امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں40%

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کے آئینے میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12641 / ڈاؤنلوڈ: 3339
سائز سائز سائز

ب: علمائے عامّہ

اس حدیث شریف کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

منجملہ:

١۔ خطیب بغدادی ۔تاریخ بغداد

٢۔ ابن عساکر ۔تاریخ دمشق

٣۔ طبرانی ۔المعجم الکبیر

٤۔ ملا علی متقی ھندی ۔کنزالعمال

٥۔ محب الدین طبری ۔ذخائر العقبیٰ

٦۔ ھیثمی ۔مجمع الزوائد

٧۔ ابو نعیم اصفہانی ۔حلیة الاولیاء

٨۔ ابن حماد حنبلی ۔شذرات الذھب

٩۔وکیع ۔اخبار القضاة

١٠۔ ابن ماجہ ۔سنن ابن ماجہ

١١۔ حاکم نیشاپوری ۔ المستدرک علی الصحیحین

١٢۔ گنجی شافعی ۔ کفایت الطالب

١٣۔ ترمذی ۔سنن ترمذی

١٤۔ احمد بن حنبلی ۔المسند

١٥۔ ذہبی ۔ تاریخ الاسلام، سیرہ اعلام النبلاء

١٦۔ ابن حجر ۔ الاصابة

١٧۔ بغوی ۔ معجم الصحابہ

١٨۔ ابو القاسم سھمی ۔تاریخ جرجان

١٩۔ نھبانی ۔الفتح الکبیر

٢٠۔ابن حجر ھیثمی ۔الصواعق المحرقہ

٢١۔ سیوطی ۔الجامع الصغیر

٢٢۔ دیلمی ۔ فردوس الاخبار

٢٣۔ ابن ابی شیبہ ۔المصنّف

٢٤۔ نسائی ۔الخصائص

٢٥۔ ابن حبان ۔صحیح ابن حبان

٢٦۔ سمعانی ۔الانساب

٢٧۔ مناوی ۔فیض القدر

٢٨۔ البانی ۔سلسلة الاحادیث الصحیحة

امام حسین علیہ السلام محبوب پیغمبؐر

ایک مردمؤمن کی نظرمیں عظمت امام حسین علیہ السلام کی معرفت کیلئے پیغمبؐرعظیم الشان اسلام کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضؐور سرورکائنات نےارشاد فرمایا ہے:

”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن

حسین علیہ السلام مجھ سےہیں اورمیں حسین علیہ السلام سےہوں۔

یعلی بن مرّہ کاکہناہےکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےحسین علیہ السلام کوگودمیں اٹھا کر فرمایا:

”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط

حسین علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین علیہ السلام کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین علیہ السلام میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔(سنن ابن ماجه ، ج١، ص ٦٥؛ مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی ، ج١٣، ص ١٩٥ و ١٩٦؛ اُسد الغابة، ج ٥، ص ١٣٠ و٥٧٤ و ج٢ ص١٩؛ کنز العمال ، ج٦، ص ٢٣٣ و ج٣ ،ص ٣٩٥ ؛ مطالب السؤل، ص٧١)

بخاری، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔

”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“

حسین علیہ السلام مجھ سےہے اورمیں حسین سےہوں اللہ اسےدوست رکھتاہےجوحسین علیہ السلام سےمحبت رکھتا اوریادرکھوحسن وحسین علیہ السلام میرےاسباط میں سےدوسبط ہیں۔(الجامع الصغیر، ج١، ص١٤٨؛ کنزالعمال ج٦، ص٢٢٣ ح٢٩٥٣؛ امالی الشریف المرتضیٰ، ج١، ص ٢١٩)

”شرباصی“قاموس سے

”حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط و أمَّة من الاّمَمِ“

حسین علیہ السلام میرے اسباط میں سے ایک سبط اور امتوں میں ایک امت ہے،نقل کرنےکےبعدکہتےہیں:”سِبْطٌ“کےمعنی جماعت وقبیلہ ہیں اورشاید حدیث کےمعنی یہ ہیں کہ مقام ومرتبہ اورعظمت و رفعت کے اعتبار سے ایک امت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان کا اجر وثواب ایک امت کے اجر و ثواب کی مانند ہے۔

(حفیدة الرسول، ص ٤٠)

ابن اثیر جذری نے بھی اپنی معروف کتاب ”النِهَايَة“ میں اس حدیث کو مادۂ سبط میں نقل کیا ہے اور جملہ

سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط

کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کارخیر میں امتوں میں سے ایک امت ہیں۔

جبکہ مرحوم طریحی،مجمع البحرین میں ایک دوسرے معنی بھی بیان کرتے ہیں اورکہتے ہیں''ممکن ہےکہ اس حدیث میں”سِبْطٌ“ ''قبیلہ''کےمعنی میں استعمال کیا ہو اوراس سےمراد یہ ہو کہ نسل پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی سےقائم ودائم رہےگی اس لئے کہ ”سِبْطٌ“کےمختلف معنا میں سےایک یہ بھی ہیں کہ ”سِبْطٌ“ اس درخت کو کہتے ہیں جس کی بیحد شاخیں ہوں۔

ابن عبدالبراورمسلم وشبلنجی نےابوہریرہ سےروایت نقل کی ہےکہ حضؐور سرورکائناتت نےحسؑن وحسؑین کےبارےمیں فرمایاہے:

اللَّهمَّ اِنّی اُحِبُّهمٰا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّهُمٰا

پروردگار میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان لوگوں سے محبت فرما جو انہیں دوست رکھے۔

(الاستیعاب،ج١، ص ٣٧٦؛ نور الابصار، ص١٠٤؛ السیرة النبویة ، ج٣، ص٣٦٨)

بُغوی،ترمذی،سیداحمدزینی، ابن اثیراورنسائی نےاسامہ سےروایت کی ہےوہ کہتےہیں: میں ایک شب کسی طلب حاجت کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور گیا۔ حضؐور باہر تشریف لائے اور ان کی عباء میں کوئی چیز تھی لیکن مجھےیہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیاہے؟ میں نےاپنی حاجت بیان کرنےکےبعدسوال کیااےحبیب خدا یہ کیاہے؟حضؐورنےکچھ کہے بغیر اس کے اوپرسےعباء ہٹادی، دیکھا کہ حسؑن وحسیؑن ہیں؛ فرمایا:

هذان اِبنَایَ وَ اِبنَا ابنَتِی اللَّهُمَّ اِنّی اُحِبُّهُما فَاَحِبَّهُما و أحِبَّ مَنَ یُحِبُّهُمٰا

یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے فرزند ہیں پروردگار یہ مجھے بہت عزیز ہیں جو انہیں عزیز رکھےتو بھی انہیں عزیز رکھ۔

جناب ترمذی نے اس روایت کو براء سے بھی نقل کیا ہے۔

(مصابیح السنة، ج٢، ص ٢٨٠؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٢ و ١٩٣ و ١٩٨؛أسد الغابة، ج٢ ، ص ١١؛ خصائص نسائی، ص ٥٢و ٥٣)

ترمذی و بغوی نے أنس سے روایت نقل کی ہے کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوا کہ آپ اپنے اہل بیت علیہم السلام میں زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسؑن و حسؑین سے۔

سیوطی و مناوی نے بھی نقل کیا ہے:

أحَبُّ أَهْلِ بَیتِی اِلَیَّ الحَسَنُ والحُسَینُ

(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤۔)

ترمذی و بغوی نے جناب أنس سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت فاطمؑہ سے فرمایا:

اُدْعِی لِی اِبنَیَّ فَیَشُمُ هُمٰا و یَضُمُ هُممٰا الیهُم

(مصابیح السنّة ، ج٢، ص ٢٨١؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٤؛ الجامع الصغیر، ج١، ص ١١، کنوز الحقایق، ج١، ص١١؛ ذخائر العقبیٰ ، ص ١٤٣؛نورالابصار، ص ١١٤)

اے بیٹی میرے بیٹوں حسؑن و حسیؑن کو بلاؤ، جب وہ آئے تو آنحضرؐت انہیں لپٹا کر پیار کرتے اور استشمام کرتے۔

اسی طرح احمد ابن حنبل، ابن ابی شیبہ، صَبان، محب طبری وغیرہ نے امام حسین علیہ السلام سے پیغمبر گرامی قدر کی محبت وا لفت اور والہانہ عشق و عقیدت کے بارے میں بیحد احادیث نقل کی ہیں۔

یہ تمام وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے محبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور محبت کا حکم دیا ہے اِسی طرح کی ایک روایت محب طبری نے ذخائر العقبیٰ میں اس انداز سے نقل کی ہے۔

وہ احمد ابن حنبل یعلی بن مّرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حسن وحسین علیہما السلام اپنے جدّ بزرگوار سرورکائنات کی خدمت میں مشرف ہونے کیلئے دوڑے دوڑے آئے ان میں ایک دوسرے سے پہلے پہنچ گئے حضور نےفوراً انہیں گودمیں لیکر اپنے سینہ سے لپٹالیا اور پیار کرنےلگے اورپھردوسرے فرزند پہنچے تو آنحضرؐت نے انہیں بھی اسی طرح اٹھا کر سینے سے لگا کر پیا رکیا اور پھر فرمانے لگے:

”اِنّی أُحِبُّ هُمٰا فَأحِبُّو هُمٰا“

میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تم لوگ بھی ان سے اسی طرح محبت کرو۔

اور دوسری وہ روایات ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام سے بغض کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ابن حجر ھیثمی اپنی معروف کتاب صواعق میں ہارون رشید سے اور وہ اپنے بزرگوں اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے:

”مَن أحَبَّ الحسن و الحسین فقد أَحَبَّنِی و مَنْ أَبْغَضَ هُمٰا فَقد أَبْغَضَنِی“

جو حسن وحسین علیہ السلام سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔(ابن حجر عسقلانی، صواعق، ص ٩٠؛ بحار الانوار، ج٤٣، ص ٣٠٣)

اس روایت میں دو نکتے قابل فہم ہیں اور وہ یہ ہے:

١۔ گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ محبت حسین ، محبت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی علامت ہے۔ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام سے محبت رکھنا اس لئے کہ مجھ سے محبت و عقیدت کا دارو مدار حسین علیہ السلام کی محبت پر ہے۔

اسی طرح حسین علیہ السلام سے دشمنی، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کی علامت ہے، جو بھی حسین علیہ السلام کا دشمن ہے، حسین علیہ السلام کے مشن کا دشمن ہے ، حسین علیہ السلام کی عزاداری کا دشمن ہے اور حسین علیہ السلام کی تعلیمات کا دشمن ہے وہ گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن اور ان کی تعلیمات کا دشمن ہے لہٰذا اگر محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ ہے تو یہ دیکھ لو کہ دل میں حسین علیہ السلام کی کتنی محبت ہے!؟

٢۔ در حقیقت امام حسین علیہ السلام سے دشمنی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی ہے لہٰذا خبردار کیا گیا ہے کہ دشمنان حسین سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے جو لوگ حسین علیہ السلام کے دشمن ہیں چاہے وہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ہوں خود ان سے بھی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف حسین علیہ السلام سے محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف امام حسن و حسین علیہما السلام کے دشمنوں کی محبت کو دلوں میں جگہ دے رکھی ہو یہ دونوں متضاد چیز ہیں محبت حسؑین نور ہے اور بغض حسیؑن تاریکی ہے، محبت حسیؑن ہدایت ہے اور بغض حسیؑن گمراہی ہے۔ لہٰذا محبت حسؑین کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رہے کہ دل میں ان کے دشمنوں کی محبت نہ آنے پائے۔

مسند احمد میں ہارون رشید کی بیان کردہ دو احادیث میں سے ایک کی عبارت کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے:

”الحسنُ والحسینُ مَنْ أحَبَّ هُما فَفِی الجَنَّة و مَنْ أَبغَضَ هُما فَفِی النَّار“

جس نے حسؑن و حسیؑن کو دوست رکھا وہ اہل بہشت میں سے ہے اور جس نے ان سے عداوت و دشمنی کی وہ اہل جہنم سے ہے۔(مسند احمد، ج٢ ، ص٢٨٨)

محبت حسیؑن کی عظمت و فضیلت اور بغض حسیؑن کی مذمت:

محبت و بغض حسیؑن کے سلسلہ میں وارد ہونے والی ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت حسیؑن کی فضیلت یہ ہے کہ ان کی محبت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت ہے، ان کی محبت خدا کی محبت ہے اگر کوئی خدا پر یقین رکھتا ہے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لایا ہے اور ان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھے ان کا مطیع و فرمانبردار رہے ان کی پاکیزہ سیرت کو اپنے لیے نمونہ حیات قرار دے ورنہ محبت حسیؑن سے دل کو خالی رکھ کر اعلان توحید و رسالت پیغمبؐر فقط ایک دعویٰ ہی رہے گا اور اس کی کوئی حقیقت نہ رہے گی اور نہ ہی یہ عقیدہ توحید و رسالت اس شخص کو کوئی فائدہ ہی پہنچا سکے گا۔

اسی طرح ان تمام روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغضِ حسیؑن اور ان سے عداوت و دشمنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

حسیؑن سے عداوت و دشمنی کرکے ان روایات کی روشنی میں وہ مسلمانوں کا سربراہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے اسلام و قرآن کریم اور مزاجِ توحید و لسان وحی کے مطابق مسلمان کہلائے جانے کے قابل بھی نہیں ہے بلکہ دشمن حسین ، دشمن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دشمن خدا ہے اور روز محشر اس کا وہ ہی انجام ہونے والا ہے جو خدا رسول کے دشمنوں کا ہوگا۔

امام حسین علیہ السلام راکب دوش رسالت

امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبؐر امام حسن و حسین علیہماالسلام کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً: ایک مرتبہ حضوؐر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حسؑن اور بائیں کاندھے پر حسیؑن تھے اور آنحضرتؐ کبھی امام حسن علیہ السلام کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔ اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی نے ابوہریرہ سے اسی طرح دیگر افراد نے ابن مسعود، جابر اور انس وغیرہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امام حسین علیہ السلام سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔

(الاصابة ج١، ص ٢٣٠، ح١٧١٩؛ الجامع الصغیر، ج٢ ، ص ١١٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣و ١٣٢)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل امام حسن و امام حسین علیہ السلام کو اپنے کاندھے پر سوار کیا ہے اور ان کی عظمت و فضیلت کا قصیدہ پڑھا ہے۔یہاں تک کہ یہ حضرات نماز و دیگرحالات میں بھی سواردوش رسالت ہوتےتھےلیکن پیغمبرؐنےکبھی انہیں منع نہیں بلکہ لطف ومحبت کااظہارکرتےاورلوگوں کوبھی ان سےمحبت ودوستی کا حکم فرماتے تھے۔ ابو سعیدنے ''شرف النبوّة'' میں روایت کی ہےکہ آنحضرتؐ تشریف فرماتھےکہ حسؑن وحسیؑن ان کی طرف آئےپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےجیسےہی انہیں دیکھا،کھڑےہوگئےاورانہیں گود میں لیکر اپنے کاندھوں پرسوار کرلیا، پھر فرمایا:

” نِعْمَ المَطِیُّ مَطِیَّتُکما، و نِعمَ الرَّاکبانِ أنْتُمٰا“

(ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)

کتنی اچھی سواری ہے یہ، اور کتنے اچھے سوار ہو تم۔

شبلخی نے اس طرح روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرؐت کا حسن و حسین﷧ کے پاس سے گزر ہوا تو سرکار رسالت نے اپنی گردن مبارک جھکا کر انہیں اپنے دوش مبارک پر بٹھالیا اورفرمایا: ”کتنی اچھی ہے ان کی سواری اور کتنے اچھے ہیں یہ سوار“ (ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)

جمال الدین زرندی حنفی، ترمذی اورابن حجرنے ابن عباس سےروایت کی ہےکہ جب سرکاررسالت،حضؐورسرورکائنات نےحسیؑن کواپنےدوش پرسوار فرمایاتوایک شخص دیکھ کرکہنےلگا:واہ!کیاسواری ہے! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً فرمایا:

”نِعمَ الرَّاکب هُوَ“

(ترمذی، ج١٣، ص ١٩٨و ١٩٩؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ صواعق، ص١٣٥)

تم نےسواری دیکھی ہےکہ کتنی اچھی ہےارےسواربھی تودیکھوکتنااچھاہے!

زرندی جو کہ اہل سنت کےعظیم عالم محدث و حافظ ہیں، نے اپنی معروف کتاب در رالسمطین میں جابر، سعد اور انس وغیرہ سے بھی دیگر روایات نقل کی ہیں۔

امام حسین علیہ السلام ریحانۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اہل سنت کے بعض مشہور و معروف محدثین نے حضرت علؑی، ابن عمر، ابو ہریرہ ، سعید بن راشد اور ابوبکر وغیرہ سے روایت کی ہے کہ حضوؐر سرورکائنات نے فرمایا:

”اِنّ الحسن والحسین هُمٰا رَیْحٰانَتَای مِنَ الدُّنیا“

حسؑن و حسیؑن دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

یہ حدیث مختلف الفاظ سے کثرت سے وارد ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرؐت نے مکرر یہ بھی فرمایا ہے

(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٣؛ اسد الغابة، ج٢، ص ١٩؛ الاصابة، ج١، ص٣٣٢؛ مصابیح السنة ،ج، ص٢٧٩ و٢٨٠؛ کنوز الحقائق، ج١، ص ٦٣و٦٧و ج٢، ص ١٥١؛ خصائص نسائی ص ٥٤؛ کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٠، ح٣٨٧٤ و ص٢٢١، ح٣٩١٢؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ مطالب السؤل ص٥٦؛ صواعق ص ١٩١)

اورر اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یاد رکھو یہ میرے پھول ہیں لہٰذا امّت کو چاہیے کہ انہیں پھول کی طرح رکھیں لیکن افسوس! آنحضرؐت کے چلے جانے کے بعد کسی نے ایک پھول کے جنازے پر تیر برسائے اور دوسرے پھول کی پتیوں کو کربلا کے صحرا میں ظلم و ستم کے ذریعہ مسل دیا گیا۔

سعید بن راشد نقل کرتے ہیں: حسن و حسین دوڑتے ہوئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے تو پیغمبؐر نے فوراً ایک کو ایک گود میں اور دوسرے کو دوسری گود میں اٹھالیا اور فرمایا:

” هٰذان رَیْحٰانَتَا یَ مِنَ الدّنیا مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبُّ هُمٰا“

(ذخائر العقبیٰ، ص ١٢٤)

”یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ انہیں محبوب رکھے۔“

امام حسین علیہ السلام شبیہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

بخاری و ابن اثیرنےروایت کی ہے کہ جب سر امام حسین علیہ السلام کو عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو ایک طشت میں رکھا گیا۔ ابن زیاد تلوار یا چھڑی امام حسین علیہ السلام کی نازنین آنکھوں اور چہرے پر لگاتا اور ان کی خوبصورتی بیان کرتا یہ دیکھ کر انس کہنے لگے: اے ابن زیاد! یہ اہل بیت میں سب سے زیادہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شبیہ تھے۔

(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ اسد الغابة، ج٢، ص ٢٠؛ البدء والتاریخ، ج٦، ص ١١)

لب امام حسین علیہ السلام بوسہ گاہ رسالت

ابن عبدالبر قرطبی ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسیؑن کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانا شروع کیا اس انداز سے کے ننھے ننھے پیر حضوؐر سرور کائنات کے قدم مبارک پر تھے اور سرکار رسالت فرما رہے تھے:

”تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّةٍ“

اےحسین علیہ السلام میری جان ننھےننھےقدم اٹھاکرمیری گودمیں آجا۔

یہ کہہ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےحسیؑن کواتنا بلند کیا کہ حسیؑن کے ننھے ننھے پیر جناب رسالت مآب کےسینہ مبارک پرپہنچ گئےپھرحسین سے فرمایا: حسین منہ کھولو، پھرحسین علیہ السلام کے لبوں پر پیار کیا اورفرمایا:

”اللَّهُمَّ اَحِبَّهُ فَاِنّی اُحِبُّهُ“

(الاستیعاب، ج١، ص ١٨٢ و ٣٨٣)

پروردگار تو اس سے محبت فرما کیونکہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔

جلال الدین سیوطی نے جامع الصغیر کی تیسری جلد میں اور ابن عساکر نے ابوہریرہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

”حُزُقَّة حُزُقَّة تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّة ٍ“

اے میری ننھی سے جان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاکر میری گود میں آجا۔

عربی لغت کے مطابق ”حُزُقَّة“ اسے کہتے ہیں جس کے ضعف و کمزوری یا چھوٹےجسم کی وجہ سے قدم چھوٹے چھوٹے ہوں۔

جبکہ”تَرَقَّ“کےمعنی”اوپرآؤ“ہیں۔علائلی کاکہناہےکہ عرب محبت و الفت اورپیارمیں یہ لفظ استعمال کرتےہیں۔تاکہ بچہ سےاظہارمحبت و مزاح کرسکیں اوراس میں نشاط پیداکرسکیں۔ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لیکر ان کی طرف اشارہ کرکے لوگوں سےمخاطب ہوکر فرماتے: ''اَنَاھُنٰا'' اےلوگوں میں یہاں ہوں۔یعنی میں حسین علیہ السلام کے پاس ہوں جو میرے پاس آنا چاہتا ہے وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے پھر کہتے ہیں کہ حب وعاطفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ عاطفت کا درجہ محبت سے کمتر ہے کیونکہ اس میں شرائط محبت نہیں ہوتیں جبکہ حب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبوب برگزیدہ ہو؛ اور پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درحقیقت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت رکھتے تھے کیونکہ حسین برگزیدہ رسالت تھے۔ اسی طرح خدا حسیؑن سے محبت رکھتا ہے کیونکہ حسین علیہ السلام شفق آفتاب نبوت ہیں۔

(سمو المعنی فی سمو الذات، ص ٧٦ و ٧٧)

ابن اثیر، سبط جوزی اور طبری نے نقل کیا ہے کہ جب ابن زیاد کے دربار میں شہداء کے سروں کو لایا گیا تو ابن زیاد تلوار یا چھڑی سے حسین علیہ السلام کے لبھائے مبارک پر جسارت کرنے لگا: زید ابن ارقم نے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے:اے ابن زیاد !کیا تو اپنی اس بے ادبی اور ستم سے باز نہ آئے گا؟ اس جسارت سے باز آجا! خدا کی قسم! میں نے حسین علیہ السلام کے لبوں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لب دیکھے ہیں انہی لبوں پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بوسہ کیا کرتے تھے، یہ کہہ کر گریہ کرنے لگے۔

ابن زیاد نے کہا: اگر تو بوڑھا نہ ہوتا تو میں تجھے ابھی قتل کردیتا۔

زید باہر نکلے اور لوگوں سے کہنے لگے: یاد رکھو! آج کے بعد تم غلاموں کی طرح زندگی گزارو گے اس لئے کہ تم نے فاطمہ زہرؑا کے لال حسیؑن کو قتل کرکے مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ہے تاکہ وہ تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا رہے اور تمہیں اپنا غلام بنائے رکھے۔

(اسد الغابة، ج٢، ص ٢١؛ تاریخ طبری، ج٤، ص ٣٤٩؛ کامل، ج٣، ص٢٩٨؛ تاریخ ابوالفداء، ج٢، ص١٠٦؛ تذکرة الخواص، ص٢٦٧)

کتاب ”البدء والتاریخ ج٦، ص١٢“میں نقل ہوا ہے کہ یزید نے حکم دیا کہ اہل حرم کو اسی مسجد کے دروازے کے پاس روک دیا جائے جہاں عام طور سے اسیروں کو روکا جاتا تھا تاکہ لوگ انہیں دیکھتے رہیں اور سرِحسین علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھوایا پھر تلوار یا چھڑی سے توہین کرنے لگا اور کہنے لگا کاش میرے بدر کے بزرگ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کس طرح ان کا بدلہ لیا ہے۔

ابو برزہ اسلمی نے جب یہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم جس جگہ یہ چھڑی لگائی جارہی ہے میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بارہا انہی لبہائے نازنین کا بوسہ لیتے دیکھا ہے۔

ابن اثیر ، ترمذی و طبری نے روایت کی ہے کہ ابو برزہ نے کہا: اے یزید یاد رکھنا کل قیامت میں جب محشور ہوگا تو ابن زیاد تیرا شفیع ہوگا اور پیغمبر شفیع حسین علیہ السلام ہوں گے۔

(کامل، ج٣، ص٢٩٩؛ اسد الغابة، ج٥، ص٢٠؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٧؛ طبری ج٤، ص٣٥٦)

امام حسین علیہ السلام اوردرجہ وسیلہ

ابن مرویہ نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

”فِی الجَنَّةِ دَرَجَة تُدعٰی الوَسِیلَةُ فَاِذا سَألْتُم اللّٰهُ فَسَلُوا اِلٰی الوسِیلَةَ قَالُوا: یَا رسولَ اللّٰه ِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ یَسْکُنْ معک فیها؟ قال: علی و فاطمة والحسن والحسین“

(کنزالعمال، ج٦، ص٢١٧، ح٣٨١٦؛ اسد الغابة، ج٥، ص٥٢٣)

جنت میں ایک مقام ہے جس کا نام ”الوَسِیلَةُ “ہے جب تم خدا سے سوال کرو تو میرے لئے ''وسیلہ'' کا سوال کرنا، لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں آپ کے ساتھ کون ہوگا؟ فرمایا: علی و فاطمہ و حسن وحسین علیہما السلام۔

محبت امام حسین علیہ السلام واجب ہے

کتب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محبت حسیؑن کے واجب ہونے کے بارے میں متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ محبت حسین علیہ السلام کسی قوم قبیلہ کے ذاتی جذبات نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پروردگار عالم کی طرف سے لسان وحی کے ذریعہ محبت حسین کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

ابن عبدالبر، ابو حاتم اور محب طبری عبداللہ ابن عمر سے ایک حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

من أَحَبَّنِی فَلْیُحَبَّ هٰذَینِ

(الاصابة، ج١، ص٣٣٠۔١٧١٩؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣)

جو مجھے سے محبت کرتا ہے اُسے چاہیے کہ ان دونوں سے محبت کرے۔

امام حسین علیہ السلام کی مدد واجبات میں سے ہے

امام حسین علیہ السلام کی محبت کی فضیلت و مذمت بغض کے علاوہ محبت حسین علیہ السلام کو واجب قرار دینے والی روایات اور امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے کا حکم دینے والی بیشمار روایات و احادیث سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگر بعض بزرگ مسلمان حضرات حکومت یزید کو شرعی حکومت نہ سمجھتے اور مظلوم کربلا کی مدد کرتے تو آج تاریخ اسلام ہرگز مشکلات کا شکار نہ ہوتی۔ امام حسین علیہ السلام کی مدد کیلئے قدم نہ بڑھانے والوں پر آج تک یہی سب سے بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرؐم کی مسلسل و متواتر احادیث کے باوجود انہوں نے مال و دولت یا خوف وہراس کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام سے منہ موڑ کر یزید کے شانہ بشانہ ہوگئے۔

صحرائے کربلا کی تپتی ہوئی سرزمین پر رکاب امام حسین علیہ السلام میں شہید ہونے والوں میں سے ایک انس ابن الحارث بن نبیہ ہیں ان کے والد بزرگوار اصحابِ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب صفہ میں سے ایک ہیں۔ یہ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضوؐر سرورکائنات سے سنا ہے جبکہ حسیؑن آپ کی آغوش ِ مبارک میں موجود تھے:

”اِنّ ابْنِی هٰذا یُقْتلُ فی أرضٍ یُقالُ لها العِرَاقُ فَمَن اَدرَکَهُ فَلْیَنْصُرهُ“

(اسد الغابہ، ج١، ص ٣٤٩؛ الاصابة، ج١، ص ٦٨۔٢٦٦)

یا دکھو ، میرا یہ بیٹا سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا لہٰذا جو بھی اسے درک کرے اس کی مدد کرے۔

کنز العمال میں یہ حدیث انس بن الحارث سے ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

”اِنّ ابنِی هذا یُقتَلُ بأرضٍ من العراق یُقَالُ لها کربلاءَ فَمَنْ شَهِدَ ذالک مِنهُم فَلْیَنصُرْهُ “

(کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٣، ح٣٩٣٩)

میرا یہ بیٹا سرزمین عراق پر کربلا میں شہید کیا جائے گا۔خوارزمی ایک طویل خبر کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام، ابن عباس کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں دختر اسلام کا پارۂ جگر ہوں؟

عرض کی : جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے آپ ہی فرزند رسول ہیں اور آپ ہی کی مدد نماز روزہ و زکات کی طرح واجب ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔

فرمایا: پس اے ابن عباس اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو دختؑر پیغمبؐر کے لال کو ترک وطن پر مجبور کردے اور حرم رسوؐل، مسجد نبیؐ سے دور کردے اور انہیں اس طرح دربدر کیا جائے کہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے اور ان کی ان تمام تر سختیوں کا ہدف صرف فرزند رسول کو قتل کرنا ہو حالانکہ ان کا کوئی جرم بھی نہ ہو، نہ شرک کیا ہو اور نہ ہی خدا کے علاوہ کسی کو اپنا سرپرست قرار دیا ہو اور نہ ہی سیرت پیغمبؐر اور ان کے برحق جانشینوں کی مخالفت کی ہو؟

ابن عباس نے کہا: انہیں کافر ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگر وہ نماز پڑھیں گے تو ان کی نماز ریاکاری ہے اور ان پر خدا کا بڑا عذاب نازل ہوگا۔

لیکن اے اباعبؑداللہ آپ پسر پیغمبؐر اسلام، فرزند وصؑی پیغمبؐر اور فرزند زہؑرا ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جو بھی آپ کی مدد سے گریز کرے اور کنارہ کشی کرے گا آخرت میں اسے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: پروردگار گواہ رہنا۔

ابن عباس کہنے لگے: آپ پر جان قربان! گویا آپ مجھے اپنی شہادت کی خبر سنار ہے ہیں، اور مجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ خدائے یکتا کی قسم، اگرآپ کی رکاب میں تلوار اٹھاؤں اور اس قدر تلوار چلے کے ٹوٹ جائے اور میرے ہاتھ قلم ہوجائیں تب بھی میں یہ سمجھوں گا کہ اب بھی آپ کا حق ادا نہ کرسکا میں ابھی آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں آپ جو حکم دیں گے میں آپ کا مطیع و فرمانبردار ہوں۔

اسی روایت کے ضمن میں عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے:

”حسین مقتول فَلَئِن خَذَلُوهُ وَلَمْ یَنْصُرُوه لَیَخْذُلَنَّهُم اللّٰه اِلی یوم القیامَة“

(مقتل خوارزمی، ف١٠، ص١٩١و١٩٢)

میرا لال حسین علیہ السلام قتل کیا جائے گا پس جس نے بھی اسے چھوڑد یا اورر اس کی مدد نہ کی تو خدا قیامت تک ان کی مدد نہ کرے گا۔

جنت میں سب سے پہلے وارد ہونے والے

حاکم اور ابن سعد نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

”اِنّ اَوَّلَ مَنْ یَدخُلُ الجَنَّةَ اَنَا وَ اَنْتَ و فاطمه والحسن و الحسين قال علی: فَمُحِبُّونَا قالَ: مِن وَراٰئِکُم“

سب سے پہلے بہشت میں ، میں، تم، فاطمہ، حسن اور حسین جائیں گے۔ مولا علی نے پوچھا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ہمارے چاہنے والے؟ فرمایا: وہ تمہارے پیچھے پیچھے آئیں گے۔(صواعق ص، ١٥١؛ ذخائر العقبیٰ ص ١٢٣؛ کنزالعمال، ج٦،ص ٢١٦، ح٣٧٨٧)

طبرانی و احمد ابن حنبل نے مناقب میں بھی یہ حدیث نقل کی ہے۔

(صواعق ص، ١٥٩؛ ذخائر العقبیٰ، ص ١٢٣؛ کنزالعمال، ج٦، ص ٢١٨، ح٣٨٢٦)

لہٰذا اب جسے وارد بہشت ہونے کی خواہش ہے وہ دامن حسین علیہ السلام کو تھام لے۔

امام حسین علیہ السلام اور قائم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حذیفہ، حضور سرورکائنات سے روایت کرتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

لَولَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیٰا اِلّا یوم واحد لَطَوَّلَ اللّٰهُ ذالک الیومَ حَتَّی یَبْعَثَ رَجُلاً مِن وُلدِی اِسمُهُ کَاِسْمِی فَقَالَ سَلْمانُ: مِں اَیِّ وُلْدِکََ یَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قال: مِن وُلدِی هذا و ضَرَبَ بِیَدهِ عَلَی الحُسَینِ

(ذخائر العقبیٰ، ص١٣٦۔ ١٣٧)

(آیت اللہ صافی گلپائیگانی نے اس سلسلہ میں ١٨٠ احادیث کتاب منتخب الاثر میں جمع فرمائی ہیں )

اگر دنیا ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تو خداوند تعالیٰ اس روز کو اتنا طولانی کردے گا کہ میری اولاد میں سے ایک فرزند کو مبعوث کرے گا جو میرا ہم نام ہوگا۔

سلمان نے فوراً سوال کیا یا رسول اللہ ! وہ قائم آپ کے کس فرزند سے ہوگا؟ حضور نے امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: میرا وہ قائم اس حسین علیہ السلام کی نسل سے ہوگا۔

نام حسیؑن ۔ نام خدا سے مشتق ہے

ابو ہریرہ نے حضوؐر سرور کائنات سے ایک حدیث کے ضمن میں روایت کی ہے کہ جب پروردگار عالم نے حضرت آدم کو خلق کیا تو حضرت آدم نے عرش پر پانچ نور دیکھے جو رکوع و سجود کررہے تھے ۔ جناب آدم نے سوال کیا پروردگار یہ پانچ نور جو ہیبت و صورت میں میری طرح ہیں کون ہیں؟

خطاب ہوا یہ پانچ نور تمہاری نسل سے ہیں اور ان کے نام میں نے اپنے نام سے مشتق کیے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو میں عالم کو خلق نہ کرتا، یاد رکھو میں محمود ہوں یہ محمد ہیں، میں عالی ہوں یہ علی ہیں، میں فاطر ہوں یہ فاطمہ (س) ہیں، میں احسان ہوں یہ حسن ہیں، میں محسن ہوں یہ حسین علیہ السلام ہیں۔

مجھے اپنی عزت کی قسم اگر کوئی ان سے ذرّہ برابر بھی کینہ و حسد رکھے گا میں اسے جہنم واصل کروں گا۔ جب بھی تمہیں کوئی حاجت ہو تو تم ان سے متوسل ہونا۔

پھرپیغمبؐرنےفرمایا:ہم کشتی نجات ہیں جو اس سے وابستہ ہوجائے گا نجات پائے اور جو اس سے منحرف ہوگا ہلاک ہوجائے گا۔

(فرائد السمطین، ص ٢٥و٢٦)

حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ

آیۂ مباہلہ:

( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:

اول:

نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔

دوم:

یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔

حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔

پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔

اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔

واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!

انہوں نے کہا:

اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!

جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟

اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)

جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!

ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔

حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!

کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔

سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!

پس پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔

پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔

قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا

سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟

جواب:

آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔

ورنہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:

''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''

مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔

شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)

واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:

''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''

(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)

''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی

آیۂ مودّت:

( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )

(سوره شوریٰ آیه ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟

سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔

(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)

شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:

رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ

(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)

شافعی کہتے ہیں:

یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ

(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)

''اے اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''

امام حسیؑن مصداق اولی الامر

آیہ اولی الامر:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )

(سورئہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''

اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ

اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔

ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:

جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟

فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔

(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)

امام حسیؑن مصداق شہداء

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )

(نساء، آيه٦٩)

اور جو بھی اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔

جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)

امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

(سوره زخرف ، آيه٢٨)

اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔

ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔

پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت﷩ ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)

سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام

سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔

ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔

اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔

اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔

بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔

علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:

''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے

( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )

نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔

(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)

نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم

اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔

(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)

یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔

نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ

جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟

متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔

فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ

تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔

فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔

آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔

ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔

تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔

بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)

(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )

دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔

اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔

الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔

ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)

(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)

ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔

امام حسین علیہ السلام مظلوم

جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “

(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)

بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً

١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )

(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)

عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔

٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )

(سورہ اسراء، آيه٣٣)

جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے

کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:

''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏''

اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔

(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)


3

4

5