پڑا
لیکن رسول اعظم نے جو اس کائنات کے مالک ہیں‘ جن کی سلطنت ہے پوری کائنات پر‘ خداوند عالم کے دربار میں حاضری کے لئے عرش علیٰ تک جا رہے ہیں۔ رسول اللہ نے عرش علیٰ تک جانے کے لئے کئی گھنٹے نہیں لگائے‘ رسول نے چار دن نہیں لگائے‘ دس گھنٹے نہیں‘ ایک گھنٹہ نہیں بلکہ جناب رسالتمآب گیارہ منٹوں میں عرش پر پہنچ بھی گئے اور واپس بھی آ گئے۔ ابھی بستر کی گرمی برقرار ہے‘ دروازہ کی کنڈی چل رہی ہے‘ وضو کا پانی چل رہا ہے۔ سبحان اللہ! یہ فاصلہ طے کر کے لوگوں کو بتا دیا کہ لوگو! تعجب نہ کرنا کہ ہم نے یہ سفر کیسے کیا۔
رسول اللہ کی معراج کے کیا کہنے! رسول نے معراج کیا‘ عرش علیٰ تک پہنچے اور وہاں تک پہنچے جس کو معراج کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی معراج کیا۔ حضرت موسیٰ(علیہ السلام)کا معراج کوہِ طور تک تھا‘ رسول اللہ ۱ کا معراج عرش علیٰ تک تھا۔ حضرت موسیٰ ۱ کوہ طور پر معراج کے لئے گئے تو خداوند عالم نے فرمایا
اپنی نعلین اتار دیں۔
جب رسول اللہ معراج پر تشریف لے گئے تو تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ نعلین اتار دو۔ یہی لکھا ہے کہ لئے نعلین آؤ۔ اے میرے حبیب اور قریب آؤ اور قریب‘ حتیٰ کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔ رسول اللہ نے بتا دیا کہ اگر کبھی نسبت قائم کرنی ہو‘ رسول اللہ اور موسیٰ(علیہ السلام)کے درمیان تو سمجھ لو جتنا کوہِ طور اور عرش میں فرق ہے‘ اتنا ہی محمد اور موسیٰ(علیہ السلام)میں۔ سبحان اللہ! صلواة
نہیں‘ نہیں یہ فرق قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اگر حضرت موسیٰ(علیہ السلام)کوہِ طور پر جاتے تو ان کو بھی اسی طرح کہا جاتا‘ موسیٰ(علیہ السلام)اور قریب آ جاؤ اور قریب‘ تو نسبت قائم کی جا سکتی تھی کہ جس طرح وہ کوہِ طور پر گئے‘ اسی طرح رسالتمآب عرش پر گئے‘ لہٰذا کوہِ طور اور عرش علیٰ میں جتنا فرق ہے اتنا محمد و موسیٰ(علیہ السلام)میں فرق ہے‘ لیکن یہاں تو محمد کو پاس بلایا جا رہا ہے اور موسیٰ(علیہ السلام)کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ وادی مقدس میں تو گویا کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم نسبت قائم کرنا چاہیں تو انسان میں طاقت ہی نہیں کہ وہ موسیٰ(علیہ السلام)اور محمد کے درمیان نسبت قائم کر سکے۔
ایک شخص امام محمد باقر ۱ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ آپ اپنے جد اعلیٰ علی (علیہ السلام)ابن ابی طالب کی عظمت کا ذکر زیادہ کرتے ہیں‘ ان کی اہمیت زیادہ بیان کرتے ہیں‘ آخر کیا وجہ ہے کہ رسالتمآب نے علی (علیہ السلام)کو اپنے دوش پر سوار کیا اور انہوں نے بتوں کو توڑا؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ علی (علیہ السلام)رسول اللہ کو اپنے دوش پر سوار کرتے اور رسول اللہ بتوں کو توڑتے؟
اب رسول اللہ نے علی (علیہ السلام)کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیا‘ علی (علیہ السلام)کو معراج حاصل ہوئی‘ دوشِ مبارک پر سوار ہو کر بتوں کو توڑ رہے تھے تو
رسول اللہ نے پوچھا
اے علی (علیہ السلام)اپنے آپ کو کتنا بلند سمجھتے ہو؟
علی (علیہ السلام)نے عرض کی
یا رسول اللہ! میں ۱ اس وقت اپنے آپ کو اتنی بلندی پر سمجھ رہا ہوں کہ اگر عرش اولیٰ کو مس کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں۔
دو بت بڑے مضبوط بنے ہوئے تھے‘ حضرت نے جب اپنا ہاتھ بتوں کی طرف کیا تو وہ ایسے ٹوٹے جس طرح شیشہ ٹوٹتا ہے۔ بتوں کو توڑنے کے بعد علی (علیہ السلام)نیچے آ گئے‘ چھلانگ لگائی اور مسکرا رہے ہیں۔
رسول اللہ پوچھتے ہیں
اے علی (علیہ السلام) ! کس لئے مسکرا رہے ہو‘ کیا بات ہے؟
علی (علیہ السلام)نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ! میں ۱ نے اتنی بلندی سے چھلانگ لگائی‘ لیکن مجھے کسی قسم کی چوٹ نہیں آئی‘ کسی قسم کا درد نہیں ہوا۔
حضور نے ارشاد فرمایا
اے علی (علیہ السلام) ! تجھے تکلیف کیسے ہوتی؟ میں محمد نے تجھے اٹھایا ہوا تھا۔ سبحان اللہ!
تو میں ذکر کر رہا تھا کہ اس شخص نے پوچھا کہ علی (علیہ السلام)کی عظمت کا آپ اس طرح ذکر کرتے ہیں‘ یہ کیوں نہ ہوا کہ علی (علیہ السلام)نیچے کھڑے ہوتے اور حضور ان کے دوش پر سوار ہو کر بتوں کو توڑتے؟
تو امام (علیہ السلام)نے فرمایا کہ
اس سوال کے کئی جواب ہیں‘ مثلاً درخت نیچے ہوتا ہے اور میوہ اس کے اوپر۔
عرض کرنے لگا‘ مولا وضاحت فرمائیں۔
حضرت نے ارشاد فرمایا
رسول اللہ درخت ہیں‘ حسن ۱ و حسین(علیہ السلام) ‘ علی و فاطمہ ۱ میوہ ہیں۔
اس نے عرض کی‘ مولا اور وضاحت چاہتا ہوں۔
مولا نے ارشاد فرمایا کہ
کلیہ ہے‘ شمع نیچے جلتی ہے اور اس کی شعاع ہمیشہ اوپر ہوتی ہے۔
رسول اللہ (ص)شمع ہیں‘ علی (علیہ السلام)و فاطمہ ۱‘ حسن ۱ و حسین(علیہ السلام)شعاع۔
وہ شخص کہنے لگا‘ مولا اور وضاحت چاہتا ہوں۔
حضرت نے ارشاد فرمایا
یہ سمجھ لو کہ حضور اکرم ۱ کو معراج ہوئی ‘عرش علیٰ پر تشریف لے گئے‘ کتنی بلندی ہے۔ تو جب رسول اللہ نے علی (علیہ السلام)کو دوش مبارک پر سوار کیا تو جتنے بلند رسول اللہ ہیں‘ علی (علیہ السلام)کتنے بلند ہوں گے۔
اہل سنت کا ایک مولوی‘ ایک بڑا عالم یہ کہتا ہے کہ بڑی عظمت ہے علی (علیہ السلام)کی‘ رسول اللہ نے انہیں اپنے دوش مبارک پر سوار کیا‘ مہر نبوت تھی‘ حضور نے انہیں مہر نبوت پر سوار کیا۔ یہ صاحب کہتے ہیں
جس جس کو آپ نے اپنے شانے پر سوار کیا ہے‘ جب ہم تصور کرتے ہیں‘ روایات تو دیکھیں کہ وہ سب کے سب معصوم ہیں‘ کوئی غیر نہیں۔ جو رسول اللہ کے شانے پر سوار ہوا ہو‘ علی (علیہ السلام)و فاطمہ ۱‘ حسن ۱ و حسین(علیہ السلام)کو سوار کیا‘ علی (علیہ السلام)معصوم‘ حسن ۱ معصوم‘ حسین(علیہ السلام)معصوم‘ زہرا (علیھا السلام)معصوم۔ لیکن حقیقت میں جس طرح کی سواری حسین(علیہ السلام)نے کی ہے‘ ایسی سواری کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔
حسین(علیہ السلام)پشت رسالت پر سوار ہیں‘ حضور سجدے کی حالت میں ہیں‘ سب سے بڑا نمازی رسول رسول سے بڑا نمازی کوئی نہیں ہو سکتا‘ سب سے بڑی مسجد‘ مسجد الحرام‘ اس سے بڑی کوئی مسجد نہیں۔ نماز کا اہم ترین رکن سجدہ۔
رسول اللہ اعلیٰ ترین نمازی‘ مسجد الحرام اعلیٰ ترین مسجد اور پھر نماز باجماعت ہو رہی ہے‘ جماعت کا ثواب اور زیادہ‘ رسول سجدہ کی حالت میں ہیں اور حسین(علیہ السلام)پشت پر سواری کر رہے ہیں۔
روایات میں ہے کہ
ایک میں ہے کہ ۷۱ دفعہ سبحان ربی الا علیٰ و بحمدہ کہا۔
دوسری میں ہے کہ ۷۲ دفعہ سبحان ربی الا علی و بحمدہ کہا۔
اور خدا نے خود کہا کہ اے میرے نبی! جب تک حسین(علیہ السلام)خود نہ اٹھیں‘ سجدے سے سر نہیں اٹھانا‘ رسول ۱ کا سجدہ میں اور حسین(علیہ السلام)کا پشت پر سواری کرنا‘ رسول ۱ کا تسبیح کو لمبا کرنا‘ بار بار دہرانا‘ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا بتلانا چاہتا ہے کہ میرے حسین(علیہ السلام)کی عظمت کس قدر ہے کہ رسول جیسا نمازی‘ مسجد الحرام میں اور نماز کے اعلیٰ ترین رکن میں‘ حسین(علیہ السلام)کی سواری بنے‘ بلکہ رسول کو حکم دیا جا رہا ہے کہ میرے رسول اٹھنا نہیں جب تک حسین(علیہ السلام)خود نہ اتر جائیں۔
حسین(علیہ السلام)گھر پہنچے‘ فاطمہ ۱ نے کہا
حسین(علیہ السلام)تو نے میرے بابا کو بڑی اذیت دی‘ اتنی دیر تم بابا کی پشت پر سوار رہے۔
حسین(علیہ السلام)نے کہا
اماں ۱! یاد رکھنا آپ کے بابا نے ۷۲ دفعہ تسبیح پڑھی ہے‘ میں حسین(علیہ السلام)کربلا میں جب دین پر مصیبت آئے گی تو ۷۲ لاشے ہی اٹھاؤں گا۔
حسین(علیہ السلام)کی قسمت ہی ایسی تھی‘ جب پیدا ہوئے تو رسول بیٹی کے پاس آ کر حسین(علیہ السلام)کو اٹھایا‘ پیار کیا اور رونے لگے۔
فاطمہ ۱ کہتی ہیں کہ بابا خدا نے مجھے بیٹا عنایت کیا ہے اور آپ رو رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا
بیٹی! ابھی جبرائیل ۱ نے مجھے بتایا ہے کہ تیرے اس حسین(علیہ السلام)پر بڑی مصیبت آئے گی‘ میدان کربلا میں ذبح کیا جائے گا۔
فاطمہ ۱ کہتی ہیں‘ بابا کیا آپ اس وقت نہیں ہوں گے؟
کہا‘ بیٹی! نہیں میں اس وقت نہیں ہوں گا۔
بابا! کیا اس وقت علی (علیہ السلام)نہیں ہوں گے؟
کہا‘ بیٹی! نہیں اس وقت علی (علیہ السلام)نہیں ہوں گے۔
بابا! اس وقت حسن ۱ بھی نہیں ہو گا؟
کہا‘ بیٹی! اس وقت حسن ۱ بھی نہیں ہو گا۔
بابا! اس وقت میں بھی نہیں ہوں گی۔
فرمایا‘ بیٹی! اس وقت تو بھی نہیں ہو گی۔
فاطمہ ۱ رو کے کہتی ہیں کہ بابا میرے حسین(علیہ السلام)کو پھر کون روئے گا؟
فرمایا‘ بیٹی! خدا ایک ایسی قوم پیدا کرے گا‘ جس کے جوان تیرے حسین(علیہ السلام)کے جوانوں کو روئیں گے‘ اس قوم کے بچے حسین(علیہ السلام)کے بچوں کو روئیں گے‘ جس کے بوڑھے حسین(علیہ السلام)کے بوڑھوں کو روئیں گے۔ جب عورتوں کا نام آیا تو
فاطمہ ۱ نے کہا
بابا! عورتوں کا کیا کام ہے؟
کہا‘ بیٹی! تیرے بطن سے ایک زینب (علیھا السلام)پیدا ہو گی‘ ایک کلثوم۔
حسین(علیہ السلام)شہید کر دیا جائے گا‘ زینب (علیھا السلام)و کلثوم (علیھا السلام)کو قیدی کر کے سر ننگے کوفہ و شام کے بازاروں میں پھرایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ ۱ ہر وقت گریہ کرتی اور روتی رہتی تھیں۔
عزادارو!
جتنے اہل بیت (علیھم السلام)ہیں‘ سب پر مصیبتیں آئیں۔
رسول اللہ (ص)فرماتے ہیں
"جتنی اذیت مجھی دی گئی‘ اتنی کسی اور کو نہیں دی گئی۔"
آپ جناب پر بھی بہت مصیبتیں آئیں مگر رونا نہیں آتا۔
علی (علیہ السلام)ابن ابی طالب مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں‘ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہتا ہے‘ وامصیبتاہ! مجھ پر ہیبت پڑ گئی۔
علی (علیہ السلام)فرماتے ہیں کہ تو صرف ایک مصیبت آنے پر رو رہا ہے‘ علی (علیہ السلام)پر اتنی مصیبتیں آئیں کہ اگر کوئی ریت کے ذروں کو شمار کرنا چاہے تو کر لے‘ پھر بھی ان کو شمار نہیں کر سکتا‘ لیکن علی (علیہ السلام)کا نام سن کر رونا نہیں آتا‘ جب تک مصائب کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ فاطمہ زہرا (علیھا السلام)رسول کی اکلوتی بیٹی تھیں‘ اٹھارہ سال کی عمر میں جھک گئیں۔ اتنی مصیبتیں آئیں کہ بار بار کہتی تھیں‘ بابا! مجھے اپنے پاس بلا لیں‘ میں اس دنیا میں رہنا نہیں چاہتی‘ لیکن فاطمہ ۱ کے نام پر رونا نہیں آتا۔
لیکن حسین(علیہ السلام)اور زینب (علیھا السلام)کا نام آتے ہی مومن رونا شروع کر دیتے ہیں‘ اس لئے حسین(علیہ السلام)نے کہا
انا قتیل العبره
عبرت کا مقتول ہوں‘ جب کوئی میرا ۱ نام سنے گا گریہ کرے گا۔
اگر گریہ نہیں کر سکتا تو رونے والی شکل ضرور بنائے گا‘ اگر شکل نہیں بنا سکے گا تو اس کا دل روئے گا۔
حسین(علیہ السلام)تجھ پر اتنی مصیبتیں آئیں کہ تیرا نام گریہ ہو گیا۔ زینب (علیھا السلام)تجھ پر اتنی مصیبتیں آئیں کہ تیرا نام گریہ ہو گیا۔
میں عرض کروں کہ فاطمہ ۱! آپ بھی تو دربار میں گئیں‘ آپ پر بھی بڑی مصیبتیں آئیں مگر سر پر چادر موجود تھی‘ بنی ہاشم کی عورتیں اردگرد تھیں‘ لیکن زینب (علیھا السلام)جب دربار میں گئی تو سر کھلا ہوا تھا‘ ہاتھ بندھے ہوئے تھے‘ فاطمہ ۱! جب آپ دربار میں گئیں تو آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے۔
فاطمہ ۱! آپ نے اکبر کو ذبح ہوتے نہیں دیکھا۔
فاطمہ ۱! آپ نے قاسم کو ذبح ہوتے نہیں دیکھا۔
فاطمہ ۱! آپ نے حسین(علیہ السلام)کو ذبح ہوتے نہیں دیکھا۔
آپ ! نے اصغر کو تیر لگتے نہیں دیکھا۔
زینب (علیھا السلام) ! آپ کی مصیبتوں کا ذکر کس طرح خیا جائے کہ آپ کا نام ہی ام المصائب بن گیا یعنی مصائب کی ماں
زینب (علیھا السلام)پر اتنی مصیبتیں آئیں کہ زین العابدین ۱ تیس سال تک روتے رہے اور کہتے رہے کہ اکبر مارا جاتا میں اتنا نہ روتا حسین(علیہ السلام)مارے جاتے میں اتنا نہ روتا مگر افسوس میری پھوپھیاں قید ہو کر بازاروں میں گئیں‘ درباروں میں پھرائی گئیں۔
کربلا میں حسین(علیہ السلام)کی طرف فوجیں آ رہی ہیں‘ کوئی تین ہزار کا لشکر‘ کوئی چھ ہزار کا لشکر آ رہا ہے‘ زینب (علیھا السلام)اپنے بھائی ۱۱ کے پاس آ کر رو رہی ہیں۔ حسین(علیہ السلام)پوچھ رہے ہیں‘ زینب (علیھا السلام)بہن کیوں رو رہی ہو؟
بھیا!
میں رو رہی ہوں کہ اتنے دشمن ہیں اور ہمارا کوئی نہیں رہا‘ جس کو بلائیں۔ زینب (علیھا السلام)کہتی ہیں‘ بھیا!
آپ کے بچپن کا ساتھی حبیب تھا‘ جس کو نانا کہا کرتے تھے اور اپنے زانو پر بٹھایا کرتے تھے اور اپنے زانو پر بٹھایا کرتے تھے‘ حبیب کو میرے حسین(علیہ السلام)کی محبت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے حبیب کو بلا لیں‘ آپ کا دوست ہے‘ آپ کی مدد ضرور کرے گا۔
زینب (علیھا السلام)کے کہنے پر حسین(علیہ السلام)نے خط لکھا
من الحسین ابن فاطمة الزهرا الرجل الفقیه
حسین(علیہ السلام)کی طرف سے خط ہے اس شخص کو جو عالم دین ہے‘ جو فقیہی ہے‘ جس کا نام حبیب ہے۔
اے حبیب! میں دشمنوں میں ۱ اس قدر گھر گیا ہوں‘ اگر تومیری ۱ مدد کرنا چاہتا ہے تو آ جا‘ قیامت کے دن میری ۱ ماں فاطمہ ۱ تیری شفاعت کرے گی۔
روایت میں ہے کہ حبیب بازار سے مہندی خریدنے جا رہا تھا کہ ریش کو خضاب کرے‘ خط کو پڑھ کر چوما‘ کہنے لگا‘ اب میری ریش کو خضاب کی ضرورت نہیں رہی۔ گھر آیا بیوی کو خط سنایا اور بیوی سے کہنے لگا کہ سوچ رہا ہوں جاؤں کہ نہ جاؤں‘ اس کی بیوی نے اپنی چادر اس پر ڈال دی اور کہتی ہے
تو چادر لے کر بیٹھ جا‘ میں خود جاؤں گی‘ حسین(علیہ السلام)کی مدد کے لئے‘ مولا نے تجھے بلایا ہے اور تو سوچ رہا ہے کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔
حبیب نے اپنا گھوڑا غلام کو دے کر کہا کہ اسے لے جا‘ میں دوسری طرف سے آتا ہوں‘ تاکہ حکومت کو پتہ نہ چلے۔
حبیب کو آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی‘ جب آئے تو کیا دیکھا کہ غلام گھوڑے سے کہہ رہا ہے کہ گھوڑا‘ دانہ کھا لے‘ اگر حبیب نہ آئے تو میں خود چلا جاؤں گا۔ میرا مولا حسین(علیہ السلام)مصیبت میں گرفتار ہے‘ اگر میرا آقا حبیب نہ آیا تو میں خود اپنے مولا حسین(علیہ السلام)کی مدد کے لئے جاؤں گا۔
حبیب کہتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا کہ گھوڑے نے دانہ کھانا چھوڑ دیا‘ گھوڑا رونے لگا‘ گھوڑے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حبیب رو کے کہتا ہے کہ
میرے مولا تواتنا غریب ہو گیا ہے کہ غلام اور حیوان بھی تجھ پر رو رہے ہیں‘ تجھ پر گریہ کر رہے ہیں۔