ریاض المجالس

ریاض المجالس20%

ریاض المجالس مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11512 / ڈاؤنلوڈ: 4622
سائز سائز سائز
ریاض المجالس

ریاض المجالس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

مجلس ہفتم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

حضراتِ محترم!

انسان بارگاہ رب العزت میں پاک و پاکیزہ لباس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ میرا سر فقط تیرے سامنے جھکے گا‘ میری گردن تیرے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکے گی۔

یااللہ! ہمارا یہ وعدہ ہے کہ تیری ذات کے علاوہ کبھی کسی کو معبود نہ مانیں گے۔ جن ذوات مقدسہ کو خداوند عالم نے اپنے جمال و کمال کا آئینہ بنایا ہے‘ ان ذوات نے خدا کی عبادت کر کے ہمیں تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ خدا کے آگے کس طرح جھکنا ہے اور خدا کی عبادت کس طرح کرنی ہے۔

اگر یہ ذوات مقدسہ نہ ہوتیں‘ اگر بارگاہ رب العزت میں یہ ذوات مقدسہ سر تسلیم خم نہ ہوتیں‘ تو ہمیں پتہ ہی نہ چلتا کہ بارگاہ خداوندی میں سلامی کس طرح دینی ہے اور خدا کے سامنے کس طرح جھکنا ہے۔ ان ذوات مقدسہ نے اپنے عمل کے ذریعے ہمیں بتایا کہ خدا کے سامنے جھکنے اور سر تسلیم خم کرنے کا طریقہ یہ ہے۔

مولائے کائنات حلالِ مشاکل(علیہ السلام )نے خداوند کی عبادت اس قدر کی کہ لفظ عبد کے جتنے مصداقات ہیں‘ لفظ عبد کے جتنے معنی نکلتے ہیں ان سب کے سب کا حقدار میرے مولا(علیہ السلام )کی ذات ہے۔ مولائے کائنات(علیہ السلام )عبد بھی ہیں‘ مولائے کائنات(علیہ السلام )معبد بھی ہیں‘ بلکہ ایک لحاظ سے مولائے کائنات(علیہ السلام )کو معبود بھی کہا جاتا ہے۔

عبد یعنی خدا کی عبادت کرنے والا۔ اب اگر یہ عبادت انتہاء تک پہنچ جائے‘ خدا کو خدا سمجھ کر عبادت کی جائے تو انسان کا درجہ اس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ عابد عبادت کرنے کے بعد کہلاتا ہے۔

خداوند عالم اپنے عبد کی تعریف کرتا ہے۔

حقیقت خلوص کی انتہاء ہے‘ غلامی کی انتہاء ہے۔ عبادت اتنی کی گئی کہ اس عبد کا ہر ہر عضو عبادت کرتا ہے‘ آنکھیں خدا کی عبادت کر رہی ہیں‘ کان خدا کی عبادت کر رہے ہیں‘ زبان خدا کی عبادت کر رہی ہے‘ دل خدا کی یاد میں مصروف ہے۔ جب یہ تمام اعضاء خدا کی عبادت کر رہے ہوں تو اس وقت اس آدمی کا درجہ اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ خداوند عالم اپنے عبد حقیقی سے تعبیر کرتا ہے۔

لفظ عبد خدا کو اس قدر پیارا ہے کہ جس ذات کی عظمت کو خداوند ظاہر کرتا ہے‘ اسے اپنے عبد سے تعبیر کیا ہے۔

ارشاد ہو رہا ہے:

تبارک الذی منزل الفرقان علی عبده

"بابرکت ہے وہ ذات جس نے قرآن اپنے عبد پر نازل کیا۔"

یہ نہیں کہا کہ محمد مصطفی پر نازل کیا‘ نہ یہ کہا کہ اپنے نبی پر نازل کیا‘ یہ نہیں کہا کہ اپنے رسول پر نازل کیا۔ ان تمام مفاصبوں کو چھوڑ کر ان تمام عہدوں کو چھوڑ کر‘ ان تمام عہدوں کو برطرف کرتے ہوئے فرمایا:

تبارک الذی نزل الفرقان علی عبده

"بابرکت ہے وہ ذات جس نے قرآن مجید کو اپنے عبد پر نازل کیا۔"

اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

سبحان الذی اسری بعبده لیلاً من المسجد الحرام

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گیا معراج پر۔"

تو عبد بندے کو کہا جاتا ہے۔

معراج پر تو عبد کہا جاتا ہے۔ جب عابد کی عبادت اتنے اعلیٰ درجے کی ہو‘ اس کا ہر ہر عضو خدا کی عبادت کر رہا ہو تو میرے مولا(علیہ السلام )نے بھی خدا کی عبادت کی کہ عبادت کے بعد خداوند عالم نے علی(علیہ السلام )کو اپنے عبد سے تعبیر کیا۔

مولائے کائنات(علیہ السلام )کو عبد کے ساتھ ساتھ معبد بھی کہا جاتا ہے یعنی جائے عبادت۔ تو معبد کیا ہے؟

جائے عبادت‘ مسند عبادت‘ تو گویا مولا علی ابن ابی طالب(علیہ السلام )کے تمام اعضاء نے خدا کی عبادت اس طرح کی کہ اب علی(علیہ السلام )خداوند عالم کی عبادت کا مرکز کہلا رہا ہے۔

یا علی(علیہ السلام )کی ولادت ایسی جگہ پر ہوئی کہ جو جگہ خانہ کعبہ ہے۔

عبادت کی جگہ ہے‘ لوگ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں‘ تو اس لحاظ سے بھی کہا جاتا ہے کہ جس معبد کی طرف لوگ منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں‘ یہ قبلہ درحقیقت علی(علیہ السلام )کا زچہ خانہ ہے‘ تو اس عنوان سے بھی علی ابن ابی طالب(علیہ السلام )کی ذات کو معبد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

معبود خدا کی ذات ہے‘ عبادت خدا کی ہو سکتی ہے‘ لیکن ایک عنوان سے مولائے کائنات(علیہ السلام )کو بھی معبود کہا گیا۔

کیا مطلب!

کہ معبود کا ایک معنی ہے‘ مطاع یعنی جس کی اطاعت کی جائے۔ ایک تو کائنات کے اچھے انسان مولائے کائنات(علیہ السلام )کی اطاعت کرے ہیں‘ دوسری ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مولائے کائنات(علیہ السلام )نے خدا کی محبت میں جتنے عمل سرانجام دیئے‘ جتنے افعال بجا لائے‘ ان اعمال میں‘ ان کردار میں مولا(علیہ السلام )کے اخلاق کی اس قدر عظمت تھی کہ جب بھی کوئی عمل بجا لاتے‘ قرآنی آیات آ کر تصدیق کرتیں۔

تو گویا بات ایک ہوئی کہ علی(علیہ السلام )عمل بجا لاتے‘ قران اس کی تصدیق کرتا۔ تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آیات قرآنی عمل امیرالمومنین(علیہ السلام )ہے‘ یعنی پہلے عمل ہوتا ہے‘ اس کے مطابق آیات قرآنی کا نزول ہوتا ہے۔

صلواة

اب مولا(علیہ السلام )کا عمل‘ مولا(علیہ السلام )کا کردار‘ مولا(علیہ السلام )کی عظمت اس قدر بلند کہ مولا(علیہ السلام )عمل کرتے جاتے ہیں‘ قرآن اس کی گواہی دیتا جاتا ہے۔

مولا(علیہ السلام )کے پاس چار درہم تھے‘ ایک درہم مولا(علیہ السلام )نے رات کے وقت صدقہ میں دے دیا‘ ایک درہم دن کی روشنی میں بطور صدقہ دیا‘ ایک درہم کسی غریب کے سامنے رکھ دیا‘ ایک درہم کسی مستحق کو عام لوگوں سے چھپا کر دیا اور کسی کو پتہ نہ چل سکا‘ چار درہم دیئے مولا(علیہ السلام )نے۔

رات کو‘ دن میں‘ ایک درہم چھپا کر‘ ایک درہم ظاہر بظاہر‘ اب چار درہم مولا(علیہ السلام )نے عنایت فرمائے۔

قرآن اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے:

الذین ینفقون اموالهم باللیل و النهار سراً و علانیة فلهم اجر هم عند ربهم فلا خوف علیهم ولاهم یحزنون

کہ وہ لوگ ینفیقون اموالہم اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں‘ رات کے وقت‘ دن کے وقت‘ لوگوں سے چھپا کر اور ظاہر بظاہر۔ ان کا اجر ان کو ان کا خدا دے گا‘ نہ ان کو کسی کا خوف ہو گا‘ نہ ان کو کبھی عم ہو گا‘ مطلب کیا ہوا؟

مولائے کائنات(علیہ السلام )نے فقط چار درہم دیئے‘ اللہ کی بارگاہ میں ان چار درہموں کے بدلے آیت نازل کر کے خدا نے بتا دیا کہ

اے علی(علیہ السلام )! تیرا عمل میرے نزدیک اس قدر پیارا ہے کہ تو نے عمل کیا‘ میں نے قرآن کی آیت بنا دیا۔

آپ کے مولا(علیہ السلام )جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ رسول جیسی عظیم شخصیت نماز پڑھا رہی ہے کہ ایک سائل آ کے سوال کرتا ہے‘ اسے کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ سائل بارگاہ رب العزت میں عرض کرتا ہے کہ

خدایا! میں نے بھری مسجد میں سوال کیا‘ اتنی تعداد میں صحابہ کرام  تھے‘ تیرا رسول نماز پڑھا رہا تھا‘ میں نے سوال کیا مگر کسی نے جواب نہیں دیا‘ اب خالی ہاتھ مسجد سے جا رہا ہوں۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ

مولائے کائنات(علیہ السلام )نے انگلی سے اشارہ کیا‘ اس شخص نے انگوٹھی اتار لی‘ تو اس کے بدلے میں قرآن کیا کہتا ہے؟ قرآن مولا(علیہ السلام )کو اس انگوٹھی کے بدلے میں ایسا منصب عطا کر رہا ہے کہ سوائے رسالتمآب کے کسی نبی کو بھی وہ منصب عطا نہیں ہوا:

انما ولیکم الله و رسوله و الذین امنوا الذین یقیمون الصلوة ويوتون الزکوة و هم راکعون

"تمہارا ولی صرف اللہ ہے‘ دوسرا ولی اللہ کا رسول ہے‘ تیسرا ولی کون جو پابندی سے نماز پڑھتا ہے اور حالت رکوع میں زکوٰة بھی دیتا ہے۔"

ظاہر ہے کہ مولا(علیہ السلام )نے حالت رکوع میں زکوٰة دی اور قرآن کی آیت اتری اور اس آیت میں مولا(علیہ السلام )کو تمغہ ولایت عطا فرمایا گیا۔

وہ منصب ولایت جو رسول اللہ کے علاوہ کسی نبی کو بھی نہیں دیا گیا‘ لیکن مسلمانوں کی بدبخدتی ہے کہ جتنا منصب ولایت کو لوگوں نے ذلیل کیا ہے‘ اتنا کسی منصب کو ذلیل نہیں کیا گیا۔ وہ لوگ یہ خیال نہیں کرتے کہ آیا یہ بھی کوئی منصب ہے یا نہیں؟

نشر کرتا ہے‘ جھوٹ بولتا ہے‘ جس کو نہ دین کا پتہ ہے نہ ایمان کا‘ پاگل قسم کا آدمی ہے‘ اس کو لوگ ولی اللہ کہتے ہیں تو لفظ ولی اللہ کی اتنی مٹی پلید کی کہ

ولی اللہ کی عظمت کیا ہے؟

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ مختلف نبیوں کو نبی کہا گیا ہے‘ پیغمبر کہا گیا ہے‘ یہ سب کے لئے مشترک ہے۔

تین سو تیرہ رسول آئے‘ ان کے لئے لفظ رسول مشترک ہے۔

نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں اور ان میں سے تین سو تیرہ رسول اور جہاں پر لفظ ولایت کا تعلق ہے تو سمجھئے کہ خدا نے منصب ولایت کو سب سے پہلے اپنے لئے منتخِ کیا‘ یعنی خدا نے اپنے آپ کو پہلے ولی کہا‘ خدا نے اپنے رسول کو بھی ولی کہا۔

توجہ فرمائیں!

کہ خدا نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا‘ اپنے آپ کو رسول نہیں کہا‘ اپنے آپ کو پیغمبر نہیں کہا‘ خدا نے اپنے آپ کو امام نہیں کہا‘ خدا نے اپنے آپ کو خلیفہ نہیں کہا‘ بلکہ خدا نے اپنے آپ کو صرف ولی کہا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ کہا کہ ولایت میں میرے تک اور کسی کا حق نہیں ہے۔ یہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں‘ کوئی اور روایت بھی پیش نہیں کر رہا ہوں کہ جس میں بحث کی گنجائش ہو‘ بلکہ قرآن کہتا ہے:

والله من ولی…

اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے‘ اللہ ہی ولی ہو سکتا ہے‘ اللہ کے علاوہ کوئی اور ولی نہیں ہو سکتا۔ تو سب سے پہلے خدا نے ولایت کو اپنے ساتھ مختص کیا‘ پھر ایک دوسری آیت میں بھی یہی کہا گیا۔

میرا ولی اللہ ہے‘ اللہ کون ہے جس نے کتاب کو نازل کیا۔ تو یہاں نبی فرما رہے کہ میرا ولی خدا ہے اور پہلی آیت میں خدا خود کہہ رہا ہے کہ اللہ ہی ولی ہے‘ اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے‘ یہ منصب خدا نے خود اپنے لئے مختص کیا ہے‘ کسی نبی کو نہیں دیا گیا مگر تیسری جگہ پر خدا نے اس منصب میں اپنے ساتھ مصطفی (ص)کو بھی شریک کیا اور مرتضیٰ(علیہ السلام )کو بھی شریک کر لیا۔ پھر کہا انما ولیکم اللّٰہ کہ بس ولی خدا ہے۔ انما کا کلمہ‘ کلمہ حصر ہے۔ جس طرح انما یرید اللہ بھی حصر کا کلمہ ہے‘ اسی طرح یہاں پر بھی حصر ہے کہ بس تمہارا ولی‘ اللہ۔

پتہ نہں چلتا کہ خدا خود کس طرح ولی ہے۔ اس کے بعد کہا گیا‘ اس کا رسول بھی تمہارا ولی ہے‘ اس کے بعد وہ شخص تمہارا ولی ہے جس نے حالت رکوع میں زکوٰة دی۔ حالت رکوع میں زکوٰة دینا خدا کو اتنا پیارا لگا کہ جو منصب خدا نے اپنے لئے مختص کیا ہوا تھا‘ اس منصب کو رسول ۱ کو دے دیا اور علی(علیہ السلام )کو بھی یہ منصب دے دیا۔ یہ کوئی معمولی منصب نہ تھا‘ لوگ حیران کہ علی(علیہ السلام )کو یہ منصب کیسے مل گیا؟ کتنا بڑا منصب مل گیا۔ ایک انگوٹھی دی۔ انگوٹھی کتنی بڑی ہوتی ہے؟

لہٰذا انہوں نے بھی کوشش کی‘ اپنے لوگوں کو بلایا تاکہ ہم بھی اس منصب میں شریک ہو جائیں‘ ہم بھی کوئی ایسا کام کریں کہ ہمارے لئے کوئی آیت نازل ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے لوگوں کو بلایا اور کہنے لگے کہ علی(علیہ السلام )نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی زکوٰة دی‘ ان کے لئے قرآن کی آیت آ گئی‘ ولایت بھی مل گئی۔ ہم بھی اس طرح خرتے ہیں‘ انگوٹھی دیتے ہیں نماز کی حالت میں‘ تاکہ جس طرح علی(علیہ السلام )کے لئے آیت آئی ہے‘ ہمارے لئے بھی آیت آ جائے۔ ایک آدمی سے کہا گیا کہ دیکھو جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں‘ جماعت ہو رہی ہو‘ رسول اللہ (ص)نماز پڑھا رہے ہوں‘ لوگ بکثرت موجود ہوں‘ تم آ کے سوال کرنا کہ کون ہے جو مجھے کچھ دیتا ہے؟

میں اسی طرح کروں گا جس طرح علی(علیہ السلام )نے کیا‘ تم انگوٹھی اتار لینا‘ جس طرح علی(علیہ السلام )کے لئے آیت آئی ہے‘ اس طرح ہمارے لئے بھی آیت آئے گی۔

انہوں یہ بھی کہا کہ

اگر آیت آ گئی تو ٹھیک ہے اور اگر آیت نہ آئی تو تم میری انگوٹھی واپس کر دینا۔

تو جب اتنا زبردست جوش ہو‘ تو پھر آیتیں ماشاء اللہ کافی آئیں گی‘ چنانچہ انگوٹھی دے دی لیکن کچھ نہ اترا۔

اب وہ احتجاج کر رہے ہیں۔

رسول اللہ ۱ کی خدمت میں‘ یا رسول اللہ ۱ کیا وجہ ہے کہ علی(علیہ السلام )کوئی چیز دیتے ہیں تو آیت آ جاتی ہے۔ ایک چھوٹی سی انگوٹھی دی اس کے لئے آیت آ گئی۔

ہم چیختے رہے‘ چلاتے رہے‘ انگوٹھی بھی زکوٰة دی‘ لیکن ہمارے لئے آیت نہ آئی‘ ہم اس کو برداشت نہیں کر سکتے۔

اگر یہی حال رہا‘ تو ہم تیری ۱ دین کو چھوڑ دیں گے۔

یہ اپنی طرف سے نہیں

اگر یہی حال رہا اور ہمارے لئے آیت نہ آئی‘ مال و دولت دیتے رہے‘ سارے مال خرچ کرتے رہے‘ انگوٹھی بھی دی‘ اگر ہمارے لئے آیت نہ آئی تو پھر ہم تیری ۱ دین کو چھوڑ دیں گے۔

قرآن مجید نے اس کا ذکر کیا ہے:

تو ان لوگوں نے کہا تھا کہ اگر ہمارے لئے آیت نہیں آئی‘ ہم دین کو چھوڑ دیں گے۔ تو قرآن نے کہا:

"اے ایمان والو! تم میں سے جو مرتد ہونا چاہتا ہے‘ دین سے نکلنا چاہتا ہے‘ بڑی خوشی سے نکل جائے‘ ہمیں ضرورت نہیں۔"

تو خدایا! جب سب لوگ نکل جائیں گے‘ تو پھر کیا ہو گا؟

خدا کہتا ہے:

فسوف یاتی الله بقوم

"خدا کے میں وہ لوگ موجود ہیں کہ خدا ان سے محبت کرتا ہے اور وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔"

کل رات میں نے ذکر کیا تھا‘ رسول اللہنے ارشاد فرمایا تھا کہ

لا عطین ھذہ الرایہ رجلا کرارا غیر فرار یحب اللہ و رسولہ ویحبہ اللہ و رسولہ

"کل علم اس مرد کو دوں گا‘ جو کرار ہو گا‘ غیر فرار ہو گا‘ جس کو خدا اور اس کے رسول سے محبت ہو گی‘ خدا اور رسول ۱ کو اس سے محبت ہو گی۔"

تو اس حدیث اور اس آیت کو دیکھیں‘ جس میں کہا جا رہا ہے:

"آپ بے شک مرتد ہو جائیں‘ دین کو چھوڑ دیں‘ کوئی پرواہ نہیں‘ اس لئے کہ دین میں ایسے لوگ موجود ہیں‘ جن کو خدا سے محبت اور خدا کو ان سے محبت ہے۔"

تو گویا یہ کہا گیا ہے کہ

"دین میں علی(علیہ السلام )جیسی ہستی موجود ہے کہ جن کو خدا سے محبت ہے اور خدا کو ان سے محبت ہے۔"

اس کے بعد آیت میں فرمایا گیا:

اعزه علی المومنین

"مومنین کے سامنے خضوع و خشوع کرنے والے ہیں۔"

اعزه علی الکافرین

"کافروں پر غلبہ حاصل کرنے والے ہیں۔"

یجاهدون فی سبیل الله

"اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔"

کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہے۔

تو جب ایسی ذوات مقدسہ اللہ کے دین میں موجود ہیں‘ جو اپنی جان خدا پر قربان کرتے ہیں‘ خدا کو ان سے محبت ہے۔ اگر تم علیحدہ ہونا چاہتے ہو تو بڑی خوشی کے ساتھ ہو جاؤ‘ دین میں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ذہن سے نہ بھولے ہوں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ

اگرچہ عبادت کرنے والے لوگ کافی ہیں‘ لیکن علی(علیہ السلام )ایسے عبادت گزار ہیں‘ علی(علیہ السلام )کی عبادت خدا کو ایسی پسند ہے کہ جب بھی وہ کوئی کام کرتے ہیں تو قرآن کی آیت اس کی تصدیق کرتی ہے۔

اب تیسری آیت‘ آپ لوگ اکثر سنتے ہیں کہ علی(علیہ السلام )اور اولاد علی(علیہ السلام )نے تین روٹیاں دی ہیں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور فقیروں کو۔

ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ بھی راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں لیکن راہ خدا میں کوئی شخص تب کوئی چیز دیتا ہے‘ جب کوئی چیز زیادہ ہوتی ہے۔

آپ دُکان پر بیٹھے ہیں‘ کچھ غریب و مسکین آ جاتے ہیں‘ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو آپ ایک روپیہ دیتے ہیں‘ کچھ ایسے ہوتے ہیں‘ جن کو آپ سو روپے دے دیں گے‘کچھ ایسے ہوں گے جن کو ہزار روپیہ دے دیں گے۔

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے پاس ہزار روپیہ ہو تو آپ وہ اٹھا کر دے دیں؟

سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! زیادہ چیز ہو تو اس کے مطابق انسان دیتا ہے۔ فقط یہی چیز اس کے سامنے موجود ہے اور روٹی آدمی کھا رہا ہے‘ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اس کے پاس‘ ادھر فقیر آ نکلے کہ بنام خدا کچھ مجھے دے دو‘ تو انسان اس سے معذرت کرے گا‘ اگر وہ ضد کرے تو اس سے لڑ پڑے گا کہ بندئہ خدا! روٹی تو میرے لئے کافی نہیں ہے‘ تمہیں کہاں سے دوں؟

کیا کہنا اہل بیت(علیہ السلام )کا!

آیات قرآنی بلاوجہ نہیں آتی تھیں‘ اہل بیت(علیہ السلام )نے سارا دن روزہ رکھا‘ سارے دن کے بھوکے پیاسے ہیں‘ کچھ کھایا پیا نہیں‘ شام کے وقت بیٹھے ہیں‘ فاطمہ(علیہ السلام )نے آٹا تیار کیا۔ یہودی کے باغ میں روزہ کی حالت میں مولا علی(علیہ السلام )نے مزدوری کی ہے‘ وہاں سے کچھ پیسے جو ملے‘ آٹا تیار ہوا‘ روٹی تیار ہوئی۔ اب حسن مجتبیٰ(علیہ السلام )بھی روزہ دار ہیں‘ حسین(علیہ السلام )پاک بھی روزہ دار ہیں‘ فاطمہ(علیہ السلام )بھی روزہ سے ہیں‘ علی(علیہ السلام )نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا اور فضہ  ۱ بھی روزہ دار‘ البتہ آج اس نعمت میں رسول اللہ ۱ شریک نہیں ہیں۔

ان پانچوں کا روزہ ہے‘ جن میں چار اہل بیت(علیہ السلام )ہیں‘ ایک کنیز ہے‘ وہ کنیز بھی ایسی جس کو لفظ اماں سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ ایک آدمی آ جاتا ہے‘ وہ کہتا ہے:

میں یتیم ہوں۔

اس کو کھانا دے دیا جاتا ہے‘ روٹیاں دے دی جاتی ہیں‘ ہر فرد خانہ اپنی اپنی روٹی دے رہا ہے‘ کسی نے بھی اپنے پاس روٹی نہیں رکھی۔

دوسری رات‘ کوئی مسکین آ جاتا ہے۔

پہلی شب کی طرح آج پھر سب نے اپنا اپنا کھانا اٹھا کر دے دیا۔

تیسری رات‘ پھر کوئی سائل آ جاتا ہے کہ اسیر ہوں۔

تو تین روزے اہل بیت(علیہ السلام )نے رکھے اور ہر روز بوقت افطار سائل کو سرفراز فرما دیتے‘ صبح پانی سے روزے رکھے جاتے رہے۔

تین دن کی متواتر بھوک برداشت کی‘ افراد اہل بیت(علیہ السلام )نے۔ لیکن یتیم و مسکین و اسیر کو خالی ہاتھ واپس نہیں کیا۔

اللہ کو یہ ادا ایسی پسند آئی کہ قرآن میں فرمایا:

و یطعمون الطعام علىٰ حبه مسکینا و یتیما و اسیرا

"یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی محبت میں یتیم و مسکین و اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں‘ خود بھوکے رہتے ہیں۔"

انہوں نے کھانا کھلایا‘ ان سائلوں کو‘ مانگنے والوں کو‘ لیکن کیوں دیا؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا سبب تھا؟

تو خداوند عالم خود فرماتا ہے کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کھانا کیوں دیا؟

انما نطعمکم لوجه الله لا نرید منکم جزآء و لا شکورا

فقط اللہ کی رضا کی ضرورت ہے‘ تقرب الٰہی مقصود ہے‘ اللہ کو خوش کرنے کے لئے کھانا دے رہے ہیں‘ نرید منکم جزاء و لا شکورا۔

اے یتیم‘ اے مسکین‘ اے اسیر! ہم نے اللہ کی راہ میں کھانا دیا ہے‘ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ آپ کہیں‘ جزاکم۔ نہ اس کی ضرورت ہے کہ آپ لوگ ہمارا شکریہ ادا کریں‘ یہ سب کچھ تو بوجہ اللہ ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ جزا دیں یا شکریہ ادا کریں کہ آپ نے ہمیں نعمت دی ہے۔

لیکن عظمت ربی کا کینا کہ جن کو کھانا دیا ان کے لئے نہیں دیا تھا‘ خدا لئے دیا تھا۔

جب کوئی عمل خدا کے لئے ہو تو خدا کو ہی چاہئے کہ وہ ہی جزا دے۔

خدا نے کیا جزا دی کہ

تین روٹیوں کے بدلے پورا سورئہ دہر نازل کیا‘ بلکہ کہا ہے کہ

"اے میرے ماننے والے! اے میری محبت میں دینے والے! بھوکے رہنے والے! آپ تو کہتے ہیں ہمیں جزا کی ضرورت نہیں‘ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں شکریے کی ضرورت نہیں‘ میں جزا میں پورا سورئہ دہر دے رہا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ سعکم مشکورا‘ تمہاری کوشش کا میں خدا شکریہ ادا کرتا ہوں۔"

یعنی خداوند عالم کو یہ عمل اہل بیت(علیہ السلام )اتنا پسند آیا کہ خود شکریہ ادا کر رہا ہے۔ اس سے بڑی اور کیا نعمت ہوتی ہے؟

فقط ایک آیت کہ علی(علیہ السلام )نے ایک کام کیا‘ خدا نے آیت نازل کر دی۔

ایک جنگ ہوتی ہے‘ جنگ موتہ۔ مشہور جنگ ہے اور یہ واحد جنگ ہے‘ جس میں مولا علی(علیہ السلام )کو شریک نہیں کیا گیا‘ تو جس جنگ میں علی(علیہ السلام )نہیں گئے‘ مسلمان اس جنگ میں مار کھا کر آئے۔

رسالتمآب نے چاہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں دنیا سے چلا جاؤں اور آخری جنگ ہو کہ جس میں مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہو‘ لہٰذا حضور نے ایک اور جنگ کا حکم دیا‘ اس جنگ کو حنین کہتے ہیں۔ اس جنگ میں بھی سب سے پہلے علی(علیہ السلام )کو نہیں بھیجا گیا‘ تاکہ لوگوں کو کم از کم علم ہو جائے کہ ہماری کیا طاقت ہے۔

پہلے ایک صاحب کو بھیجا گیا‘ وہ صاحب جنگ میں گئے تو مخالفین میں سے پچاس‘ ساٹھ آدمی ان کے پاس آئے‘ انہوں نے انہیں سمجھایا کہ تم کیوں لڑتے ہو؟ ہمارے ساتھ بہت زیادہ لشکر ہے‘ آپ کے پاس تعداد بہت کم ہے‘ مار کھاؤ گے‘ جان کے ساتھ پیار ہے‘ اگر جان کے ساتھ محبت ہے‘ کیوں لڑتے ہو؟ انہوں نے سمجھایا‘ عقلمند آدمی تھے۔ بارہ ہزار کا لشکر معمولی نہیں ہے‘ یہ بارہ ہزار کی تعداد۔

جب انہوں نے سمجھایا تو یہ بزرگوار کہنے لگے‘ ٹھیک ہے‘ میں نہیں لڑتا اور واپس آ گئے۔

اب دوسرے صاحب کو بھیجا گیا۔ عقلمند وہی ہوتا ہے جو اپنی جان کی حفاظت کر سکے۔ یہ دوسرے صاحِ گئے‘ یہ پہلے سے بھی زیادہ عقلمند تھے‘ جب ان کو سمجھایا گیا کہ اے بندئہ خدا! تو ہمار ساتھ کیوں لڑتا ہے؟ کیوں مرتے ہو؟ خواہ مخواہ اپنی جان ضائع کرتے ہو‘ پتہ نہیں بعد میں کچھ تمہیں ملے گا بھی کہ نہیں۔ ہمارے پاس طاقت ہے‘ قوت ہے‘ فوج ہے‘ جنگ میں ہم چوڑیں گے تو نہیں تمہیں۔

انہوں ں ے کہا‘ بس یہی کافی ہے اور میں واپس جا رہا ہوں اور اب تیسری دفعہ روایت میں ہے کہ

عمرو بن العاص کو بھیجا گیا۔ یہ گئے تو بڑے طمطراق سے‘ مگر حسب معمول ان کی باتوں کو سن کر پورے امن و سلامتی سے بخیر و عافیت تشریف لے آئے۔

اب رسول اللہ ۱ کہتے ہیں کہ جس کو بھی بھیجتا ہوں‘ کافر و مشرک اسے سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیتے ہیں‘ اب اسے میدان میں بھیجوں گا جو کافروں سے سمجھنے والا نہیں‘ بلکہ انہیں سمجھانے والا ہو گا۔

اور اپنے برادر علی(علیہ السلام )کو بلایا اور فرمایا‘ جاؤ علی(علیہ السلام )جا کر بڑو اور فتح کئے بغیر نہ آنا۔ جب یہ گئے تو کافروں نے حسب عادت سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ جب تیرے بوڑھے واپس چلے گئے‘ تم جوان ہو‘ تم اپنی جوانی کیوں خراب کرتے ہو؟

حضرت امیر(علیہ السلام )نے فرمایا کہ

"آپ کو پتہ نہیں کہ میں(علیہ السلام )کون ہوں؟ اسلام قبول کر لو نہ لڑوں گا‘ ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ‘ ہمارے مسلمان بھائی قتل ہوئے‘ میں ان کا بدلے لئے بغیر نہ جاؤں گا‘ پہلے تین اور تھے اور میں اور ہوں۔"

انہوں نے سوچا کہ جب وہ بھاگ گئے تو یہ جوان کیا کر لے گا‘ لڑنے کو تیار ہوئے۔ اس واقعہ کو قرآن نے ذکر کیا ہے (جس کیلئے میں نے اتنی کوشش کی) تئیسویں پارے میں قرآن ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

والعدیات ضبحا فالموریات قدحاً فالمغیرات صبحاً فاثرن به نقعاً فوسطن به جمعاً

اب دیکھئے! جتنی تلاوت آیات کی میں نے کی ہیں‘ ان میں سے پہلی اور دوسری آیت میں علی(علیہ السلام )کی تعریف کی گئی تھی‘ ولایت علی(علیہ السلام )کا تذکرہ تھا۔ تیسری آیت میں اہل بیت(علیہ السلام )کی تعریف کی گئی تھی‘ لیکن اس آیت میں اہل بیت(علیہ السلام )کی تعریف نہیں‘ مولا امیر(علیہ السلام )کی تعریف نہیں‘ بلکہ وہ گھوڑے جس پر علی(علیہ السلام )اور علی(علیہ السلام )کی فوج سوار ہو کے گئے تھے۔

ارشاد ہو رہا ہے:

"مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی! جو تیزی سے دوڑتے ہیں‘ تو ان کے دوڑنے کی آواز آتی ہے۔ قسم ہے ان گھوڑوں کی! جو رات کی تاریکی میں دوڑتے ہیں‘ ان کے قدموں سے ایک چنگاری نکلتی ہے‘ بڑی اچھی لگتی ہے۔ مجھے قسم ہے اس فوج کی! جس نے صبح صبح جا کے حملہ کیا اور وہ فوج کامیاب ہوئی۔"

یہاں گھوڑوں کی قسم کھا کے خدا نے ہمیں متوجہ کر دیا:

اے میرے ماننے والے‘ اے میری توحید کا اقرار کرنے والے! میں فقط اہل بیت(علیہ السلام )کی تعریف ہی نہیں کرتا بلکہ اہل بیت(علیہ السلام )جن سواریوں پر سوار ہو جائیں‘ ان گھوڑوں کی بھی میں قسم کھاتا ہوں (اور اس گھوڑے پر حسین(علیہ السلام )ابن علی(علیہ السلام )سوار ہو کر گئے تھے) اور انہوں نے دین خدا کو بچا لیا۔

تو جب میں خود خدا ان کی قسم کھا رہا ہوں‘ تو اس گھوڑے کی عزت‘ بدعت نہیں ہو گی‘ بلکہ عین دین ہو گی۔

میرا عنوان تھا:

ایاک نعبد و ایاک نستعین

عبادت علی(علیہ السلام )کا تذکرہ ہو رہا تھا۔

اب علی(علیہ السلام )کی عبادت کا اخلاق‘ علی(علیہ السلام )کا کردار‘ علی(علیہ السلام )کے اعمال اس قدر بلند ہیں کہ آیات نازل ہو رہی ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ علی(علیہ السلام )میں یہ عظمت کیوں پیدا ہوئی؟ کون سی خصوصیت تھی‘ مولائے کائنات(علیہ السلام )کی کہ آیات پر آیات آ رہی ہیں‘ جب بھی کوئی کام کرتے؟ تین سو آیات مولائے کائنات(علیہ السلام )کی شان میں نازل ہوئیں۔ کوئی کام کرتے ہیں آیت نازل ہوتی ہے۔

کیوں اس کی وجہ کیا ہے؟

اگرچہ مسلمان موجود تھے‘ مومنین کافی تعداد میں موجود تھے‘ لیکن مومنین کی تین قسمیں پائی جاتی تھیں۔ تین قسموں کا میں ذکر کرتا ہوں‘ اب آپ فیصلہ کریں کہ ان تین قسموں میں سب سے اچھی قسم کن مومنوں کی ہے؟ کچھ مومن ایسے ہیں کہ جو ایمان تو لائے‘ لیکن ان کی عمر کا کافی سارا عرصہ بغیر ایمان کے گزرا۔ کافر تھے‘ مشرک تھے‘ بت پرست تھے‘ کسی کو دس سال‘ کسی کو بیس سال اور کسی کو چالیس سال گزرے۔ تو گویا ان کی عمر کا زیادہ حصہ بت پرستی‘ شرک اور کفر میں گزرا‘ جب بوڑھے ہو گئے تو ان کی عمر کا زیادہ حصہ کفر میں گزرا۔ اب ظاہر ہے کہ بڑھاپا بری چیز نہیں ہے‘ لیکن یہ اب تک مسلم ہے کہ بڑھاپے میں کافی چیزیں رہ جاتی ہیں‘ یاد نہیں ہوتیں‘ آدمی کوشش بھی کرتا ہے‘ تب بھی چیز یاد نہیں ہوتی۔

اگر کوئی چیز کسی کو سمجھائی جائے تو نفسیات کے علماء یہی کہتے ہیں کہ یہ سمجھانا ایسا ہو گا کہ جیسے مٹی پر لکیر کھینچنا یا مٹی پر لکھنا‘ لیکن اگر جوانی میں یا بچپن میں کوئی چیز سمجھائی جائے تو وہ ایسے ہوتا ہے جیسے پتھر پر لکیر۔ اب جب پتھر پر لکیر ہو گی‘ وہ نہیں مٹے گی‘ جو مٹی پر لکیر ہو گی وہ ایسے ہو گی کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا تو وہ مٹ گئی۔

لہٰذا بوڑھا آدمی‘ کوئی دین یاد بھی کرتا ہے تو تب بھی اس کو وہ چیز یاد جلد نہیں ہوتی‘ بوڑھا آدمی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں خہ بوڑھا آدمی بڑھاپے میں نماز یاد کر رہا ہے‘ اعمال دین یاد کر رہا ہے۔ اگر اسے یاد نہیں ہو رہے تو وہ یہ خیال کرے کہ وہ قیامت کے دن بخشا جائے گا‘ کیونکہ اس نے یاد کرنے کی کوشش تو کی ہے‘ بلکہ پندرہ سال کا آدمی جب ہو جاتا ہے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ یاد کرو۔ ہر چیز یاد کرے‘ اگر وہ روزمرہ کے مسائل یاد نہیں کرتا‘ بڑھاپے میں دین کی طرف لوٹ آیا ہے‘ سب خرابیوں کو چھوڑ کر۔ ابدین دار بن گیا ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ ان چیزوں کو یاد کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں‘ اب مجھ سے کوئی چیز یاد نہیں ہو سکتی تو بہرحال اس کا تذکرہ کر رہا تھا کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ روزمرہ کے مسائل یاد کرے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ دس سال کا عرصہ گزر گیا‘ ایمان نہیں لا سکے‘ بعد میں ایمان لائے‘ ظاہر ہے کہ یہ مومن نہیں۔

دوسرے نمبر پر ایسے مومن جو ایمان تو لے آئے‘ ایمان تھا‘ لیکن ایمان ڈانواں ڈول تھا۔ جب موقع آیا‘ ایمان دار بن گئے اور جب وقت آیا ایمانداری چھوڑ بیٹھے۔

لہٰذا ہیں نا‘ ایسے لوگ کہ جن کا ایمان ڈانواں ڈول ہوتا ہے۔ جب موقع آیا مومن بن گئے‘ بلکہ رسول اللہکے شیدائی بن گئے‘ رسول کے ساتھی بن گئے‘ لیکن جب دیکھا گڑبڑ ہو رہی ہے‘ اس وقت ایک طرف ہو گئے۔ یہ اپنی طرف سے نہیں قرآن کہتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایمان لائے پھر کافر ہو گئے‘ پھر ایمان لائے پھر کافر بن گئے‘ لیکن پھر کفر اتنا بڑھ گیا کہ وہ ختم نہیں ہوا۔ کچھ لوگ ایسے تھے‘ موجود ہیں‘ ایمان لائے‘ لیکن جب ضرورت پڑتی تھی ان کا ایمان جدا ہو جاتا تھا‘ ان لوگوں کو آپ بہتر جانتے ہیں‘ باقی میرا کام نہیں ہے۔

تو یہ دو قسم کے مومن ابتدائی زندگی گزاری ایمان نہیں تھا۔

دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے کہ جو ایمان تو لائے لیکن ضرورت پڑی مومن بن گئے اور جب ضرورت پڑی ایمان کو چھوڑ دیا۔

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اول سے لے کر آخر تک

ایسے مومن رہے کہ ایک لمحہ کیلئے‘ بلکہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایمان سے فارغ ہوئے ہوں۔ اول زندگی سے آخر زندگی تک ان کا کبھی ایمان نہیں گیا‘ یہ ایک لمحہ‘ ایک سیکنڈ کے لئے بھی ایمان نہیں گیا۔ اب اگر آپ سے فیصلہ لیں کہ ان تینوں میں سے کون افضل ہیں؟ کن کا ایمان بہتر ہے؟ کیا وہ لوگ جن کا ایمان ۴۰ سال بعد تھا یا وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن تھا؟ یا وہ لوگ بہتر ہیں جو اول زندگی سے آخر زندگی تک مومن ہیں‘ کبھی ایمان سے خالی نہیں ہوئے؟

لہٰذا آپ کا فیصلہ یہی ہو گا کہ تیسری قسم کے لوگ افضل ہیں‘ جو اول زندگی سے لے کر آخری زندگی تک ایک لمحہ کے لئے بھی ایمان سے خارج نہیں ہوئے۔

صلواة

اب ظاہر ہے کہ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ سمجھ سکتے ہیں کہ تیس چالیس سال بعد کوئی ایمان لا رہا ہے اور کس کا ایمان اول زندگی سے لے کر آخری زندگی تک خارج نہیں ہوا۔

بہرحال مولائے کائنات(علیہ السلام )کی ذات وہ ذات ہے کہ ابتداء سے لے کر انتہاء تک کبھی ایمان سے خرچ نہیں کیا‘ ایک سیکنڈ کے لئے بھی خروج نہیں ہوا‘ لیکن یہ زمین میں آئے کہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ مولائے کائنات(علیہ السلام )ایمان لائے‘ تو یہ ان کی تعریف نہیں کی‘ اس میں مولائے کائنات(علیہ السلام )کی عظمت نہیں‘ بلندی نہیں ہے‘ کیوں؟

اس لئے کہ ایمان لاتا ہے جس کے پاس پہلے ایمان نہ ہو۔

ہے نا اسی طرح؟ جو ایمان سے خالی ہو اسے ایمان لانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ لیکن جہاں تک مولائے کائنات(علیہ السلام )کا تعلق ہے‘ یہ تو اس وقت مومن تھے‘ ابھی ماں کے بطن میں تھے۔

تذکرہ کیا تھا کہ جب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے قریب گئیں‘ فاطمہ نے کہا کہ خدایا! تجھے واسطہ ہے میرے اس بیٹے(علیہ السلام )کا جو میرے پیٹ میں ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ ظاہر ہے علی(علیہ السلام )مومن ہیں‘ بلکہ ان کا ایمان ماں کے بطن ابراہیم(علیہ السلام )سے زیادہ تھا۔ اسمائے ابراہیم(علیہ السلام )کے نام کی سفارش قبول نہیں ہوئی‘ بلکہ علی(علیہ السلام )کے نام کی سفارش قبول ہوئی۔

صلواة

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علی(علیہ السلام )کا ایمان فقط ماں کے بطن میں تھا‘ نہیں نہیں علی(علیہ السلام )اس وقت بھی مومن تھے جب عیسیٰ(علیہ السلام )کو سولی پر لٹکانے لگے تھے‘ علی(علیہ السلام )اس وقت بھی مومن تھے جب نارِ نمرود کو گلزار بنا کر خلیل اللہ(علیہ السلام )کا وسیلہ بنے‘ علی(علیہ السلام )اس وقت بھی مومن تھے جب نوح(علیہ السلام )کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا وسیلہ بنے‘ علی(علیہ السلام )اس وقت بھی مومن تھے جب آدم(علیہ السلام )کی توبہ کا وسیلہ بنے۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آدم(علیہ السلام )سے بھی پہلے علی(علیہ السلام )کو مومن کہا جائے تو اس سے بھی کوئی بڑی عظمت نہیں۔

اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے پہلی تقریر میں ذکر کیا تھا کہ رسالتمآب نے لوگوں کو مخاطب کر کے یہ بات کہی تھی:

اگر لوگوں کو یہ علم ہو جائے کہ مولائے کائنات(علیہ السلام )کو امیرالمومنین کے لقب سے کب ملقب کیا گیا تو وہ کبھی علی(علیہ السلام )کی فضیلت کا انکار نہ کریں۔

امیرالمومنین(علیہ السلام )کے لقب سے کب پکارا گیا؟ اس کے بعد حضرت نے ارشاد فرمایا کہ

علی(علیہ السلام )کو امیرالمومنین اس وقت کہا گیا‘ جب آدم(علیہ السلام )ابھی مٹی کے اندر تھے اس وقت علی(علیہ السلام )کو امیرالمومنین کہا گیا۔

تو علی(علیہ السلام )فقط مومن ہی نہیں بلکہ آدم کی پیدائش سے پہلے امیرالمومنین(علیہ السلام )تھے‘ امیرالمومنین(علیہ السلام )کو مومن کہنا یہ علی(علیہ السلام )کی عظمت نہیں‘ کیوں؟

مومن اس کو کہتے ہیں کہ جس میں ایمان

ایک آدمی وک عادل کہیں‘ عادل کب بنے گا؟

جب اس میں عدالت ہو۔

منصف کب بنے گا؟

جب اس میں انصاف ہو۔

آدمی کو سچا کب کہا جاتا ہے؟

جب اس میں سچائی ہو۔

فاضل کب کہا جاتا ہے؟

جب اس میں فضیلت ہو۔

عالم کب کہا جائے گا؟

جب اس میں علم ہو۔

تو علم ایک حقیقت ہے‘ فضیلت ایک حقیقت ہے‘ سچائی ایک حقیقت ہے کہ جس میں پائی جائے وہ اس کا حقدار کہلاتا ہے۔

تو اس طرح ایمان بھی ایک حقیقت ہے۔

جس میں ایمان پایا جائے وہ کیا کہلائے جائے گا؟

مومن!

اب ایک آدمی کو آپ عالم کہتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ اس میں علم ہے یعنی ذاتی طور پر علم سے خالی تھا علم آ گیا تو عالم بن گیا‘ ذاتی طور پر انصاف سے خالی تھا‘ جب اس میں انصاف آ گیا تو منصف بن گیا‘ سخاوت آ گئی سخی بن گیا ذاتی طور پر سخی نہیں تھا‘ جس کو مومن کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان سے خالی تھا‘ جب اس میں ایمان آ گیا وہ مومن بن گیا۔

رسول اللہ ۱ کب گوارہ کرتے تھے کہ علی ابن ابی طالب(علیہ السلام )کے متعلق یہ کہا جائے کہ ان میں ایمان نہیں تھا‘ بعد میں ایمان آیا اور رسول اللہ نے ایک جنگ میں علی(علیہ السلام )کو مخاطب کر کے کہا:

الایمان کله الی الکفر کله

"علی(علیہ السلام )کو مومن نہ کہنا‘ بلکہ علی(علیہ السلام )کو کل ایمان کہنا۔"

علی(علیہ السلام )کی سیرت کو دیکھ کر ہم نے اس کے مطابق چلنا ہے۔ جب علی(علیہ السلام )عبادت گزار ہیں‘ تو ایک عبادت ہے ان مومنین کی جن کا ایمان‘ ایمان متزلزل‘ ایک عبادت ہوتی ہے‘ اس کی جو عین ایمان ہے‘ جو کل ایمان ہے۔

ظاہر ہے کہ ان عبادات میں فرق ہو گا‘ اسی واسطے عبادت کی تین قسمیں کی گئی ہیں‘ تاکہ درجہ بندی ہو جائے:

کچھ لوگ عبادت کرتے ہیں جہنم کے ڈر سے کہ اگر ہم نے عبادت نہ کی‘ نماز نہ پڑھی‘ اگر روزے نہ رکھے‘ حج واجب نہ کی۔ یہ آدمی جب مرے گا‘ قیامت کے دن پکڑ ہو گی۔

جہنم میں جائے زکوٰة نہیں دیتا۔

سنا ہے کہ اگر ہم نے یہ کام نہ کئے تو جہنم کی آگ بڑی سخت ہے۔ اتنی سخت ہے کہ اس آگ کو ۷۰ دفعہ دھویا گیا‘ پھر یہ اتنی سخت ہے کہ جہنم کی آگ کہلائی ہے۔ تو ڈر کے مارے ہم عبادت کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کی عبادت زیادہ تر ڈڑ کے مارے ہوتی ہے۔ اگر پہلے کہہ دیا جائے کہ بندئہ خدا تیری مرضی چاہے عبادت کر‘ تیری مرضی چاہے عبادت نہ کر‘ پھر کون عبادت کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ واجب ادا کرتے ہیں‘ یہ ٹیکس ہے‘ ڈیوٹی ہے‘ زکوٰة۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کسی کو کچھ دینا پڑے تو یہ بڑا مشکل ہو جاتا ہے‘ اتنا مشکل ہوتا ہے کہ اگر تھوڑا سا مال بھی کسی چیز پر خرچ کیا جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ مال امام(علیہ السلام )لے جاؤ تاکہ اپنا پیسہ خرچ نہ ہو۔

آپ کے کسی امام باڑہ میں نلکا لگایا‘ اس وقت اس نلکے کا خرچ دو ہزار روپے تھا‘ پرانے زمانے کی بات ہے‘ ہماری قوم کے لئے دو ہزار روپیہ ان کے لئے خرچ کرنا مشکل ہو رہا تھا‘ اب تک لاکھوں روپے خرچ کرتے تھے‘ تو وہ اجازت لینے گئے کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ دو ہزار روپے سے نلکا لگایا جائے تو انہوں نے کہا کہ بندئہ خدا! سوچو کہ اتنی بڑی قوم ہو‘ کیا دو ہزار روپے اپنے پاس سے خرچ نہیں کر سکتے؟

ایک ڈیوٹی ہے‘ ادا کرتا ہے‘ نماز نہ پڑھی ڈنڈے پڑیں گے‘ نماز نہ پڑھی تو جہنم کی آگ بڑی سخت ہو گی۔

انسان مجبوری کے ساتھ نماز پڑھتا ہے‘ ایسی نماز کو کہا جتا ہے‘ ڈرپوں کی عبادت۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان نے یہ سن رکھا ہے کہ اگر عبادت کی تو جنت ملے گی‘ اس میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی‘ بہترین میوے ہوں گے‘ ہر قسم کی نعمتیں موجود ہوں گی۔

تو ظاہر ہے کہ ان چیزوں کو سن کر انسان لالچ میں خدا کی عبادت کرتا ہے۔

تیسری قسم ان لوگوں خی ہے جو خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ اس لئے کہ خدا عبادت کے لائق ہے‘ خدا مستحق عبادت ہے۔

اس عبادت کی تین قسمیں ہیں‘ تو جب ہماری عبادت کی تین قسمیں ہیں تو جزا بھی اسی طرح ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی عبادت کرتا ہے‘ جہنم کے ڈر سے تو اس کی جزا یہی ہے کہ جہنم سے بچ جائے‘ جنت کا حقدار تو نہیں ناں! خدا کی مرضی اسے جنت میں بھیج دے‘ خدا کی مرضی جہنم سے اسے بچا لے۔ ایک اور جگہ ہے جو جنت سے ذرا نرم ہے وہاں بھیج دے‘ ہو سکتاہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جہنم کے ڈر سے‘ خوف سے انسان عبادت کرتا ہے‘ تو یہ کمزور ترین لوگوں کی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کی موت کا وقت ظاہر ہوتا ہے تو انسان کو پیاس بہت زیادہ لگتی ہے۔

حکم دیا گیا ہے کہ اس کو پانی دو چاہے ڈاکٹرز روکتے بھی رہیں‘ اس لئے کہ پیاسا نہ مر جائے‘ پانی پلا دو‘ پانی دینا چاہئے‘ پانی کی جس قدر ضرورت ہوتی ہے‘ اتنی ہی آدمی کو پیاس لگتی ہے۔ جب کوئی پانی دینے والا اسے پانی نہیں دیتا‘ پھر ابلیس ایک بہت بڑے آدمی کی شکل میں آتا ہے‘ اس کے ہاتھ میں پیالہ ہوتا ہے‘ کہتا ہے مجھ سے سے پانی طلب کر‘ میں پانی دوں گا۔ اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ کہتا ہے کہ آپ مہربانی فرما دیں‘ پانی دے دیں۔

ابلیس کہتا ہے:

میں پانی دینے کو تیار ہوں مگر شرط یہ ہے کہ آدھی عبادت مجھے دے دے۔ وہ کہتا ہے‘ میں آدھی عبادت دے دوں پانی کیلئے۔ لیکن جب یہی پیاسا پیاس سے مجبور ہو جاتا ہے تو کہتا ہے‘ اچھا آدمی عبادت لے لو‘ پانی دو۔ لیکن اتنی دیر کرنے پر شیطان کہتا ہے‘ وہ موقع تم نے ضائع کر دیا‘ اب تو اسی پانی کے بدلے میں پوری عبادت لوں گا‘ جب اس پر راضی ہو جاتا ہے اور عبادت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘ مگر پیاس پھر بھی نہیں بجھتی اور پانی کا مطالبہ کرتا ہے تو شیطان اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے سامنے تھوڑا سا سر جھکا دو‘ بس یہی سجدہ سمجھ لوں گا۔

ہوتا کیا ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی کی عبادت دے بیٹھتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس کے اعمال میں چاشنی نہ تھی اور روحانیت نہ تھی‘ جو انسان کو پختہ کر دیتی ہے۔

لہٰذا ایسا انسان اگر جہنم سے بچ جائے اور جنت کے لالچ میں عبادت کرتا ہے تو اسے جنت مل جائے گی‘ لیکن وہ لوگ جو خدا کی عبادت کو عبادت سمجھ کر سکتے ہیں‘ خدا کو لائق عبادت کہتے ہیں‘ خدا کو مستحق عبادت سمجھ کر عبادت کرتے ہیں‘ جہنم کا خوف ان کے لئے کچھ نہیں‘ جنت کا لالچ ان کے لئے کچھ نہیں‘ دوزخ و جنت کو تو خود تقسیم کرنے والے ہیں۔

اب قابل فکر بات یہ ہے کہ آیا ایسے عابدوں کے لئے بھی کوئی جزا ہے یا نہیں۔

ان کی بھی تو کوئی جزا ہونی چاہئے نا!

چنانچہ حلال مشاکل(علیہ السلام )اپنی عبادت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

الهی ما عبدتک خوفا من نارک ولا طمعاً فی جنتک و لکن جدتک اهلا للعبادة

"اے اللہ! میں(علیہ السلام )نے تیرے جہنم کے خوف سے تیری عبادت نہیں کی‘ میں(علیہ السلام )نے تیری جنت کے لالچ میں تیری عبادت نہیں کی‘ نہ مجھے(علیہ السلام )جہنم کا خوف ہے‘ نہ مجھے(علیہ السلام )جنت کا لالچ ہے۔"

اور

قیم النار و الجنه

"پھر عبادت کیوں کر رہے ہیں۔"

آپ(علیہ السلام )نے فرمایا ہے کہ

"اس لئے تیری ذات لائق عبادت ہے‘ اگر تیری ذات لائق عبادت نہ ہوتی تو علی(علیہ السلام )کا سر کبھی بھی تیرے سامنے نہ جھکتا۔"

اب جنت کے اصول کے لئے عبادت کرنے والوں کو جنت ملے گی‘ دوزخ سے ڈر کر عبادت کرنے والوں کو دوزخ سے نجات ملے گی اور جو ہستی اس ذات کو لائق عبادت سمجھ کر عبادت کر رہی ہے‘ اس کے لئے بھی کوئی جزا ہے یا نہیں؟

قرآن مجید کا ارشاد ہے:

و رضوان من الله اکبر زلک هوالفوزالعظیم

عربی زبان میں تنوین قلت کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ رضوان من اللہ کا معنی ہو گا‘ اللہ کی تھوڑی سی رضا جنت سے بڑھ کر ہے اور جن کو اللہ کی تھوڑی سی رضا مل گئی‘ اس جنت سے بڑھ کر دیا گیا ہے۔

رضائے خدا پانے والوں کو یہ بڑی کامیابی ہے‘ شاید اسی لئے ۱۹ رمضان المبارک زخمی ہوتے ہوئے میرے مولا(علیہ السلام )نے فرمایا تھا:

فزت برب الکعبه

"رب کعبہ کی قسم! میں(علیہ السلام )کامیاب ہو گیا۔"

اب جس کو رضائے خداوندی دیا جائے‘ وہ کیا ہوتا ہے؟ کامیاب! اور علی(علیہ السلام )کیا کہتے ہیں کہ میری(علیہ السلام )زندگی کامیابی سے گزری ہے‘ ناکامی کبھی میرا مقدر نہیں بنی۔ اب رضوان کے معنی ہیں‘ کچھ رضا‘ تھوڑی سی رضا‘ علی(علیہ السلام )کو بھی تھوڑی سی رضائے خدا ملی۔

حالانکہ ہے تھوڑی سی رضا بھی جنت سے بڑھ کر‘ ان کا درجہ بھی جنت سے زیادہ ہے‘ تو اب

ارشاد قدرت ہو رہا ہے کہ ان کے لئے جس ہستی نے لائق عبادت سمجھ کر عبادت کی:

چمن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ و رووف بالعباد

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں‘ جو خدا کو اپنی جان دیتے ہیں‘ کہتے ہیں میری جان کا مالک تو خدا ہے‘ جس طرح تیرا حکم ہو گا‘ اسی طرح میرا سر حاضر ہے۔ ان کو ملتا کیا ہے؟

جو لوگ اپنی جان کا نذرانہ دربار خداوندی میں پیش کر دیتے ہیں‘ انہیں اپنی رضا میں دے رہا ہوں‘ اگر کوئی خدا کو راضی کرنا چاہتا ہے تو دروازئہ علی(علیہ السلام )پر سر جھکائے‘ اگر علی(علیہ السلام )راضی ہو گئے تو خدا راضی ہو گیا‘جس سے علی(علیہ السلام )ناراض ہوں وہ کبھی خدا کو راضی نہیں کر سکتا۔

ہاں تو! تو عرض کیا جا رہا تھا کہ علی(علیہ السلام )ایسے عبادت گزار کہ ہر رات کو علی(علیہ السلام )ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے۔

چنانچہ شب ضربت میرے مولا(علیہ السلام )نے ایک کلمہ اور اسی جملے میں علی(علیہ السلام )کی پوری زندگی نظر آئے گی۔

مولا امیر(علیہ السلام )نے آسمان کے ستاروں کو مخاطب کر کے کہا:

"اے آسمان کے ستارو! گواہ رہنا‘ میں(علیہ السلام )نے تمہیں طلوع ہوتے دیکھا ہے‘ تم نے علی(علیہ السلام )کو کبھی سوتے ہوئے نہیں دیکھا۔"

کتنی بڑی عظمت ہے‘ میرے مولا(علیہ السلام )ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے‘ سوتے نہ تھے خدا کی عبادت کیا کرتے تھے‘ فقط ایک رات ایسی ہے جس میں علی(علیہ السلام )بستر رسول پر سوئے۔

اب ظاہر ہے کہ جو کبھی نہیں سویا‘ اگر اسے کہہ دیا جائے کہ تم سو جاؤ تو اس کو کبھی نیند نہیں آئے گی۔

مثلاً کوئی آدمی روز رات گیارہ بجے سونے کا عادی ہے اور اسے کہہ دیا جائے کہ شام سات بجے ہی سو جاؤ‘ صبح جلدی اٹھ کر کام کرنا ہے تو اس آدمی کو کبھی نیند نہیں آئے گی۔ جیسے عادت بن جائے‘ ویسے ہی نیند آتی ہے‘ آدمی اپنی عادت کے مطابق اٹھتا ہے‘ اب

وہ علی(علیہ السلام )جو کبھی نہ سوتے تھے‘ انہیں آج نیند نہیں آنا چاہئے تھی‘ مگر جب علی(علیہ السلام )سے پوچھا جاتا ہے کہ شب ہجرت بستر رسول پر کیونکر سوئے؟ تو فرماتے ہیں کہ

ایک ہی رات تو مجھے سونے کے لئے ملی تھی‘ اس رات کو میں ایسا سویا کہ کروٹ تک نہیں بدلی۔

دیکھیں! وہ علی(علیہ السلام )جو ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے‘ خدا کے دربار میں جھکتے تھے‘ عبادت کرتے تھے‘ آج اس علی(علیہ السلام )سے کہہ دیا گیا کہ اے علی(علیہ السلام )! آج تم نے نماز نہیں پڑھی۔ آج آپ(علیہ السلام )کی عبادت سے بہتر بستر رسول پر سونا ہے‘ تو علی(علیہ السلام )نے ویسے ہی عبادت کی جیسا خدا نے چاہا اور چین کی نیند سو کر ساری رات کروٹ نہ بدل کر لوگوں کو بتایا:

لوگو! اگر عبادت کرو تو ایسی عبادت کرو جیسے خدا کی مرضی ہے‘ ہم اس کے حکم کے پابند ہیں‘ وہ کہے کھڑے ہو جاؤ تو ہم کھڑے ہو جاتے ہیں‘ وہ کہے بھوکے رہو اور ہم بھوکے رہتے ہیں‘ وہ کہے سو جاؤ تو ہم سو جاتے ہیں اور ایسا سوتے ہیں کہ کروٹ تک نہیں بدلتے۔

صرف ایک مسئلہ!

دیکھئے! قاعدہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کیا جاتا ہے‘ کسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے اور اگر کام کرانے والا خدا ہو اور کام کرنے والے رسول ہوں تو بغیر مصلحت و مقصد کے قطعاً کام نہ ہو گا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول ۱ عظیم گھر سے نکلے تو تھوڑی سی مٹی اٹھائی‘ اس طرح اٹھا کر بکھیری کہ حضور ۱ کو گھر سے نکلتے وقت کفار تک نہ دیکھ سکے۔ تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر رسول ۱‘ علی(علیہ السلام )کو ساتھ لے کر جائیں‘ جیسے اکیلے رسول ۱ کو کافر نہ دیکھ سکتے تھے‘ ایسے ہی علی(علیہ السلام )کو بھی کافر نہ دیکھ سکتے تھے۔ اگر ایسے موقع پر جب رسول ۱ ہجرت کر رہے تھے‘ اپنے ساتھ علی(علیہ السلام )کو بھی لے جاتے‘ تو کتنا فائدہ ہوتا‘ علی(علیہ السلام )نہ تنہا سوتے‘ نہ کافروں کی تلواروں کے سایہ میں اکیلے رہنا پڑتا۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ جواب دے کہ اگر علی(علیہ السلام )بھی رسول کے ساتھ چلے جاتے تو شہزادیوں اور پردہ داروں کو لے کر کون جاتا؟ تو جواباً کہا جا سکتا ہے کہ کئی اور بھی اس خاندان کے افراد تھے جن کے ذمہ یہ بات لگائی جا سکتی تھی کہ جب تم آؤ‘ حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت فاطمة الزہرا(علیہ السلام )کو ساتھ لیتے آنا۔

اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ہر کوئی کام ایسا کام نہ تھا‘ جس کی وجہ سے صرف علی(علیہ السلام )کو بستر رسول پر سلایا گیا۔

وہ کون سی وجہ تھی جس کی بناء پر علی(علیہ السلام )کا بستر رسول پر سونا ضروری تھا؟ وہ کون سا مقصد تھا کہ اگر بستر رسول پر نہ سوتے تو وہ مقصد فوت ہو جاتا؟ حکم شریعت پورا نہ ہو سکتا؟

روایات بتلاتی ہیں کہ اصل مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنی اپنی امانتیں حضرت رسالتمآب کے پاس رکھتے تھے‘ اگر آج رسالتمآب چلے جاتے اور امانتیں ساتھ لے جاتے۔ اگر کوئی یہاں یہ بھی کہہ دے کہ امانتیں بعد میں بھی ادا ہو سکتی تھیں‘ ان کافروں کو بتایا جا سکتا تھا کہ امانتوں کا فکر نہ کرنا عنقریب تمہارا مال تمہیں مل جائے گا‘ مگر اس طرح کافروں کو یہ سوچنے اور کہنے کا موقع تو مل سکتا تھا کہ عجیب ہیں جو دعویٰ رسالت بھی کرتے ہیں اور امانتیں بھی لے گئے‘ ہمارا سونا کھا گئے‘ ہمارا مال و دولت ہضم کر گئے۔

انہیں کون نبی مانے گا؟

اگر رسول ۱ علی(علیہ السلام )کو ساتھ لے جاتے تو نبی ۱ کی جان بھی محفوظ‘ علی(علیہ السلام )کی جان بھی محفوظ‘ کوئی خطرہ نہ تھا۔ ادھر لوگ ساری رات خانہ رسول کے گرد جھانکتے رہے‘ کھڑے رہے اور علی(علیہ السلام )ساری رات خطرے میں رہے‘ اگر علی(علیہ السلام )ساتھ جاتے تو خطرے سے بچ تو سکتے تھے‘ علی(علیہ السلام )نے سو کر بتا دیا کہ اگر میں چلا جاؤں تو نبوت محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یوں کیوں نہ کہوں کہ علی(علیہ السلام )نے بستر رسول پر سو کر نبوت کو محفوظ کر دیا۔

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ رسول اپنی امانتیں کسی اور کے سپرد کر جاتے‘ اب بھی یہ کام ہو سکتا تھا‘ مگر اس پر بھی اشکال ہو سکتا تھا کہ خود تو چلے گئے‘ جس کے سپرد کر گئے‘ اس کا امانتوں سے کیا واسطہ؟ کیا تعلق؟

علی(علیہ السلام )کا ان امانتوں کا امین بن کر رہ جانا اور نبی ۱ کا چلے جانا اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ اگرچہ وہ لوگ کافر تھے‘ مشرک تھے‘ منکرین دین تھے‘ مگر پھر بھی کہتے تھے کہ علی(علیہ السلام )و نبی ۱ ایک ہیں‘ علی(علیہ السلام )و نبی میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر غیر کے سپرد امانتیں ہو جاتیں تو کافر زیادہ کا مطالبہ کرتے تو وہ کیا کرتا؟ اس کے پاس کوئی ثبوت تو تھا نہیں‘ یا جان چھڑاتا کہ یہ ہے امانتوں کا مال‘ اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ کافر پھر کہہ سکتے تھے کہ ہمارا مال تو تمہارا رسول لے کر چلا گیا۔

اب ضرورت تھی ایسی ہستی کی جو امانتوں کو اسی طرح واپس کرے‘ جس طرح امانتیں سپرد کی گئی تھیں‘ تو کافر ان دونوں بھائیوں میں کوئی فرق نہ سمجھتے تھے۔ اس لئے کوئی روایت نہیں ملتی‘ کوئی روایت نہیں بتلاتی کہ انہوں نے علی(علیہ السلام )سے پوچھا ہو کہ رسول تمہیں امانتیں دے گئے ہیں یا نہیں؟

بلکہ کہتے ہیں کہ اے علی(علیہ السلام )! ہماری امانتیں واپس کر دو۔ ان کا اپنی امانتوں کا مطالبہ علی(علیہ السلام )سے کرنا واضح کرتا ہے کہ ان کی نگاہوں میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

محمد کی امانتیں علی(علیہ السلام )کی امانتیں ہیں‘ رسول ۱ کا دینا علی کا دینا ہے۔

اس لئے رسول اللہ نے بھی اس کو امانت دار بنایا‘ جو امانتوں کو کماحقہ ادا کر سکتا تھا۔ جب امانتوں کے حصول کے لئے اخلاقی پستی کا اظہار کرتے ہوئے کافروں نے کہا:

ہمارا اتنا تو مال نہ تھا‘ زیادہ تھا۔

مثلاً جس نے پچاس رکھے تھے اس نے سو کا مطالبہ کیا‘ جس کا ایک تولہ سونا تھا وہ کہتا ہے کہ میرا تو دس تولے سونا دینا تھا‘ اب امانتیں کم تھیں‘ مطالبہ زیادہ کا تھا۔

اب دیکھئے!

یہاں پر معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہے‘ یا تو کہہ دیں کہ میرے پاس تو یہی مال ہے اور زیادہ کا مجھے علم نہیں ہے‘ اگر یہ کہہ دیں تو پھر لوگ کہیں گے کہ ہم نے تو امانتیں رسول ۱ کو دی تھیں(معاذاللہ) وہ ہماری امانتیں کھا گئے۔

یا پھر علی(علیہ السلام )اعجاز دکھا کر جتنا جتنا وہ مانگ رہے تھے‘ اتنا اتنا دیتے جاتے‘ اس طرح تقسیم کر دیتے۔ ایک کی جگہ پر دس دیتے تو اس صورت میں بھی لوگ کہتے کہ یہ کیسا خاندان ہے؟ بھولا ہے‘ اس طرح بھی اشکال ہوتا‘ دانائی پر حرف آتا‘ حکمت اہل بیت(علیہ السلام )پر حرف آتا۔

اب میرے مولا(علیہ السلام )نے وہ راستہ اختیار کیا کہ کوئی اعتراض بھی نہ کر سکے اور اشکال بھی وارد نہ ہو‘ کسی کا حق بھی نہ مارا جائے‘ جس جس کا جتنا مال تھا اس کے مطابق دے دیا جائے۔

آپ(علیہ السلام )نے فرمایا:

لوگوں کے دعوے زیادہ ہیں اور امانتیں کم‘ امانتوں کی مقدار کم ہے۔

تو حضرت(علیہ السلام )نے ارشاد فرمایا:

اب ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ مہر امانت سے پوچھوں کہ تو کس کی ہے؟ اور کتنی مقدار میں اس کی ہے؟

بس مولا(علیہ السلام )بے جان غیر متحرک اشیاء سے پوچھ پوچھ کر اس کے مالک کے حوالے کرتے گئے۔

مجلس ششم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

حضراتِ محترم!

اگر انسان کے پاس مال و دولت ہو تو لوگ یقیناً ساتھ رہے ہیں اور اگر کچھ بھی پاس نہ ہو اور کسی کو کہا جائے کہ میرا ساتھ دو تمہیں بہت کچھ دوں گا‘ لوگ سوچیں گے کہ اس کے پاس خود کچھ نہیں یہ مجھے کیا دے گا؟

دیکھئے! رسالتمآب ۱ کو حکم ہو رہا ہے:

و انذر عستیر تک الاقربین

اپنے خاندان والوں کو بلائیں‘ انہیں بلا کر سمجھائیں کہ مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے‘ کیونکہ سب سے پہلے گھر والوں کو خاندان والوں کو سمجھایا جاتا ہے‘ گھر والے اگر کسی کو نہیں مانتے تو باہر والے کیا مانیں گے۔

بہرحال خاندان والوں کو بلایا گیا‘ بہت بڑی بہترین دعوت کھلائی گئی‘ لوگ آئے‘ ایک بکرا ذبح کیا گیا‘ لوگوں کی تعداد زیادہ تھی‘ عرب ماشاء اللہ کھاتے بھی زیادہ تھے‘ ان کی خوراک کافی زیادہ ہوتی ہے‘ وہ کھانے کے ماہر ہیں‘ بہرحال ان لوگوں کو دعوت دی گئی اور بکرا ایک۔ کھانے والے ایسے کہ ایک ایک بکرا کھا جاتے تھے‘ لیکن صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک بکرے کی رانیں نکل رہی ہیں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘ پتہ ہی نہیں چل رہا‘ کتنی رانیں نکل گئی ہیں اور کتنی رانیں لوگ کھا رہے ہیں‘ تو جب لوگ کھا پی چکے تو کسی نے شرارت کر دی۔ ابوجہل جیسے لوگ موجود تھے‘ کہنے لگے کہ آج ابو طالب (علیہ السلام) کے بھتیجے نے بڑا جادو کر دیا۔ کس قسم کا جادو؟ کہ بکرا تو ایک تھا اور رانیں اتنی کہ پتہ ہی نہ چلا کتنے لوگ کھا گئے۔

تو ظاہر ہے نبی کے ہاتھ پر اتنا کمال بھی ظاہر نہ ہوتا تو باقی کمال کہاں سے نظر آتے؟ خیر۔

رسول اللہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے آج کچھ نہ کہہ سکے۔ اب پھر دوسرے دن علی (علیہ السلام) سے کہا گیا‘ بکرا تلاش کرو‘ ان لوگوں کی پھر دعوت کرو‘ اب دوسرے دن پھر دعوت کی گئی۔ جب دوسرے دن یہ لوگ کھانا کھا چکے تو اسی وقت رسول اللہ نے ایک کلمہ کہا:

کون ہے جو میرا رفیق عمل بنے گا؟ کون ہے جو اس مشن میں میری مدد کرے گا‘ جو اس رسالت میں میرے ساتھ رہے گا‘ جو میرا ساتھ دے گا؟ وہی میرا خلیفہ ہو گا‘ وہی میرا وصی ہو گا‘ وہ میرا جانشین ہوگا‘ وہی میرا وزیر ہو گا۔ اب یہ کس نے کہا؟

رسالتمآب نے کہا۔ کس وقت کہا جا رہا ہے؟ پتہ نہیں کامیابی ہو گی یا نہیں ہوگی۔ حضرت فرما رہے ہیں‘ کون میرا رفیق بنتا ہے؟

کون میرا ساتھ دیتا ہے؟ کون میرے مشن میں میرا ساتھ دیتا ہے؟

کون ہے جو میرے ساتھ مل کر کام کرتا ہے؟

کون ہے جو تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہے؟

مجمع میں سناٹا ہے‘ مجمع میں خاموشی ہے‘ اس لئے کہ کامیابی کا پتہ نہیں کہ کامیابی ہو گی کہ نہیں‘ محمد کامیاب ہوں گے کہ نہیں۔

اور پھر اس وقت محمد کے اردگرد دولت کے ڈؤیر بھی نہیں لگے ہوئے‘ مال و دولت بھی پاس نہیں ہے۔

لہٰذا سب کے سب خاموش ہیں‘ منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں‘ کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں ہو رہا۔

لیکن ایک چھوٹا بچہ جس کا سن زیادہ سے زیادہ دس سال ہے‘ وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:

انا ناصرک یا نبی اللہ

اے اللہ کے نبی! میں مدد کروں گا۔

دیکھو! علی (علیہ السلام) نے اس وقت اعلان کیا‘ جب رسالتمآب کے پاس ظاہری طور پر کچھ بھی نہ تھا‘ مال و دولت نہیں تھی‘ نبوت تھی لیکن لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ آیا کامیابی ہو گی یا نہیں ہو گی؟

مال غنیمت بھی نہیں ہے‘ دولت بھی نہیں ہے‘ کوئی ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے‘ لیکن ان حالات میں بھی علی (علیہ السلام) کہہ رہے ہیں:

انا ناصرک یا نبی اللہ

اے اللہ کے نبی! میں تیری مدد کروں گا۔

تو ماننا پڑے گا کہ علی (علیہ السلام) نے رسول ۱ کا ساتھاس وقت دیا تھا‘ اس وقت اعلان نصرت کیا تھا‘ جب رسول اللہ کے پاس ظاہراً کچھ بھی نہ تھا‘ کچھ پتہ نہیں تھا‘ کامیابی ہو گی یا نہیں۔

اب رسول اللہ چاہتے تھے‘ علی (علیہ السلام) نے مدد کا اعلان کر دیا‘ اب میں انہیں(علیہ السلام) جانشین بناؤں۔

میں انہیں(علیہ السلام) خلیفہ بناؤں‘ میں انہیں(علیہ السلام) اپنا وزیر بناؤں۔

لہٰذا‘ کیا ہوا؟

اس واقعے کو کہتے ہیں یوم الخمیس‘ یعنی خمیس کا دن‘ یعنی جس دن رسالتمآب چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے قلم دوات لے کر کچھ لکھ دوں‘ لیکن کیا کہا گیا کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔

حسبنا کتاب الله

ہمیں الل کی کتاب کافی ہے۔

اس دن کا ذکر کرتے ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں کہ

ما یوم الخمیس

یوم الخمیس کس وقت مصیب کا دن ہے کہ رسول اللہ فیصلہ کرنے والے تھے‘ اپنا فیصلہ لکھنے والے تھے کہ کون ہے جس نے ہر جگہ پر میری مدد کی؟ کون ہے جو ہر جگہ میرا ۱ معین بنا؟ کوئی ہے جو میرا مددگار رہا ہے؟ پہلے ہی دن جس نے میری ساتھ وعدہ کیا تھا اور میں نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میری مدد کرے گا؟ وہی میرا جانشین ہو گا۔

اب رسول اللہ چاہتے ہیں کہ قلم و دوات لیں اور لکھ کر دیں کہ میرا جانشین کون ہے‘ میرا وزیر کون ہے۔

بس سمجھنے والے سمجھ گئے۔

اسی لئے انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے‘ اس بے چارے کا تو دماغ خراب ہے۔ نعوذ باللہ!

اگر لکھ لیا جاتا تو پھر کوئی اختلاف نہ ہوتا‘ جھگڑا نہ ہوتا‘ لیکن پھر بھی رسول اللہ نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔

جیسے پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ ایک بہت بڑے میدان میں سب کو جمع کر کے‘ جو وہ ابتدائی دنوں میں کہا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور لوگوں کو بتا دیا کہ

لوگو! یاد رکھو‘ جو مجھی مولا سمجھتا ہے‘ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ

من کنت مولا فهذا علی مولا

جس جس کا میں مولا ہوں‘ اس اس کا علی (علیہ السلام) مولا ہے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) میں چار فضیلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ کسی کو بھی یہ فضیلتیں حاصل نہیں ہیں۔

چار فضیلتیں حاصل ہیں جو کسی کو میسر نہیں ہو سکیں:

سب سے پہلے فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس کو مسلمانوں نے فتح خیا‘ مگر یہ کہ اس جنگ کا علمدار علی (علیہ السلام) نہ ہو‘ اس جنگ کا فاتح علی (علیہ السلام) ‘ سپہ سالار علی (علیہ السلام) ‘ اس جنگ کا بیرو علی (علیہ السلام) بلکہ اس جنگ کا سب کچھ علی (علیہ السلام) نہ ہو۔

دوسری فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس جنگ میں رسول اللہ کے ماننے والوں نے پشت نہ پھیری ہو‘ رسول اللہ کے ماننے والے انہیں چھوڑ نہ گئے ہوں۔

لیکن ابن عباس کہتے ہیں کہ

فقط‘ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شخصیت ایسی ذات ہے کہ جس نے رسول اللہ ۱ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

ایک جنگ میں جب رسول اللہ نے فرمایا:

اے علی (علیہ السلام) ! جب سب چلے گئے تو آپ ۱ کیوں نہیں گئے؟

تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں کہا:

اکفر و بعد الایمان

کیا میں ایمان کے بعد کافر ہو جاؤں؟

تیسری فضیلت‘ علی (علیہ السلام) کی کہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے‘ مشغول رہے‘ اگر کسی نے رسول اعظم ۱ کو غسل دیا ہے تو وہ فقط اور فقط علی (علیہ السلام) کی ذات ہے‘ ورنہ مسلمانوں میں کوئی بھی رسول اعظم کے غسل میں شریک نہ تھا۔

چوتھی فضیلت کہ مسلمان تو اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ اگر کسی نے رسول اللہ ۱ کو دفن کیا ہے تو وہ دفن کرنے والے صرف اور صرف علی (علیہ السلام) تھے۔

سامعین محترم!

اب آپ غور فرمائیں کہ علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ (ص)کا ساتھ کس طرح دیا؟

ہر جنگ میں رسول اللہ کے ساتھی‘ مصیبت میں رسول اللہ کے ساتھی۔ رسول اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ لیکن علی (علیہ السلام) غسل دے رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) دفن کر رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) جنازہ پڑھ رہے ہیں‘ تمام کام کر رہے ہیں‘ تو علی (علیہ السلام) نے تمام کام کر کے گویا جو وعدہ پہلے دن کیا تھا‘ "میں ہر حال میں‘ ہر کام میں رسول اللہ ۱ کی مدد کروں گا"، اس کو پورا کر دکھایا۔

صلواة

چھوٹا سا واقعہ!

افریقہ میں ہمارے کافی سارے مبلغین گئے ہوئے ہیں‘ جو تبلیغ کر رہے ہیں۔ ادھر عیسائی پیسے کے لالچ سے ہمارے افریقیوں کو عیسائی بنا رہے ہیں‘ عیسائیت کا کام بھی بہت ہو رہا ہے‘ لیکن ہمارے آدمی بھی ادھر موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد اتنی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے‘ لیکن اپنی جگہ وہ کام کر رہے ہیں۔

وہاں پر ایک بہت بڑا پادری تھا‘ ہمارے ایک عالم نے اس پادری کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کیا‘ تعلقات بنائے۔

عالم دین کے پاس وہ پادری صاحب بیٹھے رہتے اور عالم پادری کے ہاں جاتے رہتے۔

اسی طرح وہ پادری جب کبھی عالم کے ہاں تشریف لاتے تو کئی کئی دن انہی کے ہاں قیام فرماتے‘ بلکہ ایک دفعہ تو وہ پادری عالم دین کے ہاں برابر چھ ماہ رہے اور دوران قیام اس پادری کا اس عالم دین کے ساتھ مباحثہ ہوتا رہا‘ شعوری و لاشعور طر پور ہر طرح سے پادری کو اسلام سمجھایا جاتا رہا۔

نتیجتاً پادری مسلمان ہو گیا۔

جب اس نے اسلام قبول کر لیا تو اپنی سابقہ برادری‘ عیسائی برادری کے پاس آیا‘ جو پادری اس کے ماتحت تھے‘ جو اس کے شاگرد تھے ان سب کو اس نے بلایا‘ ان سب کو جمع کیا اور کہا دیکھو کہ

کیا تم کو مجھ پر اعتماد ہے؟ یا نہیں؟

سب کہنے لگے‘ یقینا! ہمیں آپ پر اعتماد ہے‘ آپ ہمارے استاد ہیں‘ آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے‘ ہم آپ کے شاگرد ہیں‘ اگر آج ہم عالم بن چکے ہیں تو آپ ہی کے صدق میں ہمیں علم نصیب ہوا ہے۔ پھر اس نو مسلم عالم نے کہا کہ اگر میں خہوں کہ فلاں چیز حق ہے تو کیا تسلیم کر لو گے؟

سب نے کہا کہ ہم تسلیم کر لیں گے۔

تو اس نے کہا:

میں مسلمانوں کے ساتھ رہا ہوں چھ مہینے متواتر‘ میں نے ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا ہے‘ میں نے اس بحث و تمحیص اور تحقیق کے بعد یہی سمجھا ہے کہ اگر کوئی دین‘ دین برحق ہے تو وہ دین اسلام ہے‘ اسی لئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے اور اب آپ لوگوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ بھی اسلام قبول کر لیں۔

دیکھئے!

ستر آدمی کوئی بچے تو نہیں ہوتے۔ ایک آدمی کھڑا ہو گیا‘ وہ عرض کرتا ہے کہ آپ نے اچھا کیا کہ اسلام کو سمجھ لیا ہے‘ ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں‘ لیکن یہ تو فرمائیں کہ

مسلمانوں میں ۷۲ فرقے ہیں‘ ہمیں کیا پتہ کہ اس میں کون سا فرقہ حق پر ہے اور کون سا نہیں؟

تو گویا اس نے طعنہ دیا کہ کون سا فرقہ حق ہے اور کون سا باطل؟

لیکن کیا کہنے پادری کے! اس کے ذہن میں بڑی عجیب بات آئی‘ اگرچہ ہے معمولی چیز لیکن جب آپ سنیں گے تو معلوم ہو گا کہ اس چیز نے سب کو مسلمان کر دیا۔

تو جواباً اس نو مسلم عالم نے کہا:

اے شاگردو! اے اپنے مذہب کے عالمو!

اگرچہ وہ تہتر فرقے ہیں‘ لیکن حقیقتاً وہ دو فرقے ہیں‘ بہتر ( ۷۲) ایک طرف اور ایک فرقہ ایک طرف‘ کیونکہ ۷۲ فرقوں میں بنیادی کوئی فرق نہیں ہے‘ تو فرقے کتنے ہو گئے؟ صرف دو۔ ایک ہی عقیدہ رکھنے والے ۷۲ فرقے اور ان سے جدا نظریہ رکھنے والا ایک فرقہ۔

پھر مثال دیتے ہوئے کہنے لگا:

آپ سب میرے شاگرد ہیں‘ فلاں جگہ میرا بہت بڑا باغ ہے‘ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ میں بیمار ہو جاؤں اور میری بیماری اس حد تک بڑھ جائے کہ یقین ہو جائے کہ اب میں مر جاؤں گا‘ یہ اب گیا کہ اب اور آپ میں سے دو گروہ ہو جائیں‘ ایک کہے کہ ہمیں چاہئے کہ باغ کے درخت شمار کر لیں‘ کیونکہ استاد جی مرنے والے ہیں‘ ان کے انتقال کے بعد کوئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے‘ ہم ابھی سے باغ کے درخت شمار کر لیں‘ تو کچھ لوگ چلے جائیں جا کر درخت شمار کرنے شروع کر دیں اور کچھ لوگ مجھے بیمار سمجھ کر‘ میرے پاس بیٹھ رہیں اور کہیں کہ یہ ہمارا استاد تھا‘ ہمارا بزرگ تھا‘ باغ کی حیثیت کیا ہے‘ بے شک لے جاتے ہیں تو لے جائیں‘ ہم تو اس کے کفن دفن کا انتظام کریں گے‘ ہم تو اسے غسل دیں گے‘ کفن دیں گے‘ دفن کریں گے۔

اب ان دونوں گروہوں کے بارے میں آپ سب فیصلہ دیں۔

تو ان شاگردوں نے کہا:

جناب باغ والے بدنیت ہیں‘ وہ اچھے نہیں ہیں‘ اچھے وہی ہیں جو آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔

تو استاد نے کہا کہ

اس سے سمجھ لو کہ ایک فرقے کا سربراہ علی (علیہ السلام) رسول کے پاس بیٹھا رہا تاکہ انہیں سنبھالے‘ ان کی خدمت کرے‘ غسل دے‘ کفن پہنائے‘ دفن کرے اور دوسرا فرقہ

انہوں نے کہا کہ رسول کا باغ ہے‘ رسول ۱ کا وارث بنا لو‘ گلشن جا کر بانٹ لیں گے۔

تو اس نے فیصلہ کر دیا‘ تو نتیجہ یہ ہوا کہ ستر پادری مسلمان ہو گئے اور آج وہں مل کر تبلیغ کر رہے ہیں۔

فیصلہ ہو گیا‘ ایک آیت ہی لے کر بیٹھ جاتا‘ استعجاب ہوتا رہتا کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث:

علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی عظمت بیان کرنے کے لئے جناب رسالتمآب ۱ کا ایک مشہور کلمہ‘ اس میں چند نکات بیان کرتے ہیں:

رسالتمآب جنگ میں موجود ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کافی دن گزر گئے‘ لیکن جنگ فتح نہیں ہو رہی ہے۔

رسالتمآب نے اس وقت ایک کلمہ کہا:

لا عطین الرایه غدارجلا کرارا غیر فرار یحب الله و رسوله ویحبه الله و رسوله ولم یرجع حتی یفتح الله علی یدیه

کیا ارشاد فرمایا رسول نے؟

اے مسلمانو!

آپ روزانہ جا رہے ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا‘ جو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے۔ ظاہر ہے!

میں تو نہیں کہتا کہ کس انداز میں واپس آتے تھے۔

خیر

جس طرح بھی واپس آتے‘ امن و سلامتی‘ صلح و آشتی سے آ جاتے۔ آخرالاہر رسول نے فرمایا: لاعطین۔ کل میں ۱ علم‘ کل میں اسلامی جھنڈا دوں گا‘ کس کو؟

جو کردار غیر فرار ہو گا‘ جو کراکر ہو گا۔ کرار کے معنی ہیں بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ غیر فرار‘ جو بھاگنے والا نہ ہو گا۔

اب آپ سمجھتے ہیں کہ جب کرار کہہ دیا‘ بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ تو غیر فرار کہنے کی ضرورت کیا تھی۔

بہرحال‘ مصلحت تھی‘ جس کو رسول سمجھتے تھے‘ کس کی وجہ سے کلمہ کہا گیا‘ ایک مرد کو علم دوں گا‘ جو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے۔

حملہ سے زیادہ یہ تعریف ہے:

یحب الله و رسوله

اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی اور خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی۔ کتنا بڑا تمغہ اس علم والے کو دیا جا رہا ہے کہ اس کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ اس کو رسول کے ساتھ محبت ہو گی‘ لیکن اس کے بعد ایک اور تمغہ دیا گیا جو اس سے بھی ارفع ہے:

یحبه الله و رسوله

اور اللہ اور رسول ۱ کو اس سے محبت ہو گی۔

یہ مرد کرار ہو گا‘ بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے والا ہو گا‘ اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی اور اسی طرح خدا اور رسول ۱ کو اس کے ساتھ محبت ہو گی تو محبت کا تمغہ دینے کے بعد فرمایا:

ولم یرجع

یہ واپس نہیں آئے گا۔

حتی یفتح الله علی یدیه

حتیٰ کہ اسے خداوند عالم فتح دے گا۔

رسول اللہ ۱ فرما رہے ہیں:

لا عطین الرایه غدا

نام نہیں لیا کہ کون ہے؟ کل میں علم دوں گا‘ کہہ رہے ہیں۔

کیا آج نہیں ہو سکتا؟

اس وقت علم نہیں دیا جا سکتا؟

علم تو موجود ہے‘ لیکن انہیں انتظار دی جا رہی ہے کہ وہ علم کی انتظار کریں‘ انتظار کروائی جا رہی ہے۔

لہٰذا‘ مسلمان ساری رات پریشان رہے۔ ایک کہتا تھا مجھے ملے گا‘ دوسرا کہتا تھا کہ مجھے ملے گا۔

حتیٰ کہ جب صبح ہوئی کہ حضرت نے ارشاد فرمایا:

این این علی ابن ابی طالب

علی (علیہ السلام) کہاں گئے؟ علی (علیہ السلام) کہاں ہیں؟

جب علی (علیہ السلام) کا نام آیا بڑے بڑے مسلمان آگے بڑھے اور کہا:

یا رسول اللہ! آپ علی (علیہ السلام) کو بلا رہے ہیں‘ ان ۱  کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں‘ وہ ۱  تو جنگ کے قابل نہیں ہیں۔

تو حضرت نے علی (علیہ السلام) کو بلایا‘ تب علی (علیہ السلام) تشریف لائے۔

تو روایت بتاتی ہے کہ میدان خیبر میں رسول اللہ زمین پر بیٹھ گئے‘ علی (علیہ السلام) کو لٹایا‘ علی (علیہ السلام) کا سر اٹھا کر اپنے زانو پر رکھ لیا اور لعاب دہن علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں لگایا تو علی (علیہ السلام) کی آنکھیں اس طرح کھل گئیں جس طرح ورق قرآن کھلتا ہے۔

نعرہ حیدری

صلواة

تو علی (علیہ السلام) میدان میں گئے جیسے پہلے لوگ میدان میں جاتے تھے‘ تو اب دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اس طرح آئے ہیں۔

تو وہ بہادر حملہ کرنے کے لئے آیا‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے اس وقت ایک کلمہ کہا:

انا الذی سمتنی امی حیدر

میں وہ ہوں کہ میری ۱  ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔

میں نے کسی جگہ ذکر کیا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد‘ (نعوذ باللہ) کافرہ تھیں‘ ابو طالب (معاذ اللہ) کافر تھے۔

ابو طالب رسول اللہ کی پرورش کرتے رہے۔ قرآن نے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسول ۱ کو نیاہ دی ہے‘ رسول کی مدد کی‘ وہ ۱  ایمان کے آخری درجے پر فائز ہیں‘ لیکن پتہ نہیں ان لوگوں کو کیا دکھ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ کافر۔

تو آج علی (علیہ السلام) فخر کر رہے ہیں کہ میری ماں نے میرا ۱  نام حیدر رکھا ہے۔ فخر کر کے بتا رہے ہیں کہ میری ماں کتنی عظمت کی مالکہ ہے کہ میں علی (علیہ السلام) فخر کر رہا ہوں کہ میری ۱  ماں نے میرا ۱  نام حیدر رکھا۔

حضرات گرامی!

میں عرض کر رہا تھا کہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) گئے‘ جنگ فتح ہوئی۔ جیسے بھی جنگ فتح ہوئی میں اس کا تذکرہ نہیں کرتا۔ آپ سنتے رہتے ہیں کہ مولا امیر ۱  نے در خیبر اکھاڑا‘ در خیبر اتنا بڑا تھا کہ اگر کئی آدمی مل کر کوشش کرتے‘ پوری فوج مل کر کوشش کرتی‘ تب بھی در خیبر کو حرکت نہ دے سکتے تھے‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے در خیبر کو اکھاڑا۔

کس طرح؟ دیکھئے!

مولا امیر ۱  فرما رہے ہیں۔

حدیث قدسی میں خدا کا فرمان ہے‘ جناب رسالتمآب نے فرمایا:

عبدی اطعنی اجعلک مثلی

اے میرے بندے! میری اطاعت کرو۔

تو! میرے حکم کے مطابق چل‘ اجعلک مثلیمیں تجھے اپنے جیسا بنا دوں گا۔

یعنی ایک میری صفت تیرے اندر پیدا ہو جائے گی‘ تو اس وقت کہا:

میں اس چیز کو کہتا ہوں ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔

جب تو میری اطاعت کرے گا‘ جیسے اطاعت کرنے کا حق ہے تو پھر تو جب کسی چیز کو کہے گا ہو جا‘ تو وہ جائے گی۔

اب اس کے ساتھ ایک اور حدیث ہے وہ کیا ہے؟

لا یزال عبدی بتقرب الی بالنوافل

ایک تو ہوتا ہے فرقہ‘ جیسے نماز ہے‘ ایک ڈیوٹی ہے۔

زکوٰة ہے‘ اس کی کوئی فضیلت علیحدہ نہیں ہے۔ یہ تو ادا کرنا ہی ہے‘ جیسے سرکاری ٹیکس ہوتا ہے۔ اس طرح نماز ایک ڈیوٹی ہے‘ جو ہر صورت میں انجام دینا ہے۔

نماز کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ کہا جا رہا ہے:

لا یزال عبدی بقرب الی بالنوافل

میرا بندہ بار بار نفل نماز پڑھتا ہے‘ مستجب نماز پڑھتا ہے‘ پوری دسترس سے میری عبادت کرتا ہے‘ ہر وقت عبادت کرتا رہتا ہے‘ جب میرا بندہ میری عبادت کرے‘ تب میں کیا کرتا ہوں؟

"جب کوئی آدمی میرا تقرب حاصل کرے‘ میرا قرب حاصل کرے‘ نیک کام کر کے مستجاب ادا کر کے نوافل ادا کرے‘ میرا مقرب بن جاتا ہے‘ تو میں خدا اس میں اتنی عظمت پیدا کر دیتا ہوں کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ سنتا ہے۔"

یعنی مطلب کیا کہ

اس کا سننا میرا سننا۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ دیکھتا ہے‘ یعنی اس کا دیکھنا میرا دیکھنا۔ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ جس ہاتھ سے وہ کام کرتا ہے‘ گویا اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔

اب بتائیں علی (علیہ السلام) جیسا عبادت گزار‘ جو ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے‘ خدا کی عبادت کی‘ اس لئے ان کی آنکھ کو عین اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے کان کو اذن اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے ہاتھ کو ید اسد کہا گیا۔ اس کی طرف علی (علیہ السلام) خود اشارہ کر رہے ہیں‘ کیا فرماتے ہیں:

ما قلعت باب خیبر بقوة جسمانیه بل لقوة ربانیه

اے مسلمانو!

میں ۱  نے خیبر کا قلعہ اپنی جسمانی طاقت سے فتح نہیں کیا بلکہ یہ ربانی قوت سے فتح کیا گیا ہے۔

علی (علیہ السلام) نے خیبر کا قلعہ فتح کیا‘ کس سے؟

قوت ربانیہ سے فتح کیا۔

اب علی (علیہ السلام) آ رہے ہیں۔ روایت یہ بتاتی ہے کہ علی (علیہ السلام) جھوم جھوم کے آ رہے ہیں اور تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا‘ لوگوں نے اشکال کیا‘ کہنے لگے:

یا رسول اللہ!

علی (علیہ السلام) میں کس قدر تکبر آ گیا ہے کہ جھو جھوم کر آ رہے ہیں‘ انہیں خشوع و خضوع کا مالک ہونا چاہئے۔

اس وقت رسالتمآب نے ارشاد فرمایا:

علی (علیہ السلام) کے اس جھومنے پر خدا خود جھوم رہا ہے۔

صلواة نعرئہ حیدری!

جھومتے ہوئے علی (علیہ السلام) تشریف لائے‘ ایک ہاتھ میں علم ہے‘ تلوار ہے اور مرحب کا سر ہے۔

یہ سب چیزیں لے کر مولا  خدمت رسالت میں آئے۔ جب وہ پہنچے ہیں تو رسول اللہ نے علم اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور بہت زیادہ خوش ہوئے اور فرماتے ہیں:

اے علی (علیہ السلام) ! آج مجھی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اتنی خوشی کبھی مجھی ۱ کسی چیز سے نہیں ہوئی۔ علم کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ

آج مجھے اس لئے خوشی ہوئی کہ قلعہ خیبر فتح ہوا ہے‘ جب کہ ۳۹ دن گزر گئے۔ ایک روایت میں ۱۹ دن اور ایک روایت میں ۳۹ دن ہیں۔

بہرحال دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر کے ۱۹ یا ۳۹ دن گزر گئے کہ قلعہ خیبر فتح نہ ہو رہا تھا‘ آج مجھی بڑی خوشی ہوئی۔ اس لئے کہ یہودیوں کا آپ  نے قلع قمع کر دیا اور جب ۱۹۶۱ ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کیا‘ اردن کے قبیلہ پر قبضہ کیا‘ مصر کے علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا‘ شام کی جولان کی پہاڑیاں بھی قبضہ میں لے لیں تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرعاظم نے ایک تقریر کی تھی اور اس میں کہا تھا:

اے مسلمانو!

آج ہم نے قلعہ خیبر کی فتح کا بدلہ لے لیا ہے۔

علی (علیہ السلام) نے اس زمانے میں فتح کیا تھا‘ آج ہم نے فتح کر کے وہ بدلہ لے لیا ہے۔ دنیا تو علی (علیہ السلام) کو بھول گئی تھی‘ انہیں احساس تک نہیں رہا‘ حالانکہ جو اسلام آج آپ کے سامنے موجود ہے۔

لا الہ الا اللہ مسلمان پڑھتے ہیں‘ محمد رسول اللہ کہتے ہیں‘ علی ولی اللہ پڑھتے ہو۔ یہ علی (علیہ السلام) کے تیرزور قرب کا اثر ہے کہ جس نے تمہیں محفوظ رکھا۔ یہ عمل علی (علیہ السلام) نہ ہوتے یا علی (علیہ السلام) اولاد نہ ہوتی‘ اسلام کے لئے قربانی نہ دیتے تو آج کبھی اسلام موجود نہ ہوتا۔ چہ جائیکہ تمہاری نمازیں ہوتیں‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر خوش ہوتے‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر ناز کرتے۔

تو رسالتمآب اس علم پر خوش ہوئے۔ ایک خیبر کی فتح تھی اور دوسری خوشی یہ کہ حضرت جعفر طیار  ۱ حبشہ گئے ہوئے تھے‘ وہاں سے یہاں تشریف لائے۔ اس وقت رسول اللہ نے کہا‘ مجھی دو قسم کی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘ ایک فتح کی خوشی اور دوسری جعفر طیار ۱  کی واپسی کی خوشی۔

ریاض القدس میں موجود ہے کہ

یہ کلمہ کہنے کے بعد حضرت تھوڑے سے آبدیدہ ہو گئے۔

لوگ حیران ہوئے۔ کہنے لگے:

یا رسول اللہ! آپ ۱ آبدیدہ کیوں ہوئے؟

تو حضرت نے فرمایا:

جس لمحے علی (علیہ السلام) کے علم کو دیکھ کر میں خوش رہا تھا‘ اس وقت ایک اور علم بھی مجھے یاد آ گیا‘ وہ بھی علی (علیہ السلام) ہی کا علم ہو گا‘ لیکن علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھ میں ہو گا‘ میدان کربلا میں علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھوں میں ہو گا اور اس علم کو جب حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف لے کر آئیں گے‘ اس وقت حالت یہ ہو گی کہ عباس کا لاشہ فرات کے قریب پڑا ہو گا اور علم کو خالی لے کر حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف آئیں گے۔ اب وہ علم حسین (علیہ السلام) کے ہاتھوں میں ہے‘ حسین (علیہ السلام) نے اس علم کو ہاتھوں میں لے کر فوج اشقیاء پر حملہ کیا‘ جب فوج اشقیاء پر حملہ کیا تو روایت میں ہے کہ

حسین (علیہ السلام) جب گئے تو پہلے حسین (علیہ السلام) نے اپنا تعارف کرایا کہ

اے لوگو!

جو مجھے ۱  جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ انہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں؟

اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:

لوگو! اس وقت پوری کائنات میں فقط میں ہوں جو رسول ۱ کا نواسہ ہے۔ میرا نانا رسول ہے‘ اکیلا میں رسول ۱ کا نواسہ ہوں۔

اور فرمایا:

اس وقت میں ۱  اکیلا ہوں‘ جس کا چچا جعفر طیار ہے‘ جس کا چچا حمزہ سیدالشہداء ہے۔

ان تمام کلمات کا ذکر کرنے کے بعد حسین (علیہ السلام) کہنے لگے:

لوگو!

میں ۱  وہ ہوں کہ جس کی ماں فاطمة الزہرا (علیھا السلام)  ہے۔

لوگو! مباہلہ میں‘ میں گیا تھا‘ مباہلہ فتح ہوا تھا۔

لوگو! رسول اللہ مجھے ۱  اپنے اوپر سوار کرتے تھے اور اپنی زلفیں میرے ۱  ہاتھ میں دیتے تھے۔

لوگو! میں ۱  وہ ہوں کہ میرے ۱  اور میرے ۱  بھائی حسین (علیہ السلام) کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا:

الحسن و الحسین سیدا شباب اهل الجنة

"حسن ۱  اور حسین (علیہ السلام) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔"

میں ۱  وہ ہوں کہ اگر کبھی میں ۱  آ رہا ہوتا اور نانا رسول اللہ خطبہ دے رہے ہوتے‘ میں ۱۱  ۱ گر جاتا تو رسول اللہ خطبہ چھوڑ کر پہلے مجھے ۱  اٹھاتے تھے پھر خطبہ دیتے۔

یہ کہنے کے بعد امام(علیہ السلام) نے ایک آخری کلمہ کہا:

لوگو!

بتاؤ کیا میں ۱  نے دین میں کوئی تبدیلی کی ہے؟

کیا میں ۱  نے کوئی غلط کام کیا ہے؟

یا حکم خدا کی نافرمانی کی ہے‘ تو جب میں ۱  نے کوئی نافرمانی نہیں کی‘ مجھے ۱  بتاؤ کہ کیا یہ تمہارا انصاف ہے کہ یہ پانی جو میری ۱  ماں سیدہ فاطمة الزہرا (علیھا السلام)  کا حق مہر تھا‘ اب اس پانی سے جانور تو سیراب ہو رہے ہیں‘ لیکن نبی ۱ کی اولاد پیاسی ہے۔

کیا اس کے بعد تم کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

حضرت  نے اپنا تعارف کرانے کے بعد حملہ کیا۔ روایت میں موجود ہے کہ حسین (علیہ السلام) کا یہ حملہ

اندازہ کریں کہ حسین (علیہ السلام) کے بھائی مارے گئے‘ بیٹے مارے گئے‘ حسین (علیہ السلام) کے بھتیجے مارے گئے‘ یار و انصار مارے گئے۔ اب حسین (علیہ السلام) اکیلے اور اکیلا آدمی کتنا پریشان ہوتا ہے‘ لیکن روایت بتاتی ہے کہ

حسین (علیہ السلام) نے جو حملہ کیا‘ وہ حملہ اتنا سخت تھا کہ اشقیاء کی فوجیں کربلا سے دوڑتی ہوئی تک چلی گئیں۔ یہ کوفہ کی چھاؤنی تھی۔ کربلا سے پندرہ میل دور فوجیں دوڑتی ہوئیں تک پہنچ گئیں۔ جب حسین (علیہ السلام) کا حملہ اتنا سخت ہوا تو اس کے بعد حسین (علیہ السلام) ۱ تھوڑی دیر سستا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کاغذ آیا اور کہتا ہے:

اے حسین (علیہ السلام) ! تجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔

حسین (علیہ السلام) تو جنگ فتح کرنے کے لئے نہیں آیا‘ تو تو خون دینے کے لئے آیا ہے‘ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آیا ہے تاکہ تیرے نانا کا دین بچ جائے۔ اس پیغام کا آنا تھا کہ حسین (علیہ السلام) نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی اور اس کے بعد اپنے خیمے میں آئے‘ اب اس خیمہ میں آخری الوداع کرنے حسین (علیہ السلام) آئے۔ خدا آپ  کو جزائے خیر دے۔

روایت میں موجود ہے:

حسین (علیہ السلام) آئے کہاں پہنچے؟

اپنے بیٹے عابد ۱  بیمار کے پاس۔ اندازہ کریں‘ بوڑھا باپ زخموں سے چور‘ بیمار بیٹا ۱  غشی کی حالت میں پڑا ہوا۔

حسین (علیہ السلام) اپنے بیٹے ۱  کے سرہانے بیٹھ کر کیا کہتے ہیں:

بیٹا سجاد ۱  اٹھو!

مولا  نے آواز دی‘ مگر زین العابدین ۱  نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی کی حالت میں تھے۔

دوبارہ کہا‘ میرے ۱  بیٹے میں تجھ ۱  سے وداع کرنے آیا ہوں۔

اٹھو!

ابھی تک سجاد ۱  نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی طاری تھی۔

اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے کہا‘ بیٹا! تیرا ۱  مظلوم بآپ  تجھ سے وداع ہونے کے لئے آیا ہے‘ اٹھو! مجھے ۱  وداع کر لو اور اسباب امامت مجھ ۱  سے لے لو اور مجھ ۱  سے وداع کرو۔

اب بھی بیٹے ۱  کی غشی نہیں ٹوٹی‘ لیکن جب

گرم گرم آنسو امام زین العابدین ۱  کے رخسار پر پڑے ہیں تو اس وقت امام سجاد ۱  نے آنکھیں کھولیں اور کیا کہتے ہیں:

میرے ۱  مظلوم بابا !


8

9

10