ب: علمائے عامّہ
اس حدیث شریف کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔
منجملہ:
١۔ خطیب بغدادی ۔تاریخ بغداد
٢۔ ابن عساکر ۔تاریخ دمشق
٣۔ طبرانی ۔المعجم الکبیر
٤۔ ملا علی متقی ھندی ۔کنزالعمال
٥۔ محب الدین طبری ۔ذخائر العقبیٰ
٦۔ ھیثمی ۔مجمع الزوائد
٧۔ ابو نعیم اصفہانی ۔حلیة الاولیاء
٨۔ ابن حماد حنبلی ۔شذرات الذھب
٩۔وکیع ۔اخبار القضاة
١٠۔ ابن ماجہ ۔سنن ابن ماجہ
١١۔ حاکم نیشاپوری ۔ المستدرک علی الصحیحین
١٢۔ گنجی شافعی ۔ کفایت الطالب
١٣۔ ترمذی ۔سنن ترمذی
١٤۔ احمد بن حنبلی ۔المسند
١٥۔ ذہبی ۔ تاریخ الاسلام، سیرہ اعلام النبلاء
١٦۔ ابن حجر ۔ الاصابة
١٧۔ بغوی ۔ معجم الصحابہ
١٨۔ ابو القاسم سھمی ۔تاریخ جرجان
١٩۔ نھبانی ۔الفتح الکبیر
٢٠۔ابن حجر ھیثمی ۔الصواعق المحرقہ
٢١۔ سیوطی ۔الجامع الصغیر
٢٢۔ دیلمی ۔ فردوس الاخبار
٢٣۔ ابن ابی شیبہ ۔المصنّف
٢٤۔ نسائی ۔الخصائص
٢٥۔ ابن حبان ۔صحیح ابن حبان
٢٦۔ سمعانی ۔الانساب
٢٧۔ مناوی ۔فیض القدر
٢٨۔ البانی ۔سلسلة الاحادیث الصحیحة
امام حسین علیہ السلام محبوب پیغمبؐر
ایک مردمؤمن کی نظرمیں عظمت امام حسین علیہ السلام کی معرفت کیلئے پیغمبؐرعظیم الشان اسلام کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضؐور سرورکائنات نےارشاد فرمایا ہے:
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن
“
حسین علیہ السلام مجھ سےہیں اورمیں حسین علیہ السلام سےہوں۔
یعلی بن مرّہ کاکہناہےکہ پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نےحسین علیہ السلام کوگودمیں اٹھا کر فرمایا:
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط
“
حسین علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین علیہ السلام کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین علیہ السلام میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔(سنن ابن ماجه ، ج١، ص ٦٥؛ مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی ، ج١٣، ص ١٩٥ و ١٩٦؛ اُسد الغابة، ج ٥، ص ١٣٠ و٥٧٤ و ج٢ ص١٩؛ کنز العمال ، ج٦، ص ٢٣٣ و ج٣ ،ص ٣٩٥ ؛ مطالب السؤل، ص٧١)
بخاری، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔
”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“
حسین علیہ السلام مجھ سےہے اورمیں حسین سےہوں اللہ اسےدوست رکھتاہےجوحسین علیہ السلام سےمحبت رکھتا اوریادرکھوحسن وحسین علیہ السلام میرےاسباط میں سےدوسبط ہیں۔(الجامع الصغیر، ج١، ص١٤٨؛ کنزالعمال ج٦، ص٢٢٣ ح٢٩٥٣؛ امالی الشریف المرتضیٰ، ج١، ص ٢١٩)
”شرباصی“قاموس سے
”حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط و أمَّة من الاّمَمِ“
حسین علیہ السلام میرے اسباط میں سے ایک سبط اور امتوں میں ایک امت ہے،نقل کرنےکےبعدکہتےہیں:”سِبْطٌ“کےمعنی جماعت وقبیلہ ہیں اورشاید حدیث کےمعنی یہ ہیں کہ مقام ومرتبہ اورعظمت و رفعت کے اعتبار سے ایک امت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان کا اجر وثواب ایک امت کے اجر و ثواب کی مانند ہے۔
(حفیدة الرسول، ص ٤٠)
ابن اثیر جذری نے بھی اپنی معروف کتاب ”النِهَايَة“ میں اس حدیث کو مادۂ سبط میں نقل کیا ہے اور جملہ
”سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط
“
کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کارخیر میں امتوں میں سے ایک امت ہیں۔
جبکہ مرحوم طریحی،مجمع البحرین میں ایک دوسرے معنی بھی بیان کرتے ہیں اورکہتے ہیں''ممکن ہےکہ اس حدیث میں”سِبْطٌ“ ''قبیلہ''کےمعنی میں استعمال کیا ہو اوراس سےمراد یہ ہو کہ نسل پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
انہی سےقائم ودائم رہےگی اس لئے کہ ”سِبْطٌ“کےمختلف معنا میں سےایک یہ بھی ہیں کہ ”سِبْطٌ“ اس درخت کو کہتے ہیں جس کی بیحد شاخیں ہوں۔
ابن عبدالبراورمسلم وشبلنجی نےابوہریرہ سےروایت نقل کی ہےکہ حضؐور سرورکائناتت نےحسؑن وحسؑین کےبارےمیں فرمایاہے:
”اللَّهمَّ اِنّی اُحِبُّهمٰا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّهُمٰا
“
پروردگار میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان لوگوں سے محبت فرما جو انہیں دوست رکھے۔
(الاستیعاب،ج١، ص ٣٧٦؛ نور الابصار، ص١٠٤؛ السیرة النبویة ، ج٣، ص٣٦٨)
بُغوی،ترمذی،سیداحمدزینی، ابن اثیراورنسائی نےاسامہ سےروایت کی ہےوہ کہتےہیں: میں ایک شب کسی طلب حاجت کیلئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حضور گیا۔ حضؐور باہر تشریف لائے اور ان کی عباء میں کوئی چیز تھی لیکن مجھےیہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیاہے؟ میں نےاپنی حاجت بیان کرنےکےبعدسوال کیااےحبیب خدا یہ کیاہے؟حضؐورنےکچھ کہے بغیر اس کے اوپرسےعباء ہٹادی، دیکھا کہ حسؑن وحسیؑن ہیں؛ فرمایا:
”هذان اِبنَایَ وَ اِبنَا ابنَتِی اللَّهُمَّ اِنّی اُحِبُّهُما فَاَحِبَّهُما و أحِبَّ مَنَ یُحِبُّهُمٰا
“
یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے فرزند ہیں پروردگار یہ مجھے بہت عزیز ہیں جو انہیں عزیز رکھےتو بھی انہیں عزیز رکھ۔
جناب ترمذی نے اس روایت کو براء سے بھی نقل کیا ہے۔
(مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨٠؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٢ و ١٩٣ و ١٩٨؛أسد الغابة، ج٢ ، ص ١١؛ خصائص نسائی، ص ٥٢و ٥٣)
ترمذی و بغوی نے أنس سے روایت نقل کی ہے کہ جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال ہوا کہ آپ اپنے اہل بیت علیہم السلام میں زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسؑن و حسؑین سے۔
سیوطی و مناوی نے بھی نقل کیا ہے:
”أحَبُّ أَهْلِ بَیتِی اِلَیَّ الحَسَنُ والحُسَینُ
“
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤۔)
ترمذی و بغوی نے جناب أنس سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت فاطمؑہ سے فرمایا:
”اُدْعِی لِی اِبنَیَّ فَیَشُمُ هُمٰا و یَضُمُ هُممٰا الیهُم
“
(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)
اے بیٹی میرے بیٹوں حسؑن و حسیؑن کو بلاؤ، جب وہ آئے تو آنحضرؐت انہیں لپٹا کر پیار کرتے اور استشمام کرتے۔
اسی طرح احمد ابن حنبل، ابن ابی شیبہ، صَبان، محب طبری وغیرہ نے امام حسین علیہ السلام سے پیغمبر گرامی قدر کی محبت وا لفت اور والہانہ عشق و عقیدت کے بارے میں بیحد احادیث نقل کی ہیں۔
یہ تمام وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے محبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور محبت کا حکم دیا ہے اِسی طرح کی ایک روایت محب طبری نے ذخائر العقبیٰ میں اس انداز سے نقل کی ہے۔
وہ احمد ابن حنبل یعلی بن مّرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حسن وحسین علیہما السلام اپنے جدّ بزرگوار سرورکائنات کی خدمت میں مشرف ہونے کیلئے دوڑے دوڑے آئے ان میں ایک دوسرے سے پہلے پہنچ گئے حضور نےفوراً انہیں گودمیں لیکر اپنے سینہ سے لپٹالیا اور پیار کرنےلگے اورپھردوسرے فرزند پہنچے تو آنحضرؐت نے انہیں بھی اسی طرح اٹھا کر سینے سے لگا کر پیا رکیا اور پھر فرمانے لگے:
”اِنّی أُحِبُّ هُمٰا فَأحِبُّو هُمٰا“
میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تم لوگ بھی ان سے اسی طرح محبت کرو۔
اور دوسری وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے بغض کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ابن حجر ھیثمی اپنی معروف کتاب صواعق میں ہارون رشید سے اور وہ اپنے بزرگوں اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے:
”مَن أحَبَّ الحسن و الحسین فقد أَحَبَّنِی و مَنْ أَبْغَضَ هُمٰا فَقد أَبْغَضَنِی“
جو حسن وحسین علیہ السلام سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔(ابن حجر عسقلانی، صواعق، ص ٩٠؛ بحار الانوار، ج٤٣، ص ٣٠٣)
اس روایت میں دو نکتے قابل فہم ہیں اور وہ یہ ہے:
١۔ گویا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ محبت حسین ، محبت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی علامت ہے۔ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام سے محبت رکھنا اس لئے کہ مجھ سے محبت و عقیدت کا دارو مدار حسین علیہ السلام کی محبت پر ہے۔
اسی طرح حسین علیہ السلام سے دشمنی، پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دشمنی کی علامت ہے، جو بھی حسین علیہ السلام کا دشمن ہے، حسین علیہ السلام کے مشن کا دشمن ہے ، حسین علیہ السلام کی عزاداری کا دشمن ہے اور حسین علیہ السلام کی تعلیمات کا دشمن ہے وہ گویا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مشن اور ان کی تعلیمات کا دشمن ہے لہٰذا اگر محبت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا دعویٰ ہے تو یہ دیکھ لو کہ دل میں حسین علیہ السلام کی کتنی محبت ہے!؟
٢۔ در حقیقت امام حسین علیہ السلام سے دشمنی پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے دشمنی ہے لہٰذا خبردار کیا گیا ہے کہ دشمنان حسین سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے جو لوگ حسین علیہ السلام کے دشمن ہیں چاہے وہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ہوں خود ان سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف حسین علیہ السلام سے محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف امام حسن و حسین علیہما السلام کے دشمنوں کی محبت کو دلوں میں جگہ دے رکھی ہو یہ دونوں متضاد چیز ہیں محبت حسؑین نور ہے اور بغض حسیؑن تاریکی ہے، محبت حسیؑن ہدایت ہے اور بغض حسیؑن گمراہی ہے۔ لہٰذا محبت حسؑین کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رہے کہ دل میں ان کے دشمنوں کی محبت نہ آنے پائے۔
مسند احمد میں ہارون رشید کی بیان کردہ دو احادیث میں سے ایک کی عبارت کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے:
”الحسنُ والحسینُ مَنْ أحَبَّ هُما فَفِی الجَنَّة و مَنْ أَبغَضَ هُما فَفِی النَّار“
جس نے حسؑن و حسیؑن کو دوست رکھا وہ اہل بہشت میں سے ہے اور جس نے ان سے عداوت و دشمنی کی وہ اہل جہنم سے ہے۔(مسند احمد، ج٢ ، ص٢٨٨)
محبت حسیؑن کی عظمت و فضیلت اور بغض حسیؑن کی مذمت:
محبت و بغض حسیؑن کے سلسلہ میں وارد ہونے والی ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت حسیؑن کی فضیلت یہ ہے کہ ان کی محبت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی محبت ہے، ان کی محبت خدا کی محبت ہے اگر کوئی خدا پر یقین رکھتا ہے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت و رسالت پر ایمان لایا ہے اور ان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھے ان کا مطیع و فرمانبردار رہے ان کی پاکیزہ سیرت کو اپنے لیے نمونہ حیات قرار دے ورنہ محبت حسیؑن سے دل کو خالی رکھ کر اعلان توحید و رسالت پیغمبؐر فقط ایک دعویٰ ہی رہے گا اور اس کی کوئی حقیقت نہ رہے گی اور نہ ہی یہ عقیدہ توحید و رسالت اس شخص کو کوئی فائدہ ہی پہنچا سکے گا۔
اسی طرح ان تمام روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغضِ حسیؑن اور ان سے عداوت و دشمنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
حسیؑن سے عداوت و دشمنی کرکے ان روایات کی روشنی میں وہ مسلمانوں کا سربراہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے اسلام و قرآن کریم اور مزاجِ توحید و لسان وحی کے مطابق مسلمان کہلائے جانے کے قابل بھی نہیں ہے بلکہ دشمن حسین ، دشمن پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور دشمن خدا ہے اور روز محشر اس کا وہ ہی انجام ہونے والا ہے جو خدا رسول کے دشمنوں کا ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام راکب دوش رسالت
امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبؐر امام حسن و حسین علیہماالسلام کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً: ایک مرتبہ حضوؐر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حسؑن اور بائیں کاندھے پر حسیؑن تھے اور آنحضرتؐ کبھی امام حسن علیہ السلام کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔ اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی نے ابوہریرہ سے اسی طرح دیگر افراد نے ابن مسعود، جابر اور انس وغیرہ سے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے امام حسین علیہ السلام سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔
(الاصابة ج١، ص ٢٣٠، ح١٧١٩؛ الجامع الصغیر، ج٢ ، ص ١١٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣و ١٣٢)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مسلسل امام حسن و امام حسین علیہ السلام کو اپنے کاندھے پر سوار کیا ہے اور ان کی عظمت و فضیلت کا قصیدہ پڑھا ہے۔یہاں تک کہ یہ حضرات نماز و دیگرحالات میں بھی سواردوش رسالت ہوتےتھےلیکن پیغمبرؐنےکبھی انہیں منع نہیں بلکہ لطف ومحبت کااظہارکرتےاورلوگوں کوبھی ان سےمحبت ودوستی کا حکم فرماتے تھے۔ ابو سعیدنے ''شرف النبوّة'' میں روایت کی ہےکہ آنحضرتؐ تشریف فرماتھےکہ حسؑن وحسیؑن ان کی طرف آئےپیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نےجیسےہی انہیں دیکھا،کھڑےہوگئےاورانہیں گود میں لیکر اپنے کاندھوں پرسوار کرلیا، پھر فرمایا:
” نِعْمَ المَطِیُّ مَطِیَّتُکما، و نِعمَ الرَّاکبانِ أنْتُمٰا“
(ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)
کتنی اچھی سواری ہے یہ، اور کتنے اچھے سوار ہو تم۔
شبلخی نے اس طرح روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرؐت کا حسن و حسین کے پاس سے گزر ہوا تو سرکار رسالت نے اپنی گردن مبارک جھکا کر انہیں اپنے دوش مبارک پر بٹھالیا اورفرمایا: ”کتنی اچھی ہے ان کی سواری اور کتنے اچھے ہیں یہ سوار“ (ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)
جمال الدین زرندی حنفی، ترمذی اورابن حجرنے ابن عباس سےروایت کی ہےکہ جب سرکاررسالت،حضؐورسرورکائنات نےحسیؑن کواپنےدوش پرسوار فرمایاتوایک شخص دیکھ کرکہنےلگا:واہ!کیاسواری ہے! پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فوراً فرمایا:
”نِعمَ الرَّاکب هُوَ“
(ترمذی، ج١٣، ص ١٩٨و ١٩٩؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ صواعق، ص١٣٥)
تم نےسواری دیکھی ہےکہ کتنی اچھی ہےارےسواربھی تودیکھوکتنااچھاہے!
زرندی جو کہ اہل سنت کےعظیم عالم محدث و حافظ ہیں، نے اپنی معروف کتاب در رالسمطین میں جابر، سعد اور انس وغیرہ سے بھی دیگر روایات نقل کی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام ریحانۂ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اہل سنت کے بعض مشہور و معروف محدثین نے حضرت علؑی، ابن عمر، ابو ہریرہ ، سعید بن راشد اور ابوبکر وغیرہ سے روایت کی ہے کہ حضوؐر سرورکائنات نے فرمایا:
”اِنّ الحسن والحسین هُمٰا رَیْحٰانَتَای مِنَ الدُّنیا“
حسؑن و حسیؑن دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
یہ حدیث مختلف الفاظ سے کثرت سے وارد ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرؐت نے مکرر یہ بھی فرمایا ہے
(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٣؛ اسد الغابة، ج٢، ص ١٩؛ الاصابة، ج١، ص٣٣٢؛ مصابیح السنة ،ج، ص٢٧٩ و٢٨٠؛ کنوز الحقائق، ج١، ص ٦٣و٦٧و ج٢، ص ١٥١؛ خصائص نسائی ص ٥٤؛ کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٠، ح٣٨٧٤ و ص٢٢١، ح٣٩١٢؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ مطالب السؤل ص٥٦؛ صواعق ص ١٩١)
اورر اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یاد رکھو یہ میرے پھول ہیں لہٰذا امّت کو چاہیے کہ انہیں پھول کی طرح رکھیں لیکن افسوس! آنحضرؐت کے چلے جانے کے بعد کسی نے ایک پھول کے جنازے پر تیر برسائے اور دوسرے پھول کی پتیوں کو کربلا کے صحرا میں ظلم و ستم کے ذریعہ مسل دیا گیا۔
سعید بن راشد نقل کرتے ہیں: حسن و حسین دوڑتے ہوئے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پاس آئے تو پیغمبؐر نے فوراً ایک کو ایک گود میں اور دوسرے کو دوسری گود میں اٹھالیا اور فرمایا:
” هٰذان رَیْحٰانَتَا یَ مِنَ الدّنیا مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبُّ هُمٰا“
(ذخائر العقبیٰ، ص ١٢٤)
”یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ انہیں محبوب رکھے۔“
امام حسین علیہ السلام شبیہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
بخاری و ابن اثیرنےروایت کی ہے کہ جب سر امام حسین علیہ السلام کو عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو ایک طشت میں رکھا گیا۔ ابن زیاد تلوار یا چھڑی امام حسین علیہ السلام کی نازنین آنکھوں اور چہرے پر لگاتا اور ان کی خوبصورتی بیان کرتا یہ دیکھ کر انس کہنے لگے: اے ابن زیاد! یہ اہل بیت میں سب سے زیادہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی شبیہ تھے۔
(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ اسد الغابة، ج٢، ص ٢٠؛ البدء والتاریخ، ج٦، ص ١١)
لب امام حسین علیہ السلام بوسہ گاہ رسالت
ابن عبدالبر قرطبی ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حسیؑن کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانا شروع کیا اس انداز سے کے ننھے ننھے پیر حضوؐر سرور کائنات کے قدم مبارک پر تھے اور سرکار رسالت فرما رہے تھے:
”تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّةٍ“
اےحسین علیہ السلام میری جان ننھےننھےقدم اٹھاکرمیری گودمیں آجا۔
یہ کہہ کر پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نےحسیؑن کواتنا بلند کیا کہ حسیؑن کے ننھے ننھے پیر جناب رسالت مآب کےسینہ مبارک پرپہنچ گئےپھرحسین سے فرمایا: حسین منہ کھولو، پھرحسین علیہ السلام کے لبوں پر پیار کیا اورفرمایا:
”اللَّهُمَّ اَحِبَّهُ فَاِنّی اُحِبُّهُ“
(الاستیعاب، ج١، ص ١٨٢ و ٣٨٣)
پروردگار تو اس سے محبت فرما کیونکہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔
جلال الدین سیوطی نے جامع الصغیر کی تیسری جلد میں اور ابن عساکر نے ابوہریرہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث نقل کی ہے:
”حُزُقَّة حُزُقَّة تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّة ٍ“
اے میری ننھی سے جان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاکر میری گود میں آجا۔
عربی لغت کے مطابق ”حُزُقَّة“ اسے کہتے ہیں جس کے ضعف و کمزوری یا چھوٹےجسم کی وجہ سے قدم چھوٹے چھوٹے ہوں۔
جبکہ”تَرَقَّ“کےمعنی”اوپرآؤ“ہیں۔علائلی کاکہناہےکہ عرب محبت و الفت اورپیارمیں یہ لفظ استعمال کرتےہیں۔تاکہ بچہ سےاظہارمحبت و مزاح کرسکیں اوراس میں نشاط پیداکرسکیں۔ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لیکر ان کی طرف اشارہ کرکے لوگوں سےمخاطب ہوکر فرماتے: ''اَنَاھُنٰا'' اےلوگوں میں یہاں ہوں۔یعنی میں حسین علیہ السلام کے پاس ہوں جو میرے پاس آنا چاہتا ہے وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے پھر کہتے ہیں کہ حب وعاطفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ عاطفت کا درجہ محبت سے کمتر ہے کیونکہ اس میں شرائط محبت نہیں ہوتیں جبکہ حب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبوب برگزیدہ ہو؛ اور پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
درحقیقت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت رکھتے تھے کیونکہ حسین برگزیدہ رسالت تھے۔ اسی طرح خدا حسیؑن سے محبت رکھتا ہے کیونکہ حسین علیہ السلام شفق آفتاب نبوت ہیں۔
(سمو المعنی فی سمو الذات، ص ٧٦ و ٧٧)
ابن اثیر، سبط جوزی اور طبری نے نقل کیا ہے کہ جب ابن زیاد کے دربار میں شہداء کے سروں کو لایا گیا تو ابن زیاد تلوار یا چھڑی سے حسین علیہ السلام کے لبھائے مبارک پر جسارت کرنے لگا: زید ابن ارقم نے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے:اے ابن زیاد !کیا تو اپنی اس بے ادبی اور ستم سے باز نہ آئے گا؟ اس جسارت سے باز آجا! خدا کی قسم! میں نے حسین علیہ السلام کے لبوں پر پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے لب دیکھے ہیں انہی لبوں پر پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
بوسہ کیا کرتے تھے، یہ کہہ کر گریہ کرنے لگے۔
ابن زیاد نے کہا: اگر تو بوڑھا نہ ہوتا تو میں تجھے ابھی قتل کردیتا۔
زید باہر نکلے اور لوگوں سے کہنے لگے: یاد رکھو! آج کے بعد تم غلاموں کی طرح زندگی گزارو گے اس لئے کہ تم نے فاطمہ زہرؑا کے لال حسیؑن کو قتل کرکے مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ہے تاکہ وہ تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا رہے اور تمہیں اپنا غلام بنائے رکھے۔
(اسد الغابة، ج٢، ص ٢١؛ تاریخ طبری، ج٤، ص ٣٤٩؛ کامل، ج٣، ص٢٩٨؛ تاریخ ابوالفداء، ج٢، ص١٠٦؛ تذکرة الخواص، ص٢٦٧)
کتاب ”البدء والتاریخ ج٦، ص١٢“میں نقل ہوا ہے کہ یزید نے حکم دیا کہ اہل حرم کو اسی مسجد کے دروازے کے پاس روک دیا جائے جہاں عام طور سے اسیروں کو روکا جاتا تھا تاکہ لوگ انہیں دیکھتے رہیں اور سرِحسین علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھوایا پھر تلوار یا چھڑی سے توہین کرنے لگا اور کہنے لگا کاش میرے بدر کے بزرگ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کس طرح ان کا بدلہ لیا ہے۔
ابو برزہ اسلمی نے جب یہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم جس جگہ یہ چھڑی لگائی جارہی ہے میں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بارہا انہی لبہائے نازنین کا بوسہ لیتے دیکھا ہے۔
ابن اثیر ، ترمذی و طبری نے روایت کی ہے کہ ابو برزہ نے کہا: اے یزید یاد رکھنا کل قیامت میں جب محشور ہوگا تو ابن زیاد تیرا شفیع ہوگا اور پیغمبر شفیع حسین علیہ السلام ہوں گے۔
(کامل، ج٣، ص٢٩٩؛ اسد الغابة، ج٥، ص٢٠؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٧؛ طبری ج٤، ص٣٥٦)
امام حسین علیہ السلام اوردرجہ وسیلہ
ابن مرویہ نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
”فِی الجَنَّةِ دَرَجَة تُدعٰی الوَسِیلَةُ فَاِذا سَألْتُم اللّٰهُ فَسَلُوا اِلٰی الوسِیلَةَ قَالُوا: یَا رسولَ اللّٰه ِصلىاللهعليهوآلهوسلم
مَنْ یَسْکُنْ معک فیها؟ قال: علی و فاطمة والحسن والحسین“
(کنزالعمال، ج٦، ص٢١٧، ح٣٨١٦؛ اسد الغابة، ج٥، ص٥٢٣)
جنت میں ایک مقام ہے جس کا نام ”الوَسِیلَةُ
“ہے جب تم خدا سے سوال کرو تو میرے لئے ''وسیلہ'' کا سوال کرنا، لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
وہاں آپ کے ساتھ کون ہوگا؟ فرمایا: علی و فاطمہ و حسن وحسین علیہما السلام۔
محبت امام حسین علیہ السلام واجب ہے
کتب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محبت حسیؑن کے واجب ہونے کے بارے میں متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ محبت حسین علیہ السلام کسی قوم قبیلہ کے ذاتی جذبات نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پروردگار عالم کی طرف سے لسان وحی کے ذریعہ محبت حسین کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
ابن عبدالبر، ابو حاتم اور محب طبری عبداللہ ابن عمر سے ایک حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
”من أَحَبَّنِی فَلْیُحَبَّ هٰذَینِ
“
(الاصابة، ج١، ص٣٣٠۔١٧١٩؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣)
جو مجھے سے محبت کرتا ہے اُسے چاہیے کہ ان دونوں سے محبت کرے۔
امام حسین علیہ السلام کی مدد واجبات میں سے ہے
امام حسین علیہ السلام کی محبت کی فضیلت و مذمت بغض کے علاوہ محبت حسین علیہ السلام کو واجب قرار دینے والی روایات اور امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے کا حکم دینے والی بیشمار روایات و احادیث سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگر بعض بزرگ مسلمان حضرات حکومت یزید کو شرعی حکومت نہ سمجھتے اور مظلوم کربلا کی مدد کرتے تو آج تاریخ اسلام ہرگز مشکلات کا شکار نہ ہوتی۔ امام حسین علیہ السلام کی مدد کیلئے قدم نہ بڑھانے والوں پر آج تک یہی سب سے بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرؐم کی مسلسل و متواتر احادیث کے باوجود انہوں نے مال و دولت یا خوف وہراس کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام سے منہ موڑ کر یزید کے شانہ بشانہ ہوگئے۔
صحرائے کربلا کی تپتی ہوئی سرزمین پر رکاب امام حسین علیہ السلام میں شہید ہونے والوں میں سے ایک انس ابن الحارث بن نبیہ ہیں ان کے والد بزرگوار اصحابِ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب صفہ میں سے ایک ہیں۔ یہ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضوؐر سرورکائنات سے سنا ہے جبکہ حسیؑن آپ کی آغوش ِ مبارک میں موجود تھے:
”اِنّ ابْنِی هٰذا یُقْتلُ فی أرضٍ یُقالُ لها العِرَاقُ فَمَن اَدرَکَهُ فَلْیَنْصُرهُ“
(اسد الغابہ، ج١، ص ٣٤٩؛ الاصابة، ج١، ص ٦٨۔٢٦٦)
یا دکھو ، میرا یہ بیٹا سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا لہٰذا جو بھی اسے درک کرے اس کی مدد کرے۔
کنز العمال میں یہ حدیث انس بن الحارث سے ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:
”اِنّ ابنِی هذا یُقتَلُ بأرضٍ من العراق یُقَالُ لها کربلاءَ فَمَنْ شَهِدَ ذالک مِنهُم فَلْیَنصُرْهُ “
(کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٣، ح٣٩٣٩)
میرا یہ بیٹا سرزمین عراق پر کربلا میں شہید کیا جائے گا۔خوارزمی ایک طویل خبر کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام، ابن عباس کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں دختر اسلام کا پارۂ جگر ہوں؟
عرض کی : جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے آپ ہی فرزند رسول ہیں اور آپ ہی کی مدد نماز روزہ و زکات کی طرح واجب ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔
فرمایا: پس اے ابن عباس اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو دختؑر پیغمبؐر کے لال کو ترک وطن پر مجبور کردے اور حرم رسوؐل، مسجد نبیؐ سے دور کردے اور انہیں اس طرح دربدر کیا جائے کہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے اور ان کی ان تمام تر سختیوں کا ہدف صرف فرزند رسول کو قتل کرنا ہو حالانکہ ان کا کوئی جرم بھی نہ ہو، نہ شرک کیا ہو اور نہ ہی خدا کے علاوہ کسی کو اپنا سرپرست قرار دیا ہو اور نہ ہی سیرت پیغمبؐر اور ان کے برحق جانشینوں کی مخالفت کی ہو؟
ابن عباس نے کہا: انہیں کافر ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگر وہ نماز پڑھیں گے تو ان کی نماز ریاکاری ہے اور ان پر خدا کا بڑا عذاب نازل ہوگا۔
لیکن اے اباعبؑداللہ آپ پسر پیغمبؐر اسلام، فرزند وصؑی پیغمبؐر اور فرزند زہؑرا ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جو بھی آپ کی مدد سے گریز کرے اور کنارہ کشی کرے گا آخرت میں اسے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔
یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: پروردگار گواہ رہنا۔
ابن عباس کہنے لگے: آپ پر جان قربان! گویا آپ مجھے اپنی شہادت کی خبر سنار ہے ہیں، اور مجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ خدائے یکتا کی قسم، اگرآپ کی رکاب میں تلوار اٹھاؤں اور اس قدر تلوار چلے کے ٹوٹ جائے اور میرے ہاتھ قلم ہوجائیں تب بھی میں یہ سمجھوں گا کہ اب بھی آپ کا حق ادا نہ کرسکا میں ابھی آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں آپ جو حکم دیں گے میں آپ کا مطیع و فرمانبردار ہوں۔
اسی روایت کے ضمن میں عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سنا ہے:
”حسین مقتول فَلَئِن خَذَلُوهُ وَلَمْ یَنْصُرُوه لَیَخْذُلَنَّهُم اللّٰه اِلی یوم القیامَة“
(مقتل خوارزمی، ف١٠، ص١٩١و١٩٢)
میرا لال حسین علیہ السلام قتل کیا جائے گا پس جس نے بھی اسے چھوڑد یا اورر اس کی مدد نہ کی تو خدا قیامت تک ان کی مدد نہ کرے گا۔