امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)0%

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 6356
ڈاؤنلوڈ: 2375

تبصرے:

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 50 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6356 / ڈاؤنلوڈ: 2375
سائز سائز سائز
امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

مؤلف:
اردو

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے ثبوت میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں ، رسول کریمؐ کی بہت سی حدیثیں اور تاریخ اسلام کے بہت سے واقعات پیش کئے جا سکتے ہیں یہاں پر ان میں سے صرف دو دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کو شیعہ بھی خلیفہ مانتے ہیں اور سنی بھی۔ فرق یہ ہے کہ سنی حضرات آپ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور شیعہ بلا فصل اور پہلا خلیفہ مانتے ہیں۔ سنی اس لئے خلیفہ مانتے ہیں کہ لوگوں نے اپنے تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا اور شیعہ اس لئے خلیفہ مانتے ہیں کہ رسولؐ کریم اپنی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بحکم خدا بنا گئے تھے۔

پہلی دلیل ۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھلی تبلیغ کرنے کا حکم ملا تو آپ نے حکم خدا کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر سب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگوں کو بلایا۔ خاندان عبد المطلبؐ کے چالیس آدمی جمع ہوئے۔ حضرت امیرؐ نے رسولؐ کے ارشاد کے مطابق آنے والے مہمانوں کی ضیافت کا بھی انتظام کیا تھا۔ کھانے کی مقدار کم تھی اور کھانے والے زیادہ تھے مگر جب نبی کریمؐ نے دودھ ، روٹی اور گوشت کو پہلے ذرا ذرا سا چکھنے کے بعد مجمع سے کھانے کے لئے کہا تو آپ کی برکت اور آپ کی زبان سے نکلی ہوئی بسم اللہ کے اثر سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا اور کھانے والے کھا کر سیر ہو گئے پھر بھی کھانا بچ رہا۔ جب حضورؐ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے آپ کی تقریر سے پہلے یہ کہہ کر مجمع کو بھڑکا دیا کہ ان کی تقریر مت سنو یہ جادوگر ہیں ، تم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ انھوں نے تھوڑے کھانے کو جادو کے ذریعہ زیادہ کر دیا ہے اگر تقریر سنوگے تو یہ جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے مذہب سے منحرف کر دیںگے۔ مجمع یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا۔ رسول کریمؐ نے پھر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر دوسرے دن کے لئے سب کو بلوایا اور کھانے کا بھی انتظام کیا۔ دوسرے دن بھی سب لوگ آئے اور نبیؐ کی برکت سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا۔ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی بچ رہا۔ آج ابو لہب نے پھر تقریر میں روکاوٹ ڈالنا چاہی تو جناب ابو طالب علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور ابو لہب کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور رسولؐ کریم سے عرض کی کہ اے میرے سردار آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہئے۔ رسولؐ نے اسلام پیش کیا۔ خدا کی توحید کا پیغام سنایا ، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد فرمایا۔

"جو شخص ہدایت کے کام میں میری مدد کرےگا میں اُسے اپنا بھائی ، وصی اور وزیر مقرر کروںگا۔ وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا اس کی اطاعت لوگوں پر میری طرف سے واجب ہوگی۔ "

نبیؐ کی آواز پر کسی نے آواز نہ دی صرف دس سال کے کمسن علیؐ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ " میں مدد کا وعدہ کرتا ہوں "۔ رسولؐ اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی پشت پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مجمع کے سامنے کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ۔ انھوں نے میری مدد کا وعدہ کیا ، لہذا یہ میرے بھائی وصی اور وزیر ہیں۔ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہیں میں ان کو اپنی طرف سے حاکم مقرر کرتا ہوں۔ انکی اطاعت تم سب پر واجب ہے۔ ابو لہب نے جل کر جناب ابو طالب علیہ السلام کو طعنہ دیا۔

" محمدؐ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں" ۔

جناب ابو طالب علیہ السلام نے جواب دیا کہ

" میرا بھتیجا جو بات بھی کہتا ہے وہ بہرحال خیر ہے "۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی بھر اپنی جان اور مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی اور آپ کے بعد آپ کی پاک نسل یعنی گیارہ اماموںؐ نے دین کی مدد میں اپنی پاکیزہ زندگیاں صرف کیں۔ حضرت امیرؐ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور رسول اللہؐ نے بھی اپنے وعدہ کا ایفا فرمایا۔ حضرت علی علیہ السلام کو اور ان کے بعد ان کی نسل کے گیارہ اماموںؐ کو اپنا نائب ، جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔

یہ کہنا کہ حضورؐ انتقال کے وقت کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں گئے بلکہ امت کو خلیفہ بنانے کا حق دے گئے غلط ہے اور رسول اعظمؐ کی پاک اور بے داغ سیرت پر وعدہ خلافی کا الزام بھی ہے۔ کوئی سچا مسلمان اپنے نبیؐ پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا پسند نہیں کرےگا۔ لہذا رسولؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل خلیفہ ماننا ہر سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

دوسری دلیل ۔

رسالتمابؐ نے اپنے انتقال سے دو مہینے دس دن پہلے اٹھارہ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا مفصل اور مکمل اعلان فرمایا۔ آپ اس وقت آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے آپ کے ساتھ سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا۔ جلتی دوپہر میں قافلہ کو روک کر جمع کیا ۔ کجاوون کا ممبر بنوایا اور بحکم خدا حضرت علی علیہ السلام کو لیکر ممبر پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ خدا کی طرف سے رسولؐ السلام پر ۔ آیہ تبلیغ نازل ہوئی تھی۔

"اے رسولؐ اس بات کا اعلان کر دو جس کے اعلان کا ہم تم کو حکم دے چکے ہیں۔ اگر یہ اعلان نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ خدا دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے"۔

اس حکم خدا کے بعد حضورؐ نے مجمع کے سامنے ایک طولانی تقریر فرمائی جس کے آخر میں ہر مسلمان سے پوچھا کہ تم اپنی جان اور مال کے مالک ہو یا میں تمہاری جان اور مال کا مالک ہوں۔اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ تم لوگ اپنے کو اپنا حاکم سمجھتے ہو یا مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو۔

سب نے کہا۔ حضورؐ ! آپ ہمارے حاکم اور ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔" نبیؐ نے اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بازو پکڑ کر پورے جسم سے اٹھا لیا اور فرمایا۔

"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ مولا ہیں۔ جس کا میں حاکم ہوں یہ علی بھی اس کے حاکم ہیں "۔پھر آپ نے خدا سے دعا فرمائی۔ کہ تو اسے دوست رکھ جو علیؐ سے محبت کرے اور علیؐ کے ہر دشمن کو اپنا دشمن قرار دے۔ ممبر سے اتر کر سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ جاکر علیؐ کی بیعت کرو اور ان کو مومنوں کا حاکم کہہ کر سلام کرو۔ سب نے حکم رسولؐ کی تعمیل کی حضرت عمر نے خصوصی مبارکباد دی کہ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم مقرر ہو گئے۔ اس واقعہ کو واقعہ غدیر کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے آئیہ اکمال نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے۔

"آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گیا اب تم ان سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام کو تمہارے لئے بہ حیثیت دین کے پسند کر لیا۔"

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبیؐ نے اپنی عمر کے آخر تک حضرت علی علیہ السلام ٍ کو اپنا جانشین رکھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کو نبیؐ کا خلیفہ بلا فصل مانےگا خدا اسی کو دوست رکھےگا۔ جو خلافت بلا فصل مولا علیؐ کا قائل ہوگا اسی کا دین کامل ہوگا خدا کی نعمتیں اسی کو ملیںگی اور خدا اسی کے اسلام کو قبول کرےگا۔

بارہویں امامؐ

بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں۔ پردہ غیبت میں ہیں۔ جب حکم خدا ہوگا اس وقت کعبہ کے پاس ظہور فرمائیںگے اور ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دیںگے۔

بحمد اللہ آپ کی عمر ساڑھے گیارہ سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور خدا وند عالم جب تک چاہےگا زندہ رکھےگا۔ حضرتؐ کی طولانی عمر پر تعجب نہیں ہونا چاہئے ۔جناب نوحؐ کو خدا نے تقریباً دو ہزار سال کی عمر عطا فرمائی۔ جناب خضرؐ ، جناب الیاسؐ ، جناب اوریسؐ اور جناب عیسیؐ اب تک زندہ ہیں۔ جو شخص آپ کی طولانی عمر پر شک کرتا ہے وہ در اصل خدا کی قدرت پر شک کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کے آگے نہ کوئی چیز مشکل ہے نہ قابل تعجب۔

اصحاب کہف ہزاروں سال سے غار میں سو رہے ہیں اور خدا کی قدرت سے زندہ ہیں۔جو خدا پہاڑ سے جناب صالحؐ نبی کے لئے آناً فاناً مع بچہ کے اونٹنی پیدا کر سکتا ہے۔ جناب موسیٰؐ کے عصا کو اژدھا اور اژدھا کو عصا بنا سکتا ہے۔ جناب عیسیؐ کو بغیر باپ کے پیدا کر سکتا ہے۔ لاکھوں من آگ میں جناب ابراہیمؐ کو بچا سکتا ہے۔وہ خدا سیکڑوں کیا ہزاروں سال کی عمر امام علیہ السلام کو کیوں نہیں دے سکتا اور ان کو دشمنوں سے کیوں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔

بارہویں امام علیہ السلام کے وجود پر بہت سای دلیلیں ہیں جن میں سے چند آسان دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔

دلیل نمبر ۱ ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ( وَ لِکُلِّ قَومٍ هَادٍ ) یعنی ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہونا ضروری ہے۔

نبیؐ کریم کا ارشاد ہے "مَن مَّاتَ وَ لَم یَعرِف اِمَامَ زمَانِهِ فَقَدمَاتَ مِیتَةً جَا هِلِیَّةً یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو اور مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے "۔ معلوم ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے لہذا اس زمانہ میں بھی ایک ہادی اور امام ہونا چاہئے اور وہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام ہیں۔

دلیل نمبر ۲ ۔

قرآن مجید میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کی پیروی کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ان دونوں حکموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایک صادق اور صاحب امر ہونا چاہئے ہمارے بارہویں امامؐ کے علاوہ کسی کے لئے صادق اور صاحب امر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔

دلیل نمبر ۳ ۔

پیغمبرؐ اسلام کا ارشاد ہے "لَا یَذَالُ هٰذَ الَّذِّنُ قَاءِماً ایلی اِثنَا عَشَرَ خَلِفَةً مِّن قُرَیشٍ فَاذَا هَلَکُو مَاجَتِ الاَرضُ بِاَهلِهَا یعنی یہ دین اس وقت تک قائم رہےگا جب تک میرے بارہ خلیفہ پورے نہ ہو جائیں جو سب کے سب قریش ہوں گے ان بارہ خلیفہ کے ختم ہونے کے بعد زمین مع اپنی تمام آبادیوں کے تباہ ہو جائےگی۔

اہلسنت کے مشہور عالم ملا علی متقی نے اپنی کتاب کنز العمال میں اس حدیث کو لکھا ہے۔ اگر بارہ امام ختم ہو گئے ہوتے تو نہ یہ دنیا باقی ہوتی اور نہ دین۔ دونوں کا باقی رہنا دلیل ہے کہ بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں جن کے دم سے دین اور دنیا دونوں قائم ہیں۔

بارہ اماموں کی عمریں

حضرت امام علی علیہ السلام :

آپ تیرہ رجب ۳۰ ھ؁ عام الفیل یعنی ہجرت سے تیس سال پہلے شہر مکہ میں جمعہ کے دن خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور اکیس رمضان ۴۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ترسٹھ برس کی تھی۔ آپ کی قبر مطہر نجف میں ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام :

آپ پندرہ رمضان ھ ۳ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اٹھائیس صفر ۵۰ ؁ میں شید ہوئے ۔آپ جنت البقیع مدینہ میں دفن ہوئے،

حضرت امام حسین علیہ السلام :

آپ کی عمر سینتالیس برس تھی۔ آپ تین شعبان ۴ ھ؁ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور دس محرم ۲۱ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کا روضہ کربلا میں ہے

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام :

آپ پندرہ جمادی الاول ۳۸ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۵ ھ؁ محرم ھ ۹۵ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کی قبر جنت البقیع مدینہ میں ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام :

آپ پہلی ۵۷ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سات الحجہ ۱۱۴ ھ؁ کو شہید ہوئے۔آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام :

آپ ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۱۵ شوال ۱۴۸ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ آپ کی قبر بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام :

آپ سات صفر ۱۲۸ ھ؁ کو ابوا میں پیدا ہوئے اور ۲۵ رجب ۱۸۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی۔ آپ کا روضہ کاظمین میں ہے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام :

آپ گیارہ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں بیدا ہوئے اور ۲۳ ذیقعدہ ۲۰۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۰ برس تھی۔ آپ کا روضہ مشہد میں ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام :

آپ دس رجب ۱۹۵ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۹ ذیقعدہ ۲۲۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۵ برس تھی۔ کاظمین میں آپ کی قبر مطہر ہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام :

آپ پانچ رجب ۲۱۴ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تین رجب ۲۵۴ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپ سامرہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام :

آپ دس ربیع الشانی ۲۳۲ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۸ برس تھی۔ آپ کا روضہ بھی سامرہ میں ہے۔

حضرت امام مہدی آخرالزماں علیہ السلام :

آپ پندرہ شعبان ۲۵۶ ھ؁ کو شہر سامرہ میں پیدا ہوئے اور آج تک بحکم خدا زندہ ہیں اور پردہ غیب میں ہیں جب حکم خدا ہوگا تو ظاہر ہوں گے۔

چودہ معصومؐ

۱ ۔ ہمارے رسولؐ ۔ آپ کے باپ جناب عبدؐ اللہ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب آمنہؐ خاتون تھیں۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ میں انتقال فرمایا۔

۲ ۔ جناب فاطمہؐ کے باپ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ اور ماں جناب خدیجہؐ تھیں۔ آپ کی شادی حضرت علیؐ سے ہوئی ۔ مکہ میں پیدا ہوئیں اور مدینہ میں شہادت پائی۔

۳ ۔ حضرت علیؐ کے باپ جناب ابوطالبؐ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب فاطمہؐ بنت اسد تھیں۔ آپ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں شہید ہوئے

۴ ۔ امام حسنؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۵ ۔ امام حسینؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کربلا میں شہید ہوئے۔

۶ ۔ امام زین العابدینؐ کا نام علیؐ تھا ۔ آپ امام حسینؐ کے بڑے فرزند تھے۔ جناب شہر بانو آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۷ ۔ امام محمد باقر کا نام محمدؐ تھا۔ امام زین العابدینؐ آپ کے والد ماجد تھے اور امام حسنؐ کی بیٹی جناب فاطمہ آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۸ ۔ امام جعفر صادق ؐ کا نام جعفرؐ ہے باپ امام محمد باقرؐ تھے۔ ماں کا نام امفروہ ہے۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں شہید ہوئے۔

۹ ۔ امام موسیٰ کاظمؐ کا نام موسیٰ ہے۔ باپ امام جعفر صادقؐ تھے اور ماں کا نام حمیدہ ہے۔ آپ ابواء میں پیدا ہوئے اور بغداد میں شہید ہوئے۔

۱۰ ۔ امام علی رضاؐ کا نام علیؐ ہے۔ آپ امام موسیٰ کاظمؐ کے بیٹے تھے۔ آپ کی ماں کا نام نجمہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور خروسان میں شہید ہوئے۔

۱۱ ۔ امام محمد تقیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ کے باپ امام علی رضاؐ تھے ۔ ماں کا نام سبیکہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کاظمین میں شہید ہوئے۔

۱۲ ۔ امام علی نقیؐ کا نام علیؐ ہے۔ باپ امام محمد تقیؐ اور ماں سمانہ تھیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۳ ۔ امام حسن عسکریؐ کا نام حسنؐ ہے۔ آپ کی ماں کا نام حدیثہ تھا اور باپ امام علی نقیؐ ہیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۴ ۔ امام مہدیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ امام حسن عسکریؐ کے بیٹے تھے۔ ماں کا نام نرجس خاتون ہے۔ سامرہ میں پیدا ہوئے اور بحکم خدا زندہ ہیں۔ آپ کےالقاب مہدی ۔ امام زمانہ ۔ ولی عصر ۔ حجت اللہ ۔ صاحب العصر ۔ صاحب الزمان وغیرہ ہیں۔ آپ کو نام کے بجائے ان القاب سے پکارنا چاہئیے۔

نوابِ اربعہ

جب امام حسن عسکری علیہ السلام کا انتقال ہوا تو ہمارے امامؐ زمانہ کی عمر چار پانچ برس کی تھی لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ آپ کو کسی صورت سے زندہ نہ رہنے دیا جائے ، آپ حکم خدا سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اور تقریباً ۷۰ برس تک اس غیبت صغریٰ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس زمانہ میں آپ کے کچھ مخصوص اصحاب تھے جن کو آپ نے اپنا پتہ دیا تھا انھیں سے ملاقات کرتے تھے اور انھیں کے ذریعہ اپنے شیعوں تک اپنے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ انھیں اصحاب کو نواب اربعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار حضرات تھے اور چاروں کی قبریں بغداد میں ہیں جہاں لوگ برابر ان کی زیارت کے لئے جاتے رہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے نائب جناب عثمان بن سعید تھے جو امام کی طرف سے مال کے وکیل تھے اور خمس کا سہم امام آپ ہی کو دیا جاتا تھا۔

دوسرے نائب آپ ہی کے فرزند محمد بن عثمان تھے جنھیں حضرت امام زمانہؐ نے ان کے باپ کے مرنے پر تعزیت کا خط لکھا تھا اور اس میں ان کے نائب ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔

تیسرے نائب جناب حسین بن روح تھےجن کے ذریعہ سے آج بھی ۱۵/ شعبان کی صبح کو امامؐ کی خدمت میں عریضے بھیجے جاتے ہیں۔ آپ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ بغداد کا رہنے والا ایک شخص بخارا گیا ہوا تھا جب وہاں سے آنے لگا تو وہاں کے ایک آدمی نے سونے کے دس پتھر یہ کہہ کردئیے کہ انھیں حسین بن روح کے حوالہ کر دینا ، یہ شخص لے کر چلا تو راستے میں ایک پتھر گم ہو گیا۔ بغداد میں آ کر سامان دیکھا تو اس کے گم ہو جانے کا پتہ چلا فوراً اسی قسم کا ایک پتھر بازار سے خرید کر سب کو جناب حسین بن روح کی خدمت میں لایا۔ آپ نے ان میں سے نو لئے اور ایک واپس کر دیا اس نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیوں واپس کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ پتھر جو تجھ سے گر گیا تھا وہ میرے پاس پہونچ گیا ہے اور یہ تو نے بازار سے خریدا ہے۔

آپ کے بعد چوتھے نائب علی ابن محمد سمری مقرر ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ آپ کا انتقال ۱۵/ شعبان ۳۲۹ ھ؁ کو ہوا جس کے بعد امام نے یہ اعلان کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ کا آغاز ہو رہا ہے اس میں جو نئے مسائل پیش آئیں۔ ان میں فقاء کی طرف رجوع کیا جائےگا۔ ان کا حکم ہمارا حکم ہوگا اور ہمارا حکم خدا کا حکم ہے۔

رجعت

جب خدا کی مرضی ہوگی تو امام آخر الزماں علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر امام علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور مدد کریں گے۔ امامؐ کے ظہور کے بعد دنیا میں صرف ایک دین رہ جائگا۔ اسلام کے منکر یا ایمان لے آئیں گے یا امام سے لڑ کر قتل ہو جائیں گے۔ زمین پر مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک صرف اللہ کے نام کا سکہ چلےگا۔ ایسا وقت آنا اس لئیے ضروری ہے کہ ابھی تک زمین پر خدا کے دشمنوں کا قبضہ اور غلبہ رہا ہے۔ ایک دن وہ بھی آنا چاہئیے جب ساری زمین پر صرف خدا کے ماننے والے ہوں تاکہ خدا اور دشمان خدا کے قبضہ اور غلبہ میں نہ فرق پیدا ہو جائے کہ خدا کا قبضہ مکمل ہو اور صرف اسی کا دین باقی رہ جائے۔

امام آخر الزماں علیہ السلام کی زندگی میں کچھ خالص مومن اور کچھ پکے کافر اور چند سخت ترین دشمنان نبی و آل نبیؐ جو مر چکےہیں وہ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اسے دوبارہ زندہ کئیے جانے کا نام رجعت ہے۔ غرض کہ امامؐ کے زمانہ میں جن جن کو خدا چاہے گا زندہ کرے گا تاکہ نیک اعمال والے اپنے اعمال کا تھوڑا پیل اسی دنیا میں دیکھ کر خوش ہو لیں اور بد اعمال اپنے کرتوتوں کی تھوڑی سی سزا دنیا میں بھی بھگت لیں۔

احادیث میں بیان ہوا ہے کہ معصومین علیہم السلام ابھی دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور طولانی حکومتیں کریں گے سب سے پہلے امام حسینؐ تشریف لائیں گے اور امام زمانہؐ کی وفات کے بعد آپ کی تجہیز و تکفین کریں گے اس لیے کہ امام کو صرف امام ہی غسل و کفن دے سکتا ہے۔

رجعت کے بارے میں خدا کی قدرت پر ایمان رکھنے والے کو شک شبہ نہیں ہو سکتا جو خدا پہاڑ سے جناب صالح علیہ السلام کے لیے اونٹنی مع بچہ کے پیدا کر سکتا ہے جس کی قدرت سے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر دوبارہ عصا بن سکتا ہے جس کی قدرت دکھانے کے لیے جناب عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں وہ اس دنیا میں چند انسانوں کو رجعت میں یقیناً دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔

تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد تین خاندان دنیا کے سامنے آئے :

۱ ۔ بنی امیہ ۲ ۔ بنی عباس ۳ ۔ بن ہاشم

بنی امیہ اور بنی عباس اپنی بدترین برائیوں کے باوجود دنیا میں حکومت کر گئے، اور بنی ہاشم اپنی بہترین اچھائیوں کے باوجود سخت ترین تکلیف اور مصیبت اُٹھا کر دنیا سے سدھارے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ قیامت آنے سے پہلے ایک زمانہ ایساآئے جو نبیؐ اور آل نبی کا دور حکومت ہو۔ اور ان کی سلطنت کے حدود ساری دنیا میں پھیلے ہوں اگر رجعت نہیں ہوتی ہے تو دلوں میں یہ شبہ باقی رہ جائے گا کہ دنیا میں نیکی آدمی کو مصیبت میں ڈالتی ہے اور برائی حکومت دلاتی ہے۔ اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے خدا نے معصومین علیہم السلام اور ان کے زمانہ کے لوگوں کی رجعت رکھی ہے۔

اگر رجعت نہ ہو اور معصومین علیہم السلام کو حکومت کرنے کا موقع نہ ملے تو قیامت میں اگر چہ انکو ثواب مل جائے گا ان کے دشمن عذاب کا مزہ چکھیں گے دشمنوں سے خدا معصومین علیہم السلام کو بدلہ بھی دلا دیگا لیکن آخرت میں خدا کی حکومت ہوگی بندے حکمت نہیں کریںگے دنیا میں خدا نے نبیؐ اور آل نبی علیہم السلام کو حکومت کرنے کا جو حق دیا ہے اس کا عوض چونکہ آخرت میں بھی ممکن نہیں ہے اس لیے دنیا میں دوبارہ ہیدا کیے جائیں گے۔ تاکہ اپنا حق حکومت پا جائیں۔

قیامت

قیامت کا دوسرا نام معاد ہے۔ قیامت وہ دن ہے جب انسان دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تاکہ ان کے اچھے برے کاموں کا حساب لیا جائے اور اعمال کے مطابق ان کو جنت یا دوزخ میں جگہ دی جائے۔

مردوں کے زندہ کرنے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جو خدا اپنی قدرت سے بغیر کسی چیز کے سب کچھ پیدا کر سکتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جناب ابراہیمؐ ایک دریا کے کنارے سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مردار ہے جس کا آدھا حصہ دریا کے باہر ہے اور آدھا دریا کے اندر۔ آپ کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔ پروردگار مجھے یہ دکھا دے کہ ایسے مردوں کو کیسے زندہ کرےگا۔ حکم خدا ہوا ابراہیمؐ ! چار جانورں کو پکڑ لو اور انھیں اپنے سے مانوس بناؤ اس کے بعد انھیں ذبح کر کے ان کے ٹکڑے الگ الگ پہاڑوں پر رکھ دو اور سب کی منقار (چونچ) اپنے ہاتھ میں رکھو۔ اس کے بعد سب کو الگ الگ آواز دو۔ یہ سارے ٹکڑے دوڑ کر تمہارے پاس آ جائیںگے۔

جناب ابراہیمؐ نے ایسا ہی کیا اور آپ نے جو آواز دی تو ہر جانور کے ٹکڑے آنے لگے۔ آپ نے ہر ایک کی چونچ اس کے جسم میں لگا دی اور ہر جانور پرواز کر گیا۔

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا وند عالم مرنے کے بعد بلکہ قیمہ قیمہ ہونے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسکی طاقت میں شک کرنا قرآن کریم پر ایمان نہ لانے اور خدا اور رسولؐ کی بات کا انکار کرنے کے برابر ہے۔

دنیا کا آخری انجام

جس طرح پہلے یہ دنیا نہ تھی اور بعد میں پیدا ہو گئی اسی طرح ایک دن ایسا بھی آئےگا جب یہ دنیا رہےگی اور قیامت آ جائےگی۔ قیامت اس طرح آئیگی کہ خدا کے حکم سے حضرت اسرافیل ایک صور لےکر زمین پر آئیںگے صور کے اوپر کے سرے میں دو گوشے ہوںگے ایک گوشہ کا رخ آسمان کی طرف ہوگا اور دوسرے کا رخ زمین کی چعف ہوگا پہلے زمین کی طرف والے گوشہ میں صور پھونکیںگے، اس وقت زمین والے سے سب آسمان والے مر جائیںگے اور سوائے حضرت اسرافیل کے کوئی زندہ نہ رہےگا۔ پھر حضرت اسرافیل بھی حکم خدا سے مر جائیںگے اور خدائے عزیز کے علاوہ اور کوئی باقی نہ رہ جائےگا۔ اس کے بعد جب خدا کی مرضی ہوگی تو پہلے آسمان والوں کو اور پھر زمین والوں کو زندہ کیا جائگا اور سب کا حساب و کتاب ہوگا اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق لوگ جنت یا جہنم میں جائیںگے۔

قیامت کی علامتیں : قیامت آنے سے پہلے کچھ باتیں ظاہر ہونگی جن سے پتہ چل جائےگا کہ قیامت آنے والی ہے۔

۱ ۔ یاجوج ماجوج :۔ یہ بڑی تباہی مچاتے تھے اور خونریزی کیا کرتے تھے۔ سکندر ذوالقرنین نے ایک دیوار بنا دی تھی جس کی وجہ سے یاجوج ماجوج کی مصیبتوں سے دنیا نجات پا گئی تھی۔ جب قیامت قریب ہوگی تو یہ دیوار گر جائےگی اور یاجوج ماجوج نکل آئیںگے اور بڑی تباہی پھیلائیںگے۔

۲ ۔ قیامت آتے وقت سورج پچھم سے نکلےگا۔

۳ ۔ قیامت آنے سے پہلے ساری دنیا میں دھواں پھیل جائےگا۔

موت کے بعد

برزخ :۔

ہر آدمی کے مرنے کے بعد سے لے کر قیامت تک کی مدت کو برزخ کہتے ہیں۔ برزخ میں صحیح عقیدے والے آرام سے اور برے عقیدے والے تکلیف سے رہتے ہیں۔

قبر میں سوال و جواب :۔

مرنے کے بعد قبر میں دو فرشتے آتے ہیں جو مردہ کو زندہ کر کے اس سے سوال کرتے ہیں۔ اچھے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام مبشر و بشیر ہیں اور برے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام منکر و نکیر ہیں۔

فرشتوں کے سوال جواب

تیرا خدا کون ہے ؟ اللہ

تیرا دین کیا ہے ؟ اسلام

تیرے پیغمبر کون ہیں ؟ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

تیرا امام کون ہیں ؟ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بعد گیارہ امامؐ

تیری کتاب کیا ہے ؟ قرآن مجید

تیرا قبلہ کیا ہے ؟ کعبہ محترم

جو شخص ان سوالوں کا جواب ٹھیک دیتا ہے اس کی قبر کو فرشتے جنت کا ایک باغ بنا دیتے ہیں اور جس کے جواب ٹھیک نہیں ہوتے اس کی قبر کو دوزخ کی آگ سے بھر دیتے ہیں۔

نامئہ اعمال :۔

خدا کی طرف سے ہر شخص پر دو فرشتے مقرر ہیں۔ ایک اچھے اعمال لکھتا ہے۔ دوسرا برے اعمال لکھتا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کا اعمالنامہ دیا جائےگا۔

میزان :۔

قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال انصاف کی ترازو میں تولے جائیںگے۔ اسی ترازو کو میزان کہتے ہیں۔

صراط :۔

ہر شخص کو قیامت کے دن ایک پل پر سے گزرنا ہوگا جو بال سے زیادہ باریک ، تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا۔ صحیح ایمان اور اچھے اعمال والے اس پر سے گزر جائیںگے اور جن کا ایمان و عمل خراب ہوگا وہ دقزخ میں گر پڑیںگے۔

شفاعت :۔

قیامت کے دن ہمارے نبیؐ اور امام گنہگار مومنین کو شفاعت کر کے بجشوائیں گے اور خدا ان کی شفاعت کو قبول کرےگا۔

برزخ

ہر انسان کے مرنے سے قیامت تک کے درمیانی فاصلے کا نام برزخ ہے۔ جس کی موت جس قدر قیامت سے قریب ہوگی اس کا برزخ اتنا ہی مختصر ہوگا اور جس قدر دور ہوگی اسی قدر برزخ بھی طولانی ہوگا۔

برزخ کی ضرورت اس لئے ہے کہ انسان اس دنیا میں دو قسم کے عمل انجام دیتا ہے ایک ظاہری عمل جسے کردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ایک باطنی عمل جسے اعتقاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قیامت کا دن کردار کے مکمل حساب کے لئے معین ہے اور روح کے اعمال یعنی عقائد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ جسم کے روح سے الگ ہونے کے بعد ایک جگہ مقرر کر دی جائے جہاں روح کو اس کے عقائد کا اچھا یا برا بدلہ دیا جا سکے بس اسی عالم کا نام برزخ ہے۔ برزخ میں ہر شخص کو اس کے عقائد کے اعتبار سے اچھی یا بڑی جگہ دی جاتی ہے۔

برزخ میں روحیں اپنے جسم کے بجائے ایک دوسرے جسم میں رہتی ہیں جس طرح ہم جب بستر پر سوتے ہوتے ہیں اور خواب میں کسی جگہ جاتے ہیں کھاتے پیتے اور دوڑتے بھاگتے ہیں۔ خواب میں ہم کو جو اپنا جسم نظر آتا ہے برزخ خدا ہر انسان کو اسی سے ملتا جلتا ایک جسم دےگا جس کو جسم مثالی کہتے ہیں۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ عالم برزخ میں مومنین کی روحیں وادی السلام میں رہتی ہیں اور کافروں ، منافقون اور اہلبیتؐ کے دشمنوں کی روحیں وادی برہوت میں رہتی ہیں۔

مرنے کے بعد انبیاء ، ائمہ اور نابالغ ، کم عقل اور دیوانے لوگوں کے علاوہ فشار قبر بھی ہوتا ہے۔ جمعہ کی رات یا دن کو مرنے والا یا جوار ائمہؐ میں دفن ہونے والا فشار قبر سے محفوظ ہوتا ہے۔ فشار کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں یا اپنے اہل و عیال یا مومنین سے سختی کرنے والوں کو زمین دباتی ہے۔

قیامت کے دن گناہگار مومنین کی شفاعت معصومین فرمائیںگے۔ لیکن برزخ میں کوئی شفاعت نہ ہوگی لہذا برزخ کے لئے ہر مومن کو خود اپنے اوپر بھروسہ کرنا پڑےگا۔ مرنے والے کے اعزا و احباب کا فریضہ ہے کہ وہ مرنے والے کے واجبات کو ادا کریں اسکے ذمہ جو حقوق خدا یا بندوں کے باقی ہوں انھیں بھی ادا کریں ، اسکے علاوہ ایصال ثواب کے لئے اعمال خیر بھی کریں تاکہ مومن کا برزخ آسانی سے گزر جائے۔

جو خدا کچھ نہ ہونے پر ساری دنیا کو پیدا کر سکتا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے اور دنیا کے ختم ہونے کے بعد اسے دوبارہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔

وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ جن مرنے والوں کی لاشیں زمین پر پڑی رہتی ہیں یا جلا دی جاتی ہیں یا دریا میں ڈال دی جاتی ہیں یا جن لاشوں کو چیل کوے یا درندے کھا جاتے ہیں ان سب کی روحوں کو بھی برزخ میں رکھے اگر چہ ان کی تکلیف یا راحت ہم کو نظر نہیں آتی۔

ایک بار ایک کافر کی کھوپڑی ایک شخص نے پانچویں امامؐ کے سامنے پیش کی اور پوچھا کہ یہ کھوپڑی ٹھنڈی ہے اس کو عذاب کہاں دیا جا رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے پتھر منگائے اور پوچھنے والے سے کہا کہ دیکھو یہ ٹھنڈے ہیں یا نہیں اُسنے چھو کر کہا کہ ٹھنڈے ہیں۔ امامؐ نے فرمایا کہ ان کو ایک دوسرے سے رگڑو۔ رگڑتے ہی پتھر سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس ٹھنڈے پتھر کے اندر آگ رکھ سکتا ہے وہ اس ٹھنڈی کھوپڑی کو بھی آگ کی سزا دے سکتا ہے۔ وہ شخص جواب سن کر امامؐ کو دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

عمل اور حساب

اللہ نے بندوں کو عمل کا موقع صرف دنیا میں دیا ہے۔ آخرت میں کسی کو عمل کا موقع نہیں ملےگا۔ جو لوگ اس دنیا میں نماز روزہ نہیں کرتے۔ زکوۃ خمس نہیں نکالتے۔ حج نہیں کرتے اور مر جاتے ہیں۔ وہ آخرت میں بہت پچھتائیں گے اور سوا افسوس کرنے کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں لگےگا۔ آخرت صرف جزا اور سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں ہے۔ عمل کرنے کے لئے صرف دنیا ہے۔ یہاں جزا اور سزا نہیں ملتی۔ اگر دنیا میں اچھے کامو٘ں کی جزا اور برے کاموں کی سزا مل جاتی ہوتی تو نبی ، امام اور اللہ کے نیک بندے مصیبتوں میں نہ رہتے اور نہ نمرود ، فرعون ، یزید جیسے برے لوگ راحت و آرام میں رہتے۔

خیرات کرنے سے بلائیں خرور دور ہوتی ہیں لیکن خیرات کا ثواب آخرت میں ملےگا۔ اسی طرح گناہوں سے بلائیں نازل ہوتی ہیں مگر گناہوں کی سزا آخرت میں ملنے والی ہے۔

اللہ نے دو دو ملک ہر انسان پر معین کئے ہیں جو اس کے ہر کام کو لکھتے رہتے ہیں۔ حساب کے دن ملائکہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے انسان کو دئے جائیں گے جس کے بعد کوئی شخص اپنے گناہوں سے انکار نہ کر سکےگا۔ اعمال نامہ کے علاوہ ہمارے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، کان سب اعضا بھی ہمارے ان تمام گناہوں کی گواہی دیںگے جو گناہ ہم نے ان اعضا سے کئے ہوںگے۔

اللہ نے جنت یا دوزخ میں جگہ دینے سے پہلے حساب کتاب اسلئے رکھا ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اعراض نہ کر سکے۔ اگر خدا پیدا کرتے ہی ہر انسان کو جنت یا دوزخ میں بھیج دیتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ بغیر گناہ کے دوزخ میں کیوں ڈالا اور بغیر عبادت کے جنت میں جگہ کیوں دی۔ اعمال کے بعد کوئی شخص خدا پر اعتراض نہ کر سکےگا۔