امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں0%

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید بہادر علی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 11926
ڈاؤنلوڈ: 2994

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11926 / ڈاؤنلوڈ: 2994
سائز سائز سائز
امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

کتاب کا نام: امام حسین علیہ السلام(ع)قرآن وسنت کےآئینے میں

مؤلف: سید بہادر علی زیدی قمی

کمپوزنگ: مبارک زیدی

طبع : اوّل جملہ حقوق بحق ناشرمحفوظ ہیں

ذرائع: امام حسین علیہ السلام(ع)فاؤنڈیشن

عرض ناشر

پروردگارعالم نےتخلیق کائنات کے بعدجب روئےزمین پرسلسلہ بشریت کاآغازکیاتوحضرت انسان کویہاں اشرف المخلوقات بناکربھیجا اوراسکی خلقت کاہدف معین کرتےہوئےاعلان کیاکہ ہم نےاسےاپنی عبادت کیلئےپیداکیا ہےاوریہ زمین پرہماراجانشین رہےگا۔

ادہرحاسد ابلیس نےانسان کےاس شرف وعظمت کو دیکھ کرتہیہ کیا کہ وہ انسان کی راہ کمال میں رکاوٹ ڈالتا رہےگا اور اسکی سعادت مندزندگی کو بربادکرکے اسے جہنم میں اپنے ساتھ لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ لیکن پروردگار عالم نے انسان کو اس بدبختی و بربادی سے بچانے کے لیے کہ کہیں وہ دنیا کی چمک دمک کو دیکھ بہک نہ جائے۔ شروع ہی سے سلسلہ ہدایت کا آغاز کیا بلکہ جب پہلا انسان ہی دنیا میں بھیجا تو ہادی بناکر بھیجا تاکہ بعد والے انسان نورِ ہدایت میں پروان چڑھیں اور قیامت میں کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔

یہی نہیں بلکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے مسلسل انبیاء بھیجتا رہا اور آخر میں ہمارے پیارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضورسرورکائنات کے نور سے دنیا منورہوئی اور پروردگار نے آنحضرت کی سیرت و کردار کے ساتھ کتاب ہدایت ، قرآن کریم کو بھی بشریت کی ہدایت کیلئے بھیجا پھر آنحضرت بحکم خدا اپنے بعد اس سلسلۂ ہدایت کو باقی رکھنے کیلئے کتاب خدا اور اپنی پاکیزہ آل کو امت کے درمیان چھوڑ گئے۔

ادھر ابلیس اپنی ناپاک کاروائیوں میں مصروف عمل رہااورمختلف انداز سےدنیاکےتجملات کےذریعہ انسانوں کو راہ ہدایت وسعادت سے تاریکی وگمراہی کی طرف کھینچتارہالہٰذاگمراہ اورہوائےنفس کاشکارہونےوالےخودبھی تعلیمات پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورقرآن کریم میں شبہات پیداکرنےلگے اور دوسروں کیلئےبھی طرح طرح کی مشکلات پیداکرتےرہےبلکہ آج تک دشمنان دین خدا کی جانب سےشدت کےساتھ یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن ہردورمیں علماءحقہ دین وشریعت اسلام کا قرآن کریم و سنت کی روشنی میں دفاع کرتے رہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔

انوار القرآن اکیڈمی پاکستان بھی عصری تقاضوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس عزم و ارادہ کا اظہار کرتی ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دشمنان دین خدا کی جانب سے ہونے والے اعتراضات یا مذہب حقّہ شیعہ اثنا عشری کے مخالفین کے بہترین ، مسکت اور مناسب جواب دے سکے، اسی طرح اپنی قوم و ملت کو قرآنی معلومات، تفسیراور معارف قرآنی سے متعلق خاطر خواہ معلومات فراہم کرسکے۔

ادارہ نے کربلا شناسی اور امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب کو قرآن کریم و سنت کی روشنی میں متعارف کرانے کیلئے مؤلف محترم سے اظہار خیال کیا تو انہوں نے انتہائی قلیل وقت میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ادارہ کی فرمائش پر یہ مختصر کتاب ”امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینہ میں“ تیار کی ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ امید ہے کہ آپ اس سےخاطرخواہ استفادہ فرمائیں گے۔

ادارہ محترم مؤلف اور ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس کتاب کو آپ کے ہاتھوں میں پہنچانے کیلئے کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا ہے۔

آخر میں خداوند متعال سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں قرآن کریم کی صحیح معرفت سے بہرہ مند فرمائے تاکہ ہم بہتر سے بہتر انداز میں اس کی تعلیمات پر عمل کرسکیں اور اس کی خدمت میں دن و رات کوشاں رہیں۔

آمین

مقدمہ

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰه الذی هدانا والصلواة علیٰ مولانا محمد المصطفیٰ و علیٰ المرتضیٰ و فاطمة الزهرا والحسن والحسین سیدی شباب اهل الجنة

اما بعد:

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی نگاہ نبوت سے دیکھ رہے تھے کہ مستقبل میں دین خدا کی بقاء حسین علیہ السلام مظلوم کے قیام و شہادت پر منحصر ہے لہٰذا آنحضرت نے اس سلسلے میں موثّر ہونے والے تمام مقدمات فراہم کیے اور ہر قدم اور ہر منزل پر اپنی رفتار و گفتار سے امت مسلمہ کو امام حسین علیہ السلام کی جانب متوجہ کیا تاکہ چھوٹے بڑے، جاہل و عالم، مرد وعورت سب کے سب حسین علیہ السلام سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس انداز محبت کو دیکھیں اور ذہن نشین کرلیں تاکہ جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی نصرت کا وقت آئے تو لوگوں کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت و سنت یاد آجائے کہ حضور سرور کائنات کس طرح عملی طور پر امام حسین علیہ السلام کی محبت کا ثبوت اور آپ کی عظمت کا اعلان فرماتے تھے خصوصاً آیات کریمہ کی تفسیروں کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کی منزلت کو کس طرح بیان فرماتے تھے، تاکہ جب امام حسین علیہ السلام مظلوم نصرت کیلئے پکاریں تو لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کو دیکھ کر آیۂ تطہیر، آیۂ مباہلہ اور دوش پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حسین علیہ السلام کی سواری، لبوں پر بوسہ کرنا، سینہ سے لپٹانا، حسین علیہ السلام کیلئے آنحضرت کا ناقہ بننا وغیرہ یاد آجائے۔

مگر افسوس امت نے یہ سب کچھ بھلادیا اور حسین علیہ السلام مظلوم کربلا تپتے صحراء میں تین روز کی بھوک و پیاس کی شدت میں اپنے بہتر(٧٢) ساتھیوں کے ساتھ اسلام کی حفاظت کی خاطر ڈٹے رہے اور

هل من ناصر ینصرنا

کی صدائیں بلند کرتے رہے لیکن کسی نے آپ کی نصرت کی طرف قدم نہ بڑھایا مگر امام حسین علیہ السلام کی تشنہ لبی قیامت تک کے لئے اسلام کو سیراب کرگئی۔ خود پیاسے رہ کر اسلام کو سیرابی عطا کردی اور تابہ قیامت اسلام تازہ دم ہوگیا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس عظیم سیرت اور امام حسین علیہ السلام کے اس لاثانی کردار کا ہی نتیجہ ہے جو بعض مخالفین اہل بیت جیسے عبداللہ ابن عمر اوربہت سے صحابہ و تابعین نے کربلا کے بعد یزید کو خطاکار یا فاسق و فاجر کہا ہے یا اس کی تکفیر اور سید الشہداء کی تمجید کی ہے۔ اور آج بھی وہ علمائے کرام جن کے یہاں انصاف پایا جاتا ہے قیام امام حسین علیہ السلام کو اسلام کی بقا کا ضامن تحریر کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔

حقیر نے بھی انوار القرآن کریم اکیڈمی پاکستان کی فرمائش پر قرآن و سنت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا ایک سرسری جائزہ لیا ہے تاکہ امت مسلمہ کا ہر شخص خصوصاً نوجوان امام حسین علیہ السلام کی سیرت، فضائل اور قیام کو قرآنی دلائل اور احادیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں مطالعہ فرمائیں اور اپنی بصیرت میں اضافہ کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے سچے شیدائی بن سکیں۔کیونکہ ان کی سیرت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کا آئینہ ہے۔

ان سے محبت، خدا و رسول سے محبت و سرمایہ نجات ہے۔

آخر میں خدا سے دعا ہے کہ ہم سب کو امام حسین علیہ السلام کاسچا محب قرار دے تاکہ ہم عشق حسین علیہ السلام سے عشق خدا کا قرینہ حاصل کرسکیں۔

احب اللّٰه مَن احب الحسین ۔

احقر العباد

سیدبہادرعلی زیدی ٢١ ذی الحجہ ١٤٢٨ھ

پہلی فصل

امام حسین علیہ السلام قرآن کریم کی نظر میں

قرآن کریم کے اندر امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ بعض افراد نے ٢٨ا آیات اور بعض نے ٢٥٠ آیات بیان کی ہیں۔ بعض آیات بطور آشکار امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ بعض آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر و تاویل کی گئی ہے۔

ان آیات کی مندرجہ ذیل تقسیم بندی کی جاسکتی ہے۔

١) وہ آیات جو بر بنائے منابع تفسیری و روائی امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہیں:

(اسراء:٣٣، مریم:١، حج:٦٠، احقاف:١٥، رحمٰن:٢٢، نازعات:٦، تکویر:٨، فجر:٢٧، تین:١)

۲) بعض وہ آیات ہیں جو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کی جاتی ہیں:

بقرہ: ٨٤ و ١٩٣، نساء:٣١و ٧٧، انعام:٦٢، انفال: ٧٥، اسراء: ٤و٦ ، مریم: ٧، حج: ١٩ و ٤٠، عنکبوت: ١٥، صافات: ٨٨ و٨٩، زخرف: ٢٨، دخان:٢٩، نبأ: ١٨، عبس: ٢٥، انشراح:١۔

۳) بعض وہ آیات ہیں جو امام حسن اور امام حسین علیہ السلام علیہما السلام کی شان میں ہیں:

آل عمران:٦١، نساء:٣٦ و ٦٩، انعام: ٨٤، نور: ٣٥، فرقان: ٧٤، احزاب:٤٠، رحمن:١٧، واقعہ:٨٩، حدید: ١٢ و ٨٨، تغابن، فجر: ٣، بلد: ٣ و ٩، بروج:٣، شمس:٢و٣۔

۴) بعض آیات ہیں جو پنجتن پاک آل عبا علیہم السلام کے بارے میں ہیں۔

بقرہ:٣٧ و٥٤ و٦٠ و١٢٤ و ٢٣٨، آل عمران: ٧ و ١١٠، نساء: ٤٣، مائدہ:٥٤، اعراف: ٤٦و ١٥٧، یونس: ٦٣، نحل:٤٣، اسراء:٤٤، مؤمنون:١١١، فرقان:١٠و٥٤، فاطر: ٣٢، صافات:١٦٥ و١٦٦، شوریٰ: ٢٣، طور: ٢١، حشر:٩، صف:٤، حاقہ:١٧، انسان:٧، مرسلات:٤١۔

۵) بعض وہ آیات ہیں جو بارہ امام یا چودہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ہیں:

بقرہ: ٣١، ٣٥، ١٣٦، ١٣٧، ١٤٣، ٢٥٦ ؛ سورہ آل عمران: ٣٦، ٩٥، ١٨٥ اور ٢٠٠؛ سورہ نساء: ٥٩؛ سورہ مائدہ: ٥٦؛ سورہ توبہ: ٣٦؛ سورہ ہود: ٩١؛ سورہ ابراہیم: ٢٤؛ سورہ حجر: ٤٥، ٤٦، ٤٧ اور ٧٥؛ سورہ نحل:٩٠؛ سورہ اسراء: ٧١؛ سورہ طہ: ١١٥؛ سورہ حج: ٧٧؛ سورہ نور: ٣٦، ٣٧ اور ٥٥؛ احزاب:١٢ اور ٣٣؛ سورہ صافات: ٨٣؛ سورہ شوریٰ: ٢٣؛ سورہ واقعہ:١٠؛ سورہ انسان: ٥؛ سورہ کوثر: ١۔

٦) بعض وہ آیات ہیں جو پنجتن و دیگر افراد جیسے جناب حمزہ ، جعفرطیار، عقیل اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بارے میں ہیں:

آل عمران: ٣٣، کہف:٢، حج:٤٠، فاطر:٢١، غافر:٧، تحریم:٨، مطففین: ٢٢۔

ان کے علاوہ بھی اور بیشمار آیات ہیں جن کے ذیل میں امام حسین علیہ السلام کے بارے میں روایت وارد ہوئی ہیں۔

جیسے:بقرہ:٤٩و ١٩٥و١٩٦و١٩٩، آل عمران:٣٤و٤٥و٤٩و ١٠٣، نساء:٥٦، مائدہ:١ و٣٥، انعام: ٦٢، اعراف:١٩٩، یوسف:١٣و ١٤و٦٧، اسراء:٧و١٧، مریم:٥٥، نور:٣١، نحل:٤٠، شعراء:٢٢٧، قصص: ٥و٢١، احزاب:٢٣ و ٥٨، زمر:٤٦،٦١، غافر:٧١، مجادلہ:٧۔

(تاویل الآیات الظا هرة فی فضائل العترة الطاهرة؛ الحسین فی القرآن کریم) (تاویل آیات القرآن کریم فی سید الشهداء)

نام امام حسین علیہ السلام اور قرآن کریم

کبھی کبھی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرتا ہے یا ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ جب امام حسین علیہ السلام اور خاندان عصمت و طہارت کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد ٢٥٠ تک بیان کی جاتی ہے تو پھر امام حسین علیہ السلام کا نام مبارک قرآن کریم میں کیوں نہیں آیا ہے؟

اگر بارگاہ خدا میں آپ عظیم المرتبت ہوتے تو یقینا دیگر انبیاء و اولیاء کی طرح آپ کے نام نامی کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہوتا!

جواب:

اولاً: سوال کا انداز بتارہا ہے کہ معترض یہ سمجھتا ہے کہ امت کے ہادی و رہبر اور واجب الاطاعت امام کے نام کا آسمانی کتاب میں ذکر ہونا ضروری ہے۔اسکے خیال میں ہادی و راہنما کی پہچان کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔حالانکہ قرآن کریم کےمطالعہ سےپتہ چلتاہےکہ خودقرآن کریم نےہادی وراہنما اورالٰہی شخصیات کےتعارف کیلئےمصلحت کی بناء پر تین مختلف طریقے استعمال کیئے ہیں:

١۔ بیان اسم:

انجیل میں حضورسرورکائنات کااسم مبارک بیان کرکےتعارف کرایاگیاتھا:

( وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ )

(سورہ صف، آیه ٦ )

اسی طرح حضرت داؤد کا نام مبارک بطور خلیفہ آیا ہے:

( يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ )

(سورہ، ص، آیه ٢٦)

۲۔ بیان عدد:

کبھی پروردگاراپنےخاص بندوں کےنام ذکرنہیں کرتاہےبلکہ ان کی تعداد بیان کرتاہےجیساکہ قرآن کریم بنی اسرائیل کےنقباءاورحضرت موسیٰ کے انتخاب کےمطابق کوہ طور پرانکےہمراہ جانےوالوں کی تعداد بیان کرتاہے۔

(سوره مائد، آیه ١٢٥ ؛ اعراف، آیه ١٥)

۳۔ بیان صفت:

کبھی کبھی قرآن کریم، الٰہی شخصیات اور خاصان خدا کی پہچان و تعارف کیلئے نہ نام بیان کرتا ہے اور نہ ہی ان کی تعداد بتاتا ہے بلکہ ان کی مخصوص صفات بیان کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں صفات کمالیہ کے ذریعہ پہچان لیں۔

(پرسش ها و پاسخ ها ص ١٨٢)

اورکبھی قرآن کریم نےنام اورصفت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیاہے جیسے آیۂ طالوت اورکبھی فقط ذکر صفات پر اکتفاء کیا ہے، جیسے:

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ )

(سوره مائدہ: آيه٥٤)

اے ایمان لانے والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (کچھ پروا نہیں پھرجائے) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کردے گا جنہیں خداوند دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔ایمانداروں کےساتھ منکسر(اور)کافروں کےساتھ کڑے خدا کی راہ میں جہاد کریں گےاورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے۔

امامت خاصہ (یعنی کسے امام ہونا چاہیے)کےسلسلے میں قرآن کریم نے راہ سوم کا انتخاب کیا ہے۔ بعض آیات میں صراحتاً امامت کے موضوع کو بیان کیا گیا ہے اور مختلف آیتیں مثلاً آیۂ تبلیغ، آیہ ولایت، آیۂ اولی الامر، آیہ صادقین، آیۂ ذوی القربی وغیرہ اس موضوع کو وضاحت کےساتھ بیان کررہی ہیں۔جبکہ بعض دوسری آیات مثلاً مباہلہ و تطہیر وغیرہ ضمنی طور پر اس مسئلہ کو بیان کررہی ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں شیعہ نقطہ نظر کے مطابق امام میں دو خصوصیات خاص طور پر ہونی چاہئیں۔ عصمت اور علم لدنّی۔(بقرہ: ۲ آیت:١٢٤) (نمل: ۲۷ آیت ۴۰ ؛ آل عمران:۳ آیت٧) اور شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر کا اتفاق نظرہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدحضرت امیرالمؤمنین اور ان کے پاکیزہ فرزندوں کے علاوہ کسی میں بھی یہ صفات موجود نہ تھیں۔(پیام قرآن کریم: ج٩ ص ١٧٧)

ثانیاً: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم، معارف و احکام اسلامی کا اہم منبع ہے، اگر خدانخواستہ اس مقدس کتاب میں تھوڑی سی بھی تحریف ہوجاتی تو تمام مسلمانوں کیلئے یہ غیر معتبر ہوجاتا اور اس کے کسی مطلب کے صحیح ہونے کے بارے میں اعتماد قائم نہ ہوتا۔ نتیجتاً یہ بھی انجیل و توریت کی طرح مشکلات سے دوچار ہوجاتی۔

قرآن کریم کےتصرف وتحریف سےمحفوظ رہنےکےاسباب میں سےایک سبب یہ بھی ہےکہ معاصرین نزولِ قرآن کریم میں سے(زیدوابولھب کےعلاوہ)کسی کا نام بھی مقامِ تعریف وتنقید میں صراحت کےساتھ بیان نہیں کیا گیا ہے حالانکہ نیک لوگوں (مثلاً حضرت علی و عمار و سلمان و۔۔۔) کی تعریف اور مشرکین (جیسے ابوجھل و ۔۔۔) کی مذمت میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔

لہٰذااگرحضرت امام حسین علیہ السلام کا نام مبارک قرآن کریم میں ذکر کردیا جاتا تو بعض عداوت و دشمنی رکھنے والے قرآن میں ردّو بدل اور آپ کے نام مبارک کو ہٹانے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے لیکن اب جبکہ قرآن کریم میں ان کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے تو صرف زرخرید لوگوں کے ذریعہ آیات کی شان نزول وغیرہ میں خیانت کرتے رہے ہیں جیسا کہ سمرة بن جندب نے حاکم شام کے حکم سے وہ آیت جو امیرالمؤمنین کی شان میں تھی ابن ملجم کی شان میں بیان کی۔ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ جب خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضورحَسْبُنَا كِتَابُ اللَّه ‏، نعرہ بلند کیا جاسکتا ہے تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یہ لوگ خاموش بیٹھے رہتے!؟

پس یقیناًاگراہل بیت علیہم السلام کا نام قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ آجاتا تو یہ لوگ ان آیات کو حذف کردیتے بالکل اسی طرح جیسے آج بہت سی کتابوں میں سے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل حذف کیئے گئے ہیں اور کتابوں میں ردّ وبدل کی گئی ہے۔ دشمنان اہل بیت علیہم السلام ان کے نام قرآن کریم سے حذف کرتے او ریہی کہتے کہ ہمیں ”اتنا قرآن کریم کافی ہے“ اور سادہ لوح لوگ خاموش بیٹھے دیکھتے رہتے اور کچھ نہ بولتے بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کو شدید اذیتیں پہنچائیں اور لوگ خاموش رہے۔

ثالثاً: قرآن کریم میں ائمہ علیہم السلام کے اسماء نہ آنے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم نے فقط کلّی مسائل کو بیان کیا ہے جبکہ جزئیات کا بیان پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عائد کیا گیا ہے مثلاً قرآن کریم میں نماز کا عام حکم آیاہے لیکن تین یا چار رکعت کا ذکرنہیں کیا گیا بلکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےنماز کی تمام جزئیات کو بیان کیا ہے۔

امام حسین علیہ السلام مصداق طہارت

آیۂ تطہیر:

( اِنّما یُرِیدُ اللّٰهُ لِیُذهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً ) ۔

(سورہ اِحزاب: ٣٣)

شیعہ اوراہل سنت کی متواتر احادیث سےثابت ہوتاہےکہ یہ آیہ کریمہ عالم خلقت کی ممتاز شخصیات کےزیر کساء،مقدس اجتماع کےبارےمیں نازل ہوئی ہے۔

یہ آیت اور اس سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث حضرت امام حسین علیہ السلام کی عصمت و جلالت اور بلندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اس آیت حدیث کساء اور اس کی اسناد و متون کے بارے میں مفصّل کتب ضبط تحریرمیں لائی گئی ہیں جبکہ بعض راویوں مثلاً صبیح نےمختصرطورپرنقل کیاہے۔

(اسد الغابة ج١٣ ص ١١، الاصابه ج٢ ص ١٧٥۔ ٤٠٣٣)

مختلف صاحبان قلم جیسے:مسلم، بغوی، واحدی، اوزاعی، محب طبری، ترمذی، ابن اثیر، ابن عبدالبر، احمد، حموینی، زینی، دحلان، بیہقی وغیرہ نے جناب عائشہ، امّ سلمہ، انس، واثلہ، صبیح، عمر ابن ابی سلمہ، معقل بن یسار، ابی الحمراء، عطیہ، ابی سعید اور امّ سلیم سے اس واقعہ جلیلہ و منقبت عظیمہ کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔(صحیح مسلم، ج٧، ص ١٣٠؛ مصابیح السنہ، ج٢، ص ٢٧٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص ٢٤؛ ترمذی، ج٢٣، ص ٢٠٠، ٢٤٢ و ٢٤٨؛ اسد الغابة، ج١، ص ١١ و ١٢؛ ج٢، ص ٢٠ و ج٣، ص ٤١٣؛ الاصابة، ج٢، ص ١٧٥ و ٤٣٣؛ اسباب النزول واحدی، ص ٢٦٧؛ المحاسن والمساوی بیہقی، ج١، ص ٤٨١)

آیہ تطہیرصرف اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت، اصحاب کساء یعنی پیغمبر اسلام، حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہ السلام علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

شیعہ و سنی مصادر میں مختلف طرق سے وارد ہونے والی روایات ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ روایات امّہات المؤمنین، صحابہ و تابعین اور ائمہ علیہم السلام سے نقل کی گئی ہیں جنہیں چار گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

(حسینی مرعشی، احقاق الحق، ج٢، ص٥٠٢، ٥٧٣؛ موحد ابطحی، آیہ تطہیر فی احادیث الفریقین، ج١، ص٢)

١۔ روایات مکان نزول:

٭ حاکم نیشاپوری مستدرک صحیحین میں رقمطراز ہیں:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ فِي بَيْتِي نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ ( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ) ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ إِلَى فَاطِمَةَ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْن‏فَقَال‏: اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي‏قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّه‏! مَا أَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْت﷩‏؟قَالَ إِنَّكِ لَعَلَى خَيْر وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي‏ اللَّهُمَّ أَهْلِي أَحَق ‏۔

حاکم اس حدیث شریف کو بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح مانتے ہیں۔

(نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج٣ ، ص ٢٥)

جناب امّ سلمہ اس آیۂ کریمہ کے محل نزول کو اپنا گھر بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو زیر کساء جمع کرکے دعا فرمائی اور میرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرے اہل بیت علیہم السلام بس یہی افراد ہیں۔

٭ حضرت عائشہ کہتی ہیں: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک دن بردیمانی کے ہمراہ تھے کہ امام حسن علیہ السلام آئے پیغمبر(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نے انہیں چادر میں لے لیا پھر امام حسین علیہ السلام آئے وہ بھی چادر میں چلے گئے پھر علی و فاطمہ علیہا السلام بھی زیر کساء چلےگئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔

(صحیح مسلم، ج٧، ص ١٣٠؛ مصابیح السنه ، ج٢، ص ٢٧٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص ٢٤۔)

”اوزاعی“ شدّاد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب دربار میں سر امام حسین علیہ السلام لایا گیا تو ایک مرد شامی نے امام اور ان کے والد بزرگوار کی شان میں جسارت کرنا شروع کردی، یہ دیکھ کر واثلہ بن اسقع کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم؛ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک دن جناب امّ سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ حسن علیہ السلام آئے آپ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نے انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا پھر امام حسین علیہ السلام آئے انہیں بھی اپنی آغوش میں بائیں طرف بٹھالیا، پھر فاطمہ علیہاالسلام آئیں انہیں اپنے سامنے بٹھایا پھر علی کو بھی بلاکر اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا:

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ) ۔

اس وقت سے میں علی فاطمہ زہرا اور حسن و حسین سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔

(اسد الغابة ج٢، ص ٢٠)

٢۔آیت کی تفسیر بیان کرنے والی روایات:

٭ تفسیر طبری میں ابوسعید خدری سے اس طرح روایت کی گئی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي خَمْسَةٍ: فِيَّ وَ فِي عَلِيٍّ وَ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ وَ فَاطِمَةَ

(جامع البیان ج١٢، ذیل آیهْ۔)

اس روایت میں سبب نزول آیہ تطہیر صرف و صرف اصحاب کساء، انوار خمسہ سے مختص ہے۔

٭ مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے:

أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِينَ أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهَّرَهُمْ تَطْهِيراً، وَ خَدّهُم فِي يَدِهِ فَقَال‏: خَمْسَةٍ رَسُولِ اللَّهِ وَ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْن ۔

(ھیثمی؛ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٦٥و ١٦٧۔)

اس روایت میں بھی سبب نزول آیت، اہل بیت علیہم السلام ہی سے وابستہ ہے اور آیت کے عینی و خارجی مضمون کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔

٭ صحیح مسلم میں زید ابن ارقم سے نقل کیا گیا ہے کہ کیا زنان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہلبیت علیہم السلام میں شمار ہوتی ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں:

لَا، وَ ايْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَ قَوْمِهَا، أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ وَ عَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِّمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه ‏۔

(مسلم نیشاپوری، صحیح مسلم، ج٧، ص ١٣٣۔)

اس روایت میں سرور کائنات کے مشہور صحابی زنان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عنوان اہلبیت علیہم السلام کے صادق آنے کی نفی کرتے ہیں۔

٣۔ نزول آیہ تطہیر کے بعد آنحضرت کے عمل کو بیان کرنے والی روایات:

جلال الدین سیوطی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:

شهدت رسول الله تسعة اشهر یأتی کل یومٍ باب علی بن ابی طالب عند وقت کل صلاة فیقول: السلام علیکم و رحمة الله و برکاته اهل البیت،( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً )

(الدرالمنثور، ج٦، ذیل آیہ۔)

اس روایت سے واضح ہے کہ سرکار رسالت، سرور کائنات نو ماہ تک روزانہ بوقت نماز در خانۂ علی و بتول و حسنین علیہم السلام پر آتے اور با آواز بلند فرماتے:

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ )

اور اہل بیت علیہم السلام کہہ کر سلام فرماتے تھے۔

٤۔ ائمہ و بعض صحابہ کا اس آیت کے ذریعہ احتجاج بیان کرنے والی روایات:

طبری، ابن اثیر اور سیوطی نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی بن الحسین (امام سجادعلیہ السلام) نے امام و اسیران کربلا کی توہین کرنے والے مرد شامی سے فرمایا: اے شخص کیا تو نے سورہ احزاب کی اس آیت

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ )

کو پڑھا ہے؟ کہا: کیوں نہیں؟ لیکن کیا آپ ہی اس کے مصداق ہیں؟ امام نے فرمایا: ہاں ہاں۔

(جامع البیان، ج١٢، ذیل آیه؛ الدرالمنثور ج٦، ذیل آیه؛ تفسیر القرآن کریم العظیم ج٣، ذیل آیه)

البتہ مذکورہ روایت دیگرمصادرمیں کامل طورسےآئی ہے اور امام نے اس طرح جواب دیا ہے:

''نحن اهل البیت الذی خصصنا بآیة التطهیر ۔''

(خوارزمی، مقتل الخوارزمی، ج٢، ص ٦١)

توجہ:اس موقع پر اس اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا مناسب ہے کہ نہ صرف یہ کہ تمام شیعہ علماء ودانشمندحضرات اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ آیت تطہیرانوارخمسہ، اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہوئی ہے بلکہ بعض منصف مزاج اہل سنت حضرات نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ یہ آیہ مبارکہ صرف و صرف اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت انوار خمسہ طیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ مثلاً:

١۔ علامہ بھجت آفندی:

”امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ آیہ

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ )

حضرت علی وفاطمہ وحسن وحسین علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“

(بهجت افندی: تاریخ آل محمد (طبع آفتاب، ص ٤٢)

٢۔ علامہ حضرمی:

“حدیث آیہ تطہیر حدیث صحیح و مشہور و مستفیض ہے جو معنی و مدلول کے اعتبار سے متواتر اور امت اسلامی کے نزدیک مورد اتفاق ہے۔”

(حضرمی: القول الفصل، ج١ ، ص ٤٨)