مجلس ششم
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
( ایاک نعبد و ایاک نستعین )
حضراتِ محترم!
اگر انسان کے پاس مال و دولت ہو تو لوگ یقیناً ساتھ رہے ہیں اور اگر کچھ بھی پاس نہ ہو اور کسی کو کہا جائے کہ میرا ساتھ دو تمہیں بہت کچھ دوں گا‘ لوگ سوچیں گے کہ اس کے پاس خود کچھ نہیں یہ مجھے کیا دے گا؟
دیکھئے! رسالتمآب ۱ کو حکم ہو رہا ہے:
و انذر عستیر تک الاقربین
اپنے خاندان والوں کو بلائیں‘ انہیں بلا کر سمجھائیں کہ مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے‘ کیونکہ سب سے پہلے گھر والوں کو خاندان والوں کو سمجھایا جاتا ہے‘ گھر والے اگر کسی کو نہیں مانتے تو باہر والے کیا مانیں گے۔
بہرحال خاندان والوں کو بلایا گیا‘ بہت بڑی بہترین دعوت کھلائی گئی‘ لوگ آئے‘ ایک بکرا ذبح کیا گیا‘ لوگوں کی تعداد زیادہ تھی‘ عرب ماشاء اللہ کھاتے بھی زیادہ تھے‘ ان کی خوراک کافی زیادہ ہوتی ہے‘ وہ کھانے کے ماہر ہیں‘ بہرحال ان لوگوں کو دعوت دی گئی اور بکرا ایک۔ کھانے والے ایسے کہ ایک ایک بکرا کھا جاتے تھے‘ لیکن صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک بکرے کی رانیں نکل رہی ہیں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘ پتہ ہی نہیں چل رہا‘ کتنی رانیں نکل گئی ہیں اور کتنی رانیں لوگ کھا رہے ہیں‘ تو جب لوگ کھا پی چکے تو کسی نے شرارت کر دی۔ ابوجہل جیسے لوگ موجود تھے‘ کہنے لگے کہ آج ابو طالب (علیہ السلام) کے بھتیجے نے بڑا جادو کر دیا۔ کس قسم کا جادو؟ کہ بکرا تو ایک تھا اور رانیں اتنی کہ پتہ ہی نہ چلا کتنے لوگ کھا گئے۔
تو ظاہر ہے نبی کے ہاتھ پر اتنا کمال بھی ظاہر نہ ہوتا تو باقی کمال کہاں سے نظر آتے؟ خیر۔
رسول اللہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے آج کچھ نہ کہہ سکے۔ اب پھر دوسرے دن علی (علیہ السلام) سے کہا گیا‘ بکرا تلاش کرو‘ ان لوگوں کی پھر دعوت کرو‘ اب دوسرے دن پھر دعوت کی گئی۔ جب دوسرے دن یہ لوگ کھانا کھا چکے تو اسی وقت رسول اللہ نے ایک کلمہ کہا:
کون ہے جو میرا رفیق عمل بنے گا؟ کون ہے جو اس مشن میں میری مدد کرے گا‘ جو اس رسالت میں میرے ساتھ رہے گا‘ جو میرا ساتھ دے گا؟ وہی میرا خلیفہ ہو گا‘ وہی میرا وصی ہو گا‘ وہ میرا جانشین ہوگا‘ وہی میرا وزیر ہو گا۔ اب یہ کس نے کہا؟
رسالتمآب نے کہا۔ کس وقت کہا جا رہا ہے؟ پتہ نہیں کامیابی ہو گی یا نہیں ہوگی۔ حضرت فرما رہے ہیں‘ کون میرا رفیق بنتا ہے؟
کون میرا ساتھ دیتا ہے؟ کون میرے مشن میں میرا ساتھ دیتا ہے؟
کون ہے جو میرے ساتھ مل کر کام کرتا ہے؟
کون ہے جو تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہے؟
مجمع میں سناٹا ہے‘ مجمع میں خاموشی ہے‘ اس لئے کہ کامیابی کا پتہ نہیں کہ کامیابی ہو گی کہ نہیں‘ محمد کامیاب ہوں گے کہ نہیں۔
اور پھر اس وقت محمد کے اردگرد دولت کے ڈؤیر بھی نہیں لگے ہوئے‘ مال و دولت بھی پاس نہیں ہے۔
لہٰذا سب کے سب خاموش ہیں‘ منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں‘ کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں ہو رہا۔
لیکن ایک چھوٹا بچہ جس کا سن زیادہ سے زیادہ دس سال ہے‘ وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:
انا ناصرک یا نبی اللہ
اے اللہ کے نبی! میں مدد کروں گا۔
دیکھو! علی (علیہ السلام) نے اس وقت اعلان کیا‘ جب رسالتمآب کے پاس ظاہری طور پر کچھ بھی نہ تھا‘ مال و دولت نہیں تھی‘ نبوت تھی لیکن لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ آیا کامیابی ہو گی یا نہیں ہو گی؟
مال غنیمت بھی نہیں ہے‘ دولت بھی نہیں ہے‘ کوئی ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے‘ لیکن ان حالات میں بھی علی (علیہ السلام) کہہ رہے ہیں:
انا ناصرک یا نبی اللہ
اے اللہ کے نبی! میں تیری مدد کروں گا۔
تو ماننا پڑے گا کہ علی (علیہ السلام) نے رسول ۱ کا ساتھاس وقت دیا تھا‘ اس وقت اعلان نصرت کیا تھا‘ جب رسول اللہ کے پاس ظاہراً کچھ بھی نہ تھا‘ کچھ پتہ نہیں تھا‘ کامیابی ہو گی یا نہیں۔
اب رسول اللہ چاہتے تھے‘ علی (علیہ السلام) نے مدد کا اعلان کر دیا‘ اب میں انہیں(علیہ السلام) جانشین بناؤں۔
میں انہیں(علیہ السلام) خلیفہ بناؤں‘ میں انہیں(علیہ السلام) اپنا وزیر بناؤں۔
لہٰذا‘ کیا ہوا؟
اس واقعے کو کہتے ہیں یوم الخمیس‘ یعنی خمیس کا دن‘ یعنی جس دن رسالتمآب چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے قلم دوات لے کر کچھ لکھ دوں‘ لیکن کیا کہا گیا کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
حسبنا کتاب الله
ہمیں الل کی کتاب کافی ہے۔
اس دن کا ذکر کرتے ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں کہ
ما یوم الخمیس
یوم الخمیس کس وقت مصیب کا دن ہے کہ رسول اللہ فیصلہ کرنے والے تھے‘ اپنا فیصلہ لکھنے والے تھے کہ کون ہے جس نے ہر جگہ پر میری مدد کی؟ کون ہے جو ہر جگہ میرا ۱ معین بنا؟ کوئی ہے جو میرا مددگار رہا ہے؟ پہلے ہی دن جس نے میری ساتھ وعدہ کیا تھا اور میں نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میری مدد کرے گا؟ وہی میرا جانشین ہو گا۔
اب رسول اللہ چاہتے ہیں کہ قلم و دوات لیں اور لکھ کر دیں کہ میرا جانشین کون ہے‘ میرا وزیر کون ہے۔
بس سمجھنے والے سمجھ گئے۔
اسی لئے انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے‘ اس بے چارے کا تو دماغ خراب ہے۔ نعوذ باللہ!
اگر لکھ لیا جاتا تو پھر کوئی اختلاف نہ ہوتا‘ جھگڑا نہ ہوتا‘ لیکن پھر بھی رسول اللہ نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔
جیسے پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ ایک بہت بڑے میدان میں سب کو جمع کر کے‘ جو وہ ابتدائی دنوں میں کہا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور لوگوں کو بتا دیا کہ
لوگو! یاد رکھو‘ جو مجھی مولا سمجھتا ہے‘ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ
من کنت مولا فهذا علی مولا
جس جس کا میں مولا ہوں‘ اس اس کا علی (علیہ السلام) مولا ہے۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) میں چار فضیلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ کسی کو بھی یہ فضیلتیں حاصل نہیں ہیں۔
چار فضیلتیں حاصل ہیں جو کسی کو میسر نہیں ہو سکیں:
سب سے پہلے فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس کو مسلمانوں نے فتح خیا‘ مگر یہ کہ اس جنگ کا علمدار علی (علیہ السلام) نہ ہو‘ اس جنگ کا فاتح علی (علیہ السلام) ‘ سپہ سالار علی (علیہ السلام) ‘ اس جنگ کا بیرو علی (علیہ السلام) بلکہ اس جنگ کا سب کچھ علی (علیہ السلام) نہ ہو۔
دوسری فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس جنگ میں رسول اللہ کے ماننے والوں نے پشت نہ پھیری ہو‘ رسول اللہ کے ماننے والے انہیں چھوڑ نہ گئے ہوں۔
لیکن ابن عباس کہتے ہیں کہ
فقط‘ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شخصیت ایسی ذات ہے کہ جس نے رسول اللہ ۱ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
ایک جنگ میں جب رسول اللہ نے فرمایا:
اے علی (علیہ السلام) ! جب سب چلے گئے تو آپ ۱ کیوں نہیں گئے؟
تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں کہا:
اکفر و بعد الایمان
کیا میں ایمان کے بعد کافر ہو جاؤں؟
تیسری فضیلت‘ علی (علیہ السلام) کی کہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے‘ مشغول رہے‘ اگر کسی نے رسول اعظم ۱ کو غسل دیا ہے تو وہ فقط اور فقط علی (علیہ السلام) کی ذات ہے‘ ورنہ مسلمانوں میں کوئی بھی رسول اعظم کے غسل میں شریک نہ تھا۔
چوتھی فضیلت کہ مسلمان تو اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ اگر کسی نے رسول اللہ ۱ کو دفن کیا ہے تو وہ دفن کرنے والے صرف اور صرف علی (علیہ السلام) تھے۔
سامعین محترم!
اب آپ غور فرمائیں کہ علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ (ص)کا ساتھ کس طرح دیا؟
ہر جنگ میں رسول اللہ کے ساتھی‘ مصیبت میں رسول اللہ کے ساتھی۔ رسول اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ لیکن علی (علیہ السلام) غسل دے رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) دفن کر رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) جنازہ پڑھ رہے ہیں‘ تمام کام کر رہے ہیں‘ تو علی (علیہ السلام) نے تمام کام کر کے گویا جو وعدہ پہلے دن کیا تھا‘ "میں ہر حال میں‘ ہر کام میں رسول اللہ ۱ کی مدد کروں گا"، اس کو پورا کر دکھایا۔
صلواة
چھوٹا سا واقعہ!
افریقہ میں ہمارے کافی سارے مبلغین گئے ہوئے ہیں‘ جو تبلیغ کر رہے ہیں۔ ادھر عیسائی پیسے کے لالچ سے ہمارے افریقیوں کو عیسائی بنا رہے ہیں‘ عیسائیت کا کام بھی بہت ہو رہا ہے‘ لیکن ہمارے آدمی بھی ادھر موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد اتنی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے‘ لیکن اپنی جگہ وہ کام کر رہے ہیں۔
وہاں پر ایک بہت بڑا پادری تھا‘ ہمارے ایک عالم نے اس پادری کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کیا‘ تعلقات بنائے۔
عالم دین کے پاس وہ پادری صاحب بیٹھے رہتے اور عالم پادری کے ہاں جاتے رہتے۔
اسی طرح وہ پادری جب کبھی عالم کے ہاں تشریف لاتے تو کئی کئی دن انہی کے ہاں قیام فرماتے‘ بلکہ ایک دفعہ تو وہ پادری عالم دین کے ہاں برابر چھ ماہ رہے اور دوران قیام اس پادری کا اس عالم دین کے ساتھ مباحثہ ہوتا رہا‘ شعوری و لاشعور طر پور ہر طرح سے پادری کو اسلام سمجھایا جاتا رہا۔
نتیجتاً پادری مسلمان ہو گیا۔
جب اس نے اسلام قبول کر لیا تو اپنی سابقہ برادری‘ عیسائی برادری کے پاس آیا‘ جو پادری اس کے ماتحت تھے‘ جو اس کے شاگرد تھے ان سب کو اس نے بلایا‘ ان سب کو جمع کیا اور کہا دیکھو کہ
کیا تم کو مجھ پر اعتماد ہے؟ یا نہیں؟
سب کہنے لگے‘ یقینا! ہمیں آپ پر اعتماد ہے‘ آپ ہمارے استاد ہیں‘ آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے‘ ہم آپ کے شاگرد ہیں‘ اگر آج ہم عالم بن چکے ہیں تو آپ ہی کے صدق میں ہمیں علم نصیب ہوا ہے۔ پھر اس نو مسلم عالم نے کہا کہ اگر میں خہوں کہ فلاں چیز حق ہے تو کیا تسلیم کر لو گے؟
سب نے کہا کہ ہم تسلیم کر لیں گے۔
تو اس نے کہا:
میں مسلمانوں کے ساتھ رہا ہوں چھ مہینے متواتر‘ میں نے ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا ہے‘ میں نے اس بحث و تمحیص اور تحقیق کے بعد یہی سمجھا ہے کہ اگر کوئی دین‘ دین برحق ہے تو وہ دین اسلام ہے‘ اسی لئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے اور اب آپ لوگوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ بھی اسلام قبول کر لیں۔
دیکھئے!
ستر آدمی کوئی بچے تو نہیں ہوتے۔ ایک آدمی کھڑا ہو گیا‘ وہ عرض کرتا ہے کہ آپ نے اچھا کیا کہ اسلام کو سمجھ لیا ہے‘ ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں‘ لیکن یہ تو فرمائیں کہ
مسلمانوں میں ۷۲ فرقے ہیں‘ ہمیں کیا پتہ کہ اس میں کون سا فرقہ حق پر ہے اور کون سا نہیں؟
تو گویا اس نے طعنہ دیا کہ کون سا فرقہ حق ہے اور کون سا باطل؟
لیکن کیا کہنے پادری کے! اس کے ذہن میں بڑی عجیب بات آئی‘ اگرچہ ہے معمولی چیز لیکن جب آپ سنیں گے تو معلوم ہو گا کہ اس چیز نے سب کو مسلمان کر دیا۔
تو جواباً اس نو مسلم عالم نے کہا:
اے شاگردو! اے اپنے مذہب کے عالمو!
اگرچہ وہ تہتر فرقے ہیں‘ لیکن حقیقتاً وہ دو فرقے ہیں‘ بہتر ( ۷۲) ایک طرف اور ایک فرقہ ایک طرف‘ کیونکہ ۷۲ فرقوں میں بنیادی کوئی فرق نہیں ہے‘ تو فرقے کتنے ہو گئے؟ صرف دو۔ ایک ہی عقیدہ رکھنے والے ۷۲ فرقے اور ان سے جدا نظریہ رکھنے والا ایک فرقہ۔
پھر مثال دیتے ہوئے کہنے لگا:
آپ سب میرے شاگرد ہیں‘ فلاں جگہ میرا بہت بڑا باغ ہے‘ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ میں بیمار ہو جاؤں اور میری بیماری اس حد تک بڑھ جائے کہ یقین ہو جائے کہ اب میں مر جاؤں گا‘ یہ اب گیا کہ اب اور آپ میں سے دو گروہ ہو جائیں‘ ایک کہے کہ ہمیں چاہئے کہ باغ کے درخت شمار کر لیں‘ کیونکہ استاد جی مرنے والے ہیں‘ ان کے انتقال کے بعد کوئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے‘ ہم ابھی سے باغ کے درخت شمار کر لیں‘ تو کچھ لوگ چلے جائیں جا کر درخت شمار کرنے شروع کر دیں اور کچھ لوگ مجھے بیمار سمجھ کر‘ میرے پاس بیٹھ رہیں اور کہیں کہ یہ ہمارا استاد تھا‘ ہمارا بزرگ تھا‘ باغ کی حیثیت کیا ہے‘ بے شک لے جاتے ہیں تو لے جائیں‘ ہم تو اس کے کفن دفن کا انتظام کریں گے‘ ہم تو اسے غسل دیں گے‘ کفن دیں گے‘ دفن کریں گے۔
اب ان دونوں گروہوں کے بارے میں آپ سب فیصلہ دیں۔
تو ان شاگردوں نے کہا:
جناب باغ والے بدنیت ہیں‘ وہ اچھے نہیں ہیں‘ اچھے وہی ہیں جو آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔
تو استاد نے کہا کہ
اس سے سمجھ لو کہ ایک فرقے کا سربراہ علی (علیہ السلام) رسول کے پاس بیٹھا رہا تاکہ انہیں سنبھالے‘ ان کی خدمت کرے‘ غسل دے‘ کفن پہنائے‘ دفن کرے اور دوسرا فرقہ
انہوں نے کہا کہ رسول کا باغ ہے‘ رسول ۱ کا وارث بنا لو‘ گلشن جا کر بانٹ لیں گے۔
تو اس نے فیصلہ کر دیا‘ تو نتیجہ یہ ہوا کہ ستر پادری مسلمان ہو گئے اور آج وہں مل کر تبلیغ کر رہے ہیں۔
فیصلہ ہو گیا‘ ایک آیت ہی لے کر بیٹھ جاتا‘ استعجاب ہوتا رہتا کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔
بخاری شریف کی ایک اور حدیث:
علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی عظمت بیان کرنے کے لئے جناب رسالتمآب ۱ کا ایک مشہور کلمہ‘ اس میں چند نکات بیان کرتے ہیں:
رسالتمآب جنگ میں موجود ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کافی دن گزر گئے‘ لیکن جنگ فتح نہیں ہو رہی ہے۔
رسالتمآب نے اس وقت ایک کلمہ کہا:
لا عطین الرایه غدارجلا کرارا غیر فرار یحب الله و رسوله ویحبه الله و رسوله ولم یرجع حتی یفتح الله علی یدیه
کیا ارشاد فرمایا رسول نے؟
اے مسلمانو!
آپ روزانہ جا رہے ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا‘ جو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے۔ ظاہر ہے!
میں تو نہیں کہتا کہ کس انداز میں واپس آتے تھے۔
خیر
جس طرح بھی واپس آتے‘ امن و سلامتی‘ صلح و آشتی سے آ جاتے۔ آخرالاہر رسول نے فرمایا: لاعطین۔ کل میں ۱ علم‘ کل میں اسلامی جھنڈا دوں گا‘ کس کو؟
جو کردار غیر فرار ہو گا‘ جو کراکر ہو گا۔ کرار کے معنی ہیں بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ غیر فرار‘ جو بھاگنے والا نہ ہو گا۔
اب آپ سمجھتے ہیں کہ جب کرار کہہ دیا‘ بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ تو غیر فرار کہنے کی ضرورت کیا تھی۔
بہرحال‘ مصلحت تھی‘ جس کو رسول سمجھتے تھے‘ کس کی وجہ سے کلمہ کہا گیا‘ ایک مرد کو علم دوں گا‘ جو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے۔
حملہ سے زیادہ یہ تعریف ہے:
یحب الله و رسوله
اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی اور خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی۔ کتنا بڑا تمغہ اس علم والے کو دیا جا رہا ہے کہ اس کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ اس کو رسول کے ساتھ محبت ہو گی‘ لیکن اس کے بعد ایک اور تمغہ دیا گیا جو اس سے بھی ارفع ہے:
یحبه الله و رسوله
اور اللہ اور رسول ۱ کو اس سے محبت ہو گی۔
یہ مرد کرار ہو گا‘ بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے والا ہو گا‘ اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی اور اسی طرح خدا اور رسول ۱ کو اس کے ساتھ محبت ہو گی تو محبت کا تمغہ دینے کے بعد فرمایا:
ولم یرجع
یہ واپس نہیں آئے گا۔
حتی یفتح الله علی یدیه
حتیٰ کہ اسے خداوند عالم فتح دے گا۔
رسول اللہ ۱ فرما رہے ہیں:
لا عطین الرایه غدا
نام نہیں لیا کہ کون ہے؟ کل میں علم دوں گا‘ کہہ رہے ہیں۔
کیا آج نہیں ہو سکتا؟
اس وقت علم نہیں دیا جا سکتا؟
علم تو موجود ہے‘ لیکن انہیں انتظار دی جا رہی ہے کہ وہ علم کی انتظار کریں‘ انتظار کروائی جا رہی ہے۔
لہٰذا‘ مسلمان ساری رات پریشان رہے۔ ایک کہتا تھا مجھے ملے گا‘ دوسرا کہتا تھا کہ مجھے ملے گا۔
حتیٰ کہ جب صبح ہوئی کہ حضرت نے ارشاد فرمایا:
این این علی ابن ابی طالب
علی (علیہ السلام) کہاں گئے؟ علی (علیہ السلام) کہاں ہیں؟
جب علی (علیہ السلام) کا نام آیا بڑے بڑے مسلمان آگے بڑھے اور کہا:
یا رسول اللہ! آپ علی (علیہ السلام) کو بلا رہے ہیں‘ ان ۱ کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں‘ وہ ۱ تو جنگ کے قابل نہیں ہیں۔
تو حضرت نے علی (علیہ السلام) کو بلایا‘ تب علی (علیہ السلام) تشریف لائے۔
تو روایت بتاتی ہے کہ میدان خیبر میں رسول اللہ زمین پر بیٹھ گئے‘ علی (علیہ السلام) کو لٹایا‘ علی (علیہ السلام) کا سر اٹھا کر اپنے زانو پر رکھ لیا اور لعاب دہن علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں لگایا تو علی (علیہ السلام) کی آنکھیں اس طرح کھل گئیں جس طرح ورق قرآن کھلتا ہے۔
نعرہ حیدری
صلواة
تو علی (علیہ السلام) میدان میں گئے جیسے پہلے لوگ میدان میں جاتے تھے‘ تو اب دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اس طرح آئے ہیں۔
تو وہ بہادر حملہ کرنے کے لئے آیا‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے اس وقت ایک کلمہ کہا:
انا الذی سمتنی امی حیدر
میں وہ ہوں کہ میری ۱ ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔
میں نے کسی جگہ ذکر کیا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد‘ (نعوذ باللہ) کافرہ تھیں‘ ابو طالب (معاذ اللہ) کافر تھے۔
ابو طالب رسول اللہ کی پرورش کرتے رہے۔ قرآن نے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسول ۱ کو نیاہ دی ہے‘ رسول کی مدد کی‘ وہ ۱ ایمان کے آخری درجے پر فائز ہیں‘ لیکن پتہ نہیں ان لوگوں کو کیا دکھ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ کافر۔
تو آج علی (علیہ السلام) فخر کر رہے ہیں کہ میری ماں نے میرا ۱ نام حیدر رکھا ہے۔ فخر کر کے بتا رہے ہیں کہ میری ماں کتنی عظمت کی مالکہ ہے کہ میں علی (علیہ السلام) فخر کر رہا ہوں کہ میری ۱ ماں نے میرا ۱ نام حیدر رکھا۔
حضرات گرامی!
میں عرض کر رہا تھا کہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) گئے‘ جنگ فتح ہوئی۔ جیسے بھی جنگ فتح ہوئی میں اس کا تذکرہ نہیں کرتا۔ آپ سنتے رہتے ہیں کہ مولا امیر ۱ نے در خیبر اکھاڑا‘ در خیبر اتنا بڑا تھا کہ اگر کئی آدمی مل کر کوشش کرتے‘ پوری فوج مل کر کوشش کرتی‘ تب بھی در خیبر کو حرکت نہ دے سکتے تھے‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے در خیبر کو اکھاڑا۔
کس طرح؟ دیکھئے!
مولا امیر ۱ فرما رہے ہیں۔
حدیث قدسی میں خدا کا فرمان ہے‘ جناب رسالتمآب نے فرمایا:
عبدی اطعنی اجعلک مثلی
اے میرے بندے! میری اطاعت کرو۔
تو! میرے حکم کے مطابق چل‘ اجعلک مثلیمیں تجھے اپنے جیسا بنا دوں گا۔
یعنی ایک میری صفت تیرے اندر پیدا ہو جائے گی‘ تو اس وقت کہا:
میں اس چیز کو کہتا ہوں ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔
جب تو میری اطاعت کرے گا‘ جیسے اطاعت کرنے کا حق ہے تو پھر تو جب کسی چیز کو کہے گا ہو جا‘ تو وہ جائے گی۔
اب اس کے ساتھ ایک اور حدیث ہے وہ کیا ہے؟
لا یزال عبدی بتقرب الی بالنوافل
ایک تو ہوتا ہے فرقہ‘ جیسے نماز ہے‘ ایک ڈیوٹی ہے۔
زکوٰة ہے‘ اس کی کوئی فضیلت علیحدہ نہیں ہے۔ یہ تو ادا کرنا ہی ہے‘ جیسے سرکاری ٹیکس ہوتا ہے۔ اس طرح نماز ایک ڈیوٹی ہے‘ جو ہر صورت میں انجام دینا ہے۔
نماز کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ کہا جا رہا ہے:
لا یزال عبدی بقرب الی بالنوافل
میرا بندہ بار بار نفل نماز پڑھتا ہے‘ مستجب نماز پڑھتا ہے‘ پوری دسترس سے میری عبادت کرتا ہے‘ ہر وقت عبادت کرتا رہتا ہے‘ جب میرا بندہ میری عبادت کرے‘ تب میں کیا کرتا ہوں؟
"جب کوئی آدمی میرا تقرب حاصل کرے‘ میرا قرب حاصل کرے‘ نیک کام کر کے مستجاب ادا کر کے نوافل ادا کرے‘ میرا مقرب بن جاتا ہے‘ تو میں خدا اس میں اتنی عظمت پیدا کر دیتا ہوں کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ سنتا ہے۔"
یعنی مطلب کیا کہ
اس کا سننا میرا سننا۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ دیکھتا ہے‘ یعنی اس کا دیکھنا میرا دیکھنا۔ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ جس ہاتھ سے وہ کام کرتا ہے‘ گویا اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔
اب بتائیں علی (علیہ السلام) جیسا عبادت گزار‘ جو ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے‘ خدا کی عبادت کی‘ اس لئے ان کی آنکھ کو عین اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے کان کو اذن اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے ہاتھ کو ید اسد کہا گیا۔ اس کی طرف علی (علیہ السلام) خود اشارہ کر رہے ہیں‘ کیا فرماتے ہیں:
ما قلعت باب خیبر بقوة جسمانیه بل لقوة ربانیه
اے مسلمانو!
میں ۱ نے خیبر کا قلعہ اپنی جسمانی طاقت سے فتح نہیں کیا بلکہ یہ ربانی قوت سے فتح کیا گیا ہے۔
علی (علیہ السلام) نے خیبر کا قلعہ فتح کیا‘ کس سے؟
قوت ربانیہ سے فتح کیا۔
اب علی (علیہ السلام) آ رہے ہیں۔ روایت یہ بتاتی ہے کہ علی (علیہ السلام) جھوم جھوم کے آ رہے ہیں اور تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا‘ لوگوں نے اشکال کیا‘ کہنے لگے:
یا رسول اللہ!
علی (علیہ السلام) میں کس قدر تکبر آ گیا ہے کہ جھو جھوم کر آ رہے ہیں‘ انہیں خشوع و خضوع کا مالک ہونا چاہئے۔
اس وقت رسالتمآب نے ارشاد فرمایا:
علی (علیہ السلام) کے اس جھومنے پر خدا خود جھوم رہا ہے۔
صلواة نعرئہ حیدری!
جھومتے ہوئے علی (علیہ السلام) تشریف لائے‘ ایک ہاتھ میں علم ہے‘ تلوار ہے اور مرحب کا سر ہے۔
یہ سب چیزیں لے کر مولا خدمت رسالت میں آئے۔ جب وہ پہنچے ہیں تو رسول اللہ نے علم اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور بہت زیادہ خوش ہوئے اور فرماتے ہیں:
اے علی (علیہ السلام) ! آج مجھی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اتنی خوشی کبھی مجھی ۱ کسی چیز سے نہیں ہوئی۔ علم کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ
آج مجھے اس لئے خوشی ہوئی کہ قلعہ خیبر فتح ہوا ہے‘ جب کہ ۳۹ دن گزر گئے۔ ایک روایت میں ۱۹ دن اور ایک روایت میں ۳۹ دن ہیں۔
بہرحال دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر کے ۱۹ یا ۳۹ دن گزر گئے کہ قلعہ خیبر فتح نہ ہو رہا تھا‘ آج مجھی بڑی خوشی ہوئی۔ اس لئے کہ یہودیوں کا آپ نے قلع قمع کر دیا اور جب ۱۹۶۱ ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کیا‘ اردن کے قبیلہ پر قبضہ کیا‘ مصر کے علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا‘ شام کی جولان کی پہاڑیاں بھی قبضہ میں لے لیں تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرعاظم نے ایک تقریر کی تھی اور اس میں کہا تھا:
اے مسلمانو!
آج ہم نے قلعہ خیبر کی فتح کا بدلہ لے لیا ہے۔
علی (علیہ السلام) نے اس زمانے میں فتح کیا تھا‘ آج ہم نے فتح کر کے وہ بدلہ لے لیا ہے۔ دنیا تو علی (علیہ السلام) کو بھول گئی تھی‘ انہیں احساس تک نہیں رہا‘ حالانکہ جو اسلام آج آپ کے سامنے موجود ہے۔
لا الہ الا اللہ مسلمان پڑھتے ہیں‘ محمد رسول اللہ کہتے ہیں‘ علی ولی اللہ پڑھتے ہو۔ یہ علی (علیہ السلام) کے تیرزور قرب کا اثر ہے کہ جس نے تمہیں محفوظ رکھا۔ یہ عمل علی (علیہ السلام) نہ ہوتے یا علی (علیہ السلام) اولاد نہ ہوتی‘ اسلام کے لئے قربانی نہ دیتے تو آج کبھی اسلام موجود نہ ہوتا۔ چہ جائیکہ تمہاری نمازیں ہوتیں‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر خوش ہوتے‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر ناز کرتے۔
تو رسالتمآب اس علم پر خوش ہوئے۔ ایک خیبر کی فتح تھی اور دوسری خوشی یہ کہ حضرت جعفر طیار ۱ حبشہ گئے ہوئے تھے‘ وہاں سے یہاں تشریف لائے۔ اس وقت رسول اللہ نے کہا‘ مجھی دو قسم کی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘ ایک فتح کی خوشی اور دوسری جعفر طیار ۱ کی واپسی کی خوشی۔
ریاض القدس میں موجود ہے کہ
یہ کلمہ کہنے کے بعد حضرت تھوڑے سے آبدیدہ ہو گئے۔
لوگ حیران ہوئے۔ کہنے لگے:
یا رسول اللہ! آپ ۱ آبدیدہ کیوں ہوئے؟
تو حضرت نے فرمایا:
جس لمحے علی (علیہ السلام) کے علم کو دیکھ کر میں خوش رہا تھا‘ اس وقت ایک اور علم بھی مجھے یاد آ گیا‘ وہ بھی علی (علیہ السلام) ہی کا علم ہو گا‘ لیکن علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھ میں ہو گا‘ میدان کربلا میں علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھوں میں ہو گا اور اس علم کو جب حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف لے کر آئیں گے‘ اس وقت حالت یہ ہو گی کہ عباس کا لاشہ فرات کے قریب پڑا ہو گا اور علم کو خالی لے کر حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف آئیں گے۔ اب وہ علم حسین (علیہ السلام) کے ہاتھوں میں ہے‘ حسین (علیہ السلام) نے اس علم کو ہاتھوں میں لے کر فوج اشقیاء پر حملہ کیا‘ جب فوج اشقیاء پر حملہ کیا تو روایت میں ہے کہ
حسین (علیہ السلام) جب گئے تو پہلے حسین (علیہ السلام) نے اپنا تعارف کرایا کہ
اے لوگو!
جو مجھے ۱ جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ انہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں؟
اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:
لوگو! اس وقت پوری کائنات میں فقط میں ہوں جو رسول ۱ کا نواسہ ہے۔ میرا نانا رسول ہے‘ اکیلا میں رسول ۱ کا نواسہ ہوں۔
اور فرمایا:
اس وقت میں ۱ اکیلا ہوں‘ جس کا چچا جعفر طیار ہے‘ جس کا چچا حمزہ سیدالشہداء ہے۔
ان تمام کلمات کا ذکر کرنے کے بعد حسین (علیہ السلام) کہنے لگے:
لوگو!
میں ۱ وہ ہوں کہ جس کی ماں فاطمة الزہرا (علیھا السلام) ہے۔
لوگو! مباہلہ میں‘ میں گیا تھا‘ مباہلہ فتح ہوا تھا۔
لوگو! رسول اللہ مجھے ۱ اپنے اوپر سوار کرتے تھے اور اپنی زلفیں میرے ۱ ہاتھ میں دیتے تھے۔
لوگو! میں ۱ وہ ہوں کہ میرے ۱ اور میرے ۱ بھائی حسین (علیہ السلام) کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا:
الحسن و الحسین سیدا شباب اهل الجنة
"حسن ۱ اور حسین (علیہ السلام) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔"
میں ۱ وہ ہوں کہ اگر کبھی میں ۱ آ رہا ہوتا اور نانا رسول اللہ خطبہ دے رہے ہوتے‘ میں ۱۱ ۱ گر جاتا تو رسول اللہ خطبہ چھوڑ کر پہلے مجھے ۱ اٹھاتے تھے پھر خطبہ دیتے۔
یہ کہنے کے بعد امام(علیہ السلام) نے ایک آخری کلمہ کہا:
لوگو!
بتاؤ کیا میں ۱ نے دین میں کوئی تبدیلی کی ہے؟
کیا میں ۱ نے کوئی غلط کام کیا ہے؟
یا حکم خدا کی نافرمانی کی ہے‘ تو جب میں ۱ نے کوئی نافرمانی نہیں کی‘ مجھے ۱ بتاؤ کہ کیا یہ تمہارا انصاف ہے کہ یہ پانی جو میری ۱ ماں سیدہ فاطمة الزہرا (علیھا السلام) کا حق مہر تھا‘ اب اس پانی سے جانور تو سیراب ہو رہے ہیں‘ لیکن نبی ۱ کی اولاد پیاسی ہے۔
کیا اس کے بعد تم کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔
حضرت نے اپنا تعارف کرانے کے بعد حملہ کیا۔ روایت میں موجود ہے کہ حسین (علیہ السلام) کا یہ حملہ
اندازہ کریں کہ حسین (علیہ السلام) کے بھائی مارے گئے‘ بیٹے مارے گئے‘ حسین (علیہ السلام) کے بھتیجے مارے گئے‘ یار و انصار مارے گئے۔ اب حسین (علیہ السلام) اکیلے اور اکیلا آدمی کتنا پریشان ہوتا ہے‘ لیکن روایت بتاتی ہے کہ
حسین (علیہ السلام) نے جو حملہ کیا‘ وہ حملہ اتنا سخت تھا کہ اشقیاء کی فوجیں کربلا سے دوڑتی ہوئی تک چلی گئیں۔ یہ کوفہ کی چھاؤنی تھی۔ کربلا سے پندرہ میل دور فوجیں دوڑتی ہوئیں تک پہنچ گئیں۔ جب حسین (علیہ السلام) کا حملہ اتنا سخت ہوا تو اس کے بعد حسین (علیہ السلام) ۱ تھوڑی دیر سستا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کاغذ آیا اور کہتا ہے:
اے حسین (علیہ السلام) ! تجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔
حسین (علیہ السلام) تو جنگ فتح کرنے کے لئے نہیں آیا‘ تو تو خون دینے کے لئے آیا ہے‘ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آیا ہے تاکہ تیرے نانا کا دین بچ جائے۔ اس پیغام کا آنا تھا کہ حسین (علیہ السلام) نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی اور اس کے بعد اپنے خیمے میں آئے‘ اب اس خیمہ میں آخری الوداع کرنے حسین (علیہ السلام) آئے۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
روایت میں موجود ہے:
حسین (علیہ السلام) آئے کہاں پہنچے؟
اپنے بیٹے عابد ۱ بیمار کے پاس۔ اندازہ کریں‘ بوڑھا باپ زخموں سے چور‘ بیمار بیٹا ۱ غشی کی حالت میں پڑا ہوا۔
حسین (علیہ السلام) اپنے بیٹے ۱ کے سرہانے بیٹھ کر کیا کہتے ہیں:
بیٹا سجاد ۱ اٹھو!
مولا نے آواز دی‘ مگر زین العابدین ۱ نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی کی حالت میں تھے۔
دوبارہ کہا‘ میرے ۱ بیٹے میں تجھ ۱ سے وداع کرنے آیا ہوں۔
اٹھو!
ابھی تک سجاد ۱ نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی طاری تھی۔
اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے کہا‘ بیٹا! تیرا ۱ مظلوم بآپ تجھ سے وداع ہونے کے لئے آیا ہے‘ اٹھو! مجھے ۱ وداع کر لو اور اسباب امامت مجھ ۱ سے لے لو اور مجھ ۱ سے وداع کرو۔
اب بھی بیٹے ۱ کی غشی نہیں ٹوٹی‘ لیکن جب
گرم گرم آنسو امام زین العابدین ۱ کے رخسار پر پڑے ہیں تو اس وقت امام سجاد ۱ نے آنکھیں کھولیں اور کیا کہتے ہیں:
میرے ۱ مظلوم بابا !
مجلس پنجم
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
( ایاک نعبد و ایاک نستعین )
حضرات گرامی!
انسان پاک و پاکیزہ لباس کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتا ہے کہ پروردگار! ہم تیری ہی عبادت‘ تیرے ہی سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں‘ ہماری گردن صرف تیرے ہی سامنے جھکے گی‘ تیرے علاوہ کسی کے سامنے خم نہیں ہو گی۔
کل ذکر کیا گیا تھا کہ ایسی ذوات مقدسہ کی ضرورت ہے کہ جو ہمیں بتائیں کہ خدا کی عبادت کا طریقہ کار کیا ہے۔
کون سا طریقہ خداوند عالم کے ہاں پسندیدہ ہے؟
خدا کو سلام کس طرح کیا جاتا ہے؟
جب کوئی بتانے والا نہیں ہو گا‘ جب تک ہمارے سامنے کوئی ماڈل‘ نمونہ نہیں ہو گا‘ اس وقت تک ہم خدا کی عبادت اس طرح نہیں کر سکیں گے جس طرح خدا چاہتا ہے۔ صلواة
حضرت انسان کی پیدائش کا ذکرتے ہوئے خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
والله اخر جکم من بطون امها تنکم لا تعلمون شیئا
ارشاد ہو رہا ہے کہ اے انسان! خداوند عالم نے تمہیں پیدا کیا‘ ماؤں کے بطنوں سے کس حالت میں؟
کہ "لایعلمون" تم کچھ نہیں جانتے تھے‘ تمہیں کسی چیز کا علم نہیں تھا‘ بعد میں ذکر کیا گیا:
و جعل لکم السمع
خداوند عالم نے نہیں سننے کی قوت دی اور تجھے دیکھنے کی قوت دی تاکہ اس کے ذریعے معلوم کرو اور خدا تک وسیلہ تلاش کرو۔
حضرت انسان ماں کے پیٹ سے جاہل پیدا ہوا۔
ظاہر ہے کہ جب انسان ماں کے بطن سے جاہل پیدا ہوا‘ اب اگر اسے بتایا جائے کہ خداوند عالم کا علم اس کی ذات کا عین ہوتا ہے تو اس کے لئے سمجھنا مشکل ہو گا‘ کیونکہ جب انسان ماں کے بطن سے پیدا ہوا اسے کسی چیز کا علم نہیں تھا‘ صرف یہ جانتا تھا کہ میں ہوں‘ اس کے علاوہ اس بچے کو کسی چیز کا علم نہیں تھا۔ جب کچھ بڑا ہو گیا تو بعض چیزیں‘ جن کا تعلق دیکھنے کے ساتھ ہے‘ سننے کے ساتھ ہے‘ اسے ان کا علم ہوا۔
جب اس سے بھی ذرا بڑا ہوا تو ایسی چیزیں کہ جو دیکھی تو نہیں جا سکتی‘ محسوس کی جا سکتی ہیں۔ جیسے ماں باپ کی محبت‘ کسی عزیز کی محبت یا کسی کا معذرت کرنا‘ اس کا اسے علم حاصل ہوا۔
جب اس سے ذرا اور بڑا ہوا‘ اسے مکتب میں داخل کروا دیا گیا اور اب وہاں سے علم حاصل کر رہا ہے۔ اب یہ علم اس کی بنیاد بن رہا ہے‘ اب اس کے بعد اس کے اندر ایک قوت پیدا ہو گئی کہ جتنا علم اسے حاصل ہوا‘ اس کی طاقت سے جو چیزیں اسے معلوم نہیں‘ ان کا علم حاصل کر سکے۔
اس لحاظ سے انسان کی عقل کے چار درجے ہیں:
پہلا درجہ
جس سے علم حاصل ہوتا ہے‘ اس علم کو علم درسی کہا جاتا ہے یعنی آنکھ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہوا ہے‘ اس کے علاوہ اور کسی چیز کو سمجھ نہیں سکتا۔
دوسرا درجہ
جب کچھ بڑا ہوا‘ اب جو علم اسے حاصل ہوا‘ اس علم کو علم خیال کہتے ہیں۔ مثلاً
محبت کا علم ہو گیا‘ اس کو اپنے پرائے کا علم ہو گیا‘ کون مجھے ڈانٹ رہا ہے‘ جھڑک رہا ہے۔
تیسرا درجہ
اس علم کو علم واہمی کہا جاتا ہے۔
یعنی اس وقت یہ کچھ نہ کچھ معانی و معلومیت معلوم کر لیتا ہے کہ یہ شخص فلاں ہے‘ فلاں سے بڑا ہے‘ فلاں شہر سے ہے‘ یہ شہر چھوٹا ہے۔
فلاں چیز زیادہ ہے‘ فلاں کم۔
چوتھا درجہ
اس کا علم اس حد تک پہنچتا ہے کہ جو کچھ حاصل کر رہا ہے‘ اب اس کے اندر کامل ہے۔ جتنا علم حاصل کرتا جائے گا‘ اتنا ہی علم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جب یہ ہماری عقل کے چار درجے ہیں تو جیسا کہ ایک روز پہلے ذکر کیا گیا کہ یہ انسان کی عقل جس کو عقل صغیر کہتے ہیں‘ اس کے مقابلے میں ایک پوری کائنات کی بھی ایک عقل ہے‘ پوری کائنات بمنزلہ ایک جسم کے ہے‘ بمنزلہ ایک روح کے ہے‘ اس کی بھی ایک روح ہے‘ اس کی بھی ایک عقل ہے‘ اس کو عقل کلی کہا جاتا ہے‘ تو جس طرح عقل انسانی کے چار درجے ہیں‘ اسی طرح عقل کلی کے بھی چار درجے ہیں:
پہلا درجہ
حضرت آدم (علیہ السلام)ہیں۔
جنہیں اسماء کا علم دیا گیا‘ ناموں کا علم‘ لیکن وہ علم اس قدر زیادہ تھاکہ فرشتوں سے بڑھ گیا۔
دوسرا درجہ
جب کچھ ترقی ہوئی تو حضرت نوح (علیہ السلام)کو علم عطا فرمایا۔
حضرت نوح (علیہ السلام)کا علم اس قدر تھا کہ آئندہ آنے والی نسلیں کس قسم کی ہوں گی‘ ان کی اولاد کس قسم کی ہو گی؟
تیسرا درجہ
حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کا علم وہ علم‘ اس قسم کا علم تھا جن کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے:
یہ تیسرے درجے کا علم تھا۔
چوتھا درجہ
علم کلی وہ اس قدر زیادہ تھا کہ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے مولائے کائنات امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ
خدا کی قسم! اس خلافت کی قمیض فلاں شخص نے زبردستی پہن لی۔ حالانکہ اس قمیض پہننے والے کو علم ہے کہ میرا محل اس خلافت سے ایسے ہے‘ میرا مرتبہ اس خلافت کے ساتھ ایسا ہے‘ جس طرح چکی کے درمیان اس کلی کا مرتبہ ہوتا ہے‘ جس پر چکی چلتی ہے۔
چکی تو دیکھی ہو گی۔
اگرچہ شہر میں یہ چیزیں کم ہوتی ہیں تو بہرحال۔
چکی میں جیسے کیل ہوتا ہے کہ یہ چکی اس کے گرد گھومتی ہے‘ اسی طرح میرا مرتبہ اس خلافت کے ساتھ ہے۔
یعنی خلافت کی چکی میرے گرد گھوم رہی ہے‘ میرے علاوہ خلافت نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے جب انہیں ضرورت محسوس ہوتی تھی تو علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے پاس جا کر اپنی مشکل کشائی کرواتے تھے۔
صلواة
مولائے کائنات(علیہ السلام)نے فرمایا:
مجھ سے علم کے سیلاب بہہ رہے ہیں تاکہ توڑا سا علم ہے اور میرے علم کی بلندی اس قدر ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا‘ اس بلندی کو چھو بھی نہیں سکتا۔
صلواة
تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ
عقل کلی یعنی حقیقت محمدیہ کے علم کا درجہ اس قدر ہے کہ وہاں علم کے سیلاب بہہ رہے ہیں اور پرندہ بھی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتا‘ تو یہ عقل کا آخری درجہ ہے۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جس قدر علم حقیقت محمدیہ ۱ کو خداوند عالم نے ودیت کیا ہے‘ اتنا علم نہ کسی نبی کے پاس تھا‘ نہ کسی ولی کے پاس تھا۔
صلواة
حضرات محترم!
دیکھئے! اس دنیا میں ہم جتنا علم سیکھتے ہیں‘ علم حاصل کرنے میں کسی استاد کے محتاج ہیں۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو بڑا بھی ہو جائے۔
جب تک استاد نہ ہو علم حاصل نہیں کر سکتا۔
تو گویا ہم جاہل ہیں اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کے محتاج ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ استاد کیسا ہے؟ اس نے علم کہاں سے سیکھا ہے؟ آیا اس کا علم مادر زاد ہے‘ وہ بھی تو جاہل تھا‘ اس نے بھی اپنے استاد سے علم لیا۔ اسی طرح سلسلہ چلتا جائے گا‘ جتنے بھی لوگ ہیں‘ علم حاصل کرتے ہیں‘ اپنے اپنے استاد سے۔ وہ استاد دوسرے سے علم حاصل کرتا ہے‘ وہ تیسرے استاد سے علم حاصل کرتا ہے‘ اس طرح یہ سلسلہ آگے چلتا جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنے لوگ علم حاصل کرنے والے تھے ان کے استاد اسی قسم کے تھے‘ انہوں نے بھی کسی نہ کسی سے علم حاصل کیا۔
اگر سب اسی قسم کے ہیں تو جیسے ہم ناقص ہیں‘ ہمارے استاد بھی ناقص‘ کیونکہ انہوں نے بھی علم کسی اور سے حاصل کیا‘ اسی طرح جتنا سلسلہ آگے چلتا جائے گا‘ سب کے سب استاد ناقص ہوں گے۔
تو جب اسی طرح سب ناقص ہوں گے تو اگر پوری کائنات میں ایسے ہی شاگرد ہوں اور ایسے ہی استاد تو استاد بھی جاہل اور شاگرد بھی جاہل۔ تو استاد و شاگرد سب کے سب اسی قسم کے ہوں تو اس وقت کیا کہا جائے کہ اس کائنات میں جتنے لوگ ہیں
اب تو عربوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
تو گویا شروع سے لے کر آج تک جب سے کائنات بنی‘ سب کے سب لوگ جاہل تھے‘ ناقص تھ۔ے سب کے سب اسی قسم کے تو نتیجہ کیا نکلے گا کہ یہ پوری کائنات ایسے لوگوں کا مجموعہ ہے‘ جو سب کے سب ناقص ہیں‘ سب کے سب جاہل ہیں۔
تو ہم عرض کریں گے کہ خدایا!
تیری ذات کامل ہے۔
کامل اس کو کہتے ہیں جس میں کمال ہو۔ یہ کہنا کہ تیری ذات میں کمال ہے‘ اس کا مطلب کیا ہو گا؟
کہ تیری ذات اور ہے‘ کمال اور ہے۔
بلکہ تیری ذات خود کمال ہے‘ بلکہ تیری ذات فوق الکمال ہے
ساری کی ساری مخلوق تو نے پیدا کی‘ وہ سب ناقص۔
جب تیری ذات کمال قدرت ہے‘ تیری ذات فوق الکمال ہے‘ تیری ذات کا درجہ کمال سے بھی زیادہ ہے۔
کسی ایسے کو تو پیدا فرمایا ہوتا جو کامل ہوتا۔
جن کو پیدا کیا پوری کائنات میں سب ناقص ہیں۔
تو تیری ذات کمال قدرت سے لوگوں کو پیدا کر رہی ہے‘ وہ سب انسان ناقص ہیں۔ تو گویا انسان بھی تو ہونا چاہئے کہ جس کو کامل کہا جائے‘ وہ تیری صفات کا مظہر ہو‘ تیرے کمالات کا مظہر ہوتا‘ تیرے جمالات کا مظہر ہوتا یعنی جتنے نظر آ رہے ہیں‘ وہ سارے ناقص۔ تو پیدا کرنے والے نے پیدا کیا‘ لیکن جن جن کو پیدا کیا‘ وہ سب کے سب ناقص ہیں۔
اب سب کی بازگشت خالق کی طرف جائے گی‘ خالق! کسی کو تو ایسا بنایا ہوتا کہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہوتا‘ تیری ذات کا نمونہ ہوتا۔
صلواة
گویا سب شاگرد اساتذہ کو ناقص کر رہے ہیں کہ جو کسی استاد کے سامنے زانو تلمذ تہہ کرتا ہے‘ ناقص ہے۔
تبھی تو اپنے نقص کو دور کرنے کے لئے کسی کے سامنے بیٹھتا ہے۔
تو جب سب کے سب ناقص ہوئے تو خدایا! عجیب مخلوق ہے تیری‘ تو خود کمال فوق الکمال کمال قدرت سے جن کو پیدا کیا وہ سب ناقص۔
تو ضرورت ہے کہ خداوند عالم ایسی ذوات مقدسہ کو پیدا کرے کہ جو ذوات مقدسہ اپنے علم کے حصول کے لئے کبھی کسی کے سامنے زانو تہہ نہ کرے۔
اگر سبھی کسی نہ کسی سے پڑھنے والے ہوں گے تو سب ناقص ہوں گے‘ تو ضرورت ہے اس بات کی کہ کوئی ایسی ذوات مقدسہ ہوں جن کو جب پیدا کیا گیا‘ وہ اس وقت بھی عالم ہوں۔
تاکہ کہا جا سکے کہ اے انسان! ساری کائنات ناقصوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایسی ذوات مقدسہ بھی موجود ہیں‘ جب وہ پیدا ہوئے علم لے کر آئے‘ کامل بن کر آئے‘ انہیں کسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صلواة
ایسی ذوات کی ضرورت ہے کہ وہ کبھی کسی کے سامنے نہ بیٹھیں‘ کبھی کسی استاد سے علم حاصل نہ کریں‘ بلکہ وہ خدا سے پڑھ کر آئیں‘ تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ کائنات ساری ناقصوں کا مجموعہ ہے۔
نہیں‘ نہیں! بلکہ اس کائنات میں ایسی ذوات مقدسہ موجود ہیں جو خدا سے علم لے کر آئی ہیں‘ باقی سب لوگوں نے ان سے علم لینا ہے۔ گویا سب لوگ اپنے استاد سے علم حاصل کریں گے‘ استاد اپنے استاد سے علم حاصل کرے گا‘ یہ سلسلہ ایسے استاد تک پہنچے گا کہ جس استاد نے کبھی کسی استاد سے علم حاصل نہیں بلکہ وہ خدا سے علم لے کر آیا ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں جو خدا سے علم حاصل کر کے آئے ہیں؟ وہ کون ہیں جنہوں نے علم خدا سے لیا؟
پہلے آپ تھوڑا سا سمجھ لیں۔
دیکھئے!
ہم یہ کہتے ہیں کہ خداوند عالم کا علم اس کی ذات کا عین ہے۔
یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کی ذات اور ہے اور علم اور ہے۔
تاکہ یہ کہا جا سکے کہ خدا کی ذات علم سے خالی تھی۔
اب ظاہر ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ خدا کا علم اس کی ذات کا عین ہے۔
ہم تو جاہل پیدا ہوئے‘ کچھ نہیں جانتے تھے‘ دو چار کلمے پڑھے تو کچھ نہ کچھ ہمیں یاد ہو گیا‘ پھر بھی ہمارا علم ناقص ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو علم بہت کم ہے اور جہالت بہت زیادہ‘ اتنی جہالت کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک محقق بہت بڑے عالم تھے‘ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا‘ مسئلہ پوچھا:
انہوں نے کہا‘ اس مسئلے کا مجھے علم نہیں۔
دوسرے مسئلے کا سوال کیا۔
کہنے لگے:
اس مسئلے کا بھی مجھے علم نہیں۔
تین مسئلے پوچھے۔
اس عالم نے کہا:
مجھے علم نہیں۔
حیران ہو کر کہتا ہے:
آپ اتنے بڑے عالم ہیں‘ آپ کو ان مسائل کا بھی علم نہیں‘ تو وہ عالم کہنے لگے کہ
اگر میرے علم کو جسم میں ڈھال دیا جائے تو وہ اس قدر کم ہے کہ چڑیا بھی اسے اٹھا کر لے جائے۔
اور اگر جہالت کو جسم کی صورت میں ڈھال دیا جائے تو وہ اتنی زیادہ ہے کہ ہزاروں مل کر بھی اسے اٹھا نہ سکیں گے۔
تو حقیقت میں انسان میں جہالت زیادہ پائی جاتی ہے۔
ہم تو ہیں ہی جاہل‘ تو کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ خداوند عالم کیا ہے اور اس کی ذات کیا؟
ضرورت تھی کہ ایسی ذوات کو خدا پیدا کرے جو خدا سے علم لے کر آئیں۔ یعنی ایک لمحح بھی ایسا نہ ہو‘ ایک سیکنڈ بھی ایسا تصور نہ کیا جائے کہ وہ علم سے خالی ہیں‘ ان کے علم کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ جیسے یہ پیدا ہوتے ہیں‘ عالم تھے۔ ان کا علم ان کی ذات پر لازم ہے اور ان کے خالق کا علم کیا ہو گا۔ صلواة
اس کی ذات عین ہے اور وہ کون ذوات ہیں جو خدا سے علم لے کر آئیں۔
ارشادات رب العزت ہوتا ہے۔
الرحمن علم القرآن خلق الانسان علمه البیان
سورئہ رحمن آپ تلاوت کرتے رہتے ہیں۔
الرحمن علم القرآن
رحمن نے کس کو قرآن کی تعلیم دی؟ رحمن نے قرآن کی تعلیم دی‘ تعلیم کے بعد ذکر ہے:
خلق الانسان
"انسان کو خلق کیا۔"
علمه البیان
"خلق کرنے بعد اسے بیان کی تعلیم دی۔"
اب ان آیات کو ملاحظہ فرمائیں کہ
علم قرآن پہلے‘ خلقت انسان بعد میں‘ پھر اس کے بعد علم بیان‘ تو گویا بتانا مقصود ہے کہ ایسی ذوات مقدسہ موجود ہیں کہ جن کو علم قرآن پہلے دیا گیا ہے‘ پیدائش بعد میں کی گئی ہے۔
توجہ ہے نا
بتانا مقصود ہے کہ ایسی ذوات مقدسہ ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو علم لے کر آئیں‘ علم کے لئے وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکیں۔
وہ کون ذوات ہیں؟
دوسری آیت میں ارشادات رب العزت ہوتا ہے:
وحی نازل ہوئی کہ ابھی جبرائیل (علیہ السلام)کا کوئی کلمہ نہیں کہتے کہ حضرت رسالتمآب آگے آگے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔
تو قرآن کہہ رہا ہے:
اے میرے حبیب۔
جب جبرائیل (علیہ السلام)قرآن سنا رہے ہوں تو خود آگے آگے پڑھنے کی کوشش نہ کرو۔
توجہ فرمائیں۔
گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ نزول قرآن سے پہلے‘ رسول اللہ ۱ کو قرآن کا علم تھا۔
ادھر جبرائیل (علیہ السلام)آیت شروع کرتے تو حضور ۱ آگے آگے پڑھنا شروع کر دیتے تو قرآن کے نزول سے پہلے جب قرآن کا علم ہے تو اس کا مطلب کیا ہوا؟
کہ جب رسالتمآب ۱ کو پیدا کیا گیا تو پیدائش کے ساتھ ان کو علم دیا گیا‘ یہ نہیں کہ پہلے پیدا کیا گیا اور بعد میں علم دیا گیا۔
صلواة
کوشش کرتے ہیں کہ سمجھائیں کہ اہل بیت (علیہم السلام)کو
اس پوری آیت کو پڑھا جائے تو مطالب واضح ہو جاتے ہیں۔
ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:
اے میرے حبیب۔
نبوت کے اعلان سے پہلے آپنے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی‘ نبوت کے اعلان سے پہلے کبھی آپنے لکھا نہیں۔
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ رسول اللہ ان پڑھ تھے۔
جبرائیل (علیہ السلام)آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد پڑھئے۔
وہ کہنے لگے میں تو ان پڑھ ہوں‘ کیسے پڑھوں تو جبرائیل (علیہ السلام)نے ایسا دبایا کہ حضرت کے پسینے بھی چھوٹ گئے اور پڑھنا بھی شروع کر دیا۔
تو سامنے اس آیت کو رکھا گیا ہے۔
اس آیت کے الفاظ۔
اے میرے حبیب!
آپ پہلے کتاب بھی نہیں پڑھتے تھے‘ آپ نے کبھی لکھا بھی نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں کہا؟ کیا حضرت ان پڑھ تھے‘ کیا پڑھے لکھے نہیں تھے؟ اس کا جواب خود آیت دے رہی ہے:
اگر آپ پہلے کتابیں پڑھتے ہوتے‘ اگر آپ پہلے لکھتے ہوئے تو باطل پرست لوگ آپ ۱ کی نبوت میں شک کرتے‘ کہتے کہ کتابیں پڑھ پڑھ کے ہم کو بتا رہے ہیں۔
اگر لکھتے ہوتے تو وہ کہتے کہ لوگوں سے اقتباسات لے کر اس کو قرآن بنا کر ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
تو آپ کو پہلے کبھی نہیں کہا کہ کتابیں پڑھو‘ پہلے کبھی نہیں کہا کہ لکھو‘ تاکہ لوگ اشکال نہ کریں‘ باطل پرست غلط روی کی طرف نہ چلے جائیں۔
اب سوال یہ ہے کہ علم تھا یا نہیں تھا۔ اس سے اگلی آیت ملاحظہ ہو:
قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے کہ یہ آیات کے واضحات ہیں‘ یہ ان کے سینے میں موجود ہیں‘ جن کو خداوند عالم نے علم دیا ہے۔
تو مطلب یہ ہوا کہ اے میرے حبیب! تجھی ۱ علم دیا گیا ہے پیدائش کے وقت‘ ان آیات کا‘ لیکن صرف اس لئے کہ لوگ اشکال نہ کریں‘ آپ کو اجازت نہیں تھی کتابیں پڑھنے کی‘ آپ کو اجازت نہیں تھی کتابیں لکھنے کی‘ علم آپ کو پہلے عطا کیا گیا تھا۔
تو ارشاد خداوندی ہوا:
کوئی ظالم ہی ہو گا جو آپ کو ان پڑھ کہے گا۔
ورنہ آپ کو علم پہلے دیا گیا‘ پیدائش بعد میں کی گئی۔
صلواة
سامعین محترم!
یہ وہ ذوات ہیں جنہوں نے انسانیت کی لاج رکھ لی۔ ان کو علم پہلے دیا گیا‘ کبھی کسی استاد کی ضرورت نہیں پڑی‘ اگر یہ ذوات مقدسہ نہ ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا نے جتنے انسانوں کو پیدا کیا وہ سب کے سب ناقص ہیں‘ کسی کو کامل تو بناتا۔
خدا نے ان ذوات مقدسہ کو پیدا کر کے فرمایا:
"لوگو! یہ ذوات تمہارے لئے نمونہ ہیں‘ یہ ذوات تمہارے لئے اسوئہ ہیں‘ یہ ذوات تمہارے لئے ماڈل ہیں‘ یہ سب کچھ خداوند سے لے کر آتے ہیں۔ ان کا کام تمہیں بتانا ہے‘ تو میں نے کمال کو پیدا کیا ہے‘ اس کمال کو دیکھ کر تم بھی اپنی زندگیوں کو کامل بنا سکو۔"
صلواة
خداوند عالم نے ان کے جسموں کو پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور ان کی روح کو ظاہر بنایا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ اس کائنات کی خلقت سے پہلے ان کے نور کو خلق کیا گیا تو ان کے جسم بھی پاک ہیں‘ ان کے ارواح بھی پاک۔ یہ طاہر ہیں‘ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں پائی جاتی‘ نہ کسی قسم کا نقص پایا جاتا ہے۔ اسی لئے زیارت پڑھتے ہیں تو آپ پڑھتے ہیں۔
صلوت الله علیکم و علی ارواحکم و علی اجسادکم وعلی اجسامکم
کیا کہتے ہیں؟
کہ اللہ کی رحمت ہو کن پر؟ تم پر‘ تمہاری روح پر۔ اللہ کی رحمت ہو تمہارے جسم پر‘ اللہ کی رحمت ہو تمہارے جسد پر‘ اللہ کی رحمت ہو تو رحمت بدن پر بھی ہے‘ جسم پر بھی ہے‘ جسد پر بھی ہے‘ روح پر بھی۔
گویا کہ روح بھی ان کی پاک و پاکیزہ‘ ان کا جسم بھی پاک و پاکیزہ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ
کیا کبھی ان میں کوئی نقص ہو سکتا ہے؟
کبھی ان کو نسیان ہو سکتا ہے؟
معاذ اللہ‘ کبھی ان سے کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں اور کسی نے کہہ دیا:
ان الرجل لا
معاذ اللہ! حضرت کی ذات کوئی غلط بات کہہ رہی ہے‘ اشکال کیا گیا۔ اگر غور و فکر کیا جائے‘ تدبر کیا جائے حدیث کا‘ قرآن مجید کی آیات کا تدبر کیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اہل بیت (علیہم السلام)سے قطعاً کوئی غلطی‘ کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی۔ کمزوری کا مطلب یہ نہیں کہ نقص ہے‘ بیمار ہو سکتے ہیں‘ بخار آ سکتا ہے‘ یعنی پریشانی ہو سکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہو سکتی ہیں‘ لیکن جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے‘ جہاں تک دماغ کا تعلق ہے‘ جہاں تک سر کا تعلق ہے‘ جہاں تک مغز کا تعلق ہے‘ ان میں کبھی کوئی نقص نہیں ہو سکتا‘ بدن میں کمزوری ہو سکتی ہے۔
جیسے آپ حدیث کساء میں پڑھتے ہیں‘ اس میں کہا گیا ہے کہ حضرت رسالتمآب ۱ تشریف لاتے ہیں‘ اپنی بیٹی سیدہ فاطمة الزہرا (علیہا السلام)کے ہاں۔
صلواة
فرماتے ہیں‘ اے میری بیٹی فاطمہ(علیہا السلام) ! میں اپنے بدن میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔
دیکھئے!
بدن پنجابی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ عربی میں بھی۔ اب دیکھئے کہ بدن کے ساتھ تین لفظ اور استعمال ہوتے ہیں‘ جسم‘ جسد‘ بدن۔ ایک چیز مگر نہیں ان میں بھی فرق ہے۔
جسم‘ پورے جسم کو کہتے ہیں‘ لیکن جہاں تک جسد کا تعلق ہے‘ جسد اس وقت جسم کو کہتے ہیں جب وہ روح سے خالی ہو جائے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہوتا ہے:
وما جعلنهم جسد الا یا کلون الطعام
"اے نبی ۱! ہم نے آپ کا خالی جسد ایسا نہیں بنایا کہ آپ کو نہ طعام یا مزاج کی ضرورت نہ ہو۔"
تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر روح نہ ہو‘ سر سے لے کر پاؤں تک سارے کا سارا کہلاتا ہے جسم۔
یہاں پر نہیں کہا گیا کہ میرے جسم میں کمزوری محسوس ہو رہی ہے‘ کمزوری سر میں بھی ہوتی ہے‘ باقی بدن میں بھی ہوتی ہے۔
حضرت فرما رہے ہیں کہ
انی لاجد فی بدنی ضعفا
جہاں تک بدن کا تعلق ہے‘ سر سے نیچے جتنا بدن ہے‘ بدن کہلاتا ہے۔
آپ کسی افسر کے پاس کسی سفارش کرنے والے کو لے جاتے ہیں کہ یہ میرا کام کروا دے گا لیکن وہ نہیں مانتا۔ اب آپ کوشش کریں گے کہ اس یعنی پہلے والے سفارشی سے کوئی اعلیٰ قسم کا سفارشی لے کر جاؤں تاکہ وہ افسر یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے پہلے والی سفارش نہیں مانی‘ لہٰذا اسے بھی نہیں مانتا۔
تو اب ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام)کی شفاعت کے معنی دربار خداوندی میں پیشگی ہے۔
خدایا!
تجھے واسطہ ہے ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام)کا ولادت آسان کر دے۔
ولادت آسان نہیں کام نہیں ہوا۔
اب فاطمہ سفارش کر رہی ہیں۔
تو اب معلوم ہوا کہ یہ سفارش پہلی سفارش اعلیٰ ہے۔
تبھی تو دعا قبول ہو رہی ہے۔
خدایا!
تجھے واسطہ ہے میرے اس بیٹے کا جو میرے بطن میں ہے اس کے صدقہ میں ولادت آسان کر دے۔
یہ کہنا تھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اندر چلی گئیں۔
بہرحال میرا مقصود روایتیں بیان کرنا نہیں‘ آج کی مجلس کے ساتھ جن چیزوں کا ذکر ہے‘ وہی بیان کروں گا۔
علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے خانہ کعبہ میں۔
جب علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو روئے نہیں‘ جس طرح عام لوگ روتے ہیں۔ علی (علیہ السلام) نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں‘ علی (علیہ السلام) نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا۔ ظاہر ہے بچہ ایسا کرے تو والدین پریشان ہو جاتے ہیں‘ آنکھیں نہ کھولے تو سمجھتے ہیں کہ بچہ نابینا ہے‘ تو جناب فاطمہ بنت اسد اس لحاظ سے پریشان تھیں۔
لیکن جب جناب رسالتمآب ۱ تشریف لائے تو علی (علیہ السلام) نے آنکھیں بھی کھولیں اور ایک کلمہ بھی کہا:
السلام علیکم یا رسول الله
صلواة
سبحان اللہ!
تو رسالتمآب ۱ جواباً فرماتے ہیں:
السلام علیک یا وصی الله
حضرات محترم!
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جس وقت علی (علیہ السلام) پیدا ہوئے‘ کیا رسالتمآب اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے؟
بالکل نہیں‘ ابھی تک نبوت کا اعلان نہیں ہوا‘ اس کے باوجود پیدا ہونے والا بچہ پہلی گفتگو یہی کرتا ہے کہ السلام علیک یا رسول اللہ‘ اسی طرح علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔
ہرگز نہیں
جب نبی ۱ کی نبوت کا اعلان نہیں ہوا تو علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کیسا؟
تو جواب میں رسول اللہ ۱ فرماتے ہیں:
علیک السلام یا ولی اللہ
تو گویا یہ بتلانا مقصود ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے علی (علیہ السلام) جانتے تھے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اعلان ولایت سے پہلے رسول جانتے تھے کہ علی (علیہ السلام) اللہ کے وصی ہیں۔
صلواة
نعرئہ حیدری سبحان اللہ!
حضرات محترم!
تھوڑی سی توجہ چاہئے۔
آپ مومنین حضرات تشریف فرما ہیں‘ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی مومن نماز نہ پڑھتا ہو‘ بلکہ مومن ہوتا ہی وہی ہے جو نماز کا پابند ہو‘ جس نے کبھی نماز ترک نہ کی ہو۔
کیوں؟
اس لئے کہ نماز کا حکم انسان کو اس طرح دیا گیا ہے کہ اے انسان! ہر روز کھڑے ہو کر نماز پڑھو‘ اگر اتنا کمزور ہے‘ بیمار ہے کہ سہارا لے کر بھی کھڑا نہیں ہو سکتا‘ پھر اجازت ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھ۔ اگر بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا‘ پھر حکم دیا گیا ہے کہ دائیں جانب لیٹ کر نماز پڑھ۔ اگر دائیں جانب نہیں لیٹ سکتا تو حکم ہے کہ بائیں جانب لیٹ کر نماز پڑھ۔ اگر اتنا ہی بیمار ہے کہ بائیں جانب بھی نہیں لیٹ سکتا تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ پشت کے بل لیٹ جائے اور اشارے کے ساتھ نماز پڑھے۔ اگر کوئی پشت کے بل بھی نہیں لیٹ سکتا تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھے۔ تھوڑا سا سر نیچے کرو سمجھ لو کہ رجوع ہو رہا ہے‘ زیادہ نیچے کرو سجدہ ہو رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اتنا بیمار ہے کہ سر کے اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو حکم ہے کہ آنکھ کے اشارے سے نماز پڑھے‘ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں۔ اگر کوئی شخص آنکھ کے اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو دل میں تصور کرے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور اگر کوئی اتنا انتہاء کو پہنچ چکا ہو کہ دل سے قصد بھی نہیں کر سکتا تو گویا اس حالت میں وہ جا چکا ہے۔
جب تک انسان زندہ ہے‘ نماز ضروری ہے اور نماز کی کوئی معافی نہ ہے۔
ماشاء اللہ!
آپ سبھی نمازی ہیں۔
اب نمازی مسجد میں گیا‘ دیکھا کہ مسجد میں نجاست پڑی ہے‘ کسی بچے نے پیشاب کر دیا ہے۔ مسجد تو بہت بڑی جگہ پر بنی ہوئی ہے‘ کیا انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ جہاں نجاست پڑی ہے وہ جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ نماز پڑھ لے؟
حکم دیا گیا ہے کہ
پہلے مسجد کو پاک کرے‘ پھر نماز پڑھے۔
مسجد کا پاک کرنا واجب ہے۔ اگر انسان اکیلا ہے مسجد کو پاک نہیں کر سکتا‘ حکم ہے کہ اور آدمی اکٹھے کرو‘ پہلے مسجد کو پاک و صاف کرو‘ پھر نماز پڑھو۔
تو مسجد کا پاک کرنا کتنا ضروری ہے۔
اگر کوئی آدمی جذب کی حالت میں مسجد میں جائے تو اسے اتنی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایک دروازے سے جائے اور جلدی جلدی دوسرے دروازے سے نکل جائے‘ وہ نہ تو وہاں ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز رکھ سکتا ہے‘ اگر مسجد الحرام یا مسجد نبوی ہو تو وہاں آدمی قدم تک نہیں رکھ سکتا۔
گویا مطلب یہ ہوا کہ نجس ہو کر مسجد میں جانا ناجائز‘ مسجد کو نجس کرنا ناجائز‘ اگر نجاست پڑی ہوئی ہو تو اس کا پہلے پاک کرنا بعد میں نماز پڑھنا شرط ہے۔
یہ مسئلہ واضح ہو گیا۔
حضرات محترم!
جب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ میں داخل ہوئیں تو جس طرح ہماری عورتیں زچگی کی حالت میں نجس ہوتی ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے‘ وہ بھی نجس‘ بعد میں غسل دے کر اسے پاک کیا جاتا ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ! فاطمہ بنت اسد کی حالت بھی اسی طرح تھی‘ جس طرح عام عورتوں کی ہوتی ہے؟ ان کا بچہ بھی اسی طرح تھا‘ جس طرح عام عورتوں کا بچہ ہوتا ہے؟ اگر اس طرح کا بچہ ہو تو اشکال لازم آئے گا۔
اے اللہ!
تو لوگوں کو تو کہتا ہے کہ مسجد کو نجس کرنا ناجائز ہے اور اگر نجاست پڑی ہوئی ہو تو اس کا دور کرنا واجب ہے۔
اور خود
معاذ اللہ! فاطمہ بنت اسد کو بھیج رہا ہے کہ خانہ کعبہ نجس ہو جائے‘ لیکن خداوند عالم ایسا کام نہیں کرتا کہ جس سے دوسروں کو روکے۔ تو فاطمہ بنت اسد کو کعبہ کے اندر بھیجا‘ اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح دوسری عورتیں زچگی کے وقت نجس ہو جاتی ہیں‘ اس طرح فاطمہ بنت اسد نہیں
نہ فاطمہ نجس ہیں‘ نہ بچہ نجس ہے۔ فاطمہ بھی پاک ہے‘ بچہ بھی پاک ہے۔
لہٰذا خانہ کعبہ کے اندر بھیج دیا۔
مسلمانو!
مجھے بتاؤ کہ
کافر ہو اور کافر ہوتے ہوئے بھی پاک ہو؟
کیا کافر بھی کبھی پاک ہو سکتا ہے؟
گویا فاطمہ کا کعبہ کے اندر جانا اور خدا کا خود بھیجنا۔
فاطمہ خود نہیں گئیں‘ خدا نے خود بھیجا ہے۔
دروازے سے نہیں گئیں‘ بلکہ دیوار کعبہ شق ہوئی ہے۔
تو فاطمہ کو کعبہ کے اندر بھیجنا اس بات کی دلیل ہے کہ
فاطمہ نہ صرف مومنہ ہیں‘ بلکہ ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں‘ تبھی تو خانہ کعبہ میں آئیں۔
صلواة
عجیب بات ہے کہ جب حضرت مریم کی زچگی کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مریم باہر چلی جاؤ‘ یہ بیت المقدس ہے‘ زچہ خانہ نہیں۔
اب دیکھئے! حضرت مریم خود معصوم‘ حضرت مریم کا بیٹا‘ لیکن پھر بھی یہ کہہ کر نکال دیا جاتا ہے کہ یہ بیت المقدس ہے‘ یہاں پیدائش نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ حضرت مریم کی رہائش گاہ ہی بیت المقدس ہے‘ مسجد اقصیٰ میں سکونت پذیر ہیں۔
تو اب ہے ناحیرانی والی بات !
خدایا!
عجیب بات ہے کہ مریم خود معصوم‘ اس کا بیٹا معصوم‘ اسے تو اقصیٰ سے باہر بھیج رہا ہے اور فاطمہ بنت اسد کو جس کو دوسرے مذاہب والے کافر کہتے ہیں۔ معاذاللہ!
دیوار کعبہ شق کر کے اندر بھیج رہا ہے۔
گویا بتانا مقصود ہے کہ اسلام کا پرچار کرنے والی طہارت‘ مریم کی طہارت سے زیادہ ہے‘ جبھی تو خانہ کعبہ میں بھیجا گیا۔
کیا کہنے مولائے کائنات(علیہ السلام)کے! علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے جتنی عظمت پیدا کی ہے‘ اتنی عظمت عیسیٰ (علیہ السلام)اور مریم نے پیدا نہیں کی۔
علی (علیہ السلام) کی صرف ایک خصوصیت کا تذکرہ مقصود ہے‘ وقت نہیں کہ تفصیل سے بیان کروں۔
صلواة
جناب رسالتمآب نے اس دنیا میں ۲۳ سال تک تبلیغ احکام خداوندی لوگوں تک پہنچایا‘ پہلے مکہ مکرمہ میں ۱۳ سال اور ۱۰ سال مدینے میں رہے۔ تکلیفیں برداشت کرتے رہے‘ مسلمان جتنی سازشیں کر سکتے تھے‘ کرتے رہے‘ لیکن جناب رسالتمآب نے اپنا مشن ترک نہیں کیا‘ دن رات ایک کر کے ۲۳ سال کی محنت سے احکام خداوندی کو لوگوں تک پہنچایا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خداوند عالم اس محنت پر رسالتمآب ۱ کا شکریہ ادا کرتا اور کہتا:
اے میرے حبیب! آپ نے بڑی محنت کی ہے‘ لیکن جب آخری حج کر کے واپس آ رہے ہیں تو کہا جا رہا ہے کہ اے میرے حبیب! ایک کام باقی رہ گیا ہے‘ اس حکم کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ اگر اس حکم کو لوگوں تک نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔
رسول اعظم ۱ کی شخصیت‘ ۲۳ سال محنت کی ہے مگر پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ حکم لوگوں تک نہ پہنچایا تو آپنے رسالت کا کوئی کام نہیں کیا۔ ساری محنت رائیگاں جا رہی ہے۔
اگر یہ روایت کسی آدمی کی ہوتی تو میں کبھی بھی آپ کے گوش گزار نہ کرتا‘ مگر یہ قرآن کہہ رہا ہے۔ اب قرآن حکیم کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا۔
ارشاد ہوتا ہے:
یا یها الرسول بلغ ما انزل من
اے میرے رسول!
نبی نہیں کہا گیا‘ حبیب نہیں کہا گیا‘ مزمل‘ مدثر‘ یٰسین نہیں کہا گیا بلکہ جو ان کا منصب تھا اس کا ذکر کیا گیا کہ
اے میرے رسول!
تیری ۱ طرف جو حخم نازل ہوا ہے‘ اس کو لوگوں تک پہنچا دے‘ اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام بھی نہیں کیا۔
یہ کہنا مقصود ہے کہ رسالت کی جتنی تبلیغ ہوئی‘ یہ بمنزلہ ایک ڈھانچے کے ہیں‘ بمنزلہ ایک جسد کے ہیں اور جو حکم دیا جا رہا ہے وہ ایک روح کے لئے‘ کہ وہ حکم آ جائے تو اعمال مفید ہوں گے‘ اعمال زندہ ہوں‘ تو اتنا بڑا حکم آ رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ حکم ہے کیا؟
کوئی کہتا ہے‘ نماز کا حکم ہو گا‘ کوئی کہتا ہے یہ حکم روزہ کا ہے اور کوئی کہتا کہ حج کا‘ مگر ان کا حکم تو پہلے ہی آ گیا تھا۔ تو پھر یہ ایسا کون سا ہے کہ جس کو روح کہا جا سکے؟ جس سے تمام اعمال زندہ ہوں‘ لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے رہے۔
اب اس حکم کو پہنچانا ہے تو تمام اعمال کی روح اس نے بننا ہے۔ وہ روح اگر موجود ہو گی تو رسالت کے احکام بھی زندہ‘ تمام اعمال بھی زندہ‘ ورنہ کچھ بھی زندہ نہ رہے گا۔
اس حکم کو پہنچانے کے لئے جناب رسالتمآب ایک جگہ تشریف لے گئے‘ پلانوں کا ممبر بنایا‘ جیسے مقررین بیان کرتے رہتے ہیں‘ اس کے بعد تبلیغ کی‘ لوگوں کو کہنے لگے:
اے لوگو!
بتاؤ‘ جس طرح تبلیغ کرنے کا حق تھا میں نے کی ہے یا نہیں؟
صحابہ کرام کا مجمع تھا‘ کہا:
یا رسول اللہ!
آپ نے بہترین تبلیغ کی ہ ے‘ جس طرح تبلیغ کا حق تھا۔
پھر دوسرا سوال کیا کہ
مجھے بتاؤ جب معاملات میرے اور تمہارے درمیان طے ہو جائیں تو تمہارے نفسوں پر میں زیادہ حاکم ہوں یا تم خود؟
سب نے کہا:
یا حضرت! آپ کی ذات زیادہ حاکم ہے۔
یہ سب پوچھنے کے بعد کیا کہا؟
یاعلی (علیہ السلام) ! میرے قریب آؤ۔
اور قریب آ جاؤ یاعلی (علیہ السلام) ۔
علی (علیہ السلام) قریب آئے تو تیسری دفعہ اور قریب کیا پھر علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور فرمانے لگے:
من کنت مولا فهذا علی مولا
جس جس کا میں مولا ہوں‘ اس اس کا یہ علی (علیہ السلام) مولا ہے۔
یا رسول اللہ!
کیا ضروری تھا علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو پکڑ کر بلند کرنا‘ ویسے ہی بتا دیتے‘ کون تھا؟ جو علی (علیہ السلام) کو نہ جانتا تھا کہ جس کو علی (علیہ السلام) کی معرفت نہ تھی۔ تو رسول اللہ (ص)فرمائیں گے‘ اصل میں شاگرد تین قسم کے ہوتے ہیں:
بعض شاگرد زیرک قسم کے ہوتے ہیں‘ استاد کچھ کہے‘ کچھ سمجھائے وہ اس سے آگے بھی سمجھ جاتے ہیں۔
بعض شاگرد ایسے ہوتے ہیں متوسط قسم کے‘ استاد کچھ سمجھائے ان کو سمجھ نہیں آتی‘ پھر استاد پوری توجہ دلاتا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں۔ بعض شاگرد اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو بے شک بار بار بھی سمجھایا جائے‘ انہیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ استاد کیا کہہ رہا ہے۔
جناب رسالتمآب کے شاگرد بھی تین طرح کے تھے:
بعض ایسے تھے کہ رسول اللہ نے ایک بار بتایا تو وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ نے تو ایک باب بتایا‘ لیکن ہمارے لئے ہزار باب کھل گئے۔
کچھ ایسے شاگرد تھے کہ رسول اللہ ! ایک دفعہ بتاتے تو وہ سمجھ جاتے تھے۔
کچھ ایسے بھی تھے کہ رسول اللہ (ص)تبلیغ کرتے‘ احکام خداوند عالم بتاتے‘ لیکن جب دربار رسالت سے باہر نکلتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رسول اللہ نے ابھی کیا کہا تھا؟
واذ قال رسول الله
رسول اللہ (ص)ابھی کہہ رہے تھے۔
تو ایسے لوگوں کے لئے ضرورت تھی اس امر کی تاکہ انہیں یقین ہو جائے کہ علی (علیہ السلام) کوئی اور نہیں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے‘ بلکہ علی (علیہ السلام) کو پکڑ کر بلند کر کے بتایا ہے کہ یہ وہ علی (علیہ السلام) ہے‘ جس کی ولایت کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
صلواة
واقعہ تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔ اب علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان ہو چکا تو قرآن کی آیت اتری:
الیوم…
اے میرے حبیب! آج کے دن کافر تیرے دین سے مایوس ہو گئے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ چلے جائیں گے‘ بعد میں دین ہمارے ہاتھ میں ہو گا‘ آج کے دن وہ مایوس ہو گئے۔
چونکہ دین کا محافظ تو معین کر دیا گیا۔
کافروں کا ڈر دل میں مت رکھنا۔
اس کے بعد کیا فرمایا:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتمت علیکم نعمتی
آج کے دن میں نے دین کو مکمل کر دیا اور اس دن میں نے اپنی نعمت کو پورا کر دیا‘ آج کے دن دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔
صلواة
حضرات گرامی!
علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ علی (علیہ السلام) کی منزلت اسلام میں کیا ہے؟
آپ غور فرمائیں کہ
رسول اللہ چالیس برس کے ہوئے‘ تب انہوں نے نبوت کا اعلان کیا تو رسول اللہ اپنے گواہ‘ شریعت کے محافظ‘ اسلام کے محافظ کا انتظار کر رہے تھے کہ محافظ آئے اور وہ اپنی نبوت کا اعلان کریں۔
جب تک علی (علیہ السلام) اس دنیا میں نہیں آئے اعلان نبوت نہیں ہوا‘ تو ابتداء اعلان میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی‘ اسی لئے علی (علیہ السلام) کا انتظار کیا گیا۔ رسول نے ۲۳ سال تبلیغ اسلام کی لیکن اسلام کا حل نہ ہو سکا۔
آدم (علیہ السلام)نے تبلیغ کی‘ نوح (علیہ السلام)نے تبلیغ کی‘ عیسیٰ (علیہ السلام)تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء(علیھم السلام) تبلیغ کرتے رہے‘ اسلام مکمل نہ ہوا۔ حضرت محمد نے ۲۳ سال تبلیغ کی‘ لیکن کمالیت کی سند ابھی نہیں ملی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ
علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کرو‘ تب اسلام مکمل ہو گا۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ ابتدائے اسلام میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی اور انتہائے تبلیغ میں بھی علی (علیہ السلام) کی ضرورت تھی۔ علی (علیہ السلام) آئے تو اسلام مکمل ہوا۔
تو جب ابتداء بھی علی (علیہ السلام) ‘ انتہاء بھی علی (علیہ السلام) ۔ تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پھر حقیقت میں اسلام وہی ہو گا‘ جس کی ابتداء میں بھی علی (علیہ السلام) ‘ انتہاء میں بھی علی (علیہ السلام) ہو۔ صلواة
جنہوں نے باب مدینة العلم سے علم لیا‘ علی (علیہ السلام) کے اسلام حقیقی کو سمجھا ہے‘ انہوں نے ایک سال کے اندر اپنا آئین بھی اسلامی بنا لیا‘ اپنا دستور بھی اسلامی بنا لیا‘ اپنا قانون بھی اسلامی بنا لیا اور آج پورا ملک اسلامی ہے۔ لیکن جنہوں نے کوشش کی ہے کہ علی (علیہ السلام) کو ایک طرف کر کے اسلام لائیں‘ آج نو سال گزر گئے‘ ہم اسلام چاہتے تھے لیکن اسلام ابھی تک نہیں آ سکا۔ اس لئے کہ جب علی (علیہ السلام) کو ایک طرف کر کے اسلام آئے گا تو وہ نیویارک کا اسلام ہوگا‘ محمد عربی کا اسلام نہیں ہو گا۔
میدان غدیر میں اسلام کی تکمیل کے لئے اسلام کی کمالیت کے محمد عربی نے علی (علیہ السلام) کو اٹھا کے لوگوں کو دکھایا‘ لیکن۔
ایک اور میدان
جس میدان کو کربلا کہتے ہیں‘ وہاں محمد موجود نہیں‘ محمد کا نمائندہ حسین (علیہ السلام) موجود ہے۔ حسین (علیہ السلام) نے دین اسلام کی بقاء کے لئے علی اصغر کو اٹھا کے پیش کیا‘ محمد نے اسلام کو مکمل کرنے کے لئے علی (علیہ السلام) کو اٹھا کے پیش کیا۔
لیکن حسین (علیہ السلام) نے محمد کا کردار ادا کرتے ہوئے کربلا میں علی اصغر کو اٹھا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا کہ اسلام تب ہی بچ سکتا ہے جب ایک اور علی (علیہ السلام) اپنی جان کا نذرانہ دے۔
کتنا فرق ہے۔
حسین (علیہ السلام) نے میدان کربلا میں استغاثہ بلند کیا۔
کہا!
هل من…
کوئی ہے جو خاندان کی حفاظت کرے؟
اس وقت علی اصغر نے اپنے آپ کو پنگھوڑے سے نیچے گرا لیا اور ماں سے کہا‘ میرا باباغربت کے نعرے بلند کر رہا ہے‘ میں باباکی مدد کے لئے جاؤں گا۔
میں کہتا ہوں
اگر حسین (علیہ السلام) کی فوج سے اصغر کو نکال دیا جائے تو فوج کی عظمت ختم ہو جائے‘ اصغر اور سکینہ ایسے فوجی ہیں جن کو دیکھ کر کفار کے دل بھی دہل جاتے تھے۔ وہ بھی کہتے تھے:
مسلمانو!
تمہیں یا ہو گیا ہے؟ اصغر کو بھی تو نے نہیں چھوڑا اور سکینہ کو بھی طمانچے مارے اور کبھی سکینہ کے در چھینے۔
کربلا میں جب امام(علیہ السلام) کا غم منایا جاتا تو ہر چند کی شبیہ بنائی جاتی اور ہمیشہ شبیہ اکبر کی بناتے‘ قاسم کی بناتے۔ ایک دفعہ ہم بھی وہاں موجود تھے‘ کربلائیوں کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علی اصغر کی شبیہ بنائی جائے اور اس کو اسی طرح تیر مارا جائے‘ تاکہ لوگ گریہ کریں کہ اس چھوٹے بچے کو تیر مارا جا رہا ہے۔
عزادارو!
جب اصغر کی شبیہ کے لئے ایک یہودی کو پیسے دیئے گئے‘ لیکن یہودی نے جب زمین پر اپنا گھٹنہ زمین پر رکھا اور تیر کو کمان میں جوڑا کہ اس بچے کی شبیہ کو تیر ماروں
لیکن کیا کہنے اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں کا! میدان کربلا میں ششماہے بچے کا بھی خیال نہ کیا۔
ایک عالم نے بتایا کہ میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا‘ میرے ساتھ چند ہندو بھی بیٹھے تھے۔
ایک ہندو مجھ سے مخاطب ہوا‘ کہنے لگا:
اے عالم!
ہمیں یہ بتا کہ کربلا میں کیا ہوا تھا؟
عالم نے جواب میں کہنا شروع کیا کہ
میدان کربلا میں دونوں طرف فوجیں موجود ہیں‘ حسین (علیہ السلام) اپنے جانثاروں کی قربانی دے رہے ہیں‘ جب حبیب گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:
حبیب! تیری شہادت سے میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔
جب زہیر گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:
زہیر! تیری شہادت سے میرا دایاں بازو ٹوٹ گیا اور جب
عباس گھوڑے سے گرے‘ حسین (علیہ السلام) کرسی سے گر گئے اور کہا:
بھیا عباس! تیری شہادت سے میری کمر ٹوٹ گئی اور جب علی اکبر گھوڑے سے گرے تو حسین (علیہ السلام) نے کہا:
اے میرے کڑیل بیٹا! اے میرے ہمشکل پیغمبر بیٹا! یہ دنیا میرے لئے اندھیری ہو گئی ہے‘ مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔
عالم نے بتایا کہ حرملا نے گھٹنہ زمین پر رکھا‘ تیر ایسے جوڑا کہ اصغر کی گردن پر مارے‘ یہاں تک پہنچا تھا کہ ایک بوڑھا ہندو کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ
بس! بس! اب اس سے زیادہ ہم سن نہیں سکتے کہ کیا ہوا۔
لیکن مسلمانو!
تمہاری غیرت کو کیا ہوا؟ ہندو نہیں سن سکتے‘ لیکن تم نے اس ششماہے بچے کو تیر مارا۔ حسین (علیہ السلام) پر بڑی مصیبتیں آئیں‘ لیکن جتنا دکھ حسین (علیہ السلام) کو اس بچے کی شہادت سے ہوا‘ اتنا دکھ حسین (علیہ السلام) کو کسی اور شہید کی شہادت سے نہیں ہوا۔
ایک دفعہ زیارت کے لئے زائرین گئے‘ کیا دیکھتے ہیں کہ حسین (علیہ السلام) اپنی قبر سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور زخموں سے چور چور ہیں‘ بدن پر اتنے زخم ہیں کہ ان زخموں کو شمار نہیں کیا جا سکتا اور حسین (علیہ السلام) کربلا کی مٹی اپنے زخموں پر ڈال رہے ہیں۔ اس بندہ خدا‘ دیکھنے والے نے گریہ کیا اور مومنین کو جا کر بتایا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا‘ مومنین نے گریہ کیا۔ دوسری رات پھر حسین (علیہ السلام) کو دیکھا۔