امام حسین علیہ السلام ثاراللّٰہ
امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”ثَارَ اللَّه
“ مشہور ہے ، اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام پر اس لقب کا اطلاق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: کلمہ ”ثَارَ“ ، ''ثأر'' و ''ثُؤرہ'' سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتقام، خون خواہی اور خون ہیں۔
(مجمع البحرین، ج١، ص٢٣٧؛ فرهنگ فارسی، ج١، ص ١١٨٥؛ مفردات راغب، ص٨١)
”ثَارَ اللَّه“ کےمختلف معنی بیان کئے گئے ہیں اورمجموعی طور پراسکےمعنی یہ ہیں کہ اللہ ان کا ولی ہے اور وہی ان کے دشمنوں سے خون بہا چاہتا ہے اس لئے کہ کربلا میں امام مظلوم کے خون بہانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قاتلوں نے حریم وحرمت الٰہی سےتجاوز کیا ہے اور وہ خالق کائنات کے مدّ مقابل آگئے تھے بنابریں ان کے انتقام کا حق بھی خدا ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت ''آل الله'' ہیں لہٰذا ان کے خون کا بدلہ بھی خدا ہی کے ذمّہ ہے۔
(درسهائی از زیارت عاشورا، ص ١٤؛ شرح زیارت عاشور، ص ٣٥)
پروردگار عالم قرآن پاک میں ارشاد فرمارہا ہے:
(
مَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَد جَعَلْنَا لِوَلِیّهِ سُلْطَاناً
)
؛ (سورہ اسراء، آيه٣٣)
جسے مظلومانہ قتل کیا گیا ہے ہم نے اس کے ولی کے لئے حق قصاص قرار دیا ہے۔
اور پھر دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
(
اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِین اٰمَنُوا
)
، (سورہ بقرہ، آيه ٢٥٧)
خدا اہل ایمان کا ولی و سرپرست ہے۔
بلاشک اہل بیت علیہم السلام مؤمنین اول ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کےبلندترین درجہ پرفائزہیں۔لہٰذا خداوندعالم درحقیقت ان مقدس حضرات کا ''ولی'' و سرپرست ہے۔
دنیا میں کوئی بھی اگر مظلومانہ قتل کردیا جائے تو اس کے اولیاء اور متعلقین کوحق قصاص و خون بہا حاصل ہے۔ بنابریں کیونکہ امام حسین علیہ السلام راہ خدا میں مظلومانہ شہید کئے گئے ہیں لہٰذا ان کا ولی و سرپرست ہونے کے ناطے وہ ہی منتقم خون حسین علیہ السلام بھی ہے اگرچہ بظاہر ان کی آل و اولاد کیلئے حق قصاص محفوظ ہے۔(سورہ اسراء، آيه ٣٣)
یہ بات بھی بیان کردینا مناسب ہے کہ کلمہ ”ثَارَ اللَّه “ امام حسین علیہ السلام کی کئی زیارات میں استعمال ہوا ہے جیسے زیارت عاشور وغیرہ یہ مقدس زیارت محدّثین و راویوں کے نقل کے مطابق احادیث قدسی میں سے ہیں یعنی درحقیقت یہ الفاظ معصوم میں کلام خدا ہے۔
(مفاتیح الجنان، ص ٨٣٨؛ مصباح المتهجد، ص ٧٢٠؛ کامل الزیارات، ص٣٢٨؛ اقبال الاعمال، ص ٣٤١)
امام حسین علیہ السلام ثار اللّٰہ وعیسیٰ ابن اللّٰہ میں فرق
جب ہم زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھتے ہیں تو زیارت کے دوران ایک فقرہ زبان پر جاری ہوتا ہے
”السلام علیک یا ثارَ الله وابن ثارِه
“
یعنی سلام ہو آپ پر اے خون خدا اور اے فرزند خون خدا'' یہاں امام حسین علیہ السلام کو خون خدا کہنا کیا اسی طرح نہیں ہے جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ کو ''ابن اللہ'' کہتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کی شدت سے مذّمت کی ہے:
(
وقالت الیهودُ عُزیرابنُ اللّٰهِ وقالتِ النصاریٰ المسیحُ ابنُ اللّٰهِ ذالک قَولُهُم بِأَفواهِهِم یُضَاهِئُونَ قولَ الذین کَفَروامِن قبلُ قَاتَلَهُم اللّٰهُ أَنَّی یُؤفَکُونَ
)
؛
اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں۔ ان باتوں میں یہ بالکل ان کی مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے، اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے جارہے ہیں''۔
(سوره توبه، آيه ٣٠)
بعض لوگ یہ خیال کرتےہیں کہ امام حسین علیہ السلام کےلئےصفت ”ثَارَ اللَّه “ کا استعمال بالکل اسی طرح ہے جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ کے لئے صفت ''ابن الله'' استعمال کرتے ہیں اور کیونکہ قرآن کریم اس کی شدت سے مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے لہٰذا قرآن کریم کے نقطہ نظر سے جس طرح حضرت عیسیٰ کو ''ابن الله'' کہنا صحیح نہیں ہے اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کےلیے ”ثَارَ اللَّه
“ و''ابن ثاره
'' کہنا صحیح نہیں ہے۔
جواب: اعتراض کرنے والوں کے اعتراض سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ یہ لوگ ”ثَارَ“ کے معانی اور کلمۂ ”ثَارَ اللَّه
“ کے امام حسین علیہ السلام پر اطلاق سے نا آشنا ہیں۔ کیونکہ:
اولاً: عربی زبان میں کلمہ ”ثَارَ“ خون کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ”ثَارَ“ بمعنائے خون بہا و طالب خون آتا ہے
(لسان العرب، کلمه “ثَارَ”) بنابریں کلمہ ”ثَارَ اللَّه “ ''خون خدا''کےمعنی میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا خون بہا خداوند عالم سے متعلق ہے اور وہ ہی اس خون بہا کا حق رکھتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کےلئے اس کلمہ کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ امام مظلوم کا پروردگار عالم سے کتنا گہرا تعلق ہے کہ وہ ہی ان کے خون کا انتقام لینے والا ہے۔
(فرهنگ عاشورا، کلمه “ثَارَ”۔)
ثانیاً: بر فرض اگر ”ثَارَ“ کے معنا خون اور ”ثَارَ اللَّه “ کے معنی ''خون خدا'' ہیں تو یقینا یہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک طرح کی تشبیہ، کنایہ اور مجاز ہے۔ اس لئے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ خدا مادّہ نہیں ہے جو جسم و بدن سے مرکب ہو اورر اس میں خون گردش کرتا ہو۔
پس یہ محسوس کے ذریعہ معقول کی تشبیہ دی گئی ہے یعنی موضوع کی اہمیت کو اجاگر اور عام ذہنوں میں معنی کے منتقل کرنے کے لیے مجازاً استعمال ہوا ہے۔ یعنی جس طرح انسان کے بدن میں خون کی جو اہمیت اورقدروقیمت ہےکہ اگرانسان کےبدن سےخون ختم ہوجائےتو انسانی بدن فاسدہوکررہ جائےگا، انسان کی زندگی کادارومدارخون کی بقاء ونابودی پرہےبالکل اسی طرح بارگاہ خداوندی میں دین کی بقاء و نابودی کا دارو مدار امام حسین علیہ السلام کے مقدس وجود پر ہے۔
جبکہ عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ خدا کے حقیقی فرزند ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ کے علاوہ وہ کسی اور کیلئے اس کلمہ کا استعمال جائز بھی نہیں سمجھتے ہیں جیسا کہ کتاب قاموس مقدس کے مصنف نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے۔
علاوہ بر ایں قرآن کریم نے متعدد مقامات پر عیسائیوں کے خرافی و بدعتی عقیدہ کو نقل کیا ہے مثلاً:
(
و قالتِ النصاریٰ المسیح ابنُ اللّٰهِ
)
(سورہ توبہ، آيه٣٠)
عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ابن اللہ (اللہ کے بیٹے) ہیں۔
قرآن کریم شدت سے ان کے اس بدعتی عقیدے کی مذمت کرتا ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک دوسرے مقام پر ان کے اس عقیدے کی اس انداز میں شدید مذمت کرتا ہوا نظر آرہا ہے:
(
یا أهل الکتاب لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُم وَلَا تقولوا علٰی اللّٰهِ اِلَّا الْحقَّ اِنَّما المَسِیح ابنُ مَرْیَمَ رَسُول اللّٰهِ
)
(نساء، آيه :١٧١ )
اےاہل کتاب اپنےعقیدہ میں حدسےتجاوزنہ کرواورخداکےبارےمیں حق کےعلاوہ کچھ نہ کہو۔مسیح عیسیٰ ابن مریم صرف اللہ کےرسول ہیں۔
اگر عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا حقیقی فرزند نہ مانتے تو قرآن کریم ان کے اس عقیدہ کو ردّ نہ کرتا!
(تفسیر نمونه، ج٤، ص ٢٢٩، ج٧، ص٣٦٣)