امام حسیؑن مصداق شہداء
(
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا
)
(نساء، آيه٦٩)
اور جو بھی اللہ و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔
جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
(
الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ
)
'' میں ہوں،(
الصِّدِّيقِينَ
)
سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،(
الشُّهَدَاء
)
سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،(
الصَّالِحِينَ
)
سے مراد حمزہ اور(
حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا
)
سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔
(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)
امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں
(
وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
)
(سوره زخرف ، آيه٢٨)
اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔
ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
”جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ
“۔
پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔
پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)
سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام
سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔
ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔
اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔
اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔
بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔
علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:
''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے
(
يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة
)
نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔
(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)
نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم
اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:
(
أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا
)
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔
(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)
یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟
شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔
نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔
شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ
جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟
متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔
”فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ
“
تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔
فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔
آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔
ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔
تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔
بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)
(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )
دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔
اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔
الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔
ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)
(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)
ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔