خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)

خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)0%

خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ) مؤلف:
زمرہ جات: فقہ استدلالی
صفحے: 42

خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: صابرحسین سراج
زمرہ جات: صفحے: 42
مشاہدے: 32552
ڈاؤنلوڈ: 3307

تبصرے:

خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 42 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32552 / ڈاؤنلوڈ: 3307
سائز سائز سائز
خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)

خلاصہ دروس کتاب المیراث(اللمعۃ الدمشقیۃ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۴۔تداخل:

جب دو مختلف اعداد کی نسبت یوں ہو کہ ان کو ۱ کے علاوہ کوئی اور عدد بھی پورا پورا تقسیم کرے البتہ چھوٹا عدد بڑے عدد کے نصف سے زیادہ نہ ہو اور چھوٹے عدد کو بڑے عدد سے ایک بار یا چند بار نفی کرنے سے کچھ بھی نہ بچے ۔ اعداد میں اس قسم کی نسبت کو تداخل کہتے ہیں۔اور ان اعداد کو عددان متداخلان کہیں گے۔ اس نسبت کو توافق بالمعنی الاعم بھی کہتے ہیں ۔ جیسے (۲اور۴کے مابین)،(۳اور۶کے مابین) (۲ اور ۸ کےمابین)۔

* جب دو عدد آپس میں متوافق ہوں گے تو اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تیسرے عدد کا مخرج کیا ہے مثلا اگر ۴ اور ۶ دیکھیں تو متوافقان ہیں کیونکہ تیسرا عدد جو ان کو برابر تقسیم کرتا ہے اب چونکہ ۲ نصف کامخرج ہے لذا انہیں متوافقان فی النصف کہیں گے۔ اسی طرح اگر ۹ اور۶ کو دیکھا جائے تو یہ بھی متوافقان ہیں کیونکہ ۳ ان کو برابر تقسیم کر رہا ہے جبک ہ۳ مخرج ثلث ہے اب ان کو متوافقان فی الثلث کہیں گے

* اس تیسرے عدد کوعادی کہیں گے

نوٹ:

۱۔ میراث کی تقسیم میں کبھی بھی اعشاریہ کو معیار نہیں بنایا جائے گا اگر اس طرح کی صورت حال ہو تو دیگر طریقوں سے اصل ترکہ کو اس طرح بڑھائیں گے کہ بغیر کسی اعشاریہ کے سب کو پورا پورا تقسیم ہوجائے ۔

۲۔ نقص ہمیشہ ان ہر لازم آئے گا جنکا حصہ ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل نہ ہوجائے ،مثلا اولاد۔ جبکہ جنکا حصہ ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل ہوتا ہے ان پر نقص وارد نہیں ہوگا مثلا ابوین اور زوج اور زوجہ ۔

۲۱

مسئلۃ :

میت کی اولاد زندہ نہ ہونے کی صورت میں اس کی اولاد کی اولاد میت کے وارث بنیں گے ، یعنی میت کے پوتی پوتے نواسی نواسے وغیرہ۔اوروہ میت کے اصل متقرب کی نسبت سے حصہ لیں گے۔ خود انکا مذکر و مؤنث ہونا معیار نہیں۔ لہٰذااگر میت کی بیٹی کا بیٹا یعنی نواسہ ہو تو اپنی ماں کا حصہ ثلث ۳/۱ لے گا اسی طرح اگر میت کے بیٹے کی بیٹی یعنی پوتی ہو تو اپنے باپ کا حصہ یعنی ثلثین ۳/۲ لے گی۔ البتہ اس میں علما کے اقوال مختلف ہیں ہاں مگر وہ اولاد کی اولاد متعدد ہوں تو آپس میں للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم کریں گے۔

مسئلۃ حبوہ:

حباء یا حبوہ لغت میں کسی کو بغیر عوض کے کچھ عطا کرنے کو کہتے ہیں۔ اصطلاح فقہ میں باپ کی موت کے بعد باپ کے اموال میں سے کچھ مخصوص اشیا ء کا بڑے بیٹے کو بغیر عوض کے عطا کرناحبوہ کہلاتا ہے ۔ مشہور کی بنا پر حبوہ کے طور پر باپ کے ترکہ میں سے بڑے بیٹے کو چار چیزیں دی جائیں گی۔

۱۔ کپڑے

۲۔ انگوٹھی

۳۔ تلوار

۴۔ مصحف شریف

شہیدین کے مطابق ان اشیا ء کا بڑے بیٹے کو دینا واجب ہے اور مجانا یعنی بغیر عوض کے دیں گے۔

۲۲

مسئلہ طعمہ

اگر ورثاء میں میت کے ابوین بھی ہوں یا ان میں سے ایک ہوں اور میت کے اجداد بھی زندہ ہوں تو اس وقت اصولا تو اجداد کو کچھ نہیں ملتا لیکن شارع مقدس اس صورت میں میت کے ابوین کے لئے مستحب قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ ( میت کے اجداد ) کو کچھ مال دے دیں۔ جسے طعمہ کہا جاتا ہے۔ مشہور کی نظر میں یہ استحباب اس صورت میں ہوگا جب میت کے ابوین میں سے ہر ایک کو اپنے سدس سے زائد ملا ہو اور وہ زائد بھی اس سدس کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔ البتہ زائد اگر سدس سے زیادہ بھی ہو تو خاص مقدار سدس دینا ہی مستحب ہے۔ مثلا ابوین کو سدس کے طور پر ۵۰۰۰ ملا ، اور پھر زائد ۶۰۰۰ ملا، تو پھر ان اجداد کے لئے مقدار سدس ۵۰۰۰ دینا مستحب ہے۔

اجداد و اخوۃ(طبقہ ثانیہ)

اگر میت کے ورثا میں ایک جد اور ایک بھائی ہو تو وہ آپس میں تمام ترکہ کو بالنصف تقسیم کریں گے ۔

اگر میت کے ورثا میں باپ کے اجداد بھی ہوں اور ماں کے اجداد بھی تو للذکر مثل حظ الاانثیین کے تحت اجداد اب کو ثلثان اور اجداد ام کو ثلث دیں گے اس کے بعد اجداد اب آپس میں للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت جبکہ اجداد ام آپس میں بالسویہ تقسیم کریں گے ۔

مسئلۃ : ایک بندہ فوت ہو گیا اس کے ورثا میں آٹھ افراد موجود ہیں داد، دادی اور پدری بھائی بہن اور نانا، نانی اورمادری بھائی ،بہن تو میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

۲۳

چونکہ کلا لہ ام ایک سے زائد ہیں لہٰذا مستحق ثلث ہوں گے اور پدری بالقرابہ حصہ لیں گے لہٰذا اصل فریضہ ۳ بنے گا اس میں سے ثلث ۳/۱ مادریوں کو اور ثلثین ۳/۲ پدریوں کو دیں گے ۔ مادریوں کو فریضہ ایک ملا ہے سہام ۴ ہیں جبکہ پدریوں کو فریضہ دو ملے ہیں سہام ۶ ہیں چونکہ پدریوں نے للذکر مثل حظ الانثیین تقسیم کرنا ہے۔ لہٰذا ۴ اور ۶ عددان متوافقان بانصف ہیں قائدہ کے تحت ایک کے کل کو دوسرے کے نصف میں ضرب دیں گے ۶ کو دو سے یا ۴ کو ۳ سے ضرب دینے سے فریضہ ۱۲ بنے گا۔ اس کو اصل فریضہ سے یعنی ۳ سے ضرب دیں گے تو کل ترکہ ۳۶ بنے گا۔ اب اس میں مادریوں کو ثلث یعنی ۱۲ "حصے ملیں گے جسے وہ بالسویہ تقسیم کریں گے ہر ایک کو تین تین حصے مل جائیں گے۔ باقی ۲۴ یعنی ثلثین پدریوں کو دیں گے جسے للذکرمثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم کریں گے لہٰذا دادا ور پدری بھائی کو ۸ ،۸ جبکہ دادی اور پدری بہن کو ۴،۴ حصے ملیں گے۔

قاعدہ:۱۵

اجداد چاہے اجداد اعلیٰ(یعنی میت کے باپ کے اجداد ) ہی کیوں نہ ہوں وہ میت کے بھائیوں کے ساتھ میراث میں مشارکت رکھتے ہیں اسی طرح میت کے بھائیوں کے بیٹوں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں وہ اجداد ادنی ٰ(خود میت کے اجداد ) کے ساتھ میراث میں مشارکت رکھتے ہیں ، یہ دونوں فریق کسی بھی رتبے میں ایک دوسرے کے لئے حاجب نہیں بنتے ،

قاعدہ :۱۶

اجداد ادنی (یعنی میت کے اجداد)اجداد اعلی (یعنی میت کے باپ کے اجداد)کے لئے حاجب بنتے ہیں اسی طرح میت کے بھائی چاہے مادری ہی کیوں نہ ہوں بھائیوں کے بیٹوں کے لئے حاجب بنتا ہے۔

۲۴

مسئلہ اجداد ثمانیہ

ایک بندہ فوت ہوگیا اور اس کے ورثاء میں آٹھ افراد موجود ہیں

چار اجداد اب ،(یعنی باپ کے داد، دادی ،نانا،نانی،)

چار اجداد ام (یعنی ماں کے دادا ، دادی ، نانا ، نانی)

للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت کل ترکہ تین بنے گا اس میں سے ثلث ۱/۲اجداد ام کو دیں گے، جبکہ ان کے سہام چار ہیں ، اور ثلثان ۲/۳اجداد اب کو دیں گے، اجداد اب کے حصے کو پھر ۳ حصوں میں تقسیم کریں گے کیونکہ اقرباء اب میں للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم کرتے ہیں، اس تین میں سے ۲ باپ کے دادا، دادی کو اور ۱ باپ کے نانا نانی کو دیں گے۔

پھر ہر حصے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کریں گے دادا دادی کو جو ثلثین ملے ہیں اس کے تین حصے کر کے ۲ دادا کو اور ایک دادی کو۔ اسی طرح نانا نانی کو جو ثلث ملا ہے اس کو تین حصوں میں کر کے ۱ نانی کو اور دو نانا کو مل جائے گا۔

مرحلہ ثانیہ میں دادا دادی کے بھی ۳ حصے اور نانا نانی کے بھی ۳ حصے ہیں تین تین عدد متماثل ہیں اس میں ایک تین کو لیکر اسے اجداد اب کے جو تین حصے بنائے تھے اس میں ضرب دیں گے تو اجداد اب کے سہام ۹ بن جائیں گے ۔

ایک حصے کو ۴ میں اور ۲ حصوں کو ۹ میں تقسیم کرنے سے کسر لازم آتی ہے لہٰذا ۹ اور ۴ میں نسبت کو دیکھا تو یہ آپس میں متباینین ہیں ایک دوسرے سے ضرب دی تو ۳۶ سہام بنے ۳۶کو اصل فریضہ(۳) سے ضرب دی تو ۱۰۸ کل ترکہ بن گیا۔ اس میں سے ثلث یعنی ۳۶ اجداد ام کو دیں گے وہ اسے بالسویہ تقسیم کریں گے ہر ایک کو ۹،۹ مل جائے گا، اور ثلثین یعنی۳/۲ (۷۲) اجداد اب کو دیں گے جسے وہ ۳ حصوں میں تقسیم کریں گے اور ثلثین یعنی ۴۸ دادا دادی کو اور ثلث (۲۴) نانا نانی کو مل جائیں گے۔ ہر ایک کو تین حصوں میں پھر تقسیم کرنے کے بعدمثل حظ الانثیینکے تحت تقسیم کریں گے تو دادا کو ۳۲ اور دادی کو ۱۶ جبکہ نانا کو ۱۶ اور نانی کو ۸ ملیں گے۔

* یہ مشہور اور شہیدین کے قول کے مطابق ہے ،اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں

۲۵

میراث الاعمام و اخوال(طبقہ ثالثہ)(۱)

قرآن مجید میں سورہ انفال آیت نمبر ۷۵ میں اولوالارحام کی وراثت کا تذکرہ آیا ہے یہ اعمام وا خوال اسی مضمون میں آتے ہیں۔

اعمام یعنی عم (چچا) عمہ(پھوپھی) اخوال یعنی خال(ماموں ) خالہ (خالہ)۔

اگر ورثا میں اعمام و اخوال جمع ہوجائیں تو ا عمام تقرب بالاخ کی وجہ سے وارث بنتے ہیں، اس وجہ سے ثلثان لیں گے اور اخوال تقرب بالاخت کیوجہ سے وارث ہونگی اس وجہ سے ثلث لینگے اور اعمام بالتفاوت جبکہ اخوال بالسویہ تقسیم کریں گے۔

مسئلہ اعمام و اخوال ثمانیہ

قاعدہ:۱۷

میت کے اپنے اعمام و اخوال یا انکی اولادکے ہوتے ہوئے اس کے والدین اس کے اعمام و اخوال کے وارث نہیں بن سکتے۔

فرض مسئلہ:

ایک بندہ فوت ہوگیا اور اس کے ورثاء میں آٹھ افراد موجود ہیں میت کے باپ کےچچا پھوپھی ماموں اور خالہ اور ماں کے چچا پھوپھی ماموں اور خالہ ۔ تو کل ترکہ تین بنے گا (للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت)۔ اور اعمام و اخوال ام کو ثلث ۳/۱ جبکہ اعمام و اخوال اب کو ثلثان دیا جائے گا۔

____________________

۱)۔اعمام سے مراد میت کے چچا اور پھوپھی وغیرہ اور اخوال سے مراد میت کے ماموں اور خالہ وغیرہ ہیں

۲۶

اقرباء ام بالسویہ تقسیم کریں گے۔اعمام و اخوال اب کے لئے ثلثان دیں گے ، اس کا ثلث خال و خالہ کو دیں گے وہ آپس میں بالسویہ تقسیم کریں گے جبکہ ثلثان باپ کے چچا اور پھوپھی کو دیں گے وہ آپس میں بالتفاوت تقسیم کریں گے۔ یہاں اقرباءام کے سہام چار ہیں اور ان کو ایک حصہ ملا ہے اصل ترکہ میں سے، اقربا ء اب کے سہام ۱۸ ہیں اور ان کو اصل میں سے ۲ حصے ملے ہیں۔ دونو ں میں کسر لازم آتی ہے اعمام و اخوال اب کے سھام۱۸ کیسے بنے اس کی وضاحت یہ ہے کہ ا نکو ثلثان ملے یعنی۳/۲، اسکو پھر تین حصوں میں تقسیم کیا مرحلہ اولی میں اور ایک ثلث اخوال کو جبکہ ثلثین اعمام کو دیئے ۔ مرحلہ ثانیہ میں اخوال بالسویہ تقسیم کریں گے لہٰذا ان کے سہام ۲ بنے، جبکہ اعمام بالتفاوت تقسیم کریں گے لہٰذا ان کے سہام ۳ بنے ۲ چچا کے لئے اور ۱ پھوپھی کے لئے ، اجداد ثمانیہ کے برعکس یہاں مرحلہ ثانیہ کے اعداد سہام متماثل نہیں ہیں، متباینین ہیں، (۳،۲) لہٰذا ان کو ضرب دیا، تو ۶ بنا۔ اس کو اوپر مرحلہ اولی کے ۳ سے ضرب دیا تو ۱۸ بنا۔۱۸ اور ۴ عددان متوافقان بالنصف ہیں ایک کے کل کو دوسرے کے نصف میں ضرب دیا تو ۳۶ بنا۔ اس کو اصل فریضہ سے ضرب دیا تو کل ترکہ ۱۰۸ بنا۔ اس میں سے ثلث (۳۶) اقرباء ام کو دیا وہ آپس میں بالسویہ تقسیم کریں گے ہر ایک کو ۹،۹ ملے گا۔ اور ۳/۲ یعنی ۷۲ اقربا ء اب کو ملیں گے۔ اسےپھر تین حصوں میں تقسیم کریں گےاور۳/۱ یعنی(۲۴)اقربا ام کو ملیں گے، ہر ایک کو ۱۲،۱۲ ملے گا۔ اور ۳/۲ (۴۸) اعمام و اخوال اب کو ملیں گے اور وہ اسے بالتفاوت تقسیم کریں گے۔ یعنی عم کو ۳۲ اور عمہ کو ۱۶ مل جائیں گے ۔ لہٰذا ہر ایک کے حصے (۱۰۸) میں سے کچھ یوں ہوں گے۔

۲۷

میت کے باپ کے میت کی ماں کے

چچا کو ۳۲ چچا کو ۹

پھوپھی کو ۱۶ پھوپھی کو ۹

ماموں کو ۱۲ ماموں کو ۹

خالہ کو ۱۲ خالہ کو ۹

کل ۷۲ کل ۳۶

کل ترکہ ۳۶+۷۲=۱۰۸

۲۸

قاعدہ :۱۸

اعمام و اخوال میں بھی اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد وارث نہیں بن سکتا، لہٰذا مادری خال کے بھی ہوتے ہوئے ابوینی خال کا بیٹا وارث نہیں بن سکتا مگر ایک صورت ایسی ہے جو اس قاعدہ سے مستثنی ٰ ہے ۔ اور وہ یہ ہے ابن عم ابوین (ابوینی،سگے چچاکا بیٹا) صرف اعمام للاب (پدری چچا ) پر مقدم ہوگا۔

سوال: اگر کوئی میت سے دو اسباب کی بنا پر وارث بن رہا ہو تو کیا وہ دونوں سبب کی بنا پر حصہ لے سکتا ہے ؟

جواب: ہاں ایک شخص دو نسبتوں یا سببوں کی بنا پر دونوں لحاظ سے اپنا حصہ لے سکتا ہے مگر اس وقت جب وہ دونوں نسبتیں مرتبے میں مساوی ہوں ۔ جیسے ایک شخص میت کا چچا بھی ہو اور ماموں بھی ۔ اورا گر ورثا ء میں سارے طبقے ثالثہ کے ہوں تو وہ دیگر اعمام و اخوال کے ساتھ تقسیم میں دونوں نسبتوں سے حصہ لے سکتا ہے۔اسی طرح ممکن ہے کہ ایک بندہ زوج بھی ہو اورمعتق بھی۔

سوال : ایک ہی بندے کا میت کا چچا بھی اور ماموں بھی ہونا کیسے ممکن ہے؟

جی ہاں! ایسا ممکن ہے جیسے بالفرض سعید مر گیا اور ندیم اس کا وارث ہے ندیم میت کے باپ کا پدری بھائی ہے اور یہ ندیم میت (سعید) کی ماں کا مادری بھائی ہے ۔ تو ندیم سعید کے لئےباپ کے لحاظ سے چچا اور ماں کے لحاظ سے ماموں بنے گا۔ یہ اس طرح سے ہوسکتا ہے کہ ندیم کی ایک مادری بہن اور ایک پدری بھائی ہو، وہ دونوں آپس میں شادی کر لیں اور ایک بیٹا پیدا ہوجائے (سعید) اور جب وہ سعید مر جائے تو ورثا میں صرف طبقہ ثالثہ کے افراد ہوں ۔ تو یہاں ندیم میت کا عم بھی ہوگااورخال بھی ۔ اور دونوں لحاظ سے حصہ لے گا۔

۲۹

میراث ازواج

زوج اور زوجہ ہر طبقے اور وارثوں کے ساتھ ایک دوسرے کا وارث بن سکتے ہیں ۔ اگر کوئی موانع ارث نہ ہو۔

زوج اور زوجہ کا ایک دوسرے کے وارث بننے کےلئے صرف عقد کافی ہے اگرچہ دخول نہ بھی ہوا ہو۔ وہ ایک دوسر ے کے وارث بن جاتے ہیں۔

اس قاعدے کے کچھ استثنائی صورتیں ہیں (مرض کی بنا پر)

۱. اگر زوج اور زوجہ نے جس وقت عقد نکاح کیا ہو اس وقت زوج مریض تھا اس صورت میں ایک دوسرے کے وارث بننے کے لئے دخول شرط ہے۔

۲. جس وقت عقد پڑھا زوج مریض تھا مگر بعد میں وہ اس مرض سے شفایاب ہوگیا اس صورت میں اگرچہ زوج یا زوجہ دخول سے پہلے مر جائیں ایک دوسرے کے وارث بن سکتے ہیں۔

۳. جس وقت عقد پڑھا اس وقت زوجہ مریضہ تھی ، تو اس صورت میں اگرچہ دخول نہ بھی کیا ہو ایک دوسرے کے وارث بن سکتے ہیں ۔(دلیل خارج کی بنا پر)

۳۰

طلاق رجعی میں دوران عدت اگر زوج یا زوجہ میں سے کوئی ایک مر جائے تو وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں کیونکہ مطلقہ رجعیہ دوران عدت حکم زوجیت میں ہوتی ہے۔البتہ طلاق بائن ہو تو وہ ایک دوسرے کے دوران عدت بھی وارث نہیں بن سکتے۔

طلاق بائن میں جس وقت زوج نے زوجہ کو طلاق دی اور وہ مریض تھا اور اسی حالت مرض میں مر جائے ، اس صورت میں زوجہ مطلقہ ایک سال تک اس کی وارث بن سکتی ہے ، یعنی طلاق دینے کے بالفرض بارہویں مہینے میں زوج اس مرض میں مر جائے تب بھی زوجہ وارث بنے گی۔لیکن اس صورت میں اگر زوجہ مر جائے تو زوج وارث نہیں بن سکتا۔

مسئلہ:

اگر عورت صاحب اولاد ہو تو مشہور کا نظریہ ہے کہ وہ شوہر کے جمیع ترکہ سے حصہ لے گی، لیکن اگر صاحب اولاد نہ ہو تو زمین سے مطلقا کچھ نہیں ملے گا، چاہے زمین خالی ہو یا اس پر کچھ بنا ہوا ہو، عینا بھی اور قیمتا بھی۔

لیکن باقی اموال میں سے مثلا عمارت کی اشیاء ، دیواروں میں استعمال شدہ چیزیں وغیرہ ان کی قیمت سے حصہ ملے گا عین سے حصہ نہیں ملے گا۔ 

۳۱

الولاء

سبب کی بنا پر جو وارث بنتے ہیں ان کی دوسری قسم ولاء ہے،

ولاء کی تین قسمیں ہیں ۔

ولاء عتق

ولاء ضامن جریرہ

ولاء امامت۔

ولاء سے یہاں کتاب میراث میں مراد دواشخاص کا ایک دوسرے کیساتھ اس طرح کی قربت کا ہونا جو موجب ارث بنے البتہ وہ قربت نسب یا زوجیت کے علاوہ ہو۔

ولاء عتق:

اگر کسی کا آزاد کردہ غلام مر جائے تو وہ معتق تین شرائط کی بنا پر اس کا وارث بن سکتا ہے:

۱. اس نے غلام کو تبرعا آزاد کیا ہو۔

۲. عتق کے وقت اس کے ضمان جریرہ سے برائت نہ کی ہو۔

۳. معتق (غلام آزاد کردہ )کا کوئی نسبی وارث نہ ہو۔

قاعدہ:

اگر غلام کوتبرعا آزاد کیا ہو تو معتق وارث بن سکے گا اگر کسی واجب کی بنا پر مثلا کفارہ یا نذر کی وجہ سے آزاد کیا ہو اور وہ مر جائے تو اس کا معتق وارث نہیں بنے گا۔ کیونکہ وہ سائبہ ہوگا یعنی اس کا اور مولا کوئی تعلق نہیں۔۔

* منکل بہ: جس غلام کی تنکیل کی ہو یعنی مولا نے اس کے اعضا ء کاٹے ہوں تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گا اور سائبہ کے حکم میں ہوگا یعنی مولا اس کا وارث نہیں بن سکتا۔

۳۲

ولاء ضامن الجریرہ:

یعنی وہ شخص جو کسی کی جنائت کی ضمانت لے اسے ضامن جریرہ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی میت کا کوئی نسبی وارث نہ ہو او رکوئی معتق بھی نہ ہو، تو وہ ضامن جریرہ اس کے وارث ہوں گے ۔

اس کا عقد یوں ہوگا ، کہ پہلے مضمون (جسکی ضمانت لی گئی ہے ) کہے گا

"عاقدتک علی ان تنصرنی و تدفع عنی و تعقل عنی و ترثنی" توضامن ہے گا" قبلت"

مضمون ضامن کا وارث نہیں بنے گا ضامن مضمون کا وارث بن سکے گا۔ مضمون کا کوئی اور وارث نہ ہونا شرط ہے جبکہ ضامن کا کوئی اور وارث نہ ہوناشرط نہیں ہے۔ اور یہ حکم ضامن سے تجاوز نہیں ہوگا یعنی اسکے وارثین مضمون کے وارث نہیں بن سکتے ۔

اگر ضمانت دو طرفہ ہو یعنی ضمانت میں اشتراک ہو تو عقد ضمان کچھ یوں ہوگا کہ ان میں سے ایک کہے گا "ان تنصرنی و انصرک و تعقل عنی واعقل عنک و ترثنی و ارثک" تو دوسرا کہے گا قبلتتو دونوں ایک دوسرے کے ضامن جریرہ بن جائیں گے۔یہ عقود لازمہ میں سے ہے۔

ولاء امامت:

اگر کسی میت کا کوئی نسبی وارث نہ ہو معتق اور ضامن جریرہ بھی نہ ہو تو امام اس کے وارث ہوں گے ۔ حضور امام کی صورت میں خود امام اس کا وارث بنے گا بیت المال نہیں۔ اور غیبت امام کے دور میں اس مال کومیت کے شہر کےفقراء ومساکین میں صرف کیا جائے گا۔

۳۳

التوابع

میراث خنثیٰ

خنثیٰ دو طرح کا ہوتا ہے :

۱۔خنثیٰ معینہ ۲۔خنثیٰ مشکلہ۔

خنثیٰ معینہ:

خنثیٰ کی یہ قسم جو کسی ایک جنس کی طرف میلان رکھتا ہے یا تو کچھ مرد والے علائم ہیں تو میراث میں اس کو مردوں کے ساتھ ملحق کیا جائے گا اور یا تو کچھ عورتوں والے علائم ہیں تو اس کو عورتوں کے ساتھ ملحق کیا جائے گا۔ مثلا وہ دونوں کا فرج یعنی فرج الرجال والنساء رکھتاہے۔اب اگر بول کرنے میں فرق ہے مثلا ایک سے پہلے آتا ہے اور ایک سے بعد میں خارج ہوتا ہےتو سبق البول والے فرج کے مطابق اسکو میراث ملے گی اور اگر خروج بول ساتھ ہوتا ہے تو جس فرج سے بعد میں انقطاع ہو اس کے مطابق میراث دی جائی گی۔

خنثیٰ مشکلہ:

وہ خنثیٰ جس کے بارے میں یہ معلوم نہ کیا جا سکے کہ اس کا میلان کس جنس کی طرف ہے۔ مثلا اس کے دو فرج ہیں فرج الرجال و النساء اور دونوں سے بول کرتا ہے۔ اور بول کا نکلنا اور رکنا بھی دونوں برابر ہیں تو اس کی جنس کی تعیین مشکل ہوجائے گی اب میراث میں اگر ورثا ء میں اس طرح کا کوئی خنثیٰ مشکلہ ہو تو مال کیسے تقسیم ہوگا؟

اس کے بارے میں چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس کے سینے کی پسلیاں شمار کی جائیں اگر وہ اٹھارہ ہیں تو مؤنث قرار دیں گے اور اگر سترہ ہیں تو مذکر قرار دیں گے۔

۳۴

بعض کہتے ہیں کہ اس مشکل کو قرعہ کے ذریعے حل کیا جائے گا۔

مشہور او رشہیدین کا نظریہ یہ ہے کہ اس کو مذکر و مؤنث دونوں کے حصوں کا نصف دیا جائےگا۔ یعنی ایک بار اس کو مرد فرض کیا جائے گا اور ایک بار عورت فرض کیا جا ئے گا اور پھر دونوں نصیبوں کو جمع کر کر کے اس کا نصف خنثیٰ مشکلہ کو دیا جائے گا۔

مسائل :

مسئلہ ۱۔

جس خنثیٰ کا مذکر و مؤنث میں سے کسی ایک کی طرح کا بھی فرج نہ ہو تو اس قسم کے خنثیٰ کو مشہور کی بنا پر قرعہ کے ذریعے حصہ دیا جائے گا اگر قرعہ میں مذکر نکلے تو مذکر والا اور اگر مؤنث نکلے تو مؤنث والا۔

مسئلہ۲۔

اگر اس طرح کا کوئی انسان ہے کہ ایک کمر سے نیچے ایک ہے لیکن کمر سے نیچے دو انسان ہیں اس طرح کہ اس کے دو بدن اور ۲دو سر ہیں ت وان کو حسب انتباہ ارث دیا جائے گا یعنی اگر وہ سویا ہو اور ایک کو جگانے سے دوسرا بھی جاگ جائےتو ایک آدمی شمار ہوگالیکن اگر ایک کو جگانے سے دوسرا نہ جاگے تو ۲ آدمی شمار ہوں گے۔

مسئلہ۳۔

جو بچہ پیٹ میں ہو وہ اس صورت میں وارث بنے گا جب زندہ پیدا ہوجائے اور زندہ رہے یا پیدا ہونے کے بعد زندوں کی طرح کچھ حرکت کرنےکے بعد مر جائے تب بھی وارث بنے گا۔ البتہ معمولی حرکت معیار نہیں اور زندہ ہونے کی علامت کے لئے رونا بھی شرط نہیں۔

۳۵

مسئلہ۴:

اگر پیٹ میں موجود بچہ کسی کی جنایت کیوجہ سے سقط ہوجائے تو جنایت کرنے والے پر اسکی دیت واجب ہوجائے گی اور اسکے وارث اس کے والدین ہونگے۔ اگر والدین نہ ہوں تو متقرب بالاب چاہے نسبا ہو یا سببا اسکے وارث ہونگے۔ اس اختصاص سے سمجھا جا سکتا ہے کہ متقرب بالام اس کے وارث نہیں بن سکتے۔

مسئلہ۵:

اگر باپ نے کسی بچے کی نفی کی ہو اور اسکے بعد حاکم کے پاس میاں بیوی لعان کریں تو اس بچے کو ولد الملاعنہ کہا جاتا ہے۔ اب اگر ولد الملاعنہ مر جائے تو لعان کی وجہ سے اس کا باپ اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔صرف ماں وارث بنے گی۔ہاں اسی طرح خود ولد الملاعنہ کا کوئی بیٹا ہو یازوجہ ہو تو وہ بھی اس کے وارث بن سکتے ہیں اگر اس کے ورثا ء میں ماں ولد اور زوجہ نہ ہوں تو اسکے اقرباء ام وارث بنیں گے، اورمال کو بالسویہ تقسیم کریں ۔

مسئلہ۶:

اگر ایک بچہ دونوں طرف سے ولد الزنا ہو اور وہ مر جائے تو اسکے ماں باپ دونوں اس کے وارث نہیں بن سکتے نہ انکے متقرب بن سکتے ہیں کیونکہ شرعا یہ ان سے منتفی ہے۔ لہٰذا نہ یہ بچہ ان والدین (غیر شرعی ) کا وارث بن سکتا ہے تو وہ اس کے وارث بنیں گے۔( ہاں اگر زنا صرف ایک طرف سے ہو تو اسکےاور اسکےاقرباء کی نسبت وراثت منتفی ہو جائے گی دوسری طرف کو وراثت ملے گی)۔ لہٰذا اگر ولد الزنا مر جائے تو اگر ا سکا بیٹا اور زوجہ ہوں تو وہ وارث بنیں گے لیکن اس کا کوئی بیٹا اور زوجہ نہ ہو تو ضامن جریرہ ، اگر وہ بھی نہ ہو تو امام وارث بنیں گے۔

۳۶

مسئلہ۷:

اگر کسی کا بیٹا کسی حاکم کے خلاف آواز اٹھائے اور اس کا باپ حاکم کے پاس جاکر اس بیٹے کے نسب سے برائت کا اظہار کرے تو اس بیٹے کی متبریٰ کہتے ہیں اور اس عمل کو تبری من النسب کہتےہیں۔ یہ اس طرح سے ہوتا ہے کہ باپ حاکم کے پاس جائے اور کہے کہ میں اس بیٹے کے نسب سے برائت کا اظہار کرتا ہوں اور اسکی میراث اور ضمان جریرہ سے برائت کا اظہار کرتا ہوں۔ اب احکام میراث میں قول اشہر اور شہیدین کے مطابق اس طرح کے تبری معتبرنہیں ، یعنی باپ کا حاکم کے پاس جا کر تبری کرنا ایک دوسرے کی میراث کے حوالے سے کوئی اثر مترتب نہیں کرتا۔ عموم قرآن کی بنا پر۔

اس مسئلہ میں شیخ طوسی اور ابن براج کا ایک قول شاذ ہے کہ متبری من النسب سے اقرباء ام میراث پائیں گے اقرباء اب نہیں لے سکتے۔

مخارج الفروض

فریضے کل ۶ ہیں لیکن مخارج پانچ ہیں۔ مخارج "مخرج" ان فروض کے مطابق عدعد۔ مخارج فروض پانچ اس لئے ہیں کہ ثلث اور ثلثان دونوں کا مخرج ایک ہی ہے۔ "۳" پس مخرج النصف "۲" ، مخرج الثلث اور ثلثان"۳"، مخرج الربع"۴"، مخرج السدس"۶"، اور مخرج الثمن "۸"۔

۳۷

ایضاح ذلک:یعنی مستحق نصف چاہتا ہے کہ کل ترکہ ۲ بنایا جائے تاکہ وہ اس میں سے نصف ۲/۱لے سکے ۔ اسی طرح مستحق ربع چاہتا ہے کہ کل ترکہ چار بنایا جائے تا کہ وہ ایک چوتھائی حصہ۴/۱ لےسکے،مستحق ثمن کا تقاضا یہ ہے کہ کل ترکہ آٹھ بنایا جائے تا کہ وہ اس میں سے آٹھواں ۸/۱حصہ لے سکے ،مستحق ثلث یاثلثان کا تقاضا ہے کہ کل ترکہ تین بنایا جائے تاکہ وہ مستحق ثلث اس میں سے تیسرا۳/۱ جبکہ مستحق ثلثین اس میں سے ثلثین۳/۲ لے سکے مستحق سدس چاہتا ہے کہ کل ترکہ ۶ بنایا جائے تا کہ وہ چھٹا حصہ۶/۱ لے سکے

اب اگر فریضہ میں کم از کم دو مستحق ایسے جمع ہو جائیں جن کا حصہ ایک دوسرے سے مختلف ہو تو اس کی مختلف صورتیں بنتی ہیں جو کہ ۳۶ تک پہنچ جاتی ہیں

قاعدہ:

اگر ورثا ء میں کوئی بھی صاحب فرض نہ ہو تو مال کی تقسیم میں ترکہ افراد کے حساب سے بنائیں گے (اگر سارے مذکر ہوں ) مثلا چار بیٹے ہوں تو مال کو چار حصوں میں تقسیم کریں گے اور ان کو بالسویہ دیں گے۔ لیکن اگر مذکر و مؤنث دونوں ہوں تو للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہوں گے۔ مثلا ۵ بیٹے ، ۳ بیٹیاں ہوں تو کل ترکہ ۱۳ بنے گا ، چونکہ ہر بیٹی کو ایک اور بیٹے کو دو دینا ہے۔

قاعدہ:

اگر فریضہ سہام سے کوئی ہو (اور یہ زوج یا زوجہ کے ورثاء میں موجود ہونے کے ہمراہ ہو تاہے) تو نقص لاازم آئے گا ، نقص بیٹی یا بیٹیوں پر آئے گا، اگر یہ نہ ہوں تو پدری بہنوں پر نقص لازم آئے گا سب پر نقص وارد نہیں ہوتا۔

ولحمدلله رب العالمین

۳۸

فہرست

آیات میراث ۴

میراث کی تعریف ۷

لغوی تعریف ۷

اصطلاحی تعریف ۷

اول ۔ ۷

دوم ۔ ۷

موجبات (اسباب )ارث ۸

قواعد میراث ۸

قاعدہ۱: ۸

ولاء کی تین قسمیں ہیں ۸

موانع ارث ۹

قاعدہ ۲: ۹

قاعدہ ۳: ۹

قاعدہ ۴: ۱۰

قاعدہ ۵: ۱۰

سہام اوراہل سہام ۱۱

۱۔مستحق نصف چار افراد ہیں: ۱۱

۲۔مستحق ربع دو افراد ہیں : ۱۲

۳۔مستحق ثمن ایک ہی فر د ہے۔ ۱۲

۳۹

۴۔مستحق ثلثان تین افراد ہیں: ۱۲

۵۔مستحق ثلث دو افراد ہیں : ۱۲

۶۔مستحق سدس تین افراد ہیں : ۱۳

قاعدہ ۶ : ۱۳

اہم نکتہ: ۱۳

آٹھ ممتنع صورتیں ۱۴

صحیح صورتیں ۱۵

قاعدہ ۷ : ۱۶

قاعدہ : ۸ ۱۶

قاعدہ: ۹ ۱۶

قاعدہ : ۱۰ ۱۶

قاعدہ ۱۱: ۱۶

مسئلہ تعصیب۔(مشہور اختلافی مسئلہ) ۱۷

قاعدہ :۱۲ ۱۷

مسئلہ عول(اختلافی مسئلہ) ۱۸

قاعدہ: ۱۳ ۱۸

قاعدہ: ۱۴ ۱۸

مثال ۱۹

اعداد کی قسمیں ۲۰

۱۔ تباین ۲۰

۴۰