ریاض المجالس

ریاض المجالس0%

ریاض المجالس مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

ریاض المجالس

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: مشاہدے: 10562
ڈاؤنلوڈ: 3856

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10562 / ڈاؤنلوڈ: 3856
سائز سائز سائز
ریاض المجالس

ریاض المجالس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس پنجم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

حضرات گرامی!

انسان پاک و پاکیزہ لباس کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتا ہے کہ پروردگار! ہم تیری ہی عبادت‘ تیرے ہی سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں‘ ہماری گردن صرف تیرے ہی سامنے جھکے گی‘ تیرے علاوہ کسی کے سامنے خم نہیں ہو گی۔

کل ذکر کیا گیا تھا کہ ایسی ذوات مقدسہ کی ضرورت ہے کہ جو ہمیں بتائیں کہ خدا کی عبادت کا طریقہ کار کیا ہے۔

کون سا طریقہ خداوند عالم کے ہاں پسندیدہ ہے؟

خدا کو سلام کس طرح کیا جاتا ہے؟

جب کوئی بتانے والا نہیں ہو گا‘ جب تک ہمارے سامنے کوئی ماڈل‘ نمونہ نہیں ہو گا‘ اس وقت تک ہم خدا کی عبادت اس طرح نہیں کر سکیں گے جس طرح خدا چاہتا ہے۔ صلواة

حضرت انسان کی پیدائش کا ذکرتے ہوئے خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

والله اخر جکم من بطون امها تنکم لا تعلمون شیئا

ارشاد ہو رہا ہے کہ اے انسان! خداوند عالم نے تمہیں پیدا کیا‘ ماؤں کے بطنوں سے کس حالت میں؟

کہ "لایعلمون" تم کچھ نہیں جانتے تھے‘ تمہیں کسی چیز کا علم نہیں تھا‘ بعد میں ذکر کیا گیا:

و جعل لکم السمع

خداوند عالم نے نہیں سننے کی قوت دی اور تجھے دیکھنے کی قوت دی تاکہ اس کے ذریعے معلوم کرو اور خدا تک وسیلہ تلاش کرو۔

حضرت انسان ماں کے پیٹ سے جاہل پیدا ہوا۔

ظاہر ہے کہ جب انسان ماں کے بطن سے جاہل پیدا ہوا‘ اب اگر اسے بتایا جائے کہ خداوند عالم کا علم اس کی ذات کا عین ہوتا ہے تو اس کے لئے سمجھنا مشکل ہو گا‘ کیونکہ جب انسان ماں کے بطن سے پیدا ہوا اسے کسی چیز کا علم نہیں تھا‘ صرف یہ جانتا تھا کہ میں ہوں‘ اس کے علاوہ اس بچے کو کسی چیز کا علم نہیں تھا۔ جب کچھ بڑا ہو گیا تو بعض چیزیں‘ جن کا تعلق دیکھنے کے ساتھ ہے‘ سننے کے ساتھ ہے‘ اسے ان کا علم ہوا۔

جب اس سے بھی ذرا بڑا ہوا تو ایسی چیزیں کہ جو دیکھی تو نہیں جا سکتی‘ محسوس کی جا سکتی ہیں۔ جیسے ماں باپ کی محبت‘ کسی عزیز کی محبت یا کسی کا معذرت کرنا‘ اس کا اسے علم حاصل ہوا۔

جب اس سے ذرا اور بڑا ہوا‘ اسے مکتب میں داخل کروا دیا گیا اور اب وہاں سے علم حاصل کر رہا ہے۔ اب یہ علم اس کی بنیاد بن رہا ہے‘ اب اس کے بعد اس کے اندر ایک قوت پیدا ہو گئی کہ جتنا علم اسے حاصل ہوا‘ اس کی طاقت سے جو چیزیں اسے معلوم نہیں‘ ان کا علم حاصل کر سکے۔

اس لحاظ سے انسان کی عقل کے چار درجے ہیں:

پہلا درجہ

جس سے علم حاصل ہوتا ہے‘ اس علم کو علم درسی کہا جاتا ہے یعنی آنکھ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہوا ہے‘ اس کے علاوہ اور کسی چیز کو سمجھ نہیں سکتا۔

دوسرا درجہ

جب کچھ بڑا ہوا‘ اب جو علم اسے حاصل ہوا‘ اس علم کو علم خیال کہتے ہیں۔ مثلاً

محبت کا علم ہو گیا‘ اس کو اپنے پرائے کا علم ہو گیا‘ کون مجھے ڈانٹ رہا ہے‘ جھڑک رہا ہے۔

تیسرا درجہ

اس علم کو علم واہمی کہا جاتا ہے۔

یعنی اس وقت یہ کچھ نہ کچھ معانی و معلومیت معلوم کر لیتا ہے کہ یہ شخص فلاں ہے‘ فلاں سے بڑا ہے‘ فلاں شہر سے ہے‘ یہ شہر چھوٹا ہے۔

فلاں چیز زیادہ ہے‘ فلاں کم۔

چوتھا درجہ

اس کا علم اس حد تک پہنچتا ہے کہ جو کچھ حاصل کر رہا ہے‘ اب اس کے اندر کامل ہے۔ جتنا علم حاصل کرتا جائے گا‘ اتنا ہی علم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جب یہ ہماری عقل کے چار درجے ہیں تو جیسا کہ ایک روز پہلے ذکر کیا گیا کہ یہ انسان کی عقل جس کو عقل صغیر کہتے ہیں‘ اس کے مقابلے میں ایک پوری کائنات کی بھی ایک عقل ہے‘ پوری کائنات بمنزلہ ایک جسم کے ہے‘ بمنزلہ ایک روح کے ہے‘ اس کی بھی ایک روح ہے‘ اس کی بھی ایک عقل ہے‘ اس کو عقل کلی کہا جاتا ہے‘ تو جس طرح عقل انسانی کے چار درجے ہیں‘ اسی طرح عقل کلی کے بھی چار درجے ہیں:

پہلا درجہ

حضرت آدم (علیہ السلام)ہیں۔

جنہیں اسماء کا علم دیا گیا‘ ناموں کا علم‘ لیکن وہ علم اس قدر زیادہ تھاکہ فرشتوں سے بڑھ گیا۔

دوسرا درجہ

جب کچھ ترقی ہوئی تو حضرت نوح (علیہ السلام)کو علم عطا فرمایا۔

حضرت نوح (علیہ السلام)کا علم اس قدر تھا کہ آئندہ آنے والی نسلیں کس قسم کی ہوں گی‘ ان کی اولاد کس قسم کی ہو گی؟

تیسرا درجہ

حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کا علم وہ علم‘ اس قسم کا علم تھا جن کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے:

یہ تیسرے درجے کا علم تھا۔

چوتھا درجہ

علم کلی وہ اس قدر زیادہ تھا کہ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے مولائے کائنات امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ

خدا کی قسم! اس خلافت کی قمیض فلاں شخص نے زبردستی پہن لی۔ حالانکہ اس قمیض پہننے والے کو علم ہے کہ میرا محل اس خلافت سے ایسے ہے‘ میرا مرتبہ اس خلافت کے ساتھ ایسا ہے‘ جس طرح چکی کے درمیان اس کلی کا مرتبہ ہوتا ہے‘ جس پر چکی چلتی ہے۔

چکی تو دیکھی ہو گی۔

اگرچہ شہر میں یہ چیزیں کم ہوتی ہیں تو بہرحال۔

چکی میں جیسے کیل ہوتا ہے کہ یہ چکی اس کے گرد گھومتی ہے‘ اسی طرح میرا مرتبہ اس خلافت کے ساتھ ہے۔

یعنی خلافت کی چکی میرے گرد گھوم رہی ہے‘ میرے علاوہ خلافت نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے جب انہیں ضرورت محسوس ہوتی تھی تو علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے پاس جا کر اپنی مشکل کشائی کرواتے تھے۔

صلواة

مولائے کائنات(علیہ السلام)نے فرمایا:

مجھ سے علم کے سیلاب بہہ رہے ہیں تاکہ توڑا سا علم ہے اور میرے علم کی بلندی اس قدر ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا‘ اس بلندی کو چھو بھی نہیں سکتا۔

صلواة

تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ

عقل کلی یعنی حقیقت محمدیہ کے علم کا درجہ اس قدر ہے کہ وہاں علم کے سیلاب بہہ رہے ہیں اور پرندہ بھی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتا‘ تو یہ عقل کا آخری درجہ ہے۔

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جس قدر علم حقیقت محمدیہ ۱ کو خداوند عالم نے ودیت کیا ہے‘ اتنا علم نہ کسی نبی کے پاس تھا‘ نہ کسی ولی کے پاس تھا۔

صلواة

حضرات محترم!

دیکھئے! اس دنیا میں ہم جتنا علم سیکھتے ہیں‘ علم حاصل کرنے میں کسی استاد کے محتاج ہیں۔

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو بڑا بھی ہو جائے۔

جب تک استاد نہ ہو علم حاصل نہیں کر سکتا۔

تو گویا ہم جاہل ہیں اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کے محتاج ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ استاد کیسا ہے؟ اس نے علم کہاں سے سیکھا ہے؟ آیا اس کا علم مادر زاد ہے‘ وہ بھی تو جاہل تھا‘ اس نے بھی اپنے استاد سے علم لیا۔ اسی طرح سلسلہ چلتا جائے گا‘ جتنے بھی لوگ ہیں‘ علم حاصل کرتے ہیں‘ اپنے اپنے استاد سے۔ وہ استاد دوسرے سے علم حاصل کرتا ہے‘ وہ تیسرے استاد سے علم حاصل کرتا ہے‘ اس طرح یہ سلسلہ آگے چلتا جائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنے لوگ علم حاصل کرنے والے تھے ان کے استاد اسی قسم کے تھے‘ انہوں نے بھی کسی نہ کسی سے علم حاصل کیا۔

اگر سب اسی قسم کے ہیں تو جیسے ہم ناقص ہیں‘ ہمارے استاد بھی ناقص‘ کیونکہ انہوں نے بھی علم کسی اور سے حاصل کیا‘ اسی طرح جتنا سلسلہ آگے چلتا جائے گا‘ سب کے سب استاد ناقص ہوں گے۔

تو جب اسی طرح سب ناقص ہوں گے تو اگر پوری کائنات میں ایسے ہی شاگرد ہوں اور ایسے ہی استاد تو استاد بھی جاہل اور شاگرد بھی جاہل۔ تو استاد و شاگرد سب کے سب اسی قسم کے ہوں تو اس وقت کیا کہا جائے کہ اس کائنات میں جتنے لوگ ہیں

اب تو عربوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

تو گویا شروع سے لے کر آج تک جب سے کائنات بنی‘ سب کے سب لوگ جاہل تھے‘ ناقص تھ۔ے سب کے سب اسی قسم کے تو نتیجہ کیا نکلے گا کہ یہ پوری کائنات ایسے لوگوں کا مجموعہ ہے‘ جو سب کے سب ناقص ہیں‘ سب کے سب جاہل ہیں۔

تو ہم عرض کریں گے کہ خدایا!

تیری ذات کامل ہے۔

کامل اس کو کہتے ہیں جس میں کمال ہو۔ یہ کہنا کہ تیری ذات میں کمال ہے‘ اس کا مطلب کیا ہو گا؟

کہ تیری ذات اور ہے‘ کمال اور ہے۔

بلکہ تیری ذات خود کمال ہے‘ بلکہ تیری ذات فوق الکمال ہے

ساری کی ساری مخلوق تو نے پیدا کی‘ وہ سب ناقص۔

جب تیری ذات کمال قدرت ہے‘ تیری ذات فوق الکمال ہے‘ تیری ذات کا درجہ کمال سے بھی زیادہ ہے۔

کسی ایسے کو تو پیدا فرمایا ہوتا جو کامل ہوتا۔

جن کو پیدا کیا پوری کائنات میں سب ناقص ہیں۔

تو تیری ذات کمال قدرت سے لوگوں کو پیدا کر رہی ہے‘ وہ سب انسان ناقص ہیں۔ تو گویا انسان بھی تو ہونا چاہئے کہ جس کو کامل کہا جائے‘ وہ تیری صفات کا مظہر ہو‘ تیرے کمالات کا مظہر ہوتا‘ تیرے جمالات کا مظہر ہوتا یعنی جتنے نظر آ رہے ہیں‘ وہ سارے ناقص۔ تو پیدا کرنے والے نے پیدا کیا‘ لیکن جن جن کو پیدا کیا‘ وہ سب کے سب ناقص ہیں۔

اب سب کی بازگشت خالق کی طرف جائے گی‘ خالق! کسی کو تو ایسا بنایا ہوتا کہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہوتا‘ تیری ذات کا نمونہ ہوتا۔

صلواة

گویا سب شاگرد اساتذہ کو ناقص کر رہے ہیں کہ جو کسی استاد کے سامنے زانو تلمذ تہہ کرتا ہے‘ ناقص ہے۔

تبھی تو اپنے نقص کو دور کرنے کے لئے کسی کے سامنے بیٹھتا ہے۔

تو جب سب کے سب ناقص ہوئے تو خدایا! عجیب مخلوق ہے تیری‘ تو خود کمال فوق الکمال کمال قدرت سے جن کو پیدا کیا وہ سب ناقص۔

تو ضرورت ہے کہ خداوند عالم ایسی ذوات مقدسہ کو پیدا کرے کہ جو ذوات مقدسہ اپنے علم کے حصول کے لئے کبھی کسی کے سامنے زانو تہہ نہ کرے۔

اگر سبھی کسی نہ کسی سے پڑھنے والے ہوں گے تو سب ناقص ہوں گے‘ تو ضرورت ہے اس بات کی کہ کوئی ایسی ذوات مقدسہ ہوں جن کو جب پیدا کیا گیا‘ وہ اس وقت بھی عالم ہوں۔

تاکہ کہا جا سکے کہ اے انسان! ساری کائنات ناقصوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایسی ذوات مقدسہ بھی موجود ہیں‘ جب وہ پیدا ہوئے علم لے کر آئے‘ کامل بن کر آئے‘ انہیں کسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صلواة

ایسی ذوات کی ضرورت ہے کہ وہ کبھی کسی کے سامنے نہ بیٹھیں‘ کبھی کسی استاد سے علم حاصل نہ کریں‘ بلکہ وہ خدا سے پڑھ کر آئیں‘ تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ کائنات ساری ناقصوں کا مجموعہ ہے۔

نہیں‘ نہیں! بلکہ اس کائنات میں ایسی ذوات مقدسہ موجود ہیں جو خدا سے علم لے کر آئی ہیں‘ باقی سب لوگوں نے ان سے علم لینا ہے۔ گویا سب لوگ اپنے استاد سے علم حاصل کریں گے‘ استاد اپنے استاد سے علم حاصل کرے گا‘ یہ سلسلہ ایسے استاد تک پہنچے گا کہ جس استاد نے کبھی کسی استاد سے علم حاصل نہیں بلکہ وہ خدا سے علم لے کر آیا ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں جو خدا سے علم حاصل کر کے آئے ہیں؟ وہ کون ہیں جنہوں نے علم خدا سے لیا؟

پہلے آپ تھوڑا سا سمجھ لیں۔

دیکھئے!

ہم یہ کہتے ہیں کہ خداوند عالم کا علم اس کی ذات کا عین ہے۔

یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کی ذات اور ہے اور علم اور ہے۔

تاکہ یہ کہا جا سکے کہ خدا کی ذات علم سے خالی تھی۔

اب ظاہر ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ خدا کا علم اس کی ذات کا عین ہے۔

ہم تو جاہل پیدا ہوئے‘ کچھ نہیں جانتے تھے‘ دو چار کلمے پڑھے تو کچھ نہ کچھ ہمیں یاد ہو گیا‘ پھر بھی ہمارا علم ناقص ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو علم بہت کم ہے اور جہالت بہت زیادہ‘ اتنی جہالت کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ایک محقق بہت بڑے عالم تھے‘ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا‘ مسئلہ پوچھا:

انہوں نے کہا‘ اس مسئلے کا مجھے علم نہیں۔

دوسرے مسئلے کا سوال کیا۔

کہنے لگے:

اس مسئلے کا بھی مجھے علم نہیں۔

تین مسئلے پوچھے۔

اس عالم نے کہا:

مجھے علم نہیں۔

حیران ہو کر کہتا ہے:

آپ اتنے بڑے عالم ہیں‘ آپ کو ان مسائل کا بھی علم نہیں‘ تو وہ عالم کہنے لگے کہ

اگر میرے علم کو جسم میں ڈھال دیا جائے تو وہ اس قدر کم ہے کہ چڑیا بھی اسے اٹھا کر لے جائے۔

اور اگر جہالت کو جسم کی صورت میں ڈھال دیا جائے تو وہ اتنی زیادہ ہے کہ ہزاروں مل کر بھی اسے اٹھا نہ سکیں گے۔

تو حقیقت میں انسان میں جہالت زیادہ پائی جاتی ہے۔

ہم تو ہیں ہی جاہل‘ تو کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ خداوند عالم کیا ہے اور اس کی ذات کیا؟

ضرورت تھی کہ ایسی ذوات کو خدا پیدا کرے جو خدا سے علم لے کر آئیں۔ یعنی ایک لمحح بھی ایسا نہ ہو‘ ایک سیکنڈ بھی ایسا تصور نہ کیا جائے کہ وہ علم سے خالی ہیں‘ ان کے علم کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ جیسے یہ پیدا ہوتے ہیں‘ عالم تھے۔ ان کا علم ان کی ذات پر لازم ہے اور ان کے خالق کا علم کیا ہو گا۔ صلواة

اس کی ذات عین ہے اور وہ کون ذوات ہیں جو خدا سے علم لے کر آئیں۔

ارشادات رب العزت ہوتا ہے۔

الرحمن علم القرآن خلق الانسان علمه البیان

سورئہ رحمن آپ تلاوت کرتے رہتے ہیں۔

الرحمن علم القرآن

رحمن نے کس کو قرآن کی تعلیم دی؟ رحمن نے قرآن کی تعلیم دی‘ تعلیم کے بعد ذکر ہے:

خلق الانسان

"انسان کو خلق کیا۔"

علمه البیان

"خلق کرنے بعد اسے بیان کی تعلیم دی۔"

اب ان آیات کو ملاحظہ فرمائیں کہ

علم قرآن پہلے‘ خلقت انسان بعد میں‘ پھر اس کے بعد علم بیان‘ تو گویا بتانا مقصود ہے کہ ایسی ذوات مقدسہ موجود ہیں کہ جن کو علم قرآن پہلے دیا گیا ہے‘ پیدائش بعد میں کی گئی ہے۔

توجہ ہے نا

بتانا مقصود ہے کہ ایسی ذوات مقدسہ ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو علم لے کر آئیں‘ علم کے لئے وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکیں۔

وہ کون ذوات ہیں؟

دوسری آیت میں ارشادات رب العزت ہوتا ہے:

وحی نازل ہوئی کہ ابھی جبرائیل (علیہ السلام)کا کوئی کلمہ نہیں کہتے کہ حضرت رسالتمآب آگے آگے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

تو قرآن کہہ رہا ہے:

اے میرے حبیب۔

جب جبرائیل (علیہ السلام)قرآن سنا رہے ہوں تو خود آگے آگے پڑھنے کی کوشش نہ کرو۔

توجہ فرمائیں۔

گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ نزول قرآن سے پہلے‘ رسول اللہ ۱ کو قرآن کا علم تھا۔

ادھر جبرائیل (علیہ السلام)آیت شروع کرتے تو حضور ۱ آگے آگے پڑھنا شروع کر دیتے تو قرآن کے نزول سے پہلے جب قرآن کا علم ہے تو اس کا مطلب کیا ہوا؟

کہ جب رسالتمآب ۱ کو پیدا کیا گیا تو پیدائش کے ساتھ ان کو علم دیا گیا‘ یہ نہیں کہ پہلے پیدا کیا گیا اور بعد میں علم دیا گیا۔

صلواة

کوشش کرتے ہیں کہ سمجھائیں کہ اہل بیت (علیہم السلام)کو

اس پوری آیت کو پڑھا جائے تو مطالب واضح ہو جاتے ہیں۔

ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:

اے میرے حبیب۔

نبوت کے اعلان سے پہلے آپنے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی‘ نبوت کے اعلان سے پہلے کبھی آپنے لکھا نہیں۔

اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ رسول اللہ ان پڑھ تھے۔

جبرائیل (علیہ السلام)آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد پڑھئے۔

وہ کہنے لگے میں تو ان پڑھ ہوں‘ کیسے پڑھوں تو جبرائیل (علیہ السلام)نے ایسا دبایا کہ حضرت کے پسینے بھی چھوٹ گئے اور پڑھنا بھی شروع کر دیا۔

تو سامنے اس آیت کو رکھا گیا ہے۔

اس آیت کے الفاظ۔

اے میرے حبیب!

آپ پہلے کتاب بھی نہیں پڑھتے تھے‘ آپ نے کبھی لکھا بھی نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں کہا؟ کیا حضرت ان پڑھ تھے‘ کیا پڑھے لکھے نہیں تھے؟ اس کا جواب خود آیت دے رہی ہے:

اگر آپ پہلے کتابیں پڑھتے ہوتے‘ اگر آپ پہلے لکھتے ہوئے تو باطل پرست لوگ آپ ۱ کی نبوت میں شک کرتے‘ کہتے کہ کتابیں پڑھ پڑھ کے ہم کو بتا رہے ہیں۔

اگر لکھتے ہوتے تو وہ کہتے کہ لوگوں سے اقتباسات لے کر اس کو قرآن بنا کر ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

تو آپ کو پہلے کبھی نہیں کہا کہ کتابیں پڑھو‘ پہلے کبھی نہیں کہا کہ لکھو‘ تاکہ لوگ اشکال نہ کریں‘ باطل پرست غلط روی کی طرف نہ چلے جائیں۔

اب سوال یہ ہے کہ علم تھا یا نہیں تھا۔ اس سے اگلی آیت ملاحظہ ہو:

قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے کہ یہ آیات کے واضحات ہیں‘ یہ ان کے سینے میں موجود ہیں‘ جن کو خداوند عالم نے علم دیا ہے۔

تو مطلب یہ ہوا کہ اے میرے حبیب! تجھی ۱ علم دیا گیا ہے پیدائش کے وقت‘ ان آیات کا‘ لیکن صرف اس لئے کہ لوگ اشکال نہ کریں‘ آپ کو اجازت نہیں تھی کتابیں پڑھنے کی‘ آپ کو اجازت نہیں تھی کتابیں لکھنے کی‘ علم آپ کو پہلے عطا کیا گیا تھا۔

تو ارشاد خداوندی ہوا:

کوئی ظالم ہی ہو گا جو آپ کو ان پڑھ کہے گا۔

ورنہ آپ کو علم پہلے دیا گیا‘ پیدائش بعد میں کی گئی۔

صلواة

سامعین محترم!

یہ وہ ذوات ہیں جنہوں نے انسانیت کی لاج رکھ لی۔ ان کو علم پہلے دیا گیا‘ کبھی کسی استاد کی ضرورت نہیں پڑی‘ اگر یہ ذوات مقدسہ نہ ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا نے جتنے انسانوں کو پیدا کیا وہ سب کے سب ناقص ہیں‘ کسی کو کامل تو بناتا۔

خدا نے ان ذوات مقدسہ کو پیدا کر کے فرمایا:

"لوگو! یہ ذوات تمہارے لئے نمونہ ہیں‘ یہ ذوات تمہارے لئے اسوئہ ہیں‘ یہ ذوات تمہارے لئے ماڈل ہیں‘ یہ سب کچھ خداوند سے لے کر آتے ہیں۔ ان کا کام تمہیں بتانا ہے‘ تو میں نے کمال کو پیدا کیا ہے‘ اس کمال کو دیکھ کر تم بھی اپنی زندگیوں کو کامل بنا سکو۔"

صلواة

خداوند عالم نے ان کے جسموں کو پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور ان کی روح کو ظاہر بنایا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ اس کائنات کی خلقت سے پہلے ان کے نور کو خلق کیا گیا تو ان کے جسم بھی پاک ہیں‘ ان کے ارواح بھی پاک۔ یہ طاہر ہیں‘ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں پائی جاتی‘ نہ کسی قسم کا نقص پایا جاتا ہے۔ اسی لئے زیارت پڑھتے ہیں تو آپ پڑھتے ہیں۔

صلوت الله علیکم و علی ارواحکم و علی اجسادکم وعلی اجسامکم

کیا کہتے ہیں؟

کہ اللہ کی رحمت ہو کن پر؟ تم پر‘ تمہاری روح پر۔ اللہ کی رحمت ہو تمہارے جسم پر‘ اللہ کی رحمت ہو تمہارے جسد پر‘ اللہ کی رحمت ہو تو رحمت بدن پر بھی ہے‘ جسم پر بھی ہے‘ جسد پر بھی ہے‘ روح پر بھی۔

گویا کہ روح بھی ان کی پاک و پاکیزہ‘ ان کا جسم بھی پاک و پاکیزہ۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ

کیا کبھی ان میں کوئی نقص ہو سکتا ہے؟

کبھی ان کو نسیان ہو سکتا ہے؟

معاذ اللہ‘ کبھی ان سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں اور کسی نے کہہ دیا:

ان الرجل لا

معاذ اللہ! حضرت کی ذات کوئی غلط بات کہہ رہی ہے‘ اشکال کیا گیا۔ اگر غور و فکر کیا جائے‘ تدبر کیا جائے حدیث کا‘ قرآن مجید کی آیات کا تدبر کیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اہل بیت (علیہم السلام)سے قطعاً کوئی غلطی‘ کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی۔ کمزوری کا مطلب یہ نہیں کہ نقص ہے‘ بیمار ہو سکتے ہیں‘ بخار آ سکتا ہے‘ یعنی پریشانی ہو سکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہو سکتی ہیں‘ لیکن جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے‘ جہاں تک دماغ کا تعلق ہے‘ جہاں تک سر کا تعلق ہے‘ جہاں تک مغز کا تعلق ہے‘ ان میں کبھی کوئی نقص نہیں ہو سکتا‘ بدن میں کمزوری ہو سکتی ہے۔

جیسے آپ حدیث کساء میں پڑھتے ہیں‘ اس میں کہا گیا ہے کہ حضرت رسالتمآب ۱ تشریف لاتے ہیں‘ اپنی بیٹی سیدہ فاطمة الزہرا (علیہا السلام)کے ہاں۔

صلواة

فرماتے ہیں‘ اے میری بیٹی فاطمہ(علیہا السلام) ! میں اپنے بدن میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔

دیکھئے!

بدن پنجابی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ عربی میں بھی۔ اب دیکھئے کہ بدن کے ساتھ تین لفظ اور استعمال ہوتے ہیں‘ جسم‘ جسد‘ بدن۔ ایک چیز مگر نہیں ان میں بھی فرق ہے۔

جسم‘ پورے جسم کو کہتے ہیں‘ لیکن جہاں تک جسد کا تعلق ہے‘ جسد اس وقت جسم کو کہتے ہیں جب وہ روح سے خالی ہو جائے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہوتا ہے:

وما جعلنهم جسد الا یا کلون الطعام

"اے نبی ۱! ہم نے آپ کا خالی جسد ایسا نہیں بنایا کہ آپ کو نہ طعام یا مزاج کی ضرورت نہ ہو۔"

تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر روح نہ ہو‘ سر سے لے کر پاؤں تک سارے کا سارا کہلاتا ہے جسم۔

یہاں پر نہیں کہا گیا کہ میرے جسم میں کمزوری محسوس ہو رہی ہے‘ کمزوری سر میں بھی ہوتی ہے‘ باقی بدن میں بھی ہوتی ہے۔

حضرت فرما رہے ہیں کہ

انی لاجد فی بدنی ضعفا

جہاں تک بدن کا تعلق ہے‘ سر سے نیچے جتنا بدن ہے‘ بدن کہلاتا ہے۔

آپ کسی افسر کے پاس کسی سفارش کرنے والے کو لے جاتے ہیں کہ یہ میرا کام کروا دے گا لیکن وہ نہیں مانتا۔ اب آپ کوشش کریں گے کہ اس یعنی پہلے والے سفارشی سے کوئی اعلیٰ قسم کا سفارشی لے کر جاؤں تاکہ وہ افسر یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے پہلے والی سفارش نہیں مانی‘ لہٰذا اسے بھی نہیں مانتا۔

تو اب ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام)کی شفاعت کے معنی دربار خداوندی میں پیشگی ہے۔

خدایا!

تجھے واسطہ ہے ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام)کا ولادت آسان کر دے۔

ولادت آسان نہیں کام نہیں ہوا۔

اب فاطمہ سفارش کر رہی ہیں۔

تو اب معلوم ہوا کہ یہ سفارش پہلی سفارش اعلیٰ ہے۔

تبھی تو دعا قبول ہو رہی ہے۔

خدایا!

تجھے واسطہ ہے میرے اس بیٹے کا جو میرے بطن میں ہے اس کے صدقہ میں ولادت آسان کر دے۔

یہ کہنا تھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اندر چلی گئیں۔

بہرحال میرا مقصود روایتیں بیان کرنا نہیں‘ آج کی مجلس کے ساتھ جن چیزوں کا ذکر ہے‘ وہی بیان کروں گا۔

علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے خانہ کعبہ میں۔

جب علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو روئے نہیں‘ جس طرح عام لوگ روتے ہیں۔ علی (علیہ السلام) نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں‘ علی (علیہ السلام) نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا۔ ظاہر ہے بچہ ایسا کرے تو والدین پریشان ہو جاتے ہیں‘ آنکھیں نہ کھولے تو سمجھتے ہیں کہ بچہ نابینا ہے‘ تو جناب فاطمہ بنت اسد اس لحاظ سے پریشان تھیں۔

لیکن جب جناب رسالتمآب ۱ تشریف لائے تو علی (علیہ السلام) نے آنکھیں بھی کھولیں اور ایک کلمہ بھی کہا:

السلام علیکم یا رسول الله

صلواة

سبحان اللہ!

تو رسالتمآب ۱ جواباً فرماتے ہیں:

السلام علیک یا وصی الله

حضرات محترم!

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جس وقت علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے‘ کیا رسالتمآب اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے؟

بالکل نہیں‘ ابھی تک نبوت کا اعلان نہیں ہوا‘ اس کے باوجود پیدا ہونے والا بچہ پہلی گفتگو یہی کرتا ہے کہ السلام علیک یا رسول اللہ‘ اسی طرح علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔

ہرگز نہیں

جب نبی ۱ کی نبوت کا اعلان نہیں ہوا تو علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کیسا؟

تو جواب میں رسول اللہ ۱ فرماتے ہیں:

علیک السلام یا ولی اللہ

تو گویا یہ بتلانا مقصود ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے علی (علیہ السلام) جانتے تھے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اعلان ولایت سے پہلے رسول جانتے تھے کہ علی (علیہ السلام) اللہ کے وصی ہیں۔

صلواة

نعرئہ حیدری سبحان اللہ!

حضرات محترم!

تھوڑی سی توجہ چاہئے۔

آپ مومنین حضرات تشریف فرما ہیں‘ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی مومن نماز نہ پڑھتا ہو‘ بلکہ مومن ہوتا ہی وہی ہے جو نماز کا پابند ہو‘ جس نے کبھی نماز ترک نہ کی ہو۔

کیوں؟

اس لئے کہ نماز کا حکم انسان کو اس طرح دیا گیا ہے کہ اے انسان! ہر روز کھڑے ہو کر نماز پڑھو‘ اگر اتنا کمزور ہے‘ بیمار ہے کہ سہارا لے کر بھی کھڑا نہیں ہو سکتا‘ پھر اجازت ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھ۔ اگر بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا‘ پھر حکم دیا گیا ہے کہ دائیں جانب لیٹ کر نماز پڑھ۔ اگر دائیں جانب نہیں لیٹ سکتا تو حکم ہے کہ بائیں جانب لیٹ کر نماز پڑھ۔ اگر اتنا ہی بیمار ہے کہ بائیں جانب بھی نہیں لیٹ سکتا تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ پشت کے بل لیٹ جائے اور اشارے کے ساتھ نماز پڑھے۔ اگر کوئی پشت کے بل بھی نہیں لیٹ سکتا تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھے۔ تھوڑا سا سر نیچے کرو سمجھ لو کہ رجوع ہو رہا ہے‘ زیادہ نیچے کرو سجدہ ہو رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اتنا بیمار ہے کہ سر کے اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو حکم ہے کہ آنکھ کے اشارے سے نماز پڑھے‘ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں۔ اگر کوئی شخص آنکھ کے اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو دل میں تصور کرے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور اگر کوئی اتنا انتہاء کو پہنچ چکا ہو کہ دل سے قصد بھی نہیں کر سکتا تو گویا اس حالت میں وہ جا چکا ہے۔

جب تک انسان زندہ ہے‘ نماز ضروری ہے اور نماز کی کوئی معافی نہ ہے۔

ماشاء اللہ!

آپ سبھی نمازی ہیں۔

اب نمازی مسجد میں گیا‘ دیکھا کہ مسجد میں نجاست پڑی ہے‘ کسی بچے نے پیشاب کر دیا ہے۔ مسجد تو بہت بڑی جگہ پر بنی ہوئی ہے‘ کیا انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ جہاں نجاست پڑی ہے وہ جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ نماز پڑھ لے؟

حکم دیا گیا ہے کہ

پہلے مسجد کو پاک کرے‘ پھر نماز پڑھے۔

مسجد کا پاک کرنا واجب ہے۔ اگر انسان اکیلا ہے مسجد کو پاک نہیں کر سکتا‘ حکم ہے کہ اور آدمی اکٹھے کرو‘ پہلے مسجد کو پاک و صاف کرو‘ پھر نماز پڑھو۔

تو مسجد کا پاک کرنا کتنا ضروری ہے۔

اگر کوئی آدمی جذب کی حالت میں مسجد میں جائے تو اسے اتنی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایک دروازے سے جائے اور جلدی جلدی دوسرے دروازے سے نکل جائے‘ وہ نہ تو وہاں ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز رکھ سکتا ہے‘ اگر مسجد الحرام یا مسجد نبوی ہو تو وہاں آدمی قدم تک نہیں رکھ سکتا۔

گویا مطلب یہ ہوا کہ نجس ہو کر مسجد میں جانا ناجائز‘ مسجد کو نجس کرنا ناجائز‘ اگر نجاست پڑی ہوئی ہو تو اس کا پہلے پاک کرنا بعد میں نماز پڑھنا شرط ہے۔

یہ مسئلہ واضح ہو گیا۔

حضرات محترم!

جب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ میں داخل ہوئیں تو جس طرح ہماری عورتیں زچگی کی حالت میں نجس ہوتی ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے‘ وہ بھی نجس‘ بعد میں غسل دے کر اسے پاک کیا جاتا ہے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ! فاطمہ بنت اسد کی حالت بھی اسی طرح تھی‘ جس طرح عام عورتوں کی ہوتی ہے؟ ان کا بچہ بھی اسی طرح تھا‘ جس طرح عام عورتوں کا بچہ ہوتا ہے؟ اگر اس طرح کا بچہ ہو تو اشکال لازم آئے گا۔

اے اللہ!

تو لوگوں کو تو کہتا ہے کہ مسجد کو نجس کرنا ناجائز ہے اور اگر نجاست پڑی ہوئی ہو تو اس کا دور کرنا واجب ہے۔

اور خود

معاذ اللہ! فاطمہ بنت اسد کو بھیج رہا ہے کہ خانہ کعبہ نجس ہو جائے‘ لیکن خداوند عالم ایسا کام نہیں کرتا کہ جس سے دوسروں کو روکے۔ تو فاطمہ بنت اسد کو کعبہ کے اندر بھیجا‘ اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح دوسری عورتیں زچگی کے وقت نجس ہو جاتی ہیں‘ اس طرح فاطمہ بنت اسد نہیں

نہ فاطمہ نجس ہیں‘ نہ بچہ نجس ہے۔ فاطمہ بھی پاک ہے‘ بچہ بھی پاک ہے۔

لہٰذا خانہ کعبہ کے اندر بھیج دیا۔

مسلمانو!

مجھے بتاؤ کہ

کافر ہو اور کافر ہوتے ہوئے بھی پاک ہو؟

کیا کافر بھی کبھی پاک ہو سکتا ہے؟

گویا فاطمہ کا کعبہ کے اندر جانا اور خدا کا خود بھیجنا۔

فاطمہ خود نہیں گئیں‘ خدا نے خود بھیجا ہے۔

دروازے سے نہیں گئیں‘ بلکہ دیوار کعبہ شق ہوئی ہے۔

تو فاطمہ کو کعبہ کے اندر بھیجنا اس بات کی دلیل ہے کہ

فاطمہ نہ صرف مومنہ ہیں‘ بلکہ ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں‘ تبھی تو خانہ کعبہ میں آئیں۔

صلواة

عجیب بات ہے کہ جب حضرت مریم کی زچگی کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مریم باہر چلی جاؤ‘ یہ بیت المقدس ہے‘ زچہ خانہ نہیں۔

اب دیکھئے! حضرت مریم خود معصوم‘ حضرت مریم کا بیٹا‘ لیکن پھر بھی یہ کہہ کر نکال دیا جاتا ہے کہ یہ بیت المقدس ہے‘ یہاں پیدائش نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ حضرت مریم کی رہائش گاہ ہی بیت المقدس ہے‘ مسجد اقصیٰ میں سکونت پذیر ہیں۔

تو اب ہے ناحیرانی والی بات !

خدایا!

عجیب بات ہے کہ مریم خود معصوم‘ اس کا بیٹا معصوم‘ اسے تو اقصیٰ سے باہر بھیج رہا ہے اور فاطمہ بنت اسد کو جس کو دوسرے مذاہب والے کافر کہتے ہیں۔ معاذاللہ!

دیوار کعبہ شق کر کے اندر بھیج رہا ہے۔

گویا بتانا مقصود ہے کہ اسلام کا پرچار کرنے والی طہارت‘ مریم کی طہارت سے زیادہ ہے‘ جبھی تو خانہ کعبہ میں بھیجا گیا۔

کیا کہنے مولائے کائنات(علیہ السلام)کے! علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے جتنی عظمت پیدا کی ہے‘ اتنی عظمت عیسیٰ (علیہ السلام)اور مریم نے پیدا نہیں کی۔

علی (علیہ السلام) کی صرف ایک خصوصیت کا تذکرہ مقصود ہے‘ وقت نہیں کہ تفصیل سے بیان کروں۔

صلواة

جناب رسالتمآب نے اس دنیا میں ۲۳ سال تک تبلیغ احکام خداوندی لوگوں تک پہنچایا‘ پہلے مکہ مکرمہ میں ۱۳ سال اور ۱۰ سال مدینے میں رہے۔ تکلیفیں برداشت کرتے رہے‘ مسلمان جتنی سازشیں کر سکتے تھے‘ کرتے رہے‘ لیکن جناب رسالتمآب نے اپنا مشن ترک نہیں کیا‘ دن رات ایک کر کے ۲۳ سال کی محنت سے احکام خداوندی کو لوگوں تک پہنچایا۔

اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خداوند عالم اس محنت پر رسالتمآب ۱ کا شکریہ ادا کرتا اور کہتا:

اے میرے حبیب! آپ نے بڑی محنت کی ہے‘ لیکن جب آخری حج کر کے واپس آ رہے ہیں تو کہا جا رہا ہے کہ اے میرے حبیب! ایک کام باقی رہ گیا ہے‘ اس حکم کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ اگر اس حکم کو لوگوں تک نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔

رسول اعظم ۱ کی شخصیت‘ ۲۳ سال محنت کی ہے مگر پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ حکم لوگوں تک نہ پہنچایا تو آپنے رسالت کا کوئی کام نہیں کیا۔ ساری محنت رائیگاں جا رہی ہے۔

اگر یہ روایت کسی آدمی کی ہوتی تو میں کبھی بھی آپ کے گوش گزار نہ کرتا‘ مگر یہ قرآن کہہ رہا ہے۔ اب قرآن حکیم کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا۔

ارشاد ہوتا ہے:

یا یها الرسول بلغ ما انزل من

اے میرے رسول!

نبی نہیں کہا گیا‘ حبیب نہیں کہا گیا‘ مزمل‘ مدثر‘ یٰسین نہیں کہا گیا بلکہ جو ان کا منصب تھا اس کا ذکر کیا گیا کہ

اے میرے رسول!

تیری ۱ طرف جو حخم نازل ہوا ہے‘ اس کو لوگوں تک پہنچا دے‘ اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام بھی نہیں کیا۔

یہ کہنا مقصود ہے کہ رسالت کی جتنی تبلیغ ہوئی‘ یہ بمنزلہ ایک ڈھانچے کے ہیں‘ بمنزلہ ایک جسد کے ہیں اور جو حکم دیا جا رہا ہے وہ ایک روح کے لئے‘ کہ وہ حکم آ جائے تو اعمال مفید ہوں گے‘ اعمال زندہ ہوں‘ تو اتنا بڑا حکم آ رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ حکم ہے کیا؟

کوئی کہتا ہے‘ نماز کا حکم ہو گا‘ کوئی کہتا ہے یہ حکم روزہ کا ہے اور کوئی کہتا کہ حج کا‘ مگر ان کا حکم تو پہلے ہی آ گیا تھا۔ تو پھر یہ ایسا کون سا ہے کہ جس کو روح کہا جا سکے؟ جس سے تمام اعمال زندہ ہوں‘ لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے رہے۔

اب اس حکم کو پہنچانا ہے تو تمام اعمال کی روح اس نے بننا ہے۔ وہ روح اگر موجود ہو گی تو رسالت کے احکام بھی زندہ‘ تمام اعمال بھی زندہ‘ ورنہ کچھ بھی زندہ نہ رہے گا۔

اس حکم کو پہنچانے کے لئے جناب رسالتمآب ایک جگہ تشریف لے گئے‘ پلانوں کا ممبر بنایا‘ جیسے مقررین بیان کرتے رہتے ہیں‘ اس کے بعد تبلیغ کی‘ لوگوں کو کہنے لگے:

اے لوگو!

بتاؤ‘ جس طرح تبلیغ کرنے کا حق تھا میں نے کی ہے یا نہیں؟

صحابہ کرام  کا مجمع تھا‘ کہا:

یا رسول اللہ!

آپ نے بہترین تبلیغ کی ہ ے‘ جس طرح تبلیغ کا حق تھا۔

پھر دوسرا سوال کیا کہ

مجھے بتاؤ جب معاملات میرے اور تمہارے درمیان طے ہو جائیں تو تمہارے نفسوں پر میں زیادہ حاکم ہوں یا تم خود؟

سب نے کہا:

یا حضرت! آپ کی ذات زیادہ حاکم ہے۔

یہ سب پوچھنے کے بعد کیا کہا؟

یاعلی (علیہ السلام) ! میرے قریب آؤ۔

اور قریب آ جاؤ یاعلی (علیہ السلام) ۔

علی (علیہ السلام) قریب آئے تو تیسری دفعہ اور قریب کیا پھر علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور فرمانے لگے:

من کنت مولا فهذا علی مولا

جس جس کا میں مولا ہوں‘ اس اس کا یہ علی (علیہ السلام) مولا ہے۔

یا رسول اللہ!

کیا ضروری تھا علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو پکڑ کر بلند کرنا‘ ویسے ہی بتا دیتے‘ کون تھا؟ جو علی (علیہ السلام) کو نہ جانتا تھا کہ جس کو علی (علیہ السلام) کی معرفت نہ تھی۔ تو رسول اللہ (ص)فرمائیں گے‘ اصل میں شاگرد تین قسم کے ہوتے ہیں:

بعض شاگرد زیرک قسم کے ہوتے ہیں‘ استاد کچھ کہے‘ کچھ سمجھائے وہ اس سے آگے بھی سمجھ جاتے ہیں۔

بعض شاگرد ایسے ہوتے ہیں متوسط قسم کے‘ استاد کچھ سمجھائے ان کو سمجھ نہیں آتی‘ پھر استاد پوری توجہ دلاتا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں۔ بعض شاگرد اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو بے شک بار بار بھی سمجھایا جائے‘ انہیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ استاد کیا کہہ رہا ہے۔

جناب رسالتمآب کے شاگرد بھی تین طرح کے تھے:

بعض ایسے تھے کہ رسول اللہ نے ایک بار بتایا تو وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ نے تو ایک باب بتایا‘ لیکن ہمارے لئے ہزار باب کھل گئے۔

کچھ ایسے شاگرد تھے کہ رسول اللہ ! ایک دفعہ بتاتے تو وہ سمجھ جاتے تھے۔

کچھ ایسے بھی تھے کہ رسول اللہ (ص)تبلیغ کرتے‘ احکام خداوند عالم بتاتے‘ لیکن جب دربار رسالت سے باہر نکلتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رسول اللہ نے ابھی کیا کہا تھا؟

واذ قال رسول الله

رسول اللہ (ص)ابھی کہہ رہے تھے۔

تو ایسے لوگوں کے لئے ضرورت تھی اس امر کی تاکہ انہیں یقین ہو جائے کہ علی (علیہ السلام) کوئی اور نہیں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے‘ بلکہ علی (علیہ السلام) کو پکڑ کر بلند کر کے بتایا ہے کہ یہ وہ علی (علیہ السلام) ہے‘ جس کی ولایت کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

صلواة

واقعہ تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔ اب علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان ہو چکا تو قرآن کی آیت اتری:

الیوم…

اے میرے حبیب! آج کے دن کافر تیرے دین سے مایوس ہو گئے ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ چلے جائیں گے‘ بعد میں دین ہمارے ہاتھ میں ہو گا‘ آج کے دن وہ مایوس ہو گئے۔

چونکہ دین کا محافظ تو معین کر دیا گیا۔

کافروں کا ڈر دل میں مت رکھنا۔

اس کے بعد کیا فرمایا:

الیوم اکملت لکم دینکم و اتمت علیکم نعمتی

آج کے دن میں نے دین کو مکمل کر دیا اور اس دن میں نے اپنی نعمت کو پورا کر دیا‘ آج کے دن دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔

صلواة

حضرات گرامی!

علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ علی (علیہ السلام) کی منزلت اسلام میں کیا ہے؟

آپ غور فرمائیں کہ

رسول اللہ چالیس برس کے ہوئے‘ تب انہوں نے نبوت کا اعلان کیا تو رسول اللہ اپنے گواہ‘ شریعت کے محافظ‘ اسلام کے محافظ کا انتظار کر رہے تھے کہ محافظ آئے اور وہ اپنی نبوت کا اعلان کریں۔

جب تک علی (علیہ السلام) اس دنیا میں نہیں آئے اعلان نبوت نہیں ہوا‘ تو ابتداء اعلان میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی‘ اسی لئے علی (علیہ السلام) کا انتظار کیا گیا۔ رسول نے ۲۳ سال تبلیغ اسلام کی لیکن اسلام کا حل نہ ہو سکا۔

آدم (علیہ السلام)نے تبلیغ کی‘ نوح (علیہ السلام)نے تبلیغ کی‘ عیسیٰ (علیہ السلام)تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء(علیھم السلام) تبلیغ کرتے رہے‘ اسلام مکمل نہ ہوا۔ حضرت محمد نے ۲۳ سال تبلیغ کی‘ لیکن کمالیت کی سند ابھی نہیں ملی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ

علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کرو‘ تب اسلام مکمل ہو گا۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ ابتدائے اسلام میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی اور انتہائے تبلیغ میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی۔ علی (علیہ السلام) آئے تو اسلام مکمل ہوا۔

تو جب ابتداء بھی علی (علیہ السلام) ‘ انتہاء بھی علی (علیہ السلام) ۔ تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پھر حقیقت میں اسلام وہی ہو گا‘ جس کی ابتداء میں بھی علی (علیہ السلام) ‘ انتہاء میں بھی علی (علیہ السلام) ہو۔ صلواة

جنہوں نے باب مدینة العلم سے علم لیا‘ علی (علیہ السلام) کے اسلام حقیقی کو سمجھا ہے‘ انہوں نے ایک سال کے اندر اپنا آئین بھی اسلامی بنا لیا‘ اپنا دستور بھی اسلامی بنا لیا‘ اپنا قانون بھی اسلامی بنا لیا اور آج پورا ملک اسلامی ہے۔ لیکن جنہوں نے کوشش کی ہے کہ علی (علیہ السلام) کو ایک طرف کر کے اسلام لائیں‘ آج نو سال گزر گئے‘ ہم اسلام چاہتے تھے لیکن اسلام ابھی تک نہیں آ سکا۔ اس لئے کہ جب علی (علیہ السلام) کو ایک طرف کر کے اسلام آئے گا تو وہ نیویارک کا اسلام ہوگا‘ محمد عربی کا اسلام نہیں ہو گا۔

میدان غدیر میں اسلام کی تکمیل کے لئے اسلام کی کمالیت کے محمد عربی نے علی (علیہ السلام) کو اٹھا کے لوگوں کو دکھایا‘ لیکن۔

ایک اور میدان

جس میدان کو کربلا کہتے ہیں‘ وہاں محمد موجود نہیں‘ محمد کا نمائندہ حسین (علیہ السلام) موجود ہے۔ حسین (علیہ السلام) نے دین اسلام کی بقاء کے لئے علی اصغر کو اٹھا کے پیش کیا‘ محمد نے اسلام کو مکمل کرنے کے لئے علی (علیہ السلام) کو اٹھا کے پیش کیا۔

لیکن حسین (علیہ السلام) نے محمد کا کردار ادا کرتے ہوئے کربلا میں علی اصغر کو اٹھا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا کہ اسلام تب ہی بچ سکتا ہے جب ایک اور علی (علیہ السلام) اپنی جان کا نذرانہ دے۔

کتنا فرق ہے۔

حسین (علیہ السلام) نے میدان کربلا میں استغاثہ بلند کیا۔

کہا!

هل من…

کوئی ہے جو خاندان کی حفاظت کرے؟

اس وقت علی اصغر نے اپنے آپ کو پنگھوڑے سے نیچے گرا لیا اور ماں سے کہا‘ میرا باباغربت کے نعرے بلند کر رہا ہے‘ میں باباکی مدد کے لئے جاؤں گا۔

میں کہتا ہوں

اگر حسین (علیہ السلام) کی فوج سے اصغر کو نکال دیا جائے تو فوج کی عظمت ختم ہو جائے‘ اصغر اور سکینہ ایسے فوجی ہیں جن کو دیکھ کر کفار کے دل بھی دہل جاتے تھے۔ وہ بھی کہتے تھے:

مسلمانو!

تمہیں یا ہو گیا ہے؟ اصغر کو بھی تو نے نہیں چھوڑا اور سکینہ کو بھی طمانچے مارے اور کبھی سکینہ کے در چھینے۔

کربلا میں جب امام(علیہ السلام) کا غم منایا جاتا تو ہر چند کی شبیہ بنائی جاتی اور ہمیشہ شبیہ اکبر کی بناتے‘ قاسم کی بناتے۔ ایک دفعہ ہم بھی وہاں موجود تھے‘ کربلائیوں کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علی اصغر کی شبیہ بنائی جائے اور اس کو اسی طرح تیر مارا جائے‘ تاکہ لوگ گریہ کریں کہ اس چھوٹے بچے کو تیر مارا جا رہا ہے۔

عزادارو!

جب اصغر کی شبیہ کے لئے ایک یہودی کو پیسے دیئے گئے‘ لیکن یہودی نے جب زمین پر اپنا گھٹنہ زمین پر رکھا اور تیر کو کمان میں جوڑا کہ اس بچے کی شبیہ کو تیر ماروں

لیکن کیا کہنے اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں کا! میدان کربلا میں ششماہے بچے کا بھی خیال نہ کیا۔

ایک عالم نے بتایا کہ میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا‘ میرے ساتھ چند ہندو بھی بیٹھے تھے۔

ایک ہندو مجھ سے مخاطب ہوا‘ کہنے لگا:

اے عالم!

ہمیں یہ بتا کہ کربلا میں کیا ہوا تھا؟

عالم نے جواب میں کہنا شروع کیا کہ

میدان کربلا میں دونوں طرف فوجیں موجود ہیں‘ حسین (علیہ السلام) اپنے جانثاروں کی قربانی دے رہے ہیں‘ جب حبیب گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:

حبیب! تیری شہادت سے میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔

جب زہیر گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:

زہیر! تیری شہادت سے میرا دایاں بازو ٹوٹ گیا اور جب

عباس گھوڑے سے گرے‘ حسین (علیہ السلام) کرسی سے گر گئے اور کہا:

بھیا عباس! تیری شہادت سے میری کمر ٹوٹ گئی اور جب علی اکبر گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:

اے میرے کڑیل بیٹا! اے میرے ہمشکل پیغمبر بیٹا! یہ دنیا میرے لئے اندھیری ہو گئی ہے‘ مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔

عالم نے بتایا کہ حرملا نے گھٹنہ زمین پر رکھا‘ تیر ایسے جوڑا کہ اصغر کی گردن پر مارے‘ یہاں تک پہنچا تھا کہ ایک بوڑھا ہندو کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ

بس! بس! اب اس سے زیادہ ہم سن نہیں سکتے کہ کیا ہوا۔

لیکن مسلمانو!

تمہاری غیرت کو کیا ہوا؟ ہندو نہیں سن سکتے‘ لیکن تم نے اس ششماہے بچے کو تیر مارا۔ حسین (علیہ السلام) پر بڑی مصیبتیں آئیں‘ لیکن جتنا دکھ حسین (علیہ السلام) کو اس بچے کی شہادت سے ہوا‘ اتنا دکھ حسین (علیہ السلام) کو کسی اور شہید کی شہادت سے نہیں ہوا۔

ایک دفعہ زیارت کے لئے زائرین گئے‘ کیا دیکھتے ہیں کہ حسین (علیہ السلام) اپنی قبر سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور زخموں سے چور چور ہیں‘ بدن پر اتنے زخم ہیں کہ ان زخموں کو شمار نہیں کیا جا سکتا اور حسین (علیہ السلام) کربلا کی مٹی اپنے زخموں پر ڈال رہے ہیں۔ اس بندہ خدا‘ دیکھنے والے نے گریہ کیا اور مومنین کو جا کر بتایا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا‘ مومنین نے گریہ کیا۔ دوسری رات پھر حسین (علیہ السلام) کو دیکھا۔